تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 216
مشاہدے: 82498
ڈاؤنلوڈ: 3878


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82498 / ڈاؤنلوڈ: 3878
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد 1

مؤلف:
اردو

عقبہ نے اپنے ساتھى دوست كے حكم پر عمل كيا اور جو بات كسى طرح مناسب نہيں تھى اسے كر ڈالا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كى اس ذليل حركت پر كوئي رد عمل ظاہر نہيں كيا صرف اپنا چہرہ صاف كيا پھر عقبہ كى طرف رخ كر كے فرمايا :

اگر مكہ كے باہر ميں نے تجھے پاليا تو تيرى گردن مار دوں گا _

ايك دوسرى روايت ميں ہے ، عقبہ كے دوست نے اسكى سر زنش كرتے ہوئے كہا :

_اے عقبہ، تم اپنے باپ دادا كے دين سے پھر گئے ہو ؟

_نہيں ، ايسا نہيں ہے ، ايك دن محمد ميرے مہمان ہوئے اور قسم كھائي كہ اگر ميں مسلمان نہيں ہو جائو نگا تو كھانا نہيں كھائونگا مجھے بڑى شرمندگى ہوئي انھيں خوش كرنے كے لئے زبان سے كلمہ پڑھ ليا سچ بتاتا ہوں كہ دل سے ايسا نہيں كيا ہے _

_اب ميں كبھى تمھارى صورت نہيں ديكھوں گا ، جب تك تم ان كے اوپر كلّى نہ كرو ، پھر انھيں طمانچے لگائو ، لاتوں اور گھونسوں سے انكى ضيافت كرو ، اسطرح ان سے اپنى بيزارى كا اظہار كرو _

عقبہ نے اپنے دوست كے اس حكم پر اسوقت عمل كيا جب انحضرت دار الندوہ ميں حالت سجدہ ميں تھے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمايا :

اگر ميں تجھے مكہ سے باہر ديكھوں گا تو سر كاٹ لوں گا _ * * * *

عقبہ اس واقعہ كے بعد رسول خدا كا سخت ترين دشمن ہو گيا ، پھر تو اس نے بكرى كى اوجھڑى لى اور اسكى سارى غلاظت اپ كے دروازے پر پھنيك ايا(۹)

جنگ بدر ہوئي تو عقبہ كے ساتھى مشركوں كے ہمراہ رسول خدا سے جنگ كے لئے نكلے ، عقبہ سے بھى كہا كہ اس جنگ ميں شريك ہو ، ليكن اس نے عذر كرتے ہوئے كہا كہ ، ميں اس شخص سے ڈرتا ہوں ، كيونكہ مجھ سے اس نے ايك دن كہا تھا اگر تجھے مكہ سے باہر ديكھوں گا تو گردن ماردوں گا _

____________________

۹_ طبقات بن سعد ج۱ ص ۸۶ مطبوعہ مصر

۱۰۱

دوستوں نے جواب ميں كہا :

تمہارى ران كے نيچے سرخ بالوں والا اونٹ ہے ، اگر ہم لوگ شكست كھا گئے تو اسانى سے ميدان بدر سے بھاگ جائو گے _

عقبہ كو اسكے دوستوں نے اتنا سمجھايا بجھايا كہ وہ راضى ہو گيا ، وہ سب اسے ميدان تك گھسيٹ لائے _

جنگ شروع ہوئي ،اور اسكى بھٹى گرم ہوتى گئي ، اخر كار خداوند عالم نے مسلمانوں كو فتح عطا كى ، اس ہنگامے ميں عقبہ كا شتر بھاگا اور اسے ايك ہموار ميدان ميں پہونچا ديا ، مسلمان اسكے سر پر پہونچ گئے اور ديگر ستر قيديوں كى طرح اسے بھى گرفتار كر ليا _

جب عقبہ كو خدمت پيغمبر ميں لائے تو اپ اسے گھورنے لگے پھر اپ نے اسكے قتل كا حكم ديديا

عقبہ نے قتل كا فرمان سنا تو چلانے اور فرياد كرنے لگا _

ہائے اپ ان تمام قيديوں ميں صرف مجھے ہى كيوں قتل كر رہے ہيں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ، تيرا گناہ بہت سنگين ہے ، تجھے اسلئے قتل كيا جارہا ہے كہ تو نے خدا ورسول سے كفر كيا اور ظلم كيا ، پھر اپ نے حضرت على كو حكم ديا كہ اسكا سر بدن سے جدا كر دو _

قران كى يہ آيت اسى واقعے كى طرف اشارہ ہے _

اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں كو اپنے دانتوں سے كاٹتا ہو گا ، كہے گا كاش ميں پيغمبر سے رسم و راہ ركھتا ، كاش ميں فلاں شخص كى بات نہ مانتا اس نے مجھے نصيحت قبول كرنے سے بہكا ديا ، جبكہ وہ ميرے پاس پہونچى تھى ، اور شيطان تو انسان كو بے سہارا چھوڑ نے والا ہے(۱۰)

____________________

۱۰_ سورہ فرقان آيت ۲۷ و۲۹ ، سيرہ بن ھشام ج۱ ص۳۸۵ وج۲ ص۲۵، تفسير طبرى ،قرطبى ، زمخشرى ، ابن كثير ، در منثور نيشاپورى امتاع الاسماع ص۶۱و۹۰

۱۰۲

قرآن نے وليد كا تعارف كرايا

وليد اسى عقبہ كا بيٹا ہے جس دن مسلمانوں كے ہاتھوں مكہ فتح ہوا اور پيغمبر اسلام كے قبضے ميں ايا ، مشركوں اور گمراہوں كو بھاگنے كى راہ نہ رہى يہ وليد اسى دن مسلمان ہوا ، كچھ دن بعد رسول خدا نے اسكو قبيلہ بنى المصطلق كى زكواة وصول كر نے كيلئے بھيجا _

وليد تھوڑے ہى دن بعد واپس اگيا اور رپورٹ دى كہ قبيلے كے افراد مرتد ہو گئے ہيں ، زكات دينے سے انكار كر رہے ہيں _

وليد كے اس رپورٹ دينے كى وجہ يہ تھى كہ قبيلہ بنى المصطلق كے كچھ لوگ وليد كے انے كى خبر سنكر اسكے استقبال كيلئے ابادى سے باہر اگے تھے تاكہ فرستادہ ء رسول كو خوش امديد كہيں ، ليكن وليد نے انكى بھيڑ ديكھ كر اپنى دانست ميں يہ سمجھا كہ يہ لوگ برى نيت سے ائے ہيں ، بغير ان سے بات كئے تيزى سے مدينہ واپس لوٹ گيا اور يہ جھوٹى رپورٹ دے ڈالى _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خالد بن وليد كو مامور فرمايا كہ جا كر مذكورہ قبيلے كى حقيقت حال دريافت كرے اور رپورٹ دے ، خاص طور سے خالد كو انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تاكيد فرمائي كہ خالد كسى معاملے ميں جلدى نہ كريں اور گہرائي كے ساتھ مسئلے كا تجزيہ كريں _

خالد نے واپس اكر رپورٹ دى كہ قبيلے كے افراد اسلام سے وابستہ ہيں ، ذرا بھى مرتد نہيں ہوئے ہيں ، ان حالات ميں يہ آيت نازل ہوئي جسميں خالد كو فاسق اور بد كردار كى حيثيت سے متعارف كرايا گيا _

اے وہ لوگو جو ايمان لائے ہو اگر كوئي فاسق اور بد كر دار تمھارے پاس كوئي خبر ليكر ائے تو تحقيق كر ليا كرو كہيں ايسا نہ ہو كہ تم كسى گروہ كو نادانستہ نقصان پہونچا بيٹھو اور پھر اپنے كئے پر پشيمان ہو(۱۱)

___________________

۱۱_ سورہ ء حجرات آيت ۶ ----''ان جاء كم فاسق ...''

