تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 180212 / ڈاؤنلوڈ: 6788
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تو قارئین  ! یہ ہے سنت رسول ص بلکہ یوں کہیے ، یہ ہیں وہ روایات جو خدا کے رسول ص سے منسوب کی گئی ہیں ۔ کبھی تو ابوہریرہ یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پہلے جو  حدیث سنائی تھی اس کا انھیں کچھ علم نہیں ،ان سے تو یہ بات کسی نے کہی تھی ۔ اور کبھی جب ان کی بیان کردہ احادیث میں تناقض کی نشان دہی کی جاتی ہے تو وہ کچھ  جواب نہیں دیتے بلکہ حبشی زبان میں کچھ بڑابڑادیتے ہیں ۔

معلوم نہیں اہل سنت کیسے انھیں اسلام کا سب سے بڑا راوی حدیث قرار دیتے ہیں ؟

عائشہ اور ابن عمر کا اختلاف

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر ام المومنین عائشہ کے حجرے کے ساتھ پیٹھ لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں ان کے مسواک کرنے کی آواز آرہی تھی ، اتنے میں میں نے پوچھا : اے ابو عبدالرحمان ! کیا رسول اللہ ص نے رجب کے مہینے میں بھی عمرہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں کیا ہے ۔ میں نے عائشہ سے کہا: اماں جاں ! آپ سن رہی ہیں ابو عبدالرحمان کیا کہتے ہیں  ؟ انھوں نے کہا : کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا : یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص نے رجب میں عمرہ کیا ہے ۔ انھوں نے کہا : ابو عبدالرحمن کو اللہ معاف کرے۔ آپ نے رجب میں کبھی عمرہ نہیں کیا ۔ اور جب بھی عمرہ کیا یہ تو ہر واقعہ آنحضرت کے ساتھ تھے ۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ابن عمر یہ گفتگو سن رہے تھے مگر انھوں نے نہ ام المومنین کی تصدیق کی نہ تردید ،بس چپکے ہورہے ۔(1)

عائشہ  اور ازواج نبی کا اختلاف

ام المومنین  عائشہ بیان کرتی ہیں کہ سہلہ بت سہیل  ابو حذیفہ کی جو رو جو بنی عامر کی اولاد میں سے تھی  رسول اللہ کے پاس آئی اور بو لی : یارسول اللہ !

---------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 5 بات عمرۃ القضا۔صحیح مسلم جلد 2 کتاب الحج ۔

۱۸۱

ہم ابو حذیفہ کے غلام !سالم کو اپنا بچہ سمجھتے تھے او ر یہ کہ جب میں بے لباس ہوتی تھی وہ گھر میں اندر چلاآتا تھا ۔اب کیا کرناچاہیے کیونکہ ہمارے پاس صرف ایک ہی گھر  ہے ۔یہ سن کر رسو ل اللہ ص نے فرمایا : اسے دودھ پلادو ۔ سہلہ نے کہا: میں اسے کیونکر دودھ پلاسکتی ہوں ، اب تووہ جوان ہوگیا ہے اور اس کے داڑھی مونچھ ہے ۔ اس پر رسول اللہ ص مسکرائے اور بولے : اسے دودھ پلاؤ ، اس میں تمھارا کیا جائے گا ، اگر کچھ جائے گا تو ابو حذیفہ کا جائے گا ۔

ام المومنین عائشہ اس حدیث پر عمل کیا کرتی تھیں اورجس آدمی کو چاہتیں کہ ان کے پاس آیا جایا کرے تو اپنی بہن ام کلثوم کو حکم کرتیں اور اپنی بھتیجوں کو بھی کہ اس آدمی کو اپنا دودھ پلادیں لیکن دوسری امہات المومنین  اس کا انکار کرتی تھیں کہ بڑھ پن میں رضاعت کے سبب کوئی ان کا محرم بن کر ان کے پاس آجاسکتا ہے ۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ص نے یہ رخصت خاص سہلہ بنت سہیل کودی بخدا !ایسی رضاعت  کے سبب کوئی ہمارا محرم نہیں بن سکتا(1)۔

تحقیق کرنے والا جب ایسی روایات دیکھتا ہے تو اسے یقین نہیں آتا ،لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ایسی روایات جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت پر حرف آتا ہے حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ۔ یہ روایات رسول اللہ ص کو ۔ جو خصائل حسنہ کے پیکر تھے اور مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئے تھے ۔ ایک ایسے شخض کو روپ میں پیش کرتی ہیں جو اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیرتا ہے اور دین اسلام  میں ایسی مضحکہ خیز باتیں داخل کرتا ہے کہ فرزانے تو کیا دیوانے بھی بس ساختہ ہنس پڑیں ۔(غلامی رسول ص میں ،موت بھی قبول  ہے کا نعرہ بلند کرنےوالے )مسلمان کیا ایسی کوئی حدیث قبول کرسکتے ہیں جو خداکے عظیم الشان رسول ص کا اسخفاف کرتی ہو ،عقل کی کسوٹی اور اخلاق  کے معیار پر پوری نہ اترتی ہو ، ایمانی غیرت کے منافی ہو اور شرم وحیا کا جنازہ نکال دے۔

کیا کوئی غیرت مند مسلمان اپنی بیوی کو اس بات کی اجازت دےسکتا ہے

----------------------

(1):- صحیح مسلم کتاب الرضاع جلد 4 صفحہ 116 ۔ موطاء امام مالک کتاب الرضاع جلد 2 صفحہ 116

۱۸۲

کہ وہ کسی جوان آدمی کو دودھ پلائے تاکہ وہ اس کی ماں بن جائے ؟؟

اے اللہ کے رسول ص! آپ کی ذات والا صفات ایسی بیہودہ باتوں سے بہت بلند ہے اور یہ آپ پر بہتان عظیم ہے ۔ میں کیسے باورکرلوں کہ وہ رسول ص ، جس نے مرد کے لیے نامحرم عورت کو چھونا اور اس سے ہاتھ ملانا حرام قراردیا ہے ، وہ بڑھ پن میں عورت کا دودھ پینا جائز قراردے سکتاہے ۔(العیاذ باللہ)

میں اس حدیث سازی کا مقصد تو نہیں جانتا یہ جانتا ہوں کہ بات اس حدیث کی حدود سے نکل  کرآگے بڑھ گئی اور سنت جاریہ بن گئی ۔ کیونکہ ام المومنین عائشہ اس حدیث پر عمل کرتی تھیں ۔ وہ جس شخص کو چاہتیں کہ ان کے پاس آیا جایا کرے اسے رضاعت کے لیے اپنی بہن ام کلثوم کے پاس بھیجاکرتی تھیں۔

ذوق آگہی رکھنے والوں کی معلومات کےلیے بتاتا چلوں کہ لوگوں کا ام المومنین عائشہ کا محرم بن کر ان کے پاس آنا جانا صرف اسی صورت میں جائز ہوسکتا تھا جب ان کی رضاعت پانچ دفعہ ہوئی ہو کیونکہ ام المومنین ہی کی روایت ہے کہ اللہ نے دس دفعہ رضاعت والی آیت اتاری تھی ، پھریہ پانچ دفعہ رضاعت والی آیت سے منسوخ ہوگئی ۔پس یہ آیت برابر پڑھی جاتی تھی ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ص کے انتقال کے بعد بھی قرآن میں تھی۔(1) (لیکن اب قرآن میں موجود نہیں ہے(2)۔

--------------------

(1):- صحیح مسلم جلد 4 صفحہ 167 باب التحریم بخمس رضعات۔

(2):- یہ قرآن جو ہمارے ہاتھوں میں ہے  وہی ہے جو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور اس میں کوئی تحریف  نہیں ہوئی ہے ۔ تیسری صدی کے  شیخ صدوق علیہ الرحمۃ سے لے کر پندرھویں صدی کے آیت اللہ خوئی دام ظلہ العالی تک شیعہ علماء کبھی تحریف قرآن کے قائل نہیں رہے، ان کی کتابیں  اور ان کے فتوے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔لیکن خدا معلوم کیوں کچھ لوگ مقطوع السند اخبار آحاد کے سہارے شیعہ دشمنی کی بھڑاس نکالتے ہیں اور شیعوں پریہ سنگین تہمت لگاتے ہیں کہ ان کا قرآن چالیس پاروں کا ہے وغیرہ وغیرہ ۔اگر کچھ مرسل ،ضعیف یا مقطوع السند  روایتیں شیعہ کتب میں ہین تو اس سے کہیں زیادہ روایات سنی کتب ،احادیث میں بھی ہیں لیکن  یہ کسی طرح بھی قائل اعتبار نہیں مثلا

۱۸۳

<>ام المومنین بی بی عائشہ  آیہ رضاعتعشر رضعات معلومات (شیر خواری کو دس مرتبہ دودھ پلانا معین ہے) کو جزو قرآن بتاتی ہیں اور یہ صحیح مسلم ، سنن ابی داؤد ،سنن نسائی ، سنن دارمی  اور موطاء مالک میں لکھی ہے ۔

<>عمر بن خطاب آیہ رجم(الشيخ والشيخة فارجموهما البتة ) جو  جز و قرآن بتاتے ہیں اور یہ آیت صحیح بخاری ، صحیح مسلم ،جامع ترمذی ،سنن ابی داؤد  ،سنن ابن ماجہ اور موطاء میں لکھی ہے ۔

<>عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ آیت : لاترغبوا عن آبائکم فانّہ کفر بکم"لاترغبواعن آبائكم فإنّه كفرٌ بكم إن ترغبواعن آبائكم" قرآن کا جزو تھی اور ہم اسے پڑھا کرتے تھے ۔یہ آیت صحیح بخاری  ومسند احمد بن  حنبل میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

<>سنن ابن ماجہ میں ہے کہ ام المومنین نےکہا:

 زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کی آیت (آیہ رجم )نازل ہوئی تھی ۔نیز یہ کہ بڑھ  پن میں دس دفعہ دودھ پلانے کی آیت(ورضاعة الکبير عشرا") نازل ہوئی تھی اور ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے رکھی تھی ،جب رسول اللہ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ہم افراتفری کے عالم میں تھے  توبکری اسے کھاگئی ۔

<>اور صحیح مسلم میں ترقیم ہے کہ ابو موسی اشعری نے بصرے میں تین سو قاریان قرآن کو خطاب کرتے ہوئے کہا :

ہم  ایک سورہ پڑھا کرتے تھے جو طویل تھا اور  اورجس کا مضمون سورہ توبہ کی طرح سخت تھا ۔بعد میں ہم وہ سورہ بھول گئے  البتہ  اس کی یہ آیت میرے حافظہ میں باقی ہیں :"لوكان لإبن آدم وأديان من مّالٍ لايبتغى وادياً ثالثاً ولا يملاٌ إبن آدم إلّا التراب"

<>اسی طرح ہم ایک سورہ بھی پڑھا کرتے تھے جو "مسبحات " میں سے ایک مشابہ تھا ۔ ہم ہو سورہ بھول گئے  اور مجھے  اس کی فقط  یہ آیت یاد رہ گئی ہے ۔"يايّها الذين آمنوالم تقولون ما لاتفعلون فكتب شهادة في أعناقكم فتسئلون عنهايوم القيامة."

