تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 749
مشاہدے: 164337
ڈاؤنلوڈ: 5521


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 164337 / ڈاؤنلوڈ: 5521
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 2

مؤلف:
اردو

انفاق كے آداب ٤; انفاق كے اثرات ١٣ ;انفاق ميں اخلاص ٤; خدا كے راستے ميں انفاق ; رہبر مسلمين پر انفاق١٧; ٣، ٦، ٧، ١٢، ١٨

ايمان: ايمان كے اثرات ١١، ١٢، ١٥; معادپر ايمان ١٥

بے نيازي: بے نيازى كا سرچشمہ ٩، ١٠

تحريك: تحريك كى اہميت ٨; تحريك كے عوامل ٦، ١٢، ١٥

تربيت: تربيت كا طريقہ ٦

جہاد: جہاد كى قدر و منزلت ١، ٢; جہاد كے لئے اسلحہ اور ساز و سامان ٢; خدا كے راستے ميں جہاد١; مالى جہاد ٢

خدا تعالى: خدا تعالى كى حاكميت ١٠ خدا كى طرف بازگشت: ١٤، ١٥

دنياوى وسائل: ١٠

روايت: ١٧، ١٨

روزي: روزى كا وسيع ہونا ٩، ١١

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ ٨، ١٥

عقيدہ: باطل عقيدہ ١١

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ٨;عمل كا اجر ١٣ ; عمل كى بقا ١٣

فقر: فقر كا سرچشمہ ٩، ١٠

قرض: قرض كا اجر٥;قرض كا اخروى اجر ١٦;قرض كا دنياوى اجر ١٦; خدا كو قرض دينا ١، ٢، ٣،٥ ،١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٧

معاد: ١٤

نيت: نيت ميں خلوص ٤

ولايت و امامت: ١٧

۲۰۱

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُواْ لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُواْ قَالُواْ وَمَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَآئِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْاْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (٢٤٦)

كيا تم نے موسى كے بعد بنى اسرائيل كى اس جماعت كو نہيں ديكھا جس نے اپنے نبى سے كہا كہ ہمارے واسطے ايك بادشاہ مقرر كيجئے تا كہ ہم راہ خدا ميں جہاد كريں _ نبى نے فرمايا كہ انديشہ يہ ہے كہ تم پر جہاد واجب ہو جائے تو تم جہاد نہ كرو _ ان لوگوں نے كہا كہ ہم كيوں كرجہاد نہ كريں گے جب كہ ہميں ہمارے گھروں او ربال بچوں سے الگ نكال باہر كرديا گيا ہے _ اس كے بعد جب جہاد واجب كرديا گيا تو تھوڑے سے افراد كے علاوہ سب منحرف ہو گئے اور الله ظالمين كو خوب جانتا ہے _

١_الله تعالى نے حضرت طالوت(ع) اور بنى اسرائيل كے واقعہ ميں غور و خوض كرنے كى دعوت دى ہے_

ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل

٢_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل كے سركردہ

افراد نے اپنے نبى سے درخواست كى كہ ايك شخص معين كريں جس كى سپہ سالارى ميں وہ دشمنوں كے ساتھ جنگ كريں _ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل من بعد

۲۰۲

موسى اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا

''ملائ''وہ لوگ جو دوسروں كى توجہ اپنى طرف موڑليں ( ہر قوم كے سركردہ اور سربراہ لوگ_)

٣_ مسلمانوں كى ذمہ دارى ہے كہ وہ بنى اسرائيل كى تاريخ ميں گہرا غور و فكر كريں اور اس سے عبرت حاصل كريں _

ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل

٤_ بعض انبياء (ع) كى نبوت ايك قوم كے ساتھ مختص تھي_اذ قالوا لنبى لهم

''لہم''كى لام اختصاص كے ليئے ہے يعنى نبى كى نبوت بنى اسرائيل كى قوم كے ساتھ مخصوص تھى اور اگر لام نہ ہوتا مثلاً''نبيہم''كہا جاتا تو پھراس اختصاص كو نہيں سمجھا جاسكتا تھا_

٥_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے ميں دشمنوں كے ساتھ مقابلے كيلئے بنى اسرائيل كے نبى (ع) لوگوں كى پناہ گاہ تھے_اذ قالوا لنبى لهم ابعث

٦_ لوگوں كے سياسى اور فوجى مسائل ميں انبياء (ع) مداخلت كرتے تھے_اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله

٧_ جنگ ميں سپہ سالار كا ہونا ضرورى ہے_ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله '' نقاتل''فعل مضارع كا مجزوم ہونا شرط كے مقدر ہونے كى علامت ہے يعنى اگر سپہ سالار ہوگا تو ہم خدا كى راہ ميں جنگ كريں گے_ پس اگر سپہ سالار ضرورى نہ ہوتا تو جہاد فى سبيل الله كو اس كے وجود كے ساتھ مشروط نہ كيا جاتا _

٨_ معاشرہ كے ليئے رہبر بنانا اس صورت ميں ہوسكتاہے كہ معاشرے كا اجتماعى طور پر ميلان ہو اور اس كے قبول كرنے كا پيش خيمہ فراہم ہو _ابعث لنا ملكا نقاتل

