تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172758 / ڈاؤنلوڈ: 6319
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آگاہ  رہو جو شخص ہمارے شیعوں میں سے اس ذمہ داری کو ادا کرے اسکی فضیلت اسلام کے تمام دشمنوں سے جنگ کرنے والے مجاہدین  سے ہزار ہزار بار زیادہ ہے چونکہ علماء ہمارے مانے والے  محبین کے دین اور عقیدے کی دفاع اور محافظت کرتے ہیں جبکہ مجاہد ین انکے بدن اور جسم  کی دفاع کرتے ہیں”  اورقیامت کے دن پروردگار عالم کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا کہاں ہے ہیں ایتام آل محمد کی کفالت کرنے والے جو انکی غیبت کے دوران انکی کفالت کرتے تھے( يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ(ص) النَّاعِشُونَ  لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)

پس ائمہ اطہار ؑکے ان نورانی  کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر غیبت میں فقہا ء ؛ علماء اورخصوصاً ولی امر مسلمین کے انکے نزدیک کیا حیثیت ہے اور انکا کہنا نہ  مانا انکے حق میں جفا اور امام  کے نزدیک انکے مقام کا خیال نہ رکھنا اس شخص کو کس مقام میں لا کر کھڑا کردیتا ہے اگر چہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہےکہ ہمارے معاشرے میں  ہم میں سے بعض  خوستہ یا ناخواستہ دشمن کے غلط پڑوپکنڈوں کی  زد میں آکر  امام زمانہ کے مطیع نمائندوں کے خلاف ناحق زبان کھولنے  اور گستاخی کرنے کی جرئت کرتے ہیں جبکہ شیطان اور پیروان  شیطان اپنی تمام تر طاقتوں سمیٹ یہ کوشش  کررہیں  ہیں کہ انھی  پڑوپکنڈوں اور افواہوں کے ذریعے مجھ جیسے کمزور  مؤمنین کو علماء سے فقہاء سے دور کیا جاۓ تاکہ  انھیں دین اور ایمان کے دائرے سے نکالنا آسان ہو جاۓ ، اور ہم خود بھی جانتے ہیں کہ جو لوگ علماء اور ولایت فقیہ سے  کٹ جاتے ہیں   حقیقت میں وہ دین  اور صراط مستقیم سے کٹ جاتے ہیں   اور گمراہ ہو جاتے ہیں-نعوذ باﷲ من ذلک  - خدا ہمیں بچا کے رکھے -

پس ان روایات سےمعلوم ہوتا ہے عصر غیبت میں منتظریں کی  ایک اور اہم ذمہ داری  علماء  ،فقہاء کی اطاعت اورفرمان برداری اور خصوصیت کے ساتھ ولی امر مسلمین کے فرمان پر لببیک کہنا اور انکے نقش قدم پر چلنا ہے ۔جو کہ حقیقت میں خط ولایت  کے ساتھ متمسک  رہنا اور صراط مستقیم پر چلنا ہے - خدایا ہمیں  ہر دور میں اپنی حجت کو تشخیص دینے اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما  - آمین !ثم  آمین!

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 3 ص ۵    

۶۱

۵:  برادران ایمانی کے ساتھ ہمدردی اور معاونت

ائمہ معصومینؐ کے ارشادات کے مطابق ہر دور کے امام کو اپنے ماننے والے مؤمنین پر ایک مہربان اور فداکار باپ کی حیثیت حاصل ہے ، اور تمام مؤ منین کو انکے  فرزندی  کا شرف حاصل ہے  اور یہی وجہ ہے امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے  دوران غیبت میں مؤمنین کو ایتام آل محمد سے پکارا گیا ہے، يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)   اورکسی مؤمن بھائی کے ساتھ احسان وہمدردی ، اسکے ساتھ تعاون کرنے کو امام زمانہ کے ساتھ تعاون کرنے اور انکے حق میں ہمدردی سے پیش آنے  اسی طرح کسی مؤمن  بھائی کے حق کشی ، اسکے ساتھ بے دردی وبے اعتنائی سے پیش آنے کو امام زمانہؑ پر ظلم وجفا اور انکے ساتھ بے اعتنائی  سے پیش آنے کے برابر شمار  کیا گیا ہے ۔

لہذا منتظرین کی ایک اور بہت ہی اہم ذمہ داری عصر غیبت میں ہر ممکنہ راستوں سے برادران ایمانی کے معاشتی ،سماجی ،اجتماعی اقتصادی ، معنوی اور دیگر مختلف قسم کے مشکلات اور گرفتاریوں کو حل کرنے اور انکی ضروریات پورا کرنے کے لیے  جد وجہد کرنا ہے - چنانچہ اسی اجتماعی ذمہ داری کی  اہمیت اور اس پر عمل کرنے والوں کی خدا  و رسول اور  انکے حقیقی جانشین کے نزدیک قدر ومنزلت کو بیان کرتے ہوۓ  جناب شیخ صدوق نے سورہ عصر کے تفسیر میں امام صادق        سے نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں :(والعصر انّ الإنسان لفی خسر ) میں عصر سے مراد قائم کے ظھور کا زمانہ ہے  اور(إنّ الإنسان لفی خسر) سے مراد ہمارے دشمن ہیں اور(إلاّ الذین آمنوا ) سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنہون نے ہماری آیات کے زریعے  ایمان لائیں ہونگے  - اور ( وعملواالصالحات ) یعنی برادران دینی کے ساتھ ہمدردی  اورتعاون کرتے ہیں(وتواصوا بالحق ) یعنی امامت اور(وتواصوا بالصبر )

--------------

(1):-    مستدرکالوساةل :ج 17 ص 318

۶۲

زمانہ فترت یعنی وہی غیبت کا زمانہ ہے (جس میں امام  غائیب پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس راہ  مین پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتے ہیں )(1) یعنی اس سورہ مبارکہ میں نجات یافتہ مؤمنین سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنھون نے دوران غیبت میں اپنے مالی ،معنوی اسطاعت کے زریعے پسماندہ ،بے کس اور ناتوان مؤمنین کےہم دم  اور فریاد رس رہے ہیں  ۔

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں امام صادق        اور امام کاظم          دونوں سے روایت ہے  فرماتے ہیں :ُ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَی زِيَارَتِنَا فَلْيَزُرْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَصِلَنَا فَلْيَصِلْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنا (2) جو شخص ہم اہل بیت سے تعاون کرنے یا صلہ کرنے سے معذور ہو اسے چاہیے ہمارے چاہنے والوں کے ساتھ نیکی اور تعاون کرے  تو اسے  ہمارے ساتھ تعاون کرنے اور نیکی کرنے کا ثواب عطا ہو گا،اسی طرح اگر ہماری زیارت سے محروم ہیں تو ہمارے دوستوں اوراللہ کے  صالح بندوں کی زیارت کریں تو  خدا    اسے ہماری زیارت کرنے کا ثواب  عطا کرے گا

 چنانچہ  اما م موسی کاظم         سے روایت ہے فرماتے ہیں :مَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ الْمُؤْمِنُ فِی حَاجَةٍ فَإِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَی سَاقَهَا إِلَيْهِ فَإِنْ قَبِلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَصَلَهُ بِوَلَايَتِنَا وَ هُوَ مَوْصُولٌ بِوَلَايَةِ اللَّهِ وَ إِنْ رَدَّهُ عَنْ حَاجَتِهِ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَی قَضَائِهَا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَ کی ولایت خدا کی ولایت سے متصل ہے  )لیکن اگر اسے رد کر لے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگاريْهِ شُجَاعاً مِنْ نَارٍ يَنْهَشُهُ فِی قَبْرِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَغْفُوراً لَهُ أَوْ مُعَذَّباً فَإِنْ عَذَرَهُ الطَّالِبُ كَانَ أَسْوَأَ حَالا   (3) کسی کے پاس اسکا مؤمن بھائی کوئی نہ کوئی حاجت لے کر آۓ تو اسے  یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ  خدا کی طرف سے رحمت ہے جو اس پر نازل ہوئی ہے  پس اس حالت میں اگر اسکی حاجت پوری کر دے تو اسے ہماری ولایت کے ساتھ متصل کیا ہے  اور بے شک اسے  خدا کی ولایت حاصل ہوئی ہے (چونکہ  اہل بیت اطہارؑ  کی ولایت خدا کی ولایت کا ایک حصّہ ہے لہذا جو اہل بیت ؑؑ اطہار کی ولایت کے دائرے میں داخل ہو جائے وہ خدا کی ولایت میں آگیا ہے )

--------------

(1):- صدوق : اکمال الدین:ج۲ ،ص ۶۵۶ -  

(2):- طوسی ،تہذ یب ج ۶ ،ص۱۰۴  اور کامل زیارات :ص ۳۱۹ - 

(3):- کلینی: اصول الکاف یج : 2 ص : ۶ 19 

۶۳

لیکن اگر اسے رد کر دے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگار عالم اسکے قبرمیں آگ سے  بنائے  ہوئے ایک سانپ  کو اس پر مسلط کرۓ گا جوقیامت تک اسے ڈنستا رہے گا چاہیے اسے خدا معاف کرے یا نہ کرے اور قیامت کے دن صاحب حاجت اسکا عذر قبول نہ کرے تو اسکی حالت پہلے سے بھی  زیادہ بدتر ہو جاۓ گی-

اسی طرح  متعدد روایات میں کسی مومن بھائی کی حرمت کا خیال نہ رکھنا اسکے ساتھ نیک برتاؤ سے پیش نہ آنا اور اسکے ساتھ تعاون نہ کرنا ائمہ علیہم السلام کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ان مقدس ذوات کی بے حرمتی کرنے کےبرابر جانا گیا ہے چنانچہ ابو ہارو ن نے چھٹے امام سے نقل کیا ہے کہتا ہے  :قَالَ قَالَ لِنَفَرٍ عِنْدَهُ وَ أَنَا حَاضِرٌ مَا لَكُمْ تَسْتَخِفُّونَ بِنَا قَالَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ خُرَاسَانَ فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ نَسْتَخِفَّ بِكَ أَوْ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ أَمْرِكَ فَقَالَ بَلَی إِنَّكَ أَحَدُ مَنِ اسْتَخَفَّ بِی فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ أَسْتَخِفَّ بِكَ فَقَالَ لَهُ وَيْحَكَ أَ وَ لَمْ تَسْمَعْ فُلَاناً وَ نَحْنُ بِقُرْبِ الْجُحْفَةِ وَ هُوَ يَقُولُ لَكَ احْمِلْنِی قَدْرَ مِیلٍ فَقَدْ وَ اللَّهِ أَعْيَيْتُ وَ اللَّهِ مَا رَفَعْتَ بِهِ رَأْساً وَ لَقَدِ اسْتَخْفَفْتَ بِهِ وَ مَنِ اسْتَخَفَّ بِمُؤْمِنٍ فِینَا اسْتَخَفَّ وَ ضَيَّعَ حُرْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ  ” (1) ایک دفعہ امام صادق       نے کچھ لوگ جوآپ کے   پاس بیٹھے ہوۓ تھے او رانکے ساتھ میں بھی تھا ،ان سےکہا تمھیں کیا ہو گیا ہے ہماری حرمت کا خیال نہیں رکھتے ہو ،تو اہل خراسان کا رہنے والا  ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہم آپکو سبک شمار کرے یا آپکے فرمان میں کسی چیز کی بے اعتنائی کرے ، امام نے فرمایا ہاں انھی میں سے ایک تم بھی ہو جو ہمارے  لاج نہیں رکھتے ،اس شخص نے دوبار ا    کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپکی لاج نہ رکھوں ،فرمایا چپ ہو جاؤ   کم بخت  کیا تم نے اس شخص کی آواز نہیں سنی تھی اس وقت جب ہم جعفہ کے نزدیک تھے اور وہ تم سے کہ رہا تھا کہ مجھے صرف ایک میل تک اپنے سواری پر بٹھا کر لے چلو خدا کہ قسم میں بہت ہی تھکا ہوں ،خدا کی قسم تم نے سر اُٹھا کر  بھی اسکی طرف نہیں دیکھا اس طریقے سے تم نے اسکی بے اعتنای کی ہے اور  کوئی شخص کسی  مومن کی استخفاف  کرے اسنے ہمارے بے اعتنائی کہ ہے ،اور خدا کی حرمت ضائع کر دی ہے ۔

