تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 178142 / ڈاؤنلوڈ: 6647
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

انفقوا من قبل ان ياتى يوم لا بيع فيه

٧_ آخرت كيلئے زاد راہ حاصل كرنے كى جگہ اور سعادت كى تجارت كا بازار دنيا ہے نہ قيامت_انفقوا من قبل ان ياتى يوم لا بيع فيه

٨_ روز قيامت نہ تو كسى قسم كا لين دين ہوگا اور نہ كوئي دوستى و سفارش كام آئے گي_يوم لا بيع فيه و لا خلة و لا شفاعة

٩_ قيامت كى خصوصيات ( لين دين اور دوستى و شفاعت كا نہ ہونا ) پر ايمان لانا اور انكى طرف متوجہ رہنا انسان كو راہ خدا ميں خرچ كرنے اور نيك اعمال كے بجالانے كى ترغيب دلاتاہے_انفقوا من قبل ان ياتى يوم لا بيع فيه و لا خلة

١٠_ دنيا كے انجام كے بارے ميں انسان كا نقطہ نظر اسكے اعمال كا رخ معين كرنے ميں مؤثر ہے_يا ايها الذين آمنوا من قبل ان ياتى يوم لا بيع فيه

١١_ ترك انفاق كے سلسلے ميں خدا تعالى كا مومنين كو انتباہ _انفقوا من قبل ان ياتى يوم لا بيع فيه

١٢_ كفار ظالمين كے سب سے كامل مصداق _والكافرون هم الظالمون يہ مسلم ہے كہ صرف كفار ہى ظالم نہيں ہيں پس اس جملے ميں حصر كا مطلب ہوسكتاہے يہ ہو كہ كفارظالم كا كامل مصداق ہيں _

١٣_ راہ خدا ميں خرچ نہ كرنا كفران نعمت اور ظلم ہے_انفقواممارزقناكم ...والكافرون هم الظالمون

١٤_ راہ خدا ميں خرچ كرنا عدل و انصاف كو رائج كرنے كے عوامل ميں سے ہے_انفقوا والكافرون هم الظالمون _

كيونكہ راہ خدا ميں خرچ نہ كرنا ظلم ہے پس خرچ كرنا اس ظلم كو روكنے ( عدل قائم كرنے) كا عامل ہے_

١٥_ جو لوگ راہ خدا ميں خرچ كرنے سے كتراتے ہيں وہ در حقيقت اپنے مال و متاع كے خداداد ہونے كے منكر ہيں _

انفقوا مما رزقناكم والكافرون هم الظالمون ''الكافرون'' كے كفر سے مراد ہوسكتاہے ان معارف كا انكار ہو جنكى طرف اس آيت ميں اشارہ كيا گيا ہے انہيں ميں سے ايك اس حقيقت كا باور كرناہے كہ انسان كا سب كچھ خدا كا ديا ہوا ہے اور اس چيز كا انكار راہ خدا ميں خرچ كرنے سے ركاوٹ ہے_

۲۴۱

١٦_ انفاق نہ كرنے والے در حقيقت قيامت كے منكرہيں _انفقوا والكافرون هم الظالمون آيت ميں چونكہ مسئلہ قيامت كا ذكر ہوا ہے اسلئے ہوسكتاہے كفر سے مراد قيامت يا اس كى خصوصيات (لا بيع ...) كا انكار ہو_

١٧_ اخروى نعمتوں سے محرومى اس ظلم كا تاوان ہے كہ جسے راہ خدا ميں خرچ نہ كرنے والوں نے اپنے اوپر روا ركھا_

انفقوا مما رزقناكم من قبل ...والكافرون هم الظالمون خدا تعالى نے اس حقيقت كو بيان كركے كہ روز قيامت كسى قسم كى تجارت نہيں ہوگى انفاق ترك كرنے والوں كو خبردار كيا ہے كہ اخروى نعمتوں سے محروم رہيں گے اور اس كا نتيجہ يہ ہے كہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم كيا اور ''والكافرون ...'' كے جملے كا حصر بتاتاہے كہ ظلم خود ان كى طرف سے ہے نہ خدا كى طرف سے_

آخرت: توشہ آخرت ٦ ، ٧;دنيا و آخرت ٧

انفاق: انفاق كاپيش خيمہ ٥، ٩;انفاق كا دائرہ ٤; انفاق كى اہميت ١ ، ٢ ،٦;انفاق كے ترك پر سرزنش ١١ ، ١٣، ١٥ ، ١٦،١٧;انفاق كے سماجى اثرات ٢ ، ٣ ، ١٤;انفاق كے مصارف ٣

ايمان: آخرت پر ايمان كے اثرات ٩،١٠;ايمان كے انفرادى اثرات ٩

تحريك: تحريك كے عوامل ٩

جہاد: مالى جہاد٣

خدا تعالى: خدا تعالى كا انتباہ ١١

روزى : ١

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كرنے كاپيش خيمہ ٥ ، ٩

ظالمين :١٢

ظلم: اپنے اوپرظلم ١٧;ظلم كے موارد ١٣

عدل وانصاف : سماجى عدل ١٤;عدل كے عوامل ١٤

قيامت: قيامت كى خصوصيات ٧،٨;قيامت ميں شفاعت٨

كفار : ١٢

۲۴۲

كفر : كفر كے موارد ١٣، ١٥، ١٦

نظريہ كائنات: نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجي١٠

نعمت : كفران نعمت ١٣

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ٣

معاشرتى ضروريات: ٢

اللّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ يَؤُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (٢٥٥)

