تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 179145 / ڈاؤنلوڈ: 6712
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ويسے تو ايمان كا اظہار كرتے ہيں ليكن كفر اور دين كى تكذيب كو پنہاں ركھتے ہيں خدا ان پر لعنت كرے_

اخلاص: اخلاص كے عوامل۱۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا ارادہ ۵; اللہ تعالى كا گمراہى ميں چھوڑنا ۴;اللہ تعالى كا مكر ۱۱;اللہ تعالى كى سزائيں ۱۱ ;اللہ تعالى كى سنتيں ۹;اللہ تعالى كى مشيت ۵، ۸;اللہ تعالى كى ہدايت ۱۰، ۱۲ اللہ تعالى كے ساتھ مكر كے اثرات ۱۰

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى ذمہ دارى كا دائرہ ۴

ايمان: ايمان سے محروم ہونا۸;ايمان ميں استقامت ۱۲; ايمان ميں متحير رہنا ۱، ۶

تحير و سرگرداني: تحير و سرگردانى كے اسباب ۳

جنگ: جنگ ميں غدارى كے اثرات ۱۰

دين: دين كو جھٹلانا ۱۳

دينداري: ديندارى كا دكھاوا ۱۳

ذكر: ذكر خدا كے موجبات ۱۰

روايت: ۱۳

ريا كاري: رياكارى كے اثرات ۱۰

طبيعى عوامل: ۵

عبادت: عبادت ميں سستى كے اثرات ۱۰;عبادت ميں نشاط ۱۲

عمل: عمل كے اثرات ۹

كفار: كفار سے دوستى كے اثرات ۱۰; ولايت كفار كے اثرات ۱۰

كفر: كفر كو چھپانا ۱۳ ;كفر ميں سرگردان رہنا ۱، ۶

۱۴۱

گمراہ لوگ: گمراہ لوگوں كى ہدايت ۴

گمراہي: گمراہى كے عوامل ۹، ۱۰;گمراہى كے موارد ۶

مصمم ارادہ: مصمم ارادے كى راہ ميں حائل ركاوٹيں ۳

منافقين: منافقين كا تحير ۱، ۷; منافقين كا مكر ۷; منافقين كى حيثيت ۲; منافقين كى صفات ۱، ۱۳; منافقين كي

گمراہى ۸;منافقين كى محروميت ۸، ۱۱; منافقين كے عمل كى سزا ۷

موقف اختيار كرنا: موقف اختيار كرنے ميں تحير ۳

نفاق: نفاق كے اثرات ۳

ہدايت: ہدايت سے محروميت ۸، ۱۱ ;ہدايت سے محروميت كے عوامل۱۰; ہدايت كے اثرات ۱۲

آیت ۱۴۴

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً مُّبِيناً )

ايمان والوخبردار مومنين كو چھوڑ كر كفار كو اپنا ولى اور سرپرست نہ بنا نا كيا تم چاہتے ہو كہ الله كے لئے اپنے خلاف صريحى دليل و حجت قرار دے لو _

۱_ كفار كے ساتھ دوستانہ روابط برقرار كرنا، ان سے محبت كى پينگيں بڑھانا اور ان كى سرپرستى قبول كرنا حرام ہے_

يا ايها الذين امنوا لا تتخذوا الكافرين اولياء من دون المؤمنين

۲_ كفار ; مومنين كى سرپرستى اور ان پر حق ولايت كى صلاحيت نہيں ركھتے_

۱۴۲

يا ايها الذين امنوا لا تتخذوا الكافرين اولياء

۳_ خداوند متعال پر ايمان; كفار كى دوستى اور سرپرستى قبول كرنے سے ہم آہنگ نہيں ہے_

يا ايها الذين امنوا لا تتخذوا الكافرين اولياء من دون المؤمنين

۴_ مؤمنين دوسرے مؤمنين كے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار كرنے كے ذمہ دار ہيں _

يا ايها الذين امنوا لا تتخذوا الكافرين اولياء من دون المؤمنين

۵_ اہل ايمان كا فريضہ ہے كہ ايمان كى بنيادوں پر استوار حكومت تشكيل ديں _

يا ايها الذين امنوا لا تتخذوا الكافرين اولياء من دون المؤمنين اگر ''ولي'' كا معنى سرپرست ہو تو جملہ '' لا تتخذوا ...'' اس پر دلالت كرتا ہے كہ كفار كى ولايت قبول كرنا حرام ہے جبكہ '' من دون المؤمنين'' كا معنى يہ ہوگا كہ لازمى ہے كہ ايمان كى اساس پر حكومت تشكيل دى جائے اور اسے قبول كيا جائے_

۶_ منافقين، كفار كے زمرے ميں آتے ہيں _ان المنافقين يا ايها الذين امنوا لا تتخذوا الكافرين

اس سے پہلے اور بعد ميں آنے والى آيات جو منافقين كے بارے ميں ہيں كو مدنظر ركھتے ہوئے يہ كہا جاسكتا ہے كہ ''الكافرين'' سے مراد وہى منافقين ہى ہيں _

۷_ منافقين كے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار كرنا اور ان كى ولايت و حكومت قبول كرنا حرام ہے_

ان المنافقين لا تتخذوا الكافرين اولياء

۸_ مومنين كفار كى ولايت قبول كركے اپنے خلاف خدا كيلئے واضح حجت مہيا كرديتے ہيں _

يا ايها الذين امنوا لا تتخذوا اتريدون ان تجعلوا لله عليكم سلطاناً مبيناً

۹_ كفار كى ولايت قبول كرنے اور ان سے دوستى برقرار كرنے والوں كو خدا نے ڈرايا اور خبردار كيا ہے_

لا تتخذوا الكافرين اولياء ا تريدون ان تجعلوا لله عليكم سلطاناً مبيناً

۱۰_ كفار كى دوستى اور سرپرستى قبول كرنا خداوند عالم كے مقابلے ميں محاذ آرائي كے مترادف ہے_

لا تتخذوا الكافرين اولياء اتريدون ان تجعلوا لله عليكم سلطانا مبيناً

۱۱_ كفار سے دوستى اور ان كا تسلط قبول كرنے كا برا انجام عذاب خداوندى كى صورت ميں سامنے آتا ہے_

۱۴۳

لا تتخذوا الكافرين اولياء ان تجعلوا لله عليكم سلطاناً مبينا خدا كى واضح حجت اس بات كو بيان كرتى ہے كہ اس طرح كے افراد كو عذاب و عقاب سے دوچار كرنے كا مقتضى موجود ہے_

۱۲_ خداوندعالم كسى كو حجت اور برہان كے بغير عذاب سے دوچار نہيں كريگا_

اتريدون ان تجعلوا لله عليكم سلطاناً مبيناً

اتمام حجت: ۱۲

احكام: ۱، ۷

اللہ تعالى: اللہ تعالى سے دشمنى ۱۰;اللہ تعالى كا خبردار كرنا ۹; اللہ تعالى كى حجتيں ۸;اللہ تعالى كى سزائيں ۱۱، ۱۲

ايمان: اللہ تعالى پر ايمان ۳;ايمان كے اثرات ۳

جزا و سزا كا نظام: ۱۲

حكومت: اسلامى حكومت ۵

سياسى نظام: ۱، ۲، ۳، ۵، ۹

عذاب: بغير بيان كے عذاب ۱۲

كفار: ۶ كفار سے دوستى ۳، ۹، ۱۰;كفار سے دوستى كى حرمت ۱;كفار كا تسلط قبول كرنا ۱۱;كفار كى ولايت ۲، ۳، ۸، ۹كفار كى ولايت قبول كرنا ۱۰;كفار كے ساتھ دوستى كى سزا ۱۱;ولايت كفار كى حرمت ۱

محرمات: ۱، ۷

معاشرتى نظام: ۱، ۴، ۵، ۹

منافقين: ۶ حكومت منافقين كى حرمت ۷;منافقين سے دوستى كى حرمت۷;منافقين كا كفر ۶;منافقين كى ولايت كى حرمت ۷

مؤمنين: مؤمنين اور كفار ۸;مؤمنين پر ولايت ۲;مومنين سے دوستى ۴;مومنين كى ذمہ دارى ۴، ۵

۱۴۴

آیت ۱۴۵

( إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيراً )

بيشك منافقين جہنم كے سب سے نچلے طبقہ ميں ہوں گے اور آپ ان كے لئے كوئي مددگار نہ پائيں گے _

۱_ آتش جہنم كا سب سے نچلا اور پست ترين طبقہ منافقين كا ٹھكانہ ہوگا_ان المنافقين فى الدرك الاسفل من النار

۲_ كفار كى ولايت قبول كرنے كى صورت ميں مؤمنين كا شمار بھى منافقين كى صفوں ميں ہوگا_

لا تتخذوا الكافرين اولياء ان المنافقين فى الدرك الاسفل من النار بظاہر ''ان المنافقين ...'' كا جملہ ''لا تتخذوا ...'' كيلئے علت بيان كررہا ہے_ بنابريں ''المنافقين'' سے مراد وہى لوگ ہونگے جو كفار كى ولايت قبول كريں _

۳_ جہنم كے متعدد طبقات ہيں اور اس كا عذاب شدت و ضعف كے لحاظ سے مختلف مراتب كا حامل ہے_

ان المنافقين فى الدرك الاسفل من النار

۴_ اخروى عذاب سے نجات كيلئے منافقين كے پاس كوئي مددگار يا شفيع نہيں ہوگا_

ان المنافقين فى الدرك الاسفل من النار و لن تجد لهم نصيرا

۵_ قيامت كے دن شفاعت كرنے والوں كى شفاعت اور مدد سے بہرہ مند ہونے كا امكان موجود ہے_

و لن تجد لهم نصيرا ''لھم''كو ''نصيرا'' پر مقدم كرنا اس بات كى دليل ہے كہ صرف منافقين كيلئے كوئي مددگار يا شفيع نہيں ہوگا_ جبكہ دوسروں كيلئے جہنم سے نجات كيلئے شفيع اور مددگار كى شفاعت اور مدد كا امكان موجود ہے_

آخرت: آخرت ميں مدد كرنا ۵

۱۴۵

جہنم: جہنم كا عذاب ۳;جہنم كے درجات ۱، ۳

عذاب: عذاب كے مراتب ۳

قيامت: قيامت ميں شفاعت ۴، ۵

كفار: كفار كى ولايت قبول كرنا ۲

منافقين: منافقين جہنم ميں ۱;منافقين كا اخروى عذاب ۴;منافقين كا بغير پناہ كے ہونا۴

نفاق: نفاق كے عوامل ۲

آیت ۱۴۶

( إِلاَّ الَّذِينَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَاعْتَصَمُواْ بِاللّهِ وَأَخْلَصُواْ دِينَهُمْ لِلّهِ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللّهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْراً عَظِيماً )

