نويد امن وامان

نويد امن وامان0%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان

مؤلف: آيت اللہ صافی گلپایگانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17981
ڈاؤنلوڈ: 3317

تبصرے:

نويد امن وامان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17981 / ڈاؤنلوڈ: 3317
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

غیبت کی اصل وجہ اور اسکے حقیقی اسرار تک نہ بھی پہنچ سکے تو کم از کم اس کی بعض حکمتوں اور دوسری متعلقہ چیزوں سے تو آگاہ ہو جائیں گے، اور عین ممکن ہے کہ آپ اپنی اس جستجو کے ذریعہ کچھ نئی معلومات حاصل کر لیں ،لیکن اگر ان سوالات اور اس جستجو سے آپ کا مقصد صرف اعتراض کرنا ہے اور آپ یہ چاہتے ہیں کہ غیبت کی وجہ معلوم نہ ہونے اور اسے سمجھنے سے اپنی عقل کے عاجز ہونے کوآپ اس کے نہ ہونے کی دلیل قرار دے دیں تو پھر آپ عقل و خرد سے بہت دور ہو چکے ہیں اور اس سے آپ کسی کے ایمان اور عقیدے کو کھوٹا ثابت نہیں کر سکتے ہیں ۔

کسی چیز کو نہ پانا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا کیا آپ کی نظر میں صرف یہی ایک چیز پوشیدہ اور نا معلوم ہے ؟ کیا آپ نے دنیا کی تمام موجودات کی خلقت کے راز کشف کر لئے ہیں ؟ دنیا کے اجزاء اور اسکے ظاہر و باطن کے بارے میں انسان کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں کیا آپ نے ان سب کا جواب تلاش کر لیا ہے ؟

کیونکہ ان کا راز آپ کو معلوم نہیں ہے تو کیا آپ انہیں بے فائدہ سمجھتے ہیں؟

کیا انکے فائدہ مند یا نقصا ن دہ ہونے کا معیار ہماری اور آپ کی عقل یاشعور ہے ؟

یا ایسا نہیں ہے بلکہ ان اسباب اور ان حکمتوں تک نہ پہنچ پانے کو آپ اپنی فکر و شعور اور استعداد کی نا توانی (کمزوری)کی دلیل قرار دیتے ہیں ؟

آپ کا یہ نظریہ ہے کہ اگر آپ کی عقل دوسرے آلات سے مسلح ہوتی اور ارسال و ترسیل (رابطے) کے موجودہ وسائل کے بجائے آپ کے پاس اس سے زیادہ پیش رفتہ وسائل (آلات)ہوتے تو دنیا کے اور بہت سارے اسرار معلوم ہوسکتے تھے ؟

اگر ایک دانشور، ان سوالات کا جواب دینا چاہے تو وہ یقیناً اپنی کمزوری کا ہی اعلان کرے گا اور ہر روز جو پوشیدہ (نا معلوم )چیزیں سامنے آرہی ہیں ان ہی پر نظر رکھنے کے بعد کسی چیز کے نہ جاننے کو اسکے موجود نہ ہونے کی دلیل نہ بنائے گا، اور اس دنیا کی ہر چیز میں بے شمار عجیب و غریب اسرار کا قائل ہونے کے بعد یہ کہتا دکھائی دے گا :

پشہ چون داند این باغ از کی است

کو بہاران زاد و مرگش دودی است

خود چو باشد پیش نور مستقر

کرو فرو اختیار بو البشر

پیہ پارہ آلت بینای او

گوشت پارہ آلت گویای او

مسمع او از دو قطعہ استخوان

مدرکش دو قطرہ خون یعنی جنان

کرمکی و از قذر آکندہ ای

طمطراقی در جہان افکندہ ای

اگر مچھر کو یہ پتہ چل جائے کہ یہ باغ کس کا ہے؟بہا ر میں پیدا ہوا اور دھواں اس کی موت ہے۔اس کیخود جب نور کے سامنے ابو البشر کا کرّ وفرّ اور اختیار آتا ہے۔چربی کا ایک ٹکڑا اس کے دیکھنے کا آلہ (آنکھ)ہے گوشت کا ایک لوتھڑا (زبان)بولنے کا آلہ ہے ،اس کا کان دو ہڈیوں سے بنا ہے ،تیری ابتدا منی کے دو قطرے ہیں ،ایک کیڑا وہ بھی گندگی سے لت پت اورتونے پوری دنیا میں ہنگامہ مچا رکھا ہے ۔

لہٰذا غیبت کے فلسفہ کو جاننے کے اتنا پیچھے نہ پڑیں اور اس کے بارے میں سوال پر سوال نہ کریں غیبت ایک طے شدہ چیز (امر)ہے جو عالم وجود میں آ چکی ہے غیبت کا راز معلوم ہو سکے یا نہ معلوم ہو سکے غیبت شروع ہو چکی ہے اور آپ کا نہ جاننا ہر گز اس کی نفی اور اسکے باطل ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ۔

ہمیں قضا و قدر کا یقین ہے اور ہم قرآن و اہلبیت کی ہدایت یا فلسفی معلومات اور براہین سے اسکے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہی ہیں ،لیکن کیا کوئی ایسا ہے جو قضا و قدر کے بارے میں سب کچھ بتا سکے ؟ اسی لئے اسکے بارے میں زیادہ سوچنے اور غور و فکر کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

