شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)0%

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)

مؤلف: علی اصغررضوانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8021
ڈاؤنلوڈ: 3473

تبصرے:

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8021 / ڈاؤنلوڈ: 3473
سائز سائز سائز
شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)

مؤلف:
اردو

حدیث نمبر ۱۱: تسبیح خاک شفا کی فضیلت

“مِنْ فَضْلِه، اٴَنَّ الرَّجُلَ یَنْسیٰ التَّسْبیحَ وَیُدِیرُ السُّبْحَةَ فَیُكْتَبُ لَهُ التَّسْبِیحُ” (۲۹)

”(تربت سید الشھداء) کی فضیلت یہ ہے کہ جب خاک شفا کی تسبیح ہاتھ میں لے کر گہمائی جائے تو اس کا ثواب تسبیح و ذکر کا ثواب ہوتا ہے اگرچہ کوئی ذکر و دعا بھی نہ پڑھی جائے“۔

شرح

یہ حدیث ان جوابات میں سے ہے جن کو امام زمانہ علیہ السلام نے محمد بن عبد اللہ حمیری کے سوالوں کے جواب میں ارشاد فرمائی ہے، موصوف نے امام زمانہ علیہ السلام سے سوال کیا تھا کہ کیا امام حسین علیہ السلام کی قبر کی مٹی سے تسبیح بنانا جائز ہے؟ اور کیا اس میں کوئی فضیلت ہے؟

امام زمانہ علیہ السلام نے سوال کے جواب کے آغاز میں فرمایا:

”تربت قبر حسین علیہ السلام (یعنی خاک شفا) کی تسبیح بنا سکتے ہو، جس سے خداوندعالم کی تسبیح کرو؛ کیونکہ تربت امام حسین علیہ السلام سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے، اس کے فضائل میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کوئی ذکر بھی نہ کہے اور فقط تسبیح کو گہماتا رہے تو بھی اس کے لئے تسبیح کا ثواب لکھا جاتا ہے“۔

ھاں پر تربت حسینی یا خاک شفا کے بارے میں دو نکتوں کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے:

۱۔ تربت قبر حسین علیہ السلام ان تربتوں میں شمار ہوتی ہے جن کو خداوندعالم نے مبارک قرار دیا ہے؛ کیونکہ یہ اس زمین کا حصہ ہے جس میں حضرت سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کا پاک و مبارک جسم دفن ہے۔ خاک شفا کی تسبیح کے مستحب ہونے کے اغراض و مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ جس وقت انسان خاک شفا کی تسبیح کو ہاتھ میں لیتا ہے، تو خداوندعالم کی بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی فداکاری اور قربانی کو یاد کرتا ہے ، اور یہ کہ انسان عقیدہ اور خدا کی راہ میں کس طرح فداکاری اور ظالموں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ انسان اس حال میں ان پاک و مقدس ارواح کو یاد کرتا ہے جو معشوق حقیقی کی راہ میں اپنی جان قربان کرچکی ہیں اور ملکوت اعلیٰ (بارگاہ رب العزت) کی طرف پرواز کرچکی ہیں۔ اس عالم میں انسان کے اندر خضوع و خشوع پیدا ہوتا ہے ، اور اس کی نظر میں دنیا اور اس کا ساز و سامان حقیر دکھائی دیتا ہے، نیز اس کے نفس میں مخصوص عرفانی اور معنوی حالت پیدا ہوتی ہے اور یہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی تربت کے ارتباط اور توسل کی بنا پر ہے؛ اسی وجہ سے ہم احادیث میں پڑھتے ہیں کہ تربت حسینی پر سجدہ کرنے سے ساتوں پردے ہٹ جاتے ہیں۔

۲۔ تربت حسینی کے منجملہ فوائد اور برکات میں سے ایک فائدہ اور برکت یہ ہے (جس کو اہل بیت علیہم السلام نے ہمیشہ لوگوں کے سامنے بیان کیا ہے) کہ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت لوگوں پر واضح ہوجائے؛ کیونکہ جب نمازی ہر روز نماز کے بعد تسبیح خاک شفا سے فیضیاب ہوتے وقت جب اس کی نظر خاک شفا پر پڑتی ہے تو امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب و اہل حرم کی فداکاریوں کو یاد کرتا ہے، جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ ایسے نمونوں کو یاد کرنا (نفسیاتی لحاظ سے) انسان کے نفس میں عجیب و غریب تربیتی اور معنوی اثر پیدا کرتا ہے، اور انسان کو (سچا) حسینی بنا دیتا ہے اور انسانی وجود میں انقلاب حسینی کی روح اور خون کو حرکت میں لاتا ہے۔

