تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 749
مشاہدے: 164409
ڈاؤنلوڈ: 5521


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 164409 / ڈاؤنلوڈ: 5521
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 2

مؤلف:
اردو

٣_ يہوديوں كا حضرت عيسي(ع) كى پيروى نہ كرنا ان كے دنياو آخرت ميں سخت عذاب كا موجب ہے_

فاما الذين كفروا فاعذبهم عذابا شديدا فى الدنيا و الآخرة جملہ ''فامّا الذين كفروا '' ميں مورد نظر مصداق حضرت عيسي(ع) كا ا نكار كرنے والے ہيں _

٤_ حضرت عيسي(ع) كے پيروكاروں كى يہوديوں پر برترى اور غلبہ يہوديوں كو سخت دنياوى عذاب دينے كا موجب ہے_و جاعل الذين اتبعوك فاما الذين كفروا يہ اس صورت ميں ہے كہ دنياوى عذاب كے ذكر كے قرينہ سے جملہ ''فاماّ الذين ... '' جملہ''جاعل الذين ...''كانتيجہ ہو يعنى يہوديوں كو دنياوى عذاب عيسائيوں كے ان پر غلبہ كى وجہ سے ہے _

٥_ كفار ( يہودي) كا دنياو آخرت ميں خدا تعالى كے عذاب كے مقابلے ميں كوئي ياور و مددگار نہيں ہے_

فامّا الذين كفروا و ما لهم من ناصرين

٦_ قيامت ميں مددگار(شفاعت كرنے والے) موجود ہونگے_ما لهم من ناصرين '' لہم ''كا '' من ناصرين ''پر مقدم كرنا حصر كا فائدہ ديتاہے جس كا مطلب يہ بنے گا كہ صرف كفار مددگاروں سے محروم ہونگے پس قيامت ميں مددگار ہونگے_

حضرت عيسي (ع) : ٣ حضرت عيسي (ع) كے پيرو كار ٤

شفاعت : ٦ عذاب : عذاب دنياوى ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٥; عذاب كے اسباب ٢ ، ٣ ، ٤;عذاب كے اہل ١ ، ٤

قيامت : ٦

كفار: كافروں كى سزا ١ ،٥

كفر : كفر كے اثرات ٢

نافرمانى : نافرمانى كے اثرات ٣

يہود:٣ يہوديوں كى سزا، ١ ،٣ ، ٤ ، ٥

۵۴۱

وَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (٥٧)

او رجو لوگ ايمان لے آئے او رانھوں نے نيك اعمال كئے انكو مكمل اجر ديں گے او رخدا ظلم كرنے والوں كو پسندنہيں كرتا _

١_ نيك عمل انجام دينے والے مؤمنين كو خدا تعالى كى طرف سے مكمل اجر ملے گا_و امّا الذين آمنوا وعملوا الصالحات فيوفيهم اجورهم

٢_ ايمان كاعمل صالح كے ہمراہ ہونا اس كے نتيجہ بخش ہونے كى شرط ہے_و امّا الذين آمنوا و عملوا الصالحات

٣_ قيامت ميں كافر وں كو اپنے اچھے اعمال كا كوئي فائدہ نہيں ہوگا_و امّا الذين آمنوا و عملوا الصالحات فيوفيهم اجورهم

كيونكہ خدا وند عالم كا اجر ايمان اور عمل صالح كے يكجا ہونے كے ساتھ مشروط ہے لہذا ايمان كے بغير عمل صالح كا اجر نہيں ملے گا _

٤_ قيامت ميں اجر ا نسان كے اپنے عمل كا نتيجہ ہے_*فيوفيهم اجورهم اجر اور اجرت كا استعمال عموماً انسان كے عمل كے مقابلے ميں ہوتاہے_

٥_ حضرت عيسي (ع) كے مومن پيروكار جو نيك اعمال بجا لاتے تھے انھيں خدا تعالى كا مكمل اجر ملے گا_

و جاعل الذين اتبعوك و امّا الذين آمنوا و عملوا الصالحات فيوفيهم اجورهم

جملہ '' فاما الذين آمنوا''ميں سابقہ آيات كے قرينہ سے مورد نظر مصداق حضرت مسيح (ع) پر ايمان لانے والے ہيں _

٦_ اللہ كے رسول ( حضرت عيسي (ع) ) كى پيروى كى حقيقت ،ايمان اور عمل صالح ہے_

و اتبعنا الرسول جاعل الذين اتبعوك و اماالذين آمنوا و عملوا الصالحات

۵۴۲

٧_ ايمان اور عمل صالح انسان كو دنيا و آخرت ميں خدا تعالى كے عذاب سے نجات دلانے كا موجب ہے_

فاماّ الذين كفروا فاعذبهم عذاباً شديداً فى الدنيا والآخرة و اما الذين آمنوا و عملوا الصالحات

٨_ خدا وند عالم كا كامل اجر ان مومنين كے ليئے ہے جن كے تمام اعمال صالح ہوں _

و امّا الذين آمنوا و عملوا الصالحات فيوفيهم اجورهم كلمہ '' الصالحات'' جمع معرّف باللّام ہے جو كہ عموم پر دلالت كرتاہے يعنى وہ تمام نيك اعمال كو انجام ديتے ہوں _

٩_ قرآن كريم كى نظر ميں انسانى معاشروں كى تقسيم كا معيار ايمان اور كفر ہے_فامّا الذين كفروا و اما الذين آمنوا

