تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172861 / ڈاؤنلوڈ: 6321
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

رہے ہیں کہ آپ اپنے بیٹے کی بات سنین اور ان کی اطاعت کریں۔”

پیغمبر(ص) کی اس نص کا تذکرہ کن کن کتابوں میں موجود ہے

پیغمبر(ص) کے اس خطبہ کو بعینہ انہی الفاظ میں اکثر علمائے کبار و اجلہ محدثین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ جیسے ان اسحاق ، ابن جریر، ابنِ ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابونعیم  اور امام بیہقی نے اپنے سنن اور دلائل دونوں مٰیں ثعلبی اور طبری نے اپنی اپنی عظیم الشان تفسیروں میں سورہ شعراء کی تفسیر کے ذیل میں نیز علامہ طبری نے اپنی تاریخ طبری کی دوسری جلد صفحہ217 میں بھی مختلف طریقوں سے اس کو لکھا ہے اور علامہ ابن اثیر جزری نے تاریخ کامل کی دوسری جلد صفحہ22 میں بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔

مورخ ابو الفداء نے اپنی تاریخ کی پہلی جلد صفحہ116 میں سب سے پہلے اسلام لانے والے کے ذکر میں درج کیا ہے۔ امام ابوجعفر اسکافی معتزلی نے اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں اس حدیث کی صحت کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے( شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ263) علامہ حلبی نے آںحضرت(ص) اور اصحاب کے دار ارقم میں روپوش ہونے کے واقعہ کے ضمن میں بیان کیا ہے(1)   (سیرت حلبیہ ج، صفحہ381) ان کے علاوہ تھوڑے بہت لفظی تغیر کےساتھ مگر مفہوم و معنی

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 381 جلد اول سیرة حلبیہ۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو جھٹلانے اور غلط ثابت کرنے کی جو کوششیں کی ہیں۔ اپنی مشہور عصبیت کی وجہ سے وہ در خور اعتنا نہیں اس حدیث کو مصر کے سوشلسٹ ادیب محمد حسین ہیکل نے بھی لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ان کے رسالہ سیاست شمارہ نمبر2751 صفحہ 5 جپر عمود ثانی جو 12 ذیقعد سنہ1350ھ میں شائع ہوا۔ انھوں نے کافی تفصیل سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور شمارہ نمبر2685 صفحہ 6 پر عمود رابع میں انھوں نے اس حدیث کو صحیح مسلم، مسند امام احمد اور عبداﷲ بن احمد کی زیارات مسند اور ابن حجر ہیثمی کی جمع الفوائد، ابن قتیبہ کی عیون الاخبار، احمد بن عبدربہ قرطبی کی عقد الفرید، علامہ جاحظ کے رسالہ بنی ہاشم، امام ثعلبی کی تفسیر ، مذکورہ بالا تمام کتب سے نقل کیا ہے۔ مزید برآں جرجس انکلیزی سے اپنی کتاب مقالہ فی الاسلام مٰیں بھی اس حدیث کو درج کیا ہے جس کا بروتستانت کے ملحد نےعربی میں ترجمہ کیا ہے جس نے اپنا نام ہاشم عربی رکھا ہے۔ اس حدیث کی ہمہ گیر شہرت کی وجہ سے متعدد مورخین فرنگ نے فرانسیسی ، جرمنی، انگریزی تاریخوں میں اس کو ذکر کیا ہے اور ٹامنس کارلائل نے اپنی کتاب ابطال میں مختصر کر کے لکھا ہے۔

۱۶۱

کے لحاظ سے بالکل ایک ہی مضمون ۔ بہتیرے اعیان اہل سنت اور ائمہ احادیث نے اپنی اپنی کتابوں میں اس واقعہ کو تحریر کیا ہے جیسے علامہ طحاوی اور ضیاء مقدسی نے مختارہ ،سعید بن منصور نے سنن میں تحریر کیا ہے۔

سب سے قطع نظر امام احمد نے اپنی مسند جلد اول صفحہ 159 پر حضرت علی (ع) سے روایت کی ہے ۔ پھر اسی جلد کے صفحہ331 پر ابن عباس سے بڑی عظیم الشان حدیث اس مضمون کی روایت کی ہے، جس میں حضرت علی(ع) کی دس ایسی خصوصیتیں مذکور ہیں جن کی وجہ سے حضرت علی(ع) اپنے تمام ماسوا سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ اسی جلیل الشان حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب خصائص صفحہ 60پر ابن عباس سے روایت کر کے لکھا ہے اور امام حاکم نے صحیح مستدرک

۱۶۲

 جلد3 صفحہ 132 پر اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔

کنزالعمال جلد6 ملاحظہ فرمائیے(1) ۔ اس میں بھی یہ واقعہ بہت تفصیل سے موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال کو دیکھیے جو مسند احمد بن حنبل کے حاشیہ پر طبع ہوا ہے۔ حاشیہ مسند جلد5 صفحہ 41 تا صفحہ42 پر اس واقعہ کا ذکر موجود ہے اور پوری تفصیل کے ساتھ۔

میرے خیال میں یہی ایک واقعہ جسے تمام علماء محدثین ومورخین بالاتفاق اپنی کتابوں میں لکھتے آئے ہیں حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کا بین ثبوت اور صریحی دلیل ہے۔ کسی دوسری دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔

                                                                     ش

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال صفحہ 392 حدیث نمبر6008 جو ابن جریر سے منقول ہے صفحہ 396 پر حدیث 6045 جو امام احمد کی مسند نیز ضیاء مقدسی کی مختارہ ، طحاوی و ابن جریر کی صحیح سے منقول ہے صفحہ 397 پر حدیث 6056 جو ابن اسحق ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور ابو نعیم نیز بیہقی کی شعب الایمان اور دلائل سے منقول ہے صفحہ 401 پر حدیث 6102 جو ابن مردویہ سے منقول ہے صفحہ 408 پر حدیث 6155 جو امام احمد کی مسند اور ابن جریر اور صیاء مقدسی کی مختارہ سے منقول ہے۔ کنزالعمال میں یہ حدیث اور بھی مقامات پر مذکور ہے۔ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 255 پر یہ طولانی حدیث بہت تفصیل سے مذکور ہے۔

۱۶۳

مکتوب نمبر11

حدیث مذکورہ بالا کی سند میں تردد

تسلیم زاکیات!

آپ کا مخالف اس حدیث کی سند کو معتبر نہیں سمجھتا نہ کسی طرح اس حدیث کو صحیح سمجھنے پر تیار ہے کیونکہ شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس حدیث کو نہیں لکھا۔ نیز شیخین کے علاوہ دیگر اصحاب صحاح نے بھی نہیں لکھا ۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ یہ حدیث معتبر و معتمد راویاں اہلسنت سے مروی ہی نہیں ہوئی اور غالبا آپ بھی بطریق اہل سنت اسے صحیح نہ سمجھتے ہوں گے۔

                                                             س

۱۶۴

جواب مکتوب

نص کا ثبوت

اگر میرے نزدیک اس حدیث کی صحت خود بطریق اہلسنت ثابت نہ ہوتی تو میں اس محل پر اس کا ذکر ہی نہیں  کرتا۔ مزید برآں اس حدیث کی صحت تو ایسی اظہر من الشمس ہے کہ ابن جریر اور امام ابو جعفر اسکافی نے اس حدیث کو بطور مسلمات ذکر کیا ہے(1) ۔ اور کبار محققین اہل سنت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی صحت کا مختصرا آپ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ اصحاب صحاح جن ثقہ اور معتبر راویوں کی روایتوں سے استدلال کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے بڑی خوشی سے جن کی روایتوں کو لے لیتے ہیں انھیں معتبر و ثقہ راویوں کے طریقوں سے اس حدیث کی صحت ثابت ہے۔ اس حدیث کی روایت انھیں معتبر و موثق اشخاص نے کی ہے جن کی روایت کردہ حدیثیں صحاح میں موجود ہیں۔

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر حدیث 6045 جہاں آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ حاشیہ مسند احمد حنبل جلد5 صفحہ73 پر منتخب کنزالعمال میں بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ابو جعفر اسکافی نے تو اس حدیث کو بڑی پختگی کے ساتھ صحیح قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ان کی کتاب نقض عثمانیہ شرح نہج البلاغہ جلد3، صفحہ363

۱۶۵

مسند احمد بن حنبل جلد اول صفحہ 111 ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے اس حدیث کو(1) اسود بن عامر سے انھوں نے شریک(2) سے انھوں نے اعمش(3) سے انھوں نے منہال(4) سے انھوں نے عباد(5) بن عبداﷲ اسدی سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے مرفوعا روایت کرکے لکھا ہے۔ اس سلسلہ اسناد کے کل کے کل راوی مخالف

--------------

1 ـ امام بخاری و مسلم دونوں نے اس کی حدیث سے احتجاج کیا ہے ۔ شعبہ نے امام بخاری و امام مسلم دونوں کی صحت میں اسود سے روایت کر کے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا اور عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے امام بخاری کو ان سے روایت کرتے ہوئے اور زہیر بن معاویہ اور حماد بن سلمہ نے امام مسلم کو ان سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ صحیح بخاری میں محمد بن حاتم بزیع کی ان سے روایت کی ہوئی حدیث موجود ہے اور صحیح مسلم میں ہارون بن عبداﷲ اور ناقد اور ابن ابی شیبہ اور ابو زہیر کی ان سے روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

