تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173443 / ڈاؤنلوڈ: 6335
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

خلقت: تدبير خلقت ١٥ ، ١٦، ١٨;نظام خلقت ١٨

سركشى : سركشى كا پيش خيمہ ٦ سورج ١٤ طاغوت: طاغوت كى حكمرانى ٣

ظالم حكمران: ٢،٣ ، ٢٥

ظالم لوگ: ٢١ ، ٢٤

ظلم : ظلم كے آثار ٢٧;ظلم كے موارد ٢٦

عذاب: اہل عذاب ٨

عقل: عقل سليم ٥

غرور: غرور كا پيش خيمہ ٦ ،٧

قدرت طلبى : اسكے آثار ٦،٧

قضا و قدر: ٢٨

كفار: ٢١، ٢٥

كفر: كفر كا پيش خيمہ ٦،٧; كفر كے اثرات ٢٦،٢٧

گمراہ لوگ :٨

مردوں كو زندہ كرنا: ١٠

مغالطہ: ١٣ ، ٢٢

موت : موت كا سرچشمہ ١١،١٢،١٣

نمرود: نمرود كا استدلال ١،٤; نمرود كا ظلم ٢٥;نمرود كا غرور ٦،٧;نمرود كا كفر ٦،٧،٢٥; نمرود كى دھوكہ دہى اور مغالطہ١٣ ، ٢٢; نمرود كى سركشى ٦; نمرود كى سلطنت ١ ، ٢، ٢٥ ; نمرود كى طاقت و قدرت ٦،٧ ; نمرود كى گمراہى ٨

۲۶۱

أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ ماِئَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (٢٥٩)

يا اس بندے كى مثال جس كا گذر ايك قريہ سے ہوا جس كے سارے عرش و فرش گر چكے تھے تو اس بندہ نے كہا كہ خدا ان سب كو موت كے بعد كس طرح زندہ كرے گا تو خدا نے اس بندہ كو سو سال كے لئے موت ديدى اور پھر زندہ كيا او رپوچھا كہ كتنى دير پڑے رہے تو اس نے كہا كہ ايك دن يا كچھ كم _ فرمايا نہيں _سو سال _ ذرا اپنے كھانے اور پينے كو تو ديكھو كہ خراب تك نہيں ہوا اور اپنے گدھے پر نگاہ كرو ( كہ سڑگل گيا ہے ) اور ہم اسى طرح تمھيں لوگوں كے لئے ايك نشانى بنانا چاہتے ہيں _ پھر ان ہڈيوں كو ديكھو كہ ہم كس طرح جوڑ كر ان پر گوشت چڑھا تے ہيں _ پھر جب ان پر يہ بات واضح ہوگئي تو بيساختہ آوازدى كہ مجھے معلوم ہے كہ خدا ہر شے پرقادر ہے _

١_ خدا تعالى مومنين كو قيامت كے بارے ميں شبہات كى تاريكى سے علم و يقين كى روشنى كى طرف ہدايت فرماتاہے_

۲۶۲

الله ولى الذين آمنوا يخرجهم من الظلمات الى النور او كالذى مر فلما تبين له

اس آيت ميں ولايت الہى كا ايك نمونہ اور اس كا نتيجہ ذكر كيا گيا ہے يعنى مومنين كو ظلمت اور تاريكى سے نكال كر انہيں نور اور روشنى كى طرف ہدايت كرنا _

٢_ ايك شخص (حضرت عزير(ع) ) كا دوران سفر ايك ايسى ويران بستى سے گزرنا جسكى چھتيں اور ديواريں منہدم ہوچكى تھيں اور پھر مردوں كو ديكھ كر خدا تعالى سے سوال كرنا كہ انہيں كيسے زندہ كرے گا_

او كالذى مر على قرية و هى خاوية على عروشها بہت سارے مفسرين كے نزديك يہ داستان حضرت عزير (ع) پيغمبر كى ہے اور بعض كے نزديك جناب ارميا (ع) كى داستان ہے_قابل ذكر ہے كہ ''خاوية علي عروشہا''كا معنى بعض نے ''اجڑى ہوئي ''اور بعض نے ''تباہ و برباد اور كھنڈر بنا ہوا''كياہے_

٣_ مردوں كے زندہ ہونے كى كيفيت كى پيچيدگي_قال انى يحيى هذه الله بعد موتها

''اني''''كيف اور اين ''كے معنى پر مشتمل ہے يعنى كيسے اور كہاں ليكن چونكہ اس كے جواب ميں صرف مردوں كے زندہ ہونے كى كيفيت بيان كى گئي ہے اسلئے كہا جاسكتاہے كہ اس آيت ميں ''اني'' صرف ''كيف''كے معنى ميں استعمال كيا گيا ہے _

٤_ حضرت عزير (ع) قيامت كے دن خود مردوں كے زندہ ہونے سے آگاہ تھے اور ان كا سوال صرف زندہ ہونے كى كيفيت كے بارے ميں تھا_قال انى يحيى هذه الله بعد موتها '' انى يحيي''جو كہ استفہام ہے دلالت كررہاہے كہ حضرت عزير(ع) كو خود زندہ كرنے كا يقين تھا اور سوال صرف اسكى كيفيت كے بارے ميں تھا_

٥_ خدا تعالى نے مردوں كے زندہ كرنے كى كيفيت كے بارے ميں سوال كا جواب دينے كيلئے حضرت عزير(ع) كو موت دى اور پھر سو سال كے بعد انہيں زندہ كرديا_قال انى فاماته الله مائة عام ثم بعثه

٦_ دنيا ميں مردوں كا زندہ ہونا ممكن ہے_فاماته الله مائة عام ثم بعثه

٧_ موجودات كو خدا ئے ذوالجلال ہى موت ديتاہے اور وہى زندہ كرتاہے_

انى يحيى هذه الله بعد موتها فاماته الله مائة عام ثم بعثه

۲۶۳

٨_ اثبات حق اور ہدايت الہى كا ايك طريقہ يہ ہے كہ خدا تعالى اپنى جانب سے عملى نمونے پيش فرمائے_

انى يحيى فاماته الله مائة عام ثم بعثه

٩_ حضرت عزير (ع) اور خدا تعالى كے درميان گفتگو_قال كم لبثت قال لبثت يوما او بعض يوم

١٠_حضرت عزير(ع) كا اپنى طويل ( صد سالہ) موت كے بارے ميں يہ خيال تھا كہ يہ ايك دن يا اس سے بھى كم وقت كا توقف تھا_قال كم لبثت قال لبثت يوما او بعض يوم

١١_ مردہ انسان زمانے كے گزرنے كو درك نہيں كرسكتا_قال لبثت يوما اوبعض يوم

١٢_ دنيا ميں اور موت كے بعد انسان كا زمانے كے بارے ميں ادراك مختلف نوعيت كا ہے_

فاماته الله مائة عام قال لبثت يوما او بعض يوم

١٣_ حس، علم و شناخت كا ايك ذريعہ ہے_فانظر الى طعامك و انظر الى حمارك و انظر الى العظام

١٤_ سوسال گزرنے كے باوجود حضرت عزير (ع) كى خورد و نوش كى چيزوں ميں كوئي تبديلى نہ آئي _

فانظر الى طعامك و شرابك لم يتسنه

١٥_ حضرت عزير (ع) كا مرنا اور پھر سوسال كے بعد زندہ ہونا سب لوگوں كيلئے روز قيامت مردوں كے زندہ ہونے كى علامت اور نشانى ہے_قال انى يحيى هذه الله و لنجعلك آية للناس

١٦_ اشياء خورد و نوش كا خراب نہ ہونا جبكہ خراب كرنے والے طبعى عوامل موجود ہوں ، خداوند متعال كى طرف سے موجودات كى طويل زندگى كے امكان كى دليل ہے_فانظر الى طعامك و شرابك لم يتسنه

١٧_حضرت عزير (ع) كے گدھے كى ہڈيوں كے مجتمع ہونے اور ان پر گوشت آجانے كے بعد گدھے كا زندہ ہوجانا ، مردوں كے زندہ ہونے كے امكان اور اسكى كيفيت كے بارے ميں حضرت عزير(ع) كے سوال كا جواب_

وانظر الى العظام كيف ننشزها ثم نكسوها لحما ''انظر الى حمارك''كو مدنظر ركھتے ہوئے ''العظام''سے مراد گدھے كى ہڈياں ہيں كيونكہ گدھے كى طرف صرف نظر كرنا مردوں كے زندہ كرنے كى علامت نہيں ہے_

۲۶۴

١٨_ معاد جسمانى ہے_قال انى يحيى هذه الله بعد موتها ثم نكسوها لحما

١٩_ زندہ ہونے كے بعد حضرت عزير(ع) كى شكل و صورت وہى تھى جو مرنے سے پہلے تھي_و لنجعلك آيةً للناس

اگرحضرت عزير(ع) كى شكل و صورت تبديل ہوچكى ہوتى تو لوگوں كيلئے نشانى نہيں بن سكتے تھے كيونكہ لوگ انہيں پہچان نہ سكتے_

٢٠_ اپنے اور اپنے گدھے كے زندہ ہونے اور اپنى اشيائ خورد و نوش كے خراب نہ ہونے كا مشاہدہ كرلينے كے بعد حضرت عزير (ع) نے معاد كى كيفيت اور مردوں كو زندہ كرنے پر خدا تعالى كى قدرت كو درك كرليا_

