تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما5%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177720 / ڈاؤنلوڈ: 6620
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

٥_ بعض يوميہ نمازوں (صلوة وسطي) كى خاص اہميت ہے_و الصلاة الوسطي

٦_ نماز كو خدا كى خاطر، خضوع و خشوع اور اس كى جانب پورى توجہ كے ساتھ پڑھنا ضرورى ہے_

حافظوا على الصلوات و قوموا لله قانتين ''قنوت''كے معنى اطاعت ميں خضوع و خشوع كرنے كے ہيں اور خضوع و خشوع كا لازمہ كامل توجہ ہے اور''قوموا لله ''ميں قيام سے مراد يا صرف نماز ہے يا قيام كا واضح ترين مصداق نماز ہے_

٧_ نماز كو خدا وند متعال كى اطاعت اور بندگى كے ليئے انجام دينا ضرورى ہے_حافظوا على الصلوات و قوموا لله قانتين ''قنوت''خضوع كے علاوہ اطاعت اور بندگى پر بھى دلالت كرتا ہے كيونكہ قنوت كے معنى اطاعت ميں خضوع كرنے كے ہيں _

٨_ خدا كى طرف اس طرح سے سفر و حركت كرنا ضرورى ہے جو خضوع اور اس كى اطاعت كے ساتھ ہو_

و قوموا لله قانتين كيونكہ بيان ہوچكا ہے كہ''قنوت''كے معنى خضوع و خشوع كے ساتھ اطاعت كے ہيں _

٩_ انسان كے اعمال اور اس كاچال چلن خدا كى خاطر اور اسى كى راہ ميں ہونا چاہيئے_و قوموا لله قانتين

١٠_ خدا كے سامنے اطاعت اور خضوع، انسانى روش و كردار كى قدر و قيمت كے جانچنے كا ايك معيار ہے_

و قوموا لله قانتين چونكہ خدا نے حكم ديا ہے كہ قيام ''قنوت''كے ہمراہ ہونا چاہئے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر انسان كا عمل اور اس كے اقدامات خدا كے سامنے خضوع و خشوع سے خالى ہوں تو بے قيمت اور بے فائدہ ہيں _

١١_ نمازوں ميں سے نماز ظہر كو خاص اہميت حاصل ہے_حافظوا على الصلوات و الصلاة الوسطي

الامام الباقر(ع) :'' ...والصلوة الوسطي'' و هى صلوة الظهروهى اول صلوة صلاها رسول الله (ص) _ (١)'' صلوة وسطى سے مراد نماز ظہر ہے_ يہ پہلى نماز ہے جو رسول الله (ص) نے پڑھي''

١٢_ نماز كے قيام كى حالت ميں دعا بہت ہى مقام ومرتبہ ركھتى ہے_

____________________

١) كافى ج ٣ ص ٢٧١ ح ١ نور الثقلين ج ١ ، ص ٢٣٧ ح ٩٣٤_

۱۸۱

و قوموا لله قانتين

قال الباقر(ع) ''والقنوت''هو الدعاء فى الصلوة فى حال القيام _ (١) اور قنوت سے مراد نماز كے دوران ميں حالت قيام ميں دعا ہے _

اقدار: اقدار كا معيار ١٠

اطاعت: خدا كى اطاعت٧، ٨، ١٠

بندگي: بندگى ميں خضوع ٨، ١٠;بندگى ميں خلوص ٨

دعا: دعا كى فضيلت١٢

دينى نظام تعليم: ١

روايت: ١١، ١٢

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ١

عبادت: عبادت ميں خلوص ٦، ٧

عمل: عمل كے آداب ٨ ; عمل ميں خلوص ٩

عمومى نظارت: ٤

غفلت: غفلت كا پيش خيمہ٣

معاشرہ: معاشرہ كى ذمہ دارى ٤

نماز: نماز ظہر كى اہميت١١; نماز قائم كرنا ٦، ٧; نماز كى اہميت ٢، ٣، ٤، ٥; نماز كے آداب٢; نماز كے اثرات ١;نماز ميں خضوع ٦; نماز ميں دعا ٢ ١ ; نماز وسطي ٥

____________________

١) مجمع البيان ج ٢ص ٦٠٠ نورالثقلين ج ١ ص ٢٣٧ ح ٩٤٠ _

۱۸۲

فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ (٢٣٩)

پھر اگر خوف كى حالت ہو تو پيدل ، سوارجس طرح ممكن ہو نماز ادا كرو اور جب اطمينان ہو جائے تو اس طرح ذكر خدا كروجس طرح اس نے تمھارى لا علمى ميں تمھيں بتاياہے_

١_ خوف كى حالت ميں حركت كرتے ہوئے سوارى پر يا پيدل چلتے ہوئے نماز پڑھى جاسكتى ہے_

فان خفتم فرجالا او ركبانا يہاں پر''فان خفتم ...'' كاجملہ ايك محذوف شرط كى حكايت كرتا ہے جو پہلے والى آيت كے حكم كو مشروط كرتا ہے يعنى نما ز ميں تمام شرائط كى كامل رعايت ، امن كى صورت ميں ہے ليكن اگر خوف پيش آجائے تو جس قدر امكان ہو بجالائے اور باقى شرائط اور آداب ضرورى نہيں ہيں _ اسى طرح ''رجالا''راجلاً كى جمع ہے جو پيدل كے معنى ميں ہے اور ''ركباناً'' راكب كى جمع ہے جو سوار كے معنى ميں ہے اور دونوں ميں حركت كا پہلو مدنظر ہے_

٢_جتنے بھى مشكل حالات پيش آجائيں نماز كا چھوڑنا جائز نہيں ہے_فان خفتم فرجالا او ركبانا

٣_ خوف كے وقت نماز كى بعض شرائط ساقط ہوجاتى ہيں _فان خفتم فرجالا او ركبانا

٤_ خوف كے بعد جب امن و امان كى حالت پلٹ آئے تو نماز كو پورى شرائط كے ساتھ انجام دينا ضرورى ہے_

فاذا امنتم فاذكروا الله كما علمكم ما لم تكونوا تعلمون

٥_ نماز خدا كا ذكر ہے_فاذا امنتم فاذكروا الله جملہ ''فاذكروا اللہ '' ميں ذكر سے مراد نماز ہے_

٦_ نماز وہ فريضہ ہے جس كى تعليم خداوند عالم كى طرف سے دى گئي ہے اور ضرورى ہے كہ اسے

۱۸۳

عليم ديئے گئے طريقے كے مطابق انجام ديا جائے_فاذكروا الله كما علمكم

٧_ خدا كو اسى طرح ياد كرنا چاہيئے جيسے اس نے انسان كو تعليم دى ہے_فاذكروا الله كما علمكم

٨_ انسان تعليم خدا كے بغير الہى احكام كو سيكھنے كى استعداد و صلاحيت نہيں ركھتا_كما علمكم ما لم تكونوا تعلمون

٩_ نماز پڑھتے وقت حركت نہ كرنا نماز كى شرائط ميں سے ہے_فان خفتم فرجالا او ركبانا

خوف كى حالت ميں حركت كرتے ہوئے نماز پڑھنے كا جائز ہونا حكايت كرتا ہے كہ عام حالات ميں نماز كى شرط ہے عدم حركت _

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٩ احكام ثانوى ١

اضطرار : اضطرار اور فريضہ كا اٹھ جانا ٣

انسان: انسان كى كمزورى ٨

ذكر: آداب ذكر ٧; ذكر خدا٧; ذكر كے موارد ٥

نماز: خوف كى نماز١، ٣ ;نماز كا توقيفى ہونا ٦ ;نماز كى اہميت ١، ٢، ٥; نماز كى شرائط ٩ ; نماز كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٩

۱۸۴

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِيَ أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (٢٤٠)

اور جو لوگ مدت حيات پورى كر رہے ہوں اور ازواج كو چھوڑكرجارہے ہوں انھيں چاہئے كہ اپنى ازواج كے لئے ايك سال كے خرچ اور گھر سے نہ نكالنے كى وصيت كركے جائيں پھر اگر وہ خود سے نكل جائيں تو تمھارے لئے كوئي حرج نہيں ہے وہ اپنے بارے ميں جو بھى مناسب كام انجام ديں خدا صاحب عزت اور صاحب حكمت بھى ہے _

١_ موت سے انسان كى حقيقت فنا نہيں ہوتي_ *و الذين يتوفون منكم ''توفي''كے معنى دى ہوئي چيز كو مكمل طور پر واپس لينا ہے نہ اسے نابود كرنا_

٢_ موت انسان كے ارادہ اور اختيار سے نہيں ہے_*يتوفون منكم

''يتوفون''كا بصورت مجہول لانا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ موت انسان كيلئے اختيارى نہيں ہے_

٣_ مردوں ر لازمى ہے كہ اپنى بيويوں كو ايك سال تك اخراجات دينے كى وصيت كريں _

و الذين يتوفون منكم و يذرون ازواجا وصية لازواجهم متاعا الى الحول

٤_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں شوہر كے گھر ميں ايك سال رہنے اوراس كے اموال سے استفادہ كرنے كا حق حاصل ہے_وصية لازواجهم متاعا الى الحول غير اخراج

۱۸۵

''غير اخراج''كا ظہور اس ميں ہے كہ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں شوہر كے گھر سے ايك سال تك نہيں نكالا جاسكتا جس كا لازمہ يہ ہے وہ اس كے گھر ميں رہ سكتى ہيں _

٥_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں ايك سال تك شوہر كے گھر كے علاوہ كہيں اور نہيں رہنا چاہيئے _ *

متاعا الى الحول غير اخراج بعض مفسرين كے نزديك ''غير اخراج'' كے الفاظ عورتوں كے فريضہ كا بيان ہے اس صورت ميں كہ''اخراج'' كافاعل ''ازواج'' ہوں يعنى عورتوں كو شوہروں كے گھر سے نہيں نكلنا چاہئے_ البتہ يہ بات قابل ذكر ہے كہ اخراج يا خروج كو ترك كرنے كا مطلب سكونت اختيار كرنا ہے نہ كہ گھر ميں بند ہوجانا_

