تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 216
مشاہدے: 82527
ڈاؤنلوڈ: 3878


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82527 / ڈاؤنلوڈ: 3878
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد 1

مؤلف:
اردو

داد خواہوں نے مدينے كا رخ كيا

بلاذرى لكھتا ہے : قتل عثمان كے ايك سال پہلے بہت سے باشندگان كوفہ و بصرہ و مصر مسجدالحرام ميں ايك اجتماع كر كے باہم مشورہ كيا _

كوفيوں كى سردارى كعب بن عبدة النھدى كو ، بصرہ والوں كى مثنى بن مخرمہ عبدى كو اور مصر والوں كى رياست بشر بن عتاب كو دى گئي _

يہ لوگ عثمان كى غلط حركات كا پر چار كريں كہ انھوں نے تغير و تبدل كو جس طرح جائز قرار ديا ہے ، خدا سے عہد و پيمان كر كے جس طرح پائوں سے روندا ہے ان تمام باتوں كو بيان كريں ، اخر ميں ان لوگوں نے پكا عہد كيا كہ عثمان كى غلط حركتوں پر خاموش نہ بيٹھيں گے ، پھر يہ طئے پايا كہ ہر ايك اپنے اپنے شہر و ديار ميں واپس جاكر پيغام بر كے

انداز ميں اس اجتماع كے مذاكرات كا خلاصہ لوگوں سے بيان كرے ، پھر سال ايندہ عثمان كے گھر پر اكر انكى كارستانيوں پر ملامت و سرزنش كريں _

اگر ا س طرح عثمان متنبّہ ہوں اور اپنى غلط حركتوں سے بازا جائيں تو ان لوگوں كا مقصد حاصل ہو جائيگا اور اگر باز نہ ائيں تو ان كے بارے ميں كوئي اخرى اور فيصلہ كن اقدام كيا جائے ، ان تمام لوگوں نے اپنے اس منصوبے پر عمل كيا(۳۰)

چونكہ مصر كے باشندے دوسرے شھروں كے مقابل زيادہ ہى جوش وخروش كا مظاہرہ كر رہے تھے ، اسلئے عثمان نے اس شورش كى گرمى اور انقلاب كى چنگارى بجھانے كيلئے تيس ہزار درھم اور لباس و كپڑوں سے بھرا ايك اونٹ محمدبن ابو حذيفہ كے پاس بھيجا تاكہ مصريوں كا رہبر انقلاب انھيں ٹھنڈا كرے _

محمد بن ابوحذيفہ نے طئے كيا كہ ان تمام چيزوں كو مسجد ميں ركھا جائے تاكہ لوگ اسكا تماشہ ديكھيں ، پھر مسلمانوں كو مخاطب كر كے كہا :

____________________

۳۰_ انساب الاشراف بلاذرى ج۵ ص ۵۹

۱۶۱

اے مسلمانوكيا تم نہيں ديكھ رہے ہو كہ عثمان كس طرح مجھے دھوكہ دينا چاہتے ہيں ، وہ چاہتے ہيں كہ يہ رشوت ليكر ميں اپنا دين برباد كر دوں _

عثمان كى اس حركت اور فرزند ابوحذيفہ كے رد عمل نے مصريوں كا عناد اور بھى بڑھا ديا ، وہ عثمان كى اور زيادہ عيب جوئي كرنے لگے ، اس حركت كى وجہ سے مصر كے باشندوں ميں محمد بن ابو حذيفہ كى قيادت كا سكّہ اور بھى جم گيا وہ والہانہ انداز ميں انكى بات ماننے لگے(۳۱)

عثمان نے جور قم اس كام كيلئے دى تھى ، وہ مدينے ميں واپس نہيں منگواسكے ، جو وعدے كے مطابق مسجد الحرام ميں لوگوں كو دى جاتى ، بلكہ متعينہ وعدہ اس طرح پورا كيا گيا كہ محمدبن ابى بكر كے ہمراہ مصر سے مدينہ لے جائي گئي_

محمدبن ابى بكر بہت سے مصريوں كے ساتھ مدينہ كى طرف چلے اور محمدبن ابوحذيفہ مصر ہى ميں رہ گئے ، ادھر عبدالرحمن بن عويس بلوى(۳۲) پانچ سو ادميوں كے ہمراہ ماہ رجب ميں مدينے كے ارادے سے نكلے ، انھوں نے مشہور يہ كيا كہ عمرہ ادا كرنے جارہے ہيں _

