تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172757 / ڈاؤنلوڈ: 6319
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالأذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاء النَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لاَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (٢٦٤)

ايمان والو اپنے صدقات كو منت گذارى اور اذيت سے برباد نہ كرو اس شخص كى طرح جو اپنے مال دنيا كودكھا نے كے لئے صرف كرتا ہے اور اس كا ايمان نہ خدا پر ہے اور نہ آخرت پر اس كى مثال اس صاف چٹان كى ہے جس پر گرد جم گئي ہو كہ تيز بارش كے آتے ہى بالكل صاف ہوجائے _ يہ لوگ اپنى كمائي پر بھى اختيا رنہيں ركھتے اور الله كافروں كى ہدايت بھى نہيں كرتا _

١_ اہل ايمان اپنے صدقات، احسان جتا كر يا اذيت پہنچاكر اكارت اور بے اثر نہيں كرنے چاہيئے_

يا ايها الذين آمنوا لا تبطلوا صدقاتكم بالمن و الاذي

٢_ احسان جتانا اور اذيت پہنچانا صدقات كو بے اثر كرديتاہے_يا ايها الذين آمنوا لا تبطلوا صدقاتكم بالمن والاذي

٣_ اسلام نے انسان كى شخصيت كى حفاظت كا پورا پورا خيال ركھاہے_لا تبطلوا صدقاتكم بالمن والاذي

۲۸۱

٤_ احسان جتانا، تكليف پہنچانا اور رياكارى كرنا عبادت اور نيك اعمال كے نتائج كو بے اثر اوربے سود كركے ركھ ديتاہے_لا تبطلوا صدقاتكم بالمن و الاذى كالذى ينفق ما له رئا ء الناس

٥_ مومنين كے انفاق كے ہمراہ اگر احسان جتانا اور تكليف پہنچانا ہو تو يہ كافروں كے اس انفاق كى مثل ہے جس ميں رياكارى ہو_يا ايها الذين آمنوا كالذى ينفق ماله رئاء الناس و لا يؤمن بالله

جب مومنين كے انفاق ميں احسان جتانا اور اذيت پہنچانا ہو تو يہ كافروں كے اس انفاق كى مانندہے جس ميں رياكارى كارفرماہو_

٦_ انفاق ميں رياكارى كرنے والے خدا تعالى اور روز قيامت پر ايمان نہيں ركھتے_كالذى ينفق ماله رئاء الناس و لا يؤمن بالله و ا ليوم الآخر اگر يہ جملہ ''و لا يومن ...'' ، ''ينفق مالہ رئاء ''كے جملے كى تفسير و توضيح ہو_

٧_ رياكارى خدا اور قيامت پر ايمان نہ ہونے كى علامت ہے_كالذى ينفق ماله رئاء الناس و لا يؤمن بالله واليوم الآخر

اگر '' ولا يؤمن ...''والا جملہ اس سے پہلے والے جملے كى تفسير ہو_

٨_ رياكارى اور خدا تعالى اور قيامت كا انكار ، صدقات اور اعمال خير كے باطل ہونے كا سبب ہے_

لا تبطلوا كالذى ينفق ماله رئاء الناس و لا يؤمن بالله واليوم الآخر

٩_ احسان و اذيت اور رياكارى كے ساتھ انفاق كرنے والوں كى مثال اس صاف چٹان كى سى ہے كہ جس پر مٹى كى پتلى سى تہ ہو اور اس ميں بيج ڈالے جائيں اچانك موسلا دھار بارش آئے اور سارى خاك كو بہالے جائے اور صرف ناقابل زراعت پتھر رہ جائے_فمثله كمثل صفوان عليه تراب فاصابه وابل فتركه صلدا لا يقدرون على شى مما كسبوا

١٠_ انفاق اگر احسان جتانے ، اذيت پہنچانے اور رياكارى كے ہمراہ ہو تو بے سود ہے_

فمثله كمثل صفوان لا يقدرون على شى مما كسبوا

١١_ انفاق جو رياكارى او ر احسان و آزار كے ہمراہ ہو ايك قسم كا كفر ہے_

۲۸۲

يا ايها الذين آمنوا والله لا يهدى القوم الكافرين

١٢_ كفار ہدايت الہى سے بے بہرہ ہيں _والله لا يهدى القوم الكافرين

١٣_ احسان جتانا، تكليف پہنچانا اور رياكارى ، ہدايت الہى ميں ركاوٹ ہيں _والله لا يهدى القوم الكافرين

احسان جتانا: احسان جتانے كى مذمت ١١;احسان جتانے كے اثرات ٢ ، ٤ ، ٥ ، ٩ ، ١٠

اذيت : اذيت كى مذمت ١١;اذيت كے اثرات ١ ، ٢ ، ٤ ، ٥ ، ٩، ١٠

اسلام: اسلام كى خصوصيت ٣

انفاق: انفاق كے آداب ١ ، ٥ ، ٩ ، ١٠ ، ١١

خدا تعالى: خدا تعالى كى ہدايت ١٢

رياكارى : رياكارى كى مذمت ١١;رياكارى كے اثرات ٤ ، ٦ ، ٨ ، ٩ ، ١٠ ، ١٣; رياكارى كے عوامل ٧

