تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172832 / ڈاؤنلوڈ: 6319
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ب۔ صبر کے درجات:

بعض علماء اخلاق اور اہل معرفت نا گوار امور پر صبر کرنے ( صبر خاص )کے لئے تین درجوں کے قائل ہوئے ہیں۔

١۔ تائبین کا صبر: اوراس سے مراد ہے شکوہ کا ترک کرنا، بے تابی اور بے قراری کا ثبوت نہ دینا، اور غیر فطری اور پریشان کن رفتارنہ رکھنا۔

٢۔ زاہدین کا صبر: یعنی اول درجہ کے علاوہ جوسختیاں، درد والم انسان کے لئے مقدر ہوئی ہیں ان پر قلبی طور سے راضی ہونا۔

٣۔ صدیقین کا صبر: یعنی پہلے دودرجہ کے علاوہ نسبت اس چیز سے جو خدا وند عالم نے اس کے لئے معین کر رکھا ہے، عشق کرنا اور اسے دوست رکھنا ۔(١)

ج۔ صبر کی اہمیت:

کلمہ ''صبر ''مختلف صورتوں میں سو بار سے زیادہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے کہ جس سے خود ہی اس موضوع کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم بعض بنی اسرائیل کی ہدایت وپیشوائی کے منصب تک پہونچنے کی علت کے بیان میںفرماتا ہے: ''اور جب انہوں نے صبر کیا اس حال میں میری آیتوں پر یقین رکھتے تھے تو ہم نے ان میں سے بعض کو پیشوا قرار دیا کہ وہ ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے''۔(٢) اور آخرت میں صابروں کی کیفیت جزا کے بارے میں ایک جگہ پر ان کے عمل سے بہتر جزا کا وعدہ دیتا ہے: ''یقینا ً جن لوگوں نے صبر کیا تو جو انہوں نے عمل کیا ہے ہم انھیں اس سے بہتر جزا دیں گے''۔ ٣)

دوسری آیت میں صابروں کی مقدار جزا کی تعیین کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے: ''وہ لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا اور نیکیوں سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیںروزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ دہر ی جزا پائیں گے''۔(٤)

____________________

١۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ٢٨٤۔

٢۔ سجدہ ٢٤۔

٣۔ نمل ٩٦۔

٤۔ قصص ٥٤۔

۱۶۱

دوسری جگہ پر اعلان کرتا ہے کہ صابروں کا اجر اور ان کی جزابے حد اور ناقابل شمار ہے اور وہ لوگ بے حساب جزا پائیں گے: ''بے شک صابرین اپنی جزا بے حساب پوری پوری پائیں گے''۔(١) اسی طرح خداوند عالم نے صابروں کو ہمراہی کا وعدہ دیا ہے: '' صبر کروکیونکہ خدا صابروں کے ساتھ ہے ''۔(٢ ) وہ نصرت اور کامیابی کو صرف اور صر ف صبر و شکیبائی کے سایہ ممکن جانتا ہے''۔(٣) ہدایت، درود اور رحمت پروردگار کو صابروں کے حق میں قرار دیتا ہے۔(٤) صابروں کو اپنے دوستوں اور محبوبوںکے زمرہ میں بیان کرتا ہے۔(٥) بارہا اور بارہا اپنے رسولوںاور تمام انسانوں کو صبر کی تاکید کرتا ہے۔(٦) اپنے خاص بندوں کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ خداوند سبحان سے صبر و شکیبائی کی توفیق کی درخواست کرتے رہے ہیں۔(٧) اس کے علاوہ مزید اور دسیوںمورد ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میںصبر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں: ''صبر ایمان کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو جسم کے لئے سر کی حیثیت ہے، جس طرح سر کے نہ ہونے سے جسم کا خاتمہ ہوجاتاہے اسی طرح اگر صبر نہ ہوتوایمان بھی جاتارہے گا ''۔(٨) حضرت امام محمد باقر ـ سے صبر کی اہمیت کے بارے میں نقل ہوا ہے : '' جنت نا گواریوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا جو بھی دنیا میں نا گوارچیزوں پر صبر کرے وہ بہشت میں جائے گا۔ اور دوزخ نفسانی خواہشات اور لذّات میں گھری ہوئی ہے، لہٰذا جو بھی نفسانی خواہشات ولذات کی تکمیل کرے گا، وہ جہنم میںجائے گا ''۔(٩)

____________________

١۔ زمر ١٠۔

٢۔ انفعال ٤٦۔

٣۔ آل عمران ١٢٥۔

٤۔ بقرہ ١٥٧۔

٥۔ آل عمران ١٤٦۔

٦۔ احقاف ٣٥۔

٧۔ بقرہ ٢٥٠ ؛ اعراف ١٢٦۔

٨۔ کلینی، کافی ج ٢، ص٨٩، ح ٥۔

٩۔ ایضاً، ح٧۔

۱۶۲

د۔ صبر کے فوائد:

صبر کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد شمار کئے جاسکتے ہیں، منجملہ ان کے حضرت علی ـ بعض گذشتہ امتوں کی عزت وذلت کے بارے میں اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ''جب خدا نے دیکھا کہ وہ کس طرح اس سے دوستی کی راہ میں اذیت و آزار پر صابر ہیں اور اس کے خوف سے نا گواریوں پر صبر و تحمل کرتے ہیں تو اس نے انھیں گرداب بلا سے نکال کر گشائش عطا کی، اور ذلت و خواری کے بعد انھیں با آبرو بنایا اور سکون و اطمینان کو خوف کا جا گزیں بنادیا۔ پھر وہ حکمراں بادشاہ اور باعظمت و شان پیشوا ہوگئے اور خدا کی کرامت ان کے حق میں یہاںتک پہنچ گئی کہ دیدۂ آرزو ان کے آخری درجہ کہ وہ اس جگہ پہونچا ان کی نگاہ اور اس کی انتہا کو نہ دیکھ سکی''۔(١)

بعض علماء اخلاق نے صبر کو مقدّرات الٰہی پر راضی رہنے کے مقام رضایت تک پہونچنے کا دروازہ قراردیا ہے، اور مقام رضا کو محبت پروردگار کی وادی تک پہونچنے کا دروازہ جانا ہے۔(٢) اس لحاظ سے صبر کے اہم فوائد میں سے اسی دنیا میں مقام '' رضا '' و'' محبت '' تک رسائی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

''صبر '' کے لئے دیگر متعدد موضوعات بھی قابل ذکر ہیں، جیسے صبر و شکر میں مناسبتیں، صبر کے حصول کی راہیں اور اس کے مانند دوسرے موضوعات کہ اختصار کے پیش نظر ان کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص ٢٨٣۔

۱۶۳

تیسرا باب :

اسلام کی نظر میں اخلا قی تر بیت

پہلی فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

مقدمہ:

اخلاق اسلامی کے اصول اور مفاہیم سے آشنائی کے بعد یہ بات مناسب ہے کہ اپنے آپ سے سوال کریں '' نا مطلوب موجود '' کی حالت کو کس طرح '' ناموجود مطلوب '' سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ واضح عبارت میں اخلاقی تربیت کے طریقے کیا ہیں ؟

تربیتی طریقے، کبھی خود تربیتی اپنے ( لئے تربیتی) ہیں تو دیگر تربیتی کبھی دوسرے کے( لئے تربیتی) ہیں، کبھی قولی ہیں تو کبھی عملی، کبھی سلبی ( روکنے والے ) ہیں اور کبھی ایجابی (اصلاحی )، کبھی عام( یعنی تمام سن کے مراحل کے لئے ) ہیں اور کبھی خاص۔ رفتار کے مبادی(١) کے پیش نظر ان اخلاقی تربیت کی روشوں کو جو رفتار یا اس کے مبادی یعنی ابتدائی مرحلوں سے تعلق رکھتی ہیں، تین چیزوں: شناخت، سبب اور رفتار کے اعتبار سے مورد توجہ قرار دیں گے اور تفصیل سے آئندہ مباحث کے ضمن میں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ چونکہ علوم تربیتی کی اصطلاحا ت (منجملہ اصول، روشیں، اہداف و مقاصد وغیرہ وغیرہ ) کی دقیق تعریف محل اختلا ف ہے اور ان کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں لہٰذا یہاںپر اس کتاب میں مورد نظر تعریف کی طرف اشارہ کریں گے۔ ''روش'' (طریقہ) سے مراد وہ کلی قوانین ہیں کہ ہر ایک جدا گانہ طور پر یا دوسری روشوں کی مدد سے مقصد تک پہنچانے کی خصوصیت کی حامل ہیں۔ ہر روش کے تحقق کیلئے ممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے مختلف اسلوب اور متعدد فنون پائے جاتے ہوں جو روشوں کی نسبت جزئی تر قوانین کا مقصود ہیں۔

____________________

١۔گذشتہ علماء کے نظریات کے مطابق مبادی رفتار اس طرح ہیں: فائدہ کا تصوّر، اس کی تصدیق، شوق موکد۔ معاصر ماہرین نفسیات نے اس سے مشابہ ایک دوسری ترکیب پیش کی ہے ؛ وہ اس طرح ہے: شناخت، باعث اور عملی توانائی۔

۱۶۴

روشوں کے بیان میں ایک عقلی ترتیب پائی جاتی ہے کہ آسان تر دیگر تربیتی روشوں سے شروع ہوتی ہے اور مشکل تر خود تربیتی روشوں پر ختم ہوتی ہے۔ یہ عقلی ترتیب انسان کے اخلاقی اور نفسیاتی رشد سے بھی منطبق ہے اور اسلام کی تربیتی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے۔

ہر روش کو اس کی تعریف اور توضیح سے شروع ہے اور بعد کے مرحلہ میں آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا استناد اسلام سے ثابت کیا گیاہے پھراس کے بعد ( یا اس کے ضمن میں ) نفسیات کے علمی مطالعہ سے استفادہ کرتے ہوئے روش کی توضیح وتکمیل کی گئی ہے، یعنی نفسیات میں کون سے نظری اصول ومبانی کے ذریعہ اس روش کا دفاع کرسکتے ہیں اور اخلاقی تربیت میں اس کی تاثیر ثابت کی جاسکتی ہے، یہاں پر نفسیات کے اہم ترین نظریوں کے متعلق جو کہ تربیت اخلاقی سے مربوط ہیں بحث کی جارہی ہے۔

طریقے

١۔ تربیت کے لئے مناسب ماحول بنانا

انسان کی تکوین اور تغییر کا اہم ترین عامل مختلف ما حول کے حالات ہیں خواہ وہ زمانی یا مکانی یا اجتماعی ماحول ہو۔ بہت سے مقامات میں ماحول کی ترمیم واصلاح سے تربیت کے لئے مساعد اورسازگار ماحول فراہم کرکے جس کی تربیت کی جاتی ہے اس کی عادتوں، خصلتوں، افکار اور رفتار کو بدلا جا سکتا ہے اور جدیدخصوصیات کو اس کا جاگزین بنایا جا سکتا ہے، اس روش کی نفسیاتی بنیاد اس ماحول کے حالات سے انسان کے متاثر ہونے کی اصل ہے جو ماحول سازی ( بعض رفتار کی ہمراہی اور ہمنوائی بعض دیگر کے ساتھ ان کے ثابت کرنے کا باعث ہوتی ہے)، فعّال وکردار ساز ماحول سازی ( ایک ماحول میں خاص طرز عمل ورفتار پر جزا دی جاتی ہے ) یا اجتماعی تعلّم وتربیت ( رفتارکے مشاہدہ سے خاص نمونوں کی پیروی) کے نظریات کے بیان ہوتی ہے ضمن میں یہ روش خاص طور سے دوسروں کے ذریعہ اور انسان کے اولیاء کے ذریعہ بروئے کار لائی جاتی ہے، لیکن انسان خود بھی کسی حد تک موثر ہوسکتا ہے، اس روش کو وجود میں لانے کے جو طریقے لازم ہیں وہ ترتیب وار یہ ہیں:

۱۶۵

مقدمہ سازی، نمونہ سازی، ماحول کو صحیح و سالم بنانا اور حیثیت اور ماحول کو بدلنا۔

الف۔ مقدمہ سازی:

اس سے مراد یہ ہے کہ مناسب ماحول فراہم کرکے اخلاقی فضائل کے وجود میں آنے کا امکان اعلی حد تک فراہم کریں اور اس کے برعکس ایسے مقدّمات جو کہ منفی رخ رکھتے ہیں اور اخلاقی رذائل پیدا کرسکتے ہیں، ان کے وجود ہیں آنے کی روک تھام کریں، اس حصہ میں اسلام کی ہدایات قابل توجہ ہیں۔

