تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172830 / ڈاؤنلوڈ: 6319
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ب۔ صبر کے درجات:

بعض علماء اخلاق اور اہل معرفت نا گوار امور پر صبر کرنے ( صبر خاص )کے لئے تین درجوں کے قائل ہوئے ہیں۔

١۔ تائبین کا صبر: اوراس سے مراد ہے شکوہ کا ترک کرنا، بے تابی اور بے قراری کا ثبوت نہ دینا، اور غیر فطری اور پریشان کن رفتارنہ رکھنا۔

٢۔ زاہدین کا صبر: یعنی اول درجہ کے علاوہ جوسختیاں، درد والم انسان کے لئے مقدر ہوئی ہیں ان پر قلبی طور سے راضی ہونا۔

٣۔ صدیقین کا صبر: یعنی پہلے دودرجہ کے علاوہ نسبت اس چیز سے جو خدا وند عالم نے اس کے لئے معین کر رکھا ہے، عشق کرنا اور اسے دوست رکھنا ۔(١)

ج۔ صبر کی اہمیت:

کلمہ ''صبر ''مختلف صورتوں میں سو بار سے زیادہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے کہ جس سے خود ہی اس موضوع کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم بعض بنی اسرائیل کی ہدایت وپیشوائی کے منصب تک پہونچنے کی علت کے بیان میںفرماتا ہے: ''اور جب انہوں نے صبر کیا اس حال میں میری آیتوں پر یقین رکھتے تھے تو ہم نے ان میں سے بعض کو پیشوا قرار دیا کہ وہ ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے''۔(٢) اور آخرت میں صابروں کی کیفیت جزا کے بارے میں ایک جگہ پر ان کے عمل سے بہتر جزا کا وعدہ دیتا ہے: ''یقینا ً جن لوگوں نے صبر کیا تو جو انہوں نے عمل کیا ہے ہم انھیں اس سے بہتر جزا دیں گے''۔ ٣)

دوسری آیت میں صابروں کی مقدار جزا کی تعیین کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے: ''وہ لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا اور نیکیوں سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیںروزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ دہر ی جزا پائیں گے''۔(٤)

____________________

١۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ٢٨٤۔

٢۔ سجدہ ٢٤۔

٣۔ نمل ٩٦۔

٤۔ قصص ٥٤۔

۱۶۱

دوسری جگہ پر اعلان کرتا ہے کہ صابروں کا اجر اور ان کی جزابے حد اور ناقابل شمار ہے اور وہ لوگ بے حساب جزا پائیں گے: ''بے شک صابرین اپنی جزا بے حساب پوری پوری پائیں گے''۔(١) اسی طرح خداوند عالم نے صابروں کو ہمراہی کا وعدہ دیا ہے: '' صبر کروکیونکہ خدا صابروں کے ساتھ ہے ''۔(٢ ) وہ نصرت اور کامیابی کو صرف اور صر ف صبر و شکیبائی کے سایہ ممکن جانتا ہے''۔(٣) ہدایت، درود اور رحمت پروردگار کو صابروں کے حق میں قرار دیتا ہے۔(٤) صابروں کو اپنے دوستوں اور محبوبوںکے زمرہ میں بیان کرتا ہے۔(٥) بارہا اور بارہا اپنے رسولوںاور تمام انسانوں کو صبر کی تاکید کرتا ہے۔(٦) اپنے خاص بندوں کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ خداوند سبحان سے صبر و شکیبائی کی توفیق کی درخواست کرتے رہے ہیں۔(٧) اس کے علاوہ مزید اور دسیوںمورد ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میںصبر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں: ''صبر ایمان کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو جسم کے لئے سر کی حیثیت ہے، جس طرح سر کے نہ ہونے سے جسم کا خاتمہ ہوجاتاہے اسی طرح اگر صبر نہ ہوتوایمان بھی جاتارہے گا ''۔(٨) حضرت امام محمد باقر ـ سے صبر کی اہمیت کے بارے میں نقل ہوا ہے : '' جنت نا گواریوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا جو بھی دنیا میں نا گوارچیزوں پر صبر کرے وہ بہشت میں جائے گا۔ اور دوزخ نفسانی خواہشات اور لذّات میں گھری ہوئی ہے، لہٰذا جو بھی نفسانی خواہشات ولذات کی تکمیل کرے گا، وہ جہنم میںجائے گا ''۔(٩)

____________________

١۔ زمر ١٠۔

٢۔ انفعال ٤٦۔

٣۔ آل عمران ١٢٥۔

٤۔ بقرہ ١٥٧۔

٥۔ آل عمران ١٤٦۔

٦۔ احقاف ٣٥۔

٧۔ بقرہ ٢٥٠ ؛ اعراف ١٢٦۔

٨۔ کلینی، کافی ج ٢، ص٨٩، ح ٥۔

٩۔ ایضاً، ح٧۔

۱۶۲

د۔ صبر کے فوائد:

صبر کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد شمار کئے جاسکتے ہیں، منجملہ ان کے حضرت علی ـ بعض گذشتہ امتوں کی عزت وذلت کے بارے میں اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ''جب خدا نے دیکھا کہ وہ کس طرح اس سے دوستی کی راہ میں اذیت و آزار پر صابر ہیں اور اس کے خوف سے نا گواریوں پر صبر و تحمل کرتے ہیں تو اس نے انھیں گرداب بلا سے نکال کر گشائش عطا کی، اور ذلت و خواری کے بعد انھیں با آبرو بنایا اور سکون و اطمینان کو خوف کا جا گزیں بنادیا۔ پھر وہ حکمراں بادشاہ اور باعظمت و شان پیشوا ہوگئے اور خدا کی کرامت ان کے حق میں یہاںتک پہنچ گئی کہ دیدۂ آرزو ان کے آخری درجہ کہ وہ اس جگہ پہونچا ان کی نگاہ اور اس کی انتہا کو نہ دیکھ سکی''۔(١)

بعض علماء اخلاق نے صبر کو مقدّرات الٰہی پر راضی رہنے کے مقام رضایت تک پہونچنے کا دروازہ قراردیا ہے، اور مقام رضا کو محبت پروردگار کی وادی تک پہونچنے کا دروازہ جانا ہے۔(٢) اس لحاظ سے صبر کے اہم فوائد میں سے اسی دنیا میں مقام '' رضا '' و'' محبت '' تک رسائی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

''صبر '' کے لئے دیگر متعدد موضوعات بھی قابل ذکر ہیں، جیسے صبر و شکر میں مناسبتیں، صبر کے حصول کی راہیں اور اس کے مانند دوسرے موضوعات کہ اختصار کے پیش نظر ان کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص ٢٨٣۔

۱۶۳

تیسرا باب :

اسلام کی نظر میں اخلا قی تر بیت

پہلی فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

مقدمہ:

اخلاق اسلامی کے اصول اور مفاہیم سے آشنائی کے بعد یہ بات مناسب ہے کہ اپنے آپ سے سوال کریں '' نا مطلوب موجود '' کی حالت کو کس طرح '' ناموجود مطلوب '' سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ واضح عبارت میں اخلاقی تربیت کے طریقے کیا ہیں ؟

تربیتی طریقے، کبھی خود تربیتی اپنے ( لئے تربیتی) ہیں تو دیگر تربیتی کبھی دوسرے کے( لئے تربیتی) ہیں، کبھی قولی ہیں تو کبھی عملی، کبھی سلبی ( روکنے والے ) ہیں اور کبھی ایجابی (اصلاحی )، کبھی عام( یعنی تمام سن کے مراحل کے لئے ) ہیں اور کبھی خاص۔ رفتار کے مبادی(١) کے پیش نظر ان اخلاقی تربیت کی روشوں کو جو رفتار یا اس کے مبادی یعنی ابتدائی مرحلوں سے تعلق رکھتی ہیں، تین چیزوں: شناخت، سبب اور رفتار کے اعتبار سے مورد توجہ قرار دیں گے اور تفصیل سے آئندہ مباحث کے ضمن میں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ چونکہ علوم تربیتی کی اصطلاحا ت (منجملہ اصول، روشیں، اہداف و مقاصد وغیرہ وغیرہ ) کی دقیق تعریف محل اختلا ف ہے اور ان کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں لہٰذا یہاںپر اس کتاب میں مورد نظر تعریف کی طرف اشارہ کریں گے۔ ''روش'' (طریقہ) سے مراد وہ کلی قوانین ہیں کہ ہر ایک جدا گانہ طور پر یا دوسری روشوں کی مدد سے مقصد تک پہنچانے کی خصوصیت کی حامل ہیں۔ ہر روش کے تحقق کیلئے ممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے مختلف اسلوب اور متعدد فنون پائے جاتے ہوں جو روشوں کی نسبت جزئی تر قوانین کا مقصود ہیں۔

____________________

١۔گذشتہ علماء کے نظریات کے مطابق مبادی رفتار اس طرح ہیں: فائدہ کا تصوّر، اس کی تصدیق، شوق موکد۔ معاصر ماہرین نفسیات نے اس سے مشابہ ایک دوسری ترکیب پیش کی ہے ؛ وہ اس طرح ہے: شناخت، باعث اور عملی توانائی۔

۱۶۴

روشوں کے بیان میں ایک عقلی ترتیب پائی جاتی ہے کہ آسان تر دیگر تربیتی روشوں سے شروع ہوتی ہے اور مشکل تر خود تربیتی روشوں پر ختم ہوتی ہے۔ یہ عقلی ترتیب انسان کے اخلاقی اور نفسیاتی رشد سے بھی منطبق ہے اور اسلام کی تربیتی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے۔

ہر روش کو اس کی تعریف اور توضیح سے شروع ہے اور بعد کے مرحلہ میں آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا استناد اسلام سے ثابت کیا گیاہے پھراس کے بعد ( یا اس کے ضمن میں ) نفسیات کے علمی مطالعہ سے استفادہ کرتے ہوئے روش کی توضیح وتکمیل کی گئی ہے، یعنی نفسیات میں کون سے نظری اصول ومبانی کے ذریعہ اس روش کا دفاع کرسکتے ہیں اور اخلاقی تربیت میں اس کی تاثیر ثابت کی جاسکتی ہے، یہاں پر نفسیات کے اہم ترین نظریوں کے متعلق جو کہ تربیت اخلاقی سے مربوط ہیں بحث کی جارہی ہے۔

طریقے

١۔ تربیت کے لئے مناسب ماحول بنانا

انسان کی تکوین اور تغییر کا اہم ترین عامل مختلف ما حول کے حالات ہیں خواہ وہ زمانی یا مکانی یا اجتماعی ماحول ہو۔ بہت سے مقامات میں ماحول کی ترمیم واصلاح سے تربیت کے لئے مساعد اورسازگار ماحول فراہم کرکے جس کی تربیت کی جاتی ہے اس کی عادتوں، خصلتوں، افکار اور رفتار کو بدلا جا سکتا ہے اور جدیدخصوصیات کو اس کا جاگزین بنایا جا سکتا ہے، اس روش کی نفسیاتی بنیاد اس ماحول کے حالات سے انسان کے متاثر ہونے کی اصل ہے جو ماحول سازی ( بعض رفتار کی ہمراہی اور ہمنوائی بعض دیگر کے ساتھ ان کے ثابت کرنے کا باعث ہوتی ہے)، فعّال وکردار ساز ماحول سازی ( ایک ماحول میں خاص طرز عمل ورفتار پر جزا دی جاتی ہے ) یا اجتماعی تعلّم وتربیت ( رفتارکے مشاہدہ سے خاص نمونوں کی پیروی) کے نظریات کے بیان ہوتی ہے ضمن میں یہ روش خاص طور سے دوسروں کے ذریعہ اور انسان کے اولیاء کے ذریعہ بروئے کار لائی جاتی ہے، لیکن انسان خود بھی کسی حد تک موثر ہوسکتا ہے، اس روش کو وجود میں لانے کے جو طریقے لازم ہیں وہ ترتیب وار یہ ہیں:

۱۶۵

مقدمہ سازی، نمونہ سازی، ماحول کو صحیح و سالم بنانا اور حیثیت اور ماحول کو بدلنا۔

الف۔ مقدمہ سازی:

اس سے مراد یہ ہے کہ مناسب ماحول فراہم کرکے اخلاقی فضائل کے وجود میں آنے کا امکان اعلی حد تک فراہم کریں اور اس کے برعکس ایسے مقدّمات جو کہ منفی رخ رکھتے ہیں اور اخلاقی رذائل پیدا کرسکتے ہیں، ان کے وجود ہیں آنے کی روک تھام کریں، اس حصہ میں اسلام کی ہدایات قابل توجہ ہیں۔