--------------

(1):- کلینی :روضۃ الکافی،ج۸، ص ۱۰۲ -

۶۴

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں جابر جعفی امام محمد باقر        سے نقل کرتے ہیں: و نحن جماعة بعد ما قضینا نسكنا، فودعناه و قلنا له أوصنا یا ابن رسول الله. فقال لیعن قویكم ضعیفكم، و لیعطف غنیكم علی فقیركم، و لینصح الرجل أخاه كنصیحته لنفسه.... ، و إذا كنتم كما أوصیناكم، لم تعدوا إلی غیره، فمات منكم میت قبل أن یخرج قائمنا كان شهیدا، و من أدرك منكم قائمنا فقتل معه كان له أجر شهیدین، و من قتل بین یدیه عدوا لنا كان له أجر عشرین شهیدا. (1) کہ ہم نے مناسک حج اکٹھے  بجھا   لا نے  کے بعد جب   امام سے الگ ہونے کو تھے آپ سے عرض کیا اے فرزند رسول    ہمارے لیے کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا تم میں سے جو قوی ہے  قدرت ومقام رکھتا ہے اسکی ذمہ داری ہے کمزور لوگوں کی مدد کرے اور جو مالدار ہے فقیروں اور بے کسوں پر ترس کریں انکی نصرت کریں ،اوراپنے  مومن بھائی کے ساتھ اس طرح خیر خواہی سے پیش آے  جس طرح اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہ ہے .....اور اگر تم نے ہماری نصیحت پر عمل کیا  تو غیروں میں سے شمار نہیں ہوگے- اب اس حالت میں تم میں سے جو شخص  قائم آل محمدکے قیام کرنے سےپہلے مر جاۓ تووہ شہید کی موت مرا  ہے ،اور جو  اپنی زندگی میں انھیں درک کرلے اور انکے ساتھ جھاد کرے تو اسے دو شہید کا ثواب عطا کرے گا ،اور جو شخص انکے ساتھ ہوتے ہوے ہمارے کسی دشمن کو قتل کرلیں تو اسے بیس ۲۰ شہید کا اجر دیا جاۓگا- پس ان روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ منتظرین کی اپنے مومن بھائی کی نسبت کیا ذمہ داری ہے اور اس اجتماعی  ذمہ داری کی کیا اہمیت ہے کہ جس کا خیال رکھنا  ہم سب کا شرعی اور اخلا قی فریضہ ہے - 

۶: خود سازی اور دیگر سازی

منتظرین کی ایک اور اہم ذمہ داری خودسازی و اپنے جسم وروح کی تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر سازی  اور ہم نوع کی تربیت بھی ہے ،خود سازی اور دیگر سازی ایک اہم دینی وظیفہ ہونے کے ساتھ بزرگ ترین اور عالی ترین  انسانی خدمات میں سے بھی شمار ہوتا ہے

--------------

(1):- امالی طوسی ،ص ۲۳۲ اور بحار انوار ،۵۲ ،ص ۱۲۲ ،ح ۵ - 

۶۵

اور اسلامی تعلیمات میں بھی حضرت ولی عصر ؑاور انکے جان بہ کف آصحاب  تاریخ انسانیت کے پرہیز گار ؛متقی اور صالح ترین افراد ہونگے چنانچہ انکے توصیف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون٭  (1)   اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔

 اسی طرح احادیث معصومین میں بھی امام عصر ؑکے آصحاب وہ لوگ ہونگے جنھیں خدا ورسولؐ اور ائمہ معصومینؑ کی صحیح معرفت  حاصل ہوگئی ، اخلاق اسلامی سے متخلق؛ نیک کردار کے مالک ؛عملی میدان میں ثابت قدم و پائیدار ؛ دستورات دینی کے مکمل پابند اور فرامین معصومینؑ کے سامنے سر تسلم خم ہونگے ۔

چنانچہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نھج البلاغہ میں انکے توصیف میں فرماتے ہیں :وَ ذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِیهِ إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وَ إِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ أُولَئِكَ مَصَابِیحُ الْهُدَی وَ أَعْلَامُ السُّرَی لَيْسُوا بِالْمَسَايِیحِ وَ لَا الْمَذَايِیعِ الْبُذُرِ أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّهُ لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ وَ يَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه‏. “ (2) اخری زمانہ  وہ زمانہ ایسا ہو گا جس میں صرف وہ مؤمن نجات پاسکے گا کہ جو گمنام اور بے شر ہو گا مجمع اسے  نہ پہچانے اور غائب ہو جاۓ تو کوئی اسکی  تلاش نہ کرۓ یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لیۓ  نشانیان  منزل ہوں گۓ  نہ ادھر ادُھر   لگاتے پھرین گۓ  اور نہ لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریں گے ؛ ان کے لئے اﷲ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا

--------------

(1):- انبیاء :۱۰۵ - 

(2):- نہج البلاغ ہ،خ ۱۰۳ ،ص ۲۰۰ ،ترجمہس ید ذیشان حیدر جوادی - 

۶۶

اسی طرح صادق آل محمد  سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : “جو شخص چاہتا ہے کہ حضرت قائم  ؑکے اصحاب میں سے ہوں اسے چاہئے انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ پرہیزگاری اور نیک اخلاق کو پناۓ ،پھر اگر وہ اس حالت میں انکے قیام سے پہلے مر جاۓ اور بعد میں ہمارا قائم قیام کرۓ تو اسے ایسا اجر دیا جاۓگا جیسے اس نے حضرت کو درک کیا ہو.(1) اور خود معصومینؑ کے فرمان کے مطابق مبغوض ترین فرد وہ شخص ہے جو مؤمن اور امام زمانہ کے منتظر ہونے کا دعوا کرے لیکن قول وفعل میں انکے دیے ہوۓ دستورات اور دینی قوانین کے مخالفت سمت قدم اٹھاۓ چنانچہ اسی نقطے کی طرف اشارۃکرتے ہوۓ امام ذین العابدین فرماتے ہیں :لَا حَسَبَ لِقُرَشِيٍّ وَ لَا لِعَرَبِيٍّ إِلَّا بِتَوَاضُعٍ وَ لَا كَرَمَ إِلَّا بِتَقْوَی وَ لَا عَمَلَ إِلَّا بِالنِّيَّةِ وَ لَا عِبَادَةَ إِلَّا بِالتَّفَقُّهِ أَلَا وَ إِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّهِ مَنْ يَقْتَدِی بِسُنَّةِ إِمَامٍ وَ لَا يَقْتَدِی بِأَعْمَالِهِ.” (2)   کسی کو عربی اور قریشی ہونے کی بنا پر دوسروں پر کسی قسم کی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے سواۓ تواضع کے اورکسی کو کوئی کرامت حاصل نہیں ہے الا  یہ  کہ تقوای اختیار کرے  اور کوئی عمل نہیں ہے سواۓ نیت کے اور کوئی عبادت نہیں ہے سواۓ تفقہ کے (یعنی عبادت درست معرفت کے ساتھ ہے ) پس ہو شار رہو!پروردگار عالم کے نزدیک مبغوض ترین شخص وہ ہے جو ہماری ملت اور مذہب پر ہو لیکن عمل میں ہماری پیروی  واقتدا ء نہ کرے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :إِنَّا لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤْمِناً حَتَّی يَكُونَ لِجَمِیعِ أَمْرِنَا مُتَّبِعاً مُرِیداً أَلَا وَ إِنَّ مِنِ اتِّبَاعِ أَمْرِنَا وَ إِرَادَتِهِ الْوَرَعَ فَتَزَيَّنُوا بِهِ يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ وَ كَبِّدُوا أَعْدَاءَنَا بِهِ يَنْعَشْكُمُ اللَّهُ  (3) ہم کسی کو مومن نہیں جانتے جب تک وہ ہماری مکمل پیروی نہ کرۓ اور یہ جان لو ہماری پیروی پرہیز کاری اور تقوای اختیار کرنے میں ہے ،پس  اپنے آپکو زہد و  تقوای کے ذریعے زینت  دو  تاکہ خدا تمھیں  غریق رحمت کرۓ ،اور اپنے تقوای کے ذریعے ہمارے دشمنوں کو سختی وتنگی میں ڈال دو تاکہ خدا تمھیں عزت کی زندگی عطا کرے-

--------------

(1):- غیبۃ نعمانی :ص   ۱۰۶ 

(2):- کلینی :روضۃ الکافی ،ص ۲۳۴ ،ح۳۱۲ - 

(3):- کلینی :اصول کاقی ،ج۲ ،ص ۷۸ ،ح۱۳ - 

۶۷

پس ان روایات اور دوسری متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نے ان مقدس ہستیوں کو اپنے مولا ومقتدا قبول کیا ہے تو  وہ ذوات بھی ہم سےیہ توقع رکھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم عمل وکردار میں انکے  نقش قدم پر چلیں اسی لیے معصومینؑ فرماتے ہیں :کہ تم ہمارے لئے  زینت  کا باعث بن جاؤ ننگ وعار کی باعث مت بنو (1)

۷: شبہات اور بدعتوں کا مقابلہ

زمان غیبت میں ہم سب کی  خصوصاً  علماءاور بیدار طبقے کہ ایک اہم فرائض معاشرے میں خود غرض یا سادہ لوح دوستوں کے ہاتھوں مختلف قسم کےبدعتوں اور ان شبھات کا مقابلہ کرنا ہے جو امام زمان     ہ   کی غیبت کی وجہ سے انکے بارے میں وجود میں آئی ہیں چنانچہ امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِی فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِیهِمْ وَ الْوَقِیعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِی الْفَسَادِ فِی الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِی الْآخِرَةِ ” (2) میرے بعد اہل تریدد (یعنی جو  ائمہ کی ولایت و امامت کے متعلق شک وتردید کا اظہار کرے)اور اہل بدعت (یعنی دین میں نئی چیز ایجاد کرنے والا جسکا دین سے کوئی ربط نہ ہو)کو دیکھیں تو ان لوگوں سے اپنی برائت و بیزاری کا اظہار کرو ،اور اس طرح انکے خلاف پروپکنڈہ کرو  کہ آیند ہ کوئی اسلام میں اس طرح کی فساد پھلانے کی جرئت نہ کرۓ اور لوگ خود بخود ان سے دور ہو جائیں اور انکی بدعتوں کو نہ اپنائیں اگر ایسا کیا تو پروردگار عالم اسکے مقابلے میں تمھیں حسنہ دیا جاۓ گا اور تمھارے درجات کو بلند کر ے گا ۔

