میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 55212
ڈاؤنلوڈ: 5153

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55212 / ڈاؤنلوڈ: 5153
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل ۲۰

تقلید

قابل مذمت تقلید

قرآن مجید:

( واذاقیل لدم تعالوا ---------------- شیئا ولایهتدون ) (مائدہ/ ۱۰۴)

ترجمہ:

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی طرف آؤ جو اللہ نے نازل کیا اور رسول کی طرف (آؤ) تو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا اگرچہ ان کے آباؤ اجداد کچھ بھی نہ جانتے تھے اور نہ ہی ہدایت یافتہ تھے۔

( وکٰذلک ماارسلنا -------------------------- معتدون ) ۔ (زخرف/ ۲۳)

ترجمہ:

اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے جس آبادی میں بھی کوئی ڈرانے والا بھیجا۔ تو اس کے دوستمندوں نے بھی یہی کیا کہ ہم نے تو اپنے آباؤ اجداد کو ایک روش پر (قائم) پایا ہے اور ہم تو انہی کے نقش قدم پر چلیں گے۔

حدیث شریف:

۱۷۰۸۱ ۔ حذیفہ یمانی کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا: "لوگوں کے پیچھے چلنے ولاے نہ بنو، کہ کہو اگر لوگ اچھا کام کریں گے تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے، اور اگر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں بلکہ تم اپنے نفوس کو اپنے قابو میں رکھو۔ اگر لوگ اچھا کام کریں تو تم بھی اچھے کام کرو اور اگر وہ برائی کریں تو تم ظلم نہ کرو"

الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۳۴۱ اے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

۱۷۰۸۱ ۔ حضرت امام جعفر صادق کے بارے میں ہے کہ آپ نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص سے کہا: "لوگوں کے پیچھے چلنے والے نہ بنو، کہ کہتے پھرو میں تو لوگوں کے ساتھ ہوں اورمیں ان میں سے ایک ہوں"۔

مجار لانوار جلد ۲ صفحہ ۸۳

۱۷۰۸۲ ۔ جزری اپنی کتاب "النہایہ" میں کہتے ہیں "روایت میں ہے کہ عالم بنو یا طالب علم اور لوگوں کے پیچھے چلنے والے نہ بنو۔ لوگوں کے پیچھے چلنے والوں سے مراد یہ ہے کہ جس کی اپنی رائے نہ ہو، اور وہ ہر ایک کے پیچھے چلتا پھرے۔۔۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہر ایک سے یہ کہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اسی سلسلے میں ابن مسعود کی روایت ہے کہ "تم میں سے کوئی شخص دوسرے کے پیچھے چلنے والا نہ بنے۔ اس بارے میں پوچھا گیا کہ یہ کس طرح ہوتا ہے؟ تو فرمایا "جو کہے میں تو لوگوں کے ساتھ ہوں"۔

نہایہ ابن اثیر جلد اول صفحہ ۲۷

۱۷۰۸۳ ۔ حضرت امیر المومنین سے منقول اشعار:

۱ ۔ جب مشکلات میرے درپے ہوتی ہیں تو میں غور و فکر کے ذریعہ ان کے حقائق تک پہنچ جاتا ہوں۔

۲ ۔ میں لوگوں کے پیچھے چلنے والا نہیں ہوں کہ کسی سے پوچھتا رہوں کہ کیا ہوا؟

۳ ۔ بلکہ میں نے اپنے دل و زبان کو اس قدر عادی کر دیا ہے کہ میں ماضی کے ساتھ مستقبل کو بھی بیان کر سکتا ہوں۔

مجار لانوار جلد ۲ صفحہ ۶۰

۱۷۰۸۴ ۔ ثمالی کہتے ہیں کہ حضرت امام جعر صادق نے فرمایا: "ریاست طلبی سے اجتناب کرو اور لوگوں کے پیچھے چلنے سے بھی پرہیز کرو" میں نے عرض کیا: "ریاست طلبی کو تو جانتا ہوں لیکن لوگوں کے پیچھے چلنے کا مطلب کیا ہے، کیونکہ اس طرح تو میں سمجھتا ہوں کہ جن سے مل چکا ہوں ان میں سے دو تہائی افراد کے پیچھے چل چکا ہوں گا۔"

امام نے فرمایا: "بات وہ نہیں جو تم سمجھے ہو بلکہ اس سے اجتناب کرو کہ کسی کو بغیر دلیل کے کسی منصب پر فائز کرو اور پھر اس کی ہر بات کی تائید کرتے جاؤ"