شخصيت : شخصيت كى قدر و قيمت ٣

صدقہ: صدقہ كا اكارت ہونا ١ ، ٢ ، ٨

عمل: عمل كا اكارت ہونا ١ ، ٢ ، ٤ ، ٨،١٠;عمل كى صحت كے شرائط ١ ، ٩

قرآن كريم : قرآن كريم كى تشبيہات ٥ ، ٩;قرآن كريم كى مثاليں ٩

كفار: كفار كى رياكارى ٥;كفار كى گمراہى ١٢

كفر: خدا كے بارے ميں كفر٦ ، ٧ ، ٨; قيامت كے بارے ميں كفر٦ ، ٧ ،٨;كفر كے موارد١١

ہدايت : ہدايت كے موانع ١٢ ، ١٣

۲۸۳

وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (٢٦٥)

اور جو لوگ اپنے اموال كو رضائے خدا كى طلب اور اپنے نفس كے استحكام كى غرض سے خرچ كرتے ہيں ان كے مال كى مثال اس باغ كى ہے جو كسى بلندى پر ہو او رتيز بارش آكر اس كى فصل كو دو گنا بنادے اور اگر تيز بارش نہ آئے تو معمولى بارش ہى كافى ہو جائے اور الله تمھارے اعمال كى نيتوں سے خوب باخبر ہے _

١_ خدا كى خوشنودى اور اپنے ثبات و استحكام نفس كى خاطر اموال خرچ كرنے والوں كى مثال اس باغ كى سى ہے جو بلند ٹيلے پر و اقع ہو كہ جس پر موسلا دھار بارش برسے اور اس كا پھل دوگنا ہوجائے يا اس پر ہلكى بارش پڑے اور وہ پھل دينے لگے_و مثل الذين ينفقون اموالهم ابتغاء مرضات الله ...كمثل جنة ...اكلها ضعفين فطل

٢_ انفاق، رضائے الہى كے حصول ، ثبات نفس اور قلبى سكون كا پيش خيمہ ہے_و مثل الذين ينفقون مرضات الله و تثبيتاً من انفسهم

٣_ انفاق ميں خلوص نيت كے دوام كى ضرورت _و تثبيتاً من انفسهم اگر تثبيت سے مراد خالص نيت پر ثبات و استحكام ہو_

٤_ ثابت قدمى اور روحانى اطمينان ميں نيك اعمال كى تاثير _*

۲۸۴

مثل الذين تثبيتاً من انفسهم

٥_ رضائے خدا اسے حاصل ہوتى ہے جو اسے حاصل كرنے كى جستجو اور كوشش ميں نكلے_ابتغاء مرضات الله

لفظ '' ابتغائ''كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ جس ميں سعى و كوشش ملحوظ خاطر ہے_

٦_ رضائے الہى كيلئے انفاق كرنے والوں كو خدا كى طرف سے جزا كا وعدہ _مثل الذين ينفقون فاتت اكلها

٧_ حقائق كو بيان كرنے كيلئے خدا تعالى كى طرف سے تمثيل كا استعمال _و مثل الذين

٨_ اونچى زمين پھل دينے كى زيادہ صلاحيت ركھتى ہے_كمثل جنة بربوة اصابها وابل فاتت اكلها ضعفين

٩_ انفاق كرنے والے فيوض الہى سے بہرہ مند ہونے كى بھر پور صلاحيت ركھتے ہيں _اصابها وابل فان لم يصبها وابل فطل

١٠_ نيت ( حسن فاعلى ) كا نيك اعمال ( حسن فعلي) كى قدر و قيمت ميں عمل دخل ہے_و مثل الذين ينفقون اموالهم ابتغاء مرضات الله

١١_ رضائے الہى كيلئے انفاق كرنا انسان كى ترقى اور تكامل كا موجب ہے_و مثل الذين كمثل جنة بربوة

اس نكتہ كى دليل يہ ہے كہ انفاق كرنے والوں كو اس باغ كے ساتھ تشبيہ دى گئي ہے جو بارش كى وجہ سے پھل دينے لگے_

١٢_ خلوص پر مبنى عمل انسان كى ترقى و كمال كا موجب ہے_و مثل الذين كمثل جنة

١٣_ انفاق كرنے والوں كى پاداش ايك جيسى نہيں ہے_و مثل الذين كمثل جنة بربوة فان لم يصبها وابل فطل

انفا ق كو اس باغ كے ساتھ كہ جو بارش كى وجہ سے پھل دينے لگے اور موسلا دھار بارش كى صورت ميں اس كا پھل دوگنا ہوجائے، تشبيہ دينے كا مطلب يہ ہے كہ جزا ايك جيسى نہيں ہے_

١٤ _ انسان كے اعمال پر ہميشہ خدا تعالى كى نظر ہے_والله بما تعملون بصير

۲۸۵

١٥_ خدا تعالى مومنين كے انفاق كى كيفيت اور انكى نيت سے آگاہ ہےو لا تبطلوا صدقاتكم و مثل الذين ينفقون والله بما تعملون بصير