١٠_ حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں كفر كرنے والے (يہودي) ظالم اور خدا تعالى كى محبت سے محروم ہيں _

فامّا الذين كفروا والله لا يحب الظالمين كلمہ '' الظالمين ''ميں مورد نظر مصداق سابقہ آيات كے قرينہ سے وہ يہودہيں جو حضرت عيسي (ع) پر ايمان نہ لائے_

١١_ ظالم ، خدا تعالى كى محبت اور اسكے اجر سے محروم ہيں _واما الذين آمنوا ...فيوفيهم اجورهم والله لا يحب الظالمين

١٢_ كفر ( پيغمبر (ع) كا انكار) ظلم ہے اور كفار ظالم ہيں _فامّا الذين كفروا والله لا يحبّ الظالمين

يہ اس صورت ميں ہے كہ جملہ '' واللہ لا يحب الظالمين ''كافروں كى سزا كے ليئے علت كا بيان ہو كيونكہ كافر ظالم ہيں لہذا سزا كے مستحق ہيں _

١٣_ نيك عمل كرنے والے مومنين خداوند متعال كے محبوب ہيں _والله لا يحب الظالمين

يہ اس صورت ميں ہے كہ جملہ '' واللہ لا يحب الظالمين '' ''فاما الذين كفروا ''اور '' و اما الذين آمنوا ''كى علت كا بيان ہو تو اس كا مطلب يہ ہوگا كہ كافر اپنے ظلم كى وجہ سے خدا تعالى كے ناپسنديدہ ہيں اور اس كا مفہوم يہ نكلے گا كہ نيك عمل كرنے والے مومن خداوندعالم كے محبوب ہيں _

١٤_ جو مؤمنين نيك اعمال بجانہ لاتے ہوں و ہ ظالم ہيں _*

۵۴۳

و اما الذين آمنوا و عملوا الصالحات فيوفيهم اجورهم والله لا يحب الظالمين

كيونكہ خدا تعالى كا اجر اور نجات ايمان كے ہمراہ نيك عمل كے مرہون منت ہيں لہذابغير عمل كے ايمان پر اجر اور نجات نہيں ملے گى اور نہ ہى خدا تعالى كى محبت حاصل ہوسكے گى ، جو كہ ''لا يحب الظالمين ''كے مفہوم سے مستفاد ہوتى ہے _ لہذا مذكورہ بالا گروہ ظالمين ميں شمار ہوگا_

١٥_ عمل كے مقابلے ميں پورا اجر نہ دينا ظلم ہے_والله لا يحبّ الظالمين

يہ اس صورت ميں ہے :كہ جملہ ''واللہ لا يحب الظالمين'' جملہ ''فيوفيھم اجورہم '' كى علت كا بيان ہو_

اطاعت: انبياء (ع) كى اطاعت ٦

انبياء : انبياء (ع) كو جھٹلانا ١٢

ايمان : ٢ ، ٦ ، ٧ ايمان كى قدر و قيمت ٩ ;ايمان كا اجر ١ ، ٥

حضرت عيسي (ع) : ١٠ حضرت عيسي (ع) كے پيروكار ٥

خدا تعالى : حدا تعالى كى محبت ١٠ ، ١١ ، ١٣; خدا تعالى كے محبوب١٣

دين : دين كى حقيقت ٦

ظالمين :١٢،١٤ ظالمين كى محروميت ١١

ظلم : ظلم كے اثرات ١١ ;ظلم كے موارد ١٠ ، ٢ ١ ، ١٥

عذاب : عذاب سے نجات كے عوامل ٧

عمل : ايمان اورعمل٢ ، ٦ ، ٧; صحيح عمل كى شرائط ٣ ; عمل صالح ٦ ، ٧ ، ٨ ، ١٣; عمل صالح كى جزا ١ ، ٥ ;عمل كى اہميت ١٤; عمل كى جزا و سزا ٤

قدر و قيمت كا اندازہ لگانا: قدر و قيمت كااندازہ لگانے كا معيار ٩

قيامت : ٤

كفار : ١٢

۵۴۴

كفار قيامت ميں ٣ ; كفار كے عمل كى نابودى ١٠

كفر: پيغمبراسلام (ص) كے بارے ميں كفر ١٢;حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں كفر ١٠;كفر كى قيمت٩;كفر كے اثرات ٣،١٠

مزدور : مزدور كے حقوق ١٥

معاشرتى گروہ : ٩

مؤمنين : بے عمل مؤمنين ١٤ ; صالح مؤمنين ٥ ، ١٣ ; مؤمنين كا اجر ١ ، ٨

يہود : يہود كا ظلم ١٠

ذلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ (٥٨)

يہ تمام نشانياں او رپر از حكمت تذكرے ہيں جو ہم آپ سے بيان كررہے ہيں _

١_ حضرت زكريا (ع) ، حضرت مريم (ع) ،حضرت يحيي (ع) ،حضرت عيسي (ع) اور حضرت عيسي (ع) كے پيروكاروں كى سرگذشت آيات الہى ميں سے ہے اور حكيمانہ وعظ و نصيحت ہے_ذلك نتلوه عليك من الآيات و الذكر الحكيم ''ذلك '' ان لوگوں كى سرگذشت كى طرف اشارہ ہے جن كا ذكر سابقہ آيات ميں ہوچكا ہے_

٢_ پيغمبر اسلام (ص) پر قرآن كريم كى آيات كا الله تعالى كى جانب سے تلاوت كيا جانا _ذلك نتلوه عليك من الآيات

