میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)0%

میزان الحکمت(جلد ہشتم) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف: حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 55215
ڈاؤنلوڈ: 5153

تبصرے:

میزان الحکمت(جلد ہشتم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 72 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55215 / ڈاؤنلوڈ: 5153
سائز سائز سائز
میزان الحکمت(جلد ہشتم)

میزان الحکمت(جلد ہشتم)

مؤلف:
اردو

فصل۔ ۱۶

( ۱) قصاص

قرآنِ مجید:

( ولکم فی القصاص………………………تتقون ) (بقرہ/ ۱۷۹)

ترجمہ۔ اے عقل والو! قصاص میں تمہاری زندگی ہے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

( یٰا یهاالذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی ) (بقرہ/ ۱۷۸)

ترجمہ۔ اے مومنو! جو لوگ مارے ڈالے جاتے ہیں ان کے بدلے میں قصاص (جان کے بدلے جان) لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔

( الشهرالحرام بالشهر الحرام…………………………معن المتیقن ) (بقرہ/ ۱۹۶)

ترجمہ۔ حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے برابر ہے۔ سب حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو، خدا سے ڈرتے رہو اور خوب سمجھ لو کہ خدا پرہیزگاروں کا ساتھی ہے۔

( وکتبنا علیهم فیها……………………هم الظٰلمون ) (مائدہ/ ۴۵۱)

ترجمہ۔ اور ہم نے اس (توریت) میں ان (یہودیوں) پر یہ فرض کر دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخم کے بدلے ویسا ہی برابر کا بدلہ زخم ہے۔ پھر جو (مظلوم، ظالم کی) خطا معاف کر دے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا، اور جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی ولگ ظالم ہیں۔

( ولاتقتلوا النفس التی………………………………کان منصورا ) ۔ (بنی اسرائیل/ ۳۳)

ترجمہ۔ اور جس جان کا مارنا خدا نے حرام کر دیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر، اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) اختیار دیا ہے۔ پس اسے چاہئے کہ قتل (خون کا بدلہ لینے) میں زیادتی نہ کرے، بے شک اس کی مدد کی جائے گی۔

حدیث شریف

۱۶۷۳۹ ۔ اے لوگو! قصاص کو زندہ رکھو، حق کو زندہ رکھو اور فرقوں میں نہ بٹ جاؤ، خود بھی سلامتی میں رہو اور دوسروں کو بھی سلامتی سے رہنے دو اس طرح تم صحیح و سالم اور بچے رہو گے۔

(حضرت رسول اکرم) امالی شیخ مغید ص ۵۳ حدیث ۱۵

۱۶۷۴۰ ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول( ولکم فی القصاص حیواة… ) کے بارے میں فرمایا: "قصاص میں زندگی اس لئے ہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرنا چاہے گا اسے یہ معلوم ہو گا کہ اس سے بھی قصاص لیا جائے گا، اور اس کی جان بھی چلی جائے گی۔ لہٰذا وہ قتل سے باز رہے گا۔ اس طرح ایک تو اس کی زندگی بچ جائے گی جس کے قتل کا ارادہ کیا گیا تھا۔ اور قتل کا ارادہ کرنے والے کی جان بھی قصاص سے محفوظ رہے گی۔ ان دو کے علاوہ اور لوگوں کی جانیں بھی محفوظ رہیں گی کیونکہ انہیں علم ہو گا کہ قصاص واجب و لازم ہے۔ لہٰذا اس کے خوف سے وہ قتل کی جرأت نہیں کریں گے۔

(امام زین العابدین علیہ السلام) تفسیر منسوب۔ امام حسن عسکری ص ۵۹۵

۱۶۷۴۱ ۔ میں نے چار باتیں ایسی کی ہیں جن کی تصدیق اللہ نے قرآن میں نازل کر دی ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں نے: "قتل (بطور قصاص)، قتل میں کمی پیدا کرتا ہے" پس خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرما دیا "ولکم فی القصاص حیوٰة"

(حضرت علی علیہ السلام) امالی طوسی ۴۹۴ حدیث ۱۰۸۲

۱۶۷۴۲ ۔ خداوند عالم نے ایمان کو واجب کیا ہے شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لئے اور قصاص کو واجب قرار دیا ہے خونریزی کے انسداد کے لئے