اخلاص : اخلاص كے اثرات ١٢

اخلاقى نظام : ٤ ، ٥ ، ١٠ ، ١١

اطمينان : اطمينان كے عوامل ٢ ، ٤

انسان : انسان كا عمل ١٤

انفاق : انفاق كى جزا ١ ، ٦ ، ٩، ١٣;انفاق كے آداب ٣; انفا ق كے انفرادى اثرات ١ ، ٢ ، ٦ ، ٩، ١١

بارش: بارش كا اثر و اہميت ١

بركت : نزول بركت كا پيش خيمہ ٩

تبليغ : تبليغ كى روش ٧

ترقى و رشد : ترقى و رشد كے عوامل ٥ ، ١١ ، ١٢;

خدا تعالى: خدا تعالى كا احاطہ ١٤;خدا تعالى كا علم ١٥;خدا تعالى كا فيض ٩ ;خدا تعالى كى رضا ١ ، ٢ ، ٥ ، ٦ ، ١١; خدا تعالى كى نظارت ١٤;خدا تعالى كے وعدے ٦

رحمت : رحمت جن كے شامل حال ہے٩

روش شناسى :٧

زمين : زرعى زمين ٨

عمل : عمل صالح اور اطمينان ٤;عمل صالح كى قدر و قيمت ١٠

قدر و قيمت : قدر و قيمت كا معيار ١٠

قرآن كريم : قرآن كريم كى مثاليں ١ ، ٧

مومنين : مؤمنين كا انفاق ١٥

نيت: نيت عمل ميں ١٠;نيت كا كردار ١٠;نيت كى اہميت ٣

۲۸۶

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاء فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمُ الآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (٢٦٦)

كيا تم ميں سے كوئي يہ پسند كرتا ہے كہ اس كے پاس كھجور اور انگور كے باغ ہوں _ ان كے نيچے نہريں جارى ہوں ان ميں ہر طرح كے پھل ہوں _ اور آدمى بوڑھا ہو جائے _ اس كے كمزور بچے ہوں او رپھر اچانك تيزگرم ہوا جس ميں آگ بھرى ہو چل جائے اور سب جل كرخاك ہوجائے _ خدا اسى طرح اپنى آيات كو واضح كركے بيان كرتا ہے كہ شايد تم فكر كر سكو _

١_ احسان ، رياكارى اور تكليف پہنچانے كے ساتھ انفاق كرنے والے كى مثال اس شخص كى سى ہے جو كھجور اور انگور كے باغ كا مالك ہو كہ جسكے درختوں كے نيچے نہريں جارى ہوں اور وہ ہر قسم كا پھل ديتے ہوں وہ خود بوڑھا ہوچكاہو اور اسكے بچے ناتوان اور كمزور ہوں _ اچانك آتشين آندھى آئے اور باغ كو جلا كر ركھ دے_ايود احدكم ان تكون له جنة و اصابه الكبر نار فاحترقت

٢_حقائق كو بيان كرنے كيلئے ، خدا تعالى كى طرف سے تمثيل كا استعمال_ايود احدكم ان تكون له جنة

٣_ احسان جتانے ، تكليف پہنچانے اور رياكارى كرنے سے انفاق اكارت ہوجاتاہے يوں كہ نہ تو انفاق شدہ واپس آتاہے اور نہ ہى اس كے كوئي بابركت اثرات ہوتے ہيں _

لا تبطلوا صدقاتكم بالمن ايودّ احدكم ان تكون له جنة فاحترقت

۲۸۷

٤_ رضائے الہى اور استحكام نفس كيلئے بغير رياكارى ، بغير احسان جتائے اور تكليف پہنچائے جو انفاق كيا جائے اسكے بڑے فوائد ہيں _ايود احدكم ان تكون له جنة فيها من كل الثمرات

انفاق كو باغ كے ساتھ تشبيہ دى گئي ہے كہ اگر اس ميں رياكارى اور تكليف دہى كا عنصر شامل ہو تو نذر آتش ہوجاتاہے اور اگر صرف رضائے لہى كيلئے ہو تو بہت بڑے فوائد اور مثبت نتائج كا حامل ہے_

٥_ حضرت ابراہيم (ع) و نمرود اورحضرت عزير(ع) ياجناب ارميا (ع) پيغمبر كى داستان، ريزہ ريزہ كئے گئے پرندوں كا زندہ ہوجانا اور انفاق كے سب احكام وضو ابط خداوند عالم كى نشانيوں ميں سے ہيں _الم تر او كالذى مر فخذ اربعة من الطير مثل الذين كذلك يبين الله لكم الآيات

٦_ انسان اپنے اچھے اعمال اور ان كے نتائج سے بہرہ مند اور مستفيد ہونے كو پسند كرتاہے_ ايود احدكم ان تكون له جنة

٧_ روز قيامت انسان كو انفاق اور اعمال خير كى اشد ضرورت_ايود احدكم و اصابه الكبر و له ذرية ضعفاء

كيونكہ انفاق كو اس باغ كے ساتھ تشبيہ دى گئي ہے جسكے مالك كو بڑھاپے ميں اپنى محنت كے پھل كى بہت شديد ضرورت ہے اور پھر اسے اس شخص كى حالت پر منطبق كيا گيا ہے كہ جو روز قيامت صرف اپنے دنياوى اعمال سے بہرہ مند ہوسكتاہے_