الله جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے زندہ بھى ہے اور اسى سے كل كائنات قائم ہے اسے نہ نيند آتى ہے نہ اونگھ آسمانوں اور زمين ميں جو كچھ بھى ہے سب اسى كا ہے _ كون ہے جو اس كى بارگاہ ميں اس كى اجازت كے بغير سفارش كرسكے _ وہ جو كچھ ان كے سامنے ہے اور جو پس پشت ہے سب كو جانتا ہے اور يہ اس كے علم كے ايك حصہ كا بھى احاطہ نہيں كرسكتے مگر وہ جس قدر چاہے _ اس كى كرسى علم و اقتدار زمين و آسمان سے وسيع تر ہے او راسے ان كے تحفظ ميں كوئي تكليف بھى نہيں ہوتى وہ عالى مرتبہ بھى ہے اور صاحب عظمت بھى _

١_ لائق عبادت صرف خدا تعالى كى ذات ہے_الله لا اله الا هو

۲۴۳

٢_ صرف خدا تعالى ہميشہ كيلئے قائم و دائم اور زندہ ہے ، وہ خود بخود قائم ہے اور پورى كائنات اسكے ذريعے قائم ہے_

الله لا اله الا هو الحى القيوم ''قيوم''كا معنى زندہ وجاويد ہے كہ جو سب چيزوں كا محافظ اور نگہبان ہو_( القائم الحافظ لكل شيء والمعطى لہ ما بہ قوامہ)

٣_ خدا تعالى حصيّ و قيوم ہے_هو الحى القيوم

٤_ معبودبر حق ہونے كا معيار، مطلق حيات و قيوميّت ہے_الله لا اله الا هو الحى القيوم

''حى و قيوم''كى دو صفات خدا تعالى كى ذات ميں عبادت كے منحصر ہونے كى علت كى طرف اشارہ ہے يعنى صرف وہى زندہ و جاويد جو خود بخود قائم ہو اور پورى كائنات كا مدّبر و ناظم ہو، معبود ہو سكتا ہے_

٥_ عالم ہستى كا نظم و انتظام اور اس كى تدبير و حفاظت صرف خدا تعالى كے ہاتھ ميں ہے_هو الحى القيوم

بعض نے '' قيوم''كا معنى كياہے''القائم بتدبير الخلق و حافظه و المراقب عليه ''_ مخلوقات كا مدبر، اس كا محافظ اور نگہبان_

٦_ خدا تعالى غير سے بالكل بے نياز ہے_هو الحى القيوم بعض لوگوں نے '' قيوم''كا معنى كيا ہے'' وہ جو خودبخود قائم ہو''(روح المعاني)اور خود بخود قائم ہونے كا لازمہ يہ ہے كہ وہ غير سے بے نياز ہو_

٧_ خدا تعالى كو نہ كبھى اونگھ آتى ہے اور نہ گہرى نيند_لا تاخذه سنة و لا نوم

٨_ خدا تعالى ايك لحظہ كيلئے بھى كائنات كى تدبير اور اسے قائم ركھنے سے غافل نہيں ہوتا _الحى القيوم لا تاخذه سنة و لا نوم

٩_ آسمانوں اور زمين( عالم وجود) ميں جو كچھ ہے ، اس پر خدا تعالى كى مطلق مالكيت اور حاكميت ہے_له ما فى السموات و ما فى الارض ہر چيز پر ملكيت كا لازمہ حاكميت ہے بلكہ ملكيت حاكميت كے مساوى ہے_

١٠_ عالم وجود ميں متعدد آسمان ہيں _له ما فى السموات

۲۴۴

كيونكہ جمع كا صيغہ استعمال كيا گيا ہے_

١١_ كائنات كى تدبير سے غفلت خدا تعالى كى قيوميت كے ساتھ سازگار نہيں ہے_الحى القيوم لا تاخذه سنة و لا نوم

(لاتاخذہ ...) كا جملہ '' قيوم'' كيلئے ايك قسم كا بيان ہے_

١٢_ خدا تعالى كى ذات ميں كسى قسم كى تبديلى يا دگرگونى نہيں آتي_لا تاخذه سنة و لانوم

١٣_ خدا تعالى كے علاوہ كسى كے پاس بھى اپنا كچھ نہيں ہے جو كچھ ہے خدا وند عالم كى طرف سے ہے_

له ما فى السموات و ما فى الارض جو كچھ بھى ہے خدا كى طرف سے ہے( لہ ما ...) يعنى بہ الفاظ ديگر كسى كا اپنا كچھ نہيں ہے_

١٤_ خدا تعالى كى بارگاہ ميں كوئي بھى اسكى اجازت كے بغير سفارش نہيں كرسكتا_من ذاالذى يشفع عنده الا باذنه

١٥_ نظام كائنات ميں علل و اسباب كى تاثير خدا تعالى كے اذن سے ہے _من ذا الذى يشفع عنده الا باذنه

شفاعت سے مراد شفاعت تكوينى بھى ہوسكتى ہے يعنى كوئي بھى خدا كے مقابلے ميں مستقل قدرت نہيں ركھتا اور اگر كچھ تاثير ركھتاہے تو خدا كے اذن سے ہے_

١٦_ شفاعت كا خدا كى مطلق قدرت اور مالكيت سے كوئي تضاد نہيں ہے_له ما فى السموات و ما فى الارض من ذا الذى يشفع عنده الا باذنه

١٧_ عالم وجود پر خدا تعالى كى مكمل مالكيت كا مطلب كائنات ميں ہر قسم كى مستقل قدرت كى نفى ہے_

له ما فى السموات و ما فى الارض من ذا الذى يشفع عنده الاّ باذنه (من ذا الذي ...) كا جملہ جو كائنات ميں ہر قسم كى مستقل قدرت كى نفى كررہاہے ہوسكتاہے خدا تعالى كى مطلق مالكيت كا نتيجہ ہو_

١٨_ عالم وجود ميں اسباب و علل كى تاثير خدا كے علم مطلق كے احاطے ميں ہے_من ذاالذى يشفع عنده الا باذنه يعلم ما بين ايديهم و ما خلفهم اس بناپر كہ اگر شفاعت سے مراد نظام ہستى كے علل و اسباب كى تاثير ہو_

