تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172787 / ڈاؤنلوڈ: 6319
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 اب  انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر  جاۓ تو  یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ،  لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے  -

اسی طرح فضیل بن یسار  نے امام محمد باقر      سے  روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ  ” (1) آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ       کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو  امام زمانہ کے ظہور  میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا  و ہ  اپنے امام کے ہمراہ  جہاد میں انکے خیمے میں ہے  -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الإیمان  صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ” إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (2) “  فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (3) کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت  نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے  الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں  مگر ان افراد کے  جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی  گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ  علم  رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ   پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا 

--------------

(1):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ 

(2):- زخرف :۸۶ - 

(3):- صدوق :کمال الد ین اتمام النعمة :ج 1 ص 19

۴۱

(یعنی انکے ظہور اور قیام پر   اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران  انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے  ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی

ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں

 صحیح  روایات  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ   ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے  کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص)  اس بارے  آنحضرت میں فرماتا ہے

لما اسری بی الی السماء ........  (1)   جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر  پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا“لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ  أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے  مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ  کا نور کوکب درّی  کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا  میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔

--------------

(1):- سید ہاشم بحر ینی :مدینة  المعاجز ص ۱۵۳ -  

۴۲

اسی طرح امیر المومنین       فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی إلی السماء.......   فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (1)    “ جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ،   ندا آئی یا محمد(ص)  تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے  ہے میں نے  عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ  انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر  ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم  گرامی  لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ  کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ  کا نام تھا -

ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا..... (2)

--------------

(1):- صدوق :  کمال الد ین ج : 1 ص : 25 ۶   

(2):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22 

۴۳

 آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا  ذکر  اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا  ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض        اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا  اور انھیں کی برکت سے آسمان  ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا  اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات  کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں نیز امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (1)   ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة  الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی  عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے  انکے  وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا  زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم  وجور سے بھر چکی ہو گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔

--------------

(1):-  کمال الد ین و تمام النعمة / ج 1 / 207 / 21 ص : 201

۴۴

ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے 

امام حسین          سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا  گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (1)   ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت  کو لوگوں پر  واجب کیا ہے  -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“  ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو  پہچان لیا ہو  یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار )  اگر چہ  وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو  -جیسا کہ چھٹے امام  سے روایت ہے  آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (2)   جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں  ہے -

د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :

--------------

(1):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(2):- کلینی: کافی،ج 1 ، 181 - 

۴۵

 عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ. (1)   میرے بعد بارہ امام  سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا

اسی طرح چھٹے اما  م        فرماتے ہیں :إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام   (2) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ  تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ  اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا  (ص) انکی  مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للإمام‏ علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (3)   حضرت ولی عصر        لوگوں میں سب سے زیادۃ  دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛  عابد اور عبادت گزار  ہونگے ” 

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو  زند ہ کریں گے

 قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و  پاکدامنی کو رواج دینا تھا  -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے

--------------

(1):- کل ین ی: کافی،ج1 ،ص 181 - 

(2):- صافیگلپائ ی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -    علیبن محمد خزاز قم ی: کفا یةالاثر ص : 4 

(3):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ - 

۴۶

جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے  آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے  زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس  تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ  آیہ مبارکہ یہ ہے :يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک  مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا  ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭   خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص)  کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار  کیوں نہ ہو ۔

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے  اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ   حقیقت میں تمام  انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی)  پورا ہونے وآپکے  علمی مقام  و  آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت  بیان کو  کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (1)

--------------

(1):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437 

۴۷

 رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور  زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں  کیا حال  گا ان قوموں کا  جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے    ۔

  اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے  ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی  رسالت کے   انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں :قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ‏:. (1)   قائم میرا  فرزند  ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت  پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے   انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....

--------------

(1):- علیبن محمد خزاز: کفا یةال اثر ص : 45  

۴۸

اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص)  کی معرفت  اور اطاعت ہے اور  انکا  انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ  الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے  بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی  حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا(یا حسرتا  !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک  مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی  ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (1)    اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے  میں امام زمانہ کے موجود  ہونےکی ضرورت پر  دلالت کرتی ہیں  

۲: امام مہدی ؑ کی محبت

معرفت کا  لازمہ محبت ہے  یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا  اور  اسکی عظمت وفضائل اسکے      مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا  ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛  فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے 

--------------

(1):- صدوق : کمال الد ین ج : 2 ص : 4 ۱۱-: اعلام الور ی          425   -

۴۹

اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا  اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک  و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے  نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران  امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص  توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص)   فرماتے ہیں  :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی  امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب       کو اچانک میں نے علی ابی طالب     .......اور حجت قائم          کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ  میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں  

پس اگر چہ تمام  معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے  اسیلۓ  آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر .. (1)   ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان         کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر  چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔

--------------

(1):-  کاف ی:ج1 ،ص179 اور الغ یبة ،نعمان یص 141  اور ک فایة الاثر ص 162 - 

۵۰

الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت 

امام زمانہ           ہ  کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں  سےمطلع اوراسکے   رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے  اچھے اور نیک کاموں  کود یکھ کر انکے  دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے  برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر  انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا  او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی  ہے ،اور میرا  ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛  انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ  اما م  زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل  پیروی سے  حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے(وانت عاصیُ           ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ) یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔

اسیلۓ صادق آل محمد        د فرماتے ہیں: مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ  (1)

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 2 ص :  14 ۹ 

۵۱

  جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں  میں سے قرار  دۓ .....

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ  کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“  و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم ‏ (1) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے  احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے ۔

--------------

(1):- مجلسیبحار انوار ،ج52 ،ص 140 - 

۵۲

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط  ہے ۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین        فرماتے ہیں :“إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (1)   جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں  انکی زیارت سے  محروم کر دۓ  گا  -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے  ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے  اوریہی  شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔

ب: امام مہدی  کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا  کرنے اور اسے رشد دینے  کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور  پر  یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح  ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔

--------------

(1):-  طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 - 

۵۳

اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش  ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت  کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ  اپنا  اثر خود بخود  چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت  اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ  اعظم  ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ  معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے  دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہےالسلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا  اُجالا پھیل جاۓ(1)   اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے  گا(2)     اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے  کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد  یہاں ذکر کرتے ہیں - 

--------------

(1):- نعمانی:الغ یبة ،باب 10 ،ص 141 -

(2):- پیام اما زمانہ ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہکے متعلق تقر یر کا ایک حصہ-

۵۴

1 :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور  اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا  بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا  و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے  اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے  ہیں  ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو  آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں  صدقہ دینے کو  اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(1)    اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور  اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں  چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک  اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو -  اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو  اپنے  امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (2) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت  اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا  اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور   ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ  ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔

--------------

(1):- مجلسی :ج ۱۰۲  ،ص ۱۱۱ مصباح الزائر ص ۲۳۵ - 

(2):- کشف المحجہ: فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ - 

۵۵

2: انکے  فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .

بعض معصومین ؑبھی  امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین        اپنے  حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه          مثل السقیم  وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه            مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ 

ومن الدلآئل ضحكه بین الوری               والقلب مخزون كقلب الثاكل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔

انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے  بھاگ جاتے ہونگے   ۔

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے  میں خندان نظر آئیں گۓ   جبکہ  انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی  ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام        اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ  (1)

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ اور،ج   ۱ ص ۵۳۸ -  

۵۶

اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے....... 

کسی دوسرے حدیث میں جسے  جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی  ہے ،کہتے ہیں :قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (1)   ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق      کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ  تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ،  جُبہ خیبری  زیب تن کیۓ  ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے  گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو  ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں  اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے  آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس  ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ  ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران  اور انکے شوق دیدار میں بے تاب  وگریاں تھے۔

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶  باب غیبت -  ---- کمال الد ین ج : 2 ص 35: بحارال انوار ج : 51 ص : 219     

۵۷

۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ  ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(1) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے  ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (2) اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں  امام زمانہ کی بہترین  خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا  ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود  فرماتا ہےوَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ  إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (3) بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے

--------------

(1):- وسائل الش یعة ج : 16 ص : 34 ۶ بحارالانوار ج : 71 ص : 35 ۸ 

(2):- تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -

(3):- سورہحج ۴۰ - 

۵۸

۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی

امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا  انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار  اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے(بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (1) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں  آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصومؑ  فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (2)   ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی(3)   لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود  امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین  اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک  احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ  اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر  سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے“ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (4) .  اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب  عوام پر واجب ہے ۔

--------------

(1):- دعایندب ہ کا ا یکفقرہ

(2):- صافیگلپائ ی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ - 

(3):- البتہواضح ر ہے یہ غیبت کےپہل ی  معنی کی بنیاد پر ہے

(4):- مجلسی:بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائل الش یعة ج : 27 ص : 13

۵۹

 یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں :أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏  (1) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی  خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه‏.  ” (2) اور ہم نے انھیں  تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے  جو حقیقت میں خدا سے  شرک لانے کی حد میں ہے یعنی   انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی  حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے  :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم   ” (3) ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء  ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،

--------------

(1):- """"   """"ج 53 ،ص 181 - الغیبةللطوس یص : ۲۹۱ 

(2):- کلینی :اصول   الکاف یج : 1 ص : ۶۷ -   تہذ یب ال اح کام ج : 6 ص :  21 ۸  

(3):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ،  الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵  :  عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ . 

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

١٧_ حضرت مريم (ع) كے آباء و اجداد كا زنا سے پاكدامن ہونا _طهرك و اصطفاك على نساء العالمين

امام محمد باقر (ع) مذكورہ بالا آيت كے بارے ميں فرماتے ہيں ...: و طہّرہا ان يكون فى ولادتہا من آبائہا و امہاتہا سفاح كہ خدا تعالى نے مريم(ع) كو پاك كرديا اس چيز سے كہ ان كى ولادت ميں ان كى ماؤوں اور آباء ميں سے كوئي بھى زنا كار ہو (٢)

١٨_ حضرت مريم (ع) اپنے زمانے كى عورتوں ميں سے برگزيدہ اور برتر تھيں _

واصطفاك على نساء العالمين امام صادق (ع) فرماتے ہيں كہ فرشتوں نے حضرت فاطمہ زہراء (ع) سے كہا ان مريمكانت سيدة نساء عالمها مريم (ع) اپنے زمانے كى عورتوں كى سردار تھيں (٣)

آل عمران : ٦

اقدار : اقدار كے معيار ١٣ ، ١٤

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى نسل ١٥

برگزيدہ انسان ١ ، ٥ ، ٦ ، ١٠ ، ١٥ ، ١٦ ، ١٨ برگزيدہ انسانوں كى پاكى ١٣

پاكيزہ لوگ : ٥ ، ٦ ، ٧ ، ٩

پاكى : پاكى كى قدر و قيمت ١٣ ، ١٤;پاكى كے اثرات ١١

پاكيزگى : پاكيزگى كے عوامل ٦

تربيت : تربيت كا نمونہ ١٢

حضرت عيسي (ع) : ١٦

حضرت مريم (ع) ١ ، ٤

حضرت مريم (ع) كا برگزيدہ ہونا ١، ٥ ، ٦ ، ١٠ ، ١١ ، ١٥ ، ١٦ ، ١٨ ; حضرت مريم (ع) كا مرتبہ ٣ ، ٥ ، ٦ ، ٧

____________________

١) مجمع البيان ج٢ ص ٧٤٦ ، نورالثقلين ج١ ص ٣٣٦ حديث ١٣٠_

٢) تفسير عياشى ج٢ ص ١٧٣حديث ٤٧، نورالثقلين ج١ ص ٣٣٦ حديث ١٢٧، بحارالانوار ج١٤ ص ١٩٢ حديث ٢_

٣) علل الشرائع ص ١٨٢ حديث ١ باب ١٤٦ ص ٣٣٧ ، حديث ١٣١،نورالثقلين ج١ ص ٣٣٦ حديث ١٢٩_

۵۰۱

،٨ ، ٩ ، ١١ ، ١٢ ، ١٥ ، ١٧ ، ١٨ ; حضرت مريم (ع) كو بشارت ١ ;حضرت مريم (ع) كى پاكى ٥ ، ٩; حضرت مريم (ع) كى عصمت ٧ ;حضرت مريم (ع) كے آباء و اجداد ١٧

خدا تعالى : خدا تعالى كا لطف ٨

خلوص : خلوص كے اثرات ٩ ، ١١

روايت : ١٥ ، ١٦ ، ١٧ ، ١٨

عورت : عورت كا مقام ١٤ ،عورت كى پاكدامنى ١٤

عورتيں ١٠ ، ١١ ، ١٢ ، ١٥ ، ١٦ ، ١٨ فرشتے ١ ، ٤ فرشتوں كا كلام كرنا ٢

قدر قيمت كا اندازہ لگانا: قدر و قيمت كا اندازہ لگانے كا معيار ١٤

مخلصين : مخلصين كا مقام و مرتبہ ١١

مقربين : ٣

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ (٤٣)

اے مريم تم اپنے پروردگا ركى اطاعت كرو ، سجدہ كرو ، او رركوع كرنے والوں كے ساتھ ركوع كرو_

١_ حضرت مريم (ع) كو اپنے پروردگار كے سامنے خضوع كے ساتھ اطاعت كرنے اور سجدہ و ركوع كرنے ( نماز پڑھنے) كا حكم _يا مريم اقنتى لربك و اسجدى واركعي

٢_ فرشتوں كى حضرت مريم (ع) كے ساتھ گفتگو اور انہيں خضوع كے ساتھ خدا تعالى كى اطاعت كرنے كا حكم دينا _

