حدیث نمبر ۳۱: تکلف اور زحمت میں ڈالنے سے ممانعت
“لاٰ تَتَكَلَّفُوا عِلْمَ مٰا قَدْ كُفیتُمْ”
”جس چیز کا علم تم سے طلب نہیں کیا گیا ہے اس سلسلہ میں خود کو زحمت و مشقت میں نہ ڈالو“۔
شرح
اس حدیث کو حضرت امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے سوال کے جواب میں تحریر کیا ہے۔
اس حدیث شریف سے چند نکات معلوم ہوتے ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
۱۔ تمام لوگ عقل اور فہم و شعور کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں، بعض لوگ فلسفی، عقلی اور استدلالی مطالب کو سمجھ سکتے ہیں لیکن بعض میں اتنی قابلیتنھیں ہوتی؛ لہٰذا ہر انسان اپنی استعداد اور فہم و شعور کے لحاظ سے سمجھنے کی کوشش کرے، اور اس سے زیادہ اپنے کو زحمت میں نہ ڈالے؛ کیونکہ نمونہ کے طور پر جو شخص عرفانی مطالب کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اگر ان بحثوں میں واردھو گا تو یقینا بہت سی مشکلات سے دوچار ہوگا اور بہت ممکن ہے کہ وہ گمراہ بھی ہوجائے۔
۲۔ شارع مقدس اسلام نے بعض مطالب کو نہیں واضح کرنا چاھا ہے، امام علیہ السلام اس روایت میں فرماتے ہیں:
”اسی مقدار پر قناعت کروجتنا تمھارے لئے واضح ہے اور جو چیزیں تم سے مخفی رکھی گئیں ہیںان کو سمجھنے کے لئے خود کو زحمت میں نہ ڈالو“۔
مثال کے طور پر بہت سے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ امام زمانہ علیہ السلام کھاں رہتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ، ان چیزوں کا علم ہم سے مخفی ہے۔ جو بات ہم پر واضح ہے وہ یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام زندہ ہیں۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم آپ کے ظھور کے لئے حالات فراہم کریں۔ ہمیں اس طرح کی چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے خود کو زحمت میں نہیں ڈالنا چاہئے، کیونکہ ان چیزوں کا ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے؛ لہٰذا اس کا علم بھی ہمیں نہیں ہے۔
۳۔ اسی طرح مثال کے طور پر اگر کسی کا کپڑا پاک ہے اور یہ شک کرے کہ نجس ہوا ہے یا نھیں؟ تو اس لباس کو پاک سمجہے؛ لیکن بعض لوگ اس پر اکتفا نہیں کرتے اور خود کو زحمت میں ڈالتے ہیں اور احتمالی نجاست کو ڈھونڈنے کے لئے تمام کپڑوں کو دیکھتے ہیں تاکہ علم حاصل ہوجائے! لیکن ہم سے ایسا علم طلب نہیں کیا گیا ہے۔
حدیث نمبر ۳۲: توحید کا اقرار اور غلو کی نفی
“إِنَّ اللهَ تَعٰالٰی هُوَ الَّذی خَلَقَ الْاٴَجْسٰامَ وَقَسَّمَ الْاٴَرْزٰاقَ، لِاٴَنَّهُ لَیْسَ بِجِسْمٍ وَلٰا حٰالٌّ فی جِسْمٍ، لَیْسَ كَمِثْلِهِ شیءٌ وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلیمُ، وَاٴَمَّا الْاٴَئِمَّةُ عَلَیْهِمُ السَّلاٰمْ فَإِنَّهُمْ یَسْاٴَلُوْنَ اللهَ تَعٰالٰی فَیَخْلُقُ، وَیَسْاٴَلوُنَهُ فَیَرْزِقُ، إِیجٰابًا لِمَسْاٴَلَتِهِمْ وَإِعْظٰاماً لِحَقِّهِمْ”