ایک۔زوج یا زوجہ کے انتخاب میں کہ جو خاندان کا ایک رکن ہے، اس کے اخلاقی فضائل پر توجہ دینی چاہیے، انظر فی ای شی تضع ولدک فان العرق دساس(١) اس کے مقابل ایسے افراد جو غیر شائستہ گھرانے کے پروردہ ہیں، یاکم عقل اور احمق ہیں تو ایسے لوگوں سے شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔

حضرت امیرا لمومنین علی ـنے جومالک اشتر کو خط لکھا ہے اس میں اس کا رساز عنصر کی اس طرح تصریح فرمائی: ''ضروری ہے کہ اداری امور میں با فضیلت افراد سے استفادہ کرو ، وہی لوگ کہ جو نیک اور شریف خاندان سے ہوں اور اچھے ماضی اور نیک نامی کے ساتھ زندگی گذارچکے ہوں، جو لوگ عقل و ہوش، شجاعت و بہادری کے مالک، سخی اور بلند ہمت ہیں، وہ کرم کامرکز اور نیکی و فضیلت کا سرچشمہ ہیں''۔(٢)

لہٰذا ایسی اولاد جو شائستہ ماں اور با فضیلت باپ کی حمایت کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں اہم ترین مقدّمہ ساز عنصر ما حول اور تربیت کے لحاظ سے ان کا مددگار ہے۔(٣)

دو۔ اچھے نام کا انتخاب اولاد کا والدین پر جوحق ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے یہ ہے کہ۔''ہر انسان کی سب سے پہلے نیکی اس کے فرزند کے حق میںاس کا اچھا نام رکھنا ہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہیے کہ اپنے فرزندوں کا اچھا نام رکھو''۔ ( اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ)۔(٤)

نیک اور شائستہ نام تربیتی اور نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور انسان کی صلاح و فلاح نیز خوبیوں کو فراہم کرنے کا مقدّمہ ہے یا پھر اسے فرو مائگی اور پستی کی سمت لے جاتا ہے۔ ( الاسم یدل علی المسمی ) ۔

____________________

١۔ فلسفی، کودک، ج ١، ص ٦٤۔ حسن الاخلاق، برہان کرم الاعراق، افراد کی اخلاقی خصلتیں خاندان کی پاکیزگی اور فضیلت کی دلیل ہیں، غرر الحکم۔٢۔ نہج البلاغہ، نا مہ ٥٣۔ ٣۔ جنٹک کے علاوہ کہ جن کا ذکر فی الحال مقصود نہیں ہے۔٤۔ وسائل الشیعہ: ج ١٥، ص ١٢٢۔

۱۶۶

٣۔ محل زندگی کا انتخاب (ملک، شہر یا دیہات، محلہ اور پڑوسی کا انتخاب) بھی مقدّمہ ساز عنا صر میں ہے۔ اسی طرح محل تحصیل، کام کاج، احباب اور معاونین سب ہی ( تربیت کی ) راہ ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔(١)

ب۔ نمو نہ سازی :

کہا جا سکتا ہے کہ ہر ماحول کو بنا نے والے اس سماج اور ماحول برگزیدہ اور سر بر آور دہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذ ایک اچھے تر بیتی ماحول کی ایجاد کا ایک طریقہ اس ماحول میں اچھے نمونوں کو وجود میں لانا ہے اور برے نمونوں دور کر نا ہے۔ سماج میں پسندیدہ اور محبوب نمونہ خود بخود اس ماحول میں رہنے والوں کو ان کی طرف کھینچ لا تاہے اور ان کے مکارم اخلاق کو دوسرے لوگ نمونہ بنالیتے ہیں۔

آلبرٹ بنڈورا (١٩٧٨) کہ جو اجتماعی تعلّم کے نظریہ کا واضع ہے۔ تعلّم (سیکھنے) کا سب سے اہم طریقہ مشاہداتی تعلّم کو جانتا ہے کہ وہی تقلید یا نمونہ کا اختیار کرنا ہے انسان ایک نمونہ یا سر مشق کا انتخاب کرکے اس کے عمل کی تقلید کرنے لگتا ہے۔ بنڈ ور ا اس طرح کے تعلّم کو چار مر حلہ میں تو ضیح دتیا ہے: مر حلہ توجہ، حا فظہ کے حوالے کرنا، دوبارہ تخلیق اور سبب ومحرّک۔ ممتا ز صفات، عطو فت ومہر بانی کا بار، پیچید گی، برجستگی اور استعمالی اہمیت نمونہ میں اور حسّی ظرفیت، ابھارنے کی سطح، درک کرنے کی آماد گی اور گزشتہ تقویت مشا ہدہ کر نے والے کے اندر نمونہ شخص کے عمل سے منطبق نتیجۂ عمل کی مدد کرتی ہے۔(٢)

زندہ نمونوں کے علا وہ جو کہ مساعد اورسازگار تر بتیی ماحول ایجاد کر تے ہیں مر بی حضرات ماضی کے اخلاقی اور انسانی نمونوں کی شناخت کر ا کے انھیں حیات نو عطا کر سکتے ہیں اور بنڈورا کے نظریہ میں مذ کو رہ خصو صیات پر نظر کر تے ہو ئے بار عاطفی، ممتاز حالت، بر جستگی وغیرہ کے اعتبار سے ان کے متعلق تا کید اور سر مایہ گذاری کرسکتے ہیں نمونوں کے دقیق موئثر اور محبوب چہرہ کی ترسیم تربیت پانے والوں کے لئے ان کے ذہن وروح میں حسب ضرورت نمونوں کے فقدان کے خلا کو پر کرسکتی ہے اور وہ تدریجاً ان کے مثل بن سکتے ہیں۔

____________________

١۔ ہمنشینوں اور دوستوں کی تاثیر کے بارے میں اس کے بعد بحث کریں گے۔

٢۔ روانشناسی پرورشی، ص ٣١٤۔

۱۶۷

قرآن کر یم میں اس شیوہ سے بہت زیادہ استفاد ہ کیا گیا ہے، بالخصوص اکثر قرآنی نمونے جو ان اور تا ثیر گذار ہیں۔ یوسف شہوت کے مقا بل قہرمان مقا ومت، کہف کے جوان راہ خدا میں رشد و ہد ایت کیلئے ہجرت کے نمونے، اسماعیل حکم خدا کے سا منے سر اپاتسلیم کی مثال اور ابر اہیم عادت شکن اور بت شکن جوان ہیں۔ قرآن کے جوان نمو نوں کے علا وہ دیگر نمونے بھی پائے جا تے ہیں کہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

دین کی تبلیغ میں نوح پا یداری اور استقامت کا نمو نہ، مصا ئب زمانہ اور شدائد روز گا رپر ایوب صبر وتحمل کا نمونہ، طاغوت سے جنگ ومبازرہ کرنے میں داؤد شجاعت اور شہامت کا نمو نہ وغیر ہ وغیرہ، قرآن ان تما م حضرات کی شان میں فرماتا ہے: ''...... وہ لوگ(خدا کے پیغمبر ) ایسے لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے لہٰذ ان کی ہدایت کا اقتدا کرو''۔(١)

بالآخرہ پیغمبر اکرم زندگی کے تمام مراحل میں تمام عالمین کے لئے مطلق نمونہ ہیں ، '' لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ''(٢) کیو نکہ آپ ''خلق عظیم '' کے ما لک، ''مکارم اخلا ق کا آئینہ '' اور '' رحمة للعالمین '' ہیں۔

ماں باپ اور ان کے بعد اساتذہ اور تربیت کرنے والے بھی تربیت سیکھنے والوںکے لئے پہلا نمونہ ہیں۔ تربیت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اہم موقعیت وحیثیت کے مالک، زیادہ کامیاب، زیادہ علم ودانش یا معنوی بلندی کے مالک اکثر دوسروں کی نظر کو اپنی طرف جلب کرتے ہیں اور ان کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے طالب علموں کی نظر میں عام طور پر اساتذہ اور والدین ان خصوصیات کے یا ان میں سے بعض کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن بہر صورت اس برتری اور برجستگی کا نہ ہونا معنوی، علمی اور اجتماعی شعبوں میں تربیت پانے والوں کوکسی اور سمت لے جاتا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں:'' پیغمبر اکرم ہر روز میرے لئے اپنے مکارم اخلاق میں سے ایک کو بیان کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے ''۔(٣) حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں: ''بچے اپنے والدین کی خوبیوںاور صلاحیتوں سے محفوظ ہوتے ہیں ''۔(٤)

____________________

١۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھد یھم اقتدہ، سورئہ انعام، آیت ٩٠۔ ٢۔ سورئہ احزاب، آیت، ٢١۔٣۔ یرفع لی کل یوم علما من اخلاقہ و یامرنی با لاقتداء بہ ؛نہج البلاغہ، خ ١٩٢۔

٤۔ یحفظ الاطفال بصلاح آبائھم، بحار الانوار ج ٥، ص ١٧٨۔

۱۶۸

نمونہ سازی کے طریقہ سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں قرآن کریم نے کم از کم دو اخلاقی اور تربیتی نکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ؛ اول یہ کہ اس نے محبوب اور پسندیدہ افراد کو کلی طور پر نیز عام عنوان سے بیان کیا ہے، جیسے: تائبین، متطہّرین،متّقین، صالحین، صابرین، محسنین اور مجاہدین وغیرہ اور کبھی خاص طور سے اور نا م کے ساتھ (پیغمبروں سے متعلق) بیان کیا ہے، لیکن قابل نفرت ومذمّت افراد کا ذکر قرآن میں استثنائی موارد (جیسے ابو لہب) کے علاوہ کلی عناوین کے تحت ہوا ہے، جیسے: تجاوز کرنے والے، اسراف کرنے والے، خود پسند افراد، کفار، ظالمین اور متکبرین وغیرہ۔ اس وجہ سے ہم کو بھی چاہیے کہ قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اسی روش کا انتخاب کریں کہ اخلاقی فضائل کی شناخت کرانے میں کلی عناوین بھی اور صاحبان فضائل کے اسماء بھی بیان کریں، منفی مقامات پر اشخاص کے نام بیان کرنے سے اجتناب کریں۔

دوسرے نمونوں کا انتخاب کرنا ہے، قرآن کریم ایک ساتھ محبوب اور منفور افراد کا ذکر کرکے انسانی سماج کو علم وآگہی کے ساتھ اپنے منظور نظر نمونوں کے انتخاب کی دعوت دیتا ہے، حتیٰ کہ گذشتہ آباء اجداد کے سلسلہ میں بھی آگاہ کرتا ہے کہ بغیر علم و آگہی کے ان کی اندھی تقلید کرکے اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کریں۔ انہوں نے کہا: ''ہم نے آباو اجداد کو ایک آئین پر پایا ہے لہٰذا ہم بھی انھیںکا اتباع کرتے ہیں ' اس (پیغمبر) نے کہا ''خواہ جس پر تم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے زیادہ ہدایت کرنے والا بھی تمہارے لئے لے آؤں تب بھی ایسا کرو گے''؟(١) اس وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ انسانوں کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے نیز مطلوب نمونوں اور معیاروں کا تعارف کراتے ہوئے تربیت پانے والوں کے لئے آگاہانہ انتخاب کی راہ فراہم کریں۔

ج۔ما حول کوصحیح و سالم رکھنا:

برے اور شر پسند افراد ہر ماحو ل اور سماج میںعام طور پر پائے جاتے ہیں۔ بیشک فاسد اور برے ماحول اخلاقی تربیت کے معاملہ کو دشوار بلکہ بعض اوقات نا ممکن بنا دیتا ہے، اس وجہ سے ماحول کو صحیح وسالم رکھنا کہ جو تقریبا ً امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے زندہ کرنے کے مساوی فریضہ ہے،سب کے لئے ایک عقلی، انسانی نیز دینی فریضہ ہے۔ اس طرز اور شیوہ سے مراد معاشرے کے تمام افراد کے اندر خوبیوں کی ایجاد اور ان کا احیاء کرنا ہے اور برے امور کو ختم کرنا ہے۔ درج ذیل نکات امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور ان کے پہلوئوں کو کہ جو دراصل معاشرہ میں اخلاقی تربیت کو آسان کرنے والے ہیں، زیادہ واضح کرتے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ زخرف، آیت ٢٣، ٢٤۔

۱۶۹

١۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس نکتہ کو واضح انداز میں اپنے دامن میں رکھتا ہے کہ دعوت ایک شناختہ شدہ شرعی اور عقلی معیار پر ہونی چاہیے۔(١) اس وجہ سے جب بھی بات شرعی واجب یا حرام کی ہوتو چاہیے کہ اس کی ثقافتی پشت پناہی ایجاد کی جائے ا ورایک معروف یامنکر کے عنوان سے اکثر لوگوں کے نزدیک متعار ف ہو۔ ایسے حالات میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو عام مقبولیت حاصل ہو گی۔ بعبارت دیگر امر با لمعروف کی دشواری اور کلی طور پر اس کاقبول نہ ہونے میں مشکل نہیں ہے بلکہ مشکل ان خاص موارد اور مصادیق میں ہے کہ جن کا معروف یا منکر ہونا کافی حد تک مستدل طور سے لوگوں کے لئے واضح نہیں کیاگیا ہے۔

