تفسير راہنما جلد ۲

 تفسير راہنما10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 749

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 749 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177998 / ڈاؤنلوڈ: 6643
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

و انّ منهم لفريقاً يلون السنتهم بالكتاب لتحسبوه من الكتاب ...ما كان لبشر ان يؤتيه الله الكتاب ثمّ يقول للناس كونوا عباداً لي سابقہ آيت كے اس آيہ كے ساتھ ارتباط سے يہ استفادہ ہوتاہے_

٣_ خداوندعالم كى طرف سے حضرت عيسى (ع) كى الوہيت كى نفى _ان ّ مثل عيسى عند الله (آيت ٥٩) ما كان لبشر ان يوتيه الله الكتاب اس آيت كے مورد نظر مصاديق ميں سے حضرت مسيح(ع) ہيں كيونكہ سابقہ آيات اہل كتاب كے بارے ميں ہيں _

٤_ انبياء (ع) انسانوں ميں سے افضل اور فوقيت ركھنے والے ہيں نہ كہما فوق انسان _ما كان لبشر ان يوتيه الله الكتاب و الحكم

٥_ كتاب اور حكمت ، انبياء (ع) كو خداوند متعال كا عطيہ _ان يوتيه الله الكتاب والحكم يہ اس صورت ميں ہے كہ ''الحكم''كے معنى حكمت كے ہوں _

٦_ حكومت ،انبياء (ع) كو خدا وند عالم كا عطيہ _ان يوتيه الله الكتاب و الحكم يہ اس صورت ميں ہے كہ''الحكم'' حكومت كے معنى ميں ہو_

٧_ انبياء (ع) لوگوں كو صرف خدا تعالى كى بندگى كى دعوت ديتے تھے_ما كان لبشر ثم يقول للناس كونوا عباداً لى من دون الله و لكن كونوا ربانيّين

٨_ انبياء (ع) نے كبھى بھى اپنے منصب اور دين خدا سے سوء استفادہ نہيں كيا _ما كان لبشر ثم يقول للناس كونوا عباداً لى من دون الله

٩_ مقام نبوت پر فائز ہونا اور كتاب و حكمت والا ہونا اس بات سے مناسبت نہيں ركھتا كہ لوگوں كو اپنى بندگى كى طرف دعوت دى جائے _ما كان لبشر: ثم يقول للناس كونوا عباداً لى من دون الله

١٠_ خداوند متعال كى عبوديت اور غير خدا سے عبوديت كى نفى ، انبياء (ع) كى دعوت كا اصلى محورہے _ما كان لبشر ...ثم يقول للناس كونوا عباداً لى من دون الله و لكن كونوا ربّانيين ربّانى اسے كہتے ہيں جو ربّ سے انتہائي ارتباط ركھتاہو اور اسكى بہت عبادت كرے_

١١_ اديان كے پيروكاروں كے اپنے انبياء (ع) كے بارے ميں مشركانہ اعتقادات خود ان انبياء (ع) كى تعليمات كے برخلاف ہيں _

۶۰۱

ما كان لبشر ثم يقول و لكن كونوا ربانيين

١٢_ انبياء (ع) كى رسالت خدا ئي انسانوں كى تربيت ہے_و لكن كونوا ربانيين

١٣_ آسمانى كتابوں كا پڑھانا اور پڑھنا انسان كے ربانى ہونے كا ذريعہ _كونوا ربانيين بما كنتم تعلمون الكتاب و بما كنتم تدرسون

١٤_ آسمانى كتابوں سے سيكھى ہوئي تعليمات پر عمل كرنا ضرورى ہے_ كونوا ربانيين بما كنتم تعملون الكتاب و بما كنتم تدرسون كيونكہ ربّانى ہونے كا حكم ان لوگوں كو ديا گيا ہے جنہوں نے آسمانى كتابوں كو سيكھا ہے معلوم ہوتاہے كہ صرف ان كا علم كافى نہيں ہے بلكہ ان پر عمل كرنا بھى ضرورى ہے_

١٥_ ربّانى علماء و دانشمند انسانوں كى آسمانى كتابوں كى تعليمات كى بنياد پرپرورش انبياء (ع) كے اہداف ميں سے ہے_

كونوا ربانيين بما كنتم تعلمون الكتاب

١٦_ آسمانى كتابيں سيكھنے اور سكھانے كے ليئے ہيں _بماكنتم تعلمون الكتاب وبما كنتم تدرسون

١٧_ لوگوں كو اپنى طرف دعوت دينے كے ليئے دينى منصب اور عہدے سے ناجائز استفادہ كرنا ممنوع ہے_

ما كان لبشر ان يوتيه الله الكتاب ثمّ يقول للناس كونوا عباداً لي

١٨_ علمائے دين آسمانى كتابوں كے علم كے مقابل ذمہ دارہيں _و لكن كونوا ربانيين بما كنتم تعلمون الكتاب و بما كنتم تدرسون

١٩_ آسمانى كتابيں لوگوں كے لئے قابل ادراك و فہم ہيں _بما كنتم تعملموں الكتاب و بما كنتم تدرسون

٢٠_ آنحضرت (ص) كا اپنے بارے ميں لوگوں كو غلو ( حد سے بڑھانا ) كرنے سے منع فرمانا_

ماكان لبشر ان يوتيه ثمّ يقول للناس كونوا عباداً لي رسول خدا (ص) نے فرمايا :''لا ترفعونى فوق حقى فان الله تعالى اتخذنى عبداً قبل ان يتخذنى نبياً '' مجھے ميرے مقام سے نہ بڑھاؤ كيونكہ خداوند عالم نے مجھے نبى بنانے سے پہلے بندہ بنايا ، اس كے بعد آپ (ص) نے

