تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178251 / ڈاؤنلوڈ: 6649
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

خداوند متعال نے نصيحت فرمائي ہے_و يسئلونك عن اليتامى قل اصلاح لهم خير

٦_ يتيموں كے معاملات كى اصلاح امر خير ہے_اصلاح لهم خير

٧_ يتيموں كے ساتھ اخوت و برادرى اور ان كے معاملات كى اصلاح كے قصد سے ہر قسم كا ميل جول جائز ہے_

اليتامى قل اصلاح لهم خير و ان تخالطوهم فاخوانكم

٨_ يتيموں كے ساتھ ميل جول دينى اخوت كى بنياد پر ہونا چاہئے_و ان تخالطوهم فاخوانكم

يعنى بجائے اسكے كہ اپنے آپ كو ان سے برتر سمجھو يا ان كے ساتھ تحقير آميز رويہ اختيار كرو بلكہ دوسرے لوگوں كى طرح ان كے ساتھ بھى سلوك كرو اور جس طرح دوسرے لوگوں اور تمھارے درميان برابرى اور برادرى پائي جاتى ہے يتيموں كے ساتھ بھى اسى طرح ہو_

٩_ يتيموں كے معاملات كى اصلاح اور ان كے ساتھ مل جل كر رہنا ان سے دورى اختيار كرنے سے بہتر ہے_

و يسئلونك عن اليتامى قل اصلاح لهم خير و ان تخالطوهم فاخوانكم يہ اس بنا پر ہے كہ''خير'' افعل تفضيل ہو، معلوم ہوتا ہے كہ يتيموں كے ساتھ برتاؤ كى كيفيت اور ان كے اموال كے بارے ميں يہ جوبڑى سخت لہجے والى آيات نازل ہوئي ہيں اس كى وجہ سے مسلمان يتيموں كے ساتھ ملنے جلنے سے پرہيز كرنے لگے تھے جس كى وجہ سے مذكورہ بالا آيت نے ان كے اس طرز تفكر كو رد كرتے ہوئے فرمايا كہ ان كے ساتھ برادرى كى بنياد پر رہن سہن ركھو اور ان كے امور كى اصلاح كرو جن ميں اصلاح كى ضرورت ہو_

١٠_ اسلام نے اخوت و برادرى كے حق كو بہت زيادہ اہميت دى ہے_و ان تخالطوهم فاخوانكم

كيونكہ اس آيت ميں برادري، يتيموں كے ساتھ معاشرت كے معيار كے طور پر ذكر ہوئي ہے اور اس اعتبار سے كہ آيت يتيموں كے حقوق كے دفاع كے بارے ميں ہے، معلوم ہوتا ہے كہ برادرى ايك بہت عظيم اور بلند مرتبہ حق ہے_

١١_ يتيموں كے ساتھ برادرانہ برتاؤ كے ذريعہ ان كى شخصيت كا احترام محفوظ ركھنا ضرورى ہے _

و ان تخالطوهم فاخوانكم اس لحاظ سے كہ اسلام نے يتيموں كے ساتھ

۱۰۱

برتاؤ كے سلسلہ ميں كسى اور معيار كے بجائے برادرى كا ذكر كيا ہے احتمال ہے كہ يہ كنايہ ہو كہ ان كے ساتھ برتاؤ ميں كسى جذبہ ترحم يا تحقير آميز رويّے كا مظاہرہ نہ كيا جائے جس سے ان كى شخصيت ختم ہوجائے_

١٢_ خداوند عالم جانتا ہے كہ كون اصلاح كرنے والا اور كون فساد برپا كرنے والا ہے_و الله يعلم المفسد من المصلح

١٣_ يتيموں كے امور ميں گڑ بڑ پيدا كرنے والوں كو خدانے خبردار كيا ہے_قل اصلاح لهم خير و الله يعلم المفسد من المصلح

١٤_ يتيموں كے معاملات كى اصلاح كرنے والوں كى خداوند متعال نے حوصلہ افزائي كى ہے اور ان كے اجر كى ضمانت دى ہے_قل اصلاح لهم خير و الله يعلم المفسد من المصلح

١٥_ خداوند عالم نے مصلح نما فساديوں كو عذاب كى دھمكى اور حقيقى اصلاح كرنے والوں كوبشارت دى ہے_

و الله يعلم المفسد من المصلح

١٦_ خدائے متعال كے علم پر توجہ اس كے قوانين كے نفاذ كا پيش خيمہ ہے _و الله يعلم المفسد من المصلح

لوگوں كے اعمال اور نيتوں كے بارے ميں خدا تعالى كے علم كو بيان كرنے كا مقصد لوگوں كو اپنے فرائض پر عمل كرنے اور احكام كے اجراء اور نفاذ كى جانب رغبت دلانا ہے_

١٧_ خدا تعالى نے لوگوں كے ليئے مشكل اور بامشقت قوانين نہيں بنائے ہيں _و لو شاء الله لاعنتكم

ايسا معلوم ہو تا ہے احكام كا مشكل اور بامشقت نہ ہونا ايك قاعدہ كليہ ہے جسے''لو شاء ...'' كا جملہ بيان كر رہا ہے نہ كہ صرف يہ ايك خاص حكم ہے جو يتيموں كے ساتھ معاشرت كے بارے ميں آياہو_

١٨_ خدا وند متعال غلبے والا حكيم ہے_ان الله عزيز حكيم

يہ اس صورت ميں ہے كہ ''حكيم'' ، ''عزيز'' كى صفت ہو _

١٩_ خداوند عالم، عزيز اور حكيم ہے _ان الله عزيز حكيم

٢٠_ احكام كى تشريع خداوند متعال كى حكمت كى بنياد پر

۱۰۲

ہے _و يسئلونك عن اليتامى ان الله عزيز حكيم

٢١_ اپنى حكيمانہ مشيت كو عملى جامہ پہنانے ميں خداوند قدوس كى ذات غلبے والى اور ناقابل شكست ہے_

و لو شاء الله لاعنتكم ان الله عزيز حكيم

٢٢_ خدا كى طرف سے يتيموں كے ساتھ رہن سہن كے جوازكا فلسفہ لوگوں كو رنج و مشقت سے بچانا ہے_

و ان تخالطوهم فاخوانكم و لو شاء الله لاعنتكم

٢٣_ خدا وند عالم كى مشيت كے نافذ ہونے كى وجہ اس كا صاحب عزت ہوناہے _و لو شاء الله لاعنتكم ان الله عزيز حكيم جملہ''ان الله '' دليل ہے''لو شاء الله ...''كي، يعنى اگر خدا پُر مشقت حكم كا ارادہ كرتا تو اس كا ارادہ نافذ ہوجاتا كيونكہ وہ عزيز اور غالب ہے ليكن اس نے ايسا ارادہ نہيں كيا_

٢٤_حكمت الہي، مشكل و پُر مشقت احكام بنانے كى راہ ميں ركاوٹ ہے _و لو شاء الله لاعنتكم ان الله عزيز حكيم

جملہ''ان الله '' دليل ہے جملہ''لو شاء ...''كى يعنى اس كى حكمت مانع ہے كہ وہ مشكل اور مشقت باراحكام قرار دے_

آنحضرت (ص) : آنحضرت (ص) سے سوال ١، ٢، آنحضرت كى ذمہ دارى ٣

احكام: ٧ احكام كا فلسفہ ٢٠، ٢٢; احكام كى تشريع ٢، ١٧، ٢٠، ٢٤; احكام كى خصوصيت ١٧

اخوت: اخوت كى اہميت ٧، ٨، ١٠

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ٤

اسماء و صفات: حكيم ١٨، ١٩; عزيز ١٨، ١٩،

اصلاح: اصلاح كى اہميت ٥، ٦، ٧، ٩، ١٤

اصلاح كرنے والے: ١٢ اصلاح كرنے والوں كو بشارت ١٤، ١٥

۱۰۳

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا اجر ١٤;اللہ تعالى كا رغبت دلانا١٤; اللہ تعالى كا علم ١٦ ; اللہ تعالى كى بشارت ١٥; اللہ تعالى كى حكمت ٢٠، ٢١، ٢٤; اللہ تعالى كى دھمكياں ١٣، ١٥; اللہ تعالى كى عزت ٢١، ٢٣; اللہ تعالى كى مشيت ٢١، ٢٣

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا نقش ١

خير: خير كے موارد ٦، ٩

دين: تبليغ دين ٣

سوال و جواب: ١

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ ١٦; شرعى فريضہ كاسہل ہونا ١٧، ٢٢، ٢٤

علم: علم و عمل كا رابطہ ١٦

فساد كرنے والے: ١٢ فساد كرنے والوں كو انتباہ ١٣،١٥

معاشرت : آداب معاشرت ١١

معاشرتى طبقات: ١٢

يتيم: ١ يتيم كى شخصيت ١١;يتيم كى كفالت كرنا ١٣، ١٤; يتيم كے امور كى اصلاح ٥، ٦، ٧، ٩; يتيم كے ساتھ معاشرت ٤، ٧، ٨، ٩، ١١، ٢٢

۱۰۴

وَلاَ تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلاَ تُنكِحُواْ الْمُشِرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُواْ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُوْلَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (٢٢١)

خبردار مشرك عورتوں سے اس وقت تك نكاح نہ كرنا جب تك ايمان نہ لے آئيں كہ ايك مومن كنيز مشرك آزاد عورت سے بہتر ہے چاہے وہ تمھيں كتنى ہى بھلى معلوم ہو اور مشركين كو بھى لڑكياں نہ دينا جب تك مسلمان نہ ہو جائيں كہ مسلمان غلام آزاد مشرك سے بہتر ہے چاہے وہ تمھيں كتنا ہى اچھا كيوں نہ معلوم ہو_ يہ مشركين تمہيں جہنم كى دعوت ديتے ہيں اور خدا اپنے حكم سے جنت اور مغفرت كى دعوت ديتا ہے اور اپنى آيتوں كو واضح كركے بيان كرتا ہے كہ شايد يہ لوگ سمجھ سكيں _

١_ مومنين كيلئے مشرك عورتوں كے ساتھ نكاح حرام ہے مگر يہ كہ وہ ايمان لے آئيں _و لاتنكحوا المشركات حتى يومنّ

٢_ بيوى كے انتخاب ميں اصلى معيار ايمان ہو نہ كہ اسكى خوبصورتى يا آزاد ہونا( كنيز نہ ہونا)_

و لاتنكحوا المشركات حتى يؤمنّ و لامة مؤمنة خير من مشركة و لو اعجبتكم و لعبد مؤمن خير من مشرك و لو اعجبكم

عورت كے انتخاب ميں '' اعجاب'' يعنى دل لبھانے كا واضح ترين مصداق اس كى خوبصورتى اور حسن ہے _

٣_ مومنہ كنيز، بيوى بننے كے زيادہ لائق ہے اس

۱۰۵

آزاد عورت سے جو مشرك ہو اگرچہ وہ خوبصورت اور دلربا ہى كيوں نہ ہو_و لامة مؤمنة خير من مشركة و لو اعجبتكم

٤_ عزت و سربلندى كا معيار ايمان ہے اور شرك، پستى اور فرومائيگى كا باعث ہے_و لاتنكحوا المشركات و لامة مؤمنة خير من مشركة و لاتنكحوا المشركين حتى يومنوا

٥_ دنياوى ظواہر (خوبصورتى اور ثروت و دولت وغيرہ) كى نسبت ايمان كى قدر و قيمت زيادہ ہے_و لامة مؤمنة خير من مشركة و لو اعجبتكم

٦_ مومن عورتوں كے لئے مشرك مردوں كے ساتھ نكاح حرام ہے مگر يہ كہ وہ ايمان لے آئيں _و لاتنكحوا المشركين حتى يومنوا