٨ _ پھلوں ميں سے كھجور اور انگور كى خاص اہميت ہے اور يہ پھلوں كى فراوانى كے واضح نمونے ہيں *

له جنة من نخيل و اعناب كيونكہ صرف انہيں دو پھلوں كا تذكرہ كيا گيا ہے_

٩_انسان كى تربيت اور اسے احكام دين اور دينى قواعد و ضوابط كا پابند بنانے كيلئے اچھے اور بُرے اعمال كے نتائج سے آگاہ كرنا قرآن كريم كى روش ہے_ايوداحدكم فاحترقت

١٠_ غير خدا كيلئے انجام ديئے گئے اعمال كى نابودى اور روز قيامت ان كے انجام دينے والے كا بہت زيادہ غم و اندوہ ميں مبتلا ہونا _ايود احدكم فاحترقت

''اصابہ الكبر'' اورباطل انفاقات كے درميان وجہ شباہت، گذشتہ كے تدارك سے

۲۸۸

عاجز ہونا اور آئندہ كى ضمانت نہ ہونا ہے اور مشبہ كى نسبت اس معنى كا فرض بوقت مرگ اور روز قيامت ہے_

١١_ آيات الہى ( دينى احكام و معارف) كا مثالوں كے ہمراہ بيان كرنا انسان كيلئے تفكر و تدبر كا باعث ہے_

كذلك يبين الله لكم الآيات لعلكم تتفكرون

١٢_ مفكرين كا بلند مرتبہ اور تفكر و تدبر كى اعلى قدر و قيمت_يبين الله لكم الآيات لعلكم تتفكرون كيونكہ تفكر كو آيات الہى كے بيان كرنے كے ہدف كے طور پر ذكر كيا گيا ہے اس سے اسكى قدر و قيمت اورمفكرين كے بلند مرتبے كا پتہ چلتاہے_

آيات خدا :٥ آيات خدا اور تفكر و تدبر ١١

احسان جتانا: اس كے اثرات ١ ، ٣

اذيت : اذيت كے اثرات ١ ، ٣

انسان : انسان كے تمايلات ٦; انسان كى ضروريات ٧

انفاق: انفاق كا اكارت ہونا ١ ، ٣;انفاق كى اہميت ٥ ، ٧;انفاق كى پاداش ٤;انفاق كے آداب ٤;انفاق كے انفرادى اثرات ٤

انگور : انگور كى قدر و قيمت ٨

پھل : پھل كى قدر و قيمت ٨

تبليغ: تبليغ كى روش ٢

تحريك: تحريك كے عوامل ٩

تربيت: تربيت كى روش ٩

تفكر: تفكر كا پيش خيمہ١١;تفكر كى قدر و قيمت ١٢

حضرت ابراہيم (ع) : حضرت ابراہيم (ع) كا واقعہ ٥

۲۸۹

حضرت عزير (ع) : حضرت عزير (ع) كا واقعہ٥

خدا تعالى : خدا تعالى كى رضا، ٤

رياكاري: رياكارى كے اثرات ١ ، ٣

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كرنے كا پيش خيمہ ٩

صاحبان عقل و فكر: ان كے فضائل ١٢

ضرورت : اخروى ضرورت ٧

عمل : عمل كا اكارت ہونا ٣ ، ١٠; عمل كى صحت كے شرائط ٤;عمل كے اثرات ٩

قرآن كريم : قرآن كريم كى تشبيہات ١;قرآن كريم كى مثاليں ٢

قيامت : روز قيامت ميں غم و اندوہ ١٠

كھجور : كھجور كى قدر و قيمت ٨

مثال: مثال كى تاثير ١١

مردے : مردوں كا زندہ كرنا ٥

نمرود : نمرود كا واقعہ ٥

۲۹۰

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (٢٦٧)

اے ايمان والو اپنى پاكيزہ كمائي اور جو كچھ ہم نے زمين سے تمھارے لئے پيدا كيا ہے سب ميں سے راہ خدا ميں خرچ كرو اور خبر دار انفاق كے ارادے سے خراب مال كو ہاتھ بھى نہ لگا نا كہ اگر يہ مال تم كو ديا جائے تو آنكھ بند كئے بغير چھؤو گے بھى نہيں ياد ركھو كہ خداسب سے بے نيازہے اور سزاوار حمد و ثنا بھى ہے _

١_ پاكيزہ اور پسنديدہ كمائي سے انفاق كرنا چاہيئے_انفقوا من طيبات ما كسبتم

٢_ مومنين اپنے ہاتھ كى پاكيزہ كمائي اور اپنى زمين كے اناج سے انفاق كرنے كے ذمہ دار ہيں _

يا ايها الذين آمنوا انفقوا من طيبات ما كسبتم و مما اخرجنا لكم من الارض

٣_خدا تعالى زمين سے پھلوں اور غلوں كو نكالتاہے تا كہ انسان ان سے بہرہ مند ہو _و مما اخرجنا لكم من الارض