۱۸۴

2:- سنت رسول ص کے بارے میں فقہی مذاہب کا اختلاف

سنت رسول ص کے بارے میں ابوبکر اور عمر میں اختلاف تھا(1) ۔ابو برک کا فاطمہ سے اختلاف تھا ۔(2) ازواج رسول  ص کا آپس میں اختلاف تھا ۔(3) ۔ ابو ہریرہ کاعائشہ سے اختلاف تھا ۔(4) عبداللہ بن عمر اور عائشہ کے مابین اختلاف تھا ۔(5)

-----------------------

حدیث کی معتبر کتابوں سے یہ چند نمونے ہم نے ان لوگوں کو آئینہ دکھانے کے لیے پیش کیے ہیں جو کہتے  پھرتے ہیں کہ شیعوں کا موجودہ قرآن پر ایمان نہیں ۔ حالانکہ قرآن یہی ہے جو دفتین کے بیچ ہے ، نہ کم  نہ زیادہ ۔ اور سب مسلمانوں  کا سی پر ایمان  ہے ۔جو ہم پر بہتان باندھتا ہے ،ہم اس کا اور اپنا معاملہ  اللہ کی عدالت میں پیش کرتے ہیں کہ وہ احکم الحاکمین ہے ۔

ہم تو بس اتنی سی بات جانتے ہیں کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے ، کیونکہ یہ آخری آسمانی شریعت اور خدا نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے :

"انا نحن نزلنا الذکر وانا لة لحافظون "( ناشر)

(1):- مانعین زکواۃ سے جنگ کے بارےمیں اختلاف کی طرف اشارہ ہے ۔ ہم نے اس قصہ کے ماخذ بیان کردیے ہیں ۔

(2):- قصہ فدک اور حدیثنحن معشر الانبياء لانورث کی طرف اشارہ ہے ۔ اس کے ماخذ کا بیان بھی گزرچکا

(3):-بالغ مرد کو دودھ پلانے کے قصے کی طرف اشارہ ہے کہ جو عائشہ سے مروی ہے ۔لیکن دیگر ازواج رسول ص نے اس کے برخلاف کہا ہے۔

(4):- ابو ہریرہ کی اس روایت کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ ص صبح کو جنب ہوتے تھے اور روزہ رکھ لیتے تھے ۔ عائشہ نے ابو ہریرہ کی  اس بات غلط بتلایا ہے ۔

(5):- اشارہ ہے اس روایت کی طرف کہ رسول اللہ ص نے چار عمرے کیے جن میں سے ایک رجب میں تھا عائشہ نے اس کی تردید کی ہے۔

۱۸۵

عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن زبیر کے درمیان اختلاف تھا ۔(1) علی بن ابی طالب ع اور عثمان بن عفان کے درمیان اختلاف تھا(2) ۔ جب  صحابہ کے درمیان ہی اتنا اختلاف تھا(3) تو تابعین  کے درمیان  تو اور بھی بڑھ گیا حتی کہ فقہی مذاہب ستر سے بھی زیادہ ہوگئے ۔ابن مسعود صاحب مذہب تھے ، اسی طرح ابن عمر ، ابن عباس  ، ابن زبیر ، ابن عینیہ ، ابن جریج ، حسن بصری ، سفیان ثوری ،مالک بن انس ،ابو حنیفہ ، شافعی ،احمد بن حنبل سب کے سب صاحب مذہب تھے ۔ ان کے علاوہ اور بہت ہیں ۔ لیکن سلطنت عباسیہ نے اہل سنت کے چار مشہور مذاہب کو چھوڑ کر باقی سب کاخاتمہ کردیا ۔

اگر چہ اب فقہی مذاہب چند ہی رہ گئے ہیں ، پھر بھی ان کے درمیان اکثر فقہی مسائل میں اختلاف ہے ۔ اور اس کی وجہ وہی سنت رسول ص کے بارے میں اختلاف ہے ۔ایک مذہب کسی مسئلے میں حکم کی بنیاد کسی حدیث پررکھتا ہے جسے وہ اپنے زعم میں صحیح سمجھتا ہے ، تو دوسرا مذھب اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہے یا کسی دوسرے مسئلے پر نص اور حدیث کی عدم موجودگی کی وجہ سے قیاس کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے ، مثلا رضاعت کے مسئلے میں بہت اختلاف ہے ،کیونکہ اس بارےمیں احادیث باہم متضاد ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ایک مذہب کے مطابق ایک قطرہ دودھ پینے  سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ جبکہ دوسرے مذہب  کی رو سے دس یا پندرہ دفعہ دودھ پلانا ضروری ہے ۔

3:- سنت رسول ص کے بارے میں شیعہ سنی اختلافات

اس معاملے میں شیعہ سنی اختلاف عموما دووجہ سے ہوتا ہے  ایک تویہ کہ

---------------------

(1):-اشارہ ہے ان کے درمیان متعہ کے حلال یا حرام ہونے کے بارےمیں اختلاف کی طرف ۔ دیکھیے صحیح بخاری جلد 6 صفحہ 129۔

(2):- اشارہ ہے ان کے درمیان متعہ حج کے بارےمیں اختلاف کی طرف ۔دیکھیے صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 153

(3):- بسم اللہ کےبارے میں ، وضو کے بارےمیں ،مسافر کی نماز کے بارے میں اور ایسے ہی ان گنت دوسرے مسائل

۱۸۶

شیعہ اس حدیث  کو صحیح نہیں مانتے جس کے راوی کی عدالت پائیہ اعتبار سے ساقط ہو خواہ وہ صحابی ہیں کیوں نہ ہو ۔

اہل سنت کے برخلاف  شیعہ اس بات کے قائل نہیں کہ تمام صحابہ ثقہ اور عادل تھے ۔

اس کے علاوہ شیعہ کسی ایسی حدیث کو بھی قبول نہیں کرسکتے جو ائمہ اہل بیت ع کی روایت سےمتصادم ہو ۔ وہ ائمہ اہل بیت ع کی روایت کو دوسروں کی روایت پر ترجیح دیتے ہیں خواہ دوسروں کا مرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو ۔ اس سلسلے میں ان کے پاس ایسے دلائل ہیں جن کی قرآن وسنت سے تائید ہوتی ہے اور جن کو ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ ان میں بعض چیزوں کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں ۔ شیعہ سنی اختلاف  کا ایک اور سبب یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک  حدیث کا مفہوم کچھ ہے اور شیعہ اس کے کچھ اور معنی بیان کرتے ہیں ۔ مثلا وہ حدیث جس کا ہم پہلے تذکرہ کرچکے ہیں یعنی :

اختلاف امّتی رحمۃ

اہل سنت تو اس حدیث کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ فقہی مسائل میں مذاہب اربعہ کا اختلاف مسلمانوں کے لیے رحمت ہے ۔

جبکہ  شیعوں کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پاس سفر کرکے جانا اور ایک دوسرے سے علم حاصل کرنا رحمت ہے ۔یہ تشریح امام جعفر صادق کی ہے اور ہم اسے پہلے بیان کرچکے ہیں ۔

بعض دفعہ شیعہ سنی اختلاف حدیث رسول ص کے مفہوم میں نہیں ہوتا بلکہ اس بارےمیں ہوتا ہے کہ جس شخص یا اشخاص کا حدیث میں ذکر ہے اس سے کون مراد ہے ۔مثلا قول رسول ص ہے کہ

"عليكم بسنّتي وسنّة الخلفاء الرّاشدين من بعدي"

اہل سنت خلفائے راشدین سے  ابو بکر ، عمر ،عثمان اور علی مراد لیتے ہیں مگر شیعہ بارہ ائمہ مراد لیتے ہیں ۔

اسی طرح رسو ل اللہ کا ایک اور قول ہے :

"الخلفاءمن بعدي اثنى عشركلّّهم من قريشٍ."

۱۸۷

"میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب قریش سے ہوں گے "۔

شیعہ بارہ خلفاء سے بارہ ائمہ اہل بیت ع مراد لیتے ہیں جبکہ اہل سنت والجماعت کے یہاں  اس کی کوئی تشریح ہے ہی نہیں ۔

کبھی شیعہ سنی اختلاف ان تاریخی واقعات کے بارے میں ہوتا جن کا تعلق رسول اللہ کی ذات سے ہے ۔ جیسا کہ آپ کے یوم بارے میں اختلاف ہے ۔ اہل سنت 12 ربیع الاول کو میلاد النبی مناتے ہیں جبکہ شیعہ اس مہینے کی 17 تاریخ کو محافل میلاد منعقد کرتے ہیں ۔

سنت نبوی کے بارے میں ایسا اختلاف  ہونا قدرتی ہے ۔ اس سے بچنا ممکن نہیں ۔ کیونکہ کوئی ایسا مرجع موجود نہیں جس کی طرف سب رجوع کرسکیں اور جس کے حکم کو سب مانیں اور جس کی رائے کو سب قبول کریں اور جس پر سب کو اسی طرح اعتمادہو جیسے رسول اللہ ص کی زندگی میں آپ پر تھا ۔

امت کی زندگی میں ایسے شخص کا وجود ہر وقت ضروری ہے اور عقل بھی یہی کہتی ہے ، اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ رسول اللہ ص اس ضرورت کو نظر انداز کردیتے ۔ آپ کو معلوم تھا اور علام الغیوب نے آپ کو اطلاع دے دی تھی کہ آپ کی امت آپ کے بعد قرآن کی  تاویل کرےگی ۔ اس لیے آپ کے لیے ضروری تھا کہ آپ کوئی معلم مقرر کریں کہ اگر امت کے لیے واقعی ایک ایسے عظیم قائد کا انتظام کردیا تھا جس کی تعلیم وتربیت میں آپ نے ابتدا ہی سے پوری کوشش صرف کی تھی اور جب وہ درجہ کمال کو پہنچ گیا اور آپ سے اس نسبت وہ ہوگئی جو حضرت ہارون ع کی جناب موسی ع سے تھی ۔تو آپ نے یہ جلیل القدر کام یہ کہہ کر اس کے سپر دکردیا کہ

"أناأُقاتلهم على تنزيل القرآن وأنت تقاتلهم على تاويله".(1)

--------------------

(1):-مناقب خوارزمی صفحہ 44۔ ینابیع المودۃ صفحہ 332۔الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 1 صفحہ 25 ۔کفایت الطالب صفحہ 334 ۔ منتخب کنزالعمال جلد 5 صفحہ 36 ۔ احقاق الحق جلد 6 صفحہ 37

۱۸۸

"اے علی ع! میں تنزیل قرآن کی خاطر جنگ لڑتا ہوں ، اب تم تاویل قرآن کے لیے لڑو۔"

آپ نے یہ بھی فرمایا :

"أنت يا عليّ ! تبيّن لأُمّتي ما اختلفوافيه من بعدي"

علی !جس بات میں میری امت میں میرے بعد اختلاف ہو تم اس بات کو واضح کردینا ۔(1)

