تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177787 / ڈاؤنلوڈ: 6622
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

٤_ ہٹ دھرمي، غرور اور تكبر ،اصلاح اور نصيحت قبول كرنے ميں مانع ہوتے ہيں _اخذته العزة بالاثم

٥_ تقوى الہى (خوف خدا) طغيان وسركشى اور فتنہ و فساد سے روكتاہے _و اذا تولى سعى فى الارض و اذا قيل له اتق الله

٦ _ حكم راں كو چاہيئے كہ نصيحت كو قبول كرے، تنقيد كو برداشت كرے اور تقوى الہى اختيار كرے_و اذا قيل له اتق الله اخذته العزة

٧_ حكمراں كے انتخاب ميں يہ شرط لازمى ہے كہ خوف خداركھتا ہو، نصيحت كو قبول اور تنقيد كو برداشت كرتاہو_

و اذا قيل له اتق الله

٨_فتنہ و فساد برپا كرنے والے حكمراں اپنے گناہوں كى وجہ سے پيدا ہونے والى ہٹ دھرمى ،غرور اور تكبر كے مضبوط خول ميں بند ہيں _ اس صورت ميں كہ''تولي'' حكومت لينے كے معنى ميں اور''بالاثم''ميں باء سببيّت كيلئے اور يہ جار و مجرور ''العزة''كے متعلق ہو_

٩_ مفسد حكمراں ہٹ دھرمى اور غرور و تكبر كى وجہ سے تقوي كى دعوت ٹھكرا كر گناہ ميں ڈوب جاتے ہيں _

اخذته العزة بالاثم اس صورت ميں كہ''بالاثم'' ميں باء سببيت كے لئے اور ''اخذتہ''سے متعلق ہو_

١٠_دل ميں منافقت ركھنا، زمين ميں فساد پھيلانا اور تقوى الہى كى دعوت كو ٹھكرانا گناہ اور جہنم كے عذاب كا موجب ہے_و من الناس من يعجبك فحسبه جهنم

١١_ جہنم كے عذاب كے علاوہ كوئي بھى سزا مفسد، ہٹ دھرم اور متكبر حكمرانوں كو رام نہيں كر سكتي_

و اذا تولى سعى فحسبه جهنم

١٢_ مفسد، ہٹ دھرم اور حق و حقيقت كو قبول نہ كرنے والے حكمرانوں كى سزا جہنم ہے_و اذا تولى سعى فحسبه جهنم

١٣_ جہنم برا ٹھكانہ ہے_فحسبه جهنم و لبئس المهاد

١٤_ متكبر اور مفسد لوگوں كيلئے جہنم بہت برا ٹھكانہ ہے_اخذته العزة بالاثم فحسبه جهنم و لبئس المهاد

۴۱

اصلاح: اصلا ح كے موانع٤

تقوي: تقوي كى اہميت ٧; تقوي كى دعوت ١، ٢، ٩، ١٠; تقوي كے اثرات ٥

تكبر: تكبر كا پيش خيمہ٣; تكبر كى سزا ،١١;تكبر كے اثرات ٤،٩

جہنم: جہنم كا عذاب ١٠، ١١،٢ ١; جہنم كى صفات ١٣; متكبرين جہنم ميں ١٤; مفسدين جہنم ميں ١٤

حق كو قبول كرنا: حق كو قبول كرنے كے موانع ٣، ٤

رہبر: رہبر كا تقوي ٦; رہبر كا تنقيد برداشت كرنا ٦، ٧; رہبركا حق قبول كرنا ٧; رہبر كى ذمہ دارى ٦; رہبر كى شرائط ٦، ٧

خوف: خوف خدا ٥، ٧

سركشي: سركشى كے موانع ٥

ظالم رہبر : ظالم رہبروں كا تكبر ٢، ٨، ٩، ١١; ظالم رہبروں كا فساد برپا كرنا٢، ٣، ٨، ٩، ١١،١٢ ; ظالم رہبروں كى سزا ١١، ١٢

عذاب: اہل عذاب ١٢; عذاب كے اسباب ١٠; عذاب كے مراتب ١١;

فساد: فساد كے اثرات١٠

فساد برپا كرنا: فساد برپا كرنے كے موانع ٥

گمراہي: گمراہى كا پيش خيمہ٤; گمراہى كے عوامل ١٠

گناہ: گناہ كى سزا ١٠، ١٢; گناہ كے اثرات ٣، ٨; گناہ كے اسباب ٩، ١٠

متكبرين: ١، ٣، ٨، ٩، ١١، ١٢، ١٤ مفسدين: ٢، ٣، ٨، ٩، ١١، ١٢، ١٤

۴۲

منافقين: منافقين كا تكبر ١;منافقين كى رياكارى ١; منافقين كى صفات ١ ; منافقين كے برتاؤ كا طريقہ ١

نفاق: نفاق كے اثرات١٠

ہدايت: ہدايت كے موانع ١، ٢، ٣، ٤، ٩

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَاللّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ (٢٠٧)

اورلوگوں ميں وہ بھى ہيں جو اپنے نفس كو مرضى پروردگار كے لئے بيچ ڈالتے ہيں اور الله اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے _

١_ لوگوں ميں بعض ايسے انسان بھى ہيں جو اپنى جان فداكر كے اللہ تعالى كى رضا كو خريد ليتے ہيں _

