تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172803 / ڈاؤنلوڈ: 6319
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ما اشبه ذلك او لايكلم امه'' (١) كوئي شخص يہ قسم كھائے كہ اپنے بھائي سے كلام نہيں كرے گا يا اسى طرح كچھ اوركہے يا پھر يہ كہ اپنى والدہ سے كلام نہيں كرے گا_

احكام: ١، ٤، ١٢

اسماء و صفات: سميع ٧، ٨ ; عليم ٧، ٨

اصلاح: آپس ميں اصلاح ٢، ٥; اصلاح كى اہميت ٥

تقوي: تقوي كے موانع ٢

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا متنبہ كرنا ١٠ ; اللہ تعالى كا نام ٣

روايت: ١١ ،١٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٩; زمانہ جاہليت ميں قسم ٩

عمل: نيك عمل ٢، ١٢

قسم: بيہودہ قسم ٤;جھوٹى قسم ١١; خدا كى قسم ٢،١٠،١١; قسم كے احكام ١،٤،١٢

كفر: عملى كفر ١١

گناہ: ناہ كے موارد ١١

محرمات: ١، ١٢

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ٦

____________________

١) تفسير_ عياشى ص١١٢ح٣٣٩، نورالثقلين ج١ص ٢١٨ ، ح ٨٣٦_

۱۲۱

لاَّ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِيَ أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (٢٢٥)

خدا تمھارى لغو اور غير ارادى قسموں كا مواخذہ نہيں كرتا ہے ليكن جس كو تمھارے دلوں نے حاصل كيا ہے اس كا ضرور مواخذہ كرے گا_ وہ بخشنے والا بھى ہے اور برداشت كرنے والا بھى ہے _

١_ خدا تعالى كسى كو اس كى بيہودہ قسم پرمواخذہ نہيں كرتا_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن

لغو قسم سے وہ قسميں مراد ہيں جو عموما عادت كى وجہ سے منہ سے نكل جاتى ہيں بغير اس كے كہ قسم كھانے والے نے دلى طور پر اس كا قصد كيا ہو،''باللغو'' كا يہ معنى اس كے''بما كسبت قلوبكم''كے ساتھ تقابل كو ديكھ كر سمجھ ميں آتا ہے_

٢_ بيہودہ اور لغو قسموں سے انسان پر كوئي ذمہ دارى عائد نہيں ہوتى _لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم

٣_ جو قسميں سنجيدگى اور دلى قصد كے ساتھ ہوں خداوند عالم ان پر مواخذہ كرے گا_و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٤_ جو قسميں دلى قصد و ارادہ كے ساتھ اٹھائي جائيں ان كى پابندى اور وفادارى ضرورى ہے_و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٥_ لغو اور فضول قسميں ناپسنديدہ ہيں _*لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و الله غفور حليم

مذكورہ بالا آيت سے استفادہ ہوتا ہے كہ لغو اور فضول قسميں كھانے والا عذاب كا استحقاق ركھتا ہے ليكن خداوند عالم اپنے فضل و كرم سے اس كو عذاب نہيں كرتا، يہ استفادہ بالخصوص آيت كے ذيل ميں ''غفور''كى صفت كے

۱۲۲

ذكرسے ہوتاہے_

٦_ كسى عمل پر ثواب و عقاب كا معيار نيت ہے_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٧_لغو اور بيہودہ كام كرنے سے انسان كى روحانى اور معنوى شخصيت پر برُے اثرات مرتب ہوتے ہيں _*

لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم شايد مذكورہ بالا آيت قسم كو دو قسموں ميں تقسيم كرنے كے بارے ميں نہيں ہے جيسے لغو و بيہودہ قسم اور سنجيدہ قسم اور نہ ہى يہ بيان كررہى ہے كہ ان ميں سے ايك قسم پر كفارہ ہے اور دوسرى پر كفارہ نہيں _ بلكہ آيت اس حقيقت كو بيان كرناچاہتى ہے كہ اگرچہ خداوند عالم نے لغو قسم پر كوئي سزا تجويز نہيں كى ليكن يہ عمل ايك قلبى بيمارى كى حكايت كرتا ہے يا يہ حقيقت بيان كرتا ہے كہ اس عمل سے بتدريج دل بيمارى كى طرف بڑھتا ہے اور خدا تعالى اس بيمارى كى صورت ميں عقاب فرماتا ہے_

٨_ لغو قسميں كھانے پر خدا وند عالم كا عذاب نہ كرنا پروردگار كى مغفرت اور حلم كا ايك جلوہ ہے_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و الله غفور حليم ظاہراً خدا كى مغفرت اور حلم''لايواخذ''كے ساتھ مربوط ہے نہ''يؤاخذكم''كے ساتھ كيونكہ مغفرت عدم مواخذہ كے ساتھ مناسبت ركھتى ہے نہ مؤاخذہ كے ساتھ _

٩_ خدا غفور اور حليم ہے_و الله غفور حليم

١٠_ خدا ايسا غفور ہے جو حليم ہے _و الله غفور حليم يہ اس صورت ميں ہے كہ''حليم''، ''غفور'' كى صفت ہو _

اجر: اجر كا معيار ٦

احكام: ٢، ٤

اسماء و صفات: حليم ٩، ١٠ ;غفور ٩، ١٠

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا حلم ٨; اللہ تعالى كى جانب سے حساب لينا ١، ٣; اللہ تعالى كى جانب سے مغفرت٨

۱۲۳

انحطاط: انحطاط كے عوامل ٧

انسان: انسان كى شخصيت ٧

سزا: سزاكا معيار ٦

عمل: عمل كا اجر; ناپسنديدہ عمل كے اثرات ٧ ٦; ناپسنديدہ عمل ٥

قسم: قسم كے احكام ٢، ٤;لغو قسم ١، ٢، ٥، ٨

گناہ: گناہ كے اثرات ٧

نيت: نيت كى اہميت ٣، ٤، ٦

لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (٢٢٦)

جو لوگ اپنى بيويوں سے ترك جماع كى قسم كھا ليتے ہيں انھيں چار مہينے كى مہلت ہے _ اس كے بعد واپس آگئے تو خدا غفور رحيم ہے _

١_ مرد چار مہينے تك اپنى بيوى كے ساتھ ہمبسترى ترك كرنے كى قسم (ايلاء) پر باقى رہ سكتا ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ''يؤلون''كا مصدر''ايلائ''ہے جو لغت ميں قسم كے معنى ميں ہے ليكن اصطلاح ميں ايلاء كا مطلب يہ ہے كہ شوہر اپنى بيوى كے ساتھ چار مہينے سے زيادہ مدت تك ہمبسترى چھوڑنے كى قسم كھائے_ آيت ميں بھى يہى اصطلاحى معنى مراد ہے_

٢_ بيوى كے ساتھ مباشرت چھوڑنے پر قسم كھانا جائز ہے اور قسم منعقد بھى ہوجاتى ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

٣_ ايلاء كے وقوع پذير ہونے اور اس كے خاص

۱۲۴

احكام كے جارى ہونے كى شرط يہ ہے كہ چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے ہمبسترى چھوڑنے پرقسم كھائي گئي ہ_

للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر يہ جو خدا وند عالم فرما رہاہے كہ ايلاء كرنے والا چار مہينے تك انتظار كرسكتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ايلاء اور اس كے خاص احكام اس صورت ميں جارى ہوں گے جب ہمبسترى چھوڑنے پر قسم يا ہميشہ كيلئے ہو يا چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے ہو_

٤_ ايلاء كرنے والا چار مہينے سے زيادہ اپنى بيوى كو دودلى كى كيفيت ميں يوں ہى نہيں چھوڑ سكتا_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

٥_ ايلاء كے بعد عورت چار مہينے تك اپنے شوہر سے ہمبسترى كرنے كى درخواست كا حق نہيں ركھتي_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ''للذين''كے لفظ سے معلوم ہوتا ہے كہ چار مہينے كى مدت تك مرد ہمبسترى ترك كرنے كا حق ركھتا ہے لہذا عورت كو اس مدت ميں ہمبسترى كرنے كى درخواست كا حق حاصل نہيں ہوگا_

٦_ شوہروں كا اپنى بيويوں كے ساتھ چار مہينے ميں ايك بار مباشرت كرنا ضرورى ہے_*للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ايسا معلوم ہوتا ہے كہ اگر چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے بيوى سے دورى جائز ہوتى تو ايلاء كے حكم ميں بھى اس مدت كے مطابق وقت كے لحاظ سے اضافہ ہوجاتا_

٧_ ايلاء سے، چار مہينے گزرنے كے بعد ايلاء كرنے والے پر يا بيوى كے ساتھ ہمبسترى كرنا يا اسے طلاق دينا واجب ہے_للذين يؤلون فان فاؤ ..._ و ان عزموا الطلاق يہ كہ''تربص'' (انتظار كرنا) چار مہينے تك ہے معلوم ہوتا ہے اس مدت كے بعد شخص پر مذكورہ بالا ان دو كاموں ميں سے ايك ضرورى ہے_

٨_ ايلاء ميں چار مہينے گذرنے سے پہلے قسم توڑنا جائز ہے _للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

''للذين''كا لام جو كہ جواز كے لئے ہے اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ چاہے تو چار مہينے تك مباشرت ترك كرے اور چاہے تو چار مہينے گذرنے سے پہلے ہمبسترى كرے_

٩_ جو لوگ ہمبسترى چھوڑنے كى قسم توڑ كر شادى شدہ

۱۲۵

زندگى كى طرف لوٹ آتے ہيں رحمت اور مغفرت الہى ان كے شامل حال ہوجاتى ہے_

للذين يؤلون فان فاؤ فان الله غفور رحيم

١٠_ ايلاء كے بعد شادى شدہ زندگى كى طرف لوٹنا طلاق سے بہتر ہے_فان فاؤ فان الله غفور رحيم _ و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم ازدواجى زندگى كى طرف لوٹنے (فان فاؤ) كو ذكر ميں مقدم كرنا اس كے رتبہ كے لحاظ سے مقدم ہونے كى علامت ہے، نيز ازدواجى زندگى كى طرف لوٹنے اور بيوى كے حقوق كى رعايت كى صورت ميں رحمت اور مغفرت كا وعدہ دينے سے بھى اس كى اولويت و رجحان كا پتہ چلتا ہے_