قال انى يحيي قال اعلم ان الله على كل شيء قدير

٢١_ مردوں كے زندہ ہونے كا نظارہ كرنا خدا تعالى كى قدرت مطلقہ كى شناخت كا موجب ہے_فلما تبين له قال اعلم ان الله على كل شى قدير

٢٢_ حضرت عزير(ع) كى موت اور پھر سال كے بعد زندہ ہونا، انكى اشياء خورد و نوش كا خراب نہ ہونا اورانكے گدھے كا دوبارہ زندہ ہونا خدا تعالى كى قدرت مطلقہ كا پرتو ہے_فلما تبين له قال اعلم ان الله على كل شيء قدير

٢٣_ زندگى اور موت صرف خدا تعالى كے قبضہ قدرت ميں ہے_فاماته الله مائة عام ثم بعثه قال اعلم ان الله على كل شى قدير

٢٤_ خدا تعالى كى تعليم اور اسكى ہدايت كے سائے ميں انبيا (ع) كے علم و آگاہى كاترقى كرنا _فلما تبين له قال اعلم ان الله على كل شى قدير البتہ يہ مطلب اس وقت ہے جب ''كالذى مر ...''سے مراد پيغمبر ہو_

٢٥_ خدا تعالى كا قادر مطلق ہونا _ان الله على كل شى قدير

٢٦_ حضرت عزير (ع) خدا كے پيغمبر _*قال كم لبثت قال لبثت يوما او بعض يوم

البتہ يہ مطلب اس وقت ہے جب ہم مان ليں كہ خدا تعالى كا كسى انسان كے ساتھ ہم كلام ہونا اسكى نبوت كى دليل ہے_

۲۶۵

٢٧_ حضرت عزير(ع) كے پاس كھانے كيلئے ا نجير اور پينے كيلئے پھلوں كا رس تھا_فانظر الى طعامك و شرابك

امير المومنين(ع) حضرت عزير (ع) كى تاريخ پر روشنى ڈالتے ہوئے فرماتے ہيں :و معه شنّة فيها تين و كوز فيه عصير عزير (ع) كے پاس ايك پرانا مشكيزہ تھا جس ميں كچھ انجير تھے اور ايك كوزہ تھا جس ميں پھلوں كا رس تھا(١)

آيات الہي: ١٥،١٦،٢١،٢٢ ادراك ١١ ،١٢

اسماء و صفات : قدير ٢٥

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا علم ٢٤ انجير ٢٧ پھلوں كا رس ٢٧

تذكرہ : تاريخى واقعات كا تذكرہ ٢

تربيت : تربيت كا عملى نمونہ٨

توحيد : توحيد افعالى ٧،٢٢

حضرت عزير(ع) : حضرت عزير (ع) كا سفر ٢; حضرت عزير(ع) كا سوال ٢ ، ٤ ، ٥ ، ١٧; حضرت عزير (ع) كا علم ٤ ، ١٠ ، ٢٠;حضرت عزير (ع) كا گدھا ١٧ ، ٢٠ ، ٢٢;حضرت عزير(ع) كو زندہ كرنا ٥ ، ٢٢; حضرت عزير(ع) كى موت ٥ ، ١٠ ، ١٥ ، ٢٢; حضرت عزير (ع) كى نبوت ٢٦; حضرت عزير (ع) كے ساتھ خدا تعالى كا تكلم ٩

حس: اسكے فائدے ١٣

خدا تعالى: خدا تعالى كا تعليم دينا ٢٤;خدا تعالى كا تكلم كرنا ٩; خدا تعالى كى قدرت ٥،٢٠ ،٢١،٢٢،٣ ٢، ٢٥; خدا تعالى كى ہدايت ١ ، ٨ ،٢٤; خدا تعالى كے مختصات ٢٣

رجعت: ٥ ، ٦ ، ١٥ ، ١٩ ، ٢٠ ، ٢٢

روايت :٢٧ زمانہ : ١١،١٢

زندگى : زندگى كا سرچشمہ ٧،٢٣;طولانى زندگى ١٦ سوال و جواب ٢،٤،٥،١٧

شناخت : شناخت حسى ٢٠ ، ٢١;شناخت كے ذرائع ١٣ ، ٢١ گدھا ١٧ ، ٢٠

____________________

١) تفسير عياشى ج ١ ص ١٤١ ح ٤٦٨ ، نورالثقلين ج١ص ٦٧ ح ١٠٧٨_

۲۶۶

مردوں كو زندہ كرنا: ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٥ ، ٦ ، ٧ ، ١٥ ، ١٧ ، ٢٠ ، ٢١ ، ٢٢

معاد: معاد جسمانى ٢ ، ٣، ٤،٥،١٥،١٧ ،١٨ ، ٢٠; معاد كا اثبات ١٥ ، ١٧ ، ٢١;معاد كے بارے ميں شبہات ١

موت : موت كا سرچشمہ ٧;موت كے آثار ١٢

مومنين: مومنين كى ہدايت ١

ہدايت : ہدايت كا پيش خيمہ ٨;ہدايت كے عوامل ١ ، ٨

يقين: يقين كے عوامل ١

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (٢٦٠)

اور اس موقع كو ياد كرو جب ابراہيم نے التجاكى پروردگار مجھے يہ دكھا دے كہ تو مردوں كو كس طرح زندہ كرتا ہے _ ارشاد ہوا كيا تمھارا ايمان نہيں ہے _ عرض كى ايمان تو ہے ليكن اطمينان چاہتاہوں _ ارشاد ہوا كہ چار طائر پكڑلو اور انھيں اپنے سے مانوس بناؤ پھر ٹكڑے ٹكڑے كر كے ہر پہاڑ پرايك حصہ ركھ دو اور پھر آواز دو سب دوڑتے ہوئے آجائيں گے اور ياد ركھو كہ خدا صاحب عزت بھى ہے اورصاحب حكمت بھى _

١_ خدا تعالى نے مردوں كو زندہ كرنے كى كيفيت دكھا كر ابراہيم (ع) كو نور كى طرف ہدايت كى _

الله ولى الذين آمنوا يخرجهم من الظلمات الى النور و اذ قال ابراهيم رب

اس آيت ميں حضرت ابراہيم (ع) كا واقعہ خدا تعالى كى ولايت اور اسكے ثمرات كا ايك اور نمونہ ہے يعنى يہ واقعہ، ولايت كو قبول كرنے والے مومنين كو ظلمت و تاريكى سے نكال كر انہيں نور كى طرف ہدايت كرنے كا ايك نمونہ ہے_

٢_ حضرت ابراہيم (ع) كے قصّے اور پرندوں كے زندہ ہونے كى ياد دہانى ، مردوں كو زندہ كرنے پر خدا تعالى كى قدرت كے بارے ميں اطمينان كا

۲۶۷

باعث ہے_و اذ قال ابراهيم رب ارنى كيف تحيى الموتي

٣_ اطمينان قلبى كى خاطر حضرت ابراہيم (ع) كا خدا تعالى سے سوال كرنا كہ مجھے دكھا تو كيسے مردوں كو زندہ كرتاہے؟

و اذ قال ابراهيم رب ارنى كيف تحيى الموتي ليطمئن قلبي

٤_ مردوں كو زندہ كرنا خدا تعالى كى ربوبيت كى شان ہے_رب ارنى كيف تحيى الموتي

٥_ خدا تعالى مردوں كو زندگى عطا كرنے والا ہے_كيف تحيى الموتي

٦_ حضرت ابراہيم (ع) معاد اور مردوں كو زندہ كرنے پر ايمان ركھتے تھے_قال او لم تؤمن قال بلي

٧_ حقائق و معارف دينى تك پہنچنے كيلئے تحقيق و جستجو كى قدر و قيمت _قال ابراهيم رب ارنى كيف تحيى الموتي

٨_ حضرت ابراہيم (ع) كے علم و معرفت كى ايمان سے اطمينان قلبى كى طرف سير صعودى _قال او لم تؤمن قال بلي و لكن ليطمئن قلبي

٩_ حسى مشاہدات شناخت كا ايك ذريعہ ہے_رب ارنى كيف تحيى الموتي

١٠_ اطمينان قلبى اور روح كا سكون، ايمان اور دينى اعتقادات كى ترقى كا ايك اعلي مرتبہ ہے_او لم تؤمن قال بلي و لكن ليطمئن قلبي

١١_ دل ، ايمان اور روحانى سكون كا مركز_ليطمئن قلبي

١٢_ يہ جاننا كہ خدا تعالى كيسے مردوں كو زندہ كرتاہے اصل معاد پر ايمان لانے كى شرط نہيں ہے_رب ارنى كيف تحيى الموتي قال او لم تؤمن قال بلي

١٣_ حضرت ابراہيم (ع) اور خدا تعالى كى گفتگو_و اذ قال ابراهيم قال او لم تؤمن قال بلي قال فخذ اربعة من الطير

١٤_ مردوں كو زندہ كرنے كى كيفيت دكھانے كيلئے خدا تعالى نے حضرت ابراہيم (ع) كو حكم ديا كہ چار پرندوں كو پكڑ كر انہيں ذبح كريں پھر ان كے گوشت كو ٹكڑے ٹكڑے كركے آپس ميں ملاديں

۲۶۸

پھر يہ ٹكڑے پہاڑ وں پر بكھير ديں اس كے بعد انہيں اپنى طرف بلائيں تا كہ وہ زندہ ہوكر تيز رفتارى كے ساتھ انكى طرف آئيں _قال فخذ ثم ادعهن ياتينك سعيا جزء كو مفرد لانا (منہن جزء اً) اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ پرندوں كے گوشت كو آپس ميں ٹكرے ٹكرے كركے بالكل مخلوط كرديا گيا تھاورنہ يوں كہا جاتا (منہن اجزاء)نہ كہ جزء اً_