علاوہ ان لوگوں كے جو توبہ كرليں او راپنى اصلاح كرليں او رخدا سے وابستہ ہو جائيں او ردين كو خالص الله كے لئے اختيار كريں تو يہ صاحبان ايمان كے ساتھ ہوں گے او رعنقريب الله ان صاحبان ايمان كو اجر عظيم عطا كرے گا _

۱_ توبہ، گذشتہ اعمال كى اصلاح ،اللہ تعالى سے تمسك اور خالصانہ اطاعت كى صورت ميں منافقين كو جہنم كى آگ ميں نہيں پھينكا جائے گا_ان المنافقين الا الذين تابوا و اصلحوا و اعتصموا بالله و اخلصوا دينهم

۲_ توبہ، گذشتہ اعمال كى اصلاح ، اللہ تعالى سے تمسك اور اس كى خالصانہ اطاعت كى صورت ميں منافقين حقيقى مومنين كے زمرے ميں آجاتے ہيں _

الا الذين تابوا فاولئك مع المومنين

۱۴۶

۳_ توبہ كا دروازہ اور واپسى كا راستہ سب لوگوں حتى منافقين كيلئے بھى كھلا ہے_

الا الذين تابوا و اصلحوا و اعتصموا بالله

۴_ منافقين كى توبہ قبول كيے جانے اور اس كے ثمر آور ثابت ہونے كى شرط يہ ہے كہ گذشتہ اعمال كى اصلاح، ان كى تلافي، فرامين الہى كى پيروى اور رياكارى سے اجتناب كيا جائے_الا الذين تابوا و اصلحوا و اعتصموا بالله و اخلصوا دينهم لله اگر ''اصلحوا''، ''اعتصموا'' اور ''اخلصوا'' كے جملے منافقين كى توبہ كے قبول كيے جانے كى شرائط بيان كرر ہے ہوں تو پھر ان كى بيان كردہ صفات كو سامنے ركھتے ہوئے ''اعتصموا'' سے مراد احكام و فرامين خداوندى كى پيروى اور ''اخلصوا'' سے مراد اس رياكارى سے اجتناب كرنا ہے جسے منافقين كى خصوصيات ميں سے شمار كيا گيا ہے_

۵_ گذشتہ اعمال كى اصلاح; توبہ اور ناروا اعمال پر پچھتاوے كے ساتھ مشروط ہے_ جبكہ خداوند عالم كى خالصانہ اطاعت اس كے ساتھ متمسك ہونے كى مرہون منت ہے_الا الذين تابوا و اصلحوا و اعتصموا بالله و اخلصوا دينهم

بظاہر '' اصلحوا '' ، '' اعتصموا '' اور ''اخلصوا'' كے جملے ايك دوسرے پر موقوف ہيں _ يعنى منافقت ترك كيے بغير اصلاح ممكن نہيں ہے اور اصلاح كے بغير اللہ تعالى سے متمسك ہونا ناممكن ہے جبكہ اللہ تعالى سے تمسك كے بغير رياكارى سے چھٹكارا پانا محال ہے_

۶_ با ايمان معاشرہ حقيقى توبہ كرنے والوں كو قبول كرنے كا پابند ہے_الا الذين تابوا و اصلحوا و فاولئك مع المؤمنين

جملہ ''فاولئك مع المؤمنين'' سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلامى معاشرے كو كھلے دل سے تائب منافقين كو قبول كرنا چاہيئے_ انہيں اسلامى معاشرے كے عضو كے طور پر قبول كيا جائے_

۷_ توبہ، گناہ كے متناسب ہونى چاہيئے_الا الذين تابوا واصلحوا و اخلصوا

گذشتہ آيات ميں بيان ہونے والى منافقين كى خصوصيات اور توبہ كے قبول كيئے جانے والى شرائط كے ساتھ ان كے تناسب كو مد نظر ركھنے سے معلوم ہوتا ہے كہ ہر گناہ كيلئے ايك خاص توبہ ہے_

۸_ منافقت سے دوري، گذشتہ اعمال كى تلافي، خدا وند عالم سے تمسك اور ريا كارى سے اجتناب حقيقى ايمان كے تحقق كى شرائط ہيں _

۱۴۷

الا الذين تابوا و اصلحوا و اعتصموا بالله فاولئك مع المؤمنين

۹_ خداوند متعال نے مؤمنين كو بہت بڑے اجر سے بہرہ مند كرنے كا وعدہ كيا ہے_و سوف يؤت الله المؤمنين اجراً عظيماً

۱۰_ تائب منافقين خداوند عالم كى عظيم پاداش سے بہرہ مند ہوں گے_فاولئك مع المؤمنين و سوف يؤت الله المؤمنين اجراً عظيماً

۱۱_ اجر الہى كے مختلف مراتب ہيں _سوف يؤت الله المؤمنين اجرا عظيماً

۱۲_ لوگوں كو ايمان كى طرف راغب كرنے اور كفر و نفاق سے دور كرنے كيلئے قرآن كريم نے جن روشوں سے استفادہ كيا ہے ان ميں سے ايك اجر عظيم كا وعدہ كرنا اور دوزخ سے ڈرانا ہے_ان المنفقين فى الدرك و سوف يؤت الله المومنين اجراً عظيماً

اصلاح: اصلاح كا پيش خيمہ ۵;اصلاح كے اثرات ۱، ۴

اطاعت: خالص اطاعت ۱، ۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا وعدہ ۹; اللہ تعالى كى اطاعت ۲، ۴، ۵;اللہ تعالى كى پاداش ۱۰، ۱۱

ايمان: ايمان كى ترغيب ۱۲;ايمان كى شرائط ۸

پاداش: پاداش كے مراتب ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲;پاداش كا وعدہ ۱۲

پشيماني: پشيمانى كے موارد ۵

تمسك: اللہ تعالى سے تمسك ۱، ۲، ۵، ۸

توبہ: توبہ كا قبول كيا جانا ۳، ۶;توبہ كى شرائط۷;توبہ كى قبوليت كى شرائط ۴;توبہ كے اثرات ۱، ۲، ۵;گناہ سے توبہ ۷

توبہ كرنے والے: توبہ كرنے والوں كى پاداش ۱۰

جہنم: جہنم سے چھٹكارا ۱

۱۴۸

رياكاري: رياكارى سے اجتناب ۴، ۸

عمل: ناپسنديدہ عمل ۵

كفر: كفر سے اجتناب۱۲

گناہ: گنا ہ كى اصلاح ۸

معاشرہ: دينى معاشرے كى ذمہ دارى ۶

منافقت: منافقت سے اجتناب ۸، ۱۲

منافقين: منافقين كى توبہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۱۰

مؤمنين: مؤمنين كى پاداش ۹;مؤمنين كى صفات ۲

ہدايت: ہدايت كى روش ۱۲

آیت ۱۴۷

( مَّا يَفْعَلُ اللّهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَكَانَ اللّهُ شَاكِراً عَلِيماً )

خدا تم پرعذاب كركے كيا كرے گا اگر تم اس كے شكر گذار اورصاحب ايمان بن جاؤ او روہ تو ہر ايك كے شكر يہ كا قبول كرنے والا اور ہر ايك كى نيت كا جاننے والا ہے _

۱_ خداوندعالم كسى ضرورت كى بناپر بندوں كو عذاب سے دوچار نہيں كرتا_ما يفعل الله بعذابكم

۲_ خدا پر ايمان اور اس كى نعمات پر شكر كرنا انسان كيلئے دوزخ كے عذاب سے چھٹكارے كا سبب بنتا ہے_

ما يفعل الله بعذابكم ان شكرتم و آمنتم

۱۴۹

آيت ۱۴۵ ''فى الدرك الاسفل من النار'' كے قرينہ كى بناپر عذاب سے مراد جہنم كى آگ ہے_

۳_ منافقين خدا كى ناشكرى اور اپنے كفر كى بدولت عذاب جہنم كے مستحق ہيں _

ان المنافقين فى الدرك الاسفل ما يفعل الله بعذابكم ان شكرتم و آمنتم اگر يہ آيت شريفہ منافقين سے مخاطب ہو تو يہ ان كى ناشكرى اور بے ايمانى پر دلالت كررہى ہے اور اسے دوزخ ميں گرفتار ہونے كے اسباب ميں سے قرار ديتى ہے_

۴_ خدا كے بارے ميں كفر اور اس كى نعمات كى ناشكرى انسان كيلئے عذاب خداوندى سے دوچار ہونے كا موجب بنتى ہے_ما يفعل الله بعذابكم ان شكرتم و آمنتم

۵_ عذاب الہى انسان كے عقيدے اور عمل كا نتيجہ ہے_ما يفعل الله بعذابكم ان شكرتم و آمنتم

جملہ ''ما يفعل'' اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ خداوندعالم اپنے بندوں كو عذاب نہيں دينا چاہتا اور جملہ ''ان شكرتم ...'' اس بات پر دليل ہے كہ انسان كى ناسپاسى اور ايمان نہ لانا اس كيلئے عذاب كا سبب بنتا ہے_

۶_ شكر و سپاس كا جذبہ خدا پر ايمان لانے كا پيش خيمہ ہے_ان شكرتم وآمنتم

''شكرتم'' كو ''امنتم '' پر مقدم كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے كہ شكر نعمت كا لازمہ منعم (خداوند عالم )كى معرفت ہے اور منعم كى معرفت كا نتيجہ اس پر ايمان لانا ہے_

۷_ انسان كيلئے بارگاہ خداوندى ميں شكر و سپاس كا بہترين مصداق اس پر ايمان لانا ہے_

ان شكرتم و آمنتم ممكن ہے ''شكرتم'' كے بعد ''ء امنتم'' كا جملہ شكر كى وضاحت اور اس كا واضح اور اہم ترين مصداق بيان كرتا ہو_

۸_ خداوندعالم شاكر (سپاس گذار) اور عليم (بہت جاننے والا) ہے_و كان الله شاكراً عليماً

۹_ خداوند عالم كى نعمتوں كا شكر ادا كرنے والے مؤمنين اس كى پاداش اور اجر سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

ان شكرتم و آمنتم و كان الله شاكرا عليماً اللہ تعالى كا شكر در اصل اس كا اپنے بندوں كيلئے اجر و ثواب ہے اور يہ اجر بندوں كى شكر گذارى اور ايمان كے بدلے ميں ملتا ہے_

۱۵۰

۱۰_ اجر الہى انسان كے اعمال كے ساتھ متناسب ہوتا ہے_

ان شكرتم و آمنتم و كان الله شاكرا عليماً خدا كى توصيف ''شاكرا'' كہہ كر كى گئي ہے جس كا معنى يہ كہ خداوند عالم اپنے بندوں كى شكر گذارى كے بدلے ميں پاداش عطا كرتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے كہ خدا كى پاداش اور اس كا اجر انسان كے نيك كردار و گفتار كے ساتھ تناسب ركھتا ہے_