”صرف خداوندعالم نے ھی جسموں کو خلق کیا اور اس نے ان کو روزی تقسیم کی ہے؛ کیونکہ وہ جسم یا جسم میں سمانے والا نہیں ہے، کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے، وہ سننے والا اور عالم ہے، لیکن جب ائمہ معصومین علیہم السلام خداوندعالم سے کسی چیز کی درخواست کرتے ہیں تو خداوندعالم اس کو خلق کرتا ہے۔ وہ جب خدا سے طلب کرتے ہیں تو وہ ان کو عطا کردیتا ہے۔ خدا یہ کام اس لئے کرتا ہے کہ اس نے اپنے لئے ضروری قرار دیا ہے کہ ان حضرات کی دعاؤں کو قبول کرے، اور ان کی شان کو بلند فرمائے“۔
شرح
شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب الغیبة میں نقل کرتے ہیں کہ شیعوں کی ایک جماعت نے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت کے سلسلہ میں اختلاف کیا۔ جن میں سے بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ خداوندعالم نے قدرت خلق اور رزق و روزی کو ائمہ معصومین (علیہم السلام) کے حوالہ کردیا ہے۔ ان کے مقابل دوسرے گروہ کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ چیز ائمہ معصومین (علیہم السلام) کے لئے محال ہے، اور خداوندعالم کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ خلقت اور رزق کے مسئلہ کو ائمہ علیہم السلام کے حوالہ کردے؛ کیونکہ صرف خداوندعالم کی ذات ھی جسموں کو خلق کرنے پر قادر ہے۔
اس مسئلہ میں شیعوں کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس مجمع میں موجود ایک شخص نے کھا : ”تم لوگ ابو جعفر محمد بن عثمان عمری (امام علیہ السلام کے دوسرے نائب خاص) کے پاس کیوں نہیں جاتے، اور اس سلسلہ میں ان سے سوال کیوں نہیں کرلیتے تاکہ تم پر حقیقت واضح ہوجائے۔ وھی ہمارے اور امام زمانہ علیہ السلام کے درمیان واسطہ ہیں“۔
شیعوں کے دونوں گروہ اس بات پر آمادہ ہوگئے، اور ایک خط لکھا جس میں اس اختلاف کے بارے میں سوال کیا۔ امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں تحریر فرمایا:
”خالق کو جسم نہیں ہونا چاہئے اور رازق کو روزی نہیں کھانی چاہئے؛ نتیجہ یہ ہے کہ ہم چونکہ صاحب جسم ہیں، اور روزی کھاتے ہیں، لہٰذا ہم نہ خالق ہیں اور نہ رازق؛ لیکن خداوندعالم نے ہمارے رتبہ کو بلند قرار دیا ہے، وہ ہماری درخواستوں کو قبول کرتا ہے؛ لہٰذا جب ہم کوئی دعا کرتے ہیں تو وہ اس کو قبول کرتا ہے، نہ یہ کہ ہم خداسے درخواست کے بغیر خود اس کام کی قدرت رکھتے ہوں“۔
حدیث نمبر ۳۳: امام زمانہ علیہ السلام کی محبت
“فَلْیَعْمَلْ كُلُّ امْرِءٍ مِنْكُمْ بِمٰا یَقْرُبُ بِهِ مِنْ مَحَبَّتِنٰا، وَیَتَجَنَّبُ مٰا یُدْنِیهِ مِنْ كَرٰاهَتِنٰا وَسَخَطِنٰا”
”لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو ایسے کام کرنا چاہئے جو ہماری محبت اور دوستی میں اضافہ کا سبب بنیں، اور جو چیزیں ہمیں ناپسند ہیں، اور جو چیزیں ہماری ناراضگی و کراہت کا سبب بنتی ہیں ان سے پرھیز کرے“۔
شرح
یہ تحریر امام زمانہ علیہ السلام کے خط کا ایک حصہ ہے جس کو آپ نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے لئے لکھی ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام نے موصوف کی تائید اور شیعوں کے لئے بعض سفارش تحریر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
”تم شیعوں میں سے ہر شخص کو ایسا کام کرنا چاہئے جس سے ہم اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت اور دوستی میں اضافہ ہواور جو چیزیں ہمیں نا پسند ہیں، اور ہماری ناراضگی و کراہت کا سبب بنتی ہیں ان سے پرھیز کریں“۔