حدیث نمبر ۱۲: لوگوں کی حاجت روائی کرنا

“مَنْ كٰانَ في حٰاجَةِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ كٰانَ اللهُ فِي حٰاجَتِهِ” (۳۰)

”جو شخص خداوندعالم کی حاجت(۳۱) کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو خداوندعالم بھی اس کی حاجت روائی اور اس کی مرادوں کو پوری کردیتا ہے“۔

شرح

اس حدیث کو شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنے پدر بزگوار سے، انھوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انھوں نے ابوالقاسم بن ابو حلیس (حابس) سے انھوں نے حضرت امام مھدی علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔ امام علیہ السلام نے حلیسی کے خلوص اور عام طور پر اس اخلاقی نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے: جو شخص خداوندعالم کی حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو خداوندعالم بھی اس کی حاجت روائی کرتا ہے اور اس کی مرادوں کو پوری کردیتا ہے۔

اگرچہ خداوندعالم کی حاجت سے مراد اس حدیث کے دوسرے حصہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی خلوص نیت کے ساتھزیارت کرنا ہے، لیکن امام زمانہ علیہ السلام نے اس کو ایک عام قانون کی صورت میں بیان کیا ہے اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو اس کا ایک مصداق قرار دیا ہے، یعنی اگر انسان ان کاموں کو انجام دے جن کا انجام دینا مطلوب اور جن کے سلسلہ میں خدا کا حکم ہو، اس وجہ سے اس کو ”خداوندعالم کی حاجت اور طلب“ کھا جاسکتا ہے، لہٰذا خداوندعالم بھی انسان کے کاموں کی اصلاح کردیتا ہے۔

اس بات کی یاددھانی مناسب ہے کہ خداوندعالم کسی چیز کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ قاضی الحاجات یعنی حاجتوں کا پورا کرنے والا ہے اور تمام مخلوق سراپا اس کی محتاج ہے۔ جیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:

( یَااٴَیُّهَا النَّاسُ اٴَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَی اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِیدُ ) (۳۲)

”انسانو! تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اللہ صاحب دولت اور قابل حمد و ثنا ہے“۔

اس حدیث میں خداوندعالم کی حاجت کی طرف اشارہ ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم کی حاجت مخلوق کی حاجت میں ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کھا جائے کہ جس شخص نے لوگوں کی حاجت روائی کی گویا اس نے خدا کی حاجت پوری کی ہے۔

اس حدیث میں دوسرا احتمال یہ پایا جاتا ہے کہ ”خدا کی حاجت“ سے مراد خداوندعالم کے احکام مراد ہوں، چاہے وہ امر ہو یا نھی، جن کو خداوندعالم چاہتا ہے، اور اگر کوئی شخص خدا کے احکام کی اطاعت کرے تو خداوندعالم بھی اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔

حدیث نمبر ۱۳: استغفار، بخشش کا ذریعہ

“إِذٰا اسْتَغْفَرْتَ اللهَ، فَاللهُ یَغْفِرُ لَكَ” (۳۳)

”اگر تم خدا سے استغفار کروگے تو خداوندعالم بھی تم کو معاف کردےگا“۔

شرح

شیخ کلینی علیہ الرحمہ اس حدیث شریف کو امام زمانہ علیہ السلام کی احادیث کے ضمن میں بیان کرتے ہیں۔ حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ یمانی نام کا ایک شخص سامرہ میں آتا ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے اس کے لئے ایک تھیلی پھنچتی ہے جس میں دو دینار اور دو لباس تہے، لیکن وہ ان کو کمترین ھدیوں میں شمار کرتے ہوئے ردّ کردیتا ہے، لیکن کچھ دنوں بعد اپنے اس کام پر شرمندہ ہوتا ہے، اور ایک خط لکھ کر معذرت خواھی کرتا ہے، اور اپنے دل میں توبہ کرتے ہوئے یہ نیت کرتا ہے کہ اگر دوبارہ (امام علیہ السلام کی طرف سے) کوئی ھدیہ ملے گا تو اس کو قبول کرلوں گا۔ چنانچہ کچھ مدت بعد اس کو ایک ھدیہ ملتا ہے، اور امام علیہ السلام یمانی کے لئے اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”تم نے ہمارا ھدیہ ردّ کرکے غلطی کی ہے، اگر تم خدا سے مغفرت طلب کرو تو خداوندعالم تمھیں معاف کردے گا“۔