۱۱_ خداوند متعال حقيقى توبہ كرنے والوں ، مومن شكر گذاروں اور ان كے ايمان و شكر كے مراتب سے مكمل طور پر آگاہ ہے_ان شكرتم و آمنتم و كان الله شاكرا عليماً جملہ''ان شكرتم و امنتم'' اور ''الذين تابوا'' كے بعد خدا كى ''عليم'' سے توصيف كى گئي ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ علم كا متعلق وہى ايمان، شكر، بندوں كى توبہ اور اس كى مقدار و خصوصيات ہيں _

۱۲_ خدا كا وسيع علم اور آگاہى اس بات كى ضامن ہے كہ وہ اپنے مومن اور شاكر بندوں كو اجر و پاداش عطا كرے_

ان شكرتم و امنتم و كان الله شاكراً عليماً

اسماء و صفات: شاكر ۸;عليم ۸

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا بے نياز ہونا ۱;اللہ تعالى كا عذاب ۱، ۵;اللہ تعالى كا علم ۱۱، ۱۲;اللہ تعالى كى پاداش ۱۰; اللہ تعالى كى پاداش كے موجبات۱۲;اللہ تعالى كے عذاب كے موجبات ۴

ايمان: ايمان كا پيش خيمہ ۶;ايمان كا متعلق ۲، ۶، ۷; ايمان كى حقيقت ۷;ايمان كے اثرات۲;ايمان كے مراتب ۱۱;خدا پر ايمان ۲، ۶، ۷

توبہ كرنے والے : سچے توبہ كرنے والے ۱۱

جزا و سزا كا نظام: ۱، ۱۰

شاكرين: شاكرين كى پاداش ۱۲

شكر: اللہ تعالى كا شكر ۷، ۹;شكر كے اثرات ۲، ۶

عذاب: اہل عذاب۳;عذاب سے چھٹكارے كے اسباب ۲

عقيدہ: عقيدے كے اثرات ۵

۱۵۱

عمل: عمل كى پاداش ۱۰; عمل كے اثرات ۵

كفر: اللہ تعالى كے بارے ميں كفر ۳، ۴; كفر كى سزا ۳; كفر كے اثرات ۴

كفران: كفران نعمت كے اثرات ۴;كفران كى سزا ۳

منافقين: منافقين كا كفر ۳;منافقين كا كفران ۳

مؤمنين: شاكر مؤمنين ۱۱;مؤمنين كا شكر ۹;مؤمنين كى پاداش ۹، ۱۲

آیت ۱۴۸

( لاَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللّهُ سَمِيعاً عَلِيماً )

الله مظلوم كے علاوہ كسى كى طرف سے بھى على الاعلان برا كہنے كو پسند نہيں كرتا او رالله ہر بات كا سننے والا او رتمام حالات كا جاننے والا ہے _

۱_ خداوند عالم ايسى باتيں پسند نہيں كرتا اور ان پر راضى نہيں ہے كہ جن سے دوسروں كى برائياں اور نقائص ظاہر اور فاش ہوتے ہوں _لا يحب الله الجهر بالسوء من القول الا من ظلم مذكورہ بالا مطلب ميں ''من القول'' كو ''الجھر'' كيلئے بيان لياگيا ہے اور استثناء يعنى ''الا من ظلم''كو مدنظر ركھنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مراد دوسروں كى برائياں برملا بيان كرنا ہے_

۲_ خداوندعالم اس چيز كو پسند نہيں كرتا اور اس پر راضى نہيں ہے كہ لوگ دوسروں كے بارے ميں بدگوئي اور بدزبانى كريں _لا يحب الله الجهر بالسوء من القول الا من ظلم

مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر مبنى ہے كہ ''من القول'' ''السوئ'' كيلئے قيد ہواور استثناء يعنى ''الا من ظلم'' كو مد نظر ركھنے سے معلوم ہوتا ہے كہ ''سوء من القول'' سے مراد ايسى

۱۵۲

ناروا باتيں ہيں جو دوسروں كے بارے ميں كہى جائيں _

۳_ دوسروں كى ہتك حرمت اور ان كے عيوب و نقائص آشكار كرنا حرام اور خداوند عالم كى ناراضگى كا باعث بنتا ہے_

لا يحب الله الجهر بالسوء من القول الا من ظلم خدا كى ناراضگي'' لا يحب اللہ'' نہى الہى اور وضع حرمت سے كنايہ ہے_ واضح ر ہے كہ سخن اور كلام اس مقام پر كسى خصوصيت كا حامل نہيں ہے بلكہ اس سے مراد دوسروں كے عيوب ظاہر كرنا ہے_ البتہ يہ عمل اكثر اوقات سخن و كلام كى صورت ميں انجام پاتا ہے_

۴_ لوگوں كو دشنام دينا اوربرابھلا كہنا حرام ہے_لا يحب الله الجهر بالسوء من القول

بعض مفسرين كا كہنا ہے كہ ''بالسوء من القول'' سے مراد صرف دشنام طرازى اوربرابھلا كہنا ہے_

۵_ مظلوم كيلئے ظالم كو دشنام دينا اور اس كے عيوب ظاہر كرنا جائز ہے_لا يحب الله الجهر بالسوء من القول الا من ظلم

۶_ مظلوم كيلئے ظالم كى ہتك حرمت اور لوگوں پر اس كى ظالمانہ خصلتيں آشكار كرنا جائز ہے_

لا يحب الله الجهر بالسوء من القول الا من ظلم حكم اور موضوع كے درميان تناسب اس بات كا تقاضاكرتا ہے كہ يہ كہا جائے كہ ظالم كے عيوب ظاہر كرنے سے مراد ايسى بات كرنا ہے جس كے ذريعے مظلوم اپنے اوپر ہونے والے ظلم بيان كرسكے_ بنابريں مظلوم كو يہ حق نہيں پہنچتا كہ ظالم كى وہ برائياں بھى ظاہر كرے جن كا اس سے كوئي تعلق نہيں ہے_

۷_ اسلام كا نظام حقوق و اخلاق مظلوموں اور ستم ديدہ لوگوں كا دفاع كرتا ہے_

لايحب الله الجهر بالسوء من القول الا من ظلم اس آيت شريفہ ميں دوسروں كى بدگوئي كى حرمت سے مظلوموں كو مستثني قرار ديتے ہوئے، اجازت دى گئي ہے كہ وہ اپنى صدائے مظلوميت كے ذريعے ظالموں كا ظلم آشكار كرسكيں _ اس سے واضح ہوجاتا ہے كہ اسلام كا نظام حقوق ستم رسيدہ لوگوں كا دفاع كرتا ہے_

۸_تشہيراور آشكار و واضح طور پر بدگوئي كرنا ظلم اور ظالم كے خلاف مقابلے كيلئے جائز قرار دى گئي روشوں ميں سے ايك ہے_لا يحب الله الجهر بالسوء من القول الا من ظلم

۱۵۳

۹_ خداوند سميع (بہت زيادہ سننے والا) اور عليم (بہت زيادہ جاننے والا) ہے_و كان الله سميعاً عليماً

۱۰_ خداوندعالم ان تمام باتوں كو سنتا ہے جو لوگوں كى برائيوں اور عيوب و نقائص كو آشكار كريں اور ان كى ہتك حرمت كا باعث بنيں _لا يحب الله الجهر بالسوء و كان الله سميعاً عليماً

۱۱_ خداوند متعال كامطلق علم ،حقوق اور اخلاق كے بارے ميں اسلام كے قوانين وضع كيے جانے كا ضامن ہے_

لا يحب الله الجهر بالسوء و كان الله سميعاً عليماً

۱۲_ خداوند متعال نے لوگوں كے عيوب بيان كرنے والوں اور ان كى ہتك حرمت كرنے والوں كو ڈرايا اور خبردار كيا ہے_لا يحب الله الجهر بالسوء و كان الله سميعا: عليما اوامر و نواہى بيان كرنے كے بعد خدا وند متعال كى سميع اور عليم كہہ كر توصيف كرنا عام طور پر سزا اور عذاب كى دھمكى كيلئے استعمال كيا جاتا ہے_

۱۳_ اسلام كے اخلاقى نظام اور حقوق كے نظام ميں چولى دامن كا ساتھ ہے_لا يحب الله الجهر بالسوء من القول الا من ظلم و كان الله سميعاً عليماً

۱۴_ خداوند متعال ستمگروں اور ستم ديدہ لوگوں سے آگاہ ہے_ نيز اس چيز سے بھى آگاہ ہے كہ مظلوم لوگ انصاف چاہتے ہيں _لا يحب الله الا من ظلم و كان الله سميعاً عليماً ممكن ہے علم كامتعلق اس آيت شريفہ ميں بيان ہونے والے مطالب ہوں مثلاً ظالم، مظلوم، ہونے والے ظلم كى مقدار و

۱۵_ اگر انسان خداوند عالم كے علم و آگاہى كو سامنے ركھے تو وہ ظالموں كى بدگوئي كے سلسلے ميں الہى خصوصيات سے سوء استفادہ نہيں كريگا_ ممكن ہے جملہ ''كان اللہ ...'' مظلوموں كو خبردار كررہاہو كہ مبادا حكم الہى سے سوء استفادہ كرتے ہوئے ظالم كى بدگوئي اور غيبت ميں حد سے تجاوز كر جائيں يا ممكن ہے كہ ايسے لوگوں كو خبردار كررہاہو جو مظلوم نہيں ہيں ليكن اس بہانے سے كہ وہ مظلوم ہيں كسى بے گناہ كے خلاف باتيں كرنا شروع كرديں _

۱۶_ بلائے ہوئے مہمان كى صحيح ميزبانى نہ كرنا ظلم ہے

۱۵۴

اور مہمان كيلئے اس كا تذكرہ دوسروں كے سامنے جائز ہے_لا يحب الله الجهر بالسوء من القول الا من ظلم

امام صادقعليه‌السلام اس آيت شريفہ كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں :من اضاف قوماً فاساء ضيافتهم فهو ممن ظلم فلا جناح عليهم فيما قالوا فيه (۱) يعنى اگر كوئي شخص بعض لوگوں كو مدعو كرے اور پھر اچھى طرح ان كى ميزبانى نہ كرے تو وہ ان لوگوں ميں سے ہے جو ظلم كرتے ہيں لہذا اگر مہمان اس كے بارے ميں باتيں كريں تو اس ميں كوئي حرج نہيں _

