تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 216
مشاہدے: 82547
ڈاؤنلوڈ: 3878


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82547 / ڈاؤنلوڈ: 3878
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد 1

مؤلف:
اردو

قصہ گواہوں كا

كوفے كے عوام اخر كار وليد كى بدترين حركتوں سے تنگ اگئے اور جب انہوں نے اپنى متعدد شكايتيں اسكے بارے ميں بے اثر ديكھيں تو سب نے يہ رائے قائم كى كہ وليد كى شرابخوارى اور مستى كى پكى دليل اور دين و دنيا سے لا پرواہى كے نا قابل ترديد ثبوت خليفہ كے سامنے پيش كئے جائيں ، ہو سكتا ہے كہ خليفہ ہمارى دليل و ثبوت مان جائے اور ان كے درد دل اور مصائب دور كرنے كى طرف توجہ كرے ، اس رائے پر عمل كرنے كے سلسلے ميں بزرگان قوم نے مناسب سمجھا كہ وليد كى وہ انگوٹھى جس پر اسكا نام نقش ہے ، اور اسى سے وہ خطوں پر مہر كرتا ہے ، عثمان اسے خوب پہچانتے ہيں ،وليد كى مستى كے وقت اتار ليا جائے اور اسى كو خليفہ كے سامنے قطعى ثبوت كے طور پر پيش كيا جائے _

اس سلسلے ميں بلاذرى لكھتا ہے كہ :

جس دن وليد نشے كى حالت ميں نماز پڑھا رہا تھا ابوزينب نے اپنے دوست زھير بن عوف ازدى سے مدد چاہى كہ انگوٹھى نكالنے ميں اسكى مدد كرے ، زھير نے مدد كرنے پر امادگى ظاھر كى دونوں خاص طور سے اس فكر ميں تھے ،اتفاق سے اس دن وليد نماز عصر پڑھانے بھى نہيں ايا ، ابو زينب نے در بان كے ہاتھ ميں كچھ رشوت تھما دى ، دربان نے رشوت ديكھى تو الگ ہٹ گيا اور راستہ ديديا ابو زينب اور زھير گھر ميں داخل ہو گئے

وہ عجيب اور نفرت انگيز منظر تھا ، وليد نشے ميں دھت ہے ، اسے اپنے سر اور پير كا ہوش نہيں ، ان دونوں نے اٹھا كر اسے بستر پر لٹا ديا اس نے بستر پر ہى قئے كر دى ، ابو زينب نے اس سے زيادہ دير مناسب نہيں سمجھى دونوں نے انگوٹھى اتار لى اور باہر نكل گئے _

عثمان كے حضور

ابو زينب اپنے تين اور معزز ساتھيوں كے ساتھ كوفے سے بصرے كے راستے مدينہ كى طرف چل پڑے ،

اخر كار حاكم كوفہ وليد كى شكايت ليكر خليفہ عثمان كى خدمت ميں حاضر ہوئے

۱۲۱

پہلے انہوں نے اپنى عرض خليفہ كے سامنے پيش كى اگر چہ ہميں اميد نہيں كہ اپ ہمارى شكايات پر توجہ ديں گے ،ليكن ہم اپنى ذمہ دارى سمجھتے ہيں كہ اپنى شكايات اپ كے گوش گذار كر ديں _

عثمان نے پوچھا ، مطلب كيا ہے ؟

ان لوگوں نے وليد كى سارى باتيں بيان كيں پيش امدہ تمام تفصيلات كى تشريح كر كے كوفے كى لا چارى كا نقشہ پيش كيا _

عبدالرحمن بن عوف اس بزم ميں موجود تھے ، شكايت كرنے والوں سے پوچھا ، مطلب كيا ہے ؟كيا كہہ رہے ہو وليد كو كيا ہو گيا ہے ؟ كيا وہ ديوانہ ہو گيا ہے ؟

شكايت كرنے والوں نے كہا :

نہيں بلكہ وہ شراب كے نشے ميں مست و بے خود ہو گيا تھا_

اس وقت عثمان نے ابو زينب سے پوچھا؟

تم نے خود ميرے بھائي كو شراب پيتے ديكھا_

جندب نے جواب ديا

نہيں ،ميں نے كبھى نہيں ديكھا ، ليكن ميں گواہى ديتا ہوں كہ ميں نے اسے نشے كى حالت ميں ديكھا ہے وہ قئے كر رہا تھا ،اور سارى قئے اسكے بدن پر ارہى تھى ، ميں نے اسكى مستى و بے خبرى كى حالت ميں انگوٹھى اتار لي_

عثمان نے پوچھا:

تم نے كيسے سمجھا كہ وليد نے شراب پى ہے؟

انہوں نے جواب ديا

ہم لوگ كيسے نہيں سمجھيں گے كہ وليد نے شراب پى ،جبكہ ہم نے خود زمانئہ جاہليت ميں شراب پى ہے ، انھوں نے وليد كى انگوٹھى دكھائي ، اور اسے قطعى ثبوت كے طور پر پيش كيا _

عثمان سخت بد حواس ہو رہے تھے ، لگے گواہوں كو ڈرانے دھمكانے ، سخت سے سخت سزا دينے كى بات كہہ كے گواہوں اور شكايت كرنے والوں كے سينے پر ہاتھ مار كے بھگا ديا _

۱۲۲

گواہوں پر خليفہ كا عتاب

ابو زينب ہزاروں اميد و ارزو ليكر مدينے ائے تھے ،عثمان كى خدمت ميں پيش ہوئے تھے سارى تفصيل بيان كى تھى ، قطعى ثبوت بھى پيش كيا تھا_

عثمان نے صرف يہى نہيں كى كہ وليد كى شرابخوارى اور اسى حالت ميں نماز پڑھانے كى شكايت پر توجہ نہيں دى بلكہ سب كو ڈنڈا دكھايا ، گالياں ديں اور برا بھلا كہا_

يہ تمام شكايت كنندگان ڈنڈے اور تازيانے كھا كر حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں ائے ، ان سے مسئلہ حل كرنے كى گذارش كى _

حضرت علىعليه‌السلام نے عثمان سے ملاقات كي، بات چيت كے درميان اعتراض كيا كہ حدود الہى كو معطل كر رہے ہو ، اپنے بھائي كے خلاف گواہوں پر ڈنڈے بر سا رہے ہو ، تم قانون خدا متغير كر رہے ہو(۳۵)

شكايت كنندگان نے عائشه سے بھى ملاقات كى تھى انھو ں نے عثمان سے چلا كر كہا :

شرعى حدود جارى نہيں كر رہے ہو ، گواہوں كى بے عزتى كر رہے ہو(۳۶)

شكايت كرنے والوں نے گواہى دى تھى كہ وليد بن عقبہ حاكم كوفہ نے شراب پى ہے وہى شراب جو جاہليت ميں ميں پى جاتى ہے _(۳۷)

انہوں نے گواہى دى تھى ،وليد نشے ميں دھت تھا ، اس نے دو ركعت كے بجائے چار ركعت نماز پڑھا دى پھر نمازيوں كى طرف رخ كر كے كہا :