گورنر مصر عبداللہ بن سعد بن ابى سرح كو جب ان تمام واقعات كى خبر ہوئي تو اس نے ايك تيز رفتار سوارى مدينے روانہ كى اور خليفہ كو رپورٹ دى كہ فرزند عويس بلوى اور اسكے ساتھى اپ سے ملنے كى غرض سے مدينے جارہے ہيں ، فرزند ابو حذيفہ نے اسكو عجرود تك رخصت كيا ، اس نے مشھور كيا ہے كہ عمرہ كى غرض سے مكّہ جارہے ہيں ليكن يہاں اپنے ساتھيوں ميں اعلان كيا ہے كہ ہم عثمان كا سامنا كرنے جارہے ہيں تاكہ اسے معزول كر ديں يا زندگى كا خاتمہ كرديں _

عبداللہ كے قاصد نے مصر سے مدينہ تك كا سفر گيارہ راتوں ميں طئے كر كے حاكم كا پيغام پہونچا ديا ، ادھر مصر والے بغير كسى ٹھہرائو كے مدينے كى طرف بڑھ رہے تھے تاكہ اپنے كو مدينے كے قريب مقام ذو خشب تك پہونچا ديں اور وہيں قيام كريں _

___________________

۳۱_ تاريخ طبرى ج۵ ص۱۱۵ ، بلاذرى ج۵ ص۵۱

۳۲_ عبدالرحمن بن عويس بلوى ان لوگوں ميں ہيں جنھوں نے حديبيہ كے موقع پر بيعت رضوان ميں شركت كى ، وہ فتح مصر كے وقت موجود تھے ، وہيں سے انھوںنے مصريوں كے ساتھ عثمان كے خلاف شورش ميں حصہ ليا ، معاويہ نے انھيں فلسطين ميں قيد كر ديا جب وہ قيد خانے سے بھاگے تو۳۶ھ ميں قتل كا فرمان ديا ، اصابہ ۴_ ۱۷۱ ديكھى جائے

۱۶۲

دوسرى روايت ہے كہ :

عبداللہ مصريوں كى اس سياسى سر گرمى كے بارے ميں عثمان سے تبادلہ خيال كى غرض سے اپنے صدر مقام سے چلا ، ابھى وہ ايلہ ہى پہونچا تھا كہ اسے اطلاع دى گئي كہ مصر يوں نے عثمان كے گھر كا محاصرہ كر ليا ہے ، اور محمد بن ابو حذيفہ نے عبداللہ كى غير موجودگى ميں مصر كے اندر بغاوت كردى ہے ، اس صورتحال ميں عبداللہ نے مصلحت يہى سمجھى كہ واپس مصر چلا جائے تاكہ كسى طرح سے اپنى حكومت بچا سكے _

ادھر جب محمد بن ابو حذيفہ نے مصريوں كى مدينے ميں پيش رفت ديكھى كہ عثمان كے گھر كا محاصرہ كر ليا ہے تو عبداللہ كى غير موجودگى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ساتھيوں كى مدد سے بغاوت كردى اور بڑى اسانى سے مصر اپنے قبضے ميں كرليا ، مصر كے باشندوں نے بھى انكى اطاعت كركے دل و جان سے اسكى حكومت مان لى _

انھيں حالات كے درميان جب عبداللہ مصر پہونچا تو محمد بن ابو حذيفہ كے مصر ميں داخل ہونے سے روكا ، اس نے صورتحال كو اپنے مخالف ديكھ كر چشم پوشى اختيار كى اور بگٹٹ فلسطين كى طرف چلا گيا _

وہ وہاں عثمان كے قتل ہونے تك رہا _

طبرى نے زبير كا قول اس طرح لكھا ہے(۳۳)

مصر والوں نے مقام سقيا يا ذو خشب سے عثمان كو خط لكھ كر اپنے ايك ادمى كے ذريعے خليفہ كے پاس پہونچا ، ليكن عثمان نے اس خط كا كوئي جواب نہيں ديا ، حكم ديا كہ خط لانے والے كو ذلت كے ساتھ گھر سے نكال ديا جائے ،عثمان كے پاس ائے ہوئے مصرى لگ بھگ چھ سو ادمى تھے ، وہ چار حصوں ميں بٹے ہوئے تھے ، ہر ايك كا ايك سردار عمر و بن بديل تھے ، صحابى رسول ہونے كى وجہ سے عبداللہ بن عديس نے انھيں كو سب كا سردار بنايا تھا _