٣_ حضرت زكريا (ع) ،حضرت مريم (ع) ،حضرت يحيي (ع) اور حضرت عيسي (ع) كى سرگذشت كا بيان كرنا پيغمبر اسلام (ص) كے معجزات اور آپ (ص) كى سچائي كى علامتوں ميں سے ہے_

ذلك نتلوه عليك من الآيات يہ اس صورت ميں ہے كہ '' الآيات ''كے لغوى معنى (نشانيوں ) كے پيش نظر اس سے مراد پيغمبر اكرم (ص) كى صداقت كى نشانياں ہوں _

۵۴۵

٤_ '' الذكر ا لحكيم '' قرآن كريم كے ناموں ميں سے ہے_

ذلك نتلوه عليك من الآيات والذكر الحكيم مذكورہ بالامطلب كى تائيد رسول(ص) خدا كى اس روايت سے ہوتيہے كہ جس ميں آنحضرت(ص) نے فرماياكتاب الله هو الذكر الحكيم (١)

٥_ قرآن كريم يادآورى كا باعث ہے_والذكر الحكيم

٦_ قرآن كريم، حكمت سے سرشار كتاب ہے( محكم اور ناقابل خلل)_والذكر الحكيم

٧_ حضرت زكريا (ع) ،حضرت عيسي (ع) ، حضرت يحيي (ع) اورحضرت مريم (ع) كى داستان پورى كى پورى حكمت اور يادآورى كى موجب ہے_ذلك نتلوه عليك من الآيات والذكر الحكيم

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) كى سچائي ٣; آنحضرت(ص) كے معجزے ٣

آيات خدا: ١

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى تاريخ ١ ، ٣ ، ٧;انبياء (ع) كے پيروكار ١

حضرت زكريا (ع) : حضرت زكريا (ع) كا قصہ ١ ، ٣ ، ٧

حضرت عيسي (ع) : حضرت عيسي كا قصہ١ ، ٣،٧;حضرت عيسي (ع) كے پيروكار ١

حضرت مريم (ع) : حضرت مريم (ع) كا قصہ ١، ٣ ، ٧

حضرت يحيي (ع) : حضرت يحيي (ع) كا قصہ ١ ، ٣ ، ٧

حكمت: ٦ ، ٧

قرآن كريم : قرآن كريم كى اہميت ٥;قرآن كريم كى تلاوت ٢ ;قرآن كريم كى خصوصيات ٦; قرآن كريم كے نام ٤

وحى : ٢

يادآورى : يادآورى كے عوامل ٥ ، ٧

____________________

١) الدرالمنثور ج٢ ص ٢٢٧_

۵۴۶

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (٥٩)

عيسى كى مثال الله كے نزديك آدم جيسى ہے كہ انھيں مٹى سے پيدا كيا او رپھر كہا ہوجا او روہ ہوگيا_

١_ حضرت عيسي (ع) اور حضرت آدم(ع) كى خلقت ميں مشابہت_انّ مثل عيسى عند الله كمثل آدم

٢_ حضرت عيسي (ع) اورحضرت آدم(ع) كى خلقت استثنائي تھي_ان مثل عيسى عند الله كمثل آدم

٣_ حضرت عيسي (ع) ، حضرت آدم(ع) كى طرح خداوند عالم كى مخلوق تھے نہ كہ بيٹے_

ان مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب كيونكہ يہ آيت حضرت عيسي(ع) كى داستان كے بعد آئي ہے لہذا يہ عيسائيوں كے نظريہ اور اس كے ردّ كى طرف اشارہ ہوگى جو كہتے ہيں عيسي (ع) باپ نہ ركھنے كى وجہ سے خدا تعالى كے بيٹے ہيں _

٤_ خداوند متعال كا عيسائيوں كے غلط نظريے

(كہ حضرت عيسي (ع) خداوند عالم كے بيٹے ہيں ) كو رد كرنے كيلئے دليل و برہان پيش كرنا_ان مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب

٥_ خداوند عالم نے آدم(ع) كو مٹى سے خلق كيا _خلقه من تراب

٦_ حضرت آدم(ع) كى خلقت كے دو مرحلے تھے ( خاك سے خلق ہونے كا مرحلہ اور امر كا مرحلہ )خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون

٧_ خدا كا قول اور فرمان عين اس كا پيدا كرنا اور ايجاد كرناہے_ثم قال له كن فيكون

٨_ خدا وند عالم نے انسان كو دو پہلو ( مادى اور غير مادي) والا خلق فرمايا _

۵۴۷

خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون '' تراب ''كا لفظ انسان كے مادى پہلو كى طرف اشارہ ہے اور ہونے كا حكم ( كُنْ ) اس كے انسانى پہلو كى طرف اشارہ ہے_

٩_ انسان كے مادى پہلو كى تشكيل اس كے انسانى پہلو كى ايجاد كا پيش خيمہ ہے_خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون جملہ '' خلقہ من تراب'' آدم (ع) كے مادى پہلو كى خلقت سے حكايت كرتاہے كيونكہ ''خلقہ''كى ضمير مفعول آدم (ع) كى طرف لوٹتى ہے لہذا وہ چيز جو ''كُن''كے امر سے وجود ميں آئي وہ آدم(ع) كا انسانى پہلو ہے_