١١_ خداوند عالم غفور اور رحيم ہےفان الله غفور رحيم

١٢_ خداوند عالم ايسا غفور ہے جو رحيم بھى ہے_فان الله غفور رحيم

١٣_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع كرتاہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر فان فاؤ فان الله غفور رحيم

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩

اسماء و صفات: رحيم ١١،١٢; غفور ١١، ١٢

ايلاء: ايلاء كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠

خدا تعالى: خدا تعالى كى رحمت ٩; خدا تعالى كى مغفرت٩

رحمت: رحمت جن كے شامل حال ہے ٩

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق٤، ٦

طلاق: احكام طلاق ٧; طلاق كى ناپسنديدگى ١٠

عورت: عورت كے حقوق١٣

قسم: قسم كے احكام ١، ٢، ٣، ٨، ٩; قسم توڑنا ٨، ٩

مرد:

۱۲۶

مرد كى ذمہ دارى ٦

واجبات :٦، ٧

ہمبستري: ہمبسترى كے احكام ١، ٢، ٣، ٥، ٦، ٧

وَإِنْ عَزَمُواْ الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٢٧)

اور طلاق كا ارادہ كريں تو خدا سن بھى رہا ہے اور ديكھ بھى رہا ہے_

١_ طلاق كا فيصلہ كرنا مرد كے اختيار ميں ہے _و ان عزموا الطلاق

٢_ طلاق ميں ارادہ اور لفظ معتبر ہے _و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم

ايسالگتا ہے كہ دو صفات يعني''سميع''(سننے والا) اور''عليم''(جاننے والا) كا لانا طلاق ميں قصد اور لفظ كے معتبر ہونے كى طرف اشارہ ہے_

٣_ اگر عقد دائمى ہو تو ا يلاء ہوسكتا ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر و ان عزموا الطلاق

ايك تو يہ كہ مرد كو چار مہينے كى مہلت دى گئي ہے

(جو كہ دائمى نكاح ميں معتبر ہے) اور دوسرا طلاق كا ذكر ہوا ہے جو كہ نكاح دائمى ميں ہوتى ہے لہذا ان دو امور كے پيش نظر كہا جاسكتا ہے كہ ايلاء كا حكم غير دائمى نكاح ميں جارى نہيں ہے_

٤_ مياں بيوى كے درميان نا اتفاقى كى صورت ميں ،طلاق آخرى راہ حل ہے_للذين يؤلون ...و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم طلاق كو آخر ميں ذكر كرنے سے اس بات كى طرف اشارہ كرنا مقصود ہوسكتا ہے كہ مشكل كے حل كيلئے طلاق سب سے آخرى مرحلہ ہے_

٥_ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے _فان الله سميع عليم

۱۲۷

٦_ خداوند عالم ايسا سننے والا ہے جو عليم ہے_فان الله سميع عليم

٧_ خداوند متعال كے نزديك طلاق ناپسنديدہ ہے_*و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم

يہ اس بات كے پيش نظر ہے كہ ازدواجى زندگى كى طرف پلٹنے كى صورت ميں مغفرت اور رحمت كا وعدہ ديا گيا ہے جبكہ طلاق كى صورت ميں دو صفات ''سميع'' اور ''عليم''پر اكتفاكيا گيا ہے جو كسى حد تك ڈرانے دھمكانے اور توجہ دلانے پر دلالت كرتى ہيں _

احكام: ١، ٢، ٣ فلسفہ احكام ٤

اختلاف: گھريلو اختلاف ٤

اسماء و صفات: سميع ٥، ٦; عليم ٥، ٦

ايلاء: ايلاء كے احكام ٣

طلاق: احكام طلاق١، ٢; طلاق كى ناپسنديدگى ٧; طلاق ميں نيت٢; فلسفہ طلاق٤

مرد: مرد كے حقوق ١

۱۲۸

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكُيمٌ (٢٢٨)

مطلقہ عورتيں تين حيض تك انتظار كريں گى اور انھيں حق نہيں ہے كہ جو كچھ خدا نے ان كے رحم ميں پيدا كيا ہے اس كى پردہ پوشى كريں اگر ان كا ايمان الله او رآخرت پر ہے _ اور پھر ان كے شوہر اس مدت ميں انھيں واپس كرلينے كے زيادہ حقدار ہيں اگر اصلاح چاہتے ہيں _ اور عورتوں كے لئے ويسے ہى حقوق بھى ہيں جيسى ذمہ دارياں ہيں اور مردوں كو ان پرايك امتياز حاصل ہے او رخدا صاحب عزت و حكمت ہے _

١_ طلاق يافتہ عورت سے تين طُھر (عدت) مكمل ہونے سے پہلے نكاح كرنا حرام ہے_و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء اس صورت ميں كہ''قرئ''كے معنى طہر ہوں _

٢_ تين طُہر يا تين حيض صرف اس عورت كى عدت ہے جسے حيض آتا ہو _و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء

ظاہراً آيت ميں وہ عورتيں فرض كى گئي ہيں جنہيں حيض آتا ہو كيونكہ عدت كى مدت تين طہر يا تين حيض قرار دى گئي ہے لہذا يہ حكم چھوٹى عمر كي، يائسہ يا ان جيسى عورتوں كو شامل نہيں ہوگا_

۱۲۹

٣_ مطلقہ عورت كى عدت تين حيض ہے _و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء يہ اس صورت ميں ہے كہ''قرئ''كے معنى حيض ہوں _

٤_ مطلقہ عورتيں اپنى عدت كى مدت كم يا زيادہ كرنے كى خاطر اپنے حمل ياحيض كو نہ چھپائيں _و لايحل لهن ان يكتمن ما خلق الله فى ارحامهن ''ما خلق''كا معنى وسيع ہے يہ ہر اس مخلوق كو شامل ہے جو عدت كى مدت ميں مؤثر واقع ہوسكے جيسے حمل، طہر اور حيض _

٥_ خدا تعالى اور روز قيامت پر ايمان احكام الہى كے انجام دينے كا ضامن ہے_و لايحل لهن ان كن يؤمن بالله و اليوم الآخر

٦_ خداوند متعال اور روز قيامت پر ايمان كا لازمہ فرائض الہى پر عمل ہے_و لايحل لهن ان كن يؤمن بالله و اليوم الآخر

٧_ اپنے حمل، طہر يا حيض كے بارے ميں عورتوں كا قول قبول كيا جائے گا_و لايحل لهن ان يكتمن ما خلق الله فى ارحامهن اگر عورتوں كى بات اپنے طہر، حيض، حمل يا ہر اس چيز كے بارے ميں كہ جو عدت كى مدت ميں دخالت ركھتى ہے، قابل قبول نہ ہو تو ان پر چھپانے كى حرمت لغو ہوگي_

٨_ہر اس چيز كاخالق خدا ہے جو رحم ميں موجود ہے (خون، جنين ...)ما خلق الله فى ارحامهن يہ لفظ''ما''كو مدنظر ركھتے ہوئے ہے جو خون، جنين ...كو شامل ہوجاتا ہے _

٩_ عدت كے اندر شوہر كو اپنى مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق حاصل ہے_و بعولتهن احق بردهن فى ذلك

''ذلك''، ''تربص''كى طرف اشارہ ہے يعنى ان تين طہر ميں جو كہ عورت كى عدت كا زمانہ ہے _

١٠_ شوہر كا اپنى مطلقہ بيوى كى طرف حق رجوع اس بات سے مشروط ہے كہ وہ گھريلو زندگى ميں اصلاح چاہتا ہو_

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا يعنى اگر شوہر عدت كے اندر رجوع كرنے سے يہ ارادہ ركھتا ہے كہ رجوع كرنے كے

بعد عورت كو دوبارہ طلاق دے كر تكليف پہنچائے گا_ تو آيت كے ظاہرى حكم كے لحاظ سے اس قصد كے ساتھ رجوع جائز نہيں ہے_

۱۳۰

١١_ عدت گھر كى تعمير نو كيلئے ايك مہلت ہے _*و المطلقات يتربصن و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا اس بات كے پيش نظر كہ عدت كے ايام كے تذكرہ كے بعد ان ايام ميں اصلاح كى خاطر رجوع كرنے كا ذكركيا گيا ہے_

١٢_ مرد اور مطلقہ عورت كو عدت كے زمانہ ميں پہلى زندگى كى طرف پلٹنے كيلئے تو دوبارہ نكاح كى ضرورت نہيں ہے _*

و بعولتهن احق بردهن كيونكہ لفظ ''بعولة''(شوہر) اور اس كا ''ھن'' كى ضمير كى طرف مضاف ہونا اس معني كو بيان كررہاہے كہ عدت طلاق كے زمانہ ميں زوجيت والا تعلق اور رشتہ باقى ہے لہذا رجوع كيلئے نكاح كى ضرورت نہيں ہے_

١٣_ مرد كيلئے اپنى مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق عدت كے ختم ہوتے ہى ختم ہوجاتا ہے_و بعولتهن احق بردهن فى ذلك كلمہ''فى ذلك''كے مفہوم سے يہ مطلب سمجھا جاسكتا ہے _

١٤_ اگر شوہر كا رجوع مطلقہ بيوى كو تكليف اور اذيت پہنچانے كى خاطر ہو تو بے اثر اور غير معتبر ہے _

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا آيت ميں حق رجوع كو اصلاح كے ساتھ مشروط كيا گيا ہے_ پس اس جملہ شرطيہ كا مفہوم يہ نكلے گا كہ اگر رجوع اصلاح كيلئے نہ ہو بلكہ اذيت پہنچانے كى خاطر ہو تو ايسے رجوع كا اعتبار و حقانيت مسلوب ہے_

١٥_عورت اور مرد دونوں ايك دوسرے كے مقابلے ميں ( عقلى اور شرعى بنياد پر) برابر كے حقوق ركھتے ہيں _

و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

١٦_ عورت اور مرد دونوں پر لازم ہے ايك دوسرے كے برابر كے حقوق كى رعايت كا مظاہرہ كريں _

و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

١٧_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع كرتاہے_

و بعولتھن احق بردھن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا و لھن مثل الذى عليہن بالمعروف