2 ـ امام مسلم نے ان حدیثوں سے اپنے صحیح مسلم میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 رپ ان کا تذکرہ کے ضمن میں وضاحت کی ہے۔

3 ـ ان سے امام بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 پر وضاحت کی ہے۔

4ـ امام بخاری نے ان سے احتجاج کیا ہے ملاحظہ ہو صفحہ166۔

5 ـ ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عباد بن عبداﷲ بن زہیر بن عوام قرشی اسدی۔ ان سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے ابوبکر کی دونوں صاحبزادیوں عائشہ اور اسماء سے حدیثیں سنیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان سے ابی ملیکہ اور محمد بن جعفر بن زہیر اور ہشام و عروہ کی روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

۱۶۶

کے نزدیک حجہ ہیں اور یہ تمام کے تمام رجال صحابہ ہیں۔ چنانچہ علامہ قیسرانی نے اپنی کتاب الجمع بین رجال الصحیحین  میں ان کا ذکر کیا ہے۔ لہذا اس حدیث کو صحیح ماننے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صرف اسی طریقہ وسلسلہ اسناد سے نہیں بلکہ اور بھی ب شمار طریقوں سے مروی ہے اور ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موید ہے۔

نص سے کیوں اعراض کیا؟

اور شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس لیے اس روایت کو اپنی کتاب میں  جگہ نہیں دی کہ یہ روایت مسئلہ خلافت میں ان کی ہمنوائی نہیں کرتی تھی ان ک منشاء کے خلاف تھی اسی وجہ سے انھوں نے اس حدیث نیز دیگر بہتیری ایسی حدیثوں سے جو امیر المومنین(ع) کی خلافت پر صریحی ںص تھیں گریز کیا اور اپنی کتاب میں درج نہ کیا۔ وہ ڈرتے تھے کہ یہ شیعوں کے لیے اسلحہ کا کام دیں گی لہذا انھوں نے جان بوجھ کر اس کو پوشیدہ رکھا۔

بخاری و مسلم ہی نہیں بلکہ بہتیرے شیوخ اہل سنت کا وتیرہ یہی تھا۔ اس قسم کی ہر چیز کو وہ چھپانا ہی بہتر سمجھتے تھے۔ ان کا یہ کتمان کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ان کی یہ پرانی اور مشہور عادت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں علماء سے نقل بھی کیا ہے، امام بخاری نے بھی اس مطلب میں ایک خاص باب قرار دیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری(1) حصہ اول کے کتاب العلم میں انھوں نے یہ عنوان قائم کیا ہے :

             “باب من خص بالعلم قوما دون قوم ۔”

--------------

1 ـ صفحہ51۔

۱۶۷

             “ باب بیان میں اس کےجو ایک قوم کو مخصوص کر کے علم تعلیم کرے اور دوسرے کو نہیں۔”

امیرالمومنین(ع) کےمتعلق امام بخاری کو روش اور آپ کے ساتھ نیز جملہ اہل بیت(ع) کے ساتھ ان کے سلوک سے جو واقف ہے اور یہ جانتا ہے کہ ان کا قلم امیرالمومنین (ع) واہل بیت(ع) کی شان میں ارشادات و نصوص پیغمبر(ص) کے بیان سے گریزاں رہتا ہے اور ان کے خصائص و فضائل بیان کرتے وقت ان کے دوات کی روشنائی خشک ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام بخاری کی اس حدیث یا اس جیسی دیگر حدیثوں کے ذکر نہ کرنے پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔

                                                                     ش

۱۶۸

مکتوب نمبر12

حدیث کی صحت کا اقرار

چونکہ دعوت عشیرہ والی حدیث حدِ تواتر کو نہیں پہنچتی اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مخصوص قسم کی خلافت ثابت ہوتی ہے۔

آپ کے ارشاد کے بموجب میں نے مسند احمد بن حنبل جلد اول کے صفحہ 111 پر اس حدیث کو دیکھا جن رجال سے یہ حدیث مروی ہے ان کی چھان بین کی۔ آپ کے کہنے کےمطابق وہ سب کے سب ثقات اہل سنت نکلے ۔ پھر میں نے اس حدیث کے دوسرے تمام طریق کو بغائر نظر مطالعہ کیا۔ بے شمار و بے اندازہ طریقے نظر آئے۔ ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موئد ہے۔ مجھے ماننا پڑا کہ یقینا یہ

۱۶۹

 حدیث پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس کے ثابت و مسلم ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ ایک بات ہے آپ لوگ اثبات امامت میں اس حدیث صحیح سے استدلال کرتے ہیں جو متواتر بھی ہو کیونکہ امامت آپ کے نزدیک اصول دین سے ہے اور یہ حدیث جو آپ نے پیش فرمائی ہے اس کے متعلق یہ کہنا غیر ممکن ہے کہ یہ تواتر تک پہنچی ہوئی اور جب حد تواتر تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ تو اس سے آپ لوگ استدلال بھی نہیں کرسکتے ۔

یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث صرف یہ بتاتی ہے کہ حضرت علی(ع) رسول(ص) کے جانشین تو تھے مگر خاص کر اہلبیت (ع) پیغمبر(ص) میں جانشین تھے۔ لہذا تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے ؟ اس حدیث سے خلافت عامہ کہاں ثابت ہوتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی اس لیے کہ آںحضرت(ص) نے اس حدیث کے مفاد کی طرف کبھی توجہ نہ کی اسی وجہ سے صحابہ کو خلفاء ثلاثہ کی بیعت میں کوئی مانع نہ نظر آیا۔

                                                             س

جواب مکتوب

اس حدیث سے استدلال کرنے کی وجہ

حضرات اہلسنت امامت کے اثبات میں ہر حدیث صحیح سے استدلال

۱۷۰

 کرتے ہیں خواہ کرتے ہیں خواہ وہ متواتر ہو یا غیر متواتر ۔ لہذا خود حضرات اہلسنت جس چیز کو حجہ سمجھتے ہیں ہم اسی چیز کو ان پر بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ جس چیز کو وہ خود مانتے ہیں ہم اسی سے انھیں قائل کرتے ہیں۔

رہ گیا یہ کہ ہم جو اس حدیث سے امامت پر استدلال کرتے ہیں تو اسکی وجہ ظاہر ہے کیونکہ یہ حدیث ہم لوگوں کے طریق سے صرف صحیح ہی نہیں بلکہ حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہے۔

مخصوص خلافت کو کوئی بھی قائل نہیں

یہ دعوی کرنا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی(ع) خاص کر اہلبیت(ع) میں جانشین پیغمبر(ص) تھے مہمل ہے کیونکہ جو شخص اہل بیت(ع) رسول(ص) میں حضرت علی(ع) کو جانشین رسول(ص) سمجھتا ہے وہ عامہ مسلمین میں بھی جانشین سمجھتا ہے اور جو عامہ مسلمین میں جانشین رسول(ص) نہیں مانتا وہ اہل بیت(ع) میں بھی نہیں مانتا۔ آج تک بس یہ دو ہی قسم کے لوگ نظر آئے۔ آپ نے یہ فرق کہاں سے پیدا کیا جس کا آج تک کوئی قائل نہیں ۔ یہ تو عجیب قسم کا فیصلہ ہے جو اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔

حدیث کا منسوخ ہونا ناممکن ہے

یہ کہنا کہ یہ حدیث منسوخ ہوچکی تھی یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کا منسوخ ہونا عقلا و شرعا دونوں جہتوں سے محال ہے کیونکہ وقت آنے کے پہلے ہی کسی حکم کا منسوخ ہونا۔ بداہتا باطل ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کو منسوخ کرنے والی آپ کے خیال کی بنا پر زیادہ سے زیادہ ایک چیز نکلتی ہے اور

۱۷۱

 وہ یہ کہ رسول اﷲ(ص) نے مفادِ حدیث کی طرف پھر توجہ نہ کی، پھر اعادہ نہ کیا۔ مگر یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ رسول(ص) نے مفاد حدیث سے کبھی بے توجہی نہیں کی۔ بلکہ اس حدیث کے ارشاد فرمانے کے بعد بھی وضاحت کرتے رہے۔ کھلے لفظوں میں، بھرے مجمع میں، سفر میں، حضر میں، ہر موقع ہر محل ہر صراحتہ اعلان فرماتے رہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ صرف دعوت عشیرہ ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین فرما کے رہ گئے پھر کبھی اس کی وضاحت نہیں کی تب بھی یہ کیسے معلوم کہ رسول(ص) نے بعد میں مفاد حدیث ؟؟؟؟؟ کیا آگے چل کر آپ کا خیال بدل گیا اپنے قول سے پلٹ گیا۔

“ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَ ما تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَ لَقَدْ جاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدى‏”(نجم، 23)

             “ وہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پروردگار کا جانب سے ہدایت آچکی ہے۔”

                                                                     ش

۱۷۲

مکتوب نمبر13

میں نے ان ںصوص کے آستانے پر اپنی پیشانی جھکا دی۔ کچھ اور مزید ثبوت۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