مجار الانوار جلد ۲ صفحہ ۸۳

۱۷۰۸۵ ۔ سفیان بن خالد کہتے ہیں: حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا: "سفیان ریاست طلبی (حب جاہ و مقام) سے اجتناب کرو کیونکہ جس نے بھی ایسا کیا ہے وہ تباہ ہو گیا میں نے عرض کیا: "آپ کے قربان جاؤں! پھر تو ہم سب تباہ ہو گئے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا ذکر کیا جائے، لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کی بات مانی جائے"

امام نے فرمایا: "جس طرف تم جا رہے ہو وہ بات نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ تم اس بات سے اجتناب کرو کہ کسی دلیل کے بغیر کسی شخص کو کسی منصب پر فائز کر کے (بلاچون و چرا) اس کی ہر بات کی تصدیق کرتے جاؤ اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی بات ماننے کی دعوت دو"

مجار الانوار جلد ۲ صفحہ ۸۳

۱۷۰۸۶ ۔ عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس وقت سورہ براثت کی یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے: "اتخذو واالحبار رھم ورھبا نھم او بابا من دون اللہ ۔۔۔" یہود و نصاری نے اللہ کی بجائے اپنے عالموں اور اپنے راہوں کو رب بنا لیا ہے۔" (براثت/ ۳۱) پھر فرمایا: "تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے، بلکہ جو چیزیں ان کے عالم اور راہب ان کے لئے حلال کرتے تھے انہیں وہ بھی حلال سمجھتے تھے جو وہ حرام کر دیتے تھے وہ بھی انہیں حرام سمجھتے تھے اور اس بارے میں وہ ان کی اتباع کیا کرتے تھے۔"

تفسیر درمنئود جلد ۳ صفحہ ۲۳۱

۱۷۰۸۷ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول: "اتخذوا احبار ھم و رھبانہم اربابا من دون اللہ" (برائت/ ۳۱) کے بارے میں فرماتے ہیں: "واللہ یہ لو اپنے علماء اور راہبوں کے لئے نماز اور روزے جیسی عبادات انجام نہیں دیا کرتے تھے بلکہ ان لوگوں نے ان کے واسطے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا تھا پس انہوں نے ان کی پیروی کر لی تھی۔"

(امام جعفر صادق) مجار الانوار جدل ۲ صفحہ ۹۸

۱۷۰۸۸ ۔ اسی آیت کے بارے میں فرمایا: "نحد ا! ان کے علماء و راہبوں نے انہیں اپنی ذات کی عبادت کی طرف نہیں بلایا تھا اگر وہ عبادت کی دعوت دیتے بھی تو وہ ان کا کہنا ہرگز نہ مانتے۔ بلکہ انہوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا تھا۔ لہٰذا ان کی غیر شعوری طور پر عبادت کرنے لگے گئے تھے۔"

(امام جعفر صادق) مجار الانوار جلد ۲ صفحہ ۹۸

۱۷۰۸۹ ۔ سعد الخیر کے نام حضرت امام محمد تقی کے نام مکتوب سے اقتباس "پس تم یہود و نصاری کے علماء اور راہبوں کے کردار کو پہچانو کہ انہوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کے ساتھ ملا دیا۔ کتاب خدا کے چھپانے اس کی تحریف کے مرتکب ہوئے اس سے ان کی تجارت نے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہو سکے۔ پھر اس امت سے بھی ان لوگوں کو پہچانون جنہوں نے ان جیسے کاموں کا ارتکاب کیا، جو کتاب خدا کے حروف پر تو قائم رہے لیکن اس کی حدود میں تحریف کے مرتکب ہوئے وہ بڑے بڑے سرداروں اور امیروں یا اکثریت کے ساتھ ہو گئے۔ چنانچہ جو ان سرداروں اور امیروں کی خواہش ہوتی ہے تو وہ دین کے لحاظ سے بھی ان کی اکثریت کے ساتھ ہو جاتے اور یہی ان کا مبلغ علمی۔۔۔۔۔ ایسے لوگ یہود و نصاری کے علماء اور راہبوں کی مانند ہیں، خواہشاتِ نفسانی کے قائد وار ہلاکتوں کے سردار۔۔۔

فروغ کافی جلد ۸ صفحہ ۵۴ صفحہ ۵۵

۱۷۰۹۰ ۔ بات یہ ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر گمراہی کو ہدایت سمجھ کر اسے اختیار کر لے اور حق کو گمراہی سمجھ کر اسے ترک کر دے تو کوئی بھی ایسے شخضص کی ہلاکت کے بارے میں اس کا عذر قبول نہیں کرے گا۔

