تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172765 / ڈاؤنلوڈ: 6319
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نعمت سے مناسبت ركھتا ہو_و اذكروه كما هداكم

١٤_ خداوند متعال انسانوں كا ہادى اور معلم ہے_كما هداكم

١٥_ انسان ہدايت الہى كے بغير گمراہى ميں ہے_وان كنتم من قبله لمن الضالين

١٦_ اسلام سے پہلے لوگ گمراہ تھے_وان كنتم من قبله لمن الضالين

١٧_ ايام حج ميں خريد و فروخت كے جواز كا وقت ، مناسك حج كى تكميل اور احرام كھولنے كے بعد ہے_ليس عليكم جناح ان تبتغوا فضلا من ربكم آيت ''ليس عليكم ...''كے بارے ميں امام صادق (ع) فرماتے ہيں :''الرزق اذا احل الرجل من احرامه وقضى نسكه فليشتر و ليبع فى الموسم'' (١)يعنى طلب رزق اس وقت جائزہے جب آدمى احرام سے نكل آئے اور مناسك ادا كرلے تو اس كے بعد وہ خريد و فروخت كرسكتا ہے_

١٨_ حضرت جبرائيل (ع) كا حضرت ابراہيم (ع) كوعرفات ميں يوں خطاب كرنا ''اعرف بہا مناسكك و اعترف بذنبك'' اس مقام كا عرفات نام پڑنے كا موجب_فاذا افضتم من عرفات امام محمد باقر (ع) اور امام جعفرصادق (ع) نے ارشاد فرمايا:فقال جبرئيل(ع) هذه عرفات فاعرف بها مناسكك و اعترف بذنبك فسمّى عرفات (٢) جبرئيل (ع) نے حضرت ابراہيم (ع) سے كہا يہ عرفات ہے اپنے مناسك كو پہچان ليں اور اپنے گناہوں كا اعتراف كريں پس اسے عرفات كہا جانے لگا_ احكام: ١، ٦، ٧، ٨، ١٠، ١٧

اسلام: صدراسلام كى تاريخ ٢

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى ربوبيت ٥; فضل الہي٥;نعمات الہي١٢، ١٣; ہدايت الہى ١٤، ١٥

انسان: انسان كى روزى ٤

جاہليت: تاريخ جاہليت ١٦، عقيدہ جاہليت ٢

جبرائيل (ع) : ١٨

حج: احكام حج ١،٦،٧، ٨، ١٠، ١٧; حج ميں خريد و فروخت١، ٢، ١٧;حج ميں كام١

____________________

١) تفسير عياشى ج ١ ص٩٦ ح ٢٦٢، تفسير برہان ج١ ص٢٠١ ح ١ _

٢) كافى ج ٤ ص٢٠٧ ح ٩، علل الشرايع ج ٢ ص ٤٣٦ ح ١ باب ١٧٣_

۲۱

حضرت ابراہيم (ع) : حضرت ابراہيم (ع) اور جبرئيل (ع) ١٨

ذكر: ذكرخدا ٨، ١٠، ١١، ١٢، ١٣ زما نہ بعثت كے قريب كى تاريخ: ١٦

عرفات: عرفات كانام ركھنا ١٨; عرفات ميں وقوف ٦، ٧

كام: كام كى اہميت ٣

گمراہي: گمراہى كے اسباب ١٥

مشعر الحرام: مشعر الحرام ميں ذكر ٨، ١٠; مشعر الحرام كا تقدس ٩; مشعر الحرام ميں وقوف ٧

معاملہ: ١٧

مقدس مقامات: ٩

نام: نام كا كردار١٨

واجبات: ٧، ٨

ہدايت: ہدايت كى نعمت ١٣

ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (١٩٩)

پھر تمام لو گوں كى طرح تم بھى كوچ كرو اور الله سے استغفار كرو كہ الله بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے _

١_ مشعر جانے كيلئے ضرورى ہے كہ دوسرے لوگوں كى طرح عرفات سے كوچ كريں _ثم افيضوا من حيث افاض الناس بعض كے نزديك جملہ''ثم افيضوا'' عرفات سے كوچ (افاضہ) كى تاكيد ہے، ''من حيث''كے قرينے سے كيونكہ قريش اوران

۲۲

كے حليف عام لوگوں كے برعكس ، عرفات سے كوچ نہيں كرتے تھے_

٢_ عرفات ميں وقوف، مناسك حج ميں سے ہے_ثم افيضوا من حيث افاض الناس اس لحاظ سے كہ اگر افاضہ سے مراد عرفات سے كوچ كرنا ہو تو اس كا لازمہ يہ ہوگا كہ عرفات ميں وقوف كيا جائے_

٣_ عام لوگوں كے ہمراہ مشعرالحرام سے كوچ كرنا ضرورى ہے_ثم افيضوا من حيث افاض الناس اس آيت ميں ''ثم''كا لفظ دلالت كرتا ہے كہ افاضہ سے مراد مشعر سے كوچ كرنا ہے_

٤_ حج ميں كسى قبيلہ يا گروہ كو ايك دوسرے پر كسى قسم كى برترى اور فوقيت حاصل نہيں ہے_ثم افيضوا من حيث افاض الناس آيہ كريمہ كے ذيل ميں منقول اس بات كے پيش نظر كہ قريش كے كچھ لوگ اپنے آپ كو دوسرے لوگوں سے جدا سمجھتے تھے اور عرفات ميں وقوف نہيں كرتے تھے_