اسی طرح بعض شبھات دشمنوں نے خود امام زمانہؑ کے بارے میں  لوگوں کے  حضرت مہدی پر عقیدے کو کمزور کرنے اور اس میں خلل  پیدا کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے جیسا کہ آج کل نٹ پر ۱۰  ہزارسے زیادہ شبھات انکے متعلق دیا گیا ہے؛   تو علماء کی ذمہ داری ہے کہ ان شبھات کا مقابلہ کریں

--------------

(1):-کلینی: کافی ،ج ۲ ، ص ۷۷ ،ح۹ - 

(2):- کلینی : اصول کافی،ج۲ ،ص ۳۷۵ ،ح ۴

۶۸

 اور بطوراحسن  جواب دیں  اور  لوگوں کو امام زمانہ  ہ      کے مقدس وجود کی طرف جذب ہونے کا زمینہ فراہم کریں لہذا ہماری اس اہم زمہ داری اور عصر غیبت میں رونما  ہونے والے شبھات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امام صادق          فرماتے ہیں :.....  فإیاكم و الشك و الارتیاب و انفوا عن أنفسكم الشكوك و قد حذرتكم فاحذروا أسأل الله توفیقكم و إرشادكم (1) خبردار شک وریب سے پرہیز کرنا ،(یعنی انکے غیبت اور ظہور کے بارے میں) اپنے دلوں سے شکوک وشبھات باہر نکال دو میں نے تم لوگوں کو برحزر کردیا ہے لہذا تم لوگ اس قسم کے شک وتردید سے باز رہو  (چونکہ اس  امر میں شک صراط مستقیم میں شک کے برابر ہے ) میں اﷲ تعالی سے تمھارے لئے توفیقات اور ہدایت کی دعا کروں گا-

اسی طرح رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں:......... یا جابر إن هذا الأمر أمر من أمر الله و سر من سر الله مطوی عن عباد الله فإیاك و الشك فیه فإن الشك فی أمر الله عز و جل كفر (2) اے جابر انکی غیبت اورظہور میں شک کرنا  خدا سے کفر اختیار کرنے کے برابر ہے -

اورہم سب جانتے ہیں کی آج کا دور ایسا دور ہے جس میں ایک طرف دشمن مختلف شبہات اور غلط پروپکنڈوں کے ذریعے لوگوں کو عقیدہ انتظار اور اسکی حقیقت سے دوررکھنے اور انکے دلوں میں شک وتردید پیدا کرنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف جعلی اور فرصت طلب افراد امام زمانہ ؑکے مقدس نام پر مؤمنین کے انکی نسبت صادقانہ عقیدے سے سؤء استفادہ کرنے اور مختلف قسم کی دکانین کھولنے کی کوشش میں لگے ہوۓ ہیں لہذا علماو اور ذمہ دار افراد کی ذمہ داری ان دونوں حدود  پر دشمن کے مقابلہ کرنا ہے

--------------

(1):- الغیبةللنعمان ی      ص     150 ،ح ۸ -    

(2):- صدوق اکمال الدین : ج ۱ ، ص ۲۸۷ - 

۶۹

۸:بے صبری سے پرہیزکرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر غیبت مشکلات اور مصائب کے ہجوم لانے کا زمانہ ہے اور مومنین سے مختلف قسم کی سختیوں اور گرفتاریوں کے ذریعے سے امتحان لیا جاۓ گا تاکہ اس طرح نیک وبد ؛صادق و کاذب اور مومن ومنافق میں تمیز ہو جاۓ اور یہ ایک سنت الہی ہے اس امت یا اس زمان کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ گزشتہ امتوں سے لیا گیا ہے اور آئیند آنے والے نسلوں سے بھی تا قیامت تک مختلف ذریعوں سے امتحان لیا جاۓ گا ۔ چناچہ اسی سنت الھی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :ما كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنینَ عَلی‏ ما أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّی يَمیزَ الْخَبیثَ مِنَ الطَّيِّبِ.....٭  ” (1) اﷲ تعالی مومنین کو منافقین سے جس حالت میں نا مشخص ہے نہیں رکھا جاۓ گا ،یہاں تک (امتحان کےذریعے )خبیث اور طیب میں تمیز پیدا ہو جاۓ ۔ اسی طرح سورہ   عنکبوت کی آیت  نمبر۲   میں فرماتا ہے :أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذینَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبینَ   (2) “کیا لوگوں نے  یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دۓ جائیں گے کہ وہ یہ کہے کہ ہم  ایمان لے آۓ ہیں اور انکا امتحان نہیں ہو گا ٭ بشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اﷲ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں ” 

--------------

(1):- سورہآل عمران : ۱۷۹ - 

(2):- سورہعنکبوت : ۲ -۳ - 

۷۰

اورناطق قرآن علی ابن ابی طالبؑ اسی بارے میں فرماتے ہیں :.....ِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ وَ لَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وَ قَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ إِنَّ فِی ذلِكَ لَآیاتٍ وَ إِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِین (1)   لوگو اﷲ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن کبھی یہ ضمانت نہیں دیا ہے کہ تم سے امتحا ن بھی نہیں لیا جاۓ گا ، اور خدا سب سے بڑکر سچا ہے ،یوں فرماتا ہے “ بے شک ان حوادث اور وقعات میں علامتیں اور نشانیان ہیں اور ہم اچھے اور بُرے سب بندوں سے امتحان لیتے ہیں ”-

اور انھیں نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ۓ اما م صادق        فرماتے ہیں :ہمارے قائم کے ظھور سے پہلے مومنین کے لئے خدا  کی  جانب سے کچھ نشانیاں ہیں ،عرض ہوا  یا ابن رسول اﷲ        وہ نشانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا وہ نشانیاں اس کلام الھی میں ذکر ہوئی ہیں اور اس آیت کی تلاوت کی“وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرینَ٭  “ (2) اور یقیناً  ہم تم سے خوف، بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے امتحان لیا جاۓ گا اور اے پیغمبر(ص) آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ” بے شک تم سے امتحان لیا جاۓ گا یعنی حضرت قائم کے خروج سے پہلے مومنین سے سلاطین جور  سے  ترس ،منگائی ،گرانی کی وجہ سے بھوک ؛گرسنگی ،تجارت میں ورشکستگی و ناگہانی موت اورفصل وکاشت میں نقصان کے ذریعے امتحان لیا جاۓ گا ،پھر فرمایا اے محمد بن مسلم یہ ہے اس آیت کی تاویل جسکی تاویل(وَ ما يَعْلَمُ تَأْویلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَ ما يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْباب‏ (3) سواۓ خدا اور راسخین  فی علم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(1):- نہج البلاغ ہخطب ہ ۱۰۳ اردو ترجمہس ید ذیشان حیدر - 

(2):- بقرہ: ۱۵۵ - 

(3):- آل عمران :۷ - 

۷۱

اور امام زمانہؑ کے طول غیبت کے دوران  مختلف قسم کےسختیوں ا ورمصیبتوں پر صبر کرنے والوں کی توصیف میں پیغمبر اکرم(ص)  فرماتے ہیںَّ:قَالَ(ص) طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ... (1) خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں.اور متعدد روایات میں انکی غیبت کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں واذیتوں پر بے صبری کرنے سے منع کیا گیا ہے اور قضاء وقدر کے سامنے تسلم ہونے کا حکم دیا ہے جیسا کہ شیخ کلینی نے اپنی سند امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے حضرت نے فرمایا :

كَذَبَ الْوَقَّاتُونَ وَ هَلَكَ الْمُسْتَعْجِلُونَ وَ نَجَا الْمُسَلِّمُونَ  (2) ظہور کے وقت تعین کرنے والے ہلاکت میں ہوں گے لیکن قضاوقدر الہی کے سامنے تسلیم ہونے والے نجات پائیں گے

۹: جوانوں کی مخصوص ذمہ داری

اسلامی تعلیمات میں جوانی اور جوان طبقے کو خاص اہمیت اور مخصوص مقام حاصل ہے ،انکے ساتھ الفت ،عطوفت کے ساتھ پیش آنے اور ہمیشہ اچھی نگاہوں سے دیکھنے پر زور دیا گیا ہے جس طرح رسول اکرم  (ص)کا فرمان ہے:اوصیكم بالشباب خیراً فإنّهم ارقُّ افئدةً انّ اللّه بعثنی بالحق بشیراً و»نذیراً  فحالفنی الشباب وخالفنی الشیوخ .تمھیں وصیت کرتا ہوں ان جوانوں کے بارے میں جو پاک دل ہوتے ہیں ،جب اﷲ تعالی نے مجھے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا تو یہ جوان تھے جنھوں نے میرے ساتھ دیا جبکہ عمر رسیدہ افراد نے میری مخالفت کی ۔

--------------

(1):- مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ - 

(2):- الکاف یج : 1 ص : 368

۷۲

پس کلام رسول پاک (ص) سےہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جوانوں کو بری نگاہوں سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انکے بارے  میں نیک سوچ رکھنا چاہیے اور تاریخ اسلام اس بات پر زندہ گواہ ہے کہ جب نبی اکرم(ص) نے ذوالعشیرمیں قریش کو توحید اور دین کی طرف پہلی بار دعوت دیا تو جس شخص نے سب سے پہلے آنحضرت(ص) کی دعوت پر لبیک کہا وہ علی ابن ابی طالب ۱۰ سالہ نوجوان تھے جبکہ بزرگان قریش آخری دم تک آپ کے مخالفت کرتے رہیں ۔

جوانی کی قدر وقیمت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود امام زمانہؑ  ظہور کریں گے تو  آپ جواں  ہونگے  جیسا کہ امیر مومنین فرماتے ہے-مہدیؐؑ  قریش کے خاندان کا  ایک دلیر ؛ شجاع اور تیز ہوش جوان ہونگے تیس یا چالیس سے کم عمر میں ظہور کریں گے - اسی طرح امام زمانہ  ؑکا خاص سفیر نفس زکیہ جنہیں رکن مقام کے درمیان شہید کیا جاۓ گا ایک جوان ہو ں گئے ـ   اما م صادق        اس بارے میں فرماتے ہیں :امام زمانہ کے ظہورکے وقت انکی طرفسے ایک جوان شخص سفیرکے عنوان سے منتخب ہونگے تاکہ امام ؑکے پیغام کو اہل مکہ تک پہنچا  ۓ اور انھیں آنحضرت کی حکومت کے پرچم تلے آنے کی دعوت دے لیکن مکہ کے حکمران اسے رکن  و مقام کے درمیان شھید کریں گے(1)   اسی طرح مختلف روایا ت میں آیا ہے کہ امام عصر کے ۳۱۳  اصحاب میں سے بہت ہی کم افراد کے سب جوان ہونگے  -چناچہ امیر مومنین        فرماتے ہیں  - امام مہدی ؑکے اصحاب سارے جوان ہونگے ان میں کوئی بھوڑے نہیں ہونگے سواۓ آنکھ میں سرمہ اور کھانےمیں نمک کی برابرکے :أصحاب المهدی شباب لا كهول فیهم إلا مثل كحل العین و الملح فی الزاد و أقل الزاد الملح (2)   اور کتنا ہی کم ہو تا ہے کھانے میں نمک  کی مقدار ۔

--------------

(1):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۶۴ -

(2):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۷۶  اور بحار انوار ج ۵۲ ، ص ۳۳۳ -