یہ بات واضح ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور کراہت انفرادی اور ذاتی پھلو نہیں رکھتی، بلکہ اس کا معیار رضائے الٰہی ہے؛ کیونکہ جب اہل بیت علیہم السلام یہ مشاھدہ کرتے ہیں کہ ان کے شیعہ اور ان سے نسبت رکھنے والے ایسے کام کرتے ہیں جن سے خداوندعالم راضی اور خوشنود ہوتا ہے، اور جن کاموں سے خدا غضبناک ہوتا ہے ان سے پرھیز کرتے ہیں تو یہ حضرات خوش ہوتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ امام علیہ السلام کے اسی خط میں ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی شان میں کتنے بہترین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں:
خدا کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے۔ (خدا کی حمد و ثنا کے بعد) سلام ہو تم پر اے ہمارے دوست اور مخلص دیندار! تم ہمارے مقام (اور عظمت) پر یقین رکھتے ہو، بے شک ہم تمھارے وجود کی بنا پر اس خدا کا شکر بجا لاتے ہیں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ اور اس کی بارگاہ سے اپنے مولا و آقا حضرت محمد مصطفی (ص) اور ان کی آل طاہر ین (علیہم السلام) پر درود کی درخواست کرتے ہیں۔ (خداوندعالم اپنی نصرت و مدد کی توفیق جاری رکہے، اور ہماری نسبت سچ باتوں کی وجہ سے خداوندعالم آپ کو عظیم اجر و ثواب عنایت فرمائے) کہ ہمیں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ آپ کو خط لکھنے کے شرف سے نوازیں“۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ اگر ہم اپنے مولا و آقا حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی محبت کو حاصل کرنا اور آپ کے غضب اور ناراضگی سے دور رھنا چاھیں تو ایسا کوئی کام نہ کریں جس کی بنا پر آپ سے دور ہوجائیں اور آپ کی عنایت اور توجہ سے محروم ہوجائیں؛ دوسری طرف سے ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم ایسے اعمال انجام دیں اور ایسا کردار اپنائیں جن کے ذریعہ آپ سے زیادہ نزدیک ہوجائیں۔
حدیث نمبر ۳۴: ھدفِ بعثت
“إِنَّ اللهَ تَعٰالٰی لَمْ یَخْلُقِ الْخَلْقَ عَبَثاً، وَلاٰ اٴَهْمَلَهُمْ سُدیً، بَلْ خَلَقَهُمْ بِقُدْرَتِهِ، وَ جَعَلَ لَهُمْ اٴَسْمٰاعاً وَ اٴَبْصٰاراً وَ قُلُوباً وَ اٴَلْبٰاباً، ثُمَّ بَعَثَ إِلَیْهِمْ النَّبِیِّیْنَ (علیهم السلام) مُبَشَّرینَ وَ مُنْذِرینَ، یَاٴُ مُرُونَهُمْ بِطٰاعَتِهِ وَ یَنْهَوْنَهُمْ عَنْ مَعْصِیَتِهِ، وَ یُعَرِّفُونَهُمْ مٰا جَهَلُوهُ مِنْ اٴَمْرِ خٰالِقِهِمْ وَ دِینِهِمْ، وَ اٴَنْزَلَ عَلَیْهِمْ كِتٰاباً “
”بے شک خداوندعالم نے لوگوں کو بیھودہ خلق نہیں فرمایا ہے، اور بے کار نہیں چھوڑ دیا ہے؛ بلکہ ان کو اپنی قدرت سے خلق فرمایا ہے اور ان کو آنکھ، کان، دل اور عقل دی ہے؛ اس کے بعد ان کی طرف بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء کو بھیجا تاکہ لوگ خدا کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے پرھیز کریں، اور اپنے خدا و دین کی نسبت جن چیزوں سے جاہل ہیں ان کو سیکھیں، اور ان کے لئے کتاب نازل کی ہے۔ ۔ ۔ “۔
شرح