و اذ قالت الملائكة يا مريم اقنتى لربك و اسجدي ظاہر اً يہ جملہ ''يا مريم اقنتي'' فرشتوں كا حضرت مريم(ع) كے ساتھ كلام ہے_

۵۰۲

٣_ خدا تعالى كى نعمتيں اور فضل و كرم، ذمہ دارى لاتے ہيں _ان الله اصطفاك و طهرك يا مريم اقنتى لربك كيونكہ جب خدا وند متعال نے حضرت مريم (ع) كو چن ليا اور انہيں پاكيزہ كرديا تو انہيں اطاعت اور خضوع كا حكم ديا _

٤_ خدا وند عالم كى ربوبيت كا تقاضا يہ ہے كہ اسكے سامنے خضوع كيا جائے _اقنتى لربك

٥_ خدا وند متعال كے سامنے خضوع اسكے ربوبى فيض كو پانے كا پيش خيمہ ہے_اقنتى لربك

٦_ خدا تعالى كى نعمتوں سے مالامال ہونے كا لازمہ يہ ہے كہ انكسارى كے ساتھ اس كى اطاعت كى جائے_

ان الله اصطفاك يا مريم اقنتي

٧_ انكسارى كے ساتھ اطاعت كرنے اور نفس كے ناخالص چيزوں سے پاك ہونے كے درميان رابطہ_*

اصطفاك يا مريم اقتني خدا وند متعال نے تين نعمتيں حضرت مريم(ع) كو عطا كيں ، انتخاب كرنا ( اصطفاك ) پاكيزہ كرنا (طھرك) اور برترى و فضيلت (اصطفاك على نساء العالمين )ان تين نعمتوں كے مقابلے ميں خدا تعالى نے حضرت مريم (ع) سے تين ذمہ دارياں طلب كيں قنوت، سجود اور ركوع ، ايسا معلوم ہوتا ہے كہ مذكورہ بالا تينوں نعمتيں ترتيب وار ان ميں سے ہر ايك ، ايك ذمہ دارى كو طلب كرتى ہے _

٨_ سجدہ كا آلودگيوں سے پاكيزگى كے ساتھ رابطہ_*و طهرك و واسجدي

٩_ خداوند عالم كى طرف سے انسان كے برتر ہونے كے ساتھ ركوع كا رابطہ_ *واصطفاك على نساء العالمين واركعى مع الراكعين

١٠_ سابقہ اديان ميں سجود اور ركوع ( نماز )موجود تھے_واسجدى و اركعي

١١_ ركوع اور سجود نماز كے اہم اجزاء ميں سے ہيں *واسجدى و اركعي

۵۰۳

يہ اس صورت ميں ہے كہ ركوع اور سجود سے مراد نماز ہو اور نماز كو ركوع اور سجود كہنا ان دونوں اجزاء كى اہميت كى دليل ہے_

١٢_ حضرت مريم (ع) كو دوسرے نمازيوں كے ساتھ نماز پڑھنے ( نماز با جماعت)كا حكم *

واركعى مع الراكعين يہ اس صورت ميں ہے كہ ركوع سے مراد نماز ہو يعنى مجازاً كل كو جزء كا نام ديا گياہے_

١٣_ اكٹھے ادا كى جانے والى عبادت (نماز با جماعت) ميں عورتوں كى شركت مطلوب ہے_واركعى مع الراكعين

١٤_ سابقہ شريعتوں ميں نماز باجماعت اوراجتماعى طور پر كى جانے والى عبادت موجود تھي_واركعى مع الراكعين

١٥_ مل كر عبادت كرنا قدر و قيمت ركھتاہے اور انسان كے رشد و تكامل اور عظمت ميں مؤثر ہے_

واركعى مع الراكعين ايسا معلوم ہوتا ہے كہ حضرت مريم(ع) كو سب كے ساتھ عبادت كرنے (نماز با جماعت ) كا حكم آيت ٣٧ ، ميں '' و انبتہا نباتاً حسنا ''كے قرينہ سے حضرت مريم (ع) كے رشد وتكامل كے لئے تھا_

١٦_ خدا تعالى كى برگزيدہ ہستيوں كو معاشرتى مسائل ميں شركت كرنى چاہيئے _ان الله اصطفاك واركعى مع الراكعين

١٧_ خداوند متعال كا لوگوں كو اجتماعى عبادت كے ذريعے اتحاد و ہم آہنگى كا حكم دينا *واركعى مع الراكعين

اجتماعى عبادت كا حكم اتحاد و ہم اہنگى كى مطلوبيت پر دلالت كرتاہے_

١٨_ نماز با جماعت ميں ركوع كى اہميت و كردار _واركعى مع الراكعين كيونكہ نماز كو ركوع كہا گيا ہے اس سے ركوع كى خاص اہميت كا پتہ چلتاہے_

١٩_ اس زمانے ميں حضرت مريم (ع) كے علاوہ بھى خدا تعالى كى عبادت كرنے والے اور نماز پڑھنے والے موجود تھے_واركعى مع الراكعين

٢٠_ عورت كے ليئے مردوں كے ہمراہ نماز باجماعت ميں حاضر ہونا جائز ہے_واركعى مع الراكعين چونكہ مذكورہ بالا آيت ميں حضرت مريم (ع) كو ركوع كرنے والى عورتوں كے ساتھ ركوع كرنے كا حكم نہيں ہوا بلكہ فرمايا گيا ہے ركوع كرو ركوع كرنے والوں كے ساتھ ( عورتيں ہوں يا مرد)

۵۰۴

٢١_ سابقہ شريعتوں ميں عورتوں اور مردوں كا عبادت كے ليئے اجتماع جائز تھا_واركعى مع الراكعين

اتحاد : اتحاد كى اہميت ١٦ ، ١٧

اديان : ١٠ ، ١٤ ، ٢١

اطاعت : اطاعت كے اثرات ٧ ; اطاعت كے عوامل ٦

اقدار ١٥

انتخاب: انتخاب كے عوامل ٩

انسان : انسان كى ذمہ دارى ٣

بركت : بركت كے نزول كا پيش خيمہ ٥

برگزيدہ افراد : برگزيدہ افراد كى ذمہ دارى ١٦

پاكى : پاكى كا پيش خيمہ ٨

ترقى و تكامل : ترقى و تكامل كا پيش خيمہ١٥

حضرت مريم (ع) :٢، ١٩ حضرت مريم (ع) كا خضوع ، ١ ، ٢ ; حضرت مريم (ع) كا ركوع ١ ; حضرت مر يم (ع) كا سجدہ ١ ; حضرت مريم (ع) كى ذمہ دارى ١;حضرت مريم (ع) كى نماز ، ١ ، ١٢

خدا تعالى: خدا تعالى كا فضل ٣;خدا تعالى كا فيض ٥ ; خدا تعالى كى ربوبيت ٤ ;خدا تعالى كى نعمتيں ٣ ، ٦;خدا تعالى كے اوامر ١ ، ١٧