آبرو: ہتك آبروكى حرمت ۳;ہتك آبرو كى مذمت ۱۰

احكام: ۳، ۴، ۵، ۶

اخلاقى نظام: ۷، ۱۱، ۱۳

اسماء و صفات: سميع ۹;عليم ۹

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا خبردار كرنا ۲اللہ تعالى كا سننا ۱۰;اللہ تعالى كا علم ۱۱، ۱۴، ۱۵;اللہ تعالى كى ناراضگى ۱، ۲; اللہ تعالى كى ناراضگى كے اسباب ۳

بدگوئي: بدگوئي كى مذمت ۱، ۲، ۱۰

حقوق كا نظام: ۷، ۱۱، ۱۳

دشنام: جائز دشنام ۵;دشنام كى حرمت ۴;دشنام كى مذمت ۲;دشنام كے احكام ۴

دينى تعليمات كا نظام: ۱۳

ذكر: ذكر كے اثرات ۱۵

روايت: ۱۶

ظالمين: ۱۴ ظالمين سے مقابلے كى روش ۸;ظالمين كو عياں كرنا ۵، ۶; ظالمين كى بدگوئي ۶، ۸، ۱۵

ظلم: ظلم كے موارد ۱۶

عيب: عيب فاش كرنا ۱۰;عيب فاش كرنے كى حرمت ۳

عيب فاش كرنا:

____________________

۱) تفسير عياشي، ج ۱، ص ۲۸۳، ح ۲۹۶، تفسير برھان، ج ۱، ص ۴۲۵، ح۱_

۱۵۵

جائز طور پر عيب فاش كرنا ۵، ۶;عيب فاش كرنے كى مذمت ۱

عيب فاش كرنے والے لوگ:

عيب فاش كرنے والوں كو خبردار كرنا۱۲; عيب فاش كرنے والوں كو دھمكى ۱۲

غيبت: جائز غيبت ۸، ۱۶

فحشاء: فحشاء پھيلانے كى مذمت ۱

محرمات: ۳، ۴

مظلوم: مظلوم كا مدد طلب كرنا ۱۴;مظلوم كى حمايت ۷ ; مظلوم كے حقوق ۵، ۶

مقدسات: مقدسات سے غلط استفادہ ۱۵

مہمان: مہمان كى ميزباني۱۶

آیت ۱۴۹

( إِن تُبْدُواْ خَيْراً أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُواْ عَن سُوَءٍ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ عَفُوّاً قَدِيراً )

تم كسى خير كا اظہار كرو يا اسے مخفى ركھو يا كسى برائي سے درگذر كرو تو الله گناہوں كا معاف كرنے والا او رصاحب اختيار ہے _

۱_ نيك اعمال انجام دينا خواہ خلوت ميں ہو يا جلوت ميں ، خدا كو پسند اور وہ اس پر راضى ہے_ان تبدوا خيراً او تخفوه فان الله كان عفواً قديراً

۲_ انجام ديئے گئے نيك اعمال كا اظہار اور انہيں عياں كرنا جائز ہے_ان تبدوا خيرا او تخفوه فان الله كان عفواً قديراً

ممكن ہے مذكورہ بالا مطلب ميں ابداء اور اخفاء كا متعلق وہ نيك عمل ہو جو پہلے انجام پا چكا ہے لہذا ابداء خير كا معنى نيكى كا اظہار كرنا ہوگا_

۳_ خداوند متعال نے مؤمنين كو نيك اعمال انجام دينے كى ترغيب دلائي ہے_

۱۵۶

ان تبدوا فان الله كان عفوا قديرا

۴_ خداوند عالم نے مؤمنين كو اپنے ساتھ برا سلوك كرنے والوں سے درگذر كرنے كى ترغيب دلائي ہے_

ان تبدوا او تعفوا عن سوء فان الله كان عفوا قديرا

۵_ انسان كيلئے دوسروں كى برائياں عياں و فاش كرنا جائز نہيں ہے_ ليكن اسے ان كى خوبيوں كو ظاہر كرنے يا مخفى ركھنے كا اختيار حاصل ہے_لا يحب الله الجهر بالسوء ان تبدوا خيراً او تخفوه

دوسروں كے عيوب و نقائص كو فاش كرنے كى حرمت كے بارے ميں آنے والى گذشتہ آيت شريفہ كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ كہا جاسكتا ہے كہ يہ آيت شريفہ بھى دوسروں كے نيك اعمال ظاہر كرنے يا مخفى ركھنے كے بارے ميں ہے_ البتہ اس صورت ميں ''فلا جناح عليكم'' كى طرح كا جملہ جواب شرط كے طور پر محذوف ہوگا_

۶_ خداوند متعال بہت زيادہ بخشنے والا اور توانا ہے_فان الله كان عفواً قديراً

۷_ خداوندمتعال عفو سے كا م ليتا ہے، در حاليكہ وہ انتقام لينے اور سزا دينے كى قدرت ركھتا ہے_فان الله كان عفوا قديرا

۸_ خلوت و جلوت ميں لوگوں سے نيكى اور ان كى برائيوں سے چشم پوشى اور درگذر كرنا عفو و بخشش الہى كا موجب بنتا ہے_ان تبدوا خيراً او تخفوه او تعفوا عن سوء فان الله كان عفواً قديراً ''او تعفوا عن سوئ'' كا معنى دوسروں كى غلطيوں سے درگذر كرنا ہے اور اسے قرينہ بناتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ كلمہ ''خير'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك لوگوں كے ساتھ احسان اور نيكى كرنا ہے_

۹_ انتقام كى قدرت كے باوجود كسى كو معاف كردينا اخلاق الہى سے متصف ہونے كى دليل ہے_

او تعفوا عن سوء فان الله كان عفواً قديراً مذكورہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جملہ ''فان اللہ ...'' جواب شرط كا جانشين ہو اور كلام كو يوں فرض كريں كہ ''ان تعفوا عن سوء فقد تخلقتم باخلاق اللہ ان اللہ كان عفوا قديرا'' يعنى اگر دوسروں كى خطاؤں سے چشم پوشى كرو تو خدا كى صفات ميں سے ايك صفت سے متصف ہوئے ہو اور وہ يہ ہے كہ انتقام كى قدرت كے باوجود معاف كرديا جائے_

۱۰_ خداوند متعال نے مظلوموں كيلئے انتقام كا حق محفوظ

۱۵۷

قرار ديتے ہوئے انہيں عفو و درگذر كى تشويق كى ہے_لا يحب الله الجهر بالسوء او تعفوا عن سوء فان الله كان عفواً قديراً ممكن ہے جملہ ''ان تبدوا او تعفوا'' ''الا من ظلم''كى تكميل اور توضيح ہو يعنى در عين حال كہ مظلوم كيلئے ظالم كى حقيقت و ماہيت آشكار كرنا جائز ہے ليكن بہتر يہ ہے كہ اس كى آبرو محفوظ ركھى جائے_

۱۱_ اسلام كا اخلاقى نظام اس كے حقوق كے نظام كى تكميل كرتا ہے_ان تبدوا خيراً او تخفوه او تعفوا عن سوء فان الله كان عفواً قديراً گذشتہ آيت نظام حقوق كى وضاحت كررہى ہے كہ ظالم كے خلاف كاروائي مظلوم كا حق ہے جبكہ يہ آيت شريفہ عفو و درگذر كو خدا كا پسنديدہ اخلاق كہہ كر اسے انتقام سے بہتر قرار ديتى ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلام كا اخلاقى نظام اس كے حقوق كے نظام كى تكميل كرتا ہے_

۱۲_ اللہ تعالى كى پاداش انسان كے عمل كے متناسب ہوتى ہے_او تعفو عن سوء فان الله كان عفواً قديراً

خداوند متعال نے اپنے عفو و درگذر كو ان لوگوں كى پاداش قرار ديا ہے جو خود عفو و درگذر سے كام ليتے ہيں _

آزادي: آزادى كى حدود ۵

احكام: ۵

اخلاق: پسنديدہ اخلاق ۹ اخلاقى نظام: ۱۱

اسماء و صفات: عفو ۶;قدير ۶

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا عفو و درگذر۷;اللہ تعالى كى پاداش ۱۲;اللہ تعالى كى رضايت ۱;اللہ تعالى كى طرف سے تشويق ۱۰; اللہ تعالى كى قدرت ۶، ۷;اللہ تعالى كے عفو و درگذر كے موجبات ۸

انتقام: انتقام سے چشم پوشى كرنا ۷، ۹، ۱۰

برا سلوك: برے سلوك كو فاش كرنا۵

برائي: برائي سے درگذر كرنا ۴، ۸

تظاہر : جائز تظاہر ۲

۱۵۸

جزا و سزا كا نظام: ۱۲

حقوقى نظام: ۱۱ دينى تعليمات كا نظام: ۱۱

سزا: سزا معاف كرنا ۷

عفو و درگذر: عفو و درگذر كى تشويق ۴، ۱۰;عفو و درگذر كے اثرات ۸;قابل قدر عفو و درگذر ۹

عمل: عمل كى پاداش ۱۲

فاش كرنا: جائز طور پر عيوب فاش كرنا ۵

مظلوم: مظلوم كى تشويق۱۰

مؤمنين: مؤمنين كى تشويق ۳، ۴

نيكي: نيكى كا اظہار ۲;نيكى كى اہميت ۱، ۳;نيكى كى تشويق ۳; نيكى كے اثرات ۸

آیت ۱۵۰

( إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً )

بيشك جو لوگ الله او ررسول كا انكار كرتے ہيں او رخدا او ررسول كے درميان تفرقہ پيدا كرنا چاہتے ہيں اور يہ كہتے ہيں كہ ہم بعض پر ايمان لائيں گے او ربعض كا انكار كريں گے او رچاہتے ہيں كہ ايمان و كفر كے درميان سے كوئي نياراستہ نكال ليں _

۱_ بعض انبياء كا انكار در حقيقت خداوند متعال اور تمام انبياءعليه‌السلام كا انكار ہے_

۱۵۹

ان الذين يكفرون بالله و رسله و يقولون نؤمن ببعض و نكفر ببعض

دونوں جگہوں پر كلمہ''بعض'' كا مضاف اليہ ''رسل'' ہے، يعنى بعض انبياءعليه‌السلام پر ايمان جبكہ بعض ديگر كا انكار كرتے ہيں : نيز جملہ ''يقولون ...'' در حقيقت ''يكفرون باللہ و رسلہ'' كى تفسير ہے_

۲_ بعض احكام دين كو قبول جبكہ بعض ديگر كا انكار كرنا در اصل خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تمام دين كے انكار اوركفر كے مترادف ہے_ان الذين يكفرون بالله و رسله و يريدون ان يفرقوا اولئك هم الكافرين