١٩_ خدا تعالى موجودات كے ماضى ، حال اور مستقبل سے مكمل واقف ہے_

۲۴۵

يعلم ما بين ايديهم و ما خلفهم

٢٠_ خدا تعالى ظاہر و باطن كا مكمل علم ركھتاہے_يعلم ما بين ايديهم و ما خلفهم

٢١_ خدا تعالى سفارش كرنے والوں كے ماضى و مستقبل، ان كے ظاہر و باطن اور آغاز و انجام سے خوب واقف ہے_يعلم ما بين ايديهم و ما خلفهم (مابين ايديہم) سے مراد وہ اعمال اور رفتار و كردار ہيں كہ جو سفارش كرنے والوں كے سامنے آشكار ہيں اور (و ما خلفہم) سے مراد وہ اعمال و كردار ہيں جو ان سے مخفى اور پوشيدہ ہيں _

٢٢_ كوئي بھى خداوند عالم كے علم سے صرف اس حد تك آگاہ ہوسكتاہے جتنا خدا چاہے_و لا يحيطون بشيء من علمه الا بماشآئص

٢٣_ انسان خدا تعالى كے مطلق علم سے آگاہ نہيں ہوسكتا_و لا يحيطون بشيء من علمه الا بماشآء

٢٤_ علوم و معارف ، علم خدا كا ايك معمولى سا پرتو ہيں _و لا يحيطون بشى من علمه الا بماشآئص

٢٥_ خدا تعالى كى حكومت و قدرت آسمانوں اور زمين (عالم ہستى ) پر محيط ہے_لا اله الا هو الحى القيوم وسع كرسيه السموات والارض سابقہ جملوں كو مدنظر ركھتے ہوئے '' كرسي''سے مراد حكومت و قدرت الہى ہے_

٢٦_ تدبير عالم سے غافل نہ ہونا ، مطلق مالكيت، علم اور قدرت اور اسباب و علل كوتاثير كا اذن دينا سب خدا تعالى كى قيوميّت كى دليليں اور نشانياں ہيں _الحى القيوم ...وسع كرسيه السماوات و الارض

تمام مطالب جو ''القيوم ''كے بعد آئے ہيں ممكن ہے صفت كى توضيح ہو نيز اس كے اثبات كى دليل ہوں _

٢٧_آسما ن و زمين ( عالم وجود ) كى حفاظت خدا تعالى كيلئے سخت و دشوار نہيں ہے_و لا يؤده حفظهما

٢٨_ '' كرسي''ايك ايسا وجود ہے جو آسمان و زمين پر محيط ہے اور ان كا محافظ ہے_وسع كرسيه و لا يؤده حفظهما

اس بناپر كہ''لايؤدہ'' كى ضمير كا مرجع ''كرسي'' ہو_

۲۴۶

٢٩_ ''كرسي''كيلئے آسمان و زمين كى نگہداشت كوئي مشكل نہيں ہے_و لا يؤده حفظهما اس بناپر كہ ''لايؤدہ'' كى ضمير كا مرجع ''كرسي'' ہو_

٣٠_ صرف خدا تعالى ''عليّ''(بلندمرتبہ) اور عظيم (باعظمت) ہے_و هو العلى العظيم

٣١_ خدا تعالى كا علم سب آسمانوں اور زمين پر محيط ہے_وسع كرسيه السموات والارض

امام صادق (ع)''وسع كرسيه'' كے متعلق فرماتے ہيں ''علمہ'' يعنى خدا كا علم (١)

٣٢_ ''كرسي''خدا تعالى كا وہ مخصوص علم ہے كہ جس پر كوئي بھى ( حتى كہ انبياء (ع) بھي) آگاہى حاصل نہيں كرسكتے_

وسع كرسيه امام صادق (ع) فرماتے ہيںوالكرسى هو العلم الذى لم يطلع الله عليه احداً من انبياء ه و رسله و حججه ''كرسي''خدا تعالى كا وہ علم ہے كہ جس پر اس نے اپنے انبياء (ع) ، رسل (ع) اور حجج ميں سے بھى كسى كو مطلع نہيں كيا (٢)

٣٣_ آئمہ معصومين(ع) كو شفاعت كرنے كا اذن حاصل ہے_من ذا الذى يشفع عنده الا باذنه امام صادق (ع) فرماتے ہيں :نحن اولئك الشافعونوه شفاعت كرنے والے ہم ہى ہيں (٣)_

آئمہ (ع) : آئمہ(ع) كے فضائل ٣٣

آسمان: آسمانوں كا متعدد ہونا ١٠;آسمان كى مالكيت ٩

اسما ء اور صفات : حى ٢ ، ٣; عظيم ٣٠; على ٣٠ ; قيوم ٣

انبياء (ع) : انبياء (ع) كے علم كا محدود ہونا ٣٢

انسان : انسان كى ناتوانى ٢٣

توحيد : توحيد افعالى ٢ ، ٥ ، ١٣;توحيد صفاتى ١٧;توحيد عبادى ١ ،٤

____________________

١) معانى الاخبار ص ٣٠ ح ٢ ، نورالثقلين ج١ ص ٢٥٩ ح ١٠٣٦_

٢) معانى الاخبار ص ٢٩ ح١ ، تفسير برہان ج ١ ص ٢٤٠ ح ٦_

٣) محاسن برقى ج١ ص ١٨٣ ح ١٨٤،نورالثقلين ج ١ ص ٢٥٨ ح ١٠٣٢ _

۲۴۷

روايت ٣١، ٣٢،٣٣

خدا تعالى : خدا اور غفلت١١;خدا اور نيند ٧;خدا كا اذن ١٤،١٥،٢٦;خدا كا جاودانى ہونا ٢;خدا كا علم ١٨،١٩، ٢٠، ٢١، ٢٢ ،٢٣ ،٢٤،٣١،٣٢;خدا كى بے نيازى ٦; خدا كى تدبير ٥ ،٨،١١،٢٦; خدا كى حاكميت ٩;خدا كى حيات ٢ ، ٤;خدا تعالى كى ذات ١٢;خدا كى صفات جلال٧،١١،١٢ ،٢٦; خدا كى صفات جمال ٦،٨; خدا كى قدرت ١٦،٢٦ ، ٢٧; خدا كى قيوميت ٢ ، ٤ ، ١١، ٢٦;خدا كى مالكيت ٩، ١٣ ،١٦ ،١٧،٢٦;خدا كى مشيت ٢٢