يہ اس لحاظ سے ہے كہ سپہ سالار كى ضرورت كے باوجود حضرت اشموئيل (ع) نے لوگوں كى درخواست سے پہلے ان پر كسى كو سپہ سالار معين نہيں فرمايا جبكہ اس كى ضرورت واضح اور روشن تھي_

٩_ جنگ كى قدر و قيمت كا معيار اس كا راہ خدا ميں ہونا ہے_ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله و ما لنا الانقاتل فى سبيل الله

١٠_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے ميں بنى اسرائيل كے

۲۰۳

راہ خدا ميں جنگ كے پابند ہونے كے بارے ميں حضرت اشموئيل (ع) كو شك تھا_

قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال الاتقاتلوا

١١_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل سے ان كے نبى حضرت اشموئيل (ع) نے خدا كى راہ ميں جہاد كرنے كا عہد و پيمان ليا_قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال جملہ''ھل عسيتم''پيمان لينے سے كنايہ ہے_

١٢_ معاشرہ كے رہبر كے ليئے ضرورى ہے كہ لوگوں سے يہ عہد لے كہ جنگ اور ديگر امور ميں اس كى پيروى كريں گے_

قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال الاتقاتلوا

١٣_ جنگ كا حكم صادر ہونے ميں فوج كى آمادگى كا كردار_اذ قالوا لنبى لهم ابعث

جب تك خود بنى اسرائيل نے جنگ كى خواہش اور آمادگى كا اعلان نہيں كر ديا جنگ كا حكم صادر نہيں ہوا_

١٤_ فوجى جرنيلوں اور سپہ سالاروں كا معين كرنا الہى رہبروں كا كام ہے_*اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا

خدا كى راہ ميں جہاد كى خاطر سپہ سالار كى تعيين كيلئے لوگوں كا اپنے پيغمبر اور رہبر كى طرف رجوع كرنا لوگوں كى اس سوچ كى عكاسى كرتا ہے كہ سپہ سالار كى تعيين كو لوگ دينى رہبروں اور انبياء (ع) كے اختيارات ميں سے سمجھتے تھے_

١٥_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل نے اپنے نبى (ع) كو دشمنوں كے ساتھ جنگ ميں اپنى ثابت قدمى اور پائيدارى كا اطمينان دلايا_و ما لنا الا نقاتل فى سبيل الله

١٦_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل كا تجاوز كرنے والوں كے خلاف جنگ كرنے كا سبب ، انہيں اپنے شہر و ديار سے نكالا جانا اور انكى اولاد كا قيد كيا جانا تھا_و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٧_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل پر ظالموں كا تسلط ہوگيا اور انہيں اپنے گھروں سے نكال دياگيا اور ان كى اولاد كو قيدى بنا ليا گيا_و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٨_ خدا كى راہ ميں جہاد معاشرے كو قيد و بند اور دوسروں كے تجاوز سے نجات دلاتاہے اور عزت

۲۰۴

و آبرو كا باعث بنتا ہے_وما لنا الانقاتل فى سبيل الله و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٩_ اہل ايمان كا تجاوز كرنے والوں كے ساتھ مقابلہ كرنا اور نبرد آزما ہونا ، ان كى قيد سے رہائي حاصل كرنا اور ظلم و ستم سے چھٹكارا پانا ، خدا كى راہ ميں جنگ كے مصاديق ميں سے ہے_و ما لنا الانقاتل فى سبيل الله و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

٢٠_ اگر چہ بنى اسرائيل كى خواہش اور درخواست پر جنگ كا حكم آيا تھا ليكن حكم جہاد كے بعد جناب طالوت (ع) كے زمانے كے اكثر بنى اسرائيل نے اس حكم كى نافرمانى كي_اذ قالوا لنبى فلما كتب عليهم القتال تولوا

ظاہراً ''كتب عليہم'' كے جملے ميں فاعل الله تعالى ہے جو كہ تعظيم كى خاطر حذف كيا گيا ہے_

٢١_ لوگوں كے دعووں كى سچائي اور صداقت كا اندازہ ميدان عمل ميں ہوتاہے_فلما كتب عليهم القتال تولوا

٢٢_ظلم و ستم او ر قيد و بند كے خلاف، خدا كے حكم جہاد كى مخالفت اور نافرمانى ظلم ہے_فلما كتب عليهم و الله عليمٌ بالظالمين

٢٣_ ظالموں كے بارے ميں خدا تعالى و سيع علم ركھتاہے_و الله عليمٌ بالظالمين

٢٤_ خداوند عالم نے ان لوگوں كوڈرايا دھمكاياہے جو اس كى راہ ميں جنگ سے روگردانى كرتے ہيں _تولوا الا قليلا منهم و الله عليمٌ بالظالمين ظالموں كو انكى ظالمانہ كاروائيوں كے بارے ميں خداوند متعال كے علم كى طرف توجہ دلانے كا مقصد ، انہيں ڈرانا دھمكاناہے_

٢٥_ خدا تعالى كے وسيع علم پر توجہ اس كے فرامين كى مخالفت سے بچنے اور ظلم سے اجتناب كرنے كا پيش خيمہ ہے_