یہ مطالب امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا ایک حصہ ہیں جس کو احمد بن اسحاق کے جواب میں تحریر فرمایا ہے۔
احمد بن اسحاق کہتے ہیں:
”بعض شیعہ حضرات میرے پاس آئے اور جعفر بن علی کے ادعا کی خبر دی کہ وہ خود کو امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد امام قرار دیتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتا تھا، وہ دعویٰ کرتا تھا کہ تمام علوم منجملہ حلال و حرام کا علم میرے پاس ہے“۔
احمد بن اسحاق نے ایک خط میں ان تمام چیزوں کو لکھا اور امام زمانہ علیہ السلام کے لئے روانہ کیا۔ امام علیہ السلام نے جواب میں چند چیزوں کی یاددھانی کی جیسے خلقت انسان کا مقصد اور انبیاء علیہم السلام کی رسالت کا ھدف، تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ہر کس و ناکس امت کی رھبری اور امامت کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں رکھتا ؛ اسی طرح لوگوں کو یہ نکتہ بھی معلوم ہوجائے کہ (ہم) خدا کی طرف سے ہمیشہ امتحان گاہ میں ہیں، اور ان کی تمام رفتار و گفتار اور ان کے عقائد کے بارے میں سوال ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہو تاکہ دوسرے حیوانات کی طرح زندگی گزارے، اور ایک مدت بعد اپنے کو نابود ہوتا دیکہے، بلکہ انسان کو سوچنے سمجھنے کے وسائل (آنکھ، کان، دل و دماغ) عطا کئے گئے ہیں تاکہ ان کی مدد اور انبیاء علیہم السلام کی نصرت سے کائنات کے حقائق کو سمجھ لیں کہ کس طرح ہمیں زندگی بسر کرنا ہے، اور اس دنیا میں سعادت اور کامیابی تک پھنچنے کے لئے کونسا راستہ طے کرنا ہے۔
امام زمانہ علیہ السلام کے خط کے اس حصہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان تنھا اپنے راستہ کا انتخاب نہیں کرسکتا، لہٰذا خداوندعالم نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا تاکہ لوگوں کی مدد کریں اور ان کو دائمی سعادت تک پھنچادیں، اور ابدی بدبختی سے نجات دیں۔ خداوندعالم نے بھی قرآن مجید میں اس مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے:
(
هُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْاٴُمِّیِّیْنَ رَسُولًا مِنْهُمْ یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَكِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِیْنٍ
)
”اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی كُھلی ہوئی گمراھی میں مبتلا تہے“۔
آج کی دنیا کے حالات نے اس نکتہ کو بالکل واضح کردیا ہے۔ واقعاً بے ہودہ بھانوں کے ذریعہ کتنے مظلوموں کا خون بھا دیا جاتا ہے اور کتنا مال اور دولت دیوانہ پن میں غارت کردی جاتی ہے۔
حدیث نمبر ۳۵: درخواست حاجت کی کیفیت
“مَنْ كٰانَتْ لَهُ إِلَی اللهِ حٰاجَةٌ فَلْیَغْتَسِلْ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ بَعْدَ نِصْفِ اللَّیْلِ وَ یَاٴُ تي مُصَلاّٰهُ”
”جو شخص خداوندعالم کی بارگاہ میں کوئی حاجت رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ شب جمعہ آدھی رات کے بعد غسل کرے، اور خدا سے مناجات کے لئے اپنی جانماز پر گریہ و زاری کرے“۔
شرح