اس توقیع مبارک میں د و نکات کی طرف اشارہ ہوا ہے:

۱۔ امام زمانہ علیہ السلام اسرار اور مخفی باتوں کا علم رکھتے ہیں، یھاں تک کہ لوگوں کے دل کی نیت سے بھی آگاہ ہیں؛ لہٰذا حضرت امام صادق علیہ السلام آیہ شریفہ( قُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ) (۳۴) کے ذیل میں بیان ہونے والی حدیث میں فرماتے ہیں:

”مومنین سے مراد، ائمہ (معصومین علیہم السلام) ہیں“۔

۲۔ خداوندعالم سے طلب مغفرت کرنا گناھوں کی بخشش کا سبب ہے۔ اور چونکہ طلب ایک امرِ قلبی کا نام ہے اور لفظوں کی صورت میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف طلب مغفرت (شرمندگی اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ) گناھوں کی بخشش اور توبہ کے لئے کافی ہے۔ البتہ مکمل توبہ کے لئے کچھ خاص شرائط ہیں جن کی طرف حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں اشارہ فرمایا ہے۔(۳۵)

حدیث نمبر ۱۴: ایک دوسرے کے حق میں استغفار کرنا

“لَوْلاٰ اسْتِغْفٰارُ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ لَهَلَكَ مَنْ عَلَیْهٰا” (۳۶)

”اگر تم میں ایک دوسرے کے لئے طلب مغفرت نہ ہوتی تو زمین پر بسنے والے تمام لوگ ہلاک ہوجاتے “۔

شرح

امام مھدی علیہ السلام ابن مہزیار سے ایک طولانی خطاب میں اپنے شیعوں کو ایک دوسرے کے حق میں استغفار کرنے کی رغبت دلاتے ہیں؛ کیونکہ اس کام کے فوائد اور برکتیں زمین اور اس پر بسنے والوں سے عذاب کا دور رھنا ہے۔

قرآنی آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں عذاب الٰہی سے محفوظ رھنے کے لئے دو سبب پائے جاتے ہیں:

۱۔ پیغمبر اکرم (ص) کا وجود مبارک: جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:

( مٰا كٰانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاٴَنْتَ فِیْهِمْ ) (۳۷)

”حالانکہ جب تک تم ان کے درمیان موجود ہو تو خدا ان پر عذاب نہیں کرےگا“۔

۲۔ استغفار: جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:

( مٰا كٰانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمَْ وهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ) (۳۸)

”اور اللہ ان لوگوں پر جب وہ توبہ و استغفار کرتے رھیں ہرگز عذاب نہیں کرے گا“۔

اس حدیث سے بھی دو نکات معلوم ہوتے ہیں:

الف) گناہ، اسی دنیا میں ھلاکت اور عذاب کا سبب ہوتا ہے۔

ب) استغفار، بخشش کا سبب ہے، خصوصاً اگر ایک دوسرے کے حق میں استغفار کیا جائے۔

حدیث نمبر ۱۵: انسان کا امام غائب سے فیض حاصل کرنا

“اٴَمّٰا وَجْهُ الْاِنْتِفٰاعِ بِي فِي غَیْبَتِي فَكَالْاِنْتِفٰاعِ بِالشَّمْسِ إِذٰا غَیَّبَتْهٰا عَنِ الْاٴَبْصٰارِ السَّحٰابُ” (۳۹)

”لیکن میری غیبت میں مجھ سے فیض حاصل کرنا اسی طرح ہے جس طرح بادلوں کے پیچہے چھپے سورج سے فیض حاصل کیا جاتا ہے“۔

شرح

امام زمانہ علیہ السلام کا یہ کلام اس حدیث کا آخری حصہ ہے جس کو آپ نے اسحاق بن یعقوب کے جواب میں تحریر فرمایا ہے، شیخ صدوق اور شیخ طوسی علیہما الرحمہ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ اس حدیث مبارک میں امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبریٰ کو بادلوں کے پیچہے چھپے سورج سے تشبیہ دی ہے۔

اس تشبیہ میں بہترین نکات پائیں جاتے ہیں، جن میں بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