ایک۔زوج یا زوجہ کے انتخاب میں کہ جو خاندان کا ایک رکن ہے، اس کے اخلاقی فضائل پر توجہ دینی چاہیے، انظر فی ای شی تضع ولدک فان العرق دساس(١) اس کے مقابل ایسے افراد جو غیر شائستہ گھرانے کے پروردہ ہیں، یاکم عقل اور احمق ہیں تو ایسے لوگوں سے شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔

حضرت امیرا لمومنین علی ـنے جومالک اشتر کو خط لکھا ہے اس میں اس کا رساز عنصر کی اس طرح تصریح فرمائی: ''ضروری ہے کہ اداری امور میں با فضیلت افراد سے استفادہ کرو ، وہی لوگ کہ جو نیک اور شریف خاندان سے ہوں اور اچھے ماضی اور نیک نامی کے ساتھ زندگی گذارچکے ہوں، جو لوگ عقل و ہوش، شجاعت و بہادری کے مالک، سخی اور بلند ہمت ہیں، وہ کرم کامرکز اور نیکی و فضیلت کا سرچشمہ ہیں''۔(٢)

لہٰذا ایسی اولاد جو شائستہ ماں اور با فضیلت باپ کی حمایت کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں اہم ترین مقدّمہ ساز عنصر ما حول اور تربیت کے لحاظ سے ان کا مددگار ہے۔(٣)

دو۔ اچھے نام کا انتخاب اولاد کا والدین پر جوحق ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے یہ ہے کہ۔''ہر انسان کی سب سے پہلے نیکی اس کے فرزند کے حق میںاس کا اچھا نام رکھنا ہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہیے کہ اپنے فرزندوں کا اچھا نام رکھو''۔ ( اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ)۔(٤)

نیک اور شائستہ نام تربیتی اور نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور انسان کی صلاح و فلاح نیز خوبیوں کو فراہم کرنے کا مقدّمہ ہے یا پھر اسے فرو مائگی اور پستی کی سمت لے جاتا ہے۔ ( الاسم یدل علی المسمی ) ۔

____________________

١۔ فلسفی، کودک، ج ١، ص ٦٤۔ حسن الاخلاق، برہان کرم الاعراق، افراد کی اخلاقی خصلتیں خاندان کی پاکیزگی اور فضیلت کی دلیل ہیں، غرر الحکم۔٢۔ نہج البلاغہ، نا مہ ٥٣۔ ٣۔ جنٹک کے علاوہ کہ جن کا ذکر فی الحال مقصود نہیں ہے۔٤۔ وسائل الشیعہ: ج ١٥، ص ١٢٢۔

۱۶۶

٣۔ محل زندگی کا انتخاب (ملک، شہر یا دیہات، محلہ اور پڑوسی کا انتخاب) بھی مقدّمہ ساز عنا صر میں ہے۔ اسی طرح محل تحصیل، کام کاج، احباب اور معاونین سب ہی ( تربیت کی ) راہ ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔(١)

ب۔ نمو نہ سازی :

کہا جا سکتا ہے کہ ہر ماحول کو بنا نے والے اس سماج اور ماحول برگزیدہ اور سر بر آور دہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذ ایک اچھے تر بیتی ماحول کی ایجاد کا ایک طریقہ اس ماحول میں اچھے نمونوں کو وجود میں لانا ہے اور برے نمونوں دور کر نا ہے۔ سماج میں پسندیدہ اور محبوب نمونہ خود بخود اس ماحول میں رہنے والوں کو ان کی طرف کھینچ لا تاہے اور ان کے مکارم اخلاق کو دوسرے لوگ نمونہ بنالیتے ہیں۔

آلبرٹ بنڈورا (١٩٧٨) کہ جو اجتماعی تعلّم کے نظریہ کا واضع ہے۔ تعلّم (سیکھنے) کا سب سے اہم طریقہ مشاہداتی تعلّم کو جانتا ہے کہ وہی تقلید یا نمونہ کا اختیار کرنا ہے انسان ایک نمونہ یا سر مشق کا انتخاب کرکے اس کے عمل کی تقلید کرنے لگتا ہے۔ بنڈ ور ا اس طرح کے تعلّم کو چار مر حلہ میں تو ضیح دتیا ہے: مر حلہ توجہ، حا فظہ کے حوالے کرنا، دوبارہ تخلیق اور سبب ومحرّک۔ ممتا ز صفات، عطو فت ومہر بانی کا بار، پیچید گی، برجستگی اور استعمالی اہمیت نمونہ میں اور حسّی ظرفیت، ابھارنے کی سطح، درک کرنے کی آماد گی اور گزشتہ تقویت مشا ہدہ کر نے والے کے اندر نمونہ شخص کے عمل سے منطبق نتیجۂ عمل کی مدد کرتی ہے۔(٢)

زندہ نمونوں کے علا وہ جو کہ مساعد اورسازگار تر بتیی ماحول ایجاد کر تے ہیں مر بی حضرات ماضی کے اخلاقی اور انسانی نمونوں کی شناخت کر ا کے انھیں حیات نو عطا کر سکتے ہیں اور بنڈورا کے نظریہ میں مذ کو رہ خصو صیات پر نظر کر تے ہو ئے بار عاطفی، ممتاز حالت، بر جستگی وغیرہ کے اعتبار سے ان کے متعلق تا کید اور سر مایہ گذاری کرسکتے ہیں نمونوں کے دقیق موئثر اور محبوب چہرہ کی ترسیم تربیت پانے والوں کے لئے ان کے ذہن وروح میں حسب ضرورت نمونوں کے فقدان کے خلا کو پر کرسکتی ہے اور وہ تدریجاً ان کے مثل بن سکتے ہیں۔

____________________

١۔ ہمنشینوں اور دوستوں کی تاثیر کے بارے میں اس کے بعد بحث کریں گے۔

٢۔ روانشناسی پرورشی، ص ٣١٤۔

۱۶۷

قرآن کر یم میں اس شیوہ سے بہت زیادہ استفاد ہ کیا گیا ہے، بالخصوص اکثر قرآنی نمونے جو ان اور تا ثیر گذار ہیں۔ یوسف شہوت کے مقا بل قہرمان مقا ومت، کہف کے جوان راہ خدا میں رشد و ہد ایت کیلئے ہجرت کے نمونے، اسماعیل حکم خدا کے سا منے سر اپاتسلیم کی مثال اور ابر اہیم عادت شکن اور بت شکن جوان ہیں۔ قرآن کے جوان نمو نوں کے علا وہ دیگر نمونے بھی پائے جا تے ہیں کہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

دین کی تبلیغ میں نوح پا یداری اور استقامت کا نمو نہ، مصا ئب زمانہ اور شدائد روز گا رپر ایوب صبر وتحمل کا نمونہ، طاغوت سے جنگ ومبازرہ کرنے میں داؤد شجاعت اور شہامت کا نمو نہ وغیر ہ وغیرہ، قرآن ان تما م حضرات کی شان میں فرماتا ہے: ''...... وہ لوگ(خدا کے پیغمبر ) ایسے لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے لہٰذ ان کی ہدایت کا اقتدا کرو''۔(١)

بالآخرہ پیغمبر اکرم زندگی کے تمام مراحل میں تمام عالمین کے لئے مطلق نمونہ ہیں ، '' لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ''(٢) کیو نکہ آپ ''خلق عظیم '' کے ما لک، ''مکارم اخلا ق کا آئینہ '' اور '' رحمة للعالمین '' ہیں۔

ماں باپ اور ان کے بعد اساتذہ اور تربیت کرنے والے بھی تربیت سیکھنے والوںکے لئے پہلا نمونہ ہیں۔ تربیت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اہم موقعیت وحیثیت کے مالک، زیادہ کامیاب، زیادہ علم ودانش یا معنوی بلندی کے مالک اکثر دوسروں کی نظر کو اپنی طرف جلب کرتے ہیں اور ان کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے طالب علموں کی نظر میں عام طور پر اساتذہ اور والدین ان خصوصیات کے یا ان میں سے بعض کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن بہر صورت اس برتری اور برجستگی کا نہ ہونا معنوی، علمی اور اجتماعی شعبوں میں تربیت پانے والوں کوکسی اور سمت لے جاتا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں:'' پیغمبر اکرم ہر روز میرے لئے اپنے مکارم اخلاق میں سے ایک کو بیان کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے ''۔(٣) حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں: ''بچے اپنے والدین کی خوبیوںاور صلاحیتوں سے محفوظ ہوتے ہیں ''۔(٤)

____________________

١۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھد یھم اقتدہ، سورئہ انعام، آیت ٩٠۔ ٢۔ سورئہ احزاب، آیت، ٢١۔٣۔ یرفع لی کل یوم علما من اخلاقہ و یامرنی با لاقتداء بہ ؛نہج البلاغہ، خ ١٩٢۔

٤۔ یحفظ الاطفال بصلاح آبائھم، بحار الانوار ج ٥، ص ١٧٨۔

۱۶۸

نمونہ سازی کے طریقہ سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں قرآن کریم نے کم از کم دو اخلاقی اور تربیتی نکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ؛ اول یہ کہ اس نے محبوب اور پسندیدہ افراد کو کلی طور پر نیز عام عنوان سے بیان کیا ہے، جیسے: تائبین، متطہّرین،متّقین، صالحین، صابرین، محسنین اور مجاہدین وغیرہ اور کبھی خاص طور سے اور نا م کے ساتھ (پیغمبروں سے متعلق) بیان کیا ہے، لیکن قابل نفرت ومذمّت افراد کا ذکر قرآن میں استثنائی موارد (جیسے ابو لہب) کے علاوہ کلی عناوین کے تحت ہوا ہے، جیسے: تجاوز کرنے والے، اسراف کرنے والے، خود پسند افراد، کفار، ظالمین اور متکبرین وغیرہ۔ اس وجہ سے ہم کو بھی چاہیے کہ قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اسی روش کا انتخاب کریں کہ اخلاقی فضائل کی شناخت کرانے میں کلی عناوین بھی اور صاحبان فضائل کے اسماء بھی بیان کریں، منفی مقامات پر اشخاص کے نام بیان کرنے سے اجتناب کریں۔

دوسرے نمونوں کا انتخاب کرنا ہے، قرآن کریم ایک ساتھ محبوب اور منفور افراد کا ذکر کرکے انسانی سماج کو علم وآگہی کے ساتھ اپنے منظور نظر نمونوں کے انتخاب کی دعوت دیتا ہے، حتیٰ کہ گذشتہ آباء اجداد کے سلسلہ میں بھی آگاہ کرتا ہے کہ بغیر علم و آگہی کے ان کی اندھی تقلید کرکے اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کریں۔ انہوں نے کہا: ''ہم نے آباو اجداد کو ایک آئین پر پایا ہے لہٰذا ہم بھی انھیںکا اتباع کرتے ہیں ' اس (پیغمبر) نے کہا ''خواہ جس پر تم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے زیادہ ہدایت کرنے والا بھی تمہارے لئے لے آؤں تب بھی ایسا کرو گے''؟(١) اس وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ انسانوں کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے نیز مطلوب نمونوں اور معیاروں کا تعارف کراتے ہوئے تربیت پانے والوں کے لئے آگاہانہ انتخاب کی راہ فراہم کریں۔

ج۔ما حول کوصحیح و سالم رکھنا:

برے اور شر پسند افراد ہر ماحو ل اور سماج میںعام طور پر پائے جاتے ہیں۔ بیشک فاسد اور برے ماحول اخلاقی تربیت کے معاملہ کو دشوار بلکہ بعض اوقات نا ممکن بنا دیتا ہے، اس وجہ سے ماحول کو صحیح وسالم رکھنا کہ جو تقریبا ً امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے زندہ کرنے کے مساوی فریضہ ہے،سب کے لئے ایک عقلی، انسانی نیز دینی فریضہ ہے۔ اس طرز اور شیوہ سے مراد معاشرے کے تمام افراد کے اندر خوبیوں کی ایجاد اور ان کا احیاء کرنا ہے اور برے امور کو ختم کرنا ہے۔ درج ذیل نکات امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور ان کے پہلوئوں کو کہ جو دراصل معاشرہ میں اخلاقی تربیت کو آسان کرنے والے ہیں، زیادہ واضح کرتے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ زخرف، آیت ٢٣، ٢٤۔