۶۰۲

مذكورہ بالا آيت كى تلاوت فرمائي (١)

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) كے نواہى ٢٠ آسمانى كتابيں : ٥ ، ٩ ،١٣ ، ١٩ آسمانى كتابوں كى تحريف ٢;آسمانى كتابوں كى تعليمات ١٤ ;آسمانى كتابوں كے اہداف ١٦

انبياء (ع) : انبياء (ع) اور تربيت ١٢ ; انبياء (ع) كا مقام و مرتبہ٤ ; انبياء (ع) كى تعليمات ١١ ، ١٢ ، ١٣ ، ٥ ١ ; انبياء (ع) كى حكمت ٥ ، ٩;انبياء (ع) كى حكومت ٦ انبياء (ع) كى دعوت ٧ ، ٩ ، ١٠; انبياء (ع) كى ذمہ دارى كا دائرہ ١ ، ١٠ ;انبياء (ع) كى عصمت ٨ ;انبياء (ع) كى نبوت ٩;انبياء (ع) كے اہداف ١٢ ، ١٥

تربيت : ١٢

ترقى : ترقى كے مراحل ١٣

تعليم و تعلّم ١٣ ، ١٧ توحيد عبادى : ٣ ، ٧ ، ٩ ، ١٠

حضرت عيسى (ع) : حضرت عيسى (ع) كى الوہيت ٣

خدا تعالى : خدا تعالى كى بندگى ٧ ، ١٠ ; خدا تعالى كے عطيّے ٥ ، ٦;خدا تعالى كے نواہى ١

خودسازى : خود سازى كے عوامل ١٣

دين : دين سے ناجائز استفادہ ٨ ، ١٧

ذمہ دارى : علم اور ذمہ دارى ١٨

روايت : ٢٠ عقيدہ : باطل عقيدہ ٢ ، ١١

علمائ: ١٣ ، ١٥ ، ١٨

عمل : عمل كى اہميت ١٤

غلو : ٢٠

نبوت : ٩

____________________

١) عيون اخبار الرضا (ع) ج٢ ص ٢٠١حديث ١ باب ٤٦ نورالثقلين ج١ ص ٣٥٧ حديث ٢٠٩_

۶۰۳

وَلاَ يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُواْ الْمَلاَئِكَةَ وَالنِّبِيِّيْنَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ (٨٠)

وہ تمہيں يہ حكم بھى نہيں دے سكتا كہ ملائكہ يا انبياء كو اپنا پروردگار بنالوكيا وہ تمھيں كفر كا حكم دے سكتا ہے جب كہ تم لوگ مسلمان ہو _

١_ انبياء (ع) نے كسى كو يہ حكم نہيں ديا كہ وہ فرشتوں اور انبياء (ع) كو اپنا ربّ بنائيں _

ما كان لبشر ولا يامركم ان تتخذوا الملائكة والنبيين ارباباً

٢_ انبياء (ع) اور فرشتوں كى ربوبيت كا اعتقاد انبياء (ع) كے اہداف كے ساتھ سازگار نہيں _

ولايامركم ان تتخذوا الملائكة والنبيين ارباباً

٣_ بعض اہل كتاب كا ،انبياء (ع) اور فرشتوں كى ربوبيت كا معتقد ہونا_ولايامركم ان تتخذوا الملائكة والنبيين ارباباً

يہ آيت بعض اہل كتاب كے اعتقاد كى طرف ناظر ہے_

٤_ انبياء (ع) اور فرشتوں ( غير خدا ) كى ربوبيت كا اعتقاد كفر ہے_و لا يامركم ا يامركم بالكفر

٥_ انبياء (ع) ، فرشتے اور جو كچھ غير خدا ہے كائنات كى ربوبيت ميں مستقل كوئي تاثير نہيں ركھتے_

و لا يامركم ارباباً ايامركم بالكفر

٦_ خداوند عالم كے سامنے سرجھكانا كفر ( غير خدا كى ربوبيت كاعقيدہ) كے ساتھ سازگار نہيں _ايا مركم بالكفر بعد اذ انتم مسلمون

٧ خداوند متعال كے سامنے سر تسليم خم كرنااور اسكى توحيد، انبياء (ع) كى دعوت كى روح ہے_

ولا يامركم ان تتخذوا ا يامركم بالكفر بعد اذ انتم مسلمون

۶۰۴

انبياء (ع) : انبياء (ع) اور اہل كتاب ٣ ;انبياء (ع) اور توحيد ٧; انبياء (ع) اور خلقت ٥;انبياء (ع) كى تعليمات ١ ; انبياء (ع) كى دعوت ١ ، ٧;انبياء (ع) كے اہداف ٢ ; ربوبيت اورانبيا ء (ع) ٤

اہل كتاب ٣ : اہل كتاب اور انبياء (ع) ٣ ; اہل كتاب كے عقائد ٣ ;فرشتے اوراہل كتاب ٣

توحيد : ٧ توحيد صفاتى ١

دين : دين كى حقيقت ٧

سر تسليم خم كرنا: خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا ٦ ، ٧;سر تسليم خم كرنا اور كفر ٦

شرك : شرك كى نفى ٢ ;شرك كے موارد ٦

عالم خلقت : ٥ عالم خلقت كى تدبير ٥ ; فرشتے اورعالم خلقت ٥

عقيدہ : باطل عقيدہ ٢ ، ٣ ، ٤

فرشتے : ١ ،٣ ، ٤، ٥

كفر : ٦ كفر كے موارد ٤

۶۰۵

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَ أَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ (٨١)