٢۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب کا فریضہ ہے، لیکن امر و نہی کرنے والے خاص شرائط کے حامل ہوں، منجملہ ان کے امر و نہی کے شرائط کی شناخت(٢) نیز خود معروف اور منکر کی پہچان ضروری ہے، اس کے علاوہ یا د دہانی اور بیان کا طریقہ اس طرح ہو کہ زیادہ سے زیادہ تاثیر کی امید ہو۔

٣۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے موارد کو وسیع ہونا چاہئے اور خاص مصادیق میں کہ جو اس وقت سماج اور معاشرہ میں زیادہ رایج اور شائع ہے (جیسے بے حجابی) میں محصور نہ ہو۔ اخلاق کے خلاف اعمال جیسے رشوت لینا، تہمت لگانا، غیبت کرنا اور بد گوئی وغیرہ ایک عام ثقافت اور تہذیب کی صورت میں معیّن شدہ نصائح اور نہی عن المنکر کا مورد واقع ہوں، تاکہ مثال کے طور پر بے حجاب یہ خیال نہ کریں کہ نہی عن المنکر ہمیشہ انہیں کے بارے میں ہے۔

د۔ موقعیت کا تبدیل کرنا:

کسی ماحول کے حالات کی قوّت اور اس کی اثر گذاری اس حد تک ہوتی ہے کہ صرف موقعیت اور حالات کے تبدیل کرنے سے اخلاقی تربیت حاصل ہوپاتی ہے۔ اگر چہ ماحول کی تبدیلی بہت زیادہ مالی اخرجات اور نفسیاتی بوجھ کی حامل ہوتی اخراجات ہے، ایک سا ز گار تربیتی ماحول ایجاد کرنے کے لئے آخری طرز کے عنوان سے ضروری ہے۔ ''ہجرت'' منجملہ ان دستورات میں سے ہے کہ جس کی دین میں تاکید ہوئی ہے اور کبھی واجب حد تک پہونچ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے بقول جب فرشتے کچھ لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تووہ لوگ ماحول کے ناموافق ہونے کو اپنا عذر بیان کرتے ہیں، لیکن فرشتے کہتے ہیں ''.... کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ....''۔(٣)

____________________

١۔'' المعروف'' اسم لکل فعل یعرف بالعقل او الشرع حسنہ والمنکر ما ینکر ھما (المفردات ) معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع کے ذریعہ نیک جانا جائے اور منکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع ناپسند کریں۔ ٢۔ سورئہ توبہ، آیت ٧١ اور ملاحظہ ہو: المیزان، ج ٣ ، ص ٣٧٣۔

٣۔ الم تکن ارض اللہ واسعة فتھاجروا فیھا۔۔۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٩٧۔

۱۷۰

جو انسان ایسے گھر یا محلہ میں زندگی بسر کرتا ہے کہ وہاں کے رہنے والے اپنی یا اپنی اولاد کی شائستہ تربیت کے لئے موافق اور ساز گار ماحول نہیں رکھتے وہ اسی طریقہ سے استفادہ کرتے ہوئے جدید امکانات کو اپنے اہل وعیال اور خاندان کے افراد کے رشد و تغیرّ کے لئے فراہم کرسکتا ہے۔ اپنے یا اپنے اقرباء کے نا پسند ناموں کا تبدیل کرنا بھی اس خاص نفسیاتی ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے جو اسی سے پیدا ہوتا ہے تغییر موقعیت کے موارد میں شمار ہوتا ہے۔(١) ایسی نشست جس میں اخلاق کے خلاف اعمال کی روک تھام نہ ہوسکے اسے ترک کردینا چاہیے: ''مجرمین کے بارے میں وہ سوال کررہے ہوں گے: کس چیز نے تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیا؟ وہ کہیں گے: ہم لوگوں کے برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔(٢)

اسلام ایک مسلمان کے روزانہ کے معمول کی تعیین میں اسی طر یقہ اور روش سے مدد لیتا ہے اور اسے مذہبی مراکز جیسے مساجد میں مسلسل حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے یہ اسے خود ہی ایک قسم کی تغییر موقعیت ہے اگر چہ ہجرت شمار نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ایک قسم کی اخلاقی تازگی اورشادابی انسان کو عطا کرتی ہے اور اسے ایک ہی طرح کے ماحول سے اور بسا اوقات روزانہ کے نا مساعد اور غیرموافق ماحول سے جدا کردیتی ہے۔

٢۔ ضرورتوں کو صحیح طریقہ سے پورا کرنا

ضرورتو ںکو صحیح طریقہ سے پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی کو ایک متعادل حد تک اخلاقی تربیت دینے اور بالاتر ضرورتوں کی تکمیل کرنے سے پہلے پورا کیا جائے۔ سبب اور محّرک کے ا ثر کے پیش نظر جو کہ عمل کے اصول ومبادی میں سے ایک ہے، جب تک کہ انسان بھوک کے زیراثر یاجنسی میلان کے تحت تاثیر ہے یا کم از کم اپنی زندگی کیلئے کوئی پناہ گا ہ نہیں رکھتا، ایسا انسان اخلاق کی بلندیوں کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔

اسلامی تعلیمات میں یہ نکتہ مورد توجہ واقع ہوا ہے، سورئہ ''قریش '' میں خدا وند سبحان کی عبادت کی دعوت کا ذکر ان کی خوراک فراہم کرنے اور امنیت کے ذکر کے بعدہوتی ہے: '' لہٰذا انھیں چا ہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، وہی ذات کہ جس نے انھیںبھوک سے نجات دی اورنا امنی سے انھیںرہائی دلائی''۔ ''فلیعبدو ا رب ھذا البیت الذی اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف''۔(٣ )

____________________

(١) ان رسول ا للّہ کان یغےّرا لاسماء القبیحة فی الرجال والبلدان، وسائل الشیعہ، ج ١٥، ص ١٢٤۔

(٢)یتسائَ لون عن المجرمین ما سلککم فی سقر قالوا و کنا نخوض مع الخائضین ، سورئہ مدثر، آیت ٤٠ تا٤٥ ۔

(٣) سورہ ٔقریش، آیت ٣، ٤۔

۱۷۱

مندرجہ ذیل آیات میں غور خوص کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی صفات، تقویٰ، شکر، اور عمل صالح وغیرہ انسان کی اوّلین ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد ذکر ہوئے ہیں:و کلوا مما رزقکم الله حلالاً طیبا واتقو الله ۔۔۔(١) ۔ اور جو کچھ خدا نے تمہیں حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا سے درتے رہو....۔ ''یا ایا الذین آ منوا کلوا من طیبات ما رزقناکم واشکرو الله ۔۔ اے ایمان لانے والوں! جو ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو....۔(٢) ''یاایھا الرسل کلو ا من الطیبات و اعملوا صالحا۔۔۔'' اے میرے رسولو! تم پاکیزہ غذائیں کھائو اور نیک عمل انجام دو.....۔(٣) پیغمبر اکرم نے حدیث ایک شریف میں زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے اثر کے سلسلہ میں اس سے بلند تر ضرورتوں پر نظرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: '' اگر روٹی نہ ہوتی توہم نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے اور پروردگار کے واجبات کو ادا نہیں کرسکتے تھے ''۔(٤) اور دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: ''قریب ہے کہ فخرو نا داری کفر و ناشکری کا سبب بن جائے '' ۔(٥) پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین (ع) کی سیرت میں بھی ہم ملاحظہ کرتے ہیں آپ حضرات عملی طور پر محرومین کی طرف توجہ دیتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے، شب کے سناٹے اور سردی اور گرمی کے موسم میں بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے(٦) اور یہی بات انوارہدایت کے درک کرنے کے مقدمات ان کے لئے فراہم کرتی تھی۔ حتی کہ دشمنوں سے ملاقات کے موقع پر بھی صلاح وہدایت کی دعوت سے پہلے ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔

____________________

١۔ سورہ ٔما ئدہ، آیت ٨٨۔

٢۔سورہ ٔبقرہ ، آیت ١٧٢۔

٣۔ سورئہ مومنون، آیت ٥١۔

٤۔فلو لا الخبز ما صلینا ولا صمنا ولا ادینا فرائض ربنا عز وجل ۔ کا فی ،ج ٦، ص ٢٨٧۔

٥۔کاد الفقر ان یکون کفرا، کا فی، ج ٥، ص ٣ ٧۔

٦۔ الحیاة، ج ٣، ص ٢٣٢تا ٢٣٤ ملاحظہ ہو۔

۱۷۲

حضرت امام حسن ـکی سیرت نادان مخالفین کے ساتھ یہی انسانی روش اور سیرت تھی:

ایک شامی نے معاویہ کے ورغلانے پر ایک دن امام حسن کو گالی دی، امام نے اس سے کچھ نہیں کہا یہاں تک کہ خاموش ہو گیا، اس وقت آپ نے شیریں مسکراہٹ کے ساتھ اس کو سلام کیا اور فرمایا: '' بوڑھے آدمی! فکر کرتا ہوں کہ تو ایک پردیسی ہے اور خیال کرتا ہوں کہ تو راستہ بھول گیا ہے اگر مجھ سے رضایت طلب کرے گا تو تجھے رضایت دوں گا اور اگر کچھ ہم سے طلب کرے گا اور راہنمائی چاہے گا تو تیری راہنمائی کروں گا اور اگرتیرے دوش پر کوئی بوجھ ہے تو اسے اٹھا لوں گا اور اگر بھوکا ہے تو شکم سیر کردوںگا اور اگر محتاج ہے تو تیری ضرورت پوری کردوں گا، (خلاصہ ) جو کا م بھی ہو گا اسے انجام دیدوںگا اور اگر میرے پاس آئے گا تو بہت آرام سے رہے گا کہ مہمان نوازی کے ہر طرح کے وسائل و اسباب میرے پاس فراہم ہیں''۔

وہ شامی شرمندہ ہوگیا اور رو کر کہنے لگا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ روئے زمین پر آپ خدا کے جانشین ہیں، خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے لیکن اب آپ سب سے زیادہ محبوب ہیں ''بوڑھا آدمی اس دن امام حسن ـ کا مہمان ہوا اور جب وہاں سے گیاتو حضرت کی دوستی کا دم بھر نے لگا۔(١)

آبراھام مزلو ہیومینسٹ ماہر نفسیات نے آدمی کے اغراض واسباب کی طبقہ بندی کے لئے جدید طریقہ پیش کیا ہے، اس نے ضرورتوں کے ترتیب و ار سلسلہ کو پیش کیا کہ جو زندگی کی اساسی ضرورتوں سے شروع ہو تا ہے اور اس سے بالا تر سطحوں میں نفسیاتی اغراض واسباب تک پہونچ جاتا ہے وہ کہتا ہے: ''..... انسان کی با مقصد حیات میں تنظیم کی اہم اصل اساسی ضرورتوں کی ترتیب اولویت کے مراتب کے سلسلہ کی صورت میں کمتر یا بیشتر غلبہ کی قدرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ اہم محرّک جو اس تنظیم کا باعث ہوتی ہے وہ ضعیف تر ضرورتوں کا پیدا ہونا ہے جو کہ قوی تر ضرورتوںکو پورا کرنے سے ایک سالم انسان میں پائی جاتی ہے۔ جب بھی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوتی، جسم پر غلبہ پا جاتی ہے اور تمام استعداد اور صلاحیتوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے اور ان صلاحیتوںکو اس طرح منظّم کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان سے استفادہ کرسکے۔ نسبی رضا مندی ان

____________________

١۔ بحار الانوار، ج، ٣ ٤، ص ٣٤٤۔

۱۷۳

ضرورتوں کو محو کردیتی ہے اور بعدکے سلسلہ میں مراتب کی ضرورتوں سے بلند مجموعہ کو موقع دیتی ہے کہ وہ ظاہر ہوں، شخصیت پر غلبہ پاکر انھیںمنظّم کریں اس طرح کہ، بھوک کا درد اٹھانے کے بجائے امن و سلامتی کے لئے پریشان ہو۔ یہ اصل سلسلہ مراتب میں ضرورتوں کے دوسرے مجموعوں یعنی محبت، احترام اور خود آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر بھی صادق ہے۔(١)

اسی وجہ سے محتاج سماج اوراجتماع میں علمی، ہنری اور اخلاقی تخلیق کم وجود میں آتی ہے۔