٤_ ہر قسم كى كمائي سے انفاق كرنا چاہيئے وہ تجارت سے ہو يا زراعت سے اور يا معدنيات سے_انفقوا من طيبات ما كسبتم و مما اخرجنا لكم من الارض _ ''ما كسبتم''سے مراد تجارت سے حاصل كردہ كمائي ہے اور''مما اخرجنا ...''سے مراد وہ كمائي ہے جوزمين سے حاصل ہو (جيسے زراعت يا معدنيات سے حاصل شدہ منفعت)_

۲۹۱

٥_ مومنين كو ناپسنديدہ اور بے قدر و قيمت چيزوں سے انفاق كرنے كى طرف مائل نہيں ہونا چاہيئے_

و لا تيمموا الخبيث منه تنفقون ''لا تيمموا''تيمم سے ہے كہ جس كا معنى ہے قصد اورميلان_

٦_ انفاق شدہ اموال كے درميان ناپسنديدہ چيزيں بغير نيت و ارادہ كے پائي جائيں جنہيں جان بوجھ كر شامل نہ كيا ہو تو كوئي حرج نہيں ہے_انفقوا من طيبات ما كسبتم و لا تيمموا الخبيث ''ولا تيمموا ...''كا جملہ اگر چہ ايك عليحدہ حكم ہے كہ ناپسنديدہ چيزوں كے انفاق سے پرہيز كرنا ضرورى ہے ليكن چونكہ ناپسنديدہ چيز كے قصد اور انكى طرف ميلان سے منع كيا گيا ہے اسلئے يہ ''من طيبات''كى وضاحت كے طور پہ بھى ہوسكتاہے يعنى انفاق شدہ اموال كے درميان اگر ناپسنديدہ چيزيں پائي جائيں ليكن آپ نے انكا ارادہ نہيں كيا تھا تو آپ''انفقوا من طيبات''كے دائرے سے خارج نہيں ہوں گے_

٧_ ناپسنديدہ چيزوں كے انفاق سے پرہيز كرنا انفاق كرنے والوں كے اپنے ضمير كا فيصلہ ہے_

و لا تيمموا الخبيث منه تنفقون و لستم باخذيه

٨_ ناروا كا موں سے پرہيز ، دينى احكام و قوانين كى پابندى اور انسان كى تربيت كيلئے انسان كو اپنے ضمير كے فيصلے كى طرف متوجہ كرنا قرآن كريم كى روش ہے_و لا تيمموا الخبيث منه تنفقون و لستم باخذيه

٩_ انسان كے ضمير كا بعض چيزوں كو ناپسند كرنا اور انہيں قبول نہ كرنا پسنديدہ اور غير پسنديدہ كى تشخيص كى علامت ہے_و لا تيمموا الخبيث منه تنفقون و لستم باخذيه

١٠_ خدا تعالى غنى و حميد ہے_ان الله غنى حميد

١١_ خدا تعالى انفاق كرنے والوں كے انفاق سے بے نياز ہونے كے باوجود ان كى ستائش كرتاہے_ان الله غنى حميد

اس نكتے ميں حميد كو حامد ( تعريف كرنے والا) كے معنى ميں لياگياہے _

١٢_ خدا تعالى تعريف كے لائق ہے_ان الله غنى حميد

اس نكتے ميں حميد كو محمود ( جس كى تعريف كى جائے) كے معنى ميں ليا گيا ہے_

۲۹۲

١٣_ اس نكتے كى طرف توجہ كرناكہ خدا تعالى بے نياز ہونے كے باوجود انفاق كرنے والوں كى تعريف كرتاہے انسان كو اپنے پاكيزہ اموال سے انفاق كرنے كى ترغيب دلاتاہے_و اعلموا ان الله غنى حميد

اللہ تعالى كى بے نيازى اور يہ كہ وہ انفاق كرنے والوں كى تعريف فرماتاہے، مومنين كو اسكى طرف توجہ دلانا انہيں صحيح انفاق كى تشويق و ترغيب دلاتا ہے_

١٤_ جسے آپ اپنے لئے پسند نہيں كرتے اسے دوسروں كيلئے بھى پسند نہ كريں _و لا تيمموا و لستم باخذيه

١٥_ سود والے مال سے انفاق كرنا اموال خبيثہ كے انفاق كا مصداق ہے اور خدا تعالى نے اس سے منع فرماياہے_

و لا تيمموا الخبيث امام باقر (ع) اس آيت '' ولا تيمموا '' كے متعلق فرماتے ہيں :كان الناس حين اسلموا عندهم مكاسب من الربا فكان الرجل يتعمّدها من بين ماله فتصدق بها فنها هم الله عن ذلك لوگوں كے پاس اسلام سے پہلے كے ايسے اموال موجود تھے جو انہوں نے سود سے كمائے تھے چنانچہ لوگ جان بوجھ كر سودى مال سے صدقہ ديتے پس اللہ تعالى نے انہيں اس سے منع فرمايا ہے(١)

اخلاقى نظام ١٤

اسما ء و صفات : حميد ١٠ ;صفات جلال ١١ ; غنى ١٠

انفاق : انفاق كا دائرہ ٤;انفاق كى فضيلت ١١;انفاق كے آداب ١ ،٢ ، ٥ ، ٦، ١٣ ، ١٥; پسنديدہ چيزوں سے انفاق ١ ، ٢ ، ٥ ، ٧ ، ١٣; خبائث سے انفاق ١٥