٧_غلام مومن آزاد مشركين سے افضل ہيں _و لامة مؤمنة خير من مشركة و لعبد مؤمن خير من مشرك

٨_غلام مومن ، مسلمان عورت كا شوہر بننے كے زيادہ لائق ہے آزاد مشرك مرد سے، اگرچہ مشرك ظاہرى طور پر خوبصورت اور حسين ہى كيوں نہ ہو_و لعبد مؤمن خير من مشرك و لو اعجبكم

٩_ نكاح كے معاملے ميں مرد (باپ اور ...) عورتوں كے ولى و سرپرست ہيں _و لاتنكحوا المشركين حتى يومنوا

عورتوں كے نكاح كے سلسلہ ميں خطاب مردوں سے ہوا ہے كہ''و لاتنكحوا '' يعنى مسلمانوں كو حق نہيں ہے كہ وہ اپنى بيٹياں مشركوں كے نكاح ميں ديں ، لہذا اگر مردوں كو عورتوں پر سرپرستى حاصل نہ ہوتى تو خطاب خود عورتوں سے ہوتا كہ مشركوں كے ساتھ نكاح نہ كريں _

١٠_ آزاد عورت يا مرد كا نكاح غلام مرد يا عورت كے ساتھ جائز ہے_و لامة مؤمنة خير من مشركة و لعبد مؤمن خير من مشرك

١١_ مومنين ، مومن عورتوں كو مشركين كے نكاح ميں نہ ديں _و لاتنكحوا المشركين حتى يومنوا

١٢_ضرورى ہے كہ ايمانى قدروں كو ظاہرى اور دنياوى ُپركشش اشياء ( خوبصورتي، مال و دولت اور ...) پر ترجيح دى جائے_

۱۰۶

و لاتنكحوا المشركات حتى يؤمنّ و لامة مؤمنة خيرمن مشركة ولو اعجبتكم

١٣_ قرآن كريم كى نظر ميں با ايمان غلام صاحب قدر و منزلت اور باشخصيت ہے_و لامة مؤمنة خير من مشركة و لعبد مؤمن خير من مشرك

١٤_ مشرك جہنم كى آگ كى طرف بلانے والے ہيں _اولئك يدعون الى النار

١٥_ مشرك كے ساتھ شادى كرنا گمراہى اور جہنم ميں داخلے كا پيش خيمہ ہے_و لاتنكحوا اولئك يدعون الى النار

١٦_ عورت اور مرد ايك دوسرے كے عقائد پر اثر انداز ہوتے ہيں _و لاتنكحوا المشركات و لاتنكحوا المشركين اولئك يدعون الى النار

١٧_ شرك كا انجام جہنم ہے _اولئك يدعون الى النار

١٨_ كسى عمل كى قدر و قيمت كے جانچنے كا معيار اس عمل كے نتائج اور ثمرات ہيں _ولامة مؤمنةخير من مشركة اولئك يدعون الى النار

١٩_ شرعى فرائض انسانى مصالح و مفاسد كى بنياد پر ہيں _ولاتنكحوا و لاتُنكحوا اولئك يدعون الى النار

٢٠_ جلب منفعت سے دفع مفسدہ بہتر ہے _*اولئك يدعون الى النار و الله يدعوا الى الجنة و المغفرة

مومن اگر مشرك كے ساتھ شادى كر لے تو اگرچہ يہ احتمال ہے كہ مشرك ايمان لے آئے جس كى وجہ سے كافر كى ہدايت كا عظيم ثواب ملے گا (يہ منفعت ہے) ليكن يہ خطرہ بھى ہے كہ مومن مرتد ہوجائے (يہ خرابى يا مفسدہ ہے) اور خداوند عالم نے مومن كے مشرك كے ساتھ ازدواج كى نہى فرما كر جلب منفعت پر دفع مفسدہ كو ترجيح دى ہے_

٢١_ خدا وند عالم لوگوں كو اپنى جنت اور مغفرت كى طرف دعوت ديتا ہے_و الله يدعوا الى الجنة و المغفرة باذنه

٢٢_ جنت اور مغفرت كا حاصل كرنا خدا وند عالم كى توفيق سے ممكن ہے _

۱۰۷

و الله يدعوا الى الجنة و المغفرة باذنه

''باذنہ''ميں باء مصاحبت كے معنى ميں اور ''يدعو''كے متعلق ہے اور''اذن''كے معنى توفيق كے ہيں يعنى خدا كى بہشت كى طرف دعوت اسى كى توفيق كے ساتھ ہے تاكہ مومن بہشت ميں داخل ہوسكے_

٢٣_ خدا وند متعال كے احكام پر عمل جنت اور اس كى مغفرت تك پہنچنے كا ذريعہ ہے_و لاتنكحوا المشركات و الله يدعوا الى الجنة و المغفرة باذنه يہ اس صورت ميں ہے كہ خدا كے جنت اور مغفرت كى طرف بلانے كا مطلب شرعى احكام كا بيان ہو (جيسے مشركوں كے ساتھ حرمت نكاح و ) كہ ان احكام پر عمل مغفرت اور جنت ميں داخلے كا موجب ہے_

٢٤_ ہر ايسے ميل جول اور معاشرت سے اجتناب كرنا ضرورى ہے جس ميں كفر اور گمراہى كا خطرہ ہو اور جو جہنم ميں داخلے كا سبب ہو _و لاتنكحوا ولاتُنكحوا اولئك يدعون الى النار

يہ مطلب ''اولئك يدعون الى النار'' والى تعليل كى عموميت كى بناپر ہے جو كہ شادى كے علاوہ ديگر موارد كو بھى شامل ہے _

٢٥_ خدا تعالى لوگوں كيلئے آيات (احكام اور ان كا فلسفہ) بيان كرنے والا ہے_و لاتنكحوا المشركات و يبين آياته للناس

٢٦_ اللہ تعالى كى طرف سے آيات بيان كرنے كا مقصد لوگوں كو ياد دہانى كروانا ہے_و يبين آياته للناس لعلهم يتذكرون

٢٧_ قرآنى آيات سب لوگوں كيلئے قابل ادراك اور قابل استفادہ ہيں _و يبين آياته للناس لعلهم يتذكرون

آيات خدا: آيات خدا كا بيان كرنا٢٥، ٢٦

احكام: ١، ٦، ٩، ١٠، ١١ فلسفہ احكام ١٩، ٢٥

اقدار: ١٢ اقدار كا معيار ٤، ٧،٨، ١٣، ١٨، ٢٠;منفى اقدار ٤

انحطاط : انحطاط كے عوامل ٤

ايمان: ايمان كى قدر و قيمت ٢، ٣، ٤، ٥، ٦،١٣; ايمان كے اثرات٦

۱۰۸

جنت: جنت كى دعوت٢١; جنت كے موجبات٢٢

جہنم: جہنم كى آگ ١٤; جہنم كے موجبات١٥

خدا تعالى: خدا تعالى كى توفيقات٢٢ ; خدا تعالى كى مغفرت ٢١ ، ٢٢، ٢٣

خوبصورتي: خوبصورتى كى قدر و قيمت ٥، ١٢

خير: خير كى دعوت٢١

دنيا: دنياوى وسائل ١٢

ذكر: ذكر كے عوامل ٢٦

رہن سہن: رہن سہن كے آداب ٢٤

شرك: شرك كى سزا ١٧; شرك كى قدر و قيمت ٤

شريك حيات: شريك حيات كى شرائط ١، ٢، ٣، ٦، ٨; شريك حيات كى صفات ١، ٢، ٣، ٦، ٨ ; شريك حيات كے ساتھ روابط ١٦

عمل: عمل كى جزا ٢٣ ; عمل كے اثرات و ١٨، ٢٣

غلام: غلام كے ساتھ شادى ١٠; مومن غلام ٧، ٨; مومن غلام كے فضائل ١٣

فساد و برائي : فساد و برائي كو دور كرنا ٢٠

قرآن كريم : قرآن فہمى ٢٧

كفر: كفر كا پيش خيمہ ٢٤

كنيز: مومن كنيز ٣

گمراہي: گمراہى كا پيش خيمہ ١٥، ٢٤

گناہ: گناہ سے اجتناب ٢٤

مال: مال كى قدر و قيمت٥، ١٢

محرمات: ١، ٦

۱۰۹

مرد: مرد كى سرپرستى ٩

مشركين: مشركين جہنم ميں ١٥، ٢٤; مشركين كا بے قدر و قيمت ہونا ٧; مشركين كى دعوت ١٤

مصالح و مفاسد: ١٩

معاشرتى تعلقات: ٢٤

نفع و نقصان: ٢٠

نكاح: احكام نكاح ١، ٦، ١٠، ١١; حرام نكاح ١٦; غيرمسلم كے ساتھ نكاح ١، ٣، ٦، ٨، ١١، ١٥ ; غيرمسلم كے ساتھ نكاح كے اثرات و ١٥ نكاح ميں سرپرستى ٩

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِي الْمَحِيضِ وَلاَ تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىَ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (٢٢٢)

اور اے پيغمبر يہ لوگ تم سے ايا م حيض كے بارے ميں سوال كرتے ہيں تو كہہ دو كہ حيض ايك اذيت اور تكليف ہے لہذا اس زمانے ميں عورتوں سے الگ رہو اور جب تك پاك نہ ہوجائيں ان كے قريب نہ جائو پھر جب پاك ہو جائيں تو جس طرح سے خدا نے حكم ديا ہے اس طرح ان كے پاس جائو _ بہ تحقيق خدا توبہ كرنے والوں اور پاكيزہ رہنے والوں كو دوست ركھتا ہے _

١_ لوگ نبى اكرم(ص) سے حيض كے بارے ميں پوچھتے تھے_و يسئلونك عن المحيض

٢_ لوگوں كے رسول اكرم(ص) سے سوالات، آيات كے نزول اور احكام كے بيان كا پيش خيمہ بنے_

و يسئلونك عن المحيض قل هو اذي

۱۱۰

٣_ پيغمبر اكرم(ص) احكام كے نزول اور بيان كا ذريعہ ہيں _و يسئلونك قل

٤_ ماہوارى عورتوں كيلئے مشقت اور تكليف ايجاد كرتى ہے_و يسئلونك عن المحيض قل هو اذي

٥_ حائض عورت كے ساتھ ہمبسترى حرام ہے يہاں تك كہ وہ پاك ہوجائے _فاعتزلوا النساء فى المحيض و لاتقربوهن حتى يطهرن اگرچہ''فاعتزلوا النسائ'' كا ظہور يہ ہے كہ عورت كے ساتھ ہر قسم كى معاشرت ترك كر دى جائے ليكن بعد ميں يہ كہنا كہ ايام حيض اور غسل كے بعد اس كے ساتھ ہمبسترى جائز ہے''حتى يطهرن فاذا تطهرن فاتوهن من حيث ''يہ قرينہ ہے كہ وہ امر جس سے ''فاعتزلوا''كہہ كر منع كيا گيا تھا وہ صرف ہمبسترى تھى نہ كہ ہر قسم كى معاشرت كيونكہ اگر يہ مراد ہوتا تو خدا تعالى يوں فرماتا''فاذا تطھرن فعاشروھن''

٦_ ايام حيض ميں قُبُل كى طرف سے نزديكى حرام ہے_فاعتزلوا النساء فى المحيض

آيت كے ابتداء ميں كلمہ''محيض'' مصدر ہے (يعنى حيض آنا) ليكن جملہ''فاعتزلوا النساء فى المحيض ''ميں المحيض اسم مكان ہے_ اس پر دليل كلمہ'' المحيض'' كا تكرار ہے_ چونكہ اگر دونوں جگہ پر ايك ہى معنى مراد ہوتا تو قاعدتاً دوسرے كو ضمير كى صورت ميں ذكر كيا جاتا_