مزلوکا نظریہ ہے کہ سالم افراد بلند ضرورتوں کی طرف رخ کرتے ہیں، یعنی اپنی با لقوة استعدادوں کے عمل ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور آس پاس کی دنیا کو پہچاننا چاہتے ہیں۔ مقصد، بے نیاز کرنا، تجربہ حیات کی توسیع، سرور و شادمانی کا اضافہ اور زندہ ہونے کی تحریک ہے.... نیک اخلاقی صفات جن کو و ہ'' وجود میں اقدار ''سے تعبیر کرتا ہے اس موقعیت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ بعض ہستی کی قدریں اس کی نظر میں یہ ہیں: حقیقت (بے اعتمادی بد گمانی اور تشکیک کے مقابل)، نیکی (نفرت کے مقابل)، کمال (ناامیدی اور بے معنی ہونے کے مقابل)، یکتائی (بے ثباتی کے مقابل)، نظم (عدم امنیت واحتیاط کے احساس کے مقابل )، خود کفائی ( ذمہ داری کو دوسروں کے حوالے کرنے کے مقابل )(٢) ۔

یہ نظریہ کہ انسان کمتر ضرورتوں کی طرف توجہ کئے بغیر یا ایک حد تک ان کی تکمیل، انسانی فضائل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، یہ سماج کے اکثر افراد کے بارے میں صادق آتا ہے۔

دو نکتوں کی طرف توجہ دیتے ہو ئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ '' ضرورتوں کو صحیح طور سے پورا کرنے کی روش ''اس بات کے علاوہ کہ دوسری روشوں کا مقدمہ ہے، خود اسے بھی ایک اخلاقی تربیت کی روش کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے یہ کہ ادنی ضرورتوںکو پورا کرنے سے بلند ترین ضرورتیں پیدا ہو تی ہیں، یعنی علّت وسبب کا جنبہ پیدا کرتی ہیں۔ عمل کے علّی اور سببی جنبہ کا وجود تر بیت اخلاقی کے ایک اہم حصہ کو منظّم کرتا ہے۔

____________________

١۔ انگیزش و ہیجان، ص ١٠١۔

۱۷۴

٢۔ اپنی جلوہ نمائی تحقق نفس تک ر سائی اور بالقوة توانائی کے لئے ذوقی تقارن خوبصورتی اور نظم تعارف، جاننا، سمجھنا، تلا ش کرنا، سنجیدگی، عزت نفس، کفایت، اجراء اور اصول تعلق و محبت کی ضرورت غیر سے وابستہ ہونا، سا لمیت کی ضرورت کی مقبولیت، امنیت کا احسا س اور خطرے سے دوری فیز یولوژیائی ضرورتیں، گرسنگی، تشنگی اور جنسی خواہشروانشناسی کمال، ص ١٢٥۔

دوسرے یہ کہ اس سے توانائیوں کو تخلیہ اورباطنی قوتوں کے اعتدال کے لئے آمادگی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ علماء اخلاق کے اخلاقی نظام میں ذکر ہوا ہے یہ نکتہ نہایت قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہے کہ سہ گانہ قوتیں شہوت، غضب، اور عقل، عدالت اور اعتدل کے سایہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہو جائیں۔ یہ رویہ یعنی اعتدال قوتوں کے استعمال کرنے میں تربیت اخلاقی کی ترقی میں ایک نا گزیر امر ہے۔

سید قطب الدین لکھتے ہیں: انسان کی تربیت کے لئے اسلام کے اسباب و وسائل میں ان ذمہ دارریوں سے چھٹکارا دلانا ہے جو کبھی کبھی جسم و جان میں اکھٹا ہوتی ہیں اسلام ان باروں اور ذمہ داریوں کو اکھٹا جمع نہیں کرتا مگر یہ کہ انھیں چھوڑنے کے لئے

۱۷۵

یکبارگی جمع کرے۔(١)

اس روش کے محقق ہونے کے لئے لازم طریقے یہ ہیں: معاشی نظام کی جانب توجہ، ازدواج، ورزش اور کام کاج ۔

الف ۔معاشی نظام کی طرف توجہ:

بہت سے اخلاقی جرائم کی بنیاد مال اور خوراک اور غذا کی کمی ہے۔ پہلے مرحلہ میں معاش کی فراہمی خانوادہ کے ذمہ ہے دوسرے مرحلہ میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے نیز اس نظام کے ذمہ ہے جو سماج پر حکومت کررہا ہے اور تیسرے مرحلہ میں نیکو کا راور قدرت مند افراد کے ذمہ ہے۔ بہر صورت تربیت کرنے والوں کی تگ و دو اس مسئلہ کی نسبت تربیتی نقطہ نظر سے تربیت اخلاقی میں بہت سے موانع کو دور کرنے والی ہے۔

ب۔ ازدواج:

ازدواج کے تربیتی اور اخلاقی فوائد (جیسے خود خواہی و خود غرض سے دور ہونا، دوسروں کی خدمت کے لئے آمادگی اور ان کی طرف توجہ، عواطف و جذبات کا بار آور ہونا، محبتوں کا ثمر دینا اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادگی وغیرہ وغیرہ ) کے علاوہ ازدواج کا اہم اور ابتدائی کردار غریزہ جنسی کی ضرورت کو فطری اور شرعی طریقہ سے صحیح طور پر پورا کرنا۔ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ایسا جوان جس کا غریزہ جنسی شباب پر ہے اور ماحول کے بہت سے محرک بھی اس کے اندر اور زیادہ اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ جوان سختی سے خود کو گناہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔(٢) پیغمبر نے فرمایا ہے : '' جب کوئی انسان شادی کرتا ہے تو اس کا نصف دین کامل ہو جاتا ہے لہٰذا بقیہ نصف کے سلسلہ میں اسے تقویٰ اختیار کرنا

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلام، ص ٢٨٢۔

٢۔ مراد یہ ہے کہ جنسی غریزہ جوانوں کو زیادہ مشکلات سے دو چار کرتا ہے، نہ یہ کہ کلی طور پر تربیت اور اصلاح کا راستہ ہی بند کردے ۔

۱۷۶

چاہئے''۔(١) پیغمبر کے اس حکیمانہ ارشاد سے یہ نکتہ بھی قا بل استفادہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ ا ور اخلاقی ورع، شادی کے بعد زیادہ آسان اور قابل حصول ہے۔

ج۔ورزش:

جسمانی ضرورتوں کو صحیح طور پر پوراکرنے میں اور جوانی کی قوتوں کی جلاء میں ورزش کا کردار قابل انکار نہیں ہے۔ اخلاقی تربیت میں ورزش کا کردار دو جہت سے قابل اہمیت ہے:

اول۔وہ جسمانی سلامتی اور فرحت کہ جو ورزش سے پیدا ہوتی ہے، روحی، ذہنی اور نفسیاتی سلامتی نیز اخلاقی فضائل کے لئے مقدمہ ہوتی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت میں قوت اورجوانمردی ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہی ہیں۔ ورزش اخلاقی توجیہ نبی اور ائمہ (ع) کی سیرت میںآتی ہے ۔ پیغمبر اکرم ایسے مردوں سے ملاقات کے وقت جو زور آزمائی کے لئے وزن اٹھا رہے تھے، فرماتے ہیں: ''لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ انسان ہے جو خواہشات نفس پر غالب ہو''۔(٢) امیر المومنین ـ دعائے کمیل میں خدا سے جسمانی قویٰ کی تقویت کی درخواست خدمت الٰہی کے لئے کرتے ہیں،یارب.... قو علی خدمتک علی جوارحی ۔ اس کے مقابل کمزور اور پست افراد تربیت کے خلاف امور انجام دیتے ہیں۔دوسری جہت ۔ ضرورتوں سے توجہ ہٹانا ہے، بالخصوص جوانی کے زمانہ میں جنسی ضرورتیںاپنی تکمیل کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ ابھی جائز اور مشروع طریقہ سے صحیح طور پر جنسی خواہشات کی تکمیل کے امکانات فراہم نہیں ہوئے ہیں، ورزش ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا ایک مفید اور اہم ذریعہ ہے۔

د۔ کام:

کام کاج کے مسئلہ کو '' معاشی نظام کی طرف تو جہ '' کی بحث میں ذکر کیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اس کا اسلام میں ایک خاص مرتبہ ہے، اور استاد مطہری کے بقول: کام اسلام میں ایک مقدس اور پاکیزہ شے ہے،(٣) نیز بہت سے تربیتی جہات اس میں پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم نے اسے جدا گانہ طور پر ذکر کیا ہے، ایک طرف کام صحیح طور پر قوتوں کی جلاء اور اضافی بار کے تخلیہ کاموجب ہوتا ہے اور دوسری طرف شخصیت کے احساس، ذہنی علاج، تمرکز خیال، ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا باعث ہوتا ہے، کہ یہ سب اخلاقی تربیت کے لئے معاون وسیلہ ہیں۔(۴)

____________________

١۔ اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی نصف الباقی ۔ بحا ر الانوار، ج ٣ ١٠، ص ٢١٩۔''من تزوج فقد احرز نصف دینہ ، فلیتق اللہ فی النصف الباق''۔بحار الانوار ،ج١٠٣، ص٢١٩۔٢۔ اشجع الناس من غا لب ھواہ۔ میزان الحکمة، ج ١٠، ص ٣٨٧۔٣۔ تعلیم وتربیت در اسلام، ص ٤١١۔۴ ۔ ان جملوں کی طرف توجہ دینا مذکورہ بالا مطلب کی تائید میں موثر ہے: سقراط: ''دیانت کے بعد کام نیک بختی اور سعادت کا سرمایہ ہے''۔ پاسکال: '' تما م فکری اور اخلاقی برائیوں کی جڑ بے کاری ہے جو ملک بھی اس عظیم عیب کو بر طرف کرنا چاہتا ہے اسے لوگوں کو کام پر آمادہ کرنا چائیے تاکہ اس سے روحی سکون کہ جس سے معدودے چند افراد آگاہ ہیں، حاصل ہو ''۔ ساموئل اسمایلز: '' دیانت کے بعد انسان کی تربیت کے لئے کام سے بہتر کوئی مدرسہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے ''۔ بحوالۂ تعلیم و تربیت در اسلام، ص ٤٣٠۔

۱۷۷

٣۔ ا حترام شخصیت کے طریقے

اخلاق اسلامی کی اساسی بنیاد انسان کا اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کی طرف توجہ دینا ہے: ''یقینا ً ہم نے اولاد آدم کو کرامت سے نوازا ( انھیں عزت عطا کی ) ...اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح فوقیت و برتری عطا کی۔(۱)

خود آگاہی اور اس بات کی طرف توجہ کہ انسان ایک بلند وبر ترمخلوق ہے اور اپنے اندر بے مثال اور قیمتی گوہر رکھتا ہے یہ بات اس کو (حبّ ذات کی بناپر) اپنی ذاتی کرامت کی حفاظت وپاسداری کے لئے دعوت دیتی ہے اور اخلاق کی بلند قدروں کی طرف کھینچتا ہے: ''اکرم نفسک عن کل دنےة و ان ساقتک الیٰ الرغائب فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا ً''(۲) اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے پاکیزہ رکھو ! چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہونچا ہی کیوں نہ دے کیونکہ جو اپنی عزّت نفس تم دوگے اس کی قیمت اور عوض تمہیں کبھی مل نہیں سکتا۔

'' انسان کی حقیقت'' چونکہ آسمانی قداست و پا کیزگی کی حامل ہے اور وہ علم، قدرت اور آزادی کے چشمہ سے سیراب ہوا ہے لہٰذا وہ جھوٹ، باطل، طبیعت کی اسیری، گراوٹ اور پستی و ذلت و شہوت اور جہل میں ہاتھ پاؤں مارنے کے مخالف ہے اسی وجہ سے ہوشیار انسان ہرطرح کے اخلاقی ر ذائل سے کہ جو اس کی عزت اور غیرت

____________________

۱۔لقد کرمنا بنی آدم...... و فضلناهم علی کثیرممن خلقنا تفضیلا ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٧٠۔

۲ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۱۷۸

سے منافات رکھتے ہیں، بیزار ہوتا ہے۔(١) اس کے مقابل ایک ایسا انسان جو ذلّت، پستی اور فرومایہ ہونے کا احساس کرے اور اپنے اندر پائی جانے والی عظیم شرافت پر یقین نہ رکھے، وہ ہر طرح کے نا پسند اخلاقی افعال کے ارتکاب سے بے پرواہ ہوتا ہے:اللئیم لا یستحی، اللئیم اذا قدر ا فحش واذا وعد اخلف، اللئیم لا یرجیٰ خیره ولا یسلم من شره ولا تؤمن غوائله، اللئیم مضاد لسائر الفضا ئل و جامع لجمیع الرذائل ۔( ٢) کمینہ شخص شرم نہیں کرتا، کمینہ جب قدرت پاتا ہے برائی کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، کمینہ سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی اور اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا اور اس کے فسادوں سے بے خوف نہیں رہا جا سکتا، کمینہ تمام فضائل کا مخالف اور تمام رذائل کا حامل ہوتا ہے۔ من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ۔(٣) جو انسان خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو اس کے شر سے بے خوف نہ رہو۔