٥_مشعرالحرام كا وقوف حج كے مناسك ميں سے ہے_ثم افيضوا من حيث افاض الناس اس صورت ميں كہ جب''ثم افيضوا'' مشعر الحرام سے متعلق ہو_

٦_ بارگاہ خداوندى ميں توبہ اوراستغفار ضرورى ہے_و استغفروا الله ان الله غفور رحيم

٧_ حج ميں اپنى امتيازى حيثيت كا خيال ركھنے والے قريش كيلئے خدا تعالى كا حكم ہے كہ اس امتيازى حيثيت اپنانے كے گناہ سے استغفار كريں *_ثم افيضوا من حيث افاض الناس و استغفروا الله امتيازى حيثيت (من حيث افاض الناس) كو رد كر كے، استغفار كا حكم دينا اس بات كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے كہ يہ عمل گناہ ہے اور اس پر استغفار كرنا ضرورى ہے_

٨_ عرفات اورمشعر سے كوچ كرتے وقت استغفار كرنا ضرورى ہے_ثم افيضوا و استغفروا الله

اس مطلب ميں جملہ''ثم افيضوا''كے بارے ميں مذكور ہر دو نظريات (افاضہ عرفات يا افاضہ مشعر) كا خيال ركھا گيا ہے_

٩_ خداوند عالم غفور و رحيم ہے_ان الله غفور رحيم

١٠_ استغفار كرنے والوں كے لئے رحمت اور بخشش كا خداوند متعال نے وعدہ كيا ہے_و استغفروا الله ان الله غفور رحيم اگرچه مذكورہ بالا آيت عرفات اورمشعر سے كوچ كرنے والوں كے بارے ميں ہے ليكن''ان

۲۳

الله غفور رحيم''كى علت عام ہے لہذا بخشش اور رحمت كا وعدہ بھى تمام استغفار كرنے والوں كو شامل ہو گا _

١١_ حضرت ابراہيم (ع) ، حضرت اسماعيل (ع) ، حضرت اسحاق (ع) ، اور ديگرحاجيوں كى طرح عرفات سے كوچ كرنا ضرورى ہے_ثم افيضوا من حيث افاض الناس امام صادق (ع) آيت''ثم افيضوا ... ''كے بارے ميں فرماتے ہيں :يعنى ابراهيم و اسماعيل و اسحاق فى افاضتهم منها و من كان بعدهم _ (١)

١٢_ قريش سمجھتے تھے كہ ان پر عرفات سے كوچ كرنا ضرورى نہيں ہے_ثم افيضوا من حيث افاض الناس

امام صادق (ع) نے فرمايا:اولئك قريش كانوا يقولون:نحن اولى الناس بالبيت و لايفيضون الا من المزدلفة، فامرهم الله ان يفيضوا من عرفة (٢)''يہ قريش تھے جو كہتے تھے ہم بيت الله پر ديگر لوگوں كى نسبت زيادہ حق ركھتے ہيں وہ صرف مزدلفہ سے كوچ كرتے تھے خدا وند عالم نے انہيں حكم ديا كہ عرفات سے كوچ كريں ''_

١٣_ عرفات اورمشعر سے كوچ كرتے وقت خدا سے مغفرت طلب كرنے والے خدا كى رحمت و مغفرت سے بہرہ مند ہوتے ہيں _ثم افيضوا ...واستغفروا الله ان الله غفور رحيم

١٤_ عرفات سے اہل بيت (ع) كى طرح كوچ كرنا لازمى ہے_ثم افيضوا من حيث افاض الناس

امام حسين (ع) نے فرمايا:فنحن الناس و لذلك قال الله تعالى ذكره فى كتابه:''ثم افيضوا من حيث افاض الناس'' (٣) الناس سے مراد ہم اہل بيت (ع) ہيں اور اسى وجہ سے اللہ تعالى نے اپنى كتاب ميں ارشاد فرماياہے پھر كوچ كرو وہاں سے جہاں سے لوگ كوچ كريں ''_

احكام: ١، ٢، ٣، ٥

استغفار: استغفار كى اہميت ٦، ٧، ٨، ١٠، ١٣

اسماء و صفات: رحيم ٩، غفور ٩

____________________

١) كافى ج ٤ ص ٢٤٧ ح ٤; نور الثقلين ج ١ ص ١٩٦ ح ٧١٩_

٢) تفسير عياشى ج ١ ص ٩٦ ح ٢٦٣، نور الثقلين ج١ ص ١٩٥ ح ٧١٠_

٣) كافى ج ٨ ص ٢٤٤ ح ٣٣٩ ،تفسير برھان ج ١ ص٢٠١ ح ٢_

۲۴

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى بخشش ١٠، ١٣ ; اوامر الہى ٧; رحمت الہي١٠، ١٣; وعدہ الہي١٠