پاكيزہ چيزيں : انكى تشخيص كا معيار ٩

تحريك: تحريك كے عوامل ١٣

تربيت : تربيت كى روش ٨

جانچنا: جانچنے كا معيار ٧ ، ٩ ، ١٤

خدا تعالى: خدا تعالى كى بے نيازى ١ ١ ،١٣;خدا تعالى كى حمد١٢;خدا تعالى كى نعمتيں ٣

____________________

١) تفسير عياشى ج١ ص١٤٩ ح٤٩٢ تفسير برہان ج١ ص ٢٥٥ ح ٦ ،٧_

۲۹۳

روايت: ١٥

زمين: زمين كے فوائد ٣

شرعى فريضہ : شرعى فريضہ پر عمل كرنے كا پيش خيمہ ٨ ، ١٣

ضمير : ضمير كا فيصلہ ٧،٨; ضمير كى قدر و قيمت ٩

علم: علم و عمل ١٣

عمل : عمل صالح كا پيش خيمہ ٨;عمل كے صحيح ہونے كى شرائط ٦

مومنين : مؤمنين كى ذمہ دارى ٢ ، ٥

نيت : نيت كى تاثير ٦

الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاء وَاللّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلاً وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (٢٦٨)

شيطان تم سے فقيرى كا وعدہ كرتا ہے او رتمھيں برائيوں كا حكم ديتا ہے او رخدا مغفرت او رفضل و احسان كا وعدہ كرتا ہے _ خدا صاحب وسعت بھى ہے اور عليم و دانا بھى _

١_ شيطان انسان كو فقر و تنگدستى سے ڈراكر انفاق كرنے سے منع كرتاہے_الشيطان يعدكم الفقر

٢_ شيطان، انسان كو پاكيزہ اور مرغوب چيزوں كے انفاق سے روكتاہے_انفقوا من طيبات ماكسبتم الشيطان يعدكم الفقر

٣_ تنگدستى كا ڈر، انفاق سے روكنے كا شيطانى حربہ_الشيطان يعدكم الفقر

۲۹۴

٤_ شيطان، انسان كو برائي كى ترغيب دلاتاہے_و يامركم بالفحشاء

٥_ انفاق نہ كرنا، معاشرے ميں برائيوں كى طرف ميلان كا سبب بنتاہے_الشيطان يعدكم الفقر و يامركم بالفحشاء

گويا جملہ ''يامركم بالفحشائ'' توضيح و تفسير ہے جملہ ''يعدكم الفقر''كى يعنى شيطان تمہيں انفاق سے روكتاہے اور پھر برائي كى طرف كھينچ لاتاہے ( يعنى ايك طرف سے انسان كے اندر بخل اور كنجوسى كى برى صفت كو پروان چڑھاتاہے اور دوسرى طرف سے معاشرے كے اندر بعض لوگ فقر و تنگدستى كا شكار رہيں گے جس كا حتمى نتيجہ معاشرے ميں جرائم كى صورت ميں نكلے گے)_

٦_ اس بات كى طرف متوجہ رہنا كہ شيطان برائي كا خواہاں ہے انسان كو شيطانى وسوسوں كے قبول كرنے سے روكتاہے_الشيطان يعدكم الفقر و يامركم بالفحشاء يہ اس بناپرہے كہ جملہ''يامركم بالفحشائ''، ''يعدكم الفقر''كى علت ہو_يعنى اسكے وعدوں اور وسوسوں پر كان نہ دھرنا كيونكہ وہ تمہيں برائي كى طرف دعو ت ديتاہے_

٧_ خدا تعالى انسان كو رزق كى فراوانى اور گناہوں كى بخشش كا وعدہ دے كر اسے انفاق كى ترغيب دلاتا ہے_

والله يعدكم مغفرة منه و فضلا كلمہ'' فضلاً''چونكہ شيطان كے وسوسہ فقر كے مقابلے ميں ہے اسيلئے اس سے مراد رزق كى وسعت ہے_

٨_ انفاق، وسعت رزق اور گناہوں كى بخشش كا ذريعہ ہے_يا ايها الذين آمنوا انفقوا والله يعدكم مغفرة منه و فضلا

٩_ انسان خدا كى دعوت يا شيطان كے وسوسے كو قبول كرنے ميں آزاد ہے_الشيطان يعدكم والله يعدكم مغفرة منه و فضلا

١٠_ گناہوں كى بخشش اور مال كى كثرت خداوند متعال كى طرف سے انفاق كرنے والوں كى جزاہے_

يا ايها الذين آمنوا ا نفقوا والله يعدكم مغفرة منه و فضلاً

١١_ انفاق شدہ مال كى نسبت خدا تعالى كى جزا بہت زيادہ ہے_والله يعدكم مغفرة منه و فضلا

۲۹۵

فضل (زيادتى و اضافہ) انفاق كرنے والوں كيلئےخدا كى طرف سے اجر ہے_ جزا ميں يہ اضافہ، ہوسكتاہے انفاق شدہ مال كى نسبت ہو يعنى جو كچھ تم انفاق كرتے ہو خدا تعالى تمہيں اس سے بڑھ كر جزا ديتاہے_