كلمہ رسول كو سامنے ركھتے ہوئے كہا جا سكتا ہے كہ يہ آيت شريفہ احكام اور رسالت دين پر اعتقاد ميں تبعيض و تفريق كو بھى شامل ہے: يعنى جس طرح بعض انبياءعليه‌السلام كا انكار تمام انبياءعليه‌السلام كے انكار كے مترادف ہے_ اسى طرح بعض تعليمات انبياءعليه‌السلام كا انكار بھى تمام دين كے انكار كى مانند ہے_

۳_ ايمان كے ثابت ہونے كى شرط يہ ہے كہ اللہ تعالى، تمام انبياءعليه‌السلام اور ان كى رسالت پر عقيدہ ركھا جائے_

ان الذين يكفرون بالله و رسله و يريدون ان يفرقوا اولئك هم الكافرين

۴_ خداوند عالم پر ايمان اور انبيائے خداوند عالم كى رسالت پر ايمان ميں تلازم موجود ہے_

و يريدون ان يفرقوا بين الله و رسوله و يريدون ان يتخذوا بين ذلك سبيلا

۵_ اہل كتاب ،پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار كركے در حقيقت خداوند عالم اور اپنے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سميت تمام انبياءعليه‌السلام كا انكار اور كفر كرتے ہيں _ان الذين يكفرون و يقولون نؤمن ببعض و نكفر ببعض اولئك هم الكافرين

مفسرين كا كہنا ہے اور بعد والى آيات بھى اسى بات پر دلالت كرتى ہيں كہ ''الذين يكفرون ...'' سے مراد اہل كتاب ہيں _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۵

اہل كتاب: اہل كتاب كا كفر ۵ ايمان: انبياءعليه‌السلام پر ايمان ۳; ايمان كا متعلق ۳، ۴; ايمان كى شرائط ۳;خداوند متعال پرايمان ۳، ۴; نبوت پر ايمان ۳، ۴

دين: دين كى بعض جزئيات كو جھٹلانا ۲;دين كى بعض جزئيات كو قبول كرنا ۲

كفر: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں كفر ۵;اللہ تعالى كے بارے ميں كفر ۱، ۲، ۵;انبياءعليه‌السلام كے بارے ميں كفر ۱، ۲، ۵; كفر كے موارد ۱، ۲،۵

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

انفاق كے آداب ٤; انفاق كے اثرات ١٣ ;انفاق ميں اخلاص ٤; خدا كے راستے ميں انفاق ; رہبر مسلمين پر انفاق١٧; ٣، ٦، ٧، ١٢، ١٨

ايمان: ايمان كے اثرات ١١، ١٢، ١٥; معادپر ايمان ١٥

بے نيازي: بے نيازى كا سرچشمہ ٩، ١٠

تحريك: تحريك كى اہميت ٨; تحريك كے عوامل ٦، ١٢، ١٥

تربيت: تربيت كا طريقہ ٦

جہاد: جہاد كى قدر و منزلت ١، ٢; جہاد كے لئے اسلحہ اور ساز و سامان ٢; خدا كے راستے ميں جہاد١; مالى جہاد ٢

خدا تعالى: خدا تعالى كى حاكميت ١٠ خدا كى طرف بازگشت: ١٤، ١٥

دنياوى وسائل: ١٠

روايت: ١٧، ١٨

روزي: روزى كا وسيع ہونا ٩، ١١

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ ٨، ١٥

عقيدہ: باطل عقيدہ ١١

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ٨;عمل كا اجر ١٣ ; عمل كى بقا ١٣

فقر: فقر كا سرچشمہ ٩، ١٠

قرض: قرض كا اجر٥;قرض كا اخروى اجر ١٦;قرض كا دنياوى اجر ١٦; خدا كو قرض دينا ١، ٢، ٣،٥ ،١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٧

معاد: ١٤

نيت: نيت ميں خلوص ٤

ولايت و امامت: ١٧

۲۰۱

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُواْ لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُواْ قَالُواْ وَمَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَآئِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْاْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (٢٤٦)

كيا تم نے موسى كے بعد بنى اسرائيل كى اس جماعت كو نہيں ديكھا جس نے اپنے نبى سے كہا كہ ہمارے واسطے ايك بادشاہ مقرر كيجئے تا كہ ہم راہ خدا ميں جہاد كريں _ نبى نے فرمايا كہ انديشہ يہ ہے كہ تم پر جہاد واجب ہو جائے تو تم جہاد نہ كرو _ ان لوگوں نے كہا كہ ہم كيوں كرجہاد نہ كريں گے جب كہ ہميں ہمارے گھروں او ربال بچوں سے الگ نكال باہر كرديا گيا ہے _ اس كے بعد جب جہاد واجب كرديا گيا تو تھوڑے سے افراد كے علاوہ سب منحرف ہو گئے اور الله ظالمين كو خوب جانتا ہے _

١_الله تعالى نے حضرت طالوت(ع) اور بنى اسرائيل كے واقعہ ميں غور و خوض كرنے كى دعوت دى ہے_

ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل

٢_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل كے سركردہ

افراد نے اپنے نبى سے درخواست كى كہ ايك شخص معين كريں جس كى سپہ سالارى ميں وہ دشمنوں كے ساتھ جنگ كريں _ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل من بعد

۲۰۲

موسى اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا

''ملائ''وہ لوگ جو دوسروں كى توجہ اپنى طرف موڑليں ( ہر قوم كے سركردہ اور سربراہ لوگ_)

٣_ مسلمانوں كى ذمہ دارى ہے كہ وہ بنى اسرائيل كى تاريخ ميں گہرا غور و فكر كريں اور اس سے عبرت حاصل كريں _

ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل

٤_ بعض انبياء (ع) كى نبوت ايك قوم كے ساتھ مختص تھي_اذ قالوا لنبى لهم

''لہم''كى لام اختصاص كے ليئے ہے يعنى نبى كى نبوت بنى اسرائيل كى قوم كے ساتھ مخصوص تھى اور اگر لام نہ ہوتا مثلاً''نبيہم''كہا جاتا تو پھراس اختصاص كو نہيں سمجھا جاسكتا تھا_

٥_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے ميں دشمنوں كے ساتھ مقابلے كيلئے بنى اسرائيل كے نبى (ع) لوگوں كى پناہ گاہ تھے_اذ قالوا لنبى لهم ابعث

٦_ لوگوں كے سياسى اور فوجى مسائل ميں انبياء (ع) مداخلت كرتے تھے_اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله

٧_ جنگ ميں سپہ سالار كا ہونا ضرورى ہے_ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله '' نقاتل''فعل مضارع كا مجزوم ہونا شرط كے مقدر ہونے كى علامت ہے يعنى اگر سپہ سالار ہوگا تو ہم خدا كى راہ ميں جنگ كريں گے_ پس اگر سپہ سالار ضرورى نہ ہوتا تو جہاد فى سبيل الله كو اس كے وجود كے ساتھ مشروط نہ كيا جاتا _

٨_ معاشرہ كے ليئے رہبر بنانا اس صورت ميں ہوسكتاہے كہ معاشرے كا اجتماعى طور پر ميلان ہو اور اس كے قبول كرنے كا پيش خيمہ فراہم ہو _ابعث لنا ملكا نقاتل

يہ اس لحاظ سے ہے كہ سپہ سالار كى ضرورت كے باوجود حضرت اشموئيل (ع) نے لوگوں كى درخواست سے پہلے ان پر كسى كو سپہ سالار معين نہيں فرمايا جبكہ اس كى ضرورت واضح اور روشن تھي_

٩_ جنگ كى قدر و قيمت كا معيار اس كا راہ خدا ميں ہونا ہے_ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله و ما لنا الانقاتل فى سبيل الله

١٠_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے ميں بنى اسرائيل كے

۲۰۳

راہ خدا ميں جنگ كے پابند ہونے كے بارے ميں حضرت اشموئيل (ع) كو شك تھا_

قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال الاتقاتلوا

١١_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل سے ان كے نبى حضرت اشموئيل (ع) نے خدا كى راہ ميں جہاد كرنے كا عہد و پيمان ليا_قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال جملہ''ھل عسيتم''پيمان لينے سے كنايہ ہے_

١٢_ معاشرہ كے رہبر كے ليئے ضرورى ہے كہ لوگوں سے يہ عہد لے كہ جنگ اور ديگر امور ميں اس كى پيروى كريں گے_

قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال الاتقاتلوا

١٣_ جنگ كا حكم صادر ہونے ميں فوج كى آمادگى كا كردار_اذ قالوا لنبى لهم ابعث

جب تك خود بنى اسرائيل نے جنگ كى خواہش اور آمادگى كا اعلان نہيں كر ديا جنگ كا حكم صادر نہيں ہوا_

١٤_ فوجى جرنيلوں اور سپہ سالاروں كا معين كرنا الہى رہبروں كا كام ہے_*اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا

خدا كى راہ ميں جہاد كى خاطر سپہ سالار كى تعيين كيلئے لوگوں كا اپنے پيغمبر اور رہبر كى طرف رجوع كرنا لوگوں كى اس سوچ كى عكاسى كرتا ہے كہ سپہ سالار كى تعيين كو لوگ دينى رہبروں اور انبياء (ع) كے اختيارات ميں سے سمجھتے تھے_

١٥_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل نے اپنے نبى (ع) كو دشمنوں كے ساتھ جنگ ميں اپنى ثابت قدمى اور پائيدارى كا اطمينان دلايا_و ما لنا الا نقاتل فى سبيل الله

١٦_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل كا تجاوز كرنے والوں كے خلاف جنگ كرنے كا سبب ، انہيں اپنے شہر و ديار سے نكالا جانا اور انكى اولاد كا قيد كيا جانا تھا_و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٧_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل پر ظالموں كا تسلط ہوگيا اور انہيں اپنے گھروں سے نكال دياگيا اور ان كى اولاد كو قيدى بنا ليا گيا_و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٨_ خدا كى راہ ميں جہاد معاشرے كو قيد و بند اور دوسروں كے تجاوز سے نجات دلاتاہے اور عزت

۲۰۴

و آبرو كا باعث بنتا ہے_وما لنا الانقاتل فى سبيل الله و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٩_ اہل ايمان كا تجاوز كرنے والوں كے ساتھ مقابلہ كرنا اور نبرد آزما ہونا ، ان كى قيد سے رہائي حاصل كرنا اور ظلم و ستم سے چھٹكارا پانا ، خدا كى راہ ميں جنگ كے مصاديق ميں سے ہے_و ما لنا الانقاتل فى سبيل الله و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

٢٠_ اگر چہ بنى اسرائيل كى خواہش اور درخواست پر جنگ كا حكم آيا تھا ليكن حكم جہاد كے بعد جناب طالوت (ع) كے زمانے كے اكثر بنى اسرائيل نے اس حكم كى نافرمانى كي_اذ قالوا لنبى فلما كتب عليهم القتال تولوا