واد مظلم فلا تسلکوہ۔ ”یہ ایک تاریک وادی ہے لہٰذا اس میں گھسنے (چلنے) کی کوشش نہ کرو اور اس میں طلب (علم و معرفت)کے گھوڑے نہ دوڑاو کہ تھک کر چور چور ہو جاوگے ۔

در این وادی مران زنھار زنھار

کہ در اول قدم گردی گرفتار

شکار کس نہ شد عنقا بدوران

چرا دام افکنی ای مرد نادان

اس وادی میں طائر فکر کو پرواز نہ کر نے دو کہ پہلے ہی قدم پر جال میں گرفتار ہو جاو ،عنقا (سیمرغ)پرندہ کو کوئی شکار نہ کر سکا ،اے نادان تو کیوں جال بچھا رہا ہے(۱)

یہ جگہ صرف تسلیم و رضا اور ایمان کا مقام ہے لیکن بالکل بے دلیل ایمان بھی نہیں اور نہ ہی ایسا ایمان جس میں سو فیصد تسلیم و رضا ہو بلکہ یہ ایسا ایمان ہے جسکا سر چشمہ انسانی عقل اور اس کی فطرت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وحی کی زبان ،قرآن مجیدکی آیتوں ،متواتر حدیثوں،معجزوں اور مخصوص لوگوں کی سیرت اور انکے مکاشفات نے بھی اس کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے ۔

مختصر یہ کہ غیبت کے اسرار کے بارے میں جو کچھ کہا جائے اس میں اکثر وبیشتر کا تعلق اسکے فوائد و اثرات سے ہے اور اس کی اصل وجہ ہمارے لئے مجہول ہی ہے۔

اُن حدیثوں کے یہی معنی ہیں جن میں یہ آیا ہے کہ غیبت کاراز ظہور کے بعد ہی آشکار ہوگا جس طرح درختوں کی خلقت کا راز پھل ظاہر ہونے سے پہلے معلوم نہیں ہو پاتا اور بارش کی حکمت اس وقت تک نہیں معلوم ہوتی جب تک زمین زندہ نہ ہو جائے ،سبزہ نہ لہلہانے لگے ، باغ و بوستان اور گل وگلشن پر تازگی نہ آجائے ۔

شیخ صدوق نے اپنی کتاب” کمال الدین“ اور ”علل الشرائع“ میں اپنی سند کے ساتھ عبد اللہ بن فضل ہاشمی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ سنا ہے :

آپ نے فرمایا” صاحب الامر کے لئے یقیناایک غیبت ہو گی جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں

____________________

(۱) یہ دونوں شعر مولف کے والد کے گنج دانش یا صد پندسے نقل کئے گئے ہیں۔

ہے کہ اس دوران ہر اہل باطل شک وشبہہ میں مبتلا ہو جائے گا “میں نے عرض کی : میری جان آپ پر قربان !ایسا کیوں ہے ؟

فرمایا : اُس وجہ سے ،جس کو ظاہر کرنے کی ہمیں اجازت نہیں ہے ۔

میں نے عرض کی : ان کی غیبت کی حکمت کیا ہے؟

فرمایا : وہی حکمت ہے جو ان سے پہلے خدا کی حجتوں کے غائب ہونے کی حکمت تھی۔

یقیناً غیبت کی حکمت اسی وقت ظاہر ہوگی جب انکا ظہور ہو جائے گا بالکل اسی طرح جیسے حضرت خضر کے کام یعنی کشتی میں سوراخ کرنے ،لڑکے کو جان سے مار دینے اور دیوار بنا دینے کا راز جناب موسیٰ علیٰ نبینا و آلہ و علیہ السلام کو اسی وقت معلوم ہو پایا جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہونے لگے ۔

اے فرزندِ فضل یہ غیبت، خداکے امور میں سے ایک امر، اسرار الٰہیہ میں سے ایک راز اور خدا کے علم غیب کا ایک حصہ ہے ،اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ خدا وند عالم حکیم ہے اور ہم نے یہ گواہی دی ہے کہ اسکا ہر قول و فعل حکمت کے مطابق ہے چاہے اسکا راز ہم سے پوشیدہ ہی کیوں نہ ہو(۱)

اس کے با وجود ہم یہاں پر غیبت کے بعض فوائد اور منافع کی وضاحت آئندہ چند صفحوںمیں پیش کریں گے جو عقلی اور سماجی (عرفی)اعتبار سے بالکل صحیح اور معقول ہیں اور روایات نیز اسلامی دانشمندوں اورمفکروں کے اقوال اور تحریروں میں انکا تذکرہ موجود ہے ۔

قتل ہونے کا خوف

( واٴوحینا الیٰ اٴم موسیٰ ان ارضعیه فاذا خفت علیه فاٴلقیه في الْیَمِّ و لا تخافيولاتحزنيانا رادّوه الیک و جاعلوه من المرسلینّ ) (۲)

____________________

(۱)منتخب الاثر مولفہ:مصنف،باب۲۸فصل۲ حدیث ۱۔

(۲)سورہ قصص آیت۷۔

اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچے کودودھ پلاو اوراس کے بعد اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اوربالکل ڈرو نہیں اورپریشان نہ ہو کہ ہم اسے تمہاری طرف پلٹا دینے والے اوراسے مرسلین میں سے قرار دینے والے ہیں ۔