١٥_ خدا تعالى كا حضرت ابراہيم (ع) كو حكم دينا كہ جن پرندوں كو ذبح كرنے پر مامور كيا گيا ہے انہيں اپنے ساتھ مانوس كريں *_فصرهن اليك كلمہ ''فصرہن'' كا ''الي'' كى طرف متعدى ہونا علامت ہے كہ يہ كلمہ ''املہن''كے معنى پر مشتمل ہے يعنى انہيں اپنى طرف مائل كر كہ جس كا لازمہ پرندوں كا حضرت ابراہيم (ع) كے ساتھ مانوس ہوناہے_اسى بناپر جملہ ''ثم اجعل على كل جبل منہن جزء ا ''سے پرندوں كا ذبح كرنا اور پھر انكے گوشت كو ملادينا سمجھ ميں آتاہے_

١٦_ حضرت ابراہيم (ع) كے بلانے كے بعد پرندوں كا آپ (ص) كى طرف پلٹ كرآنا_ثم ادعهن ياتينك سعيا

١٧_ روز قيامت انسانوں كا اسى دنياوى جسم كے ساتھ محشورہونا _كيف تحيى الموتى ثم ادعهن ياتينك سعيا

١٨_ خدا تعالى نے اپنے بعض خاص بندوں كوولايت تكوينى عطا كر ركھى ہے_و اذ قال ابراهيم ياتينك سعيا

١٩_ دنيا ميں مردوں كا زندہ ہونا ممكن ہے_فخذ اربعة من الطير ثم ادعهن ياتينك سعيا

٢٠_ خدا تعالى روز قيامت مردوں كے بكھرے ہوئے اجزا كو جمع كركے انہيں زندہ كرے گا_

فخذ اربعة من الطير ثم ادعهن ياتينك سعيا

٢١_ خدا كى جانب سے عملى نمونوں كا پيش كيا جانا، اثبات حق اور ہدايت الہى كا ايك طريقہ ہے_فخذ اربعة من الطير ياتينك سعيا

٢٢_ خدا تعالى عزيز( غالب و كامياب) اور حكيم ہے_ان الله عزيز حكيم

٢٣_ مردوں كے پراگندہ اجزا كو جمع كركے انہيں زندہ كرنا حكمت خداوندى كى بنياد پر ہے_ثم اجعل ...ثم ادعهن ...ان الله عزيز حكيم

٢٤_ عالم موت و حيات پر خدا تعالى كى حاكميت اور تسلط اور اس كا مردوں كے اجزا كى تركيب اور انہيں زندہ كرنے كى كيفيت كے بارے ميں آگاہ ہونا_واعلم ان الله عزيز حكيم

۲۶۹

٢٥_ خدا تعالى كى حكمت اور عزت و غلبے كى طرف متوجہ ہونا، مردوں كے زندہ ہونے كى كيفيت كى شناخت كا پيش خيمہ ہے_و اعلم ان الله عزيز حكيم

٢٦_ خدا تعالى كے اسماء و صفات كى طرف توجہ اور ان كے بارے ميں آگاہى كا لازمى ہونا _و اعلم ان الله عزيز حكيم

٢٧ _ حضرت ابراہيم (ع) نے جن چار پرندوں كا انتخاب كيا وہ مور ، مرغ ، كبوتر اور كوا تھے_فخذ اربعة من الطير

امام صادق (ع) فرماتے ہيںفاخذ ابراهيم(ع) الطاووس و الديك والحمام و الغراب پس حضرت ابراہيم (ع) نے مور، مرغ ، كبوتر اور كوے كا انتخاب كيا ...(١)

٢٨_ حضرت ابراہيم (ع) كا مردوں كو زندہ كرنے كے بارے ميں خدا تعالى سے سوال كرنا اپنے خليل اللہ ہونے كے بارے ميں دلى اطمينان حاصل كرنے كيلئے تھا_قال رب ارنى ليطمئن قلبي

''ليطمئن قلبي''كے بارے ميں امام رضا (ع) فرماتے ہيںولكن ليطمئن قلبى على الخلّة تا كہ اپنے خليل اللہ ہونے كے بارے ميں ميرا دل مطمئن ہوجائے(٢)

٢٩_ حضرت ابراہيم (ع) نے پرندوں كے اجزا كو دس پہاڑوں پر بكھيرا _ثم اجعل على كل جبل منهن جزء ا

امام صادق (ع) فرماتے ہيں :و كانت الجبال عشرة يہ دس پہاڑ تھے (٣)

اسما ء و صفات :٢٦ حكيم ٢٢، عزيز ٢٢

اطمينان: اطمينان قلب ١١;اطمينان كى اہميت ١٠;اطمينان كے عوامل ٢ ، ٣ ، ٢٨

____________________

١) تفسيرقمى ص٩١،نورالثقلين ج١ص٢٨٠ح٨ ١٠٩_

٢) عيون اخبار رضا (ع) ج١ ص ١٩٨ح ١، نورالثقلين ج١ ص ٢٧٦ ح ١٠٨٨_

٣) كافى ج٨ ص ٣٠٥ ح ٤٧٣ ، نورالثقلين ج ١ ص ٢٨٠ ح ١٠٩٧ و ١٠٩٨_

۲۷۰

ايمان: ايمان كا پيش خيمہ ٢٥; ايمان كى شرائط ١٢; ايمان كے مراتب ٨،١٠;معاد پر ايمان ٧ ، ١٢

پرندے: پرندوں كو ذبح كرنا ١٥ ، ١٦;پرندوں كو زندہ كرنا ١٦،٢٣

تاريخ : تاريخ كے فوائد ٢;تاريخى واقعات كا تذكرہ ٢

تحقيق: تحقيق كى اہميت ٧ تربيت : تربيت كا نمونہ ٢١;تربيت كى روش ٢١

توحيد : توحيد افعالى ٢٤

حضرت ابراہيم (ع) : حضر ت ابراہيم (ع) اور پرندے ١٦ ، ٢٧ ، ٢٩; حضرت ابراہيم (ع) خليل ٢٨; حضرت ابراہيم (ع) كا سوال ٣ ، ٢٨;حضرت ابراہيم (ع) كو حكم ١٤ ، ١٥ ; حضرت ابراہيم (ع) كى خدا كے ساتھ گفتگو ١٣;حضرت ابراہيم (ع) كى رشدو ترقى ٨

حيات: حيات كا سرچشمہ ٢٤

خدا تعالى : خدا تعالى كا علم ٢٤;خدا تعالى كا قہر و غلبہ ٢٥;خدا تعالى كى حاكميت ٢٤:خدا تعالى كى حكمت ٢٣ ، ٢٥;خدا تعالى كى ربوبيت ٤;خدا تعالى كى قدرت ٢; خدا تعالى كى ہدايت ١ ، ٢١;خدا تعالى كے افعال ٤ ،٥ ، ٢٠;خدا تعالى كے اوامر ١٤ ، ١٥;خدا تعالى كے عطيئے ١٨

رجعت:١٩ رشد و ترقي: اسكے مراحل ،١٠

روايت:٢٧ ، ٢٨ ، ٢٩

شناخت: شناخت حسى ٣ ، ٩ ، ٢٨;شناخت كے ذرائع ٩،١٤

كبوتر :٢٧ كوا :٢٧

مردے: مردوں كو زندہ كرنا ١ ، ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٥ ، ٦،١٢،١٤، ١٦ ، ١٩ ، ٢٠ ، ٢٣ ، ٢٤ ، ٢٥ ، ٢٨

مرغ: ٢٧

معاد: معاد جسمانى ١٧ ، ٢٠

معرفت شناسي: ٩

۲۷۱

موت: موت كا سرچشمہ ٢٤

مور:٢٧

نظريہ كائنات : نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ٢٥

ولايت: ولايت تكوينى ١٨

ہدايت: ہدايت كا پيش خيمہ ٢١;ہدايت كے عوامل،١

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (٢٦١)

جولوگ راہ خداميں اپنے اموال خرچ كرتے ہيں ان كے عمل كى مثال اس دانہ كى ہے جس سے سات بالياں پيداہوں اور پھر ہر بالى ميں سو سو دا نے ہوں اورخدا جس كے لئے چاہتا ہے اضافہ بھى كرديتا ہے كہ وہ صاحب وسعت بھى ہے اور عليم و دانا بھى _

١_ راہ خدا ميں خرچ كيا جانے والا مال اس بيج كى مانند ہے جس سے سات خوشے آگيں اور ہر خوشے ميں سو دانے ہوں _مثل الذين ينفقون مائة حبة چونكہ تشبيہ دانے كے ساتھ دى گئي ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ جسے تشبيہ دى گئي ہے وہ مال

ہے جسے راہ خدا ميں خرچ كيا جائے نہ خود خرچ كرنے والا جيسا كہ تشبيہ سے ظاہر ہورہاہے_

٢_ خرچ كرنے كى قدر و قيمت ، اس كے راہ خدا ميں ہونے كى وجہ سے ہے_ينفقون اموالهم فى سبيل الله

۲۷۲

٣_ راہ خدا ميں اموال خرچ كرنے والے كا معنوى تكامل اور وجود ميں رشد و ترقي*مثل الذين مائة حبة

يہ تشبيہ كے ظاہر كو ديكھتے ہوئے ہے كہ جس ميں خرچ كرنے والے شخص (الذين ينفقون) كو تشبيہ دى گئي ہے يعنى جو لوگ خرچ كرتے ہيں وہ اس دانے كى مانند ہيں كہ