۱۶۹

١۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس نکتہ کو واضح انداز میں اپنے دامن میں رکھتا ہے کہ دعوت ایک شناختہ شدہ شرعی اور عقلی معیار پر ہونی چاہیے۔(١) اس وجہ سے جب بھی بات شرعی واجب یا حرام کی ہوتو چاہیے کہ اس کی ثقافتی پشت پناہی ایجاد کی جائے ا ورایک معروف یامنکر کے عنوان سے اکثر لوگوں کے نزدیک متعار ف ہو۔ ایسے حالات میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو عام مقبولیت حاصل ہو گی۔ بعبارت دیگر امر با لمعروف کی دشواری اور کلی طور پر اس کاقبول نہ ہونے میں مشکل نہیں ہے بلکہ مشکل ان خاص موارد اور مصادیق میں ہے کہ جن کا معروف یا منکر ہونا کافی حد تک مستدل طور سے لوگوں کے لئے واضح نہیں کیاگیا ہے۔

٢۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب کا فریضہ ہے، لیکن امر و نہی کرنے والے خاص شرائط کے حامل ہوں، منجملہ ان کے امر و نہی کے شرائط کی شناخت(٢) نیز خود معروف اور منکر کی پہچان ضروری ہے، اس کے علاوہ یا د دہانی اور بیان کا طریقہ اس طرح ہو کہ زیادہ سے زیادہ تاثیر کی امید ہو۔

٣۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے موارد کو وسیع ہونا چاہئے اور خاص مصادیق میں کہ جو اس وقت سماج اور معاشرہ میں زیادہ رایج اور شائع ہے (جیسے بے حجابی) میں محصور نہ ہو۔ اخلاق کے خلاف اعمال جیسے رشوت لینا، تہمت لگانا، غیبت کرنا اور بد گوئی وغیرہ ایک عام ثقافت اور تہذیب کی صورت میں معیّن شدہ نصائح اور نہی عن المنکر کا مورد واقع ہوں، تاکہ مثال کے طور پر بے حجاب یہ خیال نہ کریں کہ نہی عن المنکر ہمیشہ انہیں کے بارے میں ہے۔

د۔ موقعیت کا تبدیل کرنا:

کسی ماحول کے حالات کی قوّت اور اس کی اثر گذاری اس حد تک ہوتی ہے کہ صرف موقعیت اور حالات کے تبدیل کرنے سے اخلاقی تربیت حاصل ہوپاتی ہے۔ اگر چہ ماحول کی تبدیلی بہت زیادہ مالی اخرجات اور نفسیاتی بوجھ کی حامل ہوتی اخراجات ہے، ایک سا ز گار تربیتی ماحول ایجاد کرنے کے لئے آخری طرز کے عنوان سے ضروری ہے۔ ''ہجرت'' منجملہ ان دستورات میں سے ہے کہ جس کی دین میں تاکید ہوئی ہے اور کبھی واجب حد تک پہونچ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے بقول جب فرشتے کچھ لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تووہ لوگ ماحول کے ناموافق ہونے کو اپنا عذر بیان کرتے ہیں، لیکن فرشتے کہتے ہیں ''.... کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ....''۔(٣)

____________________

١۔'' المعروف'' اسم لکل فعل یعرف بالعقل او الشرع حسنہ والمنکر ما ینکر ھما (المفردات ) معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع کے ذریعہ نیک جانا جائے اور منکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع ناپسند کریں۔ ٢۔ سورئہ توبہ، آیت ٧١ اور ملاحظہ ہو: المیزان، ج ٣ ، ص ٣٧٣۔

٣۔ الم تکن ارض اللہ واسعة فتھاجروا فیھا۔۔۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٩٧۔

۱۷۰

جو انسان ایسے گھر یا محلہ میں زندگی بسر کرتا ہے کہ وہاں کے رہنے والے اپنی یا اپنی اولاد کی شائستہ تربیت کے لئے موافق اور ساز گار ماحول نہیں رکھتے وہ اسی طریقہ سے استفادہ کرتے ہوئے جدید امکانات کو اپنے اہل وعیال اور خاندان کے افراد کے رشد و تغیرّ کے لئے فراہم کرسکتا ہے۔ اپنے یا اپنے اقرباء کے نا پسند ناموں کا تبدیل کرنا بھی اس خاص نفسیاتی ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے جو اسی سے پیدا ہوتا ہے تغییر موقعیت کے موارد میں شمار ہوتا ہے۔(١) ایسی نشست جس میں اخلاق کے خلاف اعمال کی روک تھام نہ ہوسکے اسے ترک کردینا چاہیے: ''مجرمین کے بارے میں وہ سوال کررہے ہوں گے: کس چیز نے تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیا؟ وہ کہیں گے: ہم لوگوں کے برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔(٢)

اسلام ایک مسلمان کے روزانہ کے معمول کی تعیین میں اسی طر یقہ اور روش سے مدد لیتا ہے اور اسے مذہبی مراکز جیسے مساجد میں مسلسل حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے یہ اسے خود ہی ایک قسم کی تغییر موقعیت ہے اگر چہ ہجرت شمار نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ایک قسم کی اخلاقی تازگی اورشادابی انسان کو عطا کرتی ہے اور اسے ایک ہی طرح کے ماحول سے اور بسا اوقات روزانہ کے نا مساعد اور غیرموافق ماحول سے جدا کردیتی ہے۔

٢۔ ضرورتوں کو صحیح طریقہ سے پورا کرنا

ضرورتو ںکو صحیح طریقہ سے پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی کو ایک متعادل حد تک اخلاقی تربیت دینے اور بالاتر ضرورتوں کی تکمیل کرنے سے پہلے پورا کیا جائے۔ سبب اور محّرک کے ا ثر کے پیش نظر جو کہ عمل کے اصول ومبادی میں سے ایک ہے، جب تک کہ انسان بھوک کے زیراثر یاجنسی میلان کے تحت تاثیر ہے یا کم از کم اپنی زندگی کیلئے کوئی پناہ گا ہ نہیں رکھتا، ایسا انسان اخلاق کی بلندیوں کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔

اسلامی تعلیمات میں یہ نکتہ مورد توجہ واقع ہوا ہے، سورئہ ''قریش '' میں خدا وند سبحان کی عبادت کی دعوت کا ذکر ان کی خوراک فراہم کرنے اور امنیت کے ذکر کے بعدہوتی ہے: '' لہٰذا انھیں چا ہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، وہی ذات کہ جس نے انھیںبھوک سے نجات دی اورنا امنی سے انھیںرہائی دلائی''۔ ''فلیعبدو ا رب ھذا البیت الذی اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف''۔(٣ )

____________________

(١) ان رسول ا للّہ کان یغےّرا لاسماء القبیحة فی الرجال والبلدان، وسائل الشیعہ، ج ١٥، ص ١٢٤۔

(٢)یتسائَ لون عن المجرمین ما سلککم فی سقر قالوا و کنا نخوض مع الخائضین ، سورئہ مدثر، آیت ٤٠ تا٤٥ ۔

(٣) سورہ ٔقریش، آیت ٣، ٤۔

۱۷۱

مندرجہ ذیل آیات میں غور خوص کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی صفات، تقویٰ، شکر، اور عمل صالح وغیرہ انسان کی اوّلین ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد ذکر ہوئے ہیں:و کلوا مما رزقکم الله حلالاً طیبا واتقو الله ۔۔۔(١) ۔ اور جو کچھ خدا نے تمہیں حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا سے درتے رہو....۔ ''یا ایا الذین آ منوا کلوا من طیبات ما رزقناکم واشکرو الله ۔۔ اے ایمان لانے والوں! جو ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو....۔(٢) ''یاایھا الرسل کلو ا من الطیبات و اعملوا صالحا۔۔۔'' اے میرے رسولو! تم پاکیزہ غذائیں کھائو اور نیک عمل انجام دو.....۔(٣) پیغمبر اکرم نے حدیث ایک شریف میں زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے اثر کے سلسلہ میں اس سے بلند تر ضرورتوں پر نظرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: '' اگر روٹی نہ ہوتی توہم نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے اور پروردگار کے واجبات کو ادا نہیں کرسکتے تھے ''۔(٤) اور دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: ''قریب ہے کہ فخرو نا داری کفر و ناشکری کا سبب بن جائے '' ۔(٥) پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین (ع) کی سیرت میں بھی ہم ملاحظہ کرتے ہیں آپ حضرات عملی طور پر محرومین کی طرف توجہ دیتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے، شب کے سناٹے اور سردی اور گرمی کے موسم میں بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے(٦) اور یہی بات انوارہدایت کے درک کرنے کے مقدمات ان کے لئے فراہم کرتی تھی۔ حتی کہ دشمنوں سے ملاقات کے موقع پر بھی صلاح وہدایت کی دعوت سے پہلے ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔

____________________

١۔ سورہ ٔما ئدہ، آیت ٨٨۔

٢۔سورہ ٔبقرہ ، آیت ١٧٢۔

٣۔ سورئہ مومنون، آیت ٥١۔

٤۔فلو لا الخبز ما صلینا ولا صمنا ولا ادینا فرائض ربنا عز وجل ۔ کا فی ،ج ٦، ص ٢٨٧۔

٥۔کاد الفقر ان یکون کفرا، کا فی، ج ٥، ص ٣ ٧۔

٦۔ الحیاة، ج ٣، ص ٢٣٢تا ٢٣٤ ملاحظہ ہو۔

۱۷۲

حضرت امام حسن ـکی سیرت نادان مخالفین کے ساتھ یہی انسانی روش اور سیرت تھی:

ایک شامی نے معاویہ کے ورغلانے پر ایک دن امام حسن کو گالی دی، امام نے اس سے کچھ نہیں کہا یہاں تک کہ خاموش ہو گیا، اس وقت آپ نے شیریں مسکراہٹ کے ساتھ اس کو سلام کیا اور فرمایا: '' بوڑھے آدمی! فکر کرتا ہوں کہ تو ایک پردیسی ہے اور خیال کرتا ہوں کہ تو راستہ بھول گیا ہے اگر مجھ سے رضایت طلب کرے گا تو تجھے رضایت دوں گا اور اگر کچھ ہم سے طلب کرے گا اور راہنمائی چاہے گا تو تیری راہنمائی کروں گا اور اگرتیرے دوش پر کوئی بوجھ ہے تو اسے اٹھا لوں گا اور اگر بھوکا ہے تو شکم سیر کردوںگا اور اگر محتاج ہے تو تیری ضرورت پوری کردوں گا، (خلاصہ ) جو کا م بھی ہو گا اسے انجام دیدوںگا اور اگر میرے پاس آئے گا تو بہت آرام سے رہے گا کہ مہمان نوازی کے ہر طرح کے وسائل و اسباب میرے پاس فراہم ہیں''۔

وہ شامی شرمندہ ہوگیا اور رو کر کہنے لگا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ روئے زمین پر آپ خدا کے جانشین ہیں، خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے لیکن اب آپ سب سے زیادہ محبوب ہیں ''بوڑھا آدمی اس دن امام حسن ـ کا مہمان ہوا اور جب وہاں سے گیاتو حضرت کی دوستی کا دم بھر نے لگا۔(١)

آبراھام مزلو ہیومینسٹ ماہر نفسیات نے آدمی کے اغراض واسباب کی طبقہ بندی کے لئے جدید طریقہ پیش کیا ہے، اس نے ضرورتوں کے ترتیب و ار سلسلہ کو پیش کیا کہ جو زندگی کی اساسی ضرورتوں سے شروع ہو تا ہے اور اس سے بالا تر سطحوں میں نفسیاتی اغراض واسباب تک پہونچ جاتا ہے وہ کہتا ہے: ''..... انسان کی با مقصد حیات میں تنظیم کی اہم اصل اساسی ضرورتوں کی ترتیب اولویت کے مراتب کے سلسلہ کی صورت میں کمتر یا بیشتر غلبہ کی قدرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ اہم محرّک جو اس تنظیم کا باعث ہوتی ہے وہ ضعیف تر ضرورتوں کا پیدا ہونا ہے جو کہ قوی تر ضرورتوںکو پورا کرنے سے ایک سالم انسان میں پائی جاتی ہے۔ جب بھی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوتی، جسم پر غلبہ پا جاتی ہے اور تمام استعداد اور صلاحیتوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے اور ان صلاحیتوںکو اس طرح منظّم کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان سے استفادہ کرسکے۔ نسبی رضا مندی ان