____________________

۳۳_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۱۱ _ ۱۱۲ _ بلاذرى ج ۵ ص ۶۴_۶۵ ، ابن اثير ج۳ ص ۶۸ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۱۶۲ تا ۱۶۴

۱۶۳

مصر والوں كے خط كا متن يہ تھا

بسم اللہ الرحمن الرحيم

اما بعد اس بات كو سمجھ لو كہ;انّ اللہ لا يغير ما بقوم حتى يغير وا ما بانفسھم (خدا وند عالم اس وقت تك كسى قوم كى حالت نہيں بدلتا جب تك وہ خود اپنے اندر تبديلى نہ پيدا كر ے ) اسلئے ہم خدا كو تمھارا نگراں قرار ديتے ہيں اور اسكے غيظ و غضب سے ڈراتے ہيں ، خداوند نے تمہيں دنيا كى اسانياں فراہم كيں اسلئے اخرت كو مت چھوڑو ، كيونكہ اپنا اخرت كا فائدہ نظر انداز نہيں كرنا چاہئے ، اخرت كسى حال ميں فراموش نہيں كرنى چاہيئے _

اس بات كو سمجھ لو كہ ہم لوگ صرف خدا كيلئے غضبناك ہوئے ہيں اور اسى كے لئے راضى ہيں ، اور اب جبكہ ہم نے خدا كى راہ ميں قيام كيا ہے ، اپنى اپى ہوئي تلوار اس وقت تك نيام ميں نہيں ركھيں گے اور چين نہيں ليں گے جب تك تم سب كے سامنے اپنے گذشتہ كرتوتوں سے توبہ نہ كرلو ، اور اپنى حالت كو سامنے واضح كرو ، ہم لوگ اس وسيلے سے اپنى باتيں تمھارے كان تك ڈال رہے ہيں اور تمھارے مقابل ہم لوگوں كا ناصر و مدد گار خدا ہى ہے والسلام

عثمان نے باغيوں سے عہد وپيمان كيا

بلاذرى لكھتاہے :

مغيرہ بن شعبہ نے عثمان سے اجازت طلب كى تاكہ مصريوں سے بات چيت كر كے ان كے مطالبات معلوم كرے ، خليفہ نے انھيں اجازت دي، مغيرہ جب ان كے پڑائو پر پہونچے تو وہ سب كے سب چلّانے لگے_

اے كانے واپس جا ، اے بے حيا واپس جا ، اے منحوس واپس جا ، مجبوراََمغيرہ واپس چلے گئے ، عثمان نے عمرو

عاص كو بلا كر كہا :

تم اس گروہ سے ملاقات كرو ، اور انھيں قران كا حوالہ دو ميں ان كے تمام مطالبات پورے كروں گا _

۱۶۴

جب عمرو مصر يوں كے پاس گئے ، تو انھيں سلام كيا ، ليكن سلام كے جواب ميں كہا :

خدا تجھے سلامت نہ ركھے ، اے دشمن خدا واپس جا ، اے نابغہ كے جنے واپس جا ، تو ہمارے نزديك امين نہيں ، نہ تيرى ضمانت پر بھروسہ كيا جا سكتا ہے _

عبداللہ بن عمر اور تمام حاضرين نے عثمان كو مشورہ دياكہ اب صرف حضرت علىعليه‌السلام ہى اس مہم كو سر كر سكتے ہيں _

جب حضرت علىعليه‌السلام تشريف لائے توعثمان نے ان سے كہا -;اے ابو الحسن اس سے ملاقات كر كے انھيں كتاب خدا اور سنت رسول كى دعوت ديجئے _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا :

ميں يہ كام اس شرط پر انجام دے سكتا ہوں كہ مجھ سے عہد وپيمان كرو اور خدا كو اس پر گواہ قرار دو كہ جو كچھ ميں ان لوگوں سے وعدہ كروں گا تم اسے پورا كروگے _

عثمان نے كہا : مجھے قبول ہے _

حضرت علىعليه‌السلام نے عہد وپيمان كو قسم اورخدا كى گواہى سے استوار كر كے جس سے قوى تر ممكن نہيں تھى ، عثمان كے پاس سے چلے ، اور اس گروہ كے سامنے پہونچے تو سب نے چلا كر كہا ، واپس جايئے ، حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا_

نہيں ، ميں تمھارے پاس ائوں گا ، اور كتاب خدا پر عمل كى دعوت دوں گا ، تمھارے مطالبات كے بارے ميں وعدہ كروں گا _