ابو عبد اللہ حسین بن محمد بزروفی کہتے ہیں: امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے ایک توقیع پھنچی جس میں لکھا ہوا تھا:
”جو شخص خداوندعالم کی بارگاہ میں کوئی حاجت رکھتا ہو تو اس کو چاہئے کہ شب جمعہ آدھی رات کے بعد غسل کرے اور اپنی جا نماز پر آئے، دو رکعت نماز پڑہے اور جب(
إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَإِیَّاكَ نَسْتَعِینُ
)
پر پھنچے تو اس کو سو مرتبہ پڑہے اور پہر سورہ حمد کو تمام کرے، اس کے بعد سورہ توحید کو ایک مرتبہ پڑہے، پہر رکوع و سجدہ بجالائے اور رکوع و سجود کے ذکر کو سات مرتبہ پڑہے۔ اور پہر دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑہے، اور نماز کے بعد (یہ) دعا پڑہے (جس کو کفعمی علیہ الرحمہ نے باب ۳۶ کے شروع میں بیان کیا ہے) اور دعا کے بعد سجدہ میں جائے اور خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرے اور پہر اپنی حاجت طلب کرے۔ کوئی مرد و عورت ایسا عمل انجام دے اور خلوص دل سے دعا کرے تو اس کے لئے باب اجابت کھل جائیں گے اور اس کی حاجت کچھ بھی ہو پوری ہوجائے گی، مگر یہ کہ اس کی حاجت قطع تعلق کے لئے ہو“۔
اس حدیث سے چند نکات معلوم ہوتے ہیں:
۱۔ بغیر مقدمہ کے خدا سے حاجت کی درخواست نہیں کرنی چاہئے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ انسان کے اندر کچھ موانع پائے جاتے ہوں جن کی وجہ سے انسان کی دعا باب اجابت سے نہ ٹکرائے، جن میں سے ایک مانع گناہ ہے۔
۲۔ دعا اور مغفرت کے لئے صرف استغفار کافی نہیں ہے، بلکہ توحید کا اقرار اس کے مراتب کے ساتھ ساتھ اور تسبیح و ذکر خدا بھی اس سلسلہ میں موثر ہیں۔
۳۔ دعا کے قبول ہونے کے لئے جگہ اور وقت بھی موثر ہیں؛ لہٰذا امام زمانہ علیہ السلام نے حکم دیا ہے کہ حاجت مند شخص شب جمعہ جو پورے ہفتہ میں بہترین شب ہے اور وہ بھی آدھی رات جو شب و روز میں بہترین وقت ہے، ہمیشہ نماز پڑھنے کی جگہ (جا نماز) جو مومن کے لئے بہترین جگہ ہے، قرار پائے اور نماز کے بعد اپنی حاجتوں کو خدا سے طلب کرے۔
حدیث نمبر۳۶: سر انجام بخیر ہونا
“اٴَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الْعَمیٰ بَعْدَ الْجَلاٰءِ، وَ مِنَ الضَّلاٰلَةِ بَعْدَ الْهُدیٰ، وَ مِنْ مُوبِقٰاتِ الْاٴَعْمٰالِ وَ مُرْدِیٰاتِ الْفِتَنِ”
”بینائی کے بعد نابینائی سے، ہدایت کے بعد گمراھی سے اور خطرناک بلاؤں نیز فتنہ و فساد سے خدا کی پناہ طلب کرتا ہوں“۔
شرح
یہ تحریر ،امام زمانہ علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ہے جس کو آپ نے اپنے پھلے اور دوسرے نائب عثمان بن سعید عمری اور ان کے فرزند محمد کے لئے تحریر کی ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام غیبت کے سلسلہ میں چند چیزوں کی سفارش کرنے کے بعد اور اس سلسلہ میں شیعوں کے دل ثابت قدم رھنے کی تاکید کے بعد چند چیزوں میں خدا کی پناہ طلب کرتے ہیں جن میں سے ہر ایک ہمارے لئے ایک عظیم درس ہے:
۱۔ امام زمانہ علیہ السلام ہدایت کے بعد گمراھی سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں؛ کیونکہ اگر کسی شخص کی ہدایت ہوجائے اور وہ حق و حقیقت کو سمجھ لے، لیکن ایک مدت بعد اس سے منحرف ہوجائے تو اس پر حجت تمام ہے، اور ایسا شخص یقینی طور پر تلافی نہ ہونے والے گھاٹے میں مبتلا ہوجائے گا۔ ایسے شخص نے مستحکم سعادت کو معرفت کے بعد چھوڑ دیا ہے اور اپنے لئے ابدی عذاب کو خرید لیا ہے۔