۱۰۳

يہ ہيں مسلمانوں كے خليفہ عثمان جو اپنے كو رسول خدا كا جانشين سمجھتے ہيں ، ايسے فاسق مشھور بد كردار كو صرف رشتہ دارى كى وجہ سے كوفے كى گورنرى سپرد كرتے ہيں ،اور سعد بن وقاص كو وہاں سے ہٹا ديتے ہيں جو كوفہ كے مطلق العنان حكمراں اور پيش روخليفہ حضرت عمر كے زمانے سے گورنر چلے ارہے تھے ، حالانكہ سعد نے حكومت عمر كے زمانے ميں ان كے حكم سے كوفہ كى بنياد ركھى تھى جو دلالوں كى سر حد تھى ، اور وہ فوجى جو ايران كى جنگ ميں شامل تھے ، وہيں سكونت پذير ہو گئے تھے ، كوفہ والے سعد كا بہت احترام كرتے تھے _

بد كردار كو حكمراں كا عہدہ

جب وليد كوفے پہونچا اور سعد كو اسكى ماموريت كى خبر ہوئي تو وليد كى طرف رخ كر كے تعجب سے پوچھا _

ہم لوگ ايك دوسرے سے دور تھے ، ہم نہيں جانتے تھے كہ تمھارى پچھلى مكارى و حماقت ميرے بعد ہو شيارى و سمجھدارى ميںبدل گئي نتيجہ ميں تم نے لياقت بہم پہونچالى _

يا حقيقت ميں يہ ہم ہيں كہ احمق و نادان ہو گئے ہيں ؟ وليد نے جواب ديا اے سعد خفا نہ ہو ، يہ حكومت و سلطنت ہے جو گيند كى طرح ايك ہاتھ سے دوسرے ہاتھ ميں پہونچتى رہتى ہے ، سعد نے اطمينان سے جواب ديا ہاں ، ميں ديكھ رہا ہوں كہ تم لوگ بہت جلد اسے ملوكيت ميں بدل دو گے(۱۲) كوفے كے باشندوں نے بھى اس تبديلى اور حكومت كے تغير پر اپنى خفگى ظاہر كرتے ہو كہا :

عثمان نے سعد بن وقاص كے بہت برے جانشين كو مقرر كيا ہے ، حكومت وليد بن عقبہ كے مسئلے پر ابو الفرج نے اغانى ميں خالد بن سعيد اموى سے يوں روايت كى ہے _

عباس بن عبد المطلب ، ابو سفيان ، حكم بن ابى العاص ، وليد بن عقبہ ہى وہ مخصوص افراد تھے جو مسند حكومت پر عثمان كے پہلو ميں بيٹھتے تھے_

ايك دن عادت كے مطابق وليد خليفہ كے پاس بيٹھا تھا اتنے ميں عثمان كا چچا حكم اگيا ، عثمان احترام حكم ميں اپنى جگہ سے اٹھكر الگ بيٹھ گئے اور حكم كو اپنى جگہ پر بيٹھا يا

____________________

۱۲_ حالات وليد ، استيعاب ، طبقات ، اسد الغابہ ، اصابہ ، اور كنز العمال اور آيت زير بحث سے متعلق تمام تفاسير ديكھى جا سكتي

۱۰۴

حكم كيلئے عثمان كے اس برتائو سے وليد بہت خفا ہوا ، ليكن سامنے كچھ نہ بولا ،ليكن جب حكم چلا گيا تو عثمان سے كہنے لگا _

اے امير المومنين جس وقت اپ نے ميرے اوپر حكم كو ترجيح دى تو ميرے دل ميں يہ دو شعر گونجے _

عثمان نے كہا ، اخر حكم قريش كا بزرگ ہے ، اسكا احترام ميرے اوپر واجب ہے ،ليكن وہ دو شعر كيا ہيں ؟ وليد نے يہ دو شعر پڑھے _

ميں نے ديكھا كہ اپنے چچا كى بھائي سے زيادہ قدر كرتا ہے ، حالانكہ يہ نئي بات ہے ، قديم زمانے سے ايسا نہ تھا _

جب ميں نے ايسا ديكھا تو ميں نے ارزو كى كہ (عمر و خالد ) عثمان كے دونوں فرزند بڑے ہو جائيں اور قيامت كے دن مجھے چچا پكاريں

عثمان كا دل ان دو شعروں سے بھن گيا ، كيونكہ وہ مادرى بھائي تھا مزيد دل نہ دكھے اسلئے مملكت اسلام كا ايك گوشہ حوالے كرتے ہوئے كہا ''ميں نے تمھيں حكومت عراق عطا كى ''

اور اسطرح ايك گمنام اور قران كى زبان ميں فاسق ناموس اسلام كا مطلق العنان فرماں روا بنا ديا گيا _

خليفہ كے چچا حكم

اب نامناسب نہيں ہو گا كہ حكم كا بھى تعارف كر ا ديا جا ئے كہ وہ كون ہے اور اسكے كيا كرتوت ہيں كہ جسكا اتنا احترام عثمان جيسا خليفہ كر رہا ہے_

حكم بن ابى العاص عثمان كا چچا ہے اوراميہ بن عبد الشمس كے خاندان سے ہے ، بلاذرى جلد پنجم ص ۲۷ پر لكھتا ہے :

رايت لعم المرء زلفى قرابة

دوين اخيه حادثا لم يكن قدما

فاء ملت عمراً ان يشب و خالدا

لكى يدعوانى يوم مزحمة عما

۱۰۵

حكم جاہلى زمانے ميں رسول خدا كا ہمسايہ تھا ، بعثت كے بعد وہ تمام پڑوسيوں سے زيادہ انحضرت كى اذيت ميں كوشاں تھا ، حكم فتح مكہ كے بعد اسلام لايا اور مدينے ميں سكونت اختيار كر لى ، ليكن مسلمانوں كى قربت كے باوجود اپنى دينى سستى اور بد اعتقادى ميں مشھور تھا ، كيونكہ حكم اگر چہ اسلام لے ايا تھا ليكن رسول خدا كے پيچھے پيچھے چلتا اور اپ كى نقل كرتا تھا ، ہاتھ اور منھ سے اپ كو چڑھا تا تھا ، نماز كے وقت مسخرہ پن ميں انگليوں كو ٹيڑى اور سيدھى كرتا، اصطلاحى حيثيت سے وہ گويا جو كربن جاتا _

ايك دن وہ رسول خدا كے پيٹھ پيچھے جو كروں كى حركتيں كر رہا تھا كہ انحضرت نے ديكھ ليا ، اپ نے غصہ ميں حكم ديا _

