تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172778 / ڈاؤنلوڈ: 6319
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

٢۔ علم و حکمت:

حضرت علی ـاس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''جو شخص حکمت سے آگاہ ہے اس کو نگاہیں ہیبت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہیں ''۔(١)

٣۔ حلم:

حضرت علی ـسے منقول ہے: ''حلم وقا رکا باعث ہے '' ۔(٢)

٤۔سکوت:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''زیادہ خاموشی انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے ''۔(٣) نیز مومنین اور پرہیز گاروں کی خصوصیات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' اے ہمام ! مومن زیادہ سے زیادہ خاموش رہتا ہے اور باوقار ہوتا ہے ''۔(٤)

٥۔ تواضع و فروتنی:

حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''فروتنی تم پر بزرگی اور شان و شوکت کا لباس پہناتی ہے '' ۔(٥) اسی طرح روایات میںدوسرے اسباب جیسے آہستہ گفتگو کرنا(٦) وغیرہ بیان ہوا ہے کہ اختصار کی وجہ سے انھیںہم ذکر نہیں کررہے ہیں۔ آیات و روایات میںاطمینان قلب کے لئے بہت سے اسباب و علل بیان کئے گئے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہے:

١۔ ازدواج:

قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: ''اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑوں کو تمہارے لئے خلق فرمایا تاکہ ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت ورحمت قرار دی۔ ہاں، اس (نعمت ) میں صاحبان عقل و فکر کے لئے یقینا ً نشانیاںہیں''۔(٧) دوسری جگہ فرماتا ہے: ''وہ ایسی ذات ہے جس نے تم کو ایک نفس سے خلق فرمایا اور اس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ اس سے سکون حاصل کرو'' ۔(٨)

٢۔ عدالت:

حضرت فاطمہ زہرا ٭ فرماتی ہیں: ''خداوند عالم نے ایمان کو شرک دور کرنے کا ذریعہ....... اور عدالت کو دلوں کے سکون کا باعث قرار دیا ہے ''۔(٩)

____________________

١ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص ٢٣، ح ٤، اور ملاحظہ ہو : صدوق، علل الشرائع، ج ١، ص ١١٠، ح ٩ ؛ مجلسی، بحار لا نوار، ج ١، ص ١١٧تا ١٢٤۔٢۔ آمدی، غرر الحکم، حکمت ٥٥٣٤۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٢٦، ح ١۔ ٤۔ ایضاً۔٥۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤١٨٤۔ ٦۔ کافی، ج٥، ص٣٩،ح٤۔٧۔ سورئہ روم، آیت ١ ٢۔ ٨۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٩۔ ٩۔ صدوق، من لا یحضر الفقیہ،ج٣، ص٥٦٨،ح٤٩٤٠۔ علل الشرایع، ص٢٤٨، ح٢۔ طبرسی، احتجاج، ج١،ص١٣٤۔

۱۴۱

٣۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی مومن نہیں ہے مگر یہ کہ خداوندعالم اس کے ایمان کے نتیجہ میں اس کے لئے ایک انس قرار دیتا ہے کہ جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے، اس طرح سے کہ اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو تو اپنے مخالفین سے وحشت نہیں رکھتا''۔(١) واضح ہے کہ اس سکون و اطمینان کا درجہ ایمان کے اعتبار سے ہے، جتنا ایمان کا درجہ زیادہ ہوگا اس سے حاصل شدہ سکون بھی زیادہ پایدار ہوگا۔

٤۔ خدا کی یاد:

قرآن کریم میں مذکور ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لا چکے ہیںاور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں آگاہ ہوجائیں کہ یاد الہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔(٢)

٥۔ حق تک پہنچنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:'' انسان کا دل ہمیشہ حق کی تلاش و جستجو میں مضطرب اور پریشان رہتاہے اور جب اسے درک کرلیتا ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے ''۔(٣) اس لحاظ سے شک وتردید کے علائم میں سے ایک اضطراب اور عدم سکون ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا ذہنی درد و الم ہے۔ اُن تمام مذکورہ موارد کا فقدان جو سکون و وقار کے اسباب و علل میں شمار کئے گئے ہیں ان دونوں کے تحقق کے موانع شمار ہوتے ہیں مگر چونکہ بعض دیگر امور روایات میں سکون و وقار کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا ذیل میںان میں سے اہم ترین امور کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

۱۔ لوگوں سے سوال و درخواست کرنا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''لوگوں سے سوال کرنا انسان کی زندگی کو ذلت وخواری سے جوڑ دیتا ہے، حیا کو ختم کردیتا اور وقار کو کم کردیتا ہے ''۔(٤) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''فقیر انسان میں ہیبت و عظمت کا وجود محال ہے

۲۔ حد سے زیادہ ہنسنا اور ہنسی مذاق کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ ہنستا ہے اس کی شان و شوکت کم ہوجاتی ہے ''۔ رسولخدا فرماتے ہیں: ''زیادہ ہنسی مذاق کرنا انسان کی آبرو کو ختم کردیتا ہے''۔(٥)

____________________

١ ۔ مجلسی، بحار لا نوار ج ٦٧، ص ٨ ٤ ١، ح ٤۔ ٢۔ رعد ، ٢٨۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص٤٢١، ح ٥۔ ٤ ۔ مجلسی، بحار لا نوار، ج ٧٨، ص ١٣٦، ح ٣و ج ٧٥، ص ١٠٨۔

٥ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤، اور ملاحظہ ہو حرانی، تحف العقول، ص ٩٦۔

۱۴۲

نیز حضرت علی ـ سے وصیت فرماتے ہیں : ''ہنسی مذاق کرنے سے اجتناب کروکیونکہ تمہاری شان و شوکت اور عظمت ختم ہوجائے گی ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہے وہ کم عقل شمار ہوتا ہے''۔(٢)

٣۔ مال، قدرت،علم، تعریف اور جوانی سے سر مست ہونا:

حضرت علی ـ کی طرف منسوب بیان کے مطابق عاقل انسان کو چاہیے کہ خود کو مال، قدرت، علم، ستائش و جوانی کی سرمستی سے محفوظ رکھے، کیونکہ یہ سر مستی انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے اوراس کے وقارکو ختم کردیتی ہے۔(٣)

٤۔ جلد بازی:

جلد بازی سے مراد کسی کام کو بغیر سونچے سمجھے انجام دینا ہے۔ حضرت علی ـ مالک اشتر کو لکھتے ہیں: ہر گز کسی ایسے کام میں جلد بازی نہ کرو جس کا ابھی وقت نہ ہوا ہو! یا جس کام کا وقت ہوچکا ہو اس کے کرنے میں سستی نہ دکھاؤ! کوشش کروکہ ہر کام کو اس کے موقع و محل اور اس سے مخصوص وقت میں ہی انجام دو''۔(٤) ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: '' کسی کام میں جب تک کہ واضح نہ ہو اس کے کرنے میں جلد بازی نہ کرو''۔(٥) اور فرماتے ہیں: اس چیز میں جس میںخدا نے جلد بازی لازم نہیں قرار دی ہے اس میںجلد بازی نہ کرو ۔ ''(٦)

اسلام کے خلاقی نظام میںجلد بازی ہمیشہ نا پسندنہیں ہے، بلکہ بعض امور میں اس کی تاکید بھی کی گئی ہے، لیکن درج ذیل موارد میں جلد بازی سے روکا گیا ہے جیسے سزادینے، جنگ و خونریزی کرنے، کھانا کھانے، نماز تمام کرنے اور غور خوص کرنے میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکیوں، خدا کی خوشنودی، توبہ، عمل صالح اور تحصیل علم وغیرہ کے لئے جلد بازی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم نیک امور کی جانب سبقت کرنے کی تاکید فرماتا ہے: '' نیک کاموں میںایک دوسرے پر سبقت کرو''۔(٧)

____________________

١۔ صدوق، امالی، ص ٣ ٢٢، ح ٤۔ اختصاص، ص ٢٣٠ ؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٦٦٤، ح ٦، اور ٦٦٥، ح١٦۔

٢۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٦٩۔ ٣۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٩٤٨ ١٠۔

٤۔ نہج البلاغہ، نامہ ٥٣۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٣۔ ٦ْ۔ ایضاً، خطبہ ٠ ١٩۔ ٧۔ سورئہ بقرہ، آیت ٤٨ اور سورئہ مائدہ، آیت ٨ ٤۔

۱۴۳

دو۔ نفس کے لئے خطر ناک شئی

نفس کے لئے خطر ناک شئی اس کا ضعیف ہونا ہے جس کے مضر اثرات ہیں اور یہ نفس کے موانع میںشمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اثرات جیسے عدم ثبات، پست ہمتی، غیرت و حمیت کا نہ ہونا ان مباحث کے ضمن میں جو قوت نفس کے علائم میںبیان ہوئے ہیں، آشکار ہوگئے۔ یہاں پر ایک دوسرا مانع یعنی ''تہاون'' اور ''مداہنہ ''کا ذکر اس کی اہمیت کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔

''مداہنہ'' سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نرمی، کوتاہی اور سستی سے کام لینا ہے''۔(١) امر

با لمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور کوتاہی یا نفس کے ضعیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے یا اس شخص کے مال اور اعتبار میں دنیوی طمع و آرزو کی وجہ سے جس کی نسبت سستی اور کوتاہی کو روا رکھتا ہے۔(٢)

آیات وروایات میں دین میں نرمی اور کوتاہی کرنے کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات بیان کئے گئے ہیں ، جیسا کہ خدا وندعالم کفارو مشرکین کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''وہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی سے کام لو تو وہ بھی نرمی سے کام لیں ''۔(٣) یعنی طرفین میںسے ہر ایک دوسرے کے دین سے متعلق سہل انگاری اور نرمی سے کام لے۔(٤ ) حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' میری جان کی قسم، حق کے مخالفین گمراہی و فساد میں غوطہ لگا نے والوں سے ایک آن بھی مقابلہ و جنگ کرنے میں سستی نہیں کروں گا''۔(٥) حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: '' خداوند سبحان نے حضرت شعیب کو وحی کی کہ تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ افراد پر عذاب نازل کروں گا، ان میں سے ٤٠ ہزار افراد برے ہیں اور ٦٠ ہزار ان کے برگزیدہ ہیں۔ حضرت شعیب نے پوچھا: خدایا ! اخیار اور برگزیدہ افراد کا جرم و گناہ کیاہے ؟ تو خداوند سبحان نے جواب دیا: ان لوگوں نے گناہگاروں کے مقابل سستی اور نرمی سے کام لیا ہے اور میرے ناراض ہونے سے وہ ان پر ناراض نہیں ہوئے ''۔(٦)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٧٣ ؛ طریحی، مجمع البحرین، ج ١، ص ٦٦ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج١٣، ص ٢ ١٦ ؛ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٨٢۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢٣٢ تا٢٤٠۔ ٣۔ قلم ٩۔

٤۔ طباطبائی، المیزان، ج١٩، ص ٣٧١۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٤۔