۲۔ اسی طرح امام علیہ السلام ان بُرے اعمال سے پناہ مانگتے ہیں جو انسان کو ھلاکت و نابودی میں مبتلا کردیتے ہیں؛ کیونکہ انسان کے لئے ہمیشہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ ہوا و ہوس اور شیطانی وسوسے انسان کے مرنے تک ساتھ نہیں چھوڑ تے۔ لہٰذا (حدیث کے) اس حصہ سے ایمان کی اہمیت اور مشکلات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
۳۔ امام علیہ السلام ان خطرناک اور ہلاک کنندہ فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں جن سے انسان، عزت کی بلندی سے قعر ذلت میں پھنچ جاتا ہے۔ قرآنی حکم کے مطابق انسان ہمیشہ امتحان کی منزل میں ہے۔ جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
(
اٴَحَسِبَ النَّاسُ اٴَنْ یُتْرَكُوا اٴَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لاَیُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ
۔ ۔ ۔)
”کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کا امتحان نہیں ہوگا۔ بے شک ہم نے اس سے پھلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے۔ ۔ ۔ “۔
یہ امتحانات مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی ھلکا اور کوئی بھاری قسم کا ہوتا ہے۔ کبھی یہ امتحان انسان کے جان و مال کا ہوتا ہے اور کبھی یہ امتحان دین کے سلسلہ میں ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ،لہٰذا ان تمام امتحانات میں چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے سب میں خدا پر بہر وسہ کرنا چاہئے اور ان امتحانات میں خداوندعالم کی ذات سے کامیابی طلب کرنی چاہئے۔
حدیث نمبر۳۷: باطل پر حق کی پیروزی
“اٴَبَی اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْحَقِّ إِلاّٰ إِتْمٰاماً، وَلِلْبٰاطِلِ إِلاّٰ زَهُوقاً”
”خداوندعالم کا یقینی ارادہ یہ ہے کہ (عنقریب یا تاخیر سے) حق کا سر انجام کامیابی، اور باطل کا سرانجام نابودی ہو“۔
شرح
یہ تحریر، امام زمانہ علیہ السلام کے اس جواب کا حصہ ہے جس کو آپ نے احمد بن اسحاق اشعری قمّی کے نام لکھی ہے۔ اس خط میں امام علیہ السلام نے (اپنے چچا) جعفر کے دعوے کو ردّ کرتے ہوئے اپنے کو امام حسن عسکری علیہ السلام کا وصی قرار دیا اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد امام کے عنوان سے اپنا تعارف کرایا ہے؛ پہر امام اس نکتہ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ سنت الٰہی یہ ہے کہ حق و حقیقت کی مدد کرے اور اس کو بلند و بالا مقام تک پھنچائے، اگرچہ ہمیشہ حق و حقیقت کا مقابلہ ہوتا رہا ہے؛ دوسری طرف سنت الٰہی یہ ہے کہ باطل (اگرچہ ایک طولانی مدت تک اس کا بول بالا ہو لیکن) نابود ہوکر رہے گا، اور صرف اس کے نام کے علاوہ کچھ باقی نہ بچے گا، فرعون وغیرہ جیسے افراد کا اسر انجام اس بات کو بالکل واضح کردیتا ہے؛ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ حق و حقیقت کی تلاش میں رھیں اور اس راہ میں موجود مشکلات اور پریشانیوں سے نہ گھبرائیں، اور کبھی بھی باطل کے فریب دینے والے ظاہر سے دل نہ لگائیں؛ کیونکہ حق ہمیشہ کامیاب ہے اور باطل نابود ہوتا ہے۔