ومن الناس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات الله

٢_ اللہ تعالى كى رضا اور خوشنودى كيلئے جان قربان كر نا بہت ہى قابل قدر ہے_ومن الناس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات الله

٣_ راہ خدا ميں ايثار كرنے والوں كا بلند ترين ہدف خدا كى رضا ہى ہونا چاہيے_

و من الناس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات الله خداوند عالم كا ان لوگوں كى تعريف كرنا جو اپنى جانيں فدا كر كے اس كى رضا حاصل كرتے ہيں _ اس سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ خدا كى رضا ہى بلند ترين ہدف ہونا چاہے _

٤_ ان لوگوں كے مقابلے ميں كہ جو ذاتى مفادات كى خاطر آباد كھيتوں اور پروان چڑھتى نسلوں كو

۴۳

ويران كر ديتے ہيں بعض ايسے لوگ بھى ہيں جو الہى اقدار كى حفاظت كى خاطر اپنى جانيں فدا كر ديتے ہيں _

ليفسد الحرث و النسل و من الناس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات الله

٥_ رضائے خدا كے علاوہ كسى اور چيز كيلئے جان دينا اسكى قدر و قيمت كو كھودينے كے مترادف ہے_*

و من الناس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات الله خدا ان لوگوں كى تعريف كر رہا ہے جو اس كى رضا كى خاطر جان ديتے ہيں نہ كہ كسى اور چيز كيلئے جيسے جنت كا شوق يا جہنم كا خوف_

٦_ انسان كى جان رضائے الہى كے حصول كا ايك ذريعہ ہے_و من الناس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات الله

٧_ مومنين كو رضائے خدا كے حصول كيلئے جان پر كھيل جانے كى ترغيب دلائي گئي ہے_

و من الناس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات الله چونكہ مذكورہ بالا آيت ايسے ہى لوگوں كى مدح كر رہى ہے لہذا اس سے ايسى تشويق و ترغيب كا استفادہ ہوتا ہے_

٨_ معاشرے ميں تباہى و فساد كا مقابلہ كرنے كيلئے ايثار كرنے والے مومنين كا وجود ، خدا كے اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہونے كى نشانيوں ميں سے ہے_و اذا تولى سعى فى الارض و من الناس من يشرى نفسه ابتغا ء مرضات الله و الله رؤف بالعباد

٩_ ايثار و قربانى خداوند عالم كى رافت و رحمت كا باعث ہے_و من الناس من يشرى و الله رؤف بالعباد

١٠_انسانوں كے درميان گہرا فرق اور ان كى نظريہ كائنات، عقيدہ، عمل اور اخلاق كے لحاظ سے تقسيم _

و من الناس من يقول ربنا اتنا من يعجبك من يشري

١١_ خداوند متعال اپنے بندوں پر مہربان اور رؤف

۴۴

ہے_و الله رؤف بالعباد

١٢_ اپنى رضا كے مقابلے ميں مومنين كى جانيں خريد كر خدا تعالى كا ان پر مہربان ہونا_و من الناس و الله رؤف بالعباد

١٣_ زندگى كى آخرى سانسوں تك ظلم و فساد اور ظالم حكمرانوں كے خلاف نبردآزمائي ضرورى ہے_

و من الناس من يعجبك و اذا تولى سعى فى الارض و من الناس من يشرى نفسه

چونكہ مفسد حكمرانوں كى برى خصلتيں بيان كرتے ہى ، فوراً ان لوگوں كى تعريف و توصيف كى گئي ہے جو راہ خدا ميں اپنى جان فدا كر ديتے ہيں ، اس سے مندرجہ بالا مفہوم حاصل كيا جا سكتا ہے_

١٤_ حضرت اميرالمومنين على ابن ابى طالب (ع) نے شب ہجرت نبى اكرم(ص) كے بستر پر سو كر خود كو خطرے ميں ڈال ديا اور پيغمبر اكرم(ص) كى سلامتى اوررضائے خدا كو خريد ليا_و من الناس من يشرى نفسه

امام محمد باقر(ع) فرماتے ہيں ، خداوند متعال كا يہ ارشاد:''و من الناس من يشرى نفسه ابتغاء مرضات الله والله رؤف بالعباد'' فانها نزلت فى على بن ابيطالب(ع) حين بذل نفسه لله و لرسوله ليلة اضطجع على فراش رسول الله (ص) لما طلبته كفار قريش (١) يہ آيت''ومن الناس من يشرى ''حضرت على (ع) كى شان ميں اس وقت نازل ہوئي جب آپ (ع) نے اپنى جان كا نذرانہ خدا اور اس كے رسول (ص) كے ليئے پيش كيا، يہ اس رات كا واقعہ ہے كہ جب كفار قريش نے رسول اكرم (ص) كى جان لينا چاہى تو حضرت على (ع) آپ (ص) كے بستر پر سوگئے_

اخلاق: ١٠

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ١٤

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا لطف و كرم ١٢;اللہ تعالى كى رضا١، ٢، ٣، ٥، ٦، ٧، ١٢، ١٤، ;اللہ تعالى كى مہربانى ٨، ٩، ١١، ١٢

____________________

١_ تفسير عياشى ج ١ ص ١٠١ ح ٢٩٢، تفسير برھان ج ١ ص ٢٠٦ح ٧_

۴۵

امير المؤمنين (ع) : امير المؤمنين (ع) كاايثار و قربانى ١٤; امير المؤمنين (ع) (ع) كے فضائل ١٤