٦_ بيوى كا شوہر كے گھر ميں رہنا اس كے ايك سال كے اخراجات ادا كيئے جانے كى شرط ہے _متاعا الى الحول غير اخراج يہ اس صورت ميں ہے كہ''غير اخراج'' عورت كے حق سكونت كے بيان كے علاوہ سابقہ حكم (سال كا خرچہ دينا) كى قيد بھى ہو يعنى عورت كو شوہر كے مال سے استفادہ كا حق اس وقت حاصل ہے كہ وہ اس كے گھر سے نہ نكلے_

٧_ جس عورت كا شوہر فوت ہوجائے اس پر اس كے گھر سے سال مكمل ہونے سے پہلے نكلنا جائز ہے_

غير اخراج فان خرجن فلاجناح عليكم

٨_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں ان كيلئے شوہر كے گھر سے نكلنے كے بعد ہر شائستہ اور مشروع كام(شادي) كرناجائز ہے_فان خرجن فلاجناح عليكم فى ما فعلن فى انفسهن من معروف بعض مفسرين كے نزديك ''من معروف'' سے مراد نكاح كرنا ہے لہذا ايمانى معاشرہ يا ميت كے وارث عورت كو شوہر كے گھر ميں رہائش كى صورت ميں ايك سال تك نكاح كرنے سے روك سكتے ہيں البتہ اس فرض كى بنا پر كہ عورت شوہر كے گھر سكونت اختيار كرے_

٩_ ايمانى معاشرہ كى ذمہ دارى ہے كہ بيوہ اور بے سرپرست عورتوں كے اخلاق و كردار پر نظر ركھے_

فان خرجن فلاجناح عليكم ...من معروف اگرچہ آيت ان عورتوں كے بارے ميں ہے جن كے شوہر فوت ہوچكے ہوں ليكن اس بنا پر كہ خطاب ايمانى معاشرہ سے ہو نہ صرف ولى

۱۸۶

سے معلوم ہوتا ہے كہ صرف بيوہ عورتيں مراد نہيں ہيں كيونكہ معاشرتى لحاظ سے بيوہ عورتوں اور ديگر خواتين ميں كوئي فرق نہيں ہے بلكہ زير نظر ركھنے كا معيار عورت كا بے سرپرست ہونا ہے_

١٠_ خدا وند متعال عزيز اور حكيم ہے_و الله عزيز حكيم

١١_ خداوندعالم الہى احكام كى مخالفت كرنے والوں كو سزا دينے پر قادر ہے_و الله عزيز حكيم

احكام كے بيان كے بعد''عزيز'' ايسا قادر جو (ناقابل شكست اور غلبے والاہے) جيسى صفت كا لانا الہى احكام كى مخالفت كرنے والوں كو ڈرانے كے ليے ہے_

١٢_ احكام كى تشريع خداوند متعال كى حكمت كى بنياد پر ہے_و الله عزيز حكيم

احكام: ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨ احكام كا فلسفہ ١٢ ;احكام كى تشريع ١٢

اسماء و صفات: حكيم ١٠; عزيز ١٠

انسان: انسان كا اختيار ٢; انسان كى حقيقت ١

تخلف كرنے والے: تخلف كرنے والوں كى سزا ١ ١

حقوق :٤،٥،٦

خدا تعالى: خدا تعالى كى حدود سے تجاوز ١١; خدا تعالى كى حكمت ١٢; خدا تعالى كى قدرت ١١

شادي: شادى كے احكام٨

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق ٤،٥،٦

عدت: عدت وفات ٧

عورت: بيوہ عورت ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩ ;عورت كے حقوق ٣، ٤، ٦، ٧، ٨

مطلقہ: مطلقہ كو اخراجات دينا٤، ٦

معاشرہ: معاشرے كى ذمہ دارى ٩ معاشرے كى عمومى نظارت : ٩

موت: ١

۱۸۷

نفقہ: نفقہ كے احكام ٣، ٤، ٦

وصيت: نفقہ كى وصيت ٣;وصيت كے احكام ٣

وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (٢٤١)

اور مطلقات كے لئے مناسب مال و متاع ضرورى ہے كہ يہ صاحبان تقوى پر ايك حق ہے _

١_ مطلقہ عورتوں كو مناسب اور معقول مال و اسباب دينا ضرورى ہے_و للمطلقات متاع بالمعروف

٢_ عورت اور مرد دونوں كے معاشرتى مقام و منزلت سے مال و اسباب كى مقدار اور خصوصيات معين ہوتى ہيں لہذا مطلقہ عورت كو اسى كے مطابق ديا جائے گا_*متاع بالمعروف

ايسا معلوم ہوتاہے كہ عورت اور مرد كى معاشرتى حيثيت كو مدنظر ركھے بغير اچھے اور مناسب مال و اسباب كى تعيين نہيں كى جاسكتي_

٣_ احكام الہى كے بعض موضوعات كى تشخيص كا معيار عرف ہے_متاع بالمعروف

٤_ مطلقہ عورتوں كو مناسب اور معقول مال و اسباب دينا با تقوي لوگوں كا فريضہ اور ان كے تقوي كى علامت ہے_

و للمطلقات حقا على المتقين

٥_ دوسروں كے حقوق كى رعايت اہل تقوي كا فريضہ اور انكے تقوي كى علامت ہے_و للمطلقات حقا على المتقين

٦_ معاشرہ ميں صاحبان تقوي، مطلقہ عورتوں كے حقوق كى رعايت كرنے والے ہيں _حقا على المتقين

اس بات كے پيش نظر كہ اصل حكم تو معاشرہ كے سب افراد كے ليئے ہے ليكن حكم ميں متقين كو مورد توجہ قرار ديا گيا ہے_

٧_ مطلقہ عورتوں كے حقوقى مسائل پر توجہ دينا بہت ہى قابل قدر اور اہميت كا حامل ہے_

حقاً على المحسنين و ان تعفوا اقرب للتقوى حقا على المتقين يہ مطلب مطلقہ عورتوں كے بارے ميں آنے والى آيات كے مجموعہ سے استفادہ ہوتا ہے بالخصوص مختلف تعبيروں كے ساتھ جيسے''حقاً على المتقين''،''حقاً على المحسنين'' اور ''ان تعفوا اقرب للتقوي''جيسے الفاظ كے ذريعہ_

۱۸۸

٨_ عدت مكمل ہونے كے بعد ضرورى ہے كہ مرد اپنى توان اور استطاعت كے مطابق مطلقہ عورت كو مناسب اور اچھا مال و اسباب دے_و للمطلقات متاع بالمعروف امام جعفر صادق(ع) آيت''و للمطلقات ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں :متاعها بعد ما تنقضى عدتها'' على الموسع قدره و على المقتر قدره'' (١) مطلقہ عورت كو مال دينے كا وقت اسكى عدت گزرنے كے بعد ہے اور'' اس كى مقدار وسيع رزق و الے اور تنگ دست كے اپنے اپنے حالات كے مطابق ہے_''

احكام: ١، ٢، ٤، ٨

تقوي: تقوي كے اثرات ٤، ٥، ٦

روايت: ٨

شخصيت: شخصيت كى حفاظت كرنا;٢

شر عى فريضہ: شرعى فريضہ كى شرائط ٨; شرعى ميں قدرت ٨

طلاق: طلاق كے احكام ١

عدت: طلاق كى عدت٨

عرفى معيارات: ١، ٣

عورت: عورت كے حقوق ١، ٢، ٤، ٦، ٧

لوگ: لوگوں كے حقوق ٥

متقين : متقين كى ذمہ دارى ٤، ٥ ; متقين كى صفات ٦

مطلقہ: مطلقہ كومال و اسباب دينا -١، ٢، ٤، ٨ ;مطلقہ كے حقوق ٧

معاشرتى حيثيتيں : ٢

موضوع شناسي: موضوع شناسى كے منابع ٣

____________________

١) كافى ج ٦ ص ١٠٥، ح ٣، نور الثقلين ج ١، ص ٢٤٠، ح ٩٥٦ ، ٩٥٧ _

۱۸۹

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (٢٤٢)

اسى طرح پروردگار اپنى آيات كو بيان كرتا ہے كہ شايد تمھيں عقل آجائے_

١_ خداوند عالم اپنے احكام كو واضح و روشن انداز ميں بيان فرماتا ہے_كذلك يبين الله لكم آياته

٢_ خدا تعالى كى طرف سے آيات كا بيان غور و فكر كو بيدار كرنے كا باعث بنتاہے_كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

٣_ خدا وند متعال كى طرف سے آيات اور احكام كے بيان كرنے كا مقصد غور و فكر كرنا ہے _كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

٤_ لوگ عقل و فكر كے ذريعے آيات اور احكام كو سمجھنے كى قدرت ركھتے ہيں _يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

''لعلكم تعقلون''كا جملہ الہى آيات كے فہم و ادراك كو ان كى تبيين كا ہدف قرار دينے كے ساتھ ساتھ ضمنى طور پر انہيں سمجھنے اور درك كرنے كا راستہ بھى بتلاتا ہے جو وہى غور و فكر ہے_

٥_ الہى احكام اس كى ذات اقدس كى شناخت كى نشانياں ہيں _يبين الله لكم آياته

''آيات''(نشانيوں ) سے مراد الہى احكام ہيں چونكہ''كذلك''گذشتہ احكام كى طرف اشارہ ہے لہذا ہر حكم اس كى نشانى ہوگا_

٦_ غور و فكر كرنا اسلام كى بنيادى اور اہم ترين اقدار ميں سے ہے_لعلكم تعقلون

كيونكہ تعقل اور تفكر كو آيات كى تبيين كا مقصد و ہدف قرار ديا گيا ہے_

٧_ احكام الہى كى شناخت; وحى الہى ، خدا تعالى كى تبيين اور غور و فكر كے ذريعے ہى ممكن ہے_

كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

۱۹۰

آيات خدا: ٥ آيات خدا كا بيان كرنا ١، ٢، ٣، ٧

احكام: احكام كى تشريع ١٣

انسان: انسان كى زندگى كے مختلف پہلو ٤

تعقل: تعقل كا پيش خيمہ٢ ;تعقل كى اہميت ٣، ٤، ٦، ٧

خدا شناسي: خداشناسى كے طريقے ٥

دين: دينى كى تعليمات٥

شناخت: شناخت كے طريقے ٤، ٧

وحي: وحى كى تاثير ٧

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ (٢٤٣)

كيا تم نے ان لوگوں كو نہيں ديكھا جو ہزاروں كى تعداد ميں اپنے گھروں سے نكل پڑے موت كے خوف سے اور خدا نے انھيں موت كا حكم دے ديا او رپھر زندہ كرديا كہ خدا لوگوں پربہت فضل كرنے والا ہے ليكن اكثر لوگ شكريہ نہيں ادا كرتے ہيں _

١_ سابقہ امتوں كے ہزاروں لوگ اپنے گھروں كو موت كے ڈر سے چھوڑ كر بھاگ گئے اور خداوند عالم نے انہيں مار كر كچھ مدت كے بعد دوبارہ زندہ كيا_ا لم تر الى الذين ثم احياهم

٢_ اس قوم كا اپنے گھروں سے نكل جانے اور خدا كے حكم سے مر جانے اور پھر زندہ ہونے كا تاريخى

۱۹۱

واقعہ خداوند متعال كى نشانيوں ميں سے ہے_يبين الله لكم آياته ا لم تر الى الذين خرجوا

٣_ تاريخى واقعات كا جاننا اور ان سے عبرت حاصل كرنا مومنين كا فريضہ ہے_الم تر الى الذين

''الم تر''ميں رؤيت كا مطلب آنكھ سے ديكھنا نہيں ہے كيونكہ وہ واقعہ گذر چكا ہے اور مخاطب كيلئے اس كا ديكھنا ممكن نہيں ہے لہذا ''الم تر ...''ترغيب ہے سابقہ امتوں كے واقعات كو پہچاننے اور سمجھنے كى تاكہ سوچنے والوں كيلئے درس عبرت ہو_

٤_ مُردوں كا اس دنيا ميں زندہ ہونا ممكن ہے (رجعت) _فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

٥_ موت و حيات اللہ تعالى كے قبضہ قدرت ميں ہے_فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

٦_ موت نابودى اور فنا نہيں ہے_فقال لهم الله موتوا ثم احياهم كيونكہ موت اگر نابودى اور فنا ہوتى تو يہ كہنا صحيح نہ ہوتا كہ ہم نے انہيں مردوں كو زندہ كيا_

٧_ موت سے فرار ممكن نہيں ہے_ا لم تر الى الذين خرجوا من ديارهم و هم الوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا

٨_ خدا وند متعال اس قوم كے واقعہ كے بارے ميں غور و فكر كى دعوت ديتاہے جو مر گئے اوردوبارہ زندہ كيئے گئے ( تاريخى واقعات )_ا لم تر الى الذين خرجوا من ديارهم و هم الوف حذر الموت

٩_ خدا كى راہ ميں جنگ سے بھاگنے والوں كو قبل از وقت موت آجانا انكے اعمال كى سزا كے طور پر ہے_

ا لم تر الى الذين فقال لهم الله موتوا ...و قاتلوا فى سبيل الله اس آيت اور بعد والى آيت كے باہمى رابطے كو ديكھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ مذكورہ قوم كا اپنے گھروں اور شہر كو چھوڑنا ميدان جنگ سے بھاگنے كى وجہ سے تھا خدا تعالى اس واقعہ كى يادآورى كرتے ہوئے مسلمانوں كو متنبہ فرما رہاہے كہ ان بھاگنے والوں كى طرح جنگ سے فرار نہ كريں ورنہ قبل از وقت موت ''موتوا''سے دوچار ہوجائيں گے_

١٠_ جنگ سے فرار خدا وند متعال كى طرف سے مقدرشدہ موت كو روك نہيں سكتا_

۱۹۲

فقال لهم الله موتوا ثم احياهم قاتلوا فى سبيل الله

يہ مطلب اس صورت ميں ممكن ہے كہ اس آيت ميں مذكور داستان بعد والى آيت كے لئے تمہيدہو _

١١_ خدا تعالى پورى انسانيت پر فضل كرنے والا ہے _ان الله لذو فضل على الناس

١٢_ موجودہ انسانوں كو گذشتہ امتوں كى تاريخ سے مطلع كرنا خدا وندمتعال كے ان پر فضل و كرم كى وجہ سے ہے_

ا لم تر الى الذين ان الله لذو فضل على الناس ممكن ہے ''ان الله ''اس داستان اور تاريخ كے نقل كرنے كى علت ہوجو اس آيت ميں بيان ہوئي ہے_

١٣_ لوگوں كى حيات، اللہ تعالى كا ان پر فضل و كرم ہے_ثم احياهم ان الله لذو فضل على الناس

''ان الله '' جس طرح داستان اور تاريخ كے نقل كرنے كى علت بن سكتاہے اسى طرح ''ثم احياھم'' كے جملے كى بھى علت بن سكتا ہے_

١٤_ خدا وند متعال كے فضل و كرم كے مقابلے ميں اكثر لوگ ناشكرے ہيں _لذو فضل و لكن اكثر الناس لايشكرون

١٥_ خدا وند متعال كے فضل و كرم كے مقابلے ميں انسانوں پر شكر كرنا فرض ہے_ان الله لذو فضل على الناس و لكن اكثر الناس لايشكرون

١٦_ لوگوں كى اكثريت كا كسى طرف ميلان ركھنا ، اس چيز كى قدر و قيمتكا معيار نہيں ہے _ولكن اكثر الناس لايشكرون

١٧_ جو مردے خدا كے حكم سے زندہ ہوئے وہ ايك عرصے تك اسى دنيا ميں زندگى گزارتے رہے_ثم احياهم ان الله لذو فضل على الناس زندہ ہونا تب فضل خدا شمار ہوگا كہ زندہ ہونے والا ايك مدت تك زندہ رہے لہذا اگر زندہ ہوتے ہى بلافاصلہ مر جائے تو بعيد ہے كہ اس كا زندہ ہونا اس پر خدا كے فضل و كرم كى علامت بن سكے_

١٨_ خدا وند عالم نے حضرت حزقيل (ع) كى دعا كو مورد استجابت قرار ديتے ہوئے كئي ہزار مردوں كو زندہ كرديا_

و هم الوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

۱۹۳

قال الباقر(ع) : فمر بهم نبي ...يقال له حزقيل ...قال رب لو شئت لاحييتهم ...فاوحى الله تعالى اليه افتحب ذلك قال نعم يارب فعادوا احياء (١) امام باقر (ع) فرماتے ہيں ان كے قريب سے ايك نبى (ع) گزرے جن كا نام حزقيل (ع) تھا انہوں عرض كيا اے پروردگار اگر تو چاہے تو ان كو زندگى بخش دے پس اللہ تعالى نے اپنے اس نبى (ع) كى طرف وحى كى كيا تو ايسا چاہتاہے؟ عرض كيا ہاں اے پروردگار ...پس وہ لوگ زندہ ہوگئے

آيات خدا: ٢

اقدار: اقدار كا معيار ١٦

اكثريت: اكثريت كى ناشكرى ١٤ ;اكثريت كے ذريعہ قدر و قيمت كا جانچنا ١٦

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى دعا ١٨

انسان: انسان كى حيات ١٣; انسان كى ذمہ دارى ١٥

تاريخ: تاريخ سے عبرت ٣ ; تاريخ كا فلسفہ٣، ٨ ; تاريخى واقعات كا ذكر ١، ٢، ٨، ١٢، ٧

جانچنا: قدر و قيمت كے جانچنے كا معيار ١٦

جہاد: جہاد ترك كرنے كى سزا ٩ ;جہاد كا ترك كرنا ١٠

حضرت حزقيل(ع) : حضرت حزقيل (ع) كى دعا ١٨

حيات: حيات كا سرچشمہ ٥

خدا تعالى: خدا تعالى كا فضل ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥; خدا تعالى كى قدرت٥ ;خدا تعالى كے احكام ١٧

خوف: موت سے خوف ١

دعا: قبوليت دعا ١٨

رجعت: دنيوى رجعت ١، ٤، ١٨

____________________

١) كافى ج٨، ص ١٩٨، ح٢٣٧ عيون اخبار الرضا (ع) ج١ ص ١٦٠ ،ح ١_

۱۹۴

روايت: ١٨

شكر: شكرخدا ١٥

شناخت : شناخت كے منابع ١٢

غور و فكر: غور و فكركى تشويق٨

قضا و قدر : ١٠

مردے: مردوں كو زندہ كرنا ١، ٢، ٤، ٨، ١٧، ١٨

معاشرہ: معاشرتى گروہ ١٤

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ٣

موت: موت سے فرار ٧; موت قبل از وقت ٩; موت كا سرچشمہ ٥ ;موت كى تقدير ١٠; موت كى حقيقت ٦

وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٤٤)

اور راہ خدا ميں جہاد كرو او ريادركھو كہ خدا سننے والا بھى ہے او رجاننے والابھى ہے_

١_ موت و حيات ميں اللہ تعالى كى حاكميت پر توجہ ، اس كى راہ ميں جنگ و جہاد كيلئے خوف و ہراس كو ختم كرديتى ہے_

ا لم تر الى الذين و قاتلوا فى سبيل الله

٢_ خدا كى راہ ميں جنگ ، زندگى كى نعمت كا شكرانہ ہے_ثم احياهم ...و لكن اكثر الناس لايشكرون_ و قاتلوا فى سبيل الله

زندگى كى نعمت پر لوگوں كى ناشكرى كے بيان كرنے كے بعد، جہاد كا حكم دينا ، درحقيقت زندگى كى نعمت پر خدا كا شكر ادا كرنے كى روش بتلانا ہے_

٣_ خدا كى راہ ميں جنگ و پيكار كرنا واجب ہے_

۱۹۵

و قاتلوا فى سبيل الله

٤_ كسى عمل كى قدر و قيمت تب ہوتى ہے جب وہ خدا كى راہ ميں ہو_و قاتلوا فى سبيل الله