٧_ حيض كے ايام ميں عورت كے ساتھ ہمبسترى كے حرام ہونے كا فلسفہ يہ ہے كہ ان ايام ميں ہمبسترى عورت كيلئے آزار اور اذيت كا باعث ہے_عن المحيض قل هو اذى فاعتزلوا النساء فى المحيض

٨_ احكام خدا مصالح و مفاسد كى بنياد پر قرار ديئے گئے ہيں _ويسئلونك عن المحيض قل هو اذى فاعتزلوا النساء فى المحيض

٩_ ايام حيض ميں ہمبسترى ضرر رساں ہے_و يسئلونك عن المحيض قل هو اذى فاعتزلوا يہ مطلب اس صورت ميں ہے كہ سوال ايام حيض ميں ہمبسترى كرنے كے بارے ميں ہوا ہو نہ خود حيض اور اس كى ماہيت كے بارے

۱۱۱

ميں ، كہ ايسى صورت ميں ضمير''ھو''ايام حيض ميں ہمبسترى كى طرف لوٹے گى يعنى اے نبي(ص) كہہ ديجيئے كہ ايام حيض ميں ہمبسترى كرنا ضرر رساں ہے_

١٠_ مباشرت كے دوران ميں حفظان صحت كے اصولوں كى رعايت ضرورى ہے _و لاتقربوهن حتى يطهرن فاذا تطهرن فاتوهن كيونكہ عورت كے ساتھ مباشرت كو خون كے ركنے اور غسل كر لينے كے بعد جائز قرار ديا گيا ہے_

١١_ عورتوں كے ساتھ ہمبسترى حيض سے پاكى اور غسل كر لينے كے بعد جائز ہے_ولاتقربوهن حتى يطهرن فاذا تطهرن فأتوهن اگرچہ''حتى يطھرن'' كا مفہوم يہ ہے كہ جب خون سے پاك ہوجائيں يعنى خون رك جائے تو ان كے ساتھ مقاربت جائز ہے ليكن جملہ''فاذا تطھرن''ميں مقاربت كے جواز كو صريحاً غسل كے ساتھ مشروط كيا گيا ہے جس كے پيش نظر''حتى يطھرن''كا مفہوم مورد توجہ نہيں قرار پائے گا_

١٢_ كلام كى عفت كا خوبصورتى سے خيال ركھا گيا ہے_و يسئلونك عن المحيض قرآن كريم نے ايسى تعبير يں صراحت سے استعمال نہيں كيں جو عفت كلام كے خلاف ہيں _ (جيسے ترك مقاربت كے ليے ''اعتزال''اور شرمگاہ كے لئے دوسرے جملے ميں كلمہ''المحيض'' اور''من حيث امركم'' استعمال كيا گيا ہے) ان مذكورہ مثالوں سے عفت كلام كا بجاطور پر استفادہ ہوتا ہے_

١٣_ عورت كے ساتھ نزديكى فطرى راستے(فرج ، شرمگاہ ) سے كى جائے _فاذا تطهرن فاتوهن من حيث امركم الله

١٤_ عورتوں كے ساتھ ہمبسترى ميں خدا تعالى كے احكام و حدود كى رعايت ضرورى ہے _فاذا تطهرن فاتوهن من حيث امركم الله بعض مفسرين كے نزديك كلمہ''من حيث''مقاربت كى جگہ (فرج) كو بيان نہيں كر رہا ورنہ كلمہ''في'' استعمال كيا جاتا لہذا اس نظريہ كى بنياد پر ''من حيث امركم'' شرعى احكام اور ممنوع موارد (جيسے روزہ كے ايام اور ...) سے پرہيز كى يادآورى كيلئے ہے_

١٥_ ايام حيض ميں عورتوں سے ہمبسترى كے علاوہ

۱۱۲

استمتاع (لذت حاصل كرنا) جائز ہے_يسئلونك عن المحيض فاعتزلوا النساء فى المحيض يہ اس صورت ميں ہے كہ ''فى المحيض'' سے مراد مكان حيض ہو ايسى صورت ميں ايام حيض ميں صرف ہمبسترى حرام ہوگى _

١٦_ خداوند عالم توبہ كرنے والوں اور پاكيز گى اپنانے والوں كو پسند فرماتا ہے _ان الله يحب التوابين و يحب المتطهرين

١٧_ توبہ اور طہارت نفس ، محبت خدا كو حاصل كرنے كا پيش خيمہ ہيں _ان الله يحب التوابين و يحب المتطهرين

١٨_ خداوند متعال توبہ اور پاكيزگى نفس كى تشويق و ترغيب دلاتا ہے_ان الله يحب التوابين و يحب المتطهرين

يہ اشارہ كرنا كہ جو لوگ پاكيزگى نفس ركھنے اور توبہ كرنے والے ہيں خدا ان سے محبت كرتاہے، اس كا ايك ہدف انسانوں كو توبہ اور پاكيزگى نفس كى ترغيب دلانا ہے_

١٩_ توبہ كرنے والوں اور پاكيز گى نفس اپنانے والوں كے ساتھ محبت كا اظہار ضرورى ہےان الله يحب التوابين و يحب المتطهرين

٢٠_ ايام حيض ميں ہمبسترى پاكيزگى نفس كے خلاف ہے _و يسئلونك عن المحيض فاعتزلوا الساء فى المحيض ان الله يحب التوابين و يحب المتطهرين ايام حيض ميں ہمبسترى سے منع كرنے كے بعد پاكيزگى نفس اختيار كرنے والوں كے ساتھ محبت كا اظہار مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے_

١ ٢_ جو لوگ ايام حيض ميں ہمبسترى كے گناہ سے توبہ كر ليں خدا انہيں دوست ركھتا ہےفاعتزلوا النساء فى المحيض ان الله يحب التوابين

٢٢_ خداوند عالم حالت حيض ميں ہمبسترى سے اجتناب كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے _فاعتزلوا النساء فى المحيض ان الله و يحب المتطهرين

آيت كے ابتدائي اور آخرى حصے كے ارتباط كو ديكھتے ہوئے ايام حيض ميں ہمبسترى سے پرہيز كرنے والے ''متطہرين'' (پاكيزہ لوگ)كا مصداق ہيں _

٢٣_اسلا م ميں حائض عورتوں كے ساتھ روابط كے سلسلہ ميں حد اعتدال كى رعايت كى گئي ہے_

۱۱۳

و يسئلونك عن المحيض قل هو اذى فاعتزلوا جيساكہ آيت كے شان نزول ميں آيا ہے كہ زمانہ جاہليت ميں عورتوں كے ساتھ حيض كے دنوں ميں مكمل قطع تعلق كر ليا جاتا تھا اور ان كے ساتھ ہر قسم كا رہن سہن ختم كرديا جاتا تھا جبكہ دوسرى طرف عيسائي ہر قسم كے تعلقات كو جائز سمجھتے تھے، اسلام نے ان دونوں كے برخلاف درميانى راستہ بتلايا ہے_

٢٤_ پانى سے استنجا كرنا پاكيزگى كے مصاديق ميں سے ہےان الله يحب التوابين و يحب المتطهرين

ايك شخص نے پيغمبر اسلام(ص) سے عرض كيا كہ ميں پانى سے استنجاء كرتا ہوں تو حضرت(ص) نے فرمايا:هنيئا لك فان الله عزوجل قد انزل فيك آية:''ان الله يحب التوابين و يحب المتطهرين'' (١) تجھے مبارك ہو كہ خدا نے تيرے بارے ميں يہ آيت نازل كى ہے_

آنحضرت (ص) : آنحضرت (ص) سے سوال ١، ٢; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ٣

احكام: ٥، ٦، ٧، ١١، ١٣، ١٥ احكام كى تشريع ٢، ٣; فلسفہ احكام ٧، ٨، ٩

استنجا: پانى كے ساتھ استنجا٢٤

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى جانب سے تشويق ١٨; اللہ تعالى كى حدود١٤; اللہ تعالى كى محبت١٦، ١٧، ٢١، ٢٢ ;اللہ تعالى كے محبوب لوگ ١٦، ٢١، ٢٢

پاك لوگ : پاك لوگوں سے محبت ٩ ١

پاكي: پاكى كے اثرات ١٧; پاكى ميں ركاوٹيں ٢٠

پاكيزگي: پاكيزگى كى تشويق ١٨

پاكيز ہ لوگ : پاكيزہ لوگوں كے فضا ئل ١٦

پاني: پانى كے فوائد: ٢٤

____________________

١) تفسير عياشى ج ١ ص ١٠٩ ح ٣٢٨ تفسير برہان ج ١ ص ٢١٦ ح ١١ _

۱۱۴

تقوي: تقوي كے اثرات٢٢

توابين: توّابين سے محبت ١٩; توّابين كے فضائل ١٦، ٢١

توبہ: توبہ كى ترغيب ١٨; توبہ كے اثرات ١٧

حفظان صحت: حفظان صحت كى اہميت ١٠

حيض: حيض كى سختياں ٤، ٧ ; حيض كے احكام ٥، ٦، ٧، ٩، ١١،١٥

روايت: ٢٤

سوال و جواب: ٢

گفتگو : آداب گفتگو ١٢; گفتگو ميں عفت ١٢

محرمات: ٥، ٦، ٧

مصالح و مفاسد: ٨

مطہرات: ٢٤

ہمبستري: ہم بسترى حيض ميں ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣; ہمبسترى كے آداب ٥، ٦، ٩، ١٠، ١١، ١٣، ١٤، ٢٠ ; ہمبسترى كے احكام ٥، ٦، ٧، ١١، ١٣، ١٥; ہم بسترى ميں حفظان صحت ١٠

نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُواْ حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُواْ لأَنفُسِكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّكُم مُّلاَقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (٢٢٣)

تمھارى عورتيں تمھارى كھيتياں ہيں لہذا اپنى كھيتى ميں جہاں چاہو داخل ہوجائو اور اپنے واسطے پيشگى اعمال خدا كى بارگاہ ميں بھيج دو اور اس سے ڈرتے رہو _ يہ سمجھو كہ تمھيں اس سے ملاقات كرنا ہے اور صاحبان ايمان كو بشارت دے دو _

١_ عورت انسانى بيج كى كھيتى ہے _نساؤكم حرث لكم

۱۱۵

٢_ بانجھ نہ ہونا ايك شائستہ اور كامل عورت كى خصوصيات ميں سے ہے_نساؤكم حرث لكم

عورت كى اہم خصوصيات ميں سے اس كا بقاء نسل كى خاطر حمل كے قابل ہونا ہے لہذا اگر عورت بانجھ ہو تو وہ اس اہم خصوصيت سے محروم ہے اور واضح ہے كہ يہ عورت طبعى لحاظ سے كامل نہيں ہے _

٣_ مباشرت كا اہم ترين فلسفہ نسل پھيلاناہے_نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم و قدموا لانفسكم

پہلى بات يہ كہ ہمبسترى كے تمام اہداف ميں سے صرف نسل بڑھانے (حرث) كى طرف اشارہ كيا گيا ہے اور دوسرا يہ كہ بعض مفسرين كے نزديك جملہ''قدموا لانفسكم''سے مراد اولاد ہے_

٤_ اپنى بيوى كے ساتھ ہر طريقے سے ہمبسترى جائز ہے_نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم

يہ اس صورت ميں كہ''اني''،'' كيف ''كے معنى ميں ہو_

٥_ مرد كى جنسى لذتوں ميں عورت كيلئے مرد كى اطاعت ضرورى ہے *_نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم

چونكہ عورتوں سے لذت حاصل كرنے ميں ''انى شئتم''كہہ كر مردوں كو كسى حد تك آزادى دى گئي ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ عورت كيلئے اس سلسلہ ميں مرد كى اطاعت ضرورى ہے ورنہ يہ كلام لغو ہوجائے گا_