١٠_ انسان كى حقيقت اور اس كى تشكيل ميں اصل شے اس كا غير مادى پہلو ہے_

خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون جب آدم(ع) خاك سے خلق ہوگئے تو انہيں كہا گيا ہوجاؤ ( كن ) گويا اس سے پہلے وہ نہيں تھے كيونكہ انسانى حقيقت نہيں ركھتے تھے_

١١_ حضرت عيسي (ع) حضرت آدم (ع) كى طرح باپ كے بغير پيدا ہوئے_

ان مثل عيسى خلقه من تراب رسول خدا نے فرمايا:''ان عيسي عبد مخلوق ...قالوا:فمن ابوه؟ فقال: قل لهم ما تقولون فى آدم اكان عبداً مخلوقاً؟ ...فقالوا:نعم قال :فمن ابوه فبهتوا فانزل الله ''ان مثل عيسي ...'' بے شك عيسي (ع) خدا كے بندے اور مخلوق ہيں انہوں نے كہا تو اس كا باپ كون ہے ؟ تو فرمايا ان سے كہو آدم(ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو كيا وہ عبد اور مخلوق تھے؟ تو انہوں نے كہا ہاں تو فرمايا ان كا باپ كون ہے؟ تو وہ لاجواب ہوكر رہ گئے تو يہ آيت نازل ہوئي ''انّ مثل عيسي ...'' (١)

استدلال : ٤

انسان : انسانى پہلو ٨ ، ٩ ، ١٠ ;انسان كى خلقت ٨ ، ٩ ، ١٠

حضرت آدم(ع) : حضرت آدم (ع) كى خلقت ١ ، ٢ ، ٥ ، ٦ ، ١١

حضرت عيسي (ع) : حضرت عيسي (ع) اور عيسائي ٤ ;حضرت عيسي (ع) كى خلقت ٣ ;حضرت عيسي (ع) كى ولادت ١ ، ٢ ، ٣ ، ١١

خدا تعالى : خدا تعالى كى خالقيت ٧ ;خدا تعالى كے افعال ٧; خدا تعالى كے اوامر ٧

____________________

١) تفسير قمى ج١ ص ١٠٤ ، نورالثقلين ج١ ص ٣٤٧ ح ١٥٧_

۵۴۸

روايت : ١١

زندگى : زندگى كا تكامل ٦

شخصيت : شخصيت كى تشكيل كے عوامل ٩ ، ١٠

عيسائي : عيسائيوں كے عقائد ٤

قرآن كريم : قرآن كريم كى تشبيہات١ ، ٣

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُن مِّن الْمُمْتَرِينَ (٦٠)

حق تمھارے پروردگار طرف سے آچكا ہے لہذا خبردار اب تمھارا شمار شك كرنے والوں ميں نہ ہو چاہئے _

١_ قرآن كريم ميں حضرت زكريا(ع) ،حضرت عيسي(ع) ، ، حضرت مريم (ع) ،حضرت يحيي (ع) كى داستان اور حضرت آدم(ع) كى خلقت كا بيان حق اور پروردگار كى طرف سے ہے_

الحق من ربّك كلمہ '' الحق '' مبتدا محذوف كے ليئے خبر ہے جو كہ ''ہو''ہے اور اس سے مرادحضرت مريم(ع) اور ان انبياء (ع) كى داستانہے كہ جن كا تذكرہ سابقہ آيات ميں ہوا ہے_

٢_ ہر حق كا سرچشمہ خداوند عالم كى ذات اقدس ہے_الحق من ربك

٣_ حقائق كا بيان خدا وند عالم كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_الحق من ربك

٤_ تربيت و تعمير ، حقائق كے بيان پر موقوف ہے_الحق من ربك

كيونكہ خداوند متعال '' ربّ '' (تربيت كرنے والا) ہے حق كو بيان كرتاہے اس سے تربيت اور حق ميں ارتباط كا پتہ چلتاہے_

۵۴۹

٥_ خدا تعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كو اپنى رسالت ميں قاطع اور دو ٹوك ہونے كا حكم _الحق من ربك فلا تكن من الممترين

٦_ حضرت عيسي(ع) كى خلقت كى كيفيت اور اس كے بارے ميں عيسائيوں كى دروغ بافياں شبہ پيدا كرنے كاپيش خيمہ ثابت ہوئيں _فلا تكن من الممترين جو چيز قرآن كريم كے مخاطبين كے ليئے حضرت مسيح(ع) كے بارے ميں شك و ترديد پيدا كرسكتى ہے وہ حضرت عيسي (ع) كى استثنائي خلقت ہے اور '' انّ مثل ...'' پر توجہ كرنے سے يہ شبہ دور ہوجاتاہے_

٧_ پيغمبر (ص) اكرم شك و ترديد كے خطرے ميں _*فلا تكن من الممترين

چونكہ پيغمبر اكرم (ص) بشر ہيں لہذا يہ حالتيں امكان ركھتى تھيں ليكن خدا وند عالم نے حقائق بيان كركے آنحضرت (ص) سے ترديد كا مورد ہى ختم كرديا_

٨_ اس حقيقت پر توجہ كہ تمام حقائق خداوند عالم كى طرف سے ہيں انسان سے الہى معارف و تعليمات كے بارے ميں شك و ترديد كے اسباب كو ختم كرديتى ہے_الحق من ربك فلا تكن من الممترين