٦۔ تہذیب، طوسی، ج ٦، ص ١٨١ ،ح ٣٧٢ ؛ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٦، ح ١۔

۱۴۴

دین میں سستی ،سہل انگاری اور کوتاہی سے متعلق روایات میں جو نقصان دہ اور ضرر رساں اثرات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے انسانی سماج کی گراوٹ، فسادو تباہی، گناہ و عصیان کی زیادتی، سزا ودنیوی اور اخروی عذاب اور دنیا وآخرت میں نقصان وخسارہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(١)

٢۔ حلم و برد باری اور غصہ کا پینا

'' حلم '' عربی زبان میں امور میں تامل، غوروفکر، تدبیر کرنے اور جلد بازی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ '' حلیم '' اس انسان کو کہتے ہیں جو حق پر ہونے کے باوجود جاہلوں کو سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے اور مقابل شخص کی جاہلانہ رفتار سے وجود میں آنے والے غیض وغضب سے اپنے کو قابو میں رکھے۔(٢) بعض علماء اخلاق حلم کو اطمینان قلبی اور اعتماد نفس کا ایک درجہ خیال کرتے ہیں کہ اس کا مالک انسان آسانی سے غضبناک نہیں ہوتا اور ناگوار حوادث جلدی اسے پریشان اور مضطرب نہیں کرتے۔ اس وجہ سے حلم کی حقیقی ضد غضب ہے، کیونکہ حلم اصولی طور پر غضب کے وجود میں آنے سے مانع ہوجاتا ہے۔ حلم اور '' کظم غیظ '' ( غصہ کو پینے ) کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کظم غیظ صرف خشم و غضب کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے ضبط کر کے ٹھنڈا کردیتا ہے جب کہ حلم بے جا غیض و غضب کے پیدا ہونے سے مانع ہوتا ہے، پس حلم غیض و غضب کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا ''کظم غیظ '' اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے علائم کے ظاہر ہونے کو روک کر درحقیقت اس کا علاج کرتا ہے۔(٣)

قرآن کریم میں حلم ١٠ بار سے زیادہ خداوندسبحان کے صفات میں شمار کیا گیا ہے کہ ان موارد میں نصف سے زیادہ ''غفور'' اور ''حلیم '' ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔(٤)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٥، ح ٦، اور ج ٨، ص ٤ ٣ ١، ح ١٠٣، اور ص ١٢٨، ح ٩٨ ؛ حرانی، تحف العقول، ص ١٠٥، ٧ ٣ ٢؛ نہج البلاغہ، خ ٨٦، ٢٣٣؛ شیخ مفید، ارشاد، ص ٩٢۔

٢۔ ابن اثیر، نہایہ، ج ١، ص ٣٤ ٤، ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٢، ص ١٤٦ ؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٢٩، مجمع البحرین، ج ١، ص ٥٦٥۔ اور فیض کاشانی، ملا محسن، المحجةالبیضائ، ج ٥، ص ٣١٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٥ ٢٩، ٢٩٦۔

٤۔ عبد الباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص ٢١٦، ٢١٧۔

۱۴۵

اسلام کے اخلاقی نظام میںحلم اور بردباری کی قدر و منزلت اس درجہ بلند ہے کہ لوگوں کی رہبری و امامت کے ایک لوازم میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول خدا فرماتے ہیں: ''امامت اوررہبری تین خصوصیات کے مالک افراد کے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے، ایسا تقویٰ جو اسے خدا کی نافرمانی سے روکے، ایسا حلم وبرد باری جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرے اور لوگوں پر ایسی پسندیدہ حکمرانی کہ ان کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح ہو''۔(١) حضرت علی ـ نے فرمایا: '' حلم ڈھانکنے والا پردہ اور عقل شمشیر براں ہے، لہٰذا اپنی اخلاقی کمی کو برد باری سے چھپاؤ اور اپنی نفسانی خواہشات کو عقل کی شمشیر سے قتل کرڈالو ''۔(٢) یعنی انسان کی اخلاقی کمی کے لئے حلم ایک پردہ ہے۔ دوسری جگہ حلم کو عزت کا بلند ترین مرتبہ(٣) عاقلوں کی سرشت ،(٤) اور قدرت کی علامت(٥) تصور کیا گیا ہے۔ کظم غیظ اور غصہ کو پینا در حقیقت تحلّم اور زحمت و کلفت کے ساتھ حلم اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے کظم غیظ اہمیت کے اعتبار سے حلم سے کم درجہ رکھتا ہے، اگر چہ اپنی جگہ اہم اور قابل تعریف ہے۔ قرآن کریم کظم غیظ کو متقین کی صفت اور ایک قسم کی نیکی اور احسان جانتاہے۔ قرآن فرماتا ہے: ''اپنے پروردگار کی عفو و بخشش اورایسی بہشت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور وہ ان پرہیز گاروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے ۔(٦) وہ لوگ جو فراخی اور تنگی حالتوں میں انفاق کرتے ہیں اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور خدا وند عالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔ پیغمبر اکرم نے غصہ کے پینے کی فضیلت میں فرمایا ہے: ''خدا تک انسان کے پہنچنے کے محبوب ترین راستے دو گھونٹ نوش کرنا ہے،ایک غصّہ کا گھونٹ جو حلم وبردباری کے ساتھ پیاجاتا ہے اور غصّہ بر طرف ہوجاتا ہے، دوسرا مصیبت کا گھونٹ کہ جو صبر وتحمّل سے زائل ہوتا ہے ''(٧)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٠٧، ح ٨۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٢٤۔٣۔ کلینی، کافی ج ٨، ص ١٩، ح ٤۔

٤۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٢٧٤، ح ٨٢٩۔٥۔ صدوق، خصال، ج ١، ص ١١٦، ح ٩٦۔

٦۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ١ ، ١٣٤۔٧۔ کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٩۔

۱۴۶

حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فر مایا ہے: ''جو کوئی ایسے خشم وغضب کو کہ جسے وہ ظاہر کرسکتا ہے پی جائے تو قیامت کے دن خدا وند تعالیٰ اپنی رضا سے اس کے دل کو پرکردے گا ''(١)

الف۔ حلم اور کظم غیظ کے اسباب و موانع:

روایات میں علم، عقل، فقہ، تحلم، بلند ہمتی اور حلیم و برد بار افراد کی ہمنشینی کو حلم اختیار کرنے کے اسباب و علل میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام علی رضا ـ فرماتے ہیں: ''فقاہت کی علامتوں میں سے حلم اور سکوت ہے''۔(٢)

نیز حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اگر تم واقعاً حلیم نہیں ہو تو حلم کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہوجائے''۔(١) اسی طرح آپ نے فرمایا: ''حلم اور صبر دونوں جڑواں ہیں اور دونوں ہی بلند ہمتی کا نتیجہ ہیں ''۔(٢) اس کے مقابل کچھ صفات ایسے ہیں جو حلم و برد باری کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں کہ ان میں سے سفاہت ، بیوقوفی، حماقت ، دُرشت مزاجی، تند خوئی، غیض وغضب، ذلت وخواری اور ترش روئی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(٣)

ب۔حلم و برد باری کے فوائد:

اخروی جزا کے علاوہ آیات و روایات میں دنیوی فوائد بھی حلم و برد باری کے بیان کئے گئے ہیں۔ یہ فوائد خواہ انسان کی انسانی زندگی میں نفسانی صفات اور عملی صفات ہوں خواہ ا نسان کی اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار میںظاہر ہوں، ان میں سب سے اہم فوائد یہ ہیں: سکون قلب، وقار، نجابت، رفق ومدارا، صبر، عفو و بخشش، خاموشی، سزادینے میںجلد بازی نہ کرنا، اور خندہ روئی فردی فائدے کے عنوان سے اور کرامت وبزرگواری، کامیابی ،صلح و آشتی، ریاست و بزرگی، لوگوں کے دلوں میں محبوبیت اور پسندیدہ وخوشگوارزندگی حلم و برد باری کے اجتماعی فوائد ہیں ۔ان میں سے بعض فوائد پر اس کے پہلے بحث ہوچکی ہے اور بعض دیگر ایک قسم کی رفتار (عمل) ہیں کہ عملی صفات کے بیان کے وقت ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔

____________________

١۔کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٦۔ ٢۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح ٤۔٣۔ نہج البلاغہ، حکمت ٧ہ٢؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص١١٢، ح ٦، ص ٢٠، ح ٤ اور تحف ا لعقول، ص ٦٩۔٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٦٠۔٥۔ صدوق، خصال، ج ٢، ص ٤١٦، ح ٧ ؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ١٣، ص ٤٢١، ح ١٥ ؛ غرر الحکم، ح ٢٠٠٩ اور ٣٩٤٠ ؛نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٧٥ اور ٢٩٥ ؛ فیض کاشانی، المحجة البیضائ، ج١٥، ص ٢٨٨، ٣٠٨۔

۱۴۷

٣۔ حیا

حیا نفسانی صفات میںایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس تاثیر کا اہم ترین کردار خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ '' حیا'' لغت میں شرم وندامت کے مفہوم میںہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے۔(١) علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیا ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے۔(٢)

آیات و روایات میں ''حیا '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔ اس مفہوم کو کتاب و سنت میں مذکور حیا کے مسائل اور ابواب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم حیا کی تمام اقسام کے درمیان ایک مشترک مفہوم ہے اس وجہ سے حیا کے تین اصلی رکن ہیں: فاعل، ناظر اور فعل۔ حیا میں فاعل وہ ہے جو نفسانی کرامت و بزرگواری کا مالک ہے۔ ناظروہ ہے کہ جس کی قدرو منزلت فا عل کی نگاہ میںعظیم اور قابل احترام ہے اور فعل جو کہ حیا کے تحقق کا تیسرا رکن ہے، برا اور ناپسنددیدہ فعل ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر ''حیا ''''خوف '' و '' تقویٰ '' کے درمیان فرق کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ حیا میں روکنے والا محور ایک محترم اور بلند مرتبہ ناظر کے حضور کو درک کرنا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا ہے، جبکہ خوف وتقویٰ میں روکنے والا محور، خدا کی قدرت کا درک کرنا اور اس کی سزا کا خوف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حیا کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔ اسی طرح یہ بات قابل توجہ ہے کہ حیا مختلف شعبوںمیںکی جاتی ہے کہ اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی، جیسا کہ عورتوں کی حیا '' اخلاق جنسی'' میں، گھرمیں حیا کی بحث '' اخلاق خانوادہ ''میں اور دوسروں سے حیا '' اخلاق معاشرت '' میں مورد تحقیق قرار دی جائے گی۔ یہاں پر حیا سے متعلق صرف عام اور کلی مباحث ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔

٢۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔

۱۴۸

الف۔ حیا کی اہمیت:

رسول خدا حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا، اور حیا کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو حیا کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا''۔ (٢ ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''حیا اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ حیا کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہو لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوںکے ساتھ سچائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوںکی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوںکے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیا ہے۔(٤) حضرت علی ـ نے حیا کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیا تمام خوبصورتی اور نیکی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے''۔(٥) حیا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جو حیا نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے''۔(٦) رسول اکرم کی سیرت کے بارے میں منقول ہے کہ آنحضرت جب بھی لوگوں سے بات کرتے تھے تو عرق شرم (حیا کا پسینہ ) آپ کی پیشانی پر ہوتا تھا اور کبھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتے تھے۔(٧)

____________________

١۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔

٣۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔٤۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔

٥۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔٦۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔٧۔ کافی ، ج٥ ،ص٥٦٥، ح٤١۔

۱۴۹

کبھی حیا کا منفی رخ سامنے آتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جب اس کا سبب حماقت، جہالت، اور نفس کی کمزوری ہو۔ اسلامی اخلاق میں ایسی شرم و حیا کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اسے اخلاقی فضیلت شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان کے رشد و علو کے لئے رکاوٹ اور مختلف شعبوںمیں اس کے پچھڑنے کا سبب ہوتی ہے۔ روایات میں اس طرح کی شرم کو جہل و حماقت اور ضعف کی حیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔(١)

ب۔ حیا کے اسباب و موانع :

بعض وہ امور جو روایات میں حیا کے اسباب کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:

١۔عقل:

رسول خدا نے ایک عیسائی راہب ( شمعون بن لاوی بن یہودا) کے جواب میں کہ اس نے آپ سے عقل کے علائم وماہیت کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: ''عقل حلم کی پیدائش کا باعث ہے اور حلم سے علم، علم سے رشد، رشدسے عفاف اور پاک دامنی، عفاف سے خوداری، خوداری سے حیا، حیا سے وقار، وقار سے عمل خیر کی پابندی اور شر سے بیزاری اور شر سے تنفرسے نصیحت آمیز اطاعت حاصل ہوتی ہے۔(٢)

٢۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: '' جو حیا نہیں رکھتا وہ ایمان بھی نہیں رکھتا ''۔

اسی طرح روایات میں کچھ امور کو حیا کے موانع بے حیا ئی کے اسباب و علل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں: ایک۔ حرمتوں اور پردوں کو اٹھا دینا: حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: '' شرم وحیا کا پردہ اپنے اور اپنے بھائیوںکے درمیان سے نہ اٹھاؤ اور اس کی کچھ مقدار باقی رکھو، کیونکہ اس کا اٹھانا حیا کے اٹھانے کے مترادف ہے''۔(٣)

۳۔ لوگوںکی طرف دست سوال دراز کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' لوگوں کی طرف دست سوال دراز کرنا عزت چھین لیتا ہے اور حیا کو ختم کردیتا ہے''۔(٤)

____________________

١۔ صدوق، خصال، ج ١، ص٥٥، ح ٧٦ ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٠٦، ح ٦۔ ٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٩، اسی طرح ملاحظہ ہو، ص ٢٧ ؛ صدوق، خصال، ج ٢، ص٤٠٤، ٤٢٧ ؛ کلینی، کافی، ج١، ص ١٠، ح ٢ ۔اور ج ٢، ص ٢٣٠۔ ٣۔ کافی، ج ٢، ص ٦٧٢، ح٥۔٤۔ ایضاً، ج٢، ص ١٤٨، ح ٤۔

۱۵۰

٣۔ زیادہ بات کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ خطا کرتا ہے اور جو زیادہ خطا کرتا ہے اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم کم ہوجاتی ہے اس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اور جس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے''۔(١)

٤۔ شراب خوری:

حضرت امام علی رضا ـ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے شراب کی حرمت کی علت کے بارے میں فرمایا: ''خداوندسبحان نے شراب حرام کی کیونکہ شراب تباہی مچاتی ہے، عقلو ں کو حقائق کی شناخت میں باطل کرتی ہے اورانسان کے چہرہ سے شرم و حیا ختم کردیتی ہے''۔(٢)

ج۔ حیا کے فوائد:

روایت میں حیا کے کثرت سے فوائد پائے جاتے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ خدا کی محبت:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے ''۔(٣)

٢۔عفّت اور پاکدامنی:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''حیا کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے''۔(٤)

٣۔ گناہوں سے پاک ہونا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:'' چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا، کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا، جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو''۔(٥)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔٢۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔٣۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔

٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔ ٥۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔

۱۵۱

٤۔ رسول خدا نے شرم و حیا کے کچھ فوائد کی شرح کے ذیل میں فرمایا ہے:

''جو صفات حیا سے پیدا ہوتے ہیں یہ ہیں: نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میںرکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوںکے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنھیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے''۔(١)

اسلام کی اخلاقی کتابوں میں ''وقاحت '' اور ''بے شرمی'' سے متعلق بہت سے بیانات ہیںکہ ہم اختصار کی خاطر صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ اپنے شاگرد ''مفضل '' سے فرماتے ہیں: ''اے مفضل! اگرحیا نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا''۔(٢)

د۔حیا کے مقامات :

بیان کیا جاچکا ہے کہ ''حیا'' ناظر محترم کے حضوربرے اعمال انجام دینے سے شرم کرنا ہے۔ اس بنا پر پہلے: اسلام کی اخلاقی کتابوں میں خدا، اس کی طرف سے نظارت کرنے والے، اس کے نمایندے، انسان اور دوسروں کی انسانی اور الہی حقیقت کا ذکر ایک ایسے ناظر کے عنوان سے ہوا ہے کہ جن سے شرم وحیا کرنی چاہیے۔(٣)

دوسرے: حیا کے لئے ناپسندیدہ اور امور ہیں اور نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیا کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی۔ بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے مفہوم میں پہلے بیان کئے گئے ضابطہ و قانون کے باوجود یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ انسان ان موارد کی نسبت ایک طرح علمی شبہہ رکھتا

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔٢۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔

٣۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔

۱۵۲

ہے اور ایک حد تک ان موارد میں حیا کرنے کی تائید کے لئے توجیہات گڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اس کے خیالات و تصورات باطل ہیں۔ وہ بعض موارد اور مقامات جہاں حیا نہیں کرنی چاہیے، درج ذیل ہیں:

١۔ حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا: پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیا کی وجہ سے ترک نہ کرو ''۔(١)

٢۔تحصیل علم سے حیاکرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے''۔(٢)

٣۔ حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیا نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا''۔(٣)

٤۔ مہمانوںکی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے''۔(٤)

٥۔دوسروں کا احترام کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے: منجملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے''۔(٥)

٦۔ نہ جاننے کے اعتراف سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں کہ ''میں نہیں جانتا'' شرم نہیں کرنی چاہیے''۔(٦)

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔ ٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔٥۔ غرر الحکم۔

٦۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔

۱۵۳

٧۔ خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا:

امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے، اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو ''۔(١)

٨۔ معمولی بخشش کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی کمتر ہے۔''(٢)

٩۔اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: ''یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو ؟ خدا کی قسم، اگر اہل مدینہ نہ ہوتے (کہ ملامت اور نکتہ چینی کریں) تو میں بھی اس بات کو دوست رکھتا کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں''۔(٣)

٤۔ عفّت

نفسانی صفات میںایک دوسر ی روکنے والی صفت عفّت اور پاکدامنی ہے۔ '' عفّت '' لغت میں نا پسند اور قبیح امر کے انجام دینے سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے۔(٤) علم اخلاق کی اصطلاح میں ''عفت'' نام ہے اس نفسانی صفت کا جو انسان پر شہوت کے غلبہ اور تسلّط سے روکتی ہے۔(٥) شہوت سے مراد اس کا عام مفہوم ہے کہ جو شکم وخوراک کی شہوت، جنسی شہوت، بات کرنے کی شہوت اور نظر کرنے کی شہوت اور تمام غریزوں (شہوتوں) کو شامل ہوتی ہے، حقیقت عفّت یہ ہے کہ شہوتوںاورغریزوں سے استفادہ کی کیفیت میں ہمیشہ شہوتوں کی جگہ عقل و شرع کا غلبہ اور تسّلط ہو۔ اس طرح شہوتوں سے منظّم ومعیّن عقلی وشرعی معیاروں کے مطابق بہرہ مند ہونے میں افراط و تفریط نہیں ہوگی۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔٢۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔٤۔ لسان العرب، ج ٩، ص ٢٥٣ ،٢٥٤ ؛ جوہری ،صحاح اللغة، ج ٤، ص ١٤٠٥، ١٤٠٦ ؛ نہایہ، ج ٣، ص ٢٦٤۔٥۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن ص ٣٥١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٥ ۔

۱۵۴

الف۔ عفّت کے اقسام:

عفّت کے لئے بیان شدہ عام مفہوم کے مطابق عفّت کے مختلف ابعاد وانواع پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

١۔ عفّت شکم:

اہم ترین شہوتوںمیں سے ایک اہم کھانے کی شہوت و خواہش ہے۔ کھانے پینے کے غریزہ سے معقول ومشروع (جائز ) استفادہ کو عفّت شکم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس عفّت کے متعلق قرآن میں اس آیت کی طرف اشارہ کیاجا سکتا ہے کہ فرماتا ہے: ''تم میں جو شخص مالداراور تونگر ہے وہ (یتیموں کا مال لینے سے) پرہیز کرے اور جو محتاج اور تہی دست ہے تو اسے عرف کے مطابق ( بقدر مناسب) کھا نا چاہیے''۔(١) اس عفّت کی تفصیلی بحث اقتصادی اخلاق میںکی جاتی ہے۔

٢۔ دامن کی عفت: جنسی غریزہ قوی ترین شہوتوں میں سے ایک ہے اسے جائز ومشروع استعمال میں محدود کرنا اور محرمات کی حد تک پہونچنے سے روکنا ''عفّت دامن '' یا پاکدامنی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اسی معنی میں عفّت کا استعمال درج ذیل آیت میں ہوا ہے: ''جن لوگوںمیں نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے انھیں چاہیے کہ پاکدامنی اور عفّت سے کام لیں یہاں تک کہ خدا انھیںاپنے فضل سے بے نیاز کردے ''۔(٢)

اس عفّت کی بحث تفصیلی طور پراخلاق جنسی میں بیان کی جائے گی ۔اگر چہ اپنے آپ کو شہوتوںکے مقابل بچانا شکم اور دامن کی شہوت میں منحصر نہیں ہے، بلکہ تمام شہوتوں کو شامل ہے لیکن چونکہ یہ دونوں ان سب کی رئیس ہیں اور اخلاق کی مشہور کتابوں میں صرف انھیںدو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حتیٰ بعض علماء نے ان دو کو عفّت کی تعریف میں بھی شامل کیا ہے،(٣) لہٰذا انھیں دو قسموں کے ذکر پر اکتفا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ان دو قسموں میں سے ہر ایک، ایک خاص عنوان سے مربوط ہے لہٰذا ہر ایک کی اپنے سے متعلق عنوان میں مفصل بحث کی جائے گی، یہا ں پر ان کے بعض کلی اور مشترک احکام کا ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ نسائ، آیت ٦، اسیطرح سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ سورئہ نور، آیت ٣٣؛ اسی طرح ملاحظہ ہو: آیت ٦٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٥۔