٤_ انسان كى شخصيت كا رشدو تكامل اسكے ايك نظريئےے تحت كئے گئے عمل ميں مضمر ہے*مثل الذين ينفقون اموالهم فى سبيل الله مائة حبة خرچ كرنے والے شخص كى دانے كے ساتھ تشبيہ كا مطلب يہ بنتاہے كہ انسان كى شخصيت اسكے راہ خدا ميں عمل كرنے اور خرچ كرنے سے تشكيل پاتى ہے_

٥_ دينى نظام تعليم ميں اخلاق و اقتصاد كى ہمراہي_مثل الذين ينفقون اموالهم فى سبيل الله

''انفاق ''كے ساتھ '' فى سبيل اللہ '' كى قيد لگانا يعنى انفاق جس طرح اقتصادى پہلو ركھتا ہے اسى طرح اخلاقى پہلو بھى ركھتاہے_

٦_ راہ خدا ميں خرچ كرنے كا بدل كم از كم سات سوگناہے_مثل الذين ينفقون مائة حبة

٧_ حقائق ، اقدار اور جزاؤں كو بيان كرنے كيلئے تمثيل سے كام ليناقرآن كريم كى ايك روش ہے_مثل الذين ينفقون

٨_خدا تعالى اپنى مشيت كے مطابق جس كيلئے چاہتاہے انفاق كے بدلے سات سوگنا كو كئي برابر كرديتاہے_

والله يضاعف لمن يشاء

٩_ خرچ كرنے والے كو خدا تعالى كى طرف سے يہ اجر كثير ملنا اسكے تسلسل كے ساتھ خرچ كرنے پر موقوف ہے_

مثل الذين ينفقون اموالهم ''ينفقون''فعل مضارع ہے جو استمرار اور تسلسل پر دلالت كرتاہے يعنى آيت ميں مذكور جزا اور بدلہ اس صورت ميں ملے گا كہ انسان تسلسل اور استمرار كے ساتھ خرچ كرے نہ ايك دو دفعہ_

١٠_ خداوند متعال واسع و عليم ہے_والله واسع عليم

١١_ انفاق كرنے والے كيلئے خدا كا وسيع (غير محدود) اجر*

۲۷۳

مثل الذين ينفقون والله واسع عليم

١٢_ انفاق كرنے والوں كيلئے خدا كى كئي گنا پاداش كا سرچشمہ اسكى وسيع رحمت ہے_والله يضاعف لمن يشاء والله واسع عليم

١٣_ خدا تعالى اپنى راہ ميں خرچ كرنے والوں اور كئي گنا پاداش كے مستحقين كو پہچانتاہے_والله يضاعف لمن يشاء والله واسع عليم

١٤_ خدا تعالى كى وسيع و عريض پاداش اور اسكے لامتناہى علم كو مدنظر ركھنا انفاق اور نيك كاموں كے بجالانے كا پيش خيمہ ہے_مثل الذين ينفقون والله واسع عليم

مذكورہ بالا نكتے ميں كلمہ ''واسع''،''واسعٌ فضلہ''كے معنى ميں ليا گياہے_

اخلاقى نظام :٥

اسما ء و صفات: عليم ١٠ ; واسع ١٠ ،١٢

اقتصادى نظام :٥

انفاق: انفاق راہ خدا ميں ٣ ، ٦;انفاق كا پيش خيمہ ١٤; انفاق كى پاداش ١ ، ٦ ، ٨،٩،١١، ١٢،١٣;انفاق كى فضيلت ٢;انفاق كے آداب ٩; انفاق كے آثار ١، ٣

تبليغ: تبليغ كى روش ٧

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ١٣ ، ١٤ ;خدا تعالى كا فضل ١٤;خدا تعالى كى پاداش ٦ ، ٨ ، ٩،١١;خدا تعالى كى مشيت ٨

دينى نظام تعليم:٥

رشد و تكامل : اسكے عوامل ٣ ، ٤

شخصيت : شخصيت كى تشكيل كے عوامل ٤

شرعى فريضہ : شرعى فريضہ پر عمل كرنے كا پيش خيمہ ١٤

علم : علم و عمل ١٤

عمل : عمل كى پاداش ١٣

عملى روش : اسكى بنياد ٤

۲۷۴

قدر و قيمت : قدر و قيمت كا معيار ٢

قرآن كريم : قرآن كريم كى تشبيہات ١;قرآن كريم كي مثاليں ٧

نيت : نيت كے آثار ٤

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ثُمَّ لاَ يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُواُ مَنًّا وَلاَ أَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (٢٦٢)

جو لوگ راہ خدا ميں اپنے اموال خرچ كرتے ہيں اور اس كے بعد احسان نہيں جتا تے اور اذيت بھى نہيں ديتے ان كے لئے پروردگار كے يہاں اجر بھى ہے او رنہ كوئي خوف ہے نہ حزن_

١_ انفاق كى قدر و قيمت، اسكے راہ خدا ميں ہونے كى وجہ سے ہے_الذين ينفقون اموالهم فى سبيل الله

٢_ انفاق كرتے وقت اور اسكے بعد اس كا ہر قسم كے احسان اور اذيت سے خالى ہونا اسكى قبوليت، قدر و قيمت اور پاداش كى ايك شرط ہے_الذين ينفقون ثم لا يتبعون ما انفقوا مناً و لااذي

٣_ اسلام نے حاجتمندوں اور ضرورتمندوں كى شخصيت كے تحفظ كا خيال ركھاہے_الذين ينفقون لا يتبعون ما انفقوا منا و لا اذي

٤_ دينى نظام تعليم ميں اخلاق و اقتصاد كى ہم آہنگي_لا يتبعون ما انفقوا منا و لا اذي

٥_ كسى احسان و اذيت كے بغير انفاق كرنے والوں كا خدا تعالى كے ہاں خاص اور عظيم پاداش سے بہرہ مند ہونا_

لهم اجرهم عند ربهم

۲۷۵

كلمہ''عند ربہم'' اجر و جزا كے خاص ہونے پر دلالت كرتاہے_

٦_ راہ خدا ميں انفاق كرنے پر خدا كى پاداش كو مدنظر ركھنا انسان كو انفاق كى ترغيب دلاتاہے_لهم اجرهم عند ربهم

٧_ عمل كے وقت اور اس كے بعد احسان جتلانا اور اذيت پہنچانا نيك اعمال كو اكارت كرديتاہے_ثم لا يتبعون ما انفقوا منا و لا اذي فعل مضارع''لايتبعون'' دلالت كرتاہے كہ انفاق ( يا ہر عمل خير) كے بعد كسى وقت بھى احسان جتانا يا اذيت پہنچانا نہيں ہونا چاہيئے، كيونكہ فعل مضارع استمرار پر دلالت كرتاہے_

٨_راہ خدا ميں انفاق كرنے والے نہ تو مستقبل سے خوفزدہ ہوتے ہيں كہ تہى دست ہوجائيں گے اور نہ ماضى ميں خرچ كئے ہوئے پر غم كھاتے ہيں _و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون اگر خوف اور حزن دنياوى ہوں _

٩_ دلى اطمينان و سكون خدا كى راہ ميں خرچ كرنے سے حاصل ہوتاہے_الذين ينفقون و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون

١٠_ راہ خدا ميں انفاق كرنے والوں كو روز قيامت كوئي حزن و ملال اور خوف و ڈر نہيں ہوگا_و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون اگر خوف و حزن اخروى ہوں _

١١_ انسان كے رفتار و كردار ميں حسن فعلى اور حسن فاعلى كا باہم ہوناضرورى ہے_الذين ينفقون ثم لا يتبعون ما انفقوا منا و لا اذي خدا كا اجر حسن فعلى (انفاق) اور حسن فاعلى (انفاق كرنے والے كى طرف سے احسان اور اذيت پہنچانے كے فعل كا نہ ہونا) پر موقوف ہے_لہذا اس اجر و جزاتك پہنچنے كيلئے دونوں كى ہمراہى ضرورى ہے_

اخلاقى نظام: ٦ ، ٧

اذيت: اذيت سے اجتناب ٢ ، ٥;اذيت كے اثرات ٧

اسلام : اسلام كى خصوصيت ٣

اطمينان : اطمينان كے عوامل ٩

۲۷۶

اقتصاد: اقتصاد و اخلاق ٤

اقتصادى نظام: ٤

انفاق: انفاق راہ خدا ميں ١ ، ٨ ، ٩،١٠; انفاق كى بنياد ٦; انفاق كى پاداش ٢ ، ٥ ، ٦;انفاق كى فضيلت ١ ، ٢ ; انفاق كے آداب ١ ، ٢، ٣ ، ٥;انفاق كے اثرات ٩;انفاق كے انفرادى اثرات ٨ ، ١٠

تربيت : تربيت كى روش ٦

تحريك: تحريك كے عوامل ٦

خدا تعالى: خدا تعالى كا اجر ٥ ، ٦

خوف : خوف كا مقابلہ ٨

رشد و ترقى : رشد و ترقى كے عوامل ٩

علم: علم و عمل ٦

عمل: عمل صالح اور اطمينان ٩; عمل صالح كا پيش خيمہ ٦;عمل كے صحيح ہونے كى شرائط ٢ ، ٥ ، ٧ ، ١١