و الله عليمٌ بالظالمين

٢٦_ حضرت موسى (ع) جب تك بنى اسرائيل ميں موجود تھے دشمنوں كو بنى اسرائيل پر تجاوز كى جرا ت نہ تھي_

الم تر الى الملا من بن اسرائيل من بعد موسى و قد اخرجنا من ديارنا

''من بعد موسي''اس بات كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے كہ جب تك بنى اسرائيل ميں

۲۰۵

حضرت موسى (ع) موجود تھے دشمنوں نے ان پر تجاوز نہيں كيا _

٢٧_ كسى معاشرہ ميں الہى رہبر كافقدان اس معاشرہ كى صفوں ميں اختلاف و انتشار اور ان پر غيروں كے قبضہ اور تسلط كا موجب بنتا ہے_ *من بعد موسي و قد اخرجنا من ديارنا بنى اسرائيل كا اپنے نبى (ع) سے الہى حكمران كے تعين كى درخواست كرنا بتلاتا ہے كہ اس سے پہلے ان كے درميان ايسا حكمران نہيں تھا جس كے نتيجے ميں ظالموں نے ان پر قبضہ اور تسلط پيدا كر ليا_

٢٨_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل ميں بعض انبياء (ع) ايسے بھى تھے كہ جن كے ذمے معاشرے كى حكمرانى كا منصب نہيں تھا_ *ابعث لنا ملكا و قد اخرجنا من ديارنا ملك (حكمران) كى درخواست كرنا بتلاتا ہے كہ اس زمانے كا نبي(ع) معاشرے كى حكمرانى اور باگ ڈور كا منصب اور مقام نہيں ركھتاتھا_

٢٩_ حضرت طالوت (ع) كى سپہ سالارى ميں بنى اسرائيل كى وفادار اور ثابت قدم فوج كى تعداد ساٹھ ہزار تھي_

تولوا الا قليلا حضرت امام محمد باقر(ع) اس آيت ميں ''قليل '' كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ وہ قليل ساٹھ ہزار افراد تھے_ (١)

اختلاف: اختلاف كے عوامل ٢٧

اطاعت: رہبر كى اطاعت١٢

امتحان: فلسفہ امتحان ٢١

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا نقش ٦، ٢٨ ; انبياء (ع) كى ذمہ دارى كا دائرہ ٦، ٢٨; انبياء (ع) كے اہداف ٥;علاقائي انبياء (ع) ٤

ايمان: ايمان اور عمل٢٥

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا جہاد ١١;بنى اسرائيل كا دربدر ہونا ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كا نافرمانى كرنا ٢٠; بني

____________________

١)معانى الاخبار، ص ١٥١، ح ١، نور الثقلين ج ١، ص ٢٤٥، ح ٩٧١_

۲۰۶

اسرائيل كى تاريخ ١، ٢، ٣، ٥، ١٠، ١١، ١٦، ١٧، ٢٠، ٢٦، ٢٩; بنى اسرائيل كى درخواستيں ٢; بنى اسرائيل كى عہد شكنى ١٠،٢٠; بنى اسرائيل كى قيد وبند ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كى مصيبتيں ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كے انبياء (ع) ٥، ١٠، ١١، ١٥، ٢٦، ٢٨، ٢٩ ; بنى اسرائيل ميں موسى (ع) ٢٦

تاريخ: تاريخ سے عبرت٣ ; فلسفہ تاريخ ١، ٣

تحريك : تحريك كے عوامل ١٦

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ٢٥

جنگ: جنگ ميں سپہ سالارى ٢، ٧، ١٤

جہاد: جہاد ترك كرنا ٢٢، ٢٤; جہاد كى قدر وقيمت ٩;جہاد ميں آمادگى ١٣ ; جہاد ميں استقامت ١٥; خدا كى راہ ميں جہاد ٩، ١١، ١٨، ١٩، ٢٠ فلسفہ جہاد ١٨

حريت پسندي: ١٩

حضرت اشموئيل(ع) : ١٠، ١١

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت (ع) كا واقعہ ١، ٢٩

خدا تعالى: خدا تعالى كاڈرانا دھمكانا ٢٤ ; خدا تعالى كا علم٢٣، ٢٥ ;خدا تعالى كے اوامر ٢٥

دشمن: دشمن كے ساتھ مبارزت ٥، ١٥

رشد و ترقى : رشدو ترقى كا پيش خيمہ ٣

روايت: ٢٩

رہبر: رہبركا نقش ٢٧ ;رہبر كى اہميت ٢٧;رہبر كى بيعت١٢ ; رہبر كى ذمہ دارى ١٢، ١٤ ; رہبركى شرائط٨

۲۰۷

سچائي: سچائي كا معيار ٢١

سياسى فلسفہ ٨، ٢٧ سياسى نظام ٨، ١٢، ١٨، ٢٧

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل ٢٥

ظالمين: ٢٣

ظلم: ظلم كے موارد ٢٢ ; ظلم كے موانع ٢٥

علم: علم اور عمل ٢٥

عمل: عمل كے اثرات ٢١

غلبہ اور عزت: غلبہ اور عزت كے عوامل ١٨

قدر و قيمت : قدر و قيمت كا معيار ٩

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ٣

معاشرہ: معاشرتى ترقى كے عوامل ١٨ ;معاشرہ كے انحطاط كے عوامل ٧ ٢

مومنين: مومنين كاجہاد ١٩ ;مومنين كى حريّت پسندى ١٩

نافرماني: نافرمانى كے اثرات ٢٢

۲۰۸

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (٢٤٧)