حضرت علی(ع) کی دس(10) ایسی فضیلتیں جس میں کی کوئی ایک بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں اور جس سے آپ(ع) کی خلافت کی صراحت ہورہی ہے۔

دعوت ذوالعشیرہ والی حدیث کے علاوہ یہ دوسری حدیث ملاحظہ ملاحظہ کیجیے جسے امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند کی پہلی جلد صفحہ 330 پر ، امام نسائی نے

۱۷۳

 اپنی کتاب خصائص علویہ کے صفحہ 6 پر ، امام حاکم نے اپنے صحیح مستدرک کی تیسری جلد کے صفحہ 123 پر ، علامہ ذہبی نے اپنی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نیز دیگر ارباب حدیث نے ایسے طریقوں سے جن کی صحت پر اہل سنت کا اجماع و اتفاق ہے نقل کیا ہے۔

عمروہ بن میمون سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ان کے پاس 9 سرداران قابل آئے۔ انھوں نے ابن عباس سے کہا کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ اٹھ چلیے یا اپنے پاس کے بیٹھے ہوئے لوگوں کو ہٹا کر ہم سے تخلیہ میں گفتگو کیجیے۔

ابن عباس نے کہا ۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ خود ہی چلا چلتا ہوں۔ ابن عباس کی بینائی چشم اس وقت باقی تھی۔ ابن عباس نے ان سے کہا:

                     “ کہیے کیا کہنا ہے؟”

گفتگو ہونے لگی ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیا گفتگو ہوئی۔ ابن عباس وہاں سے دامن جھٹکتے ہوئے آئے ۔ کہنے لگے:

             “ وائے ہو۔ یہ لوگ ایسےشخص کے متعلق بدکلامی کرتے ہیں جس کی دس سے زیادہ ایسی فضیلتیں ہیں جو کسی دوسرے  کو نصیب نہیں۔ یہ لوگ بدکلامی کرتے ہیں ایسے شخص کے متعلق جس کے بارے میں رسول(ص) نے فرمایا :

لأبعثنّ رجلا لا يخزيه اللّه أبدا، يحبّ اللّه و رسوله، و يحبّه اللّه و رسوله»، فاستشرف لها من استشرف فقال: «أين عليّ؟»، فجاء و هو أرمد لا يكاد أن يبصر، فنفث في عينيه،

۱۷۴

ثمّ هزّ الراية ثلاثة، فأعطاها إيّاه، فجاء عليّ بصفيّة بنت حيي. قال ابن عباس: ثمّ بعث رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) فلانا بسورة التوبة، فبعث عليّا خلفه، فأخذها منه، و قال: «لا يذهب بها إلّا رجل منّي و أنا منه»، قال ابن عباس: و قال النبيّ لبني عمّه: «أيّكم يواليني في الدنيا و الآخرة»، قال:- و عليّ جالس معه- فأبوا، فقال عليّ: أنا أوالئك في الدنيا و الآخرة، فقال لعليّ: «أنت وليّي في الدنيا و الآخرة». قال ابن عباس: و كان عليّ أوّل من آمن من الناس بعد خديجة. قال: و أخذ رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) ثوبه فوضعه على عليّ و فاطمة و حسن و حسين، و قال:إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً . قال: و شرى عليّ نفسه فلبس ثوب النبيّ، ثمّ نام مكانه، و كان المشركون يرمونه [إلى أن قال:] و خرج رسول اللّه في غزوة تبوك، و خرج الناس معه،

۱۷۵

فقال له عليّ: أخرج معك؟ فقال (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «لا»، فبكى عليّ، فقال له رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبي بعدي، إنّه لا ينبغي أن أذهب إلّا و أنت خليفتي». و قال له رسول اللّه: «أنت وليّ كلّ مؤمن بعدي و مؤمنة». قال ابن عباس: و سدّ رسول اللّه أبواب المسجد غير باب عليّ، فكان‌يدخل المسجد جنبا و هو طريقه ليس له طريق غيره، و قال رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «من كنت مولاه فإنّ مولاه عليّ.» الحديث.

“ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی ناکام نہ کرے گا۔ وہ شخص خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں۔کس کس کے دل میں اس فضیلت کی تمنا پیدا نہ ہوئی مگر رسول(ص) نے ایک کی تمنا خاک میں ملا دی اور صبح ہوئی تو دریافت فرمایا کہ علی(ع) کہاں ہیں؟ حضرت علی(ع) تشریف لائے حالانکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ دیکھ نہیں پاتے تھے۔ رسول(ص) نے ان کی آنکھیں پھونکیں ، پھر تین مرتبہ علم کو حرکت دی اور حضرت علی(ع) کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ حضرت علی(ع) جنگ فتح کر کے مرحب کو مار کر اور اس کی بہن صفیہ کو لے کر خدمت رسول(ص) میں پہنچے ۔ پھر

۱۷۶

 رسول اﷲ(ص) نے ایک بزرگ کو سورہ توبہ دے کر روانہ کیا۔ ان کے بعد پیچھے فورا ہی حضرت علی(ع) کو روانہ کیا اور حضرت علی(ع) نے راستہ ہی میں ان سے سورہ لے لیا کیونکہ رسول(ص) کا حکم تھا کہ یہ سورہ بس وہی شخص پہنچا سکتا ہے جو مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں۔ اور رسول(ص) نے اپنے رشتہ داروں، قرابت مندوں سےکہا کہ تم میں کون ایسا ہے جو دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے۔ میرے کام آئے۔ حضرت علی(ع) نے کہا میں اس خدمت کو انجام دوں گا۔ میں دین و دنیا میں آپ کی خدمت کروں گا۔ آپ(ص) نے فرمایا ۔ اے علی(ع) ! دین و دنیا دونوں میں تم ہی میرے ولی ہو۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) کو بٹھا کے پھر لوگوں سے اپنی بات دہرائی اور پوچھا کہ تم میں کون شخص ہے جو میرا مددگار ہو دنیا میں اور آخرت میں۔ سب نے انکار کیا صرف ایک حضرت علی(ع) ہی تھے جنھوں نے کہا کہ میں آپ کی مدد و نصرت کروں گا دین و دنیا دونوں میں یا رسول اﷲ(ص) رسول اﷲ(ص) نے فرمایا کہ علی(ع) تم ہی میرے ولی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ علی(ع) پہلے وہ شخص ہیں جو جناب خدیجہ کے بعد رسول(ص) پر ایمان لائے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے اپنی ردا لی اور اسے علی(ع) وفاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کو اوڑھایا اور اس آیت کی تلاوت کی :

۱۷۷

 “ إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً.”

“ اے اہل بیت(ع) ! خدا بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر برائی اور گندگی کو اس طرح دور رکھے جیسا کہ دور رکھنا چاہیئے۔”

ابن عباس کہتے ہیں : اور علی(ع) ہی نے اپنی جان راہ خدا میں فروخت کی اور رسول اﷲ(ص) کی چادر اوڑھ کر رسول(ص) کی جگہ پر سورہے۔ در آںحالیکہ مشرکین پتھر برسارہے تھے۔

اسی سلسلہ کلام میں ابن عباس کہتے ہیں: کہ پیغمبر جنگ تبوک کے ارادے سے نکلے۔ لوگ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت علی(ع) نے پوچھا: یا رسول اﷲ(ص) ! میں بمرکاب رہوں گا؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، تم نہیں رہوگے۔ اس پر حضرت علی(ع) آبدیدہ ہوگئے تو آپ نے فرمایا : کہ یا علی (ع) ! تم اسے پسند نہیں کرتے کہ تم میرے لیے وسیے ہی یو جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔ البتہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے۔ جنگ میں میرا جانا بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ میں تمھیں اپنا قائم مقام چھوڑ کے جاؤں۔

نیز حضرت سرورِ کائنات(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:  کہ اے علی(ع) ! میرے بعد تم ہر مومن و مومنہ کے ولی ہو۔ ابن عباس کہتے ہیں:  کہ رسول اﷲ(ص) نے مسجد کی طرف سب کے دروازے بند کرادیے بس صرف علی(ع) کا دروازہ کھلا رکھا اور حضرت علی(ع) جنب کی حالت میں بھی مسجد

۱۷۸

 سے گزر جاتے تھے۔ وہی ایک راستہ تھا دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ (ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: میں جس کا مولا ہوں علی(ع) اس کے مولا ہیں۔”

اس حدیث میں من کنت مولاہ کو امام حاکم نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگر چہ شیخین بخاری و مسلم نے اس نہج سے ذکر نہیں کیا۔

علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اس حدیث سے ثبوت خلافت امیرالمومنین(ع)