اور اس وقت كو ياد كرو جب خدا نے تمام انبياء سے عہد ليا كہ ہم تم كو جو كتاب و حكمت دے رہے ہيں اس كے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمھارى كتابوں كى تصديق كرنے والا ہے تو تم سب اس پر ايمان لے آنا او راس كى مدد كرنا _او رپھر پوچھا كيا تم نے ان باتوں كا اقراركرليا اور ہمارے عہد كو قبول كرليا تو سب نے كہا كہ بيشك ہم نے اقرا ركرليا _ ارشاد ہوا كہ اب تم سب گواہ بھى رہنا اور ميں بھى تمھارے ساتھ گواہوں ميں ہوں _

١_ خداتعالى كا انبياء (ع) اور ان كے پيروكاروں سے يہ عہد و پيمان لينا كہ وہ بعد والے نبى (ع) پر ايمان لائيں گے اور اسكى مدد كريں گے_اذ اخذ الله ميثاق النبيين ثمّ جاء كم رسول لتؤمنن به و لتنصرنّه ''ميثاق النبيين''ميں ميثاق سے مراد ہوسكتاہے خداوند عالم كا انبياء (ع) سے ليا جانے والا عہد وپيمان ہو اور ہوسكتاہے لوگوں سے انبياء (ع) كے ليئے ليا جانے والا ميثاق ہو_

٢_ خداوند عالم كا اہل كتاب كو وہ ميثاق ياد دلاكر جو گذشتہ انبياء (ع) سے پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں ليا گيا تھا ، انكے خلاف استدلال كرنا _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين يہ اس صورت ميں ہے كہ ''اذ'' ''اذكروا'' كے متعلق ہو اور اس كے مخاطب سابقہ آيات كے قرينہ سے اہل كتاب ہوں _

٣_ كتاب اور حكمت، انبياء (ع) كيلئے خداوند عالم كا

۶۰۶

عطيّہ_لما آتيتكم من كتاب: وحكمة

٤_ پيغمبر اسلام (ص) كو حكم كہ وہ لوگوں كو سابقہ انبياء (ع) سے ليا جانے والا وہ عہد و پيمان ياد دلائيں جو بعد والے پيغمبر (ص) پر ايمان لانے كے لازمى ہونے كے بارے ميں تھا _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين لتؤ مننّ به

يہ اس صورت ميں ہے كہ '' اذ''،'' اذكر'' سے متعلق ہو_

٥_ تمام انبياء (ع) كا ايك ہى راستہ اور ايك ہى ہدف ہے_و اذ اخذ الله ميثاق النبيين لتؤمنن به و لتنصرنّه

٦_ ايك ہى پيغمبر (ص) كى پيروى كے نتيجہ ميں امّتوں كى وحدت كے لئے، انبياء (ع) سے خداوند عالم كا عہد و پيمان _

و اذ اخذ الله ميثاق النبيين لتؤمنن به و لتنصرنه بعد والے نبى (ع) پر ايمان اور اسكى پيروى كا لازمى ہونا بتلاتاہے كہ ہر زمانے ميں ايك ہى نبى (ع) محور رہاہے كہ اسكى پيروى كى بنياد پر امّتيں متحّد ہوجاتى تھيں _

٧_ سابقہ انبياء (ع) آنے والے رسولوں (ع) كى بعثت كا پيش خيمہ ہيں _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين ثم ّ جاء كم رسول مصدق لما معكم لتومنن به

٨_ خداوند عالم كا انبياء (ع) كو كتاب اور حكمت دينے سے پہلے عہد و پيمان لينا _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب و حكمة يہ اس صورت ميں ہے كہ '' لما'' شرطيہ ہو_

٩_ پيغمبر اسلام (ص) پر ايمان اور آپ (ص) كى مدد كرنا ، خداتعالى كا گزشتہ انبياء (ع) اور انكے پيروكاروں سے ليا جانے والا عہد و پيمان_ثمّ جاء كم رسول مصدق لما معكم يہ اس صورت ميں ہے كہ يہ آيت اہل كتاب كو خطاب ہو اور '' رسول ''سے مراد پيغمبر اكرم (ص) ہوں _

١٠_ انبياء (ع) كى باہمى ذمہ دارى ہے كہ وہ ايك دوسرے كى حمايت كريں _و اذ اخذ الله ثمّ جاء كم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به و لتنصرنّه سابقہ انبياء (ع) كا بعد والے انبياء (ع) پر ايمان لانے كى نصيحت كرنا اور بعد والے انبياء (ع) كا سابقہ انبياء (ع) كى تصديق كرنا مذكورہ بالا مطلب پر دلالت كرتاہے_

۶۰۷

١١_ پيغمبر اكرم (ص) ،سابقہ انبياء (ع) اور سابقہ الہى كتابوں كى تصديق فرمانے والے ہيں _

ثمّ جاء كم رسول مصدق لما معكم يہ اس صورت ميں ہے كہ '' رسول ''سے مراد پيغمبر اسلام (ص) ہوں _

١٢_ دعوائے پيغمبرى كى صحت كى شرط سابقہ انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں كى تصديق ہے_

ثم جاء كم رسول مصدق لما معكم

١٣_ صاحبان كتاب و حكمت پر پيغمبر اكرم (ص) كى حمايت كى ذمہ دارى _لما آتيتكم من كتاب و حكمة لتؤمنن به

كيونكہ كہ انبياء (ع) كتاب و حكمت ركھتے تھے انھيں پيغمبر اسلام (ص) كى حمايت كا حكم ہوا معلوم ہوتاہے كہ جس ميں بھى يہ خصوصيت ہو اگرچہ بالواسطہ طور پر اس پر بھى يہ ذمہ دارى عائد ہوگي_

١٤_ مكتب پہ ايمان كے ساتھ ساتھ اسكے اجرا كى جد وجہد كرناضرورى ہے _لتؤمنن به و لتنصرنه