ايسا ہى ہو جا _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نفرين كا يہ اثر ہوا كہ وہ تمام عمر اسى حالت ميں رہا ، سر اور منھ ہميشہ كپكپاتا رہتا تھا ، عمر بھر كى تھر تھرى لگ گئي _

مسلمانوں كو حق تھا كہ حكم كے اسلام كے بارے ميں مشكوك رہيں ، كيونكہ وہ اپنے مسخرہ پن كے تا عمر عذاب كے باوجود رسول خدا كى اذيت سے باز نہيں اتا ، ايك دن انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى ايك بيوى كے ساتھ حجرے ميں تھے كہ وہ سوراخ سے جھانكنے لگا ، انحضرت ڈنڈا ليكر باہر نكلے اور فرمايا كون مجھے اس كمينے چھپكلى بچے سے نجات دے گا(۱۳)

پھر اپ نے فرمايا ، يہ اور اس كے بيٹوں كو حق نہيں كہ ميرے ساتھ ايك شھر ميں رہيں ، اپ نے ان كو طائف ميں جلا وطن كر ديا _

رسول خدا كى وفات كے بعد عثمان نے ابو بكر سے سفارش كى كہ حكم اور اسكے بيٹوں كو مدينے واپس بلا ليا جائے ، ابو بكر نے بات نہ مانى اور كہا :

ميرى يہ جراء ت نہيں كہ جسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے دھتكار ديا ہے اسے مدينہ واپس انے كى اجازت دوں _

____________________

۱۳_ من غديرى من ھذا الوزغ اللعين

۱۰۶

جب عمر خليفہ ہوئے تو عثمان نے اپنے مطالبے كى تجديد كى ليكن عمر سے بھى جواب سنا ، ليكن جب خود خليفہ ہوئے تو حكم اور اسكے بيٹوں كو مدينہ واپس بلا ليا اور كہا :

ميں نے رسول خدا كى خدمت ميں حكم كى سفارش كى تھى كہ حكم كو مدينہ بلا ليا جائے ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھى اسے قبو ل فرما ليا تھا ، ليكن وفات رسول كى وجہ سے ايسا نہ ہو سكا _

مسلمان اس راندہ رسول كى مدينہ واپسى سے خو ش نہ تھے ، بلا ذرى ص۲۲۵ پر لكھتا ہے حكم اسرار پيغمبر كو فاش كرتا ، انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس پر نفرين كى اور اسكے ساتھ بيٹوں كو بھى طائف جلا وطن كر ديا ، اور فرمايا وہ ميرے ساتھ ايك شہر ميں نہيں رہے گا _

حكم نے خلافت عثمان كے زمانے تك اپنے بيٹوں كے ساتھ طائف ميں گذر بسر كى ، يہاں تك كہ عثمان نے اسے مدينہ واپس بلا ليا ، صفحہ ۲۸ پر ہے كہ عثمان كى اس حركت سے تمام مسلمان خاص طور سے انتہائي غم و غصہ ميں بھر گئے كہ انھوں نے حكم كو مدينہ واپس بلا ليا ، اور يمن كے قبيلہ ء خزاعہ كى ، وصولئي زكوة پر مامور كيا ، پھر تمام حاصل شدہ رقم جو تين لاكھ تھى اسى كو بخش دى ، ص ۲۷ پر لكھا ہے كہ:

حكم خليفہ عثمان كے زمانے ميں مرا ، خود عثمان نے اس كى نما ز جنازہ پڑھى ، پھر اسكے احترام ميں حكم ديا كہ قبر پر خيمہ لگا يا جائے_

جى ہاں ، حكم جسے عثمان اپنى جگہ پر بٹھا تے ، خود اسكے ما تحت بيٹھتے ايسى اہم اور معروف شخصيت كے بارے ميں قارئين كيا فيصلہ كريں گے ؟

حكم كے حالات كيلئے استيعاب ، اسد الغابہ اور اصابہ ديكھى جائے _

۱۰۷

ابن مسعود پر كيا بيتي

ابو عبد الرحمن كنيت تھى ، عبد اللہ بن مسعود ھذلى نام تھا ، ان كے باپ مسعود قبيلہ زھرہ كے ہم پيمان تھے ، ابن مسعود سابقين اسلام ميں سے تھے ، اور اس وقت كہ جب كسى ميں ہمت نہ تھى كہ مكہ ميں بلند اواز سے قران پڑھ سكے انہوں نے اس بارے ميں پہل كى اور بلند اواز سے ايات الہى كو ان مشركين كے كانوں تك پہونچايا جو اس سے نا اشنا اور غافل تھے ، قريش نے فرزند مسعود كو سزا دئے بغير نہيں چھوڑا ، اپ كو اسقدر مارا كہ زخمى كر كے خون ميں لت پت ايك كونے ميں ڈال ديا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انھيں اپنے پاس ركھتے ، وہ بھى رسول خدا كى دل و جان سے خدمت كرتے

يہاں تك كہ رسول خدا نے ان سے فرمايا ، جہاں تك ميرى اواز سن سكو تمھيں اجازت ہے _

ابن مسعود ہميشہ خدمت ميں رہے ، اپ سے كبھى جدا نہ ہوئے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جوتياں اپنے پا س ركھتے اور پنھاتے ، اپ كے ساتھ ساتھ چلتے كبھى اپ كے اگے بھى چلتے تاكہ اپ كے محافظ رہيں ، جب رسول خدا نہاتے تو اپ پردہ كرتے تاكہ كوئي انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا بدن نہ ديكھ سكے ، جب اپ سوتے تو اپكى حفاظت كرتے ، اپ ہى انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خواب سے جگاتے ابن مسعود نے حبشہ اور مدينہ دونوں ہجرت كى جنگ_ بدر اور دوسرى جنگوں ميں شريك رہے ، وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد اپ كى زندگى كے بارے ميں يہ ملتا ہے كہ(۱۴)

عمر نے انھيں عمار ياسر كے ساتھ كوفہ بھيجا وہاں كے باشندوں كو خط لكھا كہ ميں عمار ياسر كو حكمراں بنا كر اور عبد اللہ بن مسعود كو انكا مشاور اور امور دين كا معلم بنا كر بھيج رہا ہوں ، يہ دونوں رسول خدا كے مخصوص اصحاب اور جنگ بدر ميں شريك رہے ہيں ، انكى پيروى كرتے ہوئے انكى باتيں دل و جان سے سنو ، ان كے فرماں بردار رہو ، اور اس بات كو سمجھ لو كہ ميں ابن مسعود كو بھيجكر تم لوگوں كو اپنے اوپر ترجيح دے رہا ہوں(۱۵)

ابن مسعود كوفے والوں كو قران كى تعليم ديتے ، انھيں دينى مسائل بتاتے اسى كے ساتھ ساتھ وہ بيت المال كے خزانچى بھى تھے _

____________________

۱۴_ مسند احمد بن حنبل ج ۵ص۳۸۹ ، مستدرك ج۳ص ۳۱۵ و ۳۲۰ ، حليہ ابو نعيم ج۱ص ۱۲۶ و ۱۲۷ كنزالعمال ج ۷ص ۵۵ ، بخارى كى بعض روايات خود اپ ہى سے مروى ہيں