۱۵۵

ب۔عفّت کی اہمیت:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' سب سے افضل عبادت عفّت ہے '' ۔(١) اور حضرت امام محمد باقر ـ سے منقول ہے: ''خدا کے نزدیک بطن اور دامن (شرمگاہ) کی عفّت سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے ''۔(٢) اور جب کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نیک اعمال انجام دینے میں ضعیف اور کمزور ہوں اور کثرت سے نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن امید کرتا ہوںکہ صرف مال حلال کھاؤں اور حلال طریقہ سے نکاح کروں تو حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا: '' عفّت بطن ودامن سے افضل کون سا جہاد ہے ؟''(٣) رسول خدا اپنی امت کے سلسلہ میں بے عفتی اور ناپاکی کے بارے میںاپنی پریشانی کا اظہار یوں کرتے ہیں: ''میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیز کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں معرفت کے بعد گمراہی، گمراہ کن فتنے اور شہوت بطن ودامن''۔(٤)

ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''میری امت کے جہنم میں جانے کا زیادہ سبب شہوت شکم ودامن کی پیروی کرناہے'' ۔(٥)

ج۔ عفّت کے اسباب:

شکم اور دامن کی عفّت میں سے ہرایک کے پیدا ہونے کے اسباب اقتصادی اور جنسی اخلاق سے مربوط بحث اور اس کے مانند دوسری بحثوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن روایت میں عام عوامل واسباب جیسے عقل، ایمان، تقویٰ حیا و مروت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اختصار کی رعایت اور ایک حد تک ان کی علت کے واضح ہونے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہیں۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٧٩ ،ح ٣۔

٢۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٨ ۔ ص ٧٩، ح ١۔

٣۔ جامع السعادات، ص ٧٩، ح ٤ ۔

٤۔ جامع السعادات، ح ٦ ۔

٥۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٧۔

۱۵۶

د۔ عفّت کے موانع:

عفّت کے عام موانع میں ''شرارت '' اور ''خمود '' ( سستی اور سہل انگاری ) ہے، ان دونوں کی مختصرتوضیح درج ذیل ہے:

١۔ شرارت:

شرارت سے مراد اپنے عام مفہوم کے لحاظ سے شہوانی قوتوں کی پیروی کرنا ہے اس چیز میں جو وہ طلب کرتی ہیں،(١) خواہ وہ شہوت شکم ہو یا شہوت مال دوستی یا اس کے مانند کسی دوسری چیز کی شہوت ۔ شرارت یعنی جنسی لذتوں میں شدید حرص کا ہونا اور ان میں زیادتی کا پایا جانا۔(٢) حضرت علی ـ نے شرارت کی مذمت میں فرمایا ہے: '' شرارت تمام عیوب کی رئیس ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ کا بیان اس سلسلہ میں یہ ہے: کہیںایسا نہ ہو کہ جو کچھ خدا نے تم پر حرام کیا ہے اس کا تمہارا نفس حریص ہوجائے کیونکہ جو شخص بھی دنیا میں حرام خدا وندی کا مرتکب ہوگا خداوند سبحان اسے جنت سے اور اس کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم کردے گا ''۔(٤)

٢۔ خمود:

''شرارت'' کے مقابل ہے یعنی ضروری خوراک کی فراہمی میں کاہلی اور کوتاہی کرنا اور جنسی غریزہ سے ضروری استفادہ کرنے میں سستی اور کوتاہی کرنا اس طرح سے کہ صحت و سلامتی، خاندان کی تباہی اور نسل کے منقطع ہونے کا سبب بن جائے ۔ یہ واضح ہے کہ یہ حالت غریزوں اور شہوتوں سے استفادہ میں تفریط اور کوتاہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔(٥) ''خمود'' حکمت خلقت کے مخالف اور نسل انسان کے استمرار و دوام نیز اس کی بقا اور مصلحت کے مخالف ہے، اس کے علاوہ اسلامی اخلاق میں غرائز وشہوات سے جائز استفادہ کی جوکثرت سے تاکید پائی جاتی ہے اور جو کچھ رہبانیت اور دنیا سے کنارہ کشی کی مذمت کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے وہ سب '' خمود '' کی قباحت کو بیان کرتے ہیں ۔اس امر کی تفصیلی بحث '' اخلاق جنسی '' میں ہوگی۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٣، ص ٥٠٦۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٤۔ ٣۔ ؛ کلینی، کافی، ج٨، ص ٩ ١، ح٤ ؛ نہج البلاغہ، حکمت، ٣٧١۔٤۔ کلینی، کافی ، ج٨، ص ٤، ح ١۔٥۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٣۔

۱۵۷

ہ۔ عفّت کے فوائد :

روایات میں عفّت کے متعدد دنیوی اور اخروی فوائد بیان کئے گئے ہیں جیسے پستیوں سے نفس کی حفاظت کرنا، شہوتوں کو کمزور بنانا اور عیوب کا پوشیدہ ہونا کہ یہاں اختصار کے پیش نظررسول خدا کے ایک کلام کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کررہے ہیں۔

عفّت کے علائم یہ ہیں: جو کچھ ہے اس پر راضی ہونا، اپنے کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا، نیکیوں سے استفادہ کرنا، آسائش اور راحت میں، اپنے ما تحتوں اور مسکینوں کی دل جوئی، تواضع، یا د آوری ( غفلت کے مقابل )، فکر، جو د و بخشش اور سخاوت کرنا۔(١)

٥۔ صبر

نفسانی صفات میں سب سے عام اور اہم روکنے والی صفت ''صبر '' ہے۔ ''صبر '' کے معنی عربی لغت میں حبس کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے ہیں۔(٢) اور بعض نے اسے بے تابی اور بے قراری سے نفس کو باز رکھنے سے تعبیر کیا ہے۔(٣) اخلاقی اصطلاح میں صبرنام ہے نفس کو اس چیز کے انجام دینے اور آمادہ کرنے جس میں عقل و شرع کا اقتضاء ہونیز اس چیز سے روکنا جسے عقل وشرع منع کرتے ہیں۔(٤) مذکورہ تعریفوں کے پیش نظر ''صبر '' ایک ایسی عام اور روکنے والی نفسانی صفت ہے کہ جس میں دو اہم جہت پائے جاتے ہیں : صبر ایک طرف انسان کی غریزی اور نفسانی خواہش اور میلان کوحبس اور دائرئہ عقل وشرع میںمحدود کرتا ہے۔ دوسری طرف نفس کو عقل وشرع کے مقابل ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے سے روکتا ہے اور اسے اس بات پر ابھارتا ہے کہ اپنے کو فرائض الہی کی پابندی کے لئے زحمت اٹھانے اور دشواریوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے، البتہ اگر یہ حالت انسان میں سہولت و آسانی سے پیدا ہوجائے تو اسے ''صبر'' اور اگر انسان زحمت ومشقت میں خود کو مبتلا کرکے اس پر آمادہ کرے تو اسے '' تصبر '' (زبردستی صبر کرنا )کہتے ہیں۔

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص٢٠۔

٢۔ زبیدی، تاج العروس، ج ٧، ص ٧١ ؛ راغب اصفہانی، مفردات، ٤٧٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٤، ص ٤٣٨۔

٣۔ جوہری، صحاح اللغة، ج ٢، ص ٧٠٦۔ طریحی، مجمع البحرین، ج ٢، ص ١٠٠٤۔

٤۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٤٧٤۔

۱۵۸

الف۔ صبر کی قسمیں:

صبر کے لئے جو عام اور وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق علماء اخلاق نے متعدد جہات سے صبر کے لئے مختلف اقسام و انواع بیان کی ہیں کہ ان میں سے اہم ترین اقسام کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

١۔ مفہوم کے لحاظ سے:

مذکورہ تعریفوں کے مطابق کبھی صبر سے مراد نفسانی جاذبوں اور دافعوں میں ہر قسم کی محدودیت کا ایجاد کرنا ہے کہ جو ایک عام مفہوم ہے اور کبھی اس سے مرادناگوار امور کی نسبت عدم رضایت اور بے تابی کے اظہار سے نفس کو روکنا ہے۔ اس لحاظ سے صبر کے دو مفہوم ہیں کہ کبھی خاص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

٢۔ موضوع کے لحاظ سے:

صبر اپنے عام مفہوم میں موضوع کے اعتبار سے متعدد انواع کا حامل ہے۔

کبھی صبر سختیوں اور مصیبتوںپر ہوتا ہے جو کہ ان سختیوں اور مصیبتوں کے مقابل مضطرب وپریشان نہ ہونا اور سعہ صدر کی حفاظت ہے، اسے '' مکروہات پر صبر '' کہتے ہیں اور اس کے مقابل ''جزع '' اور بے قرار ی ہے صبر کی رائج قسم یہی ہے۔ جنگ کی دشواریوں پر صبر کرنا '' شجاعت'' ہے اور اس کے مقابل '' جبن '' بزدلی اور خوف ہے۔ اور کبھی صبر غیض و غضب کی سرکشی اور طغیانی کے مقابل ہے کہ اسے '' حلم '' اور '' کظم غیظ '' کہتے ہیں۔ کبھی صبر عبادت کے انجام دینے میں ہے کہ اس کے مقابل ''فسق '' ہے جو شرعی عبادت کی پابندی نہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اور کبھی صبر شکم کی شہوت اور جنسی غریزہ کے مقابل ہے کہ جسے '' عفّت ''کہتے ہیں۔ اور دنیا طلبی اور زیادہ طلبی کے مقابل ہے جو کہ ''زہد '' ہے اور اس کے مقابل '' حرص '' ہے۔

۱۵۹

اور کبھی صبر اسرار کے کتمان پر ہوتا ہے کہ جسے راز داری کہتے ہیں۔(١)

٣۔ حکم کے لحاظ سے:

صبر اپنے تکلیفی حکم کے اعتبارسے پانچ قسم میں تقسیم ہوتاہے: واجب صبرجو کہ حرام شہوات ومیلانات کے مقابل ہے۔ اور مستحب صبر مستحبات کے انجام دینے پر ہونے والی دشواریوں کے مقابل ہے۔ حرام صبر جو بعض اذیت و آزار پر ہے جیسے انسان کے مال، جان اور ناموس پر دوسروں کے تجاوز کرنے پر صبر کرنا۔ صبر ناگوار اور مکروہ امور کے مقابل جیسے عاشور کے دن روزہ رکھنے کی سختی پر صبر کہ جو مکروہ ہے ان موارد کے علاوہ مباح ہے، لہٰذا ہمیشہ صبر پسندیدہ اور محبوب شیٔ نہیں ہے، بلکہ کبھی حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوجاتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص٢٨٠، ٢٨١؛ رسول اکرم نے ایک حدیث میں صبر کی تین قسم بیان کی ہے: مصیبت کے وقت صبر، طاعت و بندگی پر صبر، اور معصیت و گناہ پر صبر۔ کلینی، اصو ل کافی، ج ٢، ص ٩١، ح ١٥۔ اسی طرح بعض علماء اخلاق نے صبر کو اس وجہ سے دو قسم پر تقسیم کیا ہے متاع دنیا (سراء ) پر صبر اور بلا (ضراء ) پر صبر۔ ملاحظہ ہو نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٩٣، ٢٩٤۔