اہل بيت (ع) : اہل بيت (ع) كو نمونہ عمل قرار دينا ١٤

حج: حج كے احكام ١ ،٢، ٣، ٥، ١١; مناسك حج٤، ٥، ٨

حضرت ابراہيم (ع) : حضرت ابراہيم (ع) حج ميں ١١

حضرت اسحاق (ع) : حضرت اسحاق (ع) حج ميں ١١

رحمت: رحمت جن كے شامل حال ہے ١٣

روايت: ١١، ١٢، ١٤

عرفات: عرفات ميں استغفار ٨، ١٣; عرفات ميں وقوف ٢، ١١، ١٤

قريش: قريش كا احساس برتري٧; قريش كا عقيدہ ١٢; قريش اور عرفات ١٢

گناہ: گناہوں كى مغفرت ١٠; گناہوں سے استغفار ٧

مشعر الحرام: مشعر الحرام ميں استغفار ٨، ١٣; مشعر الحرام ميں وقوف ١، ٣، ٥

مقدس مقامات: ١، ٢، ٣، ٥، ٨، ١١، ١٢، ١٣، ١٤

نسلى امتياز: نسلى امتياز كى نفى ٤

۲۵

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ (٢٠٠)

پھر جب سارے مناسك تمام كر لو تو خدا كو اسى طرح ياد ركھو جس طرح اپنے باپ دادا كو ياد كرتے ہو بلكہ اس سے بھى زيادہ كہ بعض لوگ ايسے ہيں جو كہتے ہيں كہ پروردگار ہميں دنيا ہى ميں نيكى دے دے اور ان كا آخرت ميں كوئي حصّہ نہيں ہے _

١_ مناسك حج كى تكميل كے بعد خدا كا ذكر ايسے ہى كرو جيسے اپنے آباء و اجداد كا ذكر كرتے ہو بلكہ اس سے بھى زيادہ كرو_

فاذا قضيتم مناسككم او اشد ذكرا

٢_ مناسك حج كے بعد آباء و اجدادپر فخر و مباہات كرنا زمانہ جاہليت كے طور طريقے تھے_فاذكروا الله كذكركم آبائكم

٣_ دعا كے آداب ميں سے ہے كہ خدا كى ربوبيت پر خاص توجہ ہو_من يقول ربنا آتنا

٤_ ان لوگوں كى مذمت جو مناسك حج كى ادائيگى كے بعد خداوند عالم سے صرف دنياوى منافع طلب كرتے ہيں _

فمن الناس من يقول ربنا اتنا فى الدنيا

٥_ دنيادارحسن و زيبائي كو صرف دنياوى وسائل اور اس كے منافع كے حصول ميں خيال كرتے ہيں _فمن الناس من يقول ربنا اتنا فى الدنيا كيونكہ انہوں نے اپنى دعاؤں ميں ''حسنةً '' كا لفظ ذكر نہيں كيا_ اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ جو كچھ بھى اس دنيا ميں ہے وہ ان سب كو خوبصورت گمان كرتے ہيں _

٦_ دنيا كے طالب آخرت كى نعمتوں سے محروم ہونگے_و ما له فى الاخرة من خلاق بعد والى آيت اس بات كا قرينہ ہے كہ دنيادار لوگ وہ ہيں جو آخرت كى طرف كسى قسم كى رغبت نہيں ركھتے اور دنيا كے طالب ہيں چاہے خداوندعالم راضى ہو يا ناراض _

٧_ دنيا دار حاجى اخروى نعمتوں سے محروم ہونگے_

۲۶

فاذا قضيتم مناسككم فمن الناس من يقول ربنا و ما له فى الاخرة من خلاق

٨_ بعض لوگ خدا وند عالم سے صرف دنيا طلب كرتے ہيں _و من الناس من يقول ربنا اتنا فى الدنيا

كيونكہ بعد والى آيت ميں جس گروہ كا ذكر ہوا ہے وہ دنيا كے ساتھ ساتھ آخرت كے بھى طلب گار ہيں لہذاقرينہ مقابلہ كے مطابق پہلا گروہ صرف دنيا كا طالب ہے_

٩_ خداوند متعال سے دعا اور درخواست كرنااس كا ذكر ہے_فاذكروا الله فمن الناس من يقول ربنا

١٠_ دنيا طلب حاجيوں كى دنياوى حاجات اور دعائيں قبول ہوجاتى ہيں _فمن الناس من يقول ربنا آتنا فى الدنيا و ما له فى الاخرة من خلاق جملہ''و مالہ '' ميں ''واو عاطفہ''سے پتہ چلتا ہے كہ يہاں ''نؤتيہ'' (ہم اسے دنيا ميں عطا كريں گے) جيسا جملہ مخدوف ہے اور آخرت سے اسے كچھ نہيں ملے گا_

١١_ حج كى ادائيگى كے بعد اپنے آباء و اجداد پر فخر و مباہات كى بجائے خدا كا ذكر كرنا چاہيئے_فاذا قضيتم مناسككم فاذكروا الله امام باقر (ع) فرماتے ہيں :و يعدّون مفاخر آبائهم فامرهم الله سبحانه، ان يذكروه مكان ذكرهم آبائهم فى هذا الموضع (١) اپنے آباء و اجداد كے كارناموں كا ذكر كرتے تھے تو خداوند متعال نے انھيں حكم ديا كہ وہ انكے ذكر كى بجائے اس مقدّس مقام پر خدا كا ذكر كريں _

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى ربوبيت ٣

جاہليت: جاہليت كى رسوم ٢

حج: حج ميں تفاخر ٢، ١١; حج ميں دعا ١٠; حج ميں دنيا طلبى ٤، ٧; حج ميں ذكر ١١

دعا: دعا كى قبوليت ١٠; دعا كے آداب ٣;دعا ميں دنيا طلبى ٨، ١٠;