ظاہراً ''كتب عليہم'' كے جملے ميں فاعل الله تعالى ہے جو كہ تعظيم كى خاطر حذف كيا گيا ہے_

٢١_ لوگوں كے دعووں كى سچائي اور صداقت كا اندازہ ميدان عمل ميں ہوتاہے_فلما كتب عليهم القتال تولوا

٢٢_ظلم و ستم او ر قيد و بند كے خلاف، خدا كے حكم جہاد كى مخالفت اور نافرمانى ظلم ہے_فلما كتب عليهم و الله عليمٌ بالظالمين

٢٣_ ظالموں كے بارے ميں خدا تعالى و سيع علم ركھتاہے_و الله عليمٌ بالظالمين

٢٤_ خداوند عالم نے ان لوگوں كوڈرايا دھمكاياہے جو اس كى راہ ميں جنگ سے روگردانى كرتے ہيں _تولوا الا قليلا منهم و الله عليمٌ بالظالمين ظالموں كو انكى ظالمانہ كاروائيوں كے بارے ميں خداوند متعال كے علم كى طرف توجہ دلانے كا مقصد ، انہيں ڈرانا دھمكاناہے_

٢٥_ خدا تعالى كے وسيع علم پر توجہ اس كے فرامين كى مخالفت سے بچنے اور ظلم سے اجتناب كرنے كا پيش خيمہ ہے_

و الله عليمٌ بالظالمين

٢٦_ حضرت موسى (ع) جب تك بنى اسرائيل ميں موجود تھے دشمنوں كو بنى اسرائيل پر تجاوز كى جرا ت نہ تھي_

الم تر الى الملا من بن اسرائيل من بعد موسى و قد اخرجنا من ديارنا

''من بعد موسي''اس بات كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے كہ جب تك بنى اسرائيل ميں

۲۰۵

حضرت موسى (ع) موجود تھے دشمنوں نے ان پر تجاوز نہيں كيا _

٢٧_ كسى معاشرہ ميں الہى رہبر كافقدان اس معاشرہ كى صفوں ميں اختلاف و انتشار اور ان پر غيروں كے قبضہ اور تسلط كا موجب بنتا ہے_ *من بعد موسي و قد اخرجنا من ديارنا بنى اسرائيل كا اپنے نبى (ع) سے الہى حكمران كے تعين كى درخواست كرنا بتلاتا ہے كہ اس سے پہلے ان كے درميان ايسا حكمران نہيں تھا جس كے نتيجے ميں ظالموں نے ان پر قبضہ اور تسلط پيدا كر ليا_

٢٨_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل ميں بعض انبياء (ع) ايسے بھى تھے كہ جن كے ذمے معاشرے كى حكمرانى كا منصب نہيں تھا_ *ابعث لنا ملكا و قد اخرجنا من ديارنا ملك (حكمران) كى درخواست كرنا بتلاتا ہے كہ اس زمانے كا نبي(ع) معاشرے كى حكمرانى اور باگ ڈور كا منصب اور مقام نہيں ركھتاتھا_

٢٩_ حضرت طالوت (ع) كى سپہ سالارى ميں بنى اسرائيل كى وفادار اور ثابت قدم فوج كى تعداد ساٹھ ہزار تھي_

تولوا الا قليلا حضرت امام محمد باقر(ع) اس آيت ميں ''قليل '' كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ وہ قليل ساٹھ ہزار افراد تھے_ (١)

اختلاف: اختلاف كے عوامل ٢٧

اطاعت: رہبر كى اطاعت١٢

امتحان: فلسفہ امتحان ٢١

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا نقش ٦، ٢٨ ; انبياء (ع) كى ذمہ دارى كا دائرہ ٦، ٢٨; انبياء (ع) كے اہداف ٥;علاقائي انبياء (ع) ٤

ايمان: ايمان اور عمل٢٥

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا جہاد ١١;بنى اسرائيل كا دربدر ہونا ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كا نافرمانى كرنا ٢٠; بني

____________________

١)معانى الاخبار، ص ١٥١، ح ١، نور الثقلين ج ١، ص ٢٤٥، ح ٩٧١_

۲۰۶

اسرائيل كى تاريخ ١، ٢، ٣، ٥، ١٠، ١١، ١٦، ١٧، ٢٠، ٢٦، ٢٩; بنى اسرائيل كى درخواستيں ٢; بنى اسرائيل كى عہد شكنى ١٠،٢٠; بنى اسرائيل كى قيد وبند ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كى مصيبتيں ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كے انبياء (ع) ٥، ١٠، ١١، ١٥، ٢٦، ٢٨، ٢٩ ; بنى اسرائيل ميں موسى (ع) ٢٦

تاريخ: تاريخ سے عبرت٣ ; فلسفہ تاريخ ١، ٣

تحريك : تحريك كے عوامل ١٦

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ٢٥

جنگ: جنگ ميں سپہ سالارى ٢، ٧، ١٤

جہاد: جہاد ترك كرنا ٢٢، ٢٤; جہاد كى قدر وقيمت ٩;جہاد ميں آمادگى ١٣ ; جہاد ميں استقامت ١٥; خدا كى راہ ميں جہاد ٩، ١١، ١٨، ١٩، ٢٠ فلسفہ جہاد ١٨

حريت پسندي: ١٩

حضرت اشموئيل(ع) : ١٠، ١١

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت (ع) كا واقعہ ١، ٢٩

خدا تعالى: خدا تعالى كاڈرانا دھمكانا ٢٤ ; خدا تعالى كا علم٢٣، ٢٥ ;خدا تعالى كے اوامر ٢٥

دشمن: دشمن كے ساتھ مبارزت ٥، ١٥

رشد و ترقى : رشدو ترقى كا پيش خيمہ ٣

روايت: ٢٩

رہبر: رہبركا نقش ٢٧ ;رہبر كى اہميت ٢٧;رہبر كى بيعت١٢ ; رہبر كى ذمہ دارى ١٢، ١٤ ; رہبركى شرائط٨

۲۰۷

سچائي: سچائي كا معيار ٢١

سياسى فلسفہ ٨، ٢٧ سياسى نظام ٨، ١٢، ١٨، ٢٧

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل ٢٥

ظالمين: ٢٣

ظلم: ظلم كے موارد ٢٢ ; ظلم كے موانع ٢٥

علم: علم اور عمل ٢٥

عمل: عمل كے اثرات ٢١

غلبہ اور عزت: غلبہ اور عزت كے عوامل ١٨

قدر و قيمت : قدر و قيمت كا معيار ٩

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ٣

معاشرہ: معاشرتى ترقى كے عوامل ١٨ ;معاشرہ كے انحطاط كے عوامل ٧ ٢

مومنين: مومنين كاجہاد ١٩ ;مومنين كى حريّت پسندى ١٩

نافرماني: نافرمانى كے اثرات ٢٢

۲۰۸

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (٢٤٧)

ان كے پيغمبر نے كہا كہ الله نے تمھارے لئے طالوت كو حاكم مقرر كيا ہے _ ان لوگوں نے كہا كہ يہ كس طرح حكومت كريں گے ان كے پاس تو ما ل كى فراوانى نہيں ہے ان سے زيادہ تو ہميں حقدار حكومت ہيں _ نبى نے جواب ديا كہ انھيں الله نے تمھارے لئے منتخب كيا ہے ا ور علم و جسم ميں وسعت عطا فرمائي ہے اور الله جسے چاہتا ہے اپنا ملك ديديتا ہے كہ وہ صاحب دسعت بھى ہے اور صاحب علم بھى _

١_ بنى اسرائيل كى حكمرانى كيلئے حضرت طالوت (ع) كا انتخاب ، ان كيلئے فائدہ مند اور سعادت آور تھا_

ان الله قد بعث لكم طالوت ملكا ''لكم''كى لام اس بات كى تصريح كررہى ہے كہ طالوت (ع) كى سپہ سالارى اور حكمرانى ان كى عزت و سعادت كے ليئے تھي_

٢_ بنى اسرائيل كى حكمرانى كيلئے حضرت طالوت(ع) كو خدا وند عالم نے معين فرمايا تھا _ان الله قد بعث لكم طالوت ملكا

٣_ بنى اسرائيل كے بڑوں نے حضرت طالوت(ع) كے چناؤ پر اظہار تعجب كيا كيونكہ نہ تو وہ جانى پہچانى شخصيت تھے اور نہ وہى مال و دولت ركھتے تھے_قالوا انى يكون له الملك و لم يوت سعة من المال

۲۰۹

ظاہراً اعتراض كرنے والے وہى مشورہ دينے والے تھے جن كى بات كو خداوند عالم نے يوں نقل كيا ہے''قالوا نحن احق''تو گويا ان كا اعتراض دو لحاظ سے تھا ايك تو طالوت (ع) كا تعلق اونچے طبقہ سے نہ تھا لہذا انہوں نے كہا''و نحق احق''اور دوسرا ان كے پاس مال و ثروت كا نہ ہونا جس كى طرف ''و لم يؤت سعة من المال'' كے ذريعہ اشارہ ہوا ہے_

٤_ بنى اسرائيل كے بڑوں كا يہ خيال غلط تھا كہ حكمرانى كيلئے حضرت طالوت(ع) كى نسبت وہ زيادہ حقدار ہيں _

و نحن احق بالملك منه

٥_ بنى اسرائيل كے بزرگوں كے خيال ميں حكمرانى كى شرائط ميں سے مشہور و معروف ہونا، اونچے طبقے سے ہونا اور بہت مالدار ہونا تھا_و نحن احق بالملك منه و لم يوت سعة من المال

ظاہراً ''و نحن احق ...''كا جملہ بنى اسرائيل كے بزرگوں كى بات تھى لہذا وہ اسى وجہ سے حكمرانى كيلئے اپنے آپ كو زيادہ لائق اور حق دار سمجھتے تھے_

٦_ بنى اسرائيل كے بزرگوں كى نظر ميں حكمرانى كا اہم ترين معيار مشہور و معروف ہونا اور اونچے گھرانے سے ہونا تھا _*و نحن احق بالملك منه و لم يؤت سعة من المال بنى اسرائيل كے بڑوں نے حكمرانى كا معيار بيان كرتے ہوئے پہلے معروف ہونے اور اشراف كے خاندان سے تعلق ركھنے كو ذكر كيا پھر مال و دولت كا تذكرہ كيا_

٧_ بنى اسرائيل كے بڑوں ميں خدا تعالى كے احكام كے سامنے سرتسليم خم كرنے كا جذبہ نہيں پايا جاتا تھا_