٥_ خدا سميع (سننے والا) اور عليم (جاننے والا) ہے _ان الله سميع عليم

٦_ جنگ كرنے يا اسے ترك كرنے ميں انسان كے ہدف اور اس كى اپنى گفتارو موقف سے اللہ تعالى آگاہ ہے_*

ان الله سميع عليم

٧_ انسان كا خدا كے لامحدود علم پر ايمان ركھنا اور اس كى طرف متوجہ رہنا اسے راہ خدا ميں جنگ كى ترغيب دلاتا ہے _وقاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم

٨_ميدان كارزار ميں سخت ترين حالات ميں خدا تعالى كے وسيع علم پر توجہ ركھنا ضرورى ہے_و قاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم ظاہر يہ ہے كہ آيت ميں خدا كے علم پر توجہ كا ضرورى ہونا جہاد كے ہمراہ بيان كيا گياہے ''قاتلوا واعلموا'' يعنى جب تم جنگ ميں مشغول ہو تو متوجہ رہو كہ خدا سميع اور عليم ہے_

٩_ خدا كى راہ ميں جہاد سے بھاگنے والوں اور جہاد كى خلاف ورزى كرنے والوں كو خدانے خبردار كيا اور ڈرايا دھمكاياہے_و قاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم گويا كہ '' واعلموا ...'' خلاف ورزى كرنے والوں كو ڈرانے دھمكانے كے لئے ہے_

احكام: ٣

اسماء و صفات: سميع ٥; عليم ٥

اقدار: اقدار كا معيار ٤

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا علم ٦، ٧، ٨; اللہ تعالى كى تنبيہات ٩; اللہ تعالى كى حاكميت ١ ;اللہ تعالى كى دھمكياں ٩

۱۹۶

ايمان: ايمان كے اثرات ٧ : ايمان كے انفرادى اثرات ١ ; ايمان اور عمل ٧

تحريك: تحريك كے عوامل ٧

تخلف كرنے والے : تخلف كرنے والوں كو تنبيہ ٩

جہاد: احكام جہاد ٣ جہاد كا ترك كرنا ٦، ٩; جہاد كا شوق دلانا ٧; جہاد ميں خوف ١; راہ خدا ميں جہاد ٢، ٣

حيات: حيات كا منبع ١ ; نعمت حيات ٢

خوف: خوف سے مقابلہ ١

ذكر: ذكر كى اہميت ٨

راہ خدا: راہ خدا ميں حركت٤

سختي: سختى ميں ذكر ٨

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ٧

شكر: شكر نعمت ٢

علم: علم اور عمل ٧ ; علم كے اثرات ٧

عمل: عمل كے آداب ٤

موت: موت كا سرچشمہ ١

واجبات: ٣

۱۹۷

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (٢٤٥)

كون ہے جو خدا كو قرض حسن دے او رپھر خدا اسے كئي گنا كر كے واپس كردے خدا كم بھى كرسكتاہے او رزيادہ بھى او رتم سب اسى كى بارگاہ ميں پلٹائے جاؤگے_

١_ خدا كى راہ ميں جہاد كرنا بندوں كى طرف سے خداوند متعال كى بارگاہ ميں بہترين قرض ہے_*وقاتلوا ...من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

٢_ خدا كى راہ ميں جنگ كرنے كے ليئے اسلحہ اور ديگر ساز و سامان فراہم كرنا مسلمانوں كى طرف سے خداوند متعال كى بارگاہ ميں بہترين قرض ہے _وقاتلوا ...من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

٣_ خدا كى راہ ميں خرچ كرنا بندوں كا خدا پر قرض حسنہ ہے_من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

اس آيت ميں ''قرض''سے مراد خدا كى راہ ميں انفاق ہے_ لہذا خدا كى راہ ميں خرچ كرنا اسے قرض دينا ہے_

٤_ خرچ كئے جانے والے مال كا مناسب وپسنديدہ ہونا نيز خرچ كرنے والے كى نيت كا خالص ہونا انفاق كے دو اہم جز ہيں _من ذا الذى يقرض الله قرضاً حسناً قرض كا قابل تحسين ہونامنحصر ہے '' قرضاً حسناً'' حسن فاعلى ( خلوص نيت اور ...) اور حسن فعلى (مرغوب مال كا خرچ ) پر_

٥_ جو لوگ خدا كو اپنى جان و مال كا قرض ديتے ہيں انہيں خداوند متعال كئي گنا زيادہ اجر ديتاہے_

من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

٦_ لوگوں كو نيك كاموں اور خدا كى راہ ميں خرچ كرنے كا شوق دلانے كيلئے لوگوں كى منافع طلبى

۱۹۸

كى خصلت سے فائدہ اٹھانا قرآنى روشوں ميں سے ہے_من ذا الذى يقرض الله ...فيضاعفه له اضعافا كثيرة

٧_ خدا كے راستے ميں خرچ كرنا بہت قابل قدر ہے_من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

چونكہ انفاق كو قرض شمار كرتے ہوئے اس پر بہت زيادہ اجر كا وعدہ كيا گيا ہے اس سے اس كے بہت زيادہ قابل قدر ہونے كا پتہ چلتا ہے_

٨_ كار خير كے انجام كا پيش خيمہ فراہم كرنے كيلئے محرك پيدا كرنا اچھا عمل ہے_من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له اضعافا كثيرة خدا نے اجر كا ذكر كر كے محركپيدا كيا ہے اور يہ طريقہ كا ر تربيت كرنے والوں كيلئے بہترين درس ہے_

٩_انسانوں كى تنگ دستى يا وسعت رزق خداوند عالم كے اختيار ميں ہے_و الله يقبض و يبسط

١٠_ انسانوں كے مادى وسائل اور امكانات كے محدوديا وسيع ہونے پر خدا وند متعال كى حاكميت ہے_و الله يقبض و يبسط

١١_تنگ دستى اور وسعت رزق (قبض و بسط) كے خدا كى طرف سے ہونے پر ايمان ، قرض دينے يا راہ خدا ميں انفاق سے مال ميں كمى ہو جانے كے بے بنياد خيال كى نفى كرتاہے_والله يقبض و يبسط

انفاق كے ذكر كے بعد، تنگ دستى اور وسعت رزق (قبض و بسط) كے خدا كى طرف سے ہونے كى يا ددہانى اس معنى كو بيان كرنے كے ليے ہے_

١٢_ الہى قبض و بسط پر ايمان انسان كے اندر انفاق كا جذبہ پيداكرتا ہے_و الله يقبض و يبسط

١٣_ جو كچھ خدا كو قرض ديا جاتا ہے وہ باقى رہتا ہے اور انسان كو اس كا كئي گنا زيادہ واپس ملتا ہے _

من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

''فيضاعفہ''كى ضمير اپنے مفعول يعنى قرض كى طرف لوٹتى ہے يعنى جو مال قرض ديا جاتا ہے وہ كئي گنا ہوجاتا ہے اور انسان كو واپس كيا جاتا ہے يہ اس صورت ميں ہوسكتا ہے كہ وہ مال باقى ہو_

۱۹۹

١٤_ سب لوگوں كى ابتدا خدا سے ہے اور ان كى بازگشت بھى صرف اسى كى طرف ہوگي_و اليه ترجعون

''رجوع''كے معنى وہيں پر لوٹنے كے ہيں كہ جہاں سے آيا تھا_

١٥_ خدا كى طرف بازگشت اور پلٹنے پر ايمان، لوگوں كو خدا كى راہ ميں جنگ كرنے اور انفاق كرنے پر ابھارتا اور ترغيب دلاتا ہے_و قاتلوا فى سبيل الله من ذا الذى يقرض الله و اليه ترجعون

١٦_ خدا انفاق (خرچ) كرنے والوں كو دنيا اور آخرت دونوں جگہ اجر ديتاہے_فيضاعفه له اضعافا و اليه ترجعون ''اليہ ترجعون''آخرت ميں خدا تعالى كے اجر كى طرف اشارہ ہے، لہذا''فيضاعفہ لہ''دنيا ميں خدا كے اجر كا بيان ہے_

١٧_ امام مسلمين كو صلہ دينا اور اس كى مالى مدد كرنا خداوند عالم كو قرض دينے كے مصاديق ميں سے ہے_

من ذا الذى يقرض الله قرضا اس آيت كے بارے ميں امام موسى كاظم (ع) نے فرمايا :من ذا الذى نزلت فى صلة الامام (١) ترجمہ: ''من ذالذى ...''كى آيت امام كى مالى مدد كرنے كے بارے ميں نازل ہوئي ہے_

١٨_ خدا كے راستے ميں خرچ كرنے كا اجر بے حساب اور ناقابل شمار ہے_فيضاعفه له اضعافا كثيرة

امام صادق(ع) نے فرمايا:ان الكثير من الله عزوجل لايحصى و ليس له منتهى (٢) ترجمہ: خداوند عزوجل كى طرف سے كثير وہ ہے كہ نہ اسے گنا جاسكے اور نہ ہى اس كى انتہا ہو_

اجر: كئي گنا اجر٥، ١٣

انسان: انسان كا انجام ١٤; انسان كا مبداء ١٤ ;انسان كى نفع طلبى ٦; انسانى صفات ٦

انفاق: انفاق كا اجر١٣، ١٨; انفاق كا اخروى اجر ١٦; انفاق كا پيش خيمہ١٥;انفاق كا دنياوى اجر ١٦ ; انفاق كى تشويق ٦; انفاق كى قدر و قيمت ٣،٧;

____________________

١) كافى ج١، ص ٥٣٧، ح ٤، تفسير عياشى ،ج ١ ص ١٣١، ح٤٣٥_

٢) معانى الاخبار، ص ٣٩٧، ح ٥٤;نور الثقلين ، ج١ ، ص ٢٤٣، ح ٩٦٥_

۲۰۰

انفاق كے آداب ٤; انفاق كے اثرات ١٣ ;انفاق ميں اخلاص ٤; خدا كے راستے ميں انفاق ; رہبر مسلمين پر انفاق١٧; ٣، ٦، ٧، ١٢، ١٨