اج بہت زيادہ موج ميں ہوں اگر چاہو تو اس سے زيادہ پڑھا دوں ، اسى وقت اس نے محراب مين قئے كردى(۳۸)

انہوں نے گواہى دى كہ الفاظ نماز كے بجائے گيت وسنگيت گنگنا رہا تھا ، اسكى انگلى سے انگوٹھى بھى نكال لى تھى ، يہ زبردست ثبوت تھا ان تمام باتوں كے با وجود ان كاكوئي مداوانہ ہوا، انھيں تكليف جھيلنى پڑى ، توہين ہوئي گالياں سنيں ، ڈنڈے سے تواضع ہوئي، اخر انھيں جان سے مارنے كى دھمكى دى گئي_

____________________

۳۵_ مروج الذھب مسعودى ج۲ ص۳۳۶

۳۶_ بلاذرى ج۵ ص۳۳

۳۷_ مروج الذھب مسعودى ج۲ ص۳۳۶

۳۸_ مروج الذھب مسعودى ج۲ ص۳۳۶

۱۲۳

عائشه عثمان كے خلاف

ابوالفرج اغانى ميں لكھا ہے ، عثمان نے ان لوگوں كے اعتراض كے جواب ميں كہا ، مگر بات يہ ہے كہ ہر شخص اپنے امير و حكمراں پر كڑھتا ہے ، اس پر تہمت لگاتا ہے ، اس صورتحال مين صحيح حكم صادر كروں گا كہ تم لوگوں كى اچھى طرح خبر لى جائے اور سر زنش كى جائے _

يہ گروہ عثمان كى سزا كے ڈر سے عائشه كے گھر مين پناہ گزيں ہو گيا ، جب عثمان نے صبح سويرے عائشه كے گھر سے تلخ و تند باتيں سنيں تو بے اختيار چلائے _

كيا عراقى سركشوں اور بد كاروں كو عائشه كے گھر كے سوا دوسرى كوئي پناہ گاہ نہ ملى _

عائشه نے جب يہ توہين اميز اور نا قابل معافى دشنام عثمان كا اپنے بارے ميں سنا تو رسول خدا كى جو تياں ہاتھ ميں ليں اور اپنے سر پر ركھكر بلند اواز سے چلا ئيں _

كتنى جلدى تم نے اس صاحب كفش رسول كى سنت سے منھ موڑليا_

عائشه كى يہ بات بجلى كى طرح ايك منھ سے دوسرے منھ تك پہونچتى گئي ، پھر سارے مدينے والوں كے كانوں تك پہونچ گئي مسجد كے پاس لوگوں كا ہجوم ہوگيا، لوگوں كى زبان پر صرف عائشه اور عثمان كى بات تھى ، لوگوں كى باتيں ا س قدر ہيجان انگيز تھيں كہ اخر كار لوگوں ميں اختلاف پيدا ہو گيا ، اسى وقت دو شدت پسند پارٹياں بن گئيں_

بعض لوگوں نے عائشه كے اس اقدم پر تعريف و تحسين شروع كى اور كچھ منھ بنا كر سرزنش كرنے لگے _

عورتوں كو ان باتوں سے كيا مطلب؟

دونوں پارٹيوں كے مظاہرے موافقت و مخالفت ميں بڑھتے گئے نوبت يہاں تك پہونچى كہ ايك دوسرے كى جان كو اگئے ، اپس ميں سنگريزے ، جوتياں اور ڈنڈے برسانے لگے _

۱۲۴

اس موقع پر بلاذرى نے اضافہ كرتے ہوئے لكھا ہے _

ام المومنين كے اعتراض كے مقابل عثمان چپ نہيں بيٹھے ، بڑے تلخ و تند انداز ميں چلائے تجھے معاملا ت ميں دخل دينے كا كيا حق ہے ، تجھے تو حكم ديا گيا ہے كہ اپنے گھر ميں چين سے بيٹھ _ اس اعتراض اور سر زنش كى وجہ سے لوگ دو گروہ ميں بٹ گئے ، كچھ لوگوں نے عثمان كو حق بجانب ٹھہرايا ، انكى تائيد و تصديق كى ، اور كچھ لوگ عائشه كى حمايت ميں چلانے لگے _

معاملات ميں دخل دينے كا ان سے زيادہ سزا وار كون ہے؟ دونوں پارٹيوں كى باتيں بڑھتى گئيں ، نوبت يہ اگئي كہ

ايك دوسرے كے سروں پر جوتے برسانے لگے اور جو رم پيزار رونما ہوئي تھى _ اس واقعے كو يعقوبى نے اپنى تاريخ ميں ،ابن عبدالبر نے استيعاب ميں لگ بھگ اسى طرح لكھ كر ام المومنين عائشه كے تاثير اقدام كى نشاندہى كى ہے_ اس واقعے كے بعد طلحہ و زبير عثمان كے پاس گئے اور سخت سرزنش كرتے ہوئے بولے

ہم ابتدا ہى ميں تم سے كہا تھا كہ وليد كو مسلمان كے كسى معاملے ميں مامور نہ كرو ، مگر تم نے ہمارى باتوں كو اھميت نہيں دى نہ مانا ، اب بھى دير نہيں ہوئي ہے جبكہ ايك گروہ نے اسكى شرابخوارى و مستى كى گواہى دى ہے ،تمہارى بھلائي اسى ميں ہے كہ كام كاج سے الگ كردو _

حضرت علىعليه‌السلام نے بھى فرمايا :

وليد كو عہدے سے سبكدوش كردو ، جيسا كہ گواہوں نے چشم ديد گواہى دى ہے اس كے اوپر حد شرعى بھى جارى كرو _

۱۲۵

وليد كى حكومت سے معزولي

اور مسجد كوفہ كے منبر كى تطہير

عثمان مجبور ہو گئے كہ وليد كو حكومت كوفہ سے معزول كريں مدينہ بلائيں ،اور نيا گورنر كوفہ كيلئے معين كريں _

انھوں نے سعيد بن العاص(۳۹) كو حكومت كوفہ پر مامور كيا اور حكم ديا كہ وليد كو مدينہ روانہ كر ديں(۴۰)

سعيد جب كوفہ پہونچا تو وليد كو پيغام ديا كہ تمھيں اميرالمومنين نے مدينہ حاضر ہونے كا حكم ديا ہے _

ليكن وليد نے كچھ دن حكم ميں ٹال مٹول كيا ، گويا سنا ہى نہيں ، ناچار سعيد نے كہا كہ ،اپنے بھائي كے پاس جلدى جائو كيونكہ انھوں نے مجھے حكم ديا ہے كہ تمھيں ان كے پاس بھيجوں ، پھر فرمان صادر كيا كہ دارالامارہ خالى كر كے ميرے حوالے كرو _

وليد نے مجبور ہو كر اطاعت كرتے ہوئے حكومت اس كے حوالے كى اور خود عمارہ بن عقبہ كے مكان ميں ٹھر گيا _

اس وقت سعيد نے حكم ديا كہ مسجد كوفہ كے منبر كو پاك كيا جائے ، وہ كسى حال ميں بھى اس حكم پر عمل كو روكنے كيلئے امادہ نہيں تھا كہ كہيں بات نہ بڑھ جائے _