٢۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٨٥۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

ذكر كيا ہے _

١٣_ خداوند متعال كى قدرت و اقتدار اور حكمت اس كے عدل و قسط كى بنياد ہے_قائما بالقسط لاإله إلا هو العزيز الحكيم

١٤_ خلقت كا عادلانہ نظام خداوند متعال كى وحدانيت، قدرت و اقتدار اور حكمت كى علامت ہے_

قائما بالقسط لاإله إلا هو العزيز الحكيم گويا جملہ''لا اله الا هو ''،''قائما بالقسط''ايككے نتيجہ كا بيان ہے يعنى عادلانہ نظام خدا تعالى كى توحيد، عزت، قدرت اور حكمت پر دلالت كرتا ہے_

١٥_ خدا تعالى عزيز اور حكيم ہے_هو العزيز الحكيم

١٦_ انبياء (ع) اور اوصياء (ع) اہل علم ہيں اور توحيد كے گواہ_شهد الله أنه لا إله إلا هو و الملائكة و أولوا العلم قائما بالقسط امام محمد باقر(ع) فرماتے ہيں :اما قوله''و اولوا العلم قائما بالقسط''فان اولى العلم الانبياء و الاوصياء صاحبان علم انبياء اور اوصياء ہيں (١)

اسماء و صفات: حكيم ١٥، عزيز ١٥

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى گواہى ١٦

اوصياء (ع) : اوصياء (ع) كى گواہى ١٦

ايمان: ايمان كا پيش خيمہ ١٠

توحيد: ٢، ٣، ٥، ٦، ٨، ١٠، ١٤ توحيد ذاتى ١١; توحيد عبادى ١، توحيد كى دليليں ١، ٣، ٦،٨، ١٤; توحيد كے گواہ ١، ٢، ٣، ٦، ٨، ٩، ١٦

خدا تعالى: خدا تعالى كا عدل ١، ٤، ٥، ٧، ٨، ١٣; خدا تعالى كى حكمت ١٣، ١٤; خدا تعالى كى قدرت ١٣، ١٤; خدا تعالى كى گواہى ١، ٣، خدا تعالى كے حضور ١٢

خلقت: خلقت كا نظام ٥، ٦، ٧، ١٤

عدل : عدل كا سرچشمہ ١٣; عدل نظام تشريعى ميں ٥; عدل نظام تكوينى ميں ٥، ٧، ٨

____________________

١) تفسير عياشى ج١ ص ١٦٥ ح ١٨ نورالثقلين ج١ ص ٣٢٣ ح ٦٦_

۴۲۱

علم: علم اور توحيد ١٠; علم و ايمان كا رابطہ ١٠ علماء:٦، ٩ علماء اور توحيد ٣، ٥، ٦; علماء كى گواہى ٨، ٩، ١٦; علما ء كا مقام ١٢

فرشتے : فرشتوں كامقام ١٢;فرشتوں كى گواہى ٣، ٨; فرشتے اور توحيد ٥

ہدايت: ہدايت كے عوامل ١٠

إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللّهِ فَإِنَّ اللّهِ سَرِيعُ الْحِسَابِ (١٩)

دين ، الله كے نزديك صرف اسلام ہے اور اہل كتاب نے علم آنے كے بعدہى جھگڑا شروع كيا ہے صرف آپس كى شرارتوں كى بناپر اور جو بھى آيات الہى كا انكار كرے گا تو خدا بہت جلد حساب كرنے والا ہے _

١_ خدا تعالى كى وحدانيت ، عدل اور اس كے عزيز و حكيم ہونے كا اعتقاد اور اقرار ہى خدا كا قابل قبول دين ہے _

قائما بالقسط لااله الا هو العزيز الحكيم_ انّ الدين عندالله الاسلام

٢_ خداوند متعال كى توحيد، قدرت اور حكمت كا تقاضا يہ ہے كہ انسان صرف اس كے سامنے سرجھكائے_

قائما بالقسط لااله الا هو العزيز الحكيم_ انّ الدين عندالله الاسلام يہ نكتہ اس آيت كے سابقہ آيت كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتاہے_

٣_ خداوند عالم كے نزديك قابل قبول دين صرف

۴۲۲

اسلام (خدا كے سامنے سرتسليم خم كرنا) ہے_انّ الدين عندالله الاسلام

٤_ دين كى حقيقت و روح اپنے آپ كو خدا كے كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہے_انّ الدين عندالله الاسلام

٥_ قرآن كريم كى نظر ميں توحيد، عدل اور دين باہم ارتباط ركھتے ہيں _لا اله الا هو قائما بالقسط انّ الدين

٦_ اہل كتاب كے علماء خداوند عالم كے سامنے سرجھكانے كے لازمى ہونے سے آگاہ ہونے كے باوجود اختلافات ميں پڑ گئے_إن الدين عند الله الأسلام و ما اختلف الذين أوتوا الكتاب إلا من بعد ما جآئهم العلم

٧_ دينى اختلافات كا سرچشمہ متجاوز اور حاسد علماء ہيں _و ما اختلف إلا من بعد ما جآئهم العلم بغيا

''بغيا''كے معنى تجاوز كے ہيں اور حسد كے معنى ميں بھى آيا ہے_ (مجمع البيان)_

٨_ حسد اور اخلاقى نقائص علماء كى لڑائي كے اسباب ميں سے ہيں _و ما اختلف بغيا بينهم

٩_ حسد اور سركشى اہل كتاب (يہود و نصاري)كى طرف سے خدا كے قابل قبول دين كى مخالفت كے اسباب_

و ما اختلف الذين أوتوا الكتاب بغيا بينهم

١٠_ حسد اورحد سے تجاوز ، علماء كى روشن فكرى اور حقيقت شناسى كى حس كيلئے خطرہ ہے_و ما اختلف الذين أوتوا الكتاب بغيا بينهم

١١_ حاسد علماء كا ايك دوسرے سے جھگڑنا ان كى بے دينى اوران كے خدا تعالى كے سامنے سر تسليم خم نہ كرنے كى علامت ہے_إن الدين عند الله الأسلام و ما اختلف الذين بغيا بينهم

١٢_ دين كى حقيقت كے ادراك كے بعد اس ميں اختلافات پيدا كرنا كفر ہے_و ما اختلف و من يكفر بآيات الله

١٣_ فكري، معاشرتى اور دينى اختلافات كا پيدا ہونا الہى اديان كے عادلانہ قوانين سے تجاوز كا نتيجہ ہے_

۴۲۳

و ما اختلف الذين بغيا بينهم

١٤_ الہى آيات كا جان بوجھ كر انكار كرنا خدا تعالى كى سزا كو جلدى لانے كا موجب ہے_

و من يكفر بآيات الله فإن الله سريع الحساب

١٥_ خداوند عالم كى طرف سے كافروں كو كفر سے روكنے كيلئے دھمكي_ومن يكفر بآيات الله فإن الله سريع الحساب

١٦_ خداوند عالم جلدى حساب لينے والا ہے_فإن الله سريع الحساب

١٧_ اعتقاد اورقلبى يقين كے ساتھ سرجھكانا ہى خداوند متعال كے نزديك قابل قبول دين ہے_

ان الدين عند الله الاسلام مذكورہ بالا آيت كے بارے ميں امام محمد باقر(ع) فرماتے ہيں :يعنى وہ دين جس ميں ايمان ہے ''الدين فيہ الايمان''_(١)

آيات الہي: ان كو جھٹلانا ١٤

اختلاف: اختلاف كى سرزنش ١١; اختلاف كے عوامل ٧، ٨، ٩، ١٣; دينى اختلاف ١٢; دينى اختلاف كے عوامل ١٣

اسلام: اسلام كى خصوصيات ٣

اسماء و صفات: حكيم ١; سريع الحساب ١٦; عزيز ١

اہل كتاب: اہل كتاب كا اختلاف ٦;اہل كتاب كا حسد ٩;اہل كتاب كے علماء ٦

ايمان: ايمان توحيد پر ١; ايمان خدا پر ١

تجاوز : تجاوز كے اثرات ٧، ١٠، ١٣

تربيت: تربيت كا طريقہ ١٥

توحيد: ٢

حسد: حسد كے اثرات ٧، ٨، ٩، ١٠، ١١

____________________

١) تفسير عياشى ج١ ص ١٦٦ ح ٢٢، نورالثقلين ج ١ ص ٣٢٣ ح ٦٨_

۴۲۴

حق: حق كے ادراك كے موانع ١٠

خدا تعالى: خدا تعالى كا حساب لينا ١٦;خدا تعالى كا عدل ١، ٢; خدا تعالى كى حدود ١٣; خدا تعالى كى حكمت ٢; خدا تعالى كى دھمكياں ١٥ ;خدا تعالى كى قدرت ٢

دين: ١٢، ١٣ برگزيدہ دين ٣، ١٧;دين اور عدل ٥;دين كا انكار ١٢; دين كى حقيقت ٤، ١٢

روايت: ١٧

سرتسليم خم كرنا: خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا ٣، ٤; دل سے سر تسليم خم كرنا ١٧; سر تسليم خم كرنے كا پيش خيمہ ٢

شناخت: شناخت كے موانع ١٠

عدل:٥

عذاب: عذاب كے اسباب ١٤

علماء: ٧، ١٠ علماء كا اختلاف ٨، ١١

عيسائي: عيسائيوں كا حسد ٩

كفار: كفاركو دھمكى ١٥; كفار كى سزا ١٤

كفر: ١٢

معارف: معارف كا نظام ٥

نافرماني: نافرمانى كے عوامل ٩

ہدايت: ہدايت كا پيش خيمہ ١٥

يہود: يہود كاحسد ٩

۴۲۵

فإنْ حَآجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ وَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ وَالأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُواْ فَقَدِ اهْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ (٢٠)

اے پيغمبر اگر يہ لوگ آپ سے كٹ حجتى كريں تو كہہ ديجئے كہ ميرا رخ تمامتر الله كى طرف ہے او رميرے پير و بھى ايسے ہى ہيں اور پھر اہل كتاب اور جاہل مشركين سے پوچھئے كيا تم اسلام لے آئے _ اگر وہ اسلام لے آئے تو گويا ہدايت پا گئے او راگر منھ پھير ليا تو آپ كا فرض صرف تبليغ تھا او رالله اپنے بندوں كو خوب پہچانتا ہے _