ايمان: ايمان كے اثرات ١١، ١٢، ١٥; معادپر ايمان ١٥

بے نيازي: بے نيازى كا سرچشمہ ٩، ١٠

تحريك: تحريك كى اہميت ٨; تحريك كے عوامل ٦، ١٢، ١٥

تربيت: تربيت كا طريقہ ٦

جہاد: جہاد كى قدر و منزلت ١، ٢; جہاد كے لئے اسلحہ اور ساز و سامان ٢; خدا كے راستے ميں جہاد١; مالى جہاد ٢

خدا تعالى: خدا تعالى كى حاكميت ١٠ خدا كى طرف بازگشت: ١٤، ١٥

دنياوى وسائل: ١٠

روايت: ١٧، ١٨

روزي: روزى كا وسيع ہونا ٩، ١١

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ ٨، ١٥

عقيدہ: باطل عقيدہ ١١

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ٨;عمل كا اجر ١٣ ; عمل كى بقا ١٣

فقر: فقر كا سرچشمہ ٩، ١٠

قرض: قرض كا اجر٥;قرض كا اخروى اجر ١٦;قرض كا دنياوى اجر ١٦; خدا كو قرض دينا ١، ٢، ٣،٥ ،١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٧

معاد: ١٤

نيت: نيت ميں خلوص ٤

ولايت و امامت: ١٧

۲۰۱

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُواْ لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُواْ قَالُواْ وَمَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَآئِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْاْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (٢٤٦)

كيا تم نے موسى كے بعد بنى اسرائيل كى اس جماعت كو نہيں ديكھا جس نے اپنے نبى سے كہا كہ ہمارے واسطے ايك بادشاہ مقرر كيجئے تا كہ ہم راہ خدا ميں جہاد كريں _ نبى نے فرمايا كہ انديشہ يہ ہے كہ تم پر جہاد واجب ہو جائے تو تم جہاد نہ كرو _ ان لوگوں نے كہا كہ ہم كيوں كرجہاد نہ كريں گے جب كہ ہميں ہمارے گھروں او ربال بچوں سے الگ نكال باہر كرديا گيا ہے _ اس كے بعد جب جہاد واجب كرديا گيا تو تھوڑے سے افراد كے علاوہ سب منحرف ہو گئے اور الله ظالمين كو خوب جانتا ہے _

١_الله تعالى نے حضرت طالوت(ع) اور بنى اسرائيل كے واقعہ ميں غور و خوض كرنے كى دعوت دى ہے_

ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل

٢_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل كے سركردہ

افراد نے اپنے نبى سے درخواست كى كہ ايك شخص معين كريں جس كى سپہ سالارى ميں وہ دشمنوں كے ساتھ جنگ كريں _ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل من بعد

۲۰۲

موسى اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا

''ملائ''وہ لوگ جو دوسروں كى توجہ اپنى طرف موڑليں ( ہر قوم كے سركردہ اور سربراہ لوگ_)

٣_ مسلمانوں كى ذمہ دارى ہے كہ وہ بنى اسرائيل كى تاريخ ميں گہرا غور و فكر كريں اور اس سے عبرت حاصل كريں _

ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل

٤_ بعض انبياء (ع) كى نبوت ايك قوم كے ساتھ مختص تھي_اذ قالوا لنبى لهم

''لہم''كى لام اختصاص كے ليئے ہے يعنى نبى كى نبوت بنى اسرائيل كى قوم كے ساتھ مخصوص تھى اور اگر لام نہ ہوتا مثلاً''نبيہم''كہا جاتا تو پھراس اختصاص كو نہيں سمجھا جاسكتا تھا_

٥_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے ميں دشمنوں كے ساتھ مقابلے كيلئے بنى اسرائيل كے نبى (ع) لوگوں كى پناہ گاہ تھے_اذ قالوا لنبى لهم ابعث

٦_ لوگوں كے سياسى اور فوجى مسائل ميں انبياء (ع) مداخلت كرتے تھے_اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله

٧_ جنگ ميں سپہ سالار كا ہونا ضرورى ہے_ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله '' نقاتل''فعل مضارع كا مجزوم ہونا شرط كے مقدر ہونے كى علامت ہے يعنى اگر سپہ سالار ہوگا تو ہم خدا كى راہ ميں جنگ كريں گے_ پس اگر سپہ سالار ضرورى نہ ہوتا تو جہاد فى سبيل الله كو اس كے وجود كے ساتھ مشروط نہ كيا جاتا _

٨_ معاشرہ كے ليئے رہبر بنانا اس صورت ميں ہوسكتاہے كہ معاشرے كا اجتماعى طور پر ميلان ہو اور اس كے قبول كرنے كا پيش خيمہ فراہم ہو _ابعث لنا ملكا نقاتل

يہ اس لحاظ سے ہے كہ سپہ سالار كى ضرورت كے باوجود حضرت اشموئيل (ع) نے لوگوں كى درخواست سے پہلے ان پر كسى كو سپہ سالار معين نہيں فرمايا جبكہ اس كى ضرورت واضح اور روشن تھي_

٩_ جنگ كى قدر و قيمت كا معيار اس كا راہ خدا ميں ہونا ہے_ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله و ما لنا الانقاتل فى سبيل الله

١٠_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے ميں بنى اسرائيل كے

۲۰۳

راہ خدا ميں جنگ كے پابند ہونے كے بارے ميں حضرت اشموئيل (ع) كو شك تھا_

قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال الاتقاتلوا

١١_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل سے ان كے نبى حضرت اشموئيل (ع) نے خدا كى راہ ميں جہاد كرنے كا عہد و پيمان ليا_قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال جملہ''ھل عسيتم''پيمان لينے سے كنايہ ہے_

١٢_ معاشرہ كے رہبر كے ليئے ضرورى ہے كہ لوگوں سے يہ عہد لے كہ جنگ اور ديگر امور ميں اس كى پيروى كريں گے_

قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال الاتقاتلوا

١٣_ جنگ كا حكم صادر ہونے ميں فوج كى آمادگى كا كردار_اذ قالوا لنبى لهم ابعث

جب تك خود بنى اسرائيل نے جنگ كى خواہش اور آمادگى كا اعلان نہيں كر ديا جنگ كا حكم صادر نہيں ہوا_

١٤_ فوجى جرنيلوں اور سپہ سالاروں كا معين كرنا الہى رہبروں كا كام ہے_*اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا

خدا كى راہ ميں جہاد كى خاطر سپہ سالار كى تعيين كيلئے لوگوں كا اپنے پيغمبر اور رہبر كى طرف رجوع كرنا لوگوں كى اس سوچ كى عكاسى كرتا ہے كہ سپہ سالار كى تعيين كو لوگ دينى رہبروں اور انبياء (ع) كے اختيارات ميں سے سمجھتے تھے_

١٥_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل نے اپنے نبى (ع) كو دشمنوں كے ساتھ جنگ ميں اپنى ثابت قدمى اور پائيدارى كا اطمينان دلايا_و ما لنا الا نقاتل فى سبيل الله

١٦_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل كا تجاوز كرنے والوں كے خلاف جنگ كرنے كا سبب ، انہيں اپنے شہر و ديار سے نكالا جانا اور انكى اولاد كا قيد كيا جانا تھا_و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٧_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل پر ظالموں كا تسلط ہوگيا اور انہيں اپنے گھروں سے نكال دياگيا اور ان كى اولاد كو قيدى بنا ليا گيا_و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٨_ خدا كى راہ ميں جہاد معاشرے كو قيد و بند اور دوسروں كے تجاوز سے نجات دلاتاہے اور عزت

۲۰۴

و آبرو كا باعث بنتا ہے_وما لنا الانقاتل فى سبيل الله و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٩_ اہل ايمان كا تجاوز كرنے والوں كے ساتھ مقابلہ كرنا اور نبرد آزما ہونا ، ان كى قيد سے رہائي حاصل كرنا اور ظلم و ستم سے چھٹكارا پانا ، خدا كى راہ ميں جنگ كے مصاديق ميں سے ہے_و ما لنا الانقاتل فى سبيل الله و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

٢٠_ اگر چہ بنى اسرائيل كى خواہش اور درخواست پر جنگ كا حكم آيا تھا ليكن حكم جہاد كے بعد جناب طالوت (ع) كے زمانے كے اكثر بنى اسرائيل نے اس حكم كى نافرمانى كي_اذ قالوا لنبى فلما كتب عليهم القتال تولوا

ظاہراً ''كتب عليہم'' كے جملے ميں فاعل الله تعالى ہے جو كہ تعظيم كى خاطر حذف كيا گيا ہے_

٢١_ لوگوں كے دعووں كى سچائي اور صداقت كا اندازہ ميدان عمل ميں ہوتاہے_فلما كتب عليهم القتال تولوا

٢٢_ظلم و ستم او ر قيد و بند كے خلاف، خدا كے حكم جہاد كى مخالفت اور نافرمانى ظلم ہے_فلما كتب عليهم و الله عليمٌ بالظالمين

٢٣_ ظالموں كے بارے ميں خدا تعالى و سيع علم ركھتاہے_و الله عليمٌ بالظالمين

٢٤_ خداوند عالم نے ان لوگوں كوڈرايا دھمكاياہے جو اس كى راہ ميں جنگ سے روگردانى كرتے ہيں _تولوا الا قليلا منهم و الله عليمٌ بالظالمين ظالموں كو انكى ظالمانہ كاروائيوں كے بارے ميں خداوند متعال كے علم كى طرف توجہ دلانے كا مقصد ، انہيں ڈرانا دھمكاناہے_

٢٥_ خدا تعالى كے وسيع علم پر توجہ اس كے فرامين كى مخالفت سے بچنے اور ظلم سے اجتناب كرنے كا پيش خيمہ ہے_

و الله عليمٌ بالظالمين

٢٦_ حضرت موسى (ع) جب تك بنى اسرائيل ميں موجود تھے دشمنوں كو بنى اسرائيل پر تجاوز كى جرا ت نہ تھي_

الم تر الى الملا من بن اسرائيل من بعد موسى و قد اخرجنا من ديارنا

''من بعد موسي''اس بات كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے كہ جب تك بنى اسرائيل ميں