(حضرت علی ) مجار الانوار جلد ۵ صفحہ ۳۰۵

(قول مولف: ملاحظہ ہو: باب کفر حدیث ۹۲ ۱۷۶

نیز: باب یہ نہ کہو کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ ہوں"

( ۲) کس کی تقلید کی جائے

۱۷۰۹۱ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول( نویل للذین یکتبون الکتٰب بایدیهم ثم یقولون هذا من عند الله ) پس صد افسوس ہے ان لوگوں پر اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں پھرکہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔۔۔ (بقرہ / ۷۹) کے بارے میں ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق نے پوچھا: "جب یہودیوں کی یہ قوم اپنی کتاب کے بارے میں صرف وہی کچھ جانتی تھی جو اس نے اپنے علماء سے سنا تھا۔ اس کے سوا ان کے ہر کوئی راستہ بھی نہیں تھا تو پھر ان علماء کی تقلید پر اس قوم سے مذمت پر گئی ہے؟ یہودی عوام بھی اپنے علماء کی اسی طرح تقلید کرتے تھے جس طرح ہمارے عوام اپنے علماء کی تقلید کرتے ہیں؟

امام نے فرمایا؛ "ہمارے عوام و علماء اور یہودیوں کے عوام و علماء میں ایک لحاظ سے فرق اور ایک لحاظ سے یگانگت ہے۔ یگانگت اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے عوام کی اپنے علماء کی تقلید کرنے پر مذمت کی ہے جس طرح ان کے عوام کی مذمت کی ہے لیکن فرق ایسا نہیں ہے"

اس نے عرض کیا؛ "فرزند رسول! ذرا اس کی وضاحت فرما پس آپ نے فرمایا "یہودی عوام اچھی طرح جان چکے تھے کہ ان کے علماء صریح جھوٹ بولتے ہیں حرام اور رشوت کا مال کھاتے ہیں، واجب احکام کو سفارش، بخشش اوردوسرے کئی انداز میں تبدیل کر دیتے ہیں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جو ان کے دین کو اپنائے ہوئے ہیں ان کے حق میں زبردست تعصب کرتے ہیں اور جب تعصب کرتے ہیں تو حق کو اس کے مستحق سے ہٹا کر غیر مستحق کو دے دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے دوسروں پر ظلم کرتے ہیں فعل حرام کا ارتکاب کرتے ہیں یہود عوام کو یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ جو شخص ان جیسے افعال کا ارتکاب کرتا ہے وہ فاسق ہے،۔۔۔۔ وغیرہ اسی بنا پر اللہ سے ایسے لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو یہ سب کچھ جانتے بوجھنے کے باوجود ان کی تقلید کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان علماء کی باتوں کو قبول کرنا اور ان کی بیان کردہ گفتگو کی تصدیق کرنا جائز نہیں ہے۔۔۔۔

"اسی طرح ہماری اس امت کے عوام میں کہ جب اپنے فقہائے ظاہری فق، شدید تعصب اور دنیا کے حرام کی طرف جھپٹنے کو اچھی طرح جانتے ہیں، پھر بھی ان کی تقلید کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے عوام میں سے بھی جو شخص ان جیسے فقہاء کی تقلید کرے گا ان یہودیوں کی مانند ہو گا جن کی اللہ تعالیٰ نے فاسق فقہاء کی تقلید کرنے کی وجہ سے مذمت فرمائی ہے۔ البتہ فقہاء میں سے جو شخص اپنے آپ کو دنیوی اغراض سے بچانے والا: دین کا محافظ، اپنے نفسانی خواہشات کا مخالف اور اپنے خالق کے امر کا فرمانبردار ہو تو عوام کو چاہئے کہ اس کی تقلید کریں لیکن ان صفات کے حاصل ہمارے صرف بعض فقہاء ہیں سب نہیں۔

(امام حسن عسکری) احتجاج طبرئی جلد ۲ صفحہ ۲۶۳

۱۷۰۹۲ ۔ جب تم دیکھو کہ کسی کی ظاہری وضع قطع اور سیرت و صورت اچھی ہے، بولنے میں بہ تکلف خاموشی اختیار کرتا ہے حرکات و سکنات میں نرمی سیکام لیتا ہے، تو صبر کرو اور فوراً اس کے جھانسے میں نہ آ جاؤ، کیونکہ بہت سے ایسے افراد ہیں جنہیں ان کی نیت کی کمزوری اور دل کی ناتوانی اس بات کیلئے عاجز کر دیتی ہے کہ دنیا کو سمیٹ لیں اور حرما کا ارتکاب کریں ایسے لوگوں نے دین کو دنیا کے (سمیٹنے کے) لئے ایک پھندا بنایا ہوا ہے۔ جب اسے دیکھو کہ تکلف کرتے ہوئے مال حرام سے بچنے کا اظہار کر رہا ہے تو اس کے جھانسے میں نہ آ جاؤ کیونکہ مولوق کی خواہشات مختلف ہوا کرتی ہیں۔