اس مطلب کی وضاحت نفسیاتی اعتبار سے خود انسان کے خیال واعتقاد سے ہماہنگ ہونا یا نہ ہونا ہے: اگر میں بے رحمانہ اور احمقانہ عمل کا مرتکب ہوں تو میری عزت نفس ملامت کا شکار ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ عمل میرے ذہن کو اس امکان کی طرف متوجہ کرے گا کہ میں ایک بیوقوف اور ظالم انسان ہوں۔ سینکڑوں آزمائش کے درمیان کے عدم موافقت کے نظریہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ واضح ترین نتائج ایسے حالات میں حاصل ہوئے ہیں جو انسان کی عزت نفس سے مربوط ہیں، کیونکہ جس طرح امید کی جاتی ہے کہ جو افراد زیادہ عزت نفس کے مالک ہیں، اگر ان سے بے رحمانہ اور احمقانہ رفتار سرزد ہو جائے تو دوسروں سے زیادہ نا موافقت کا احساس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان معمولی عزت نفس رکھتا ہو تو کیا پیش آسکتا ہے؟ اگر ایسا انسان غیر اخلاقی اور احمقانہ عمل کا ارتکاب کرے تو زیادہ ناموافقت کا احساس نہیں کرے گا ...دوسری طرف وہ انسان جوزیادہ عزت نفس کا مالک ہے، غالباً وہ ایک برے عمل کے ارتکاب کے وسوسہ کے مقابل مقاومت کرتا ہے، اس لئے کہ بے برے کام اس کے اندر زیادہ سے زیادہ نا موافقت ایجاد کردیتا ہے۔(٤)

____________________

١۔ الصدق عزّ والکذب عجز، سچ عزت (کا سبب) ہے کتاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٤٦ ؛ الغیبة جھد العاجز، مازنی غیور قط،غیبت عاجز کی کوشش ہے، کسی غیرتمند نے کبھی زنا نہیں کیا ( نہج البلاغہ، ح ٢٩٧ ) ؛ الکذب والخیانة لیسا من اخلاق الکرام، جھوٹ اور خیانت اچھے اخلاق سے نہیں ہیں (غرر) وموت فی عز خیر من حیاة فی ذل ،عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر، (بحار الانوار، ج٤٤، ص ١٩٢)

٢۔ غرر الحکم، تیسری فصل، ص ٢٦٠۔

٣۔ بحار الانوار، ج ١٧، ص ٢١٤۔

٤۔ روانشناسی اجتماعی، ترجمہ شکرکن، ص ١٥٠ ، ١٥١ ۔

۱۷۹

اس وجہ سے اخلاقی تربیت کی ایک روش شخصیت کااحترام ہے یعنی ایسے امور کا انجام دینا کہ جن سے خود کو یقین ہو یا جس کی تربیت کی جارہی ہے اس کو اپنی قدروقیمت کا یقین حاصل ہو۔ ایڈلر، A ، y.adler جوکہ ایک فردی نفسیات کاموجد ہے اس نے احساس کمتری کو اپنے نظریہ کی اساس قرار دی ہے اور اسے علت اور تمام غیر معمولی رفتار کی علت اور سر چشمہ سمجھتا ہے۔احساس کمتری رنگین دھاگہ کے مانندجو نفسیاتی اختلال کے تمام حالات میں کھنچا ہواہے۔ ایک غصہ وریا بے صلاحیت بچہ سن رسیدہ ہوکر بھی نفسیاتی تعادل کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ نفسیاتی مریض، مجرمین، جنسی منحرفین اور روحی بیمار سباپنی نا رسائی اور ضعف کے احساس کا رنج و الم برداشت کرتے ہیں۔ اور مسلسل شک وتردید اور گمراہی میں زندگی بسرکرتے ہیں اورایک معتمد ومستحکم مرکزتلاش کرتے ہیں...احساس کمتری طبیعی ارتقا کے لئے رکاوٹ بنتاہے(١) اور یہ اس وقت ہوتاہے کہ بچہ مکمل اس احساس میںغوطہ لگاتا ہے اور لاحاصل ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود خود کواس حالت سے نجات دینا چاہتا ہے، اس حالت میںبد گمانی اور وحشت احساس کمتری کی راہ کوکھول دیتی ہے اور بچہ نفسیاتی اختلال کا شکار ہوجاتا ہے، اس موقع پر ذہنی ونفسیاتی حرکت، سکو ن اور سکوت کا شکار ہوجاتی ہے ، اس معنی میں کہ بچہ پھر اپنے ضعف اور نقائص کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتاہے، ناچار اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں رکھتا کہ خیالی تعادل بخشنے(جھوٹی تلافی) سے خود کو ماحول کے حوالے کردے۔(٢)

احساس کہتر نامی کتاب میں، ایڈلر کے نظریہ کی توضیح کے سلسلہ میں جو احساس کمتری سے پیدا شدہ زندگی کی روش کی اس طرح منظر کشی کرتے ہیں: احساس کمتری درجہ کیفیت اور سب سے پہلے نتیجہ کے اعتبار سے جو اس سے تجربے کے ضمن میں حاصل ہوتا ہے، انسان کے طرز زندگی کی تعیین کرتی ہے۔ یہاں پر تین اساسی ساز وسامان اور اس کے بعد تین طرز زندگی کو مشخص کیا جاسکتاہے ، طبیعی جبران کا سازو سامان، گریز وناامیدی کا ساز و سامان اور خیالی جبران کاساز وسامان۔

١۔ طبیعی تلافی:

یہ تلافی ایک نتیجہ خیز اساسی روش کے پایہ پر استوار ہے کہ جو نفسیاتی محوروں کی واقعی تعیین کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک حادثہ کا شکار انسان کہ جو جسمی اور عضوی نقص رکھتا ہے، اسے صحیح کرنے یا مرکزی اعصبابی مشین اور دیگر اعضاء کے وسیلہ سے اسی ایک تلافی کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔

____________________

١۔ ایڈلر: روانشناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی، ص ٥٩۔

٢۔ ایضاً، ص٥٧۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

و انّ منهم لفريقاً يلون السنتهم بالكتاب لتحسبوه من الكتاب ...ما كان لبشر ان يؤتيه الله الكتاب ثمّ يقول للناس كونوا عباداً لي سابقہ آيت كے اس آيہ كے ساتھ ارتباط سے يہ استفادہ ہوتاہے_

٣_ خداوندعالم كى طرف سے حضرت عيسى (ع) كى الوہيت كى نفى _ان ّ مثل عيسى عند الله (آيت ٥٩) ما كان لبشر ان يوتيه الله الكتاب اس آيت كے مورد نظر مصاديق ميں سے حضرت مسيح(ع) ہيں كيونكہ سابقہ آيات اہل كتاب كے بارے ميں ہيں _

٤_ انبياء (ع) انسانوں ميں سے افضل اور فوقيت ركھنے والے ہيں نہ كہما فوق انسان _ما كان لبشر ان يوتيه الله الكتاب و الحكم

٥_ كتاب اور حكمت ، انبياء (ع) كو خداوند متعال كا عطيہ _ان يوتيه الله الكتاب والحكم يہ اس صورت ميں ہے كہ ''الحكم''كے معنى حكمت كے ہوں _

٦_ حكومت ،انبياء (ع) كو خدا وند عالم كا عطيہ _ان يوتيه الله الكتاب و الحكم يہ اس صورت ميں ہے كہ''الحكم'' حكومت كے معنى ميں ہو_

٧_ انبياء (ع) لوگوں كو صرف خدا تعالى كى بندگى كى دعوت ديتے تھے_ما كان لبشر ثم يقول للناس كونوا عباداً لى من دون الله و لكن كونوا ربانيّين

٨_ انبياء (ع) نے كبھى بھى اپنے منصب اور دين خدا سے سوء استفادہ نہيں كيا _ما كان لبشر ثم يقول للناس كونوا عباداً لى من دون الله

٩_ مقام نبوت پر فائز ہونا اور كتاب و حكمت والا ہونا اس بات سے مناسبت نہيں ركھتا كہ لوگوں كو اپنى بندگى كى طرف دعوت دى جائے _ما كان لبشر: ثم يقول للناس كونوا عباداً لى من دون الله

١٠_ خداوند متعال كى عبوديت اور غير خدا سے عبوديت كى نفى ، انبياء (ع) كى دعوت كا اصلى محورہے _ما كان لبشر ...ثم يقول للناس كونوا عباداً لى من دون الله و لكن كونوا ربّانيين ربّانى اسے كہتے ہيں جو ربّ سے انتہائي ارتباط ركھتاہو اور اسكى بہت عبادت كرے_

١١_ اديان كے پيروكاروں كے اپنے انبياء (ع) كے بارے ميں مشركانہ اعتقادات خود ان انبياء (ع) كى تعليمات كے برخلاف ہيں _

۶۰۱

ما كان لبشر ثم يقول و لكن كونوا ربانيين

١٢_ انبياء (ع) كى رسالت خدا ئي انسانوں كى تربيت ہے_و لكن كونوا ربانيين

١٣_ آسمانى كتابوں كا پڑھانا اور پڑھنا انسان كے ربانى ہونے كا ذريعہ _كونوا ربانيين بما كنتم تعلمون الكتاب و بما كنتم تدرسون

١٤_ آسمانى كتابوں سے سيكھى ہوئي تعليمات پر عمل كرنا ضرورى ہے_ كونوا ربانيين بما كنتم تعملون الكتاب و بما كنتم تدرسون كيونكہ ربّانى ہونے كا حكم ان لوگوں كو ديا گيا ہے جنہوں نے آسمانى كتابوں كو سيكھا ہے معلوم ہوتاہے كہ صرف ان كا علم كافى نہيں ہے بلكہ ان پر عمل كرنا بھى ضرورى ہے_

١٥_ ربّانى علماء و دانشمند انسانوں كى آسمانى كتابوں كى تعليمات كى بنياد پرپرورش انبياء (ع) كے اہداف ميں سے ہے_

كونوا ربانيين بما كنتم تعلمون الكتاب

١٦_ آسمانى كتابيں سيكھنے اور سكھانے كے ليئے ہيں _بماكنتم تعلمون الكتاب وبما كنتم تدرسون

١٧_ لوگوں كو اپنى طرف دعوت دينے كے ليئے دينى منصب اور عہدے سے ناجائز استفادہ كرنا ممنوع ہے_

ما كان لبشر ان يوتيه الله الكتاب ثمّ يقول للناس كونوا عباداً لي

١٨_ علمائے دين آسمانى كتابوں كے علم كے مقابل ذمہ دارہيں _و لكن كونوا ربانيين بما كنتم تعلمون الكتاب و بما كنتم تدرسون

١٩_ آسمانى كتابيں لوگوں كے لئے قابل ادراك و فہم ہيں _بما كنتم تعملموں الكتاب و بما كنتم تدرسون

٢٠_ آنحضرت (ص) كا اپنے بارے ميں لوگوں كو غلو ( حد سے بڑھانا ) كرنے سے منع فرمانا_

ماكان لبشر ان يوتيه ثمّ يقول للناس كونوا عباداً لي رسول خدا (ص) نے فرمايا :''لا ترفعونى فوق حقى فان الله تعالى اتخذنى عبداً قبل ان يتخذنى نبياً '' مجھے ميرے مقام سے نہ بڑھاؤ كيونكہ خداوند عالم نے مجھے نبى بنانے سے پہلے بندہ بنايا ، اس كے بعد آپ (ص) نے

۶۰۲

مذكورہ بالا آيت كى تلاوت فرمائي (١)

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) كے نواہى ٢٠ آسمانى كتابيں : ٥ ، ٩ ،١٣ ، ١٩ آسمانى كتابوں كى تحريف ٢;آسمانى كتابوں كى تعليمات ١٤ ;آسمانى كتابوں كے اہداف ١٦

انبياء (ع) : انبياء (ع) اور تربيت ١٢ ; انبياء (ع) كا مقام و مرتبہ٤ ; انبياء (ع) كى تعليمات ١١ ، ١٢ ، ١٣ ، ٥ ١ ; انبياء (ع) كى حكمت ٥ ، ٩;انبياء (ع) كى حكومت ٦ انبياء (ع) كى دعوت ٧ ، ٩ ، ١٠; انبياء (ع) كى ذمہ دارى كا دائرہ ١ ، ١٠ ;انبياء (ع) كى عصمت ٨ ;انبياء (ع) كى نبوت ٩;انبياء (ع) كے اہداف ١٢ ، ١٥