زندگى كى اصلاح كى غرض كے بغير مرد كا رجوع غير معتبر ہے نيز عورتوں كے حقوق كو مردوں كے حقوق جيسا سمجھنا خصوصاً زمانہ جاہليت كے ماحول كو مدنظر ركھتے ہوئے، يہ اسلام ميں

۱۳۱

عورتوں كے حقوق كے دفاع كى دليل ہے_

١٨_ مرد اپنى بيويوں سے افضل ہيں _و للرجال عليهن درجة

١٩_ شوہر اپنى بيويوں پر حقوق كے اعتبار سے امتيازى حيثيت ركھتے ہيں _*و للرجال عليهن درجة

'' للرجال ...'' كا جملہ'' لصہُنّ ...'' كے لئے قيد ہے اور اس كے معنى كو مشخص كررہاہے

٢٠_ ازدواجى زندگى كے قوانين بنانے ميں عدل و انصاف كو بنياد قرار ديا گياہے_و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف و للرجال عليهن درجة

'' للرجال ...''كا جملہ''لہن ...'' كيلئے قيد ہے اور اسكے معنى كو مشخص كررہاہے_يعنى شوہر اور بيوى كے ايك جيسے حقوق كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ بطور مطلق مساوى ہيں كيونكہ مرد خلقت كے لحاظ سے كچھ خصوصيات كے حامل ہيں كہ جن كى وجہ سے انہيں مخصوص حقوق بھى حاصل ہوں گے_ اس بنياد پر دونوں كے درميان عدل و انصاف كى رعايت كى گئي ہے_

٢١_ شوہر كو تب مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق حاصل ہے جب وہ عورت كے حسب معمول حقوق پورے كرنے كا ارادہ ركھتا ہو_ان ارادوا اصلاحا و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

حق رجوع كو اصلاح كے ساتھ مقيد كرنے كے بعد عورتوں كے مردوں پر حقوق بيان كرنے كا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ مرد كا اپنى مطلقہ بيوى كے حقوق كى رعايت كا قصد ارادہ اصلاح (ان ارادوا اصلاحا) كے مصاديق ميں سے ہے_

٢٢_ زمانہ بعثت كا جاہل معاشرہ عورتوں كيلئے كسى قسم كے حقوق كا قائل نہيں تھا_و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

اس لحاظ سے كہ اس آيت ميں مردوں كے عورتوں پر حقوق كو ( عليہن) مسلّم ليا گيا ہے جبكہ عورتوں كے مردوں پر حقوق كے اثبات كو (لھن) سے بيان كيا گيا ہے يعنى عورتوں كے حقوق ثابت كرنے كے در پے ہے_

٢٣_ مياں بيوى كا باہمى حقوق كى رعايت نہ كرنا طلاق كے عوامل و اسباب ميں سے ہے _

و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء و لهن مثل الذى عليهن

٢٤_ خداوند متعال كے جملہ احكام و قوانين كہ جن ميں ازدواجى زندگى كے قوانين بھى ہيں سب

۱۳۲

كے سب حكيمانہ اور حكمت الہى كى بنياد پر ہيں _و المطلقات يتربصن و الله عزيز حكيم

٢٥_ خدا تعالى كى ناقابل شكست قدرت اور عزت احكام و قوانين الہى كى مخالفت كرنے والوں كو سزا دينے كے لئے كافى ہے_و المطلقات يتربصن و لايحل لهن و الله عزيز حكيم

٢٦_ خداوند عالم عزيز اور حكيم ہے _و الله عزيز حكيم

٢٧_ خدا ايسا عزيز ہے جو حكيم ہے _و الله عزيز حكيم

يہ اس صورت ميں ہے كہ''حكيم''''عزيز'' كى صفت ہو _

٢٨_ مردوں كا اپنى مطلقہ بيويوں كى طرف رجوع كرنا پسنديدہ امر ہے اور خداوند متعال نے اس كى ترغيب دلائي ہے_

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك

٢٩_خدا تعالى نے ايسے مياں بيوى كو ڈرايا دھمكاياہے جو ايك دوسرے كے حقوق كا خيال نہيں ركھتے_

و المطلقات و لهن مثل الذى و الله عزيز حكيم

احكام كے بيان كرنے كے بعد خدا كے ''عزيز'' (غلبے والا) ہونے كى يادآورى اس كے احكام كى مخالفت كرنے والوں كيلئے ڈرانے دھمكانے كى غرض سے ہوسكتى ہے_

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٧، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٤، ٢١ احكام كا فلسفہ ١١،٢٤ ; احكام كا معيار ٢٠ ; احكام كى تشريع ٢٤

اختلاف: گھريلو اختلاف٢٣

اسماء و صفات: حكيم ٢٦، ٢٧; عزيز٢٦، ٢٧

انسان: انسان كى خلقت ٨

ايمان: ايمان اور عمل كا رابطہ ٦; ايمان كے اثرات ٦; خدا پر ايمان ٥، ٦، قيامت پر ايمان ٥، ٦

حقوق: حقوق كى بنياديں ١٥، ٢٠

حمل: حمل ميں گواہى ٧

حيض: حيض ميں گواہى ٤، ٧

۱۳۳

خداوند متعال: خداوند متعال كا تشويق دلانا ٢٨; خداوند متعال كا ڈرانا دھمكانا ٢٩; خداوند متعال كى تنبيہات ٢٩: خداوند متعال كى حكمت ٢٤; خداوند متعال كى خالقيت ٨; خداوند متعال كى عزت (غلبہ) ٢٥; خداوند متعال كى قدرت ٢٥ زمانہ بعثت كى تاريخ: ٢٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٢٢; زمانہ جاہليت ميں عورت ٢٢

شادي: حرام شادى ١; شادى كے احكام ١

شريك حيات: شريك حيات كے باہمى حقوق١٥، ١٦، ٢٠، ٢٣، ٢٩

طلاق: احكام طلاق ٢، ٣، ٩، ١٠،١٢، ١٣، ١٤; طلاق رجعى ٩، ١٠، ١٢، ١٣،١٤، ٢١، ٢٨; طلاق كے عوامل ٢٣

عدت: طلاق كى عدت ٢، ٣، ٤; عدت كا فلسفہ ١١ ;عدت كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٧، ٩، ١٣

عدل: عدل كى اہميت ٢٠

عرفى معيار: ١٥

عورت: عورت زمانہ جاہليت ميں ٢٢;عورت كے حقوق ١٤، ١٧، ٢١; عورت كے فضائل ١٨، ١٩

گناہ: گناہ كى سزا ٢٥

گواہي: گواہى چھپانا ٤

گھرانہ: گھرانہ ميں اصلاح ١٠، ١١،٢١

مرد: مرد كے حقوق ٩، ١٠،١٣، ١٨، ١٩; مرد كے فضائل ١٨، ١٩

محرمات: ١

مطلقہ: مطلقہ كے ساتھ ازدواج ١

نبرد : آزار و اذيت كے خلاف نبرد١٤

۱۳۴

الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (٢٢٩)

طلاق دو مرتبہ دى جائے گى _ اس كے بعد يا نيكى كے ساتھ روك ليا جائے گا يا حسن سلوك كے ساتھ آزاد كرديا جائے گااور تمھارے لئے جائز نہيں ہے كہ جو كچھ انھيں دے ديا ہے اس ميں سے كچھ واپس لو مگر يہ كہ يہ انديشہ ہو كہ دونوں حدود الہى كو قائم نہ ركھ سكيں گے تو جب تمھيں يہ خوف پيدا ہو جائے كہ وہ دونوں حدود الہى كو قائم نہ ركھ سكيں گے تو دونوں كے لئے آزادى ہے اس فديہ كے بارے ميں جو عورت مرد كو دے _ ليكن يہ حدود الہيہ ہيں ان سے تجاوز نہ كرنا اور جو حدود الہى سے تجاوز كرے گا وہ ظالمين ميں شمار ہوگا _

١_ مردوں كو صرف پہلى اور دوسرى طلاق ميں رجوع كرنے كا حق حاصل ہے _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

''الطلاق''ميں الف و لام عہد ذكرى ہے يعنى وہ طلاق كہ جس ميں شوہر كو حق رجوع تھا_''و بعولتھن احق ...'' دو مرتبہ سے زيادہ نہيں ہے_

٢_ زمانہ جاہليت ميں طلاق رجعى غيرمحدود تھى ليكن اسلام نے اس كى تعداد كو محدود كرديا _الطلاق مرتان

اس آيت كا شان نزول يوں بيان ہوا ہے كہ زمانہ جاہليت ميں شوہر بيوى كو طلاق ديتا اور دوبارہ عدت مكمل ہونے سے پہلے اس كى

۱۳۵

طرف رجوع كر ليتا تھا اسى طرح رجوع كرسكتا تھا اگرچہ ہزار مرتبہ طلاق ديدے اور جب طلاق كى اس نوعيت كا تذكرہ نبى اكرم(ص) كے سامنے ہوا تو يہ آيت نازل ہوئي''الطلاق مرتان ...'' (مجمع البيان ، اس آيت كے ذيل ميں )

٣_ ايك دفعہ يا چند مرتبہ صيغہ طلاق پڑھنے سے متعدد طلاقيں متحقق نہيں ہوتيں اگر ان كے درميان رجوع ( امساك)نہ كيا جائے_الطلاق مرتان پہلى بات تو يہ ہے كہ ايك دفعہ ''طلقتك ثلاثا''(ميں نے تجھے تين طلاقيں ديں ) كہنے پر دو مرتبہ يا تين مرتبہ صدق نہيں كرتا_ دوسرى بات يہ كہ دوسرى طلاق اس وقت تك صدق نہيں كرسكتى جب تك رجوع نہ كرے_ تيسرى بات يہ ہے كہ زندگى كى طرف رجوع اور بازگشت نيكى كے ساتھ ٹھہرانے كے ذريعہ ہونى چاہيئے_ اور ايك ہى محفل و مجلس ميں پہلے اور دوسرے صيغہ كے درميان مثلاً ''راجعت ''(ميں نے رجوع كيا) كہنا نيكى كے ساتھ امساك (روكنا) نہيں ہے_

٤_ شوہر كے لئے ضرورى ہے كہ بيوى كے مسلّم حقوق ادا كرنے كى ذمہ دارى لے_فامساك بمعروف