۷۳

 اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اما م زمانہؑ کے غیبی ندا پر سب سے پہلے  لبیک کہنےوالے اکثر جوان ہی ہونگے  امامؑ صادق  فرماتے ہیں: امام ؑکے ظہور کرنے کے بعد جب انکا آسمانی ندا انکے کانوں تک پہنچ جاے گی تو اس حالت میں لبیک کہیں گے کہ اپنے  اپنے چھتوں پر آرام کررہے ہونگے اور بغیر کسی آمادگی کے حرکت کریں گے اور صبح ہوتے ہوتے اپنے امامؑ کی زیارت سے شرف یاب ہونگے -  (1)

سوال نمبر 14: کیا عصر غیبت میں حضرت مھدی  سے ملاقات ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کیسے ؟

جواب : کثرت روایات اور مستند تاریخی حوالے یہ یہ بات ثابت ہے کہ غیبت صغری میں حضرت مھدی  کے نائبین خاص کے ذریعہ آپکے مانے والے آپ سے رابطہ برقرار کیے ہوے تھے او ر ان میں سے بعض افراد امام  کے حضور میں شرف یاب بھی ہوئے ہین ۔لیکن غیبت کبری میں یہ رابطہ ختم ہو گیا ہے اور امام عصر  سے عام طور پر ملاقات کرنا عادتا ً ناممکن ہے چو نکہ بنا اور وظیفہ آپکے لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہنا ہے لیکن اسکے باوجود عقلاً اور شرعاً دونو ں اعتبار سے آپکی دیدار سے مشرف ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے جسکے تقریباً تمام علماء متقدمیں اور متاخریں سب متفق ہیں ۔جیسا کہ شیخ طوسی قدس سرہ فرماتے ہیں : ہم ممکن سمجھتے ہیں کہ بہت سے اولیا اور انکی امامت کے ماننے والے حضرات انکی خدمت میں پہونچیں اور انکی ہستی سے استفادہ کریں(2)    اسی طرح سیّد ابن طاووس علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : امام کی زیارت کے راستے ہر اس شخص کے لیے کھلا ہوا ہے جسے خدا اپنے بے انتہا احسان اور انکی زیارت عنایت فرمائے(3) :  اور تاریخ میں بھی انتہائی باوقا ر افراد  اور عظیم الشان علماء کی امام زمانہ  سے ملاقات کے واقعات نقل ہوئے ہیں (4)

--------------

(1):- نعمانی الغیبہ :ص ۳۱۶  ،باب ۲۰ ح ۱۱-

(2):- کلمات المحقیقن :ص533

(3):- الطرائف : ص185 

(4):- دیکھئے:جنة الماویٰ،اور نجم الثاقب،محدث نوری

۷۴

یہاں ضروری ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کے بارے میں بحث کے حوالے سے درج ذیل نکات پر توجہ دی جائے:

پہلا نکتہ یہ ہے کہ امام  علیہ السلام  کی ملاقات کبھی ایسے لوگوںکی نصرت اور مدد کے لئے ہوتی ہے کہ جو پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تنہائی و بے کسی کا احساس کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کوئی حج کے سفر میں راستہ بھٹک گیا اور امام  علیہ السلام  یا ان کے اصحاب میں سے کسی صحابی نے اسے سرگردانی سے نجات دی اور امام  علیہ السلام سے اکثر ملاقاتیں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔

لیکن بعض ملاقاتیں عام حالات میں بھی ہوئی ہیں اور ملاقات کرنے والے اپنے مخصوص روحانی مقام کی وجہ سے امام  علیہ السلام  کی ملاقات سے شرفیاب ہوئے ہیں۔لہٰذا مذکورہ نکتے کے مد نظر توجہ رہے کہ ہر کسی سے امام  علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں خصوصاً آج کل بعض لوگ امام زمانہ  علیہ السلام  کی ملاقات کا دعویٰ کرکے اپنی دُکان چمکا کرشہرت اور دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی اور عقیدہ و عمل میں انحراف کی طرف لے جاتے ہیں، بعض دعاؤں کے پڑھنے اور بعض ایسے اعمال انجام دینے کی دعوت دیتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے اذکار اور اعمال کی کوئی اصل اور بنیاد بھی نہیں ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام  کے دیدار کا وعدہ  دے کر ایسی محفلوں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جن کے طور طریقے دین یا امام زمان علیہ السلام     کے لئے قابل قبول نہیں اوریوں وہ لوگ امام غائب کی ملاقات کو سب کے لئے ایک آسان کام قرار دیتے ہیں، جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام  علیہ السلام  خداوندعالم کے ارادہ کے مطابق مکمل طور پر غیبت میں ہیں اور صرف ایسے گنتی کے چند افراد ہی کی امام  علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے جن کی نجات فقط لطف الٰہی کے اس مظہر یعنی اما م عصر کی براہ راست عنایت پرمنحصر ہوتی ہے۔

۷۵

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام  کی ملاقات صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب امام زمانہ  علیہ السلام کی نظر میں کوئی مصلحت اس ملاقات میں ہو،

لہٰذا اگرکسی عاشق امام  علیہ السلام کو اس کے تمام تر اشتیاق ورغبت اور بھرپور کوشش کے باوجودبھی امام سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکے تو اس کوما یوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اورملاقات نہ ہونے کو امام  علیہ السلام کے لطف و کرم کے نہ ہونے کی علامت قرار نہیں دینا چاہئے، جیسا کہ جو افراد امام  علیہ السلام  کی ملاقات  سے فیض یاب ہوئے ہیں ان کی ملاقات کو ان کے تقویٰ اور فضیلت کی علامت قرارنہیں دیا جا سکتا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ اگرچہ امام زمانہ  علیہ السلام کے جمالِ پر نور کی زیارت اور دلوں کے اس محبوب سے گفتگو اور کلام کرنا واقعاً ایک بڑی سعادت ہے لیکن آئمہ  علیہم السلام خصوصاً امام عصر علیہ السلام  اپنے شیعوں سے یہ نہیں چاہتے کہ ان سے ملاقات کی کوشش میں رہیں اور اپنے اس مقصود تک پہنچنے کے لئے  چِلّہ  کاٹیں، یا جنگلوں میں مارے مارے پھریں؛ بلکہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ ہمارے شیعوں کو ہمیشہ اپنے امام کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرنا چاہئے اور آپ کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اپنی رفتار و کردار کی اصلاح کی کو شش کرنا چاہئے اورآپ کے عظیم مقاصد کے حصول کے راستے پر قدم بڑھانا چاہئے تاکہ جلد از جلدبشریت کی اس آخری امید کے ظہور کا راستہ ہموار ہوجائے اور کائنات ان کے وجود سے براہ راست فیضیاب ہو۔خود امام مہدی  علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَکثِرُْوا الدعَاء َ بِتَعجِیلِ الفرجِ، فانَّ ذَلکَ فَرَجُکُم'' (1)  

--------------

(1):- کمال الدین،ج2،باب45،ح4،ص239. اس مطلب کو محور کائنات  جناب  سیفی کی کتاب سے لیا گیا ہے ۔

۷۶

سوال نمبر 15: انتظار کیا ہے ؟  اور اسکا صحیح  معنی بیان کیجہے ؟

ج : انتظار کا صحیح مفہوم :

لغت کے اعتبارسے انتظار  ایک نفسیاتی حالت جو آئندہ اور مستقبل کے لیۓ  امیدوار ہونا ہے لیکن اسلامی تعلیمات میں انتظار نہ صرف ایک نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عقیدہ ہے عقیدہ حق وعدالت  کے طاقتوں کا ظلم وباطل کے طاقتوں پر مکمل طور پر غالب آنے ،تمام انسانی اقدار کا روۓ زمین پر برقرار ہونے اور مدینہ فاضلہ یعنی ایک آئیڈیل آفاقی معاشرے کے وجود میں لانے بلاآخر عدل الہی اور دین الہی کا اس روۓ زمین پر آخری حجت خدا کے ہاتھوں جلوہ گرہونے کا ۔

انتظار نظریہ ہے نظریہ آخری زمانہ میں منجی موعود کا ظہور کرنے اور عالم بشریت کو موجودہ حالات سے نجات دینے اور مستضعفیں کے ہاتھوں ایک آفاقی اور الھی نظام کا قائم کرنے کا ہے ۔انتظار عمل اور حرکت ہے ایسا عمل جو جس میں نفس کہ تزکیہ ہو، فردی اور اجتماعی اصلاح ہو یعنی خود سازی کے ساتھ دیگر سازی اور سماج سازی بھی ہو ،اور ایسی حرکت جو منظم اور انسانی زندگی کے تمام پہلو اور زاویوں سے  ہو، اور اس آفاقی نظام کے لیۓ  زمینہ فراہم کرۓ اور اس دور کے ساتھ ہم آہنگ اور وہم سوہوں  یہ ہے حقیقت انتظار  اسی لیے اہل بیت اطہارعلیم السلام نے واضح  الفاظ مین نظریۃانتظار کے بنیادی رکن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ انتظار صرف نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عمل ہے اور وہ بھی بہتریں عمل ہے جیسا کہ  فریقین کی جانب سے منقول ہے رسول خدا (ص) نے فرمایاافضل اعمال امتی انتظار الفرج من اﷲ (1) -میری امت کے اﷲ تعالی کی جانب سے ظہور وآسائش کا انتظار کرنا بزرک ترین عمل ہے ۔ یاکسی اور مقام پر   آپ  یوں فرماتے  ہیں  -انتظار الفرج عبادة افضل اعمال اُمّتی انتظار فرج اﷲ عزّوجل  (2) - فرج اور آسائش کا انتظار کرنا عبادت ہیں میری امت کے اعمال میں سب کے بہتر عمل اﷲ کی طرف سے فرج وکشائش کا انتظار ہے

--------------

(1):- کمال الدین:  ج ۲ باب نمبر ۵۵ ح ۱ -

(2):- کنزل العمال : ج ۳ ص ۲۷۳ ح ۶۵۰۹ -

۷۷

اور اسی مضمون میں ائمہ معصومینؑ  سے بھی بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں  جیسا کہ امیر المؤمنیں علی          فرماتے ہیں ۔انتظروا الفرج ولا تیأسو من روح اللّه ،فإنّ أحب الأعما الی اللّه عزّوجل انتظار الفرج  الآخذ بأمرنا معنا غداً فی حظیر القدس ،والمنتظر لأمرنا كالمتشحط بدمه فی سبیل اللّه (1)   آسائش اور رہائی کا انتظار کرو  خدا کی  رحمتوں سے کبھی مایوس نہ ہوجاؤ  اسلئے کہ پروردگا ر عالم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل انتظار فرج ہے اور ہماری ولایت کو مضبوطی سے تھامنے والا کل جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا  اور ہماری ولایت وامامت کے انتظار کرنے والا اس شخص کی مانند ہے  جو اﷲ کے راہ میں اپنے خون سے غلطان  ہو

د: انتظار کا غلط مفہوم اور اسکا منفی نتائیج .