لیکن صحیح معنی میں اور بہترین صورت میں انسان وہ شخص ہے جس نے اپنی خواہشات کو امرِ الہٰی کا پابند بنا دیا ہو اپنی تمام ظاہری و باطنی قوتوں کو رضائے الہٰی کی طرف موڑ دیا ہو سمجھتا کہ حق کو اپنا کر بھی اگر ذلت حاصل ہوتی ہے تو وہ ابدی عزت کا پیش خیمہ ہے اس ظاہری عزت سے بہتر ہے جو باطل کو اپنا کر ہمیشہ کی رسوائی کا موجب بن جاتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس راہ پر قائم رہ کر جو تھوڑی بہت تکلیف ہوتی ہے وہ ابدی نعمتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ ایسا انسان، بہترین انسان اسی کے ذریعہ اپنے رب تک رسائی کے لئے متوسل ہو جاؤ کیونکہ ایسے شخص کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی اور نہ کوئی طلب ناکام جاتی ہے۔

(امام زین العابدین) مجار الانوار جلد ۲ صفحہ ۸۴ صفحہ ۸۵

تقلید کے بارے میں علمی و اخلاقی بحث

مفسر "المیزان" فرماتے ہیں :

گذشتہ امتوں میں سے قرآن مجید میں جس امت کا زیادہ تذکرہ ملتا ہے وہ بنی اسرائیل ہے اسی طرح تمام انبیاء میں سب سے زیادہ ذکر حضرت موسیٰ بن عمران ہے کہ قرآن مجید میں جن کا نام ایک سو چھتیس مقامات پر کیا گیا ہے، حضرت ابراہیم کے تذکرے بھی دوگنا ہے کیونکہ ان کا نام قرآن پاک میں انہتر مرتبہ لیا گیا ہے۔

اس کی ظاہری وجہ یہ ہے کہ اسلام چونکہ دین حنیف ہے، اس کی بنیادیں نضرایہ توحید پر اٹھائی گئی ہیں اسے موتس حضرت ابراہیم ہیں اسی دینِ اسلام کو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر ۱۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ پر کام اور اکمل فرماتا ہے جب کہ ارشاد الہٰی ہے:

"ملة ابیکم ابراھیم ھو ستمکم المسلمین" یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے اس نے تمہارا نام پہلے ہی مسلم (سرتسلیم کرنے والا) رکھا ہے۔ (حج / ۷۸)