١٢_ خدا تعالى واسع و عليم ہے_والله واسع عليم

١٣_ خدا تعالى اپنى راہ ميں انفاق كرنے والوں سے آگاہ ہے اور ان كى روزى ميں وسعت عطا فرماتاہے_

والله واسع عليم

١٤_ انفاق نہ كرنا يا اموال خبيث ( ناپسنديدہ) سے انفاق كرنا فحشا اور برائي كا مصداق ہے_

انفقوا من طيبات ما كسبتم الشيطان يعدكم الفقر و يامركم بالفحشاء

''يامركم بالفحشائ''شيطان كے ترك انفاق يا انفاق از مال خبيث كے وسوسہ كى تفسير اور وضاحت ہے_

اسما ء و صفات: عليم ١٢ ; واسع ١٢

انسان : انسان كا اختيار ٩

انفاق: انفاق كى ترغيب ٧; انفاق كى جزا ٧ ، ٨ ، ١٠ ، ١١ ، ١٣;انفاق كے اثرات ١٣;انفاق كے انفرادى اثرات ٧ ، ٨;انفاق كے سماجى اثرات ٥; انفاق كے موانع ١ ، ٢ ، ٣ ;انفاق نہ كرنے كى مذمت ٥ ، ١٤;ناپسنديدہ چيزوں سے انفاق ١٤

برائي: برائي كے عوامل ٦;برائي كے موارد ١٤;برائي كے موانع ٦

تحريك: تحريك كے عوامل ٧

خدا تعالى : خدا تعالى كا علم ١٣; خدا تعالى كا وعدہ ٧;خدا تعالى كى دعوت ٩

خوف : خوف كے اثر ات٣;فقر كا خوف ١ ، ٣ ; ناپسنديدہ خوف ١ ، ٣

دور انديشى : دورانديشى كے اثرات ٦

۲۹۶

شيطان: شيطان كا بہكانا يا ور غلانا ١ ، ٢ ، ٣ ،٤ ،٦ ; شيطان كے وسوسے ٩

علم: علم كے اثرات ٦

عمل: ناپسنديدہ عمل ٤ ، ١٤

گمراہى :

يُؤتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاء وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ (٢٦٩)

وہ جس كو بھى چاہتا ہے حكمت عطا كر ديتا ہے او رجسے حكمت عطا كر دى جائے اسے گويا خير كثير عطا كرديا گيا اور اس بات كو صاحبان عقل كے علاوہ كوئي نہيں سمجھتا ہے _

١_ حكمت و دانائي خدا كى عنايت ہے جسے چاہتاہے عطا كرتاہے_يؤتى الحكمة من يشاء

٢_ جو لوگ اپنے پسنديدہ اموال كو بغير كسى احسان و آزار كے راہ خدا ميں خر چ كرتے ہيں وہ گمراہى كے عوامل ٤ ، ٥

گناہ : گناہ كى بخشش ٧ ، ٨ ، ١٠

معاشرتى نظام :٥

معاشرہ : معاشرہ كے انحطاط كا پيش خيمہ ٥

نعمت : نعمت كى فراوانى ٧، ٨، ١٠ ، ١٣

صاحبان حكمت ہيں _

الذين ينفقون اموالهم فى سبيل الله يؤتى الحكمة من يشاء و من يؤت الحكمة فقد اوتى خيرا كثيرا

چونكہ اس آيت مباركہ كا ان گذشتہ آيات كے ساتھ ارتباط ہے جو انفاق اور اسكے احكام كے

۲۹۷

متعلق ہيں اسلئے كہا جاسكتاہے كہ اس آيت ميں حكمت سے مراد وہى خاص شرائط كے ساتھ انفاق كرناہے يا يہ كہ انفاق كرنا حكمت كا ايك مصداق ہے_

٣_ صاحبان حكمت خير كثير كے مالك ہيں _و من يؤت الحكمة فقد اوتى خيرا كثيرا

٤_ حكمت خير كا باعث ہے_و من يؤت الحكمة فقد اوتى خيرا كثيرا

٥ _ صرف صاحبان عقل و خرد خدا تعالى كى حكمتوں سے نصيحت حاصل كرتے ہيں _و ما يذّكر الا او لوا الالباب

٦_عقل و خرد كى اہميت اور صاحبان عقل كى قدر و قيمت_و ما يذّكر الا اولوا الالباب

٧_ حقائق اور معارف دينى كا ادراك صرف عقل سليم كے سائے ميں ممكن ہے _و من يؤت الحكمة و ما يذّكر الا اولوا الالباب اس نكتے ميں حكمت كو معارف اور دينى حقائق كے معني ميں ليا گيا ہے_

٨_ ناسمجھ لوگ حكمت اور معارف دينى سے بے بہرہ ہيں _يؤتى الحكمة من يشاء و ما يذكر الا اولو الالباب

٩_ معارف و حقائق دينى كا ادراك اور پھر ان كے مطابق عمل كرنا خداوند متعال كى عطا كردہ حكمت ہے_

يؤتى الحكمة من يشاء اس آيت كے سابقہ آيات ( كہ جو انفاق كے ضرورى ہونے، اسكے اچھے نتائج اور ترك انفاق كے بُرے نتائج كے متعلق ہيں سب كے سب دينى احكام اور معارف ہيں ) كے ساتھ ارتباط كو مدنظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتاہے كہ حكمت سے مراد دينى معارف اور حقائق ہيں _