ممکن ہے بسا اوقات نظریہ انتظار کو اپنے  درست اور اصلی مفہہوم  میں نہ سمجھنےبلکہ  کج فہمی  کے شکار ہونے  اور اسے غلط معنی اور مفہوم مراد لینے کی وجہ سے  یہی انتظار سازندگی وتعمیری روخ کو بدل کر تخریبی ویرانگری کا روخ اختیار کر لے اور ایک متحرک انقلابی اور پاک سرش شخص یا معاشرے کو  رکود وجمود ،مفلوج اور خباثت کی طرف دعوت دے  -

اگر آپ تاریخ  کا مطالعہ کریں تو سینکڑوں؛  ہزاروں کی تعداد میں افراد مختلف گروہوں  تنظیموں کی شکل میں نظر  آئیں گے جنہون  نے عقیدہ انتظار کو الٹا سمجھنے  اور اسے غلط مفہوم مراد لینے کی وجہ سے نہ صرف انتظار کو اپنے ترقی وسازندگی کا ذریعہ بنایا بلکہ الٹا یہی انتظار انکےمفلوج ہونے جمود کے شکار ہونے اور اپنے علاوہ سکاج کو بھی فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دینے کا سبب بنا مثال کے طور پر (انجمن حجتیہ )نامی تنظیم جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران سے پہلے انقلاب کے دوران او انقلاب کے بعد بھی ایران میں ملکی سطح  پر لوگوں کو فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دیتے تھے اور انکا یہ شعار تھا کہ ہم معاشرے میں  جتنا بھی ہو سکھے گناہوں کو اور ظلم وبربریت کو عام کر دے

--------------

(1):- بحار انوار : ج ۵۲ ص ۱۲۳ ح ۷ -

۷۸

اتنا ہی امام زمانہ کی ظہور میں تعجیل کا زمینہ فراہم ہو گا اور امام جلدی ظہور کریں گے ہم یہاں پر ان گروہوں میں سے ایک دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ مؤمنین کے لیےاس قسم کے منحرف شدہ گروہوں کو پہچاننے اور ان سے دوری اختار کرنے میں مدد ثابت ہو جاے  ۔

پہلاگروہ ـ :1

لوگوں کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ عصر غیبت میں ہماری ذمہ داری صرف اور صرف حضرت حجت         کے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنا ہے اور کسی قسم کی اصلا حی واجتماعی حرکت کو انتظار اور خدائی مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں انکا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو ؛ ہمیں کوئی ربط نہیں امام زمان       ہ خود تشریف فرما کر ان سب کو ٹھیک کریں گے،اسے پہلے جو بھی علم اٹھے گا باطل کا علم ہو گا اور لا محالہ دین و شریعت کے خلا ف ہو گا لہذا  اسے اصلاحی اور اجتما عی حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیںامام خمینی قدس اﷲ (عصر حاضر کی عظیم ہستی)ا نکے رد میں فرماتے ہیں : (کچھ لوگ انتظار فرج کو صرف مسجدوں حسینیوں اور گھروں میں بیٹہ کر امام زمانہ کے ظہور کے لیے خدا کی درگاہ میں دعا کرنے میں دیکھتا ہے اور  تکلیف اور ذمداری سمجھتے ہیں ہم سے کوئی ربط نہیں دنیا میں ملتوں  پر کیا گزرے ،خود امام ظہور کریں گے تو سب کچھ ٹھیک کریں گے )یہ ان لوگوں کی منطق ہے جو حقیقت میں اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے گریز کرتا ہے ،اسلام انکو قبول نہیں کرتا بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انکی آمد کے لیے زمینہ فراہم کر یں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں انشاء اﷲ ظہور کریں گے(1)   اگر ہماری بس میں ہوتا تو پوری دنیا  سے ظلم وجور کو مٹا دیتے ہماری شرعی ذمہ داری تھی لیکن یہ ہماری بس سے باہر ہے ،اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت حجت دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے یہ نہیں کہ تم لوگ اپنے شرعی تکلیف سے ہاتھ اُٹھاے بیٹھے اور اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دے(2)

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص ۱۶ -

(2):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۴ -

۷۹

 بلکہ دوران غیبت میں چونکہ احکام حکومتی اسلام جاری وساری ہیں کسی قسم کی ہرج و مرج  قابل قبول نہیں ہے ،پس حکومت اسلامی کا تشکیل دینا ہماری ذمہ داری ہے جسکا عقل حکم کرتی ہے ،تاکہ کل اگر ہم پر حملہ کرے یا ناموس مسلمین پر ہجوم لانے کی صورت میں دفاع کر سکے اور انھویں روک سکے ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں ،کہ کیا پیغمبر اکرم (ص)نے جن قوانین کی تبلیغ وتبین اور نشروتنفیذ کے لیے ۲۳ سال طاقت فرسا زحمتیں برداشت کی وہ قوانیں محدود مدت کے تھیں ؟ یا خدا نے ان قونیں کے اجرا کرنے کو ۲۰۰ سال تک کے لیے محدود کیا  ؟ کیا غیبت صغری کے بعد اسلام نے سب کچھ  چھوڑ دیا ؟(بے شک ) اس طرح کا عقیدہ اور اسکا اظہار کرنا اسلام کے منسوخ  ہو جانے پر عقیدہ رکھنے اور اسے اظہار کرنے سے زیادہ بدتر ہے ، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب اسلامی مملکتوں کا انکے حدود اور باڈروں کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے یا مالیات ،جزیہ ،خمس وزکواۃ  اور ٹیکس نہیں لینا چاہیے ،یا اسلام کے کیفری احکام دیات؛  قصاص سب کی چھٹی ہے(1)  

دوسرا اور بدترین گروہ

اس گروہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف سماج سے ظلم وستم  کو ختم کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے بلکہ  ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو گناہوں کی طرف دعوت دیں اور جتنا بھی ہو سکے ظلم وبربریت کے دائرے کو بڑاھنے کی کوشش کریں تاکہ امام زمانہ کی ظہور کے لیے زمینہ فراہم ہو جاۓ ،اس گروہ   میں بعض خود غرض  افراد بھی ہوتے ہیں  جو سوچھے سمجھے فساد کی طرف دعوت دیتے  ہیں  اور بعض ایسے سادہ لوح افراد بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے غلط افکار کی زد میں آکر منحرف  ہوچکے ہوتے ہیں ۔انکے رد میں رہبر کبیر امام خمینی فرماتے ہیں :یہ جو کہتے  ہیں ضروریات اسلام کے خلاف ہے ،یہ کہ ہم خود بھی گناہ  انجام دیں اور معاشرے میں بھی گناہوں کو  پھلائے تاکہ حضرت حجت         جلدی ظہور کرے ،....حضرت حجت      ظہور کریں گے تو  کس لیے ظہور کریں گے ؟ اس لیے ظہور کریں گے کہ دنیا  میں عدالت پھیلانے کے لیے   ،حکومت کو تقویت دینے کے لیے ، فساد کو زمین سے ریشہ کن کرنے کے لیے ظہور کریں گے ،

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۵ -

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

٥_ بعض يوميہ نمازوں (صلوة وسطي) كى خاص اہميت ہے_و الصلاة الوسطي

٦_ نماز كو خدا كى خاطر، خضوع و خشوع اور اس كى جانب پورى توجہ كے ساتھ پڑھنا ضرورى ہے_

حافظوا على الصلوات و قوموا لله قانتين ''قنوت''كے معنى اطاعت ميں خضوع و خشوع كرنے كے ہيں اور خضوع و خشوع كا لازمہ كامل توجہ ہے اور''قوموا لله ''ميں قيام سے مراد يا صرف نماز ہے يا قيام كا واضح ترين مصداق نماز ہے_

٧_ نماز كو خدا وند متعال كى اطاعت اور بندگى كے ليئے انجام دينا ضرورى ہے_حافظوا على الصلوات و قوموا لله قانتين ''قنوت''خضوع كے علاوہ اطاعت اور بندگى پر بھى دلالت كرتا ہے كيونكہ قنوت كے معنى اطاعت ميں خضوع كرنے كے ہيں _

٨_ خدا كى طرف اس طرح سے سفر و حركت كرنا ضرورى ہے جو خضوع اور اس كى اطاعت كے ساتھ ہو_

و قوموا لله قانتين كيونكہ بيان ہوچكا ہے كہ''قنوت''كے معنى خضوع و خشوع كے ساتھ اطاعت كے ہيں _

٩_ انسان كے اعمال اور اس كاچال چلن خدا كى خاطر اور اسى كى راہ ميں ہونا چاہيئے_و قوموا لله قانتين

١٠_ خدا كے سامنے اطاعت اور خضوع، انسانى روش و كردار كى قدر و قيمت كے جانچنے كا ايك معيار ہے_

و قوموا لله قانتين چونكہ خدا نے حكم ديا ہے كہ قيام ''قنوت''كے ہمراہ ہونا چاہئے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر انسان كا عمل اور اس كے اقدامات خدا كے سامنے خضوع و خشوع سے خالى ہوں تو بے قيمت اور بے فائدہ ہيں _

١١_ نمازوں ميں سے نماز ظہر كو خاص اہميت حاصل ہے_حافظوا على الصلوات و الصلاة الوسطي

الامام الباقر(ع) :'' ...والصلوة الوسطي'' و هى صلوة الظهروهى اول صلوة صلاها رسول الله (ص) _ (١)'' صلوة وسطى سے مراد نماز ظہر ہے_ يہ پہلى نماز ہے جو رسول الله (ص) نے پڑھي''

١٢_ نماز كے قيام كى حالت ميں دعا بہت ہى مقام ومرتبہ ركھتى ہے_

____________________

١) كافى ج ٣ ص ٢٧١ ح ١ نور الثقلين ج ١ ، ص ٢٣٧ ح ٩٣٤_

۱۸۱

و قوموا لله قانتين

قال الباقر(ع) ''والقنوت''هو الدعاء فى الصلوة فى حال القيام _ (١) اور قنوت سے مراد نماز كے دوران ميں حالت قيام ميں دعا ہے _

اقدار: اقدار كا معيار ١٠

اطاعت: خدا كى اطاعت٧، ٨، ١٠

بندگي: بندگى ميں خضوع ٨، ١٠;بندگى ميں خلوص ٨

دعا: دعا كى فضيلت١٢

دينى نظام تعليم: ١

روايت: ١١، ١٢

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ١

عبادت: عبادت ميں خلوص ٦، ٧

عمل: عمل كے آداب ٨ ; عمل ميں خلوص ٩

عمومى نظارت: ٤

غفلت: غفلت كا پيش خيمہ٣

معاشرہ: معاشرہ كى ذمہ دارى ٤

نماز: نماز ظہر كى اہميت١١; نماز قائم كرنا ٦، ٧; نماز كى اہميت ٢، ٣، ٤، ٥; نماز كے آداب٢; نماز كے اثرات ١;نماز ميں خضوع ٦; نماز ميں دعا ٢ ١ ; نماز وسطي ٥

____________________

١) مجمع البيان ج ٢ص ٦٠٠ نورالثقلين ج ١ ص ٢٣٧ ح ٩٤٠ _

۱۸۲

فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ (٢٣٩)

پھر اگر خوف كى حالت ہو تو پيدل ، سوارجس طرح ممكن ہو نماز ادا كرو اور جب اطمينان ہو جائے تو اس طرح ذكر خدا كروجس طرح اس نے تمھارى لا علمى ميں تمھيں بتاياہے_

١_ خوف كى حالت ميں حركت كرتے ہوئے سوارى پر يا پيدل چلتے ہوئے نماز پڑھى جاسكتى ہے_

فان خفتم فرجالا او ركبانا يہاں پر''فان خفتم ...'' كاجملہ ايك محذوف شرط كى حكايت كرتا ہے جو پہلے والى آيت كے حكم كو مشروط كرتا ہے يعنى نما ز ميں تمام شرائط كى كامل رعايت ، امن كى صورت ميں ہے ليكن اگر خوف پيش آجائے تو جس قدر امكان ہو بجالائے اور باقى شرائط اور آداب ضرورى نہيں ہيں _ اسى طرح ''رجالا''راجلاً كى جمع ہے جو پيدل كے معنى ميں ہے اور ''ركباناً'' راكب كى جمع ہے جو سوار كے معنى ميں ہے اور دونوں ميں حركت كا پہلو مدنظر ہے_