دنيا: وسائل دنيا ٥

دنيا پرست: دنيا پرستوں كاطرز تفكر ٥ ;دنيا پرستوں كى آخرت فروشى ٦ ;دنيا پرستوں كى محروميت ٧

دنيا پرستي: دنيا پرستى كے اثرات ٧;دنيا پرستى كى سرزنش ٤

____________________

١) مجمع البيان ج٢ص ٥٢٩،نور الثقلين ج ١ ص١٩٨ح ٧٢٢ _

۲۷

ذكر: دعا كے ساتھ ذكر ٩ ;ذكر خدا، ١، ٩، ١٠، ١١;ذكر كى اہميت ١

روايت: ١٠، ١١

فخر و مباہات: اپنے آبا واجداد پر فخر و مباہات كرنا ٢، ١١

معاشرتى گروہ: ٤، ٥، ٨

وِمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (٢٠١)

اور بعض كہتے ہيں كہ پروردگار ہميں دنيا ميں بھى نيكى عطا فرما اور آخرت ميں بھى اور ہم كو عذاب جہنم سے محفوظ فرما _

١_ ان لوگوں كى تعريف و تمجيد جو مناسك حج كى ادائيگى كے بعد دنيا و آخرت كى بھلائي اور جہنم كى آگ سے نجات كے خواہاں ہيں _و منهم من يقول ربنا آتنا فى الدنيا حسنة و فى الاخرة حسنة و قنا عذاب النار

٢_ خدا وند متعال كے مقام ربوبيت سے مانگنا دعا كے آداب ميں سے ہے_ربنا آتنا

٣_ خدا وند عالم سے مانگنے اور دعا كرنے كا طريقہ سكھلانا_و منهم من يقول ربنا آتنا فى الدنيا حسنة و فى الاخرة حسنة و قنا عذاب النار

٤_ آخرت كى خواہش اور دنيا كى طلب كے درميان كوئي تضاد نہيں ہے_و منهم من يقول ربنا آتنا فى الدنيا حسنة و فى الاخرة حسنة و قنا عذاب النار

٥_ ہر قسم كا آرام و آسائش مذموم نہيں ہے_ربنا آتنا فى الدنيا حسنة

٦_ دنيا ميں حسنہ سے مراد وسيع روزى اور اچھا اخلاق ہے جبكہ آخرت ميں حسنہ كا مطلب خداوند عالم كى رضا اور جنت ہے_ربنا آتنا فى الدنيا حسنة

امام صادق (ع) ''ربنا آتنا''كے بارے ميں فرماتے ہيں :رضوان الله و الجنة فى الاخرة و السعة فى الرزق و المعاش و حسن الخلق فى الدنيا (١)_رضائے الہى اور جنت آخرت ميں اور وسعت رزق و معاش اور حسن خلق دنيا ميں

____________________

١) معانى الاخبار ص ١٧٥، نور الثقلين ج١ ص ١٩٩ ح٧٢٥ و ٧٢٨_

۲۸

آخرت: آخرت كا دنيا سے رابطہ ١ آخرت طلبي: آخرت طلبى اور دنيا طلبى ٤

آسائش : جائز آسائش٥

اخلاق: پسنديدہ اخلاق ٦

جنت: ٦

حج: حج ميں دعا ١

حسنہ: اخروى حسنہ ٦; دنياوى حسنہ ٦

خدا تعالى: خدا تعالى كى ربوبيت ٢; رضا ئے الہى ٦

دعا: دعا كے آداب ١، ٢، ٣

روايت: ٦

روزي: وسيع روزي٦

معاشرتى گروہ: ١

أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُواْ وَاللّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (٢٠٢)

يہى وہ لوگ ہيں جن كے لئے ان كى كمائي كا حصّہ ہے او رخدا بہت جلد حساب كرنے والا ہے _

١_ جو لوگ دنيا اور آخرت ميں حسنہ كے طالب ہيں انہوں نے جو كچھ انجام ديا ہے اس كا انہيں فائدہ ہوگا_

و منهم من يقول ربنا آتنا اولئك لهم نصيب مما كسبوا

٢_ مقصد و ہدف تك پہنچنے كيلئے دعا كا اثر _ربنا آتنا فى الدنيا حسنة اولئك لهم نصيب

٣_ مقصد كو پانے كيلئے دعا كے ساتھ سعى و كوشش بھى

۲۹

شرط ہے_ربنا آتنا اولئك لهم نصيب مما كسبوا يہ اس صورت ميں ہے كہ''مما كسبوا''سے مراد ان كى دعا ہو_

٤_ دعا كرنا بھى ايك قسم كى كمائي ہے_ربنا اولئك لهم نصيب مما كسبوا

٥_ صرف انہى لوگوں كو اپنے حج سے فائدہ پہنچے گا جو حج كى ادائيگى كے بعد دنيا و آخرت كى بھلائي كے طالب ہوں _

فاذا قضيتم مناسككم اولئك لهم نصيب مما كسبوا يہ اس صورت ميں ہے كہ''مما كسبوا''سے مراد فريضہ حج كى ادائيگى ہو_

٦_ خداوند عالم بہت تيزى سے حساب لينے والا ہے_و الله سريع الحساب

٧_ خداوند عالم تمام انسانوں كے اعمال كا ايك ساتھ حساب كرے گا_و الله سريع الحساب

اميرالمومنين (ع) نے فرمايا:''معناه انه يحاسب الخلق دفعة كما يرزقهم دفعة' ' خدا تعالى تمام مخلوقات كا حساب ايك ساتھ اسى طرح كرے گا جس طرح سب كو رزق ايك ساتھ ديتا ہے_