انسان: انسانوں كا تفاوت ١٠

ايثار: ايثار كااجر ٦; ايثار كى ترغيب٧;ايثار كى قدر و قيمت ٢، ٥; ايثار كے اثرات ٩; ايثار كے مراتب ١، ٤، ٦، ١٢، ١٣ ;خدا كى راہ ميں ايثار٣

تربيت: تربيت كا طريقہ ٧

دين: دين كى پاسبانى ٤

رشد و ہدايت: رشد و ہدايت كے اسباب ٤، ٧

روايت: ١٤، ١٥

عقيدہ: ١٠

عمل: ١٠

مجاہدين: مجاہدين كاہدف٣

معاشرتى گروہ: ١، ٤، ٨، ١٠

مومنين: مومنين كا ايثار ٧، ٨; مومنين كے فضائل ١٢

نبرد آزمائي: ظالم حكمرانوں كے خلاف نبرد آزمائي١٣; فساد كے خلاف نبرد آزمائي ٨، ١٣

۴۶

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (٢٠٨)

ايمان والو تم سب مكمل طريقہ سے اسلام ميں داخل ہو جاؤ اور شيطانى اقدامات كا اتباع نہ كرو كہ وہ تمھاراكھلا ہوا دشمن ہے _

١_ تمام مؤمنين كا ہر لحاظ سے اسلام اور اس كے قوانين كے سامنے سر تسليم خم كرنا ضرورى ہے_يا ايها الذين آمنوا ادخلوا فى السلم كافة اس آيت ميں يہ جملہ''ولا تتبعوا خطوات الشيطان ''قرينہ بن رہا ہے كہ'' سلم ''سے مراد اسلام اور خدا كے احكامات كے سامنے مكمل طور پر سر جھكانا اور ان كى پيروى كرنا ہے نہ يہ كہ صرف لوگوں كے درميان صلح مقصود ہو_

٢_ اسلامى معاشرے ميں صلح ، اتحاد اوريگا نكت قائم كرنا تمام مومنين كى ذمہ دارى ہے_يا ايها الذين آمنوا ادخلوا فى السلم كافة اس لحاظ سے كہ''سلم''سے مراد صلح ہو، تو مومنين كے درميان صلح كا لازمہ عدم اختلاف ہے اور جب اختلاف نہيں ہوگا تو ان كے درميان اتحاد اور ہم آہنگى ہوگي_

٣_ ايمان كى روح اور حقيقت يہ ہے كہ خدا كے سامنے سر تسليم خم كريں اور شيطان كى پيروى سے اجتناب كريں _*

يا ايها الذين ادخلوا فى السلم كافة و لاتتبعوا خطوات الشيطان

٤_ پورے وجود كے ساتھ مكمل طور پر خدا كے سامنے سر تسليم خم كر لينا اور شيطان كى پيروى سے اجتناب كرنا ايمان كے بلند ترين درجات ميں سے ہے_يا ايها الذين آمنوا ادخلوا فى السلم كافة اس لحاظ سے كہ مومنين كو سر تسليم خم كرنے اور شيطان كى پيروى سے اجتناب كا حكم ہوا ہے_

٥_ احكام خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا ايمانى معاشرے كى وحدت كا بنيادى مركز اور محور ہے_

يا ايها الذين آمنوا ادخلوا فى السلم كافة

۴۷

٦_ دين اسلام بشريت كى تمام ضرورتوں كو پورا كرنے والے احكام اور معارف كا حامل ہے_ادخلوا فى السلم كافة

اس صورت ميں كہ''كافة'' ،''السلم''، كيلئے حال ہو تو اس كا مطلب ہے كہ مكمل طور پر اسلام كے سامنے سر تسليم خم كرنا اوراس كا لازمہ يہ ہے كہ اسلام تمام تر بشرى ضروريات كو پورا كرسكتاہے_

٧_ شيطان كى پيروى اختلاف اور تفرقہ كا سبب ہے_ادخلوا فى السلم كافة و لاتتبعوا خطوات الشيطان

ظاہراً جملہ''ولا تتبعوا ...'' ايمانى معاشرے ميں صلح و اتحاد كے راستے ميں موجود ركاوٹ كو بيان كر رہا ہے يعنى شيطان كى پيروى اختلاف و تفرقہ كا باعث بنتى ہے_

٨_ شيطان مومنين كے اتحاد و اتفاق كا دشمن ہے_ادخلوا فى السلم كافة و لاتتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو مبين

٩_ شيطان كا وسوسہ اور فريب مختلف راہوں سے اور تدريجى انداز ميں ہوتا ہے_و لاتتبعوا خطوات الشيطان

''خطوات''كے معنى قدموں كے ہيں جو يہاں پر شيطانى فريب كارى كے مختلف قسم كے حيلوں اور طريقوں كو بيان كررہاہے اور چونكہ قدم ہميشہ ايك كے بعد دوسرا اٹھايا جاتا ہے لہذا يہ شيطان كے دھوكوں كے تدريجى ہونے كى طرف اشارہ ہے_

١٠_ خدا وند عالم كے حكم كى نافرمانى شيطان كى پيروى ہے_ادخلوا فى السلم كافة و لاتتبعوا خطوات الشيطان