٦_پہلے سے ہى اعمال صالح بھيجنا اور اپنى آخرت كيلئے ان كا ذخيرہ كرنا ضرورى ہے_و قدموا لانفسكم

٧_ انسان كى اچھى يا برى تقدير اور انجام ميں ، اس كى شادى شدہ زندگى كے حالات مؤثر ہيں _فاتوا حرثكم انى شئتم و قدموا لانفسكم ايسا معلوم ہوتا ہے كہ جملہ'' قدموا لانفسكم''انسان كى ہمبسترى ميں آزادى اور اختيار كيلئے قيد كے طور پر آيا ہے يعنى انسان كى ازدواجى زندگى اس كى تقدير اور انجام ميں مؤثر ہے لہذا انسان ايسا طريقہ اپنائےجس كا انجام اچھا ہو_

٨_ نيك اور صالح اولاد پيدا كرنے كيلئے بيوى كے انتخاب ميں خوب غور و فكر كرنا اور جماع كے آداب كا خيال ركھنا ضرورى ہے_نساؤكم حرث لكم و قدموا لانفسكم

كھيتى باڑى كيلئے كسان كا مناسب اور زرخيز

۱۱۶

زمين منتخب كرنے ميں زيادہ توجہ كرنا اور اچھى فصل پيدا كرنے كيلئے تمام ضرورى اسباب كا فراہم كرنا عورت اور كھيتى كے درميان مشابہت كى وجوہ ہيں كہ جو آيت ميں مدنظر ہوسكتى ہيں _

٩_ آخرت كيلئے پيشگى اعمال بھيجنے اور ان كے ذخيرہ كرنے كيلئے گھريلو اور ازدواجى روابط سے استفادہ كرنا ضرورى ہے_فاتوا حرثكم انى شئتم و قدموا لانفسكم يہ كہ عورتوں كو حرث كہنے كے بعد اعمال خير آگے بھيجنے كا حكم ديا گيا ہے، اس سے معلوم ہوتاہے كہ قرآن كريم كى نظر ميں زندگى كو اخروى منافع اور نيك كام انجام دينے كى راہ پر گامزن كرنا ضرورى ہے_

١٠_ اولاد ازدواجى زندگى كا پھل ہے_نساؤكم حرث لكم و قدموا لانفسكم

١١_ مياں بيوى كے روابط ميں تقوى كى مراعات ضرورى ہے_نساؤكم حرث لكم و اتقوا الله

١٢_ تمام انسان خداوند عالم سے ملاقات كريں گے_و اعلموا انكم ملاقوه

١٣_ خداوند عالم گھريلو ماحول ميں مردوں كو احكام الہى كى رعايت كے سلسلہ ميں متنبہ كرتاہے_

نساؤكم حرث لكم و اتقوا الله و اعلموا انكم ملاقوه گھريلو زندگى سے مربوط احكام ذكر كرنے كے بعد لوگوں كو تقوى كا حكم دينا اور خداوند عالم كى ملاقات كے بارے ميں متوجہ كرنا (جزا و سزا كے دن) ممكن ہے ان لوگوں كو متنبہ كرنے كيلئے ہو جو احكام الہى كى مراعات نہيں كرتے_

١٤_ خداوند متعال حساب لينے والا اور جزا دينے والا ہے _و اعلموا انكم ملاقوه

آيت ميں انتباہ كو مدنظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ خدا تعالى كى ملاقات حساب و كتاب اور جزا سے كنايہ ہے_

١٥_ خدا كى عدالت ميں حاضرى اور اس كى ملاقات پر توجہ ، حدود الہى كى حفاظت اور تقوي كى رعايت كا پيش خيمہ ہے_

و اتقوا الله و اعلموا انكم ملاقوه

١٦_ جناب رسول خدا (ص) كو ان مؤمنين كو بشارت دينے كا حكم ہے جو ازدواجى تعلقات اور گھريلو ماحول ميں تقوى اور الہى حدود كا پاس كرتے اور ايك دوسرے كے ساتھ اچھا برتاؤ كرتے ہيں _

نساؤكم حرث لكم و اعلموا انكم ملاقوه و بشر المومنين

۱۱۷

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ١٦

آخرت: توشہ آخرت ٦، ٩

احكام: ٤، ٥

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا انتباہ ١٣; اللہ تعالى كاحساب لينا ١٤;اللہ تعالى كى حدود ١٣، ١٥، ١٦

انسان: انسان كاانجام ١٢; انسانى تقدير ٧

اولاد: ١٠ صالح اولاد ٨

ايمان: آخرت پر ايمان كے نفسياتى اثرات ١٥; خدا كى ملاقات پر ايمان ١٥

تربيت: تربيت كى روش١٥

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ١٥; تقوي كى اہميت ١١،١٦

رشد و ترقي: رشد و ترقى كا پيش خيمہ ٨

شادى كرنا : شادى كرنے كا فلسفہ ٣، ٨، ١٠

شخصيت: شخصيت كى تشكيل كے عوامل ٧، ٨

شريك حيات: شريك حيات كى شرائط ٢، ٨; شريك حيات كى صفات ٢; شريك حيات كے حقوق ٥

عمل: صالح عمل ٦، ٩ ; عمل كى پاداش ١٤;عمل كى بقا ٦

عورت : عورت كى قدر و قيمت ١; عورت كى لياقت و شائستگى ٢

قضا و قدر: ٧

گھرانہ: گھرانے كے حقوق ١٣، ١٦ لقاء الله : ١٢

۱۱۸

مومنين: مومنين كو بشارت ١٦

نسل: نسل كى بقا ٣

نظريہ كائنات: نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ١٥

ہمبستري: ہمبسترى كے آداب ٨، ٩، ١١; ہمبسترى كے احكام ٤، ٥; ہمبسترى ميں تقوي ١١، ١٦

وَلاَ تَجْعَلُواْ اللّهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّواْ وَتَتَّقُواْ وَتُصْلِحُواْ بَيْنَ النَّاسِ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٢٤)

خبردار خدا كو اپنى قسموں كا نشانہ نہ بنائو كہ قسموں كو نيكى كرنے تقوى اختيار كرنے اور لوگوں كے در ميان اصلاح كرنے ميں مانع بنا دو الله سب كچھ سننے اور جاننے والا ہے_

١_ قسم ميں خدا كے نام كو دستاويزى ثبوت كے طور پر استعمال كرنا حرام ہے حتى كہ سچى قسموں اور نيك كاموں ميں بھى _و لا تجعلوا الله عرضة لايمانكم جب نہى كے ظہور كو مورد توجہ قرار ديا جائے اور ''عرضة''كے لغوى معنى پر نگاہ ڈالى جائے تو يہى نتيجہ سامنے آتاہے كہ انسان كے ليئے مناسب نہيں كہ وہ خدا تعالى كو قسم كے طور پر پيش كرے اور ہر مقام پر قسم ميں خدا كا نام لے_

٢_ خدا كى قسم نيك كاموں كى انجام دہي، تقوي اور لوگوں كے درميان اصلاح كرنے ميں ركاوٹ نہ بنے_

و لا تجعلوا الله عرضة لايمانكم ان تبروا و تتقوا و تصلحوا بين الناس

يہ اس صورت ميں ہے كہ''عرضة''كے معنى مانع كے ہوں _

٣_ خداوند قدوس كے نام تعظيم و تكريم ضرورى ہے_لا تجعلوا الله عرضة لايمانكم و الله سميع عليم

۱۱۹

٤_كسى كار خير كے چھوڑنے كيلئے قسم كھانا انسان پر كوئي ذمہ دارى نہيں لاتا_و لا تجعلوا الله عرضة لايمانكم

٥_ لوگوں كے درميان اصلاح كرنے كى اہميت _ان تبروا و تتقوا و تصلحوا بين الناس

اس اہميت كا استفادہ عام كے بعد خاص كے ذكر سے ہوتا ہے _

٦_ معاشرے كے مقابل مومنين كى ذمہ داري_و تصلحوا بين الناس

٧_ خداوند عالم سننے والا اور جاننے والاہے _و الله سميع عليم

٨_ خدا ايسا سننے والا ہے جو آگاہى ركھتاہے_و الله سميع عليم

يہ اس صورت ميں ہے كہ ''عليم''، ''سميع'' كى صفت ہو_

٩_ نيك كاموں كے ترك كرنے پر قسم كھانا زمانہ جاہليت كى رسم تھي_و لا تجعلوا الله عرضة لايمانكم ان تبروا و تتقوا

١٠_ خداوند عالم كاان لوگوں كو متنبہ كرناہے جو اسے اپنى قسموں كے لئے سند قرار ديتے ہيں _

و لا تجعلوا الله عرضة لايمانكم و الله سميع عليم

١١_ خدا كے نام كے ساتھ سچى قسم كھاناگناہ ہے اور جھوٹى قسم عملى كفر ہے _و لا تجعلوا الله عرضة لايمانكم

حضرت امام جعفر صادق(ع) نے فرمايا:من حلف بالله كاذبا كفر و من حلف بالله صادقا اثم_ ان الله عزوجل يقول: و ''لاتجعلوا الله عرضة لايمانكم'' (١) جو اللہ كى جھوٹى قسم كھائے اس نے كفر كيا اور جو اللہ كى سچى قسم كھائے اس نے گناہ كيا _ اللہ تعالى كا ارشاد ہےو لا تجعلوا الله عرضة لايمانكم''

١٢_ نيك كاموں كے چھوڑنے پر قسم كھانے كى حرمت كا ايك مصداق بھائي يا ماں كے ساتھ بات نہ كرنے كى قسم كھانا ہے_و لا تجعلوا الله عرضة لايمانكم

حضرت امام محمد باقر(ع) نے آيت''ولا تجعلوا الله عرضة لايمانكم ''كے بارے ميں فرمايا يعنى''الرجل يحلف ان لايكلم اخاه و

____________________

١) كافى ج٧ ص٤٣٤،ح٤;نور الثقلين ج ١ ص٢١٨، ح ٨٣٤_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

فان لم تأتونى به و لا تقربون

(لا تقربون ) ميں نون مكسورہ ، نون وقايہ ہے اور يأى متكلم محذوف پر دلالت كرتى ہے تو اس صورت ميں ( لا تقربون ...) كا معنى يہ ہوگا : كہ ميرے پاس نہ آنا _

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے مقصود تك پہنچنے كے ليے ترغيب دلانے كے ساتھ ساتھ تہديد سے بھى كام ليا_

الا ترون اوفى الكيل فان لم تأتونى به فلا كيل لكم

۵_ اپنے جائز اور مشروع مقاصد كے ليے اقتصادى پابندوں سے مدد حاصل كرنا جائز ہے _

فان لم تأتونى به فلا كيل لكم عندي

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے دوبارہ مصرلوٹنے اور خوراك حاصل كرنے كے سلسلہ ميں مصمم تھے_

فان لم تأتونى به فلاكيل لكم عندي

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خاندان كے ليے قحط كے سالوں ميں اپنى خوراك مہيا كرنے كا واحد راستہ مصر ميں آنا اور حضرت يوسف(ع) كى طرف رجوع كرنے ميں تھا_فان لم تأتونى به فلا كيل لكم عندى و لاتقربون

اگر بردران يوسف(ع) كے پاس خوراك حاصل كرنے كے ليے مصر آنے كے علاوہ بھى كوئي راستہ ہو تا توحضرت يوسف(ع) كى تہديد(فلا كيل لك عندي ) كا كوئي معنى نہيں رہتا اوراس كا كو ئي اثر نہ ہوتا_

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، بنيامين كا ديدار كرنے ميں بہت ہى زيادہ شوق ركھتے تھے_