قرآن جو اللہ کی کتاب ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اس کی تفسیر  اور توضیح کے لیے لڑے یعینی جانفشانی کرے کیونکہ یہ ایک خاموش کتاب ہے جو خود نہیں بولتی  مگر ساتھ ہی متعدد معانی کی حامل ہے ۔ اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ۔جب قرآن  کی ہ صورت ہے تو سنّت  کی تشریح وتوضیح تو اور بھی ضروری  ہے اور جب قرآن وسنت دونوں تشریح طلب ہوں تو رسول اللہ ص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دونوں ثقلین  ایسے چھوڑیں  جو خاموش اور گونگے ہوں اور جن کی حسب منشاء تاویل وہ لوگ کرسکیں  جسن کے دل میں کجی  ہے اور جو فتنہ برپا کرنا اور دنیا کمانا چاہتے  ہیں اور جن کے متعلق معلوم ہے کہ بعدمیں آنے والوں کے لیے گمراہی کا سبب بنیں گے کیونکہ لوگ ان کے ساتھ حسن ظن رکھیں گے ۔ انھیں عادل سمجھیں گے لیکن بعد میں قیامت کے دن پشیمان ہوں گے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا () وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا () رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْناً كَبِيراً"

جس دن  ان کے چہرے آگ میں الٹائے جائیں گے تو وہ کہیں گے اے کاش !ہم اللہ اور رسول ص کی اطاعت کرتے ۔ اورکہیں گے

-------------------

(1):-مستدرک حاکم جلد 4 صفحہ 122 ۔تاریخ دمشق جلد 2 صفحہ 488 ۔ مناقب خوارزمی صفحہ 236۔ کنوز الحقائق صفحہ 203 ۔ منتخب کنزالعمال جلد 5 صفحہ 33۔ ینابیع المودۃ صفحہ 182

۱۸۹

کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انھوں نے ہمیں گمراہ کردیا ۔ اے پروردگار ! ان کو دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر (سورہ احزاب ۔آیات 66 تا 68)

"كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا حَتَّى إِذَا ادَّارَكُواْ فِيهَا جَمِيعاً قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لأُولاَهُمْ رَبَّنَا هَـؤُلاء أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَاباً ضِعْفاً مِّنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـكِن لاَّ تَعْلَمُونَ"

جب ایک کے بعد ایک جماعت (جہنم میں)داخل ہوگی تو  وہ اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت کرے گی یہاں تک کہ جب ساری جماعتیں جمع ہوجائیں گی تو پچھلی جماعت پہلی کی نسبت کہے گی اے ہمارے پروردگار  یہ تھے  وہ جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا ۔ پس تو ان کو آگ کا دوہرا عذاب دے ۔ اللہ کہے گا تم میں  سےہر جماعت  کے لیے دوہرا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے ۔(سورہ اعراف ۔آیت 38)

گمراہی کا سبب یہی ہے ۔کوئی امت ایسی نہیں گزری جس کے پاس  اللہ نے نبی ہادی نہ بھیجا ہو ۔ اور اس کی امت نے اس کے بعد اللہ کے کلام میں تحریف  نہ کی ہو ۔ کیا کوئی شخص بشرط صحت اوربقائمی ہوش وحواس یہ تصور کرسکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام  نے اپنے پیروکاروں سے کہا ہوگا کہ میں خدا ہوں ، ہرگز نہیں ! قرآن شریف میں ہے :

"مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ"

 خدایا ! میں نے ان سے وہی کہاجس کا تو نے مجھے حکم دیا ۔

لکان لالچ  اورحب دنیا نے عیسائیوں  کو تثلیث کےعقیدے کی طرف دھکیل دیا ۔ حضرت عیسی نے اپنے پیروکاروں کو حضرت محمد ص کی آمد کی بشارت دی تھی ۔

۱۹۰

اسی طرح ان سے پہلے حضرت موسی ع نے بھی یہ بشارت دی تھی لیکن عیسائیوں نے محمد اور احمد ناموں کی تاویل کرکے ان کا مطلب نجات دہندہ بنالیا اورآج تک وہ اس نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں ۔

امت محمدیہ بھی تاویل کی بدولت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگئی جس میں سوائے ایک کے سب جہنمی ہیں ۔ اب ہم انھی فرقوں کے درمیان زندگی بسر کررہے ہیں ۔لیکن کیا کوئی ایک فرقہ بھی ایسا ہے جو خود کو گمراہ سمجھتا ہو؟ بالفاظ دیگر کیا کوئی ایک فرقہ ایسا ہے جو یہ کہتاہو کہ ہم کتاب وسنت کی مخالفت کرتے ہیں ؟ اس کے برعکس ہر فرقے کا یہی دعوی ہے کہ ہم کتاب وسنت پر قائم ہیں ۔ آخر پھر حل کیا ہے ؟

کیا رسول اللہ ص کو اس کا حل معلوم نہیں تھا یا خود اللہ تعالی کو حل معلوم نہیں تھا ۔ کیونکہ رسول اللہ ص تو عبد مامور تھے یعنی وہ تو وہی کرتے تھے جو انھیں حکم ملتا تھا ۔ جیسا کہ قرآن مین ہے ۔ :

" فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ () لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ " (1)

اللہ تعالی اپنے بندوں پر مہربان ہے اور وہ ان کی بھلائی چاہتا ہے ، اس لیے یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ہو اس مشکل کا کوئی  حل تجویز نہ کرے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ بھی دلائل کو دیکھنے کے بعد ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ بھی دلائل  کو دیکھنے کے بعد زندہ رہے ۔ اللہ تعالی کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بندوں کو نظر انداز کردے اور انھیں بغیر ہدایت کے چھوڑ دے ۔سوائے اس صورت کے کہ ہمارا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ تعالی کامنشاہی یہ ہے کہ اس کے بندے افتراق وانتشار اور گمراہی میں مبتلا ہوں تاکہ وہ انھیں آتش دوزخ میں جھونک  دے ۔ یہ اعتقاد بالکل غلط اور باطل ہے  میں اللہ سے عفو کا طلب گار ہوں اور توبہ کرتاہوں اس قول سے جو اللہ کی جلالت اور حمکت کے منافی ہے ۔

-----------------------

(1):-آپ انھیں نصیحت کرتے رہیں کہ آپ نصیحت کرنے والے ہیں ۔ آپ ان  پر داروغہ نہیں ہیں ۔سورہ غاشیہ

۱۹۱

اس لیے رسول اللہ ص سے منسوب یہ قول کہ آپ نے اپنے بعد کتاب اور سنت چھوڑی ہے ، ہماری مشکل کا کوئی معقول حل نہیں ہے ، بلکہ اس سے پیچیدگی مزیدبڑھتی ہے اور فتنہ وفساد پھیلانے والوں کی جڑ نہیں کٹتی ۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ جب لوگوں نے اپنے امام کے خلاف بغاوت کی تو انھوں نے یہی نعرہ لگایا  یا تھا کہ :

"ليس الحكم لك يا علي ُّ وإنّما الحكم للّه".

علی ! تمھارا نہیں اللہ کا حکم چلے گا ۔

بہ ظاہر یہ نعرہ بڑا دلکش معلوم ہوتا ہے  کہ نعرہ لگانے والا اللہ کے حکم کا نفاذ چاہتا ہے اور غیراللہ کا حکم ماننے سے انکاری ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ "

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی گفتگو  دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے مافی الضمیر  پر اللہ کو گواہ بناتے  ہیں حالانکہ وہ سخت جھگڑا لو ہیں "۔(سورہ بقرہ ۔آیت 204)

جی ہاں ! ایسا اکثر ہوا ہے کہ صحیح بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیاگیا ہے ۔آئیے اس کو سمجھ لیں کہ کیسے ؟:

جب خوارج امام علی ع سے یہ کہتے تھے کہ حکم آپ کا نہیں اللہ کا چلے گا ،  تو کیا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ زمین پراتر کر آئے گا اور سب کے سامنے ظاہر ہو کر ان کے اختلافی مسائل  کا تصفیہ کے گا ۔ یا وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ کا حکم تو قرآن میں ہےلیکن یہ سمجھتے تھے کہ علی ع نے قرآن کی غلط تاویل کی ہے ۔ اگر ایسا تھا تو ان کے پاس

۱۹۲

اس کی کیا دلیل تھی  ، جب کہ علی ع ان سے زیادہ عالم تھے ، ان سے زیادہ  راستباز تھے اور ان سے پہلے اسلام لائے تھے ۔ کیا علی ع سے بڑھ کربھی کوئی اسلام کا ہمددرد اور وفادار ہوسکتا تھا ؟

معلوم ہوا کہ یہ محض دل فریب نعرہ تھا جس کا مقصد سیدھے سادھے لوگوں کو بے وقوف  بنا کر ان کی تائید اور جنگ میں ان کی معاونت حاصل کرنا تھا ۔ آج بھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔وہی زمانہ وہی لوگ ۔ مکر وفریب کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھتے جاتے ہیں ۔ کیونکہ آج کے مکار اور عیار ۔لوگ اگلوں  کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں ہمارے زمانے میں بھی کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ صحیح بات کو غلط مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔

آج بھی چمکتے دمکتے ہوئے دل فریب نعرے لگائے جاتے ہیں ۔ مثلا " وہابی ، توحید  کی حمایت اور شرک کی مخالفت کا نعرہ بلند کرتے ہیں ۔ اب کون مسلمان ہے جو اس اصول سے اتفاق  نہیں کریگا ۔ ایک فرقے نے تو اپنا نام ہی اہل سنت والجماعت رکھ چھوڑا ہے ۔کون مسلمان نہیں چاہے گا کہ وہ اس جماعت کے ساتھ ہو جو سنت رسول  کا اتباع کرتی ہو ۔

بعث پارٹی کا نعرہ ہے :

"أُمّةٌ عربيّةٌ وّاحدةٌ ذات رسالةٍ خالدةٍ"

غیر فانی پیغام کی حامل ایک متحد عرب قوم  کو ن مسلمان اس نعرے سے دھوکا نہیں کھاجائےگا اگر اسے اس پارٹی اور اس کے عیسائی بانی مائیکل عفلق کے خفیہ عزائم  کا علم نہیں ۔آفرین ہے آپ کو اے علی بن  ابی طالب ع ! آپ کے حکیمانہ اقوال آج بھی قائم ودائم ہیں اور ہمیشہ زمانے کے کانوں میں گونجتے رہیں گے !