( ففررت منکم لما خفتکم فوهب لی ربی حکما و جعلنی من المرسلین ) (۱)

شیخ کلینی اور شیخ طوسی نے ”اصول کافی“ اور ”غیبت “ میں اپنی سند کے ذریعہ جناب زرارہ سے روایت نقل کی ہے کہ اما م جعفر صادق نے فرمایا ہے : ” قائم کے لئے قیام کرنے سے پہلے ایک غیبت ہے“میں نے عرض کی: کس لئے ؟ فرمایا: اس لئے کہ انہیں جان کا خطرہ ہے۔

جیسا کہ اس حدیث اور دوسری حدیثوں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیبت کی ایک وجہ قتل ہونے کا خوف بھی ہے اور جس طرح اس خوف کا رابطہ غیبت کے شروع ہونے سے ہے اسی طرح اس کے باقی رہنے سے بھی اسکا تعلق ہے (غیبت کی شروعات اور اس کی بقا دونوں سے ہی اسکا تعلق ہے)

قتل کے خوف اور جان کی حفاظت ناممکن ہونے کی وجہ سے غیبت شروع ہوئی یہ ایک مسلم الثبوت بات ہے جسکی وضاحت تاریخ کی معتبر کتابوں کے اندر درج ہے ،کیونکہ بنی عباس کے حکمرانوں نے یہ سن رکھا تھا اور انہیں یہ بخوبی معلوم تھا کہ پیغمبر اکرم کے خاندان میں امیر المومنین اور جناب فاطمہ زہرا کی نسل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جس کے ذریعہ ظالموں اور جابروں کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہ بچہ امام حسن عسکری کا فرزند ہوگا ،لہٰذا انہوں نے اسے قتل کرنے کی ٹھان لی اور فرعون نے جناب موسیٰ کو قتل کرنے کے لئے جو طریقہ کار اپنایا تھا انہوں نے بھی بالکل وہی کام کیا، آپ کی ولادت کی اطلاع حاصل کرنے کے لئے جاسوس چھوڑ دئے اور پھر آپ کی پیدائش کے بعد بھی اس کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح آپ کو گرفتار کر لیں لیکن خداوند عالم نے آپ کی حفاظت

____________________

(۱) پھر میں نے تم لوگوں کے خوف سے گریز اختیار کیا تو میرے رب نے مجھے نبوت عطا فرمائی اورمجھے اپنے نمائندوں میں قراردیا۔سورہ شعرا آیت۲۱۔

فرمائی اور آپ کے دشمنوں کو مایوس کر دیا اسی دوران ملک کے اندر بڑے پیمانے پر خانہ جنگی اور ”صاحب زنج“ کے انقلاب یا دوسری شورشوں کی وجہ سے بنی عباس نے بظاہر اس مسئلے کو ترک کر دیا،جیسا کہ سرداب مقدس کے قدیم دروازہ سے معلوم ہوتاہے۔

جو دروازہ بیش قیمت آثار قدیمہ میں شامل ہے اور بنی عباس کے عالم اور ایک بڑے شہنشاہ ’الناصردین اللہ “ کے دور کی یادگار ہے، اس دروازے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بادشاہ آپ کی ولادت اورغیبت کا ایمان رکھتا تھا اور اسماعیل ہرقلی کا واقعہ جو کشف الغمہ میں صحیح روایات میں نقل ہوا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بغداد کے ”مدرسہ مستنصریہ“ کا بانی خلیفہ ”المستنصر باللہ“ بھی حضرت کے بارے میں ایمان رکھتا تھا چنانچہ اس نے اسماعیل کو ایک ہزار دینار پیش کر کے امام کی بارگاہ میں عقیدت کا اظہار کرنا چاہا مگر اسماعیل نے امام کے حکم کی بنا پر انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا تو اس بات پر شدید ملال اور افسوس ہونے کی وجہ سے خلیفہ رو دیا۔

مختصر یہ کہ غیبت کی شروعات میں آپ کی جان کو خطرہ لاحق تھا اور اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کے دور کے حکام آپ کی طرف سے مسلسل تشویش کا شکار تھے اور وہ آپ کے وجود کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے اور اگر انکے بس کی بات ہوتی تو وہ آپ کوفوراً شہید کر دیتے اس لئے آپ کی ولادت ان سے اسی طرح مخفی رہی جس طرح جناب موسیٰ علی نبینا و آلہ علیہ السلام کی ولادت فرعونیوں پر ظاہر نہیں ہو پائی تھی اور ولادت کے بعد بھی آپ ان کی نظروں سے پوشیدہ رہے اوروہ تمام کوششوں کے با وجود آپ کو تلاش کرنے میں ناکام رہے۔

آپ کی غیبت کے جاری رہنے سے آپ کی جان کو لاحق خطرہ کا تعلق یہ ہے کہ اگرچہ خدا وند عالم اس بات پر ہر لحاظ سے قدرت رکھتا ہے کہ وہ جب کبھی چاہے اپنی قوت وطاقت کے سہارے آپ کو اس دنیا میں ظاہر کر دے اور اسباب و حالات فراہم ہونے سے پہلے ہی پوری دنیا کو آپ کے تسلط اور اختیار میں دے دے لیکن چونکہ خداوند عالم نے اس دنیا کا نظام اسباب ومسببات کے قاعدہ و قانون کے تحت بنایا ہے لہٰذا جب تک آپ کے ظہور کے اسباب فراہم نہ ہو جائیں گے آپ کے ظہور میں تاخیر ہوتی رہے گی اور اگر بالفرض حالات سازگار ہونے سے پہلے ہی ظہور ہو جائے تو آپ کی جان کو بہر حال خطرہ لاحق رہے گا۔