١_ اہل كتاب كے علماء كا حقيقت جاننے كے باوجود پيغمبر اكرم(ص) سے مجادلہ اور جھگڑا كرنا_من بعد ماجائهم العلم ...فإن حآجوك فقل

٢_ پيغمبراسلام (ص) اور ان كے پيروكاروں كا مكمل طور پر خدا تعالى كے سامنے سر تسليم خم كرنا _

فقل أسلمت وجهى لله و من اتبعن

٣_ خدا تعالى كى طرف سے پيغمبر (ص) اسلام كو جھگڑالو اہل كتاب سے مجادلہ نہ كرنے كى ہدايت _فإن حآجوك فقل أسلمت

٤_ حق كے سامنے سرجھكانا اور جھگڑے والى باتوں سے اجتناب لازمى ہے_فان حاجوك فقل أسلمت

٥_ پيغمبر(ص) اسلام كے دين كا محور، خدا تعالى كے سامنے سرتسليم خم كرنا ہے_

فقل أسلمت وجهى ء أسلمتم فإن أسلموا

٦_ پيغمبر (ص) اسلام كا فريضہ اہل كتاب، مشركين مكّہ اور كتاب سے محرو م ان پڑھ لوگوں كو خدا تعالى

۴۲۶

كے سامنے سرتسليم خم كرنے كى دعوت دينا تھا_وقل للذين أوتواالكتاب و الأميين ء أسلمتم

٧_ خدا تعالى كے سامنے سرتسليم خم كرنا ہدايت پانا ہے_فإن أسلموا فقد اهتدوا

٨_ انسان اپنے اختيار سے دين كو قبول كرتا ہے يااس سے روگردانى كرتا ہے_فإن أسلموا فقد اهتدوا و إن تولوا

٩_كافروں كى خدا كے سامنے سرجھكانے (ہدايت) سے روگردانى كے بارے ميں پيغمبر اسلام(ص) كى فكرمندي_

و إن تولوا فإنما عليك البلاغ پيغمبر(ص) اسلام كے فريضے كو خدا كے پيغام كے پہنچانے ميں منحصر كرنے سے ظاہر ہوتا ہے كہ گويا آنحضرت(ص) پيغام پہنچانے كے علاوہ لوگوں كو خدا كے سامنے جھكانا بھى اپنا فريضہ سمجھتے تھے_

١٠_ آنحضرت (ص) كى اس بارے ميں فكر مندى كہ شايد صرف پيغام پہنچا كر انہوں نے اپنى ذمہ دارى پورى نہ كى ہو_

و إن تولوا فإنما عليك البلاغ يہ اس صورت ميں ہے كہ''فانّما عليك البلاغ''آنحضرت(ص) كى انجام فريضہ كى فكرمندى كے مقابلے ميں ہو_

١١_آنحضرت(ص) كا فريضہ صرف لوگوں تك خدا تعالى كا پيغام پہنچانا ہے نہ انہيں ايمان پر مجبور كرنا_

فإنما عليك البلاغ

١٢_خداوند عالم كى طرف سے آنحضرت(ص) كے فريضہ كى حدود بيان كرناآپ(ص) كے اطمينان خاطر كا باعث تھا_

لگتاہے كہ جملہ''فانما ...'' پيغمبر اكرم(ص) كے اطمينان خاطر كيلئے ذكر كيا گيا ہے_

١٣_ خدا تعالى كا بندوں كے بارے ميں ہر طرح سے عالم و بصير ہونا_ و الله بصير بالعباد

١٤_ خداوندعالم كى كافروں كو دھمكي_و إن تولوا و الله بصير بالعباد و ان تولوا كے بعد جملہ''والله بصير بالعباد''جو كہ خدا كى مكمل آگاہى كا بيان ہے كا

۴۲۷

ذكر كرنا ان كيلئے دھمكى ہے جو حق سے منہ موڑتے ہيں (كفار)_

١٥_ مومنين كى طرح كفار بھى خدا تعالى كے زير نظارت اور اس كى حكمرانى كے تحت ہيں _

و الله بصير بالعباد كفاركيلئے كلمہ ''عبد'' كے استعمال سے حكمرانى كامعنى ليا گيا ہے_

١٦_ انسان كا اپنے لئے ہدايت كا انتخاب قدروقيمت ركھتا ہے_ئص أسلمتم فإن أسلموا فقد اهتدوا و إن تولوا فإنما عليك البلاغ

١٧_ آنحضرت(ص) كا دين كو پہنچانا خدا تعالى كى طرف سے بندوں پر اتمام حجت ہے_فإنما عليك البلاغ و الله بصير بالعباد

آنحضرت(ص) : آپ (ص) اور اہل كتاب ١، ٣، ٦ ; آپ (ص) اور كفار ٩; آپ (ص) اور مشركين٦; آپ (ص) كى اطاعت ٢; آپ(ص) كى رسالت ٦، ١٠، ١١، ١٢، ١٧ ;آپ(ص) كے پيروكار ٢ اتمام حجت: ١٧

اسلام: اسلام كى خصوصيات ٥، ٧; صدر اسلام كى تاريخ ١

اطمينان: اطمينان كے عوامل١٢

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى دعوت ٦، ١٠، ١١، ١٧; انبياء (ع) كى ذمہ دارى كى حدود ١١، ١٢

انسان: انسان كا اختيار ٨، ١٦;انسان اور دين٨

اہل كتاب: ١، ٣، ٦ اہل كتاب كے علماء ١، ٣

خدا تعالى: خدا تعالى كا علم ١٣;خدا تعالى كى حكمرانى ١٥; خدا تعالى كى دھمكياں ١٤; خدا تعالى كى نظارت ١٥

دعوت: ٦، ١٠،١١، ١٧

دين:٨ دين كى حقيقت ٥

سرتسليم خم كرنا: حق كے سامنے سر تسليم خم كرنا ٤; خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا ٢، ٥، ٧، ٩; سر تسليم خم كرنے كى دعوت ٦

۴۲۸

قدروقيمت: قدر و قيمت كے معيار ١٦

كفار: ٩، ١٥ كفاركو دھمكى ١٤; كفار كى ہدايت ٩

مجادلہ اور جھگڑا كرنا: ممنوع مجادلہ ٤; ناپسند مجادلہ ١، ٣

مشركين:٦ مشركين مكہ ٦

مومنين :١٥

ہدايت: ہدايت كى قدروقيمت ١٦; ہدايت كے عوامل٧

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الِّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (٢١)

جو لوگ آيات الہيہ كا انكار كرتے ہيں اور ناحق انبياء كوقتل كرتے ہيں او ران لوگوں كوقتل كرتے ہيں جو عدل و انصاف كا حكم دينے والے ہيں انھيں دردناك عذاب كى خبر سنا ديجئے _

١_ جن لوگوں نے خداوند عالم كے سامنے سرتسليم خم كرنے سے روگردانى كى وہ كافر ہيں _و ان تولّوا إن الذين يكفرون بآيات الله

٢_ آيات الہى كے ساتھ كفر برتنے والے دردناك عذاب كے مستحق ہيں _إن الذين يكفرون بآيات الله فبشرهم بعذاب أليم

٣_ خدا تعالى كى آيات كا كفر ، انبياء (ع) اورعدل و عدالت چاہنے والوں كے قتل كا موجب بنتاہے_

۴۲۹

إن الذين يكفرون و يقتلون النبيين يقتلون الذين يأمرون بالقسط

٤_ انبياء (ع) اورعدل و عدالت چاہنے والوں كے قتل پر خدا تعالى كى كافروں كو دھمكي_إن الذين يكفرون و يقتلون النبيين فبشرهم بعذاب أليم

٥_ اہل كتاب اور مشركين كے درميان آيات الہى كے منكر اور انبياء (ع) و عدل خواہوں كے قاتلين موجود تھے_

قل للّذين اوتوا الكتاب و الامّيّن إن الذين يكفرون بآيات الله و يقتلون النبيين و يقتلون

٦_ انبياء (ع) اورعدل خواہوں كا قتل كرنا اور الہى آيات كا انكار كرنا گناہ كے لحاظ سے برابر ہيں _

إن الذين يكفرون و يقتلون النبيين و يقتلون گناہ كا يكساں ہونا سزا كے يكساں ہونے سے سمجھا گيا ہے_

٧_ كافروں كا انجام اور انبياء (ع) و عدل خواہوں كے قاتلوں كا انجام ايك جيسا ہے_إن الذين يكفرون فبشرهم بعذاب أليم

٨_ عقيدہ، انسان كے اعمال كا سرچشمہ_يكفرون و يقتلون

٩_ انبياء (ع) الہى كا قتل، ناحق اور ناقابل توجيہ عمل ہے_و يقتلون النبيين بغير حق

١٠_ كفار، توجيہ اور حق كے اظہار كے ساتھ انبياء (ع) اورعدل خواہوں كو قتل كرتے تھے اور تاويليں كرتے تھے_

إن الذين يكفرون و يقتلون النبيين بغير حق و يقتلون الذين يأمرون بالقسط ''بغير حق''كى تصريح و تاكيد دلالت كرتى ہے كہ كافر حق نمائي كا مظاہرہ كرتے تھے_

١١_ بہت سے انبياء (ع) اور عدل خواہ كفار كے ہاتھوں قتل ہوئے_إن الذين يكفرون و يقتلون النبيين بغير حق و يقتلون الذين يأمرون بالقسط

١٢_ سابقہ امتوں ميں ايسے عدل خواہ لوگ تھے جنہوں نے عدل و عدالت كى خاطر اپنى جانيں قربان كيں _

و يقتلون الذين يأمرون بالقسط

۴۳۰

١٣_ انبياء (ع) اور عدل خواہ لوگوں كے قتل پر خداوند عالم كا شديد غضبناك ہونا_*

و يقتلون النبيين بغير حق و يقتلون الذين يأمرون بالقسط لگتاہے كلمہ''يقتلون'' كا تكرار قتل كے سخت ناپسند ہونے كے بيان كيلئے ہے_

١٤_ عدل كى راہ ميں قتل ہونے كا خطرہ، امر بالمعروف اور برائي سے نبرد آزمائي كے جواز سے مانع نہيں ہے _

و يقتلون الذين يأمرون بالقسط كيونكہ آيت كا انداز ان قتل ہونے والوں كى تعريف و مدح ہے كہ جو عدل كى راہ ميں امربالمعروف كرنے والے تھے_

١٥_ ايسے عدل خواہ لوگ جنہوں نے قسط و عدالت كى راہ ميں اپنى جانيں قربان كرديں انبياء (ع) كے بعد والے رتبے پر فائز ہيں _و يقتلون النبيين بغير حق و يقتلون الذين يأمرون بالقسط من الناس فبشرهم بعذاب أليم

انبياء (ع) اور عدل چاہنے والوں كے قاتلوں كا ايك جيسا عذاب بيان كرنا ان كے رتبہ كے نزديك ہونے پر دلالت كرتا ہے اور انبياء (ع) كو عدل خواہوں سے پہلے ذكر كرنا انبياء (ع) كے رتبہ كے ان پر برتر و بلند ہونے كى حكايت كرتا ہے_