" فکم من کلمةٍ حق يراد بها باطل "

کتنی ہی بار ایسا ہوتا ہے کہ صحیح بات کا غلط مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔

ایک عالم نے منبر پر چڑھ کر بہ آواز بلند فرمایا :

۱۹۳

جو کہے گا میں شیعہ ہوں ، ہم اس سے کہیں گے کہ تو کافر ہے اور جو کوئی کہے گا میں سنی ہوں ، ہم اس سے بھی کہیں گے تو کافر ہے ۔ہمیں شیعہ چاہییں نہ سنی ۔ہمیں فقط مسلمان چاہیئیں۔

یہاں بھی صحیح بات کا غلط مطلب لیا گیا ہے ۔ معلوم نہیں یہ عالم  کس اسلام کی بات کررہا تھا ؟

آج دنیا میں متعدد اسلام ہیں بلکہ قرن اول ہی میں متعدد اسلام تھے ۔ علی ع کا بھی اسلام تھا اور معاویہ کا بھی اسلام تھا اور دونوں کے پیروکار بھی تھے ، آخر لڑائی تک کی نوبت پہنچی ۔

پھر حسین  ع کا بھی  اسلام تھا اور یزید کا بھی اسلام تھا جس نے اہلبیت  کو اسلام ہی کے نام پر تہہ تیغ کیا ۔ اس سے دعوی کیا تھا کہ چونکہ حسین ع نے اس کے خلاف خروج  کیا ہے اس لیے وہ اسلام  سےخارج ہوگئے ہیں ۔ پھر ائمہ اہل بیت اور اس کے حامیوں کا اسلام تھا اور حکمرانوں اور ان کے عوام کا اسلام تھا ۔ تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں  میں اس طرح کا اختلاف رہا ہے ۔ آج بھی ایک طرف تو ان لوگوں کا اسلام ہے جنھیں مغرب اعتدال پسند اور روشن خیال کہتا ہے کیونکہ اسلام کے پیروکار وں نے یہود ونصاری کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہوا ہے اور یہ لوگ سپر پاورز کے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ دوسرا اسلام   ان کے کٹر مسلمانوں کا ہے جنھیں مغرب بنیاد پرست ، متعصب ، دقیانوسی اور مذہبی دیوانے کہتا ہے ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس  عالم اور خطیب نے بعد میں اپنے خیالات سے رجوع کرلیا تھا ۔

ان اسباب کے پیش نظر جو ہم نے گزشتہ اوراق میں بیان کیے ۔ اس کی گنجائش  باقی نہیں رہتی کہ کتاب اللہ وسنتی  والی حدیث کو صحیح تسلیم کیا جاسکے ۔

اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ دوسری  حدیث  کتاب اللہ وعترتی ہی صحیح ہے جس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔ اس حدیث سے تمام مشکلات حل  ہوجاتی ہیں ۔ کیونکہ اگر ہم اہل بیت ع کی طرف رجوع کریں جن کی

۱۹۴

رجوع کر نے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔ تو پھر کسی آیت کی تفسیر میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا ۔ خصوصا اگر یہ ذہن میں رکھیں  کہ یہ ائمہ جن کو خود رسول اللہ ص نے مقرر کیا وہیک اس کام کے اہل ہیں اور مسلمانوں میں کوئی ان کے علم کی وسعت  میں اور ان کے زہد وتقوی میں شک نہیں کرتا ۔ وہ تمام فضائل  میں دوسروں  سے بڑھ کر ہیں ۔ لہذا وہ قرآن کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور نہ اس کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں ۔ بلکہ تا قیامت اس سے جدا نہیں ہوں گے  ۔رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔

"میں تمھارے درمیان دوچیزیں چھوڑرہا ہوں :ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جو مثل رسی کے آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے اور دوسری میری عترت ہے یعنی میرے اہل بیت ع یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک  کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیںگے۔

چونکہ میں سچوں  کےساتھ شامل ہوناچاہتا ہوں اس لیے ضروری ہے کہ میں فقط حق بات کہوں گا اورکسی کی ملامت یا اعتراض کی پرواہ نہ کروں ۔ میرا مقصد لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے  اللہ سبحانہ  کی رضا کا حصول اور خود انپے ضمیر کا اطمینان  ہو کیونکہ غیروں کا تو یہ حال ہے کہ

"وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ"

تم سے ہر گز خوش نہیں ہوں گے نہ یہود اور نہ نصاری ،جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہ کرنے لگو ۔

اس کی تمام بحث میں شیعہ ہی حق پر ہیں ۔ کیونکہ اہل بیت ع کے معاملے میں انھوں نے رسول اللہ کی وصیت پر عمل کیا  ہے اہل بیت ع کی امامت کو تسلیم کیا ہے اور اہل بیت ع کی اطاعت اور ان کی متابعت کے ذریعے  اللہ کا قرب  حاصل کرنے  کی کوشش کی ہے ۔ پس شیعوں کو دنیا اور آخرت کی یہ کامیابی مبارک ہو ۔حدیث میں

۱۹۵

ہے کہ " آدمی حشر ان کےساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہے ۔" پھر کیا کہنے اس شخص کے جو اہل بیت سے محبت بھی رکھتا ہو اور ان کا اتباع بھی کرتا ہو ۔ زمخشری نے اس بارے مین کہا :

"كثرالشّكُّ والإختلاف و كلّ

يدّعى أنّه الصّراطُ السّويّ

فتسّكتُ بلآ إله إلّا الله

وحبّي لأحمد وعلى

فازكلبٌ بحبّ أصحاب كهف

فكيف أشقى بحبّ آل النّبي

شک اور اختلاف بہت بڑھ گیا ہے اور ہر شخص کا دعوی ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہے ۔ ایسے میں دو چیزوں  کو مضبوطی سے تھا م لیا ہے : ایک ریسمان لا الہ الّا اللہ کو اور دوسرے احمد ص وعلی ع کی محبت کو ۔ اصحاب کہف سے محبت کے سبب اگر ایک کتا کامیاب ہوسکتا ہے تو پھریہ کیسے ممکن ہے کہ آل محمد سے محبت کے باوجود مجھے درمقصد نہ ملے ۔

سعدی گر عاشقی کنی وجوانی

عشق محمد ص بس است وآل محمد

اے اللہ ! تو ہمیں ان لوگوں میں سے بنادے جنھوں نے ولائے اہل بیت ع کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے ۔ جو ان کے راستے پر گامزن ہیں ، ان کی کشتی پر سوار ہیں ۔ ان کی امامت کے قائل ہیں اور جو ان کی جماعت میں محشور ہوں گے بے شک تو جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلنے  کی توفیق دے دیتا ہے ۔

"صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه"

۱۹۶

خمس

یہ بھی ان مسائل میں سے ہے جن پر شیعوں اورسنیوں میں اختلاف ہے اس سے قبل کہ ہم کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کریں ، خمس کے موضوع پرمختصر بحث ضروری ہے ،جس کی ابتدا ہم قرآن کریم سے کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔:

"وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ "

اور یہ جان لو کہ جو مال تمھیں حاصل  ہو اس کا پانچواں  حصہ اللہ اور رسول  ص کے لیے ، رسول ص کے قرابتداروں کے لیے اور یتیموں  ناداروں اورمسافروں کے لیے ہے ۔(سورہ انفال ۔ آیت 41)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

" أمركم بأربعٍ :الأيمان بالله وإقام الصّلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان وأن تؤدّوا الله خمس ما غنمتم ."

اللہ تعالی نے تمھیں چار چیزوں کا حکم دیا ہے : ایمان با اللہ کا ، نماز قائم کرنے کا ،زکات دینے کا اور اس کا کہ تم جو کچھ  کماؤ اس کا پانچواں حصہ اللہ کو ادا کرو۔(1)

چناںچہ شیعہ تو ائمہ اہل بیت ع کی پیروی کرتے ہوئے جو مال انھیں سال بھر میں حاصل ہوتا ہے اس کا خمس نکالتے ہیں ۔ اور غنیمت کی تشریح یہ کرتے ہیں

-----------------------

(1):- صحیح بخاری  جلد 4 صفحہ 44

۱۹۷

کہ اس سے مراد نفع ہے جو آدمی کو عام طور پر حاصل ہوتا ہے ۔

اس کے برخلاف اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ خمس(1) اس مال غنیمت سے مخصوص ہے جو کفار سے جنگ کے دوران میں حاصل ہو ۔ ان کے نزدیک "ماغنمتم من شیء " کے معنی ہیں کہ جو کچھ تمھیں جنگ کے دوران میں لوٹ کے مال سے حاصل ہو(جبکہ آیت میں دارالحرب کا خصوصیت سے ذکر نہیں اور من شیء کے الفاظ عمومیت کے حامل  ہیں )

-------------------------

(1):-خمس کے موضوع پر صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد  ،سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث  موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسالتمآب نے نماز اور زکواۃ کے ساتھ خمس کی ادائیگی  کو بھی واجب قراردیا تھا ۔

اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف صحیح مسلم سے ایک روایت کامتن درج کررہے ہیں ۔طالبان تفصیل  علامہ سید ابن حسن نجفی صاحب کی کتاب مسئلہ خمس ملاحظہ فرمائیں ۔

"ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالقیس کا ایک وفد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض  کی یا رسول اللہ ! ہم ربیعہ کے قبیلے سے ہیں اور ہمارے دور آپ کے درمیان مضر کا کافر قبیلہ حائل ہے اور حرمت والے مہینوں کے علاوہ  دوسرے زمانے میں ہم آپ تک نہیں پہنچ سکتے ! لہذا آپ ہمیں کوئی ایسی ہدایت  فرمائیں جس پر ہم خود بھی عمل  پیراہوں  اوراپنے دوسرے لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنے کی دعوت دیں ۔ آپ نے فرمایا : تم کو حکم دیتاہوں چار باتوں کے لیے اور منع کرتا ہوں چارباتون سے ۔پھر آپ نے تو ضیح کرتے ہوئے فرمایا کہ گواہی  دو اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے خداکے اور محمد ص اس  کے رسول  ہیں ۔ نیز نماز قائم کرو ، زکواۃ دو اور اپنی کمائی میں سے خمس اداکرو ۔(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 93 مطبوعہ لاہور) (ناشر)

۱۹۸

یہ خلاصہ ہے خمس کے بارے میں فریقین کے اقوال کا ۔ میں حیران ہوں کہ کیسے میں خود کو یاکسی اور کو اہل سنت کے قول کی صحت کیایقین دلاؤں  جب کہ میرا خیال ہے کہ اس بارے میں اہل سنت نے اموی حکمرانوں کے قول پر اعتماد کیا ہے خصوصا معاویہ بن ابی سفیان کی رائے پر ۔جب کہ معاویہ بن ابی سفیان نے مسلمانوں کے اموال  پر قبضہ کرکے  سب سونا چاندی  اپنے لیے  اور اپنے  مقربین  کے لیے مخصوص  کرلیا تھا اور اس کا نگران اپنے بیٹے یزید کوبنالیا تھا جو بندروں اور کتوں کو سونے کے کنگن پہنا تا تھا جب  کہ بعض مسلمان بھوکے مرتے تھے ۔

اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں  کہ اہل سنت خمس کو دارالحرب سے مخصوص کرتے ہیں کیونکہ یہ آیت ان آیات کے درمیان واقع ہوئی ہے جن کا تعلق جنگ سے ہے ۔ ایسی بہت سی آیات ہیں جن کی تفسیر اہل سنت اگر کوئی مصلحت  اس کی مقتضی  ہو تو ان سے پہلی یا بعد کی آیات کے معنی کی مناسبت سے کرتے ہیں ۔مثلا وہ کہتے ہیں کہ آیہ تطہیر ازواج رسول ص سے مخصوص ہے کیونکہ اس سے پہلے اور بعد کی آیات میں ازواج رسول ص ہی کا ذکر ہے ۔اسی طرح  اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ اہل کتاب سے  مخصوص ہے :

" وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"

جو لوگ سونا چاندی جوڑ کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری دیدیجیے ۔(سورہ توبہ ۔آیت 34)

اس سلسلے میں ابوذرغفاری رض  کے معاویہ اور عثمان سے اختلاف کا اور ابوذر کا ربذہ میں شہر بدر  کیے جانے کا قصہ مشہور ہے ۔ابو ذر جو سونا چاندی جمع کرنے پر اعتراض کرتے تھے ۔ وہ اسی آیت سے استدلال کرتے تھے ۔ لیکن عثمان نے کعب الاحبار سے مشورہ کیا تو کعب الاحبار نے کہا کہ یہ آیت اہل کتاب سے مخصوص ہے ۔ اس پر ابوذر غفاری رض غصّے  سے بولے : یہودی کے بچے ! تیری ماں تجھے روئے اب تو ہمیں ہمار دین سکھائے گا ؟اس پر عثمان ناراض ہوگئے اور ابوذر کو ربذہ