فقير: فقير كى شخصيت ٣

قدر و قيمت : قدر و قيمت كا معيار ١ ، ٢ ،٧

معاشرتى نظام:٣

۲۷۷

قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَآ أَذًى وَاللّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ (٢٦٣)

نيك كلام او رمغفرت اس صدقہ سے بہتر ہے جس كے پيچھے دل دكھانے كا سلسلہ بھى ہو _ خدا سب سے بے نياز اور بڑا بردبار ہے _

١_ اچھى بات اور عفو و درگذر اس عطيے يا ہديے سے بہتر ہے جسكے پيچھے اذيت ہو _قول معروف ومغفرة خيرمن صدقة يتبعها اذي

٢_ نيازمندوں كے ساتھ رفتار و گفتار ميں حسن سلوك كى ضرورت _قول معروف و مغفرة خير

٣_نيازمندوں كى ضرورت كى پردہ پوشى ضرورى اور ان كى خطا سے عفو و درگذر لازمى ہے _قول معروف و مغفرة خير

كلمہ'' مغفرة'' كا اصلى معنى چھپانا ہے اور يہاں مورد كى مناسبت سے اس كا معنى عفو و درگزر اور نيازمندوں كى نيازمندى كو چھپاناہے_

٤_ احكام الہى كے بعض موضوعات كى تشخيص كا معيار عرف عام ہے_قول معروف

يعنى ايسى بات جسے ديندار معاشرہ پسند كرے _

٥_ معاشرہ ميں لوگوں كے ساتھ اچھى گفتگو كرنا اور ان كے رازوں پر پردہ ڈالنا قدر و قيمت ركھتاہے_قول معروف و مغفرة خير

٦_ انسان كى شخصيت كى حفاظت كرنا اسكى اقتصادى ضروريات كو پورا كرنے سے بہتر ہے_قول معروف و مغفرة خير من صدقة

٧_ انسان كى شخصيت كى حفاظت اور نگہدارى اسلام كى بنيادى قدروں ميں سے ہے_قول معروف ومغفرةخيرمن صدقة يتبعها اذي اس بات كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ ضرورتمندوں كے ساتھ حسن سلوك اور انكے اسرار كى پردہ پوشى ضرورى ہے_

۲۷۸

٨_ خدا تعالى غنى ( بے نياز) اور حليم ( بردبار) ہے_والله غنى حليم

٩_ خدا تعالى لوگوں كے انفاق سے بے نياز ہے اور ان لوگوں كو سزا دينے ميں بردبار ہے جوانفاق كے ساتھ اذيت پہنچاتےہيں _قول والله غنى حكيم

١٠_ انفاق كے بعدحاجتمندوں كى حاجت كو آشكار كركے يا برى بات كے ذريعے انہيں اذيت نہيں پہنچانا چاہيئے_

قول معروف و مغفرة خير من صدقة يتبها اذي

١١_ انفاق كا فائدہ اور اسكے قيمتى اثرات خو د انفاق كرنے والے كيلئے ہيں نہ خدا تعالى كيلئے_والله غنى حليم

مسئلہ انفاق كو ذكر كرنے كے بعد '' غني''كى صفت كا استعمال، انفاق سے خدا وندمتعال كے بہرہ مند ہونے كے تصور كى نفى ہے_

١٢_ خدا وند عالم كى بے نيازى حاجتمندوں كى ضرورت پورى كرنے كيلئے كافى ہے اور ايسےانفاق كى كوئي ضرورت نہيں جو اذيت و تكليف كے ہمراہ ہو_والله غنى حليم '' غني''كى صفت اس بات كى غماز ہے كہ اس انفاق كى كوئي ضرورت نہيں ہے جس كے ہمراہ محروموں كو اذيت پہنچائي جائے بلكہ خدا تعالى خود ہى اپنى تونگرى اور غنا كے ساتھ انہيں روزى عطا فرمادے گا_

١٣_ نيازمندوں كے ناروا سلوك كى صورت ميں ان كے مقابلے ميں انفاق كرنے والے اغنياء كى بردبارى ضرورى ہے_*قول معروف و مغفرة والله غنى حليم حليم كى صفت كا استعمال ظاہراً انفاق كرنے والوں كو نصيحت كرنے كيلئے ہے كہ انہيں خدا تعالى كى طرح بردبار ہونا چاہيئے اور نيازمندوں كى خطا پر غضبناك نہيں ہونا چاہيئے_

اخلاقى نظام ٥

اذيت: اذيت پہنچانے كى مذمت ١ ، ١٠ ، ١٢;اذيت كى سزا ٩

اسما ء و صفات: حليم ٨ ;صفات جمال ٩ ; غنى ٨ ، ١٢

انفاق: انفاق كى جزا ١١;; انفاق كى فضيلت ١;انفاق كے آداب ٩ ، ١٠ ، ١٢ ، ١٣;انفاق كے اثرات ١١;انفاق ميں بردبارى ١٣

۲۷۹

خدا تعالى : خدا تعالى كى بے نيازى ٩ ، ١٢

رازدارى : راز دارى كى اہميت ٣ ، ٥

شخصيت : شخصيت كى قدر و قيمت ٥ ، ٦ ، ٧

عرف : عرف كى اہميت ٤

عفو: عفو كى اہميت ٣;عفو كى فضيلت ١

فقير: فقير كى نيازمندى ٣ ، ١٠ ، ١٢;فقير كے ساتھ رہن سہن ٢;فقير كے ساتھ سلوك ١٣

قدر و قيمت : قدر و قيمت كا معيار ٦

گفتگو: گفتگو كى قدر و قيمت ٥

معاشرت : معاشرت كے آداب ١ ، ٢ ، ٥ ،٧

معاشرتى نظام :٥ موضوع شناسى ٤

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

حریم الہی پر تجاوز کیا ہے اور لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دی ہے _ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ غیر اسلامی تحریکیں قابل قبول نہیں ہیں _ لیکن اگر کوئی تحریک دین حاکمیت اور قرآن کے قوانین سے دفاع کے عنوان سے وجود میں آتی ہے تو وہ قابل قبول ہے _ کیونکہ یہاں پرچم دین کے مقابلہ میں علم بلند نہیں کیا گیا ہے چنانچہ ایسی تحریک کا قائد بھی طاغوت نہیں ہے بلکہ وہ طاغوت کا مخالف ہے _ ایسا قائد ورہبر لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت نہیں دیتا ہے بلکہ رب العالمین کی عبادت کی دعوت دیتا ہے _ ایسا پرچم قائم آل محمد کےعلم کے مقابلہ میں بلند ہیں کیا جاتا ہے بلکہ امام زمانہ کی عالمی حکومت کیلئے زمین ہموار کرے گا _ کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ظہور امام زمانہ سے قبل ہر بلند کئے جانے والے پرچم کا حامل شیطان ہے ؟ کیا معاویہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف علی (ع) نے قیام نہیں کیا تھا؟ کیا امام حسن (ع) نے معاویہ سے اعلان جنگ نہیں کیا تھا ؟ کیا امام حسین (ع) نے اسلام سے دفاع کی خاطر یزید (لعن) سے جنگ نہیں کی تھی ؟ کیا زید بن علی (ع) بن حسین نے قرآن سے دفاع کیلئے ظلم و ستم کے خلاف انقلاب برپا نہیں کیا تھا؟

خلاصہ

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اس حصہ کی اکثر احادیث ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں ان سے تمسک نہیں کیا جا سکتا _ مذکورہ احادیث کا لب لباب یہ ہے _

۱_ جو شخص بھی قیام کرے اور تم سے مدد طلب کرے تو تم سوچے سمجھے بغیر اس کی آواز پر لبیک نہ کہو بلکہ آواز دینے والے اور اس کے مقصد کی تحقیق کرو _ اگر اس نے مہدی موعود کے عنوان سے قیام کیا ہے یا اس کا مقصد باطل ہے تو اس کی آواز

۳۸۱

پر لبیک نہ کہو _ کیونکہ امام زمانہ کے ظہور اور قیام کا وقت نہیں آیا ہے _

۲_ یہ احادیث ان شیعوں کو جو کہ ائمہ سے قیام کرنے کااصرار کرتے تھے ، اس خارجی حقیقت کی خبر دیتی ہے کہ قائم آل محمد کے قیام سے قبل ہم ائمہ میں سے جو بھی قیام کرے گا اس کا قیام ناکام ہوگا اور شہید کردیا جائے گا _ کیونکہ حضرت مہدی کے عالمی انقلاب کے مقدمات فراہم نہیں ہوئے ہیں _

۳_ حضرت مہدی کے ظہور کے مخصوص علامات ہیں چنانچہ ان علائم کے ظاہر ہونے سے قبل جو شخص بھی مہدی موعود کے عنوان سے قیام کرے اس کی دعوت قبول نہ کرو _

۴_ کسی بھی حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے اسباب و مقدمات کی فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے مقدمات و اسباب کی فراہمی سے قبل تحریک و انقلاب میں عجلت سے کام نہ لو ورنہ ناکام ہوگا _

۵_ قائم آل محمد کے قیام سے قبل حاکمیت خدا کے مقابلہ میں جو پرچم بلند ہوگا اس کا حاکم شیطان ہے کہ جس نے عظمت خدا کو چینج کیا ہے لہذا اس کی آواز پر لبیک نہین کہنا چاہئے _