۱۵_ اسد الغابہ ۳/ ۲۵۸

۱۰۸

خليفہ عثمان نے اپنے رضائي بھائي وليد كو كوفے كا گورنر بنا ديا ، وليد كوفہ ايا اور حكمرانى كرنے لگا ، ليكن ابن مسعود كے ہاتھ ميں تمام ماليات كے امور رہے _

پہلے سے رسم چلى ارہى تھى كہ ہر گورنر جب چاہتا بيت المال سے قرض لے ليتا پھر معين مدت ميں واپس كر ديتا ، وليد نے بھى ايسا ہى كيا قرض كى معينہ مدت ختم ہونے كے بعد ابن مسعود نے اس سے تقاضا كيا ، پھر ٹال مٹول ہوا تو اپ نے اصرار كيا ، ابن مسعود كى يہ گستاخى وليد كيلئے ناقابل برداشت تھى ، ايك خط عثمان كو لكھ كر اس مزاحمت سے چھٹكارے كے سلسلے ميں مدد كى درخواست كى ، عثمان نے ابن مسعود كو فوراً خط لكھا (تمہارى حيثيت ميرى جانب سے صرف خزانچى كى ہے ، جو روپيہ بھى وليد خزانے سے لے تمھيں اسكے مطالبے كا حق نہيں )

جب يہ خط ابن مسعود كو ملا وہ سمجھ گئے كہ اس اہم ذمہ دارى كو وہ بخوبى نبھا نہ سكيں گے ، انھوں نے خزانے كى چابى وليد كے سامنے ڈالتے ہوئے كہا :

ميں اج تك سمجھتا تھا كہ مسلمانوں كے مال كا محافظ ہوں ، ليكن يہ نہيں معلوم تھا كہ تمھارا خزانچى ہوں ، مجھے اسكى ضرورت نہيں ، ميں اس عہدے سے استعفا ديتا ہوں_(۱۶)

ابن مسعود خزانچى كے عہدے سے مستعفى ہونے كے بعد بھى كوفے ہى ميں رہے اس واقعے كے بارے ميں عقد الفريد ميں ہے كہ :

ابن مسعود نے مسجد كوفہ ميں مسلمانوں سے خطاب كيا ، اے كوفہ والو تمھيں معلوم ہونا چايئے كہ اج رات تمہارے بيت المال سے ايك لاكھ كم ہو گيا ہے ، بغير اسكے كہ امير المومنين حكم ديں ،يا ميرى ذمہ دارى ختم كريں وہ نكال ليا گيا ہے _

وليد نے سارى كہانى اور ابن مسعود كى باتيں عثمان كو لكھ ديں عثمان نے بھى ابن مسعود كو اس عہدے سے برطرف كر ديا(۱۷)

بلاذرى انساب الاشراف ميں لكھتے ہيں كہ :

____________________

۱۶_ انساب الاشراف بلاذرى ج۵ص ۳۶

۱۷_عقد الفريد ج۲ ص۲۷۲

۱۰۹

جس وقت ابن مسعود نے وليد كے سامنے چابى پھينكى تو غصے سے كہا ، جو شخص احكام خدا كو اپنى خواہش كے مطابق پھرائے تو خدا وند عالم اسكى عاقبت خراب كردے گا ، اور جو شخص اپنى خواہش كے مطابق اسے بدل دے تو خدا اس پر غضبناك ہوتا ہے ، ميں عثمان كو ايسا ہى پا رہا ہوں ، كيا يہ جائز ہے كہ سعداور وقاص جيسى شخصيت كو ہٹا كر كوفے كى گورنرى وليد كو ديدى جائے ؟

ابن مسعود اكثر فرماتے ، سب سے اچھى بات قران ميں خدا كى بات ہے ، اور سب سے پسنديدہ راستہ وہى ہے جسے پيغمبر خدا نے دكھايا ، اور بد ترين كام بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہى ہے ، اور گمراہى كا نتيجہ اتش دوزخ ہے(۱۸) وليد نے يہ سارى باتيں اور ابن مسعود كى طنزيہ تقرير يں عثمان كو لكھ ماريں اخر ميں لكھا كہ ابن مسعود تمہارى برائياں كرتے ہيں ، تمھيں گالياں ديتے ہيں ، عثمان نے ان كو مدينے بلا بھيجا _

جس وقت كوفہ والوں كو مدينے ميں ابن مسعود كے حاضر ہونے كى خبر ملى اپ كے گرد جمع ہو گئے ، ان سے كہا كہ اپ نہ جايئے _

يہيں ہم لوگوں كے پاس رہيئے ہم لوگ اپ پر اذيت نہ ہونے ديں گے ابن مسعود نے ان لوگوں كو جواب ديا _

انہوں نے ميرے اوپر اطاعت كا حق ڈالا ہے ، جہاں تك ميرى بات ہے ميں نہيں چاہتا كہ ان كے اوپر فتنے كا دروازہ كھولنے والا پہلا شخص بنوں اور ان كے حكم كى نافرمانى كروں(۱۹)

استيعاب ميں ہے كہ ابن مسعود نے كوفے والوں كو يہ جواب ديا ، يہ اوضاع و احوال اپنے پيچھے فتنے لئے ہوئے ہيں ، مجھے پسند نہيں كہ فتنہ ميرے ہاتھوں شروع ہو _

كوفے كے باشندے ابن مسعود كو رخصت كرنے دور تك گئے ، انھوں نے تمام لوگوں كو تقوى اور احكام خداوندى پر عمل كرنے كى نصيحت كى پھر ان لوگوں سے كہا كہ اپنے گھروں كو واپس جائيں ، اور خود مدينے كى طرف چل پڑے _

كوفے والوں نے بھى ابن مسعود كى ستايش كى ، جس وقت وہ مدينے كى طرف روانہ ہوئے تو انكى زحمتوں اور حقوق كا شكريہ ادا كرتے ہوئے كہنے لگے ، خدا وند عالم اپ كو جزائے خير دے ، اپ نے ہمارے ناواقفوں كو دين سے اشنا كيا ، اور واقفكاروں كو دين كا ثبات عطا كيا ، ہميں قران سكھايا ، دين و ائين سے اشنا كر كے بينا كيا ، واقعى اپ اچھے مسلمان ، اچھے خير خواہ اور مہربان بھائي كى طرح رہے ، پھر الوداع كہكے سبھى لوٹ گئے(۲۰)

____________________

۱۸_ ا نساب الاشراف ج۵ص۳۶

۱۹_ ا نساب الاشراف بلاذرى ج ۵ص۳۶

۲۰_ استيعاب ميں حالات بن مسعود ديكھئے

۱۱۰

ابن مسعود مدينہ پہونچكر سيدھے مسجد ميں گئے ، اس وقت عثمان منبر پر تقرير كر رہے تھے ، ابن مسعود كو ديكھا تو گفتگو كا رخ بدل كے بولے _

يہ ديكھو چوپايہ پست خصلت اور پھكڑ تمہارے درميان اگيا ، مانند اسكے كہ جب روٹيوں كى طرف ہاتھ بڑھايا جائے تو جو كھايا ہے قئے كر دے _

ابن مسعود نے عثمان كے زخم زبان كا جواب ديا :

نہيں ، عثمان ميں ايسا نہيں ہوں ، بلكہ ميں وہ صحابى رسول ہوں جسے جنگ بدر اور بيعت رضوان ميں شريك ہونے كا فخر حاصل ہے(۲۱)