خشوع و خضوع : خشوع و خضوع كے اثرات ٥،٧; خشوع وخضوع كے عوامل ٤،٦

خودسازى : خودسازى كے عوامل٧

ركوع : ركوع اديان ميں ١٠;ركوع كے اثرات ٩

۵۰۵

سجدہ :سجدہ اديان ميں سجدہ ١٠ ;سجدہ كے اثرات ٨

عبادت : اجتماعى عبادت ١٣ ، ١٤ ، ١٥ ، ١٧ ، ٢٠ ، ٢١;اديان ميں عبادت ١٤ ، ١٩

عورتيں ١٢ : عورتوں كى نماز باجماعت ١٣ ، ٢٠ ، ٢١

فرشتے : فرشتوں كا گفتگو كرنا ٢

نماز : احكام نماز ٢٠ ;اديان ميں نماز ١٠ ، ٢١;اركان نماز ١١ ;نماز با جماعت ١٢ ، ١٤ ، ١٨ نمازميں ركوع ١١ ، ١٨ ; نماز ميں سجدہ ١١ نمازى ١٩

ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلاَمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ (٤٤)

پيغمبر يہ غيب كى خبريں ہيں جن كى وحى ہم آپ كى طرف كر رہے ہيں او رآپ توان كے پاس نہيں تھے جب وہ قرعہ ڈال رہے تھے كہ مريم كى كفالت كون كرے گا او رآپ ان كے پاس نہيں تھے جب وہ اس موضوع پر جھگڑا كر رہے تھے _

١_ حضرت مريم (ع) اور حضرت زكريا (ع) كى سرگذشت سے مربوط حقائق پہلى مرتبہ پيغمبر اكرم (ص) كو بتلائے گئے _

ذلك من انباء الغيب نوحيه اليك اگر مذكورہ حقائق دوسرى آسمانى كتابوں ميں آئے ہوتے تو انہيں غيب نہ كہا جاتا_

٢_ وحي، پيغمبر(ص) اسلام كے ليئے غيبى خبريں اور گذشتہ انسانوں كى تاريخ جاننے كا ذريعہ ہے _

ذلك من انباء الغيب نوحيه اليك

٣_ غيب كى خبريں بيان كرنا قرآن كريم كے معجزہ ہونے كا ايك جلوہ _ذلك من انباء الغيب نوحيه اليك

٤_ وحي، ايسے تاريخى حقائق كو بيان كرتى ہے جو انسان پر پوشيدہ ہوں _ذلك من انباء الغيب نوحيه اليك

٥_ حضرت زكريا (ع) اورحضرت مريم (ع) كى تاريخ كے كچھ حقائق كا اہل كتاب كيلئے ناشناختہ ہونا_

ذلك من انباء الغيب يہ آيات نجران كے وفد كے بارے ميں نازل ہوئيں ہيں پس يہ اہل كتاب پرطعن و طنز ہے جو انبياء (ع) كى سرگذشت بالخصوص حضرت مسيح (ع) اورحضرت مريم(ع) كے بارے ميں مطلع ہونے كا اظہار كرتے تھے_

۵۰۶

٦_ پيغمبر اكرم(ص) كى حضرت زكريا (ع) اور حضرت مريم (ع) كى تاريخ كے خفيہ گوشوں سے آگاہى آپ (ص) كے وحى كے ساتھ ارتباط كے دعوي كى سچائي پر گواہ ہے_ذلك من انباء الغيب و ما كنت لديهم اذ يلقون اقلامهم ايّهم يكفل مريم

٧_ كنيسہ كے سركردہ افرا د كا حضرت مريم (ع) كى سرپرستى پر جھگڑا اور سرپرست كى تعيين كے ليئے ان كا قرعہ پر عمل كرنا _اذ يلقون اقلامهم ايّهم يكفل مريم اذ يختصمون

٨_ كنيسہ كے سركردہ افراد كے حضرت مريم (ع) كى سرپرستى پر جھگڑے كى عجيب سرگذشت اور ان كا قرعہ كو وسيلہ بنانا_*و ما كنت لديهم اذ يلقون اقلامهم ايّهم يكفل مريم و ما كنت لديهم اذ يختصمون ايسا لگتا ہے كہ ''و ما كنت لديہم'' كا تكرار جھگڑے كى عجب سرگذشت كى طرف اشارہ ہے_

٩_ حضرت مريم(ع) كى عظيم معنوى شخصيت موجب بنى كہ كنيسہ كے سركردہ افراد آپ (ص) كى سرپرستى كے ليئے رقابت كريں _*و ما كنت لديهم اذيلقون اقلامهم ايّهم يكفل مريم اذ يختصمون

ظاہر يہ ہے كہ افراد ميں جھگڑا حضرت مريم(ع) كى سرپرستى حاصل كرنے كى خاطر تھا نہ جان چھڑانے كى خاطر _

١٠_ حضرت مريم (ع) كى معنوى شخصيت ان كے اپنے زمانے ميں زبان زد عام تھي*

ايهم يكفل مريم اذ يختصمون كيونكہ كنيسہ كے سركردہ افراد ميں سے ہر ايك حضرت مريم (ع) كى سرپرستى كا خواہاں تھا اور اسى پر ايك دوسرے سے جھگڑا كرتے تھے اس سے معلوم ہوتاہے كہ حضر ت مريم (ع) كى عظيم شخصيت سب پر واضح اور آشكار تھي_

١١_ اختلاف دو ر كرنے كے ليئے قرعہ سے استفادہ كرنا جائز ہے_

اذ يلقون اقلامهم ايهم يكفل مريم

۵۰۷

١٢_ حضرت مريم (ع) كا سرپرست معيّن كرنے كے ليئے چھ افراد كے درميان قرعہ كشى _

و ما كنت لديهم اذ يلقون اقلامهم ايهم يكفل مريم امام محمد باقر (ع) فرماتے ہيں :اول من سوهم عليه مريم بنت عمران وهو قول الله عزوجل ''و ماكنت لديهم اذ يلقون اقلامهم ايهم يكفل مريم ''والسهام ستة _ سب سے پہلا شخص جس كے لئے قرعہ ڈالا گيا مريم بنت عمران تھيں جيسا كہ خدا تعالى نے فرمايا '' و ما كنت لديہم اذ يلقون اقلامہم ايہم يكفل مريم ''اور قرعہ ميں حصہ لينے والے چھ افراد تھے(١)

١٣_ جب حضرت مريم (ع) كے والد كى وفات ہوئي تو اس وقت ان كى سرپرستى كے سلسلہ ميں قرعہ كشى كى گئي _

اذ يلقون اقلامهم ايّهم يكفل مريم امام محمد باقر (ع) فرماتے ہيں''اذ يلقون اقلامهم ايهم يكفل مريم''حين ايتمت من ابيها (٢) قرعہ اس وقت ڈالا گيا جب حضرت مريم كے والد فوت ہوگئے اور آپ يتيم ہوگئيں _

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) (ص) اور جناب زكريا (ع) ٦ ;آنحضرت(ص) اور جناب مريم(ع) ٦ ;آنحضرت(ص) كا علم ٦ ;آنحضرت(ص) كو وحى ٢ ، ٦; آنحضرت(ص) كى سچائي ٦