كچھ بنى اميہ كے اہم افراد جو سعيد كے حمايتى اور اسى كے ساتھ كوفہ ائے تھے انھوں نے خواہش كا اظہار كيا كہ منبر پاك كرنے كا كام نہ كيا جائے ، خاص طور سے انھوں نے ياد دلا يا كہ اگر تمھارے سوا كوئي اور يہ كام كرتا تو تمہيں روكنا چايئےھا، كيونكہ اس عمل سے وليد پر ہميشہ كيلئے كلنك كا ٹيكہ لگ جائے گا (كيو نكہ يہ دونون ہى بنى اميہ كے خاندان سے تھے )

ليكن سعيد نے كسى كى بات نہ مانى ، اخر كار اس نے طئے كرديا كہ بہرحال منبر كو دھويا جائے اور دار الامارہ كى تطہير كى جائے(۴۱)

____________________

۳۹_سعيد بن عاص بن اميہ ، اسكى ماں كا نام ام كلثوم بنت عمر عامرى تھا ، ہجرت كے پہلے يا دوسرے سال پيدا ہوا ، اسكا باپ عاص جنگ بدر ميں على كے ہاتھ سے قتل ہو ا تھا ، عمر بيان كرتے ہيں كہ ميں خود جنگ بدر ميں اپنى انكھو ں سے ديكھ رہا تھا كہ عاص شير كى طرح ميدان ميں چنگھاڑتا ہوا ايا اور على نے ايك ہى ضربت ميں خاك چٹا دى ، سعيد ان نامى گرامى جوانوں اور خطيبوں ميں تھا جس نے عثمان كے حكم سے قران لكھا ، عثمان نے وليد كے بعد اس كو گورنر كوفہ بنايا اس نے اپنے ايام حكومت ميں طبرستان اور دوسرے ايرانى ملكوں كو فتح كيا ، جب عثمان قتل ہوئے تو سعيد گوشہ نشين ہو گيا ، جمل وصفين ميں شريك نہيں ہوا تو اس نے سعيد كو بلايا اور على كے خلاف ،اسكى مدد نہ كرنے پر سرزنش كى ، اس نے عذر معذرت كى ، پھر معاويہ نے مدينہ كا گورنر بناديا معاويہ جب بھى سعيد كو معزول كرتا مروان كو مدينہ كا گورنر بناتا اور مروان كو معزول كرتا تو سعيد كو بناتا سعيد كى موت۵۹ء ميں ہوئي ، اصايہ ، استيعاب اور اسدالغايہ ديكھئے

۴۰_بلاذرى ۵_۳۵

۴۱_ اغانى ج۴ ص ۱۱۸۱_

۱۲۶

اغانى ميں ہے كہ عثمان نے وليد كو فرمان صادر كيا كہ مدينہ ائے اس نے جب مدينہ چلنے كيلئے كوفہ چھوڑا تو ايك گروہ جسميں عدى بن حاتم بھى تھے ، اس كے ساتھ ہوگيا كوفے سے نكلا تاكہ خليفہ كے پاس جاكر وليد كے كرتوتوں كا عذر تراشيں ، اس سفر كے درميان ايك دن وليد نے رسم عرب كے مطابق اونٹوں كيلئے يہ حدى پڑھنے لگا(۴۲)

لا تحسنا قد نسينا الايجاف

والنشوات من عقيق اوصاف

وعرف قينات علينا عراف (۴۳)

يہ سنتے ہى عدى اس پر برس پڑے ،ذرا دھيرج رہو تاكہ ديكھوں كہ اتنا سب كچھ ہونے كے بعد اب تم ہم لوگوں كو كہاں گھسيٹتے ہو_

جب وليد مدينے ميں عثمان كے پاس پہونچا اور گواہوں نے اسكے روبرو گواہى دى تو عثمان اس پر حدّ جارى كرنے كيلئے مجبور ہو گئے ، اسكے اوپر برديمانى كا جبہ اوڑھايا گيا تاكہ تازيانوں كى ضربيں اثر انداز نہ ہوں ، پھر حد جارى كرنے كيلئے كمرے ميں لے گئے_

____________________

۴۲_ قديم زمانے سے عرب ميں رسم تھى كہ سفر كے درميان خاص طور سے لمبے سفر ميں اونٹوں كو تيز ھنكانے كيلئے ترنم كے ساتھ موزون شعر پڑھتے تھے اسطرح اونٹ وجد ميں اكر اپنى تھكن بھول جائے ، مسافروں كو لطف بھى اتا تھا ، اس انداز شعر كو حدى كہتے ہيں ،واضح بات ہے كہ حدى ميں ايسے ہى اشعار پڑھے جايئں گے جو اسكى شخصيت كى عكاسى كرتے ہوں يا مسافر كے ھدف كا اظہار ہو(سردارنيا)

۴۳_ اس شعر كا مطلب يہ ہے ، يہ گمان بھى نہ كرنا كہ شترا ن راہوار كے سواروں كو ہم نے فراموش كر ديا ہے اور شراب كينہ كى ياديں بھلا دى ہيں اور دوشيزائوں كى بھڑكيلى اوازيں اور نغمے ميںبھول گيا ہوں

۱۲۷

نفاذ عدالت بدست عليعليه‌السلام

قريش كا جو شخص بھى وليد پر حد جارى كرنے كيلئے اگے بڑھتا وليد اس سے كہتا ،ذرا اپنے كو ديكھو، مجھ سے قطع رحم نہ كرو ، ميرے اوپر حد جارى كر كے اميرالمومنين كو غضبناك نہ كرو _

جب وہ يہ بات سنتا تو حد جارى كرنے سے باز اجاتا ، اسطرح كسى كو بھى وليد پر حد جارى كرنے كى ہمت نہ ہوئي _

يہ ديكھ كر على بن ابى طالب نے خود تازيانہ ليا اور اپنے فرزند حسن كے ساتھ وليد كے پاس پہونچے _

وليد نے حضرت على كو بھى بہكانے كيلئے وہى سب بات كہى _

امام حسنعليه‌السلام نے بھى وليد كى تائيد كرتے ہوئے باپ كو خبر دار كيا حضرت عليعليه‌السلام نے اپنے فرزند كے جواب ميں فرمايا :

اگر ميں بھى ايسا كروں تو خدا پر ايمان نہيں لايا _

يہ روايت ہے كہ ، وليد بن عقبہ نے حضرت علىعليه‌السلام كو خدا كى قسم دى اور رشتہ دارى كى دہائي دى ،(بنى ہاشم اور بنى اميہ چچيرے بھائي تھے )حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا :

اے وليد خاموش ہو جا ، كيو نكہ بنى اسرائيل كى ہلاكت كا سبب يہ تھا كہ حدود خدا كو معطل كرتے تھے

اپ نے يہ بھى كہا ، جانے بھى دے ،قريش مجھے اپنا جلاد كہيں گے _

وليد نے عبا اپنے دوش پر ڈالى پھر اسے تمام جسم پر اسطرح لپيٹ ليا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے كافى كشمكش كے بعد اسكى دوش سے اتارى حالانكہ اس نے اپنے جبّے كو بدن سے نہيں ہٹايا تھا ، اپ نے دو شاخہ تازيانے سے اس پر چاليس ضربيں لگا ئيں_