''معروف''(پہچانا ہوا) سے مراد وہ حقوق ہيں جو عقل، فطرت اور شريعت كى بنيادوں پر دين دار اور صحيح و سالم فطرت لوگوں كے درميان مشہورو معروف ہيں _ اگرچہ آيت اس مطلقہ عورت كے بارے ميں ہے جس كے شوہر نے اس كى طرف رجوع كر ليا ہے ليكن آيت حقوق كو عمومى طور پر سب عورتوں كيلئے بيان كر رہى ہے_

٥_ طلاق اور رجوع كا حق شوہر كو حاصل ہے_فامساك بمعروف

٦_ ضرورى ہے كہ رجوع كے بعد شوہر كا بيوى كے ساتھ رويہ اور سلوك ،عقل اور شريعت كے مسلم معيار كے مطابق ہو _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

٧_ مرد كا عدت كے دنوں ميں رجوع كرنا، عورت كو نقصان پہنچانے كى خاطر نہ ہو_الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان

٨_ دوسرى طلاق كے بعد رجوع كى صورت ميں يا تو ''معروف'' (مسلم حقوق) كى بنياد پر زندگى گزارے يا پھر طلاق ديدے جس كے بعد حق رجوع نہيں ركھتا_فامساك بمعروف او تسريح باحسان

۱۳۶

يہ اس صورت ميں ہے كہ''تسريح باحسان'' سے مراد تيسرى طلاق ہو كيونكہ صرف پہلى اور دوسرى طلاق ميں رجوع كا حق حاصل ہے ''الطلاق مرتان''اور تيسرى طلاق ميں حق رجوع نہيں ہوگا_

٩_عورت كو چھوڑنا ( طلاق )، نيكى اور احسان كے ساتھ اس كے حقوق كى رعايت كرتے ہوئے انجام پائے نہ كہ اسے ضررو نقصان پہنچانے كى غرض سے _او تسريح باحسان گويا لفظ ''احسان''كے معنى ''معروف'' سے بڑھ كر ہيں يعنى عورتوں كے مسلّم حقوق سے بڑھ كر ان كے ساتھ نيكى كى جائے_

١٠_ طلاق رجعى كے باوجود عدت كے ايام ميں رشتہ ازدواج باقى رہتا ہے _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

''امساك'' كے لفظ سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ شوہر عورت كو اسى سابقہ نكاح كے ساتھ ركھ سكتا ہے اس كا مطلب يہ ہوا كہ زوجيت كا رشتہ باقى ہے_

١١_ اسلام كے فقہى احكام اور اخلاقى مسائل كے درميان گہرا تعلق و ارتباط ہے_فامساك بمعروف او تسريح باحسان

١٢_ طلاق كے وقت شوہر پر حرام ہے كہ عورت سے وہ مال ( حق مہر اور ...) واپس لے جو اس نے اسے ديا ہو _

و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن شيئا

١٣_ اگر انسان كو خوف ہو كہ اپنى زندگى ميں احكام الہى كو عملى جامہ نہيں پہنا سكتا تو مرد عورت كو ديا ہوا مال واپس لے كر اسے طلاق دے سكتا ہے_و لايحل لكم ان تاخذوا الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

اگر حق مہر واپس كرنے كى حرمت ان دونوں كے درميان طلاق كے لئے ركاوٹ ہوجائے اور ان كا ايك ساتھ زندگى بسر كرنا حدود الہى كے پامال ہونے كا موجب ہو تو اس صورت ميں حق مہر واپس لينا جائز كيا گيا ہے تاكہ طلاق واقع ہوسكے_

١٤_ عورت كا اپنے مال (حق مہر) سے چشم پوشى كر كے طلاق لے لينا اس ازدواجى زندگى سے بہتر ہے كہ جس ميں حدود الہى كى رعايت نہ ہوسكے_و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن شيئا الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

۱۳۷

١٥_ زندگى ميں حدود الہى كى مخالفت كا ڈر اس بات كا جواز فراہم كرتاہے كہ عورت اپنا كچھ مال شوہر كو بخش دے اور دونوں طلاق پر باہمى موافقت كرليں _فان خفتم الا يقيما حدود الله فلاجناح عليهما فيما افتدت به

١٦_ گھريلو زندگى ميں حدود الہى كى عدم رعايت كا احتمال اور معقول و متعارف خوف طلاق خلع كے جواز كا موجب بنتا ہے_*فان خفتم الا يقيما حدود الله ''فان خفتم''كا خطاب چونكہ سب لوگوں كيلئےہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ عورت اور شوہر كى پريشانى اس طرح كى ہو كہ اگر عام لوگ بھى اس سے باخبر ہوں تو وہ بھى اس پريشانى اور مشكل كو محسوس كريں _

١٧_ خاندان كو محفوظ كرنے كى قدر و قيمت اس وقت تك ہے كہ جب تك حدود الہى كى مخالفت كا خطرہ لاحق نہ ہو_

الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

١٨_ ازدواجى زندگى ميں حدود الہى كى مراعات اہم اور لازمى امر ہے_فان خفتم الا يقيماحدود الله فلاجناح تلك حدود الله فلاتعتدوها

١٩_ عورت كا طلاق كيلئے شوہر كو مال دينا طلاق خلع كے علاوہ ديگر طلاقوں ميں جائز نہيں ہے_

و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن فان خفتم فلاجناح عليهما اگرچہ ابتداء ميں مردوں پر ( حق مہر ) واپس لينے كى حرمت ذكر ہوئي ہے ليكن خوف كى صورت ميں ''فلا جناح عليہما'' كى تعبير كے ذريعے دونوں (مياں بيوي) سے حرمت كو اٹھا ليا گيا ہے پس اس سے معلوم ہوتا ہے كہ پہلے عورت كے لئے بھى حرمت ثابت تھي_

٢٠_ طلاق خلع كے قوانين كے اجرا پر حاكم شرع (قاضي) كى نظارت ضرورى ہے_*فان خفتم الا يقيما حدود الله فلاجناح عليهما اس صورت ميں كہ''فان خفتم''كا خطاب حكّام (قاضيوں ) كو ہو جيساكہ آلوسى كى يہى نظر ہے_

٢١_ طلاق كے احكام حدود الہى ميں سے ہيں اور ان سے تجاوز حرام ہے_المطلقات يتربصن الطلاق مرتان تلك حدود الله فلاتعتدوها

٢٢_ خدا وند متعال كے احكام و حدود سے تجاوز ظلم

۱۳۸

ہے_و من يتعد حدود الله فاولئك هم الظالمون

٢٣_ ظالم فقط وہ لوگ ہيں جو الہى حدود سے تجاوز كرتے ہيں _و من يتعد حدود الله فاولئك هم الظالمون

''ھم''ضمير فصل، حصر كو بيان كر رہى ہے_

٢٤_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع اور انكى حمايت كرتا ہے_الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان ولايحل لكم ...فاولئك هم الظالمون

٢٥_ گھريلو زندگى اور اسكى حفاظت كى اہميت _المطلقات يتربصن بانفسهن الطلاق مرتان فاولئك هم الظالمون

٢٦_ گھر كى سرپرستى اورانتظامى ذمہ دارى مرد كے ہاتھ ميں ہے_ *الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان و لايحل لكم فاولئك هم الظالمون كيونكہ گھريلو زندگى كى بنيادى طور پر حفاظت يا گھريلو زندگى كو ختم كردينا مرد كے ہاتھ ميں ہے لہذا گھرانے كى سرپرستى اور ذمہ دارى بھى مرد كے ہاتھ ميں ہوگي_

احكام: ١، ٣، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠ احكام اور اخلاق ١١، احكام كا فلسفہ٢، احكام كى خصوصيت ١١

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى حدود ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨ ; اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز ٢١، ٢٢، ٢٣ اہم و مہم١٧

حق مہر: حق مہر كے احكام ١٢، ١٣

خوف: پسنديدہ خوف١٦; خوف كے اثرات١٣، ١٥

دينى نظام تعليم: ١١

زمانہ بعثت كى تاريخ: ٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٢; زمانہ جاہليت ميں طلاق ٢

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق ٤، ٦

طلاق: طلاق خلع ١٤، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠; طلاق رجعى ١، ٢، ٥، ٦، ٧، ٨، ١٠ ; طلاق كے احكام ١،٣، ٥، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠، ٢١

۱۳۹

ظالم لوگ: ٢٣

ظلم: ظلم كے موارد٢٢

عرفى معيارات: ٤، ٦، ٨

عورت: عورت كو ضرر پہچانا ٧، ٩; عورت كے حقوق ٢، ٤، ٦، ٧، ٩، ١٢، ١٤، ٢٤; عورت كے ساتھ نيكي كرنا ٩

قاضي: قاضى كى ذمہ دارى ٢٠ گھرانہ: ١٥ گھرانے كى ذمہ دارى اور سرپرستى ٢٦; گھرانے كى قدر و قيمت ١٧، ٢٥; گھرانے كے حقوق ١٦; گھريلو روابط ١٨

محرمات: ١٢، ٢١

مرد: مردكى ذمہ دارى ٢٦;مرد كے حقوق ٥

فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (٢٣٠)

پھر اگر تيسرى مرتبہ طلاق دے دى تو عورت مرد كے لئے حلال نہ ہو گى يہاں تك كہ دوسرا شوہر كرے پھر اگر وہ طلاق ديدے تو دونوں كے لئے كوئي حرج نہيں ہے كہ آپس ميں ميل كرليں اگر يہ خيال ہے كہ حدود الہيہ كو قائم ركھ سكيں گے _ يہ حدود الہيہ ہيں جنھيں خدا صاحبان علم و اطلاع كے لئے واضح طور سے بيان كررہا ہے _

١_ تيسرى طلاق كے بعد شوہر كا اپنى بيوى كے ساتھ دوبارہ ازدواجى زندگى برقرار كرنا ممكن نہيں ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

انفاق كے آداب ٤; انفاق كے اثرات ١٣ ;انفاق ميں اخلاص ٤; خدا كے راستے ميں انفاق ; رہبر مسلمين پر انفاق١٧; ٣، ٦، ٧، ١٢، ١٨