اسماء و صفات: سريع الحساب ٦، ٧

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا بندوں سے حساب لينا ٧

ترقي: ترقى كے اسباب ٢، ٣

حج: حج ميں دعا ٥

حسنہ: اخروى حسنہ ١، ٥; دنياوى حسنہ ١، ٥

دعا: دعا اور عمل ٣;دعاكى حقيقت٤; دعا كى شرائط قبوليت٣، ٥; دعا كے اثرات ١، ٢

روايت: ٧

عمل: عمل كاحساب كتاب٧ ;عمل كى جزا ١، ٥

____________________

١) مجمع البيان ج ٢ ص ٥٣١، نور الثقلين ج ١ ص٢٠٠ ح ٧٣١_

۳۰

وَاذْكُرُواْ اللّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (٢٠٣)

اور چند معين دنوں ميں ذكر خدا كرو _ اس كے بعد جو دو دن كے اندر جلدى كر ے گا اس پربھى كوئي گناہ نہيں ہے اورجو تا خير كرے گا اس پر بھى كوئي گناہ نہيں ہے بشرطيكہ پرہيزگار رہا ہو اور الله سے ڈرو اوريہ ياد ركھو كہ تم سب اسى كى طرف محشور كئے جاؤ گے _

١_ حاجى پر كچھ معين دنوں (ايام تشريق) ميں خدا كا ذكر كرنا وا جب ہے_و اذكروا الله فى ايام معدودات

ان معين دنوں سے مراد ايام تشريق (گيارہ، بارہ، اور تيرہ ذى الحج) ہيں _

٢_ حج كے دوران ذكر خدا انتہائي اہميت ركھتا ہے_فاذكروا الله و اذكروه فاذكروا الله و اذكروا الله

٣_ معين دنوں (ايام تشريق) ميں مني ميں رہنا حج كے مناسك ميں سے ہے_و اذكروا الله فى ايام معدودات فمن تعجل فى يومين فلا اثم عليه و من تاخر فلا اثم عليه

٤_ حاجى كو اختيار ہے كہ مني سے بارہ ذى الحج كو كوچ كرے يا تيرہ ذى الحج كو، بشرطيكہ تقوي كي پابندى كرے_

فمن تعجل فى يومين فلا اثم عليه و من تاخر فلا اثم عليه لمن اتقي

٥_ خوف خدا اورتقوي كى پاسبانى ضرورى ہے_و اتقوا الله

٦_تقوي الہى فريضہ حج كى ادائيگى كا پيش خيمہ ہے_و اتقوا الله اس بات كے پيش نظر كہ مناسك حج بيان كرنے كے بعد تقوي كا ذكر كيا گيا ہے_

٧_ سب لوگوں كا حشر و نشر اوربازگشت صرف خدا وند عالم كى طرف ہوگي_و اعلموا انكم اليه تحشرون

٨_ قيامت اور خدا وند عالم كى جانب بازگشت پر توجہ

۳۱

تقوي كى رعايت كا باعث بنتى ہے_فاذا قضيتم مناسككم و اتقوا الله و اعلموا انكم اليه تحشرون

٩_ قيامت كى ياد، مناسك حج كى ادائيگى ميں مددگار ثابت ہوتى ہيں _و اعلموا انكم اليه تحشرون كيونكہ مناسك حج كے بيان كرنے كے بعد قيامت كا ذكر ہوا ہے_

١٠_ حاجيوں كا اجتماع، ميدان محشر ميں انسانوں كے جمع ہونے كى ياد دلاتا ہے_و اعلموا انكم اليه تحشرون

١١_ اگر حج ميں تقوي كى رعايت كى جائے (جيسے محرمات احرام سے پرہيز) تو حج گناہوں كى بخشش كا باعث بنتا ہے_

فمن تعجل فى يومين فلا اثم عليه و من تاخر فلا اثم عليه لمن اتقي مذكورہ بالا مفہوم كى تائيد امام صادق (ع) سے مروى ايك روايت سے بھى ہوتى ہے كہ جس ميں آپ(ص) نے ''فمن تعجل في ...''كے بارے ميں فرمايا:''يرجع لاذنب لہ'' (١) حاجى گناہوں سے خالى ہوكر واپس پلٹتاہے_

١٢_ ''ايام معدودات''سے مراد ايّام تشريق ہيں _و اذكروا الله فى ايام معدودات حضرت امام صادق(ص) اس آيت كے بارے ميں فرماتے ہيں :هى ايّام التشريق (٢)

١٣_ جس حاجى كو ايّام تشريق ميں موت آ جائے اس كے گناہ بخش ديئے جاتے ہيں _فمن تعجل فى يومين فلا اثم عليه امام صادق (ع) آيت''فمن تعجل''كے بارے ميں فرماتے ہيں : من مات قبل ان يمضى فلا اثم عليہ(٣) جو شخص ايام تشريق گزرنے سے پہلے مرجائے اس پر كوئي گناہ نہيں ہے_

١٤_ اگر حاجى گناہا ن كبيرہ سے پرہيز كرے تو وہ گناہوں سے پاك ہوجاتا ہے_و من تاخر فلا اثم عليه لمن اتقي