آنحضرت(ص) : ٧ آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ٥

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى تاريخ ١

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ٤

حضرت آدم(ع) : حضرت آدم (ع) كى خلقت ١

حضرت عيسي (ع) : حضرت عيسي (ع) كا قصہ ١ ، ٦

حضرت مريم (ع) : حضرت مريم (ع) كا قصہ ١

حضرت يحيي (ع) : حضرت يحيي (ع) كا قصہ ١

حق : حق كا اظہار ٣ ، ٤; حق كا سرچشمہ ٢ ، ٨

خدا تعالى : خدا تعالى كى ربوبيت ٣ ; خدا تعالى كى نصيحتيں ٥ ;خدا تعالى كے اوامر ٥

۵۵۰

شبہ : شبہ كا پيش خيمہ ٦

علم : علم كے اثرات ٨

عيسائي : عيسائيوں كے عقائد ٦

قاطعيت قاطعيت كى اہميت ٥

قرآن كريم : قرآن كريم كے قصص ١

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (٦١)

پيغمبر علم كے آجانے كے بعد جو لوگ تم سے كٹ حجتى كريں ان سے كہہ ديجئے كہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند ،اپنى اپنى عورتوں اور اپنے نفسوں كو بلائيں او رپھر خدا كى بارگاہ ميں دعا كريں او رجھوٹوں پر خدا كى لعنت قرا رديں _

١_ عيسائيوں كے خلاف دليليں قائم كرنے كے بعدآنحضرت (ص) كو انہيں مباہلہ كى دعوت دينے كا حكم _

ان مثل عيسى فمن حاجّك فقل تعالوا ثمّ نبتهل

٢_ وحى كے ذريعے حضرت عيسي (ع) اورحضرت مريم (ع) كى

داستانكے بيان ہونے كے بعدآنحضرت (ص) كا اس سے مطلع ہونا_فمن حاجك فيه من بعد ما جاء ك من العلم

٣_ حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں نصاري كے گمان باطل كو آنحضرت (ص) كى طرف سے دليل كے

۵۵۱

ذريعے رد كيا جانا_ان مثل عيسي فمن حاجك فيه من بعد ما جائك من العلم

٤_ حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں دليل قائم كرنے كے باوجود نصاري نے آنحضرت (ص) كے ساتھ، ضد اور ہٹ دھرمى كا مظاہرہ كيا _فمن حاجك فيه من بعد ما جاء ك من العلم فقل تعالوا

٥_ دليل قائم كرنے كے بعد اثبات حق كے لئے نتيجہ بخش راستہ مباہلہ ہے_ان مثل عيسي فمن حاجك فيه من بعد جاء ك من العلم فقل تعالوا اس مطلب ميں ''فيہ '' كى ضمير ''الحق '' كى طرف لوٹائي گئي ہے

٦_ مباہلہ ميں حق كے مقابل كے بارے ميں نفرين و بد دعا كى قبوليت كى ضمانت فراہم كى گئي ہے_

فمن حاجك فقل تعالوا نبتهل فنجعل لعنت الله على الكاذبين

٧_ مباہلہ كے اقدام كرنے كى شرط علم و يقين ہےفمن حاجك فيه من بعد ما جاء ك من العلم فقل تعالوا ثم نبتهل

خداوندعالم نے جب آنحضرت (ص) كو حقائق سے آگاہ فرما ديا (جاء ك من العلم ) توآپ(ص) كواس مورد ميں مباہلہ كا حكم ديا _

٨_ دشمن كى حق كے مقا بلے ميں ہٹ دھرمي، ان كو مباہلہ كى دعوت كى شرط ہے_فمن حاجك فقل تعالوا ثم نبتهل

٩_ آنحضرت (ص) كو ماموريت دى گئي كہ نصاري كو مباہلہ كى دعوت ديں اس طرح كہ اس ميں طرفين كى خواتين اور بيٹے بھى شريك ہوں _فمن حاجك فقل تعالوا ندع ابناء نا و ابناء كم و نساء نا و نساء كم

١٠_ مباہلہ كااس وقت وقوع پذير ہونا جب مباہلہ كرنے والا اور اس كے نزديك ترين افراد;بيٹے ، مرد اور خواتين شركت كريں _*فمن حاجك ...فقل تعالو ا ندع ابنا ء نا ثم نبتهل

١١_ آيہ مباہلہ ميں '' ابنا ء نا '' كا واحد مصداق امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) ہيں _

ابناء نا و ابناء كم تاريخ كى مسلم حقيقت ہے كہ آنحضرت (ص) مباہلہ ميں شركت كے لئے امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كو لے گئے _ پس ''ابناء نا'' سے مراد يہ دو

۵۵۲

ہستياں ہيں _ اس مطلب كى تائيد امام كاظم (ع) كى ايك روايت بھى كرتى ہے _ آپ(ص) نے فرمايا الله تعالى كے اس قول ''ابنائنا'' كى تاويل حسن (ع) اور حسين (ع) ہيں (١)

١٢_ انسان كا نواسہ اس كابيٹا ہے _ابناء نا و ابناء كم كيونكہ امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) آنحضرت (ص) كى بيٹى كے بيٹے اور ''ابناء نا'' كے مصداق ہيں _

١٣_ حضرت زہرا (سلام الله عليہا ) كى انتہائي عظمت_نساء نا و نساء كم مباہلہ ميں تمام خواتين ميں سے پيغمبر اسلام صلى الله عليہ و آلہ و سلم فقط حضرت فاطمہ زہرا (سلام الله عليہا ) كو لے گئے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے ''نساء نا '' سے مراد حضرت زہرا (ع) ہيں اور چونكہ جمع كا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے بى بى (ع) كى عظمت معلوم ہوتى ہے _ اس كى تائيد امام رضا (ع) كى ايك روايت سے ہوتى ہے كہ : وعنى بالنساء فاطمة عليہا السلام _ يعنى النساء سے مراد حضرت فاطمہ (ع) ہيں _ (٢)