٢_جتنے بھى مشكل حالات پيش آجائيں نماز كا چھوڑنا جائز نہيں ہے_فان خفتم فرجالا او ركبانا

٣_ خوف كے وقت نماز كى بعض شرائط ساقط ہوجاتى ہيں _فان خفتم فرجالا او ركبانا

٤_ خوف كے بعد جب امن و امان كى حالت پلٹ آئے تو نماز كو پورى شرائط كے ساتھ انجام دينا ضرورى ہے_

فاذا امنتم فاذكروا الله كما علمكم ما لم تكونوا تعلمون

٥_ نماز خدا كا ذكر ہے_فاذا امنتم فاذكروا الله جملہ ''فاذكروا اللہ '' ميں ذكر سے مراد نماز ہے_

٦_ نماز وہ فريضہ ہے جس كى تعليم خداوند عالم كى طرف سے دى گئي ہے اور ضرورى ہے كہ اسے

۱۸۳

عليم ديئے گئے طريقے كے مطابق انجام ديا جائے_فاذكروا الله كما علمكم

٧_ خدا كو اسى طرح ياد كرنا چاہيئے جيسے اس نے انسان كو تعليم دى ہے_فاذكروا الله كما علمكم

٨_ انسان تعليم خدا كے بغير الہى احكام كو سيكھنے كى استعداد و صلاحيت نہيں ركھتا_كما علمكم ما لم تكونوا تعلمون

٩_ نماز پڑھتے وقت حركت نہ كرنا نماز كى شرائط ميں سے ہے_فان خفتم فرجالا او ركبانا

خوف كى حالت ميں حركت كرتے ہوئے نماز پڑھنے كا جائز ہونا حكايت كرتا ہے كہ عام حالات ميں نماز كى شرط ہے عدم حركت _

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٩ احكام ثانوى ١

اضطرار : اضطرار اور فريضہ كا اٹھ جانا ٣

انسان: انسان كى كمزورى ٨

ذكر: آداب ذكر ٧; ذكر خدا٧; ذكر كے موارد ٥

نماز: خوف كى نماز١، ٣ ;نماز كا توقيفى ہونا ٦ ;نماز كى اہميت ١، ٢، ٥; نماز كى شرائط ٩ ; نماز كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٩

۱۸۴

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِيَ أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (٢٤٠)

اور جو لوگ مدت حيات پورى كر رہے ہوں اور ازواج كو چھوڑكرجارہے ہوں انھيں چاہئے كہ اپنى ازواج كے لئے ايك سال كے خرچ اور گھر سے نہ نكالنے كى وصيت كركے جائيں پھر اگر وہ خود سے نكل جائيں تو تمھارے لئے كوئي حرج نہيں ہے وہ اپنے بارے ميں جو بھى مناسب كام انجام ديں خدا صاحب عزت اور صاحب حكمت بھى ہے _

١_ موت سے انسان كى حقيقت فنا نہيں ہوتي_ *و الذين يتوفون منكم ''توفي''كے معنى دى ہوئي چيز كو مكمل طور پر واپس لينا ہے نہ اسے نابود كرنا_

٢_ موت انسان كے ارادہ اور اختيار سے نہيں ہے_*يتوفون منكم

''يتوفون''كا بصورت مجہول لانا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ موت انسان كيلئے اختيارى نہيں ہے_

٣_ مردوں ر لازمى ہے كہ اپنى بيويوں كو ايك سال تك اخراجات دينے كى وصيت كريں _

و الذين يتوفون منكم و يذرون ازواجا وصية لازواجهم متاعا الى الحول

٤_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں شوہر كے گھر ميں ايك سال رہنے اوراس كے اموال سے استفادہ كرنے كا حق حاصل ہے_وصية لازواجهم متاعا الى الحول غير اخراج

۱۸۵

''غير اخراج''كا ظہور اس ميں ہے كہ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں شوہر كے گھر سے ايك سال تك نہيں نكالا جاسكتا جس كا لازمہ يہ ہے وہ اس كے گھر ميں رہ سكتى ہيں _

٥_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں ايك سال تك شوہر كے گھر كے علاوہ كہيں اور نہيں رہنا چاہيئے _ *

متاعا الى الحول غير اخراج بعض مفسرين كے نزديك ''غير اخراج'' كے الفاظ عورتوں كے فريضہ كا بيان ہے اس صورت ميں كہ''اخراج'' كافاعل ''ازواج'' ہوں يعنى عورتوں كو شوہروں كے گھر سے نہيں نكلنا چاہئے_ البتہ يہ بات قابل ذكر ہے كہ اخراج يا خروج كو ترك كرنے كا مطلب سكونت اختيار كرنا ہے نہ كہ گھر ميں بند ہوجانا_

٦_ بيوى كا شوہر كے گھر ميں رہنا اس كے ايك سال كے اخراجات ادا كيئے جانے كى شرط ہے _متاعا الى الحول غير اخراج يہ اس صورت ميں ہے كہ''غير اخراج'' عورت كے حق سكونت كے بيان كے علاوہ سابقہ حكم (سال كا خرچہ دينا) كى قيد بھى ہو يعنى عورت كو شوہر كے مال سے استفادہ كا حق اس وقت حاصل ہے كہ وہ اس كے گھر سے نہ نكلے_

٧_ جس عورت كا شوہر فوت ہوجائے اس پر اس كے گھر سے سال مكمل ہونے سے پہلے نكلنا جائز ہے_

غير اخراج فان خرجن فلاجناح عليكم

٨_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں ان كيلئے شوہر كے گھر سے نكلنے كے بعد ہر شائستہ اور مشروع كام(شادي) كرناجائز ہے_فان خرجن فلاجناح عليكم فى ما فعلن فى انفسهن من معروف بعض مفسرين كے نزديك ''من معروف'' سے مراد نكاح كرنا ہے لہذا ايمانى معاشرہ يا ميت كے وارث عورت كو شوہر كے گھر ميں رہائش كى صورت ميں ايك سال تك نكاح كرنے سے روك سكتے ہيں البتہ اس فرض كى بنا پر كہ عورت شوہر كے گھر سكونت اختيار كرے_

٩_ ايمانى معاشرہ كى ذمہ دارى ہے كہ بيوہ اور بے سرپرست عورتوں كے اخلاق و كردار پر نظر ركھے_

فان خرجن فلاجناح عليكم ...من معروف اگرچہ آيت ان عورتوں كے بارے ميں ہے جن كے شوہر فوت ہوچكے ہوں ليكن اس بنا پر كہ خطاب ايمانى معاشرہ سے ہو نہ صرف ولى

۱۸۶

سے معلوم ہوتا ہے كہ صرف بيوہ عورتيں مراد نہيں ہيں كيونكہ معاشرتى لحاظ سے بيوہ عورتوں اور ديگر خواتين ميں كوئي فرق نہيں ہے بلكہ زير نظر ركھنے كا معيار عورت كا بے سرپرست ہونا ہے_

١٠_ خدا وند متعال عزيز اور حكيم ہے_و الله عزيز حكيم

١١_ خداوندعالم الہى احكام كى مخالفت كرنے والوں كو سزا دينے پر قادر ہے_و الله عزيز حكيم

احكام كے بيان كے بعد''عزيز'' ايسا قادر جو (ناقابل شكست اور غلبے والاہے) جيسى صفت كا لانا الہى احكام كى مخالفت كرنے والوں كو ڈرانے كے ليے ہے_

١٢_ احكام كى تشريع خداوند متعال كى حكمت كى بنياد پر ہے_و الله عزيز حكيم

احكام: ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨ احكام كا فلسفہ ١٢ ;احكام كى تشريع ١٢

اسماء و صفات: حكيم ١٠; عزيز ١٠

انسان: انسان كا اختيار ٢; انسان كى حقيقت ١

تخلف كرنے والے: تخلف كرنے والوں كى سزا ١ ١

حقوق :٤،٥،٦

خدا تعالى: خدا تعالى كى حدود سے تجاوز ١١; خدا تعالى كى حكمت ١٢; خدا تعالى كى قدرت ١١

شادي: شادى كے احكام٨

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق ٤،٥،٦

عدت: عدت وفات ٧

عورت: بيوہ عورت ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩ ;عورت كے حقوق ٣، ٤، ٦، ٧، ٨

مطلقہ: مطلقہ كو اخراجات دينا٤، ٦

معاشرہ: معاشرے كى ذمہ دارى ٩ معاشرے كى عمومى نظارت : ٩

موت: ١

۱۸۷

نفقہ: نفقہ كے احكام ٣، ٤، ٦

وصيت: نفقہ كى وصيت ٣;وصيت كے احكام ٣

وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (٢٤١)

اور مطلقات كے لئے مناسب مال و متاع ضرورى ہے كہ يہ صاحبان تقوى پر ايك حق ہے _

١_ مطلقہ عورتوں كو مناسب اور معقول مال و اسباب دينا ضرورى ہے_و للمطلقات متاع بالمعروف

٢_ عورت اور مرد دونوں كے معاشرتى مقام و منزلت سے مال و اسباب كى مقدار اور خصوصيات معين ہوتى ہيں لہذا مطلقہ عورت كو اسى كے مطابق ديا جائے گا_*متاع بالمعروف

ايسا معلوم ہوتاہے كہ عورت اور مرد كى معاشرتى حيثيت كو مدنظر ركھے بغير اچھے اور مناسب مال و اسباب كى تعيين نہيں كى جاسكتي_

٣_ احكام الہى كے بعض موضوعات كى تشخيص كا معيار عرف ہے_متاع بالمعروف

٤_ مطلقہ عورتوں كو مناسب اور معقول مال و اسباب دينا با تقوي لوگوں كا فريضہ اور ان كے تقوي كى علامت ہے_

و للمطلقات حقا على المتقين

٥_ دوسروں كے حقوق كى رعايت اہل تقوي كا فريضہ اور انكے تقوي كى علامت ہے_و للمطلقات حقا على المتقين

٦_ معاشرہ ميں صاحبان تقوي، مطلقہ عورتوں كے حقوق كى رعايت كرنے والے ہيں _حقا على المتقين

اس بات كے پيش نظر كہ اصل حكم تو معاشرہ كے سب افراد كے ليئے ہے ليكن حكم ميں متقين كو مورد توجہ قرار ديا گيا ہے_

٧_ مطلقہ عورتوں كے حقوقى مسائل پر توجہ دينا بہت ہى قابل قدر اور اہميت كا حامل ہے_

حقاً على المحسنين و ان تعفوا اقرب للتقوى حقا على المتقين يہ مطلب مطلقہ عورتوں كے بارے ميں آنے والى آيات كے مجموعہ سے استفادہ ہوتا ہے بالخصوص مختلف تعبيروں كے ساتھ جيسے''حقاً على المتقين''،''حقاً على المحسنين'' اور ''ان تعفوا اقرب للتقوي''جيسے الفاظ كے ذريعہ_

۱۸۸

٨_ عدت مكمل ہونے كے بعد ضرورى ہے كہ مرد اپنى توان اور استطاعت كے مطابق مطلقہ عورت كو مناسب اور اچھا مال و اسباب دے_و للمطلقات متاع بالمعروف امام جعفر صادق(ع) آيت''و للمطلقات ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں :متاعها بعد ما تنقضى عدتها'' على الموسع قدره و على المقتر قدره'' (١) مطلقہ عورت كو مال دينے كا وقت اسكى عدت گزرنے كے بعد ہے اور'' اس كى مقدار وسيع رزق و الے اور تنگ دست كے اپنے اپنے حالات كے مطابق ہے_''