(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲

۱۶۷۴۳ ۔ پتھر جہاں سے آیا ہے اسی طرف سے پلٹا دو، کیونکہ سختی کو صرف سختی کے ساتھ ہی روکا جا سکتا ہے۔

(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۵۳۹۴

۱۶۷۴۴ ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پانچ تلواروں کے ساتھ معبوث فرمایا ہے۔ جن میں ایک تلوار نیام میں بند ہے اور اس کے کھولنے کچا کام ہمارے غیر کے پاس ہے جبکہ اس کے حکم دین کا اختیار ہمیں ہے۔ یہ وہ تلوار ہے جس کے ذریعہ قصاص لیا جاتا ہے جس کے بارے میں خداوند تعالیٰ فرماتا ہے: النفس بالنفس" یعنی جان کے بدلے جان ہےچنانچہ ا س کا حکم ہم دیتے ہیں لیکن اس کا چلانا مقتول کے ورثاء کا کام ہے۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) تفسیر عباسی جلد اول ص ۳۲۴ حدیث ۱۲۸

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: بابا "سلاح" (اسلحہ) "پانچ تلواریں")

۱۶۷۴۵ ۔ اے لوگو! میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ عنقریب تمہارے پسِ پشت میرے بارے میں کچھ بجو قسم کے لوگ باتیں بنانے لگیں۔ لہٰذا میں نے تم میں سے جس کسی کی عزت، بال، کھال یا مال میں سے جو کچھ لیا ہے تو محمد کی یہ عزت، بال، کھال اور مال سب حاضر ہیں، اٹھ کر اس کا قصاص لے لے، تاکہ بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ میں محمد کی دشمن و ناراضگی سے ڈرتا تھا اس لئے قصاص نہیں لیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ دشمنی و ناراضگی نہ تو میری فطرت ہے اور نہ ہی میری عادت ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۳۱

قصاص کے بارے میں علمی گفتگو

آیہ قصاص کے نزول اور ا س سے پہلے کے دور میں عرب معاشرہ قصاص اور قاتل کو سزائے موت دینے کا قائل تھا۔ البتہ ان کے قصاص کی کوئی حد مقرر نہیں تھی بلکہ یہ قبائل کی طاقت پر منحصر تھا، کیونکہ بعض اوقات تو ایک مرد کے بدلے ایک مرد کو اور ایک عورت کے بدلے ایک عورت کو قتل کر دیا جاتا تھا جبکہ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ ایک مرد کے بدلے دس مردوں کو اور ایک غلام کے بدلے میں ایک آزاد کو قتل کیا جاتا۔ کسی قبیلہ کسی رعایا کے فرد کے بدلے میں قاتل قبیلہ کے سردار کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا، بلکہ بسا اوقات صرف ایک مرد کے قتل کے بدلے میں ایک پورے قبیلے کو تباہ و برباد کر دیا جاتا۔

یہودیوں میں بھی قصاص کا رواج تھا اور وہ اس کے قائل تھے، جیسا کہ توریت باب ۲۱, ۲۲ سفر خروج، اور فصل ۳۵ سفر عدد میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔ قرآن مجید نے بھی اسے یوں بیان کیا( وکتبنا علیهم فیها ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص ) "یعنی ہم نے الواح میں ان کے لئے لکھ دیا ہے کہ ایک شخص کے بدلے ایک شخص، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخم کے بدلے زخم کا قصاص لیا جائے گا۔" (مائدہ/ ۴۵)

لیکن جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے عیسائیوں میں قتل کے بارے میں معافی اور خون بہا (دیت) کے علاوہ کوئی اور حکم نافذ نہیں تھا۔

اسی طرح دوسری اقوام و قبائل میں ان کے طبقات کے مختلف ہونے کے لحاظ سے بھی قتل کے بارے میں قصاص کا حکم تھا، یہ اور بات ہے کہ عصر حاضر کی طرح ان کے ہاں کوئی صحیح و مقررہ ضابطہ قصاص نافذ نہیں تھا۔