ائتونى بأخ لكم فأن لم تأتونى به فلا كيل لكم عندى و لا تقربون

آل يعقوب :آل يعقوب كى تا مين معاش ۷

احكام :۵

اقتصاد :اقتصادى پابندى كا جائز ہونا ۵;اقتصادى ترقى كى اہميت ۵

برادران يوسف :برادران يوسف اور غلّہ كا دريافت كرنا ۲،۶; برادران يوسف كا ارادہ ۶;برادران يوسف كا حضرت يوسف سے ملاقات ۶

عواطف :بھائي كى عطوفت و محبت ۸

ہدف و وسيلہ : ۵

۵۴۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور بنيامين ۸;حضرت يوسف(ع) اور بنيامين سے ملاقات ۲، ۳;حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تعين مقدار۱; حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تقسيم ۱;حضرت يوسف(ع) سے ملاقات كے شرائط ۲، ۳; حضرت يوسف(ع) كا بنيامين سے لگاؤ ۸ ;

حضرت يوسف(ع) كا پروگرام ۱;حضرت يوسف(ع) كا ڈرانا ۴;حضرت يوسف(ع) كا شوق دلوانا ۴; حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۲، ۳، ۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كى اقتصادى سياستيں ۱;حضرت يوسف(ع) كى بھائيوں سے ملاقات ۲، ۳; حضرت يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۴

آیت ۶۱

( قَالُواْ سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم اس كے باپ سے بات چيت كريں گے اور ضرور كريں گے (۶۱)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹے بنيامين سے خصوصى محبت كرتے تھے _قالوا سنراود عنه اباه

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ہميشہ بنيامين كو اپنے بھائيوں كے ساتھ سفر كرنے سے منع كرتے تھے_قالوا سنراودعنه اباه

۳_ برادران يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كے ہمراہ نہ ہونے كى دليل يہ ذكر كى كہ حضرت يعقوب(ع) ان سے شديد لگاؤ ركھتے ہيں _قالوا سنراود عنه آباه

(ہم اپنے باپ سے بات كريں گے اور كوشش كريں گے كہ اسكو راضى كريں تا كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ بھيجے)جو جملہ (سنراودعنہ آباہ) سے معلوم ہوتا ہے_ اس سے يہ بھى اشارہ ملتا ہے كہ بنيامين جو ان كے ہمراہ نہيں تھے دراصل ان كے باپ نے انہيں منع كيا تھا_

۴_ حضرت يعقوب(ع) كے بيٹے بنيامين كو مصر لانے كيلئے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنے كے علاوہ كوئي اور راستہ نہيں ركھتے تھے_قالوا سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے يہ وعدہ كياكہ دوسرى بار جب وہ آئيں گے تو بنيامين كو آپ كى خدمت ميں لے آئيں گے_سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

۶_ برادران يوسف نے ان سے وعدہ كيا كہ وہ اپنے

۵۴۲

باپ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو راضى كريں گے كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _قالوا سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

(مراودہ ) (نراود) كا مصدر ہے جسكا معنى نرمى اور پيار و محبت سے درخواست كرنے كا ہے _ اور (عنہ ) كا لفظ جس كے بارے ميں درخواست كى جا رہى ہے اس پر دلالت كرتا ہے _تو اس صورت ميں '' سنراود '' كا معنى يہ ہوا كہ ان كے باپ ( بنيامين كے والد گرامى ) سے نرمى و محبت سے درخواست كريں گے كہ آئندہ كے سفر ميں ان كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _

۷_ برادران يوسف(ع) نے اس بات كى تاكيد كى كہ وہ يہ صلاحيت ركھتے ہيں كہ والد گرامى كو راضى كرليں تا كہ بنيامين كو آپ كے پاس لانے كے ليے ہمارے ساتھ روانہ كردے _انالفاعلون

(سنراود عنہ آباہ ) كے جملہ سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت يوسف كو يہ احتمال بھى تھا كہ ان كے والد گرامى راضى نہ ہوں ( انا لفاعلون ) كے جملے سے ان كے بھائي ان كو اطمينان دلانا چاہتے تھے كہ بغير كسى تشويش كے والد گرامى كى رضايت

جلب كريں گے اور بنيامين كو آپ كے ہاں لے آئيں گے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور بنيامين ۴، ۵; برادران يوسف اور رضايت حضرت يعقوبعليه‌السلام ۴، ۶، ۷; برادران يوسف كا وعدہ ۵،۶

بنيامين :بنيامين كا مصر كى طرف سفر ۴، ۵، ۶، ۷;بنيامين كو ساتھ نہ لانے كے دلائل ۳

عواطف :عواطف پدرى ۱

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب(ع) اور بنيامين كى مسافرت ۲; حضرت يعقوب(ع) كا قصہ ۵; حضرت يعقوب(ع) كى بنيامين سے محبت ۱، ۲، ۳

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۳، ۴، ۶، ۷;حضرت يوسف(ع) كے ساتھ عہد ۵، ۶

۵۴۳

آیت ۶۲

( وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُواْ بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

اور يوسف نے اپنے جوانوں سے كہا كہ ان كى پونچى بھى انكے سامان ميں ركھ دو شائد جب گھر پلٹ كر جائيں تو اسے پہچان ليں اور اس طرح شايد دوبارہ پلٹ كر ضرور آئيں (۶۲)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام لوگوں كے حصے كو انہيں فروخت كرتے اور اس كى قيمت وصول كرتے تھے _

و قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

(بضاعة)اس مال كو كہا جاتا ہے جو مال، تجارت اور خريد و فروش كے ليے ہو _ اسى وجہ سے (بضاعتہم) سے وہ مال مراد ہے جو برادران يوسف نے قيمت كے بد لے حاصل كيا تھا_

۲_حضرت يوسف(ع) نے اپنے كا رندوں سے كہا كہ جو قيمت فرزندان يعقوب(ع) نے دى ہے اسے ان كے سامان ميں پنہاں كرديں _و قال لفتيانه اجعلوا لضاعتهم فى رحالهم

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے كارندوں سے يہ تاكيد فرمائي كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے مال كو ان كے سامان ميں اس طرح پوشيدہ كريں كہ اپنے وطن پہنچنے سے پہلے وہ اسكى طرف متوجہ نہ ہو سكيں _

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلم يعرفونها اذا انقلبوا الى اهلهم

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بہت سے غلاموں اور كارندوں كو اپنى خدمت ميں ليا ہوا تھا جو ساز و سامان كا وزن ، تقسيم اور قيمت وصول كرنے پر ما مور تھے_قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

(فتيان )جو (فتي) كى جمع ہے غلاموں اور جوانوں كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام يہ اميد ركھتے تھے كہ جو مال اپنے بھائيوں كو واپس لوٹا دياگيا ہے وہ اپنے وطن لوٹ كر اسے پہچان سكيں گے_اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يعرفونه

يہ بات واضح ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے جب اپنے ساز و سامان كو كھولتے تو اپنے مال كو جو قيمت كے طور پر ديا تھا اس ميں پاتے ، اسى وجہ سے (لعل) كا ذكر جو ( شايد و ممكن ) كے معنى ميں ہے مناسب نہيں تھا اسى وجہ سے (لعل) كى تفسير ميں چند وجوہ ذكر كى گئي ہيں :

۵۴۴

۱_ (اذا انقلبوا ) كى قيد كے طور پر ذكر ہوا ہو اور اشفاق و ترجّى كے معنى ميں ہو يعنى اميد ہے كہ جب وہ اپنے اہل وعيال كے درميان پہنچيں تو اسكو جان سكيں اور اس سے پہلے متوجہ نہ ہوں _

۲_ يہاں شناخت سے مراد، اپنے حق كى شناخت ہے _ يعنى اس كے حق كو پہچان سكيں يعنى اپنے مال كوپہچان كر ميرى قدر دانى كا اقرار كريں _

۳_ (لعل) (كَي) كے معنى ميں ہو يعنى ( يہاں تك كہ ) اور يہ ترجى و اميدى كے معنى ميں نہ ہو _

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے مال تجارت كو واپس لوٹا كر ان ميں حق شناسى اور شكرگزارى كى حس ايجاد كرنا چاہتے اورانہيں دوبارہ لوٹنے كاشوق و ترغيب دلانا چاہتے تھے_اجعلوابضاعتهم فى رحالهم لعلهم يعرفونها لعلهم يرجعون مذكورہ بالا معنى دوسرے احتمال كو بتاتا ہے جسكى وضاحت پہلے ذكر ہوچكى ہے_

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،بھائيوں كو ڈرانے دھمكانے اور شوق و رغبت نيز ان كے ليے واپس لوٹنے كے تمام اسباب مہيّا كرنے كے باو جودان كے واپس لوٹنے پر اطمينان نہيں ركھتے تھے اور يعقوب(ع) كا بنيامين كو سفر پر نہ بھيجنے كا بھى احتمال ديتے تھے _لعلهم يرجعون

۸_ حضرت يوسف(ع) اپنے بھائي بنيامين كے مصر آنے كا بہت اشتياق اور اميدركھتے تھے_

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

۹_حضرت يوسف(ع) كا بنيامين كو كنعان سے مصر كى طرف سفر كرانے كى منصوبہ بندى كرنا،

فان لم تأتونى به فلا كيل لكم ...اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اور ان كے بيٹے زيادہ مال و منال نہيں ركھتے تھے بلكہ مالى لحاظ سے بہت ہى محدود تھے_

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

حضرت يوسف كا اپنے بھائيوں كو سرمايہ لوٹانے كے احتمالات ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہوسكتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خاندان ميں مال و متاع كى كمى تھى _ اور آيت شريفہ ۶۵ ميں ( ما نبغى ہذہ بضاعتنا نمير اہلنا ) كا جملہ اس پر مؤيد ہے_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام غلات كى تقسيم اور انبار شدہ خورا ك كے سلسلہ ميں مخصوص اختيارات ركھتے تھے_

قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

۵۴۵

حضرت يوسفعليه‌السلام كا حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كو خوراك كے حصے سے منع كرنا كہ جب وہ آنے والى نوبت ميں بنيامين كو نہ لائے تو كچھ نہيں ملے گا اس سے مذكورہ بات سامنے آتى ہے اوران كے مال كو انہيں واپس لوٹا دينا يہ ان كے مخصوص اختيارات كى طرف اشارہ ہے_

۱۲_ بحرانى حالات ميں خوراك كى مقدار وسہم معيّنكرنا اور جو سامان ديا جائے اس كے بدلے ميں عوض لينا، بيت المال كى حفاظت و نگہدارى اور اقتصادى امور سے آگاہى كا تقاضا كرتى ہے_اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم حضرت يوسفعليه‌السلام كا خزانے كا سر براہ ہونے كے حوالے سے اجناس كى راشن بندى كرنا جب كہ اس كى كمى تھى يہ بات حفيظ اور عليم سے س سمجھى جا رہى ہے _

۱۳_ بحرانى حالا ت اور راشن بندى كے اياّم ميں حكومت كى طرف سے لوگوں كو مفت مال دينا كوئي پسنديدہ سياست نہيں ہے_قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

اقتصاد :اقتصادى بحران ميں سياست ۱۲; ناپسنديدہ اقتصادى سياست۱۳

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) كا فقر ۱۰; برادران يوسف(ع) كو تشويق دلوانا ۷; برادران يوسف(ع) كوڈرانا ۷; برادران يوسف(ع) كے تجارت كے مال كو واپس لوٹانا ۲، ۳، ۵، ۶;برادران يوسف(ع) ميں تشكر كرنے كے مقدمات كو اجاگر كرنا ۶;برادران يوسف(ع) ميں حق و حقيقت كى پہچان كو ابھارنا ۶;برادران يوسفعليه‌السلام ميں مصر آنے كا انگيزہ ايجاد كرنا۶