اس عظیم الشان حدیث میں امیرالمومنین(ع) کے ولی عہد رسول(ص) اور بعد رحلت سرورِ کائنات خلیفہ و جانشین ہونے کے بعد جو قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں وہ آپ کی نگاہوں سے مخفی نہ ہوں گے۔ ملاحظہ فرماتے ہیں آپ اندازہ پیغمبر(ص) کا کہ حضرت علی(ع) کو دینا و آخرت میں اپنا ولی قرار دیتے ہیں۔ اپنے تمام رشتے داروں، قرابت داروں میں بس علی(ع) ہی کو اس اہم منصب کے لیے منتخب فرماتے ہیں۔ دوسرے موقع پر حضرت علی(ع) کو وہ منزلت و خصوصیت عطا فرماتے ہیں جو جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے تھی۔ جتنے مراتب و خصوصیات جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے حاصل تھے۔ وہ سب کے سب حضرت علی(ع) کو مرحمت فرمائے جاتے ہیں سوائے درجہ نبوت کے ۔ نبوت کو مستثنی کرنا دلیل ہے کہ نبوت کو چھوڑ کر جتنے خصوصیات

۱۷۹

جناب ہارون کو حاصل تھے وہ ایک ایک کر کے حضرت علی(ع) کی ذات میں مجتمع تھے۔

آپ اس سے بھی بے خبر نہ ہوں گے کہ جناب ہارون کو منجملہ  دیگر خصوصیات کے سب سے بڑی خصوصیت جو جناب موسی(ع) سے تھی وہ یہ کہ جناب ہارون جناب موسی(ع) کے وزیر تھے۔ آپ کے قوت بازو تھے۔ آپ کے شریک معاملہ تھے اور آپ کی غیبت میں آپ کے قائم مقام ، جانشین و خلیفہ ہوا کرتے اور جس طرح جناب موسی(ع) کی اطاعت تمام امتِ پر فرض تھی اسی طرح جناب ہارون کی اطاعت بھی تمام امت پر واجب و لازم تھی اس کے ثبوت میں یہ آیات ملاحظہ فرمایئے:

             خداوند عالم نے جناب موسی(ع) کی دعا کلام مجید میں نقل فرمائی ۔ جناب موسی نے دعا کی تھی۔

“وَ اجْعَل لىّ‏ِ وَزِيرًا مِّنْ أَهْلىِ هَارُونَ أَخِى اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى‏ وَ أَشْرِكْهُ فىِ أَمْرِى‏”

“ معبود میرے گھر والوں میں سے ہارون کو میرا وزیر بنا ان سے میری کمر مضبوط کر اور انھیں میرے کارِ نبوت میں شریک بنا۔”

دوسرے موقع پر جناب موسی (ع) کا قول خداوند عالم نے قرآن میں نقل کیا ہے:

“اخْلُفْني‏ في‏ قَوْمي‏ وَ أَصْلِحْ وَ لا تَتَّبِعْ سَبيلَ الْمُفْسِدينَ” ( اعراف، 142)

“ اے ہارون تم میری امت میں میرے جانشین رہو،

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (٢٧٦)

خدا سود كو برباد كرديتا ہے اور صدقات ميں اضافہ كرديتا ہے او رخدا كسى بھى ناشكرے گناہگار كو دوست نہيں ركھتا ہے_

١_ خدا تعالى سودى سرمائے كو ہميشہ نقصان اور نابودى كى طرف لے جاتاہے_يمحق الله الربوا

كم ہوتے رہنے كو كو ''محق ''كہاجاتاہے (مجمع البيان)

٢_ صدقہ ديئے ہوئے اموال كو خدا تعالى زيادہ كرديتاہے_و يربى الصدقات

٣_ سودى نظام معاشرے كے اقتصادى نظام كو تباہ كركے ركھ ديتاہے_ يمحق الله الربوا

٤_ صدقہ اور انفاق كا رائج ہونا اقتصادى نظام كى رونق كا سبب ہے_و يربى الصدقات يربى '' اربا ''سے ہے كہ جس كا معنى ہے زيادہ كرنا اور رشد و ترقى دينا

٥_ نعمتوں كا شكر نہ كرنے والے اور گناہگار افراد محبت خدا سے محروم ہيں _والله لا يحب كل كفار اثيم

٦_ سودخور لوگ ناشكر ے، گناہ گار اور خدا كى محبت سے محروم ہيں _يمحق الله الربوا و الله لا يحب كل كفار اثيم سودخورى كو بيان كرنے كے بعد ''كفار''(بہت ہى ناشكرا) اور ''اثيم'' (گناہوں ميں غرق) كا تذكرہ اس بات كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے كہ سودخورلوگ بھى انہيں ناشكرے اور گناہوں ميں غرق افراد ميں سے ہيں _

۳۲۱

٧_جو لوگ صدقہ ديتے ہيں اور انفاق كرتے ہيں وہ خدا تعالى كى نعمتوں كے شكر گزار اور اسكے حكم كے اطاعت گزار ہيں _يمحق الله كل كفار اثيم

صدقہ اور سود كے مقابلہ سے پتہ چلتاہے كہ يہ دونوں اثرات كے لحاظ سے بھى متضاد ہيں پس چونكہ سودخور ناشكرا اور گناہ گار ہے اسلئے انفاق كرنے والا شكر گزار اور فرمانبردار ہے_

٨_ صدقہ اور انفاق خدا كى نعمتوں كا شكر اور اس كے حكم كى پيروى ہے_يمحق الله كل كفار اثيم

٩_ سودخورى خداوند عالم كى نعمتوں كى سخت ناشكرى اور گناہ ہے_يمحق الله الربوا و الله لا يحب كل كفار اثيم

١٠_ انفاق خدا كى محبت حاصل كرنے كا سبب اور انفاق كرنے والے اس كے محبوب ہيں _يمحق الله الربوا و يربى الصدقات والله لا يحب كل كفار اثيم ربا اور صدقہ كے درميان مقابلہ كے قرينہ سے سود خور كى محبت الہى سے محروميت اس حقيقت كى حكايت كرتى ہے كہ انفاق كرنے والے خدا تعالى كے محبوب ہيں _

اطاعت: خدا تعالى كى اطاعت ٧ ،٨

اقتصاد : اقتصادى انحطاط كے عوامل ١ ، ٣; اقتصادى ترقى كے عوامل ٤ اقتصادى نظام: ١، ٢، ٣، ٤

انفاق: انفاق كے اثرات ٤ ، ٧ ، ٨ ، ١٠

خدا تعالى: خدا تعالى كى محبت ٥ ، ٦ ،١٠; خدا تعالى كے محبوب ١٠

رشد و ترقي: رشد و ترقى كے عوامل٢

سودخور: سود خور كى سرزنش ٦

سودخورى : سودخورى كا گناہ ٩;سودخورى كے اثرات ١، ٣

صدقہ: صدقہ كے اثرات ٢، ٤، ٧، ٨

۳۲۲

عمل: عمل كى جزا ١

گناہ:گناہ كے اثرات ٥، ٦

گناہگار: گناہگارى كى محروميت ٥، ٦

نعمت: كفران نعمت ٥، ٦، ٩ ;نعمت كا شكر ٧، ٨

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُواْ الصَّلوةَ وَآتَوُاْ الزَّكَوةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (٢٧٧)

جو لوگ ايمان لے آئے اور انھوں نے نيك عمل كئے نماز قائم كى _ زكوة ادا كى ان كے لئے پروردگار كے يہاں اجر ہے او رانكے لئے كسى طرح كا خوف يا حزن نہيں ہے _

١_ جو مؤمنين عمل صالح انجام ديتے ہيں ، نماز قائم كرتے ہيں اور زكوة ادا كرتے ہيں وہ خدا تعالى كے خاص اجر سے بہرہ مند ہونگے_ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات و اقاموا الصلوة و آتوا الزكاة لهم اجرهم عند ربهم

كلمہ''عند ربھم''خدا كے خاص اجر كى طرف اشارہ ہے_

٢_ خداوند متعال كے مخصوص اجر سے بہرہ مند ہونے كيلئے ضرورى ہے كہ ايمان عمل صالح كے ہمراہ ہو_

ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات لهم اجرهم عند ربهم

٣_ خداوند عالم كا نيك اعمال كرنے والے، نماز قائم كرنے والے اور زكاة ادا كرنے والے مومنين كو اجر دينا ان كے نيك عمل كا نتيجہ ہے_لهم اجرهم عند ربهم ''اجر'' يعنى مزدورى جو كسى كے كام كے مقابلے ميں اسے دى جائے لہذا مومنين كا اجر ان كے عمل كى اجرت اور مزدورى ہوگي_

۳۲۳

٤_ عمل صالح كرنے والے مومنين كو خدا وند عالم كے نزديك بلند مقام و منزلت حاصل ہے_

لهم اجرهم عند ربهم ظاہراً''رب''كى ضمير كى طرف اضافت تشريفى ہے جيساكہ مفسّر آلوسى نے كہا ہے كہ''عند ربھم''كى تعبير ميں كثرت لطف و شرافت نظر آتى ہے_

٥_ عمل كى ترغيب دلانے كيلئے اس كى جزا كے وعدے اور ضمانت كى تاثير_لهم اجرهم عند ربهم

٦_ صالح عمل كرنے والے مؤمنين كو اجر كا وعدہ دينا، ايمان اور صالح عمل انجام دينے كے جذبہ كو ابھارنے كيلئے قرآن كريم كا طريقہ اور روش ہے_لهم اجرهم عند ربهم

٧_ اسلام كا عبادى مسائل كے ساتھ ساتھ اقتصادى مسائل پر بھى توجہ دينا_و اقاموا الصلوة و آتوا الزكاة