مسعودى لكھتا ہے ، جب حضرت علىعليه‌السلام حد جارى كرنے كيلئے وليد كے پاس پہونچے ، وليد نے اپ كو گالى دى ،اپ

كو مدّمكھى والا كہا :

عقيل بن ابى طالب وہيں موجود تھے ، چلّا كر وليد سے كہا :

۱۲۸

ابے او معيط كے ہٹے كتنى حيرت كى بات ہے كہ تو اپنى اوقات بھول گيا ہے ، كيا تجھے معلوم نہيں كہ تو اہل صفوريہ كا غلام زادہ ہے(۱) وليد نے يہ ديكھا تو لو مڑى كى طرح حضرت على كے پائوں پر گر پڑا ، ادھر ادھر بھاگنے لگا ، زمين كھودنے لگا ليكن حد شرعى كے اجراء ميں تازيانہ اس پر تابر توڑ پڑتا ہى رہا عثمان نے جب اپنے بھائي كى اتنى خفّت ديكھى تو علىعليه‌السلام پر اعتراض كيا _

تمہيں اسكے ساتھ ايسا سلوك كرنے كا حق نہيں ، حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا _

مجھے حق ہے ، جس شخص نے ايسى بد كارى كى ہے اسكے ساتھ اس سے بھى بد تر سلوك كرنا چاہيئےجبكہ وہ عدالت الہى كے نفاذ ميں بھاگے _

وليد نے حد شرعى بھگتنے كے بعد يہ اشعار پڑھے _

باعد الله ما بينى و بينكم

بنى امية من قربى و من نسب

ان يكثر المال لايذحم فعالكم

وان يعيش عائلا مولاكم يخب(۲)

روايت ہے كہ جب وليد پر حد جارى ہو چكى تو لوگوں نے كہا كہ رسم كے مطابق اس كا سر بھى مونڈا جائے ، ليكن عثمان نے يہ بات نہيں مانى اور كہا ، عمر ايسا كرتے تھے ليكن اپنى حكومت كے اخرى زمانے ميں يہ رسم ترك كر دى تھى ، وليد بن عقبہ كى شرابخوارى كى وجہ سے حكومت كوفہ سے معزول كرنے اور حد شرعى جارى كرنے كے بعد بھى عثمان نے اپنے ہاتھ كوتاہ نہيں كئے ، ابكى انھوں نے قبيلہ كلب و بلقين كى زكوة وصول كرنے كيلئے مامور كرديا ، اس طرح شرابى گورنر ماليا ت كا افسر بن گيا _

____________________

۱_ صفدريہ اردن ميں ايك ديہات ہے ، عقيل كا اشارہ سمجھنے كے لئے وليد كے بارے ميں گذشتہ باتيں پڑھيئے تو اسكا نسب سمجھ ميں ائے گا

۲_اس شعر كا مطلب يہ ہے، اے بنى اميہ خداوند عالم ميرے اور تمھارے درميان جدائي ڈال دے كيونكہ جو تم ميں مال دار ہوتا ہے ، تو اس سے اچھا سلوك كرتے ہو اور اگر فقير ہو جاتا ہے تو تم سے قطعى نا اميد ہے

۱۲۹

ہم نے وليد بن عقبہ كى زندگى كے يہ چند اوراق پيش كئے ، اسے عجيب شخص اور اسكے يار دوستوں كو اس سے بھى عجيب تر پايا _

وليد كو ايسا شخص پہچانا كہ زنا اور شرابخوارى كى حيثيت سے لوگوں ميں مشہور ہے ، قران نے بد كار اور فاسق كى حيثيت سے شناخت كرائي ، اور يہى نام معاشرے ميں اسكى انفرادى پہچان بنا ہوا ہے ، وہ اپنے كمزور دل و دماغ كے بھائي عثمان پر جو تمام مملكت اسلامى كا فرماں روا ہے ، اسطرح مسلط ہے كہ جس پہلو چاہتا ہے لٹا ديتا ہے ، جيسا كہ ہم نے ديكھا كہ ان پر كس برى طرح چھايا ہوا ہے كہ مسلمانوں كى جان و مال پر دست درازى كر كے حكومت ہتھيالي_

خليفہ كے بھائي ہونے كا فائدہ اسطرح اٹھايا كہ اپنى ہوس رانى ميں ترقى كرتا رہا ، اور اس تحفظ كے سائے ميں مرتبہ خلافت كى بركت اسكے شامل حال ہوئي كہ اپنى خواہشات كے گھوڑے جدہر چاہتا جولان كرتا ، ايسى جولانى دكھاتا كہ جسكا تصّور بھى نہيں كيا جاسكتا _

اپنے ہم پيالہ عيسائي شاعر كو لمبى چوڑى زميندارى بخش دى اور اسكے لئے سور كا گوشت اور شراب كا مسلمانوں كے بيت المال سے حصئہ ماہانہ مقرر كيا ، اسے مستى ميں عبادت گاہ سے گذرنے كى اجازت دى _

جادوگر يہودى كو مسجد ميں گھسا لايا ، تاكہ وہ وہاں مسجد كے اندر ، عبادت كى جگہ پر بد كار حاكم كى تفريح كيلئے جادو اور شعبدے كى بساط لگائے اور اپنے كرتب سے جناب وليد كو خوش و مسرور كرے _

وہ خود سر خوش ، نشے ميں چور لڑكھڑاتا ہوا اپنے انہيں كپڑوں كے ساتھ جو محفل عيش ميں پہنے ہوا تھا مسجد كے اندر اتا ہے اور امام جماعت كى حيثيت سے نماز پڑھاتا ہے پھر صبح كى دو ركعت كے بجائے نشے ميں چار ركعت نماز پڑھا ديتا ہے سجدے كى حالت ميں بجائے تسبيح شراب وشباب كے نغمے گنگناتا ہے اور پھر قئے كر كے تمام محراب كا ناس مارتا ہے اس پہ لاابالى فاسق كى حالت يہ ہے كہ جب مدينہ حاضر ہونے كا حكم ديا گيا اور اشراف كوفہ اسكے گھناونے جرا ئم كى عذر تراشى كے لئے خليفہ كے پاس ساتھ جاتے ہيں تو اس وقت بھى شراب ، بو الہوسى اور مطرب و ساز كى باتيں كرتا ہے جبكہ انھيں غلط حركتوں پر اسے مدينہ حاضر ہونے كا حكم ديا گيا ہے حد شرعى اسكے انتظار ميں ہيں _

۱۳۰

عام طور سے تمام مسلمانوں حكومت وقت كى روش پر نا راضگى ظاہر كرتے ہيں علانيہ اعتراض كرتے ہيں _

يہ اور اس جيسے بہت سے حالا ت عام لوگوں كے افكار ميں ہيجان پيدا كرتے ہيں ،رات دن لوگوں ميں اس پر بحث ہوتى ہے ، حكومت كے بدكار گورنروں كى حركتوں پر چرچے ہوتے ہيں اور حكومت وقت ان باتوں سے قطعى بے خبر ہے _