اسكے بعد اپ نے ان لوگوں سے وہ سارى باتيں بيان كر ڈاليں جو عثمان اور اپ كے درميان پيش ائي تھيں ، اور انھيں بشارت دى كہ عثمان نے اپنا عہد پورا كرنے كا وعدہ كيا ہے

مصر والوں نے كہا ، كيا اپ اسكى ضمانت ليتے ہيں ؟

اپعليه‌السلام نے كہا _ہاں

انہوں نے كہا _ اگر ايسا ہے تو ہم بھى موافقت كرتے ہيں

۱۶۵

ا س وقت كچھ مشاہير و بزرگان مصر حضرت علىعليه‌السلام كے ہمراہ مدينہ وارد ہوئے اور عثمان كے گھر گئے ، انھوں نے اپنى باتوں ميں خليفہ كے كردار پر سرزنش كى عثمان نے كسى بھى اعتراض كو رد نہيں كيا ، سب كى تصديق كى اور وعدہ كيا كہ ان تمام

خرابيوں كو دور كروں گا مصر كے نمايندوں نے كہا _ ان باتوں كو لكھ كر ہميں ديدو تاكہ ہميں زيادہ اطمينان ہو_ عثمان نے انكى بات مان لى اور اپنے ہاتھوں مندرجہ ذيل تحرير لكھى :

بسم اللہ الرحمن الرحيم

يہ عہد ہے بندئہ خدا عثمان ا مير المومنين كا ان مومنوں اور مسلمانوں كے لئے جو ان سے رنجيدہ ہيں ، عثمان تحريراََ يہ عہد كرتا ہے كہ _

_اج كے كے بعد كتاب خدا اور سنت رسول كے مطابق عمل كروں گا

_جن كے حقوق لئے ہيں انھيں دوبارہ جارى كروں گا

_جو لوگ ميرے غضب سے ڈرے ہوئے ہيں انہيں امان ديكر انكى ازادى كيلئے كاروائي كروں گا

_جلاوطن لوگوں كو ان كے وطن واپس كروں گا

_سپاہيوں اور فوجيوں كو زيادہ عرصے تك محاذ پر نہيں ركھوں گا

_جنگى غنائم كو بغير كسى رعايت و استثناء كے سپاہيوں كے درميان تقسيم كروں گا

عثمان كى طرف سے حضرت على بن ابى طالب بھى مومنوں اور مسلمانوں كے ساتھ اس عہد وپيمان كے نفاذ كى ضمانت ليتے ہيں _

مندرجہ ذيل اشخاص نے اس عہد كى صحت پر گواہى دى _

زبير بن عوام ، طلحہ بن عبداللہ ، سعد بن مالك بن ابى وقاص ، عبداللہ بن عمر ، زيد بن ثابت ، سھيل بن حنيف ، ابو ايوب خالد بن زيد _

پھر اسكے بعد ہر گروہ نے اس عہدنامہ كى ايك كاپى لى اور واپس چلے گئے _

۱۶۶

فرزند ابو بكر اور مصر كى گورنري

بلاذرى اوردوسرے مورخين كے مطابق عثمان نے اس عہد نامے كے علاوہ ايك دوسرا عہد نامہ مصر والوں كو ديا ، اسميں عبداللہ بن ابى سرح كو بر طرف كر كے محمد بن ابى بكر كو وہاں كا گورنر بنايا _

بلاذرى لكھتا ہے: عائشه كے چچيرے بھائي طلحہ نے اٹھكر عثمان سے تلخ كلامى كى ، عائشه نے بھى پيغام بھيجا

كہ عبداللہ كو معزول كر كے مصريوں كا حق دو ، اس موقع پر حضرت على تشريف لائے اور مصريوں كى طرف سے كہا ، يہ لوگ تم سے مطالبہ كرتے ہيں كہ عبداللہ كو حكومت سے بر طرف كر كے كسى دوسرے شخص كو وہاں كا گورنر بنائو ، اسى طرح سب لوگ اس پر الزام لگاتے ہيں كہ اسكى گردن پر بہت سے بے گناہوں كا خون ہے ، اسے كار كردگى سے بر طرف كرو اور ان كے درميان فيصلہ كرو ،اگر يہ الزام صحيح ثابت ہو كہ عبداللہ نے ان كو قتل كيا ہے اس كے بارے ميں قانون خدا وندى جارى كر كے ان كے حقوق دو _