۱۔ امام مھدی علیہ السلام نے اپنے کو سورج کے مشابہ قرار دیا ہے، جس طرح سورج موجودات کے لئے آب حیات اور نور و حرارت وغیرہ کا باعث ہوتا ہے اور اس کے نہ ہونے کی صورت میں تمام موجودات کی زندگی سامان سفر باندھ لیتی ہے، اسی طرح معاشرہ کی معنوی زندگی اور اس کی بقاء بھی امام زمانہ علیہ السلام کے وجود سے وابستہ ہے۔ بعض اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام خلقت ِمخلوق کا اصلی ترین مقصد ہیں۔

۲۔ جس طرح سورج منجملہ مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ موجودات کے لئے نور و حرارت سے فیضیاب ہونے میں واسطہ ہے۔ اسی طرح امام علیہ السلام کا وجود بھی مخلوقکے فیض حاصل کرنے میں ایک عظیم واسطہ ہے، اور خداوندعالم کا فیض جیسے نعمت اور ہدایت وغیرہ اسی واسطہ کے ذریعہ مخلوقات تک پھنچتا ہے۔

۳۔ جس طرح لوگ بادلوں کے پیچہے سے سورج کے نکلنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اس سے مکمل اور کامل طور پر فائدہ اٹھاسکیں، امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں بھی مومنین آپ کے ظھور کا انتظار کرتے ہیں اور ان کے ظھور سے نا امید نہیں ہوتے۔

۴۔ امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کا منکر بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی بادلوں کے پیچہے چھپےسورج کا منکر ہوجائے۔

۵۔ جس طرح بادل سورج کو مکمل طریقہ سے نہیں چھپاتے اور سورج کا نور زمین اور زمین والوں تک پھنچتا رہتا ہے، اسی طرح غیبت بھی امام علیہ السلام کے فیض پھنچانے میں مکمل مانع نہیں ہے، لہٰذا (بہت سے مومنین) آپ کے وجود مبارک سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں، توسل: امام علیہ السلام سے فیضیاب ہونے کے منجملہ راستوں میں سے ایک راستہ ہے۔

۶۔ جس طرح بعض علاقوں میں معمولاً بادل چھائے رہتے ہیں، لیکن کبھی کبھی سورج بادلوں کو چیرتے ہوئے ان کے درمیان سے نمایاں ہوجاتا ہے اور بہت سے لوگ سورج کو دیکھ لیتے ہیں اگرچہ تھوڑی ھی دیر کے لئے ھی کیوں نہ ہو، اسی طرح بعض مومنین امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت مبارک میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ کے وجود سے (براہ راست) فیضیاب ہوتے ہیں، چنانچہ اس طرح عام لوگوں کے لئے امام علیہ السلام کا وجود ثابت ہوجاتا ہے۔

۷۔ جس طرح سورج سے دیندار اور بے دین لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کی برکتیں پوری دنیا کے شامل حال ہوتی ہیں، اگرچہ لوگ آپ کو نہ پہچانیں اور آپ کی قدر نہ جانیں۔

۸۔ جس طرح سورج کی کرنیں دروازوں اور کھڑکیوں کے اندازہ کے مطابق کمرے میں آتی ہیں اور لوگ اسی مقدار میں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کی برکتوں سے فیضیاب ہونا بھی انسان کی قابلیت اور صلاحیت کی بنا پر ہوتا ہے۔ انسان جس قدر اپنے سے موانع اور پردوں کو دور کرتا ہے اور اپنے دل (کی آغوش) کو مزیدپھیلاتا ہے اتنا ھی آپ کے وجود کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔

۹۔ جس طرح بادل سورج کو ختم نہیں کرتے اور صرف سورج کے دیکھنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت بھی صرف آپ کے دیدار میں مانع ہے۔

حدیث نمبر ۱۶: امام علیہ السلام کے ظھور میں تاخیر کی وجہ

“وَلَوْ اٴَنَّ اٴشْیٰاعَنٰا (وَ فَّقَهُمُ اللهُ لِطٰاعَتِهِ) عَلَی اجْتِمٰاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِي الْوَفٰاءِ بِالْعَهْدِ عَلَیْهِمْ لَمٰا تَاٴَخَّرَ عَنْهُمُ الْیُمْنَ بِلِقٰائِنٰا، وَ لَتَعَجَّلَتْ لَهُمُ السَّعٰادَةُ بِمُشٰاهَدَتِنٰا عَلیٰ حَقِّ الْمَعْرِفَةِ وَ صِدْقِهٰا مِنْهُمْ بِنٰا، فَمٰا یَحْبِسُنٰا عَنْهُمْ إِلاّٰ مٰا یَتَّصِلُ بِنٰا مِمّٰا نَكْرَهُهُ وَلاٰ نُوٴْثِرُهُ مِنْهُمْ” (۴۰)