ان كے پيغمبر نے كہا كہ الله نے تمھارے لئے طالوت كو حاكم مقرر كيا ہے _ ان لوگوں نے كہا كہ يہ كس طرح حكومت كريں گے ان كے پاس تو ما ل كى فراوانى نہيں ہے ان سے زيادہ تو ہميں حقدار حكومت ہيں _ نبى نے جواب ديا كہ انھيں الله نے تمھارے لئے منتخب كيا ہے ا ور علم و جسم ميں وسعت عطا فرمائي ہے اور الله جسے چاہتا ہے اپنا ملك ديديتا ہے كہ وہ صاحب دسعت بھى ہے اور صاحب علم بھى _

١_ بنى اسرائيل كى حكمرانى كيلئے حضرت طالوت (ع) كا انتخاب ، ان كيلئے فائدہ مند اور سعادت آور تھا_

ان الله قد بعث لكم طالوت ملكا ''لكم''كى لام اس بات كى تصريح كررہى ہے كہ طالوت (ع) كى سپہ سالارى اور حكمرانى ان كى عزت و سعادت كے ليئے تھي_

٢_ بنى اسرائيل كى حكمرانى كيلئے حضرت طالوت(ع) كو خدا وند عالم نے معين فرمايا تھا _ان الله قد بعث لكم طالوت ملكا

٣_ بنى اسرائيل كے بڑوں نے حضرت طالوت(ع) كے چناؤ پر اظہار تعجب كيا كيونكہ نہ تو وہ جانى پہچانى شخصيت تھے اور نہ وہى مال و دولت ركھتے تھے_قالوا انى يكون له الملك و لم يوت سعة من المال

۲۰۹

ظاہراً اعتراض كرنے والے وہى مشورہ دينے والے تھے جن كى بات كو خداوند عالم نے يوں نقل كيا ہے''قالوا نحن احق''تو گويا ان كا اعتراض دو لحاظ سے تھا ايك تو طالوت (ع) كا تعلق اونچے طبقہ سے نہ تھا لہذا انہوں نے كہا''و نحق احق''اور دوسرا ان كے پاس مال و ثروت كا نہ ہونا جس كى طرف ''و لم يؤت سعة من المال'' كے ذريعہ اشارہ ہوا ہے_

٤_ بنى اسرائيل كے بڑوں كا يہ خيال غلط تھا كہ حكمرانى كيلئے حضرت طالوت(ع) كى نسبت وہ زيادہ حقدار ہيں _

و نحن احق بالملك منه

٥_ بنى اسرائيل كے بزرگوں كے خيال ميں حكمرانى كى شرائط ميں سے مشہور و معروف ہونا، اونچے طبقے سے ہونا اور بہت مالدار ہونا تھا_و نحن احق بالملك منه و لم يوت سعة من المال

ظاہراً ''و نحن احق ...''كا جملہ بنى اسرائيل كے بزرگوں كى بات تھى لہذا وہ اسى وجہ سے حكمرانى كيلئے اپنے آپ كو زيادہ لائق اور حق دار سمجھتے تھے_

٦_ بنى اسرائيل كے بزرگوں كى نظر ميں حكمرانى كا اہم ترين معيار مشہور و معروف ہونا اور اونچے گھرانے سے ہونا تھا _*و نحن احق بالملك منه و لم يؤت سعة من المال بنى اسرائيل كے بڑوں نے حكمرانى كا معيار بيان كرتے ہوئے پہلے معروف ہونے اور اشراف كے خاندان سے تعلق ركھنے كو ذكر كيا پھر مال و دولت كا تذكرہ كيا_

٧_ بنى اسرائيل كے بڑوں ميں خدا تعالى كے احكام كے سامنے سرتسليم خم كرنے كا جذبہ نہيں پايا جاتا تھا_

ان الله قد بعث و نحن احق بالملك منه

٨_ حكومت اور حكمرانى ميں خدا كے برگزيدہ اور منتخب افراد دوسروں پر مقدم ہيں _نحن احق بالملك منه قال ان الله اصطفاه عليكم

٩_ حضرت طالوت (ع) علم و قوت كے لحاظ سے دوسروں كى نسبت زيادہ باصلاحيت تھے_و زاده بسطة فى العلم و الجسم كيونكہ جملہ''و زادہ '' بنى اسرائيل ميں سے طالوت (ع) كے انتخاب اور انكے دوسروں پر مقدم كئے جانے كى علت و حكمت بيان كر رہا

۲۱۰

ہے لہذا معلوم ہوا كہ حضرت طالوت (ع) ان دو صفات ميں دوسروں سے افضل و برتر تھے_

١٠_ علمى توانائيوں كى وسعت (اعلم ہونا) اور جسمانى طاقت ميں فضيلت، معاشرہ كى حكمرانى كيلئے انسان كى برترى كا معيار ہے_و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١١_ جسمانى اور علمى توانائيوں كى وسعت اس بات كا معيار بنى كہ حضرت طالوت (ع) كو خدا وند متعال نے حكمرانى كيلئے چن ليا_ان الله اصطفاه عليكم و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٢_ حكمران كے انتخاب كا معيار، اس كا مشہور و معروف اور دولت مند ہونا نہيں ہے_