١٤_ حضرت على (ع) پيغمبر اسلام (ص) كے نفس اور انتہائي با عظمت مقام و منزلت كے مالك ہيں _

و انفسنا و انفسكم تاريخ كامسلّمہ امر ہے كہ مباہلہ كے شركت كرنے والوں ميں سے على عليہ السلام بھى تھے اور ''انفسنا'' كى تاويل على ابن ابى طالب (ع) ہيں اس كى تائيد بہت سى روايات سے ہوتى ہے ان ميں سے ايك روايت امام كاظم (ع) سے ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا:فكان تاويل قوله تعالى (و انفسنا) على بن ابى طالب(ع) يعنى الله تعالى كے اس فرمان ( وا نفسنا) كى تاويل على ابن ابى طالب (ع) ہيں (٣)

١٥_ اہم معاشرتى مسائل ميں مردوں كے شانہ بشانہ خواتين كى شركت بھى جائز ہے _و نساء نا و نساء كم

١٦_حق كے مقابل ہٹ دھرمى اور اس كو جھٹلانا الله تعالى كى لعنت و نفرين كے استحقاق كاسبب بنتا ہے _

فمن حاجك فنجعل لعنة الله على الكاذبين

____________________

١) عيون اخبار الرضا (ع) ج ١ ص ٨٥ ح ٩ ب ٧، نور الثقلين ج ١ ص ٣٤٨ح ١٦٢_

٢) عيون اخبار الرضا (ع) ج ١ ص ٢٣٢ح١ ب ٢٣، نور الثقلين ج ١ ص ٣٤٩ح ١٦٣_

٣) عيون اخبار الرضا (ع) ج ١ ص ٨٥ح٩ ب ٧ ، نور الثقلين ج ١ ص ٣٤٨ح ١٦٢_

۵۵۳

١٧_ نصاري با وجود اس كے كہ حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں الوہيت اور آپ(ع) كے فرزند خدا ہونے كا دعوي كرتے تھے ليكن خود اس بارے ميں عقيدہ نہ ركھتے تھے_ان مثل عيسى فنجعل لعنة الله على الكاذبين

''الكاذبين'' سے مراد عيسائي ہيں _ان كو ''كذب'' كى نسبت دينا اس بات كى علامت ہے كہ وہ لوگ خود اس دعوي پر اعتقاد نہ ركھتے تھے _

١٨_ نصاري كے ساتھ مباہلہ ميں الله تعالى نے آنحضرت (ص) كى قطعى و يقينى مدد و نصرت كا وعدہ فرمايا_

فنجعل لعنة الله على الكاذبين مباہلہ كى تجويز آنحضرت (ص) كى جانب الله تعالى كى طرف سے آئي اس بات كا لازمہ پيغمبر اسلام (ص) كى نصرت كرنا ہے _

١٩_ مباہلہ اس وقت وقوع پذير ہوتا ہے جب مباہلہ كرنے والے شريك ہوجائيں اور باطل كى نابودى كے لئے الله تعالى سے لعنت كى درخواست كريں _ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين

٢٠_ پيغمبر اسلام (ص) نے يہوديوں كو مباہلہ كى دعوت ديفقل تعالوا ندع ابناء نا

تفسير الميزان ميں ابن جرير سے نقل كيا ہے كہ جب آيہ مجيدہ '' فمن حاجك فيہ ...'' نازل ہوئي تو آنحضرت (ص) نے يہود كو مباہلہ كى دعوت دى _

٢١_ مباہلہ ميں پيغمبر اسلام (ص) كے ساتھى ( حضرت على (ع) ، حضرت فاطمہ (ع) ، امام حسن (ع) ، امام حسين (ع) ) عزيزترين اور برترين انسان ہيں _ندع ابناء نا و ابناء كم ونساء نا و نساء كم و انفسنا و انفسكم

امام رضا عليہ السلام سے روايت ہے :فبرز النبي(ص) علياً و الحسن و الحسين و فاطمة صلوات الله عليهم فهذه خصوصية لايتقدمهم فيها احد و فضل لا يلحقهم فيه بشر _ پس نبى (ص) على ، حسن ، حسين اور فاطمہ صلوة الله عليہم كو لے كے نكلے يہ ايسى خصوصيت ہے كہ اس ميں كوئي بھى ان ہستيوں سے آگے نہيں ہے اور نہ ہى كوئي بشر اس فضيلت ميں ان كے ساتھ شامل ہوسكتاہے_ (١)

٢٢_ دعا ميں '' ابتھال'' كامعنى ہاتھوں اور كہنيوں كو كھولنا اور آسمان كى طرف بلند كرنا ہے _ثم نبتهل

____________________

١) عيون اخبار الرضا (ع) ج ١ ص ٢٣٢ح ١ ب ٢٣، نور الثقلين ج ١ ص ٣٤٩ ح١٦٣_

۵۵۴

امام صادق (ع) فرماتے ہيں :والابتهال تبسط يديك وذراعيك الى السماء (١) ابتہال سے مراد يہ ہے كہ تو اپنے ہاتھوں اور كہنيوں كو آسمان كى طرف بلند كرے_