”اگر ہمارے شیعہ (خدا ان کو اطاعت کی توفیق دے) اپنے عھد و پیمان کو پورا کرنے کی کوشش میں ہمدل ہوںتو پہر ہماری ملاقات کی برکت میں تاخیر نہیں ہوتی، اور ہمارے دیدار کی سعادت جلد ھی نصیب ہوجاتی، ایسا دیدار جو حقیقی معرفت اور ہماری نسبت صداقت پر مبنی ہو، ہمارے مخفی رھنے کی وجہ ہم تک پھنچنے والے اعمال کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے جبکہ ہمیں ان سے ایسے اعمال کی امید نہیں ہے“۔

شرح

یہ اس خط کے جملے ہیں جس کو امام زمانہ علیہ السلام نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے لئے بھیجا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس خط میں شیخ مفید علیہ الرحمہ کو چند سفارشیں کرنے اور اپنے شیعوں کے لئے کچھ احکام بیان کرنے کے بعد اس اہم چیز کی طرف اشارہ کیا جو غیبت کا سبب ہوئی ہے۔ امام علیہ السلام شیعوں کے درمیان خلوص اور ہمدلی نہ ہونے کو اپنی غیبت کا سبب شمار کرتے ہیں۔

تاریخ کے پیش نظر یہ بات واضح ہے کہ جب تک لوگ نہ چاھیں اور سعی و کوشش نہ کریں تو حق اپنی جگہ قائم نہیں ہوپاتا، اور حکومت اس کے اہل کے ہاتھ وں میں نہیں آتی۔ حضرت علی ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کی تاریخ اس بات پر بہترین دلیل ہے۔ اگر لوگ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت پر اصرار کرتے تو پہر آج تاریخ کا ایک دوسرا رخ ہوتا، لیکن اس وقت کے لوگوں میں دنیا طلبی اور خوف و وحشت وغیرہ اس بات کا سبب بنی کہ ہمیشہ تک دنیا والوں مخصوصاً شیعوں کو ظلم و ستم کے علاوہ کچھ دیکھنے کو نہ ملا۔ افسوس کہ ہماری کوتاھی اور ہمارے بُرے کام اس بات کا سبب ہوئے کہ وہ محرومیت اب تک چلی آرھی ہے۔

اس حدیث کے مطابق امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کی تعجیل کے سلسلہ میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اور اپنے رشتہ داروں پر امام علیہ السلام کو مقدم کریں، اور اسلامی احکام کو جاری کریں اور اسلام کی تبلیغ کے ذریعہ دنیا والوں کے سامنے امام زمانہ علیہ السلام کا تعارف کرائیں، اور دلوں کو امام کی طرف متوجہ کریں، تاکہ خدا کی مشیت سے بہت جلد ھی لوگوں میں امام زمانہ علیہ السلام کو قبول کرنے کا زمینہ ہموار ہوجائے۔

اس حدیث مبارک سے چند چیزیں معلوم ہوتی ہیں:

۱۔ خداوندعالم نے شیعوں سے عھد و پیمان لیا ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی پیروی کریں اور یھی پیروی امام زمانہ علیہ السلام کی ملاقات کے شرف کا سبب ہے۔

۲۔ شیعوں کے بُرے اعمال اپنے امام سے دوری کا سبب بنے ہیں؛ لہٰذا ہمارے نیک اعمال امام زمانہ علیہ السلام سے رابطہ میں موثر واقع ہوسکتے ہیں۔

حدیث نمبر ۱۷: غیبت، منجملہ تقدیرات الٰہی میں سے ہے

“اٴَقْدٰارُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لاٰ تُغٰالَبُ وَإِرٰادَتُهُ لاٰ تُرَدُّ وَ تَوْفیقُهُ لاٰ یُسْبَقُ” (۴۱)

”جو چیزیں خداوندعالم نے مقدّر فرمادی ہیں وہ کبھی مغلوب نہیں ہوتیں، اور اس کا ارادہ کبھی ردّ نہیں ہوتا، اور اس کی توفیق پر کوئی چیز سبقت حاصل نہیں کرسکتی“۔