عائشه بھى حجرے سے چيخ پڑيں ، ارے عثمان تم رسول كے ہمدم اور صحابى كے لئے ايسى بات كہہ رہے ہو؟

عثمان نے عائشه كے جواب ميں چلا كر كہا ، خاموش رہو ، اور پھر حكم ديا كہ ابن مسعود كو مسجد سے نكال باہر كر ديا جائے _

خليفہ كے حكم سے ابن مسعود كو بڑے توہين اميز انداز ميں مسجد سے نكالا گيا ، عبداللہ زمعہ نے انكو زمين پر پٹك ديا ، يہ بھى كہتے ہيں كہ عثمان كے غلام يحوم نے انھيں دونوں ٹانگيں پكڑ كر اٹھا يا اور اتنى زور سے زمين پر پٹكا كہ پسلياں ٹوٹ گئيں_

حضرت عليصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو اس سارے منظر كو ديكھ رہے تھے _فرمايا اے عثمان صرف وليد بن عقبہ كى رپورٹ پر صحابى رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا كے ساتھ يہ سلوك كر رہے ہو؟ عثمان نے جواب ديا نہيں ،صرف وليد كى رپورٹ ہى نہيں ،ميں نے زبيد بن صلت كندى كو بھى تحقيقات كے لئے كوفہ بھيجا تھا ، ابن مسعود درد كى شدت سے تڑپ رہے تھے ،چلانے لگے ، خون عثمان حلال ہے حضرت على نے عثمان كو جواب ديا _

تم نے زبيد جيسے غير معتبر پر اعتماد كيا ہے ، يہ فرمايا اور ابن مسعود كو علاج كرانے كيلئے اپنے گھر ليكر چلے گئے _

ا بن مسعود اس حادثے كے بعد مدينے ہى ميں رہے ،عثمان نے انھيں مدينے سے باہر جانے كى اجازت نہيں دى ، يہاں تك كہ جب وہ اچھے ہو گئے تو روميوں سے جہاد كيلئے انھوں نے اجازت مانگى ليكن عثمان نے اجازت نہيں دي_

____________________

۲۱_ ابن مسعودنے اس جواب سے عثمان پر طنز كيا ، كيونكہ عثمان نہ تو جنگ بدر مين شريك تھے نہ بيعت رضوان ميں

۱۱۱

اس خاص موقع پر روايت ہے كہ جب ابوذر ان سے اجازت مانگ رہے تھے ، اور عثمان ابھى اجازت دينے نہ دينے كى كشمكش ميں تھے كہ مروان بول پڑا _

اس شخص نے عراق كو تمہارے خلاف بھڑ كايا ، عراقيوں كو تم سے بد گمان كيا ، اب شام كى بارى ہے ،يہ چاہتا ہے كہ وہاں كے لوگوں كو تمہارے خلاف بغاوت پر ابھارے اس طرح ابن مسعود زندگى بھر مدينے سے باہر نہ جاسكے، حقيقت ميں وہ نظر بند تھے ،يہاں تك كے قتل عثمان كے دو سال قبل انھوں نے انتقال فرمايا، اس درميان ابن مسعود مدينے ميں تين سال رہے بن مسعود اور عثمان كے درميان اخرى بات چيت بہت زيادہ لائق توجہ ہے _

جس وقت وہ بستر بيمارى پر پڑے زندگى كے اخرى لمحے گن رہے تھے ، عثمان انكى عيادت كے لئے سرھانے پہونچے اور كہا ، كيا تكليف ہے

اپنے گناہوں كا بوجھ

كيا خواہش ہے ؟

خداوند عالم كى بخشش و رحمت

كيا علاج كيلئے ڈاكٹر بلائوں؟

ڈاكٹر نے خود ہى مجھے بيمار كيا ہے

كيا تمہارا وظيفہ دينے كا حكم ديدوں

( دو سال سے بن مسعود كا وظيفہ بند تھا(۲۲)

جب مجھے اسكى ضرورت تھى تم نے نہيں ديا، اب جبكہ ضرورت نہيں ہے ، تم مجھے دينا چاہتے ہو،

تمہارے بيٹوں كيلئے باقى رہے گا_

انكى روزى خدا ديتا ہے،

_________________

۲۲_ تاريخ بن كثير ج۷ ص۱۶۳ ، يعقوبى ج۲ ص۱۹۷ ، مستدرك ج۳ ص۱۳

۱۱۲

خدا سے دعا كرو كہ ( جو كچھ ميں نے تم پر ظلم ڈھايا ہے ) معاف كر دے

خدا سے دعا كرتا ہوں كہ تم سے ميرا حق لے،

ابن مسعود نے وصيت كى تھى انكى نماز جنازہ عمار ياسر پڑھائيں ، عثمان ميرے جنازے ميں شريك نہ ہوں ، ان كى وصيت كے مطابق عمل كيا گيا اور عثمان كو خبر كئے بغير جنت البقيع ميں دفن كر ديا گيا(۲۳)

جب عثمان كوا بن مسعود كے مرنے كى خبر ملى تو سخت غصہ ہوئے اور كہنے لگے ، مجھے خبر ديئے بغير تم لوگوں نے ايسا كرديا؟

عمار ياسر نے جواب ديا ،انھوں نے خود وصيت كى تھى كہ تم ان كى نماز جنازہ نہ پڑھائو، عبداللہ بن زبير نے اسى كے مناسب حال شعر كہا ہے ، ميں جانتا ہوں كہ ميرے مرنے كے بعد نوحہ وزارى كرو گے حالانكہ تم نے ميرى روٹى روزى بند كردى تھى(۲۴)

ابن مسعود كے يہ مختصر حالات تھے، ليكن وليد بن عقبہ كى حكومت كوفہ كى صرف يہى ايك داستان نہيں بلكہ اسكى حكمرانى كے زمانے ميں انتہائي بلا خيز اور فتنہ انگيز واقعات سرزد ہوئے ، چنانچہ مسيحى شاعر ابوزبيد اور شعبدہ باز يہودى كے ساتھ اس كے سلوك مشہور ہيں_

اگ سے كھلواڑ

ابو الفرج كتاب اغانى ميں ابن اعرابى كا بيان يوں روايت كرتا ہے جس وقت وليد اپنے مادرى بھائي عثمان كى طرف سے كوفہ كا گورنر بنا تو شرابى اور عيسائي شاعر ابو زبيد سے اسكى گاڑھى چھننے لگى ، وليد نے اسكو عقيل كى ملكيت والے گھر ميں ٹھہرايا ، پھر اسے بخش ديا ، يہ گھر زبيد جيسے شرابى شاعر كو دينے سے پہلى بار كوفے كے باشندے وليد كى برايئاں بيان كرنے لگے ، كيونكہ ابو زبيد عيسائي تھا ،جب وہ وليد كے پاس جاتا ، تو اسكا راستہ مسجد كوفہ ميں ہونے كى وجہ سے وہيں سے وليد كے پاس جاتاوہ رات بھر شراب كے جام چھلكاتا، پھر صبح كو شدت مستى سے بيخود ہو كر لڑ كھڑاتا ہوا مسجد ہى عبور كر كے اپنے گھر پہونچتا _