يہى چرچے اور اعتراضات اہستہ اہستہ انقلاب كى دستك ديتے ہيں كہ جلدہى عوام حكومت كے خلاف اٹھ كھڑے ہوں گے _

يہ چنگارى كبھى ابن مسعود كى پر خاش ، كبھى عمار كے اعتراض اوركبھى ابوذر اور جندب جيسے بزرگ اصحاب رسول كى شكل

ميں نظر اتى ہے _

ليكن اسى درميان دو اہم شخصيتيں تمام لوگوں سے زيادہ عام مسلمانوں كى توجہ كا مركز بن جاتى ہيں _

ان ميں اولين حضرت على بن ابى طالب كى معروف شخصيت ہے جو لوگوں كى زبان پر چڑھى ہوئي ہے تمام صحابہ كے بزرگ افراد اور عام مسلمانوں ميں اپ ہى كا چرچا ہے _

اپ يہ كى وہ اكيلى شخصيت تھى جس نے خليفہ كے بھائي پر شرعى حد جارى كى ، جبكہ خليفہ كا ميلان نہيں تھا _

اپ نے عثمان كے غصے اور نفرت كى ذرا بھى خيال نہ كيا ، نہ بنى اميہ كے انتقام خاندانى كا ہر اس دل ميں لائے حد شرعى جارى كرنے ميں ذرا بھى انجام كى پروا نہيں كى _

بڑے مزے كى بات يہ ہے كہ امام نے اس كے باپ كو بھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے جنگ بدر ميں قتل كيا تھا اور اج اس بد كار خبيث كو حدود شرعى كى رعايت نہ كرنے اور علانيہ شراب پينے كے جرم ميں كوڑے لگا رہے ہيں ، اسلئے حضرت علىعليه‌السلام كو حق تھا كہ وہ فرماتے ، چھوڑو بھى ، قريش مجھے اپنا جلّاد كہتے رہيں_

حضرت علىعليه‌السلام نے اس قسم كے اقدامات سے قريش كے دلوں ميں كينے جمع كردئے تھے ، يہ دشمن كى اگ اپ كى خلافت كے زمانے ميں لو ديتى ہوئي اطراف و جوانب ميں پھيل گئي ، اسكى مرگ بار چنگارياں بڑھتى ہى گيئں ، اخر كار انھيں چنگاريوں نے اپكے پورے خاندان كو اپنا لقمہ بنا ليا _

۱۳۱

عثمان كے خلاف عائشه كى اشتعال انگيزياں

دوسرى اہم شخصيت ام المومنين عائشه كى تھى ، جو اس وقت عثمان پر بپھرى ہوئي تھيں، اور مخالفين كى صف ميں داخل ہو كر انكى قيادت كر رہى تھيں انھوں نے عثمان كے خلاف عوام كے احساسات بھڑكانے ميں ايسے مسلسل اور متواتر اقدامات كئے جو بجائے خود بے نظير تھے ، يہاں تك كہ ان كے بعد بھى كسى نے ايسى كرتب بازى نہيں كى ، انھوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جوتيوں كو ايسى حالت ميں نا قابل ترديد ثبوت كے طور پر پيش كر كے عثمان كے خلاف سنت رسول كى دہائي دى جبكہ لوگ پورى طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ياد گار كے شيفتہ تھے انكى صحبت دلوں سے فراموش نہيں ہوئي تھى ، اپ كا سراپا ، حركات يہاں تك كہ لباس و پوشاك كے بارے ميں لوگ باہم چرچے كرتے رہتے تھے ، اس وسيلے سے عائشه نے عوام كو عثمان كے خلاف شديد طور پر مشتعل كرديا ، پھر وہ عوام كو منقلب كرنے اور بھڑكانے كيلئے خود ہى ميدان ميں كود پڑيں _

انھوں نے اپنى دقيق سياست سے مناسب وقت اور جگہ پر ايسا كارنامہ انجام ديا كہ جس سے ايك بہت بڑا گروہ خلافت عثمان سے بد ظن ہو گيا ، اور جيسا انھوں نے چاہا خليفہ كے حلقہ بگوشوں كو تتر بتر كرديا ، انكى يہ سياست ايسى شاندار تھى كہ خليفہ كے ہوا خواہ اور مخالفين ايك دوسرے كے امنے سامنے اگئے ، بات يہاں تك بڑھى كہ توتو ميں ميں ہوئي ، جو تم پيزا ر ہوئي اور بعد رسول پہلى لڑائي مسجد رسول ميں ہو ہى گئي جسكى وجہ سے مستبد اور مقتدر خليفہ اپنى حكومت و طاقت كے باوجود عوام كے سامنے گھٹنے ٹيكنے پر مجبور ہو گيا ، عوام كى خواہشات كے اگے گردن جھكاتے ہوئے اپنے شرابى اور بد كار بھائي كو معزول كرديا ، اور عدالتى چارہ جوئي كے لئے دارالسلطنت پر بلايا ، حالانكہ اگر ام المومنين كى ذہانت و صلاحيت لوگوں كو مشتعل كرنے ميں مداخلت نہ كرتى ، وہ خود اسكى قيادت نہ كرتيں تو ايسا اتفاق ہرگز پيش نہ اتا_

۱۳۲

ادھر ديكھئے كہ ہم جانتے ہيں رسول خدا كىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف وہى ايك زوجہ زندہ نہيں تھيں ، حفصہ ،ام سلمہ اور ام حبيبہ بھى زندہ تھيں ، ہر ايك كا سياست ميں كچھ نہ كچھ اثر تھا ، ليكن كوئي بھى اس مقابلے ميں(عوامى احساسات كو اپنى پسند كے مطابق مشتعل كرنا) ام المومنين عائشه كا ہم پلہ نہيں ہوسكتا تھا _

ضمنا يہ بھى واضح ہوتا ہے كہ عثمان اپنے دونوں پيش رو خلفاء كى سنت كے بر خلاف چل رہے تھے ،اسى مخالفت كى مسند بچھا لى تھى جس پر رسول كا سب سے بڑا مخالف اور مشركين كا ليڈر ابو سفيان اور اسى طرح شرابى اور منحوس بھائي ، اور حكم جيسا راندئہ رسول اس مسند پر بيٹھتا تھا ;

اپنے چچا حكم بن العاص جسے رسول خدا نے جلا وطن كر كے اس پر لعنت كى تھى ، مسلمانوں كى رائے كے خلاف دوسروں سے زيادہ اقتدار خلافت كا مقرب بنا ليا تھا اسكا اسقدر احترام كرتے تھے كہ جب وہ اتا تو تعظيم ميں كھڑے ہو جاتے ، اپنى جگہ پر بٹھاتے تھے اور خود اسكے سامنے دو زانو ہو كر بيٹھتے_