____________________

١۔ بحار الانوار، ج، ٣ ٤، ص ٣٤٤۔

۱۷۳

ضرورتوں کو محو کردیتی ہے اور بعدکے سلسلہ میں مراتب کی ضرورتوں سے بلند مجموعہ کو موقع دیتی ہے کہ وہ ظاہر ہوں، شخصیت پر غلبہ پاکر انھیںمنظّم کریں اس طرح کہ، بھوک کا درد اٹھانے کے بجائے امن و سلامتی کے لئے پریشان ہو۔ یہ اصل سلسلہ مراتب میں ضرورتوں کے دوسرے مجموعوں یعنی محبت، احترام اور خود آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر بھی صادق ہے۔(١)

اسی وجہ سے محتاج سماج اوراجتماع میں علمی، ہنری اور اخلاقی تخلیق کم وجود میں آتی ہے۔

مزلوکا نظریہ ہے کہ سالم افراد بلند ضرورتوں کی طرف رخ کرتے ہیں، یعنی اپنی با لقوة استعدادوں کے عمل ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور آس پاس کی دنیا کو پہچاننا چاہتے ہیں۔ مقصد، بے نیاز کرنا، تجربہ حیات کی توسیع، سرور و شادمانی کا اضافہ اور زندہ ہونے کی تحریک ہے.... نیک اخلاقی صفات جن کو و ہ'' وجود میں اقدار ''سے تعبیر کرتا ہے اس موقعیت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ بعض ہستی کی قدریں اس کی نظر میں یہ ہیں: حقیقت (بے اعتمادی بد گمانی اور تشکیک کے مقابل)، نیکی (نفرت کے مقابل)، کمال (ناامیدی اور بے معنی ہونے کے مقابل)، یکتائی (بے ثباتی کے مقابل)، نظم (عدم امنیت واحتیاط کے احساس کے مقابل )، خود کفائی ( ذمہ داری کو دوسروں کے حوالے کرنے کے مقابل )(٢) ۔

یہ نظریہ کہ انسان کمتر ضرورتوں کی طرف توجہ کئے بغیر یا ایک حد تک ان کی تکمیل، انسانی فضائل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، یہ سماج کے اکثر افراد کے بارے میں صادق آتا ہے۔

دو نکتوں کی طرف توجہ دیتے ہو ئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ '' ضرورتوں کو صحیح طور سے پورا کرنے کی روش ''اس بات کے علاوہ کہ دوسری روشوں کا مقدمہ ہے، خود اسے بھی ایک اخلاقی تربیت کی روش کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے یہ کہ ادنی ضرورتوںکو پورا کرنے سے بلند ترین ضرورتیں پیدا ہو تی ہیں، یعنی علّت وسبب کا جنبہ پیدا کرتی ہیں۔ عمل کے علّی اور سببی جنبہ کا وجود تر بیت اخلاقی کے ایک اہم حصہ کو منظّم کرتا ہے۔

____________________

١۔ انگیزش و ہیجان، ص ١٠١۔

۱۷۴

٢۔ اپنی جلوہ نمائی تحقق نفس تک ر سائی اور بالقوة توانائی کے لئے ذوقی تقارن خوبصورتی اور نظم تعارف، جاننا، سمجھنا، تلا ش کرنا، سنجیدگی، عزت نفس، کفایت، اجراء اور اصول تعلق و محبت کی ضرورت غیر سے وابستہ ہونا، سا لمیت کی ضرورت کی مقبولیت، امنیت کا احسا س اور خطرے سے دوری فیز یولوژیائی ضرورتیں، گرسنگی، تشنگی اور جنسی خواہشروانشناسی کمال، ص ١٢٥۔

دوسرے یہ کہ اس سے توانائیوں کو تخلیہ اورباطنی قوتوں کے اعتدال کے لئے آمادگی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ علماء اخلاق کے اخلاقی نظام میں ذکر ہوا ہے یہ نکتہ نہایت قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہے کہ سہ گانہ قوتیں شہوت، غضب، اور عقل، عدالت اور اعتدل کے سایہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہو جائیں۔ یہ رویہ یعنی اعتدال قوتوں کے استعمال کرنے میں تربیت اخلاقی کی ترقی میں ایک نا گزیر امر ہے۔

سید قطب الدین لکھتے ہیں: انسان کی تربیت کے لئے اسلام کے اسباب و وسائل میں ان ذمہ دارریوں سے چھٹکارا دلانا ہے جو کبھی کبھی جسم و جان میں اکھٹا ہوتی ہیں اسلام ان باروں اور ذمہ داریوں کو اکھٹا جمع نہیں کرتا مگر یہ کہ انھیں چھوڑنے کے لئے

۱۷۵

یکبارگی جمع کرے۔(١)

اس روش کے محقق ہونے کے لئے لازم طریقے یہ ہیں: معاشی نظام کی جانب توجہ، ازدواج، ورزش اور کام کاج ۔

الف ۔معاشی نظام کی طرف توجہ:

بہت سے اخلاقی جرائم کی بنیاد مال اور خوراک اور غذا کی کمی ہے۔ پہلے مرحلہ میں معاش کی فراہمی خانوادہ کے ذمہ ہے دوسرے مرحلہ میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے نیز اس نظام کے ذمہ ہے جو سماج پر حکومت کررہا ہے اور تیسرے مرحلہ میں نیکو کا راور قدرت مند افراد کے ذمہ ہے۔ بہر صورت تربیت کرنے والوں کی تگ و دو اس مسئلہ کی نسبت تربیتی نقطہ نظر سے تربیت اخلاقی میں بہت سے موانع کو دور کرنے والی ہے۔

ب۔ ازدواج:

ازدواج کے تربیتی اور اخلاقی فوائد (جیسے خود خواہی و خود غرض سے دور ہونا، دوسروں کی خدمت کے لئے آمادگی اور ان کی طرف توجہ، عواطف و جذبات کا بار آور ہونا، محبتوں کا ثمر دینا اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادگی وغیرہ وغیرہ ) کے علاوہ ازدواج کا اہم اور ابتدائی کردار غریزہ جنسی کی ضرورت کو فطری اور شرعی طریقہ سے صحیح طور پر پورا کرنا۔ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ایسا جوان جس کا غریزہ جنسی شباب پر ہے اور ماحول کے بہت سے محرک بھی اس کے اندر اور زیادہ اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ جوان سختی سے خود کو گناہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔(٢) پیغمبر نے فرمایا ہے : '' جب کوئی انسان شادی کرتا ہے تو اس کا نصف دین کامل ہو جاتا ہے لہٰذا بقیہ نصف کے سلسلہ میں اسے تقویٰ اختیار کرنا

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلام، ص ٢٨٢۔

٢۔ مراد یہ ہے کہ جنسی غریزہ جوانوں کو زیادہ مشکلات سے دو چار کرتا ہے، نہ یہ کہ کلی طور پر تربیت اور اصلاح کا راستہ ہی بند کردے ۔

۱۷۶

چاہئے''۔(١) پیغمبر کے اس حکیمانہ ارشاد سے یہ نکتہ بھی قا بل استفادہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ ا ور اخلاقی ورع، شادی کے بعد زیادہ آسان اور قابل حصول ہے۔

ج۔ورزش:

جسمانی ضرورتوں کو صحیح طور پر پوراکرنے میں اور جوانی کی قوتوں کی جلاء میں ورزش کا کردار قابل انکار نہیں ہے۔ اخلاقی تربیت میں ورزش کا کردار دو جہت سے قابل اہمیت ہے:

اول۔وہ جسمانی سلامتی اور فرحت کہ جو ورزش سے پیدا ہوتی ہے، روحی، ذہنی اور نفسیاتی سلامتی نیز اخلاقی فضائل کے لئے مقدمہ ہوتی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت میں قوت اورجوانمردی ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہی ہیں۔ ورزش اخلاقی توجیہ نبی اور ائمہ (ع) کی سیرت میںآتی ہے ۔ پیغمبر اکرم ایسے مردوں سے ملاقات کے وقت جو زور آزمائی کے لئے وزن اٹھا رہے تھے، فرماتے ہیں: ''لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ انسان ہے جو خواہشات نفس پر غالب ہو''۔(٢) امیر المومنین ـ دعائے کمیل میں خدا سے جسمانی قویٰ کی تقویت کی درخواست خدمت الٰہی کے لئے کرتے ہیں،یارب.... قو علی خدمتک علی جوارحی ۔ اس کے مقابل کمزور اور پست افراد تربیت کے خلاف امور انجام دیتے ہیں۔دوسری جہت ۔ ضرورتوں سے توجہ ہٹانا ہے، بالخصوص جوانی کے زمانہ میں جنسی ضرورتیںاپنی تکمیل کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ ابھی جائز اور مشروع طریقہ سے صحیح طور پر جنسی خواہشات کی تکمیل کے امکانات فراہم نہیں ہوئے ہیں، ورزش ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا ایک مفید اور اہم ذریعہ ہے۔

د۔ کام:

کام کاج کے مسئلہ کو '' معاشی نظام کی طرف تو جہ '' کی بحث میں ذکر کیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اس کا اسلام میں ایک خاص مرتبہ ہے، اور استاد مطہری کے بقول: کام اسلام میں ایک مقدس اور پاکیزہ شے ہے،(٣) نیز بہت سے تربیتی جہات اس میں پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم نے اسے جدا گانہ طور پر ذکر کیا ہے، ایک طرف کام صحیح طور پر قوتوں کی جلاء اور اضافی بار کے تخلیہ کاموجب ہوتا ہے اور دوسری طرف شخصیت کے احساس، ذہنی علاج، تمرکز خیال، ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا باعث ہوتا ہے، کہ یہ سب اخلاقی تربیت کے لئے معاون وسیلہ ہیں۔(۴)

____________________

١۔ اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی نصف الباقی ۔ بحا ر الانوار، ج ٣ ١٠، ص ٢١٩۔''من تزوج فقد احرز نصف دینہ ، فلیتق اللہ فی النصف الباق''۔بحار الانوار ،ج١٠٣، ص٢١٩۔٢۔ اشجع الناس من غا لب ھواہ۔ میزان الحکمة، ج ١٠، ص ٣٨٧۔٣۔ تعلیم وتربیت در اسلام، ص ٤١١۔۴ ۔ ان جملوں کی طرف توجہ دینا مذکورہ بالا مطلب کی تائید میں موثر ہے: سقراط: ''دیانت کے بعد کام نیک بختی اور سعادت کا سرمایہ ہے''۔ پاسکال: '' تما م فکری اور اخلاقی برائیوں کی جڑ بے کاری ہے جو ملک بھی اس عظیم عیب کو بر طرف کرنا چاہتا ہے اسے لوگوں کو کام پر آمادہ کرنا چائیے تاکہ اس سے روحی سکون کہ جس سے معدودے چند افراد آگاہ ہیں، حاصل ہو ''۔ ساموئل اسمایلز: '' دیانت کے بعد انسان کی تربیت کے لئے کام سے بہتر کوئی مدرسہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے ''۔ بحوالۂ تعلیم و تربیت در اسلام، ص ٤٣٠۔

۱۷۷

٣۔ ا حترام شخصیت کے طریقے

اخلاق اسلامی کی اساسی بنیاد انسان کا اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کی طرف توجہ دینا ہے: ''یقینا ً ہم نے اولاد آدم کو کرامت سے نوازا ( انھیں عزت عطا کی ) ...اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح فوقیت و برتری عطا کی۔(۱)

خود آگاہی اور اس بات کی طرف توجہ کہ انسان ایک بلند وبر ترمخلوق ہے اور اپنے اندر بے مثال اور قیمتی گوہر رکھتا ہے یہ بات اس کو (حبّ ذات کی بناپر) اپنی ذاتی کرامت کی حفاظت وپاسداری کے لئے دعوت دیتی ہے اور اخلاق کی بلند قدروں کی طرف کھینچتا ہے: ''اکرم نفسک عن کل دنےة و ان ساقتک الیٰ الرغائب فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا ً''(۲) اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے پاکیزہ رکھو ! چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہونچا ہی کیوں نہ دے کیونکہ جو اپنی عزّت نفس تم دوگے اس کی قیمت اور عوض تمہیں کبھی مل نہیں سکتا۔

'' انسان کی حقیقت'' چونکہ آسمانی قداست و پا کیزگی کی حامل ہے اور وہ علم، قدرت اور آزادی کے چشمہ سے سیراب ہوا ہے لہٰذا وہ جھوٹ، باطل، طبیعت کی اسیری، گراوٹ اور پستی و ذلت و شہوت اور جہل میں ہاتھ پاؤں مارنے کے مخالف ہے اسی وجہ سے ہوشیار انسان ہرطرح کے اخلاقی ر ذائل سے کہ جو اس کی عزت اور غیرت

____________________

۱۔لقد کرمنا بنی آدم...... و فضلناهم علی کثیرممن خلقنا تفضیلا ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٧٠۔