١٥_ نئے دين كو قبول كرنا اور پہلے دين كو چھوڑنا مشكل امر ہے_و اذ اخذ الله ميثاق النبيين و اخذتم على ذلكم اصري

تاكيد كے ساتھ عہد و پيمان لينا بتلاتاہے كہ ہر دين و مذہب والے نئے دين كو قبول كرنے ميں ضد و سختى كا مظاہر ہ كرتے ہيں اور پہلے دين سے ہاتھ اٹھانا مشكل كام ہے_

١٦_ گذشتہ انبياء (ع) اور امّتوں كا بعد والے رسولوں (ع) پر ايمان لانے اور انكى مدد كرنے كے بارے ميں ليئے گئے ميثاق الہى كا اعتراف كرنا _قال ء اقررتم و اخذتم على ذلكم اصرى قالوا اقررنا

'' ء اقررتم '' انبياء (ع) سے اقرار لينا ہے اور ''اخذتم'' امتوں سے انبياء (ع) كے ذريعے عہد و پيمان لينے كا بيان ہے اور ''اقررنا'' تمام انبياء (ع) اور امتوں كا اقرار ہے_

١٧_ خداوند عالم كا انبياء (ع) اور انكى امّتوں كو ان سے ليئے گئے عہد و پيمان پر گواہ بننے اور گواہى دينے كا حكم_

قالوا اقررنا قال فاشهدوا و انا معكم من الشاهدين جملہ '' فاشھدوا ...'' گواہ بننے اور گواہى دينے دونوں پر دلالت كررہاہے_

١٨_ انبياء (ع) پر ايمان لانے اور انكى مدد كرنے كے

۶۰۸

سلسلہ ميں خداوند متعال كى طرف سے ليئے گئے عہد و پيمان كى عظمت_و اذ اخذ الله قال فاشهدوا

عہد و پيمان لينا اور پھر اس پر گواہ بننے اور گواہى دينے كا حكم عہد و پيمان كى عظمت پر دلالت كرتاہے_

١٩_ انبياء (ع) پر ايمان لانے اور انكى مدد كرنے كے سلسلہ ميں خداتعالى كے عہد و پيمان كے گواہ خدا وند عالم اور انبياء (ع) ہيں _و انا معكم من الشاهدين

٢٠_ خداتعالى كا انبياء (ع) كو پيغمبر اكرم(ص) كى حقانيت پر گواہ بنانا اور اس حقانيت پر ان كے ساتھ خود خداوند متعال كا گواہ ہونا_ثم جاء كم رسول قال فاشهدوا و انا معكم من الشاهدين يہ اس صورت ميں ہے كہ '' رسول''سے مراد پيغمبر اكرم (ص) ہوں _

٢١_ گذشتہ انبياء (ع) كى آنے والے انبياء (ع) كے بارے ميں بشارت_و اخذتم على ذلكم اصري

'' اصْر'' عہد كے معنى ميں ہے اور لوگوں سے آئندہ انبياء (ع) پر ايمان لانے اور انكى مدد كرنے كا عہد لينا خود ان كے آنے كى بشارت ہے_

٢٢_ انبياء (ع) كا فريضہ ہے كہ لوگوں كو انبياء (ع) ،پر ايمان اور انكى مدد كے بارے ميں خداوند متعال كے ان سے تاكيدى عہد و پيمان سے مطلع كريں _و اخذتم على ذلكم اصرى فاشهدوا و انا معكم من الشاهدين يہ اس صورت ميں ہے كہ '' فاشھدوا'' انبياء (ع) كو حكم ہو كہ امتوں كے سامنے شہادت دو_

٢٣_ پيغمبر اسلام (ص) اپنے سے پہلے انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں كى تصديق كرنے والے ہيں _

ثم جاء كم رسول مصدق لما معكم امام صادق (ع) فرماتے ہيں : '' ثمّ جاء كم رسول مصدق لما معكم''ميں رسول سے مراد رسول اسلام (ص) ہيں (١)

٢٤_ انبيائے (ع) الہى كى ذمہ داريہے كہ وہ لوگوں كو پيغمبر اسلام ، ان كى بعثت اور انكے اوصاف كى پہچان كرائيں اور تصديق كا حكم ديں _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين امير المؤمنين (ع) فرماتے ہيں :انّ الله تعالى اخذ الميثاق على الانبياء قبل نبيّنا ان يخبروا اممهم بمبعثه و نعته و يبشروهم به و يامروهم بتصديقه (٢)

____________________

١) تفسير قمى ج١ ص ٢٤٧ آيت ١٧٢ سورہ اعراف كے ذيل ميں ، نورالثقلين ج١ ص ٣٥٨ حديث ٢١١_ ٢) مجمع البيان ج٢ ص ٧٨٤ ، نورالثقلين ج١ ص ٣٥٩ حديث ٢١٥_

۶۰۹

اللہ تعالى نے ہمارے نبى (ص) سے پہلے انبياء (ع) سے يہ عہد ليا كہ وہ اپنى امتوں كو آنحضرت (ص) كى بعثت و صفت كى خبر ديں _ انہيں آنحضرت (ص) كى بشارت ديں اور ان كو حكم ديں كہ وہ آپ (ص) كى تصديق كريں _

٢٥_ خداوند عالم كا سابقہ انبياء (ع) كى امتّوں سے اپنے اپنے پيغمبر(ص) كى تصديق اور اسكى تعليمات پر عمل كرنے كے بارے ميں عھد و پيمان لينا _و اذ اخذ الله ميثاق النبيين امام صادق (ع) فرماتے ہيں :تقديره و اذ اخذ الله ميثاق امم النبيين بتصديق كلّ امّة نبيّها والعمل بما جاء هم به (١) يعنى اس آيت كى اصل يوں بنے گى كہ خدا نے نبيوں كى امتوں سے عہد لياكہ ہر امت اپنے نبى (ص) كى تصديق كرے اور اس كى تعليمات پر عمل كرے _