٢٣_ اگر مباہلہ واقع ہوجاتا تو نصاري كے نمائندوں پر آسمان سے آگ كى بارش نازل ہوتى _

ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين نصاري بخران كى نمائندگى ميں عاقب اور طيب پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے ...اور جب وہ مباہلہ كے لئے تيار نہ ہوئے تو آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمايا ''والذى بعثنى بالحق نبيّا لو فعلا لامطر عليهما الوادى ناراً (٢) اس ہستى كى قسم جس نے مجھے حق كے ساتھ مبعوث فرماياہے اگر يہ مباہلہ كرتے تو ان پر آگ كى بارش برستي_

آنحضرت(ص) : آنحضرت اور عيسائي ٤ ، ٩ ، ١٨ ;آنحضرت اور يہود٢٠ ;آنحضرت(ص) كا استدلال ٣ ;آنحضرت كاعلم ٢ ; آنحضرت كا مباہلہ ١ ، ٩ ، ١١ ، ١٨، ٢٠ ،٢١، ٢٣

آگ : آگ كى بارش ٢٣

احكام : ١٢،١٥

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ١،٩،٢٠

اہل بيت (ع) : اہل بيت (ع) كے فضائل ١١،١٣،١٤،٢١

باطل عقائد :٣

بيٹى كى اولاد : ١٢ حضرت حسن ابن على (ع) : ١١،٢١ حضرت حسين ابن على (ع) :١١، ٢١

حضرت على (ع) ٢١ : حضرت على (ع) كا مقام و مرتبہ ١٤

حضرت عيسي (ع) : ٤ حضرت عيسى (ع) كا ايمان ١٧ ; حضرت عيسي (ع) كا قصہ ٢

حضرت فاطمہ زہرا (ع) : ٢١ حضرت فاطمہ كے فضائل ١٣

حضرت مريم(ع) : حضرت مريم (ع) كاقصہ ٢

____________________

١) كافى ج ٢ ص٤٨٠ ح ٤، نور الثقلين ج ١ ص ٣٥٠ح ١٧١_

٢) مناقب ابن المغازلى ص ٢٦٣( طبع اسلاميہ ) ١٤٠٣ قمرى ہجري_

۵۵۵

حق: حق ثابت كرنے كے طريقے ٥ ;حق چھپانے كے اثرات ١٦ ;حق كو جھٹلانا ١٦ ; حق كے مقابلے ميں ہٹ دھرمى ١٦

خدا تعالى: خدا تعالى كى لعنت ١٦، ١٩;خدا تعالى كى مدد ١٨ ; خدا تعالى كے اوامر ١ ، ٩ ; خدا تعالى كے وعدے ١٨

دشمن: دشمنوں كى ضد و ہٹ دھرمي٨

دعا : دعا كے آداب ٢٢

دليل وبرہان : ٥

روايت : ١١، ١٤،٢١،٢٢،٢٣

شناخت و معرفت : شناخت كے ذرائع ٢

عورت: معاشرے ميں عورت ١٥; مباہلہ ميں عورت ٩

عيسائي ١،٤،٩،١٨ عيسائيوں كے عقائد ٣،١٧ بخران كے عيسائي ٢٣

لعنت ١٩ لعنت كے اسباب ١٦

نفرين : نفرين كا قبول ہو نا ٦

مباہلہ: ١ ، ٩ ، ١١ ، ١٨ ، ٢٠ ، ٢١ ، ٢٣ عيسائيوں كے ساتھ مباہلہ ١ ، ٩ ، ١٨ ;مباہلہ كا قبول ہونا ٦ ;مباہلہ كى اہميت ٥ ;مباہلہ كى شرائط ٧ ، ٨ ، ١٠ ، ١٩ ; مباہلہ ميں يقين و علم ٧ معاشرہ :١٥

وحى : وحى كى اہميت ٢

يہود :٢٠

۵۵۶

إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلاَّ اللّهُ وَإِنَّ اللّهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (٦٢)

يہ سب حقيقى واقعات ہيں اور خدا كے علاوہ كوئي دوسرا خدا نہيں ہے اور دہى خدا صاحب عزّت و حكمت ہے_

١_ حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں صرف وہ حق ہے جو كچھ قرآن كريم ميں بيان ہوا ہے نہ كہ وہ جو عيسائي سمجھتے ہيں _

ان هذا لهو القصص الحق

حصصر ضمير فصل (لہو) سے سمجھا گيا ہے اور اس جملہ ميں قصر قصر قلب ہے _

٢_ انبياء (ع) كے بارے ميں جو واقعہ بھى توحيد كے منافى ہو وہ باطل اور گھڑا ہوا ہے_

انّ هذا لهو القصص الحق و ما من اله: الا الله شرك كى نفى جو كہ جملہ '' و ما من الہ الاّ اللہ''سے استفادہ ہوتى ہے حضرت عيسي (ع) كے بارے ميں نصرانيوں كے دعووں كے جھوٹا ہونے كى علت كا بيان ہے اور نيز انبياء (ع) سے مربوط تمام داستانوں كے ليئے معيار بھى ہے_

٣_ غير خدا كى الوہيت كى نفى _و ما من اله الاّ الله

٤ حضرت مسيح(ع) كى الوہيت كى نفي_ان مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ما من اله الا الله

٥_ الوہيت، صرف خدا تعالى كے شايان شان ہے_و ما من اله الا الله

٦_ نصرانى حضرت عيسي(ع) كى الوہيت كے مدعّى ہيں اور خدا تعالى كى طرف سے ان كے دعوى كى نفى _