احكام: ١، ٢، ٤، ٨

تقوي: تقوي كے اثرات ٤، ٥، ٦

روايت: ٨

شخصيت: شخصيت كى حفاظت كرنا;٢

شر عى فريضہ: شرعى فريضہ كى شرائط ٨; شرعى ميں قدرت ٨

طلاق: طلاق كے احكام ١

عدت: طلاق كى عدت٨

عرفى معيارات: ١، ٣

عورت: عورت كے حقوق ١، ٢، ٤، ٦، ٧

لوگ: لوگوں كے حقوق ٥

متقين : متقين كى ذمہ دارى ٤، ٥ ; متقين كى صفات ٦

مطلقہ: مطلقہ كومال و اسباب دينا -١، ٢، ٤، ٨ ;مطلقہ كے حقوق ٧

معاشرتى حيثيتيں : ٢

موضوع شناسي: موضوع شناسى كے منابع ٣

____________________

١) كافى ج ٦ ص ١٠٥، ح ٣، نور الثقلين ج ١، ص ٢٤٠، ح ٩٥٦ ، ٩٥٧ _

۱۸۹

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (٢٤٢)

اسى طرح پروردگار اپنى آيات كو بيان كرتا ہے كہ شايد تمھيں عقل آجائے_

١_ خداوند عالم اپنے احكام كو واضح و روشن انداز ميں بيان فرماتا ہے_كذلك يبين الله لكم آياته

٢_ خدا تعالى كى طرف سے آيات كا بيان غور و فكر كو بيدار كرنے كا باعث بنتاہے_كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

٣_ خدا وند متعال كى طرف سے آيات اور احكام كے بيان كرنے كا مقصد غور و فكر كرنا ہے _كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

٤_ لوگ عقل و فكر كے ذريعے آيات اور احكام كو سمجھنے كى قدرت ركھتے ہيں _يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

''لعلكم تعقلون''كا جملہ الہى آيات كے فہم و ادراك كو ان كى تبيين كا ہدف قرار دينے كے ساتھ ساتھ ضمنى طور پر انہيں سمجھنے اور درك كرنے كا راستہ بھى بتلاتا ہے جو وہى غور و فكر ہے_

٥_ الہى احكام اس كى ذات اقدس كى شناخت كى نشانياں ہيں _يبين الله لكم آياته

''آيات''(نشانيوں ) سے مراد الہى احكام ہيں چونكہ''كذلك''گذشتہ احكام كى طرف اشارہ ہے لہذا ہر حكم اس كى نشانى ہوگا_

٦_ غور و فكر كرنا اسلام كى بنيادى اور اہم ترين اقدار ميں سے ہے_لعلكم تعقلون

كيونكہ تعقل اور تفكر كو آيات كى تبيين كا مقصد و ہدف قرار ديا گيا ہے_

٧_ احكام الہى كى شناخت; وحى الہى ، خدا تعالى كى تبيين اور غور و فكر كے ذريعے ہى ممكن ہے_

كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

۱۹۰

آيات خدا: ٥ آيات خدا كا بيان كرنا ١، ٢، ٣، ٧

احكام: احكام كى تشريع ١٣

انسان: انسان كى زندگى كے مختلف پہلو ٤

تعقل: تعقل كا پيش خيمہ٢ ;تعقل كى اہميت ٣، ٤، ٦، ٧

خدا شناسي: خداشناسى كے طريقے ٥

دين: دينى كى تعليمات٥

شناخت: شناخت كے طريقے ٤، ٧

وحي: وحى كى تاثير ٧

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ (٢٤٣)

كيا تم نے ان لوگوں كو نہيں ديكھا جو ہزاروں كى تعداد ميں اپنے گھروں سے نكل پڑے موت كے خوف سے اور خدا نے انھيں موت كا حكم دے ديا او رپھر زندہ كرديا كہ خدا لوگوں پربہت فضل كرنے والا ہے ليكن اكثر لوگ شكريہ نہيں ادا كرتے ہيں _

١_ سابقہ امتوں كے ہزاروں لوگ اپنے گھروں كو موت كے ڈر سے چھوڑ كر بھاگ گئے اور خداوند عالم نے انہيں مار كر كچھ مدت كے بعد دوبارہ زندہ كيا_ا لم تر الى الذين ثم احياهم

٢_ اس قوم كا اپنے گھروں سے نكل جانے اور خدا كے حكم سے مر جانے اور پھر زندہ ہونے كا تاريخى

۱۹۱

واقعہ خداوند متعال كى نشانيوں ميں سے ہے_يبين الله لكم آياته ا لم تر الى الذين خرجوا

٣_ تاريخى واقعات كا جاننا اور ان سے عبرت حاصل كرنا مومنين كا فريضہ ہے_الم تر الى الذين

''الم تر''ميں رؤيت كا مطلب آنكھ سے ديكھنا نہيں ہے كيونكہ وہ واقعہ گذر چكا ہے اور مخاطب كيلئے اس كا ديكھنا ممكن نہيں ہے لہذا ''الم تر ...''ترغيب ہے سابقہ امتوں كے واقعات كو پہچاننے اور سمجھنے كى تاكہ سوچنے والوں كيلئے درس عبرت ہو_

٤_ مُردوں كا اس دنيا ميں زندہ ہونا ممكن ہے (رجعت) _فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

٥_ موت و حيات اللہ تعالى كے قبضہ قدرت ميں ہے_فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

٦_ موت نابودى اور فنا نہيں ہے_فقال لهم الله موتوا ثم احياهم كيونكہ موت اگر نابودى اور فنا ہوتى تو يہ كہنا صحيح نہ ہوتا كہ ہم نے انہيں مردوں كو زندہ كيا_

٧_ موت سے فرار ممكن نہيں ہے_ا لم تر الى الذين خرجوا من ديارهم و هم الوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا

٨_ خدا وند متعال اس قوم كے واقعہ كے بارے ميں غور و فكر كى دعوت ديتاہے جو مر گئے اوردوبارہ زندہ كيئے گئے ( تاريخى واقعات )_ا لم تر الى الذين خرجوا من ديارهم و هم الوف حذر الموت

٩_ خدا كى راہ ميں جنگ سے بھاگنے والوں كو قبل از وقت موت آجانا انكے اعمال كى سزا كے طور پر ہے_

ا لم تر الى الذين فقال لهم الله موتوا ...و قاتلوا فى سبيل الله اس آيت اور بعد والى آيت كے باہمى رابطے كو ديكھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ مذكورہ قوم كا اپنے گھروں اور شہر كو چھوڑنا ميدان جنگ سے بھاگنے كى وجہ سے تھا خدا تعالى اس واقعہ كى يادآورى كرتے ہوئے مسلمانوں كو متنبہ فرما رہاہے كہ ان بھاگنے والوں كى طرح جنگ سے فرار نہ كريں ورنہ قبل از وقت موت ''موتوا''سے دوچار ہوجائيں گے_

١٠_ جنگ سے فرار خدا وند متعال كى طرف سے مقدرشدہ موت كو روك نہيں سكتا_

۱۹۲

فقال لهم الله موتوا ثم احياهم قاتلوا فى سبيل الله

يہ مطلب اس صورت ميں ممكن ہے كہ اس آيت ميں مذكور داستان بعد والى آيت كے لئے تمہيدہو _

١١_ خدا تعالى پورى انسانيت پر فضل كرنے والا ہے _ان الله لذو فضل على الناس

١٢_ موجودہ انسانوں كو گذشتہ امتوں كى تاريخ سے مطلع كرنا خدا وندمتعال كے ان پر فضل و كرم كى وجہ سے ہے_

ا لم تر الى الذين ان الله لذو فضل على الناس ممكن ہے ''ان الله ''اس داستان اور تاريخ كے نقل كرنے كى علت ہوجو اس آيت ميں بيان ہوئي ہے_

١٣_ لوگوں كى حيات، اللہ تعالى كا ان پر فضل و كرم ہے_ثم احياهم ان الله لذو فضل على الناس

''ان الله '' جس طرح داستان اور تاريخ كے نقل كرنے كى علت بن سكتاہے اسى طرح ''ثم احياھم'' كے جملے كى بھى علت بن سكتا ہے_

١٤_ خدا وند متعال كے فضل و كرم كے مقابلے ميں اكثر لوگ ناشكرے ہيں _لذو فضل و لكن اكثر الناس لايشكرون

١٥_ خدا وند متعال كے فضل و كرم كے مقابلے ميں انسانوں پر شكر كرنا فرض ہے_ان الله لذو فضل على الناس و لكن اكثر الناس لايشكرون

١٦_ لوگوں كى اكثريت كا كسى طرف ميلان ركھنا ، اس چيز كى قدر و قيمتكا معيار نہيں ہے _ولكن اكثر الناس لايشكرون

١٧_ جو مردے خدا كے حكم سے زندہ ہوئے وہ ايك عرصے تك اسى دنيا ميں زندگى گزارتے رہے_ثم احياهم ان الله لذو فضل على الناس زندہ ہونا تب فضل خدا شمار ہوگا كہ زندہ ہونے والا ايك مدت تك زندہ رہے لہذا اگر زندہ ہوتے ہى بلافاصلہ مر جائے تو بعيد ہے كہ اس كا زندہ ہونا اس پر خدا كے فضل و كرم كى علامت بن سكے_

١٨_ خدا وند عالم نے حضرت حزقيل (ع) كى دعا كو مورد استجابت قرار ديتے ہوئے كئي ہزار مردوں كو زندہ كرديا_

و هم الوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

۱۹۳

قال الباقر(ع) : فمر بهم نبي ...يقال له حزقيل ...قال رب لو شئت لاحييتهم ...فاوحى الله تعالى اليه افتحب ذلك قال نعم يارب فعادوا احياء (١) امام باقر (ع) فرماتے ہيں ان كے قريب سے ايك نبى (ع) گزرے جن كا نام حزقيل (ع) تھا انہوں عرض كيا اے پروردگار اگر تو چاہے تو ان كو زندگى بخش دے پس اللہ تعالى نے اپنے اس نبى (ع) كى طرف وحى كى كيا تو ايسا چاہتاہے؟ عرض كيا ہاں اے پروردگار ...پس وہ لوگ زندہ ہوگئے

آيات خدا: ٢

اقدار: اقدار كا معيار ١٦

اكثريت: اكثريت كى ناشكرى ١٤ ;اكثريت كے ذريعہ قدر و قيمت كا جانچنا ١٦

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى دعا ١٨

انسان: انسان كى حيات ١٣; انسان كى ذمہ دارى ١٥

تاريخ: تاريخ سے عبرت ٣ ; تاريخ كا فلسفہ٣، ٨ ; تاريخى واقعات كا ذكر ١، ٢، ٨، ١٢، ٧

جانچنا: قدر و قيمت كے جانچنے كا معيار ١٦

جہاد: جہاد ترك كرنے كى سزا ٩ ;جہاد كا ترك كرنا ١٠

حضرت حزقيل(ع) : حضرت حزقيل (ع) كى دعا ١٨

حيات: حيات كا سرچشمہ ٥

خدا تعالى: خدا تعالى كا فضل ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥; خدا تعالى كى قدرت٥ ;خدا تعالى كے احكام ١٧