حدیث نمبر ۳۸: سنت پر عمل کرنا مودت کی بنیاد ہے
“إِجْعَلُوا قَصْدَ كُمْ إِلَیْنٰا بِالْمَوَدَّةِ عَلَی السُّنَّةِ الْوٰاضِحَةِ، فَقَدْ نَصَحْتُ لَكُمْ، وَ اللهُ شٰاهِدٌ عَلَيَّ وَ عَلَیْكُمْ”
”ہم (اہل بیت عصمت و طھارت) سے اپنی محبت و دوستی کا مقصد احکام الٰہی کا نفاذ اور سنت پر عمل کی بنیاد قرار دو؛ بے شک ہم نے ضروری سفارشوںاور لازم موعظوں کو انجام دیا ہے، خداوندعالم ہم اور تم سب پر گواہ ہے“۔
شرح
ابن ابی غانم قزوینی اور شیعوں کی ایک جماعت کے درمیان امام حسن عسکری علیہ السلام کی جانشینی پر اختلاف ہوا، ابن ابی غانم کا عقیدہ یہ تھا کہ امام عسکری علیہ السلام نے اپنی وفات تک کسی کو اپنا جانشین معین نہیں کیا، لیکن شیعوں کی جماعت اس کی مخالفت کررھی تھی اور وہ لوگ اس بات کے قائل تہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنا جانشین معین کیا ہے؛ لہٰذا امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا گیا اور اس موضوع کو آپ کے سامنے پیش کیا۔ امام علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے ایک خط لکھا جس میں مذکورہ حدیث بھی ہے۔
امام زمانہ علیہ السلام نے اس خط میں تقویٰ و پرھیزگاری کا حکم کرنے کےبعد فرمایا:
”ہمارے سامنے تسلیم رھو، اور جس چیز کے بارے میں نہیں جانتے اس کو ہماری طرف پلٹا دو( یا ہم سے سوال کرو) کیونکہ ہم پر حقیقت حال بیان کرنا لازم ہے۔ ۔ ۔ دائیں بائیں گمراہ نہ ہو، ہماری نسبت محبت و دوستی اور ہمارے احکام کی اطاعت میں ثابت قدم رھو کہ یھی شریعت محمدی ہے“۔
اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ صرف محبت کا دعویٰ کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ حقیقی محبت کرنے والا انسان وہ ہے جو اپنے محبوب کے حکم کو عملی جامہ پھنائے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
”مذاھب، تم کو دور نہ کردیں، خدا کی قسم! ہمارا شیعہ وہ ہے جو خداوندعالم کی اطاعت کرے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”ہمارے شیعہ، اہل تقویٰ، کوشش کرنے والے، اہل وفا اور امانت دار، زاھد، عابد اور دن رات میں ۵۱ رکعت نماز پڑھنے والے ہیں، راتوں کو (عبادت کے لئے) بیدار رہتے ہیں اور دن میں روزہ رکھتے ہیں؛ اپنے مال کی زکوٰة دیتے ہیں، خانہ خدا کا حج کرتے ہیں، اور ہر حرام کام سے پرھیز کرتے ہیں“۔
اسی طرح حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
”جو شخص اپنی زبان سے کہے کہ میں شیعہ ہوں، لیکن وہ میدان عمل میں ہماری مخالفت کرتا ہو، تو وہ شخص ہمارا شیعہ نہیں ہے۔ ہمارے شیعہ وہ ہیں جو دل و جان سے ہمارے موافق ہیں اور ہمارے آثار و اعمال کو اپنے لئے نمونہ قرار دیتے ہوئے ہماری پیروی کرتے ہیں“۔۷۵
حدیث نمبر ۳۹: وقف کا حکم
“وَ اٴَمّٰا مٰا سَاٴَلْتَ عَنْهُ مِنْ اٴَمْرِ الْوَقْفِ عَلیٰ نٰاحِیَتِنٰا وَ مٰا یَجْعَلُ لَنٰا ثُمَّ یَحْتٰاجُ إلَیْهِ صٰاحِبُهُ، فَكُلُّ مٰا لَمْ یُسَلَّمْ فَصٰاحِبُهُ فیهِ بِالْخِیٰارِ، وَ كُلُّ مٰا سُلِّمَ فَلاٰ خِیٰارَ فیهِ لِصٰاحِبِهِ، إِحْتٰاجَ إِلَیْهِ صٰاحِبُهُ اٴَوْ لَمْ یَحْتَجْ”