____________________

۲۳_ابن مسعود كى وفات ۳۲ھ ميں ہوئي زبير نے انھيں راتوں رات عثمان كو خبر كئے بغير دفن كر ديا ، وفات كے وقت انكى عمر ساٹھ سال سے زيادہ تھى ،

۲۴_لاعرفتك بعد الموت تندبني و فى حياتى ما زودتنى زادي

۱۱۳

وليد كى يہ روش دين سے لاپرواہى ،اور مسلمانوں كے احساسات و معتقدات سے بے اعتنائي كا پتہ ديتى ہے كوفے والے تو يہ چاہتے تھے كہ وليد شراب پينا چھوڑ دے _

خلاف شرع كام كرنا بند كرے ، ابو زبيد جيسے شرابى مصاحب سے اپنا ناتہ توڑے ، اس كے بر عكس اس نے دو وسيع زميندارى شام دحيرہ ميں محل كے ساتھ اسكو بخش دى ، اور صرف اسى كے چوپايوں كى چراگاہ كو مخصوص كر كے ، دوسروں كو اس كے استفادے سے محروم كر ديا ، ابو زبيد نے بھى اسكى خصوصى مہربانى كے بدلے مدحيہ اشعار كہے اور اسكا شكر يہ ادا كيا ،(۲۵)

بلاذرى لكھتا ہے _ وليد نے اپنے عيسائي شاعر و مصا حب ابو زبيد كے لئے مسلمانوں كے بيت المال سے شراب اور سور كاگوشت مقرر كيا تھا ، اسكے مقربين نے مشورہ ديا كہ اس سے عوامى احساسات بھڑك اٹھيں گے ،لوگ اپ كے خلاف ہو جائيں گے _

نتيجے ميں وليد نے شراب اور سور كا گوشت تو روك ديا ليكن حكم ديا كہ اسكى جتنى قيمت متعين ہوتى ہے

اسے ماہانہ دى جائے پھر اس پر اضافہ بھى كيا ، يہ كوفے كا گورنر عيسائي ابو زبيد كو مسلمانون كى مسجد سے گذرنے كى اجازت دئے ہوا تھا(۲۶)

ايك دوسرى نا مناسب حركت وليد جسكى وجہ سے لوگ اسكے مربى عثمان سے بہت زيادہ بد ظن ہوئے يہ تھى كہ وليد نے حكم ديا تھا كہ ايك يہودى جو كر اپنى جادوگرى كى دوكان مسجد ميں لگا كر اپنے شعبدے دكھائے اور گورنر صاحب كى تفريح كا سامان فراہم كرے _

لوگوں نے وليد كو بتايا كہ زرارہ نام كا ايك يہودى كرتب ميں مشہور ہے وہ شعبدہ ، جادو اور سحر كى تمام قسموں ميں مہارت ركھتا ہے ، يہيں بابل كے پل كے پاس ديہات كا باشندہ ہے ، وليد نے حكم ديا ،اسے كوفہ لايا جائے تاكہ وہ اپنے ہاتھوں كے كرتب اورميٹھے شعبدوں كا تماشہ دكھائے ، وليد كے پيادوں نے اسكے حكم كى تعميل ميں سامنے لاكر حاضر كر ديا ، اس نے بھى حكم ديا كہ مرد يہودى مسجد كوفہ كے صحن ميں اپنے جادو كے كرتب كى دوكان لگادے ، اپنے ہنر كے تماشے اعلى حكام اور مسلمان پڑوسيوں كو دكھائے_

____________________

۲۵_ اغانى ج۳ ص ۱۸۲_ ۸۳

۲۶_ انساب الاشراف بلاذرى ج ۵ ص ۲۹_ ۳۰

۱۱۴

اسكى نمائشے كا ايك تماشہ يہ تھا كہ اندھيرى رات ميں بڑا سا ہاتھى گھو ڑے پر سوار تماشائيوں كو دكھا ديتا تھا_

ايك دوسرا كرتب يہ تھا كہ وہى شعبدہ باز اپنے كو اونٹ كى شكل ميں ہو كر رسى پر چلتا ہوا لوگوں كى نگاہوں كو دكھاتا تھا پھر وہ خود ہى ايك خچر كى شكل ميں ہو جاتا تھا جو اس اونٹ كے منھ ميں داخل ہو كر اسكے مخرج سے نكل جاتا تھا_

سب سے اخر ميں تماشہ دكھاتے ہوئے ايك تماشائي كو مجمع سے گھسيٹ لاتا تھا ،پھر بے دھڑك اسے تلوار سے قتل كر كے ،سر وبدن الگ الگ كر ديتا تھا ، پھر سارے تماشائي حيرت كے مارے پھٹى پھٹى انكھوں سے ديكھتے كہ وہ اس مقتول كے جسم پر تلوار پھير رہا ہے اور مقتول زندہ ہو كر اٹھ كھڑا ہو تا ہے _

جندب بن كعب ازدى اسى تماشائيوں كى جماعت ميں ،موجود تھے ، انھوں نے شعبدہ باز يہودى كے سارے تماشے اپنى انكھوں سے ديكھے جو شيطان اور گمراہى كى مسلسل كاروائيوںسے خدا كى پناہ طلب كر تے رہے ، جس سے انسان خدا كى ياد سے غافل ہو رہا تھا ،انھيں يقين تھا كہ يہ سب كچھ نظر بندى اور شعبدہ بازى ہے جسے اسلام نے سختى كے ساتھ منع كيا ہے ،بس پھر كيا تھا ،انھوں نے دير كرنا جائز نہيں سمجھا اور تلوار سونت لى ، ايك ہى وار ميں اس

يہودى كا سر تن سے جدا كر كے چلائے

جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل كان ذهوقا

حق اگيا اور باطل نيست ونابود ہو گيا باطل كو تو نيست و نابود ہونا ہى تھا _

يہ بھى كہتے ہيں كہ يہ سارا واقعہ دن كا ہے ،رات كا نہيں ، جندب كے پاس تلوار نہيں تھى ، وہ بازار گئے اور تلوار بنانے والے سے تلوار خريدى اور واپس اكر اس شعبدہ باز يہودى كى گردن مارى ، پھر وہ چلائے _

اگر تو سچا ہے تو اپنے كو زندہ كر لے _

۱۱۵

جو بھى صورت ہو ، يہ وليد تھا جس نے مسجد كو شعبدہ باز يہودى كے تماشے كا مركز بنا ليا تھا جبكہ وہ عبادت كى جگہ ہے اور يہ جندب تھے كہ اس شعبدہ باز كو قتل كر كے عثمان كے بد كار حاكم كى تفريح كر كرى كركے اسكے عيش وعشرت ميں اندھيرا كر ديا _

اس مرتبہ تو وليد غصے ميں بھڑك اٹھا ،اس نے جندب كى گستاخى ديكھ كر حكم ديا كہ يہودى زرارہ كے انتقام خون ميں جندب كو قتل كرديا جائے ،ليكن ان كے رشتہ دار جو قبيلہ ازدسے تھے جندب كى حمايت ميں كھڑے ہو گئے انھوں نے قتل ہو نے سے بچا ليا ، نا چار وليدنے حيلہ شروع كيا اور قتل كو نظر انداز كركے بظاہر اسكے قتل سے در گذر كيا اور حكم ديا كہ جندب كو قيد كر ليا جائے _