۲۰۵

حضرت موسى (ع) موجود تھے دشمنوں نے ان پر تجاوز نہيں كيا _

٢٧_ كسى معاشرہ ميں الہى رہبر كافقدان اس معاشرہ كى صفوں ميں اختلاف و انتشار اور ان پر غيروں كے قبضہ اور تسلط كا موجب بنتا ہے_ *من بعد موسي و قد اخرجنا من ديارنا بنى اسرائيل كا اپنے نبى (ع) سے الہى حكمران كے تعين كى درخواست كرنا بتلاتا ہے كہ اس سے پہلے ان كے درميان ايسا حكمران نہيں تھا جس كے نتيجے ميں ظالموں نے ان پر قبضہ اور تسلط پيدا كر ليا_

٢٨_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل ميں بعض انبياء (ع) ايسے بھى تھے كہ جن كے ذمے معاشرے كى حكمرانى كا منصب نہيں تھا_ *ابعث لنا ملكا و قد اخرجنا من ديارنا ملك (حكمران) كى درخواست كرنا بتلاتا ہے كہ اس زمانے كا نبي(ع) معاشرے كى حكمرانى اور باگ ڈور كا منصب اور مقام نہيں ركھتاتھا_

٢٩_ حضرت طالوت (ع) كى سپہ سالارى ميں بنى اسرائيل كى وفادار اور ثابت قدم فوج كى تعداد ساٹھ ہزار تھي_

تولوا الا قليلا حضرت امام محمد باقر(ع) اس آيت ميں ''قليل '' كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ وہ قليل ساٹھ ہزار افراد تھے_ (١)

اختلاف: اختلاف كے عوامل ٢٧

اطاعت: رہبر كى اطاعت١٢

امتحان: فلسفہ امتحان ٢١

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا نقش ٦، ٢٨ ; انبياء (ع) كى ذمہ دارى كا دائرہ ٦، ٢٨; انبياء (ع) كے اہداف ٥;علاقائي انبياء (ع) ٤

ايمان: ايمان اور عمل٢٥

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا جہاد ١١;بنى اسرائيل كا دربدر ہونا ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كا نافرمانى كرنا ٢٠; بني

____________________

١)معانى الاخبار، ص ١٥١، ح ١، نور الثقلين ج ١، ص ٢٤٥، ح ٩٧١_

۲۰۶

اسرائيل كى تاريخ ١، ٢، ٣، ٥، ١٠، ١١، ١٦، ١٧، ٢٠، ٢٦، ٢٩; بنى اسرائيل كى درخواستيں ٢; بنى اسرائيل كى عہد شكنى ١٠،٢٠; بنى اسرائيل كى قيد وبند ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كى مصيبتيں ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كے انبياء (ع) ٥، ١٠، ١١، ١٥، ٢٦، ٢٨، ٢٩ ; بنى اسرائيل ميں موسى (ع) ٢٦

تاريخ: تاريخ سے عبرت٣ ; فلسفہ تاريخ ١، ٣

تحريك : تحريك كے عوامل ١٦

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ٢٥

جنگ: جنگ ميں سپہ سالارى ٢، ٧، ١٤

جہاد: جہاد ترك كرنا ٢٢، ٢٤; جہاد كى قدر وقيمت ٩;جہاد ميں آمادگى ١٣ ; جہاد ميں استقامت ١٥; خدا كى راہ ميں جہاد ٩، ١١، ١٨، ١٩، ٢٠ فلسفہ جہاد ١٨

حريت پسندي: ١٩

حضرت اشموئيل(ع) : ١٠، ١١

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت (ع) كا واقعہ ١، ٢٩

خدا تعالى: خدا تعالى كاڈرانا دھمكانا ٢٤ ; خدا تعالى كا علم٢٣، ٢٥ ;خدا تعالى كے اوامر ٢٥

دشمن: دشمن كے ساتھ مبارزت ٥، ١٥

رشد و ترقى : رشدو ترقى كا پيش خيمہ ٣

روايت: ٢٩

رہبر: رہبركا نقش ٢٧ ;رہبر كى اہميت ٢٧;رہبر كى بيعت١٢ ; رہبر كى ذمہ دارى ١٢، ١٤ ; رہبركى شرائط٨

۲۰۷

سچائي: سچائي كا معيار ٢١

سياسى فلسفہ ٨، ٢٧ سياسى نظام ٨، ١٢، ١٨، ٢٧

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل ٢٥

ظالمين: ٢٣

ظلم: ظلم كے موارد ٢٢ ; ظلم كے موانع ٢٥

علم: علم اور عمل ٢٥

عمل: عمل كے اثرات ٢١

غلبہ اور عزت: غلبہ اور عزت كے عوامل ١٨

قدر و قيمت : قدر و قيمت كا معيار ٩

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ٣

معاشرہ: معاشرتى ترقى كے عوامل ١٨ ;معاشرہ كے انحطاط كے عوامل ٧ ٢

مومنين: مومنين كاجہاد ١٩ ;مومنين كى حريّت پسندى ١٩

نافرماني: نافرمانى كے اثرات ٢٢

۲۰۸

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (٢٤٧)

ان كے پيغمبر نے كہا كہ الله نے تمھارے لئے طالوت كو حاكم مقرر كيا ہے _ ان لوگوں نے كہا كہ يہ كس طرح حكومت كريں گے ان كے پاس تو ما ل كى فراوانى نہيں ہے ان سے زيادہ تو ہميں حقدار حكومت ہيں _ نبى نے جواب ديا كہ انھيں الله نے تمھارے لئے منتخب كيا ہے ا ور علم و جسم ميں وسعت عطا فرمائي ہے اور الله جسے چاہتا ہے اپنا ملك ديديتا ہے كہ وہ صاحب دسعت بھى ہے اور صاحب علم بھى _

١_ بنى اسرائيل كى حكمرانى كيلئے حضرت طالوت (ع) كا انتخاب ، ان كيلئے فائدہ مند اور سعادت آور تھا_

ان الله قد بعث لكم طالوت ملكا ''لكم''كى لام اس بات كى تصريح كررہى ہے كہ طالوت (ع) كى سپہ سالارى اور حكمرانى ان كى عزت و سعادت كے ليئے تھي_

٢_ بنى اسرائيل كى حكمرانى كيلئے حضرت طالوت(ع) كو خدا وند عالم نے معين فرمايا تھا _ان الله قد بعث لكم طالوت ملكا

٣_ بنى اسرائيل كے بڑوں نے حضرت طالوت(ع) كے چناؤ پر اظہار تعجب كيا كيونكہ نہ تو وہ جانى پہچانى شخصيت تھے اور نہ وہى مال و دولت ركھتے تھے_قالوا انى يكون له الملك و لم يوت سعة من المال

۲۰۹

ظاہراً اعتراض كرنے والے وہى مشورہ دينے والے تھے جن كى بات كو خداوند عالم نے يوں نقل كيا ہے''قالوا نحن احق''تو گويا ان كا اعتراض دو لحاظ سے تھا ايك تو طالوت (ع) كا تعلق اونچے طبقہ سے نہ تھا لہذا انہوں نے كہا''و نحق احق''اور دوسرا ان كے پاس مال و ثروت كا نہ ہونا جس كى طرف ''و لم يؤت سعة من المال'' كے ذريعہ اشارہ ہوا ہے_

٤_ بنى اسرائيل كے بڑوں كا يہ خيال غلط تھا كہ حكمرانى كيلئے حضرت طالوت(ع) كى نسبت وہ زيادہ حقدار ہيں _

و نحن احق بالملك منه

٥_ بنى اسرائيل كے بزرگوں كے خيال ميں حكمرانى كى شرائط ميں سے مشہور و معروف ہونا، اونچے طبقے سے ہونا اور بہت مالدار ہونا تھا_و نحن احق بالملك منه و لم يوت سعة من المال

ظاہراً ''و نحن احق ...''كا جملہ بنى اسرائيل كے بزرگوں كى بات تھى لہذا وہ اسى وجہ سے حكمرانى كيلئے اپنے آپ كو زيادہ لائق اور حق دار سمجھتے تھے_

٦_ بنى اسرائيل كے بزرگوں كى نظر ميں حكمرانى كا اہم ترين معيار مشہور و معروف ہونا اور اونچے گھرانے سے ہونا تھا _*و نحن احق بالملك منه و لم يؤت سعة من المال بنى اسرائيل كے بڑوں نے حكمرانى كا معيار بيان كرتے ہوئے پہلے معروف ہونے اور اشراف كے خاندان سے تعلق ركھنے كو ذكر كيا پھر مال و دولت كا تذكرہ كيا_

٧_ بنى اسرائيل كے بڑوں ميں خدا تعالى كے احكام كے سامنے سرتسليم خم كرنے كا جذبہ نہيں پايا جاتا تھا_

ان الله قد بعث و نحن احق بالملك منه

٨_ حكومت اور حكمرانى ميں خدا كے برگزيدہ اور منتخب افراد دوسروں پر مقدم ہيں _نحن احق بالملك منه قال ان الله اصطفاه عليكم

٩_ حضرت طالوت (ع) علم و قوت كے لحاظ سے دوسروں كى نسبت زيادہ باصلاحيت تھے_و زاده بسطة فى العلم و الجسم كيونكہ جملہ''و زادہ '' بنى اسرائيل ميں سے طالوت (ع) كے انتخاب اور انكے دوسروں پر مقدم كئے جانے كى علت و حكمت بيان كر رہا

۲۱۰

ہے لہذا معلوم ہوا كہ حضرت طالوت (ع) ان دو صفات ميں دوسروں سے افضل و برتر تھے_

١٠_ علمى توانائيوں كى وسعت (اعلم ہونا) اور جسمانى طاقت ميں فضيلت، معاشرہ كى حكمرانى كيلئے انسان كى برترى كا معيار ہے_و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١١_ جسمانى اور علمى توانائيوں كى وسعت اس بات كا معيار بنى كہ حضرت طالوت (ع) كو خدا وند متعال نے حكمرانى كيلئے چن ليا_ان الله اصطفاه عليكم و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٢_ حكمران كے انتخاب كا معيار، اس كا مشہور و معروف اور دولت مند ہونا نہيں ہے_