”تم نے ہم سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے کسی چیز کو ہمارے لئے وقف کردیا ہو لیکن بعد میں وہ خود اس چیز کا محتاج ہوگیا ہو؟ ایسے شخص کا حکم یہہے کہ اگر اس نے جو چیز ہمارے لئے وقف کی ہے لیکن ابھی تک اس کو دیا نہیں ہے، تو وہ مختار ہے اور وقف سے صرف نظر کرسکتا ہے؛ لیکن اگر اس کو دے دیا ہے تو اس کا وقف قطعی ہوچکا ہے، جس کے بعد وہ اس کو واپس نہیں لے سکتا ہے، چاہے وہ اس کا محتاج ہو یا نہ ہو“۔
شرح
یہ کلام امام زمانہ علیہ السلام کی اس توقیع کا ایک حصہ ہے جس کو ابو الحسن محمد بن جعفر اسدی کے سوالوں کے جواب میں رقم کیا ہے۔
وقف کا حکم دیگر معاملات سے مختلف ہے۔ اگر کوئی شخص کسی چیز کو فروخت کردے، اور اس کی قیمت خریدار سے لے لے، لیکن بعد میں پشیمان ہوجائے اور معاملہ نہ کرنا چاہے تو وہ قیمت کو واپس لے کر معاملہ ختم کرسکتا ہے؛ لیکن وقف کا حکم ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی چیز وقف ہوجائے اور واقف اس چیز کو موقوف علیہ (یعنی جن لوگوں کے لئے وہ چیز وقف کی گئی ہے) کو نہ دے تو اس وقف سے صرف نظر کرسکتا ہے، اور اپنے مال کو اپنی ملکیت میں واپس لے سکتا ہے، لیکن اگر موقوفہ مال موقوف علیہ کے ہاتھ وں میں پھنچ گیا ہے تو وہ وقف یقینی اور نافذ ہوجاتا ہے اور واقف اس مال کو واپس نہیں لے سکتا۔
اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہے کہ موقوف علیہ کون ہے؟ امام معصوم ہو یا عام آدمی؛ اسی طرح یہ بھی کوئی فرق نہیں ہے کہ وقف شدہ مال کم ہو یا زیادہ۔
حدیث نمبر ۴۰: حُسن عاقبت
“وَالْعٰاقِبَةُ بِجَمیلِ صُنْعِ اللهِ سُبْحٰانَهُ تَكُونُ حَمِیدَةً لَهُمْ مَا اجْتَنَبُوا الْمَنْهِيَّ عَنْهُ مِنَ الذُّنُوبِ”
” جب تک ہمارے شیعہ گناھوں سے دور رھیںاس وقت تک خداوندعالم کے لطف و کرم سے سرانجام بخیر ہوگا “۔
شرح
یہ حدیث اس خط کا ایک حصہ ہے جس کو امام زمانہ علیہ السلام نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کے نام لکھی تھی۔ امام علیہ السلام نے اس حدیث میں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر ہمارے شیعہ حُسن عاقبت اور نیک سر انجام چاہتے ہیں تو اس کا سبب خداوندعالم کا خاص لطف اور اس کی توجہ ہے، لہٰذا جن گناھوں کو خداوندعالم نےحرام قرار دیا ہے ان سے پرھیز کیا جائے؛ کیونکہ ہر عمل کی مخصوص تاثیر ہوتی ہے، ہمارا نفس ہمارے کاموں اور ہماری باتوں یھاں تک کہ ہماری سوچ کے مطابق بنتا اور سنورتا ہے۔ جو لوگ گناہ کرنے سے نہیں ڈرتے (چاہے گناہ کم ہوں یا زیادہ، چھوٹا گناہ ہو یا بڑا) تو ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ انھوں نے اپنی حقیقت کو سیاہ کرڈالا ہے، اور ان کے لئے نور و پاکیزگی کا کوئی مقام نہیں ہے۔ گناہ ایک ایسی آگ ہے جوتمام نیک کاموں کے ثواب کو ختم کر ڈالتی ہے۔ انسان برسوں کوشش کرتا ہے اور نیک کام انجام دے کر ثواب حاصل کرتا ہے، لیکن ایک گناہ کے ذریعہ اپنی تمام زحمتوں پر پانی پھیر دیتا ہے؛ اسی وجہ سے امام زمانہ علیہ السلام نے اس حدیث میں گناہ کے خطرہ سے آگاہ کیا ہے۔
____________________