امام صادق (ع) فرماتے ہيں : ...و من تاخر ...''فلا اثم عليہ'' اذا اتقى الكبائر (٤) اس پر گناہ نہيں ہے اگر وہ گناہان كبيرہ سے اجتناب كرے_

احكام: ١، ٣، ٤

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى طرف بازگشت٧

____________________

١) كافى ج ٤ ص ٣٣٧، نور الثقلين ج ١، ص ٢٠٣ ح ٧٤٤ و ٧٤٥_

٢) كافى ج ٤ ص ٥١٦ ح ٣، نور الثقلين ج ١ ،ص٢٠٠ ح٣٢ ٧ _ ٣) كافى ج ٤، ص ٥٢١ ح ١٠ ،نور الثقلين ج ١ ،ص٢٠١ ح٤٠ ٧_

٤) مجمع البيان ج ٢ ص ٥٣٢_

۳۲

انسان: ا نسان كاا نجام ٧; انسان كا محشور ہونا ٧، ١٠

ايام تشريق: ١، ٣، ١٢، ١٣

ايمان: آخرت پر ايمان كے عملى اثرات٨ ، ٩; ايمان و عمل كا رابطہ٨، ٩

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ٨; تقوي كى اہميت٤، ٥;تقوي كے اثرات ٦،٣ ١

حج: احكام حج ١، ٣، ٤; حج كى اہميت ٦;حج ميں اجتماع ١٠; حج ميں ذكر ١، ٢; حج ميں موت ١٣

حجاج: حجاج كى بخشش ١٣

ذكر: ذكر خدا ١ ، ٢;ذكر كى اہميت ٢; قيامت كا ذكر١٠

روايت: ١١، ١٢، ١٣

شرعى فريضہ : شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ ٦، ٩

علم: علم و عمل كا رابطہ٨، ٩

گناہ: گناہان كبيرہ ١٣;گناہوں كى بخشش ١٣، ١٤

مني: مني ميں وقوف ٣، ٤

واجبات: ١

وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (٢٠٤)

انسانوں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جن كى باتيں زندگانى دنيا ميں بھلى لگتى ہيں او روہ اپنے دل كى باتوں پر خدا كو گواہ بناتے ہيں حالا نكہ وہ بدترين دشمن ہيں _

١_ بعض لوگ مسلمانوں سے دشمنى كے باوجود ان كے دنياوى امور كى اصلاح كے لئے مكارانہ

۳۳

منصوبے پيش كرتے ہيں _و من الناس من يعجبك قوله فى الحيوة الدنيا و هو الد الخصام اس صورت ميں كہ''فى الحياة'' ''قولہ'' كے متعلق ہو_

٢_ بعض لوگوں كى دھوكہ اور فريب پر مبنى گفتگو سے نبى اكرم(ص) كا حيرت زدہ ہونا _و من الناس من يعجبك قوله فى الحيوة الدنيا يہ مفہوم مطلب نمبر ايك كى وضاحت كو مد نظر ركھتے ہوئے ہے_

٣_ منافق ريا كار اور تظاہر كرنے والے ہيں _و من الناس من يعجبك قوله فى الحيوة الدنيا و هو الد الخصام

٤_ رياكارى اور دوسروں كو دھوكہ و فريب دينا صرف دنيا ميں ممكن ہے_و من الناس من يعجبك قوله فى الحيوة الدنيا

يہ مطلب اس صورت ميں ہے كہ''فى الحياة الدنيا'' ،''يعجبك''كے متعلق ہو يعنى ان كى گفتگو كى دلچسپى اور حيرت انگيزى صرف دنيا تك محدود ہے_ كيونكہ آخرت تو حقيقتوں كے منكشف ہونے كا دن ہے_

٥_ پيغمبر اكرم(ص) لوگوں كى ظاہرى گفتگو پر توجہ فرماتے تھے_و من الناس من يعجبك قوله فى الحيوة الدنيا

٦_ پيغمبر اكرم (ص) كے علم كى محدوديت_و من الناس من يعجبك قوله فى الحيوة الدنيا

٧_ منافقين اپنے اظہارات كو ثابت كرنے كيلئے خدا تعالى كو شاہد بناتے ہيں اور اس كى قسم كھاتے ہيں _

و يشهد الله على ما فى قلبه

٨_ منافقين اپنے اغراض و مقاصد تك پہنچنے كيلئے مومنين كے اعتقادات اور مقدسات سے استفادہ كرتے ہيں _

و يشهد الله على ما فى قلبه

''خدا كى قسم'' مسلمانوں كے مقدسات ميں سے ہے جسے بعض لوگ اپنے بے بنياد عقائد قبول كروانے كيلئے ايك حربہ كے طور پر

۳۴

استعمال كرتے ہيں _

٩_ منافقين، مسلمانوں اور اصلاح معاشرہ كے سخت ترين دشمن ہيں _و من الناس و هو الد الخصام ''الخصام''خصم كى جمع ہے جو كہ دشمن كے معنى ميں ہے_

١٠_ مسلمانوں كے ساتھ سب سے زيادہ جنگ و جدال كرنے والے منافق ہيں _و من الناس و هو الد الخصام

اس صورت ميں كہ''الخصام''مصدر ہو اور خصومت و جدال كے معنى ميں ہو_

١١_ پيغمبر اكرم (ص) كيلئے بعض منافقين كے چہروں سے اللہ تعالى نے نقاب اتار دي_و من الناس و هو الد الخصام