۲ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۱۷۸

سے منافات رکھتے ہیں، بیزار ہوتا ہے۔(١) اس کے مقابل ایک ایسا انسان جو ذلّت، پستی اور فرومایہ ہونے کا احساس کرے اور اپنے اندر پائی جانے والی عظیم شرافت پر یقین نہ رکھے، وہ ہر طرح کے نا پسند اخلاقی افعال کے ارتکاب سے بے پرواہ ہوتا ہے:اللئیم لا یستحی، اللئیم اذا قدر ا فحش واذا وعد اخلف، اللئیم لا یرجیٰ خیره ولا یسلم من شره ولا تؤمن غوائله، اللئیم مضاد لسائر الفضا ئل و جامع لجمیع الرذائل ۔( ٢) کمینہ شخص شرم نہیں کرتا، کمینہ جب قدرت پاتا ہے برائی کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، کمینہ سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی اور اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا اور اس کے فسادوں سے بے خوف نہیں رہا جا سکتا، کمینہ تمام فضائل کا مخالف اور تمام رذائل کا حامل ہوتا ہے۔ من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ۔(٣) جو انسان خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو اس کے شر سے بے خوف نہ رہو۔

اس مطلب کی وضاحت نفسیاتی اعتبار سے خود انسان کے خیال واعتقاد سے ہماہنگ ہونا یا نہ ہونا ہے: اگر میں بے رحمانہ اور احمقانہ عمل کا مرتکب ہوں تو میری عزت نفس ملامت کا شکار ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ عمل میرے ذہن کو اس امکان کی طرف متوجہ کرے گا کہ میں ایک بیوقوف اور ظالم انسان ہوں۔ سینکڑوں آزمائش کے درمیان کے عدم موافقت کے نظریہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ واضح ترین نتائج ایسے حالات میں حاصل ہوئے ہیں جو انسان کی عزت نفس سے مربوط ہیں، کیونکہ جس طرح امید کی جاتی ہے کہ جو افراد زیادہ عزت نفس کے مالک ہیں، اگر ان سے بے رحمانہ اور احمقانہ رفتار سرزد ہو جائے تو دوسروں سے زیادہ نا موافقت کا احساس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان معمولی عزت نفس رکھتا ہو تو کیا پیش آسکتا ہے؟ اگر ایسا انسان غیر اخلاقی اور احمقانہ عمل کا ارتکاب کرے تو زیادہ ناموافقت کا احساس نہیں کرے گا ...دوسری طرف وہ انسان جوزیادہ عزت نفس کا مالک ہے، غالباً وہ ایک برے عمل کے ارتکاب کے وسوسہ کے مقابل مقاومت کرتا ہے، اس لئے کہ بے برے کام اس کے اندر زیادہ سے زیادہ نا موافقت ایجاد کردیتا ہے۔(٤)

____________________

١۔ الصدق عزّ والکذب عجز، سچ عزت (کا سبب) ہے کتاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٤٦ ؛ الغیبة جھد العاجز، مازنی غیور قط،غیبت عاجز کی کوشش ہے، کسی غیرتمند نے کبھی زنا نہیں کیا ( نہج البلاغہ، ح ٢٩٧ ) ؛ الکذب والخیانة لیسا من اخلاق الکرام، جھوٹ اور خیانت اچھے اخلاق سے نہیں ہیں (غرر) وموت فی عز خیر من حیاة فی ذل ،عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر، (بحار الانوار، ج٤٤، ص ١٩٢)

٢۔ غرر الحکم، تیسری فصل، ص ٢٦٠۔

٣۔ بحار الانوار، ج ١٧، ص ٢١٤۔

٤۔ روانشناسی اجتماعی، ترجمہ شکرکن، ص ١٥٠ ، ١٥١ ۔

۱۷۹

اس وجہ سے اخلاقی تربیت کی ایک روش شخصیت کااحترام ہے یعنی ایسے امور کا انجام دینا کہ جن سے خود کو یقین ہو یا جس کی تربیت کی جارہی ہے اس کو اپنی قدروقیمت کا یقین حاصل ہو۔ ایڈلر، A ، y.adler جوکہ ایک فردی نفسیات کاموجد ہے اس نے احساس کمتری کو اپنے نظریہ کی اساس قرار دی ہے اور اسے علت اور تمام غیر معمولی رفتار کی علت اور سر چشمہ سمجھتا ہے۔احساس کمتری رنگین دھاگہ کے مانندجو نفسیاتی اختلال کے تمام حالات میں کھنچا ہواہے۔ ایک غصہ وریا بے صلاحیت بچہ سن رسیدہ ہوکر بھی نفسیاتی تعادل کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ نفسیاتی مریض، مجرمین، جنسی منحرفین اور روحی بیمار سباپنی نا رسائی اور ضعف کے احساس کا رنج و الم برداشت کرتے ہیں۔ اور مسلسل شک وتردید اور گمراہی میں زندگی بسرکرتے ہیں اورایک معتمد ومستحکم مرکزتلاش کرتے ہیں...احساس کمتری طبیعی ارتقا کے لئے رکاوٹ بنتاہے(١) اور یہ اس وقت ہوتاہے کہ بچہ مکمل اس احساس میںغوطہ لگاتا ہے اور لاحاصل ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود خود کواس حالت سے نجات دینا چاہتا ہے، اس حالت میںبد گمانی اور وحشت احساس کمتری کی راہ کوکھول دیتی ہے اور بچہ نفسیاتی اختلال کا شکار ہوجاتا ہے، اس موقع پر ذہنی ونفسیاتی حرکت، سکو ن اور سکوت کا شکار ہوجاتی ہے ، اس معنی میں کہ بچہ پھر اپنے ضعف اور نقائص کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتاہے، ناچار اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں رکھتا کہ خیالی تعادل بخشنے(جھوٹی تلافی) سے خود کو ماحول کے حوالے کردے۔(٢)

احساس کہتر نامی کتاب میں، ایڈلر کے نظریہ کی توضیح کے سلسلہ میں جو احساس کمتری سے پیدا شدہ زندگی کی روش کی اس طرح منظر کشی کرتے ہیں: احساس کمتری درجہ کیفیت اور سب سے پہلے نتیجہ کے اعتبار سے جو اس سے تجربے کے ضمن میں حاصل ہوتا ہے، انسان کے طرز زندگی کی تعیین کرتی ہے۔ یہاں پر تین اساسی ساز وسامان اور اس کے بعد تین طرز زندگی کو مشخص کیا جاسکتاہے ، طبیعی جبران کا سازو سامان، گریز وناامیدی کا ساز و سامان اور خیالی جبران کاساز وسامان۔

١۔ طبیعی تلافی:

یہ تلافی ایک نتیجہ خیز اساسی روش کے پایہ پر استوار ہے کہ جو نفسیاتی محوروں کی واقعی تعیین کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک حادثہ کا شکار انسان کہ جو جسمی اور عضوی نقص رکھتا ہے، اسے صحیح کرنے یا مرکزی اعصبابی مشین اور دیگر اعضاء کے وسیلہ سے اسی ایک تلافی کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔

____________________

١۔ ایڈلر: روانشناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی، ص ٥٩۔

٢۔ ایضاً، ص٥٧۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

مسلمان: ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٥ ، ٨

منافقت : منافقت كے اثرات ٥ ، ٦

مؤمنين : مؤمنين كا مرتد ہونا ٨ ;مؤمنين كو انتباہ ٩; مؤمنين كو گمراہ كرنا ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٥ ، ٧

يہود: ٧ يہود كى سازش ٣ ، ٤ ، ٧;يہود كى منافقت ٧

وَلاَ تُؤْمِنُواْ إِلاَّ لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَى هُدَى اللّهِ أَن يُؤْتَى أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَآجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (٧٣)

اورخبردار ان لوگوں كے علاوہ كسى پر اعتبار نہ كرنا جوتمھارے دين كا اتباع كرتے ہيں _ پيغمبر آپ كہہ ديں كہ ہدايت صرف خدا كى ہدايت ہے _ او رہرگز يہ نہ ماننا كہ خدا ويسى ہى فضيلت او رنبوت كسى اوركو بھى دے سكتا ہے جيسى تم كو دى ہے يا يہ كہ وہ پيش پروردگار بحث بھى كر سكتا ہے _ پيغمبر آپ كہہ ديجئے كہ فضل و كرم خدا كے ہاتھ ميں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطاكرتا ہے او روہ صاحب و سعت بھى ہے اورصاحب علم بھى _

١_ يہودى علماء نے اپنے پيروكاروں كو متنبہ كيا كہ اپنے ہم مذہب كے علاوہ كسى پر بھروسہ نہ كريں _

و لا تؤمنوا الاّ لمن تبع دينكم يہ اس صورت ميں ہے كہ '' لا تومنوا ''كے معنى بھروسہ نہ كرنے كے ہوں نہ تصديق و يقين نہ كرنے كے_*

٢_ يہودى علماء نے اپنے پيروكاروں كو متنبہ كيا كہ

۵۸۱

اپنے ہم مذہب كے علاوہ كسى پر ايمان نہ لائيں _و لا تؤمنوا الاّ لمن تبع دينكم يہ اس صورت ميں ہے كہ ايمان كے معنى يقين كرنے اور ميلان ركھنے كے ہوں _

٣_ اسلام كے خلاف كى جانے والى سازش كے افشا پر يہودى علماء كى پريشانى و فكرمندى _و قالت طائفة من اهل الكتاب و لا تؤمنوا الاّ لمن تبع دينكم مسلمانوں كے خلاف سازش كرنے كے بعد يہودى علماء كا اپنے پيروكاروں كو اپنے ہم مذہبوں كے علاوہ كسى اور پر اعتماد كرنے سے روكنا انكى سازش كے ظاہر ہونے كے خوف كو بيان كرتاہے_

٤_ يہودى علماء كا اپنے پيروكاروں كو اپنے ہم مذہبوں كے علاوہ كسى كے سامنے سازش كو ظاہر كرنے سے روكنا_

و قالت طائفة آمنوا بالذى و لا تومنوا الاّ لمن تبع دينكم

٥_ يہودى علماء كى اپنے پيروكاروں كے اسلام كى طرف مائل ہوجانے كے بارے ميں فكر مندى _

و لا تومنوا الاّ لمن تبع دينكم يہودى علماء كا اپنے پيروكاروں كو اپنے ہم مذہبوں كے علاوہ كسى اور كى طرف مائل ہونے سے روكنا ان كى فكر مندى كو بتلاتاہے ( يہ اس صورت ميں ہے كہ ايمان كے معنى مائل ہونے كے ہوں )

٦_ يہودى علماء خيال كرتے تھے كہ پيغمبر(ص) كو ان ميں سے مبعوث ہونا چاہيئے تھے_و لا تؤمنوا الاّ لمن تبع دينكم

٧_ يہوديوں كا اپنے دين كے بارے ميں احساس برترى اور بے جا تعصّب _و لا تومنوا الاّ لمن تبع دينكم

٨_ پيغمبراسلام (ص) كو يہ پيغام پہنچانے كا حكم كہ حقيقى ہدايت صرف خدا وند عالم كى ہدايت ہے_

قل انّ الهدي هدى الله

٩_ يہودى علماء كا ايك دوسرے كو يہ مشورہ كہ پيغمبر اسلام (ص) كى رسالت كى دليلوں كو چھپائيں *

و لا تؤمنوا ان يؤتى احد مثل ما اوتيتم احتمال ہے كہ ''ما اوتيتم ''سے مراد رسالت كى دليليں ہوں _

١٠_ يہودى علماء مسلمانوں كو پيغمبراسلام (ص) كى رسالت پر دليل قائم كرنے پر قادر نہيں سمجھتے تھے_و لا تومنوا الّا لمن تبع دينكم او

۵۸۲

يحاجّوكم عند ربكم يہ اس صورت ميں ہے كہ '' او يحاجوكم'' جو كہ ''ان يؤتى ''پر عطف ہے '' لا تؤمنوا''كے ليئے '' لا''كى تقدير كے ساتھ مفعول لہ ہو يعنىلان لا يحاجوكم عند ربكم _

١١_ يہودى علماء كي، مسلمانوں كے ان كے ساتھ خدا كے حضور حجت قائم كرنے كے بارے ميں فكرمندي_