بيت المال :بيت المال كى حفاظت كا طريقہ ۱۲

خوراك كى راشن بندى :خوراك كى راشن بندى كى اہميت ۱۲

لوگ :لوگوں كو خورد و نوش كا سامان مفت عطا كرنا ۱۳

يعقوب(ع) :يعقوبعليه‌السلام كا فقر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسف اور بنيامين كا سفر ۷، ۸،۹;يوسف اور غلات كى تقسيم ۱۱;يوسف اور غلات كى فروخت ۱ ; يوسف كا اقتصادى پروگرام ۱;يوسف(ع) كا اميدوار ہونا ۸; يوسف كا بنيامين سے محبت كرنا ۸ ; يوسف(ع) كا پروگرام ۹; يوسفعليه‌السلام كا ڈرانا ۷;يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶،۷، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كى تشويق دلوانا ۷;

۵۴۶

يوسفعليه‌السلام كى توقعات ۵; يوسفعليه‌السلام كى نصيحتيں ۳ ; يوسفعليه‌السلام كے اختيارات ۱۱;يوسفعليه‌السلام كے اوامر ۲; يوسف كے پيش آنے كا طريقہ ۶;يوسف كے كارندوں كا كردار ۴; يوسف(ع) كے مقاصد ۶

آیت ۶۳

( فَلَمَّا رَجِعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ )

اب جو پلٹ كر باپ كى خدمت ميں آئے اور كہا كہ بابا جان آئندہ ہميں غلہ سے روك ديا گيا ہے لہذا ہمارے ساتھ ہمارے بھائي كو بھى بھيج ديجئے تا كہ ہم غلہ حاصل كرليں اور اب ہم اس كى حفاظت كے ذمہ دار ہيں (۶۳)

۱_ حضرت يعقوب كے بيٹوں نے مصر سے واپس لوٹنے كے بعد انہيں اپنے سفر كى رپورٹ دى اور اسكى وضاحت ، بيان كى _فلما رجعوا الى ابيهم قالوا

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے والد گرامى كو يہ رپورٹ دى كہ اگر ہم بنيامين كے بغير گئے تو ہميں اپنے راشن كا حصہ نہيں ملے گا _فان لم تاتونى به فلا كيل لكم فلما رجعوا الى ابيهم قالوا يا ا بانا منع منا الكيل

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اظہار محبت كرتے ہوئے اپنے والد گرامى سے درخواست كى كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ مصر روانہ كريں _فأرسل معنا آخان

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا بنيامين كا نام نہ لينا بلكہ اسے ( آخانا ) (ہمارے بھائي) كے جملے سے يادكرنا، اس كے ساتھ اپنى محبت كے اظہار كے ليے ہے_

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے مصر كے سفر ميں بنيامين كى حفاظت كرنے كا عہد كيا اور اس پر تاكيد كى _

فأرسل معنا آخانا نكتل و انا له لحافظون

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے نزديك، خوراك

۵۴۷

كے معين سہم كا بنيامين كو ہمراہ نہ لانے كى صورت ميں بند ہونا ،ايك اہم بات تھى _ىأبانا منع منا الكيل

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا ساز و سامان سفر كو كھولنے سے پہلے جو عموماً كاروانوں اور مسافرين كا گھر پہنچنے كے بعد پہلا اقدام ہوتا ہے اپنے والد بزرگوار كو خوراك كے راشن كے بند ہونے كى خبر دينا اور اس خبر دينے ميں جلدى كرنا ان كے نزديك اس كى اہميت كو بتاتا ہے _

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں كنعان ميں جو سات سال قحط و خشكسالى كے تھے اس ميں غلّہ اور خورد و خوراك كا سامان ناياب تھا_قالوا ىأبانا منع منا الكيل فأرسل معنا اخانا نكتل

۷_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے پاس قحط كے سالوں ميں اپنى خوراك مہيا كرنے كے ليے مصر ميں حضرت يوسف كے ہاں حاضر ہونے كے علاوہ اور كوئي راستہ نہيں تھا_ىأبانا منع منا الكيل فأرسل معنا اخان

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے مصر جا نے كے علاوہ كوئي راستہ نہيں تھا ورنہ حضرتعليه‌السلام اپنے بيٹوں كووہ راستہ بتاتے تا كہ بنيامين كو ان كے ساتھ بھيجنے پر مجبور نہ ہوتے_

۸_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بنيامين كو سفر سے منع كرنے كى وجہ يہ تھى كہ وہ اس كے ليے خطرہ محسوس كرتے تھے_

سنراود عنه آباه فأرسل معنا اخانا نكتل و انا له لحافظون

(سنراود عنہ آباہ ...) كے جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب(ع) ہميشہ بنيامين كو سفر كرنے سے روكتے تھے ( انا لہ لحافظون ) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كى دليل يہ تھى كہ وہ ان كے ليے خطرہ محسوس كرتے تھے_

۹_ بنيامين ،اپنے والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اجازت كے بغير سفر نہيں كرتے تھے_فأرسل معنا اخان

يہ كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے بنيامين كو مصر لے جانے كے ليے حضرت يعقوبعليه‌السلام سے بات كى كہ اسكو ہمارے ساتھ مصر جانے كى اجازت ديں (فأرسل معنا اخانا ) كے جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ بنيامين اپنے والد گرامى كى اجازت كے بغير سفر نہيں كرتے تھے_

۱۰_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں اور اہل خانہ پر مكمل تسلطّ تھا _يأبانا منع منا الكيل فارسل معنا اخان

۱۱_ والدين، اپنے بيٹوں پر امر و نہى كرنے كا حق ركھتے ہيں _فأرسل معنا اخان

۵۴۸

۱۲_ بيٹوں كے ليے والدين كا كہنا ماننا اور ان كے كہنے پر عمل كرنا، اولاد كى ذمہ دارى اور ان كے ساتھ معاشرت و زندگى كرنے كے آداب ميں سے ہے_فأرسل معنا اخان

اطاعت :والد كى اطاعت ۱۱، ۱۲

اہل خانہ :اہل خانہ كى سرپرستى ۱۰

برادران يوسف(ع) :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۲، ۳، ۴، ۵; برادران يوسف(ع) اور يعقوبعليه‌السلام ۳; برادران يوسف(ع) قحط كے دوران ۷;برادران يوسف(ع) كا زندگى كو چلانے كا طريقہ ۷;برادران يوسف(ع) كا لوٹنا ۱ ; برادران يوسف(ع) كا وعدہ ۴;برادران يوسف(ع) كو غلات سے منع كرنا ۲، ۵;برادران يوسف(ع) كى حضرت يعقوبعليه‌السلام كو رپوٹ دينا ۱، ۲;برادران يوسف(ع) كى خواہشات ۳; برادران يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۳

بنيامين :بنيامين اور حضرت يعقوب(ع) كى رضايت ۹بنيامين سے محبت ۳;بنيامين كا حضرت يعقوبعليه‌السلام كا احترام كرنا ۹; بنيامين كى حفاظت ۴;بنيامين كے ليے خطرے كا احساس ۸

سرزمين :كنعان كى سرزمين حضرت يوسف كے زمانے ميں ۶;كنعان كى سرزمين كى تاريخ ۶; كنعان كى سرزمين ميں قحط ۶

عواطف :برادرى كى عطوفت

فرزند :فرزند پر حق ۱۱; فرزند كى ذمہ دارى ۱۲

معاشرت :معاشرت كے آداب ۱۲

والد :والد ہ سے پيش آنے كا طريقہ ۱۲;والد كا احترام ۹; والد كے حقوق ۱۱، ۱۲

يعقوب :حضرت يعقوب اور بنيامين كا سفر كرنا ۸;حضرت يعقوب كى سرپرستى ۱۰

يوسف :حضرت يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۷، ۸

۵۴۹

آیت ۶۴

( قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلاَّ كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَى أَخِيهِ مِن قَبْلُ فَاللّهُ خَيْرٌ حَافِظاً وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ )

يعقوب نے كہا كہ ہم اس كے بارے ميں تمھارے اوپر اسى طرح بھروسہ كريں جس طرح پہلے اس كى بھائي يوسف كے بارے ميں كيا تھا _خير خدا بہترين حفاظت كرنے والا ہے اور وہى سب سے زيادہ رحم كرنے والا ہے (۶۴)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے مشورے كو قبول نہيں كيا اور بنيامين كو مصر بھيجنے كى مخالفت كى _

قال هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۲_ حضرت يعقوب، بنيامين كى حفاظت كے ليے اپنے بيٹوں كى تاكيد اور وعدے پر مطمئن نہيں تھے_

قال هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

(ہل ء امنكم ...) ميں استفہام ،انكارى ہے جو نفى كے معنى ميں ہے_'' ا مَنَ '' (ء امن)كا مصدر ہے_ جو اطمينان كرنے اور امين سمجھنے كے معنى ميں ہے _ پس (هل ء امنكم .) كا معنى يہ ہوا كہ ميں تم كو بنيامين كے بارے ميں امين نہيں سمجھتا ہوں اور تمہارے وعدوں پر مجھے اطمينان نہيں ہے_

۳_ برادران يوسف(ع) كى آنحضرتعليه‌السلام كى حفاظت كے سلسلہ ميں بدعہدى كى وجہ سے حضرت يعقوب(ع) كو ۱پنے بيٹوں كى بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں عہد پر عدم اطمينان تھا_هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى حفاظت كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے وعدوں پر اعتماد و اطمينان كو حضرت يوسفعليه‌السلام كى حفاظت كے ساتھ تشبيہ دى _ اس ميں وجہ شبہہ بے فائدہ اور بے نتيجہ ہونا ہے _ پس اس صورت ميں '' ہل امنكم عليہ الا ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ ميرا اعتماد آپ لوگوں پر( اگر ميں اعتماد كروں بھى سہي) تو بے ثمر و بے فائدہ ہے _ جس طرح ميں نے يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں آپ پر اعتماد كيا تھا_

۵۵۰

۴_حضرت يعقوب(ع) كا بنيامين كو بيٹوں كے ہمراہ نہ بھيجنے كا سبب يہ تھا كہ كہيں يہ بھى يوسف(ع) جيسى مصيبت سے دوچارنہ ہو جائے_الّا كما امنتكم على اخيه من قبل

حضرت يعقوب(ع) نے حضرت يوسفعليه‌السلام كا نام لينے كى بجائے بنيامين كے بھائي كے عنوان سے ان كو ياد كر كے ايك لطيف نكتہ كى طرف اشارہ كيا كہ ان دونوں كا آپس ميں بھائي ہونے كے رشتے نے مجھے ان كى ايك سرنوشت (يعنى باپ سے جدائي اور فراق) كى وجہ سے پريشانى كرديا ہے_

۵_افراد كو ذمہ دارى سونپنے سے پہلے افراد كے سابقہ اعتماد پر توجہ ركھنا ضرورى ہے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۶_ كسى فرد كا برا ماضى ہى اس بات كيلئے كا فى ہے كہ اس فرد سے احتياط كى جائے اور اس كے قول و قرار پر يقين نہ كيا جائے_هل ء أمنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۷_ افراد كے سوء سابقہ كى انہيں يادآورى كرانا اور اس پر اثر مرتب كرناجائزہے تا كہ مستقبل ميں ايسے واقعات كى روك تھام كى جاسكے_هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۸_ گذرے ہوئے حوادث سے عبرت حاصل كرنا ضروى ہے تا كہ آئندہ اس جيسے واقعات سے محفوظ رہا جائے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۹_حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے اس وعدے پر كہ وہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے حفاظت كريں گے ان پر اطمينان كيا اور ان كى حفاظت كرنے كے سلسلہ ميں دل كو سہارا ديا _كما امنتكم على اخيه من قبل

۱۰_ افراد كو كسى شے يا چيزكى حفاظت كرنے ميں مؤثر جاننا ، شرك كا موجب نہيں بنتا اور يہ توكل الہى اور مقام نبوت كے منافى نہيں ہے_كما امنتكم على اخيه من قبل