۱۹۹

میں شہر بدر کردیا ۔ وہ وہیں ! کیلے پڑے پڑے کس مپرسی کی حالت میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کی بیٹی کو کوئی ایسا شخص بھی دستیاب نہ ہوسکا جو ان کو غسل وکفن دے سکتا ۔

اہل سنت نے آیات قرآنی اوراحادیث نبوی کی تاویل کو ایک فن بنادیا ہے ۔ ان کی فقہ اس سلسلے میں مشہور ہے ۔ اس معاملے میں وہ ان خلفائے اولین اور مشاہیر صحابہ کا اتباع کرتے ہیں ۔ جو نصوص صریحہ کی تاویل کرتے ہیں (1)

اگر ہم ایسے تمام نصوص گنوانے لگیں تو ایک الگ کتاب کی ضرورت ہوگی  تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے کے لیے کافی ہے کہ وہ النص والاجتہاد نامی کتاب کا مطالعہ کرے تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ تاویل کرنے والوں نے کس طرح اللہ کے احکام کو کھیل بنادیا ۔

اگر میرا مقصد تحقیق ہے تو پھر مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی اپنی  خواہش کے مطابق یا جس مذہب  کی طرف میرا رجحان ہے اس کے تقاضوں کے مطابق تاویل کرنے لگوں ۔

لیکن اس کاکیا علاج کہ اہل سنت نے خود ہی اپنی صحاح میں وہ روایات بیان  کی ہیں جن کے مطابق دارالحرب سے باہر خمس کی فرضیت کا ثبوت ملتا ہے اور اس طرح اپنے مذہب اور اپنی تاویل کی خود ہی تغلیط  اور تردید کردی ہے ۔مگر معما پھر بھی حل نہیں ہوتا ۔

معما یہ ہے کہ آخر اہل سنت ایسی بات کیوں کہتے ہیں جس پر عمل نہیں کرتے ۔وہ اپنی حدیث کی کتابوں  میں وہی اقوال بیان کرتے ہیں جن کے شیعہ قائل ہیں ۔ لیکن ان کا عمل سراسر مختلف  ہے ۔آخر کیوں  ؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ۔ خمس کا موضوع بھی ان ہی مسائل میں سے ہے جن کےبارے میں سنی خود اپنی روایات پر عمل نہیں کرتے ۔

------------------------

(1):- علامہ شرف الدین اپنی کتاب النص والاجتھاد میں نصوص صریحہ میں تاویل کی سور سے زیادہ مثالیں جمع کی ہیں جسے تحقیق مقصود ہو وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

٣_ يہوديوں كا حضرت عيسي(ع) كى پيروى نہ كرنا ان كے دنياو آخرت ميں سخت عذاب كا موجب ہے_

فاما الذين كفروا فاعذبهم عذابا شديدا فى الدنيا و الآخرة جملہ ''فامّا الذين كفروا '' ميں مورد نظر مصداق حضرت عيسي(ع) كا ا نكار كرنے والے ہيں _

٤_ حضرت عيسي(ع) كے پيروكاروں كى يہوديوں پر برترى اور غلبہ يہوديوں كو سخت دنياوى عذاب دينے كا موجب ہے_و جاعل الذين اتبعوك فاما الذين كفروا يہ اس صورت ميں ہے كہ دنياوى عذاب كے ذكر كے قرينہ سے جملہ ''فاماّ الذين ... '' جملہ''جاعل الذين ...''كانتيجہ ہو يعنى يہوديوں كو دنياوى عذاب عيسائيوں كے ان پر غلبہ كى وجہ سے ہے _

٥_ كفار ( يہودي) كا دنياو آخرت ميں خدا تعالى كے عذاب كے مقابلے ميں كوئي ياور و مددگار نہيں ہے_

فامّا الذين كفروا و ما لهم من ناصرين

٦_ قيامت ميں مددگار(شفاعت كرنے والے) موجود ہونگے_ما لهم من ناصرين '' لہم ''كا '' من ناصرين ''پر مقدم كرنا حصر كا فائدہ ديتاہے جس كا مطلب يہ بنے گا كہ صرف كفار مددگاروں سے محروم ہونگے پس قيامت ميں مددگار ہونگے_

حضرت عيسي (ع) : ٣ حضرت عيسي (ع) كے پيرو كار ٤

شفاعت : ٦ عذاب : عذاب دنياوى ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٥; عذاب كے اسباب ٢ ، ٣ ، ٤;عذاب كے اہل ١ ، ٤

قيامت : ٦

كفار: كافروں كى سزا ١ ،٥

كفر : كفر كے اثرات ٢

نافرمانى : نافرمانى كے اثرات ٣

يہود:٣ يہوديوں كى سزا، ١ ،٣ ، ٤ ، ٥

۵۴۱

وَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (٥٧)

او رجو لوگ ايمان لے آئے او رانھوں نے نيك اعمال كئے انكو مكمل اجر ديں گے او رخدا ظلم كرنے والوں كو پسندنہيں كرتا _

١_ نيك عمل انجام دينے والے مؤمنين كو خدا تعالى كى طرف سے مكمل اجر ملے گا_و امّا الذين آمنوا وعملوا الصالحات فيوفيهم اجورهم

٢_ ايمان كاعمل صالح كے ہمراہ ہونا اس كے نتيجہ بخش ہونے كى شرط ہے_و امّا الذين آمنوا و عملوا الصالحات

٣_ قيامت ميں كافر وں كو اپنے اچھے اعمال كا كوئي فائدہ نہيں ہوگا_و امّا الذين آمنوا و عملوا الصالحات فيوفيهم اجورهم

كيونكہ خدا وند عالم كا اجر ايمان اور عمل صالح كے يكجا ہونے كے ساتھ مشروط ہے لہذا ايمان كے بغير عمل صالح كا اجر نہيں ملے گا _

٤_ قيامت ميں اجر ا نسان كے اپنے عمل كا نتيجہ ہے_*فيوفيهم اجورهم اجر اور اجرت كا استعمال عموماً انسان كے عمل كے مقابلے ميں ہوتاہے_

٥_ حضرت عيسي (ع) كے مومن پيروكار جو نيك اعمال بجا لاتے تھے انھيں خدا تعالى كا مكمل اجر ملے گا_

و جاعل الذين اتبعوك و امّا الذين آمنوا و عملوا الصالحات فيوفيهم اجورهم

جملہ '' فاما الذين آمنوا''ميں سابقہ آيات كے قرينہ سے مورد نظر مصداق حضرت مسيح (ع) پر ايمان لانے والے ہيں _

٦_ اللہ كے رسول ( حضرت عيسي (ع) ) كى پيروى كى حقيقت ،ايمان اور عمل صالح ہے_

و اتبعنا الرسول جاعل الذين اتبعوك و اماالذين آمنوا و عملوا الصالحات

۵۴۲

٧_ ايمان اور عمل صالح انسان كو دنيا و آخرت ميں خدا تعالى كے عذاب سے نجات دلانے كا موجب ہے_

فاماّ الذين كفروا فاعذبهم عذاباً شديداً فى الدنيا والآخرة و اما الذين آمنوا و عملوا الصالحات

٨_ خدا وند عالم كا كامل اجر ان مومنين كے ليئے ہے جن كے تمام اعمال صالح ہوں _

و امّا الذين آمنوا و عملوا الصالحات فيوفيهم اجورهم كلمہ '' الصالحات'' جمع معرّف باللّام ہے جو كہ عموم پر دلالت كرتاہے يعنى وہ تمام نيك اعمال كو انجام ديتے ہوں _

٩_ قرآن كريم كى نظر ميں انسانى معاشروں كى تقسيم كا معيار ايمان اور كفر ہے_فامّا الذين كفروا و اما الذين آمنوا

١٠_ حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں كفر كرنے والے (يہودي) ظالم اور خدا تعالى كى محبت سے محروم ہيں _

فامّا الذين كفروا والله لا يحب الظالمين كلمہ '' الظالمين ''ميں مورد نظر مصداق سابقہ آيات كے قرينہ سے وہ يہودہيں جو حضرت عيسي (ع) پر ايمان نہ لائے_

١١_ ظالم ، خدا تعالى كى محبت اور اسكے اجر سے محروم ہيں _واما الذين آمنوا ...فيوفيهم اجورهم والله لا يحب الظالمين

١٢_ كفر ( پيغمبر (ع) كا انكار) ظلم ہے اور كفار ظالم ہيں _فامّا الذين كفروا والله لا يحبّ الظالمين

يہ اس صورت ميں ہے كہ جملہ '' واللہ لا يحب الظالمين ''كافروں كى سزا كے ليئے علت كا بيان ہو كيونكہ كافر ظالم ہيں لہذا سزا كے مستحق ہيں _

١٣_ نيك عمل كرنے والے مومنين خداوند متعال كے محبوب ہيں _والله لا يحب الظالمين

يہ اس صورت ميں ہے كہ جملہ '' واللہ لا يحب الظالمين '' ''فاما الذين كفروا ''اور '' و اما الذين آمنوا ''كى علت كا بيان ہو تو اس كا مطلب يہ ہوگا كہ كافر اپنے ظلم كى وجہ سے خدا تعالى كے ناپسنديدہ ہيں اور اس كا مفہوم يہ نكلے گا كہ نيك عمل كرنے والے مومن خداوندعالم كے محبوب ہيں _

١٤_ جو مؤمنين نيك اعمال بجانہ لاتے ہوں و ہ ظالم ہيں _*

۵۴۳

و اما الذين آمنوا و عملوا الصالحات فيوفيهم اجورهم والله لا يحب الظالمين

كيونكہ خدا تعالى كا اجر اور نجات ايمان كے ہمراہ نيك عمل كے مرہون منت ہيں لہذابغير عمل كے ايمان پر اجر اور نجات نہيں ملے گى اور نہ ہى خدا تعالى كى محبت حاصل ہوسكے گى ، جو كہ ''لا يحب الظالمين ''كے مفہوم سے مستفاد ہوتى ہے _ لہذا مذكورہ بالا گروہ ظالمين ميں شمار ہوگا_

١٥_ عمل كے مقابلے ميں پورا اجر نہ دينا ظلم ہے_والله لا يحبّ الظالمين

يہ اس صورت ميں ہے :كہ جملہ ''واللہ لا يحب الظالمين'' جملہ ''فيوفيھم اجورہم '' كى علت كا بيان ہو_

اطاعت: انبياء (ع) كى اطاعت ٦

انبياء : انبياء (ع) كو جھٹلانا ١٢

ايمان : ٢ ، ٦ ، ٧ ايمان كى قدر و قيمت ٩ ;ايمان كا اجر ١ ، ٥

حضرت عيسي (ع) : ١٠ حضرت عيسي (ع) كے پيروكار ٥

خدا تعالى : حدا تعالى كى محبت ١٠ ، ١١ ، ١٣; خدا تعالى كے محبوب١٣

دين : دين كى حقيقت ٦

ظالمين :١٢،١٤ ظالمين كى محروميت ١١

ظلم : ظلم كے اثرات ١١ ;ظلم كے موارد ١٠ ، ٢ ١ ، ١٥

عذاب : عذاب سے نجات كے عوامل ٧

عمل : ايمان اورعمل٢ ، ٦ ، ٧; صحيح عمل كى شرائط ٣ ; عمل صالح ٦ ، ٧ ، ٨ ، ١٣; عمل صالح كى جزا ١ ، ٥ ;عمل كى اہميت ١٤; عمل كى جزا و سزا ٤