شفاعت: شفاعت كااذن ١٤،٣٣;شفاعت كى حقيقت ١٦ شفاعت كرنے والے: ٢١،٣٣

طبعى عوامل: ١٥ ، ١٨،٢٦

عالم خلقت: عالم خلقت كا وابستہ ہونا ١٧;عالم خلقت كى تدبير ٥ ، ٨، ١١ ،٢٥،٢٦،٢٧ ، ٢٨، ٢٩

علم: علم كا سرچشمہ ٢٤

كرسي: ٢٨،٢٩،٣٢

معبود: لائق معبود ١ ، ٤

لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٥٦)

دين ميں كسى طرح كا جبر نہيں ہے _ہدايت گمراہى سے الگ اور واضح ہو چكى ہے _ اب جو شخص بھى طاغوت كا انكار كركے الله پر ايمان لے آئے وہ اس كى مضبوط رسى سے متمسك ہوگيا ہے جس كے ٹوٹنے كا امكان نہيں ہے او رخدا سميع بھى ہے اور عليم بھى ہے _

١_ دين قبول كرنے كے سلسلے ميں كوئي جبر نہيں ہے_لا اكراه فى الدين

۲۴۸

٢_ عقيدے اور ہدف ميں جبر ممكن نہيں ہے_لا اكراه فى الدين

دين و عقيدہ ميں جبر كى بصورت مطلق نفى كا مطلب يہ ہے كہ تمام اعتقادى مسائل كہ جن كا تعلق انسان كے قلب و فكر كے ساتھ ہے قابل جبر و اكراہ نہيں ہيں _

٣_ غير مسلموں كو اسلام قبول كرنے پہ مجبور نہيں كرنا چاہيئے_لا اكراه فى الدين اس بناپر كہ ''لا اكراہ''مقام تشريع ميں ہويعنى نظريات و عقائد اور دين كے اوامر و نواہى كا غير مسلموں پر زبردستى مسلط كرنا جائز نہيں ہے_

٤_ ايمان يا كفر كو قبول كرنے كے سلسلے ميں انسان آزاد اور خودمختار ہے_لا اكراه فى الدين قد تبين الرشد من الغي

٥_ رشد و ہدايت اور كفر و ضلالت كى راہيں واضح اور روشن ہيں _قد تبين الرشد من الغي

٦_ خدا تعالى نے حق و باطل كى راہيں واضح كركے انسان پر حجت تمام كردى ہے_قدتبين الرشدمن الغى فمن يكفر بالطاغوت

٧_ اسلام دليل و منطق كا دين ہے نہ اجبار و اكراہ كا_لا اكراه فى الدين قد تبين الرشد من الغي

٨_ دين اسلام ا نسان كى رشد و ہدايت كى راہ و روش ہے_لا اكراه فى الدين قد تبين الرشد من الغي

٩_ خدا تعالى پر ايمان اور طاغوت كا انكار سيدھا ، محكم اور قابل اطمينان راستہ ہے_فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن بالله فقد استمسك بالعروة الوثقي

١٠_ طاغوت كا مسلسل انكار اور خدا پر دائمى ايمان خدا كى مضبوط رسى كو تھامنا ہے_فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن بالله فقد استمسك بالعروة الوثقي

١١_ طاغوت كا انكار ( سب اغيار كى نفى اور حق تعالى كے علاوہ سب كا انكار) ايمان كے وجود ميں آنے كى شرط ہے_

فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن بالله كيونكہ طاغوت كے انكار كو ايمان سے پہلے ذكر كيا گياہے_

١٢_ اسلام راہ ہدايت كو واضح كركے انسان كو انتخاب كے دوراہے پر لاكھڑا كرتاہے_

لا اكراه فى الدين قد تبين الرشد من الغى فمن يكفر بالطاغوت

۲۴۹

١٣_ خداوند عالم پر ايمان لانا اور طاغوت كا انكار كرنا ہى رشد و ہدايت ہے_

قد تبين الرشد من الغى فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن بالله

١٤_قلبى تصديق كے علاوہ خدا وندمتعال پر ايمان اور طاغوت كے كفر كا زبانى اعلان بھى ضرورى ہے_

فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن بالله والله سميع عليم

''سميع عليم''كا ذكر كرنا اس چيز كو واضح كرتاہے كہ خداوندمتعال پر ايمان اور طاغوت كا انكار زبان و قلب دونوں كے ساتھ ہے_

١٥_ خدا پر ايمان لانے كا مطلب ہے اسكى وحدانيت، قيوميت ، حيات ، مالكيت اور علم مطلق كا زبانى اقرار اور قلبى تصديق_الله لا اله الا هو الحى القيوم يؤمن بالله و الله سميع عليم

١٦_ خدا تعالى سميع ( سننے والا) اور عليم (جاننے والا)ہے_والله سميع عليم

١٧_ خدا تعالى كى طرف سے اپنے مومنين اور طاغوت كا انكار كرنے والوں كى حوصلہ افزائي_

فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن بالله والله سميع عليم

١٨_ كفار كے نظريات و اعمال كى بنياديں كھوكھلى اور متزلزل ہيں _فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن بالله فقد استمسك بالعروة الوثقي چونكہ خدا پر ايمان لانے كو مضبوط رسى كے ساتھ تمسك اور وابستگى كہا گيا ہے قرينہ مقابلہ سے انكار طاغوت كے ذكر كرنے كا مطلب يہ ہے كہ كفار كا اپنے اعتقادات و نظريات اور اپنے رہبروں كے ساتھ تعلق كمزور اور ناپختہ ہوتاہے_

١٩_ كفر اور طاغوتى رہنماؤں كے ساتھ تعلق كمزور اور متزلزل ہوتاہے_فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن بالله فقد استمسك بالعروة الوثقي لاانفصام لها

٢٠_ شيطان،طاغوت كے مصاديق ميں سے ہے_فمن يكفر بالطاغوت امام صادق(ع) ''فمن يكفر بالطاغوت ''كے بارے ميں فرماتے ہيں انہ الشيطان '' يہ شيطان ہے ...''(١)

٢١_ مضبوط ايمان كے دو پہلوہيں خدا كے ساتھ قلبى تعلق اور طاغوت كا انكار (اغيار كى نفي)_

____________________

١) مجمع البيان ج٢ ص٦٣١ ، نورالثقلين ج ١ ص ٢٦٣ ح ١٠٥١_

۲۵۰

فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن بالله فقد استمسك بالعروة الوثقي امام صادق (ع) ''فقد استمسك ''كے متعلق فرماتے ہيں :ہى الايمان بالله وحدہ لا شريك لہ يہ خدا پر ايمان لاناہے جو يكتاہے اور اس كا كوئي شريك نہيں ہے (١)

اتمام حجت ٦ اسلام: اسلام كا قبول كرنا ٣;اسلام كى خصوصيات ٧،٨،١٢

اسماء اور صفات : سميع ١٦ ، عليم ١٦ ، قيوم ١٥

انسان: انسان كى آزادى ١ ، ٣ ، ٤ ، ١٢

ايمان: ايمان خدا پر ٩،١٠،١٣،١٤ ،٢١;ايمان كا متعلق ١٥; ايمان كے اركان ١٥;ايمان كے پہلو ٢١;ايمان ميں اقرار ١٤ ،١٥

تولّا اور تبرا: ١٠ ،١١ ، ١٣ ، ١٤ ، ٢١

حديث: ٢٠ ، ٢١

خدا كى رسي: ١٠

خدا تعالى : خدا تعالى كا علم ١٥;خدا تعالى كى حيات ١٥;خدا تعالى كى قيوميت ١٥;خدا تعالى كى مالكيت ١٥;خدا تعالى كى وحدانيت ١٥

دين : دين اور عقل ٧;دين كا قبول كرنا ٣ ، ٤; دين ميں اختيار ١،٢

رشد و ہدايت: رشد و ہدايت كا راستہ ٥; رشد و ہدايت كے عوامل ٨،١٠ شيطان ٢٠

طاغوت: طاغوت كا انكار ٩، ١٠ ، ١١ ، ١٣ ١٤ ، ١٧ ، ٢١; شيطان كے مصاديق ٢٠

ظالم حكام :١٩

عقيدہ: عقيدہ كى آزادى ١ ، ٢ ، ٣،٤ كفار :١٨،١٩

كفر : كفر كا كھوكھلاپن ١٨،١٩;كفر كے ساتھ تعلق ١٩

گمراہى :٥ مومنين ١٧

____________________

١) كافى ج ٢ ص ١٤ ح ١ ، نورالثقلين ج ١ ص ٢٦٣ ح ١٠٥٢ ، ١٠٥٣_

۲۵۱

اللّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوُرِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَوْلِيَآؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (٢٥٧)

الله صاحبان ايمان كا ولى ہے وہ انھيں تاريكيوں سے نكال كرروشنى ميں لے آتا ہے اور كفار كے ولى طاغوت ہيں جو انھيں روشنى سے نكال كراندھيروں ميں لے جاتے ہيں _ يہى لوگ جہنمى ہيں اور وہاں ہميشہ رہنے والے ہيں _

١_ خداوند عالم كى خاص ولايت ان مؤمنين كے شامل حال ہے جو طاغوت كا انكار كريں _فمن يكفربالطاغوت ...الله ولى الذين آمنوا

٢_ خدا پر ايمان لانا اور طاغوت كا انكار كرنا خدا تعالى كى دوستى اور نصرت و سرپرستى كے حصول كا سبب بنتاہے_

فمن يكفر بالطاغوت الله ولى الذين آمنوا ''ولى ''كے كئي معانى ذكر كئے گئے ہيں ان ميں سے اس آيت كے ساتھ جو معانى مناسبت ركھتے ہيں وہ سرپرست، مددگار اور دوست ہيں _

٣_ خدا تعالى اہل ايمان كو تاريكيوں سے نور كى طرف ہدايت فرماتاہے_الله ولى الذين آمنوا يخرجهم من الظلمات الى النور

٤_ مومنين كو تاريكيوں سے نور كى طرف ہدايت كرنا ، ان پر خدا كى ولايت كا پرتو ہے_الله ولى الذين آمنوا يخرجهم من الظلمات الى النور مومنين پر خد ا تعالى كى ولايت كو بيان كرنے كے بعد '' يخرجہم ...'' كا جملہ گويا اس ولايت الہى كا ايك نمونہ ذكر كررہاہے_

٥_راہ حق ايك ہے اور باطل كے راستے متعدد اور

۲۵۲

متفرق ہيں _من الظلمات الى النور كلمہ ''نور'' كا مفرد ہونا نور حق كى وحدت كى دليل ہے اور اسكے مقابلے ميں كلمہ ''ظلمات'' كا جمع ہونا ظلمت و باطل كے تعدد و تشتت كى علامت ہے_