انبياء (ع) : تاريخ انبياء (ع) ١ ، ٥ ، ٦

اہل كتاب : ٥

تاريخ : ٢ تاريخ كے منابع ٤

حضرت زكريا (ع) : ٦ حضرت زكريا(ع) اور اہل كتاب ٥;حضرت زكريا (ع) كا قصہ ١ ، ٥

حضرت مريم (ع) : حضرت مريم (ع) كا قصّہ ١ ; حضرت مريم (ع) كا مقام و مرتبہ ٩ ، ١٠ ;حضرت مريم (ع) كى سرپرستى ٧ ، ٨ ، ٩ ، ١٢ ، ١٣

روايت : ١٢ ، ١٣

شناخت : شناخت كے ذرائع ٢ ،٤

عالم غيب : ٢ عورتيں ٧ ، ٨ ، ٩ ، ١٠ ، ١٢ ، ١٣

____________________

١) من لا يحضرہ الفقيہ ج٣ ص ٥١حديث ١ باب ٣٨، خصال صدوق ص ١٥٦ حديث ١٩٨ باب الثلاثة_

٢) تفسير عياشى ج١ص١٧٣حديث ٤٧، بحار الانوار ج١٤ ص ١٩٢ حديث٢_

۵۰۸

قرآن كريم : قرآن كريم كا اعجاز ٣ ; قرآن كريم كى پيشگوئياں ٣; قرآن كريم كے قصّے ١ ، ٧ ، ٨

قرعہ : قرعہ كا جواز ١١ ;قرعہ كے احكام ١١ ; قرعہ كے موارد ٧، ٨ ، ١٢ ، ١٣

وحى : وحى كا كردار ٤

إِذْ قَالَتِ الْمَلَآئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (٤٥)

او راس وقت كو ياد كرو جب ملائكہ نے كہا كہ اے مريم خدا تم كو اپنے كلمہ مسيح عيسى بن مريم كى بشارت دے رہاہے جو دنيا او رآخرت ميں صاحب وجاہت او رمقربين بارگاہ الہى ميں سے ہے _

١_ فرشتوں كى حضرت مريم (ع) كے ساتھ گفتگو اور انہيں حضرت عيسي(ع) كى بشارت دينا _

اذ قالت الملائكة يا مريم انّ الله يبشرك بكلمة منه اسمه المسيح عيسى ابن مريم

٢_ فرشتے، خدا وند عالم كا پيغام لانے والے_

اذ قالت الملائكة يا مريم ان الله يبشرك بكلمة

٣_ حضرت مريم (ع) كو حضرت عيسي (ع) كى پيدائش كي خداوند عالم كى طرف سے فرشتوں كے ذريعے بشارت_

اذ قالت الملائكة يا مريم انّ الله يبشرك بكلمة عيسى ابن مريم

٤_ حضرت عيسي (ع) كے حضرت مريم (ع) كو عطا كيئے جانے كى بشارت كى اہميت اور عظمت _

اذ قالت الملائكة يا مريم ان الله يبشرك

كيونكہ اس بشارت كے لانے والے كئي فرشتے تھے نہ ايك فرشتہ اس سے بشارت كى اہميت اور عظمت كا پتہ چلتاہے_

۵۰۹

٥_ حضرت عيسي (ع) خدا وند عالم كى طرف سے عظيم كلمہ تھے_انّ الله يبشرك بكلمة منه اسمه المسيح عيسى ابن مريم

'' كلمة''كا نكرہ ہونا اسكى عظمت پر دلالت كرتاہے گويا وہ ايسا كلمہ ہيں كہ عظمت كے لحاظ سے ناشناختہ ہيں _

٦_ حضرت مريم (ع) كے بيٹے كانام مسيح اور عيسى خدا تعالى كى طرف سے ركھا جانا _اسمه المسيح عيسى ابن مريم

٧_ حضرت مريم (ع) ،حضرت عيسي (ع) كے ليئے قابل قدر اور قابل فخر ماں تھيں _*عيسى ابن مريم

٨_ مسيح، حضرت عيسي(ع) كے القابات ميں سے ہے_اسمه المسيح عيسى ابن مريم

كيونكہ ايك شخص كے دو نام نہيں ركھے جاتے لہذا ان دو ميں سے ايك لقب ہوگا اور چونكہ عموماً اصلى نام كى صفت'' ابن ''كےساتھ لائي جاتى ہے لہذا آپ (ع) كا نام عيسي اور لقب مسيح ہوگا_

٩_ دنيا اور آخرت ميں حضرت عيسي(ع) كا صاحب عزت و شرف ہونا _اسمه المسيح عيسى ابن مريم وجيها فى الدنيا و الآخرة

١٠_ دنيا اور آخرت ميں عزت داراور صاحب مرتبہ ہونا انسان كے ليئے ايك قدر و منزلت ہے_وجيهاً فى الدنيا و الآخرة

١١_ دنياوى اور اخروى عزت كا حاصل كرنا ايك دوسرے سے منافات نہيں ركھتا_و جيها فى الدنيا و الآخرة

١٢_ حضرت عيسي(ع) حضرت مريم(ع) كے بيٹے تھے نہ خدا كے_عيسى ابن مريم

خدا تعالى كا تاكيد كے ساتھ عيسي(ع) كو مريم(ع) كا بيٹا كہنا ان لوگوں كے تصور كے ردّ ميں ہے جوحضرت عيسي (ع) كو خداوند عالم كا بيٹا سمجھتے ہيں _

١٣_ حضرت عيسي (ع) ، بارگاہ الہى كے مقرّ بين ميں سے تھے_عيسى ابن مريم و من المقربين

١٤_ خدا وند متعال كے نزديك حضرت عيسي(ع) كى عظمت_يبشرك بكلمة منه وجيها و من المقربين

۵۱۰

١٥_ خداوند متعال نے مريم(ع) كو مطلّع كرديا كہ ان كے ہاں باپ كے بغير بيٹا ہوگا_انّ الله يبشرك بكلمة منه عيسى ابن مريم كيونكہ عموماً بيٹے كو باپ كے نام كے ساتھ منسوب كرتے ہيں خدا وند عالم نے عيسي (ع) كو ماں كے نام كے ساتھ منسوب ( عيسى ابن مريم) كركے يہ سمجھا ديا كہ اس كا بيٹا باپ كے بغير پيدا ہوگا_

آبرو : آبرو كى اہميت ١٠ ، ١١ اقدار ٥

حضرت عيسي (ع) : ٧ حضرت عيسي (ع) كا بشر ہونا ١٢ ; حضرت عيسي (ع) كا مقام و مرتبہ ٤ ، ٥ ، ٩ ، ١٣ ، ١٤ ;حضرت عيسي (ع) كا لقب ٨; حضرت عيسي (ع) كا نام ركھنا ٦;حضرت عيسي (ع) كى پيدائش ١ ، ٣ ، ١٥

حضرت مريم (ع) ١ ، ٣ ، ١٢ ، ١٥ حضرت مريم (ع) كا مقام و مرتبہ ٧ ;حضرت مريم (ع) كو بشارت ١ ،٣ ، ٤