١١_ شيطان مومنين كا كھلا دشمن ہے_انه لكم عدو مبين

١٢_ شيطان كى پيروى كرنے اور اسكے راستے پر چلنے سے خداوند متعال نے خبردار كيا ہے_و لاتتبعوا خطوات الشيطان

١٣_ خدا تعالى كى طرف سے اس بات پر متنبہ كيا گياہے كہ شيطان تفرقہ كا موجب ہے اورايمانى معاشرے ميں صلح اور وحدت كا مخالف ہے_ادخلوا فى السلم كافة و لاتتبعوا خطوات الشيطان انه لكم عدو مبين

۴۸

١٤_ جو چيزيں مسلمانوں كے درميان تفرقہ و اختلاف كا باعث بنيں وہ شيطانى حربے ہيں _

يا ايها الذين آمنوا ادخلوا فى السلم كافة و لاتتبعوا خطوات الشيطان

اتحاد: اتحاد كى اہميت ٢ ;اتحاد كے اسباب ٥

اختلاف: اختلاف كے اسباب ٧، ٨، ١٣، ١٤

اسلام: اسلام كى جامعيت٦

اطاعت : شيطان كى اطاعت٧، ١٠،٢ ١

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا متنبہ كرنا١٢، ١٣;اللہ تعالى كے اوامر ٥

ايمان: ايمان كى حقيقت ٣ ;ايمان كے انفرادى اثرات٣; ايمان كے مراتب٤ دين اور حقيقت: ٦

سرتسليم خم كرنا: اسلام كے سامنے سر تسليم خم كرنا ١; خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا٣، ٤، ٥;سر تسليم خم كرنے كى اہميت ٤; سر تسليم خم كرنے كے اسباب ٣

شيطان : شيطان سے روگردانى ٣، ٤; شيطان كى دشمنى ٨، ١١; شيطان كى مكارى و فريبكارى ٩; شيطانى وسوسہ٩

صلح: صلح كے دشمن١٣

گمراہي: گمراہى كے اسباب٩، ١٤

نافرماني: نافرمانى كے اثرات١٠

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ١، ٢، ١٤;مومنين كے دشمن٨، ١١

۴۹

فَإِن زَلَلْتُمْ مِّن بَعْدِ مَا جَاءتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (٢٠٩)

پھر اگر كھلى نشانيوں كے آجا نى كے بعد لغزش پيدا ہو جائے تو ياد ركھو كہ خدا سب پر غالب ہے اور صاحب حكمت ہے _

١_ ان لوگوں كو خدا نے دھمكى دى ہے جو اتمام حجت (روشن دليلوں ) كے بعد بھى اسلامى معاشرے ميں تفرقہ اور اختلاف پھيلاتے ہيں _يا ايها الذين آمنوا ادخلوا فى السلم كافة و لاتتبعوا خطوات الشيطان فان زللتم من بعد ما جائتكم البينات فاعلموا ان الله عزيز حكيم

٢_ الہى تعليمات كى عظمت و سربلندى _*فان زللتم من بعد

''زلل''كے معنى سقوط (گرنے ) كے ہيں اور سقوط عموما ايسى جگہوں پر استعمال ہوتا ہے جہاں كوئي چيز اونچى جگہ سے گرے_

٣_ شيطان كى پيروى ، لغزش اور انحراف ہے_ولاتتبعوا خطوات الشيطان فان زللتم

٤_ خدا تعالى نے مومنين كى ہدايت اور ان كے درميان اتحاد پيدا كرنے كى خاطر روشن دليليں بھيجى ہيں _

ادخلوا فى السلم كافة و لاتتبعوا فان زللتم من بعد ما جائتكم البينات

٥_ علم حاصل ہوجانے كے بعد لغزش قابل قبول نہيں ہے_و لا تتبعوا فان زللتم من بعد ما جائتكم البينات

٦_قانون جان لينے كے بعد انسان كى ذمہ دارى ہے كہ اس پر عمل كرے_فان زللتم من بعد ما جائتكم البينات

مذكورہ بالا مطلب ميں ''بينات''سے قوانين مراد ليئے گئے ہيں _

٧_ معا شرے ميں اتحاد قائم كرنے كى زيادہ ذمہ دارى علماء پر عائد ہوتى ہے_*من بعد ما جائتكم البينات

۵۰

كيونكہ خدا كى آيات وبينات كو سمجھنا زيادہ تر دينى علماء سے مربوط ہے اور عموما دينى معاشرے ميں زيادہ تر اختلافات انكى طرف پلٹتےہيں اس لحاظ سے مذكورہ بالا آيت كى زيادہ توجہ علماء پر ہے_

٨_ خداوند عالم، عزيز (غلبہ والا) اور حكيم ہے_فاعلموا ان الله عزيز حكيم

٩_ احكام كے بيان كرنے اور روشن دليليں بھيجنے كے بعد خطاكاروں كو سزا ديناخدا كى حكمت كا تقاضا ہے_

فان زللتم من بعد ما جائتكم البينات ان الله عزيز حكيم

١٠_ خداوند متعال كے ارادہ كے پورا ہونے ميں كوئي بھى طاقت مانع نہيں بن سكتي_فان زللتم ان الله عزيز حكيم