خوف: موت سے خوف ١

دعا: قبوليت دعا ١٨

رجعت: دنيوى رجعت ١، ٤، ١٨

____________________

١) كافى ج٨، ص ١٩٨، ح٢٣٧ عيون اخبار الرضا (ع) ج١ ص ١٦٠ ،ح ١_

۱۹۴

روايت: ١٨

شكر: شكرخدا ١٥

شناخت : شناخت كے منابع ١٢

غور و فكر: غور و فكركى تشويق٨

قضا و قدر : ١٠

مردے: مردوں كو زندہ كرنا ١، ٢، ٤، ٨، ١٧، ١٨

معاشرہ: معاشرتى گروہ ١٤

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ٣

موت: موت سے فرار ٧; موت قبل از وقت ٩; موت كا سرچشمہ ٥ ;موت كى تقدير ١٠; موت كى حقيقت ٦

وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٤٤)

اور راہ خدا ميں جہاد كرو او ريادركھو كہ خدا سننے والا بھى ہے او رجاننے والابھى ہے_

١_ موت و حيات ميں اللہ تعالى كى حاكميت پر توجہ ، اس كى راہ ميں جنگ و جہاد كيلئے خوف و ہراس كو ختم كرديتى ہے_

ا لم تر الى الذين و قاتلوا فى سبيل الله

٢_ خدا كى راہ ميں جنگ ، زندگى كى نعمت كا شكرانہ ہے_ثم احياهم ...و لكن اكثر الناس لايشكرون_ و قاتلوا فى سبيل الله

زندگى كى نعمت پر لوگوں كى ناشكرى كے بيان كرنے كے بعد، جہاد كا حكم دينا ، درحقيقت زندگى كى نعمت پر خدا كا شكر ادا كرنے كى روش بتلانا ہے_

٣_ خدا كى راہ ميں جنگ و پيكار كرنا واجب ہے_

۱۹۵

و قاتلوا فى سبيل الله

٤_ كسى عمل كى قدر و قيمت تب ہوتى ہے جب وہ خدا كى راہ ميں ہو_و قاتلوا فى سبيل الله

٥_ خدا سميع (سننے والا) اور عليم (جاننے والا) ہے _ان الله سميع عليم

٦_ جنگ كرنے يا اسے ترك كرنے ميں انسان كے ہدف اور اس كى اپنى گفتارو موقف سے اللہ تعالى آگاہ ہے_*

ان الله سميع عليم

٧_ انسان كا خدا كے لامحدود علم پر ايمان ركھنا اور اس كى طرف متوجہ رہنا اسے راہ خدا ميں جنگ كى ترغيب دلاتا ہے _وقاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم

٨_ميدان كارزار ميں سخت ترين حالات ميں خدا تعالى كے وسيع علم پر توجہ ركھنا ضرورى ہے_و قاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم ظاہر يہ ہے كہ آيت ميں خدا كے علم پر توجہ كا ضرورى ہونا جہاد كے ہمراہ بيان كيا گياہے ''قاتلوا واعلموا'' يعنى جب تم جنگ ميں مشغول ہو تو متوجہ رہو كہ خدا سميع اور عليم ہے_

٩_ خدا كى راہ ميں جہاد سے بھاگنے والوں اور جہاد كى خلاف ورزى كرنے والوں كو خدانے خبردار كيا اور ڈرايا دھمكاياہے_و قاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم گويا كہ '' واعلموا ...'' خلاف ورزى كرنے والوں كو ڈرانے دھمكانے كے لئے ہے_

احكام: ٣

اسماء و صفات: سميع ٥; عليم ٥

اقدار: اقدار كا معيار ٤

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا علم ٦، ٧، ٨; اللہ تعالى كى تنبيہات ٩; اللہ تعالى كى حاكميت ١ ;اللہ تعالى كى دھمكياں ٩

۱۹۶

ايمان: ايمان كے اثرات ٧ : ايمان كے انفرادى اثرات ١ ; ايمان اور عمل ٧

تحريك: تحريك كے عوامل ٧

تخلف كرنے والے : تخلف كرنے والوں كو تنبيہ ٩

جہاد: احكام جہاد ٣ جہاد كا ترك كرنا ٦، ٩; جہاد كا شوق دلانا ٧; جہاد ميں خوف ١; راہ خدا ميں جہاد ٢، ٣

حيات: حيات كا منبع ١ ; نعمت حيات ٢

خوف: خوف سے مقابلہ ١

ذكر: ذكر كى اہميت ٨

راہ خدا: راہ خدا ميں حركت٤

سختي: سختى ميں ذكر ٨

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ٧

شكر: شكر نعمت ٢

علم: علم اور عمل ٧ ; علم كے اثرات ٧

عمل: عمل كے آداب ٤

موت: موت كا سرچشمہ ١

واجبات: ٣

۱۹۷

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (٢٤٥)

كون ہے جو خدا كو قرض حسن دے او رپھر خدا اسے كئي گنا كر كے واپس كردے خدا كم بھى كرسكتاہے او رزيادہ بھى او رتم سب اسى كى بارگاہ ميں پلٹائے جاؤگے_

١_ خدا كى راہ ميں جہاد كرنا بندوں كى طرف سے خداوند متعال كى بارگاہ ميں بہترين قرض ہے_*وقاتلوا ...من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

٢_ خدا كى راہ ميں جنگ كرنے كے ليئے اسلحہ اور ديگر ساز و سامان فراہم كرنا مسلمانوں كى طرف سے خداوند متعال كى بارگاہ ميں بہترين قرض ہے _وقاتلوا ...من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

٣_ خدا كى راہ ميں خرچ كرنا بندوں كا خدا پر قرض حسنہ ہے_من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

اس آيت ميں ''قرض''سے مراد خدا كى راہ ميں انفاق ہے_ لہذا خدا كى راہ ميں خرچ كرنا اسے قرض دينا ہے_

٤_ خرچ كئے جانے والے مال كا مناسب وپسنديدہ ہونا نيز خرچ كرنے والے كى نيت كا خالص ہونا انفاق كے دو اہم جز ہيں _من ذا الذى يقرض الله قرضاً حسناً قرض كا قابل تحسين ہونامنحصر ہے '' قرضاً حسناً'' حسن فاعلى ( خلوص نيت اور ...) اور حسن فعلى (مرغوب مال كا خرچ ) پر_

٥_ جو لوگ خدا كو اپنى جان و مال كا قرض ديتے ہيں انہيں خداوند متعال كئي گنا زيادہ اجر ديتاہے_

من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

٦_ لوگوں كو نيك كاموں اور خدا كى راہ ميں خرچ كرنے كا شوق دلانے كيلئے لوگوں كى منافع طلبى

۱۹۸

كى خصلت سے فائدہ اٹھانا قرآنى روشوں ميں سے ہے_من ذا الذى يقرض الله ...فيضاعفه له اضعافا كثيرة

٧_ خدا كے راستے ميں خرچ كرنا بہت قابل قدر ہے_من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

چونكہ انفاق كو قرض شمار كرتے ہوئے اس پر بہت زيادہ اجر كا وعدہ كيا گيا ہے اس سے اس كے بہت زيادہ قابل قدر ہونے كا پتہ چلتا ہے_

٨_ كار خير كے انجام كا پيش خيمہ فراہم كرنے كيلئے محرك پيدا كرنا اچھا عمل ہے_من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له اضعافا كثيرة خدا نے اجر كا ذكر كر كے محركپيدا كيا ہے اور يہ طريقہ كا ر تربيت كرنے والوں كيلئے بہترين درس ہے_

٩_انسانوں كى تنگ دستى يا وسعت رزق خداوند عالم كے اختيار ميں ہے_و الله يقبض و يبسط

١٠_ انسانوں كے مادى وسائل اور امكانات كے محدوديا وسيع ہونے پر خدا وند متعال كى حاكميت ہے_و الله يقبض و يبسط

١١_تنگ دستى اور وسعت رزق (قبض و بسط) كے خدا كى طرف سے ہونے پر ايمان ، قرض دينے يا راہ خدا ميں انفاق سے مال ميں كمى ہو جانے كے بے بنياد خيال كى نفى كرتاہے_والله يقبض و يبسط

انفاق كے ذكر كے بعد، تنگ دستى اور وسعت رزق (قبض و بسط) كے خدا كى طرف سے ہونے كى يا ددہانى اس معنى كو بيان كرنے كے ليے ہے_

١٢_ الہى قبض و بسط پر ايمان انسان كے اندر انفاق كا جذبہ پيداكرتا ہے_و الله يقبض و يبسط

١٣_ جو كچھ خدا كو قرض ديا جاتا ہے وہ باقى رہتا ہے اور انسان كو اس كا كئي گنا زيادہ واپس ملتا ہے _

من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

''فيضاعفہ''كى ضمير اپنے مفعول يعنى قرض كى طرف لوٹتى ہے يعنى جو مال قرض ديا جاتا ہے وہ كئي گنا ہوجاتا ہے اور انسان كو واپس كيا جاتا ہے يہ اس صورت ميں ہوسكتا ہے كہ وہ مال باقى ہو_

۱۹۹

١٤_ سب لوگوں كى ابتدا خدا سے ہے اور ان كى بازگشت بھى صرف اسى كى طرف ہوگي_و اليه ترجعون

''رجوع''كے معنى وہيں پر لوٹنے كے ہيں كہ جہاں سے آيا تھا_

١٥_ خدا كى طرف بازگشت اور پلٹنے پر ايمان، لوگوں كو خدا كى راہ ميں جنگ كرنے اور انفاق كرنے پر ابھارتا اور ترغيب دلاتا ہے_و قاتلوا فى سبيل الله من ذا الذى يقرض الله و اليه ترجعون

١٦_ خدا انفاق (خرچ) كرنے والوں كو دنيا اور آخرت دونوں جگہ اجر ديتاہے_فيضاعفه له اضعافا و اليه ترجعون ''اليہ ترجعون''آخرت ميں خدا تعالى كے اجر كى طرف اشارہ ہے، لہذا''فيضاعفہ لہ''دنيا ميں خدا كے اجر كا بيان ہے_

١٧_ امام مسلمين كو صلہ دينا اور اس كى مالى مدد كرنا خداوند عالم كو قرض دينے كے مصاديق ميں سے ہے_

من ذا الذى يقرض الله قرضا اس آيت كے بارے ميں امام موسى كاظم (ع) نے فرمايا :من ذا الذى نزلت فى صلة الامام (١) ترجمہ: ''من ذالذى ...''كى آيت امام كى مالى مدد كرنے كے بارے ميں نازل ہوئي ہے_

١٨_ خدا كے راستے ميں خرچ كرنے كا اجر بے حساب اور ناقابل شمار ہے_فيضاعفه له اضعافا كثيرة

امام صادق(ع) نے فرمايا:ان الكثير من الله عزوجل لايحصى و ليس له منتهى (٢) ترجمہ: خداوند عزوجل كى طرف سے كثير وہ ہے كہ نہ اسے گنا جاسكے اور نہ ہى اس كى انتہا ہو_

اجر: كئي گنا اجر٥، ١٣

انسان: انسان كا انجام ١٤; انسان كا مبداء ١٤ ;انسان كى نفع طلبى ٦; انسانى صفات ٦

انفاق: انفاق كا اجر١٣، ١٨; انفاق كا اخروى اجر ١٦; انفاق كا پيش خيمہ١٥;انفاق كا دنياوى اجر ١٦ ; انفاق كى تشويق ٦; انفاق كى قدر و قيمت ٣،٧;

____________________

١) كافى ج١، ص ٥٣٧، ح ٤، تفسير عياشى ،ج ١ ص ١٣١، ح٤٣٥_

٢) معانى الاخبار، ص ٣٩٧، ح ٥٤;نور الثقلين ، ج١ ، ص ٢٤٣، ح ٩٦٥_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749