تربيت : ١٢

ترقى : ترقى كے مراحل ١٣

تعليم و تعلّم ١٣ ، ١٧ توحيد عبادى : ٣ ، ٧ ، ٩ ، ١٠

حضرت عيسى (ع) : حضرت عيسى (ع) كى الوہيت ٣

خدا تعالى : خدا تعالى كى بندگى ٧ ، ١٠ ; خدا تعالى كے عطيّے ٥ ، ٦;خدا تعالى كے نواہى ١

خودسازى : خود سازى كے عوامل ١٣

دين : دين سے ناجائز استفادہ ٨ ، ١٧

ذمہ دارى : علم اور ذمہ دارى ١٨

روايت : ٢٠ عقيدہ : باطل عقيدہ ٢ ، ١١

علمائ: ١٣ ، ١٥ ، ١٨

عمل : عمل كى اہميت ١٤

غلو : ٢٠

نبوت : ٩

____________________

١) عيون اخبار الرضا (ع) ج٢ ص ٢٠١حديث ١ باب ٤٦ نورالثقلين ج١ ص ٣٥٧ حديث ٢٠٩_

۶۰۳

وَلاَ يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُواْ الْمَلاَئِكَةَ وَالنِّبِيِّيْنَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ (٨٠)

وہ تمہيں يہ حكم بھى نہيں دے سكتا كہ ملائكہ يا انبياء كو اپنا پروردگار بنالوكيا وہ تمھيں كفر كا حكم دے سكتا ہے جب كہ تم لوگ مسلمان ہو _

١_ انبياء (ع) نے كسى كو يہ حكم نہيں ديا كہ وہ فرشتوں اور انبياء (ع) كو اپنا ربّ بنائيں _

ما كان لبشر ولا يامركم ان تتخذوا الملائكة والنبيين ارباباً

٢_ انبياء (ع) اور فرشتوں كى ربوبيت كا اعتقاد انبياء (ع) كے اہداف كے ساتھ سازگار نہيں _

ولايامركم ان تتخذوا الملائكة والنبيين ارباباً

٣_ بعض اہل كتاب كا ،انبياء (ع) اور فرشتوں كى ربوبيت كا معتقد ہونا_ولايامركم ان تتخذوا الملائكة والنبيين ارباباً

يہ آيت بعض اہل كتاب كے اعتقاد كى طرف ناظر ہے_

٤_ انبياء (ع) اور فرشتوں ( غير خدا ) كى ربوبيت كا اعتقاد كفر ہے_و لا يامركم ا يامركم بالكفر

٥_ انبياء (ع) ، فرشتے اور جو كچھ غير خدا ہے كائنات كى ربوبيت ميں مستقل كوئي تاثير نہيں ركھتے_

و لا يامركم ارباباً ايامركم بالكفر

٦_ خداوند عالم كے سامنے سرجھكانا كفر ( غير خدا كى ربوبيت كاعقيدہ) كے ساتھ سازگار نہيں _ايا مركم بالكفر بعد اذ انتم مسلمون

٧ خداوند متعال كے سامنے سر تسليم خم كرنااور اسكى توحيد، انبياء (ع) كى دعوت كى روح ہے_

ولا يامركم ان تتخذوا ا يامركم بالكفر بعد اذ انتم مسلمون

۶۰۴

انبياء (ع) : انبياء (ع) اور اہل كتاب ٣ ;انبياء (ع) اور توحيد ٧; انبياء (ع) اور خلقت ٥;انبياء (ع) كى تعليمات ١ ; انبياء (ع) كى دعوت ١ ، ٧;انبياء (ع) كے اہداف ٢ ; ربوبيت اورانبيا ء (ع) ٤

اہل كتاب ٣ : اہل كتاب اور انبياء (ع) ٣ ; اہل كتاب كے عقائد ٣ ;فرشتے اوراہل كتاب ٣

توحيد : ٧ توحيد صفاتى ١

دين : دين كى حقيقت ٧

سر تسليم خم كرنا: خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا ٦ ، ٧;سر تسليم خم كرنا اور كفر ٦

شرك : شرك كى نفى ٢ ;شرك كے موارد ٦

عالم خلقت : ٥ عالم خلقت كى تدبير ٥ ; فرشتے اورعالم خلقت ٥

عقيدہ : باطل عقيدہ ٢ ، ٣ ، ٤

فرشتے : ١ ،٣ ، ٤، ٥

كفر : ٦ كفر كے موارد ٤

۶۰۵

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَ أَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ (٨١)

اور اس وقت كو ياد كرو جب خدا نے تمام انبياء سے عہد ليا كہ ہم تم كو جو كتاب و حكمت دے رہے ہيں اس كے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمھارى كتابوں كى تصديق كرنے والا ہے تو تم سب اس پر ايمان لے آنا او راس كى مدد كرنا _او رپھر پوچھا كيا تم نے ان باتوں كا اقراركرليا اور ہمارے عہد كو قبول كرليا تو سب نے كہا كہ بيشك ہم نے اقرا ركرليا _ ارشاد ہوا كہ اب تم سب گواہ بھى رہنا اور ميں بھى تمھارے ساتھ گواہوں ميں ہوں _

١_ خداتعالى كا انبياء (ع) اور ان كے پيروكاروں سے يہ عہد و پيمان لينا كہ وہ بعد والے نبى (ع) پر ايمان لائيں گے اور اسكى مدد كريں گے_اذ اخذ الله ميثاق النبيين ثمّ جاء كم رسول لتؤمنن به و لتنصرنّه ''ميثاق النبيين''ميں ميثاق سے مراد ہوسكتاہے خداوند عالم كا انبياء (ع) سے ليا جانے والا عہد وپيمان ہو اور ہوسكتاہے لوگوں سے انبياء (ع) كے ليئے ليا جانے والا ميثاق ہو_

٢_ خداوند عالم كا اہل كتاب كو وہ ميثاق ياد دلاكر جو گذشتہ انبياء (ع) سے پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں ليا گيا تھا ، انكے خلاف استدلال كرنا _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين يہ اس صورت ميں ہے كہ ''اذ'' ''اذكروا'' كے متعلق ہو اور اس كے مخاطب سابقہ آيات كے قرينہ سے اہل كتاب ہوں _

٣_ كتاب اور حكمت، انبياء (ع) كيلئے خداوند عالم كا

۶۰۶

عطيّہ_لما آتيتكم من كتاب: وحكمة

٤_ پيغمبر اسلام (ص) كو حكم كہ وہ لوگوں كو سابقہ انبياء (ع) سے ليا جانے والا وہ عہد و پيمان ياد دلائيں جو بعد والے پيغمبر (ص) پر ايمان لانے كے لازمى ہونے كے بارے ميں تھا _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين لتؤ مننّ به

يہ اس صورت ميں ہے كہ '' اذ''،'' اذكر'' سے متعلق ہو_

٥_ تمام انبياء (ع) كا ايك ہى راستہ اور ايك ہى ہدف ہے_و اذ اخذ الله ميثاق النبيين لتؤمنن به و لتنصرنّه

٦_ ايك ہى پيغمبر (ص) كى پيروى كے نتيجہ ميں امّتوں كى وحدت كے لئے، انبياء (ع) سے خداوند عالم كا عہد و پيمان _

و اذ اخذ الله ميثاق النبيين لتؤمنن به و لتنصرنه بعد والے نبى (ع) پر ايمان اور اسكى پيروى كا لازمى ہونا بتلاتاہے كہ ہر زمانے ميں ايك ہى نبى (ع) محور رہاہے كہ اسكى پيروى كى بنياد پر امّتيں متحّد ہوجاتى تھيں _

٧_ سابقہ انبياء (ع) آنے والے رسولوں (ع) كى بعثت كا پيش خيمہ ہيں _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين ثم ّ جاء كم رسول مصدق لما معكم لتومنن به

٨_ خداوند عالم كا انبياء (ع) كو كتاب اور حكمت دينے سے پہلے عہد و پيمان لينا _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب و حكمة يہ اس صورت ميں ہے كہ '' لما'' شرطيہ ہو_

٩_ پيغمبر اسلام (ص) پر ايمان اور آپ (ص) كى مدد كرنا ، خداتعالى كا گزشتہ انبياء (ع) اور انكے پيروكاروں سے ليا جانے والا عہد و پيمان_ثمّ جاء كم رسول مصدق لما معكم يہ اس صورت ميں ہے كہ يہ آيت اہل كتاب كو خطاب ہو اور '' رسول ''سے مراد پيغمبر اكرم (ص) ہوں _

١٠_ انبياء (ع) كى باہمى ذمہ دارى ہے كہ وہ ايك دوسرے كى حمايت كريں _و اذ اخذ الله ثمّ جاء كم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به و لتنصرنّه سابقہ انبياء (ع) كا بعد والے انبياء (ع) پر ايمان لانے كى نصيحت كرنا اور بعد والے انبياء (ع) كا سابقہ انبياء (ع) كى تصديق كرنا مذكورہ بالا مطلب پر دلالت كرتاہے_

۶۰۷

١١_ پيغمبر اكرم (ص) ،سابقہ انبياء (ع) اور سابقہ الہى كتابوں كى تصديق فرمانے والے ہيں _

ثمّ جاء كم رسول مصدق لما معكم يہ اس صورت ميں ہے كہ '' رسول ''سے مراد پيغمبر اسلام (ص) ہوں _

١٢_ دعوائے پيغمبرى كى صحت كى شرط سابقہ انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں كى تصديق ہے_

ثم جاء كم رسول مصدق لما معكم

١٣_ صاحبان كتاب و حكمت پر پيغمبر اكرم (ص) كى حمايت كى ذمہ دارى _لما آتيتكم من كتاب و حكمة لتؤمنن به

كيونكہ كہ انبياء (ع) كتاب و حكمت ركھتے تھے انھيں پيغمبر اسلام (ص) كى حمايت كا حكم ہوا معلوم ہوتاہے كہ جس ميں بھى يہ خصوصيت ہو اگرچہ بالواسطہ طور پر اس پر بھى يہ ذمہ دارى عائد ہوگي_

١٤_ مكتب پہ ايمان كے ساتھ ساتھ اسكے اجرا كى جد وجہد كرناضرورى ہے _لتؤمنن به و لتنصرنه

١٥_ نئے دين كو قبول كرنا اور پہلے دين كو چھوڑنا مشكل امر ہے_و اذ اخذ الله ميثاق النبيين و اخذتم على ذلكم اصري

تاكيد كے ساتھ عہد و پيمان لينا بتلاتاہے كہ ہر دين و مذہب والے نئے دين كو قبول كرنے ميں ضد و سختى كا مظاہر ہ كرتے ہيں اور پہلے دين سے ہاتھ اٹھانا مشكل كام ہے_

١٦_ گذشتہ انبياء (ع) اور امّتوں كا بعد والے رسولوں (ع) پر ايمان لانے اور انكى مدد كرنے كے بارے ميں ليئے گئے ميثاق الہى كا اعتراف كرنا _قال ء اقررتم و اخذتم على ذلكم اصرى قالوا اقررنا

'' ء اقررتم '' انبياء (ع) سے اقرار لينا ہے اور ''اخذتم'' امتوں سے انبياء (ع) كے ذريعے عہد و پيمان لينے كا بيان ہے اور ''اقررنا'' تمام انبياء (ع) اور امتوں كا اقرار ہے_

١٧_ خداوند عالم كا انبياء (ع) اور انكى امّتوں كو ان سے ليئے گئے عہد و پيمان پر گواہ بننے اور گواہى دينے كا حكم_

قالوا اقررنا قال فاشهدوا و انا معكم من الشاهدين جملہ '' فاشھدوا ...'' گواہ بننے اور گواہى دينے دونوں پر دلالت كررہاہے_

١٨_ انبياء (ع) پر ايمان لانے اور انكى مدد كرنے كے

۶۰۸

سلسلہ ميں خداوند متعال كى طرف سے ليئے گئے عہد و پيمان كى عظمت_و اذ اخذ الله قال فاشهدوا

عہد و پيمان لينا اور پھر اس پر گواہ بننے اور گواہى دينے كا حكم عہد و پيمان كى عظمت پر دلالت كرتاہے_

١٩_ انبياء (ع) پر ايمان لانے اور انكى مدد كرنے كے سلسلہ ميں خداتعالى كے عہد و پيمان كے گواہ خدا وند عالم اور انبياء (ع) ہيں _و انا معكم من الشاهدين

٢٠_ خداتعالى كا انبياء (ع) كو پيغمبر اكرم(ص) كى حقانيت پر گواہ بنانا اور اس حقانيت پر ان كے ساتھ خود خداوند متعال كا گواہ ہونا_ثم جاء كم رسول قال فاشهدوا و انا معكم من الشاهدين يہ اس صورت ميں ہے كہ '' رسول''سے مراد پيغمبر اكرم (ص) ہوں _