و لا تؤمنوا او يحاجوكم عند ربكم

١٢_ مسلمانوں كے خلاف يہودى علماء كى سازش كا خدا تعالى كى طرف سے افشا _

و لا تومنوا الّا لمن تبع دينكم او يحاجوكم عند ربكم

١٣_ ہر فضل خدا كے ہاتھ ميں ہے_قل انّ الفضل بيد الله

١٤_ خداوند عالم جسے چاہتا ہے اپنا فضل اسكے شامل حال كرديتاہے_قل انّ الفضل بيد الله يؤتيه من يشاء

١٥_ پيغمبرى اور ہدايت خداوندعالم كا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا كرديتاہے_

و لا تؤمنوا الاّ لمن تبع دينكم قل انّ الفضل بيد الله يوتيه من يشاء ظاہراً '' قل انّ الفضل ''يہوديوں كى اس سوچ كا ردّ ہے جو سمجھتے تھے كہ پيغمبر(ص) صرف ان ميں سے منتخب ہونا چاہيئے_

١٦_ خداوند متعال ، واسع ( بہت زيادہ وسعت وجودى ركھنے والا) اور عليم (بہت زيادہ عالم ) ہے_والله واسع عليم

١٧_ خداوند عالم كى طرف سے كسى كو پيغمبر (ص) منتخب كرنا اس كے علم كى بنيادپر ہے_

قل ان الفضل بيد الله يؤتيه من يشاء والله واسع عليم يہ اس صورت ميں ہے كہ فضل خدا سے مراد جيسا كہ بيان ہوچكاہے نبوت اور نبى كا انتخاب ہو_

آنحضرت (ص) ٩ ، ١٠ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ٨

اسلام : ٣ ، ٤ ، ٥

اسماء و صفات : عليم ١٦ ; واسع ١٦

۵۸۳

افشا كرنا :٣ ، ١٢

انبياء (ع) : كا انتخاب ١٧

اہل كتاب : اہل كتاب اور آنحضرت (ص) ٩ ، ١٠ ;اہل كتاب اور اسلام ٣ ، ٤; اہل كتاب اور حق كو چھپانا ٩ ; اہل كتاب كى خصلتيں ١ ، ٢ ;اہل كتاب كے عقائد ٦ ; اہل كتاب كے علماء ١ ، ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٥ ، ٦ ، ٩ ، ١٠ ، ١١،١٢ ;مسلمان اوراہل كتاب ١٠ ، ١١

حق كو چھپانا : ٩

خدا تعالى : خدا تعالى كا علم ١٧ ;خدا تعالى كا فضل ١٣ ، ١٤ ، ١٥; خدا تعالى كى مشيت ١٤ ، ١٥ ،خدا تعالى ہدايت ٨

مسلمان : ١٠ ، ١١ ، ١٢

نبوت : ١٥ نبوت كى دليليں ١٠

ہدايت : ١٥

يہود: آنحضرت (ص) اوريہود ٩ ، ١٠ ;اسلام اور يہود ٣ ، ٤ ، ٥ ; مسلمان اوريہود ١٠ ، ١١ ، ١٢;يہود اور حق كوچھپانا ٩ ; يہود كا احساس برتري٧ ;يہود كى سازش ٣ ، ٤، ١٢ ; يہود كى صفات ١ ، ٢، ٧;يہودكى نسل پرستى ١ ، ٢، ٧ ;يہود كے عقائد ٦

يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (٧٤)

وہ اپنى رحمت سے جسے چاہتا ہے مخصوص كرتا ہے او ر وہ بڑے فضل والا ہے _

١_ نبوت اور ہدايت خدا وند متعال كى خاص رحمت ہے_و لا تومنوا الاّ لمن تبع دينكم قل انّ الهدي

ہدى اللہ قل انّ الفضل بيد اللہ يختص برحمتہ من يشاء جملہ '' يختص برحمتہ ''يہوديوں كے

۵۸۴

اس خيال كا ردّ ہے كہ نبى صرف انہى ميں سے مبعوث ہوسكتاہے لہذا آيت ميں ''رحمتہ''سے مراد نبوت ہوگي_

٢_ خداوند متعال كى رحمت سے بہرہ مند ہونا اسكى مشيت پر موقوف ہے_يختص برحمته من يشاء

٣_ پيغمبر اسلام (ص) خدا وند عالم كى خاص رحمت سے بہرہ مند ہيں_ قل ان الفضل بيد الله يختص برحمته من يشاء يہ اس صورت ميں ہے كہ فضل خدا سے مراد نبوت اور نبى (ص) كا انتخاب ہو_

٤_ خداوند عالم كى خاص رحمت كا سرچشمہ اس كا عظيم فضل ہے_يختص برحمته من يشاء و الله ذوالفضل العظيم

جملہ ''واللہ ذو الفضل'' جملہ ''يختص برحمتہ''كے ليئے علت ہے _

٥_ خداوند عالم عظيم فضل و كرم كا مالك ہے_والله ذوالفضل العظيم

آنحضرت (ص) : آنحضرت (ص) كا مقام ومرتبہ ٣

خدا تعالى : خدا تعالى كا فضل ٤ ، ٥; خدا تعالى كى رحمت ١ ، ٢ ، ٣ ، ٤ ; خدا تعالى كى مشيت ٢

رحمت : خاص رحمت ١ ، ٢ ، ٣ ، ٤ ; رحمت جن كے شامل حال ہے ٣ ; نبوت والى رحمت ١ ; ہدايت والى رحمت ١

۵۸۵

وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لاَّ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآئِمًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (٧٥)

او راہل كتاب ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جن كے پاس ڈھير بھر مال بھى امانت ركھ ديا جائے تو واپس كرديں گے او ركچھ ايسے بھى ہيں كہ ايك دينار بھى امانت ركھ دى جائے تو اس وقت تك واپس نہ كريں گے جب تك ان كے سرپر كھڑے نہ رہو _ يہ اس لئے كہ ان كا كہنايہ ہے كہ عربوں كى طرف سے ہمارے اوپر كوئي ذمہ دارى نہيں ہے _ يہ خدا كے خلاف جھوٹ بو لتے ہيں او رجانتے بھى ہيں كہ جھوٹے ہيں _

١_ اہل كتاب ميں بھى بہت امانت دار لوگ پائے جاتے ہيں _و من اهل الكتاب من ان تامنه بقنطار يؤدّه اليك

٢_ خداوند عالم كا بعض اہل كتاب كى امانت دارى كى وجہ سے ان كى قدر كرنا_و من اهل الكتاب من ان تامنه بقنطار يؤدّة اليك

٣_ افراد كى قدر و قيمت جانچنے كا معيار انكى امانت دارى ہے _و من اهل الكتاب من ان تامنه بقنطار يؤدّه اليك

٤_ لوگوں كے ساتھ ( دوست ہوں يا دشمن) منصفانہ اور حقيقت پسندانہ برتاؤ كرنا ضرورى ہے_

و من اهل الكتاب من ان تامنه

۵۸۶

قرآن كريم نے اہل كتاب كى جو پسنديدہ صفت تھى اسے ذكر كيا اور اس پر ان كى تعريف كى اور يہ مؤمنين كے ليئے درس ہے_

٥_ بعض اہل كتاب كى خيانت حتى كہ انتہائي كم قيمت امانتوں ميں _و منهم من ان تامنه بدينار لا يؤدّه اليك

٦_ بعض اہل كتاب صرف طاقت كے زور پر امانت واپس كرنے پر تيار ہونگے_الاّ ما دمت عليه قائماً

جملہ '' ما دُمت ...'' مذكورہ بالا مطلب سے كنايہ ہے_

٧_ اجتماعى اورانفرادى حقوق پر ڈاكہ ڈالنے والوں كے خلاف مسلسل قيام ہى انہيں اس كام سے روكنے كا طريقہ ہے_و منهم من ان تامنه بدينار: لا يؤدّه اليك الاّ ما دمت عليه قائماً

٨_ بعض اہل كتاب ( يہوديوں ) كے ہاتھوں دوسروں كے حقوق كے ضائع كيئے جانے كا سبب يہود كا احساس برترى ہےذلك بانهم قالوا ليس علينا فى الاميين سبيل

٩_ يہود كى غير مذہب لوگوں كے بارے ميں متفاوت نظر باعث بنى كہ وہ ان كى امانتوں كى حفاظت كريں يا خيانت _

و من اهل الكتاب و منهم من ان تامنه ذلك بانهم قالوا ليس علينا فى الاميين سبيل ''ذلك ''دوسرے گروہ كى طرف اشارہ ہے_

١٠_ بعض اہل كتاب كا غير مذہب لوگوں كے حقوق كے بارے ميں ذمہ دارى كا احساس نہ كرنا_ذلك بانهم قالوا ليس علينا فى الاميين سبيل

١١_ بعض اہل كتاب كا يہ غلط نظريہ تھا كہ دوسروں كے اموال ميں ان كے ليئے تصرّف اور ان كے حقوق ضائع كرنا جائز ہے، يہ امر موجب بنا كہ وہ اپنے غير مذہب لوگوں كے حقوق ميں خيانت كريں _ذلك بانهم قالوا ليس علينا فى الاميين سبيل

١٢_ نسل پرستى اور احساس برترى دوسروں كے حقوق پر تجاوز كا پيش خيمہ_و منهم من ان تامنه ذلك بانّهم قالوا ليس علينا فى الاميين سبيل

۵۸۷

١٣_ اہل كتاب غير مذہب لوگوں پر اپنى برترى نيز ان كے اموال ميں ناجائز تصرف كى جھوٹى نسبت خداوند عالم كى طرف ديتے تھے _ذلك بانهم قالوا ليس علينا فى الاميين سبيل و يقولون على الله الكذب

١٤_ اہل كتاب اپنے گھڑے ہوئے عقائد كو جان بوجھ كر خدا وند عالم كى طرف منسوب كرتے ہيں _

و يقولون على الله الكذب و هم يعلمون

١٥_ اپنى نسلى برترى اور دوسروں كے حقوق كے ضياعكے جواز كو خدا تعالى كى طرف نسبت دينا جھوٹ اور ناجائز كام ہے_ذلك بانهم قالوا ليس علينا فى الاميين سبيل و يقولون على الله الكذب و هم يعلمون

١٦_ بدعت قائم كرنا، ظلم و ستم اور اجتماعى و معاشرتى معاہدوں كو توڑنے كى توجيہ كا ذريعہ ہے_و منهم من ان تامنه بدينار لا يؤدّه اليك و يقولون على الله الكذب

١٧_ امانت ميں خيانت كے جواز كو خداوند عالم كى طرف منسوب كرنا خدا پر جھوٹ باندھنا ہے_و منهم من ان تامنه بدينار لا يؤدّه اليك قالوا ليس علينا فى الاميين سبيل و يقولون على الله الكذب و هم يعلمون اس آيت كے نازل ہونے كے بعد رسول خدا (ص) نے فرمايا:'' كذب اعداء الله ما من شيء كان فى الجاہلية الاّ و ہو تحت قدميّ ہاتين الاّ الامانة فانّھا مؤدّاة الى البرّ والفاجر'' كہ خدا كے دشمن جھوٹ بولتے ہيں ، جو كچھ جاہليت ميں تھا وہ ميرے ان دونوں قدموں كے نيچے ہے مگر امانت جو ادا كى نيك اور بدكار دونوں طرح كے افراد كو ادا كى جائے_(١)

افترا : خدا پرافترا باندھا ١٣ ، ١٤ ، ١٥ ، ١٧

امانت دارى : ٩ امانت دارى كى قدر و قيمت ٢ ، ٣ ; امانت دارى ميں خيانت ٥ ، ٩ ، ١٧

انصاف : ٤

انقلاب : انقلاب كى اہميت ٧

اہل كتاب : ١٠

____________________

١) الدرالمنثور ج٢ ص ٢٤٤ مجمع البيان ج٢ ص ٧٧٨_

۵۸۸

اہل كتاب كا تكبّر١٣;اہل كتاب كى خصلتيں ٨ ، ١٣ ;اہل كتاب كى خيانت ٥ ; اہل كتاب كے اختلافات ٩ ; اہل كتاب كے امين لوگ ١ ، ٢; اہل كتاب كے خيانت كار ٦ ; اہل كتاب كے عقائد ٩ ، ١١ ، ١٤

بدعت: بدعت كے اثرات ١٦

تكبر : ١٣ تكبر كے اثرات ١٢ حق مانگنا ٦ ، ٧

حقوق : لوگوں كے حقوق پر تجاوز٧ ، ٨ ، ١٠ ، ١١ ، ١٢ ، ١٣ ، ١٥ ، ١٦

خيانت : ٥ ، ٩ ، ١٧ خيانت كے اسباب ٩ ،١١

روايت : ١٧

ظلم : ظلم كاپيش خيمہ ١٦

عقيدہ : باطل عقيدہ ١٤

عہد: عہدتوڑنا ١٦

قدرت : قدرت كى اہميت ٦

قدر و قيمت : قدر و قيمت كے معيار ٢ ، ٣

معاشرت: معاشرت كے آداب ٤

معاشرتى تعلقات : ٤

نسلى امتياز: ١٥ نسلى امتياز كے اثرات ١٢

نظريہ كائنات اور آئيڈيا لوجى : ٩ ، ١١

يہود : يہود كا احساس برترى ٨

۵۸۹

بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (٧٦)