١٦_ انبياء (ع) اور عدل كا حكم دينے والوں كا قتل معاشرے كو ناقابل برداشت مشكلات ميں مبتلا كردينے كا موجب ہے_و يقتلون النبيين بغير حق فبشرهم بعذاب أليم يہ اس صورت ميں ہے كہ''فبشرھم بعذاب اليم''سے مراد دنياوى اور اخروى دونوں طرح كى مشكلات ہوں _ بعد والى آيت كے قرينہ سے كہ جس ميں فرمايا''حبطت اعمالہم فى الدنيا و الآخرة'' يہى ظاہر ہوتاہے_

١٧_عدل خواہى اورعدل خواہوں كا خدا كے نزديك بلند مرتبہ ہونا_و يقتلون النبيين و يقتلون الذين يأمرون بالقسط انبيائے (ع) الہى كے ذكر اور ان كے قاتلوں كو دردناك عذاب كى دھمكى دينے كے بعد عدل چاہنے والوں كے ذكر كرنے سے يہ مطلب ليا گيا ہے_

١٨_ پيغمبر اكرم(ص) كے دور كے كفار كا گذشتہ لوگوں كے ہاتھوں انبياء (ع) كے قتل پر راضى ہونا انہيں الہى عذاب كى دھمكى دينے كى علت ہے_*و يقتلون النبيين فبشرهم بعذاب أليم انبياء (ع) كے قاتلوں كے خاندان كو عذاب كى دھمكى تب صحيح ہوسكتى ہے كہ وہ اپنے ان گذشتہ لوگوں كے اعمال پر راضى ہوں _

۴۳۱

١٩_ معاشرہ كى سعادت و نيك بختي، ايمان، انبياء (ع) كى خدمات اور عدل خواہوں كى زحمات كى مرہون منت ہے_

إن الذين يكفرون فبشرهم بعذاب أليم معاشرہ ميں ايمان، انبياء (ع) اور مصلح حضرات كا نہ ہونا مشكلات اور بدبختى كا باعث ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كا وجود سعادت و نيك بختى كا پيش خيمہ ہے_

٢٠_ بنى اسرائيل، انبياء (ع) اور ان كے حاميوں كے قاتل تھے_و يقتلون النبيين بغير حق و يقتلون الذين يأمرون بالقسط رسول اكرم(ص) نے فرمايا:قتلت بنواسرائيل ثلاثة و اربعين نبيّاً فقام ماة رجل و اثنا عشر رجلاً من عبّاد بنى اسرائيل فصاصمصرُوا من قتلهم بالمعروف و نهوهم عن المنكر فقتلوا جميعا ...بنى اسرائيل نے تينتاليس (٤٣) نبيوں (ع) كو قتل كيا تو بنى اسرائيل سے ايك سو بارہ (١١٢) زاہد و عابد اشخاص امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كرنے كى خاطر اٹھے تو انہوں نے ان سب كو بھى قتل كرديا ...(١)

٢١_ انبياء (ع) اور امر بالمعروف كرنے والوں كے قاتلوں كو خدا تعالى كا سخت ترين عذاب ہوگا_

و يقتلون النبيين بغير حق و يقتلون الذين يأمرون بالقسط رسول اسلام (ص) سے سوال ہوا ايّ الناس اشد عذاباً يوم القيامة؟قال(ص) :رجل قتل نبياً او رجلاً امر بمعروف او نہى عن منكركہ قيامت كے دن كس شخص كو سب سے سخت عذاب ہوگا؟ تو آنحضرت(ص) نے فرمايا وہ شخص جس نے كسى نبى كو يا كسى امر بالمعروف كرنے اور نہى عن المنكر كرنے والے كو قتل كيا ہو اس كے بعد آپ(ص) نے يہ آيت تلاوت فرمائي:''ان الذين يكفرون ...'' (٢)

٢٢_ بنى اسرائيل كو تينتاليس (٤٣) انبياء (ع) اور ايك سو بارہ (١١٢) امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كرنے والوں كے قتل پر دردناك عذاب كىوعيد_ و يقتلون النبيين بغير حق و يقتلون الذين يأمرون بالقسط من الناس فبشرهم بعذاب أليم پيغمبر اسلام(ص) نے مذكورہ بالا آيت كے مصداق كے طور پر بيان فرمايا:قتلت بنواسرائيل ثلاثة و اربعين نبياً اول النهار فى ساعة واحدة فقام مائة رجل واثنى عشر رجلاً عبّاد من بنى اسرائيل فامروا

____________________

١) تفسير طبرى ج٣ ص ١٤٤ ، مجمع البيان ج ٢ص ٧٢٠ تفسير تبيان ج٢ ص ٤٢٢_

٢) تفسير طبرى ج ٣ ص ١٤٤ ، مجمع البيان ج ٢ ص ٧٢٠ ، تفسير تبيان ج ٢ ص ٤٢٢_

۴۳۲

من قتلهم بالمعروف و نهوهم عن المنكر فقتلوا جميعاً من آخر النهار فى ذلك اليوم _ بنى اسرائيل نے صبح كے وقت ايك ہى گھڑى ميں تينتاليس (٤٣) نبيوں (ع) كو قتل كيا تو ايك سو بارہ بنى اسرائيل كے عابد و زاہد لوگ اٹھے اور انہوں نے قتل كرنے والوں كو امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كيا تو انہوں نے ان سب كو اسى دن شام كے وقت قتل كرديا_(١)

٢٣_ حضرت زكريا(ع) اور حضرت يحيي (ع) كے قاتلوں كو دردناك عذاب كا وعدہ_

و يقتلون النبيين بغير حق فبشرهم بعذاب أليم اميرالمؤمنين(ع) مذكورہ بالا آيت كے بارے ميں فرماتے ہيں : انّ نبى الله زكريا قد نشر بالمناشير ويحيى ابن زكريا قتلہ قومہ و ہو يدعوہم الى الله كہ زكريا (ع) نبى كو آروں سے چير ديا گيا اور يحيي ابن زكريا(ع) كو ان كى قوم نے قتل كرديا حالانكہ وہ انہيں خدا كى طرف بلا رہے تھے(٢) _

آيات الہى : ان كوجھٹلانا ٥;ان كے بارے ميں كفر ٣، ٦; ان كے منكرين ٥

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ١٨

اصلاح طلب لوگ: اصلاح طلب لوگوں كا قتل ٢٢

امربالمعروف: ٢١، ٢٢ امر بالمعروف كى اہميت ١٤;امر بالمعروف كے احكام ١٤

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا قتل ٣، ٤،٥، ٦، ٧، ٩، ١٠، ١١، ١٣، ١٨; انبياء (ع) كى تاريخ ١١;انبياء (ع) كى خدمات ١٩;انبياء (ع) كے قتل كى سزا ٧، ١٦، ٢١،٢٣

اہل كتاب: ٥

ايمان: ايمان اور عمل ٨;ايمان كے معاشرتى اثرات ١٩

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور انبياء (ع) كا قتل ٢٠، ٢٢

حضرت زكريا(ع) : حضرت زكريا (ع) كے قتل كى سزا ٢٣

____________________

١) تفسير طبرى ج ٣ ص ١٤٤ ، مجمع البيان ج ٢ ص ٧٢٠ ، تفسير تبيان ج ٢ ص ٤٢٢_

٢) تفسير برہان ج ١ ص ٢٧٤ح ١

۴۳۳

حضرت يحيي (ع) : حضرت يحيي كے قتل كى سزا ٢٣

خدا تعالى: خدا تعالى كا عذاب ١٨، ٢١; خدا تعالى كا غضب ١٣; خدا تعالى كى دھمكى ٤; خدا تعالى كے وعدے ٢٢، ٢٣

راہ وروش: راہ و روش كى بنياد ٨

روايت: ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣

سرتسليم خم كرنا: خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا ١

سعادت: سعادت كے عوامل ١٩

عدل : عدل كيلئے جد و جہد ١٢، ١٤

عدل خواہ لوگ: ان كا رتبہ ١٥، ١٧;ان كا قتل ٣،٤،٥،٦ ،٧،١٠، ١١،١٣،١٦;انكى خدمات١٩، يہ لوگ تاريخ ميں ١٢

عدل خواہي: عدل خواہى كى قدر و قيمت ١٥،١٧

عذاب: عذاب كے اسباب ٢،١٨،٢١، ٢٢ ، ٢٣; عذاب كے مراتب ٢، ٢١ ;عذاب كے مستحق ٢،٢١

عقيدہ: عقيدہ كے اثرات ٨

عمل: ٨ ناشائستہ عمل ٩

قتل نفس: قتل نفس كى سزا ٢١

كفار: ١، ٢، ١٠، ١١ كفار كا انجام ٧;كفار كودھمكي٤، ١٨

كفر: كفر كى سزا ٢;كفر كے اثرات١٣; كفر كے عوامل ١

گناہ: گناہ پر راضى ہونا١٨;گناہ كے درجات٦

معاشرہ: معاشرتى انحطاط و پستى كے عوامل ١٦; معاشرتى ترقى كے عوامل ١٩

مشركين: ٥

۴۳۴

نافرماني: نافرمانى كے اثرات ١

نہى عن المنكر: ٢٢ اسكے احكام ١٤;نہى از منكر كى اہميت ١٤

أُولَئِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ (٢٢)

يہى وہ لوگ ہيں جن كے اعمال دنيا ميں بھى برباد ہو گئے او رآخرت ميں بھى ان كا كوئي مددگار نہيں ہے _

١_ كفار اورانبياء (ع) وعدل خواہ لوگوں كے قاتلوں كے اعمال كا دنيا و آخرت ميں حصبْط و اكارت ہوجانا_

انّ الذين يكفرون أولئك الذين حبطت أعمالهم فى الدنيا و الآخرة

٢_ كفراختيار كرنا اور انبياء (ع) وعدل كيلئے قيام كرنے والوں كا قتل ايسا عظيم گناہ ہے جو تمام اعمال كو نابود اور برباد كرديتا ہے_انّ الذين يكفرون أولئك الذين حبطت أعمالهم

٣_ ايمان، نيك اعمال كى قدر و قيمت كا معيار اور ان كے انجام د ينے كى صورت ميں ا ن پر خدا تعالى كے اجر دينے كى شرط_انّ الذين يكفرون أولئك الذين حبطت أعمالهم

٤_كفاراور انبياء (ع) و عدل كيلئے قيام كرنے والوں كے قاتلين كے اعمال اجتماعى قدر و قيمت اور اعتبار سے عارى ہيں _*انّ الذين يكفرون حبطت أعمالهم ايسالگتاہے دنيا ميں اعمال كى نابودى يا ان كے حبط ہونے كا مطلب ان كا اثرات سے خالى اور غيرمعتبر ہونا ہے_

٥_ انسان كے نيك اعمال قابل قدر اور دنياوى و اخروى نتائج كے حامل ہيں _

حبطت أعمالهم فى الدنيا و الآخرة

۴۳۵

٦_ نيك عمل سرمايہ ہے اور انسان كے ليئے دنيا و آخرت ميں مددگار_حبطت أعمالهم فى الدنيا و الآخرة و ما لهم من ناصرين