ان الله قد بعث و نحن احق بالملك منه

٨_ حكومت اور حكمرانى ميں خدا كے برگزيدہ اور منتخب افراد دوسروں پر مقدم ہيں _نحن احق بالملك منه قال ان الله اصطفاه عليكم

٩_ حضرت طالوت (ع) علم و قوت كے لحاظ سے دوسروں كى نسبت زيادہ باصلاحيت تھے_و زاده بسطة فى العلم و الجسم كيونكہ جملہ''و زادہ '' بنى اسرائيل ميں سے طالوت (ع) كے انتخاب اور انكے دوسروں پر مقدم كئے جانے كى علت و حكمت بيان كر رہا

۲۱۰

ہے لہذا معلوم ہوا كہ حضرت طالوت (ع) ان دو صفات ميں دوسروں سے افضل و برتر تھے_

١٠_ علمى توانائيوں كى وسعت (اعلم ہونا) اور جسمانى طاقت ميں فضيلت، معاشرہ كى حكمرانى كيلئے انسان كى برترى كا معيار ہے_و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١١_ جسمانى اور علمى توانائيوں كى وسعت اس بات كا معيار بنى كہ حضرت طالوت (ع) كو خدا وند متعال نے حكمرانى كيلئے چن ليا_ان الله اصطفاه عليكم و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٢_ حكمران كے انتخاب كا معيار، اس كا مشہور و معروف اور دولت مند ہونا نہيں ہے_

و لم يوت سعة من المال و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٣_ كسى سپہ سالار كے انتخاب ميں اس كے ماتحت افراد كو قائل كرنا اور ان كے شبہات كو دور كرنا ضرورى ہے_

قالوا انى يكون له الملك ..._ و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٤_ حكمران كے انتخاب ميں اس كى علمى اور فكرى صلاحيتوں ( معاملہ فہمى ) كو جسمانى توانائيوں سے زيادہ اہميت حاصل ہے_*و زاده بسطة فى العلم و الجسم حكمران كے انتخاب كا معيار بيان كرنے ميں ''فى العلم''كو پہلے بيان كيا گيا ہے _

١٥_ حكومت خدا وند عالم كى طرف سے ہے جسے چاہتاہے عطا كرتاہے_و الله يوتى ملكه من يشاء

١٦_ حضرت طالوت (ع) ( الہى قائدين ) كے انتخاب كا سرچشمہ مشيّت الہى ہے_و الله يوتى ملكه من يشاء

١٧_ خدا تعالى كا وجوداور علم وسيع و لا محدود ہے_و الله واسع عليم

يہ اس صورت ميں ہے كہ ''واسع''كے معنى صاحب وسعت ہوں يعنى خدا وسيع وجود ركھنے والا اور ہر جگہ پر محيط ہے نہ مُوسع ( نعمتوں ميں وسعت دينے والا) كے معنى ميں ، اور نہ واسع بمعنى وسيع فضل و قدرت والا كے معنى ميں ہو_

١٨_ افراد كى قابليت اور صلاحيت كے بارے ميں خدا تعالى كا وسيع علم اور اس كى وسعت وجودى اسكے اپنى مشيت كے مطابق حكومت عطا كرنے كا سرچشمہ ہے_

۲۱۱

ان الله اصطفاه عليكم و الله واسع عليم

١٩_ انتخاب كے حقيقى معيار كى نسبت بنى اسرائيل كى محدود سوچ ان كے حضرت طالوت (ع) كے انتخاب پر اعتراض كا موجب بني_قالوا انى يكون له الملك علينا و الله واسع عليم

''والله واسع عليم''بنى اسرائيل پر تنقيد و تعريض ہے كہ تمہارى سوچ محدود ہے جس كى وجہ سے تم نے طالوت (ع) كے انتخاب پر اعتراض كيا ہے_

٢٠_ انسان كى محدود سوچ افعال خدا پر اعتراض كرنے كا موجب بنتى ہے_قالوا انى والله واسع عليم

''والله واسع عليم'' كا جملہ، اعتراض كرنے والوں پر تنقيد و تعريض ہے كہ تم محدود سوچ كے مالك ہو لہذا طالوت (ع) كے انتخاب (افعال خدا ) پر اعتراض كرتے ہو_

٢١_مرضى و مشيت الہى حكمت كى بنياد پر ہے نہ كہ فضول اور بيہودہ _و زاده بسطة فى العلم و الجسم و الله يوتى ملكه من يشاء خدا تعالى نے ايك طرف تو حكمرانى عطا كرنے كا سرچشمہ اپنى مشيت كو قرار ديا ہے اور دوسرى طرف سے حضرت طالوت (ع) كے انتخاب كا معيار بھى ذكر فرمايا ہے پس اس كا مطلب يہ ہے كہ خداوند متعال كى مشيت كسى معيار و حكمت كى بنياد پر ہوتى ہے نہ كہ بے حساب و كتاب اور حكمت كے بغير_

٢٢_ حضرت طالوت (ع) كا خاندان نبوت اور شاہى خاندان سے نہ ہونا بنى اسرائيل كے بزرگان و اشراف كا حضرت طالوت (ع) كے خدا كى طرف سے انتخاب پر اعتراض كا موجب بنا_قالوا انى يكون له الملك علينا

حضرت امام محمد باقر(ع) آيت''ان الله قد بعث ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں :لم يكن سبط النبوة و لا من سبط المملكة ... (١) ترجمہ: طالوت نہ تو خاندان نبوت اور نہ ہى شاہى خاندان ميں سے تھے_

اسماء و صفات: عليم ١٨ ;واسع ١٧، ١٨

انتخاب: انتخاب كے عوامل ١١، ١٦

____________________

١) كافى ج ٨، ص ٣١٦ ،ح ٤٩٨، نور الثقلين ،ج ١ ص ٢٥١، ح ٩٩٦_

۲۱۲

انسان: انسان كى جہالت ٢٠

بنى اسرائيل: اونچے طبقے كے بنى اسرائيل ٣، ٤،٥، ٧; بنى اسرائيل كا تكبر ٤;بنى اسرائيل كا عقيدہ ٤، ٥، ٦ ; بنى اسرائيل كى تاريخ ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٢٢ ; بنى اسرائيل كى جہالت ١٩ ; بنى اسرائيل كى دنياطلبى ٥، ٦، ٢٢; بنى اسرائيل كى نافرمانى ٧، ٢٢; بنى اسرائيل كے ہاں قدر و قيمت ٥; بنى اسرائيل ميں رہبريت ١، ٢

تبليغ: تبليغ كى اہميت ١٣

جہالت: جہالت كے اثرات ١٩، ٢٠

چناؤ: چناؤ كا معيار٣، ٥، ٦، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٤

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت (ع) كا انتخاب ١، ٢، ٣، ١١، ١٦، ١٩، ٢٢; حضرت طالوت(ع) كا علم ٩، ١١ ;حضرت طالوت (ع) كى برترى ٩; حضرت طالوت(ع) كى توانائي ٩

حكومت: حكومت كا سرچشمہ ١٥

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ١٧، ١٨; خدا تعالى كى حاكميت ١٥; خدا تعالى كى حكمت ٢١ خدا تعالى كى عنايات ١٥، ١٨; خدا تعالى كى مشيت ١٥، ١٦، ١٨، ٢١ ; خدا تعالى كے افعال ٢٠

روايت: ٢٢

رہبر: رہبر كا اعلم ہونا ١٠; رہبر كا علم ١٠ ;رہبر كى شرائط ٨، ١٠، ١١،١٢، ١٤

سپہ سالاري: سپہ سالارى كى اہميت ١٣

سياسى فلسفہ :١٨

سياسى نظام: ٨

عقيدہ: باطل عقيدہ ٤

علم: علم اور عمل ٢٠ ;علم كى اہميت١٤

غور و فكر: غور و فكركى اہميت ١٤

۲۱۳

مال: مال كى قدر و قيمت ١٢

منتخب انسان : منتخب انسانوں كے فضائل٨

نافرماني: نافرمانى كا پيش خيمہ ١٩، ٢٠

وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (٢٤٨)

او ران كے پيغمبر نے يہ بھى كہا كہ ان كى حكومت كى نشانى يہ ہےيہ تمھارے پاس وہ تابوت لے آئيں گے جس ميں پروردگار كى طرف سے سامان سكون او رآل موسى او رآل ہارون كا چھوڑا ہو ا تركہ بھى ہے _ اس تابوت كو ملائكہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس ميں تمھارے لئے قدرت پروردگار كى نشانى بھى ہے اگر تم صاحب ايمان ہو_

١_بعض انبياء (ع) كى نبوت صرف كسى خاص معاشرے كيلئے تھي_قال لهم نبيهم

٢_ بنى اسرائيل نے خدا كى طرف سے حضرت طالوت (ع) كى تعيين پر عدم اطمينان كا اظہار كيا اور ان كى حكمرانى پر اپنے پيغمبر (ع) سے نشانى اور دليل مانگي_قد بعث لكم طالوت ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

جملہ''ان آية '' ظاہر كرتا ہے كہ وہ جناب طالوت (ع) كى حكومت كے حق ہونے پر معجزہ اور نشانى مانگ رہے تھے اور نشانى طلب كرنا ان كے شك و ترديد كى علامت ہے_

٣_ صندوق (تابوت) كا بنى اسرائيل كے پاس

۲۱۴

لوٹ آنا طالوت (ع) كى حكمرانى كى علامت تھي_ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

''التابوت''ميں الف، لام عہد ذہنى كا ہے جس كا مطلب يہ ہے كہ وہ صندوق كچھ مدت تك بنى اسرائيل كے پاس رہا تھا اور جملہ''و فيہ بقية مما ترك آل موسي''اس معنى كى تائيد كرتا ہے اسى لئے''اتيان''كے معنى لوٹنے كيا گيا_

٤_ مذكورہ صندوق خدا وند عالم كى طرف سے بنى اسرائيل كيلئے تسكين خاطر كا موجب تھا _ان ياتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم

٥_ بنى اسرائيل كى طرف لوٹنے والا معين صندوق حضرت موسى (ع) و ھارون (ع) كے خاندان كى ميراث اور يادگار نشانى تھا_فيه سكينة من ربكم و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

٦_ بنى اسرائيل كى طرف اس صندوق كو اٹھا كے لانے والے فرشتے تھے_ان ياتيكم التابوت تحمله الملائكة

٧_ بنى اسرائيل كے نبى نے انہيں غيبى خبر دى كہ وہ يادگار صندوق ان كى طرف لوٹ آئے گا_