قدر و قيمت كا اندازہ لگانا: قدر و قيمت كااندازہ لگانے كا معيار ٩

قيامت : ٤

كفار : ١٢

۵۴۴

كفار قيامت ميں ٣ ; كفار كے عمل كى نابودى ١٠

كفر: پيغمبراسلام (ص) كے بارے ميں كفر ١٢;حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں كفر ١٠;كفر كى قيمت٩;كفر كے اثرات ٣،١٠

مزدور : مزدور كے حقوق ١٥

معاشرتى گروہ : ٩

مؤمنين : بے عمل مؤمنين ١٤ ; صالح مؤمنين ٥ ، ١٣ ; مؤمنين كا اجر ١ ، ٨

يہود : يہود كا ظلم ١٠

ذلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ (٥٨)

يہ تمام نشانياں او رپر از حكمت تذكرے ہيں جو ہم آپ سے بيان كررہے ہيں _

١_ حضرت زكريا (ع) ، حضرت مريم (ع) ،حضرت يحيي (ع) ،حضرت عيسي (ع) اور حضرت عيسي (ع) كے پيروكاروں كى سرگذشت آيات الہى ميں سے ہے اور حكيمانہ وعظ و نصيحت ہے_ذلك نتلوه عليك من الآيات و الذكر الحكيم ''ذلك '' ان لوگوں كى سرگذشت كى طرف اشارہ ہے جن كا ذكر سابقہ آيات ميں ہوچكا ہے_

٢_ پيغمبر اسلام (ص) پر قرآن كريم كى آيات كا الله تعالى كى جانب سے تلاوت كيا جانا _ذلك نتلوه عليك من الآيات

٣_ حضرت زكريا (ع) ،حضرت مريم (ع) ،حضرت يحيي (ع) اور حضرت عيسي (ع) كى سرگذشت كا بيان كرنا پيغمبر اسلام (ص) كے معجزات اور آپ (ص) كى سچائي كى علامتوں ميں سے ہے_

ذلك نتلوه عليك من الآيات يہ اس صورت ميں ہے كہ '' الآيات ''كے لغوى معنى (نشانيوں ) كے پيش نظر اس سے مراد پيغمبر اكرم (ص) كى صداقت كى نشانياں ہوں _

۵۴۵

٤_ '' الذكر ا لحكيم '' قرآن كريم كے ناموں ميں سے ہے_

ذلك نتلوه عليك من الآيات والذكر الحكيم مذكورہ بالامطلب كى تائيد رسول(ص) خدا كى اس روايت سے ہوتيہے كہ جس ميں آنحضرت(ص) نے فرماياكتاب الله هو الذكر الحكيم (١)

٥_ قرآن كريم يادآورى كا باعث ہے_والذكر الحكيم

٦_ قرآن كريم، حكمت سے سرشار كتاب ہے( محكم اور ناقابل خلل)_والذكر الحكيم

٧_ حضرت زكريا (ع) ،حضرت عيسي (ع) ، حضرت يحيي (ع) اورحضرت مريم (ع) كى داستان پورى كى پورى حكمت اور يادآورى كى موجب ہے_ذلك نتلوه عليك من الآيات والذكر الحكيم

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) كى سچائي ٣; آنحضرت(ص) كے معجزے ٣

آيات خدا: ١

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى تاريخ ١ ، ٣ ، ٧;انبياء (ع) كے پيروكار ١

حضرت زكريا (ع) : حضرت زكريا (ع) كا قصہ ١ ، ٣ ، ٧

حضرت عيسي (ع) : حضرت عيسي كا قصہ١ ، ٣،٧;حضرت عيسي (ع) كے پيروكار ١

حضرت مريم (ع) : حضرت مريم (ع) كا قصہ ١، ٣ ، ٧

حضرت يحيي (ع) : حضرت يحيي (ع) كا قصہ ١ ، ٣ ، ٧

حكمت: ٦ ، ٧

قرآن كريم : قرآن كريم كى اہميت ٥;قرآن كريم كى تلاوت ٢ ;قرآن كريم كى خصوصيات ٦; قرآن كريم كے نام ٤

وحى : ٢

يادآورى : يادآورى كے عوامل ٥ ، ٧

____________________

١) الدرالمنثور ج٢ ص ٢٢٧_

۵۴۶

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (٥٩)

عيسى كى مثال الله كے نزديك آدم جيسى ہے كہ انھيں مٹى سے پيدا كيا او رپھر كہا ہوجا او روہ ہوگيا_

١_ حضرت عيسي (ع) اور حضرت آدم(ع) كى خلقت ميں مشابہت_انّ مثل عيسى عند الله كمثل آدم

٢_ حضرت عيسي (ع) اورحضرت آدم(ع) كى خلقت استثنائي تھي_ان مثل عيسى عند الله كمثل آدم

٣_ حضرت عيسي (ع) ، حضرت آدم(ع) كى طرح خداوند عالم كى مخلوق تھے نہ كہ بيٹے_

ان مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب كيونكہ يہ آيت حضرت عيسي(ع) كى داستان كے بعد آئي ہے لہذا يہ عيسائيوں كے نظريہ اور اس كے ردّ كى طرف اشارہ ہوگى جو كہتے ہيں عيسي (ع) باپ نہ ركھنے كى وجہ سے خدا تعالى كے بيٹے ہيں _

٤_ خداوند متعال كا عيسائيوں كے غلط نظريے

(كہ حضرت عيسي (ع) خداوند عالم كے بيٹے ہيں ) كو رد كرنے كيلئے دليل و برہان پيش كرنا_ان مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب

٥_ خداوند عالم نے آدم(ع) كو مٹى سے خلق كيا _خلقه من تراب

٦_ حضرت آدم(ع) كى خلقت كے دو مرحلے تھے ( خاك سے خلق ہونے كا مرحلہ اور امر كا مرحلہ )خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون

٧_ خدا كا قول اور فرمان عين اس كا پيدا كرنا اور ايجاد كرناہے_ثم قال له كن فيكون

٨_ خدا وند عالم نے انسان كو دو پہلو ( مادى اور غير مادي) والا خلق فرمايا _

۵۴۷

خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون '' تراب ''كا لفظ انسان كے مادى پہلو كى طرف اشارہ ہے اور ہونے كا حكم ( كُنْ ) اس كے انسانى پہلو كى طرف اشارہ ہے_

٩_ انسان كے مادى پہلو كى تشكيل اس كے انسانى پہلو كى ايجاد كا پيش خيمہ ہے_خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون جملہ '' خلقہ من تراب'' آدم (ع) كے مادى پہلو كى خلقت سے حكايت كرتاہے كيونكہ ''خلقہ''كى ضمير مفعول آدم (ع) كى طرف لوٹتى ہے لہذا وہ چيز جو ''كُن''كے امر سے وجود ميں آئي وہ آدم(ع) كا انسانى پہلو ہے_

١٠_ انسان كى حقيقت اور اس كى تشكيل ميں اصل شے اس كا غير مادى پہلو ہے_

خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون جب آدم(ع) خاك سے خلق ہوگئے تو انہيں كہا گيا ہوجاؤ ( كن ) گويا اس سے پہلے وہ نہيں تھے كيونكہ انسانى حقيقت نہيں ركھتے تھے_

١١_ حضرت عيسي (ع) حضرت آدم (ع) كى طرح باپ كے بغير پيدا ہوئے_

ان مثل عيسى خلقه من تراب رسول خدا نے فرمايا:''ان عيسي عبد مخلوق ...قالوا:فمن ابوه؟ فقال: قل لهم ما تقولون فى آدم اكان عبداً مخلوقاً؟ ...فقالوا:نعم قال :فمن ابوه فبهتوا فانزل الله ''ان مثل عيسي ...'' بے شك عيسي (ع) خدا كے بندے اور مخلوق ہيں انہوں نے كہا تو اس كا باپ كون ہے ؟ تو فرمايا ان سے كہو آدم(ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو كيا وہ عبد اور مخلوق تھے؟ تو انہوں نے كہا ہاں تو فرمايا ان كا باپ كون ہے؟ تو وہ لاجواب ہوكر رہ گئے تو يہ آيت نازل ہوئي ''انّ مثل عيسي ...'' (١)

استدلال : ٤

انسان : انسانى پہلو ٨ ، ٩ ، ١٠ ;انسان كى خلقت ٨ ، ٩ ، ١٠

حضرت آدم(ع) : حضرت آدم (ع) كى خلقت ١ ، ٢ ، ٥ ، ٦ ، ١١

حضرت عيسي (ع) : حضرت عيسي (ع) اور عيسائي ٤ ;حضرت عيسي (ع) كى خلقت ٣ ;حضرت عيسي (ع) كى ولادت ١ ، ٢ ، ٣ ، ١١

خدا تعالى : خدا تعالى كى خالقيت ٧ ;خدا تعالى كے افعال ٧; خدا تعالى كے اوامر ٧

____________________

١) تفسير قمى ج١ ص ١٠٤ ، نورالثقلين ج١ ص ٣٤٧ ح ١٥٧_

۵۴۸

روايت : ١١

زندگى : زندگى كا تكامل ٦

شخصيت : شخصيت كى تشكيل كے عوامل ٩ ، ١٠

عيسائي : عيسائيوں كے عقائد ٤

قرآن كريم : قرآن كريم كى تشبيہات١ ، ٣

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُن مِّن الْمُمْتَرِينَ (٦٠)

حق تمھارے پروردگار طرف سے آچكا ہے لہذا خبردار اب تمھارا شمار شك كرنے والوں ميں نہ ہو چاہئے _

١_ قرآن كريم ميں حضرت زكريا(ع) ،حضرت عيسي(ع) ، ، حضرت مريم (ع) ،حضرت يحيي (ع) كى داستان اور حضرت آدم(ع) كى خلقت كا بيان حق اور پروردگار كى طرف سے ہے_

الحق من ربّك كلمہ '' الحق '' مبتدا محذوف كے ليئے خبر ہے جو كہ ''ہو''ہے اور اس سے مرادحضرت مريم(ع) اور ان انبياء (ع) كى داستانہے كہ جن كا تذكرہ سابقہ آيات ميں ہوا ہے_

٢_ ہر حق كا سرچشمہ خداوند عالم كى ذات اقدس ہے_الحق من ربك

٣_ حقائق كا بيان خدا وند عالم كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_الحق من ربك

٤_ تربيت و تعمير ، حقائق كے بيان پر موقوف ہے_الحق من ربك

كيونكہ خداوند متعال '' ربّ '' (تربيت كرنے والا) ہے حق كو بيان كرتاہے اس سے تربيت اور حق ميں ارتباط كا پتہ چلتاہے_

۵۴۹

٥_ خدا تعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كو اپنى رسالت ميں قاطع اور دو ٹوك ہونے كا حكم _الحق من ربك فلا تكن من الممترين