بيشك جو اپنے عہد كو پو را كرے گا او رخوف خدا پيدا كرے گا تو خدا متقين كو دوست ركھتا ہے _

١_ اہل كتاب كے اپنے آپ كو دوسروں سے برتر سمجھنے كے نظريے كا ردّ و ابطال _ذلك بانهم قالوا بلي من اوفي

٢_ امانت دارى اور وفائے عہد كى قدر و قيمت اور اہميت_بلى من اوفى بعهده

٣_ عہد كى وفا، امانت دارى اور خيانت سے اجتناب كرنا تقوي كى علامات ہيں _بلى من اوفى بعهده و اتقى فان الله يحب المتقين جملہ '' يحب المتقين ''بيان كررہاہے كہ عہد كى وفا تقوي كى علامت ہے_

٤_ خداوند عالم كے نزديك انسان كى قدر و قيمت كا معيار وفائے عہد اور تقوي كى رعايت ہے نہ كہ

كسى خاص نسل و قوم كى طرف منسوب ہونا_ذلك بانهم قالوا ليس علينا بلى من اوفى بعهده و اتقى فان الله يحب المتقين

٥_ وفائے عہد، امانت دارى او تقوي خداوند متعال كى محبت حاصل كرنے كے ذرائع ہيں _بلى من اوفي بعهده واتقى فان الله يحب المتقين

٦ متقين خدا تعالى كے محبوب ہيں _فان الله يحب المتقين

٧ خداوند عالم كے ساتھ كئے گئے عہد كى پابندى اور خيانت سے پرہيز كرنا خدا كى محبت كے حصول كا پيش خيمہ ہے _

بلى من اوفى و اتقى فانّ الله يحب المتقين جملہ '' يحب المتقين ''بيان كررہاہے كہ عہد كى وفا تقوي كى علامت ہے_

٤_ خداوند عالم كے نزديك انسان كى قدر و قيمت كا معيار وفائے عہد اور تقوي كى رعايت ہے نہ كہ

كسى خاص نسل و قوم كى طرف منسوب ہونا_ذلك بانهم قالوا ليس علينا بلى من اوفى بعهده و اتقى فان الله يحب المتقين

٥_ وفائے عہد، امانت دارى او تقوي خداوند متعال كى محبت حاصل كرنے كے ذرائع ہيں _

بلى من اوفي بعهده واتقى فان الله يحب المتقين

٦_ متقين خدا تعالى كے محبوب ہيں _فان الله يحب المتقين

۵۹۰

٧_ خداوند عالم كے ساتھ كئے گئے عہد كى پابندى اور خيانت سے پرہيز كرنا خدا كى محبت كے حصول كا پيش خيمہ ہے _

بلى من اوفى و اتقى فانّ الله يحب المتقين يہ اس صورت ميں ہے كہ بعد والى آيت كے قرينہ سے '' بعہدہ ''كى ضمير '' اللہ ''كى طرف لوٹے جو كہ پہلے والى آيت ميں مذكور ہے_

٨_ اہل كتاب كا دين ميں بدعتيں پيدا كرنے اور امانت ميں خيانت كرنے كا سرچسمہ بے تقوي ہونا ہے _

و منهم من ان تامنه بدينار و يقولون على الله الكذب بلى من اوفى بعهده واتقي

٩ تقوي انسان كو، اپنے آپ كو برتر سمجھنے اور دين ميں بدعتيں ايجاد كرنے سے روكتاہے_

قالوا ليس علينا و يقولون على الله الكذب بلى واتقي

١٠ اہل كتاب بھى اگر عہد پورا كريں اور تقوي اختيار كريں تو خدا وند عالم كے محبوب ہوجا ئيں گے _

و من اهل الكتاب بلى من اوفى بعهده واتقى فان الله يحب المتقين

اقدار : ٢

امانت دارى : امانت دارى كى اہميت ٢ ;امانت دارى كى قدر و قيمت ٢ ، ٣ ;امانت دارى كے اثرات ٥ ، ٧;امانت دارى ميں خيانت ٨

انسان : انسان كى قدر و قيمت ١٠

اہل كتاب: ١٠ اہل كتاب كا فسق ٨;اہل كتاب كے عقائد ١

بدعت : دين ميں بدعت ٨ ، ٩

بدعت قائم كرنے والے : ٨

تقوي : تقوي كى اہميت ٤ ; تقوى كى نشانياں ٣ تقوي كے اثرات ٥ ، ٧ ، ٩ ، ١٠

تكبر : تكبر كے موانع ٩

خدا تعالى : خدا تعالى كى محبت ٥ ، ٦ ، ٧ ، ١٠; خدا تعالى كے محبوب٦ ، ١٠

خيانت :٨

دين : ٨ ، ٩

۵۹۱

عقيدہ : باطل عقيدہ ١

عہد : وفائے عہد ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٥ ، ٧ ; وفائے عہد كے اثرات ١٠

فسق : فسق كے اثرات ٨

قدر و قيمت : قد رو قيمت كے معيار٤

متقين: متقين كا مقام ٦

نسلى امتياز٤ :

إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَئِكَ لاَ خَلاَقَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ وَلاَ يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (٧٧)

جو لوگ الله سے كئے گئے عہد او رقسم كو تھوڑى قيمت پر بيچ ڈالتے ہيں ان كے لئے آخرت ميں كوئي حصہ نہيں ہے او رنہ خدا ان سے بات كرے گا او رنہ روز قيامت ان كى طرف نظر كرے گا اور نہ انھيں گناہوں كى آلودگى سے پاك بنائے گا او ران كے لئے دردناك عذاب ہے _

١_ اہل كتاب (كے علماء) كا اپنے دنياوى مقاصد تك پہنچنے كے ليئے عہد شكنى اور دين فروشى كرنا _

ان الذين يشترون بعهد الله و ايمانهم ثمناً قليلاً سابقہ آيات كے قرينہ سے''ان الذين ...''كے واضح مصاديق اہل كتاب ہيں اور چونكہ عموماً دين فروشى اور بدعت علمائے دين كے ہاتھوں انجام پاتى ہے لہذا ہم نے مذكورہ

۵۹۲

بالا مطلب ميں علماء كا اضافہ كيا ہے_

٢_ اہل كتاب اپنے دنياوى مقاصد تك پہنچنے كے ليئے اپنى قسميں توڑديتے ہيں _انّ الذين يشترون بعهدالله و ايمانهم ثمناً قليلاً

٣_ امانت دارى اور معاشرتى حقوق خدا تعالى كے عہد ہيں *و منهم من ان تامنه بدينارلا يؤدّه اليك انّ الذين يشترون بعهد الله

٤_ يہودى علماء عہد خدا ( پيغمبر اسلام سے مربوط حقائق)ميں تحريف كرنے اور اسے چھپانے ميں دنياوى مقاصد ركھتے ہيں _انّ الذين يشترون بعهد الله و ايمانهم

آيت كے شان نزول كو مد نظر ركھتے ہوئے ''عھد اللہ''سے مراد پيغمبر اسلام (ص) سے مربوط حقائق ہيں جو تورات ميں تھے اور يہودى علماء نے ان ميں تحريف كردى _

٥_ عہد الہى اور اس سے پيدا ہونے والى ذمہ داريوں پر سوداگرى كرنے كى اصل وجہ دنياپرستى ہے_

ان الذين يشترون بعهد الله ثمناً قليلاً

٦_ اہل كتاب كے نزديك عہد الہى اور اس كى ذمہ دارياں بے وقعت و كم ارزش ہيں _

يشترون بعهد الله ثمناً قليلاً الہى معاہدوں كو كم قيمت پر بيچنا انہيں كم قيمت سمجھنے كى دليل ہے_

٧_ عہد الہى بيچ كردنياوى قيمت حاصل كرنا اگر چہ بہت زيادہ ہو پھر بھى كم ہے_

ان الذين يشترون بعهد الله و ايمانهم ثمناً قليلاً ظاہراً جو قيمت (رياست اور مال و ثروت) آيات الہى بيچنے والے ليتے تھے كم نہيں تھى ليكن خدا تعالى نے اسے كم كہا ہے_

٨_ اخروى نعمتوں سے يہودى علماء ،عہد الہى كے سوداگروں اور عہد و پيمان توڑنے والوں كا محروم ہونا_

انّ الذين يشترون اولئك لاخلاق لهم فى الآخرة

٩_ عہد الہى اور اپنے وعدوں د معاہدوں كى پابندى اخروى نعمتوں سے بہرہ مند ہونے كا موجب ہے_

ان الذين يشترون بعهد الله و ايمانهم لاخلاق لهم فى الآخرة

١٠_ دنياوى نعمتوں كا اخروى نعمتوں كے مقابلے ميں

۵۹۳

بے ارزش و بے وقعت ہونا _ان الذين يشترون بعهد الله ثمناً قليلاً اولئك لاخلاق لهم فى الاخرة

جملہ '' لاخلاق ...''دنياوى نعمتوں كے كم ہونے كى دليل ہوسكتاہے يعنى چونكہ وہ اخروى نعمتوں سے محروم ہوجائيں گے لہذا جو كچھ دنيا ميں حاصل كرتے ہيں وہ كم ہے_

١١_ عہد الہى كے سوداگر اور عہد توڑ نے والے خداوند عالم كے غضب كا شكار اور آخرت ميں خدا تعالى كى توجہ اور گفتگو سے محروم ہونگے_ان الذين يشترون و لا يكلمهم الله و لا ينظر اليهم يوم القيامة

١٢_ خداوند متعال كے عہد اور اپنے وعدوں كى پابندى خداوند عالم كى توجہ اور گفتگو سے بہرہ مند ہونے كا موجب ہے _

ان الذين يشترون و لا يكلمهم الله و لا ينظر اليهم يوم القيامة

١٣_ خدا وند متعال كا قيامت كے دن لوگوں سے گفتگو كرنا _و لا يكلمهم الله يوم القيامة

١٤_ عہد الہى كے سوادگر اور عہد توڑنے والے قدرت الہى سے رشد و ترقى كرنے اور پاك ہونے سے محروم ہيں _

ان الذين يشترون بعهد الله و لا يزكيهم تزكيہ '' زصكصوص''يا '' زصكى ''كے مادہ سے ہے جس كے معنى پاك ہونے نيز ترقى و رشد حاصل كرنے كے ہيں _

١٥_ علمائے اہل كتاب; عہد الہى كى سوداگرى اور پيمان شكنى كى وجہ سے خداوند متعال كے غضب كا شكار، قيامت ميں اس كى نظر اور گفتگو سے محروم اور اسكے تزكيہ سے بے بہرہ ہيں _

و منهم من ان تامنه بدينار انّ الذين يشترون و لايكلمهم الله و لا ينظر اليهم يوم القيامة و لا يزكيهم

١٦_ عہد الہى اور اپنےمعاہدوں كى پابندى خدا تعالى كے تزكيہ سے بہرہ مند ہونے كا ذريعہ ہے_

انّ الذين يشترون بعهد الله و ايمانهم و لا يزكيهم مذكورہ بالامطلب آيت كے مفہوم سے حاصل كيا گيا ہے_

١٧_ عہد الہى كى سوداگرى اور عہد شكنى قيامت ميں خدا تعالى كے دردناك عذاب كى موجب ہے_

ان الذين يشترون و لهم عذاب اليم

١٨_ علمائے اہل كتاب عہد الہى كى تجارت اور

۵۹۴

عہدشكنى كى وجہ سے قيامت ميں خدا تعالى كے دردناك عذاب كے مستحق ہوں گے_و من اهل الكتاب ان الذين يشترون و لهم عذاب اليم

١٩_ انسانوں كا تكامل و ترقى اور نيز ان كا سقوط و انحطاط مراتب ركھتاہے_*ان الذين يشترون و لهم عذاب اليم

احتمال ہے كہ مذكورہ بالا مختلف عذاب ( اخروى نعمتوں سے محروم ہونا ، خدا كا نظر نہ كرنا ، تكلم نہ كرنا ) انحطاط كے مراتب كى طرف اشارہ ہو _