جیسا کہ اگر پیغمبر اکرم اپنی بعثت کے آغاز میں ہی جہاد کا اعلان کردیتے تو یہ جلدی کا اقدام ہو تا لیکن جب اس کا مناسب موقع آگیا تو آپ کے لئے دفاع اور جہاد کا حکم آگیا اور خدائی امداد بھی نازل ہونے لگی جسکی بنا پر اسلام نے کافی پیش رفت کی ۔

سوال :امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ اپنے آباء واجداد کی طرح کیوں ظاہر نہیں ہوتے تاکہ یا تو کامیاب و کامران ہوجائیں اور یا راہ خدا میں شہید کر دئے جائیں ۔

جواب:آپ کا ظہور خدا کے نور کو مکمل کرنے اورانبیاء و صالحین کی تبلیغ کو منزل مقصود تک پہونچانے اور پرچم اسلام و توحید کے زیر سایہ عدل و انصاف اور امن وآشتی اور قرآن مجید کے احکام کو نافذ کرنے کے لئے ہے۔

واضح رہے کہ جس کی نظر اتنے مقاصد کے اوپر ہواسکے لئے ضروری ہے کہ وہ ان حالات میں قیام کرے جب اس کی فتح اورکامیابی کا سو فیصد یقین ہو اور (جیسا کہ پہلے وضاحت کی جاچکی ہے) حکمت الٰہی کی بنا پر غیبی امداد اور نصرت الٰہی نازل ہونے کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہونے پائے لیکن اگر اسکے لئے کوئی ایسا طریقہ کار اپنایا جائے جس سے ظہور کا یہ مقصد حاصل نہ ہو سکے تو یہ ظہور کی حکمت کے خلاف ہے(اس سے نقض غرض لازم آتا ہے )اور اس صورت میں بشریت کو وعدہ الٰہی پورا ہونے تک دوبارہ انتظار کرنا پڑے گا ۔

گردن پر کسی کی بیعت نہ ہونا

امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی ایک خصوصیت اور پہچان یہ ہے کہ آپ کی گردن پر کسی بھی ظالم و جابر اور ستمگر حاکم کی بیعت نہیں ہے اور آپ نے تقیہ میں بھی کسی کی بیعت نہیں کی آپ اس شان سے ظاہر ہونگے کہ کسی بھی طرح کے عادل یا فاسق و فاجر حاکم کے سامنے آپ کبھی بھی نہیں جھکے اور ظاہری طورپر بھی ان کی حکومتوں کی تائید نہیں کی، آپ خدا وند عالم کے ان اسماء ”العادل “ ،”الغالب “ ، ”الحاکم “ کے سب سے کامل مظہر ہیں ،روایات کے مطابق ایک ایسی شخصیت اسی لائق ہے کہ خداوندعالم کے علاوہ کسی اور کے ما تحت نہ رہے اور فاسق و فاجر حاکموں کی تائید کرنے سے دور رہے (چاہے وہ تائید تقیہ کی حالت میں کیوں نہ ہو )جیسا کہ بکثرت روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تقیہ پر عمل نہ کریں گے اور حق کو آشکار کرکے باطل کو صفحہ ہستی سے محو کر دیں گے۔

مختصر یہ کہ غیبت کی ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ ظہور کاوقت آنے سے پہلے اور ظہور کرنے کے لئے مامور ہونے سے پہلے آپ اپنے اجداد طاہرین کی طرح (چاہے تقیہ ہی کی حالت میں سہی)اپنے دور کے حاکموں کی بیعت کرنے پر مجبور نہیں ہونگے اسی لئے جب آپ ظہور کرینگے تو آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی اور آپ نے خدا کے علاوہ کسی کی حکومت کو قبول نہ کیا ہوگا۔

یہ سبب ”کمال الدین “باب ۴۸ باب علت غیبت ”عیون“ اور ”علل الشرائع“ جیسی کتابوں کے علاوہ دوسری کتابوں کے اندر متعدد احادیث میں مذکور ہے ان میں سے ایک ہشام بن سالم کی روایت بھی ہے جسمیں امام جعفر صادق نے فرمایا ہے:

”یقوم القائم و لیس فی عنقہ بیعة لاحد“

جب قائم (آل محمد )قیام کریں گے تو ان کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی۔

حسن بن فضال سے روایت ہے کہ جب امام نے یہ خبر دی کہ امام حسن عسکری کی وفات کے بعد غیبت ہوگی تو انہوں نے سوال کیا کس لئے ؟

امام رضا نے فرمایا تاکہ جب وہ تلوار لیکر قیام کریں تو ان کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو۔

امتحان

غیبت کی ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ اس سے شیعوں کا ایمان خالص ہو گا اور اسکے ذریعہ ان کے عقیدے اور ان کی معرفت کا امتحان مقصود ہے ۔