٧_ بعض ناشائستہ اعمال ماضى كے اچھے اعمال كو بھى اكارت كرديتے ہيں _حبطت أعمالهم و ما لهم من ناصرين

٨_ انبياء (ع) و عدل كى خاطر قيام كرنے والوں كے قاتلين اور كفار خداوند عالم كے سامنے اپنے اعمال كى نابودى پر نہ كوئي مددگار ركھتے ہيں اور نہ كوئي شفاعت كرنے والا_انّ الذين يكفرون حبطت أعمالهم و ما لهم من ناصرين

٩_ انبياء (ع) اورعدل كى خاطر قيام كرنے والوں كے قاتل اور كفار كوئي راہ نجات نہيں ركھتے_انّ الذين يكفرون و ما لهم من ناصرين

١٠_ كفر اور انبياء (ع) اورعدل كى خاطر قيام كرنے والوں كا قتل شفاعت كرنے والوں كى مدد سے محروميت كا باعث ہے_انّ الذين يكفرون و ما لهم من ناصرين ايسا معلوم ہوتا ہے كہ جملہ''و ما لہم من ناصرين''ميں بعض اعمال كى كمى كو پورا كرنے كى خاطر كچھ مددگار (شفاعت كرنے والے) فرض كئے گئے ہيں ليكن آيت ميں مذكور اشخاص كو ان كى مددشامل نہيں ہوگي_

اقدار: ٥ معاشرتى اقدار٤

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا قتل ٢، ٤، ١٠; انبياء (ع) كے قتل كى سزا ١، ٨، ٩

انسان: انسان كا سرمايہ ٦

ايمان: ايمان كے اثرات ٣

شفاعت: شفاعت كے موانع ٨، ١٠

عدل و عدالت كى خاطر قيام كرنے والے: ان كا قتل ١، ٢، ٤، ١٠; ان كے قتل كى سزا ٨، ٩

عذاب: عذاب كے مستحق ٩

عمل:

۴۳۶

حبط عمل ١،٤ ،٨;عمل صالح ٥ ،٦; عمل صالح كى قدر و قيمت ٣; عمل كا اجر ٣; عمل كى قدروقيمت ٤;عمل كے اثرات ٥، ٦، ٧; عمل كے حبط ہونے كے عوامل ١، ٧; ناشائستہ عمل٧

قدروقيمت: قدر و قيمت كے معيارات ٣

كبيرہ گناہ: ٢

كفار: ٩

كفاركا عمل ١، ٤، ٨

كفر: كفر كى سزا ٨، ٩;كفر كے اثرات ١٠;كفر كے مراتب ٢

گناہ: گناہ كے اثرات ٢

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوْتُواْ نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ (٢٣)

كيا تم نے ان لوگوں كو نہيں ديكھا جنھيں كتاب كا تھوڑاسا حصّہ دے ديا گيا كہ انہيں كتاب خدا كى طرف فيصلہ كے لئے بلا يا جاتا ہے تو ايك فريق مكر جاتا ہے او ربالكل كنارہ كشى كرنے والے ہيں _

١_ فيصلے كيلئے كتاب خدا كى طرف بلائے جانے پر اہل كتاب كا سركشى كرنا بہت تعجب آور ہے_

ألم ت-رالى الذين و هم معرضون

٢_ اہل كتاب كا كتاب خدا كى حكمرانى سے سركشى كرنا ان كے كفر كى دليل ہے_

ألم ت-رالى الذين أوتوا نصيبا و هم معرضون لگتاہے يہ آيت اہل كتاب كے كفر كو بيان كررہى ہے كہ جس كى پہلے والى آيت ميں تصريح كى گئي ہے_

٣_ بعض اہل كتاب (يہوديوں ) كى اپنى آسمانى كتاب كے بارے ميں ناقص معلومات_

۴۳۷

ألم ترالى الذين أوتوا نصيبا من الكتاب

٤_ سابقہ آسمانى كتابوں كے حقائق كى تحريف اور اہل كتاب كى صرف بعض حقائق تك دسترسي_*أوتوا نصيبا من الكتاب

٥_ آسمانى كتاب سے ہدايت پانا اس كے بارے ميں مكمل علم حاصل كرنے پر موقوف ہے_

ألم ت-رالى الذين أوتوا نصيبا من الكتاب

٦_ تورات كو فيصل قرار دينے كے بارے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى رائے كے بعد بعض يہودى علماء كا اسے قبول نہ كرنا_ألم ت-رالى الذين أوتوا نصيبا من الكتاب و هم معرضون مذكورہ بالا نكتہ آيت كے نقل كردہ شان نزول كى بنياد پر اخذ كيا گيا ہے_(مجمع البيان)

٧_ آسمانى كتاب قانون اور فيصلے كى كتاب ہے_يدعون إلى كتاب الله ليحكم بينهم

٨_ قرآن حكيم كا مخالفين كے ساتھ منطقى برتاؤ_يدعون إلى كتاب الله ليحكم بينهم

كيونكہ قرآن مجيدنے خود انہى كى كتاب كو فيصل قرار ديا ہے_

٩_ انبياء (ع) اور عدل و عدالت كى خاطر قيام كرنے والے جو كافروں كے ہاتھوں مارے گئے آسمانى كتابوں كى حكمرانى كے خواہاں تھے_*يدعون إلى كتاب الله ليحكم بينهم يہ اس صورت ميں ہے كہ''يدعون'' كا محذوف فاعل وہى قتل كئے جانے والے لوگ ہوں جو اس سے پہلى آيت ميں مذكور ہيں يعنى يدعوہم المقتولون الى كتاب الله (يہ قتل كئے جانے والے لوگ انہيں كتاب خدا كى طرف بلاتے ہيں )_

١٠_اہل كتاب كے بعض علماء نے كتاب خدا كى حكمرانى اور فيصل ہونے كو قبول كرليا_

ثم يتولى فريق منهم بعض كا قبول نہ كرنا كچھ دوسرے بعض كے قبول كرنے پر مفہومى دلالت ركھتا ہے_

١١_ پيغمبر اكرم(ص) كے زمانے ميں بعض اہل كتاب كے علماء كا اسلام كى حقانيت كو قبول كرلينا_

ثم يتولى فريق منهم

١٢_ آسمانى كتاب كے فيصل بنانے كے بارے ميں اہل كتاب كے علماء كے درميان متضاد آراء پائي جاتى تھيں _

ثم يتولى فريق منهم

۴۳۸

١٣_ تورات ميں پيغمبراسلام(ص) كى سچائي كى علامتيں موجود تھيں _*

يدعون إلى كتاب الله ليحكم بينهم اگر ايسى نشانياں تورات ميں نہ ہوتيں تو پيغمبر اكرم(ص) كى تورات كے فيصل بنانے كى دعوت صحيح نہ ہوتي_

١٤_ پيغمبر اكرم(ص) كا يہوديوں ميں تورات كى بنياد پر فيصلے فرمانا اور ان ميں سے بعض كا تورات كے حكم كو نہ ماننا_

يدعون إلى كتاب الله ليحكم بينهم ثم يتولى فريق منهم اس آيت كے شان نزول ميں آيا ہے كہ ايك يہودى مرد و عورت نے زنا كيا تو پيغمبر اكرم(ص) نے انہيں تورات كے مطابق سنگسار كرنے كا حكم ديا تو اس سے يہوديوں ميں غم و غصّہ كى لہر دوڑ گئي_

آسمانى كتابيں : ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٧، ١٠، ١٢، ١٤ آسمانى كتابوں كى تحريف ٤، آسمانى كتابوں كى حكمرانى ٩

آنحضرت(ص) : آپ (ص) اور آسمانى كتابيں ١٣; آپ (ص) اور تورات ١٣; آپ(ص) اور يہودى ٦، ١٤;آپ (ص) كى صداقت ١٣

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ٦، ١٠، ١١، ١٢، ١٤

انبياء (ع) : انبياء (ع) كے اہداف ٩;انبياء (ع) كا قتل ٩

اہل كتاب١١: ان كا كفر ٢; ان كى سركشى ١، ٢; ان كے علماء ١٠، ١١، ١٢; ان كے مومنين ١١;اہل كتاب اور آسمانى كتابيں ١، ٢، ٣، ٤، ١٠، ١٢، ١٤; اہل كتاب اور تورات ٣; اہل كتاب كا اختلاف ١٢

بصيرت: بصيرت كى اہميت ٥

تورات: ٣، ٦، ١٣

عدل خواہ لوگ: ان كا قتل ٩

قانون: قانون كے منابع و مصادر ٧

قرآن كريم: قرآن كريم كى منطق ٨

۴۳۹

مخالفين: مخالفين كے ساتھ برتاؤ كا طريقہ ٨

ہدايت: ہدايت كا پيش خيمہ ٥

يہود: ٦، ١٤ ان كى ناآگاہى ٣; علمائے يہود ٦; يہود اور تورات ٦

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ (٢٤)

يہ اس لئے كہ ان كا عقيدہ ہے كہ انھيں آتش جہنم صرف چند دن كے لئے چھوئے گى او ران كو دين كے بارے ميں انكى افترا پردازيوں نے دھو كہ ميں ركھا ہے _

١_ خرافات كى پابندي، بے بنياد عقيدے اور خيالى امن كا احساس وہ عوامل ہيں جن كى وجہ سے اہل كتاب نے اسلام سے روگردانى كي_ثمّ يتولى فريق منهم ذلك بأنهم قالوا لن تمسنا النار

٢_ بعض اہل كتاب كا يہ باطل عقيدہ كہ وہ چند دن سے زيادہ جہنم كى آگ ميں نہيں رہيں گے_

ثمّ يتولى فريق منهم ذلك بأنهم قالوا لن تمسنا النار

٣_ جہنم كى آگ ميں ہميشہ نہ رہنے كے احساس نے اہل كتاب كو گمراہ كرنے ميں مؤثر كردار ادا كيا_

ثمّ يتولى فريق منهم ذلك بأنهم قالوا لن تمسنا النار و غرّهم

٤_ جھوٹے اورخرافاتى عقائد و نظريات گمراہى اور فريب كا موجب ہيں _قالوا لن تمسنا النار و غرهم فى دينهم

٥_ اہل كتاب كے علماء جو كتاب خدا كے فيصلے سے روگرداں تھے اپنے گناہكار ہونے كا پورا يقين ركھتے تھے_

لن تمسنا النار إلا أياما معدودات

٦_ اہل كتاب كا اپنى قومى اور نسلى برترى كا معتقد ہونا_*

لن تمسنا النار

يہوديوں كا يہ سمجھنا كہ انہيں معمولى سا عذاب ہوگا''لن تمسنا''ميں ''نا''كے قرينہ سے يہ احتمال ديا جاسكتا ہے كہ ان كا يہ سمجھنا اپنے آپ كو برتر نسل سمجھنے كى وجہ سے تھا_

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749