و لم يوت سعة من المال و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٣_ كسى سپہ سالار كے انتخاب ميں اس كے ماتحت افراد كو قائل كرنا اور ان كے شبہات كو دور كرنا ضرورى ہے_

قالوا انى يكون له الملك ..._ و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٤_ حكمران كے انتخاب ميں اس كى علمى اور فكرى صلاحيتوں ( معاملہ فہمى ) كو جسمانى توانائيوں سے زيادہ اہميت حاصل ہے_*و زاده بسطة فى العلم و الجسم حكمران كے انتخاب كا معيار بيان كرنے ميں ''فى العلم''كو پہلے بيان كيا گيا ہے _

١٥_ حكومت خدا وند عالم كى طرف سے ہے جسے چاہتاہے عطا كرتاہے_و الله يوتى ملكه من يشاء

١٦_ حضرت طالوت (ع) ( الہى قائدين ) كے انتخاب كا سرچشمہ مشيّت الہى ہے_و الله يوتى ملكه من يشاء

١٧_ خدا تعالى كا وجوداور علم وسيع و لا محدود ہے_و الله واسع عليم

يہ اس صورت ميں ہے كہ ''واسع''كے معنى صاحب وسعت ہوں يعنى خدا وسيع وجود ركھنے والا اور ہر جگہ پر محيط ہے نہ مُوسع ( نعمتوں ميں وسعت دينے والا) كے معنى ميں ، اور نہ واسع بمعنى وسيع فضل و قدرت والا كے معنى ميں ہو_

١٨_ افراد كى قابليت اور صلاحيت كے بارے ميں خدا تعالى كا وسيع علم اور اس كى وسعت وجودى اسكے اپنى مشيت كے مطابق حكومت عطا كرنے كا سرچشمہ ہے_

۲۱۱

ان الله اصطفاه عليكم و الله واسع عليم

١٩_ انتخاب كے حقيقى معيار كى نسبت بنى اسرائيل كى محدود سوچ ان كے حضرت طالوت (ع) كے انتخاب پر اعتراض كا موجب بني_قالوا انى يكون له الملك علينا و الله واسع عليم

''والله واسع عليم''بنى اسرائيل پر تنقيد و تعريض ہے كہ تمہارى سوچ محدود ہے جس كى وجہ سے تم نے طالوت (ع) كے انتخاب پر اعتراض كيا ہے_

٢٠_ انسان كى محدود سوچ افعال خدا پر اعتراض كرنے كا موجب بنتى ہے_قالوا انى والله واسع عليم

''والله واسع عليم'' كا جملہ، اعتراض كرنے والوں پر تنقيد و تعريض ہے كہ تم محدود سوچ كے مالك ہو لہذا طالوت (ع) كے انتخاب (افعال خدا ) پر اعتراض كرتے ہو_

٢١_مرضى و مشيت الہى حكمت كى بنياد پر ہے نہ كہ فضول اور بيہودہ _و زاده بسطة فى العلم و الجسم و الله يوتى ملكه من يشاء خدا تعالى نے ايك طرف تو حكمرانى عطا كرنے كا سرچشمہ اپنى مشيت كو قرار ديا ہے اور دوسرى طرف سے حضرت طالوت (ع) كے انتخاب كا معيار بھى ذكر فرمايا ہے پس اس كا مطلب يہ ہے كہ خداوند متعال كى مشيت كسى معيار و حكمت كى بنياد پر ہوتى ہے نہ كہ بے حساب و كتاب اور حكمت كے بغير_

٢٢_ حضرت طالوت (ع) كا خاندان نبوت اور شاہى خاندان سے نہ ہونا بنى اسرائيل كے بزرگان و اشراف كا حضرت طالوت (ع) كے خدا كى طرف سے انتخاب پر اعتراض كا موجب بنا_قالوا انى يكون له الملك علينا

حضرت امام محمد باقر(ع) آيت''ان الله قد بعث ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں :لم يكن سبط النبوة و لا من سبط المملكة ... (١) ترجمہ: طالوت نہ تو خاندان نبوت اور نہ ہى شاہى خاندان ميں سے تھے_

اسماء و صفات: عليم ١٨ ;واسع ١٧، ١٨

انتخاب: انتخاب كے عوامل ١١، ١٦

____________________

١) كافى ج ٨، ص ٣١٦ ،ح ٤٩٨، نور الثقلين ،ج ١ ص ٢٥١، ح ٩٩٦_

۲۱۲

انسان: انسان كى جہالت ٢٠

بنى اسرائيل: اونچے طبقے كے بنى اسرائيل ٣، ٤،٥، ٧; بنى اسرائيل كا تكبر ٤;بنى اسرائيل كا عقيدہ ٤، ٥، ٦ ; بنى اسرائيل كى تاريخ ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٢٢ ; بنى اسرائيل كى جہالت ١٩ ; بنى اسرائيل كى دنياطلبى ٥، ٦، ٢٢; بنى اسرائيل كى نافرمانى ٧، ٢٢; بنى اسرائيل كے ہاں قدر و قيمت ٥; بنى اسرائيل ميں رہبريت ١، ٢