٢١_ گذشتہ انبياء (ع) كى آنے والے انبياء (ع) كے بارے ميں بشارت_و اخذتم على ذلكم اصري

'' اصْر'' عہد كے معنى ميں ہے اور لوگوں سے آئندہ انبياء (ع) پر ايمان لانے اور انكى مدد كرنے كا عہد لينا خود ان كے آنے كى بشارت ہے_

٢٢_ انبياء (ع) كا فريضہ ہے كہ لوگوں كو انبياء (ع) ،پر ايمان اور انكى مدد كے بارے ميں خداوند متعال كے ان سے تاكيدى عہد و پيمان سے مطلع كريں _و اخذتم على ذلكم اصرى فاشهدوا و انا معكم من الشاهدين يہ اس صورت ميں ہے كہ '' فاشھدوا'' انبياء (ع) كو حكم ہو كہ امتوں كے سامنے شہادت دو_

٢٣_ پيغمبر اسلام (ص) اپنے سے پہلے انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں كى تصديق كرنے والے ہيں _

ثم جاء كم رسول مصدق لما معكم امام صادق (ع) فرماتے ہيں : '' ثمّ جاء كم رسول مصدق لما معكم''ميں رسول سے مراد رسول اسلام (ص) ہيں (١)

٢٤_ انبيائے (ع) الہى كى ذمہ داريہے كہ وہ لوگوں كو پيغمبر اسلام ، ان كى بعثت اور انكے اوصاف كى پہچان كرائيں اور تصديق كا حكم ديں _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين امير المؤمنين (ع) فرماتے ہيں :انّ الله تعالى اخذ الميثاق على الانبياء قبل نبيّنا ان يخبروا اممهم بمبعثه و نعته و يبشروهم به و يامروهم بتصديقه (٢)

____________________

١) تفسير قمى ج١ ص ٢٤٧ آيت ١٧٢ سورہ اعراف كے ذيل ميں ، نورالثقلين ج١ ص ٣٥٨ حديث ٢١١_ ٢) مجمع البيان ج٢ ص ٧٨٤ ، نورالثقلين ج١ ص ٣٥٩ حديث ٢١٥_

۶۰۹

اللہ تعالى نے ہمارے نبى (ص) سے پہلے انبياء (ع) سے يہ عہد ليا كہ وہ اپنى امتوں كو آنحضرت (ص) كى بعثت و صفت كى خبر ديں _ انہيں آنحضرت (ص) كى بشارت ديں اور ان كو حكم ديں كہ وہ آپ (ص) كى تصديق كريں _

٢٥_ خداوند عالم كا سابقہ انبياء (ع) كى امتّوں سے اپنے اپنے پيغمبر(ص) كى تصديق اور اسكى تعليمات پر عمل كرنے كے بارے ميں عھد و پيمان لينا _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين امام صادق (ع) فرماتے ہيں :تقديره و اذ اخذ الله ميثاق امم النبيين بتصديق كلّ امّة نبيّها والعمل بما جاء هم به (١) يعنى اس آيت كى اصل يوں بنے گى كہ خدا نے نبيوں كى امتوں سے عہد لياكہ ہر امت اپنے نبى (ص) كى تصديق كرے اور اس كى تعليمات پر عمل كرے _

آسمانى كتابيں : ٣ ، ٨ ، ١١ ، ١٢ ، ٢٣ ، ٢٤

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) اور آسمانى كتابيں ١١ ، ٢٣; آنحضرت(ص) اور انبياء ٩ ، ١١ ، ٢٣ ، ٢٤ ; آنحضرت(ص)

اور اہل كتاب ٢ ;آنحضرت(ص) كى حقانيت ٢٠ ; آنحضرت(ص) كى حمايت ١٣ ; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ٢ ، ٤

اديان : اديان كى ہم آہنگى ٥

استدلال كرنا : ٢

امّت واحدہ : ٦ انبياء (ع) ١ ، ٤ ، ٦ ، ٨ ، ٩ ، ١١ ، ١٢ ، ١٦ ، ١٨ ، ٢٢ ، ٢٣ ، ٢٤

انبياء (ع) كا پے در پے آنا ٧;انبياء (ع) كى بشارت ٢١ انبياء (ع) كى تعليمات ٢٥; انبياء (ع) كى حكمت ٣ ، ٨ ; انبياء (ع) كى دعوت ٢٢; انبياء (ع) كى ذمہ دارى ١٠ ، ١١ ، ١٧ ، ٢٢ ;انبياء (ع) كى گواہى ١٩ ، ٢٠; انبيائے (ع) ماسلف ٧،٢١

اہل كتاب: ٢

ايمان : آسمانى كتابوں پرايمان ١٢ ; انبياء (ع) پر ايمان ١٢ ، ١٦ ، ١٨ ، ١٩ ، ٢٢ ، ٢٥ ; پيغمبر اسلام(ص) پر ايمان٩ ، ٢٤ ; دين پر ايمان١٥; نبوت پرايمان ١ ، ٤ ، ٩ ، ١٩

خداتعالى : خدا تعالى كا عہد ١ ، ٢ ، ٤ ، ٦ ، ٨ ، ٩ ، ١٧ ، ١٨ ، ١٩ ، ٢٢ ; خدا تعالى كى گواہى ١٩; خدا تعالى كے اوامر ١٧ ;خداتعالى كے عطيّے ٣

____________________

١) تفسير تبيان ج٢ ص٥١٤ ، مجمع البيان ج٢ ص٧٨٤_

۶۱۰

دين : دين اور عينيت ١٤

روايت ٢٣ ، ٢٤ ، ٢٥

علماء : علماكى ذمہ دارى ١٣

عہد : انبياء (ع) كے ساتھ عہد ١ ، ٤ ، ٦ ، ٨ ، ٩ ، ١٦ ، ١٧

نبوت : ١ ، ٤ ، ٩ ، ١٩ ، نبوت كى دليليں ١٢

فَمَن تَوَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (٨٢)

اس كے بعد جو انحراف كرے گا وہ فاسقين كى منزل ميں ہوگا _

١_ انبياء (ع) پر ايمان نہ لانا اور انكى مدد نہ كرنا فسق و فجور ہے_لتومنن به و لتنصرنه فمن تولّى بعد ذلك فاولئك هم الفاسقون

٢_ جو لوگ پيغمبر اسلام (ص) پر ايمان نہ لائيں اور آپ (ص) كى مدد نہ كريں وہ فاسق ہيں _لتومنن به و لتنصرنه فمن تولى بعد ذلك فاولئك هم الفاسقون يہ اس صورت ميں ہے كہ سابقہ آيت ميں ''رسول''سے مراد رسول اكرم (ص) ہوں

٣_ دين كے مركز سے نكلنا ، ہر زمانے ميں انبيائے (ع) الہى كى مخالفت كرنا اور دوسرے اديان كى طرف

مائل ہونا فسق ہے_و اذ اخذ الله فمن تولى بعد ذلك فاولئك هم الفاسقون

٤_ الہى عہد و پيمان كا توڑنا فسق ہے اور توڑنے والے فاسق ہيں _و اذ اخذ الله ميثاق فمن تولى بعد ذلك فاولئك هم الفاسقون

آنحضرت (ص) : ٢

ارتداد : ٣

انبياء (ع) :١

۶۱۱

عہد : عہد كا توڑنا ٤

فاسقين : ٢ ، ٤

فسق : ١ ، ٣ ، ٤

كفر :

انبياء (ع) كے بارے ميں كفر١ ، ٢ ; پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں كفر ٢

أَفَغَيْرَ دِينِ اللّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (٨٣)

كيا يہ لوگ دين خدا كے علاوہ كچھ او رتلاش كر رہے ہيں جب كہ زمين و آسمان كى سارى مخلوقات بہ رضا و رغبت يا بہ جبر و كراہت اسى كى بارگاہ ميں سر تسليم خم كئے ہوئے ہے او رسب كو اسى كى بارگاہ ميں واپس جانا ہے _

١_ اہل كتاب كا دين خدا ( پيغمبر اسلام (ص) پر ايمان اور انكى مدد كرنے)سے منحرف ہونا _

افغير دين الله يبغون سابقہ آيات پر توجہ كرتے ہوئے جو كہ اہل كتاب كے بارے ميں تھيں يہ آيت بھى اہل كتاب كى طرف اشارہ ہے_

٢_ خداوند عالم كے عہد و پيمان (انبياء (ع) پر ايمان لانا اور انكى مدد كرنا )پرعمل پيرا ہونا دين خدا ہے_

واذاخذ الله ميثاق ...افغير دين الله يبغون

٣_ دين كى طرف ميلان فطرى امر ہے_*

افغير دين الله يبغون ''بغي'' طلب كے معنى ميں ہے اور فعل مضارع ''يبغون''دائمى و مستمر طلب پر دلالت كرتاہے لہذا آيت ميں فرض كيا گيا ہے كہ لوگ دائمى طور پر دين كى طرف مائل رہتے ہيں _

٤_ غير خدا كے دين كا انتخاب نظام ہستى كى حركت سے مناسبت نہيں ركھتا_افغير دين الله يبغون و له اسلم من فى السماوات والارض

٥_ پيغمبر اكرم (ص) پر ايمان اور انكى مدد كرنا دين خدا ہے_

۶۱۲

ثمّ جاء كم رسول افغير دين الله يبغون يہ اس صورت ميں ہے كہ گذشتہ دو آيتوں ميں '' رسول ''سے مراد پيغمبر اسلام (ص) ہوں _

٦_ خدا تعالى كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہى دين كى حقيقت ہے_افغير دين الله يبغون و له اسلم من فى السماوات

٧_ تمام باشعور موجودات خواہ نخواہ خدا وند متعال كے حضور سر تسليم خم كرتے ہيں _افغير دين الله يبغون و له اسلم من فى السماوات والارض طوعاً و كرها كلمہ '' مصنْ''پر توجہ كرتے ہوئے جو كہ صاحبان عقل موجودات كے ليئے آتاہے يہاں پر مراد باشعور موجودات ہيں _

٨_ آسمانوں ميں باشعور موجودات كا ہونا _و له اسلم من فى السماوات والارض

٩_ خداوند عالم كے حضور سر تسليم خم كرنا نظام ہستى كے كلى تحرك كى ہمراہى ہے_وله اسلم من فى السماوات و الارض طوعاً و كرهاً

١٠_ نظام ہستى ميں قوانين الہى كى حكمرانى _و له اسلم من فى السماوات والارض

١١_ تمام موجودات كا خداوند متعال كے سامنے سر تسليم خم كرنا ، دين كو قبول كرنے اور خدا وند عالم كے سامنے سر تسليم خم كرنے كے ضرورى ہونے كى دليل ہے _افغير دين الله يبغون و له اسلم من فى السماوات والارض

١٢_ تمام موجودات خداوند عالم كى طرف لوٹنے پر مجبور ہيں _ واليه يرجعون

١٣_ تمام موجودات كے خداوند متعال كى طرف جبرى رجوع كى طرف توجہ دين خدا كو قبول كرنے كا پيش خيمہ ہے_

افغير دين الله و اليه يرجعون جملہ ''واليہ '' دين خدا كى قبوليت كے لازمى ہونے كى دليل كے طور پر ہے جو كہ ''افغير دين ...''سے مستفادہے_

١٤_ تمام باشعور موجودات تكوينى طور پر توحيد خدا كے قائل ہيں _و له اسلم من فى السماوات والارض طوعاً و كرها

مذكورہ بالا آيت كے بارے ميں امام صادق(ع)

۶۱۳

نے فرمايا: ہو توحيد ہم لله عزوجل(١)

١٥_ عالم ذرميں اصحاب يمين كا خدا كى ربوبيت كے بارے ميں اپنى رغبت و ميلان سے اعتراف اور اصحاب شمال كا مجبوراً اعتراف_و له اسلم من فى السماوات والارض طوعاً و كرهاً

امام صادق (ع) فرماتے ہيں :فخلق تربة آدم فقبض قبضة من كتفه الايمن فخرجوا الذر فقال لهم جميعا الست بربكم؟ قال اصحاب اليمين بلى طوعاً و قال اصحاب الشمال بلى كرهاً ...فذلك قوله تعالى ''وله اسلم من فى السماوات والارض طوعاً وكرهاً'' خداوند عالم نے آدم(ع) كى تربت كو خلق كيا پس اس كے دائيں كندھے سے ايك مٹھى مٹى لى اس سے لوگ ذرّوں كى صورت ميں نكلے پھر خدا تعالى نے ان سے كہا '' الست بربكم'' پھر اصحاب يمين نے رغبت سے اقرار كيا اور اصحاب شمال نے مجبوراً اعتراف كيا يہ ہے مراد اللہ تعالى كے اس فرمان سے''و له اسلم من فى السموات والارض طوعاً و كرها'' (٢)