اس دوران اسلام کے عادلانہ نظام نے ایک منصفاہ راہ دکھائی، وہ یوں کہ نہ تو اس نے قصاص کو مکمل طور پر منسوخ کیا اور نہ ہی غیرمحدود پیمانے پر اس کی تائید کی، بلکہ قصاص کے حکم کو بحال رکھا لیکن قاتل کے لئے صرف سزائے موت ہی پر اکتفا نہیں کی، بلکہ ساتھ ہی مقتول کے وارثوں کو اختیار دے دیا کہ چاہیں تو قاتل کو معاف کر دیں اور چاہیں تو اس سے دیت (خون بہا) لے لیں۔ اس کے علاوہ قاتل اور مقتول کے درمیان مساوات کو بھی پیش نظر رکھا۔ وہ اس طرح کہ آزاد کے بدلے آزاد کو، غلام کے بدلے غلام کو اور عورت کے بدلے میں عورت کو ہی قتل کیا جائے گا۔

لیکن عصر حاضر میں قصاص اور خاص طور پر سزائے موت پر اعتراض کیا جاتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک نے جو قوانین شہریت مرتب کئے ہیں ان میں قصاص کو صحیح نہیں سمجھا جاتا بلکہ انسانوں پر اس کے اجرا کی مخالفت کی جاتی ہے۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ قاتل کو سزائے موت دینا ایک ایسا امر ہے جسے انسان کی طبیعت پسند ہی نہیں کرتی بلکہ اس سے نفرت بھی کرتی ہے۔ نیز یہ کہ ا س سے انسانیت کی توہین ہوتی ہے، رحم کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے تو ایک قتل نے انسانی معاشرے سے ایک فرد کو کم کر دیا تھا ، دوسرے قتل نے اس کمی کو پورا کرنے کی بجائے ایک اور فرد کو ختم کر دیا، یہ کمی بالائے کمی ہے۔ ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قتل کرکے قصاص لینا سنگدلی اور جذبہ انتقام کی علامت ہے، لہٰذا عوام کی تربیت کرکے سنگدلی کو ختم کیا جائے اور جذبہ انتقام کے تحت قاتل کو قتل کرنے کی بجائے سزا کے طور پر اس کی تربیت کرنی چاہئے۔ یہ سزا، قتل کے علاوہ ہونی چاہئے مثلاً قید بامشقت وغیرہ۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو مجرم قتل کا ارتکاب کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ نفسیاتی مریض ہوتا ہے اورکم عقلی کی وجہ سے اتنے بڑے جرم کا مرتکب ہوتا ہے، یہی وجہ ہے عقلمندوں کی عقل یہ کہتی ہے کہ ایسے مجرموں کو نفسیاتی ہسپتالوں میں داخل کرکے ان کا علاج کیا جائے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ "قوانین شہریت" معاشرتی تقاضوں کے پیش نظر وضع کئے جائیں کیونکہ معاشرہ ایک حال پر قائم نہیں رہتا بلکہ اس میں تغیر تبدل ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا قصاص کے حکم کو بدل دینا چاہئے کیونکہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ قصاص کے قوانین ابد تک کے لئے معتبر ہوں اور ترقی یافتہ اقوام پر بھی ان کا اجرا کیا جائے۔ اس لئے کہ عصر حاضر کے معاشرتی تقاضے اس بات کے خواہاں ہیں کہ جتنا ہو سکے افراد کی تعداد سے بھرپور استفادہ کیا جائے، ایسے قوانین بنائے جا سکتے ہیں جن سے مجرموں کو سزا بھی مل جائے اور ان کے وجود سے بھی استفادہ کیا جا سکے۔ نیز سزا ایسی ہو جو نتیجہ کے لحاظ سے قتل کے برابر ہو جیسے عمر قید یا طویل المیعاد قید وغیرہ۔ اس طرح سے ایک طرف تو معاشرے کا حق محفوظ ہو جاتا ہے اور دوسری طرف مقتول کے ورثاء کی دادرسی ہو جاتی ہے۔

یہ وہ اہم وجوہات جو سزائے موت کے مخالف اپنے نظریہ کے ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ لیکن قرآن مجید نے ان سب کا جواب صرف ایک آیت کے ذریعہ دے دیا ہے اور وہ یہ کہ : "ْن قتل نفسا بغیر نفس او فسا دفی الارض فکا نما قتل الناس جمیعا۔ و من احیا ھا فکا نما احیا الناس جمیعا" یعنی جو شخص کسی ایسے شخص کو قتل کر دے جس نے نہ تو کسی کو قتل کیا، اور نہ ہی زمین میں فساد کا ارتکاب کیا ہو، تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اسی طرح جو ایک شخص کو بچا لے تو گویا اس نے تمام انسانیت کو بچا لیا ہے۔ (مائدہ/ ۳۲)