ايمان: ايمان كے اثرات ١١، ١٢، ١٥; معادپر ايمان ١٥

بے نيازي: بے نيازى كا سرچشمہ ٩، ١٠

تحريك: تحريك كى اہميت ٨; تحريك كے عوامل ٦، ١٢، ١٥

تربيت: تربيت كا طريقہ ٦

جہاد: جہاد كى قدر و منزلت ١، ٢; جہاد كے لئے اسلحہ اور ساز و سامان ٢; خدا كے راستے ميں جہاد١; مالى جہاد ٢

خدا تعالى: خدا تعالى كى حاكميت ١٠ خدا كى طرف بازگشت: ١٤، ١٥

دنياوى وسائل: ١٠

روايت: ١٧، ١٨

روزي: روزى كا وسيع ہونا ٩، ١١

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ ٨، ١٥

عقيدہ: باطل عقيدہ ١١

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ٨;عمل كا اجر ١٣ ; عمل كى بقا ١٣

فقر: فقر كا سرچشمہ ٩، ١٠

قرض: قرض كا اجر٥;قرض كا اخروى اجر ١٦;قرض كا دنياوى اجر ١٦; خدا كو قرض دينا ١، ٢، ٣،٥ ،١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٧

معاد: ١٤

نيت: نيت ميں خلوص ٤

ولايت و امامت: ١٧

۲۰۱

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُواْ لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُواْ قَالُواْ وَمَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَآئِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْاْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (٢٤٦)

كيا تم نے موسى كے بعد بنى اسرائيل كى اس جماعت كو نہيں ديكھا جس نے اپنے نبى سے كہا كہ ہمارے واسطے ايك بادشاہ مقرر كيجئے تا كہ ہم راہ خدا ميں جہاد كريں _ نبى نے فرمايا كہ انديشہ يہ ہے كہ تم پر جہاد واجب ہو جائے تو تم جہاد نہ كرو _ ان لوگوں نے كہا كہ ہم كيوں كرجہاد نہ كريں گے جب كہ ہميں ہمارے گھروں او ربال بچوں سے الگ نكال باہر كرديا گيا ہے _ اس كے بعد جب جہاد واجب كرديا گيا تو تھوڑے سے افراد كے علاوہ سب منحرف ہو گئے اور الله ظالمين كو خوب جانتا ہے _

١_الله تعالى نے حضرت طالوت(ع) اور بنى اسرائيل كے واقعہ ميں غور و خوض كرنے كى دعوت دى ہے_

ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل

٢_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل كے سركردہ

افراد نے اپنے نبى سے درخواست كى كہ ايك شخص معين كريں جس كى سپہ سالارى ميں وہ دشمنوں كے ساتھ جنگ كريں _ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل من بعد

۲۰۲

موسى اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا

''ملائ''وہ لوگ جو دوسروں كى توجہ اپنى طرف موڑليں ( ہر قوم كے سركردہ اور سربراہ لوگ_)

٣_ مسلمانوں كى ذمہ دارى ہے كہ وہ بنى اسرائيل كى تاريخ ميں گہرا غور و فكر كريں اور اس سے عبرت حاصل كريں _

ا لم تر الى الملا من بن اسرائيل

٤_ بعض انبياء (ع) كى نبوت ايك قوم كے ساتھ مختص تھي_اذ قالوا لنبى لهم

''لہم''كى لام اختصاص كے ليئے ہے يعنى نبى كى نبوت بنى اسرائيل كى قوم كے ساتھ مخصوص تھى اور اگر لام نہ ہوتا مثلاً''نبيہم''كہا جاتا تو پھراس اختصاص كو نہيں سمجھا جاسكتا تھا_

٥_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے ميں دشمنوں كے ساتھ مقابلے كيلئے بنى اسرائيل كے نبى (ع) لوگوں كى پناہ گاہ تھے_اذ قالوا لنبى لهم ابعث

٦_ لوگوں كے سياسى اور فوجى مسائل ميں انبياء (ع) مداخلت كرتے تھے_اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله

٧_ جنگ ميں سپہ سالار كا ہونا ضرورى ہے_ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله '' نقاتل''فعل مضارع كا مجزوم ہونا شرط كے مقدر ہونے كى علامت ہے يعنى اگر سپہ سالار ہوگا تو ہم خدا كى راہ ميں جنگ كريں گے_ پس اگر سپہ سالار ضرورى نہ ہوتا تو جہاد فى سبيل الله كو اس كے وجود كے ساتھ مشروط نہ كيا جاتا _

٨_ معاشرہ كے ليئے رہبر بنانا اس صورت ميں ہوسكتاہے كہ معاشرے كا اجتماعى طور پر ميلان ہو اور اس كے قبول كرنے كا پيش خيمہ فراہم ہو _ابعث لنا ملكا نقاتل

يہ اس لحاظ سے ہے كہ سپہ سالار كى ضرورت كے باوجود حضرت اشموئيل (ع) نے لوگوں كى درخواست سے پہلے ان پر كسى كو سپہ سالار معين نہيں فرمايا جبكہ اس كى ضرورت واضح اور روشن تھي_

٩_ جنگ كى قدر و قيمت كا معيار اس كا راہ خدا ميں ہونا ہے_ابعث لنا ملكا نقاتل فى سبيل الله و ما لنا الانقاتل فى سبيل الله

١٠_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے ميں بنى اسرائيل كے

۲۰۳

راہ خدا ميں جنگ كے پابند ہونے كے بارے ميں حضرت اشموئيل (ع) كو شك تھا_

قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال الاتقاتلوا

١١_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل سے ان كے نبى حضرت اشموئيل (ع) نے خدا كى راہ ميں جہاد كرنے كا عہد و پيمان ليا_قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال جملہ''ھل عسيتم''پيمان لينے سے كنايہ ہے_

١٢_ معاشرہ كے رہبر كے ليئے ضرورى ہے كہ لوگوں سے يہ عہد لے كہ جنگ اور ديگر امور ميں اس كى پيروى كريں گے_

قال هل عسيتم ان كتب عليكم القتال الاتقاتلوا

١٣_ جنگ كا حكم صادر ہونے ميں فوج كى آمادگى كا كردار_اذ قالوا لنبى لهم ابعث

جب تك خود بنى اسرائيل نے جنگ كى خواہش اور آمادگى كا اعلان نہيں كر ديا جنگ كا حكم صادر نہيں ہوا_

١٤_ فوجى جرنيلوں اور سپہ سالاروں كا معين كرنا الہى رہبروں كا كام ہے_*اذ قالوا لنبى لهم ابعث لنا ملكا

خدا كى راہ ميں جہاد كى خاطر سپہ سالار كى تعيين كيلئے لوگوں كا اپنے پيغمبر اور رہبر كى طرف رجوع كرنا لوگوں كى اس سوچ كى عكاسى كرتا ہے كہ سپہ سالار كى تعيين كو لوگ دينى رہبروں اور انبياء (ع) كے اختيارات ميں سے سمجھتے تھے_

١٥_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل نے اپنے نبى (ع) كو دشمنوں كے ساتھ جنگ ميں اپنى ثابت قدمى اور پائيدارى كا اطمينان دلايا_و ما لنا الا نقاتل فى سبيل الله

١٦_ حضرت طالوت (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل كا تجاوز كرنے والوں كے خلاف جنگ كرنے كا سبب ، انہيں اپنے شہر و ديار سے نكالا جانا اور انكى اولاد كا قيد كيا جانا تھا_و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٧_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل پر ظالموں كا تسلط ہوگيا اور انہيں اپنے گھروں سے نكال دياگيا اور ان كى اولاد كو قيدى بنا ليا گيا_و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٨_ خدا كى راہ ميں جہاد معاشرے كو قيد و بند اور دوسروں كے تجاوز سے نجات دلاتاہے اور عزت

۲۰۴

و آبرو كا باعث بنتا ہے_وما لنا الانقاتل فى سبيل الله و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

١٩_ اہل ايمان كا تجاوز كرنے والوں كے ساتھ مقابلہ كرنا اور نبرد آزما ہونا ، ان كى قيد سے رہائي حاصل كرنا اور ظلم و ستم سے چھٹكارا پانا ، خدا كى راہ ميں جنگ كے مصاديق ميں سے ہے_و ما لنا الانقاتل فى سبيل الله و قد اخرجنا من ديارنا و ابنائنا

٢٠_ اگر چہ بنى اسرائيل كى خواہش اور درخواست پر جنگ كا حكم آيا تھا ليكن حكم جہاد كے بعد جناب طالوت (ع) كے زمانے كے اكثر بنى اسرائيل نے اس حكم كى نافرمانى كي_اذ قالوا لنبى فلما كتب عليهم القتال تولوا

ظاہراً ''كتب عليہم'' كے جملے ميں فاعل الله تعالى ہے جو كہ تعظيم كى خاطر حذف كيا گيا ہے_

٢١_ لوگوں كے دعووں كى سچائي اور صداقت كا اندازہ ميدان عمل ميں ہوتاہے_فلما كتب عليهم القتال تولوا

٢٢_ظلم و ستم او ر قيد و بند كے خلاف، خدا كے حكم جہاد كى مخالفت اور نافرمانى ظلم ہے_فلما كتب عليهم و الله عليمٌ بالظالمين

٢٣_ ظالموں كے بارے ميں خدا تعالى و سيع علم ركھتاہے_و الله عليمٌ بالظالمين

٢٤_ خداوند عالم نے ان لوگوں كوڈرايا دھمكاياہے جو اس كى راہ ميں جنگ سے روگردانى كرتے ہيں _تولوا الا قليلا منهم و الله عليمٌ بالظالمين ظالموں كو انكى ظالمانہ كاروائيوں كے بارے ميں خداوند متعال كے علم كى طرف توجہ دلانے كا مقصد ، انہيں ڈرانا دھمكاناہے_

٢٥_ خدا تعالى كے وسيع علم پر توجہ اس كے فرامين كى مخالفت سے بچنے اور ظلم سے اجتناب كرنے كا پيش خيمہ ہے_

و الله عليمٌ بالظالمين

٢٦_ حضرت موسى (ع) جب تك بنى اسرائيل ميں موجود تھے دشمنوں كو بنى اسرائيل پر تجاوز كى جرا ت نہ تھي_