١٢_ لوگوں كے اصلى عقائد جاننے كيلئے ان كا ظاہرى طور طريقہ اطمينان بخش معيار نہيں ہے_

و من الناس من يعجبك قوله فى الحيوة الدنيا و هو الد الخصام

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) اور لوگ ٥; آنحضرت (ص) كا تعجب ٢; آنحضرت (ص) كا علم ٦; آنحضرت (ص) كى سيرت ٥

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ١١

تظاہر: تظاہر كى حدود ٤

دشمن: دشمن اور اصلاح ٩; دشمنوں كا مكرو حيلہ ١; دشمنوں كى سازش ١

دنيا: دنياوى زندگى ٤

طور طريقہ: طور طريقہ كى بنياديں ١٢

عقيدہ: عقيدہ كى درستى كا معيار١٢

قسم: خدا كى قسم٧

۳۵

مسلمان: مسلمان اور منافقين١٠;مسلمانوں كے دشمن ٩، ١٠; مسلمانوں كے ساتھ دشمنى ١

معاشرتى گروہ: ٣

مقدسات: مقدسات سے سوء استفادہ ٧، ٨

مكر: مكر كى حدود ٤

منافقين: منافقين كا افشا١١;منافقين كا جھگڑنا ١٠; منافقين كا فساد برپا كرنا ٩;منافقين كا مكر٧، ٨ ; منافقين كى دشمنى ٩،٠ ١;منافقين كى رياكارى ٣ ; منافقين كے برتاؤ كا طريقہ ٣، ٧،٨

وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيِهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الفَسَادَ (٢٠٥)

اور جب آپ كے پاس سے منھ پھيرتے ہيں تو زمين ميں فساد بر پا كرنے كى كوشش كرتے ہيں اور كھيتيوں اور نسلوں كو بر باد كرتے ہيں جب كہ خدا فساد كو پسند نہيں كرتا ہے _

١_ اگر منافقين حكومت حاصل كر ليں تو وہ زمين ميں فساد اور كھيتى اور نسل بشريت كى تباہى و بربادى كى كوشش كرتے ہيں _و اذا تولى سعى فى الارض الحرث و النسل اس صورت ميں كہ''تولي''كے معنى حكومت

۳۶

حاصل كرنے كے ہوں _

٢_ منافقوں كا حكومت حاصل كرنے سے پہلے اصلاح طلبى كا اظہار كرنا اور حكومت كے بعد فساد برپا كرنا_

و من الناس من يعجبك و اذا تولى سعى فى الارض ليفسد فيها

٣_ منافق جب پيغمبر اكرم(ص) سے ملتے تو اصلاح طلبى كا اظہار كرتے اور آپ(ص) كى محفل سے اٹھتے ہى فساد كى كوششوں ميں مشغول ہو جاتے_*و من الناس من يعجبك و اذا تولى سعى فى الارض اس صورت ميں كہ جب ''اذا تولّي''كے معنى پلٹنےكے ہوں _

٤_ كھيتى باڑى كو تباہ و برباد كرنا اور نسل كشى كو رواج دينا، روئے زمين پر فساد كى روشن اور واضح مثاليں ہيں _

ليفسد فيها و يهلك الحرث و النسل اس صورت ميں كہ''و يھلك الحرث و ...'' جملہ''ليفسد فيها ''كى تفسير و بيان ہو_

٥_ كھيتى باڑى ، زراعت اور افرادى قوت كى غير معمولى اہميت اور معاشرے كے استحكام ميں ان كا بنيادى كردار_

و اذا تولي ...و يهلك الحرث و النسل اس اعتبار سے كہ ان دونوں كى تباہى و بربادى كو زمين كى تباہى و بربادرى قرار ديا گيا ہے ان كى بنيادى حيثيت و اہميت واضح ہوجاتى ہے_

٦_ اصلاح معاشرہ ، كھيتى باڑى اور نسل انسانى كى حفاظت صالح حكومت كى خصوصيات ميں سے ہے_

و اذا تولى ليفسد فيها و يهلك الحرث و النسل خداوند متعال نے فتنہ و فساد جيسے امور كو منافقوں كا كام شمار كيا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ صالحين كى حكومت ميں ايسے كام نہيں ہوتے_

٧_ غير صالح (كرپٹ) سياست دانوں كے اقتدار تك پہنچنے كيلئے منافقت سيڑھى كا كام ديتى ہے_ اس مفہوم ميں ''تولّي''كے معنى حكومت تك پہنچنے كے كئے گئے ہيں _

٨_ حكومت اور اقتدار، انسان كى پوشيدہ خصلتوں كو آشكار كرديتا ہے_و اذا تولى سعى فى الارض ليفسد فيها و يهلك

۳۷

٩_ خداوند عالم زمين ميں فساد كو ناپسند كرتا ہے_و الله لايحب الفساد

١٠_ فساد كرنے والا مبغوض خدا ہے_و الله لايحب الفساد

١١_ كھيتى باڑى اجاڑنااور نسل كشى كرنا خداوندعالم كى نظر ميں مبغوض ہے_و اذا تولى و يهلك الحرث و النسل والله لايحب الفساد

١٢_ منافقوں كى حكومت كا نتيجہ روئے زمين پر فساد كى صورت ميں ظاہر ہوتاہے_و اذا تولى سعى فى الارض ليفسد فيها