چونکہ افرادِ انسانی کے درمیان رائج قوانین وصفی اور اعتباری ہوتے ہیں جن میں انسانی معاشرے کی مصلحت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے لیکن اصل وجوہات جو قانون سازی کا موجب بنتی ہیں۔ وہ انسان کے خارجی حالات ہیں جو اسے نقائص کے دور کرنے اور اس کی تکوینی ضروریات کے پورا کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

یہی خارجی حالات جو اس قسم کی کیفیت کا موجب ہوتے ہیں ، انسانوں کی تعداد یا ان کی قوت و طاقت یا ضعف و کمزوری پر منحصر نہیں ہیں بلکہ ان کے انسان ہونے کے ناطے ان پر احکام کا دارومدار ہوتا ہے۔ انسان خواہ ایک ہو یا ہزاروں، اس کی انفرادی حیثیت ہو یا اجتماعی، انسانیت کے لحاظ سے سب یکساں ہیں۔ ایک انسان بھی انسان ہے اور ہزاروں انسان بھی انسان ہیں۔ ایک عورت بھی انسان ہے اور ہزاروں عورتیں بھی انسان ہیں۔

اسی بنا پر جو شے انسانیت کے وجود کے لئے خطرناک ہو اور حیاتِ انسانی کے لئے خطرہ کا موجب ہو انسان کا فرض ہے کہ اس سے اپنا دفاع کرے خواہ اسے اس کو ختم کرکے ہی اپنا دفاع کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ جس شخص کو یہ شک ہو کہ کوئی شخص اسے قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے اور کیونکہ اس کے سوا اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہوتا۔

یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام، جو قصاص کو صحیح نہیں سمجھتیں، اگر ان کے استقلال و آزادی اور قومی نام نہاد حیثیت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، جنگ کے سوا انہیں اور کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا تو بے درنگ اس کے دفاع پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور جنگ کرنے سے نہیں چوکتیں، چہ جائے کہ دشمن ان کے غارت کرنے یا انہیں نیست و نابود کرنے کا پورا تہیہ کئے ہوئے ہو۔ اس بارے میں یہ اقوام اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کے غلط ہونے کا تاحد امکان دفاع کرتی ہیں، حتیٰ کہ دشمن کو قتل کرنے سے بھی باز نہیں آتیں، جنگ کے سوا انہیں کوئی اور راستہ نہ ملے تو جنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔

انہی تباہ کن، ہلاکت خیز اور نسل کی بربادی کی موجب جنگوں کے لئے مختلف اقوام ہمیشہ اپنے آپ کو تباہ کن ہتھیاروں سے لیس کرتی رہتی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسری قومیں بھی اسی کوشش میں مصروف رہتی ہیں کہ اپنے آپ کو اس طرح کے مہلک ہتھیاروں سے مسلح کریں کہ اسلحہ کی اس دوڑ میں ترقی یافتہ اقوام سے پیچھے نہ رہ جائیں، اور طاقت کا توازن برقرار رہے۔

ان اقوام کے پاس اس کی اور کوئی دلیل نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ اپنی اجتماعی و معاشرتی بقا کی حفاظت کر رہی ہوتی ہیں جس کے لئے وہ جنگ کا سہارا لیتی ہیں، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ایک انسان، معاشرہ اور اجتماع کی زندگی میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ ایک انسان بھی تو معاشرہ ہی کا ایک فرد ہوتا ہے۔ جس طرح کسی معاشرہ کی زندگی عزیز ہوتی ہے اسی طرح ایک انسان کی زندگی بھی قابل قدر حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔ جب فرد و معاشرہ کی زندگی ایک جیسی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کی بقا و تحفظ کے لئے تو مہلک اور تباہ کن جنگوں کا سہارا لیا جائے اور فرد کی حفاظت کا کوئی بندوست نہ ہو۔ جبکہ یہ فرض کیا جا چکا ہے کہ معاشرہ اسی طرح مدنی الطبع ہے جس طرح انسان ہوتا ہے۔

پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جنگ کے ذریعہ ا ن لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے جو کسی کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں حالانکہ ابھی انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا ہوتا۔ یہ اقدام ان اقوام کے نزدیک جائز بھی ہے اور صحیح بھی لیکن وہ پھر بھی قصاص کو صحیح نہیں جانتے جبکہ اس کا تعلق اقدامِ قتل کے بعد ہوتا ہے! آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز ایک اور بات بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ انسانی فطرت تاریخی واقعات کے ردعمل کا حکم دیتی اور کہتی ہے کہ "فمن یعمل مثقال خیرة خیرا یرہ و من یعمل مثقال ذرة شرایرہ" یعنی جو ذرہ برابر نیکی کرتا ہے وہ اسے دیکھ لیتا ہے اور جو ذرہ برابر برائی کرتا ہے بھی دیکھ لیتا ہے (سورہ زلزال/ ۸)

اگرچہ یہ کلام قرآن ہے کہ لیکن انسانی فطرت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ نیز ہر عمل کے ردعمل کا نظریہ اس کے پیش نظر ہے۔ مگر تعجب تو اس بات پر ہے کہ اس ردعمل کو اپنے خودساختہ قوانین ہیں تو پیش نظر رکھا جاتا ہے لیکن ایک قاتل مجرم کے قتل کرنے کو ظلم و خلاف قانون سمجھا جاتا ہے!!

مذکورہ تصریحات کے علاوہ اسلام و قرآن تمام دنیا میں اگر کسی انسان کی عظمت، قدر و قیمت، و شخصیت و حیثیت کا قائل ہے اور جس معیار پر کسی انسان کو پرکھتا ہے، وہ ہے "خدا اور دینِ توحید پر ایمان" اسی بنا پر ایک پورے انسانی معاشرہ اور ایک موجد انسان کی قدر و قیمت حیثیت و شخصیت و وزن برار ہیں، جب اسلام کا معیار یہ ہے تو اس کے نزدیک ایک فرد اور معاشرہ میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ اسلام کہتا ہے کہ "جو شخص کسی ایک موحد مومن کو قتل کرے تو گویا اس نے تمام انسانیت کا قتل کیا۔ اس لئے کہ ایک فرد کا قاتل اور پورے معاشرہ کا قاتل فطرت کے حکم کے اعتبار سے یکساں ہیں کیونکہ دونوں حقیقت کے تجاوز کرنے اور انسانیت کی ہتکِ حرمت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لہٰذا فطرت کے اصول کے مطابق ایک انسان کے قاتل اور تمام افراد کے قاتل میں کوئی فرق نہیں ہے۔

دنیا کی متمدن قومیں جو قصاص کے حکم پر اعتراض کرتی ہیں اس لئے نہیں کہ اس حکم میں کسی قسم کا نقص جانتی ہیں، جیسا کہ ہم ابھی بتا چکے ہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ دین کے احترام اور شرف کو تسلیم نہیں کرتیں۔ اگر وہ دین کے لئے کم سے کم شرف کی قائل ہوتیں یا اسی شرف یا معاشرتی تمدن کے برابر اس کا وزن تسلیم کرتیں۔ جبکہ قصاص کی اہمیت اس سے کئی گناہ زیادہ ہےتو یقینا اس بارے میں بھی اس اصول کا کبھی انکار نہ کرتیں۔

علاوہ ازیں اسلام عالمی سطح پر ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ازل سے ابد تک اس کی عمومی حیثیت مسلمہ ہے ایک قوم یا کسی ایک ملک کے ساتھ اس کا خصوصی تعلق نہیں ہے۔ دنیا کی متمدن اور ترقی یافتہ اقوام اس کے حکمِ قصاص پر اس لئے اعتراض کرتی ہیں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس کے تمام افراد مکمل طور پر تربیت یافتہ ہیں اور ان افراد کی حکومت دنیا کی بہترین حکومت ہے۔ عصرِ حاضر کی متمدن دنیا حکم قصاص پر اس لئے اعتراض کرتی ہے کہ دنیا نے جو اعداد و شمار اکٹھے کئے ہیں ان کی رو سے وہ یہ سمجھتی ہے کہ دنیا میں ترقی یافتہ افرا دکی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور اقوام عالم مجموعی طور پر قتل وغارت سے خودبخود نفرت کرتی ہیں، لہٰذا بہت کم تعداد میں قتل و غارت کی نوبت آتی ہے۔ اس لئے چونکہ قتل و خون کی صورت بہت کم پیش آتی ہے اس لئے وہ "خون کا بدلہ خون" سے کم سزا پر راضی ہیں۔