٢٠_ خداوند متعال كے عہد اور اپنى قسموں كو توڑكر تجارت كرنا گناہ كبيرہ ہے_ان الذين يشترون و لهم عذاب اليم سخت عذاب كا وعدہ گناہ كے كبيرہ ہونے كى علامت ہے_

٢١_ بندوں كے ساتھ قيامت ميں كلام كرنا، نظر كرنا اور دنيا ميں ان كا تزكيہ كرنا، ان كے ساتھ خداوند عالم كى محبت كا جلوہ ہے_بلى من اوفى بعهده و اتقى فانّ الله يحب المتقين ان الذين يشترون ولا يزكيهم

سابقہ آيت كے اس آيہ كے مفہوم كے ساتھ ارتباط سے مذكورہ بالا مطلب حاصل كيا گيا ہے اور چونكہ جملہ ''لا يزكيھم '' كو اس سے پہلے جملوں كے برخلاف''يوم القيامة '' كے ساتھ مقيد نہيں كياگيا ، لہذا كہا جاسكتاہے كہ تزكيہ دنيا سے مربوط ہے_

٢٢_ دنيا پرستى ، اخروى نعمتوں اور قيامت ميں خدا تعالى كى نظر اور گفتگو سے محروميّت كى موجب اور انسان كى ترقى و تكامل اور اس كے پاك ہونے سے مانع ہے_ان الذين يشترون ثمناً قليلاً و لا يزكيهم

٢٣_ قيامت ميں خدا وند عالم كا لوگوں پر نظر كرنا ان پر اس كى رحمت ہے_و لا ينظر اليهم

امير المؤمنين (ع) نے آيت '' و لا ينظر اليھم يوم القيامة ''كے بارے ميں فرمايا : فنظرہ اليھم رحمة منہ لھم (١)پس خدا تعالى كا انگى طرف نظر كرنا ان كيلئے اس كى رحمت ہے_

٢٤_ جو لوگ جھوٹى قسم كھاتے ہيں آخرت ميں ان كا كوئي حصہ نہيں اور دردناك عذاب ان كے انتظار ميں ہے_

ان الذين و ايمانهم ثمناً قليلاً امام صادق(ع) نے گناہان كبيرہ كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا: واليمين الغموس اورجھوٹى قسم كيونكہ خدا فرماتاہے:

____________________

١) توحيد صدوق ص ٢٦٥ حديث ٥ ، تفسير برہان ج١ ص ٢٩٣ حديث ١٣_

۵۹۵

''ان الذين يشترون بعهد الله وايمانهم ثمناً قليلاً اولئك لاخلاق لهم فى الآخرة ...'' (١)

٢٥ جو شخص جھوٹى قسم كے ذريعے كسى مسلمان كا مال حاصل كرلے وہ خدا وند عالم كا مغضوب ہے_

ان الذين يشترون بعهدالله لهم عذاب اليم رسول خدا (ص) نے فرمايا :''من حلف يميناً يقتطع بها مال اخيه لقى الله عزوجلّ و هو عليه غضبان فانزل الله تصديق ذلك فى كتابه '' ان الذين يشترون ...'' جو شخص جھوٹى قسم كے ذريعے اپنے بھائي كا مال ہتھيا لے وہ خدا تعالى سے ملاقات كرے گا اس حال ميں كہ خدا وند عالم اس پر غضبناك ہوگا اور خدا نے اسكى تصديق قرآن كريم ميں بھى نازل فرمائي ہے '' ان الذين يشترون ...''(٢)

اخروى اجر: ٩

امانت دارى : امانت دارى كى اہميت ٣

اہل كتاب: اہل كتاب كا عہد توڑنا ١ ، ١٥ ، ١٨;اہل كتاب كى خصلتيں ٢; اہل كتاب كى دين فروشى ١ ، ١٥ ، ١٨ ;اہل كتاب كے علماء ١ ، ٦ ، ١٥ ، ١٨

تحريف :٤

ترقى : ترقى كے عوامل ١٤ ;ترقى كے مراحل ١٩ ;ترقى كے موانع ١٤

تكامل : تكامل كے مراتب ١٩

حق كو چھپانا : ٤

خدا تعالى : خدا تعالى كا عہد ٣ ،٤ ، ٥ ، ٦ ، ٧ ، ٨ ، ٩ ، ١١ ، ١٢ ، ١٤ ، ١٥ ، ١٦ ، ١٧ ، ١٨ ، ٢٠ ; خدا تعالى كا غضب ١١ ، ١٥ ، ٢٥; خدا تعالى كا كلام ، ١١ ، ١٢ ، ١٣ ، ١٥ ، ٢١ ، ٢٢ ; خدا تعالى كى توجہ ١١ ، ١٢ ،٢١ ، ٢٢; خدا تعالى كى رحمت ٢٣ ;خدا تعالى كى محبت ٢١ ;خدا تعالى كى نعمتيں ٩ ، ١٠

____________________

١) عيون اخبار الرضا (ع) ج١ ص ٢٨٧ حديث ٣٣ ، نورالثقلين ج١ ص٣٥٥ حديث ١٩٥_

٢) امالى شيخ طوسى ج١ ص ٣٦٨ جزء ١٢، نورالثقلين ج١ ص ٣٥٥ حديث ١٩٣_

۵۹۶

خودسازي: خودسازى كا پيش خيمہ ١٦،٢١; خودسازى كے موانع ١٤،١٥،٢٢

دنيا پرستى : ٧ دنيا پرستى كے اثرات ٥، ٢٢

دنياوى وسائل : ٢ دين فروشى :١،٧،٨،١١،١٤،١٥،١٧،١٨ دين فروشى كا پيش خيمہ ٥ ; دين فروشى كى سزا ١٨

روايت : ٢٣ ، ٢٤ ، ٢٥

عذاب : اہل عذاب ١٧،١٨;عذاب كے موجبات ١٧،١٨،٢٤

عہد : عہد توڑنا ٨،١١،١٤،٢٠;عہد توڑنے كى سزا ١٧; وفائے عہد ٩،١٢،١٦

قسم : جھوٹى قسم كى سزا ٢٤;جھوٹى قسم كے اثرات ٢٥;قسم توڑنا ٢، ٢٠

قيامت : ١١ ، ١٢ ، ١٣ ، ١٥ ، ٢١ ، ٢٢ ، ٢٣

گناہان كبيرہ :٢٠ لوگوں كے حقوق : ٣

مورد غضب لوگ : ١١ ، ١٥ ، ٢٥

نعمت : اخروى نعمت كى قدر و قيمت ١٠ ; دنياوى نعمت كى قدر و قيمت ١٠

يہود: علمائے يہود ٤ ، ٨ ; يہود اور حق كو چھپانا ٤ ;يہود كا تحريف كرنا ٤ ; يہود كا دنيا كى طرف رجحان ٤، ٨

۵۹۷

وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (٧٨)

انھيں يہو ديوں ميں سے بعض وہ ہيں جو كتاب پڑھنے ميں زبان كو توڑ موڑ ديتے ہيں تا كہ تم لوگ اس تحريف كو بھى اصل كتا ب سمجھنے لگو_ حالانكہ وہ اصل كتاب نہيں ہے اوريہ لوگ كہتے ہيں كہ يہ سب الله كى طرف سے ہے حالانكہ الله كى طرف سے ہرگز نہيں ہے يہ خدا كے خلاف جھوٹ بولتے ہيں حالانكہ سب جانتے ہيں _

١_ بعض اہل كتاب ( ان كے علماء )كا دين ميں بدعت ايجاد كرنا اور تورات و انجيل كى تحريف كرنا_

و ان منهم لفريقا يلون السنتهم بالكتاب لتحسبوه من الكتاب

٢_ دينى زبان و روايات كو انكى تحريف كا ذريعہ بناناو انّ منهم لفريقاً يلون السنتهم بالكتاب

٣_ خداوند عالم كى كتابيں لوگوں كے درميان خدا تعالى كاعہد ہيں _ان الذين يشترون بعهد الله و ان منهم لفريقا يلون السنتهم بالكتاب

٤_ بعض اہل كتاب كا آسمانى كتابوں ميں تحريف كے ذريعے دھوكہ و فريب دينا _و ان منهم لفريقا لتحسبوه من الكتاب

٥_ آسمانى كتابيں دوسرى تمام تحريروں اور گفتاروں سے مشخص و ممتاز قالب اور اسلوب و انداز ركھتى ہيں *

يلون السنتهم بالكتاب لتحسبوه من الكتاب كيونكہ يہودى اپنى تحريروں كو تورات كے انداز

۵۹۸

سے پڑھتے تھے معلوم ہوتاہے كہ تورات كا اپنا خاص قالب اور اسلوب تھا_

٦_ بعض اہل كتاب ( ان كے علماء) عوام كو دھوكہ دينے كے ليئے اپنى تحريروں كى كتاب خدا كى طرح تلاوت كرتے تھے_و ان منهم لفريقا يلون السنتهم بالكتاب لتحسبوه من الكتاب

٧_ بعض اہل كتاب ( ان كے علماء ) مسلمانوں كو منحرف كرنے كے لئے اپنى تحريروں كوتورات و انجيل كے طور پر پيش كرتے تھے_و ان منهم لفريقاً لتحسبوه من الكتاب مذكورہ بالا مطلب ''لتحسبوہ''جو كہ مسلمانوں اورمؤمنين كو خطاب ہے كے ظاہر سے حاصل كيا گيا ہے_

٨_ بعض اہل كتاب ( ان كے علماء ) اپنى تحريروں كو كتاب خدا كے عنوان سے لوگوں كے سامنے پيش كرتے تھے_

و يقولون هو من عند الله و ما هو من عند الله

٩_ بعض اہل كتاب ( ان كے علماء ) كا آگاہانہ خدا تعالى اور اسكے دين پر افترا پردازى كرنا اور جھوٹ باندھنا_

ويقولون هو من عندالله و يقولون على الله الكذب و هم يعلمون

١٠_ معاشروں كے انحراف و گمراہى ميں تحريف كرنے والے علماء اور آسمانى كتابوں كى تحريف كا كردار و تاثير _

و ان منهم لفريقا و يقولون على الله الكذب و هم يعلمون

تحريف كے ذكر ، اسكى كيفيت كے بيان اور آيت كے علمائے اہل كتاب كے بارے ميں سخت لہجے سے پتہ چلتاہے كہ يہ عمل لوگوں كے گمراہ كرنے ميں بہت زيادہ مؤثر تھا_

آسمانى كتابيں : ٣ ، ٥ ، ٦ ،٧ آسمانى كتابوں كى تحريف ٤ ، ١٠

افترا: خدا پر افترا ٩ ; دين پر افترا ٩

انجيل : انجيل ميں تحريف ١

اہل كتاب : اہل كتاب اور آسمانى كتابيں ٦ ، ٨ ;اہل كتاب اور لوگوں كو گمراہ كرنا ٧; اہل كتاب كا تحريف كرنا ١ ، ٤ ، ٦ ، ٧; اہل كتاب كا مكر و فريب ٤ ، ٦ ;اہل كتاب كے علماء ١ ، ٦ ، ٧ ، ٨ ، ٩

۵۹۹

بدعت : ١

تورات : تورات ميں تحريف ١

خدا تعالى : خدا تعالى كا عہد ٣

دين : ٩ دين سے سوء استفادہ ٢ ، ٦ ، ٨;دين كى تحريف ٢ ;دين ميں بدعت ١

علماء : ١٠

گمراہى : گمراہى كے عوامل ٧ ، ١٠

معاشرہ : معاشرہ كے انحراف كا پيش خيمہ١٠

مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُواْ عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللّهِ وَلَكِن كُونُواْ رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ (٧٩)

كسى بشر كے لئے يہ مناسب نہيں ہے كہ خدا اسے كتاب و حكمت اور نبو ت عطا كر دے او رپھر وہ لوگوں سے يہ كہنے لگے كہ خدا كو چھوڑ كر ہمارے بندے بن جا ؤ بلكہ اس كا قول يہى ہوتا ہے كہ الله والے بنو كہ تم كتاب كى تعليم بھى ديتے ہوا او ر اسے پڑھتے بھى رہتے ہو _

١_ كسى نبى كو يہ حق نہيں پہنچتا كہ لوگوں كو اپنى بندگى اور اپنے سامنے خشوع و خضوع كا حكم دے_

ما كان لبشر: ان يؤتيه الله الكتاب ثمّ يقول للناس كونوا عباداً لي

٢_ انبياء (ع) كى طرف منسوب كرنا كہ وہ لوگوں كو اپنى عبادت كى طرف بلاتے ہيں ، آسمانى كتابوں ميں تحريف كرنے والوں كى گھڑى ہوئي بات ہے_

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749