٨_ نماز قائم كرنا اور زكات ادا كرنا عمل صالح كے بہترين نمونوں ميں سے ہيں _و عملوا الصالحات و اقاموا الصلوة و آتوا الزكاة عمل صالح كے بعد نماز اور زكات كا ذكر كرنا باوجود اس كے كہ خود يہ عمل صالح ہيں ہمارے مذكورہ بالا نكتے كى دليل ہے_

٩_ ايمان اور عمل صالح بالخصوص نماز اور زكات كا نتيجہ باطنى و اندرونى سكون ہے_ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات و لاخوف عليهم و لاهم يحزنون يہ اس صورت ميں ہے كہ خوف و حزن كا نہ ہونا (باطنى سكون ) آخرت كے علاوہ دنيا سے بھى مربوط ہو _

١٠_ عمل صالح كرنے والے مؤمنين كو قيامت ميں كوئي خوف اور غم نہيں ہوگا_ان الذين آمنوا و لاخوف عليهم و لاهم يحزنون يہ اس صورت ميں ہے كہ ''خوف'' و ''حزن'' كے نہ ہونے كا تعلق صرف آخرت سے ہو_

١١_ ايمان، عمل صالح، نماز اور زكات اطمينان خاطر كا باعث ہيں _ان الذين آمنوا و لاهم يحزنون

١٢_ كفر، ناشائستہ اعمال، نماز نہ پڑھنا، خدا سے رابطہ نہ ركھنا اور زكات اور دوسرے مالى حقوق كا ادا نہ كرنا باطنى بے سكونى اور اضطراب كے موجب

۳۲۴

ہيں _ان الذين آمنوا و لاهم يحزنون مذكورہ بالا نكتہ آيت كے مفہوم سے ليا گيا ہے_

١٣_ ايمان اور عمل صالح بالخصوص نماز اور زكات معاشرہ سے سود كا قلع قمع كرنے كاذريعہ ہيں _

يمحق الله الربوا آمنوا و عملوا الصالحات سابقہ آيات (جو كہ سود كے بارے ميں تھيں ) كے بعد اس آيت كا ذكر كرنا معاشرہ سے سود كا قلع قمع كرنے كيلئے رہنمائي كے طور پر ہے_

اطمينان: اطمينان كے عوامل ٩، ١١; اطمينان كے موانع ١٢

اقتصاد: اقتصاد اور عبادت ٧

ايمان: ايمان اور عمل ١، ٣ ; ايمان كا اجر ٢ ; ايمان كا پيش خيمہ ٦ ; ايمان كے اثرات ٩، ١٠، ١١، ١٣

تربيت: تربيت كا طريقہ ٦

تقرب: تقرب كے عوامل ٤

جذبہ ابھارنا: جذبہ ابھارنے كے عوامل ٦ دينى نظام تعليم: ٧

زكات: زكات ادا كرنا ١، ٣ ; زكات كى فضيلت ٨ زكوة كے اثرات ٩، ١١، ١٣ ;زكات نہ دينے كے اثرات١٢

سودخوري: سود خورى كے موانع ١٣

عمل: برے عمل كے اثرات ١٢ ; عمل صالح ٣، ٤، ٨; عمل صالح كا پيش خيمہ ٦;عمل صالح كى ترغيب ٥;عمل صالح كى جزا ٦;عمل صالح كے اثرات ٩، ١٠، ١١، ١٣

قيامت: قيامت ميں خوف ١٠; قيامت ميں غم و اندوہ ١٠ ; قيامت ميں مومنين ١٠

كفر: كفر كے اثرات ١٢

۳۲۵

معاشرہ: معاشرہ كى ترقى كے عوامل ١٣

مومنين: مومنين كى جزا ١،٣،٦;مومنين كى صفات ١;مومنين كے فضائل ٤

نفسياتى اضطراب: نفسياتى اضطراب كے عوامل ١٢

نماز: نماز ترك كرنے كے اثرات ١٢ ; نماز كا قائم كرنا ١، ٣، ٨ ;نماز كى فضيلت ٨; نماز كے اثرات ٩، ١١، ١٣

وعدہ: وعدہ كى تاثير و اہميت٥، ٦

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (٢٧٨)

ايمان والو الله سے ڈرو او رجو سود باقى رہ گيا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم صاحبان ايمان ہو _

١_ مومنين كا فريضہ تقوي (خدا كى مخالفت سے پرہيز) كى مراعات كرنا ہے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله

٢_ تقوي الہي،ايمان سے بلند مرتبہ ہے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله كيونكہ مومنين كو تقوي كا حكم ديا گيا ہے_

٣_ سود، ايمان اور تقوي سے ميل نہيں كھاتا_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا ان كنتم مؤمنين

٤_ سود خورى زمانہ جاہليت كى عادات و رسوم ميں سے ہے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا

٥_صدر اسلام ميں سود خور مومنين موجود تھے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا

خدا تعالى كا مومنين كو سود ى منافع چھوڑنے كا حكم دينا بتلاتا ہے كہ صدر اسلام كے مسلمانوں ميں

۳۲۶

سود اور سودخورى پائي جاتى تھى جو زمانہ جاہليت كى باقيات ميں سے تھي_

٦_ ايمان كئي مراتب اور درجے ركھتا ہے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله ان كنتم مؤمنين

باوجود اس كے كہ خطاب مومنين سے ہے پھر بھى سود چھوڑنے كو ان كے ايمان سے (ان كنتم مومنين) مشروط كيا ہے معلوم ہوتا ہے كہ آيت كے آخر ميں مذكور ايمان اس ايمان كا غير ہے جو آيت كے اول ميں ذكر ہوا ہے اور اس سے ايمان كے دو مرتبوں كى نشاندہى ہوتى ہے_

٧_ ايمان اور تقوي سود ى اقتصادى نظام كے خاتمے كا پيش خيمہ ہيں _يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا ان كنتم مؤمنين

٨_ ايمان اور تقوي خداوند متعال كے احكام پر عمل كرنے كا پيش خيمہ ہيں _يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا ان كنتم مؤمنين

٩_ سودخورى سے اجتناب اور سودى منافع سے چشم پوشى كرنا مومنين كا فريضہ ہے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا

١٠_ سود خورى سے اجتناب اور سود والے منافع چھوڑ دينا تقوي كے مصاديق ميں سے ہے_اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا

١١_ سودخور لوگ سود ى منافع كے مالك نہيں ہيں _و ذروا ما بقى من الربوا

سودى منافع چھوڑنے كا لازمہ ان ميں دخل و تصرف كا ناجائز ہونا ہے جس كا مطلب يہ ہے كہ سود خور كو ان منافع كا مالك نہيں سمجھا گياہے_

١٢_ سود ى منافع كا لينا جائز نہيں ہے اگرچہ سودى معاملہ اس كى حرمت سے پہلے انجام پاچكا ہو_و ذروا ما بقى من الربوا

١٣_ اگر سود ى معاملہ اس كى حرمت سے پہلے انجام پاچكا ہو تو سود كى مد ميں لئے جانے والے منافع كا ان كے اصلى مالكوں كو لوٹانا ضرورى نہيں ہے_و ذروا ما بقى من الربوا

١٤_ ايمان، الہى تقوي كے حصول كا ذريعہ ہے_

۳۲۷

يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله

١٥_ مصالح و مفاسد كو بيان كركے فكرى آمادگى پيدا كرنا قرآن كريم كے تبليغى اور تربيتى طريقوں ميں سے ہے_

الذين ياكلون الربوا لايقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس و ذروا ما بقى من الربوا كيونكہ خدا تعالى نے اس مطلب كو بيان كركے كہ سود معاشرہ كو تباہ و برباد كركے ركھ ديتاہے (يتخبطہ الشيطان) اورسود كى بنياد پر قائم اقتصادى نظام كمزور سے كمزور تر ہوتا جاتا ہے (يمحق الله الربا) اور مومنين كے ايمان كوبہالے جاتا ہے(ان كنتم مومنين) سود چھوڑنے كا حكم دياہے_

احكام: ١١، ١٢، ١٣

اقتصادى نظام :٧

ايمان: ايمان كے اثرات ٣، ٧، ٨، ١٤ ;ايمان كے مراتب ٢، ٦

تبليغ: اسكا طريقہ ١٥

تربيت: اسكا طريقہ ١٥

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ١٤; تقوي كى اہميت ١ ; تقوى كى فضيلت ٢ ; تقوي كے اثرات ٣، ٧، ٨; تقوي كے موارد ٢

دينى نظام تعليم: ٣

زمانہ جاہليت: اسكى رسوم ٤

سود: سود ابتدائے اسلام ميں ٥ ; سود زمانہ جاہليت ميں ٤;سود كے اثرات٣ سود كے احكام ١١، ١٢، ١٣

سود خور: سود خور كى مالكيت ١١، ١٢، ١٣

سودخوري: سود خورى سے اجتناب ٩، ١٠ ;سود خورى كے موانع ٧

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كرنے كا پيش خيمہ٨

مالكيت: ذاتى مالكيت ١١

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ١، ٩

۳۲۸

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ (٢٧٩)