كيونكہ عزيز كے معنى غلبے والا اور نا قابل شكست ہونے كے ہيں _

١١_ شيطان كى پيروى كرنا اور تفرقہ ايجاد كرنا، خداوند عالم اور اس كے دين كو كوئي نقصان نہيں پہنچاسكتا_

ادخلوا فى السلم كافة و لاتتبعوا فان زللتم ان الله عزيز حكيم يہ مطلب گزشتہ مطلب كى وضاحت كى روشنى ميں ہے_

١٢_ خداوند متعال كے عزيز ہونے اور اس كى حكمت كے بارے ميں آگاہي، اسكى اطاعت كرنے اور شيطان كى پيروى سے اجتناب كا موجب بنتى ہے_ادخلوا فى السلم ...و لاتتبعوا ان الله عزيز حكيم

١٣_ خدا تعالى كے فرامين كى نافرمانى اور انحراف اس كے عزت بخش اور حكيمانہ فرامين كا انكار ہے*فان زللتم فان الله عزيز حكيم احتمال ہے كہ احكام كى رعايت كا حكم دينے كے بعد''عزيز'' اور''حكيم'' كا لانا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہو كہ احكام الہى حكيمانہ اور عزت بخش ہيں _

اتحاد: اتحاد كى اہميت ٤، ٧; اتحاد كے اسباب ٤، ٧

اتمام حجت: ١

اختلاف: اختلاف كى سزا ١;اختلاف كے اسباب ١١

اسماء و صفات: حكيم ٨، عزيز ٨

اطاعت: شيطان كى اطاعت ٣، ١١

۵۱

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا ارادہ ١٠; اللہ تعالى كا محيط ہونا ١٠; اللہ تعالى كى برہان٤; اللہ تعالى كى تعليمات ٢; اللہ تعالى كى حكمت٩، ١٢;اللہ تعالى كى دھمكى ١ ; اللہ تعالى كى عزت١٢;اللہ تعالى كے اوامر ١٣

انسان: انسان كى ذمہ دارى ٦

سر تسليم خم كرنا: سر تسليم كرنے كے اسباب ١٢

شيطان: شيطان سے منہ پھيرنا ١٢

علم: علم اور سزا ٩; علم اور عمل ٥، ٦، ١٢; علم اور شرعى فريضہ٦، ١٢

علماء: علماء كى ذمہ دارى ٧

فقہى قواعد: ٩

گمراہي: علم كے باوجود گمراہي٥;گمراہى كے اسباب ٣

گناہ گار: گناہگاروں كى سزا ٩

نافرماني: نافرمانى كے اثرات١٣

ہدايت: ہدايت كے اسباب ٤ ; ہدايت كے موانع ٣

هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن يَأْتِيَهُمُ اللّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآئِكَةُ وَقُضِيَ الأَمْرُ وَإِلَى اللّهِ تُرْجَعُ الأمُورُ (٢١٠)

يہ لوگ اس بات كا انتظار كر رہے ہيں كہ ابر كے سايہ كے پيچھے عذاب خدا يا ملائكہ آجائيں اور ہر امر كا فيصلہ ہو جائے اور سارے امور كى بازگشت تو خدا ہى كى طرف ہے _

١_ احكام خدا كے سامنے سر تسليم خم نہ كرنا اور شيطان كي پيروى كرنا عذاب خدا كا موجب ہے_

۵۲

ادخلوا فى السلم كافة هل ينظرون الا ان ياتيهم الله فى ظلل اس آيت ميں ''ان ياتيہم الله ''كا جملہ ، سابقہ آيت ميں موجود '' فان اللہ عزيز حكيم'' كے قرينے سے عذاب الہى سے كنايہ ہے _

٢_ بعض لوگ اس وقت تك سر تسليم خم نہيں كرتے اور نہ ہى ايمان لاتے ہيں جب تك عذاب خدا نازل نہ ہوجائے_هل ينظرون الا ان ياتيهم الله فى ظلل من الغمام

٣_ ظالموں اور سركشوں پر عذاب خدا كے نزول كا ايك ذريعہ بادل ہيں _ان ياتيهم الله فى ظلل من الغمام

٤_ سركشوں پر عذاب الہى اسكى رحمت كے قالب ميں _هل ينظرون الا ان ياتيهم الله فى ظلل من الغمام

اس بات كے پيش نظر كہ بادل خدا كى رحمت كا مظہر ہيں ليكن اس آيت ميں بادلوں كا ذكر عذاب خدا كے وسيلے كے طور پر ہوا ہے_

٥_ ملائكہ عذاب الہى كے نازل كرنے والے ہيں _ان ياتيهم الله فى ظلل من الغمام و الملائكة

٦_ بعض لوگ اللہ تعالى كے سامنے سرتسليم خم كرنے كيلئے خدا تعالى اور ملائكہ كى آمد كے منتظر ہيں _

هل ينظرون الا ان ياتيهم الله فى ظلل من الغمام و الملائكة و قضى الامر اس صورت ميں كہ جملہ''ھل ينظرون'' عذاب كى دھمكى نہ ہو بلكہ ايك حقيقت كا بيان ہو كہ لوگوں نے اللہ تعالى اور ملائكہ سے بے جاتوقع وابستہ كى ہوئي ہے_

٧_ عذاب كى نشانياں ديكھ كر اور وقت گزرجانے كے بعد خدا وند متعال كے آگے سر تسليم خم كرنا بے فائدہ ہے_