آسمانى كتابيں : ٣ ، ٨ ، ١١ ، ١٢ ، ٢٣ ، ٢٤

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) اور آسمانى كتابيں ١١ ، ٢٣; آنحضرت(ص) اور انبياء ٩ ، ١١ ، ٢٣ ، ٢٤ ; آنحضرت(ص)

اور اہل كتاب ٢ ;آنحضرت(ص) كى حقانيت ٢٠ ; آنحضرت(ص) كى حمايت ١٣ ; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ٢ ، ٤

اديان : اديان كى ہم آہنگى ٥

استدلال كرنا : ٢

امّت واحدہ : ٦ انبياء (ع) ١ ، ٤ ، ٦ ، ٨ ، ٩ ، ١١ ، ١٢ ، ١٦ ، ١٨ ، ٢٢ ، ٢٣ ، ٢٤

انبياء (ع) كا پے در پے آنا ٧;انبياء (ع) كى بشارت ٢١ انبياء (ع) كى تعليمات ٢٥; انبياء (ع) كى حكمت ٣ ، ٨ ; انبياء (ع) كى دعوت ٢٢; انبياء (ع) كى ذمہ دارى ١٠ ، ١١ ، ١٧ ، ٢٢ ;انبياء (ع) كى گواہى ١٩ ، ٢٠; انبيائے (ع) ماسلف ٧،٢١

اہل كتاب: ٢

ايمان : آسمانى كتابوں پرايمان ١٢ ; انبياء (ع) پر ايمان ١٢ ، ١٦ ، ١٨ ، ١٩ ، ٢٢ ، ٢٥ ; پيغمبر اسلام(ص) پر ايمان٩ ، ٢٤ ; دين پر ايمان١٥; نبوت پرايمان ١ ، ٤ ، ٩ ، ١٩

خداتعالى : خدا تعالى كا عہد ١ ، ٢ ، ٤ ، ٦ ، ٨ ، ٩ ، ١٧ ، ١٨ ، ١٩ ، ٢٢ ; خدا تعالى كى گواہى ١٩; خدا تعالى كے اوامر ١٧ ;خداتعالى كے عطيّے ٣

____________________

١) تفسير تبيان ج٢ ص٥١٤ ، مجمع البيان ج٢ ص٧٨٤_

۶۱۰

دين : دين اور عينيت ١٤

روايت ٢٣ ، ٢٤ ، ٢٥

علماء : علماكى ذمہ دارى ١٣

عہد : انبياء (ع) كے ساتھ عہد ١ ، ٤ ، ٦ ، ٨ ، ٩ ، ١٦ ، ١٧

نبوت : ١ ، ٤ ، ٩ ، ١٩ ، نبوت كى دليليں ١٢

فَمَن تَوَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (٨٢)

اس كے بعد جو انحراف كرے گا وہ فاسقين كى منزل ميں ہوگا _

١_ انبياء (ع) پر ايمان نہ لانا اور انكى مدد نہ كرنا فسق و فجور ہے_لتومنن به و لتنصرنه فمن تولّى بعد ذلك فاولئك هم الفاسقون

٢_ جو لوگ پيغمبر اسلام (ص) پر ايمان نہ لائيں اور آپ (ص) كى مدد نہ كريں وہ فاسق ہيں _لتومنن به و لتنصرنه فمن تولى بعد ذلك فاولئك هم الفاسقون يہ اس صورت ميں ہے كہ سابقہ آيت ميں ''رسول''سے مراد رسول اكرم (ص) ہوں

٣_ دين كے مركز سے نكلنا ، ہر زمانے ميں انبيائے (ع) الہى كى مخالفت كرنا اور دوسرے اديان كى طرف

مائل ہونا فسق ہے_و اذ اخذ الله فمن تولى بعد ذلك فاولئك هم الفاسقون

٤_ الہى عہد و پيمان كا توڑنا فسق ہے اور توڑنے والے فاسق ہيں _و اذ اخذ الله ميثاق فمن تولى بعد ذلك فاولئك هم الفاسقون

آنحضرت (ص) : ٢

ارتداد : ٣

انبياء (ع) :١

۶۱۱

عہد : عہد كا توڑنا ٤

فاسقين : ٢ ، ٤

فسق : ١ ، ٣ ، ٤

كفر :

انبياء (ع) كے بارے ميں كفر١ ، ٢ ; پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں كفر ٢

أَفَغَيْرَ دِينِ اللّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (٨٣)

كيا يہ لوگ دين خدا كے علاوہ كچھ او رتلاش كر رہے ہيں جب كہ زمين و آسمان كى سارى مخلوقات بہ رضا و رغبت يا بہ جبر و كراہت اسى كى بارگاہ ميں سر تسليم خم كئے ہوئے ہے او رسب كو اسى كى بارگاہ ميں واپس جانا ہے _

١_ اہل كتاب كا دين خدا ( پيغمبر اسلام (ص) پر ايمان اور انكى مدد كرنے)سے منحرف ہونا _

افغير دين الله يبغون سابقہ آيات پر توجہ كرتے ہوئے جو كہ اہل كتاب كے بارے ميں تھيں يہ آيت بھى اہل كتاب كى طرف اشارہ ہے_

٢_ خداوند عالم كے عہد و پيمان (انبياء (ع) پر ايمان لانا اور انكى مدد كرنا )پرعمل پيرا ہونا دين خدا ہے_