تبليغ: تبليغ كى اہميت ١٣

جہالت: جہالت كے اثرات ١٩، ٢٠

چناؤ: چناؤ كا معيار٣، ٥، ٦، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٤

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت (ع) كا انتخاب ١، ٢، ٣، ١١، ١٦، ١٩، ٢٢; حضرت طالوت(ع) كا علم ٩، ١١ ;حضرت طالوت (ع) كى برترى ٩; حضرت طالوت(ع) كى توانائي ٩

حكومت: حكومت كا سرچشمہ ١٥

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ١٧، ١٨; خدا تعالى كى حاكميت ١٥; خدا تعالى كى حكمت ٢١ خدا تعالى كى عنايات ١٥، ١٨; خدا تعالى كى مشيت ١٥، ١٦، ١٨، ٢١ ; خدا تعالى كے افعال ٢٠

روايت: ٢٢

رہبر: رہبر كا اعلم ہونا ١٠; رہبر كا علم ١٠ ;رہبر كى شرائط ٨، ١٠، ١١،١٢، ١٤

سپہ سالاري: سپہ سالارى كى اہميت ١٣

سياسى فلسفہ :١٨

سياسى نظام: ٨

عقيدہ: باطل عقيدہ ٤

علم: علم اور عمل ٢٠ ;علم كى اہميت١٤

غور و فكر: غور و فكركى اہميت ١٤

۲۱۳

مال: مال كى قدر و قيمت ١٢

منتخب انسان : منتخب انسانوں كے فضائل٨

نافرماني: نافرمانى كا پيش خيمہ ١٩، ٢٠

وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (٢٤٨)

او ران كے پيغمبر نے يہ بھى كہا كہ ان كى حكومت كى نشانى يہ ہےيہ تمھارے پاس وہ تابوت لے آئيں گے جس ميں پروردگار كى طرف سے سامان سكون او رآل موسى او رآل ہارون كا چھوڑا ہو ا تركہ بھى ہے _ اس تابوت كو ملائكہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس ميں تمھارے لئے قدرت پروردگار كى نشانى بھى ہے اگر تم صاحب ايمان ہو_

١_بعض انبياء (ع) كى نبوت صرف كسى خاص معاشرے كيلئے تھي_قال لهم نبيهم

٢_ بنى اسرائيل نے خدا كى طرف سے حضرت طالوت (ع) كى تعيين پر عدم اطمينان كا اظہار كيا اور ان كى حكمرانى پر اپنے پيغمبر (ع) سے نشانى اور دليل مانگي_قد بعث لكم طالوت ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

جملہ''ان آية '' ظاہر كرتا ہے كہ وہ جناب طالوت (ع) كى حكومت كے حق ہونے پر معجزہ اور نشانى مانگ رہے تھے اور نشانى طلب كرنا ان كے شك و ترديد كى علامت ہے_

٣_ صندوق (تابوت) كا بنى اسرائيل كے پاس

۲۱۴

لوٹ آنا طالوت (ع) كى حكمرانى كى علامت تھي_ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

''التابوت''ميں الف، لام عہد ذہنى كا ہے جس كا مطلب يہ ہے كہ وہ صندوق كچھ مدت تك بنى اسرائيل كے پاس رہا تھا اور جملہ''و فيہ بقية مما ترك آل موسي''اس معنى كى تائيد كرتا ہے اسى لئے''اتيان''كے معنى لوٹنے كيا گيا_

٤_ مذكورہ صندوق خدا وند عالم كى طرف سے بنى اسرائيل كيلئے تسكين خاطر كا موجب تھا _ان ياتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم

٥_ بنى اسرائيل كى طرف لوٹنے والا معين صندوق حضرت موسى (ع) و ھارون (ع) كے خاندان كى ميراث اور يادگار نشانى تھا_فيه سكينة من ربكم و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

٦_ بنى اسرائيل كى طرف اس صندوق كو اٹھا كے لانے والے فرشتے تھے_ان ياتيكم التابوت تحمله الملائكة

٧_ بنى اسرائيل كے نبى نے انہيں غيبى خبر دى كہ وہ يادگار صندوق ان كى طرف لوٹ آئے گا_

و قال لهم نبيهم ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

٨_ دلوں كے آرام و اطمينان كا سرچشمہ خدا تعالى كى ذات اقدس ہے _سكينة من ربكم

٩_ خدا تعالى كى طرف سے بنى اسرائيل پرذہنى آرام و سكون نازل كرنے كا مقصد ، دشمنوں كے ساتھ جنگ ميں پائيدارى اور ثابت قدمى اور ان كے ہول اور اضطراب و پريشانى كو كم كرناتھا_ابعث لنا ملكاً نقاتل ان ياتيكم التابوت فيه سكينة سابقہ آيات جو كہ جہاد اور دشمنوں كے ساتھ نبرد كے بارے ميں تھيں كى مناسبت سے يہاں ''سكينہ''سے مراد يا تو دشمن كے ساتھ جنگ كى صورت ميں قلبى آرام و سكون دينا اور ہول و اضطراب كو دور كرنا ہے اور يا يہ آرام و سكون كا واضح مصداق ہے_