خدا تعالى : خدا تعالى كى بشارت ٣; خدا تعالى كے كلمات ٥

عورتيں : ١٥

فرشتے : فرشتوں كا كلام كرنا ١ ،فرشتوں كى ذمہ دارى ٢

مقربين ١٣ ، ١٤

وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَمِنَ الصَّالِحِينَ (٤٦)

وہ لوگوں سے گہوارے ميں بھى بات كرے گا اوربھر پور جوانى كے بعد بھى اور صالحين ميں سے ہو گا _

١_ حضرت عيسي (ع) گہوارے ميں ايسے ہى لوگوں سے گفتگو كرتے تھے جيسے بڑے ہوكر كرتے تھے_

۵۱۱

ويكلم الناس فى المهد و كهلا و من الصالحين

٢_ خدا تعالى كى حضرت مريم (ع) كو يہ بشارت كہ عيسي (ع) ادھيڑ عمرى تك زندہ رہيں گے _

يبشرك و يكلم الناس و كهلا '' كھل''كے معنى ادھيڑ عمرى كے ہيں ( مجمع البيان)

٣_ لوگوں كو تبليغ و ہدايت كرنا حضرت مسيح (ع) كى سارى عمر كى رسالت _و يكلم الناس فى المهد و كهلا

كيونكہ بڑا ہوكر صرف گفتگو كرنا توحضرت مسيح (ع) كے ليئے كوئي خاص فضيلت نہيں لہذا ضرورى ہے كہ خاص قسم كى گفتگو كرنا مراد ہو جو كہ نبوت كى مناسبت سے لوگوں كو تبليغ و ہدايت كرنا ہے_

٤_ حضرت عيسي (ع) ممتاز اور استثنائي انسان تھے_و يكلم الناس فى المهد و كهلا

حضرت عيسي (ع) كا گہوارے ميں گفتگو كرنا ان كے ممتاز اور استثنائي ہونے كى علامت ہے_

٥_ حضرت عيسي (ع) صالحين كى نسل سے صالح انسان تھے_اسمه المسيح عيسى ابن مريم و من الصالحين

٦_ حضرت عيسي (ع) كى اہليت و صلاحيت كى خداوند عالم كى طرف سے حضرت مريم (ع) كو خوش خبرى _

يبشرك بكلمة منه و من الصالحين

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى ذمہ دارى ٣

حضرت عيسي (ع) : حضرت عيسي (ع) كا مقام و مرتبہ ٤ ، ٥ ، ٦ ;حضرت عيسي (ع) كا واقعہ ٢ ; حضرت عيسي (ع) كى ذمہ دارى ٣; حضرت عيسي (ع) كے معجزے ١

حضرت مريم (ع) : حضرت مريم (ع) كو بشارت ٢ ، ٦

خدا تعالى : خدا تعالى كى بشارت ٢ ، ٦

صالحين : ٥

عورتيں : ٢

۵۱۲

قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ (٤٧)

مريم نے كہا كہ ميرے يہاں فرزند كس طرح ہو گا جب كہ مجھ كو كسى بشر نے چھوا بھى نہيں ہے _ ارشاد ہوا كہ اسى طرح خدا جو چاہتا ہے پيدا كرتا ہے جب وہ كسى كام كا فيصلہ كر ليتا ہے توكہتا ہے كہ ہو جا او روہ چيز ہو جاتى ہے _

١_ حضرت مريم (ع) كا عيسي (ع) كى بشارت پر حيرت و تعجب كا اظہار كرنا كيونكہ كسى مرد كا آپ سے رابطہ نہ تھا _

قال ربّ انّى يكون لى ولد و لم يمسسنى بشر

٢_ حضرت مريم(ع) كا خدا وند عالم سے يہ پوچھنا كہ كس طرح انہيں مسيح (ع) عطا كيا جائے گا _

قالت ربّ انّى يكون لى ولد لفظ '' انّي''ميں حيرانگى كے علاوہ كيفيت كے معنى بھى پائے جاتے ہيں _

٣_ حضرت عيسي (ع) كى خلقت خارق العادہ تھيانّى يكون لى ولد و لم يمسسنى بشر

٤_ خداوند عالم كے برگزيدہ افراد كو دنياوى معاملات ميں خدا تعالى كے ارادہ كے وقوع پذير ہونے كے سلسلہ ميں طبعى علل و اسباب كى دخالت كى توقع ہوتى ہے_يا مريم انّ الله اصطفاك قالت ربّ انّى يكون لي

يہ مسلم ہے كہ حضرت مريم(ع) خارق العادہ امور كى منكر نہيں تھيں اور خدا تعالى كو ہر كام كے انجام پر قادر سمجھتى تھيں اسى لئے جيسا كہ سابقہ آيات ميں بيان ہوچكا ہے انہوں نے حضرت زكريا(ع) سے كہا ''هو من عند الله '' لہذا جملہ ''انّي ...'' بتلاتاہے كہ حضرت مريم(ع) اور سب اوليائے الہى سمجھتے ہيں كہ كائنات كے معاملات ميں خداوند عالم كے ارادہ كے پورا ہونے ميں

۵۱۳

اصل يہ ہے كہ وہ طبعى اسباب و عوامل كے ذريعہ سے ہو ں نہ كہ وہ ہميشہ معجزہ كے منتظر رہتے تھے_

٥_ حضرت مريم (ع) كو خداوندمتعال كے حضوراور تقرب كا احساس_قالت الملائكة قالت ربّ

كيونكہكہ حضرت مريم(ع) نے فرشتوں كى بشارت كے جواب ميں يہ نہيں كہا كہ ميرى طرف سے خدا تعالى كو كہہ دو بلكہ خود خدا وند عالم سے كلام كيا (ربّ انّى ) اس سے معلوم ہوتاہے كہ حضرت مريم(ع) اپنے آپ كو خداوند متعال كے حضور ميں سمجھتى تھيں _

٦_ خدا وند متعال كى برگزيدہ ہستيوں كا بلند مقام و مرتبہ اور خداوند عالم كے افعال كے بارے ميں ان كے سوال و حيرانگى ميں كوئي منافات نہيں _يا مريم ان الله اصطفاك قالت ربّ انّى يكون لى ولد

٧_ حضرت مر يم (ع) اور خداوند عالم كى گفتگو _قالت ربّ قال

٨_ خداوند عالم كے ساتھ گفتگو كرنے ميں حضرت مريم (ع) كا ادب_قالت ربّ و لم يمسسنى بشر چونكہ مباشرت كے بجائے چھونا كى تعبير استعمال كى ہے _

٩_ خدا وند عالم مادى و سائل و اسباب پر بھروسہ كئے بغير اور انكى محتاجى كے بغير جو چاہے خلق كرتاہے_

كذلك الله يخلق ما يشاء

١٠_ كائنات كے واقعات ميں صرف طبعى عوامل علّت نہيں ہيں _كذلك الله يخلق ما يشاء

١١_ خدا وند عالم كى مشيت كا كائنات ميں نافذ ہونا اس كے ارادوں كے بے چون و چرا پوراہونے كى علامت ہے_

كذلك الله يخلق ما يشاء

١٢_ كسى بشر كے چھوئے بغيرحضرت مريم(ع) كو عيسي(ع) عطا كرنے كا خداوند عالم كا قطعى ارادہ _كذلك الله يخلق ما يشاء