هل ينظرون الا ان ياتيهم و قضى الامر

٨_ قيامت كے دن ايمان اور اطاعت كا اظہار بے سود ہوگا*_و قضى الامر

اس صورت ميں كہ ملائكہ اور عذاب آنے كا مطلب ، قيامت كے دن ان كا نزول ہو_

٩_ تمام امور كا آغاز و انجام پروردگار عالم كى طرف سے ہے_و الى الله ترجع الامور

كيونكہ''رجع''كے معنى وہيں پر لوٹنے كے ہيں جہاں سے آغاز ہوا ہو_

۵۳

١٠_ اگر انسان كے مدّنظر يہ رہے كہ تمام چيزوں كو خدا كى طرف لوٹنا ہے تو اس كے لئے خدا كى اطاعت اور شيطان كى پيروى سے اجتناب كرنے كے اسباب فراہم ہوجاتے ہيں _و لا تتبعوا خطوات و الى الله ترجع الامور

١١_ خداوند متعال نے ان لوگوں كو خبردار كيا ہے جو قوانين الہى كے سامنے سر تسليم خم نہيں كرتے اور شيطان كى پيروى كرتے ہيں _و لا تتبعوا خطوات هل ينظرون الا ان ياتيهم و الى الله ترجع الامور

١٢_ بعض لوگوں نے اللہ تعالى اور ملائكہ كو ديكھنے كى غلط توقعات وابستہ كرركھى ہيں _هل ينظرون الا ان ياتيهم والملائكه

اجتماعى و معاشرتى گروہ:٢، ٦،٢ ١

اطاعت: شيطان كى اطاعت١، ١١

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى دھمكياں ١١; اللہ تعالى كى طرف بازگشت ١٠; اللہ تعالى كى طرف رجوع ٩

امور كا انجام : ٩

امور كا مبدا : ٩

ايمان: ايمان كے اسباب ٢; ايمان كے مواقع ٧، ٨ بے جا توقعات: ١٢

خلقت: نظام خلقت٩

سر تسليم خم كرنا: سر تسليم خم كرنے كا پيش خيمہ٦، ١٠; سر تسليم خم كرنے كى اہميت٧; سر تسليم خم كرنے كے اسباب ٢

شيطان : شيطان سے منہ پھرنا ١٠

عذاب: عذاب رحمت كے ساتھ ٤ ;عذاب كے بادل٣; عذاب كے ذرائع ٣; عذاب كے موجبات ١;نزول عذاب ٢، ٣، ٥;

علم: علم و عمل كا رابطہ ١٠

قيامت: قيامت ميں ايمان ٨; قيامت ميں سر تسليم خم كرنا ٨

۵۴

ملائكہ: ملائكہ كا نزول ٦;ملائكہ كى رسالت ٥

نافرماني: نافرمانى كى سزا ١ ، ٣، ٤، ١١

نيك عمل: نيك عمل كا پيش خيمہ١٠

سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُ فَإِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (٢١١)

ذرا بنى اسرائيل سے پو چھئے كہ ہم نے انہيں كس قدر نعمتيں عطا كى ہيں _اور جو شخص بھى نعمتوں كے آجانے كے بعد انہيں تبديل كر دے گا وہ ياد ركھے كہ خدا كا عذاب بہت شديد ہوتا ہے _

١_ خداوند متعال كى طرف سے روشن دلائل اورمعجزات دكھائے جانے كے باوجودبنى اسرائيل نے نافرمانى اور انحراف كيا_كم آتيناهم من اية بينة و من يبدل نعمة الله

٢_ بنى اسرائيل كا انجاممسلمانوں كيلئے باعث عبرت ہونا چاہيئے_يا ايها الذين امنوا ادخلوا فى السلم كافة سل بن اسرائيل ايسا معلوم ہوتاہے كہ خداوند عالم كا بنى اسرائيل كے بارے ميں تحقيق كا حكم دينے كا مقصد ان كے انجام سے عبرت حاصل كرنا ہے _

٣_ گذشتہ امتوں كے بارے ميں تحقيق اور انكى تاريخ سے سبق سيكھنا ضرورى ہے_سل بن اسرائيل كم آتيناهم فان الله شديد العقاب

٤_ خدا تعالى نے بنى اسرائيل كيلئے واضح نشانياں اوروافر معجزے بھيجے ہيں _كم آتيناهم من اية بينة

٥_ اللہ تعالى كى سنتيں اور تاريخ كے قوانين ہميشہ جارى رہتے ہيں _

۵۵

سل بن اسرائيل كم اتيناهم من آية بينة

سوال اور جستجو كا حكم اس لئے ہے تا كہ بيدارى اور توجہ كا باعث بنے كہ بنى اسرائيل پر جو گزرچكاہے اگر مومنين بھى وہى كام كريں جو انہوں نے كيئے تو مومنين كو بھى ان جيسى ہى سزا بھگتناپڑے گي_ حقيقت ميں يہ سنت الہى اور اس كے جارى و سارى ابدى اصولوں كا بيان ہے_

٦_ دين خدا ميں تفرقہ اور تحريف كرنے والوں اور عذاب الہى كا شكار ہونے والوں كا واضح مصداق بنى اسرائيل ہيں _ادخلوا فى السلم كافة فان زللتم من بعد ما سل بن اسرائيل كم اتيناهم من آية بينة