٦_خدا پر ايمان لانا انسان كے نور تك پہنچنے كا ذريعہ ہے_الله ولى الذين آمنوا يخرجهم من الظلمات الى النور

٧_ انسان ہميشہ نور و ظلمت كے دورا ہے پر ہے_يخرجهم من الظلمات الى النور يخرجونهم من النور الى الظلمات

٨_ مؤمنوں كا ايك ہى ولى و سرپرست ( خدا تعالى) ہے اور كافروں كے زيادہ ہيں _الله ولى الذين آمنوا والذين كفروا اولياء هم الطاغوت

٩_ كفر ، طاغوت كى سرپرستى و حكمرانى اور نور سے ظلمت كى طرف انحراف كا موجب بنتاہے_والذين كفروا اوليائهم الطاغوت يخرجونهم من النور الى الظلمات

١٠_ انسان كو ہميشہ رہبرى اور سرپرستى كى ضرورت ہے_الله ولى الذين آمنوا والذين كفروا اولياء هم الطاغوت

انسان مومن ہويا كافر اسكا كوئي نہ كوئي سرپرست ہوتاہے اس كا مطلب يہ ہے كہ انسان كو ہميشہ رہبريت اور سرپرستى كى ضرورت ہے_

١١_ طاغوت كى حكمرانى معاشرہ كو تاريكيوں اور تباہى و بربادى كى طرف منحرف كرديتى ہے_اولياء هم الطاغوت يخرجونهم من النور الى الظلمات

١٢_خدا كى ولايت و سرپرستى كو قبول نہ كرنے كا نتيجہ انسان كے انحراف اور طاغوت كى سرپرستى قبول كرنے كى صورت ميں نكلتاہے_الله ولى الذين آمنوا والذين كفروا اولياء هم الطاغوت

١٣_ خدا كى ولايت كے علاوہ ہر قسم كى ولايت و سرپرستي، طاغوت ہے_الله ولى الذين آمنوا ...والذين كفروا اولياء هم الطاغوت يہ نكتہ دو باتوں پر مبنى ہے ايك يہ كہ كوئي بھى انسان ولايت و سرپرستى كے دائرے سے باہر

۲۵۳

نہيں ہے كيونكہ يا وہ مومن ہے ، يا كافر دوم يہ كہ ولايت يا خدا تعالى كى ہے اور يا طاغوت كى تيسرى صورت نہيں ہے پس خدا كى ولايت سے خارج ہونے كا مطلب ہوگا طاغوت كى ولايت ميں داخل ہونا_

١٤_ اہل ايمان كى صفوں ميں اتحاد ہے كيونكہ ان كا ولى ايك ہے اور اہل كفر كى صفوں ميں انتشار و افتراق ہے كيونكہ ان كے طاغوتى اوليا ء زيادہ ہيں _الله ولى الذين آمنوا و الذين كفروا اولياء هم الطاغوت

چونكہ مومنوں كا ايك ولى ہے اسلئے وہ وحدت تك پہنچيں گے اور كافروں كے متعدد اولياء ہيں اسلئے وہ انتشار و افتراق كا شكار ہوجائيں گے_

١٥_ كفار ہميشہ آتش جہنم ميں رہيں گے_اولئك اصحاب النار هم فيها خالدون

١٦_ اہل كفر كے انجام اور عذاب كى طرف متوجہ رہنے سے انسان كفر كى طرف انحراف اور طاغوت كى حكمرانى كو قبول كرنے سے محفوظ رہ وسكتاہے _اولئك اصحاب النارهم فيها خالدون

اتحاد: اتحاد كے عوامل ١٤

اختلاف : اختلاف كے عوامل ١٤

انسان : انسان كى آزادى ٧;انسان كى نيازمندى ١٠

ايمان: ايمان كا متعلق ٢ ، ٦;ايمان كے اثرات ٢ ،٣ ، ٦، ١٤; خدا پر ايمان ٢ ، ٦

باطل : باطل ميں اختلاف و انتشار ٥ ، ١٤

تقرب: تقرب كے عوامل ١ ، ٢; تولّا اور تبرا: ١ ، ٢

جہنمى لوگ: ان كا ہميشہ رہنا ١٥

حق : حق كى وحدت ٥

حكومت: حكومت كى ضرورت ١٠

۲۵۴

خداوند متعال : خداوند متعال كى ولايت ١ ، ٢ ، ٤ ، ٨، ١٢ ، ١٣ ، ١٤;خدا وند متعال كى ہدايت ٣ ، ٤

دورانديشي: اسكے اثرات ١٦

رہبري: رہبرى كى اہميت ١٠

طاغوت : طاغوت كا انكار ١،٢; طاغوت كى حكمرانى ٩،١١ ،١٤، ١٦;طاغوت كى حكمرانى كے اثرات ١١ طاغوت كى سرپرستى ١٢، ١٣

عذاب: اہل عذاب ١٥ كفار: ٨ ، ١٤ ، ١٥

كفر: كفر كى سزا ١٥ ، ١٦;كفر كے اثرات ٩،١٤

گمراہى : گمراہى كا پيش خيمہ ٩;گمراہى كے عوامل ١٢

معاشرہ : معاشرہ كے انحراف كے عوامل ١١

مومنين : ٤ ، ٨، ١٤

نور و ظلمت : ٣ ، ٤ ،٦ ، ٧،٩،١١

ہدايت: ہدايت كا سرچشمہ ٦،١٦

۲۵۵

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَآجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رِبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (٢٥٨)

كيا تم نے اس كے حال پر نظر نہيں كى جس نے ابراہيم سے پروردگار كے بارے ميں بحث كى صرف اس بات پر كہ خدا نے اسے ملك دے ديا تھا جب ابراہيم نے يہ كہا كہ ميرا خدا جلاتا بھى ہے اور مارتا بھى ہے تو اس نے كہا كہ يہ كام ميں بھى كرسكتا ہوں تو ابراہيم نے كہا كہ ميرا خدا مشرق سے آفتاب نكالتا ہے تو مغرب سے نكال دے تو كافر حيران رہ گيا اور الله ظالم قوم كى ہدايت نہيں كرتا ہے_