٦_ حضرت عيسي(ع) كى خلقت كى كيفيت اور اس كے بارے ميں عيسائيوں كى دروغ بافياں شبہ پيدا كرنے كاپيش خيمہ ثابت ہوئيں _فلا تكن من الممترين جو چيز قرآن كريم كے مخاطبين كے ليئے حضرت مسيح(ع) كے بارے ميں شك و ترديد پيدا كرسكتى ہے وہ حضرت عيسي (ع) كى استثنائي خلقت ہے اور '' انّ مثل ...'' پر توجہ كرنے سے يہ شبہ دور ہوجاتاہے_

٧_ پيغمبر (ص) اكرم شك و ترديد كے خطرے ميں _*فلا تكن من الممترين

چونكہ پيغمبر اكرم (ص) بشر ہيں لہذا يہ حالتيں امكان ركھتى تھيں ليكن خدا وند عالم نے حقائق بيان كركے آنحضرت (ص) سے ترديد كا مورد ہى ختم كرديا_

٨_ اس حقيقت پر توجہ كہ تمام حقائق خداوند عالم كى طرف سے ہيں انسان سے الہى معارف و تعليمات كے بارے ميں شك و ترديد كے اسباب كو ختم كرديتى ہے_الحق من ربك فلا تكن من الممترين

آنحضرت(ص) : ٧ آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ٥

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى تاريخ ١

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ٤

حضرت آدم(ع) : حضرت آدم (ع) كى خلقت ١

حضرت عيسي (ع) : حضرت عيسي (ع) كا قصہ ١ ، ٦

حضرت مريم (ع) : حضرت مريم (ع) كا قصہ ١

حضرت يحيي (ع) : حضرت يحيي (ع) كا قصہ ١

حق : حق كا اظہار ٣ ، ٤; حق كا سرچشمہ ٢ ، ٨

خدا تعالى : خدا تعالى كى ربوبيت ٣ ; خدا تعالى كى نصيحتيں ٥ ;خدا تعالى كے اوامر ٥

۵۵۰

شبہ : شبہ كا پيش خيمہ ٦

علم : علم كے اثرات ٨

عيسائي : عيسائيوں كے عقائد ٦

قاطعيت قاطعيت كى اہميت ٥

قرآن كريم : قرآن كريم كے قصص ١

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (٦١)

پيغمبر علم كے آجانے كے بعد جو لوگ تم سے كٹ حجتى كريں ان سے كہہ ديجئے كہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند ،اپنى اپنى عورتوں اور اپنے نفسوں كو بلائيں او رپھر خدا كى بارگاہ ميں دعا كريں او رجھوٹوں پر خدا كى لعنت قرا رديں _

١_ عيسائيوں كے خلاف دليليں قائم كرنے كے بعدآنحضرت (ص) كو انہيں مباہلہ كى دعوت دينے كا حكم _

ان مثل عيسى فمن حاجّك فقل تعالوا ثمّ نبتهل

٢_ وحى كے ذريعے حضرت عيسي (ع) اورحضرت مريم (ع) كى

داستانكے بيان ہونے كے بعدآنحضرت (ص) كا اس سے مطلع ہونا_فمن حاجك فيه من بعد ما جاء ك من العلم

٣_ حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں نصاري كے گمان باطل كو آنحضرت (ص) كى طرف سے دليل كے

۵۵۱

ذريعے رد كيا جانا_ان مثل عيسي فمن حاجك فيه من بعد ما جائك من العلم

٤_ حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں دليل قائم كرنے كے باوجود نصاري نے آنحضرت (ص) كے ساتھ، ضد اور ہٹ دھرمى كا مظاہرہ كيا _فمن حاجك فيه من بعد ما جاء ك من العلم فقل تعالوا

٥_ دليل قائم كرنے كے بعد اثبات حق كے لئے نتيجہ بخش راستہ مباہلہ ہے_ان مثل عيسي فمن حاجك فيه من بعد جاء ك من العلم فقل تعالوا اس مطلب ميں ''فيہ '' كى ضمير ''الحق '' كى طرف لوٹائي گئي ہے

٦_ مباہلہ ميں حق كے مقابل كے بارے ميں نفرين و بد دعا كى قبوليت كى ضمانت فراہم كى گئي ہے_

فمن حاجك فقل تعالوا نبتهل فنجعل لعنت الله على الكاذبين

٧_ مباہلہ كے اقدام كرنے كى شرط علم و يقين ہےفمن حاجك فيه من بعد ما جاء ك من العلم فقل تعالوا ثم نبتهل

خداوندعالم نے جب آنحضرت (ص) كو حقائق سے آگاہ فرما ديا (جاء ك من العلم ) توآپ(ص) كواس مورد ميں مباہلہ كا حكم ديا _

٨_ دشمن كى حق كے مقا بلے ميں ہٹ دھرمي، ان كو مباہلہ كى دعوت كى شرط ہے_فمن حاجك فقل تعالوا ثم نبتهل

٩_ آنحضرت (ص) كو ماموريت دى گئي كہ نصاري كو مباہلہ كى دعوت ديں اس طرح كہ اس ميں طرفين كى خواتين اور بيٹے بھى شريك ہوں _فمن حاجك فقل تعالوا ندع ابناء نا و ابناء كم و نساء نا و نساء كم

١٠_ مباہلہ كااس وقت وقوع پذير ہونا جب مباہلہ كرنے والا اور اس كے نزديك ترين افراد;بيٹے ، مرد اور خواتين شركت كريں _*فمن حاجك ...فقل تعالو ا ندع ابنا ء نا ثم نبتهل

١١_ آيہ مباہلہ ميں '' ابنا ء نا '' كا واحد مصداق امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) ہيں _

ابناء نا و ابناء كم تاريخ كى مسلم حقيقت ہے كہ آنحضرت (ص) مباہلہ ميں شركت كے لئے امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كو لے گئے _ پس ''ابناء نا'' سے مراد يہ دو

۵۵۲

ہستياں ہيں _ اس مطلب كى تائيد امام كاظم (ع) كى ايك روايت بھى كرتى ہے _ آپ(ص) نے فرمايا الله تعالى كے اس قول ''ابنائنا'' كى تاويل حسن (ع) اور حسين (ع) ہيں (١)

١٢_ انسان كا نواسہ اس كابيٹا ہے _ابناء نا و ابناء كم كيونكہ امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) آنحضرت (ص) كى بيٹى كے بيٹے اور ''ابناء نا'' كے مصداق ہيں _

١٣_ حضرت زہرا (سلام الله عليہا ) كى انتہائي عظمت_نساء نا و نساء كم مباہلہ ميں تمام خواتين ميں سے پيغمبر اسلام صلى الله عليہ و آلہ و سلم فقط حضرت فاطمہ زہرا (سلام الله عليہا ) كو لے گئے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے ''نساء نا '' سے مراد حضرت زہرا (ع) ہيں اور چونكہ جمع كا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے بى بى (ع) كى عظمت معلوم ہوتى ہے _ اس كى تائيد امام رضا (ع) كى ايك روايت سے ہوتى ہے كہ : وعنى بالنساء فاطمة عليہا السلام _ يعنى النساء سے مراد حضرت فاطمہ (ع) ہيں _ (٢)

١٤_ حضرت على (ع) پيغمبر اسلام (ص) كے نفس اور انتہائي با عظمت مقام و منزلت كے مالك ہيں _

و انفسنا و انفسكم تاريخ كامسلّمہ امر ہے كہ مباہلہ كے شركت كرنے والوں ميں سے على عليہ السلام بھى تھے اور ''انفسنا'' كى تاويل على ابن ابى طالب (ع) ہيں اس كى تائيد بہت سى روايات سے ہوتى ہے ان ميں سے ايك روايت امام كاظم (ع) سے ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا:فكان تاويل قوله تعالى (و انفسنا) على بن ابى طالب(ع) يعنى الله تعالى كے اس فرمان ( وا نفسنا) كى تاويل على ابن ابى طالب (ع) ہيں (٣)

١٥_ اہم معاشرتى مسائل ميں مردوں كے شانہ بشانہ خواتين كى شركت بھى جائز ہے _و نساء نا و نساء كم

١٦_حق كے مقابل ہٹ دھرمى اور اس كو جھٹلانا الله تعالى كى لعنت و نفرين كے استحقاق كاسبب بنتا ہے _

فمن حاجك فنجعل لعنة الله على الكاذبين

____________________

١) عيون اخبار الرضا (ع) ج ١ ص ٨٥ ح ٩ ب ٧، نور الثقلين ج ١ ص ٣٤٨ح ١٦٢_

٢) عيون اخبار الرضا (ع) ج ١ ص ٢٣٢ح١ ب ٢٣، نور الثقلين ج ١ ص ٣٤٩ح ١٦٣_

٣) عيون اخبار الرضا (ع) ج ١ ص ٨٥ح٩ ب ٧ ، نور الثقلين ج ١ ص ٣٤٨ح ١٦٢_

۵۵۳

١٧_ نصاري با وجود اس كے كہ حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں الوہيت اور آپ(ع) كے فرزند خدا ہونے كا دعوي كرتے تھے ليكن خود اس بارے ميں عقيدہ نہ ركھتے تھے_ان مثل عيسى فنجعل لعنة الله على الكاذبين

''الكاذبين'' سے مراد عيسائي ہيں _ان كو ''كذب'' كى نسبت دينا اس بات كى علامت ہے كہ وہ لوگ خود اس دعوي پر اعتقاد نہ ركھتے تھے _

١٨_ نصاري كے ساتھ مباہلہ ميں الله تعالى نے آنحضرت (ص) كى قطعى و يقينى مدد و نصرت كا وعدہ فرمايا_

فنجعل لعنة الله على الكاذبين مباہلہ كى تجويز آنحضرت (ص) كى جانب الله تعالى كى طرف سے آئي اس بات كا لازمہ پيغمبر اسلام (ص) كى نصرت كرنا ہے _

١٩_ مباہلہ اس وقت وقوع پذير ہوتا ہے جب مباہلہ كرنے والے شريك ہوجائيں اور باطل كى نابودى كے لئے الله تعالى سے لعنت كى درخواست كريں _ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين

٢٠_ پيغمبر اسلام (ص) نے يہوديوں كو مباہلہ كى دعوت ديفقل تعالوا ندع ابناء نا

تفسير الميزان ميں ابن جرير سے نقل كيا ہے كہ جب آيہ مجيدہ '' فمن حاجك فيہ ...'' نازل ہوئي تو آنحضرت (ص) نے يہود كو مباہلہ كى دعوت دى _

٢١_ مباہلہ ميں پيغمبر اسلام (ص) كے ساتھى ( حضرت على (ع) ، حضرت فاطمہ (ع) ، امام حسن (ع) ، امام حسين (ع) ) عزيزترين اور برترين انسان ہيں _ندع ابناء نا و ابناء كم ونساء نا و نساء كم و انفسنا و انفسكم

امام رضا عليہ السلام سے روايت ہے :فبرز النبي(ص) علياً و الحسن و الحسين و فاطمة صلوات الله عليهم فهذه خصوصية لايتقدمهم فيها احد و فضل لا يلحقهم فيه بشر _ پس نبى (ص) على ، حسن ، حسين اور فاطمہ صلوة الله عليہم كو لے كے نكلے يہ ايسى خصوصيت ہے كہ اس ميں كوئي بھى ان ہستيوں سے آگے نہيں ہے اور نہ ہى كوئي بشر اس فضيلت ميں ان كے ساتھ شامل ہوسكتاہے_ (١)