شرح

یہ حدیث امام زمانہ علیہ السلام کے اس کلام کا حصہ ہیں جس کو آپ نے اپنے دو نائبوں عثمان بن سعید اور ان کے فرزند محمد ابن عثمان کے لئے بھیجے گئے خط میں تحریر کیا تھا۔ امام علیہ السلام اس توقیع میں اپنی غیبت کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ موضوع تقدیر الٰہی ہے اور خدا کا حتمی و یقینی ارادہ اس سے متعلق ہے۔

امام مھدی علیہ السلام نے اس توقیع میں چند نکات کی طرف اشارہ فرمایا ہے:

۱۔ کوئی بھی شخص تقدیر الٰہی کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ وہ ”مقدِّر کلّ قَدَر“ ہے اور اس کی قدرت تمام قدرتوں سے بلند و بالا ہے۔

۲۔ اگر خداوندعالم کسی چیز کے بارے میں حتمی ارادہ کرلے تو پہر اس کے ارادہ پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اس کے نافذ کرنے میں مانع نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ اس کے ارادہ سے اوپر کسی کا ارادہ نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں:

”پروردگارا! حمد و ثنا تجھ سے مخصوص ہے کیونکہ تو ایسا صاحب قدرت ہے جو کبھی مغلوب نہیں ہوتا“۔(۴۲)

حدیث نمبر ۱۸: زمانہ غیبت میں فقھا کی طرف رجوع کرنا

“اٴَمَّا الْحَوٰادِثُ الْوٰاقِعَةُ فَارْجِعوُا فیهٰا إِلٰی رُوٰاةِ حَدیثِنٰا، فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَیْكُمْ وَ اٴَنَا حُجَّةُاللهِ عَلَیْهِمْ” (۴۳)

”لیکن ہر زمانہ میں پیش آنے والے حوادث (اور واقعات) میں ہماری احادیث بیان کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ تم پر ہماری حجت ہیں اور میں ان پر خدا کی حجت ہوں“۔

شرح

یہ حدیث ان مطالب کا ایک حصہ ہے جس کو امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے سوالات کے جواب میں ارشاد فرمایا ہے۔ اس حدیث شریف میں امام علیہ السلام زمانہ غیبت میں اپنے شیعوں کو رونما ہونے والے حوادث کے موقع پر ان کی ذمہ داری کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔

امام مھدی علیہ السلام اپنے شیعوں کو شرعی یا معاشرتی مسائل کو سمجھنے کے لئے روایان حدیث (کہ جو فقھائے شیعہ ہیں) کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتے ہیں؛ کیونکہ یھی حضرات حدیث کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اور خاص و عام، محکم و متشابہ اور صحیح و باطل کو پہچانتے ہیں۔

امام زمانہ علیہ السلام کی نظر میں ”راویان حدیث“ وہ لوگ نہیں ہیں جو فقط روایت کو نقل کرتے ہیں بغیر اس کے اس کو صحیح طور پر سمجہے ہوئے ہوں؛ کیونکہ ایسے افراد شرعی و غیر شرعی مشکلات کو حل نہیں کرسکتے۔

عصر غیبت میں فقھا کی طرف رجوع کرنا کوئی مستحب کام نہیں ہے بلکہ ایک واجب شرعی ہے؛ کیونکہ فقھائے کرام امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے اس کام کے لئے مقرر ہوئے ہیں اور امام علیہ السلام کے فرمان کی مخالفت نہیں کی جاسکتی۔

حدیث نمبر ۱۹: زکوٰة، نفس کو پاک کرنے والی ہے

“اٴمّٰا اٴَمْوٰالُكُمْ فَلاٰ نَقْبَلُهٰا إِلّا لِتَطَهَّرُوْا، فَمَنْ شٰاءَ فَلْیَصِلْ وَ مَنْ شٰاءَ فَلْیَقْطَعْ، فَمٰا آتٰانِي اللهُ خَیْرٌ مِمّٰا آتٰاكُمْ” (۴۴)

”لیکن تمھارے مال کو ہم صرف اس وجہ سے قبول کرلیتے ہیں تاکہ تم پاک ہوجاؤ۔ لہٰذا جو چاہے ادا کرے جو چاہے ادا نہ کرے۔ خداوندعالم نے جو چیزیں ہم کو عطا کی ہیں ان چیزوں سے بہتر ہے جو تمھیں عطا کی ہیں“۔