نبی اسرائیل سخت جھگڑالو قوم تھی وار حق کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے لئے جلد تیار نہیں ہوتی بعینہ اسی طرح کفارِ عرب تھے جن سے رسول اسلام ﷺ کا پالا پڑا تھا۔ اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا "ان الذین کفروا سواء علیھم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لایومنون" یقینا جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے (بقرہ/ ۶) بنی اسرائیل کی جس سنگدلی اور جو روجفا کے تذکرے قرآن نے کئے ہیں وہ تب ان کفار میں موجود تھے۔ چنانچہ اگر بنفرا غائر دیکھا تو معلوم ہو گا کہ بنی اسرائیل ایسے لوگ تھے جو مادیت کے دلدادہ تھے اور ہر اس چیز کو قبول کر لیتے تھے جس میں دنیوی لذتیں محسوس انداز میں موجود ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ کسی چیز پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ اسی طرح اس امت کے افراد تھے۔ وہ بھی محسوس چیزوں پر ایمان لانے پر تیار تھے اور مادی لذت و کمال کو قبول کرتے تے۔ آج بھی یہی صورت حال ہے یہی وہ صرت حال تھی جس نے بنی اسرائیل کے عقول و ارادوں کو جس مادہ کے علاوہ کسی چیز کو قبول کرنے سے روکا ہوا تھا۔ یعنی اس چیز کو قبول کیا جات اجو محسوس اور مادی ہو یعنی جس مادہ صحیح قرار دیں اسے وہ قبول کرتے تھے اور جو چیز غیر محسوس اور غیر مادی ہو" خواہ حق ہو، اس کا انکار کر دیتے تھے مادیت پرستی ان میں اس قدر راسخ ہو چکی کہ وہ ہر اس چیز قبول کر لیتے تھے جسے ان کے سردار جو مادیت کے جمال دنیا کی ظاہری شان و شوکت کے دلدادہ تھے اچھا سمجھتے اور اپناتے تھے خواہ وہ حق نہ بھی ہوتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے قول و فعل میں تضاد پید اہو گیا اور وہ ہر طرح کی دوسری اتباع و پیروی کو "اندھی تقلید" کے نام سے موسوم کرتے اس کی مذمت کرنے لگے خواہ وہ حقیقت میں شائستہ ہوتی وہ لوگ دنیا داری پر ہر طرح کی پیروی کو قابل تعریف سمجھتے تھے۔ اگرچہ وہ حقیقت میں ناشائستہ ہوتی۔ لیکن چونکہ ان کی مادی خواہشات کو پورا کرتی تھی لہٰذا ان کے لئے قابل ستائش ہوتی۔ ان کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک طولانی مدت وار عرصہ دراز سے مصریوں کے ذلت آمیز رویہ کے شکار اور قید وبند میں جکڑے رہے تھے۔ اور ان کی طرف سے ڈھائے جانے والے ہر طرح کے مظالم کو برداشت کرتے چلے آ رہے تھے۔ وہ ان کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کئے ہوئے تھے۔ ان کے لڑکوں کو قتل کر دیتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اس طرح وہ ایک عظیم خدائی آزمائش میں مبتلا تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انبیاء الہٰی اور علمائے ربانی کے اور امرونوا ہی کو آسانی سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ حالانکہ اس میں ان کی دین و دنیا و معاشر معاد دونوں کی بھلائی تھی، (جس کا نمونہ آپ حضرت موسیٰ کے حالات میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عظیم الشان پیغمبر موسیٰ اور دیگر انبیاء کے ساتھ کیا سلوک کیا؟) جبکہ وہ دنیا پرست اور مادیت کے دلدادہ جدید ثقافت حکمرانوں اور دشہوت پرست فرمانرواؤں کی آواز پر فوراً لبیک کہہ دیتے تھے۔

عصر حاضر میں بھی حق و حقیقت اسی مصیبت سے دو چار نہیں اور تہذیب نو کے نام سے مغرب کا دیا ہوا تحفہ دنیا کو حق و حقیقت سے کوسوں دور لے جاچکا ہے۔ اس لئے کہ اس کی بنیاد بھی حس اور مادہ پر رکھی گئی ہے اس سے ہٹ کر کسی اور دلیل کو قبول کرنے پر تیار نہیں ۔ لیکن جہاں محسوس کی جانے والی مادی لذت موجود ہوتی وہاں کسی قسم کی دلیل اختیار نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے انسانی فطرت کی دھجیاں اڑ گئی ہیں اور معارف عالیہ و ااخلاق قافلہ کا جنازہ نکل چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانیت سقوط کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور انسانی معاشرہ تباہی سے دو چار ہے۔ اب دیکھئے کی اہوتا ہے اس کے برعکس اخلاقیات کی بحث اس کے خلاف فیصلہ دیتی ہے وہ یوں کہ نہ تو ہر دلیل مطلوب و مرغوب ہوتی ہے نہ ہی یہ تقلید ناپسندیدہ و قابلِ مذمت! یہ اس لئے کہ بنی نوع انسان اپنے انسان ہونے کی وجہ سے ہمیشر اپنے ارادی افعال کی وجہ سے جو فکر و ارادے ہر موقوف ہوتے ہیں کمال حیات کی طرف ہیں روا دواں ہے ان افعال کا وجود غور و فکر کے نتیجے میں عمل میں آتا ہے اور یہ غور و فکر ہی ہے جو کمالِ وجودی کی واحد بنیاد ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ انسان کے پاس عملی یا نظری تصدیقات موجود ہوں۔ جن کے ذریعہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ کمالِ وجودی کی منزلوں تک جا پہنچے جو ایسے قضئے ہوتے ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنے انفرادی و اجتماعی افعال کی وجاہات کو معلوم کر سکتے ہیں یا انہیں اپنے ذہن میں حاضر کر کے ان کا اظہار اپنے ہاں کے ذریعہ خارج میں کر سکتے ہیں۔