١٣_ طبعى اسباب و عوامل پر خداوند عالم كى مشيت كى حكمراني_كذلك الله يخلق ما يشاء

١٤_ جس چيز كے متعلق خدا كا ارادہ ہوجائے جوں ہى اسے كہے ہوجا وہ ہوجاتى ہے_اذا قضى امرا فانّما يقول له كن فيكون

١٥_ قضائے الہى اور فرمان الہى كے يكے بعد

۵۱۴

ديگرے دو مرحلوں كے بعد موجودات عالمخلقت ميں واقع ہوجاتے ہيں _اذا قضى امراً فانّما يقول له كن فيكون

برگزيدہ افراد : ٤ ، ٦

توحيد : توحيد افعالى ١١

حضرت عيسي (ع) ١ ، ٢ ، ١٢ : حضرت عيسي (ع) كى ولادت ٣

حضرت مريم (ع) : ١٢ حضرت مريم (ع) كا ادب ٨; حضرت مريم (ع) كا حمل ١ ; حضرت مريم (ع) كا مقام و مرتبہ ٥ ، ٧ ، ٨ ;حضرت مريم (ع) كو بشارت ١;حضرت مريم (ع) كى دعا٢

خدا تعالى : خدا تعالى كا ارادہ ٤ ، ١٢ ، ١٤; خدا تعالى كى بشارت ١ ; خدا تعالى كى حكمرانى ١٣ ;خدا تعالى كى خلقت ٩ ، ١٤ ، ١٥; خدا تعالى كى قدرت ٩ ، ١٤; خدا تعالى كى مشيت ١ ١ ، ١٣; خدا تعالى كے افعال ٦ ; خدا تعالى كے ساتھ گفتگو ٧ ، ٨

خلقت : خلقت كے مراتب ١٥ ;نظام خلقت: ١٠

سوال و جواب ٦

طبعى اسباب : ٤ ، ٩ ، ١٠ ، ١٣ قضا و قدر ١٥

گفتگو : ٨

معجزہ : ٣

مقربين : ٥

وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ (٤٨)

او رخد ا اس فرزند كو كتاب و حكمت او رتوريت و انجيل كى تعليم دےگا_

١_ خداوند عالم حضرت عيسي (ع) كا معلّم_و يعلّمه الكتاب والحكمة

٢_ شاگرد كى شخصيت كى تعميرو تشكيل ميں استاد كا كردار_يعلّمه الكتاب

مذكورہ بالا آيت جو كہ حضرت عيسي (ع) كا مقام و

۵۱۵

مرتبہ بيان كرنے كے بارے ميں وارد ہوئي ہے_ بيان كرتى ہے كہ حضرت عيسي (ع) كا معلّم واستاد خداوند عالم ہے_

٣_ الہى كتاب و حكمت كى تعليم و تعلّم بہت بڑى سعادت ہے_و يعلّمه الكتاب والحكمة

٤_ خدا وند متعال نے حضرت عيسي (ع) كو كتاب ( الہى قوانين ) حكمت (الہى معارف)، تورات اور انجيل كى تعليم دى _و يعلّمه الكتاب والحكمة والتوراة والانجيل

٥_ تورات اور انجيل ( آسمانى كتابيں ) خداوند عالم كے معارف اور قوانين پر مشتمل تھيں *و يعلمه الكتاب والحكمة والتوراة والانجيل تورات اور انجيل كا كتاب و حكمت پر عطف فرد كا جنس پر عطف ہے_

آسمانى كتابيں :٣ ، ٥

اقدار : ٣

انجيل : ٤ ، ٥ انجيل كے قوانين ٥;انجيل ميں حكمت ٥

تعليم و تعلّم : ٤

تورات : تورات كے قوانين ٥;تورات ميں حكمت ٥

حكمت : حكمت كى تعليم ٤

حضرت عيسي (ع) : حضرت عيسي(ع) اور تورات ٤ ; حضرت عيسي (ع) اور انجيل ٤; حضرت عيسي (ع) كى تعليم ٤ ; خدا اورحضرت عيسي(ع) ١

خدا تعالى: خدا تعالى كى حكمت ٣

شخصيت: تعمير شخصيت كے عوامل ٢

معلّم : ١ معلّم كا كردار ٢

۵۱۶

وَرَسُولاً إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الأكْمَهَ والأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (٤٩)

اور اسے بنى اسرائيل كى طرف رسول بنائے گا او روہ ان سے كہے گا كہ ميں تمھارے پاس تمھارے پروردگا ركى طرف سے نشانى لے كر آيا ہوں كہ ميں تمھارے لئے مٹى سے پرندہ كى شكل بناؤں گا او راس ميں كچھ دم كردوں گا تو وہ حكم خدا سے پرندہ بن جائے گا اور ميں پيدائشى اندھے او رمبروص كا علاج كروں گا او رحكم خدا سے مردوں كو زندہ كروں گا او رتمھيں اس بات كى خبردوں گا كہ تم كيا كھاتے ہو اور كيا گھر ميں ذخيرہ كرتے ہو _ ان سب ميں تمھارے لئے نشانياں ہيں اگر تم صاحبان ايمان ہو _

١_ حضرت عيسي(ع) خداوند عالم كى طرف سے بنى اسرائيل كى طرف رسول بناكر مبعوث كيئے گئے_و رسولا الى بنى اسرائيل

٢_ حضرت عيسي(ع) كى رسالت كے اصلى مخاطب بني اسرائيل تھے*و رسولا الى بنى اسرائيل

٣_ رسول كو روشن نشانيوں ( معجزوں ) كے ساتھ بھيجنا خدا وند عالم كى ربوبيت كا جلوہ ہے_

و رسولاً انّى قد جئتكم بآية من ربّكم

۵۱۷

٤_ انسانوں كى تربيت اور ہدايت ميں معجزہ كى تاثير و كردار_بآية: من ربّكم ''ربّكم'' كے معنى (تم انسانوں كى تربيت كرنےوالا) كے پيش نظر معلوم ہوتاہے كہ انبيائ(ع) كے معجزے انسانوں كى تربيت اور ہدايت كے ليئے تھے_

٥_ حضرت عيسي (ع) كے واضح معجزے انكى دعوت كى صداقت پر دليل تھے_انّى قد جئتكم بآية: من ربّكم

كيونكہ حضرت عيسي (ع) رسالت كے دعوے دار تھے پس ضرورى ہے كہ پہلے اسے ثابت كريں لہذا '' بآية من ربكم'' ميں آيت اور نشانى سے مرادحضرت عيسي (ع) كى نبوت كى نشانى ہوگا_

٦_ انبيائے الہى كے واضح معجزے انكى رسالت كى صداقت كى علامت تھے_بآية: من ربّكم

٧_ معجزہ ، انبياء (ع) كى نبوت پر انسانوں كے اطمينان كا ذريعہ _قد جئتكم بآية من ربكم

٨_ مٹى سے پرندہ بناكر اس ميں پھونكنے سے اس كا اذن الہى سے پرندہ بن جانا، حضرت عيسي(ع) كا معجزہ_