شرح

یہ حدیث ان مطالب کا ایک حصہ ہے جن کو امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے سوالات کے جواب میں اپنی توقیع میں تحریر فرمایا ہے۔ اسحاق بن یعقوب کہتے ہیں: میں نے کچھ سوالات جمع کئے اور آپ کے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان عمری کی خدمت میں پیش کئے، اور ان سے گزارش کی کہمیرے ان سوالات کو امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں پھنچا دیجئے اور ان کے جوابات کی بھی درخواست کیجئے۔ امام زمانہ علیہ السلام نے ایک توقیع میں اپنے قلم سے چند چیزوں کی یاد دھانی کے بعد اس طرح فرمایا:

”لیکن تمھارے مال کو ہم صرف اور صرف اس وجہ سے قبول کرلیتے ہیں تاکہ تم پاک ہوجاؤ۔ لہٰذا جو چاہے اپنا مال بھیجے جو چاہے نہ بھیجے ۔ خداوندعالم نے جو چیزیں ہم کو عطا کی ہیں ان چیزوں سے بہتر ہے جو تمھیں عطا کی ہیں“۔

امام زمانہ علیہ السلام اپنے اس کلام مبارک میں اس نکتہ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ مالی واجب حقوق کو ادا کرنے کا فائدہ خود انسان تک پھنچتا ہے، اور امام علیہ السلام اس مال کو اس وجہ سے قبول کرتے ہیں تاکہ خود ادا کرنے والا پاک و پاکیزہ ہوجائے، نہ یہ کہ امام خود اس چیز کا محتاج ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے زکوٰة سے متعلق، آیت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے:

( خُذْ مِنْ اٴَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّیهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ ) (۴۵)

”(اے پیغمبر!) آپ ان کے اموال میں سے زکوٰة لے لیجئے تاکہ اس کے ذریعہ یہ پاک ہوجائیں اور انھیں دعائیں دیجئے کہ آپ کی دعا ان کے لئے تسکین قلب کا باعث ہوگی“۔

حدیث نمبر ۲۰: مالی واجبی حقوق کو ادا کرنے کا فائدہ تقویٰ ہے

“ اٴَنَّهُ مَنِ اتَّقیٰ رَبَّهُ مِنْ اخْوٰانِكَ فِي الدِّینِ وَ اٴَخْرَجَ مِمّٰا عَلَیْهِ إِلیٰ مُسْتَحِقّیهِ، كٰانَ آمِناً مِنَ الْفِتْنَةِ الْمُبْطِلَةِ، وَ مِحَنِهَا الْمُظْلِمَةِ الْمُظِلَّةِ وَ مَنْ بَخِلَ مِنْهُمْ بِمٰا اٴَعٰارَهُ اللهُ مِنْ نِعْمَةِ عَلیٰ مَنْ اٴَمَرَهُ بِصِلَتِهِ، فَإِنَّهُ یَكُونُ خٰاسِراً بِذٰلِكَ لِاٴُوْلاٰهُُ وَآخِرَتِهِ” (۴۶)

”بے شک کہ جو شخص اپنے دینی بھائی کے حقوق کے سلسلہ میں حکم الٰہی کا احترام کرے اور اپنے ذمہ مالی حقوق کو اس کے مستحق تک پھنچائے تو ایسا شخص باطل راہ کی طرف لے جانے والے فتنوں سے اور خطرناک بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے، اور جو شخص بخل سے کام لے اور خداوندعالم

نے جن نعمتوں کو اس کے پاس امانت رکھا ہے ان میں سے مستحق کو نہ دے، تو ایسا شخص دنیا و آخرت میں گھاٹا اٹھانے والا ہوگا“۔

شرح

یہ کلام حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے اس دوسرے خط کا ایک حصہ ہے جس کو آپ نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے نام لکھا ہے۔ امام علیہ السلام نے خط کے اس حصہ میں واجبی مالی حقوق کو ان کے مستحق تک پھنچانے اور اس کام کی خیر و برکت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ امام علیہ السلام ان لوگوں کے لئے جو اہل تقویٰ ہیں اور ان کے ذمہ مالی حقوق ہیں (جیسے خمس اور زکوٰة وغیرہ) اگر وہ ان کو مستحق تک پھنچائیں تو امام علیہ السلام اس بات کی ضمانت لیتے ہیں کہ وہ اس خدا پسند عمل کے نتیجے میں فتنوں اور بلاؤں سے محفوظ رھیں گے، اور جو لوگ مالی حقوق کی ادائیگی میں کوتاھی سے کام لیں اور حقوق شرعیہ ادا کرنے میں کنجوسی کریں تو ان کے نصیب میں دنیا و آخرت کے گھاٹے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ حقوق شرعی ادا کرتے وقت شیطان انسان کو بھکاتا ہے اور اس کو فقر و تنگدستی سے ڈراتا ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام اپنے اس بیان سے ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ واقعیت اور حقیقت یہ ہے کہ خمس و زکوٰة وغیرہ کی ادائیگی نہ کرنا فقر و تنگدستی کا باعث ہے نہ کہ راہ خدا میں خیرات کرنا۔