١_ نمرود ( شاہ بابل) كا حضرت ابراہيم (ع) كے ساتھ خداوند عالم كى ربوبيت كے بارے ميں مناظرہ_

الم تر الى الذى حاجّ ابراهيم فى ربه ان آتاه الله الملك ''حاجّ''كا مصدر '' محاجّة ''ہے اس كا معنى ہے مقابل كى دليل و حجت كے مقابلے ميں دليل و حجت قائم كرنا اور يہ مخاصمہ و مجادلہ كے معنى سے خالى نہيں ہے_ تاريخ و روايات بتاتى ہيں كہ حضرت ابراہيم (ع) كا ہم عصر بادشاہ نمرود (شاہ بابل) تھا_

٢_ نمرود كى بادشاہى اور قدرت و طاقت خدا كى عطا كردہ تھي_ان آتاه الله الملك

٣_ سركشوں اور اہل طاغوت كى حكمرانى اور تسلط خداوند عالم كے عطا كردہ ہيں _ان آتاه الله الملك

۲۵۶

٤_ خدا تعالى كى طرف سے نمرود اور حضرت ابراہيم (ع) كے مباحثے اور مناظرے ميں غور كرنے كى دعوت_

الم تر الى الذى حاج ابراهيم

٥ _ خدا وند متعال كى نعمتوں سے بہرہ مند ہونے كے باوجود اسكى وحدانيت و ربوبيت كے بارے ميں مناظرہ و مجادلہ اور پھر اس كا انكار تعجب آور اور عقل سليم كے خلاف ہے _الم تر الى الذى حاج ابراهيم فى ربه ان اتاه الله الملك

'' الم تر ...''كے استفہام سے مقصود ان كے اس مناظرے اور انكار پر تعجب كا اظہار كرناہے _

٦_ نمرود كى قدرت و طاقت ، اس كے غرور و تكبر اور كفر و سركشى كا پيش خيمہ_الم تر الى ان اتاه الله الملك اس بناپر كہ '' ان اتاہ ...'' كا جملہ محاجّہ كى علت كا بيان ہو يعنى چونكہ اسے مملكت و سلطنت مل گئي اسلئے ايسے كا م كرنے لگا _

٧_ قدرتمندي، خدا كى ربوبيت كے مقابلے ميں كفر و سركشى كا پيش خيمہ ہے_الم تر الى الذى ان اتاه الله الملك

اگرجملہ'' ان آتاہ ...'' نمرود كے كفر و سركشى كى علت كا بيان ہو تو اسى سے يہ كلى نتيجہ ليا جاسكتاہے كہ قدرت و سلطنت،غرور ، كفر و كاپيش خيمہ ہے_

٨_ نمرود، راہ ہدايت سے منحرف ہونے والوں ، ولايت الہى سے محروم ہونے والوں ، نور سے ظلمت كى طرف جانے والوں اور آتش جہنم ميں ہميشہ رہنے والوں كا ايك نمونہ_قد تبين الرشد الله ولى الذين الم تر الى الذى حاج ابراهيم

خدا تعالى نے ايمان و كفر (گذشتہ آيات ميں ولايت الہى اور ولايت طاغوت) كو بيان كرنے كے بعد اس كا عملى نمونہ دكھانے كيلئے ابراہيم (ع) و نمرود كى داستان ذكر كى ہے كہ جس ميں حضرت ابراہيم (ع) ايمان كا نمونہ ہيں اور نمرود كفر كا_

٩_ حضرت ابراہيم (ع) ہدايت يافتہ، ولايت الہى سے بہرہ مند اور نور كے دائرے ميں آنے والوں كا ايك نمونہ_

قد تبين الرشد الله ولى الذين آمنوا الم تر الى الذى حاج ابراهيم

١٠_ حضرت ابراہيم (ع) كا خدا تعالى كے اماتہ( مارنا) اور

۲۵۷

احيا ( زندہ كرنا ) كے ذريعے اسكى ربوبيت اور وحدانيت پراستدلال _اذ قال ابراهيم ربى الذى يحيى و يميت

١١_ موت و حيات كا قانون ، خدا تعالى كى ربوبيت كا پرتو اور اس كى نشانى ہے_ربى الذى يحيى و يميت

١٢_ موت و حيات صرف پروردگار كے اختيار ميں ہے_ربى الذى يحيى و يميت

١٣_ نمرود كا يہ گمراہ كن دعوي كہ موت و حيات اس كے اختيار ميں ہے_قال انا احيى و اميت

چونكہ حضرت ابراہيم (ع) نے نمرود كے اس دعوى ''انا احيي ...'' كے مقابلے ميں ايك دوسرى دليل پيش كى (فان اللہ ...) تو اس سے پتہ چلتاہے كہ نمرود نے اپنا يہ دعوي مغالطے اور مكر كے ذريعے اپنے ان ہم نشينوں كو باور كراديا تھا كہ جنہيں موت و حيات كى حقيقت كى كچھ خبر نہ تھي_(چنانچہ روايات ميں ہے كہ اس نے ايك شخص كو قتل كرنے اور سزائے موت كے قيدى كو آزاد كرنے كا حكم ديا )

١٤_سورج كا ہميشہ مشرق سے طلوع كرنا خدا تعالى كى ربوبيت كى نشانى اور اسكى قدرت كا مظہر ہے_حاج ابراهيم فى ربه فان الله ياتى بالشمس من المشرق

١٥_ كائنات كے سب امور خدا وند عالم كى تدبير سے چلتے ہيں _آتاه الله الملك يحيى و يميت فان الله ياتى بالشمس من المشرق