و لم يوت سعة من المال و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٣_ كسى سپہ سالار كے انتخاب ميں اس كے ماتحت افراد كو قائل كرنا اور ان كے شبہات كو دور كرنا ضرورى ہے_

قالوا انى يكون له الملك ..._ و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٤_ حكمران كے انتخاب ميں اس كى علمى اور فكرى صلاحيتوں ( معاملہ فہمى ) كو جسمانى توانائيوں سے زيادہ اہميت حاصل ہے_*و زاده بسطة فى العلم و الجسم حكمران كے انتخاب كا معيار بيان كرنے ميں ''فى العلم''كو پہلے بيان كيا گيا ہے _

١٥_ حكومت خدا وند عالم كى طرف سے ہے جسے چاہتاہے عطا كرتاہے_و الله يوتى ملكه من يشاء

١٦_ حضرت طالوت (ع) ( الہى قائدين ) كے انتخاب كا سرچشمہ مشيّت الہى ہے_و الله يوتى ملكه من يشاء

١٧_ خدا تعالى كا وجوداور علم وسيع و لا محدود ہے_و الله واسع عليم

يہ اس صورت ميں ہے كہ ''واسع''كے معنى صاحب وسعت ہوں يعنى خدا وسيع وجود ركھنے والا اور ہر جگہ پر محيط ہے نہ مُوسع ( نعمتوں ميں وسعت دينے والا) كے معنى ميں ، اور نہ واسع بمعنى وسيع فضل و قدرت والا كے معنى ميں ہو_

١٨_ افراد كى قابليت اور صلاحيت كے بارے ميں خدا تعالى كا وسيع علم اور اس كى وسعت وجودى اسكے اپنى مشيت كے مطابق حكومت عطا كرنے كا سرچشمہ ہے_

۲۱۱

ان الله اصطفاه عليكم و الله واسع عليم

١٩_ انتخاب كے حقيقى معيار كى نسبت بنى اسرائيل كى محدود سوچ ان كے حضرت طالوت (ع) كے انتخاب پر اعتراض كا موجب بني_قالوا انى يكون له الملك علينا و الله واسع عليم

''والله واسع عليم''بنى اسرائيل پر تنقيد و تعريض ہے كہ تمہارى سوچ محدود ہے جس كى وجہ سے تم نے طالوت (ع) كے انتخاب پر اعتراض كيا ہے_

٢٠_ انسان كى محدود سوچ افعال خدا پر اعتراض كرنے كا موجب بنتى ہے_قالوا انى والله واسع عليم

''والله واسع عليم'' كا جملہ، اعتراض كرنے والوں پر تنقيد و تعريض ہے كہ تم محدود سوچ كے مالك ہو لہذا طالوت (ع) كے انتخاب (افعال خدا ) پر اعتراض كرتے ہو_

٢١_مرضى و مشيت الہى حكمت كى بنياد پر ہے نہ كہ فضول اور بيہودہ _و زاده بسطة فى العلم و الجسم و الله يوتى ملكه من يشاء خدا تعالى نے ايك طرف تو حكمرانى عطا كرنے كا سرچشمہ اپنى مشيت كو قرار ديا ہے اور دوسرى طرف سے حضرت طالوت (ع) كے انتخاب كا معيار بھى ذكر فرمايا ہے پس اس كا مطلب يہ ہے كہ خداوند متعال كى مشيت كسى معيار و حكمت كى بنياد پر ہوتى ہے نہ كہ بے حساب و كتاب اور حكمت كے بغير_

٢٢_ حضرت طالوت (ع) كا خاندان نبوت اور شاہى خاندان سے نہ ہونا بنى اسرائيل كے بزرگان و اشراف كا حضرت طالوت (ع) كے خدا كى طرف سے انتخاب پر اعتراض كا موجب بنا_قالوا انى يكون له الملك علينا

حضرت امام محمد باقر(ع) آيت''ان الله قد بعث ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں :لم يكن سبط النبوة و لا من سبط المملكة ... (١) ترجمہ: طالوت نہ تو خاندان نبوت اور نہ ہى شاہى خاندان ميں سے تھے_

اسماء و صفات: عليم ١٨ ;واسع ١٧، ١٨

انتخاب: انتخاب كے عوامل ١١، ١٦

____________________

١) كافى ج ٨، ص ٣١٦ ،ح ٤٩٨، نور الثقلين ،ج ١ ص ٢٥١، ح ٩٩٦_

۲۱۲

انسان: انسان كى جہالت ٢٠

بنى اسرائيل: اونچے طبقے كے بنى اسرائيل ٣، ٤،٥، ٧; بنى اسرائيل كا تكبر ٤;بنى اسرائيل كا عقيدہ ٤، ٥، ٦ ; بنى اسرائيل كى تاريخ ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٢٢ ; بنى اسرائيل كى جہالت ١٩ ; بنى اسرائيل كى دنياطلبى ٥، ٦، ٢٢; بنى اسرائيل كى نافرمانى ٧، ٢٢; بنى اسرائيل كے ہاں قدر و قيمت ٥; بنى اسرائيل ميں رہبريت ١، ٢

تبليغ: تبليغ كى اہميت ١٣

جہالت: جہالت كے اثرات ١٩، ٢٠

چناؤ: چناؤ كا معيار٣، ٥، ٦، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٤

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت (ع) كا انتخاب ١، ٢، ٣، ١١، ١٦، ١٩، ٢٢; حضرت طالوت(ع) كا علم ٩، ١١ ;حضرت طالوت (ع) كى برترى ٩; حضرت طالوت(ع) كى توانائي ٩

حكومت: حكومت كا سرچشمہ ١٥

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ١٧، ١٨; خدا تعالى كى حاكميت ١٥; خدا تعالى كى حكمت ٢١ خدا تعالى كى عنايات ١٥، ١٨; خدا تعالى كى مشيت ١٥، ١٦، ١٨، ٢١ ; خدا تعالى كے افعال ٢٠

روايت: ٢٢

رہبر: رہبر كا اعلم ہونا ١٠; رہبر كا علم ١٠ ;رہبر كى شرائط ٨، ١٠، ١١،١٢، ١٤

سپہ سالاري: سپہ سالارى كى اہميت ١٣

سياسى فلسفہ :١٨

سياسى نظام: ٨

عقيدہ: باطل عقيدہ ٤

علم: علم اور عمل ٢٠ ;علم كى اہميت١٤

غور و فكر: غور و فكركى اہميت ١٤

۲۱۳

مال: مال كى قدر و قيمت ١٢

منتخب انسان : منتخب انسانوں كے فضائل٨

نافرماني: نافرمانى كا پيش خيمہ ١٩، ٢٠

وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (٢٤٨)

او ران كے پيغمبر نے يہ بھى كہا كہ ان كى حكومت كى نشانى يہ ہےيہ تمھارے پاس وہ تابوت لے آئيں گے جس ميں پروردگار كى طرف سے سامان سكون او رآل موسى او رآل ہارون كا چھوڑا ہو ا تركہ بھى ہے _ اس تابوت كو ملائكہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس ميں تمھارے لئے قدرت پروردگار كى نشانى بھى ہے اگر تم صاحب ايمان ہو_

١_بعض انبياء (ع) كى نبوت صرف كسى خاص معاشرے كيلئے تھي_قال لهم نبيهم

٢_ بنى اسرائيل نے خدا كى طرف سے حضرت طالوت (ع) كى تعيين پر عدم اطمينان كا اظہار كيا اور ان كى حكمرانى پر اپنے پيغمبر (ع) سے نشانى اور دليل مانگي_قد بعث لكم طالوت ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

جملہ''ان آية '' ظاہر كرتا ہے كہ وہ جناب طالوت (ع) كى حكومت كے حق ہونے پر معجزہ اور نشانى مانگ رہے تھے اور نشانى طلب كرنا ان كے شك و ترديد كى علامت ہے_

٣_ صندوق (تابوت) كا بنى اسرائيل كے پاس

۲۱۴

لوٹ آنا طالوت (ع) كى حكمرانى كى علامت تھي_ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

''التابوت''ميں الف، لام عہد ذہنى كا ہے جس كا مطلب يہ ہے كہ وہ صندوق كچھ مدت تك بنى اسرائيل كے پاس رہا تھا اور جملہ''و فيہ بقية مما ترك آل موسي''اس معنى كى تائيد كرتا ہے اسى لئے''اتيان''كے معنى لوٹنے كيا گيا_

٤_ مذكورہ صندوق خدا وند عالم كى طرف سے بنى اسرائيل كيلئے تسكين خاطر كا موجب تھا _ان ياتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم

٥_ بنى اسرائيل كى طرف لوٹنے والا معين صندوق حضرت موسى (ع) و ھارون (ع) كے خاندان كى ميراث اور يادگار نشانى تھا_فيه سكينة من ربكم و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

٦_ بنى اسرائيل كى طرف اس صندوق كو اٹھا كے لانے والے فرشتے تھے_ان ياتيكم التابوت تحمله الملائكة

٧_ بنى اسرائيل كے نبى نے انہيں غيبى خبر دى كہ وہ يادگار صندوق ان كى طرف لوٹ آئے گا_

و قال لهم نبيهم ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

٨_ دلوں كے آرام و اطمينان كا سرچشمہ خدا تعالى كى ذات اقدس ہے _سكينة من ربكم

٩_ خدا تعالى كى طرف سے بنى اسرائيل پرذہنى آرام و سكون نازل كرنے كا مقصد ، دشمنوں كے ساتھ جنگ ميں پائيدارى اور ثابت قدمى اور ان كے ہول اور اضطراب و پريشانى كو كم كرناتھا_ابعث لنا ملكاً نقاتل ان ياتيكم التابوت فيه سكينة سابقہ آيات جو كہ جہاد اور دشمنوں كے ساتھ نبرد كے بارے ميں تھيں كى مناسبت سے يہاں ''سكينہ''سے مراد يا تو دشمن كے ساتھ جنگ كى صورت ميں قلبى آرام و سكون دينا اور ہول و اضطراب كو دور كرنا ہے اور يا يہ آرام و سكون كا واضح مصداق ہے_