مالی واجب حقوق کو ادا کرنا بلکہ مستحب حقوق کو ادا کرنے سے نہ صرف یہ کہ انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے بلکہ اس کی معنوی روزی میں بھی اضافہ ہوتا ہے، اس طرح اس کو اندھیری راھوں میں چراغ ہدایت مل جاتا ہے تاکہ راستہ کو گڑہے سے تمیز دے سکے۔

____________________

۲۹. احتجاج، ج۲، ص ۳۱۲، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۶۵، ح۴۔

۳۰. کمال الدین، ج ۲، ص ۴۹۳، ح ۱۸، الخرائج والجرائح، ج ۱، ص ۴۴۳، ح۲۴، بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۳۱، ح ۵۶۔

۳۱. خدا کی حاجت سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت چند سطروں کے بعد ملاحظہ فرمائیے۔

۳۲. سور ہ فاطر، آیت۱۵۔

۳۳. کافی، ج ۱، ص ۵۲۱، ح ۱۳، کمال الدین، ج ۲، ص ۴۹۰، ح ۱۳، ارشاد، ج ۲، ص ۳۶۱، اعلام الوری، ج۲، ص۲۶۴، کشف الغمة، ج ۳، ص۲۵۱، بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۲۹، ح ۵۲، مدینة المعاجز، ج ۸، ص ۸۵۔

۳۴. سور ہ توبہ، آیت۱۰۵۔ ترجمہ آیت: ” پیغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رھو کہ تمھارے عمل کو اللہ ،رسول اور صاحبان ایمان سب دیکھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ “۔

۳۵. تفسیر برہا ن، ج۲، ص۸۳۸، ح ۲۔(۳) دیکھئے: نهج البلاغہ، حکمت ۴۱۷، بحار الانوار، ج۶، ص ۳۶ تا ۳۷، ح ۵۹۔

۳۶. دلائل الامامة، ص۲۹۷۔

۳۷. سورہ انفال، آیت ۳۳۔

۳۸. سورہ انفال، آیت ۳۳۔

۳۹. کمال الدین، ج۲، ص۴۸۵، ح۱۰،الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۹۲، ح۲۴۷، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۴،اعلام الوری، ج۲، ص۲۷۲، کشف الغمة، ج۳، ص۳۴۰، الخرائج و الجرائح، ج۳، ص۱۱۱۵، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۸۱، ح۱۰۔

۴۰. احتجاج، ج۲، ص۳۱۵، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۷، ح۸۔

۴۱. کمال الدین، ج۲، ص۵۱۱، ح۴۲، الخرائج و الجرائح، ج۳، ۱۱۱۱، بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۹۱، ح۱۹۔

۴۲. صحیفہ سجادیة، دعا ۴۹، شمارہ۱۴، مہج الدعوات، ص۲۲۲، بحار الانوار، ج۹۲، ص۴۲۸، ح۴۳۔

۴۳. کمال الدین، ج۲، ص۴۸۴، ح۱۰، الغیبة، شیخ طوسی، ص۲۹۱، ح۲۴۷، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۴،اعلام الوری، ج۲، ص۲۷۱، کشف الغمة، ج۳، ص۳۳۸، الخرائج و الجرائح، ج۳،ص۱۱۱۴، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۸۱، ح۱۰، وسائل الشیعہ، ج۲۷، ص۱۴۰، ح۳۳۴۲۴۔

۴۴. کمال الدین، ج۲، ص۴۸۴، ح۴، الغیبة، طوسی، ص۲۹۰، ح۲۴۷، احتجاج، ج۲ ، ص۲۸۳،اعلام الوری، ج۲، ص۲۷۱، کشف الغمة، ج۳، ص۳۳۹، الخرائج و الجرائح، ج۳،ص۱۱۱۴، بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۸۰، ح۱۰۔

۴۵. سورہ توبہ،آیت۱۰۳۔

۴۶. احتجاج، ج۲، ص۳۲۵، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۷۷، ح۸۔