اگر تم نے ايسا نہ كيا تو خدا و رسول سے جنگ كرنے كے لئے تيا ر ہو جاؤ اور اگر توبہ كرلو تو اصل مال تمھارا ہى ہے _ نہ تم ظلم كرو گے نہ تم پر ظلم كيا جائے گا _

١_ سودخوروں كے خلاف خدا و رسول (ص) كى بڑى جنگ_فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله ورسوله

يہ اس صورت ميں ہے كہ''من''ابتدائيہ ہو يعنى جنگ شروع كرنے والے خدا اور رسول(ص) ہيں اور يہ بات قابل ذكر ہے كہ كلمہ''حرب''كا نكرہ ہونا بڑى جنگ پر دلالت كرتا ہے_

٢_ سودخور خدا و رسول (ص) كے ساتھ جنگ كى حالت ميں ہيں _فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله و رسوله

٣_ سودخور خدا وند عالم اور اس كے رسول (ص) كے ساتھ لڑرہے ہيں _فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله و رسوله

٤_ سودخورى بہت بڑا گناہ ہے_فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب

سودخور كو خدا اور رسول (ص) كے خلاف جنگ كرنے والا كہنا سود كے گناہ عظيم ہونے سے حكايت كرتا ہے_

٥_ جو سودخور اپنے اس ناپسنديدہ عمل سے باز نہ آئيں ان كے ساتھ سختى سے نمٹنے اور انكے خلاف مسلح كاروائي كى ضرورت ہے_فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله و رسوله

٦_ سودخوروں كيلئے اپنے ناشائستہ كردار سے توبہ كا دروازہ كھلا ہے_و ان تبتم

۳۲۹

٧_ جو سود خور اپنے ناپسنديدہ عمل سے توبہ كرليں ، اصل سرمايہ انہيں كاہے_و ان تبتم فلكم رؤس اموالكم

٨_ اسلامى اقتصاد ميں خصوصى ملكيت كا تصور موجود ہے_فلكم رؤس اموالكم

٩_ اگر سودخور اپنے ناپسنديدہ عمل سے (سودخورى سے) توبہ نہ كريں تو وہ اصل مال كے بھى مالك نہيں ہيں *_

و ان تبتم فلكم رؤس اموالكم '' و ان تبتم ...''كے مفہوم سے يہ نكتہ سمجھ ميں آتاہے كہ اگر توبہ نہ كريں تو انہيں محارب شمار كركے انكے خلاف اعلان جنگ اور مسلح كاروائي كى جائيگى اور اس صورت ميں ان كا اصل سرمايہ بھى ضبط كرليا جائيگا_

١٠_ سودخورى ظلم ہے_و ان تبتم فلكم رؤس اموالكم لاتظلمون جملہ''فلكم رؤوس اموالكم لا تظلمون'' ( اگر تم نے صرف اصلى سرمايہ ليا تو تم نے ظلم نہيں كيا) كا مفہوم يہ ہے كہ سود لينے كى صورت ميں انہوں نے ظلم كيا ہے_

١١_ جو سود خور توبہ كرليں ان كا سرمايہ انہيں نہ لوٹانا ان پر ظلم ہے_فلكم رؤس اموالكم لاتظلمون و لاتظلمون

اگر تمہيں اصل سرمايہ لوٹا ديا جائے تو تم پر ظلم نہيں ہوگا ''لاتظلمون''ليكن اگر تمہيں اصل سرمايہ بھى نہ لوٹايا جائے تو تم پر ظلم ہوگا_

١٢_ اسلام كے اقتصادى نظام كى اساس و بنياد عدل و عدالت ہے_فلكم رؤس اموالكم لاتظلمون و لاتظلمون

جملہ''لاتظلمون '' سرمايہ كى خصوصى ملكيت اور سود والے منافع سے ملكيت كى نفى كيلئے علت كے طور پر ہے اور چونكہ علت ہميشہ قاعدہ كلى كو بيان كرتى ہے پس ظلم نہ كرنا اور مظلوم واقع نہ ہونا ( مطلق عدل و انصاف ) اسلام ميں قابل قبول اقتصادى نظام كى بنياد و اساس ہے_

١٣_ سودى اقتصادى نظام كى نفى كرنا اور عادلانہ اقتصادى نظام كو برپا كرنا اور اسے عام كرنا انبياء (ع) كے بلند اہداف ميں سے ہے_فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله و رسوله لاتظلمون و لاتظلمون خدا اور رسول (ص) كى طرف سے''لاتظلمون ولاتظلمون''كے ہدف كى خاطر جنگ كا اعلان ہوتا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ معاشرہ ميں اقتصادى عدل و انصاف خدا اور اس كے

۳۳۰

رسول كے اہداف ميں سے ہے_

١٤_ اسلامى قوانين وضع كرنے كى بنياد عدل و انصاف ہے_لاتظلمون و لاتظلمون

آنحضرت (ص) : آنحضرت (ص) اور سودخورى ١، ٢، ٣

احكام: ٧، ٨، ٩

احكام كى بنياد ١٤

اقتصاد: اقتصادى عدل ١٢، ١٣

اقتصادى نظام: ٨، ١٢، ١٣

انبياء (ع) : انبياء (ع) كے اہداف ١٣

توبہ: توبہ كى اہميت ٩ ;توبہ كى قبوليت ٦

جنگ: پيغمبر(ص) كے ساتھ جنگ ٢، ٣ ;خدا كے ساتھ جنگ ٢، ٣

دينى نظام تعليم: ١٤

سودخور: سود خور كى توبہ ٦، ٧، ١١ ;سود خور كى مالكيت ١١ سود خور كے ساتھ مقابلہ ١، ٥

سودخوري: سود خورى كا ظلم ١٠; سودخورى كا گنا ہ ٤; سود خورى كے اثرات ٢، ٣، ٩

ظلم: ظلم كے موارد ١٠، ١١

عدل و انصاف : عدل و انصاف كى قدروقيمت ١٢، ١٣، ١٤

گناہ: گناہ كبيرہ ٤

مالكيت: ذاتى مالكيت٨، ٩

محارب: ٢، ٣

نہى عن المنكر: ٥

۳۳۱

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (٢٨٠)

اور اگر تمھارا مقروض تنگ دست ہے تو اسے وسعت حال تك مہلت دى جائے گى اور اگر تم معاف كردو گے تو تمھارے حق ميں زيادہ بہتر ہے بشرطيكہ تم اسے سمجھ سكو _

١_ تنگ دست مقروض كو اس وقت تك قرض ادا كرنے كى مہلت دينا ضرورى ہے جب تك وہ آسانى سے ادا كرسكے_

و ان كان ذوعسرة فنظرة الى ميسرة

٢_ اسلام كا معاشرہ كے كمزور طبقات كے حقوق كى حمايت كرنا_و ان كان ذوعسرة فنظرة الى ميسرة

٣_ احكام اور حقوق كے بارے ميں اسلام كى سہل روش_و ان كان ذوعسرة فنظرة الى ميسرة

٤_ توبہ كرنے والے سودخور كيلئے ضرورى ہے كہ تنگ دست مقروض سے اصل سرمايہ واپس ليتے وقت اسے مہلت دے_و ان تبتم فنظرة الى ميسرة

٥_ تنگ دست مقروض كو پكڑ لينا اور اس كى معمولى ضروريات زندگى پر قبضہ كرلينا جائز نہيں ہے_و ان كان ذوعسرة فنظرة الى ميسرة

٦_ مقروض اگر قرض ادا كرنے كى توان ركھتا ہو تو قرض خواہ كى طرف سے اسے قرض كى ادائيگى پر مجبور كرنا جائز ہے_

و ان كان ذوعسرة فنظرة الى ميسرة مذكورہ مطلب جملہ شرطيہ''و ان كان ...'' كے مفہوم سے سمجھا گيا ہے كيونكہ مہلت نہ دينے كا لازمہ ادائيگى پر مجبور كرنا ہے_

٧_ مہلت دينے كے بجائے قرض خواہ كا تنگ دست مقرو ض كو معاف كردينا زيادہ قابل قدر ہے_

و ان تصدقوا خير لكم

۳۳۲

يہ اس احتمال كے پيش نظر ہے كہ درگذر كا بہتر ہونا مہلت دينے كى بنسبت ہو يعنى درگذر سے كام لينے كا ثواب مہلت دينے كے ثواب سے زيادہ ہے_

٨_ تنگ دست مقروض كو قرض معاف كردينا قرض واپس لينے سے زيادہ قدروقيمت ركھتا ہے_و ان تصدقوا خير لكم

يہ اس صورت ميں ہے كہ درگذر كرنا قرض واپس لينے سے بہتر ہو يعنى مال سے صرف نظر كرنا اسے واپس لينے سے بہتر ہے كيونكہ صدقے كا ثواب باقى رہے گاجبكہ واپس ليا ہوا مال باقى نہيں رہے گا_

٩_ دينى تعليمات ميں حقوقى اور اخلاقى نظام ہم آہنگ ہيں _و ان كان ذوعسرة ...و ان تصدقوا خير لكم

١٠_ تنگ دست مقروض كے قرضوں كا معاف كردينا صدقے كا ايك نمونہ ہے_و ان تصدقوا خير لكم ان كنتم تعلمون مقروض كے قرضے سے درگذر كرنے كو صدقہ سے تعبير كيا گيا ہے_