الم تر الى الملا من بن اسرائيل من بعد موسى و قد اخرجنا من ديارنا

''من بعد موسي''اس بات كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے كہ جب تك بنى اسرائيل ميں

۲۰۵

حضرت موسى (ع) موجود تھے دشمنوں نے ان پر تجاوز نہيں كيا _

٢٧_ كسى معاشرہ ميں الہى رہبر كافقدان اس معاشرہ كى صفوں ميں اختلاف و انتشار اور ان پر غيروں كے قبضہ اور تسلط كا موجب بنتا ہے_ *من بعد موسي و قد اخرجنا من ديارنا بنى اسرائيل كا اپنے نبى (ع) سے الہى حكمران كے تعين كى درخواست كرنا بتلاتا ہے كہ اس سے پہلے ان كے درميان ايسا حكمران نہيں تھا جس كے نتيجے ميں ظالموں نے ان پر قبضہ اور تسلط پيدا كر ليا_

٢٨_ حضرت موسى (ع) كے بعد بنى اسرائيل ميں بعض انبياء (ع) ايسے بھى تھے كہ جن كے ذمے معاشرے كى حكمرانى كا منصب نہيں تھا_ *ابعث لنا ملكا و قد اخرجنا من ديارنا ملك (حكمران) كى درخواست كرنا بتلاتا ہے كہ اس زمانے كا نبي(ع) معاشرے كى حكمرانى اور باگ ڈور كا منصب اور مقام نہيں ركھتاتھا_

٢٩_ حضرت طالوت (ع) كى سپہ سالارى ميں بنى اسرائيل كى وفادار اور ثابت قدم فوج كى تعداد ساٹھ ہزار تھي_

تولوا الا قليلا حضرت امام محمد باقر(ع) اس آيت ميں ''قليل '' كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ وہ قليل ساٹھ ہزار افراد تھے_ (١)

اختلاف: اختلاف كے عوامل ٢٧

اطاعت: رہبر كى اطاعت١٢

امتحان: فلسفہ امتحان ٢١

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا نقش ٦، ٢٨ ; انبياء (ع) كى ذمہ دارى كا دائرہ ٦، ٢٨; انبياء (ع) كے اہداف ٥;علاقائي انبياء (ع) ٤

ايمان: ايمان اور عمل٢٥

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا جہاد ١١;بنى اسرائيل كا دربدر ہونا ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كا نافرمانى كرنا ٢٠; بني

____________________

١)معانى الاخبار، ص ١٥١، ح ١، نور الثقلين ج ١، ص ٢٤٥، ح ٩٧١_

۲۰۶

اسرائيل كى تاريخ ١، ٢، ٣، ٥، ١٠، ١١، ١٦، ١٧، ٢٠، ٢٦، ٢٩; بنى اسرائيل كى درخواستيں ٢; بنى اسرائيل كى عہد شكنى ١٠،٢٠; بنى اسرائيل كى قيد وبند ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كى مصيبتيں ١٦، ١٧; بنى اسرائيل كے انبياء (ع) ٥، ١٠، ١١، ١٥، ٢٦، ٢٨، ٢٩ ; بنى اسرائيل ميں موسى (ع) ٢٦

تاريخ: تاريخ سے عبرت٣ ; فلسفہ تاريخ ١، ٣

تحريك : تحريك كے عوامل ١٦

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ٢٥

جنگ: جنگ ميں سپہ سالارى ٢، ٧، ١٤

جہاد: جہاد ترك كرنا ٢٢، ٢٤; جہاد كى قدر وقيمت ٩;جہاد ميں آمادگى ١٣ ; جہاد ميں استقامت ١٥; خدا كى راہ ميں جہاد ٩، ١١، ١٨، ١٩، ٢٠ فلسفہ جہاد ١٨

حريت پسندي: ١٩

حضرت اشموئيل(ع) : ١٠، ١١

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت (ع) كا واقعہ ١، ٢٩

خدا تعالى: خدا تعالى كاڈرانا دھمكانا ٢٤ ; خدا تعالى كا علم٢٣، ٢٥ ;خدا تعالى كے اوامر ٢٥

دشمن: دشمن كے ساتھ مبارزت ٥، ١٥

رشد و ترقى : رشدو ترقى كا پيش خيمہ ٣

روايت: ٢٩

رہبر: رہبركا نقش ٢٧ ;رہبر كى اہميت ٢٧;رہبر كى بيعت١٢ ; رہبر كى ذمہ دارى ١٢، ١٤ ; رہبركى شرائط٨

۲۰۷

سچائي: سچائي كا معيار ٢١

سياسى فلسفہ ٨، ٢٧ سياسى نظام ٨، ١٢، ١٨، ٢٧

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل ٢٥

ظالمين: ٢٣

ظلم: ظلم كے موارد ٢٢ ; ظلم كے موانع ٢٥

علم: علم اور عمل ٢٥

عمل: عمل كے اثرات ٢١

غلبہ اور عزت: غلبہ اور عزت كے عوامل ١٨

قدر و قيمت : قدر و قيمت كا معيار ٩

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ٣

معاشرہ: معاشرتى ترقى كے عوامل ١٨ ;معاشرہ كے انحطاط كے عوامل ٧ ٢

مومنين: مومنين كاجہاد ١٩ ;مومنين كى حريّت پسندى ١٩

نافرماني: نافرمانى كے اثرات ٢٢

۲۰۸

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (٢٤٧)

ان كے پيغمبر نے كہا كہ الله نے تمھارے لئے طالوت كو حاكم مقرر كيا ہے _ ان لوگوں نے كہا كہ يہ كس طرح حكومت كريں گے ان كے پاس تو ما ل كى فراوانى نہيں ہے ان سے زيادہ تو ہميں حقدار حكومت ہيں _ نبى نے جواب ديا كہ انھيں الله نے تمھارے لئے منتخب كيا ہے ا ور علم و جسم ميں وسعت عطا فرمائي ہے اور الله جسے چاہتا ہے اپنا ملك ديديتا ہے كہ وہ صاحب دسعت بھى ہے اور صاحب علم بھى _

١_ بنى اسرائيل كى حكمرانى كيلئے حضرت طالوت (ع) كا انتخاب ، ان كيلئے فائدہ مند اور سعادت آور تھا_

ان الله قد بعث لكم طالوت ملكا ''لكم''كى لام اس بات كى تصريح كررہى ہے كہ طالوت (ع) كى سپہ سالارى اور حكمرانى ان كى عزت و سعادت كے ليئے تھي_

٢_ بنى اسرائيل كى حكمرانى كيلئے حضرت طالوت(ع) كو خدا وند عالم نے معين فرمايا تھا _ان الله قد بعث لكم طالوت ملكا

٣_ بنى اسرائيل كے بڑوں نے حضرت طالوت(ع) كے چناؤ پر اظہار تعجب كيا كيونكہ نہ تو وہ جانى پہچانى شخصيت تھے اور نہ وہى مال و دولت ركھتے تھے_قالوا انى يكون له الملك و لم يوت سعة من المال

۲۰۹

ظاہراً اعتراض كرنے والے وہى مشورہ دينے والے تھے جن كى بات كو خداوند عالم نے يوں نقل كيا ہے''قالوا نحن احق''تو گويا ان كا اعتراض دو لحاظ سے تھا ايك تو طالوت (ع) كا تعلق اونچے طبقہ سے نہ تھا لہذا انہوں نے كہا''و نحق احق''اور دوسرا ان كے پاس مال و ثروت كا نہ ہونا جس كى طرف ''و لم يؤت سعة من المال'' كے ذريعہ اشارہ ہوا ہے_

٤_ بنى اسرائيل كے بڑوں كا يہ خيال غلط تھا كہ حكمرانى كيلئے حضرت طالوت(ع) كى نسبت وہ زيادہ حقدار ہيں _

و نحن احق بالملك منه

٥_ بنى اسرائيل كے بزرگوں كے خيال ميں حكمرانى كى شرائط ميں سے مشہور و معروف ہونا، اونچے طبقے سے ہونا اور بہت مالدار ہونا تھا_و نحن احق بالملك منه و لم يوت سعة من المال

ظاہراً ''و نحن احق ...''كا جملہ بنى اسرائيل كے بزرگوں كى بات تھى لہذا وہ اسى وجہ سے حكمرانى كيلئے اپنے آپ كو زيادہ لائق اور حق دار سمجھتے تھے_

٦_ بنى اسرائيل كے بزرگوں كى نظر ميں حكمرانى كا اہم ترين معيار مشہور و معروف ہونا اور اونچے گھرانے سے ہونا تھا _*و نحن احق بالملك منه و لم يؤت سعة من المال بنى اسرائيل كے بڑوں نے حكمرانى كا معيار بيان كرتے ہوئے پہلے معروف ہونے اور اشراف كے خاندان سے تعلق ركھنے كو ذكر كيا پھر مال و دولت كا تذكرہ كيا_

٧_ بنى اسرائيل كے بڑوں ميں خدا تعالى كے احكام كے سامنے سرتسليم خم كرنے كا جذبہ نہيں پايا جاتا تھا_

ان الله قد بعث و نحن احق بالملك منه

٨_ حكومت اور حكمرانى ميں خدا كے برگزيدہ اور منتخب افراد دوسروں پر مقدم ہيں _نحن احق بالملك منه قال ان الله اصطفاه عليكم

٩_ حضرت طالوت (ع) علم و قوت كے لحاظ سے دوسروں كى نسبت زيادہ باصلاحيت تھے_و زاده بسطة فى العلم و الجسم كيونكہ جملہ''و زادہ '' بنى اسرائيل ميں سے طالوت (ع) كے انتخاب اور انكے دوسروں پر مقدم كئے جانے كى علت و حكمت بيان كر رہا

۲۱۰

ہے لہذا معلوم ہوا كہ حضرت طالوت (ع) ان دو صفات ميں دوسروں سے افضل و برتر تھے_

١٠_ علمى توانائيوں كى وسعت (اعلم ہونا) اور جسمانى طاقت ميں فضيلت، معاشرہ كى حكمرانى كيلئے انسان كى برترى كا معيار ہے_و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١١_ جسمانى اور علمى توانائيوں كى وسعت اس بات كا معيار بنى كہ حضرت طالوت (ع) كو خدا وند متعال نے حكمرانى كيلئے چن ليا_ان الله اصطفاه عليكم و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٢_ حكمران كے انتخاب كا معيار، اس كا مشہور و معروف اور دولت مند ہونا نہيں ہے_