كيونكہ''سلم''( خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا اور اسلامى معاشرے كا اتحاد ) ميں داخل ہونے كے امر اور شيطان كى پيروى سے روكنے كے بعدبنى اسرائيل كو نمونے كے طور پر ذكر كيا گيا ہے_

٧_ خداوند متعال كے احكام اور معجزات اسكى نعمتوں ميں سے ہيں _اتيناهم من آية بينة و من يبدل نعمة الله

٨_ خداوند متعال كى نشانياں آنے كے بعد ان سے انحراف كرنا شديد عذاب كا موجب ہے_و من يبدل نعمة الله فان الله شديد العقاب

٩_ خداوند عالم سخت عذاب دينے والا ہے_فان الله شديد العقاب

١٠_ خدا تعالى كے دين اور ا س كى روشن نشانيوں ميں تبديلى اور تحريف كرنے والے سخت عذاب كے مستحق ہيں _

و من يبدل نعمة الله فان الله شديد العقاب

الہى نعمتوں كا واضح اور مورد نظر مصداق يہاں پر خدا كا دين اور اسكى نشانياں ہيں اور تبديلى سے مراد تحريف ہے_

١١_ خدا تعالى كى نعمتوں كے مقابلے ميں انسان پر بہت بڑى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے_و من يبدل نعمة الله فان الله شديد العقاب كفران نعمت پر شديد عذاب ، نعمت الہى كے مقابلے ميں عظيم ذمہ دارى پر دلالت كرتاہے_

١٢_ علمائے دين پر بہت بڑى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے_

۵۶

سل بن اسرائيل كم اتيناهم من اية بينة كيونكہ تبديلى اور تحريف انہى لوگوں سے ممكن ہے جو آيات الہى سے آگاہى ركھتے ہوں _

١٣_ نشانيوں كے آجانے اور اتمام حجت كے بعد نافرمانى اورسركشى كيلئے كوئي بہانہ باقى نہيں رہتا_

كم اتيناهم من اية بينة و من يبدل نعمة الله من بعد ما جائته

١٤_ دين ميں تحريف اور تبديلى كرنے والوں كو شديد عذاب ميں مبتلا كرنا الہى سنتوں ميں سے ہے_

و من يبدل نعمة الله فان الله شديد العقاب

''من يبدل نعمة الله ''عام ہے اور ان تمام لوگوں كو شامل ہے جو آيات الہى ميں تحريف كرتے ہيں بالخصوص اس مطلب كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ دوسروں كو بنى اسرائيل جيسے تحريف كرنے والوں سے عبرت اور نصيحت لينى چاہيئے_

آيات خدا: ٤، ١٣ آيات خدا كى تحريف ١٠

اتمام حجت: ١٣

اختلاف: اختلاف كے عوامل ٦; دينى اختلاف ٦

اسماء و صفات: شديد العقاب ٩

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا عذاب ٩; اللہ تعالى كى سنتيں ١٤; اللہ تعالى كى نعمتيں ٧، ١١ ;اللہ تعالى كے اوامر٧

انسان: انسان كى ذمہ دارى ١١

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا انجام ٢;بنى اسرائيل كا تحريف كرنا ٦; بنى اسرائيل كى سزا ٦;بنى اسرائيل كى گمراہى ١; بنى اسرائيل كى نافرمانى ١;بنى اسرائيل ميں معجزہ ١، ٤

تاريخ: تاريخ پر حاكم سنتيں ٥; تاريخ سے عبرت لينا ; ٢، ٣ فلسفہ تاريخ ٢، ٥

تحريف كرنے والے: تحريف كرنے والوں كى سزا ١٠،١٤

تحقيق: تحقيق كى اہميت ٣

۵۷

دين:دين ميں تحريف ٦، ١٠; دين ميں تحريف كى سزا ١٤

عبرت: عبرت كے اسباب ٢، ٣

عذاب: اہل عذاب ٦، ١٠، ١٤; عذاب كے اسباب ٨، ١٤; عذاب كے مراتب٦، ٨، ١٠، ١٤;

علم: علم اور سزا ٨ ; علم اور شرعى ذمہ دارى ١٢

علماء: علماء كى ذمہ دارى ١٢

گذشتہ امتيں : گذشتہ امتيں اور ان كا انجام ٣

گمراہي: گمراہى كے اثرات ٨، گمراہى ميں عذر ١٣

معجزہ: معجزہ كى نعمت ٧

معذرت خواہي: ١٣

زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ الْحَيوةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ اتَّقَواْ فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ (٢١٢)

اصل ميں كافروں كے لئے زندگانى دنيا آراستہ كردى گئي ہے اور وہ صاحبان ايمان كا مذاق اڑاتے ہيں حالانكہ قيامت كے دن متقى اور پرہيزگار افراد كا درجہ ان سے كہيں زيادہ بالاتر ہو گا اور الله جس كو چاہتا ہے بے حساب رزق ديتا ہے _

١_ كافروں كى نظر ميں دنياوى زندگى كى چمك دمك_زين للذين كفروا الحيوة الدنيا

٢_ دنياوى زندگى كى زيب و زينت نے كافروں كى نظروں سے اسكى حقيقت كو چھپا ليا ہے_

۵۸

زين للذين كفروا الحيوة الدنيا

٣_ دنياوى زندگى اور مادى اقدار كو سب كچھ سمجھ بيٹھنے كا اصلى سبب كفر ہے_ زين للذين كفروا الحيوة الدنيا