ہم نے يہ بھى ديكھا كہ مملكت كے مشرقى حصے كا نصف اكيلے اپنے منحوس ديوانے بھائي كى خوشامد اور دلجوئي ميں شاھى جاگير كے طور پر اعطا كردى اور پھر ايسے بد معاش اور بے شرم ادمى كو بيت المال ميں تصرف كى اجازت بھى ديدى ، اور ابن مسعود جيسے جليل القدر صحابى كو جنكا ماضى شاندر تھا اسى منحوس اور بد كار بھائي پر اعتراض كے جرم ميں سخت سزادى ، ان سے سخت كلامى اور گاليوں سے نوازا ، حكم ديا كہ انھيں ذلت كے ساتھ مسجد ميں نكال باہر كيا جائے ، جسكے نتيجے ميں انكى پسلياں چور ہو گئيں ، مزيد حكم ديا كہ انكا بيت المال كا وظيفہ بند كر ديا جائے انھيں شركت جہاد كى بھى اجازت نہيں دى ، زندگى كى اخرى سانسوں تك انھيں مدينے سے نكلنے كى اجازت نہيں دى ، يہ سارى كاروائي صرف اپنے بد كار

۱۳۳

بھائي وليد بن عقبہ كى حمايت ميں ہوئي _

ہم نے يہ بھى ديكھا كہ اپنے بھائي كے خلاف گواہوں كو مسترد كر ديا ، پھر ہم نے ديكھا كہ اس نے كمبل اوڑھ ليا تاكہ تازيا نوں كى مار كا اثر كم ہو جائے ، حد جارى ہونے كے بعد سر مونڈنے كى بھى اجازت نہيں دى ، ان تمام باتوں كے بعد دوبارہ اسے ايك اہم علاقے كى وصولى زكوة پر مامور كرديا ;

عثمان كے مادرى بھائي وليد بن عقبہ كا مسئلہ اور اسكى كوفے پر پانچ سال حكومت ان كشاكشوں ميں ايك اہم ترين مسئلہ تھا جسميں ام المومنين عائشه نے بھر پور مداخلت كى ، با قاعدہ طور پر عثمان كى مخالفت ميں سامنے اگيئں ، خلا فت كے اقتدار سے لڑنے بھڑنے پر امادہ ہو گيئں _

ہم نے ديكھا كہ معركے ميں ام المومنين كس طرح كامياب نكليں اور مركزى اقتدار كو بات ماننے پر مجبور كر كے اپنى حشمت كا لوہا منوايا_

عمار ياسر

دوسرا مسئلہ جسميں ام المومنين نے شخصى طور سے مداخلت كى اور عوام كو خليفہ كے خلاف بھڑكايا ، عثمان اور عمارياسر كا قصہ ہے ;

پہلے عمار كو پہچانئے پھر اصل قصہ سنئے

ابو يقظان كنيت تھى ، عمار نام تھا ياسر كے فرزند تھے ان كے باپ ياسر قحطانى عرب كے قبيلہ مذجح سے تھے جنھوں نے يمن سے مكہ اكر ابو حذيفہ مخزومى سے پيمان دوستى باندھا ، انھوں نے ايك كنيز سے جنكا نام سميہ تھا شادى كرلى اور عمار ياسر پيدا ہوئے ، ابو حذيفہ نے عمار كو ازاد كرديا اسى وجہ سے عمار كو بنى مخزوم كے موا ليوں ميں شمار كيا جاتا ہے _

عمار ياسر ، ان كے بھائي عبداللہ اور ان كے ماں باپ سابقين اسلام سے تھے ، جنھوں نے بغير خوف خطر اپنے اسلام كا اظہار كيا ، اسكى پاداش ميں مشركين كى طرف سے شكنجہ و عذاب كے سوا كيا مل سكتا تھا _

۱۳۴

ان لوگوں كو ا ہنى زرہ پنھادى جاتى تپتے سلگتے پتھروں پر عين دوپہر كى سورج كے سامنے لٹا ديا جاتا ، پھر اس پر سے بھارى پتھر سينے اور پيٹ پر ركھ ديا جاتا ، تاكہ جس دين كو قبول كيا ہے اس سے باز ايئں ليكن يہ اذيتيں ان كے

ايمان راسخ ميں ذرہ برابر بھى خلل نہ ڈال سكيں ، مشركين مكہ كى اسلام سے بيزارى كى پيشكش بھر پور بہادرى كے ساتھ ٹھكرا ديتے تھے _

ٹھيك اسى وقت كہ جب كفار مكہ كا عذاب جھيل رہے ہوتے ، ادھر سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا گذرتے ، انكى رونگٹے كھڑے كردينے والى حالت ملاحظہ فرماتے كہ دوپہر كى دھوپ ميں تپتے پتھروں پر يوں تڑپ رہے ہيں جيسے سانپ كا كاٹا تڑپتا ہے اور انسانى جذبات سے دور مشركين مكہ اپ كے كمزور جسم پر اذيتوں كى بھر مار كررہے ہيں _

اپ بڑے اطمينان بخش لہجے ميںان سے فرماتے ;اے ال ياسر صبر كرو ، جنّت تمہارے انتظار ميں ہے ، عمار ياسر كى والدہ حضرت سميہ ، ابو جہل كے ہتھيار كى مار سے مرگيئں ، اپ اسلام كى راہ ميں پہلى شھيد ہيں _

سميہ كے شوہر ياسر نے بھى مشركين مكہ كى مسلسل اذيتوں سے جان ديدي_

ليكن عمار نے اپنى دلى حالت كے بر خلاف مجبور ہو كر مشركوں كى ظلم و زيادتى سے چھٹكارا پانے كيلئے مشركين كى بات كہہ دى اور رسول كو برا بھلا كہا ، نتيجے ميں كفار نے انھيں چھوڑ ديا رسول خدا كو بتايا گيا كہ عمار كافر ہو گئے ، حق كے راستے سے منحرف ہو گئے _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ، عمار كے وجود سے ايمان ہرگز ختم نہيں ہوا وہ سر سے پير تك ايمان ميں ڈوبے ہوئے ہيں ، انكى رگرگ ميں ايمان بھرا ہوا ہے _

اسى حالت ميں روتے پيٹتے ، انسو بہاتے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں ائے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كى انكھوں سے انسو پونچھتے ہوئے فرمايا :

اگر پھر تم سے وہ لوگ مزاحم ہوں تو تم نے جو كچھ كہا ہے پھر كہكے اپنے كو بچا لينا _

يہ آيت اسى موقع پر عمار ياسر كے حق ميں نازل ہوئي ،من كفر بالله بعد ايمانه الا من اكره و قلبه مطمئن بالايمان _

۱۳۵

اولين مسجد كى تعمير اور عمار ياسر

عمار نے مدينہ ہجرت كى اور جنگ بدر كے ساتھ دوسرى تمام غزوات ميں شركت كى ، جب رسول خدا نے

مدينے ہجرت كى تو عمار مسجد قبا كى تعمير ميں شريك تھے ، وہ اسلام كى پہلى مسجد بنانے والوں ميں شمار كئے جاتے ہيں(۱) عمار ياسر اس مسجد كى تعمير ميں مستقل شريك رہے ، اس سلسلے ميں انھوں نے دوسرے اصحاب سے زيادہ سر كردگى دكھائي ، اينٹ پتھر لانے ميں بہت تيزى دكھاتے تھے _