١٦_ فرشتوں كا خداوند عالم كے سامنے سر تسليم خم كرنا_و له اسلم من فى السموات مذكورہ بالا آيت كے بارے ميں رسول خدا (ص) نے فرمايا: امّامن فى السماوات فالملائكة (٣) سر تسليم خم كرنے والے جو آسمانوں ميں ہيں ان سے مراد فرشتے ہيں _

آخرت : آخرت پر ايمان كے اثرات ١٣

آنحضرت : ١ ، ٥

اطاعت : ١١

انبياء (ع) :٢

اہل كتاب : اہل كتاب كى گمراہى ١ ; پيغمبر اسلام (ص) اور اہل كتاب ١ ايمان ١٣ ،

انبياء (ع) پر ايمان ٢ ;ايمان اور عمل ١٣ ; پيغمبر اسلام (ص) پر ايمان ١ ، ٥

____________________

١) توحيد صدوق ص ٤٦ حديث ٧باب ٢ ، نورالثقلين ج١ ص ٣٦٠ حديث ٢٢٠_

٢) علل الشرائع ص ٤٢٥ حديث ٦ باب ١٦١ ، تفسير برہان ج١ ص ٢٩٥ حديث ١_

٣) الدرالمنثور ج٢ ص ٢٥٤_

۶۱۴

تكوين و تشريع :٤ ، ٩

توحيد : ١٤

خدا تعالى :

خدا تعالى كا عہد ٢;خدا تعالى كى حكمرانى ١٠ ; خدا تعالى كى ربوبيت ١٥ ; خد ا تعالى كى طرف بازگشت١٢ ، ١٣

دين : دين كو قبول كرنا ٤ ، ١١ ، ١٣ ; دين كى حقيقت ٢ ، ٦ ; دين كى طرف ميلان ٣

روايت : ١٤ ، ١٥ ، ١٦

زندگى : آسمانوں ميں زندگى ٨

سر تسليم خم كرنا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم كرنا ٦، ٧، ٩، ١١، ١٥، ١٦

عالم خلقت : عالم خلقت اور اطاعت ١١ ;عالم خلقت كى قانونمندى ١٠ ;عالم خلقت ميں شعور ٧

عالم ذرّ : عالم ذرّ ميں اصحاب شمال ١٥ ;عالم ذرّ ميں اصحاب يمين ١٥ عمل : ١٣

فرشتے : ١٦

فطرى رجحانات: ٣

معاد :١٢

موجودات : موجودات كا انجام ١٢;موجودات كى توحيد ١٤

۶۱۵

قُلْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (٨٤)

پيغمبر ان سے كہہ ديجئے كہ ہمارا ايمان الله پر ہے او رجو ہم پر نازل ہوا ہے او رجو ابراہيم ، اسماعيل ، اسحاق ، يعقوب او راسباط پر نازل ہوا ہے اور جو موسى ، عيسى او رانبياء كو خدا كى طرف سے ديا گيا ہے ان سب پر ہے _ ہم ان كے د رميان تفريق نہيں كرتے ہيں او رہم خدا كے اطاعت گذار بندے ہيں _

١_ پيغمبر اسلام (ص) كو خداتعالى كا حكم كہ آپ(ص) اور آپ (ص) كى امّت خداوند متعال اور ، جو كچھ آپ(ص) اور سابقہ انبياء (ع) پر نازل كيا گيا ہے اس پر ايمان كا اظہار كريں _قل آمنا بالله و ما انزل علينا و ما اوتى موسى و عيسى و النبيون

٢_ حضرت ابراہيم (ع) ،حضرت اسماعيل (ع) ،حضرت اسحاق(ع) ، حضرت يعقوب(ع) اورآپ(ع) كے بيٹے انبياء (ع) ميں سے تھے اور انہيں خداوند عالم كى طرف سے وحى ہوتى تھي_و ما انزل على ابراهيم و الاسباط

چونكہ ''الاسباط'' جو نواسوں كے معنى ميں ہے حضرت يعقوب(ع) كے بعد ذكر ہوا ہو ، ايسا معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مرادحضرت يعقوب(ع) كے بيٹے ہيں _

٣_ حضرت موسى (ع) اورحضرت عيسى (ع) خداوند عالم كے انبياء (ع) ميں سے اور صاحب كتاب ہيں _

و ما اوتى موسى و عيسي ظاہر يہ ہے كہ ''ما اوتي''سے مراد كتاب ہے_

۶۱۶

٤_ خداتعالى پر ايمان اور تمام انبيائے (ع) الہى اور آسمانى كتابوں پرايمان كا با ہم ہونا ضرورى ہے_

قل آمنا بالله و النبيون من ربّهم

٥_ تمام انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں پر ايمان خدا تعالى كے عہد و پيمان پر عمل ہے _

و اذ اخذ الله ميثاق النبين قل آمنا بالله و ما انزل والنبيون من ربّهم

٦_ پيغمبر اكرم(ص) خاتم النبيين (ع) ہيں _و اذ اخذ الله قل آمنا بالله و النبيون من ربهم

كيونكہ جب دوسرے انبياء (ع) كے ميثاق كى بات ہورہى تھى تو ہر آنے والے رسول (ص) كے اقرار كا ذكر كيا گيا ليكن رسول اكرم (ص) كے ايمان ميں آنے والے رسول كے اقرار كا ذكر نہيں ہے_

٧_ خداوند عالم ، تمام انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں پر ايمان اہم اعتقادى اصولوں ميں سے ہے_

قل آمنا بالله و النبيون من ربهم '' قل آمنا''سابقہ آيت ميں مذكور ''دين'' كو بيان كررہاہے لہذا اس آيت ميں ذكر كيئے جانے والے مطالب دين كے اہم اركان ہوں گے_

٨_ حضرت موسى (ع) اور حضرت عيسى (ع) كى شريعتوں اور ان پر نازل كى جانے والى كتابوں ( تورات و انجيل ) كى خاص اہميت _و ما اوتى موسى و عيسي

٩_ انبياء (ع) كى نبوت اور انكى آسمانى كتابوں كا نزول خداتعالى كى ربوبيت كا جلوہ ہے_

و ما اوتى والنبيون من ربهم

١٠_ تمام انبياء (ع) اور ان پر نازل كى جانے والى كتابوں پر ايمان نہ لانا خداوند عالم كے سامنے سر تسليم خم نہ كرنے كى علامت ہے_آمنا لا نفرق بين احد منهم و نحن له مسلمون

١١_ انبياء (ع) پر ايمان لانے ميں تفريق و تبعيض سے پرہيز ضرورى ہے_لانفرق بين احد منهم آيت كى ابتداء ميں '' آمنا''كے قرينہ سے تفريق نہ كرنا صرف انبياء (ع) پر ايما ن لانے كے لحاظ سے ہے نہ كہ ديگر جہات سے _

١٢_ پيغمبر اكرم(ص) كى اديان الہى كے پيروكاروں كو اعتقادى وحدت اور انبياء (ع) پر ايمان لانے ميں فرق نہ كرنے كى طرف دعوت _لا نفرق بين احد منهم

١٣_ اعتقادى اور عملى جہات كے حوالے سے اديان

۶۱۷

الہى اور انبياء (ع) ميں ہم آہنگى _آمنا بالله وما انزل لانفرق بين احد منهم و نحن له مسلمون

١٤_ پيغمبر اكرم (ص) اور ان كے پيروكاروں كا مكمل طور پرخدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا _

و نحن له مسلمون تسليم كے متعلق كا حذف اسكے عموم پر دلالت كرتاہے_

١٥_ سر تسليم خم كرنا دين خدا ( شريعت اسلام ) كى روح و حقيقت ہے _ و نحن لہ مسلمون گويا ''ونحن لہ مسلمون''گذشتہ مطالب كا خلاصہ ہے_

١٦_ سر تسليم خم كرنا صرف خداوند عالم كے حضور اور خدا كى خاطر ہونا چاہيئے_

و نحن له مسلمون

حصر، ''لہ'' ظرف كے اپنے متعلق''مسلمون'' پر تقدم سے حاصل ہوتا ہے_

١٧_ مؤمنين كا خدا كے سامنے سرتسليم خم كرنا تمام موجودات كے خدا كے حضور سر تسليم خم كرنے كے ساتھ ہم آہنگ ہے_و له اسلم من فى السموات والارض و نحن له مسلمون

آسمانى كتابيں : ٤ ، ٥ ، ٧ ، ٩ ، ١٠

آنحضرت (ص) : آنحضرت (ص) كى خاتميت٦;آنحضرت(ص) كى دعوت ١٢ ; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ١; آنحضرت (ص) كے پيروكار ١ ، ١٤

اديان : اديان ميں ہم آہنگى ١٢ ، ١٣

انبياء (ع) : ١ ، ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٥ ، ٩ ، ١٠

انبياء (ع) كى دعوت ١٢ ; انبياء (ع) كى ہم آہنگى ١٣

انجيل : انجيل كى اہميت ٨

ايمان : آسمانى كتابوں پرايمان ٤ ، ٥ ، ٧ ; انبياء (ع) پر ايمان ١ ، ٤ ، ٥ ، ٧ ، ١١ ،١٢; ايمان كے اركان ٧;خدا كے بھيجے ہوئے پرايمان ١

تكوين و تشريع ١٧

تورات : تورات كى اہميت ٨

۶۱۸

حضرت ابراھيم (ع) : حضرت ابراہيم (ع) كى نبوت ٢

حضرت اسحاق (ع) : حضرت اسحاق (ع) كى نبوت ٢

حضرت اسماعيل (ع) : حضرت اسماعيل (ع) كى نبوت ٢

حضرت عيسى (ع) : حضرت عيسى (ع) كى كتاب ٣ ;حضرت عيسى (ع) كى نبوت ٣

حضرت موسى (ع) : حضرت موسى (ع) كى كتاب ٣ ; حضرت موسى (ع) كى نبوت ٣

حضرت يعقوب (ع) : حضرت يعقوب (ع) كى اولاد ٢ ; حضرت يعقوب(ع) كى نبوت ٢

خدا تعالى : خدا تعالى كى ربوبيت ٩ ; خدا تعالى كا عہد ٥ خداتعالى كے اوامر ١

دين : دين كى حقيقت ١٥

سر تسليم خم كرنا : خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا١٠ ، ١٤ ، ١٥ ، ١٦ ، ١٧

عالم خلقت : عالم خلقت اور اطاعت ١٧

كفر : انبياء (ع) كے بارے ميں كفر ١٠ ; كفر كے اثرات ١٠

مسيحيت : دين مسيحيت ٨

نبوت ٢ ، ٣

يہود : دين يہود ٨

۶۱۹

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (٨٥)

او رجو اسلام كے علاوہ كوئي بھى دين تلاش كرے گا تو وہ دين اس سے قبول نہ كيا جائے گا او روہ قيامت كے دن خسارہ والوں ميں ہو گا _

١_ دين اسلام كا قبول كرنا ، خداوند متعال كا انبياء (ع) اور لوگوں سے عہد و پيمان_و اذ اخذ الله ميثاق النبيين و من يبتغ غير الاسلام دينا يہ اس صورت ميں ہے كہ ''الاسلام ''سے پيغمبر اسلام (ص) كى شريعت مراد ہو_

٢_ اسلام كے علاوہ كسى دين كا انتخاب خدا وند عالم كو قابل قبول نہيں ہے_و من يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه

٣_ خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنے كے علاوہ كوئي راہ و روش اختيار كرنا خدا تعالى كو قابل قبول نہيں ہے_

و من يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه يہ اس صورت ميں ہے كہ سابقہ آيت كے قرينہ سے ''الاسلام ''سے مراد اس كے لغوى معنى ہوں يعنى خدا كے حضور سر تسليم خم كرنا _

٤_ اسلام ہى وہ واحد دين ہے جو عالمى ہے_و من يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه

٥_ اسلام تمام سابقہ شريعتوں كو منسوخ كرنے والا ہے_و من يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه

يہ اس صورت ميں ہے كہ ''الاسلام ''سے پيغمبر اكرم (ص) كى شريعت مرادہو_

٦_ مسلمان ( خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنے والے ) سعادت و نيك بختى سے بہرہ مند اور اخروى نقصان سے محفوظ ہيں _ومن يبتغ ...وهو فى الآخرة من الخاسرين

٧_ اس حقيقت كى طرف توجہ كہ مسلمان آخرت ميں بہرہ مند ہونگے اور دوسرے لوگ نقصان ميں ہونگے اسلام قبول كرنے كا محرك ہے_ومن يبتغ ...و هو فى الآخرة من الخاسرين

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749