٤_ دنيا كے جلووں پر فريفتہ ہونا آيات خدا ميں تحريف اور اس كى نعمتوں ميں تبديلى كے اسباب ميں سے ہے_

و من يبدل زين للذين كفروا جملہ''زين ...''، جملہ ''ومن يبدل ...'' كيلئے علت ہے_

٥_ دنياوى زندگى پر فريفتہ ہونے اور اس كے ساتھ دل لگانے كى مذمت_زين للذين كفروا الحيوة الدنيا

٦_ آيات اور نعمات خدا ميں تحريف اور تبديلى كفر ہے_و من يبدل نعمة الله زين للذين كفروا

چونكہ''زين ...''،''من يبدل ...''كى علت اور غرض كو بيان كررہا ہے لہذاتحريف اور تبديلى كرنے والے، كفار(الذين كفروا) كے مصاديق ميں سے شمار ہونگے_

٧_ مومنين كا مذاق اڑانا دنيا داروں اور كافروں كى روش ہے_زين للذين كفروا الحيوة الدنيا و يسخرون من الذين امنوا

فعل مضارع''يسخرون''استمرار اورپر دلالت كرتا ہے مذكورہ بالا عبارت ميں اس كے لئے ''روش ''كا لفظ استعمال كيا گيا ہے_

٨_ كفار كے نزديك كسى كو باشخصيت سمجھنے كا معيار، اس كے پاس مال و دولت كى فراوانى ہے_

زين للذين و يسخرون من الذين امنوا چونكہ كفّار دنيا پر فريفتہ ہيں ، لہذا جو بھى دنيا كے مال و منال سے تہى دست ہو جيسا كہ صدر اسلام كے اكثر مسلمان تھے، ان كى نظر ميں حقير ہے_

٩_ مومنين كا مذاق اڑانے كى مذمت_و يسخرون من الذين امنوا

١٠_صدر اسلام كے مسلمانوں كا فقر و فاقہ اور مال و دولت كا كفّار كے يہاں تمركز_*زين للذين كفروا و يسخرون و الله يرزق كافروں كى نظر ميں دنيا كا جلوہ، مومنين كا مذاق اڑانا، خدا كا مومنين كو قيامت كے دن برترى كا وعدہ دينا اور ان كو بے حساب نعمتوں سے مالا مال كرنا مذكورہ بالا مطلب كى دليليں ہيں _

۵۹

١١_ ايمان ،انسان كو دنيا پر فريفتہ ہونے، اس سے دل لگانے اور اسے زندگى كا اصلى ترين سرمايہ سمجھنے سے روكتا ہے_

زين للذين كفروا الحيوة الدنيا ''زين للذين ...''كا مفہوم يہ ہے كہ دنياوى زندگى كا زرق و برق مومنين كے دلوں ميں طمع اور فريب ايجاد نہيں كرسكتا_

١٢_ اہل تقوي مومنين قيامت كے دن كفار سے بلند مقام پر ہوں گے _و الذين اتقوا فوقهم يوم القيمة

١٣_ قيامت، متقين كى كفار پر برترى و فضيلت اور حقيقى اقدار كے ظاہر ہونے كا دن ہے_و الذين اتقوا فوقهم يوم القيمة كيونكہ با تقوي مومنين حقيقى معنوں ميں اس دنيا ميں بھى برترى ركھتے ہيں لہذا قيامت كا دن اس برترى كے ظاہر ہونے كا مقام ہوگا_

١٤_ افراد كى حقيقى قدر و قيمت كا معيار تقوي ہے_و الذين اتقوا فوقهم يوم القيمة

١٥_آخرت ميں دنيا پرستوں اور كافروں كا پست مقام_و الذين اتقوا فوقهم يوم القيمة

١٦_ تقوي قيامت كے دن اعلي مقام پانے كا سبب ہے_و الذين اتقوا فوقهم يوم القيمة

١٧_ مومنين كوقيامت كے دن برترى دينے كا وعدہ الہي، انہيں كفار كے تمسخر كے مقابلے ميں تسلى دينے اور ثابت قدم ركھنے كا عامل ہے_و الذين اتقوا فوقهم يوم القيمة ايسا معلوم ہوتاہے كفار كى طرف سے اہل تقوى كے تمسخر كے ذكركے بعد''الذين اتقوا ...'' كا جملہ اہل تقوى كى تسلى كيلئے ہے_

١٨_ ايمان و تقوي كا ساتھ ہونا قيامت كے دن برترى اور فضيلت كا موجب بنے گا_

و يسخرون من الذين امنوا و الذين اتقوا فوقهم يوم القيمة ''الذين آمنوا''كى جگہ ''والذين اتقوا ...'' كا لانايہ سمجھانے كے ليئے ہے كہ ايمان كے ساتھ تقوي بھى ضرورى ہے_

١٩_ صاحبان تقوي مومنين آخرت ميں خداوند عالم كے بے حد و حساب رزق سے بہرہ مند ہونگے_

و الذين اتقوا و الله يرزق من يشاء بغير حساب يہاں پر'' بغير حساب'' كا لفظ ممكن ہے رزق كى كثرت و فراوانى اور اس كے لامتناہى ہونے

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749