اس بنا پر كہ '' تولي''كے معنى حكومت تك پہنچنے كے ہوں _

١٣_ حكومت كى ذمہ دارى ہے كہ زراعت، اور افرادى قوت كى حفاظت كرے اور انكى اصلاح ميں كوشاں رہے_

و اذا تولى سعى فى الارض

١٤_ روئے زمين پر تباہى و بربادى ، بُرے اور بدكردار لوگوں كے اعمال اور ناصالح حكومتوں كى وجہ سے ہوتى ہے_

و اذا تولى ليفسد فيها

١٥_خداوند عالم نے خبردار كيا ہے كہ ہر كس و ناكس جو اصلاح طلبى كا نعرہ لے كر اٹھے، اس سے دھوكا نہ كھاؤ_

و من الناس من يعجبك و اذا تولى سعى فى الارض ليفسد

١٦_ فاسد اور فساد برپا كرنے والے حكم راں خدا كے مبغوضہيں _و اذا تولى و الله لايحب الفساد

١٧_ اخنس ابن شريق منافق، دشمن، فسادي، متكبر اور نصيحت قبول نہ كرنے والا تھا_و من الناس و اذا تولي

بعض مفسرين كے نزديك مذكورہ بالا آيت اخنس ابن شريق كے بارے ميں نازل ہوئي ہے جو منافقانہ طرز عمل ركھتا تھا (مجمع البيان) _

١٨_ منافقوں كا طريقہ كار عوام اور انكے دين كى تباہى ہے_و اذا تولى و يهلك الحرث و النسل

امام صادق (ع) فرماتے ہيں كہ ان''الحرث''فى ھذا الموضع الدين و''النسل'' الناس _ يہاں پر '' حرث'' سے مراد دين اور '' نسل'' سے مراد لوگ ہيں _

____________________

١) مجمع البيان ج٢، ص٥٣٤، نور الثقلين ج ١ ص٢٠٤ح ٧٥٤ و ٧٥٥ _

۳۸

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) اور منافقين ٣ اخنس ابن شريق: ١٧

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ٣، ١٧

اصلاح: اصلاح كى اہميت ١٣

اعلان: ١٧

اللہ تعالى: اللہ تعالى كاخبردار كرنا ١٥;اللہ تعالى كاغضب ١٠، ١١،٦ ١; اللہ تعالى كى محبت ٩

انحطاط: انحطاط كے اسباب و عوامل ١، ١١، ١٤

انسان: انسانى صفات ٨

حكومت : حكومت كى ذمہ دارى ٦،٣ ١; فاسد حكومت كے اثرات١٤

روايت: ١٨

زراعت: زراعت كو تباہ و برباد كرنا ٤، ١١;زراعت كى اہميت ٥، ٦، ١١،٣ ١

عمل: عمل كے اثرات ١٤

فاسد راہنما: فاسد راہنماؤں كا فساد پھيلانا ١٦; فاسد راہنماؤں كا مبغوضہونا١٦

فساد: فساد كى ناپسنديدگى ٩; فساد كے اسباب ١،٣ ١، ١٥; فساد كے موارد٤ فسادى عناصر: ١٨ فسادى عناصر كا مبغوض ہونا ١٠

قدرت : قدرت كے اثرات٨

مسلمان: مسلمانوں كے دشمن ١٨

معاشرہ: معاشرتى ڈھانچہ ٥; معاشرے كى اصلاح كى اہميت ٦; معاشرے كى تشكيل كے عوامل ٥

منافقين: ١٨

منافقين اور دين ١٨;منافقين كا برتاؤ ١، ٢، ٣، ٧، ١٢; منافقين كا فساد پھيلانا ١، ٢، ٣; منافقين كا نسل كشى كرنا، ٤، ١١ ;منافقين كى حكومت ١، ١٢;

۳۹

منافقين كى قدرت طلبى ٧; منافقين كے دعوے ٢، ٣

نسل: نسل كى حفاظت ٦

نسل كشي: نسل كشى كا مبغوض ہونا٤، ١١

نفاق: نفاق كا محرك ٧

وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ (٢٠٦)

جب ان سے كہاجاتا ہے كہ تقوى الہى اختيار كرو تو غرور گناہ آڑے آجاتا ہے ايسے لوگوں كے لئے جہنم كافى ہے جو بدترين ٹھكانا ہے _

١_ اصلاح طلبى كا جھوٹا دعوي كرنے والے رياكار منافقين كو جب تقوي الہى كى دعوت دى جاتى ہے تو اس كے مقابلے ميں غرور، تكبر اور ہٹ دھرمى كا مظاہرہ كرتے ہيں _و من الناس من يعجبك و اذا قيل له اتق الله اخذته العزة بالاثم

٢_ تقوى كى طرف بلائے جانے پر غرور و تكبر اور ہٹ دھرمى كا مظاہرہ كرنا ناصالح اور فاسد حكمرانوں كى نشانيوں ميں سے ہے_و اذا تولى سعى و اذا قيل له اتق الله اخذته العزة بالاثم اس صورت ميں كہ''تولي''كے معنى حكومت پانے كے ہوں _

٣_ گناہ كى وجہ سے پيدا ہونے والے غرور ، تكبر اور ہٹ دھرمى مفسد حكمرانوں كے نصيحت قبول كرنے ميں مانع ہوتے ہيں _و اذا قيل له اتق الله اخذته العزة بالاثم اس صورت ميں كہ''بالاثم''، ''العزة''سے متعلق ہو_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749