یہ تو ایک رات ہے اب آئیے دوسری طرف انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ رونما ہونے ولاے واقعات کے بارے میں بحث و تمحیص و تجسس سے کام لیتا ہے جب اس کے ذہن میں کچھ معلومات کو خارج میں اس وقت تک افعال کے ذریعہ وجوود کا جامہ نہیں پہنا سکتا جب تک اس کے ذہن میں اس کی علت موجبہ موجود نہ ہو۔ وہ تصدیق نظری کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک کسی طرح اس کی علت پر اسے اطیمنان نہ ہو۔ چنانچہ یہ ہے انسان کا طریقہ کار ہے جس سے وہ انحراف نہیں کرتا اگر کہیں ہم اس کے خلاف دیکھتے ہیں تو غور وفکر کر کے اس شبہہ کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کی عدت کو پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے اور فطرت نہ تو بدلتی ہے اور نہ ہی اپنے فعل کے خلاف کرتی ہے۔ یہی چیز انسان کو اس کے فطری احتیاجات کی وجہ سے اس کے طاقت سے زیادہ فکری عمل تک جا پہنچاتی ہے انسان کے فطری احتیاجات اس قدر زیادہ وہتے ہیں جنہیں پورا کرنے کی ایک فرد اجد کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ذات پر بھروسہ کر کے اپنی ذاتی طاقت کے بل بوتے پر انہیں حل کر سکے۔ لہٰذا فطرت اسے اجتماعیت اور معاشرتی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتی ہے انسان کا "مدنی الطبع" ہونا اور آپس میں مل جل کر رہنا۔

اسی طرح ضروریات زندی کے لئے کئی ابواب مقرر کئے گئے انہیں معاشرہ کے افراد کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے ہر ایک باب کے لئے معاشرہ کے مختلف گروہ و افراد مقرر کئے گئے جنہیں ان کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے جس طرح کسی جاندار کے مختلف اعضاء ہوتے ہیں اور ہر ایک عضو کا اپنا کام ہوتا ہے جسے وہ انجام دیتا ہے۔ لیکن اجتماعی فائدہ اسی جاندار ہی کو حاصل ہوتا ہ۔

انسانی ضروریات اپنی نوعیت کے اعتبار سے بڑھتی رہتی ہیں، اور ان کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا رہتا ہے، مختلف علوم و فنون کے مارہن میں سے ان کے لئے متخحدمین۔ سپیشلسٹ۔ افراد کی تربیت کی جاتی ہے ماہرین فن پیدا کئے جاتے ہیں چنانچہ ایک زمانہ تھا جس میں بہت سے علوم و صفتیں صرف ایک حد تک محدود تھیں ان میں ہر ایک علم و فن یا صفت کے لئے صرف ایک ہی فرد کافی ہوتا تھا۔ لیکن آج صورت حال اس لئے مختلف ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف ایک علم یا ایک فن یا ایک صنعت کئی ابواب میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ اور ہر ایک کے کئی شعبے بن چکے ہیں۔ مثلاً قدیم زمانہ میں طب صرف ایک فن ہوتا تھا، لیکن آج یہ کئی فنون کی صورت اختیار کر چکا ہے جن کے لئے صرف ایک فردِ واحد متخصص بن کر کفایت نہیں کر سکتا بلکہ ہر ایک فن کے لئے کئی مختسین کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہی وجہ سے ہے کہ فطری الہام کے انسان کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ انسان کسی ایک شغل کو مستقل طور پر اپنائے اور اس میں خصوصیت حاصل کرے، لیکن دوسرے امور میں ایسے افراد کی اتباع کرے جن کی مہارت اور تخصص کی مہارت اور تخصص قابلِ اعتبار و موجب اعتماد ہوتی ہے۔

اسی لئے معاشرت کے صاحبانِ عقل و بصیر ت کا فیصلہ ہے کہ جو شخص کسی چیز کو تفصیلی دلائل کے ساتھ نہیں جانتا نہ ہی یہ چیز اس کے بس میں ہے۔ تو اسے چاہئے کہ وہ اس فن کے ماہرین اور متفصین کی طرف رجوع کرے اور ان کے بتائے ہوئے اصولوں کی اتباع کرے جو تفصیلی دلائل کے ساتھ اس کا علم رکھتے ہیں اسی کا نام تقلید ہے۔ جیسا کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنی وسعت کے مطابق کسی چیز کی علت و دلیل کو تفصیل سے جاننا چاہتا ہیل۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جن چیزوں کی تفصیلی دلائل کو نہیں جان سکتا میں ماہرین اور متفصین کی طرف رجوع کرے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ انسان فطری طور پر لاعلمی کی طرف رجحان پیدا نہیں کرتا، بلکہ علم ہی کی طرف راغب و مائل ہوتا ہے۔ اسی لئے فطری طور پر "اجتہاد" ضروری ہو جاتا ہے۔ جب "اجتہاد" اور "تقلید" میں فرق یہ ہے کہ انسان اپنی مقرور بھر کوشش کے ساتھ کسی امر کی علت و اسباب کے بارے میں تفصیلی چھان بین سے کام لیتا ہے "اجتہاد" کہا جاتا ہے بے علم انسان جن امور کو تفصیلی طور پر نہیں جانتا وہ ایسے جاننے والے کی طرف رجوع کرتاہے جو ان امور کو تفصیلی طور پر جانتا ہو اسی رجوع و اتباع کا نام "تقلید" ہے۔ یہ بات بالکل محال ہے کہ نوع انسان میں سے کوئی شخص ایسا مل جائے جو ہر معاملے میں مستقل اور ہر بات کو تفصیل کے ساتھ جانتا ہو جس پر انسانی زندگی کا دلاویدار ہے یہ امر بھی بالکل محال ہے کہ نوع بشر میں کوئی شخص اتباع تقلید کے بغیر ہو اگر کوئی شخص اس کے خلاف دعویٰ کرے یا اسے یہ باور ہو کہ وہ اپنی زندگی میں کسی کو متلا نہیں ہے تو یہ اس کی خود فریبی ہے اور وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔

البتہ ان امور میں تقلید کی جائے گی جن کے علل و اسباب تک کسی ما فن کی رسائی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اجباد بھی ان امور کے بارے میں نہیں کیا جائے گا جن میں نہ تو وار دا ہونے کی اجازت ہے اور نہ ہی انہیں اپنایا جا سکتا ہے۔ ایسے اوصاف رذیلہ کے بارے میں اجتناذ نہیں کیا جائے گا جو معاشرہ کے لئے تباہ کن اور بافضیلت تمدن کے لئے مہلک ہیں غیر مشروط اور مطلق اتباع و پیروی خدا کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ خداوندِ متعال ایسا سبب ہے جس میں تمام اسباب کی انتہا ہوتی ہے۔"

(تفسیر المیزان جلد اول صفحہ ۲۰۹ تا صفحہ ۲۱۲

فصل ۲۱

( ۱) قلم

قرآن مجید:

( ن والقلم وما یسطرون ) ۔ (قلم / ۱)

ترجمہ:

ن۔ قلم کی قسم اور اس کی جو کچھ وہ لکھتے ہین۔

( الذی علم بالقلم ) ۔ (علق/ ۴)

ترجمہ:

وہ جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔

حدیث شریف:

۱۷۰۹۳ ۔ صاحبانِ (علم و فضل) کے عقول قلموں کے کناروں پر ہوتے ہیں۔

(حضرت علی ) عذرالحکم

۱۷۰۹۴ ۔ صاحب قلم کو قیامت کے دن آگ کے تابوت میں لایا جائے گا جس پر آگ کے تالے پرے ہونگے۔ پھر یہ دیکھا جائے گاکہ اس کا قلم کسی چیز کے بارے میں چلتا رہا۔ اگر اس نے قلم کو خد اکی اطاعت و رضا میں چلایا ہو گا تو اس کے تابوت کو کھول دیا جائے گا (اور اسے اس سے نکال لیا جائے گا) اور اگر اسے خدا کی نافرمانی میں چلایا ہو گا تو اسے ہی مابوت میں ستر سال تک بند رکھا جائے گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۱۴۵۷

فصل ۲۲

قمار (جُوا)

قرآن مجید:

( یسئلونک عن الخمر ---------------- من نفعهما ) (بقرہ/ ۲۱۹)

ترجمہ:

لوگ آپ سے شراب اور جوے کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے کہ ان دونون میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ نفع بھی ہے، مگر ان کے نفع سے ان کا گناہ بہت زیادہ ہے۔۔۔

( حرمت علیکم المتیة والدم ----- وان تستقسموا بالازلام---- ) (مائدہ/ ۳)

ترجمہ:

تم پر حرام کیا گیا ہے مردار اور خون اور ۔۔۔۔ وہ جسے تم تیروں پر تقسیم کرو۔۔۔۔

( یایها الذین امنوا ---- تعلحون ---- انمایرید الشیطان ---- منتلعون ) ۔ (مائدہ/ ۹۱/۹۰)

ترجمہ:

اے ایماندارو! بے شک شراب، جوا، بتوں کے استھان اور پانسے یہ (سب) نجاستیں عملِ شیطان ہیں پس ان سے گریز کرو تاکہ عمل فلاح پاؤ۔

بے شک شیطان چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوئے سے بغض اور عداوت ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر و نماز وسے روک دے تو کیا تم (ان سے) باز آ جاؤ گے؟

حدیث شریف:

۱۷۰۹۶ ۔ "میسر" وہی قمار ہی ہے۔

(حضرت امام رضاعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۹ صفحہ ۲۳۵ ۔

(امام موسیٰ کاظ معلیہ السلام) فروع کافی جلد ۵ صفحہ ۱۲۴

۱۷۰۹۷ ۔ شطرنج، نرد چودہ خانے اور وہ کھیل جس پر شرط لگائی جائے "جوا" ہے۔

(امام رضاعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۹ صفحہ ۲۳۵

۱۷۰۹۸ ۔ عبدالواحد بن مختار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے شطرنج کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: "مومن بے ہودہ کھیلوں سے روگردان رہتا ہے"

مجار الانوار جلد ۹ ۷ صفحہ ۲۳

۱۷۰۹۹ ۔ بکیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام سے شطرنج کھیلنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: "مومن بیہودہ کھیلوں سے منہ موڑے رہتا ہے۔"

مجار الانوار جلد ۷۹ صفحہ ۲۳۰

۱۷۰۱۰۰ ۔ جو چیز بھی ذکرِ الہٰی سے غافل کر دے اس کا شمار "جوئے" میں ہوتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۹ ۷ صفحہ ۲۳

۱۷۱۰۱ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول : "ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل" اپنے مالوں کو اپنے درمیان حرام طریقوں سے نہ کھاؤ کے بارے میں فرمایا: قریش اپنے اہل وعیال اور مال کے ساتھ جوا کھیلا کرتے تھے جس سے اللہ نے یہ کہہ کر منع فرمایا ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) فروغ کافی جلد ۵ صفحہ ۱۲۲

۱۷۱۰۲ ۔ سکونی کہتے ہیں حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا: "ان اخروٹوں کے کھانے سے منع کیا گیا ہے جنہیں بچے جوئے میں جیت کر لاتے تھے۔ فرمایا کہ یہحرام ہے۔

وسائل الشبہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۲۰ ۔ فروغ کافی جلد ۵ صفحہ ۱۲۳

۱۷۰۱۰۳ ۔ سکونی کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام ان اخروٹوں سے منع فرمایا کرتے تھے جن کو بچے جوئے میں جیت کر لایا کرتے تھے۔ فرمایا کہ "یہ حرام ہے۔"

مجار الانوار جلد ۷۹ صفحہ ۲۳۵

۱۷۱۰۴ ۔ جب حضرت امام حسینعلیہ السلام کا سرمبارک شام لایا گیا تو یزید لعین نے اسے زمین پر رکھا اور اس پر دستر خوان بچھیا، جس پر وہ خود اور اس کے ساتھی کھانا کھاتے اور فقاع (جوکی شراب) پیتے رہے جب کھانے سے فارغ ہو گئے تو اس نے حکم دیا کہ سر مبارک کو ایک طشت میں اس کے تخت کے نیچے رکھ دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور پھر اس پر شطرنج کی بساط بچھائی گئی جس پر بیٹھ کر یزید شطرنج کھیلنے لگا۔ پھر وہ حضرت سید شہداء اور ان کے آباؤ اجداد علیہم السلام کا نام لے لے کر ان کا مذاق اڑانے لگا۔ جب کھیل جیت جاتا تو تین مرتبہ شراب پیتا جو بچ رہتی اسے طشت کے اطچراف میں زمین پر انڈیل دیتا۔

لہٰذا جو شخص ہمار شیعہ کہلاتا ہے اسے شراب پینے اور شطرنج کھیلنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔۔

(امام رضاعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۱۰۴ صفحہ ۲۳۷

۱۷۱۰۵ ۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رسول پر یہ آیت "انما الخمر والمسیر۔۔" (بقرہ/ ۲۱۹) نازل فرمائی تو آپ سے پوچھا گیا کہ: "یارسول اللہ! "میسر" کیا ہے؟ فرمایا: "ہر وہ چیز جس سے جوا کھیلا جائے حتی کہ ہیالے اور اخروٹ بھی۔۔۔۔

پھر پوچھا گیا: "انصاب" کیا ہے؟ فرمایا: "وہ لوگ جو جانور اپنے (خود ساختہ) خداؤں کے لئے ذبح کیا کرتے تھے۔" پھر سوال کیا گیا: "ازلام" کیا ہے؟ فرمای: "ان لوگوں کے وہ تیرہیں جن کے ذریعہ وہ تقسیم مال کا کام لیا کرتے تھے"

(امام محمد باقرعلیہ السلام) وسائل ۱ شیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۱۹

۱۷۱۰۶ ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شراب اور جوا اور برط وغیرہ کو حرام فرمایا ہے۔

(حضرت رسول اکرم) سنن ابی داود جلد ۳ صفحہ ۳۳۱ صفحہ ۳۲۸