١١_ تنگ دست مقروض جو اپنا قرض ادا كرنے كى توان نہ ركھتے ہوں صدقہ لے سكتے ہيں_ و ان كان ذوعسرة ...و ان تصدقوا خير لكم

١٢_ نيك اعمال (صدقہ دينا ، تنگ دست مقروض كو معاف كردينا و غيرہ ) كے انجام سے آگاہى انسان كو ان كے انجام دينے پر ابھارتى ہے_و ان تصدقوا خير لكم ان كنتم تعلمون

مذكورہ نكتے ميں ''تعلمون'' كا مفعول صدقہ كے خير ہونے كو بنايا گيا ہے اور شرط''ان كنتم تعلمون''كا جواب محذوف ہے يعنى اگر تمہيں صدقہ كے خير ہونے كا پتہ چل جائے تو تم لوگ صدقہ دوگے_

١٣_ اشياء كے مصالح و مفاسد اور حقيقت تك پہنچنے كيلئے انسان كى توان محدود ہے_خير لكم ان كنتم تعلمون

ممكن ہے جملہ''ان كنتم تعلمون'' مصالح و مفاسد سے انسان كى جہالت سے كنايہ ہو_

١٤_ اگر انسان كو مقروض كى تنگ دستى كا علم ہو تو درگذر كرنا بہت بڑى قدر و قيمت ركھتا ہے_خير لكم ان كنتم تعلمون امام صادق(ع) فرماتے ہيں :''و ان كان ذو عسرة ...''ان كنتم تعلمون انه معسر فتصدقوا عليه بما لكم فهو خير لكم اگر تمہيں اس كے تنگ دست ہونے كا پتہ چل جائے تو اس پر اپنے مال كو صدقہ كردو پس يہ تمہارے لئے بہتر ہے_ (١)

____________________

١) كافى ج ٤ ص ٣٥ ح ٤،نور الثقلين ج ١ ص ٢٩٥ح ١١٨٢_

۳۳۳

احكام: ١، ٤، ٥، ٦ احكام كا فلسفہ ١٣

اخلاقى نظام: ٩ اسلام: اسلام كا آسان ہونا ،٣

انسان: اسكى ناتوانى ١٣

تنگدست: اسكے احكام ١، ٤، ٥، ٦ ; اسے معاف كردينا٧، ٨، ١٠، ١٢، ١٤; اسے مہلت دينا ١، ٤، ٧

جذبہ پيدا كرنا: اسكے عوامل ١٢

حقوق كا نظام: ٩

درگذر كرنا: اسكى فضيلت ٧، ٨، ١٤

دينى نظام تعليم: ٣، ٩

روايت : ١٤

سماجى نظام: ٢

شرعى فريضہ: اس كا آسان ہونا ٣

شناخت: اسكے موانع ١٣

صدقہ: صدقہ كے مصارف ١١;صدقہ كے موارد ١٠

عسر و حرج: ١، ٤

علم: اسكے اثرات ١٢

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ١٢

فقہى قاعدہ : ١

فقير: فقير كى ضرورت پورى كرنا ١٠، ١١، ١٤ ;فقير كے حقوق ٢

قرض: قرض كے احكام ١، ٤، ٥، ٦; قرض معاف كردينا ٧، ٨، ١٠، ١٢، ١٤

۳۳۴

وَاتَّقُواْ يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ (٢٨١)

اس دن سے ڈرو جب تم سب پلٹاكر الله كى بارگاہ ميں لے جائے جاؤ گے _ اس كے بعد ہر نفس كو اس كے كئے كا پورا پورا بدلہ ملے گا اور كسى پر كوئي ظلم نہيں كيا جائے گا _

١_ انسان كيلئے ضرورى ہے كہ قيامت ميں اپنے برے اعمال كے انجام سے ڈرے_و اتقوا يوما ترجعون فيه الى الله

٢_ برے لوگوں كيلئے قيامت بہت خوفناك اور وحشتناك منظر ہوگا_و اتقوا يوما ترجعون فيه الى الله

''يوماً''كو نكرہ كى صورت ميں لانا اس دن كى عظمت كى طرف اشارہ ہے_

٣_ قيامت، انسانوں كے خدا تعالى كى طرف لوٹنے كا دن ہے_و اتقوا يوما ترجعون فيه الى الله

٤_ انسانوں كى ا بتدا اور انتہا خدا وند متعال كى ذات اقدس ہے _ترجعون فيه الى الله

خدا وند متعال كا مبداء ہونا''رجع''كے معنى سے ثابت ہوتاہے كيونكہ رجع يعنى جہاں سے ابتداء كى وہيں لوٹنا_

٥_ قيامت، اپنے اعمال كا مكمل نتيجہ لينے كا دن ہے (جزا و سزا كا دن ہے)_ثم توفى كل نفس ما كسبت

''توفي''كا معنى ہے پورا پورا دريافت كرنا_

٦_ انسان كے دنياوى اعمال باقى رہيں گے اور ناقابل فنا ہيں _ثم توفى كل نفس ما كسبت

كيونكہ '' توفي'' كو خود اعمال كى طرف اسناد ديا گيا ہے نہ ان كى جزا و سزا كى طرف پس اعمال كا محفوظ رہنا ضرورى ہے تاكہ انہيں دريافت كيا جاسكے_

٧_ قيامت ميں خدا تعالى كى طرف لوٹنے كے بعد انسانوں كو اپنے اعمال كى مكمل جزا و سزا كا ملنا_

و اتقوا يوما ترجعون فيه الى الله ثم توفى كل نفس ما كسبت

بعض مفسرين كے نزديك كلمہ''ماكسبت'' كا مضاف حذف كيا گيا ہے يعنى اپنے اعمال كى جزا و سزا كو دريافت كريں گے نہ اپنے اعمال و كردار كو_

٨_ قيامت پر توجہ اور اس سے خوف انسان كو بُرے اعمال (جيسے سود وغيرہ) سے روكتا ہے اور نيك اعمال (جيسے انفاق، صدقہ وغيرہ) كى ترغيب دلاتا ہے_ياايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا و ان تصدقوا خير و اتقوا يوماً ترجعون فيه الى الله

۳۳۵

٩_ قيامت كے دن كسى پر ظلم نہيں كيا جائے گا (نہ اس كے ثواب ميں كمى كى جائے گى اور نہ اس كے عذاب ميں اضافہ كيا جائے گا)_

توفى كل نفس ما كسبت و هم لايظلمون

انسان: انسان كا انجام ٤; انسان كى ابتدا ٤

انفاق: انفاق كى تشويق ٨

ايمان: آخرت پر ايمان كے عملى اثرات ٨

تحريك : تحريك كے عوامل ٨

جزا : اخروى جزا٥

خدا كى طرف لوٹنا ٣ ، ٧:

خوف: پسنديدہ خوف٨; خوف قيامت سے ٨ ;خوف كے اثرات٨

دورانديشي: دور انديشى كى اہميت ٨

سزا: اخروى سزا ٥

سودخوري: سود خورى كے موانع ٨

صدقہ: صدقہ كى تشويق ٨

علم: علم كے اثرات ٨

عمل: بد عملى كا انجام ١;عمل صالح كا پيش خيمہ ٨; عمل كا

باقى رہنا ٦;عمل كى پاداش ٥،٧

قيامت:

قيامت كى خصوصيت ٢، ٣، ٥، ٩ ; قيامت ميں ظلم ٩; قيامت ميں عدالت ٩

نافرماني:

نافرمانى كى سزا ٢

۳۳۶

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاء أَن تَضِلَّ إْحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلاَ يَأْبَ الشُّهَدَاء إِذَا مَا دُعُواْ وَلاَ تَسْأَمُوْاْ أَن تَكْتُبُوْهُ صَغِيرًا أَو كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّهِ وَأَقْومُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُواْ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلاَّ تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوْاْ إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلاَ يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَلاَ شَهِيدٌ وَإِن تَفْعَلُواْ فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّهُ وَاللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (٢٨٢)

ايمان والو جب بھى آپس ميں ايك مقررہ مدت كے لئے قرض كالين دين كرو تو اسے لكھ لو اور تمھارے درميان كوئي بھى كاتب لكھے ليكن انصاف كے ساتھ لكھے اوركاتب كو نہ چاہئے كہ خدا كى تعليم كے مطابق لكھنے سے انكار كرے _ اسے لكھ دينا چاہئے اور جس كے ذمہ قرض ہے اس كو چاہئے كہ وہ املا كرے اور اس خدا سے ڈرتا رہے جو اسكا پالنے والا ہے او ركسى طرح كى كمى نہ كرے _ اب اگر جس كے ذمہ قرض ہے وہ نادان كمزور يا مضمون بتا نے كے قابل نہيں ہے تو اس كا ولى انصاف سے مضمون تيار كرے _اور اپنے مردوں ميں سے دو كو گواہ بناؤ او ردو مردنہ ہوں تو ايك مرد اور دو عورتيں تا كہ ايك بہكنے لگے تو دوسرى ياد دلادے اور گواہوں كو چاہئے كہ گواہى كے لئے بلائے جائيں تو انكار نہ كريں اور خبردار لكھاپڑھى سے ناگوار ى كا اظہارنہ كرنا چاہيے قرض چھوٹا ہو يا بڑا مدت معين ہونى چاہيئے يہى پروردگار كے نزديك عدالت كے مطابق اور گواہى كے لئے زيادہ مستحكم طريقہ ہے اور اس امر سے قريب تر ہے كہ آپس ميں شك و شبہ نہ پيدا ہو _ہاں اگر تجارت نقد ہے جس سے تم لوگ آپس ميں اموال كى الٹ پھير كرتے ہو تونہ لكھنے ميں كوئي حرج بھى نہيں ہے_ اور اگر تجارت ميں بھى گواہ بناؤ تو كاتب يا گواہ كو حق نہيں ہے كہ اپنے طرز عمل سے لوگوں كو نقصان پہنچائے اور نہ لوگوں كو يہ حق ہے اور اگر تم نے ايسا كيا تو يہ اطاعت خدا سے نافرمانى كے مترادف ہے اللہ سے ڈرو كہ اللہ ہرشے كا جاننے والا ہے _