اس سورہ ميں آيت كريمہ(۳۸) (ما كان لنا ان نشرك بالله من شيء ) كى دليل كى وجہ سے حضرت يعقوب(ع) ذرہ برابر بھى شرك كى طرف ميلان نہيں ركھتے تھے(كما امنتكم على اخيه ) كا جملہ بتاتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو امين خيال كرتے تھے اسى وجہ سے يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ان كے سپردكردى پس اس سے معلوم ہوا كہ اشخاص كو كسى شے كى حفاظت ميں مؤثر سمجھنا، شرك نہيں اور نبوت كے مقام كے ساتھ بھى ناسازگار نہيں ہے_

۵۵۱

۱۱_ خداوند متعال، بہترين محافظ اور نگہبان ہے _فالله خير حافظ

۱۲_ خداوند متعال، ارحم الراحمين ( تمام مہربانوں سے بہتر مہربان ) ہے _فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۳_ خداوند متعال كا اپنے بندوں كى حفاظت و نگہبانى كرنا، اسكى وسيع تر رحمت كى وجہ سے ہے _

فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

خداوند عالم كو بہترين حافظ ياد كرنے كے بعد خداوند متعال كى توصيف ( ارحم الراحمين ) سے كرنا گويا اس بات كو بتاتا ہے كہ ان دو صفتوں كے درميان ارتباط ہے _ يعنى كيونكہ وہ ارحم الراحمين ہے اسى وجہ سے بہترين محافظ بھى ہے_

۱۴_ انسانوں كى امانتدارى كرنا اور اس امانت كى حفاظت پر پورا اترناان كے رحم ودلسوزى كے ساتھ مربوط ہے _

فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۵_ رحم و دلسوزى كا نہ ہونا، لوگوں سے خيانت كرنے كا سبب بنتا ہے _

قال هل ء امنكم عليه فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں سے دورى كرنے كى وجہ يہ تھى كہ ان ميں رحم ودلسوزى نہيں تھى اور وہ حضرت يوسف(ع) اور بنيامينسے مہربانى سے پيش نہيں آتے تھے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

احتياط:احتياط كرنے كے ضرورى موارد ۶

اسماء و صفات :ارحم الراحمين ۱۲

اعتماد :بے اعتمادى كے اسباب ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا محافظ و نگہبان ہونا ۱۱;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱۳; اللہ تعالى كے مختصّات ۱۱

امانتدارى :امانتدارى كا پيش خيمہ ۱۴

انسان :انسانوں كى محافظت ۱۳

برادارن يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) اور بنيامين ۱۶; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۳، ۹، ۱۶; برادران يوسف(ع) پر اعتماد

۵۵۲

۹;برادران يوسف(ع) پر بے اعتمادى ۲، ۳; برادران يوسف(ع) كے مشورے كو رد كرنا ۱

بنيامين :بنيامين كى محافظت ۳; بنيامين كے انجام سے پريشانى ۴

بے رحمى :بے رحمى كے آثار ۱۵

تاريخ :تاريخ سے عبرت حاصل كرنے كى اہميت ۸

توكل:توكل كرنے كى حقيقت ۱۰//حافظ :بہترين حفاظت كرنے والا ۱۱

حوادث :ناگوار حوادث سے بچنے كا طريقہ ۸; ناگوار حوادث كے تكراركے موانع ۷

خيانت :خيانت كا پيش خيمہ ۱۵

ذمہ دارى :ذمہ داريوں كى تقسيم ميں مؤثر عوامل ۵

سابقہ :بُرے سابقہ كے آثار ۶

شرك :شرك كى حقيقت ۱۰

عبرت :عبرت كے اسباب۸

لوگ :لوگوں پر اعتماد اور توكل ۱۰; لوگوں پر اعتماد اور شرك ۱۰; لوگوں كے سابقہ كى اہميت ۵

مہربانى :مہربانى كے آثار ۱۴

يادآورى :بُرے سابقہ كى يادآورى كرنے كا جواز ۷

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب(ع) اور برادران يوسف(ع) كا عہد و پيمان ۲; يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف(ع) كى بے رحمى ۱۶; يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين ۴;يعقوب(ع) اور بنيامين كا سفر كرنا ۱ ; يعقوب(ع) كا اعتماد ۹; يعقوب(ع) كا شك ۲;يعقوب(ع) كى بے اعتمادى كے دلائل ۳;يعقوب(ع) كى پريشانى كے اسباب ۴; يعقوب(ع) كى مخالفت اور برادران يوسف(ع) ۱

يوسف :يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۹، ۱۶; يوسف كى حفاظت۹

آیت ۶۵

( وَلَمَّا فَتَحُواْ مَتَاعَهُمْ وَجَدُواْ بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي هَـذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ )

۵۵۳

پھر جب ان لوگوں نے اپنا سامان كھولا تو ديكھا كہ ان كى بضاعت (قيمت)واپس كردى گئي ہے تو كہنے لگا بابا جان اب ہم كيا چاہتے ہيں يہ ہمارى پونجى بھى واپس كردى گئي ہے اب ہم اپنے گھر والوں كے لئے غلہ ضرور لائيں گے اور اپنے بھائي كى حفاظت بھى كريں گے اور ايك اونٹ كا بار اور بڑھواليں گے كہ يہ بات اس كى موجودگى ميں آسان ہے (۶۵)

۱_ حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں نے سفر كى رپورٹ دينے كے بعد، مصر سے خريدارى كيئے ہوئے سامان كو كھولنا شروع كر ديا _و لما فتحوا متاعهم

۲_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے جب اپنے سامان كو كھولا تو مصر سے خريدارى كيئے ہوئے غلات كے درميان اسكى قيمت كو پايا_و لما فتحوا متاعهم وجدوا بضاعتهم ردت اليهم

۳_حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں نے جب اداشدہ قيمت كو واپس پايا تو خوش ہوگئے اور حضرت يعقوب كو رپوٹ دى _

قالوا ىأبانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ما نبغي) ميں (ما) استفہاميہ اور نبغى كا مفعول ہے _ (بغي) كا معنى چاہنا اور طلب كرنا ہے (ما نبغى ) يعنى اس سے زيادہ ہم كيا چاہتے ہيں ؟

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اس بات پر اطمينان ركھتے

تھے كہ ان كے سرمايہ كو جان بوجھ كر واپس لوٹا ديا گيا ہے اور اس سلسلہ ميں يوسفعليه‌السلام كے كارمندوں نے كوئي بھول نہيں كيوجدوا بضاعتهم ردّت اليهم ...هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ردّت الينا )كا جملہ اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے مطمئن تھے كہ ان كى پونجى ان كى طرف لوٹا دى گئي ہے _ يعنى يہ گمان بھى نہيں تھا كہ انہوں نے غلطى سے ركھ ديا ہو تا كہ اسكو واپس لوٹا نے كواپنے ليئے ضرورى سمجھيں _

۵۵۴

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے ان كو اس بات كى يقين دہانى كرائي كہ عزيز مصر (يوسفعليه‌السلام ) نے ان كى پونجى كو بغير كسى كمترين منت و سماجت اور ہميں خبر ديئےغير واپس لوٹا دياہے _هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ردّت) كے فعل كو مجہول لانا اورفاعل كاذكر نہ كرنا ، اس معنى كو بتا رہا ہے كہ مال كا كا واپس لوٹانا اس طرح تھا كہ ہميں كوئي خبر نہ ہوتا كہ ہميں كسى قسم كى شرمندگى كا احساس نہ ہو _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اپنے باپ كے ساتھ اور ان كى سرپرستى ميں زندگى بسر كرتے تھے _

و لما فتحوا متاعهم ...قالوا يابانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے جب اپنے سرمايہ كو واپس اپنے پاس ديكھا تو دوبارہ كوشش شروع كردى تا كہ والد بزگوار كو راضى كريں كہ وہ بنيامين كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _

قال هل أمنكم ىأ بانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا و نحفظ أخانا

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا يہ جملہ ( ما نبغى ہذہ بضاعتنا ...) كوقرينہ مخاطب (يابانا) كے ساتھ ديكھيں تو كہ ان كا مقصود حضرتعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنا ہے تا كہ وہ بنيامين كو ہمارے ساتھ بھيجيں _

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا يہ اندازہ (اپنے بھائيوں كو ان كى پونجى واپس لوٹا ديں تو دوبارہ مصر آنے ميں ميلان پيدا كريں گے) اور ان كا حدس لگانا مناسب و صحيح تھا_

لعلهم يعرفونها لعلهم يرجعون ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے اپنے خاندان كے نان و نفقہ كو مہيا كرنے كے ليے تنہا راستہ مصر كا سفر تھا _

و نمير اهلنا

(ميرة ) طعام كے معنى ميں ہے اور (مير)'' نمير'' كا مصدر ہے جسكا معنى طعام كو فراہم اور مہيا كرنا ہے _

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كى بنيامين كو مصر ہمراہ لے جانے كے ليے باپ كى رضايت كو جلب كرنے كے دلائل ميں سے خورد و خوراك كے مہيا كرنے كى ضرورت اور اسكو آمادہ كرنے كے ليے سرمايہ كا ضرورى نہ ہونا اور دربار مصر كى فرزندان يعقوب(ع) پر خاص عنايت و غيرہ تھے _

ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا

۵۵۵

حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں كا يہ جملہ (يا ابانا هذه ...) بنيامين كو سفر ميں ہمراہ لے جانے ميں حضرتعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنا مقصود ہے _ اور ان كا ہر جملہ ان ميں سے ايك دليل ہے كہ ان كو سفر پر بھيجنا ضرورى ہے _ اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے (ما نبغى ...) كے جملے سے يہ بيان كرنا چاہتے ہيں كہ ہم پر عزيز مصر نے بہت لطف و مہربانى كى ہے اسى وجہ سے ہمارے ليے مناسب نہيں ہے كہ انكى اس خواہش (بنيامين كو ہمراہ لائيں ) كو پورا نہ كريں انہوں نے جملہ (نمير اہلنا ) كو ايك مقدر جملہ مثل (نستظہر بہا ) (يعنى اس لوٹائي ہؤئي پونچى سے مدد حاصل كريں گے ) پر عطف كيا ہے _ اس سے يہ بيان كرنا چاہتے ہيں كہ خوراك كو خريدنے ميں كسى مشكل سے دوچار نہيں ہيں اور (نحفظ اخانا) كا جملہ اس بات كو بتارہا ہے كہ عزيز مصر كے مثبت جواب اور خوراك كے حصول كے ليے اپنے بھائي كى حفاظت لازمى كريں گے اور (ذلك كيل يسير) اس كو بتارہا ہے كہ ہم طعام لانے كے ليے بہت محتاج ہيں _

۱۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے بنيامين كو مصر كے سفر پر لے جانے كے ليے دوبارہ محبت بھرا عہد كيا _

نمير اهلنا و نحفظ اخانا

۱۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بنيامين كے ہمراہ بھيجنے كے ليے جو دلائل دے گے ان ميں خوراك كے حصّے كى ممنوعيت كاختم ہونا، اور ايك اونٹ كے سامان كا زيادہ ہونا شامل تھا _و نزداد كيل بعير ذلك كيل يسير

(ازدياد) (نزداد ) كا مصدر ہے جو كہ باب افتعال سے ہے جسكا معنى زيادہ اور اضافہ كى درخواست كرنا ہے _ (كيل بعير) سے مراد اتنا وزن ہے جو ايك اونٹ اٹھا سكتا ہے اور جملہ (فان لم تأتونى بہ فلاكيل لكم ...) اور جملہ (منع منا الكيل ) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے ان كى خوراك كے حصے پر پابندى لگادى جب تك وہ بنيامين كو ہمراہ نہيں لائيں گے اسى وجہ سے ( نزاد كيل بعير) سے مراد يہ ہے كہ بنيامين كو ساتھ لے جائيں گے تو خوراك كى پابندى ختم ہونے كے ساتھ ساتھ ہم ايك اونٹ كے وزن كى اضافى خوراك كا بھى تقاضا كريں گے _