٢٢_ دعا ميں '' ابتھال'' كامعنى ہاتھوں اور كہنيوں كو كھولنا اور آسمان كى طرف بلند كرنا ہے _ثم نبتهل

____________________

١) عيون اخبار الرضا (ع) ج ١ ص ٢٣٢ح ١ ب ٢٣، نور الثقلين ج ١ ص ٣٤٩ ح١٦٣_

۵۵۴

امام صادق (ع) فرماتے ہيں :والابتهال تبسط يديك وذراعيك الى السماء (١) ابتہال سے مراد يہ ہے كہ تو اپنے ہاتھوں اور كہنيوں كو آسمان كى طرف بلند كرے_

٢٣_ اگر مباہلہ واقع ہوجاتا تو نصاري كے نمائندوں پر آسمان سے آگ كى بارش نازل ہوتى _

ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين نصاري بخران كى نمائندگى ميں عاقب اور طيب پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے ...اور جب وہ مباہلہ كے لئے تيار نہ ہوئے تو آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمايا ''والذى بعثنى بالحق نبيّا لو فعلا لامطر عليهما الوادى ناراً (٢) اس ہستى كى قسم جس نے مجھے حق كے ساتھ مبعوث فرماياہے اگر يہ مباہلہ كرتے تو ان پر آگ كى بارش برستي_

آنحضرت(ص) : آنحضرت اور عيسائي ٤ ، ٩ ، ١٨ ;آنحضرت اور يہود٢٠ ;آنحضرت(ص) كا استدلال ٣ ;آنحضرت كاعلم ٢ ; آنحضرت كا مباہلہ ١ ، ٩ ، ١١ ، ١٨، ٢٠ ،٢١، ٢٣

آگ : آگ كى بارش ٢٣

احكام : ١٢،١٥

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ١،٩،٢٠

اہل بيت (ع) : اہل بيت (ع) كے فضائل ١١،١٣،١٤،٢١

باطل عقائد :٣

بيٹى كى اولاد : ١٢ حضرت حسن ابن على (ع) : ١١،٢١ حضرت حسين ابن على (ع) :١١، ٢١

حضرت على (ع) ٢١ : حضرت على (ع) كا مقام و مرتبہ ١٤

حضرت عيسي (ع) : ٤ حضرت عيسى (ع) كا ايمان ١٧ ; حضرت عيسي (ع) كا قصہ ٢

حضرت فاطمہ زہرا (ع) : ٢١ حضرت فاطمہ كے فضائل ١٣

حضرت مريم(ع) : حضرت مريم (ع) كاقصہ ٢

____________________

١) كافى ج ٢ ص٤٨٠ ح ٤، نور الثقلين ج ١ ص ٣٥٠ح ١٧١_

٢) مناقب ابن المغازلى ص ٢٦٣( طبع اسلاميہ ) ١٤٠٣ قمرى ہجري_

۵۵۵

حق: حق ثابت كرنے كے طريقے ٥ ;حق چھپانے كے اثرات ١٦ ;حق كو جھٹلانا ١٦ ; حق كے مقابلے ميں ہٹ دھرمى ١٦

خدا تعالى: خدا تعالى كى لعنت ١٦، ١٩;خدا تعالى كى مدد ١٨ ; خدا تعالى كے اوامر ١ ، ٩ ; خدا تعالى كے وعدے ١٨

دشمن: دشمنوں كى ضد و ہٹ دھرمي٨

دعا : دعا كے آداب ٢٢

دليل وبرہان : ٥

روايت : ١١، ١٤،٢١،٢٢،٢٣

شناخت و معرفت : شناخت كے ذرائع ٢

عورت: معاشرے ميں عورت ١٥; مباہلہ ميں عورت ٩

عيسائي ١،٤،٩،١٨ عيسائيوں كے عقائد ٣،١٧ بخران كے عيسائي ٢٣

لعنت ١٩ لعنت كے اسباب ١٦

نفرين : نفرين كا قبول ہو نا ٦

مباہلہ: ١ ، ٩ ، ١١ ، ١٨ ، ٢٠ ، ٢١ ، ٢٣ عيسائيوں كے ساتھ مباہلہ ١ ، ٩ ، ١٨ ;مباہلہ كا قبول ہونا ٦ ;مباہلہ كى اہميت ٥ ;مباہلہ كى شرائط ٧ ، ٨ ، ١٠ ، ١٩ ; مباہلہ ميں يقين و علم ٧ معاشرہ :١٥

وحى : وحى كى اہميت ٢

يہود :٢٠

۵۵۶

إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلاَّ اللّهُ وَإِنَّ اللّهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (٦٢)

يہ سب حقيقى واقعات ہيں اور خدا كے علاوہ كوئي دوسرا خدا نہيں ہے اور دہى خدا صاحب عزّت و حكمت ہے_

١_ حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں صرف وہ حق ہے جو كچھ قرآن كريم ميں بيان ہوا ہے نہ كہ وہ جو عيسائي سمجھتے ہيں _

ان هذا لهو القصص الحق

حصصر ضمير فصل (لہو) سے سمجھا گيا ہے اور اس جملہ ميں قصر قصر قلب ہے _

٢_ انبياء (ع) كے بارے ميں جو واقعہ بھى توحيد كے منافى ہو وہ باطل اور گھڑا ہوا ہے_

انّ هذا لهو القصص الحق و ما من اله: الا الله شرك كى نفى جو كہ جملہ '' و ما من الہ الاّ اللہ''سے استفادہ ہوتى ہے حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں نصرانيوں كے دعووں كے جھوٹا ہونے كى علت كا بيان ہے اور نيز انبياء (ع) سے مربوط تمام داستانوں كے ليئے معيار بھى ہے_

٣_ غير خدا كى الوہيت كى نفى _و ما من اله الاّ الله

٤ حضرت مسيح(ع) كى الوہيت كى نفي_ان مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ما من اله الا الله

٥_ الوہيت، صرف خدا تعالى كے شايان شان ہے_و ما من اله الا الله

٦_ نصرانى حضرت عيسي(ع) كى الوہيت كے مدعّى ہيں اور خدا تعالى كى طرف سے ان كے دعوى كى نفى _

ان مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب و ما من اله الا الله

جملہ ''و ما من اله الا الله ''جو الوہيت كو خدا تعالى ميں منحصر كررہاہے سابقہ آيات كے قرينہ سے عيسائيوں كے ليئے بھى كنايہ ہے_

٧_ خدا وند متعال ، عزيز اور حكيم ہے_و ان الله لهو العزيز الحكيم

۵۵۷

٨_ عزت ( غلبے و الا ہونا ) اور حكمت خدا وند عالم كى ذات ميں منحصر ہے_و ان الله لهو العزيز الحكيم

٩_ ايسا عزيز جو حكيم ہو صرف خداوند عالم كى ذات ہے_و ان الله لهو العزيز الحكيم يہ اس صورت ميں ہے كہ عزيز كے ليئے حكيم صفت ہو اس كا مطلب يہ نكلے گا كہ وہ عزيز جو كہ حكيم بھى ہو صرف خدا ہے_

١٠_ عزت او ر حكمت مطلقہ الوہيت كا معيار ہےو ما من اله الا الله و ان الله لهو العزيز الحكيم

جملہ '' و ان اللہ '' '' ما من الہ ...'' كے ليئے علت كا بيان ہے_

اسماء و صفات : حكيم ٧ ، ٨ ، ٩ ، عزيز ٧ ، ٨ ، ٩

الوہيت : الوہيت كے معيار ات ١٠

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى تاريخ ٢

توحيد : ٢ توحيد ذاتى ٣ ، ٥

حضرت عيسي (ع) : ١ ، ٤ حضرت عيسي (ع) اور عيسائي ٦

حكمت : ١٠

شرك : شرك كى نفى ٣ ، ٤

عزت : ١٠

عقيدہ : باطل عقيدہ ٢ ،عقيدہ صحيح ہونے كے معيارات ٢

عيسائي : ٦ عيسائيوں كے عقائد ١ ، ٦

قرآن كريم : قرآن كريم كے قصّے ١

۵۵۸

فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ (٦٣)

اب اس كے بعد بھى يہ لوگ انحراف كريں توخدا مفسدين كو خوب جانتا ہے_

١_ خدا وند عالم كى يہ پيشگوئي كہ نصاري نجران مباہلہ كى دعوت قبول نہيں كريں گے*فقل تعالوا ندع فان تولّوا فانّ الله عليم بالمفسدين ظاہراً '' فان تولّوا ...''اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ عيسائي مباہلہ كى دعوت كو قبول نہيں كريں گے_

٢_ نصاري نجران كو توحيد قبول نہ كرنے پر خداوند متعال كا دھمكى دينا _و ما من اله الا الله فان تولّوا فان الله عليم بالمفسدين انكى مخالفت اور گناہ كے بيان كرنے كے بعد خدا تعالى كے علم كى طرف توجہ دلانامخالفت كرنے والوں كے ليئے دھمكى ہے_

٣_ فسادكرنے والوں كو خدا تعالى كى دھمكي_فانّ الله عليم بالمفسدين

٤ توحيد سے روگردانى ( شرك) فساد برپا كرنا ہے_فانّ تولّوا فانّ الله عليم بالمفسدين

٥_ فسادى خدا تعالى كے احاطہ علمى ميں ہيں _فانّ الله عليم بالمفسدين

٦_ نصرانيوں كا ہميشہ فساد بر پا كرنا _فانّ الله عليم بالمفسدين

يہاں پر فساد كرنے والوں كا مصداق نصرانى ہيں اور ''مفسدين '' كى اصطلاح ايك دفعہ فساد برپا كرنے كے ساتھ مناسبت نہيں ركھتى بلكہ استمرار و دوام ميں ظہور ركھتى ہے_

٧_ حضرت مسيح(ع) كى الوہيت كا عقيدہ ركھنا اور توحيد كو نہ ماننا، فساد و تباہى برپا كرنے كا نتيجہ ہے_*

فانّ تولّوا فانّ الله عليم بالمفسدين احتمال ہے كہ كلمہ '' المفسدين'' شرك كى

۵۵۹

علت اور بنياد كى طرف اشارہ ہو_

٨_ نصاري نجران كے علماء فسادى ، مشرك، جھگڑا لو ، حق نہ ماننے والے اور خدا تعالى كى دھمكى كا مورد تھے_

فمن حاجك فان تولّوا فان الله عليم بالمفسدين اس آيت كے شان نزول ميں ہے كہ يہ آيت علمائے نجران كے بارے ميں نازل ہوئي_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كا مباہلہ ١

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ١

اہل كتاب : اہل كتاب كے علماء ٨

حضرت عيسي (ع) : ٧

حق ماننا : حق ماننے كے موانع ٧

خدا تعالى : خدا تعالى كا احاطہ ٥ ;خدا تعالى كا علم ٥;خدا تعالى كى دھمكياں ٢ ،٣ ، ٨

شرك : شرك كے عوامل ٤ ، ٧

عيسائي: عيسائيوں كا فساد برپا كرنا ٦; عيسائيوں كى ہٹ دھرمى ٨ ; نجران كے عيسائي ١ ، ٢ ، ٨

فساد: فساد كے اثرات ٧ ;فساد كے موارد ٤

قرآن كريم : قرآن كريم كى پيشگوئي ١

مشركين ٨

مفسدين ٥ ، ٦ ، ٨ مفسدين كو دھمكى ٣

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749