١٠_ خداوند عالم كى اطاعت اور امام كى شناخت حكمت ہے_و من يؤت الحكمة فقد اوتى خيرا كثيرا

امام صادق (ع) فرماتے ہيں ''ومن يؤت الحكمة ...''طاعة الله و معرفة الامام يہ خدا كى اطاعت اور امام كى شناخت ہے(١)

١١ _ معرفت اور دين كى سمجھ بوجھ حكمت ہے_و من يؤت الحكمة

امام صادق (ع) اس آيت كے متعلق ايك سوال

____________________

١) كافى ج ١ ص ١٨٥ ح ١١ ، نورالثقلين ج ١ ص ٢٨٧ ح ١١٣٠_

۲۹۸

كے جواب ميں فرماتے ہيں _ان الحكمة المعرفة والتفقة فى الدين بے شك حكمت، معرفت اور دين كى سمجھ بوجھ ہے(١)

١٢_ امام كى شناخت اور كبيرہ گناہوں سے پرہيز حكمت ہے_و من يؤت الحكمة

امام صادق (ع) اس آيت كے متعلق فرماتے ہيں :معرفة الامام واجتناب الكبائرالتى اوجب الله عليها النار يہ امام كى شناخت اور ان كبيرہ گناہوں سے پرہيز ہے جن پر خدا تعالى نے آتش جہنم كو لازم قرار ديا ہے(٢)_

اطاعت: خدا كى اطاعت ١٠

انفاق: انفاق كے انفرادى اثرات ٢; پسنديدہ چيزوں سے انفاق ٢; راہ خدا ميں انفاق ٢

انفاق كرنے والا: اسكے فضائل ٢

تعقل وتفكر: اسكى اہميت ٦ ; اسكى قدر و قيمت ٦;اسكے اثرات ٥;اس كے نہ ہونے كے اثرات ٨

حديث: ١٠،١١،١٢

حكمت : حكمت عبرت كا سرچشمہ ٥;حكمت كا عطا كرنا ١;حكمت كے اثرات ٤;حكمت كے موارد ٩ ، ١٠،١١ ، ١٢;حكمت كے موانع ٨

خير: خير كا پيش خيمہ٤

خدا تعالى: خدا تعالى كى مشيت ١;خدا كے عطيئے١

دين : دين كى گہرى سمجھ بوجھ ٧ ، ٩، ١١

راہبر: راہبر كى شناخت ١٠، ١٢

شرعى فريضہ : شرعى فريضہ پر عمل ٩

شناخت : شناخت كے وسائل و ذرائع ٧

صاحبان حكمت :

____________________

١) تفسير عياشى ج ١ ص ١٥١ ح ٤٩٨ ، نورالثقلين ج١ ص ٢٨٧ ح ١١٣٥_

٢) كافى ج ٢ ص ٢٨٤ ح ٢٠ نورالثقلين ج ١ ص ٢٨٧ ح ١١٣١_

۲۹۹

صاحبان حكمت كے فضائل ٣

صاحبان عقل : صاحبان عقل كا عبرت حاصل كرنا ٥; صاحبان عقل كے فضائل ٦

عمل : عمل صالح٩

گناہ : گناہ سے اجتناب ١٢;گناہ كبيرہ ١٢

وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ (٢٧٠)

او رتم جو كچھ بھى راہ خدا ميں خرچ كرو گے يا نذر كرو گے تو خدا اس سے باخبر ہے البتہ ظالمين كا كوئي مددگار نہيں ہے _

١_ خدا تعالى انفاق اور نذر و نياز كى كميت اور كيفيت سے آگاہ ہے اگر چہ معمولى ہو_و ما انفقتم من نفقة او نذرتم من نذر فان الله يعلمه نذر سے مراد انسان كا نيك عمل كو انجام دينے پر اپنے آپ كو ذمہ دار اور پابند بنانا ہے_

٢_ خدا تعالى بندوں كے انفاق اور نذر كى جزاديتاہے چاہے وہ معمولى ہى ہوں _و ما انفقتم من نفقة فان الله يعلمه

بندوں كے اعمال كے بارے ميں خدا تعالى كا آگاہ ہونا ان اعمال كى الہى پاداش سے كنايہ ہے_

٣_ خدا تعالى بندوں كے چھوٹے سے چھوٹے عمل سے بھى آگا ہے_و ما انفقتم من نفقة فان الله يعلمه

نفقہ اور نذر كا نكرہ ہونا انكى ہر قسم اور ہر مقدار كو شامل ہے چاہے وہ بہت كم ہى ہوں _

٤_ خدا تعالى كا انفاق اور نذر كى طرف ترغيب دلانا چاہے وہ كم ہى ہوں _و ما انفقتم من نفقة اور نذرتم من نذر فان الله يعلمه خداوند عالم كا نيك اعمال سے آگاہ ہونا اسكى طرف سے پاداش دينے سے كنايہ ہے ا ور جزا كو بيان كرنے كى غرض نيك اعمال كى طرف رغبت دلاناہے_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749