انّى اخلق لكم من الطين كهيئة الطير فانفخ فيه

٩_ مادى عناصر كى تشكيل كے بعد روح كا اس سے متعلق ہونا زندگى كے وقوع پذير ہونے كا كلى نظام _*

انّى اخلق لكم من الطين كهيئة الطير فانفخ فيه جو كچھ حضرت عيسي(ع) معجزہ كے عنوان سے انجام ديتے تھے اسے بيان كرنا زندگى كے وقوع پذير ہونے كے كلى نظام كى طرف اشارہ ہے ورنہ اگرصرف حضرت عيسي (ع) كے معجزے كو بيان كرنا مقصود ہوتا تو مدارج بيان كرنے كى ضرورت نہيں تھي_

١٠_ انبياء (ع) كے معجزے اذن الہى سے انجام پاتے ہيں _انّى اخلق باذن الله

١١_ نظام حيات پر خدا تعالى كااذن حاكم ہے_انّى اخلق باذن الله

١٢_ اذن الہى كے زير سايہ انسان كے ليئے مادى عناصر سے زندہ موجود كا بنانا ممكن ہے_انّى اخلق باذن الله

۵۱۸

١٣_ مادرزاد اندھوں كو آنكھيں اور برص والے مريضوں كو شفا دينا حضرت عيسي (ع) كا معجزہ_و ابري الاكمه والابرص

١٤_ مردوں كو اذن الہى كے پرتو ميں زندہ كرنا حضرت عيسي (ع) كا معجزہ _و احيى الموتي باذن الله

١٥_ حضرت عيسي (ع) كے زمانے ميں اندھے پن اور برص كى بيمارى كا عام ہونا *و ابريء الاكمه والابرص

اس زمانے كى لاعلاج بيماريوں ميں سے صرف اندھے پن اور برص كے شفا دينے كو ذكر كرنا ، اس زمانے ميں ان دو بيماريوں كے عام ہونے كى حكايت كرتاہے_

١٦_ يہ خبر دينا كہ لوگوں نے جو كچھ كھايا ہے اور جو كچھ گھروں ميں ذخيرہ كر ركھا ہے حضرت عيسي (ع) كا ايك معجزہ_

و انبئكم بما تأكلون و ما تدخرون فى بيوتكم

١٧_ حضرت عيسي (ع) ولايت تكوينى ركھتے تھے_انّى اخلق لكم فانفخ فيه فيكون طيراً

١٨_ حضرت عيسي (ع) علم غيب جانتے تھے_و انبئكم بما تأكلون و ما تدّخرون فى بيوتكم

١٩_ جو لوگ حضرت عيسي (ع) پر ايمان لائے اور حقيقت كے متلاشى تھے ان كے ليئے حضرت عيسي (ع) كے معجزے كافى تھے_انّ فى ذلك لاية لكم ان كنتم مؤمنين

جملہ '' ان كنتم مؤمنين ''ظاہراً حقيقت كى تلاش كے معنى ميں ہے كيونكہ اگر ايمان دارہونے كے معنى ميں ہو تو آيہ كا لانا ضرورى نہيں ہے كيونكہ آيہ لانے كا ہدف تمايل و رجحان اور ايمان لانا ہے_

٢٠_ آيات الہى سے انسان كا استفادہ اسكى مخصوص صلاحيتوں كے ساتھ مشروط ہے_انّ فى ذلك لاية لكم ان كنتم مؤمنين

٢١_ حضرت عيسي (ع) كے مخاطب ( بنى اسرائيل ) خدا تعالى پر ايمان كے دعوے دار تھے_ان كنتم مؤمنين

بعض مفسرّين كے نزديك ''ان كنتم مؤمنين'' كا مطلب يہ ہے كہ اگر تم خدا پر ايمان ركھتے ہو تو يہ معجزے ميرى نبوت ( عيسي (ع) كى نبوت) كى دليل ہيں _

٢٢_ حضرت عيسي(ع) كا بيماروں كو شفا دينے والا معجزہ اس

۵۱۹

زمانے ميں بيماريوں كے عام ہونے اوراس زمانے ميں لوگوں كى طبّى ضروريات كے مناسب تھا_

و ابري الاكمه والابرص و احيى الموتي باذن الله امام رضا (ع) فرماتے ہيں '' ان الله تبارك و تعالى بعث عيسي (ع) فى وقت ظہرت فيہ الزمانات واحتاج الناس الى الطب ...بما احيا لہم الموتى و ابرء (لہم ) الاكمہ و الابرص '' خدا تعالى نے حضرت عيسي (ع) كو اس دور ميں مبعوث فرماياجب بيمارياں عام تھيں اور لوگوں كو طبّ كى ضرورت تھي ايسے معجزوں كے ساتھ كہ حضرت عيسي(ع) ان كے مردوں كو زندہ كريں اور ان كے اندھوں كو آنكھيں ديں اور برص والوں كو شفا ديں (١)

٢٣_ حضرت عيسي(ع) كا سات يا آٹھ سال كى عمر ميں بنى اسرائيل كے كھانے پينے كى اشياء اور گھروں ميں انكے ذخائر كے بارے ميں غيبى خبريں دينا_و انبئكم بما تاكلون و ما تدخرون فى بيوتكم

امام صادق (ع) فرماتے ہيں :و مكث عيسي (ع) حتى بلغ سبع سنين او ثمانياً فجعل يخبرهم بما ياكلون وما يدّخرون فى بيوتهم _سات يا آٹھ سال كى عمر ميں حضرت عيسي (ع) انہيں خبر دينے لگے كہ وہ كيا كھاتے ہيں اور اپنے گھروں ميں كن چيزوں كا ذخيرہ كئے ہوئے ہيں _(٢)

آيات الہي: ٢٠

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى دعوت ٦ ; انبياء (ع) كى سچائي ٦ ; انبياء (ع) كى نبوت ٧ ;انبياء (ع) كے معجزے ٦ ، ١٠

ايمان : ايمان كا پيش خيمہ ٧ ، ١٩

بنى اسرائيل : ١ ، ٢ ،٢١ ، ٢٣ بنى اسرائيل كے انبياء (ع) ١

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل٤

حضرت عيسي (ع) : ١٥ حضرت عيسي (ع) اور بنى اسرائيل ١ ، ٢ ، ٢١ ، ٢٣ ; حضرت عيسي (ع) كا علم ١٨ ;حضرت عيسي (ع) كى دعوت ٥ ; حضرت عيسي (ع) كى ذمہ دارى ٢;حضرت عيسي (ع) كى سچائي ٥; حضرت عيسي (ع) كى ولايت ١٧; حضرت عيسي (ع) كے معجزے ٥ ، ٨ ، ١٣ ، ١٤ ، ١٦ ، ١٩ ، ٢٢ ، ٢٣

____________________

١) عيون اخبار الرضا ج ٢ ، ص ٨٠ حديث ١٢ ، ب٣٢ ، علل الشرائع ص ١٢١ حديث ٦ باب ٩٩_

٢) بحار الانوار ج١٤ ، ص ٢٥١ حديث٤٣ تفسيربرہان ج١ ص ٢٨٤ حديث ٤_

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749