یہ ہے ان ترقی یافتہ اقوام کی دلیل لیکن اگر ان کی یہ دلیل صحیح بھی ہو تو مذکورہ صورت میں اسلام کو بھی اس بات پر اصرار نہیں ہے کہ "خون کا بدلہ خون" ہی ہو بلکہ اس صورت میں وہ قصاص کی صورت میں قتل کو لازم اور حتمی نہیں سمجھتا بلکہ اس نے ایک اور اختیار بھی دیا ہے یعنی معاف کر دینا۔

اسی لئے اس بات میں کیا حرج ہے کہ قصاص کی صورت میں اسلام کا حکم بھی باقی رہے اور تمدن و ترقی یافتہ دنیا اس کے دوسرے پہلو کو اختیار کرکے قاتل و مجرم کو سزائے موت دینے کی بجائے اسے معاف کر دے جیسا کہ خود آیہ قصاص میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: "ہر مجرم قاتل کو اگر مقتول کا بھائی جو اس کے خون کا وارث ہے، معاف کر دے اور دیت (خون بہا) لے کر راضی ہو جائے، قاتل بھی اس کی ادائیگی میں ٹال مٹول نہ کرے، اس کے احسان کا بدلہ چکا دے، (تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے)۔ یہ اندازِ بیان بجائے خود ایک اندازِ تربیت ہے اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر افرادِ ملت کی تربیت اس حد تک ہو چکی ہو کہ معافی عمومی طور پر ایک قابل فخر و موجبِّ افتخار سرمایہ سمجھا جانے لگے تو مقتول کے وارث بھی انتقام کی بجائے معافی کے رشتے کو ہی منتخب کریں گے اور سمجھیں گے "جو لطف عفو میں ہے، انتقام میں نہیں۔"

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں ہمیشہ سے ہر جگہ اسی طرح کا تمدن اور ترقی یافتہ معاشرہ موجود ہے؟ نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے کہ دنیا میں کچھ ایسی قومیں بھی ہیں جن کا انسانی اجتماعی و معاشرتی شعور، ابھی اس حد تک نہیں پہنچا!

ایسی صورت میں معاشرے کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ پھر وہ دوسری راہ اختیار کرے۔ لہٰذا اس طرح کے معاشروں میں صرف معاف کر دینے سے بات نہیں بنے گی یعنی اگر حکمِ قصاص کا اجرا نہ کیا جائے تو معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ اس بات کا شاہد ہمارا روزمرہ مشاہدہ ہے کہ مجرم افراد کو بامشقت قید سے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا، نہ کسی ناصح و واعظ کی پند و نصیحت ان کے لئے کارگر ثابت ہوتی ہے۔ وہ نہیں سمجھ پاتے کہ "انسانی حقوق" کیا ہوتے ہیں؟

اس قسم ے افراد کے لئے جیلیں تو امن و سکون کا گہوارہ بن جاتی ہیں حتیٰ کہ ان کا ضمی بھی جیلوں ہی میں جا کر سکون حاصل کرتا ہے۔ وہ لوگ جیل سے باہر کی زندگی کو جیل کے اندر کی زندگی سے زیادہ معزز سمجھتے ہیں جو حقیقت میں ایک پست اور بدبختی کی زندگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو نہ تو جیلوں کا خوف ہوتا ہے نہ اپنے لئے ذلت اور ننگ تصور کرتے ہیں، نہ ہی جیل کی مشقت سے ڈرتے ہیں، نہ وہاں کی مشقت و سختی کی پرواہ کرتے ہیں۔

اسی طرح ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جو معاشرے ابھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے، جن میں قصاص کا حکم کارفرما نہیں ہے، ان میں تباہیوں اور بربادیوں کے اعداد و شمار میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے یہ نتیجہ بآسانی نکالا جا سکتا ہے کہ "قصاص کا حکم ایک عمومی حکم ہے، جو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کی اقوام کو شامل ہے جبکہ ترقی پذیر یا غیرمتمدن اقوام کی تعداد دوسروں سے زیادہ ہے۔