۱۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے قحط كے سات سال ميں غلات كى تقسيم كے ليے راشن بندى كا ايك قانون بنايا _

نزداد كيل بعير

كيونكہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ساتھ بنيامين كے آنے سے ايك اونٹ كے وزن كى اضافى خوراك ان كو مل جاتى اس بات سے چند

۵۵۶

نكات كا اشارہ ملتا ہے : ۱_ خوراك كا حصہ ہر ايك كے ليے مخصوص تھا _۲_ اور يہ خوراك كا حصہ ہر ايك اونٹ كا وزن تھا اس سے زيادہ نہيں تھا_

۱۴_ حضرت يوسف(ع) ہر مرحلہ ميں ہر شخص كے ليے ايك اونٹ كے وزن كا غلّہ فروخت كرتے تھے_

نزداد كيل بعير

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف سے قحط كے سات سالوں ميں غلات كى تقسيم كے ليے يہ قانون تھا كہ جو شخص غلّہ كا تقاضا كر تا سہميہ بھى اسى كوديا جاتا_نزداد كيل بعير

اگر كوئي شخص دوسرے كا حصّہ لے سكتا تو (نزاد كيل بعير ) (بنيامين كے آنے سے ايك اونٹ كے وزن كى خوراك كو دريافت كرسكتے ہيں ) يہ بات بنيامين كو مصر لے جانے كے ليے ايك مستقل دليل كے عنوان سےبيان نہ كى جاتى _

۱۶_ اونٹ ،مصر اور قديمى كنعان ميں سامان منتقل كرنے كے سلسلہ ميں ايك رائج وسيلہ تھا _و نزداد كيل بعير

۱۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے پہلے سفر ميں جو غلّہ حاصل كيا تھا اسے قحط كے ليے كافى نہيں سمجھتے تھے لہذا وہ دوسرے حصے كو حاصل كرنے كے ليے مصر كى طرف سفر كرنے كو ضرورى سمجھتے تھے _ذلك كيل يسير

(ذلك) كا اشارہ متاع اور خوراك كى طرف ہے جسكو حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے پہلے سفر ميں حاصل كيا تھا اور ''يسير'' كا معنى كم اور تھوڑا ہے_ يہ بات واضح ہے كہ قحط كے سالوں كے ليے يہ بہت ہى كم تھا_

۱۸_ خوراك مہيا كرنا ضرورى ہے اور اپنى معاش و زندگى كو چلانے ميں سستى و غفلت سے پرہيز كرنا چاہيے_

نمير اهلنا ...ذلك كيل يسير

۱۹_ قحط اور خوراك كى كمى كے دوران اپنى ذاتى ضرورت كے ليے خوراك كو ذخيرہ كرنے كا جائز ہونا_

نمير اهلنا ...ذلك كيل يسير

آل يعقوب:آل يعقوب كا معاش مہيا كرنا ۹

احكام : ۹

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۷، ۱۰، ۱۱، ۱۲;برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ۵، ۶، ۷ ; برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت ۱۰، ۱۲;برادران يوسفعليه‌السلام اور غلات كى كمى ۱۷; برادران يوسفعليه‌السلام اور مصر كا سفر ۱۷;برادران يوسفعليه‌السلام كا اطمينان ۴;برادران يوسفعليه‌السلام كا عہد و پيمان ۱۱;

۵۵۷

برادران يوسفعليه‌السلام كا كردار ۹;برادران يوسفعليه‌السلام كا مال تجارت ۱;برادران يوسفعليه‌السلام كى خوشحالى ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كى زندگى كرنے كى جگہ ۶; برادران يوسفعليه‌السلام كى كوشش ۷; برادران يوسفعليه‌السلام كے تجارت كے مال كا واپس ہونا ۲، ۳، ۴، ۵، ۷;برادران يوسفعليه‌السلام كے سفر كرنے كے دلائل ۱۰، ۱۲

بنيامين :بنيامين كى محافظت۱۱//شتر :شتر كے فوائد ۱۶

غلّات :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں غلات كا سہم معين ہونا ۱۳، ۱۴، ۱۵

قحط :قحط كے دوران ميں خوراك كا ذخيرہ كرنا ۱۹

قديمى مصر:قديمى مصر ميں اونٹ ۱۶; قديمى مصر ميں سامان كو حمل و نقل كرنے كے و سائل ۱۶

معاش:معاش كو مہيا كرنے كى اہميت ۱۸

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كو راضى كرنے كا پيش خيمہ۷

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۷، ۸، ۱۱، ۱۲، ۱۳ ، ۱۷; حضرت يوسفعليه‌السلام اور منت سماجت ۵; حضرت يوسف(ع) كى اقتصادى سياست ۱۳ ، ۱۴ ،۱۵;حضرت يوسف(ع) كى دورانديشى كا متحقق ہونا۸

آیت ۶۶

( قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِّنَ اللّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلاَّ أَن يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ )

يعقوب نے كہا كہ ميں اسے ہر گر تمھارے ساتھ نہ بھيجوں گا جب تك كہ خدا كى طرف سے عہد نہ كرو گے كہ اسے واپس ضرور لائو گے مگر يہ كہ تمھيں كو گھير ليا جائے _اس كے بعد جب ان لوگوں نے عہد كرليا تو يعقوب نے كہا كہ اللہ ہم لوگوں كے قول و قرار كا نگراں اور ضامن ہے (۶۶)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام بالآخر بنيامين كو اپنے بيٹوں كے ہمراہ مصر بھيجنے پر رضامند ہوگئے _

قال لن ارسله معكم حتى تؤتون موثقا

۲_ حضرت يعقوب(ع) نے اپنے بيٹوں كے ہمراہ بنيامين كو مصر بھيجنے كے ليے خدا متعال كے ساتھ عہد و پيمان باندھنے كے ساتھ مشروط كرديا ( خداوند متعال كے ساتھ عہد و پيمان باندھيں اور اس كے نام كى قسم اٹھائيں )

لن ارسله معكم حتّى تؤتون موثقاً من الله

۵۵۸

(موثق) كا معنى عہد و پيمان ہے (لام) جو (لتأتنّنى ) پر داخل ہوا ہے يہ لام قسم ہے يعنى ايسا وعدہ جو قسم خداوندى كے ساتھ ہو (من الله ) كا جملہ اس بات كو بتاتا ہے كہ قسم بھى خداوند متعال كے نام سے اور عہد و پيمان بھى اسى كے ساتھ ہو (حتى تؤتون موثقا ) يعنى قسم اٹھانا اور وعدہ كرنا_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں اپنے بيٹوں كو تاكيد كى كہ ان سے كوئي عذر و حيلہ قبول نہيں كيا جائے گا مگر يہ كہ تم پر كوئي غالب آجائے اور تم بے بس ہوجاؤ_حتى تؤتون موثقا من الله لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام بنيامين اور اس كى سلامتى سے بہت زيادہ محبت كرتے تھے اس كى جدائي ان كے ليے رنج و دكھ كا موجب تھى _لتأتنّنى به

جملہ(انا له لحافظون ) اورگذشتہ آيت ميں (فالله خير حافظاً ) اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،بنيامين كو كسى دكھ و مصيبت ميں نہيں ديكھنا چاہتے تھے _ اور جملہ (لتأتنّنى بہ) (اسكو ميرے پاس لاؤ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ اسكى جدائي حضرتعليه‌السلام كے ليے مشكل تھى اور وہ اسكو اپنے پاس ہى ديكھنا چاہتے تھے_

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں سے اس بات كى توقع نہيں ركھتے تھےكہ وہ بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں اپنے آپ كو خطرے ميں ڈاليں اور اسكو واپس لوٹا نے ميں كوشش كريں _الّا ان يحاط بكم

احاطة (يحاط) كا مصدر ہے جو كسى شے كو اس كے تمام اطراف سے گرفت ميں لينے كو كہتے ہيں _ آيت شريفہ ميں مغلوب ہونے كے معنى كے ليے كناية استعمال ہوا ہے _ يعنى تمام راستوں اور اميدوں كا ختم ہوجانا _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں سے كہا كہ بنيامين كى حفاظت اور واپس لوٹانے كى قسم سے ناتوانى اور عذر كو مستثنى قرار ديں _لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

ظاہر عبارت يہ ہے كہ جملہ (الّا ان يحاط بكم ) قسم (لتأتنّنى بہ ) سے استثناء ہے اسى وجہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو تاكيد كر رہے تھے كہ قسم اٹھاتے وقت مجبورى اور عذر كو استثناء كريں اور اس طرح كہيں (والله لناتينك بہ الّا ان يحاط بنا) (خدا كى قسم بنيامين كو آپ كى

۵۵۹

طرف واپس لائيں گے مگر يہ كہ ہم مجبور و مغلوب ہوجائيں اور تمام راستے ہمارے ليے بند ہوجائيں ) _

۷_ خدا كى قسم اٹھاتے وقت اور اس سے عہد و پيمان كرتے وقت مناسب يہ ہے كہ اپنى ناتوانى كو اس سے استثناء كيا جائے _لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

۸_ عذر اور ناتوانى كى وجہ سے عہد و قسم كو پورا نہ كرنے كى صورت ميں (عقوبت و كفارہ) ضرورى نہيں ہوتاہے_

لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم قال الله على ما نقول وكيل

۹_ الہى ذمہ داريوں و قسم اور عہد كو پورا كرنے كى شرط ، استطاعت ہے _الّا ان يحاط بكم

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے آئين اور ان كے خاندان كے نزديك ،خدا كى قسم اٹھانا اور اس سے عہد و پيمان كى خاص اہميت تھي_حتى تؤتون موثقاً من اللّه ...الاّ ان يحاط بكم

۱۲_ عہد و قسم كى پابندى اور اس كے تقاضے كے مطابق عمل كرنا ضرورى ہوتاہے _حتى توتون موثقاً من الله لتاتنّنى به

۱۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے قسم اٹھائي اور خداوند متعال سے عہد و پيمان باندھا كہ جتنا بھى ممكن ہو بنيامين كى حفاظت كريں گے اور اسكو باپ كے پاس واپس لوٹا ئيں گے_حتى توتون موثقا فلما اتوه موثقهم

۱۴_ حضرت يعقوب(ع) نے خداوند متعال كو اپنے بيٹوں كے قول و قرار پر اپنا وكيل قرار ديا _

قال الله على ما نقول وكيل

۱۵_حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو قسم اور اپنے عہد و پيمان كے توڑنے پر خدا كے عذاب سے ڈرايا_

قال الله على ما نقول وكيل

سياق آيت دلالت كرتى ہے كہحضرت يعقوبعليه‌السلام كااپنے بيٹوں كے قول و قرار پر خداوند متعال كو وكيل قرار دينے كا مقصد يہ تھا كہ وہ ان كو عذاب الہى سے ڈرائے_

۱۶_خداوند متعال كى قسم كو توڑنا اور اس كے عہد و پيمان پر عمل نہ كرنا، خداوند متعال كے عذاب كا سبب بنتاہے_

الله على ما نقول وكيل

۱۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو قسم اور عہد و پيمان پر عمل كرنے كے ليے انہيں خداوند متعال كى نظارت اور گواہى كى طرف متوجہ كيا _الله على ما نقول وكيل

(اللہ ...) والے جملے كو اگر جملہ خبرى فرض كريں تو مذكورہ معنى حاصل ہوتاہے _

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749