مذکورہ احادیث صرف ان انقلابات کی تردید کرتی ہیں کہ جن کا رہبر مہدویت کا مدعی ہو اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرے یا باطل اس کا مقصدہو یا ضروری اسباب کے فراہم ہونے سے قبل قیام کرے _ لیکن اگر انقلاب کا رہبر مہدویت کے عنوان سے قیام نہ کرے ، اور حاکمیت خدا کے مقابلہ میں حکومت کی تشکیل کیلئے انقلاب برپا نہ کرے بلکہ اس کا مقصد اسلام و قرآ ن سے دفاع، ظلم و استکبار سے جنگ ، حکومت الہی کی تشکیل اور آسمانی قوانین کا نفاذ ہو اور اس کے اسباب فراہم کر لیئےوں اور ان تمام چیزوں کے بعد وہ لوگوں سے مدد طلب کرلے تو مذکورہ روایات ایسے انقلاب و قیام

۳۸۲

کی مخالفت نہیں کرتی ہیں _ ایسی تحریک کا پرچم شیطان کا پرچم نہیں ہے بلکہ یہ علم طاغوت کے خلاف ہے _ ایسی حکومت کی تشکیل خدا کی حکومت کے مقابلہ میں نہیں ہے بلکہ یہ تو حاکمیت خدا اور امام مہدی کی عالمی حکومت کیلئے زمین ساز ہے _ اس بناپر مذکورہ احادیث ایسے انقلاب و تحریک کی مخالفت نہیں کرتی ہیں _

نتیجہ بحث

چونکہ ہماری بحث بہت طویل ہوگئی ہے اس لئے دو حصوں کے خلاصہ کو بھی اشارتاً بیان کرنا ضروری ہے _ اس کے بعد نتیجہ بیان کریں گے _ پہلے حصہ میں درج ذیل مطالب کا اثبات ہوا ہے :

۱_ قوانین اور سیاسی و اجتماعی منصوبے اسلام کے بہت بڑے حصہ کو تشکیل دیتے ہیں جیسے ، جہاد ، دفاع ، ظلم و بیدادگری سے جنگ ، عدل و انصاف کی ترویج ،جزاء و سزا کے قوانین ، شہری حقوق ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور مسلمانوں کے آپسی و کفار سے روابط و غیرہ _

۲_ اسلام کے احکام و قوانین نفاذ و اجراء کیلئے آئے نہ کہ پڑھنے اور لکھنے کے لئے _

۳_ اسلام کے قوانین کامکمل اجراء حکومت کی تاسیس اور اداری تشکیلات کا محتاج ہے مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ ایسے افراد کا وجود ضروری ہے کہ جو آسمانی قوانین کے اجراء کی ذمہ داری قبول کریں اور اس طرح مسلمانوں کے معاشر ہ کو چلائیں _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں شامل ہے اور اس کے بغیر کامل طور پر اسلام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

۴_ مسلمانوں کے امور کی زمام اور قوانین اسلام کے اجراء کی ذمہ داری عملی طور پر

۳۸۳

پیغمبر اسلام کے دست مبارک میں تھی _

۵_ اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین کا مکمل اجراء رسول خدا کے زمانہ ہی میں واجب نہیں تھا بلکہ تا قیامت واجب رہے گا _

۶_ جب پیغمبر اکرم بقید حیات ہوں یا مسلمانوں کی معصوم امام تک رسائی ہو تو اس زمانہ میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ حکومت کی تاسیس اور پیغمبر یا امام کی طاقت کے استحکام کی کوشش کریں اور اس کے فرمان کی اطاعت کی اطاعت کریں _ اوراگر مسلمانوں کے درمیان میں ایسا کوئی معصوم نہ ہو تو بھی مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ پرہیزگار فقیہ کو اپنا مدار الہام بنائیں اور اس کی ولایت و حکومت کے استحکام کی کوشش کریں اور اس کے فرمان کی اطاعت کریں _ یعنی ایسی

حکومت تشکیل دیں جو اسلام کے پروگراموں کو نافذ کرسکے اور اسلامی حکومت کے یہی معنی ہیں _

اس بحث کے دوسرے حصہ میں آپ نے مخالف احادیث اور ان کے مفہوم کو ملاحظہ فرمایا ہے _

اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ مذکورہ احادیث اپنی سند و دلالت کے باوجود مسلمانوں سے ایسی قطعی و حتمی فریضہ ، یعنی قوانین اسلام کے نفاذ ، کو ساقط کرسکتی ہیں؟

کیا ان احادیث کو ان آیات و روایات کے مقابل میں لایاجا سکتاہے جو کہ جہاد دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، ظلم و ستم سے جنگ اور مستضعفین سے دفاع کو واجب قرار دیتی ہیں ؟ کیا غیبت امام زمانہ میں اس فرضہ کو مسلمانوں سے ساقط کیاجا سکتا ہے ؟ کیا ایسی احادیث کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شارع اسلا م نے اس زمانہ میں اپنے سیاسی و اجتماعی احکام سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور ان کے اجراء کو امام مہدی کے زمانہ پر موقوف

۳۸۴

کردیا ہے ؟ کیا ایسی احادیث کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام سے دفاع کرنا واجب نہیں ہے حتی اس کی اساس ہی کیوں نہ خطرہ میں ہو ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں پر خاموش رہنا واجب ہے خواہ کفار و مشرکین ان کی تمام چیزوں پر قابض ہوجائیں ، ان کے جان و مال اور ناموس پر مسلط ہوجائیں ، انھیں ظہور امام تک صبر کرنا چاہئے ؟ کیا مذکورہ احادیث اس سند و مفہوم کے باوجود درج ذیل آیات کے مقابل میں آسکتی ہیں؟

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم ( توبہ/ ۱۲)

کفر کے سر غناؤ سے جنگ کرو کہ ان کی کسی قسم کا اعتبا رنہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة (توبہ / ۳۶)

اور مشرکین سے تم سب ہی جنگ کرو جیسا کہ وہ تم سے جنگ کرتے ہیں _

و قاتلوهم حتی لا تکون فتنة و یکون الدین کله لله ( انفال/ ۲۹)

اور ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا ہی باقی رہے

و ما لکم لا تقاتلون فی سبیل الله والمستضعین ( نسائ/ ۷۵)

اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ راہ خدا اور مستضعفین کی نجات کیلئے جہاد نہیں کرتے؟

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کا ن ضعیفا ( نساء / ۷۵)

پس شیطان کااتباع کرنے والوں سے جنگ کرو بے شک شیطان کا مکر بہت ہی کمزور ہے _

و جاهد فی الله حق جهاده ( حج / ۷۸)

اور راہ خدا میں اس طرح جہاد کرو جو اس کاحق ہے _

و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم و لاتعتدوا ( بقرہ / ۱۹۰)

اور راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں پس حد سے نہ گزر جاؤ _

۳۸۵

و لتکن منکم امة یدعون الی الخیر و یأمرون بالمعروف و ینهون عن المنکر _ (آل عمران / ۱۰۴)

اور تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے جو نیکیوں کی طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں _

یا ایها الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء لله ( نسائ/ ۱۳۵)

ایمان لانے والو عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کیلئے گواہ بنو_

واعدّوا لهم مااستعطتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدوالله و عدوکم ( انفال / ۶۰)

او ر تم جہاں تک ہوسکے طاقت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو کہ جس سے تم اپنے دشمن اور اللہ کے دشمنوں کو ڈرا سکو _

ایسی ہی دسیوں آیت اور سیکڑوں احادیث ہیں _ مذکورہ احادیث ہرگز مسلمانوں سے اسلام کے قطعی و حتمی فریضہ کو ساقط نہیں کرسکتی ہیں بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ دین کی اشاعت ، اسلام ومسلمانوں سے دفاع اور قرآن کے حیات بخش پروگراموں کے اجراء میں کوشش کریں خواہ اس سلسلہ میں سب کو جہاد کرنا پڑے _

اس اہم امر کو انجام دینے کے سلسلہ میں فقہائے اسلام اور علمائے دین کی سخت ذمہ اری ہے _ کیونکہ وہ انبیاء کے وارث ، دین کے نگہبان اور لوگوں کی پناہ گاہ ہیں _ کیا علما و فقہا کو یہ حق حا صل ہے کہ وہ انکفار مستکبرین اور طاغوت کے مقابلہ میں خاموش رہیں کہ جنہوں نے ملت اسلامیہ کو بدبخت بنا دیا ہے ؟ اور مستضعفین و محرومین کو ایک عظیم انقلاب کی تشویق نہ دلائیں ؟ کیا حضرت امیر المؤمنین (ع) نے نہیں

۳۸۶

فرمایا؟

'' قسم اس خدا کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور انسانوں کو پیدا کیا ، اگر میری بیعت کیلئے اتنا مجمع نہ آتا اور اس طرح مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اگر خدا نے علی سے یہ عہد نہ لیا ہو تا کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے تو میں شنر خلافت کی رسی کو اس کی پشت پر ڈالدیتا کہ وہ جہاں چاہے چلا جائے ''_(۱)

کیا امام حسین (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) سے یہ نقل نہیں کیا ہے ؟:

من را ی سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم ناکثاً لعهد الله مخالفاًلسنة رسول الله صلی الله علیه و آله یعمل فی عبادالله بالاثم و العدوان فلم یغيّر علیه بفعل و لا قول کان حقاً علی الله ان یدخله مدخله '' (۲)

'' جو شخص ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے حرام خدا کو حلال کردیا ہے اور حدود خدا کو توڑدیا ہے ، پیغمبر (ص) کی سنت کو پامال کررہا اور خدا کے بندوں کے درمیان گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اس کے باوجود (دیکھنے والا) اپنے قول و عمل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو خدا کو حق ہے کہ اسے ظالم کے ساتھ جہنّم میں ڈالد ے '' _