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اور دین و شریعت نیز آیات و روایات اور اہل شریعت کی سیرت اس کی بہترین دلیل ہے کہ خدا وند عالم کی ایک سنت جو ہمیشہ قائم ودائم ہے وہ بندگان خدا کا امتحان اور ان کی آزمائش بھی ہے تاکہ اسکے ذریعہ نیک،صالح اور لائق افراد کا انتخاب کیا جا سکے، موت و حیات ،غربت اور مالداری ،صحت اور بیماری، عہدہ اور مقام ،نعمت کا ہونا (وجود) اور نہ ہونا،(فقدان) حالات زمانہ کی گردش، پریشانیا ں اور مشکلا ت،خوشیاں اور مسرتیں یہ سب مومنین کے ایمان میں خلوص، ان کی تربیت،امتحان، ریاضت، ان کے کمالات کا اظہار، ان کی صلاحیتوں، ان کی شخصیت ایمان ،صبر و استقامت اور خدائی احکام کے سامنے انکے درجہ تسلیم و رضا کو پہچاننے کا ذریعہ ہیں ۔

جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دو وجہوں کی بنا پر حضرت مہدی کی غیبت سب سے اہم امتحان الٰہی ہے(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ کریں مولف کی کتاب ”منتخب الاثر“ فصل ۲،باب ۲۸ اور ۴۷۔

پہلی وجہ:غیبت کیونکہ بہت طولانی ہوگی اس لئے اکثر لوگ شک و شبہہ کا شکار ہوجائیں گے جبکہ بعض لوگ آپ کی ولادت یا آپ کے زندہ رہنے کے بارے میں شک کریں گے اور صرف مخلص صاحبان معرفت اورتجربہ کار لوگوں کے علاوہ کوئی شخص بھی آپ کی امامت کے عقیدہ پر باقی نہ رہے گا جیسا کہ پیغمبر اکرم کی ایک معروف روایت میں ہے جسے جناب جابر نے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

ذلک الذی یغیب عن شیعته و اٴولیائه لا یثبت فیها علی القول بامامته الا مَن امتحن الله قلبه للایمان (۱)

وہ اپنے شیعوں اور چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہو جائے گا اور اُس شخص کے علاوہ اس کی امامت کاکوئی قائل نہ رہ جائے جسکے دل کا خداوند عالم نے ایمان کے لئے امتحان لے رکھاہے۔

اور یہ واضح ہے کہ آپ کے موجود ہونے اور آپکی طولانی عمر اور غیبت نیز ظہور کا طولانی انتظار اور غیبت پر ایمان رکھنا یہ سب باتیں پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین کی پیشین گوئیوں اور غیب سے متعلق خبروں پر حسن اعتماد ،قدرت الٰہی پر ایمان اور دینی نظام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی (مقدارکی ) علامت ہے کیونکہ غیبی چیزوں کے بارے میں کامل اور سچا یقین صرف انہیں کو حاصل ہے جو متقی وپرہیزگار اور اہل یقین ہیں اور وسوسے کی تاریکیوں سے نکل کر اطمینان نفس اور عقیدہ میں استقامت اور ثبات قدم کی منزل تک پہونچ چکے ہیں اور ان کے دل ہدایت الٰہیہ سے روشن ومنور ہیں نیز وہ شکوک و شبہات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور دینداری اور امامت کے راستے میں ان کے قدموں میں کبھی لغزش پیدا نہیں ہوتی ۔

دوسری وجہ: غیبت کے دور میں پیش آنے والی وہ مشکلات اور ناگوار حوادث اور حالات زمانہ کا الٹ پھیر ہے جو لوگوں کو اس طرح منقلب کر ڈالے گا کہ جسکے بعد ایمان کی حفاظت کرنا بہت

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ فصل۱باب۸ح۴۔

مشکل مرحلہ ہے اور لوگوں کا ایمان بہت بڑے خطرات سے دو چار ہوگا جیسا کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے : جو شخص غیبت کے زمانہ میں اپنے دین کا پابند رہنا چاہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے خاردار شاخ پر اسکے کانٹے صاف کرنے کے لئے ہاتھ مارے پھر امام نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے اس کی وضاحت کی اور یہ فرمایا: اس صاحب امر کی ایک غیبت ہے لہٰذا ہر بندہ خدا پرہیز گاری سے کام لے(اورخدا سے ڈرے )اور اسکے دین سے متمسک (وابستہ)رہے۔

حدیث کی عربی عبارت یہ ہے:

ان لصاحب هذا الامرغیبة المتمسک فیها بدینه کالخارط للقُتَاد ثم قال : هٰکذا بیده ثم قال ان لصاحب هذا الامرغیبةٌ فلیتق اللّٰه عبدَه وَلْیتمسَّک بدینه ۔(۱)

غیبت کے زمانے میں دنیا کی ظاہری آرائشیں اور چمک دمک جتنی زیادہ پر فریب ہونگی لوگوں کے لئے گناہوں ،برائیوں اور حیوانی لذتوں کے امکانات اتنے ہی زیادہ فراہم ہو ں گے ہر طرف لہو و لعب اور ناچ گا نے کا دور دورہ ہوگا ،نا محرم مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھیں گے، آمدنی کے حرام ذرائع عام بات اور قانونی سمجھے جائیں گے، اکثر لوگوں کی آمدنی ناجائز (حرام) راستوں سے ہوگی اور مومن کے لئے تلوار کا ایک وار سہنا ایک حلال درہم حاصل کرنے سے آسان ہوگا لوگوں پر مادیت اور دنیا پرستی کا تسلط ہوگا منصب اور عہدے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں پہونچ جائیں گے جنہیں احکام خدا کی کوئی پرواہ نہ ہوگی کام کاج میں عورتوں کا عمل دخل ہوگا، سود،شراب کی خرید و فروخت اور شراب نوشی، جوا، بے حیائی (بدکاری)کا کھلا چلن ہوگا۔