١٦_ نظام ہستى پر حكمرانى اور كائنات كى تدبير اللہ تعالى كى الوہيت كى شان ہے _فان الله ياتى بالشمس من المشرق

١٧_ حضرت ابراہيم (ع) كے واضح دلائل كے بعد نمرود كيلئے خدا تعالى كى توحيد ربوبى ثابت ہوگئي تھي_اذ قال ابراهيم ربى فبهت الذى كفر

١٨_ نظام ہستى ميں قدرت و طاقت اور تصرف، ربوبيت كا لازمہ ہے_حاج ابراهيم فى ربه ...فأت بها من المغرب

كيونكہ حضرت ابراہيم (ع) نے خدا تعالى كے مقام ربوبيت كو ثابت كرنے كيلئے اسكى قدرت اور تصرف سے استدلال كيا ہے_

١٩_ حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے نمرود سے اپنى ربوبيت كے دعوي كو ثابت كرنے كيلئے نظام

۲۵۸

كائنات ميں تبديلى (سورج كو مغرب سے نكالنا) كا مطالبہ _فا ت بها من المغرب

٢٠_اپنى ربوبيت كو ثابت كرنے ميں نمرود كى ناكامى اور ناتوانى _انا احيى و اميت فبهت الذى كفر

٢١_ كافر اور ستمگر لوگ غير خدا كى ربوبيت كو ثابت كرنے سے عاجز ہيں _فبهت الذى كفر والله لا يهدى القوم الظالمين نمرود كى صفت '' الذى كفر'' اسكے مبہوت ہونے كى علت كى طرف اشارہ ہے يعنى نہ صرف نمرود خدا تعالى كى ربوبيت كا انكار كرنے سے عاجز رہا بلكہ كوئي بھى كافر حضرت ابراہيم (ع) اور قرآن كے ساتھ تمسك كرنے والوں كى برہان كے سامنے نہيں ٹھہرسكتا_

٢٢_ نمرود كا حضرت ابراہيم (ع) كے مقابلے ميں كفرو عناد ، دھوكہ بازى اور مغالطے سے كام لينا_ربى الذى يحيى و يميت قال انا احيى و اميت حضرت ابراہيم (ع) نے احيا اور اماتہ سے انكے حقيقى معانى مراد لئے تھے جبكہ نمرود نے مجازى معنى مراد لئے_

٢٣_ جن لوگوں كو خدا كى زيادہ نعمتيں حاصل ہيں ان پر اسكى ربوبيت كو درك كرنے اور قبول كرنے كا زيادہ حق بنتاہے_الم تر ان اتاه الله الملك كہا گيا ہے كہ سياق آيت كو مدنظر ركھتے ہوئے جملہ ''ان آتاہ اللہ ...'' كا معنى يہ ہے كہ نمرود كو ملك و سلطنت جو خدا كى عطا كردہ نعمت تھي، كا مالك ہونے كى بناپر خدا كى ربوبيت كا دوسروں كى نسبت بہتر يقين كرنا چاہيئے تھا كيونكہ ملك و سلطنت بھى خدا تعالى كى ربوبيت و الوہيت كا ايك پرتو ہے_

٢٤_ ظلم كرنے والے، خدا وند متعال كى ہدايت سے محروم ہيں _والله لا يهدى القوم الظالمين

٢٥_ حضرت ابراہيم (ع) كا ہم عصر بادشاہ (نمرود) ايك ظالم اور كافر حكمران_فبهت الذى كفر والله لا يهدى القوم الظالمين

٢٦_ كفر ، جو ہٹ دھرمى اور حق كے مقابلے ميں قيام كے ہمراہ ہو ، ظلم ہے_فبهت الذى كفروالله لايهدى القوم الظالمين

٢٧_ كفر و ظلم حق كو قبول كرنے اور اسكے روشن دلائل

۲۵۹

كے سامنے سر تسليم خم كرنے ميں ركاوٹ ہے_فبهت الذى كفر والله لا يهدى القوم الظالمين

٢٨_ انسان كا روشن دلائل كو قبول كرنا اور ہدايت پاجانا خدا تعالى كے ارادے پر موقوف ہے_فبهت الذى كفر والله لا يهدى القوم الظالمين

آيات الہى ١١ ، ١٤

استدلال : ناپسنديدہ استدلال ٥

انسان: انسان كامل ٩

ايمان: ايمان كا پيش خيمہ ٢٣

تكبر: تكبر كا پيش خيمہ ٦،٧

تفكر : تفكر كى اہميت ٤

توحيد: توحيد افعالى ٢،٣،١٢;توحيد كے دلائل١٠

جہنم: جہنم ميں ہميشہ رہنا ٨

حضرت ابراہيم (ع) : حضرت ابراہيم (ع) كا استدلال ١،٤، ١٠، ١٧، ١٩; حضرت ابراہيم (ع) كو نمونہ عمل قرار دينا ٩;حضرت ابراہيم (ع) كى دعوت ١٠،١٧

حق : حق كا قبول كرنا ٢٣،٢٨;حق كو قبول كرنے كے موانع ٢٧; حق كے ساتھ دشمنى ٢٦

حيات : حيات كا سرچشمہ ١٢ ، ١٣;حيات كى اہميت ١١

خدا تعالى : خدا تعالى كا ارادہ ٢٨;خدا تعالى كى تدبير ١٥ ، ١٦;خدا تعالى كى حكمرانى ١٦;خدا تعالى كى دعوت ٤; خدا تعالى كى ربوبيت ١، ٥، ٧،١٠، ١١،١٤، ١٧،٢٣;خدا تعالى كى نعمتيں ٢٣; خدا تعالى كى ولايت ٨،٩;خدا تعالى كى ہدايت ٢٤،٢٨; خدا تعالى كے عطيئے ٢،٣ ،٥ ;خدا تعالى كے مختصات ١٦

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749