و قال لهم نبيهم ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

٨_ دلوں كے آرام و اطمينان كا سرچشمہ خدا تعالى كى ذات اقدس ہے _سكينة من ربكم

٩_ خدا تعالى كى طرف سے بنى اسرائيل پرذہنى آرام و سكون نازل كرنے كا مقصد ، دشمنوں كے ساتھ جنگ ميں پائيدارى اور ثابت قدمى اور ان كے ہول اور اضطراب و پريشانى كو كم كرناتھا_ابعث لنا ملكاً نقاتل ان ياتيكم التابوت فيه سكينة سابقہ آيات جو كہ جہاد اور دشمنوں كے ساتھ نبرد كے بارے ميں تھيں كى مناسبت سے يہاں ''سكينہ''سے مراد يا تو دشمن كے ساتھ جنگ كى صورت ميں قلبى آرام و سكون دينا اور ہول و اضطراب كو دور كرنا ہے اور يا يہ آرام و سكون كا واضح مصداق ہے_

١٠_ تسلى خاطر، آدمى كو مشكلات و حوادث ميں استقامت بخشتى ہے_ان ياتيكم التابوت فيه سكينة

١١_ مذكورہ صندوق بنى اسرائيل كو حضرت مو سى (ع) كى شريعت كى ياددہانى كراتا ہے اور ان ميں شريعت پر عمل كرنے كا جذبہ ابھارتاہے (كہ خدا

۲۱۵

كى راہ ميں جنگ كر كے متجاوزين كى قيد و بند سے رہائي حاصل كريں )_*و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

اس آيت ميں جملہ'' بقيّة مما ترك ...'' كا ذكر شايد بنى اسرائيل كو يہ احساس دلانے كى خاطر ہو كہ حضرت موسى (ع) سے اپنا مذہبى رشتہ نہ توڑيں _

١٢_مذكورہ صندوق مخصوص آثار پر مشتمل اور بنى اسرائيل كيلئے بہت اہم اور قابل توجہ تھا_ان ياتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

١٣_ انبياء (ع) كے باقيماندہ آثار كى نگہداشت اور انكى عزت و تكريم قابل تحسين ہے_بقية مما ترك آل موسى و آل هارون خدا تعالى كى طرف سے موسى (ع) ، ہارون (ع) اور ان كے خاندان كے آثار كى حفاظت اس حقيقت كى حكايت كرتى ہے كہ انبياء (ع) كے آثار كى حفاظت بہت ہى بافضيلت اور قابل قدر كام ہے_

١٤_بنى اسرائيل كے مومنين( حق كو قبول كرنے والوں ) نے مذكورہ صندوق كو حضرت طالوت(ع) كى حكمرانى كى حقانيت كى نشانى كے طور پر قبول كرليا_ان فى ذلك لآية لكم ان كنتم مومنين اس آيت ميں ''ايمان''سے مراد كفر كے مقابلے ميں خدا اور رسول پر ايمان نہيں ہے كيونكہ آيت ميں مخاطب اہل ايمان ہيں بلكہ يہاں ايمان لغوى معنى ميں ہے يعنى وہ لوگ جو حق كو قبول كرليتے ہيں ، ان كے مقابل ميں كہ جو شكى مزاج اور ہٹ دھرم ہيں _

١٥_ ايمان (باور كرلينا) معجزات الہى كے ماننے اور ان سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ ہے_ان فى ذلك لآية لكم ان كنتم مومنين

١٦_ حضرت طالوت (ع) كى حكمرانى پر خدا كى طرف سے واضح و روشن نشانى آنے كے باوجود بنى اسرائيل ميں غير مومن يعنى نہ ماننے والے(شكى و ہٹ دھرم ) لوگ موجود تھے_ان فى ذلك لاية لكم ان كنتم مومنين

''ان كنتم مومنين'' كى تعبير اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل كے درميان غير مومن افراد (نہ ماننے والے) موجود تھے_

١٧_ مذكورہ صندوق ميں حضرت طالوت(ع) كى حكمرانى كى نشانى اور الواح حضرت موسى (ع) كے كچھ ٹكڑے موجود تھے جن پر آسمانى علوم لكھے ہوئے تھے_ان ياتيكم التابوت

امام محمد باقر(ع) آيت ''ان ياتيكم التابوت ...''كے بارے ميں فرماتے ہيں :رضاض

۲۱۶

الالواح فيها العلم و الحكمة، العلم جاء من السماء فكتب فى الالواح و جعل فى التابوت (١) فرمايا الواح موسى (ع) كے ٹوٹے ہوئے ٹكڑے تھے جن ميں علم و حكمت تھى علم آسمان سے آ يا تو الواح ميں لكھنے كے بعد تابوت ميں ركھ ديا گيا_

آثار قديمہ: ١٣

آل موسي(ع) : ٥

آل ھارون(ع) :

آل ہارون كى ميراث ٥

استقامت: استقامت كے عوامل ٩، ١٠

اطمينان : اطمينان كے اثرات ٩، ١٠ ; اطمينان كے عوامل ٤، ٨

امداد: غيبى امداد٩

انبياء (ع) : انبياء كا علم غيب ٧;انبياء (ع) كے آثار كى حفاظت ١٣; خاص علاقوں كے انبياء (ع) ١

ايمان: ايمان كے اثرات ١٥

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور كتمان حق ١٦ ; بنى اسرائيل كا تابوت ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ١١، ١٢، ١٤، ١٧ ; بنى اسرائيل كى تاريخ ٢، ٣، ٥، ٦، ٧، ٩، ١١، ١٢، ١٧; بنى اسرائيل كى ہٹ دھرمى ١٦;بنى اسرائيل كے انبياء (ع) ٧; بنى اسرائيل كے مومنين ١٤

تحريك : تحريك كے عوامل ١١

جنگ: جنگ ميں كاميابى كے عوامل ٩

جہاد: راہ خدا ميں جہاد ١١

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت(ع) كا انتخاب ٢;حضرت طالوت(ع) كى قيادت ٣ ، ١٤ ، ١٦ ، ١٧

____________________

١) تفسير عياشى ج١ ص ١٣٣ ح٤٤٠، نورالثقلين ج١ ص ٢٤٧ ح ٩٧٧_

۲۱۷

حضرت موسي (ع) : الواح موسي (ع) ٧ ١;دين موسي (ع) ١١

خوف: خوف كامقابلہ ٩

رشد و ترقي: رشد و ترقى كا پيش خيمہ ١٥

روايت: ١٧

سختي: سختيوں كو آسان كرنے كا طريقہ ١٠;سختيوں

ميں استقامت ١٠

فرشتے: فرشتوں كا نقش ٦

قبوليت حق : قبوليت حق كا سرچشمہ ١٥

قيد: قيدسے نجات ١١

معجزہ : معجزہ كو قبول كرلينا ١٥

۲۱۸

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُواْ مِنْهُ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ قَالُواْ لاَ طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا اللهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (٢٤٩)

اس كے بعد جب طالوت لشكر لےكر چلے توانھوں نے كہا كہ اب خدا ايك نہر كے ذريعہ تمھارا امتحان لينے والا ہے جو اس ميں سے پى لے گاوہ مجھ سے نہ ہوگا اور جونہ چكھے گاوہ مجھ سے ہوگا مگر يہ كہ ايك چلو پانى لے لے _ نتيجہ يہ ہوا كہ سب نے پانى پى ليا سوائے چند افراد كے_ پھر جب وہ صاحبان ايمان كو لے كر آگے بڑھے تو لوگوں نے كہا كہ آج تو ہم ميں جالوت او راس كے لشكروں كے مقابلہ كى ہمت نہيں ہے اور ايك جماعت نے جسے خدا سے ملاقات كرنے كا خيال تھا كہا كہ اكثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑى بڑى جماعتوں پر حكم الہى سے غالب آجاتے ہيں او رالله صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے_

١_ حضرت طالوت (ع) كى جانب سے افراد كى لام بندي، سپاہ كى تشكيل اور پھر انكى كمان ميں دشمن كے مقابلے

۲۱۹

ميں سپاہ كى روانگي_فلما فصل طالوت بالجنود

٢_ حضرت طالوت (ع) كا پہلے سے اپنى سپاہ كو مطلع كرنا كہ خدا تعالى انہيں ايك نہر كے ذريعے آزمائے گا _

قال ان الله مبتليكم بنهر

٣_ بنى اسرائيل كا صندوق كو ديكھنے كے بعد حضرت طالوت (ع) كى حكمرانى كو قبول كرلينا اور پھر دشمن سے نبردآزمائي كيلئے تيار ہوجانا _ان آية ملكه فلما فصل طالوت بالجنود

بنى اسرائيل كے حضرت طالوت(ع) كى سپہ سالارى ميں شك و ترديد كے باوجود سپاہ كى تشكيل ، ايك محذوف جملہ پر دلالت كرتى ہے يعنى تابوت كے آنے كے بعد انہوں نے حضرت طالوت (ع) كى سپہ سالارى كو قبول كرليا اور جنگ كيلئے آمادہ ہوگئے، اس كے بعد طالوت (ع) نے سپاہ كى تشكيل كى _

٤_ خداوند متعال كى طرف سے حضرت طالوت (ع) كى اطاعت گزارى اور انكى قوت ارادى كى ايك نہر كے ذريعے آزمائش_ *ان الله مبتليكم بنهر سابقہ آيات ميں اس بات كا تذكرہ ہوچكا كہ بنى اسرائيل دشمن كے مقابلے ميں حضرت طالوت (ع) كى اطاعت كرنے ميں شك و ترديد ميں مبتلا تھے ( ھل عسيتم ...) لہذا خدا تعالى نے فرمانبرداروں كو الگ كرنے اور انكى فرمانبردارى كى حد كو مشخص كرنے كيلئے انكى آزمائش كي_

٥_ متجاوزين سے بر سر پيكار ہونے كيلئے حضرت طالوت (ع) كے ہمراہ بنى اسرائيل كا ايك بڑا گروہ تھا_فلما فصل طالوت بالجنود كلمہ ''جند'' كا معني ہے بڑى كثرت اسے جمع كى صورت (جنود) ميں لانا حضرت طالوت (ع) كى سپاہ كى كثرت پر دلالت كرتاہے_

٦_ حضرت طالوت(ع) اپنے لشكريوں كو آزمائش ميں كاميابى سے پہلے اپنى طرف نسبت نہيں ديتے تھے_فلما فصل طالوت بالجنود جب تك حضرت طالوت (ع) نے اپنے لشكر كو آزما نہيں ليا انہيں لفظ ''جنود''(لشكروں ) سے تعبير كيا گيا نہ ''جنودہ''( طالوت كے لشكر) يعنى نہ تو طالوت (ع) نے انہيں اپنى طرف نسبت دى اور نہ ہى انكى اپنے سے نفى كى ليكن جب آزمائش كى بات آئي تو كامياب ہونے والوں كے بارے ميں كہا ''فانہ مني''( بيشك وہ مجھ سے ہيں )_

٧_ كسى بھى منتظم و رہبر كيلئے اپنى ما تحت قوتوں كو

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749