اسى درميان ايك صحابى عثمان بن عفان بہت كم محنت كر رہے تھے كيو نكہ وہ قيمتى لباس پہنے ہوئے تھے ، جب دوسرے اصحاب اينٹ اور پتھر لاتے اور اسكا گرد و غبار ان كے بدن پر پڑتا تو وہ جھاڑنے لگتے ،على بن ابى طالب نے يہ منظر ديكھا تو كار كردگى اور فعاليت كے سلسلے ميں يہ رجز پڑھنے لگے ،

لا يستوى من يعمر المساجد

يدا ب فيها قائما وقاعدا

و من يرى عن الغبار حائدا (۳)

عمار سادہ دل شخص تھے ، وہ اس رجز كا اشاريہ نہيں جانتے تھے وہ بھى سادگى ميں يہى رجز پڑھنے لگے ، عثمان نے حضرت علىعليه‌السلام كا اشاريہ سمجھ ليا تھا ، اسلئے گمان كيا كہ عمار جان بوجھ كر ان پر طنز كر رہے ہيں كہنے لگے ،اے فرزند سميہ ميں سمجھ رہا ہوں كہ تم كيا كہہ رہے ہو خدا كى قسم ،اس ڈنڈے سے تمہارى انكھ پھوڑ دوں گا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سارا واقعہ ملاحظہ فرما رہے تھے ، عثمان كى دھمكى پر غصے ميں فرمايا ، عمار سے لوگ كيا چاہتے ہيں وہ انھيں بہشت كى طرف بلا رہا ہے اور وہ لوگ ہيں كہ اسے جہنم كى طرف بلا رہے ہيں

___________________

۳_ اس رجز كا مطلب يہ ہے ، جو لوگ كہ مسجد بنانے ميں كوشاں ہيں اور اس كام ميں برابر دوڑ دھوپ كر رہے ہيں ، اسكے برابر وہ لوگ نہيں ہو سكتے جو اسكے گرد و غبار سے پرہيز كر رہے ہيں اور الگ تھلگ ہيں

۱۳۶

عمار كى منزلت ميرے نزديك ميرے اس كھال كى طرح ہے جو انكھ اور ناك كے درميان ہوتى ہے ، جس شخصيت كا يہ مرتبہ ہو اسے اذيت پہوچانے سے پرہيز كرو(۴)

اور ايك روايت ميں ہے يہ قصد اس طرح ہے ، صحابہ نے جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو غضبناك ديكھا تو عمار سے كہا كہ تم ہى كوئي ايسا طريقہ اپنائو كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا غصہ كم ہو _

تو عمار ياسر اپنے سر پر اينٹوں كا بوجھ اٹھاے ہوئے تھے اسى حالت ميں ہنستے ہوئے رسول خدا سے عرض كى _

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ،اپ كے اصحاب نے تو مجھے مار ڈالا ، كيونكہ جتنا وہ خود اٹھا نہيں سكتے اس سے زيادہ مجھ پر لاد ديتے ہيں ،يہ سن كر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اپنے دست مبارك سے عمار كے چہرے كا غبار صاف كرتے ہوئے فرمايا :

اہ ،اے سميہ كے فرزند ، يہ تمہيں قتل نہيں كريں گے تمہيں تو ايك باغى گروہ قتل كرے گا(۵)

رسول خدا نے اكثر موقعوں پر عمار ياسر كى تعريف و ستائشے كى ہے منجملہ وہ موقع كہ خالد بن وليد نے عمار ياسر پر غصہ دكھايا بڑے تلخ و تند انداز ميں ان سے باتيں كيں اسوقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمايا :

جو شخص عمار ياسر سے دشمنى ركھے گا ،خدا بھى اسكا دشمن ہو گا _

عمار ياسر نے جمل و صفين ميں حضرت علىعليه‌السلام كى ركاب ميں جنگ كى اپ اخرى حملوں كے وقت جب بھى اپ حركت فرماتے اپ كے ساتھ اصحاب رسول كا گروہ ان كے پيچھے پيچھے چلتا تھا ، ايسا معلوم ہوتا ہے كہ ان سب كے كانوں ميں صدائے رسول گونج رہى تھى _

تم بيشك باغى اور سر كش گروہ كے ہاتھوں قتل ہو گے (تقتلك الفئة الباغيه )

عمار اگے اگے چلتے تھے اور اصحاب رسول پيچھے پيچھے ، اپ جنگ صفين ميں يہ رجز پڑھ رہے تھے _

اج كا دن وہ ہے كہ ميں اپنے دوستوں ، محمد اور اصحاب رسول سے ملاقات كروں گا(۶)

__________________

۴_سيرة بن ھشام ج۲ص ۱۱۴ _شرح سيرة بن ھشام بقلم ابوذر خشنى متوفى ۶۰۴ ھ حديث كى عربى عبارت ہے مالھم لعمار يد عوھم الى الجنة و يدعونہ الى النار ان عمارا جلدة مابين عينى وانفى فاذا بلغ ذلك من الرجل فلم يستبق فاجتنبوہ

۵_ حديث ہے : ويح ابن سميہ ليسوا بالذى يقتلونك انما تقتلك الفئة الباغيہ

۶_ اليوم القى الاحبة ۲_ عمار ياسر پنجشنبہ كے دن عصر كے وقت و صفر ۳۵ھ ميں ۹۳ سال كى عمر ميں شہيد ہوئے اپ كے حالات استيعاب ، اسد الغابہ ، اصابہ ، بخارى كتاب جھاد ميں ديكھئے

۱۳۷

اخر كار عمار اسى جنگ ميں معاويہ كے سپاہيوں كے ہاتھوں قتل كئے گئے ، ان كے قتل پر دوسپاہيوں ميں برائے افتخار جھگڑا ہو گيا ، عمر و عاص نے كہا :

بخدا ،يہ دونوں جہنم ميں جانے كيلئے ايك دوسرے سے جھگڑا كر رہے ہيں ، خدا كى قسم ميرى ارزو ہے كہ اج سے بيس سال پہلے مر گيا ہوتا(۷)

عثمان اور عمار

اب عمار ياسر كو پہچاننے كے بعد برا نہيں ہے كہ ہم يہ بھى سمجھ ليں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كے حق ميں جو احاديث فرمائي ہيں ان كا عثمان نے كتنا پاس و لحاظ كيا ، اور ام المومنين نے اپنا رد عمل كس طرح ظاہر كيا ، انھوں نے عثمان كى ناك رگڑ نے كے لئے عمار كے وجود سے كتنا استفادہ كيا _

بلا ذرى لكھتا ہے :

جس دن لوگوں نے عثمان كو خبر دى كہ ربذہ ميں ابوذر كا انتقال ہو گيا عثمان نے كہا ، خدا ابو ذر پر رحمت نازل كرے(۸)

عمار ياسر وہيں موجود تھے ، بڑے اثر انگيز انداز ميں كہا ہاں ، ميں دل كى گہرائيوں سے كہتا ہوں كہ خدا ان پر رحمت نازل كرے عثمان كيلئے يہ سرزنش قطعى غير متوقع تھى ، وہ چيخ پڑے ( يلعاض ايرابيہ )() جلا وطنى كى ندامت سے ٹسوے بہار ہے ہو ؟ تم خود جاكر انكى جگہ لے لو ، پھر حكم ديا كہ اسے گدّى ميں ہاتھ ديكر نكال باہر كردو _