جندب كو جيل ميں ڈال ديا گيا ، اور جيلر جس كا نام دينار تھا اسكے حوالے كر ديا گيا ، دينار كو جب قيد ہونے كى وجہ معلوم ہوئي ، جندب كى زھد و پار سائي اس نے خود انكھوں سے ديكھى ،يہ ديكھا كہ وہ تمام رات صبح تك عبادت ميں مصروف رہتا ہے ، اس نے جائز نہيں سمجھا كہ ايسے زاہد اور با ايمان شخص كے خون سے اپنا دامن الودہ كر ے جيلرنے ان سے كہا :

ميں دروازہ كھول رہا ہوں ، تم بھاگ جائو ، سلامتى سے اپنى جان بچالے جائو _

اگر ميں ايسا كروں تو تمہيں نہيں چھوڑا جائے گا تمہيں قتل كرديا جائے گا _

ميرا خون رضائے خدا كے لئے بہے گا ولى خدا كى نجات ميں بہے گا ، ميرى جان اتنى قيمتى كہاں ؟

اخر كار دينار جيلر كے اصرار سے جندب نے قدم باہر نكالا اور جيل سے فرار كر گئے _

صبح سويرے وليد نے جندب كے حمايتيوں سے دور تہيہ كئے ہو ا تھا كہ جندب كو قتل كرے اس نے حكم ديا كہ جندب كو خدمت ميں حاضر كيا جائے ، وليد كے پيادے جيل سے خالى ہاتھ واپس ائے ،انھوں نے خبر دى كہ جندب جيل سے فرار كر گئے ، خود سر اور بد كار حاكم كوفہ وليد كو دينار جيلر كى سہل انگارى پر بڑا غصہ ايا ،لال بھبھوكا سرخ انگارہ ہو گيا ، حكم ديا

كہ اس تساہليء پر دينار كو قتل كرديا جائے ،(۲۷) اور اسكا بدن مزبلہء كوفہ ميں دار پر لٹكا ديا جائے(۲۸)

ادھر جندب قيد خانے سے بھاگ كر مدينہ پہونچے، وہيں سكونت اختيار كر لى جب عثمان كو معلوم ہوا تو انھوں نے ان كو سخت و سست كہا اس وقت حضرت على نے انكى سفارش كى عثمان نے امام كى سفارش مان لى ، وليد كو خط لكھا كہ جندب سے كوئي مزاحمت نہ كى جائے ،اس طرح جندب پھر كوفہ واپس چلے گئے _

__________________

۲۷_ مروج الذھب مسعودى ج ۱ ص۳۷_۴۳___اغانى ج۴_ ۱۸۶

۲۸_مولف محترم نے واقعہ جندب اور يہودى جادوگر كے مختلف روايات كو مختلف منابع سے يكجا كيا ہے موجودہ حوالہ سب سے زيادہ كامل تر ہے اس لئے صرف اسى پر اكتفا كيا گيا،(سردارنيا)

۱۱۶

انقلاب كى پہلى چنگاري

جب حاكم كوفہ وليد كى بدكارياں اور خلاف شرع حركتيں بہت زيادہ ہو گيئں تو رد عمل بھى ہوئے ،عثمان كے ناروا سلوك كى وجہ سے لوگوں كا غم و غصہ حد سے زيادہ بڑھ گيا ، باتيں ايك منھ سے دوسرے منھ رينگنے لگيں ايسے ميں عمر وبن زرارہ بن قيس نخعى اور كميل بن زياد نخعى يہ دونوں ہى كوفے كے سربر اوردہ لوگوں ميں تھے ، يہ پہلے افراد تھے جنھوں نے عثمان كى بيعت كا قلادہ گردن سے اتار پھينكا اور على كى بيعت كا اعلان كر ديا، لوگوں كو اپنے پاس جمع كر كے يہ تقرير كى _

اے لوگو عثمان حالانكہ حق و باطل كے درميان تميز ركھتے ہيںليكن جان بوجھ كر پس پشت ڈالتے اورنظرانداز كرتے ہيں پست اور كمينے لوگوں كو نيك اور تقوى شعاروں پر مسلط كر ديا ہے انھيں اقتدار و حكومت ديديا _

اس اجتماع ميں خالد بن عرفطہ بھى تھا ، فورا جا كر اس نے وليد كو خبر دى عمر وبن زرارہ كا واقعہ اور اسكى بھڑكانے والى تقرير سب بيان كر ڈالى _

وليد غصے ميں بھر گيا ،اس نے چاہا كہ خود سوار ہو كر جائے اور تمام لوگوں كو منتشر كردے ليكن اسكے مصاحبين اڑے اگئے_

اور سمجھا يا كہ وہ جتنا سمجھ رہا ہے يہ معاملہ اس سے بھى زيادہ خطرناك ہے ، كيو نكہ تمام لوگ بھڑ كے ہوئے ہيں ،ھنگامے پر امادہ ہيں اپنے حال پر رحم كرو اور فتنے كى اگ كو زيادہ ہوا نہ دو اسى درميان مالك بن حارث نے پيشكش كى كہ اگر وليد چاہے تو ان تمام لوگوں كا جوش ٹھنڈا كردوں وليد نے اثبات ميں جواب ديا

وہ اس اجتماع ميں پہونچا اور ان سے گفت و شنيد كرنے لگا انھيں فتنہ و اشوب سے ڈرا كر ،سب كو ٹھنڈا كر ديا _

وليد بھى نچلا نہيں بيٹھا، ا س نے شور ش اور عمرو بن زرارہ كى تقرير كا كچا چٹھا عثمان كو لكھ مارا ، پھر مدد كى درخواست كر كے اس صورتحال ميں خليفہ سے پوچھا كہ مجھے كيا كرنا چايئے؟

عثمان نے جواب ميں خط لكھا_

۱۱۷

ابن زرارہ عرب بدو ہے ،بد معاش ہے اسے شام جلا وطن كر دو وليد نے خليفہ كے حكم سے ابن زرارہ كوشام جلا وطن كرديا(۲۹)

جس وقت ابن زرارہ حق گوئي كے جرم ميں لا چار ہو كر كوفہ چھوڑ رہے تھے ، مالك اشتر،اسودبن يزيد ،علقمہ بن قيس اور قيس بن فہدان انھيں الوداع كہتے ہوئے دور تك گئے ،اس موقع پر قيس نے يہ دو شعر پڑھے _

خدا كى قسم ، رب كعبہ كى قسم خدا كى خشنودى كا پوشيدہ و علانيہ طلبگار ہوں _

ضرور بالضرور ہم وليد اور اسكے اقا عثمان كو جو گمراہى كى جائے پناہ ہے ،حكومت و خلافت سے كھرچے پھينكيں گے()

كوفے ميں عثمان كى باز پرس

جب كوفے كے مختلف لوگوں كى طرف سے بے شمار شكايتيں وليد كے خلاف عثمان كے پاس پہونچيں تو مجبور ہو كر سوچا كہ ظاہرى طور سے اور لوگوں كو دكھانے كيلئے اس كا سخت نوٹس ليا جائے اور اس سلسلے ميں اپنے ازاد كردہ غلام حمران كو انكوائرى كے لئے بھيجا تاكہ صورتحال سے جائزہ لے اور لوگوں كے ساتھ وليد كے سلوك كى رپوٹ دے ليكن وليد نے اس بلند مرتبہ حكومت كى انكوائرى كو دولت سے خريد ليا ،اس كے ہاتھ رشوت سے بھر كر خالى ہاتھ مدينہ واپس كرديا ، اور عثمان كى تمنا كے مطابق وليد كى شان ميں قصيدے پڑھ ڈالے ، عثمان نے راحت كى سانس لى اور خود كو اس روح فرسا غم سے فارغ كر ليا _