اگر کوئی ملت ترقی کی اس حد تک پہنچ جائے اور اس کی تربیت اس انداز ہو کہ معاف کر دینے سے اسے روحانی مسرت حاصل ہو، تو اسلام بھی اس سے یہ نہیں پوچھا گا کہ تم نے اپنے باپ کے قاتل کو کیوں معاف کر دیا، اس لئے کہ اسلام بھی درگزر کر دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی قوم انخطاط و پستی کی راہ پر گامزن ہو اور نعمت خداوندی کا کفران نعمت سے جواب دے تو ایسی قوم کے لئے "قصاص" کا حکم زندگی کے درس کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ وہاں بھی عفو اور معافی کے حکم کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔

البتہ ان لوگوں کا یہ کہنا کہ "انسانیت پر رحم و کرم اس بات کا متقاضی ہے کہ قاتل کو سزائے موت نہ دی جائے" اس لئے قابل قبول کیونکہ ہر مقام اور مرحلے پر رحم و کرم قابل ستائش و لائق تعریف نہیں ہوتا۔ اسے فضلیت کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ سنگدل مجرم جسے انسانیت کا پاس نہیں اور دوسروں کے لئے اس کے دل میں رحم و کرم کا نرم گوشہ موجود نہیں، کسی کا قتل اس کے لئے ایسا ہے جیسے وہ پانی پی رہا ہو، قانون شکنی کا مرتکب ہو رہا ہو، آئین و قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہو، اسے کسی کی جان اور عزت و ناموس کا ذرہ بھر خیال نہ ہو، اس پر رحم و کرم اور مہربانی درحقیقت نیک، صالح، قانون کا احترام کرنے والے افراد پر ظلم کے مترادف ہو گا۔ اگر کسی شرط و شرائط کے بغیر مطلق طور پر کسی پر رحم و ترس کھایا جائے تو اس سے انسانی معاشرے کا ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ سارا نظام مختل ہو جائے گا اور انسانیت تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ انسانی فضلیتیں و اقدار تباہ ہو جائیں گی، بقول فارسی شاعر کے:

ترحم بر پلنگ تیز دندان ستمکاری بود بر گو سفندان

یعنی تیز دانتوں والے چیتوں اور بھیڑیوں پر رحم درحقیقت بھیڑ بکریوں پر ظلم ہو گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رحمدلی ایک قابلِ ستائش خصلت اور سنگدلی و جذبہ انتقام بری چیز ہے تو اس سے بھی کسی کو انکار نہیں، لیکن اس کا جواب وہی ہے جو ابھی بیان ہو چکا ہے۔ بلکہ یہاں پر تو ہم یہ بھی کہیں گے کہ ظالم سے مظلوم کا انتقام لینا اور حق و عدلت کی امداد، و طرفداری، مذموم یا بری بات نہیں ہے، اس لئے کہ اس طرح سے عدل و انصاف کے ساتھ محبت کا اظہار ہوتا ہے جو قابل ستائش ہے اور جس کا شمار فضلیت میں ہوتا ہے، رزذالت کے زمرے میں نہیں آتا علاوہ ازیں قصاص کو اس لئے لازم قرار دیا گیا ہے، اس سے انتقام لینا مقصود نہیں بلکہ اصل مقصد عمومی افراد کی تربیت اور فتنہ و فساد و دیگر برائیوں کا سدباب کرناہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ قتل جیسے جرم کا ارتکاب بذات خود ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ لہٰذا قاتل ایک نفسیاتی مریض ہوتا ہے جسے ہسپتالو ں میں داخل کرکے اس کا نفسیاتی علاج کیا جانا چاہئے۔ یہ قاتل کے لئے بذات خو دایک نہایت ہی معقول عذر ہے، حالانکہ یہ بودی دلیل اس بات کا موجب ہو رہی ہے کہ قتل و غارت، جرائم اور فحاشی میں دن بدن اضافہ ہوتا رہے جس سے انسانی معاشرہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مجرم جو قتل یا کسی دوسرے بڑے جرم سے لطف اندوز ہوتا ہے جب اس بات کا خیال کرتا ہے کہ جرم کا ارتکاب ایک عقلی و نفسیاتی بیماری ہے اور اسے اس جرم میں معذور سمجھ ر معاف کر دیا جائے گا، بلکہ حکومت اس قسم کے افرا دکا بڑی ہمدردی، پیار و محبت کے ساتھ علاج و معالجہ کرتی ہے، اس کے ساتھ نہایت ہمدردانہ سلوک کیا جائے گا، اسی طرح سب حکومتیں اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں گی، تو واضح سی بات ہے کہ ایسے مجرم ہر روز کم از اکم ایک شخص کو تو ضرور قتل کریں گے پھر اس کا انجام صاف ظاہر ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: "عالمِ انسانیت کو ایسے وجود سے استفادہ کرنا چاہئے، وہ اس طرح سے کہ ان سے کٹھن اور مشکل کام لئے جائیں، اور انہیں زندان میں رکھ کر معاشرہ میں داخل ہونے سے اور دوسرے جرائم کے ارتکاب سے روکا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کہنے والے اگر واقعاً سچ کہتے ہیں اور اپنی باتوں میں حقیقت سے کام لیتے ہیں تو پھر جب قانونی طور پر جسے سزائے موت دی جا رہی ہوتی ہے جو کہ موجودہ عام قوانین میں راجء ہے، تو اس وقت وہ یہ فیصلہ کیوں نہیں کرتے؟