دیندار اور مومن ،ذلیل و خوار اور بدکار ،بد معاش اور بے دین لوگ بظاہر صاحب عزت بن بیٹھیں گے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرمتروک ہو جائے گا اور اسکے بر عکس نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی کہا

____________________

(۱)کمال الدین ج۲ص۱۶ ح ۳۴ ب ۳۴ اور مولف کی کتاب منتخب الاثر فصل۲ ب۲۷ج۱۰۔

جائے گا گناہ و معصیت اور ظالموں کے کاموں میں شرکت فخر کی بات ہوگی ،امانت کو مال غنیمت اور صدقہ کوگھاٹا سمجھا جائے گا۔

اسلامی آداب اور رسم و رواج کے بجائے کفار کی رسموں کو قانونی حیثیت دی جائے گی اہل حق خانہ نشین ہونگے اور نالائق ایمان سے بے بہرہ لوگوں کو ہر چیز پر اختیار حاصل ہوگا عورتیں انتہائی بے حیائی کے ساتھ تمام اسلامی احکام کو بالائے طاق رکھکر دور جاہلیت کی صورتحال کی طرف پلٹ جائیں گی کفار کے تسلط ،اشرار کی غنڈہ گردی کی وجہ سے مومنین ایسے دباو کا شکار اور اس طرح آزادی سے محروم ہوجائیں گے کہ کسی کے اندر علی الاعلان خدا کانام لینے کی طاقت نہ ہوگی اور ایمان کی حفاظت اتنا سخت مرحلہ ہوگا کہ ایک شخص صبح کو مومن اور مسلمان ہوگا اور رات تک اسلام سے خارج ہوکر کا فر ہو چکا ہوگا ۔

امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : یہ امر (ظہور) تمہارے سامنے نہیں آئے گا مگر ناامیدی کے بعد ۔خدا کی قسم یہ اس وقت تک ظاہر نہ ہوگا جب تک تم (مومن اور منافق) ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جاو ۔خدا کی قسم یہ اس وقت تک ظاہر نہ ہوگا جب تک جسے بد قسمت (شقی)ہونا ہے وہ بد بخت اور شقی نہ ہو جائے اور جس کو سعید (خوش قسمت )ہونا ہے وہ خوش قسمت نہ ہو جائے(۱)

ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا : ان کی غیبت کے زمانہ میں ان کی امامت کے عقیدے پر ثابت قدم رہنے والے سرخ سونے سے بھی زیادہ نایاب ہونگے یہ سن کر جناب جابر کھڑے ہوگئے اور عرض کی:

یارسول اللہ! آپ کی اولاد میں سے قائم کے لئے غیبت ہے ؟

____________________

(۱)کمال الدین ج۲ب۳۴ص۱۵ح۳۱

آپ نے فرمایا : ہاں میرے پرور دگار کی قسم ایسی غیبت جو ایمان کو خالص کر دے اور کفار کو محو کر دے اے جابر! یہ خدا کے امور میں سے ایک امر (بڑا کام) اور خدا کے رازوں میں سے ایک ایسا راز ہے جو بندوں کے اوپر پوشیدہ ہے لہٰذا اسمیں شک کرنے سے ڈرتے رہنا کیونکہ خدا وند عالم کے کاموں میں شک کرنا یقیناً کفر ہے(۱)

عبد الرحمٰن بن سلیط کی روایت کے مطابق امام حسین نے فرمایا ہے :

ہمارے درمیان سے بارہ مہدی (ہدایت یافتہ)ہونگے جن میں سب سے پہلے امیرالمومنین علی بن ابی طالب اور آخری میرا نواں فرزندہے وہ امام قائم(عج) ہے جو حق کے ساتھ قیام کرے گا جسکے ذریعہ خدا وند عالم مردہ زمین کو زندگی عطا کرے گا اور اس کے ذریعہ دین کو ظاہر کرے گا اور ہر دین پر فتح عطا کرے گا اگر چہ مشرکین کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو اس کے لئے ایک ایسی غیبت ہے جسمیں کچھ لوگ دین سے منحرف ہو کر مرتد ہو جائیں گے اور کچھ لوگ اپنے دین پر باقی رہ کر مشکلات کا شکار ہونگے ان سے کہا جائے گا : کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ (قائم کا ظہور کب ہوگا) یاد رکھو! ان کی غیبت میں مشکلات اور دشمنوں کی تکذیب پر صبر کرنے والاپیغمبراکرم کی رکاب میں آپ کے سامنے جہاد کرنے والوں کی طرح ہے(۲)

واضح رہے کہ اس امتحان کی شدت کے بارے میں بہت زیادہ حدیثیں موجود ہیں ملاحظہ فرمائیے ”غیبت نعمانی “ ، ”غیبت“ شیخ طوسی اور شیخ صدوق کی کتاب ”کمال الدین“ اور اس حقیر کی کتاب ”منتخب الاثر“۔