١٠_ تسلى خاطر، آدمى كو مشكلات و حوادث ميں استقامت بخشتى ہے_ان ياتيكم التابوت فيه سكينة

١١_ مذكورہ صندوق بنى اسرائيل كو حضرت مو سى (ع) كى شريعت كى ياددہانى كراتا ہے اور ان ميں شريعت پر عمل كرنے كا جذبہ ابھارتاہے (كہ خدا

۲۱۵

كى راہ ميں جنگ كر كے متجاوزين كى قيد و بند سے رہائي حاصل كريں )_*و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

اس آيت ميں جملہ'' بقيّة مما ترك ...'' كا ذكر شايد بنى اسرائيل كو يہ احساس دلانے كى خاطر ہو كہ حضرت موسى (ع) سے اپنا مذہبى رشتہ نہ توڑيں _

١٢_مذكورہ صندوق مخصوص آثار پر مشتمل اور بنى اسرائيل كيلئے بہت اہم اور قابل توجہ تھا_ان ياتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

١٣_ انبياء (ع) كے باقيماندہ آثار كى نگہداشت اور انكى عزت و تكريم قابل تحسين ہے_بقية مما ترك آل موسى و آل هارون خدا تعالى كى طرف سے موسى (ع) ، ہارون (ع) اور ان كے خاندان كے آثار كى حفاظت اس حقيقت كى حكايت كرتى ہے كہ انبياء (ع) كے آثار كى حفاظت بہت ہى بافضيلت اور قابل قدر كام ہے_

١٤_بنى اسرائيل كے مومنين( حق كو قبول كرنے والوں ) نے مذكورہ صندوق كو حضرت طالوت(ع) كى حكمرانى كى حقانيت كى نشانى كے طور پر قبول كرليا_ان فى ذلك لآية لكم ان كنتم مومنين اس آيت ميں ''ايمان''سے مراد كفر كے مقابلے ميں خدا اور رسول پر ايمان نہيں ہے كيونكہ آيت ميں مخاطب اہل ايمان ہيں بلكہ يہاں ايمان لغوى معنى ميں ہے يعنى وہ لوگ جو حق كو قبول كرليتے ہيں ، ان كے مقابل ميں كہ جو شكى مزاج اور ہٹ دھرم ہيں _

١٥_ ايمان (باور كرلينا) معجزات الہى كے ماننے اور ان سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ ہے_ان فى ذلك لآية لكم ان كنتم مومنين

١٦_ حضرت طالوت (ع) كى حكمرانى پر خدا كى طرف سے واضح و روشن نشانى آنے كے باوجود بنى اسرائيل ميں غير مومن يعنى نہ ماننے والے(شكى و ہٹ دھرم ) لوگ موجود تھے_ان فى ذلك لاية لكم ان كنتم مومنين

''ان كنتم مومنين'' كى تعبير اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل كے درميان غير مومن افراد (نہ ماننے والے) موجود تھے_

١٧_ مذكورہ صندوق ميں حضرت طالوت(ع) كى حكمرانى كى نشانى اور الواح حضرت موسى (ع) كے كچھ ٹكڑے موجود تھے جن پر آسمانى علوم لكھے ہوئے تھے_ان ياتيكم التابوت

امام محمد باقر(ع) آيت ''ان ياتيكم التابوت ...''كے بارے ميں فرماتے ہيں :رضاض

۲۱۶

الالواح فيها العلم و الحكمة، العلم جاء من السماء فكتب فى الالواح و جعل فى التابوت (١) فرمايا الواح موسى (ع) كے ٹوٹے ہوئے ٹكڑے تھے جن ميں علم و حكمت تھى علم آسمان سے آ يا تو الواح ميں لكھنے كے بعد تابوت ميں ركھ ديا گيا_

آثار قديمہ: ١٣

آل موسي(ع) : ٥

آل ھارون(ع) :

آل ہارون كى ميراث ٥

استقامت: استقامت كے عوامل ٩، ١٠

اطمينان : اطمينان كے اثرات ٩، ١٠ ; اطمينان كے عوامل ٤، ٨

امداد: غيبى امداد٩

انبياء (ع) : انبياء كا علم غيب ٧;انبياء (ع) كے آثار كى حفاظت ١٣; خاص علاقوں كے انبياء (ع) ١

ايمان: ايمان كے اثرات ١٥

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور كتمان حق ١٦ ; بنى اسرائيل كا تابوت ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ١١، ١٢، ١٤، ١٧ ; بنى اسرائيل كى تاريخ ٢، ٣، ٥، ٦، ٧، ٩، ١١، ١٢، ١٧; بنى اسرائيل كى ہٹ دھرمى ١٦;بنى اسرائيل كے انبياء (ع) ٧; بنى اسرائيل كے مومنين ١٤

تحريك : تحريك كے عوامل ١١

جنگ: جنگ ميں كاميابى كے عوامل ٩

جہاد: راہ خدا ميں جہاد ١١

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت(ع) كا انتخاب ٢;حضرت طالوت(ع) كى قيادت ٣ ، ١٤ ، ١٦ ، ١٧

____________________

١) تفسير عياشى ج١ ص ١٣٣ ح٤٤٠، نورالثقلين ج١ ص ٢٤٧ ح ٩٧٧_

۲۱۷

حضرت موسي (ع) : الواح موسي (ع) ٧ ١;دين موسي (ع) ١١

خوف: خوف كامقابلہ ٩

رشد و ترقي: رشد و ترقى كا پيش خيمہ ١٥

روايت: ١٧

سختي: سختيوں كو آسان كرنے كا طريقہ ١٠;سختيوں

ميں استقامت ١٠

فرشتے: فرشتوں كا نقش ٦

قبوليت حق : قبوليت حق كا سرچشمہ ١٥

قيد: قيدسے نجات ١١

معجزہ : معجزہ كو قبول كرلينا ١٥

۲۱۸

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُواْ مِنْهُ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ قَالُواْ لاَ طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا اللهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (٢٤٩)

اس كے بعد جب طالوت لشكر لےكر چلے توانھوں نے كہا كہ اب خدا ايك نہر كے ذريعہ تمھارا امتحان لينے والا ہے جو اس ميں سے پى لے گاوہ مجھ سے نہ ہوگا اور جونہ چكھے گاوہ مجھ سے ہوگا مگر يہ كہ ايك چلو پانى لے لے _ نتيجہ يہ ہوا كہ سب نے پانى پى ليا سوائے چند افراد كے_ پھر جب وہ صاحبان ايمان كو لے كر آگے بڑھے تو لوگوں نے كہا كہ آج تو ہم ميں جالوت او راس كے لشكروں كے مقابلہ كى ہمت نہيں ہے اور ايك جماعت نے جسے خدا سے ملاقات كرنے كا خيال تھا كہا كہ اكثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑى بڑى جماعتوں پر حكم الہى سے غالب آجاتے ہيں او رالله صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے_

١_ حضرت طالوت (ع) كى جانب سے افراد كى لام بندي، سپاہ كى تشكيل اور پھر انكى كمان ميں دشمن كے مقابلے

۲۱۹

ميں سپاہ كى روانگي_فلما فصل طالوت بالجنود

٢_ حضرت طالوت (ع) كا پہلے سے اپنى سپاہ كو مطلع كرنا كہ خدا تعالى انہيں ايك نہر كے ذريعے آزمائے گا _

قال ان الله مبتليكم بنهر

٣_ بنى اسرائيل كا صندوق كو ديكھنے كے بعد حضرت طالوت (ع) كى حكمرانى كو قبول كرلينا اور پھر دشمن سے نبردآزمائي كيلئے تيار ہوجانا _ان آية ملكه فلما فصل طالوت بالجنود

بنى اسرائيل كے حضرت طالوت(ع) كى سپہ سالارى ميں شك و ترديد كے باوجود سپاہ كى تشكيل ، ايك محذوف جملہ پر دلالت كرتى ہے يعنى تابوت كے آنے كے بعد انہوں نے حضرت طالوت (ع) كى سپہ سالارى كو قبول كرليا اور جنگ كيلئے آمادہ ہوگئے، اس كے بعد طالوت (ع) نے سپاہ كى تشكيل كى _

٤_ خداوند متعال كى طرف سے حضرت طالوت (ع) كى اطاعت گزارى اور انكى قوت ارادى كى ايك نہر كے ذريعے آزمائش_ *ان الله مبتليكم بنهر سابقہ آيات ميں اس بات كا تذكرہ ہوچكا كہ بنى اسرائيل دشمن كے مقابلے ميں حضرت طالوت (ع) كى اطاعت كرنے ميں شك و ترديد ميں مبتلا تھے ( ھل عسيتم ...) لہذا خدا تعالى نے فرمانبرداروں كو الگ كرنے اور انكى فرمانبردارى كى حد كو مشخص كرنے كيلئے انكى آزمائش كي_

٥_ متجاوزين سے بر سر پيكار ہونے كيلئے حضرت طالوت (ع) كے ہمراہ بنى اسرائيل كا ايك بڑا گروہ تھا_فلما فصل طالوت بالجنود كلمہ ''جند'' كا معني ہے بڑى كثرت اسے جمع كى صورت (جنود) ميں لانا حضرت طالوت (ع) كى سپاہ كى كثرت پر دلالت كرتاہے_

٦_ حضرت طالوت(ع) اپنے لشكريوں كو آزمائش ميں كاميابى سے پہلے اپنى طرف نسبت نہيں ديتے تھے_فلما فصل طالوت بالجنود جب تك حضرت طالوت (ع) نے اپنے لشكر كو آزما نہيں ليا انہيں لفظ ''جنود''(لشكروں ) سے تعبير كيا گيا نہ ''جنودہ''( طالوت كے لشكر) يعنى نہ تو طالوت (ع) نے انہيں اپنى طرف نسبت دى اور نہ ہى انكى اپنے سے نفى كى ليكن جب آزمائش كى بات آئي تو كامياب ہونے والوں كے بارے ميں كہا ''فانہ مني''( بيشك وہ مجھ سے ہيں )_

٧_ كسى بھى منتظم و رہبر كيلئے اپنى ما تحت قوتوں كو

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749