و لم يوت سعة من المال و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٣_ كسى سپہ سالار كے انتخاب ميں اس كے ماتحت افراد كو قائل كرنا اور ان كے شبہات كو دور كرنا ضرورى ہے_

قالوا انى يكون له الملك ..._ و زاده بسطة فى العلم و الجسم

١٤_ حكمران كے انتخاب ميں اس كى علمى اور فكرى صلاحيتوں ( معاملہ فہمى ) كو جسمانى توانائيوں سے زيادہ اہميت حاصل ہے_*و زاده بسطة فى العلم و الجسم حكمران كے انتخاب كا معيار بيان كرنے ميں ''فى العلم''كو پہلے بيان كيا گيا ہے _

١٥_ حكومت خدا وند عالم كى طرف سے ہے جسے چاہتاہے عطا كرتاہے_و الله يوتى ملكه من يشاء

١٦_ حضرت طالوت (ع) ( الہى قائدين ) كے انتخاب كا سرچشمہ مشيّت الہى ہے_و الله يوتى ملكه من يشاء

١٧_ خدا تعالى كا وجوداور علم وسيع و لا محدود ہے_و الله واسع عليم

يہ اس صورت ميں ہے كہ ''واسع''كے معنى صاحب وسعت ہوں يعنى خدا وسيع وجود ركھنے والا اور ہر جگہ پر محيط ہے نہ مُوسع ( نعمتوں ميں وسعت دينے والا) كے معنى ميں ، اور نہ واسع بمعنى وسيع فضل و قدرت والا كے معنى ميں ہو_

١٨_ افراد كى قابليت اور صلاحيت كے بارے ميں خدا تعالى كا وسيع علم اور اس كى وسعت وجودى اسكے اپنى مشيت كے مطابق حكومت عطا كرنے كا سرچشمہ ہے_

۲۱۱

ان الله اصطفاه عليكم و الله واسع عليم

١٩_ انتخاب كے حقيقى معيار كى نسبت بنى اسرائيل كى محدود سوچ ان كے حضرت طالوت (ع) كے انتخاب پر اعتراض كا موجب بني_قالوا انى يكون له الملك علينا و الله واسع عليم

''والله واسع عليم''بنى اسرائيل پر تنقيد و تعريض ہے كہ تمہارى سوچ محدود ہے جس كى وجہ سے تم نے طالوت (ع) كے انتخاب پر اعتراض كيا ہے_

٢٠_ انسان كى محدود سوچ افعال خدا پر اعتراض كرنے كا موجب بنتى ہے_قالوا انى والله واسع عليم

''والله واسع عليم'' كا جملہ، اعتراض كرنے والوں پر تنقيد و تعريض ہے كہ تم محدود سوچ كے مالك ہو لہذا طالوت (ع) كے انتخاب (افعال خدا ) پر اعتراض كرتے ہو_

٢١_مرضى و مشيت الہى حكمت كى بنياد پر ہے نہ كہ فضول اور بيہودہ _و زاده بسطة فى العلم و الجسم و الله يوتى ملكه من يشاء خدا تعالى نے ايك طرف تو حكمرانى عطا كرنے كا سرچشمہ اپنى مشيت كو قرار ديا ہے اور دوسرى طرف سے حضرت طالوت (ع) كے انتخاب كا معيار بھى ذكر فرمايا ہے پس اس كا مطلب يہ ہے كہ خداوند متعال كى مشيت كسى معيار و حكمت كى بنياد پر ہوتى ہے نہ كہ بے حساب و كتاب اور حكمت كے بغير_

٢٢_ حضرت طالوت (ع) كا خاندان نبوت اور شاہى خاندان سے نہ ہونا بنى اسرائيل كے بزرگان و اشراف كا حضرت طالوت (ع) كے خدا كى طرف سے انتخاب پر اعتراض كا موجب بنا_قالوا انى يكون له الملك علينا

حضرت امام محمد باقر(ع) آيت''ان الله قد بعث ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں :لم يكن سبط النبوة و لا من سبط المملكة ... (١) ترجمہ: طالوت نہ تو خاندان نبوت اور نہ ہى شاہى خاندان ميں سے تھے_

اسماء و صفات: عليم ١٨ ;واسع ١٧، ١٨

انتخاب: انتخاب كے عوامل ١١، ١٦

____________________

١) كافى ج ٨، ص ٣١٦ ،ح ٤٩٨، نور الثقلين ،ج ١ ص ٢٥١، ح ٩٩٦_

۲۱۲

انسان: انسان كى جہالت ٢٠

بنى اسرائيل: اونچے طبقے كے بنى اسرائيل ٣، ٤،٥، ٧; بنى اسرائيل كا تكبر ٤;بنى اسرائيل كا عقيدہ ٤، ٥، ٦ ; بنى اسرائيل كى تاريخ ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٢٢ ; بنى اسرائيل كى جہالت ١٩ ; بنى اسرائيل كى دنياطلبى ٥، ٦، ٢٢; بنى اسرائيل كى نافرمانى ٧، ٢٢; بنى اسرائيل كے ہاں قدر و قيمت ٥; بنى اسرائيل ميں رہبريت ١، ٢

تبليغ: تبليغ كى اہميت ١٣

جہالت: جہالت كے اثرات ١٩، ٢٠

چناؤ: چناؤ كا معيار٣، ٥، ٦، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٤

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت (ع) كا انتخاب ١، ٢، ٣، ١١، ١٦، ١٩، ٢٢; حضرت طالوت(ع) كا علم ٩، ١١ ;حضرت طالوت (ع) كى برترى ٩; حضرت طالوت(ع) كى توانائي ٩

حكومت: حكومت كا سرچشمہ ١٥

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ١٧، ١٨; خدا تعالى كى حاكميت ١٥; خدا تعالى كى حكمت ٢١ خدا تعالى كى عنايات ١٥، ١٨; خدا تعالى كى مشيت ١٥، ١٦، ١٨، ٢١ ; خدا تعالى كے افعال ٢٠

روايت: ٢٢

رہبر: رہبر كا اعلم ہونا ١٠; رہبر كا علم ١٠ ;رہبر كى شرائط ٨، ١٠، ١١،١٢، ١٤

سپہ سالاري: سپہ سالارى كى اہميت ١٣

سياسى فلسفہ :١٨

سياسى نظام: ٨

عقيدہ: باطل عقيدہ ٤

علم: علم اور عمل ٢٠ ;علم كى اہميت١٤

غور و فكر: غور و فكركى اہميت ١٤

۲۱۳

مال: مال كى قدر و قيمت ١٢

منتخب انسان : منتخب انسانوں كے فضائل٨

نافرماني: نافرمانى كا پيش خيمہ ١٩، ٢٠

وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (٢٤٨)

او ران كے پيغمبر نے يہ بھى كہا كہ ان كى حكومت كى نشانى يہ ہےيہ تمھارے پاس وہ تابوت لے آئيں گے جس ميں پروردگار كى طرف سے سامان سكون او رآل موسى او رآل ہارون كا چھوڑا ہو ا تركہ بھى ہے _ اس تابوت كو ملائكہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس ميں تمھارے لئے قدرت پروردگار كى نشانى بھى ہے اگر تم صاحب ايمان ہو_

١_بعض انبياء (ع) كى نبوت صرف كسى خاص معاشرے كيلئے تھي_قال لهم نبيهم

٢_ بنى اسرائيل نے خدا كى طرف سے حضرت طالوت (ع) كى تعيين پر عدم اطمينان كا اظہار كيا اور ان كى حكمرانى پر اپنے پيغمبر (ع) سے نشانى اور دليل مانگي_قد بعث لكم طالوت ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

جملہ''ان آية '' ظاہر كرتا ہے كہ وہ جناب طالوت (ع) كى حكومت كے حق ہونے پر معجزہ اور نشانى مانگ رہے تھے اور نشانى طلب كرنا ان كے شك و ترديد كى علامت ہے_

٣_ صندوق (تابوت) كا بنى اسرائيل كے پاس

۲۱۴

لوٹ آنا طالوت (ع) كى حكمرانى كى علامت تھي_ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

''التابوت''ميں الف، لام عہد ذہنى كا ہے جس كا مطلب يہ ہے كہ وہ صندوق كچھ مدت تك بنى اسرائيل كے پاس رہا تھا اور جملہ''و فيہ بقية مما ترك آل موسي''اس معنى كى تائيد كرتا ہے اسى لئے''اتيان''كے معنى لوٹنے كيا گيا_

٤_ مذكورہ صندوق خدا وند عالم كى طرف سے بنى اسرائيل كيلئے تسكين خاطر كا موجب تھا _ان ياتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم

٥_ بنى اسرائيل كى طرف لوٹنے والا معين صندوق حضرت موسى (ع) و ھارون (ع) كے خاندان كى ميراث اور يادگار نشانى تھا_فيه سكينة من ربكم و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

٦_ بنى اسرائيل كى طرف اس صندوق كو اٹھا كے لانے والے فرشتے تھے_ان ياتيكم التابوت تحمله الملائكة

٧_ بنى اسرائيل كے نبى نے انہيں غيبى خبر دى كہ وہ يادگار صندوق ان كى طرف لوٹ آئے گا_

و قال لهم نبيهم ان اية ملكه ان ياتيكم التابوت

٨_ دلوں كے آرام و اطمينان كا سرچشمہ خدا تعالى كى ذات اقدس ہے _سكينة من ربكم

٩_ خدا تعالى كى طرف سے بنى اسرائيل پرذہنى آرام و سكون نازل كرنے كا مقصد ، دشمنوں كے ساتھ جنگ ميں پائيدارى اور ثابت قدمى اور ان كے ہول اور اضطراب و پريشانى كو كم كرناتھا_ابعث لنا ملكاً نقاتل ان ياتيكم التابوت فيه سكينة سابقہ آيات جو كہ جہاد اور دشمنوں كے ساتھ نبرد كے بارے ميں تھيں كى مناسبت سے يہاں ''سكينہ''سے مراد يا تو دشمن كے ساتھ جنگ كى صورت ميں قلبى آرام و سكون دينا اور ہول و اضطراب كو دور كرنا ہے اور يا يہ آرام و سكون كا واضح مصداق ہے_