١_ ايمان ،الہى احكام پر عمل كرنے كا متقاضى ہے_يايها الذين امنوا

٢_ طرفين كيلئے مدت والے قرض كو دستاويز ميں لكھ لينا ضرورى ہے_

۳۳۷

يايها الذين امنوا اذا تداينتم بدين الى اجل مسمى فاكتبوه

جملہ''اذا تداينتم بدين''ہر قسم كے قرض كو شامل ہے چاہے ادھارپر كوئي چيز بيچيہو چاہے نقد پيسے ديئے ہوں اور مال بعد ميں لينا ہو (سلف) چاہے كسى كو قرض دے ركھا ہو_

٣_ قرضوں اور مطالبوں كى مدت معين كرنا ضرورى ہے_*اذا تداينتم بدين الى اجل مسمي

يہ احتمال بعيد ہے كہ لكھنے كا لازم ہونا صرف معين مدت والے قرضوں اور مطالبوں كے ساتھ خاص ہو لہذا ضرورى ہے كہ''الى اجل'' كو قرآن كريم كے قابل قبول قرضوں كيلئے وضاحت سمجھا جائے يعنى قرضے مدت كے ذكر كے بغير صحيح نہيں ہيں _

٤_ قرضے كى رسيد لكھتے ہوئے عدل و انصاف كى رعايت كرنا ضرورى ہے_و ليكتب بينكم كاتب بالعدل

يہ اس صورت ميں ہے كہ كلمہ''بالعدل'' جملہ ''وليكتب''كے متعلق ہو_

٥_ قرض اور بقايا جات كى دستاويز لكھنے كيلئے اس لكھنے والے كا انتخاب ضرورى ہے جو لكھنے ميں عدل و انصاف كا خيال ركھے_و ليكتب بينكم كاتب بالعدل يہ اس صورت ميں ہے كہ''بالعدل'' دستاويز لكھنے والے كيلئے قيد ہو_

٦_ قرض كى دستاويز لكھتے وقت طرفين كا حاضر ہونا ضرورى ہے_ *و ليكتب بينكم كاتب بالعدل

كلمہ''بينكم'' مذكورہ بالا مطلب كو بيان كر رہا ہے كيونكہ مخاطبسے مراد خريدو فروش كرنے والا اور قرض دينے اور لينے والا ہے_

٧_ جو لوگ لكھنے كى صلاحيت ركھتے ہيں انہيں قرض كى دستاويز لكھنے سے ہرگز انكار نہيں كرنا چاہئے_

ولايأب كاتب ان يكتب كما علمه الله فليكتب جملہ''فليكتب'' اس امر كى تاكيد ہے جو ''ولاياب ...''سے سمجھا جارہا ہے لہذا لكھنے پر توان ركھنے والے كيلئے لكھنا بہت ضرورى ہے_

٨_ قرضوں كى دستاويز مرتب كرنا اور لكھنا اسى طريقہ پر ہونا چاہئے جيساكہ خدا وند عالم نے تعليم دى ہے (يعنى شرعى حدود كے مطابق ہو)_ولاياب كاتب ان يكتب كما علمه الله

يہ اس صورت ميں ہے كہ''كما علمہ الله ''متعلق ہو''ان يكتب''كے_

۳۳۸

٩_ لكھنے كى قدرت و توان خداداد عطيہ ہے_ان يكتب كما علمه الله

١٠_ ہر صاحب فن اور دانشمندوں كى اپنے اپنے فن اور دانش ميں ذمہ داري_

ولايأب كما علمه الله جملہ''كما علمہ الله '' لكھنے پر قادر شخص كيلئے وجوب كتابت كى علت كا بيان ہوسكتا ہے اور علت ہميشہ قاعدہ كليہ بيان كرتى ہے جس كا نتيجہ يہ ہوگا كہ ہر علم و فن انسان پر ذمہ دارى عائد كرتا ہے_

١١_ قرض كى دستاويز مقروض كے لكھوانے سے منظم و مرتب ہونى چاہيئے_وليملل الذى عليه الحق

١٢_ مديون پر واجب ہے كہ تقوي كى رعايت كرے اور معاملات كى دستاويز لكھوانے ميں گڑبڑ نہ كرے_

وليملل الذى وليتق الله ربه ولايبخس منه شيئا

١٣_ تقوي الہى كى مراعات كرنا اور دستاويز لكھنے ميں كمى بيشى نہ كرنا واجب ہے _وليتق الله ربه ولايبخس منه شيئا

١٤_ كسى شخص كا اپنے خلاف اقرارقابل قبول ہے_و ليملل الذى عليه الحق قرض كى دستاويز لكھوانے كا كام مقروض پر چھوڑنا ظاہراً اس حقيقت كى حكايت ہے كہ اس كا اقرار قابل قبول ہے_

١٥_ تقوي الہي، معاشرہ كے افراد كے حقوق كى رعايت كا سبب اور ان كے ضائع كرنے سے مانع ہے_

وليتق الله ربه ولايبخس منه شيئا

١٦_ جو مقروض ديوانہ، كمزور يا لكھوانے پر قادر نہ ہو تو اس كے ولى پر واجب ہے كہ تقوي كى رعايت كرتے ہوئے ادھار والے معاملات اور قرض كى دستاويز لكھوالے_

فان كان الذى عليه الحق سفيها او ضعيفا او لايستطيع ان يمل هو فليملل وليه بالعدل

١٧_ قانون اور آئين اس طرح مرتب كيا جائے جو نادانوں اور ناتوانوں كے حق ميں ظلم و زيادتى كا سدّباب كرسكے_

فان كان الذى عليه الحق فليملل وليه بالعدل

۳۳۹

١٨_ سفيہہ اور كمزور لوگ اپنى اجتماعى و معاشرتى ضرورتوں كيلئے ولى اور سرپرست كے محتاج ہيں _

فان كان الذى عليه الحق سفيها او ضعيفاً فليملل وليه بالعدل

١٩_ سرپرستوں كيلئے ضرورى ہے كہ اپنے تحت سرپرستى افراد كے معاملات ميں عدل و انصاف كا خيال ركھيں _

فليملل وليه بالعدل

٢٠_ اگر ولّى و سرپرست عدل و انصاف كا پاس كرے تو اس كى لكھى ہوئي دستاويز اور ولايت و سرپرستى كا استعمال صحيح اور نافذ ہے_فليملل وليه بالعدل

٢١_ دو مسلمان مردوں كو گواہ بنانا ضرورى ہے اگر وہ نہ مل سكيں تو ايك مرد اور دو مسلمان عورتيں قرضوں اور بقاياجات كى دستاويز لكھنے كيلئے گواہ بنائے جائيں _واستشهدوا شهيدين من رجالكم فان لم يكونا رجلين فرجل و امراتان

٢٢_ قرض اور بقاياجات پر گواہ ميں بلوغ شرط ہے_و استشهدوا شهيدين من رجالكم كلمہ''رجل''(مرد) اور''امراة''(عورت) بالغ افراد ميں ظہور ركھتے ہيں _

٢٣_ گواہ بننے ميں مرد عورتوں پر مقدم ہيں _فان لم يكونا رجلين فرجل و امراتان

٢٤_ قرض اور بقاياجات پر گواہ ، طرفين كى پسند كے اور انكے قابل قبول ہونے چاہييں _و استشهدوا شهيدين من رجالكم ممن ترضون من الشهداء

٢٥_ عورتوں ميں غلطى اور بھول چوك كا مردوں كى بنسبت احتمال زيادہ ہے_ان تضل احديهما فتذكر احديهما الاخري

جملہ''ان تضلّ''دو عورتوں كو ايك مرد كى جگہ پر لانے كى علت بيان كر رہا ہے_

٢٦_ گواہى ميں ايك مرد كى جگہ دو عورتوں كا ہونا اس لئے ضرورى ہے كہ اگر ايك بھول جائے يا غلطى كرے تو دوسرى اسے ياد دلائے_فرجل و امراتان ان تضل احديهما فتذكر احديهما الاخري

٢٧_ گواہوں كے متعدد ہونے كا فلسفہ ،بھولنے يا غلطى كرنے كى صورت ميں ايك كا دوسرے كو ياد دلانا ہے_*

ان تضل احديهما فتذكر احديهما الاخري

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749