واذاخذ الله ميثاق ...افغير دين الله يبغون

٣_ دين كى طرف ميلان فطرى امر ہے_*

افغير دين الله يبغون ''بغي'' طلب كے معنى ميں ہے اور فعل مضارع ''يبغون''دائمى و مستمر طلب پر دلالت كرتاہے لہذا آيت ميں فرض كيا گيا ہے كہ لوگ دائمى طور پر دين كى طرف مائل رہتے ہيں _

٤_ غير خدا كے دين كا انتخاب نظام ہستى كى حركت سے مناسبت نہيں ركھتا_افغير دين الله يبغون و له اسلم من فى السماوات والارض

٥_ پيغمبر اكرم (ص) پر ايمان اور انكى مدد كرنا دين خدا ہے_

۶۱۲

ثمّ جاء كم رسول افغير دين الله يبغون يہ اس صورت ميں ہے كہ گذشتہ دو آيتوں ميں '' رسول ''سے مراد پيغمبر اسلام (ص) ہوں _

٦_ خدا تعالى كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہى دين كى حقيقت ہے_افغير دين الله يبغون و له اسلم من فى السماوات

٧_ تمام باشعور موجودات خواہ نخواہ خدا وند متعال كے حضور سر تسليم خم كرتے ہيں _افغير دين الله يبغون و له اسلم من فى السماوات والارض طوعاً و كرها كلمہ '' مصنْ''پر توجہ كرتے ہوئے جو كہ صاحبان عقل موجودات كے ليئے آتاہے يہاں پر مراد باشعور موجودات ہيں _

٨_ آسمانوں ميں باشعور موجودات كا ہونا _و له اسلم من فى السماوات والارض

٩_ خداوند عالم كے حضور سر تسليم خم كرنا نظام ہستى كے كلى تحرك كى ہمراہى ہے_وله اسلم من فى السماوات و الارض طوعاً و كرهاً

١٠_ نظام ہستى ميں قوانين الہى كى حكمرانى _و له اسلم من فى السماوات والارض

١١_ تمام موجودات كا خداوند متعال كے سامنے سر تسليم خم كرنا ، دين كو قبول كرنے اور خدا وند عالم كے سامنے سر تسليم خم كرنے كے ضرورى ہونے كى دليل ہے _افغير دين الله يبغون و له اسلم من فى السماوات والارض

١٢_ تمام موجودات خداوند عالم كى طرف لوٹنے پر مجبور ہيں _ واليه يرجعون

١٣_ تمام موجودات كے خداوند متعال كى طرف جبرى رجوع كى طرف توجہ دين خدا كو قبول كرنے كا پيش خيمہ ہے_

افغير دين الله و اليه يرجعون جملہ ''واليہ '' دين خدا كى قبوليت كے لازمى ہونے كى دليل كے طور پر ہے جو كہ ''افغير دين ...''سے مستفادہے_

١٤_ تمام باشعور موجودات تكوينى طور پر توحيد خدا كے قائل ہيں _و له اسلم من فى السماوات والارض طوعاً و كرها

مذكورہ بالا آيت كے بارے ميں امام صادق(ع)

۶۱۳

نے فرمايا: ہو توحيد ہم لله عزوجل(١)

١٥_ عالم ذرميں اصحاب يمين كا خدا كى ربوبيت كے بارے ميں اپنى رغبت و ميلان سے اعتراف اور اصحاب شمال كا مجبوراً اعتراف_و له اسلم من فى السماوات والارض طوعاً و كرهاً

امام صادق (ع) فرماتے ہيں :فخلق تربة آدم فقبض قبضة من كتفه الايمن فخرجوا الذر فقال لهم جميعا الست بربكم؟ قال اصحاب اليمين بلى طوعاً و قال اصحاب الشمال بلى كرهاً ...فذلك قوله تعالى ''وله اسلم من فى السماوات والارض طوعاً وكرهاً'' خداوند عالم نے آدم(ع) كى تربت كو خلق كيا پس اس كے دائيں كندھے سے ايك مٹھى مٹى لى اس سے لوگ ذرّوں كى صورت ميں نكلے پھر خدا تعالى نے ان سے كہا '' الست بربكم'' پھر اصحاب يمين نے رغبت سے اقرار كيا اور اصحاب شمال نے مجبوراً اعتراف كيا يہ ہے مراد اللہ تعالى كے اس فرمان سے''و له اسلم من فى السموات والارض طوعاً و كرها'' (٢)

١٦_ فرشتوں كا خداوند عالم كے سامنے سر تسليم خم كرنا_و له اسلم من فى السموات مذكورہ بالا آيت كے بارے ميں رسول خدا (ص) نے فرمايا: امّامن فى السماوات فالملائكة (٣) سر تسليم خم كرنے والے جو آسمانوں ميں ہيں ان سے مراد فرشتے ہيں _

آخرت : آخرت پر ايمان كے اثرات ١٣

آنحضرت : ١ ، ٥

اطاعت : ١١

انبياء (ع) :٢

اہل كتاب : اہل كتاب كى گمراہى ١ ; پيغمبر اسلام (ص) اور اہل كتاب ١ ايمان ١٣ ،

انبياء (ع) پر ايمان ٢ ;ايمان اور عمل ١٣ ; پيغمبر اسلام (ص) پر ايمان ١ ، ٥

____________________

١) توحيد صدوق ص ٤٦ حديث ٧باب ٢ ، نورالثقلين ج١ ص ٣٦٠ حديث ٢٢٠_

٢) علل الشرائع ص ٤٢٥ حديث ٦ باب ١٦١ ، تفسير برہان ج١ ص ٢٩٥ حديث ١_

٣) الدرالمنثور ج٢ ص ٢٥٤_

۶۱۴

تكوين و تشريع :٤ ، ٩

توحيد : ١٤

خدا تعالى :