____________________

(۱)کمال الدین ج۱ ب۲۶ ص۴۰۴ ح ۷۔

(۲)کمال الدین ج اب ۳۰ ص ۴۳۴ ح ۳۔

حالات سازگار ہونے کا انتظار

غیبت کی ایک مصلحت انسانی صلاحیتوں (اور استعدادوں )کی تکمیل اور ان کو فکری اور ذہنی اعتبار سے آپ کے ظہور کے لئے تیار کرنا ہے کیونکہ آپ کا طریقہ کار ظاہری باتوں کی رعایت یاظاہر پر حکم کرنا نہیں ہے بلکہ آپ کا دارومدار حق اور حقیقت کا خیال رکھنا اور اسی کے مطابق حکم کرنا اور اسمیں تقیہ سے پرہیز، دینی معاملات، دوسروں کے حقوق، ناحق لئے جانے والے اموال کی واپسی، حقیقی انصاف قائم کرنا اور تما م اسلامی احکام کو کسی رعایت اور چشم پوشی کے بغیر نافذ کرناہے۔

اسلام دشمن طاقتوں اور اصلاحات کے مخالفین اور عہدہ پرست اہل سیاست نے جتنے نظام بنا رکھے ہیں وہ ان سب کو ختم کر کے ان کی جگہ اسلام کے ان قوانین اور احکام کو زندہ اور نافذ کریں گے جنکو انہوں نے مٹا رکھا ہے اور آپ کے جد اکرم حضرت محمد مصطفیٰ جو دین لیکر آئے تھے اور دنیا کے جاہ طلب اور سر پھرے حاکموں کے ناحق دباو اور مظالم کی بنا پرجس کی کوئی قانونی یا سماجی حیثیت نہیں رہ گئی تھی وہ اسے پھر سے قانونی حیثیت عطا کرےنگے اور پوری کائنات کو اسلام اور قرآن کے پیغامات کی طرف واپس پلٹائیں گے ،صاحبان منصب اور لوگوں کے کاموں کے ذمہ دار افراد سے سختی کے ساتھ پوچھ گچھ ہو گی اور مجرموں نیز گناہگاروں کے لئے کسی قسم کی رعایت یاچھوٹ نہیں ہوگی اور ہر طرف اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی ۔

یہ طے ہے کہ ایسے ہمہ جہت انقلاب اور نظام کے لئے بشر کی علمی،فکری اوراخلاقی ترقی نیز لوگوں کے اندر اس تحریک کو قبول کرنے اور اسے ماننے کی آمادگی اور اس عظیم الشان ہادی کی رہبرانہ (قائدانہ) صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ اسکے علاوہ آپ کے مخصوص اصحاب جو آپ کی مدد میں ثابت قدم اور معرفت وبصیرت کے لحاظ سے کامل ہوں وہ بھی احادیث میں بیان شدہ تعداد کے برابر ہو جائیں، دنیا کی فضا ایسے ظہور کے لئے ہموار ہو جائے اور دنیا کی تمام قومیں اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ اس سے پہلے جتنے بھی نظام حکومت اور سیاسی یا اقتصادی مکاتب فکر سامنے آئے وہ کسی درد کی دوا نہیں ہیں اور حقوق بشر کے لئے قائم کئے جانے والے عالمی ادارے، بڑے بڑے بین الاقوامی اجتماعات اور کانفرنسیں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے ،اب تک جو کچھ بھی اصلاحی اور تعمیری پروگرام بنے ہیں یا آئندہ بنائے جائیں گے ان کے بارے میں مایوسی سب کو اپنی گرفت میں لے لے جیسا کہ روایات میں ہے کہ بے حیائی اور فحاشی اتنی عام ہو جائے کہ جانوروں کی طرح سڑکوں پر کھلے عام مردوں اور عورتوں کو بدکاری میں کوئی شرم محسوس نہ ہو اور شرم وحیاء اور غیرت کا جنازہ نکل جائے۔

جیسا کہ ہمیں دکھائی دے رہا ہے کہ جتنے منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں اور جو لائحہ عمل بھی تیار ہوتا ہے وہ سب تہذیب و تمدن کے برخلاف ہے اور اس سے ظلم وستم یا برائیوں کو بڑھا وا ملتا ہے جس سے لوگوں کے اندر پریشانی واضطراب پیدا ہوتا ہے اور روحانی (نفسیاتی) گتھیاں اور الجھ جاتی ہیں ارتداد اور رجعت پسندی میں اضافہ ہوتا ہے اور زیادہ تر جسمانی اور مادی (حیوانی) پہلوؤں پر توجہ کی جاتی ہے اور انسانی اور روحانی اقدار کی کوئی پرواہ نہیں رہتی ہے۔

جب دنیا کا یہ حال ہو جائے اور (انسانیت سے عاری)موجودہ تہذیب و تمدن سے سب عاجز آجائیں اور دنیا پر تاریکی چھا جائے توغیبی عنایتوں کے سائے میں ایک مرد خدا کے بہترین استقلال کا نظارہ آنکھوں کے سامنے ہوگا اندھیرے چھٹ جائیں گے اور تشنگان حق وعدالت کو معرفت و سعادت کے شیریں جام سے سیراب کریں گے اور مردہ انسانوں کے دل میں نئی روح پھونک دینگے:

( اعلموا انّ الله یحي الارض بعد موتها ) (۱)

____________________

(۱)سورہ حدید آیت۱۷۔

یا د رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کو زندہ کرنے والا ہے۔

ایسے حالات میں اہل دنیا بے مثال طریقے سے آسمانی منادی کی روحانی آواز کو اپنے دل کی گہرائیوں سے قبول کریں گے کیونکہ اندھیرا جتنا زیادہ ہوتا ہے نور کی روشنی (چمک)اتنی ہی زیادہ عیاں ہوتی ہے اور اسکا اثر زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔

لیکن اگر حالات سازگار نہ ہوں اور حکمت الٰہی کی بنا پر اسمیں جس حد تک تاخیر ہونا چاہئے وہ تاخیر نہ ہو تو پھر اس ظہور کے تمام فائدے کما حقہ حاصل نہیں ہوسکتے، لہٰذا ایک معین مدت تک اس ظہور میں تاخیر ضروری ہے اور جیسے ہی حالات سازگار ہوں اور حکمت الٰہی کے تحت غیبی آواز اسکا اعلان کر دے اس وقت ظہور ہو جائے گا جس کی خبر کسی کو نہیں ہے اورجو شخص بھی ظہور کا وقت معین کرے وہ جھوٹا ہے۔

امام جعفر صادق نے فرمایا ہے : ظہور کا کوئی وقت معین نہیں ہے کیونکہ قیامت کی طرح اسکا علم بھی صرف خدا کو ہے یہاں تک کہ فرمایا : ہمارے مہدی کے ظہور کے لئے کسی نے بھی وقت معین نہیں کیا مگر یہ کہ وہ اپنے کو خدا کے علم میں شریک سمجھے اور یہ دعویٰ کرے کہ خدا نے اسکو اپنے راز (اسرار) بتا دئے ہیں(۱)

کفار کی نسل میں مومنین کی پیدائش

جیسا کہ متعدد روایات میں ذکر ہے کہ خدا وند عالم نے بہت سے مومنین کا نطفہ کفار کے صلبوں میں امانت کے طور پر رکھ دیا لہٰذا امانتوں کا ظاہر ہونا لازمی ہے اب اگر ان امانتوں کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی امام قیام کر کے جزیہ کا قانون ختم کردیں اور کفار کو قتل کر ڈالیں تو یہ مقصد پورا نہیں ہو گا اور وہ امانتیں ظاہر نہ ہو پائیں گی۔

____________________

(۱)اثبات الہداة ج۷ فصل ۵۵ب۳۲ص۱۵۶ج۴۰۔

کیا کوئی شخص یہ سوچ سکتا تھاکہ حجاج جیسے خونخوار اور جلاد (دشمنان اہلبیت میں اس جیسے سفاک اور درندہ صفت بہت کم لوگ ملتے ہیں)کی نسل میں حسین بن احمد بن حجاج (جو ابن الحجاج کے نام سے مشہور ہیں) جیسا نامور شاعر، مشہور خطیب(سخنور)خاندان پیغمبر کا چاہنے والا اور ان کا شیعہ پیدا ہو جائے گا اور اہلبیت کی مدح میں ایسے لا جواب قصیدے اور ان کے دشمنوں کی مذمت میں ایسے اشعار کہے گا جس سے شیعہ مذہب کی ترویج ہوگی، ان کے مشہور و معروف قصائد میں اسے ایک مشہور قصیدہ کا مطلع یہ ہے :

یا صاحب القبة البیضاء علی النجف

من زار قبرک و استشفیٰ لدیہ شفیٰ

”اے بلند مقام پر درخشاں قبہ کے مالک جو شخص آپ کی قبر کی زیارت کرے اوراس سے شفا طلب کرے اس نے شفا حاصل کر لی ،،

کیا کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ حضرت امام موسیٰ کاظم کے قاتل ”سندی بن شاہک“کی اولاد میں مشہور شاعر اور دنیائے ادب کے درخشاں ستارے ”کشاجم“ پیدا ہو سکتے ہیں جو حضرت علی اور ان کے گھر والوں کی امامت کے حقیقی جلوہ کی تاثیر کی بنا پر اپنی پوری عمر انہیں کی مدح و ثنا میں گذار دیں گے ۔

مختصر یہ کہ کفار کی پشتوں (نسلوں )میں مومنین کی پیدائش یہ ایک ایسی اہم چیز ہے جسکے لئے ظہور کو رکاوٹ نہیں بننا چاہئے اور ایسے ہی موقع پر ظہور ہو جب کفار کے صلبوں میں کوئی امانت باقی نہ رہ جائے جیسا کہ قرآن مجید نے جناب نوح کے قصہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی یہ دعا نقل کی ہے:( ولا یلدوا الا فاجراً کفاراً ) ۔(۱)

حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کا ظہور بھی ایسے ہی حالات میںہوگا ،اور یہی آیہ کریمہ :

( لوتزیّلوا لعذّبنا الذین کفروا منهم عذاباً الیما ) ۔(۲)

____________________

(۱)” اور فاحر و کافر کے علاوہ کوئی اولاد بھی پیدا نہ کریں“سورہ نوح آیت ۲۷۔

(۲) سورہ فتح آیت۲۵۔