١٠_ تسلى خاطر، آدمى كو مشكلات و حوادث ميں استقامت بخشتى ہے_ان ياتيكم التابوت فيه سكينة

١١_ مذكورہ صندوق بنى اسرائيل كو حضرت مو سى (ع) كى شريعت كى ياددہانى كراتا ہے اور ان ميں شريعت پر عمل كرنے كا جذبہ ابھارتاہے (كہ خدا

۲۱۵

كى راہ ميں جنگ كر كے متجاوزين كى قيد و بند سے رہائي حاصل كريں )_*و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

اس آيت ميں جملہ'' بقيّة مما ترك ...'' كا ذكر شايد بنى اسرائيل كو يہ احساس دلانے كى خاطر ہو كہ حضرت موسى (ع) سے اپنا مذہبى رشتہ نہ توڑيں _

١٢_مذكورہ صندوق مخصوص آثار پر مشتمل اور بنى اسرائيل كيلئے بہت اہم اور قابل توجہ تھا_ان ياتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

١٣_ انبياء (ع) كے باقيماندہ آثار كى نگہداشت اور انكى عزت و تكريم قابل تحسين ہے_بقية مما ترك آل موسى و آل هارون خدا تعالى كى طرف سے موسى (ع) ، ہارون (ع) اور ان كے خاندان كے آثار كى حفاظت اس حقيقت كى حكايت كرتى ہے كہ انبياء (ع) كے آثار كى حفاظت بہت ہى بافضيلت اور قابل قدر كام ہے_

١٤_بنى اسرائيل كے مومنين( حق كو قبول كرنے والوں ) نے مذكورہ صندوق كو حضرت طالوت(ع) كى حكمرانى كى حقانيت كى نشانى كے طور پر قبول كرليا_ان فى ذلك لآية لكم ان كنتم مومنين اس آيت ميں ''ايمان''سے مراد كفر كے مقابلے ميں خدا اور رسول پر ايمان نہيں ہے كيونكہ آيت ميں مخاطب اہل ايمان ہيں بلكہ يہاں ايمان لغوى معنى ميں ہے يعنى وہ لوگ جو حق كو قبول كرليتے ہيں ، ان كے مقابل ميں كہ جو شكى مزاج اور ہٹ دھرم ہيں _

١٥_ ايمان (باور كرلينا) معجزات الہى كے ماننے اور ان سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ ہے_ان فى ذلك لآية لكم ان كنتم مومنين

١٦_ حضرت طالوت (ع) كى حكمرانى پر خدا كى طرف سے واضح و روشن نشانى آنے كے باوجود بنى اسرائيل ميں غير مومن يعنى نہ ماننے والے(شكى و ہٹ دھرم ) لوگ موجود تھے_ان فى ذلك لاية لكم ان كنتم مومنين

''ان كنتم مومنين'' كى تعبير اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل كے درميان غير مومن افراد (نہ ماننے والے) موجود تھے_

١٧_ مذكورہ صندوق ميں حضرت طالوت(ع) كى حكمرانى كى نشانى اور الواح حضرت موسى (ع) كے كچھ ٹكڑے موجود تھے جن پر آسمانى علوم لكھے ہوئے تھے_ان ياتيكم التابوت

امام محمد باقر(ع) آيت ''ان ياتيكم التابوت ...''كے بارے ميں فرماتے ہيں :رضاض

۲۱۶

الالواح فيها العلم و الحكمة، العلم جاء من السماء فكتب فى الالواح و جعل فى التابوت (١) فرمايا الواح موسى (ع) كے ٹوٹے ہوئے ٹكڑے تھے جن ميں علم و حكمت تھى علم آسمان سے آ يا تو الواح ميں لكھنے كے بعد تابوت ميں ركھ ديا گيا_

آثار قديمہ: ١٣

آل موسي(ع) : ٥

آل ھارون(ع) :

آل ہارون كى ميراث ٥

استقامت: استقامت كے عوامل ٩، ١٠

اطمينان : اطمينان كے اثرات ٩، ١٠ ; اطمينان كے عوامل ٤، ٨

امداد: غيبى امداد٩

انبياء (ع) : انبياء كا علم غيب ٧;انبياء (ع) كے آثار كى حفاظت ١٣; خاص علاقوں كے انبياء (ع) ١

ايمان: ايمان كے اثرات ١٥

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور كتمان حق ١٦ ; بنى اسرائيل كا تابوت ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ١١، ١٢، ١٤، ١٧ ; بنى اسرائيل كى تاريخ ٢، ٣، ٥، ٦، ٧، ٩، ١١، ١٢، ١٧; بنى اسرائيل كى ہٹ دھرمى ١٦;بنى اسرائيل كے انبياء (ع) ٧; بنى اسرائيل كے مومنين ١٤

تحريك : تحريك كے عوامل ١١

جنگ: جنگ ميں كاميابى كے عوامل ٩

جہاد: راہ خدا ميں جہاد ١١

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت(ع) كا انتخاب ٢;حضرت طالوت(ع) كى قيادت ٣ ، ١٤ ، ١٦ ، ١٧