خدا تعالى كا عہد ٢;خدا تعالى كى حكمرانى ١٠ ; خدا تعالى كى ربوبيت ١٥ ; خد ا تعالى كى طرف بازگشت١٢ ، ١٣

دين : دين كو قبول كرنا ٤ ، ١١ ، ١٣ ; دين كى حقيقت ٢ ، ٦ ; دين كى طرف ميلان ٣

روايت : ١٤ ، ١٥ ، ١٦

زندگى : آسمانوں ميں زندگى ٨

سر تسليم خم كرنا: اللہ تعالى كے حضور سر تسليم خم كرنا ٦، ٧، ٩، ١١، ١٥، ١٦

عالم خلقت : عالم خلقت اور اطاعت ١١ ;عالم خلقت كى قانونمندى ١٠ ;عالم خلقت ميں شعور ٧

عالم ذرّ : عالم ذرّ ميں اصحاب شمال ١٥ ;عالم ذرّ ميں اصحاب يمين ١٥ عمل : ١٣

فرشتے : ١٦

فطرى رجحانات: ٣

معاد :١٢

موجودات : موجودات كا انجام ١٢;موجودات كى توحيد ١٤

۶۱۵

قُلْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (٨٤)

پيغمبر ان سے كہہ ديجئے كہ ہمارا ايمان الله پر ہے او رجو ہم پر نازل ہوا ہے او رجو ابراہيم ، اسماعيل ، اسحاق ، يعقوب او راسباط پر نازل ہوا ہے اور جو موسى ، عيسى او رانبياء كو خدا كى طرف سے ديا گيا ہے ان سب پر ہے _ ہم ان كے د رميان تفريق نہيں كرتے ہيں او رہم خدا كے اطاعت گذار بندے ہيں _

١_ پيغمبر اسلام (ص) كو خداتعالى كا حكم كہ آپ(ص) اور آپ (ص) كى امّت خداوند متعال اور ، جو كچھ آپ(ص) اور سابقہ انبياء (ع) پر نازل كيا گيا ہے اس پر ايمان كا اظہار كريں _قل آمنا بالله و ما انزل علينا و ما اوتى موسى و عيسى و النبيون

٢_ حضرت ابراہيم (ع) ،حضرت اسماعيل (ع) ،حضرت اسحاق(ع) ، حضرت يعقوب(ع) اورآپ(ع) كے بيٹے انبياء (ع) ميں سے تھے اور انہيں خداوند عالم كى طرف سے وحى ہوتى تھي_و ما انزل على ابراهيم و الاسباط

چونكہ ''الاسباط'' جو نواسوں كے معنى ميں ہے حضرت يعقوب(ع) كے بعد ذكر ہوا ہو ، ايسا معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مرادحضرت يعقوب(ع) كے بيٹے ہيں _

٣_ حضرت موسى (ع) اورحضرت عيسى (ع) خداوند عالم كے انبياء (ع) ميں سے اور صاحب كتاب ہيں _

و ما اوتى موسى و عيسي ظاہر يہ ہے كہ ''ما اوتي''سے مراد كتاب ہے_

۶۱۶

٤_ خداتعالى پر ايمان اور تمام انبيائے (ع) الہى اور آسمانى كتابوں پرايمان كا با ہم ہونا ضرورى ہے_

قل آمنا بالله و النبيون من ربّهم

٥_ تمام انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں پر ايمان خدا تعالى كے عہد و پيمان پر عمل ہے _

و اذ اخذ الله ميثاق النبين قل آمنا بالله و ما انزل والنبيون من ربّهم

٦_ پيغمبر اكرم(ص) خاتم النبيين (ع) ہيں _و اذ اخذ الله قل آمنا بالله و النبيون من ربهم

كيونكہ جب دوسرے انبياء (ع) كے ميثاق كى بات ہورہى تھى تو ہر آنے والے رسول (ص) كے اقرار كا ذكر كيا گيا ليكن رسول اكرم (ص) كے ايمان ميں آنے والے رسول كے اقرار كا ذكر نہيں ہے_

٧_ خداوند عالم ، تمام انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں پر ايمان اہم اعتقادى اصولوں ميں سے ہے_

قل آمنا بالله و النبيون من ربهم '' قل آمنا''سابقہ آيت ميں مذكور ''دين'' كو بيان كررہاہے لہذا اس آيت ميں ذكر كيئے جانے والے مطالب دين كے اہم اركان ہوں گے_

٨_ حضرت موسى (ع) اور حضرت عيسى (ع) كى شريعتوں اور ان پر نازل كى جانے والى كتابوں ( تورات و انجيل ) كى خاص اہميت _و ما اوتى موسى و عيسي

٩_ انبياء (ع) كى نبوت اور انكى آسمانى كتابوں كا نزول خداتعالى كى ربوبيت كا جلوہ ہے_

و ما اوتى والنبيون من ربهم

١٠_ تمام انبياء (ع) اور ان پر نازل كى جانے والى كتابوں پر ايمان نہ لانا خداوند عالم كے سامنے سر تسليم خم نہ كرنے كى علامت ہے_آمنا لا نفرق بين احد منهم و نحن له مسلمون

١١_ انبياء (ع) پر ايمان لانے ميں تفريق و تبعيض سے پرہيز ضرورى ہے_لانفرق بين احد منهم آيت كى ابتداء ميں '' آمنا''كے قرينہ سے تفريق نہ كرنا صرف انبياء (ع) پر ايما ن لانے كے لحاظ سے ہے نہ كہ ديگر جہات سے _

١٢_ پيغمبر اكرم(ص) كى اديان الہى كے پيروكاروں كو اعتقادى وحدت اور انبياء (ع) پر ايمان لانے ميں فرق نہ كرنے كى طرف دعوت _لا نفرق بين احد منهم