عمار ياسر تيار ہو گئے كہ ربذہ چلے جائيں كيونكہ خليفہ كا فرمان تھا ، قبيلہ بنى مخزوم كے بہت سے لوگ جو عمار كے ہم پيمان تھے حضرت على كے پاس ائے اور ان سے گذارش كى كہ عمار ياسر كے بارے ميں عثمان سے گفتگو كركے اس حكم سے روكيں_

____________________

۷_ابوذر غفارى ، رسول خدا كے خاص صحابى انكا روحانى مرتبہ بہت بلند اور عوام كے زبان زد تھا ، انھوں نے عثمان پر پئے در پئے اعتراضات كئے اسلئے عثمان كے حكم سے ربذہ جلا وطن كر دئے گئے ؟ وہيں انتقال فرمايا ، اس سلسلے ميں كتاب عبد اللہ بن سبا ديكھى جائے

۸_ يا عاض ايرابيہ ، يہ بڑى گندى گالى ہے ايسا غير مہذب فقرہ ہے كہ اسكے ترجمے سے بھى شرم اتى ہے اس لئے ميں نے اصل لفظوں ہى كو لكھ ديا ہے تاكہ اس حصے كى اخرى حديث عثمان كى حيا كا نمونہ بن جائے ، كہاں تو فرشتے بھى عثمان سے شرم كرتے ہيں (سردار نيا )

۱۳۸

حضرت علىعليه‌السلام عثمان كے پاس گئے اور كہا كہ :

اے عثمان خدا سے ڈرو ، تم نے ايك مقدس مسلمان كو اسطرح جلا وطن كيا كہ وہيں انكى موت ہو گئي ، اب تم عمار كے پيچھے پڑے ہو كہ انھيں بھى وہيں جلا وطن كر دو _

نتيجے ميں حضرت علىعليه‌السلام اور عثمان كے درميان تلخ كلامى ہوئي ، يہاں تك كہ عثمان نے حضرت علىعليه‌السلام سے سخت لہجے ميں كہا :

تم ان سے زيادہ جلا وطن كے مستحق ہو _

حضر ت على نے جواب ديا :

اگر چاہتے ہو تو حكم ديدو _

مہاجر ين نے جمع ہو كر خليفہ سے كہا كہ ، ايسا نہيں ہو سكتا ، جو بھى تم سے گفتگو كرتا ہے تم اسے جلا وطنى كا حكم دے ڈالتے ہو عثمان نے مجبورا عمار كے بارے ميں اپنا فيصلہ واپس لے ليا(۹)

ايك دن اصحاب رسول خدا كے بہت سے افراد جن ميں مقداد بن عمرو عمار ياسر ، طلحہ و زبير شامل تھے ، اپس ميں مشورہ كر كے ايك خط عثمان كو لكھا جسميں ان كى تمام غلط حركتوں كو ايك ايك كر كے گنا يا گيا تھا كہ اگر تم نے اپنى يہ روش نہيں چھوڑى تو تمھارے خلاف شورش برپا كردى جائے گى اور بغاوت ہو جائے گى(۱۰)

عمار نے يہ خط ليا اور خود ہى خليفہ كے سامنے پيش كيا انھيں كے سامنے لوگوں كو خط كا بعض حصہ پڑھكر سنا ديا _

عثمان نے ايك تو عمار كى گستاخى اور دوسرے خط كا مضمون ان دونوں باتوں سے سخت برھم ہوئے ، لال بھبھوكا سرخ انگارہ ہو گئے چلّا كے بولے _

اس جماعت ميں ايك تم ہى يہ كام كرنے كيلئے تھے كہ خط ليكر ائے ہو؟ عمار نے جواب ديا_

كيونكہ ميں دوسروںسے زيادہ تمہارا خيرخواہ ہوں_

عثمان نے كہا ، سميہ كے فرزند ،تم جھوٹے ہو_

____________________

۹_ بلاذرى ج۵ ص۴۹ ، تاريخ يعقوبى ج۲ ص۱۵۰

۱۰_ بلاذرى ج۵ ص۴۹ عقد الفريد ج۲ ص۲۷۲ اس خط كى تفصيل ابن قتيبہ نے الامامة والسياسة ميں لكھى ہے

۱۳۹

عمار نے جواب ديا:

(تم مجھے سميہ كا بيٹا كہكے پكار رہے ہو ؟) ہاں خدا كى قسم ميں سميہ اور ياسر كا فرزند ہوں

عثمان غصے ميں بد حواس ہو گئے تھے ، اپنے غلاموں كو حكم ديا _

عمار كے ہاتھ اور پائوں كو پكڑ كر ہر ايك اپنى طرف گھسيٹے ، غلاموں نے حكم كى تعميل ميں چہار ميخ (شكنجہ كى اذيت ناك قسم ) كى شكل بنا دى ، خود عثمان نے عمار ياسرپر لات اور گھونسے برسانا شروع كردئے ، اتنى لاتيں ماريں كہ اس بوڑھے كمزور كو عارضئہ فتق لاحق ہو گيا ، وہ بے ہوش ہو گئے _

بيت المال نجى ملكيت

دوسرے وہ مواقع جہاںعثمان نے عمار ياسر سے پر خاش دكھائي ايك موتى كا قصہ ہے جسے عثمان نے بيت المال سے لے ليا تھا _

بلاذرى نے يہ قصہ اس طرح لكھا ہے :

مدينے كے بيت المال ميں ايك موتيوں كا ہار تھا جسميں قيمتى جواہرات جڑے ہوئے تھے ، عثمان نے وہ اپنى ايك بيوى كے لئے ركھ ليا ، جب يہ خبر لوگوں كے كانوں ميں پہونچى تو لگے عيب جوئي كرنے اور مذمت كى بھر مار كردى ، ان كے منھ پر بھى تنقيد ہونے لگى _

عوام كے اعتراض ميں اسقدر شدت تھى كہ عثمان بھڑك اٹھے ، اسى غصے كى حالت ميں منبر پر ائے اور تقرير كرتے ہوئے كہا :

ہم ان اندھوں كو جنھيں دكھائي نہيں ديتا كہنا چاہتے ہيں كہ ھم اس مال ميں سے جتنا چاہيں گے لے ليں گے اور _

حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں ٹوكتے ہوئے كہا :

تمہيں روك ديا جائے گا ، ايسے نہيں چھوڑ ديا جائے گا كہ اسميں من مانا تصرف كرو _

عمار ياسر نے بھى چلا كر كہا :

ميں خدا كو گواہ كر كے كہتا ہوں كہ ميں وہ پہلا انسان ہوں جس كو ايسى حركت بہت برى لگى ہے عثمان نے غصے ميں چلّا كر كہا :

( يابن المتكائ(۱۱) ) تيرى اتنى ھمت ہو گئي كہ مجھ سے سخت كلامى كرے اسكے بعد حكم ديا كہ اسے پكڑلو _

____________________

۱۱_ يہ بہت گندى گالى ہے جو اولين اسلام حضرت سميہ كو دى گئي ، يہ عثمان كے شرم و حيا كا دوسرا ثبوت ہے ( سردار نيا )

۱۴۰