____________________

۱_ نہج البلاغہ خطبہ /۲_

۲_ الکامل فی التاریخ ج ۴ ص ۴۸ چھاپ بیروت _

۳۸۷

دوسری جگہ امام حسین (ع) فرماتے ہیں :

ذالک بان مجاری الامور والاحکام علی ایدی العلماء بالله الامناء علی حلاله و حرامه ، فانتم المسلموبوت تلک المنزلة و ما سلبتم ذالک الاّ بتفرقکم ع الحق و اختلافکم فی السنة بعد البيّنة الواضعة و لو صبرتم علی الاذی و تحملتم المؤونة فی ذات الله کانت امور الله علیکم تردو عنکم تصدر والیکم ترجع و لکنکم مکنتم الظلمة من منزلتکم و استسلمتم امور الله فی ایدیهم یعمولن بالشبهات و یسیرون فی الشهوات سلّطهم علی ذالک فرارکم من الموت و اعجابکم بالحیاة التی هی مفارقتکم فاسلمتم الضعفاء فی ایدیهم فمن بین مستعبد مقهور و بین مستضعف علی معیشتهم مغلوب ، یتقلبون فی الملک بآرائهم و یستشعرون الخز ی باهوائهم اقتداء بالاشرار و جراة علی الجبار _(۱)

یہ اس لئے ہے کہ امور و احکام علماء کے ہاتھ میں ہیں وہ خدا کے حلال و حرام میں اس کے امین ہیں اور تم نے اس عظمت و منزلت کو گنوادیا ہے اور یہ عظمت تم سے اس لئے سلب ہوئی ہے کہ تم نے حق کے سلسلہ میںافتراق کیا اور واضح دلیلوں کے باوجود سنت پیغمبر کے بارے میں اختلاف

____________________

۱_ تحف العقول ص ۲۴۲_

۳۸۸

کیا _ اگر تم نے صبر کیا ہوتا اور راہ خدا میں سختیاں برداشت کی ہوتیں تو امور خدا تم پر وارد ہوتے اور تم ہی سے صادر ہوتے اور تم ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن تم نے اپنے فریضہ کی انجام وہی میں کوتاہی کرکے اپنی جگہ پر دشمن کو بٹھادیا ہے اور امور خدا کو اس کے سپردکردیا تا کہ وہ جیسا چاہیں کریں _ تمہارے موت سے فرار کرنے اور دنیا سے دل لگانے کی وجہ سے وہ تم پر مسلط ہوگئے کمزور و محروم لوگوں کو تم ہی نے ظالموں کے ہاتھ میں دیا ہ تا کہ وہ ان میں سے بعض کو غلام بنالیں اور بعض کونان شبینہ کا محتاج بنادیں اور ظلم اپنی خواہش کے مطابق حکومت کریں اور اپنی ملت کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کریں اور اس میں وہ اشرار کی پیروی کریں اور خدا کی مخالفت میں جری ہوجائیں _

علماء و فقہا پر اسلام میں اتنی ہی سنگین ذمہ داری ہے _ اگر وہ اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے تو قیامت میں ان سے بازپرس ہوگی _ صرف درس دینا بحث و مباحثہ ، تقریرات نویسی ، نماز پڑھنا اور مسائل بیان کرنا ہی نہیں ہے بکلہ ان کا سب سے بڑا فریضہ دین اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، کفر و الحاد سے جنگ اور اسلام کے احکام و قوانین کے اجراء میں کوشش کرنا ہے _ اگر اس سلسلے میں کوتاہی کریں گے تو خدا کے سامنے وہ کوئی عذر پیش نہیں کر سکیں گے اوراس اہم ذمہ داری کو چند ضعیف حدیثوں سے تمسک کرکے وہ سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں _

کیا خدا و رسول (ص) ہمیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم دشمنوں کی خطرناک سازشوں اور اسلامی ممالک سے ان کی افسوس ناک رقابت پر خاموش رہیں اور ماضی کی طرح بحث و مباحث اور اقامہ نماز پر اکتفا کریں؟ ہرگز نہیں _

۳۸۹

ظہورکی کیفیت

حسب سابق ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور اولین سوال ڈاکٹر صاحب نے اٹھایا :

ڈاکٹر: اجمالی طور پر امام زمانہ کے ظہور کی کیفیت بیان کیجئے _

ہوشیار : اہل بیت کی احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب دنیا کے حالات سازگار ہوجائیں گے اور حکومت حق کو قبول کرنے کیئے دنیا والوں کے قلب آمادہ ہوجائیں گے اس وقت خداوند عالم امام مہدی کوانقلاب کی اجازت دے گا چنانچہ آپ یکایک مکہ میں ظاہر ہوں گے اور منادی حق دنیا والوں کے کانوں تک آپ (ع) کے ظہور کی بشارت پہنچائے گا _ دنیا کے برگزیدہ افراد ، کہ بعض روایات میں جن کی تعداد تین سو نیرہ بیان ہوئی ہے _ ندائے حق پر سب سے پہلے لبیک کہیں گے اور لمحوں میں ولی خدا کی طرف کھینچ آئیں گے _

امام صادق کا ارشاد ہے : جب صاحب الامر ظہور فرمائیں گے کچھ شیعہ جوان پہلے سے کسی وعدہ کے بغیر شب میں مکہ یہنچ جائیں گے _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۷۰_

۳۹۰

اس کے بعدآپ اپنی دعوت عام کا سلسلہ شروع کریں گے _ مظلوم و مایوس لوگ آپ کے پاس جمع ہوجائیں گے _ بیعت کریں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے شجاع ، فداکار اور اصلاح طلب لوگوں فوج تیار ہوجائے گی _ امام زمانہ کے انصار کی توصیف میں امام محمد باقر و امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ وہ دنیا کے مشرق و مغرب پر قابض ہوجائیں گے دنیا کی ہر چیز کو مسخر کرلیں گے، ان میں سے ہر ایک میں چالیس مردوں کی قوت ہوگی ، ان کے دل فولاد کے ہیں ، مقصد کے حصول میں اگر پہاڑ بھی سامنے آئے گا تو اسے بھی ریزہ ریزہ کردیں گے ، اس وقت تک جنگ سے دست بردار نہ ہوں گے جب تک خدا راضی نہ ہوگا _(۱)

اس زمانہ میں ظالم و خود سر حاکمان خطرہ محسوس کریں گے ، دفاع کیلئے اٹھیں گے اور اپنے ہم مسلکوں کو امام زمانہ کی مخالفت کی دعوت دیں گے ، لیکن عدل دوست و اصلاح پسند سپاہی جو کہ ظلم و جور سے عاجز آچکے ہیں ، متحد ہوکر ان پر حملہ کریں گے ، خدا کی مدد سے ان کا قلع قمع کریں گے اور تہ تیغ کریں گے ، ہر

جگہ خوف و ہراس طاری ہوگا اور ساری دنیا حکومت حق کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائے گی _

بہت سے کفار صدق و حقیقت کی علامتیں دیکھ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے اور جو اپنے کفر و ظلم پر اٹل رہیں گے انھیں امام زمانہ کے سپاہی قتل کریں گے ، پوری دنیا میں اسلام کی مقتدر و طاقتور حکومت تشکیل پائے گی اور لوگ دل و جان سے اسکی حفاظت و نگہبانی کی کوشش کریں گے(۲) اور ہر جگہ ، اسلام کا بول بالا ہوگا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۷

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۷۹ تا ص ۳۸۰

۳_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۵۵ ،اثبات الہداة ج ۷ ص ۵۰

۳۹۱

کفار کی سرنوشت

ڈاکٹر : امام زمانہ کی حکومت کے دوران کفار و مشرکین کی سرنوشت کیا ہوگی ؟

ہوشیار : آیات و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں غیر کتابی کفار اور ملحدین سے زمین کی طاقت و قدرت چھین لی جائے گی اور اس پر مسلمانوں کا تسلط ہوگا مثال کے طور پر چند آیات پیش کرتا ہوں _

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے توریت کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہمارے صالح بندے زمین کے وارث ہوں گے ''( ۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

'' خدا وہ ہے جس نے دین حق کے ساتھ اپنے رسول (ص) کو مبعوث کیا تا کہ وہ تمام ادیان پر غالب ہوجائے _ اگرچہ مشرکوں کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو _(۲)

____________________

۱_ انبیاء / ۱۰۵

۲_ صف / ۹۰

۳۹۲

نیز ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو خلیفہ بنایا تھا اورانھیں یہ بشارت دی ہے کہ جو دین ان کیلئے پسند کیا ہے وہ اسے غلبہ عطا کرے گا اور ان کے خوف کو اطمینان و سکون سے بدل دے گا تا کہ و ہ میرے عبادت کریں اور کسی کو شریک نہ قرار دیں _(۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

اور ہمارا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو روئے زمین پرکمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں او رانھیں زمین کا وارث قرا ردیں اور طاقت عطا کریں _(۲)

مذکورہ آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ جس میں شائستہ و صالح مومنون اور مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور نور اسلام کے سامنے تمام ادیان ماند پڑجائیں گے اور اسلام ہی کا بول بالا ہوگا _ احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ کے زمانہ حکومت میں روئے زمین سے کفر و

شرک کی طاقت کاخاتمہ ہوجائے گا اور موحد و کلمہ توحید کے پڑھنے والوں کے علاہ کوئی باقی نہ رہے گا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں پیغمبر(ص) اسلام کا ارشادہے :