١٠_ تسلى خاطر، آدمى كو مشكلات و حوادث ميں استقامت بخشتى ہے_ان ياتيكم التابوت فيه سكينة

١١_ مذكورہ صندوق بنى اسرائيل كو حضرت مو سى (ع) كى شريعت كى ياددہانى كراتا ہے اور ان ميں شريعت پر عمل كرنے كا جذبہ ابھارتاہے (كہ خدا

۲۱۵

كى راہ ميں جنگ كر كے متجاوزين كى قيد و بند سے رہائي حاصل كريں )_*و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

اس آيت ميں جملہ'' بقيّة مما ترك ...'' كا ذكر شايد بنى اسرائيل كو يہ احساس دلانے كى خاطر ہو كہ حضرت موسى (ع) سے اپنا مذہبى رشتہ نہ توڑيں _

١٢_مذكورہ صندوق مخصوص آثار پر مشتمل اور بنى اسرائيل كيلئے بہت اہم اور قابل توجہ تھا_ان ياتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم و بقية مما ترك آل موسى و آل هارون

١٣_ انبياء (ع) كے باقيماندہ آثار كى نگہداشت اور انكى عزت و تكريم قابل تحسين ہے_بقية مما ترك آل موسى و آل هارون خدا تعالى كى طرف سے موسى (ع) ، ہارون (ع) اور ان كے خاندان كے آثار كى حفاظت اس حقيقت كى حكايت كرتى ہے كہ انبياء (ع) كے آثار كى حفاظت بہت ہى بافضيلت اور قابل قدر كام ہے_

١٤_بنى اسرائيل كے مومنين( حق كو قبول كرنے والوں ) نے مذكورہ صندوق كو حضرت طالوت(ع) كى حكمرانى كى حقانيت كى نشانى كے طور پر قبول كرليا_ان فى ذلك لآية لكم ان كنتم مومنين اس آيت ميں ''ايمان''سے مراد كفر كے مقابلے ميں خدا اور رسول پر ايمان نہيں ہے كيونكہ آيت ميں مخاطب اہل ايمان ہيں بلكہ يہاں ايمان لغوى معنى ميں ہے يعنى وہ لوگ جو حق كو قبول كرليتے ہيں ، ان كے مقابل ميں كہ جو شكى مزاج اور ہٹ دھرم ہيں _

١٥_ ايمان (باور كرلينا) معجزات الہى كے ماننے اور ان سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ ہے_ان فى ذلك لآية لكم ان كنتم مومنين

١٦_ حضرت طالوت (ع) كى حكمرانى پر خدا كى طرف سے واضح و روشن نشانى آنے كے باوجود بنى اسرائيل ميں غير مومن يعنى نہ ماننے والے(شكى و ہٹ دھرم ) لوگ موجود تھے_ان فى ذلك لاية لكم ان كنتم مومنين

''ان كنتم مومنين'' كى تعبير اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل كے درميان غير مومن افراد (نہ ماننے والے) موجود تھے_

١٧_ مذكورہ صندوق ميں حضرت طالوت(ع) كى حكمرانى كى نشانى اور الواح حضرت موسى (ع) كے كچھ ٹكڑے موجود تھے جن پر آسمانى علوم لكھے ہوئے تھے_ان ياتيكم التابوت

امام محمد باقر(ع) آيت ''ان ياتيكم التابوت ...''كے بارے ميں فرماتے ہيں :رضاض

۲۱۶

الالواح فيها العلم و الحكمة، العلم جاء من السماء فكتب فى الالواح و جعل فى التابوت (١) فرمايا الواح موسى (ع) كے ٹوٹے ہوئے ٹكڑے تھے جن ميں علم و حكمت تھى علم آسمان سے آ يا تو الواح ميں لكھنے كے بعد تابوت ميں ركھ ديا گيا_

آثار قديمہ: ١٣

آل موسي(ع) : ٥

آل ھارون(ع) :

آل ہارون كى ميراث ٥

استقامت: استقامت كے عوامل ٩، ١٠

اطمينان : اطمينان كے اثرات ٩، ١٠ ; اطمينان كے عوامل ٤، ٨

امداد: غيبى امداد٩

انبياء (ع) : انبياء كا علم غيب ٧;انبياء (ع) كے آثار كى حفاظت ١٣; خاص علاقوں كے انبياء (ع) ١

ايمان: ايمان كے اثرات ١٥

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور كتمان حق ١٦ ; بنى اسرائيل كا تابوت ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ١١، ١٢، ١٤، ١٧ ; بنى اسرائيل كى تاريخ ٢، ٣، ٥، ٦، ٧، ٩، ١١، ١٢، ١٧; بنى اسرائيل كى ہٹ دھرمى ١٦;بنى اسرائيل كے انبياء (ع) ٧; بنى اسرائيل كے مومنين ١٤

تحريك : تحريك كے عوامل ١١

جنگ: جنگ ميں كاميابى كے عوامل ٩

جہاد: راہ خدا ميں جہاد ١١

حضرت طالوت(ع) : حضرت طالوت(ع) كا انتخاب ٢;حضرت طالوت(ع) كى قيادت ٣ ، ١٤ ، ١٦ ، ١٧

____________________

١) تفسير عياشى ج١ ص ١٣٣ ح٤٤٠، نورالثقلين ج١ ص ٢٤٧ ح ٩٧٧_

۲۱۷

حضرت موسي (ع) : الواح موسي (ع) ٧ ١;دين موسي (ع) ١١

خوف: خوف كامقابلہ ٩

رشد و ترقي: رشد و ترقى كا پيش خيمہ ١٥

روايت: ١٧

سختي: سختيوں كو آسان كرنے كا طريقہ ١٠;سختيوں

ميں استقامت ١٠

فرشتے: فرشتوں كا نقش ٦

قبوليت حق : قبوليت حق كا سرچشمہ ١٥

قيد: قيدسے نجات ١١

معجزہ : معجزہ كو قبول كرلينا ١٥

۲۱۸

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُواْ مِنْهُ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ قَالُواْ لاَ طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا اللهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (٢٤٩)

اس كے بعد جب طالوت لشكر لےكر چلے توانھوں نے كہا كہ اب خدا ايك نہر كے ذريعہ تمھارا امتحان لينے والا ہے جو اس ميں سے پى لے گاوہ مجھ سے نہ ہوگا اور جونہ چكھے گاوہ مجھ سے ہوگا مگر يہ كہ ايك چلو پانى لے لے _ نتيجہ يہ ہوا كہ سب نے پانى پى ليا سوائے چند افراد كے_ پھر جب وہ صاحبان ايمان كو لے كر آگے بڑھے تو لوگوں نے كہا كہ آج تو ہم ميں جالوت او راس كے لشكروں كے مقابلہ كى ہمت نہيں ہے اور ايك جماعت نے جسے خدا سے ملاقات كرنے كا خيال تھا كہا كہ اكثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑى بڑى جماعتوں پر حكم الہى سے غالب آجاتے ہيں او رالله صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے_

١_ حضرت طالوت (ع) كى جانب سے افراد كى لام بندي، سپاہ كى تشكيل اور پھر انكى كمان ميں دشمن كے مقابلے

۲۱۹

ميں سپاہ كى روانگي_فلما فصل طالوت بالجنود

٢_ حضرت طالوت (ع) كا پہلے سے اپنى سپاہ كو مطلع كرنا كہ خدا تعالى انہيں ايك نہر كے ذريعے آزمائے گا _

قال ان الله مبتليكم بنهر

٣_ بنى اسرائيل كا صندوق كو ديكھنے كے بعد حضرت طالوت (ع) كى حكمرانى كو قبول كرلينا اور پھر دشمن سے نبردآزمائي كيلئے تيار ہوجانا _ان آية ملكه فلما فصل طالوت بالجنود

بنى اسرائيل كے حضرت طالوت(ع) كى سپہ سالارى ميں شك و ترديد كے باوجود سپاہ كى تشكيل ، ايك محذوف جملہ پر دلالت كرتى ہے يعنى تابوت كے آنے كے بعد انہوں نے حضرت طالوت (ع) كى سپہ سالارى كو قبول كرليا اور جنگ كيلئے آمادہ ہوگئے، اس كے بعد طالوت (ع) نے سپاہ كى تشكيل كى _

٤_ خداوند متعال كى طرف سے حضرت طالوت (ع) كى اطاعت گزارى اور انكى قوت ارادى كى ايك نہر كے ذريعے آزمائش_ *ان الله مبتليكم بنهر سابقہ آيات ميں اس بات كا تذكرہ ہوچكا كہ بنى اسرائيل دشمن كے مقابلے ميں حضرت طالوت (ع) كى اطاعت كرنے ميں شك و ترديد ميں مبتلا تھے ( ھل عسيتم ...) لہذا خدا تعالى نے فرمانبرداروں كو الگ كرنے اور انكى فرمانبردارى كى حد كو مشخص كرنے كيلئے انكى آزمائش كي_

٥_ متجاوزين سے بر سر پيكار ہونے كيلئے حضرت طالوت (ع) كے ہمراہ بنى اسرائيل كا ايك بڑا گروہ تھا_فلما فصل طالوت بالجنود كلمہ ''جند'' كا معني ہے بڑى كثرت اسے جمع كى صورت (جنود) ميں لانا حضرت طالوت (ع) كى سپاہ كى كثرت پر دلالت كرتاہے_

٦_ حضرت طالوت(ع) اپنے لشكريوں كو آزمائش ميں كاميابى سے پہلے اپنى طرف نسبت نہيں ديتے تھے_فلما فصل طالوت بالجنود جب تك حضرت طالوت (ع) نے اپنے لشكر كو آزما نہيں ليا انہيں لفظ ''جنود''(لشكروں ) سے تعبير كيا گيا نہ ''جنودہ''( طالوت كے لشكر) يعنى نہ تو طالوت (ع) نے انہيں اپنى طرف نسبت دى اور نہ ہى انكى اپنے سے نفى كى ليكن جب آزمائش كى بات آئي تو كامياب ہونے والوں كے بارے ميں كہا ''فانہ مني''( بيشك وہ مجھ سے ہيں )_

٧_ كسى بھى منتظم و رہبر كيلئے اپنى ما تحت قوتوں كو

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749