١٣_ اعتقادى اور عملى جہات كے حوالے سے اديان

۶۱۷

الہى اور انبياء (ع) ميں ہم آہنگى _آمنا بالله وما انزل لانفرق بين احد منهم و نحن له مسلمون

١٤_ پيغمبر اكرم (ص) اور ان كے پيروكاروں كا مكمل طور پرخدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا _

و نحن له مسلمون تسليم كے متعلق كا حذف اسكے عموم پر دلالت كرتاہے_

١٥_ سر تسليم خم كرنا دين خدا ( شريعت اسلام ) كى روح و حقيقت ہے _ و نحن لہ مسلمون گويا ''ونحن لہ مسلمون''گذشتہ مطالب كا خلاصہ ہے_

١٦_ سر تسليم خم كرنا صرف خداوند عالم كے حضور اور خدا كى خاطر ہونا چاہيئے_

و نحن له مسلمون

حصر، ''لہ'' ظرف كے اپنے متعلق''مسلمون'' پر تقدم سے حاصل ہوتا ہے_

١٧_ مؤمنين كا خدا كے سامنے سرتسليم خم كرنا تمام موجودات كے خدا كے حضور سر تسليم خم كرنے كے ساتھ ہم آہنگ ہے_و له اسلم من فى السموات والارض و نحن له مسلمون

آسمانى كتابيں : ٤ ، ٥ ، ٧ ، ٩ ، ١٠

آنحضرت (ص) : آنحضرت (ص) كى خاتميت٦;آنحضرت(ص) كى دعوت ١٢ ; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ١; آنحضرت (ص) كے پيروكار ١ ، ١٤

اديان : اديان ميں ہم آہنگى ١٢ ، ١٣

انبياء (ع) : ١ ، ٢ ، ٣ ، ٤ ، ٥ ، ٩ ، ١٠

انبياء (ع) كى دعوت ١٢ ; انبياء (ع) كى ہم آہنگى ١٣

انجيل : انجيل كى اہميت ٨

ايمان : آسمانى كتابوں پرايمان ٤ ، ٥ ، ٧ ; انبياء (ع) پر ايمان ١ ، ٤ ، ٥ ، ٧ ، ١١ ،١٢; ايمان كے اركان ٧;خدا كے بھيجے ہوئے پرايمان ١

تكوين و تشريع ١٧

تورات : تورات كى اہميت ٨

۶۱۸

حضرت ابراھيم (ع) : حضرت ابراہيم (ع) كى نبوت ٢

حضرت اسحاق (ع) : حضرت اسحاق (ع) كى نبوت ٢

حضرت اسماعيل (ع) : حضرت اسماعيل (ع) كى نبوت ٢

حضرت عيسى (ع) : حضرت عيسى (ع) كى كتاب ٣ ;حضرت عيسى (ع) كى نبوت ٣

حضرت موسى (ع) : حضرت موسى (ع) كى كتاب ٣ ; حضرت موسى (ع) كى نبوت ٣

حضرت يعقوب (ع) : حضرت يعقوب (ع) كى اولاد ٢ ; حضرت يعقوب(ع) كى نبوت ٢

خدا تعالى : خدا تعالى كى ربوبيت ٩ ; خدا تعالى كا عہد ٥ خداتعالى كے اوامر ١

دين : دين كى حقيقت ١٥

سر تسليم خم كرنا : خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنا١٠ ، ١٤ ، ١٥ ، ١٦ ، ١٧

عالم خلقت : عالم خلقت اور اطاعت ١٧

كفر : انبياء (ع) كے بارے ميں كفر ١٠ ; كفر كے اثرات ١٠

مسيحيت : دين مسيحيت ٨

نبوت ٢ ، ٣

يہود : دين يہود ٨

۶۱۹

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (٨٥)

او رجو اسلام كے علاوہ كوئي بھى دين تلاش كرے گا تو وہ دين اس سے قبول نہ كيا جائے گا او روہ قيامت كے دن خسارہ والوں ميں ہو گا _

١_ دين اسلام كا قبول كرنا ، خداوند متعال كا انبياء (ع) اور لوگوں سے عہد و پيمان_و اذ اخذ الله ميثاق النبيين و من يبتغ غير الاسلام دينا يہ اس صورت ميں ہے كہ ''الاسلام ''سے پيغمبر اسلام (ص) كى شريعت مراد ہو_

٢_ اسلام كے علاوہ كسى دين كا انتخاب خدا وند عالم كو قابل قبول نہيں ہے_و من يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه

٣_ خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنے كے علاوہ كوئي راہ و روش اختيار كرنا خدا تعالى كو قابل قبول نہيں ہے_

و من يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه يہ اس صورت ميں ہے كہ سابقہ آيت كے قرينہ سے ''الاسلام ''سے مراد اس كے لغوى معنى ہوں يعنى خدا كے حضور سر تسليم خم كرنا _

٤_ اسلام ہى وہ واحد دين ہے جو عالمى ہے_و من يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه

٥_ اسلام تمام سابقہ شريعتوں كو منسوخ كرنے والا ہے_و من يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه

يہ اس صورت ميں ہے كہ ''الاسلام ''سے پيغمبر اكرم (ص) كى شريعت مرادہو_

٦_ مسلمان ( خدا كے سامنے سر تسليم خم كرنے والے ) سعادت و نيك بختى سے بہرہ مند اور اخروى نقصان سے محفوظ ہيں _ومن يبتغ ...وهو فى الآخرة من الخاسرين

٧_ اس حقيقت كى طرف توجہ كہ مسلمان آخرت ميں بہرہ مند ہونگے اور دوسرے لوگ نقصان ميں ہونگے اسلام قبول كرنے كا محرك ہے_ومن يبتغ ...و هو فى الآخرة من الخاسرين

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749