اگر دنیا کی عمر کا صرف ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس شخص کو مبعوث

____________________

۱_ نور / ۵۴

۲_ قصص/ ۴

۳۹۳

کرے گا جس کا نام میرا نام ہے ، جس کا اخلاق میرا اخلاق ہے اور جس کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور ان کے ذریعہ دین کو عظمت رفتہ عطا کرے گا ، انھیں فتح عطا کرے گا اور روئے زمین پر کلمہ توحید کے پڑھنے والوں کے علاوہ کسی کا وجود نہ ہوگا ، عرض کیا گیا : یہ شخص آپ (ص) کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنا دست مبارک حسین کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس سے _(۱)

حضرت ابو جعفر نے فرمایا:

'' قائم اور ان کے اصحاب اس وقت تک جنگ کریں گے کہ جب تک مشرکوں کا خاتمہ نہ ہوگا _(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۱۵ و ص ۲۴۷

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۴۵

۳۹۴

یہود و نصاری کی سرنوشت

ڈاکٹر : یہود و نصاری تو آسمانی مذہب کے ماننے والے ہیں ان کے سرنوشت کیا ہوگی ؟

ہوشیار: بعض آیات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تا قیامت باقی رہیں گے _ خداوند عالم کا ارشادہے :

'' ہم نے نصرانیت کا دعوی کرنے والوں سے عہد لیا _ لیکن انہوں نے ہماری بعض نصیحتوں کو فراموش کردیا تو ہم نے بھی قیامت تک کیلئے ان کے درمیان کینہ و عداوت ڈال دی '' _(۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

'' خدا نے عیسی سے فرمایا: ہم تمہاری دنیوی عمر تمام کرنے والے اور تمہیں اپنی طرف پلٹانے والے اور تمہیں کفار سے نجات دلانے والے اور تمہارا اتباع کرنے والوں کو قیامت کیلئے کفار پر تسلط عطا کرنے والے ہیں '' _(۲)

____________________

۱_ مائدہ / ۱۴

۲_ آل عمران / ۵۵

۳۹۵

پہلی آیت میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے : ہم ان کے درمیان قیامت کیلئے کینہ توزی و عداوت ڈالدیں گے _ دوسری آیت میں فرماتا ہے : نصاری قیامت تک کفار سے بلند رہیں گے _ ان دو آیتوں کے ظاہر کا مقتضی یہ ہے کہ نصاری کا مذہب قیامت تک اور امام مہدی کے زمانہ (ع) حکومت میں بھی باقی رہے گا _

سورہ مائدہ میں ارشاد ہے:

'' یہود کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں _ حقیقت یہ ہے کہ ان ہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور یہ اپنے قول کی بناپر ملعوں ہیں اور خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ آپ (ص) کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اس کا انکار ان میں سے بہت سول کے کفر اور ان کی سرکشی کو اور بڑھادے گا اور ہم قیامت کیلئے ان کے درمیان بغض و عداوت پیدا کردیں گے _(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا: ان آیتوں کے ظاہر کی دلالت اس بات پر ہے کہ نصاری و یہود کامسلک قیامت تک باقی رہے گا _

بعض احادیث سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے ، مثلاً:

ابوبصیر کہتے ہیں : میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کی : اہل ذمہ _ یہود و نصاری _ کے ساتھ صاحب الامر کا کیا سلوک ہوگا ؟ فرمایا : پیغمبر کی مانند ان سے مصالحت کریں گے اور وہ بھی نہایت ہی انکسار کے ساتھ جزیہ

____________________

۱_ مائدہ -۶۴

۳۹۶

دیں گے _(۱)

حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں : مہدی (عج) کو صاحب الامر اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ توریت اور تمام آسمانی کتابوں کو اس غار سے نکالیں گے جو کہ انطاکیہ میں واقع ہے _ توریت والوں کے درمیان توریت سے ، انجیل والوں کے درمیان انجیل سے اور زبور والوں کے درمیان زبور سے قضاوت کریں گے _(۲)

ان احادیث و آیات کے مقابلہ میں جو مخالف احادیث بھی موجود ہیں کہ جنکی دلالت اس بات پر ہے کہ حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں روئے زمین پر مسلمانوں کے علاوہ کسی کا وجود نہ ہوگا _ آپ یہود و نصار ی کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے جو قبول کریگا وہ نجات پائے گا اور جو انکار کرے گا وہ قتل کیا جائے گا _ مثلاً:

ابن بکیر کہتے ہیں : میں نے حضرت ابو الحسن سے آیہ '' ولہ اسلم من فی السموات و الارض طوعاً و کرہاً و الیہ یرجعون'' کی تفسیر دریفات کی تو فرمایا:

یہ حضرت قائم کی شان میں نازل ہوئی ہے _ ظہور کے بعد آپ یہود ، نصاری ، صائبین اور مشرق و مغرب کے کافروں کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے ، پس جو شخص راضی برضا اسلام قبول کرے گا ، اسے نماز پڑھنے اور زکوة کی ادائیگی اور دیگر واجبات کا حکم دیں گے اور جو قبول کرنے سے روگردانی کریگا اسکی گردن ماریں گے _ یہاں تک کہ روئے زمین پر موحدین کے علاوہ

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۸۱و ص ۳۷۶_

۲_ غیبت نعمانی ص ۱۳۵_

۳۹۷

کوئی باقی نہ رہے گا _ ابن بکیر کہتے ہیں : میں نے عرض کی قربان جاؤں _کیا دنیا کے اتنے لوگوں کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ فرمایا : جب خدا کسی کام کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس وقت کم و زیادہ اور زیادہ کم کردیتا ہے _(۱)

حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں : خدا دنیا کے مشرق و مغرب میں صاحب الامر کو فتح عطا کرے گا آپ اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک دین محمد پور ی دنیا میں نافذ ہوگا _(۲)

ابوجعفر (ع) ہی آیہ لیظہرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون کی تفسیر بیان فرماتے ہیں دنیا میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں بچے گا جو محمد کا کلمہ نہیں پڑھے گا _(۳)

جیسا کہ آپ (ع) نے ملاحظہ فرمایا : احادیث کے دو حصے ہیں _ ان میں سے ایک قرآن کے موافق اور دوسرا مخالف ہے ، علما پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ قرآن کے موافق والا حصہ مقدم ہے اور مخالف قرآن کا کوئی اعتبار نہیں ہے _ اس بناپر ، حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں یہود و نصاری باقی رہیں گے لیکن تثلیث و

شرک کا عقیدہ ترک کردیں گے صرف خدا کی عبادت کریں گے اور اسلامی حکومت کی پناہ میں زندگی بسر کریں گے _ باطل حکومتوں کاتختہ الٹ جائے گا اور دنیا کی حکومت با صلاحیت مسلمانوں کے دست اختیار میں آجائے گی اور دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوگا اور ہرجگہ کلمہ توحید کا ہمہمہ ہوگا امام صادق (ع) فرماتے ہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۴۰

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۹۰

۳_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۶_

۳۹۸

جب امام مہدی ظہور فرمائیں گے اس وقت زمین کے گوشہ گوشہ سے اشہد ان لا الہ الا اللہ و ان محمداً رسول اللہ کی آواز بلند ہوگی _(۱)

حضرت ابوجعفر (ع) کاارشاد ہے : ظہور قائم کے بعد باطل حکومت ہمیشہ کیلئے نیست و نابود ہوجائے گی _(۲)

حضرت ابو جعفر نے فرمایا : خدا ائمہ اور مہدی (عج) کو مشرق و مغرب کا حاکم قرار دے گا _ ان کے ذریعہ دین کو مضبوط کرےگا _ بدعتوں کو ختم کرے گا _ اس وقت ظلم مٹ جائیگا وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں گے _(۳)

ابوبصیر کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی فرزند رسول آپ اہل بیت کے قائم کوں ہیں ؟ فرمایا : ابوبصیر میرے بیٹے موسی کے پانچویں فرزند ہیں _ یہ بہترین کنیز کے بطن سے ہوں گے _ ان کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ ایک گروہ شک میں پڑجائے گا _ اس کے بعد خداظاہر ہونے کا حکم دے گا اور مشرق و مغرب پر انھیں فتح عطا کرے گا _ عیسی بن مریم نازل ہوں گے اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے _ زمین اس وقت نور خدا سے چمک اٹھے گی اور جہاں جہاں بھی غیر خدا کی عبادت ہوتی تھی وہاں خدا کی عبادت ہوگی _ صرف دین خداہوگا اگر چہ مشرکوں کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو _(۴)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۴۰

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۶۲

۳_بحار الانوار ج ۵۱ ص ۴۷

۴_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۴۶

۳۹۹

پیغمبر اسلام نے حضرت علی سے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہونگے ، ان میں سے پہلے تم اور آخری قائم ہے کہ جن کے ہاتھوں پر خدا مشرق و مغرب کو فتح کرے گا _(۱)

انجینئر : اس سلسلہ میں ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے لیکن وقت ختم ہوچکا ہے اس سے زیادہ ڈاکٹر صاحب اوردیگر احباب کا وقت نہ لیا جائے اگر اجازت ہو تو آئندہ جلسہ میں اسے پیش کروں _

* * *

جلسہ ختم ہوگیا اور یہ طے پایا کہ اگلے ہفتہ احباب جناب جلالی صاحب کے گھر تشریف لائیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۷۸_

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749