____________________

١) تفسير عياشى ج١ ص ١٣٣ ح٤٤٠، نورالثقلين ج١ ص ٢٤٧ ح ٩٧٧_

۲۱۷

حضرت موسي (ع) : الواح موسي (ع) ٧ ١;دين موسي (ع) ١١

خوف: خوف كامقابلہ ٩

رشد و ترقي: رشد و ترقى كا پيش خيمہ ١٥

روايت: ١٧

سختي: سختيوں كو آسان كرنے كا طريقہ ١٠;سختيوں

ميں استقامت ١٠

فرشتے: فرشتوں كا نقش ٦

قبوليت حق : قبوليت حق كا سرچشمہ ١٥

قيد: قيدسے نجات ١١

معجزہ : معجزہ كو قبول كرلينا ١٥

۲۱۸

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُواْ مِنْهُ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ قَالُواْ لاَ طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا اللهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (٢٤٩)

اس كے بعد جب طالوت لشكر لےكر چلے توانھوں نے كہا كہ اب خدا ايك نہر كے ذريعہ تمھارا امتحان لينے والا ہے جو اس ميں سے پى لے گاوہ مجھ سے نہ ہوگا اور جونہ چكھے گاوہ مجھ سے ہوگا مگر يہ كہ ايك چلو پانى لے لے _ نتيجہ يہ ہوا كہ سب نے پانى پى ليا سوائے چند افراد كے_ پھر جب وہ صاحبان ايمان كو لے كر آگے بڑھے تو لوگوں نے كہا كہ آج تو ہم ميں جالوت او راس كے لشكروں كے مقابلہ كى ہمت نہيں ہے اور ايك جماعت نے جسے خدا سے ملاقات كرنے كا خيال تھا كہا كہ اكثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑى بڑى جماعتوں پر حكم الہى سے غالب آجاتے ہيں او رالله صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے_

١_ حضرت طالوت (ع) كى جانب سے افراد كى لام بندي، سپاہ كى تشكيل اور پھر انكى كمان ميں دشمن كے مقابلے

۲۱۹

ميں سپاہ كى روانگي_فلما فصل طالوت بالجنود

٢_ حضرت طالوت (ع) كا پہلے سے اپنى سپاہ كو مطلع كرنا كہ خدا تعالى انہيں ايك نہر كے ذريعے آزمائے گا _

قال ان الله مبتليكم بنهر

٣_ بنى اسرائيل كا صندوق كو ديكھنے كے بعد حضرت طالوت (ع) كى حكمرانى كو قبول كرلينا اور پھر دشمن سے نبردآزمائي كيلئے تيار ہوجانا _ان آية ملكه فلما فصل طالوت بالجنود

بنى اسرائيل كے حضرت طالوت(ع) كى سپہ سالارى ميں شك و ترديد كے باوجود سپاہ كى تشكيل ، ايك محذوف جملہ پر دلالت كرتى ہے يعنى تابوت كے آنے كے بعد انہوں نے حضرت طالوت (ع) كى سپہ سالارى كو قبول كرليا اور جنگ كيلئے آمادہ ہوگئے، اس كے بعد طالوت (ع) نے سپاہ كى تشكيل كى _

٤_ خداوند متعال كى طرف سے حضرت طالوت (ع) كى اطاعت گزارى اور انكى قوت ارادى كى ايك نہر كے ذريعے آزمائش_ *ان الله مبتليكم بنهر سابقہ آيات ميں اس بات كا تذكرہ ہوچكا كہ بنى اسرائيل دشمن كے مقابلے ميں حضرت طالوت (ع) كى اطاعت كرنے ميں شك و ترديد ميں مبتلا تھے ( ھل عسيتم ...) لہذا خدا تعالى نے فرمانبرداروں كو الگ كرنے اور انكى فرمانبردارى كى حد كو مشخص كرنے كيلئے انكى آزمائش كي_

٥_ متجاوزين سے بر سر پيكار ہونے كيلئے حضرت طالوت (ع) كے ہمراہ بنى اسرائيل كا ايك بڑا گروہ تھا_فلما فصل طالوت بالجنود كلمہ ''جند'' كا معني ہے بڑى كثرت اسے جمع كى صورت (جنود) ميں لانا حضرت طالوت (ع) كى سپاہ كى كثرت پر دلالت كرتاہے_

٦_ حضرت طالوت(ع) اپنے لشكريوں كو آزمائش ميں كاميابى سے پہلے اپنى طرف نسبت نہيں ديتے تھے_فلما فصل طالوت بالجنود جب تك حضرت طالوت (ع) نے اپنے لشكر كو آزما نہيں ليا انہيں لفظ ''جنود''(لشكروں ) سے تعبير كيا گيا نہ ''جنودہ''( طالوت كے لشكر) يعنى نہ تو طالوت (ع) نے انہيں اپنى طرف نسبت دى اور نہ ہى انكى اپنے سے نفى كى ليكن جب آزمائش كى بات آئي تو كامياب ہونے والوں كے بارے ميں كہا ''فانہ مني''( بيشك وہ مجھ سے ہيں )_

٧_ كسى بھى منتظم و رہبر كيلئے اپنى ما تحت قوتوں كو

۲۲۰