پس معلوم ہوا کہ جہاں کسی کو سزائے موت دینی ہے وہاں پر وہ سزائے موت ہی کو دیگر تمام امور سے اہم سمجھتے ہیں۔ وہاں زندہ رکھنے، مشقت کے کام لینے اور جیلوں میں ڈالنے کی بات نہیں کرتے۔ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ فطرت اور حیثیت کے لحاظ سے فرد اور اجتماع برابر ہیں، (المیزان جلد اول ص ۴۳۴ ، ۴۳۸)

( ۲) قصاص سے درگزر کرنا

قرآن مجید

( فمن تصدق به فهو کفارة له ) (مائدہ/ ۴۵)

ترجمہ۔ تو جو شخص اس سے درگزر کرے تو اس کے لئے کفارہ ہو گا۔

حدیث شریف

۱۶۷۴۶ ۔ جس مسلمان کے جسم کو کسی قسم کی تکلیف پہنچے اور وہ اسے معاف کر دے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کر دے گا اور اس کی خطا کو معاف کر دے گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۵۰

۱۶۷۴۷ ۔ جب کسی مسلمان کے جسم کو کوئی زخم آئے اور وہ اس سے درگزر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اس کا اسی قدر کفارہ قرار دے گا جتنا اس نے درگزر سے کام لیا ہو گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۵۱

۱۶۷۴۸ ۔ جس کسی کے جسم میں نصف دیت کے مطابق کوئی تکلیف پہنچے اور وہ اس سے درگزر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نصف گناہوں کا کفارہ قرار دے گا، اگر ایک تہائی دیت کے برابر ہو گا تو ایک تہائی گناہ معاف ہوں گے، اگر ایک چوتھائی کے برابر ہو تو اس کے چوتھائی گناہ معاف ہوں گے۔ اسی طرح اس کی مقدار اس کا کفارہ ہو گا۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۹۸۶۱

۱۶۷۴۹ ۔ جو کسی کے خون (کا بدلہ لینے) سے درگزر سے کام لے گا تو اس کا ثواب جنت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۵۴

۱۶۷۵۰ ۔ جب کسی کے جسم میں کوئی تکلیف پہنچے اور وہ اسے خدا کے لئے معاف کر دے تو یہ اس کے لئے اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گا۔"

(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۵۳

۱۶۷۵۱ ۔ جب آپ سے خداوند عالم کے اس قول "فمن تصدق بہ فھو کفارة میں سوا لہ" کے بارے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "جو شخص جس قدر کسی کو معاف کرے گا اسی قدر اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گا۔

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۷ ص ۳۵۸ حدیث اول

۱۶۷۵۲ ۔ جب آپ سے اسی آیت کے بارے میں ابو بصیر نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: "اس کے گناہوں کا اسی قدر کفارہ ہوگا جس قدر اس نے اپنے زخم یا کسی اور مصیبت کو معاف کیا گیا ہو گا۔"

(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۷ ص ۳۵۸ حدیث ۲

(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: "عفو"