ان مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب و ما من اله الا الله

جملہ ''و ما من اله الا الله ''جو الوہيت كو خدا تعالى ميں منحصر كررہاہے سابقہ آيات كے قرينہ سے عيسائيوں كے ليئے بھى كنايہ ہے_

٧_ خدا وند متعال ، عزيز اور حكيم ہے_و ان الله لهو العزيز الحكيم

۵۵۷

٨_ عزت ( غلبے و الا ہونا ) اور حكمت خدا وند عالم كى ذات ميں منحصر ہے_و ان الله لهو العزيز الحكيم

٩_ ايسا عزيز جو حكيم ہو صرف خداوند عالم كى ذات ہے_و ان الله لهو العزيز الحكيم يہ اس صورت ميں ہے كہ عزيز كے ليئے حكيم صفت ہو اس كا مطلب يہ نكلے گا كہ وہ عزيز جو كہ حكيم بھى ہو صرف خدا ہے_

١٠_ عزت او ر حكمت مطلقہ الوہيت كا معيار ہےو ما من اله الا الله و ان الله لهو العزيز الحكيم

جملہ '' و ان اللہ '' '' ما من الہ ...'' كے ليئے علت كا بيان ہے_

اسماء و صفات : حكيم ٧ ، ٨ ، ٩ ، عزيز ٧ ، ٨ ، ٩

الوہيت : الوہيت كے معيار ات ١٠

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى تاريخ ٢

توحيد : ٢ توحيد ذاتى ٣ ، ٥

حضرت عيسي (ع) : ١ ، ٤ حضرت عيسي (ع) اور عيسائي ٦

حكمت : ١٠

شرك : شرك كى نفى ٣ ، ٤

عزت : ١٠

عقيدہ : باطل عقيدہ ٢ ،عقيدہ صحيح ہونے كے معيارات ٢

عيسائي : ٦ عيسائيوں كے عقائد ١ ، ٦

قرآن كريم : قرآن كريم كے قصّے ١

۵۵۸

فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ (٦٣)

اب اس كے بعد بھى يہ لوگ انحراف كريں توخدا مفسدين كو خوب جانتا ہے_

١_ خدا وند عالم كى يہ پيشگوئي كہ نصاري نجران مباہلہ كى دعوت قبول نہيں كريں گے*فقل تعالوا ندع فان تولّوا فانّ الله عليم بالمفسدين ظاہراً '' فان تولّوا ...''اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ عيسائي مباہلہ كى دعوت كو قبول نہيں كريں گے_

٢_ نصاري نجران كو توحيد قبول نہ كرنے پر خداوند متعال كا دھمكى دينا _و ما من اله الا الله فان تولّوا فان الله عليم بالمفسدين انكى مخالفت اور گناہ كے بيان كرنے كے بعد خدا تعالى كے علم كى طرف توجہ دلانامخالفت كرنے والوں كے ليئے دھمكى ہے_

٣_ فسادكرنے والوں كو خدا تعالى كى دھمكي_فانّ الله عليم بالمفسدين

٤ توحيد سے روگردانى ( شرك) فساد برپا كرنا ہے_فانّ تولّوا فانّ الله عليم بالمفسدين

٥_ فسادى خدا تعالى كے احاطہ علمى ميں ہيں _فانّ الله عليم بالمفسدين

٦_ نصرانيوں كا ہميشہ فساد بر پا كرنا _فانّ الله عليم بالمفسدين

يہاں پر فساد كرنے والوں كا مصداق نصرانى ہيں اور ''مفسدين '' كى اصطلاح ايك دفعہ فساد برپا كرنے كے ساتھ مناسبت نہيں ركھتى بلكہ استمرار و دوام ميں ظہور ركھتى ہے_

٧_ حضرت مسيح(ع) كى الوہيت كا عقيدہ ركھنا اور توحيد كو نہ ماننا، فساد و تباہى برپا كرنے كا نتيجہ ہے_*

فانّ تولّوا فانّ الله عليم بالمفسدين احتمال ہے كہ كلمہ '' المفسدين'' شرك كى

۵۵۹

علت اور بنياد كى طرف اشارہ ہو_

٨_ نصاري نجران كے علماء فسادى ، مشرك، جھگڑا لو ، حق نہ ماننے والے اور خدا تعالى كى دھمكى كا مورد تھے_

فمن حاجك فان تولّوا فان الله عليم بالمفسدين اس آيت كے شان نزول ميں ہے كہ يہ آيت علمائے نجران كے بارے ميں نازل ہوئي_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كا مباہلہ ١

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ١

اہل كتاب : اہل كتاب كے علماء ٨

حضرت عيسي (ع) : ٧

حق ماننا : حق ماننے كے موانع ٧

خدا تعالى : خدا تعالى كا احاطہ ٥ ;خدا تعالى كا علم ٥;خدا تعالى كى دھمكياں ٢ ،٣ ، ٨

شرك : شرك كے عوامل ٤ ، ٧

عيسائي: عيسائيوں كا فساد برپا كرنا ٦; عيسائيوں كى ہٹ دھرمى ٨ ; نجران كے عيسائي ١ ، ٢ ، ٨

فساد: فساد كے اثرات ٧ ;فساد كے موارد ٤

قرآن كريم : قرآن كريم كى پيشگوئي ١

مشركين ٨

مفسدين ٥ ، ٦ ، ٨ مفسدين كو دھمكى ٣

۵۶۰