اقسم بالله رب البيت مجتهدا

ارجوالثواب له سر او اعلانا

لاخلعن اباوهب و صاحبه

كهف الضلالة عثمان بن عفانا

كچھ دن بعد مروان(۳۰) نے حمران سے ملاقات كركے وليد كے بارے ميں صحيح صورتحال جاننے كيلئے اس سے پوچھا :

____________________

۲۹_ عمر بن زرارہ كے حالات كيلئے ديكھئے اسد الغابہ ج۲ ص ۲۰۱_۲۰۲ج۴ص۱۰۴

۳۰__ محترم قارئين ،مروان حكم كو ائيندہ صفحات ميں اچھى طرح معلوم كرليں گے ،اسكى نفسياتى و اخلاقى حالت نيز اسكے معتقدات كا انداز ہو جائے گا، ليكن يہاں ايك بات كى طرف دھيان دلا نا ضرورى ہے كہ مروان اس خوان سے بہت بڑے حصے كا قائل تھا وہ جانتا تھا كہ عثمان نے جس اموى خاندان كى حكمرانى مستحكم كى ہے اسكا ثبات اسى حالت ميں ممكن ہے كہ حكمرانوں كى سستى و غفلت كو ختم كيا جائے ، عثمان كے نور چشم وليد جيسوں كى حركتوں سے اسكى مشام ميں بوئے انقلاب پہونچنے لگى تھى ، وہ چاہتا تھا كہ انقلاب كى جڑ ختم كر دى جائے اس لئے اس نے خليفہ كے سامنے صحيح صورتحال ركھ دى ، ورنہ اس نے رسول اكرم كى زحمتوں اور دين اسلام كے تحفظ كے لئے ايسا نہيں كيا تھا ، نہ اسے اسلامى درد تھا

۱۱۸

حمران نے جواب ديا ، وہاں كے حالات سخت بحرانى ہيں مروان نے بھى جو كچھ بيتى تھى خليفہ كے گوش گذار كر ديا ،

عثمان نے اس خيانت كے جرم ميں حمران كى جھوٹى رپورٹ كا سخت نوٹس ليتے ہوئے اسے بصرہ جلا وطن كرديا ، پھر اسے وہيں بصرہ ميں ايك اچھا سا گھر بھى عطا فرمايا(۳۱)

مسلمانوں كا حكمراں اورشرابخواري

كوفے پر وليد كى حكومت پانچ سال تك رہى ، اس طويل مدت كے درميان اس نے اذربائيجان كے علاقوں ميں مشركوں سے جنگ كى ، ليكن جيسى اسكى سيرت تھى اور ايمان خام تھا اس حساس موقع پر بھى اس سے ايسى لغزش ہو گئي كہ حد جارى كى جاتى ،قوم كے بزرگ جمع ہوئے كہ اس پر حد جارى كريں ،اسى درميان حذيفہ نے قانون الہى كے نفاذ كى مخالفت كر دى ،ان كى دليل يہ تھى كہ يہ شخص اسلاميء فوج كا سپہ سالار اس وقت محاذ جنگ پر ہے ، نتيجے ميں اس پر حد جارى نہيں ہوئي(۳۲)

ميں نہيں جانتا كہ وليد حد كا مستوجب كيوں تھا ؟ شراب پينے كى وجہ سے يا كسى دوسرے ارتكاب حرام كى وجہ سے ، ليكن ايك بات مسلم ہے كہ وہ شراب كا رسيا تھا ، اور يہ برى لت اسميں اتنى تھى كہ عام مورخين كے مطابق وہ حد جارى ہونے كا مستوجب قرار پايا _

ابوالفرج اغانى ميں لكھتے ہيں ،وليد بن عقبہ زناكار اور شرابى شخص تھا ، ايك دن صبح سويرے مستى كى حالت

ميں نماز پڑھانے ايا ،اس نے دو ركعت كے بجائے چار ركعت پڑھا دى _

حالت نماز ميں اس نے گنگنانا شروع كر ديا _

دل شباب و سنگيت كا رسيا ہے ،درانحاليكہ كہ جوان سے دونوں كا اثر ختم ہو گيا ہے(۳۳)

جب اپنى دانست ميں اس نے نماز ختم كى تو مامومين كى طرف رخ كر كے بولا ،اگر كہو تو نماز كى چند ركعتيں اور بڑھا دوں ،اسى حالت ميں جو كچھ پيٹ ميں تھا قئے كردي(۳۴)

____________________

۳۱_ انساب الاشراف بلاذرى ج۵ ص ۳۱

۳۲_ بلاذرى ج۵ ص۳۵

۳۳_ علق القلب ربابا بعد ما شابت و شابا

۳۴_ اغانى ج۴ ص۱۷۸

۱۱۹

اس بارے ميں مسعودى لكھتا ہے كہ:

وليد اپنے مصاحبوں ، گويوں اور سازندوں كے ساتھ تمام رات بادہ گسارى كر تا تھا ، ايك دن جب موذن نے صبح كى اذان دى تو وليد نے شب خوابى كے لباس ہى ميں بحالت مستى نماز پڑھانے پہونچ گيا ، محراب ميں لوگوں كو نماز پڑھانے كھڑا ہوا _

اس نے دو ركعت كے بجائے چار ركعت پڑھا دى ، اپنا سجدہ طويل كر ديا ، بجائے تسبيح كے مسلسل كہتا رہا _

پيو اور مجھے پلائو ،جام چھلكائو

اور جب اپنے خيال ميں نماز سے فارغ ہوا ،لوگوں كى طرف رخ كر كے بولا اگر تم لوگ كہو تو چار ركعت سے زيادہ پڑھا دوں _

عتاب ثقفى پہلى صف ميں تھے ، بالكل وليد كے پيچھے نماز پڑھ رہے تھے ، چلانے لگے_

خدا تيرا ناس مارے ، تجھے كيا ہوا ہے ، خدا كى قسم ، مجھے خليفہ كے سوا كسى پر حيرت نہيں ہوتى كہ تيرے جيسے شخص كو ہم پر حكمراں بنا ديا ہے _

دوسرے لوگ بھى وليد كو كنكرياں مارنے لگے ، جب عثمان كے مادرى بھائي اور كوفے كے حكمراں نے اپنا قافيہ تنگ ديكھا تو ڈگمگاتے ہوئے اہستہ اہستہ چل كر اپنے كو دار الامارہ ميں پہونچايا ، حالا نكہ وہ يہ اشعار گنگنا رہا تھا_

ميں ہرگز شراب اور حسين دوشيزہ سے منھ نہ موڑوں گا، اپنے كو اس بھلائي اور لذت سے محروم نہيں ركھوں گا ، بلكہ اتنى شراب پيوں گا كہ سارا بھيجا سيراب ہو جائے پھر لوگوں كے درميان سے دامن بچا كر نكل جائوں گا_

۱۲۰