عثمان نے مصريوں سے خطاب كيا ، تم خود ہى كسى كا انتخاب كردو تاكہ اسكے حق ميں فرمان جارى كردوں ، سبھى مصريوں نے محمد بن ابى بكر كا نام اپس كے مشورہ سے ليا اور كہا ، محمد كو حكومت دينے كا فرمان جارى كر ديجئے(۱) عثمان نے مصريوں كى بات مان لى ، اور حكومت مصر كا فرمان محمد كے نام لكھ ديا ،اور مہاجرين و انصار كے ايك گروہ كو اسكے نفاذكا نگراں بناديا تاكہ يہى لوگ عبدللہ كے الزام كى بھى داد خواہى كريں ،اور تحقيقاتى رپورٹ عثمان كے حوالے كريں _

اس طرح بھر پور صلح و اشتى كے ساتھ طرفين ايك دوسرے سے جدا ہوئے مصر والے خوش خوش مدينے سے مصر كى طرف جانے لگے _

____________________

۱_ گمان قوى ہے كہ اس انتخاب ميں فرزند ابو بكر كا مصر كى گورنرى كيلئے عائشہ اور طلحہ اور ديگر مشاھير بنى تميم كے اثرات كے ما تحت نام ليا گيا ہو گا

۱۶۷

حضرت على خليفہ عثمان كى حمايت سے كنارہ كش ہوئے

عثمان كى سياسى توبہ

حضرت علىعليه‌السلام كى استقامت سے عثمان اور مصريوں كے درميان صلح صفائي ہو گئي عثمان نے تحرير بھى حوالے كر دى كہ ان كے مطالبات پورے كئے جائيں گے ، وہ سبھى لوگ خوش خوش عثمان كے گھر سے چلے گئے تو حضرت علىعليه‌السلام نے عثمان سے فرمايا ، اٹھو اور لوگوں كے سامنے تقرير كركے اپنے نظريہ و عقيدے كا اظہار كرو ، خدا كى بارگاہ ميں اپنى دلى توبہ كو گواہ بنائو كيو نكہ اكثر شہروں كے اوضاع و احوال ميں بے چينى ہے ہر جگہ تمھارے كرتوتوں كا چرچا ہے ، اسلئے اس بار انديشہ ہے كہ كوفے والے تم پر چڑھ دوڑيں ، پھر تم مجھ سے كہو گے _

اے على جاكر ان سے بات كرو ; اس صورت ميں مجھے ان سے بات كرنے كا يارانہ رہے گا ،وہ لوگ بھى ميرا كوئي بہانہ يا عذر نہيں سنيں گے _

يہ بھى ہو سكتا ہے كہ بصرہ والے تمہارے خلاف اٹھ كھڑے ہوں ،پھر تم مجھے فرمان صادر كرو كہ على جائو ان سے بات چيت كرو اور جب ميں تمھارے فرمان كو نظر انداز كروں تو تم مجھے اپنا قاطع رحم سمجھو ادائے حق ميں كوتاہى كا الزام دو _

عثمان اٹھكر مسجد ميں ائے اور تقرير كى ، اپنے گذرى باتوں پر ندامت كا اظہار كر كے توبہ كى ، تقرير كے درميان كہا :

اے لوگو خدا كى قسم تم لوگوں نے جو كچھ ميرے اوپر تنقيد كى ميں ان سب كو جانتا ہوں ، جو كچھ ميں نے ماضى ميں كيا ہے سبھى ميرى علم و واقفيت ميں تھا ، لاعلمى ميں نہيں كيا ہے ليكن اس درميان ميرى خواہش نفس نے مجھے سخت دھوكہ ديا _

حقائق كو الٹا ميرے سامنے پيش كيا ، اخر كار اس خواہش نفس نے مجھے گمراہ كر ديا ، مجھے جادہء حق و حقيقت سے منحرف كرديا _

ميں نے خود رسول خدا سے سنا ہے كہ فرماتے تھے _

جو شخص غلطى كا مرتكب ہو جائے تو اسے توبہ كرنا چاہيئے_

اور جو شخص گناہ كا مرتكب ہو تو اسے توبہ كرنى چاہيئے_

اور اس سے زيادہ اپنے كو گمراہى ميں نہ الجھائے ركھے _

۱۶۸

اگر ظلم و ستم پر اصرار كرتا رہے گا تو وہ اس گروہ ميں شمار كيا جائے گا جو حق كے راستے سے پورى طرح منحرف ہيں ميں خود پہلا شخص ہوں جس نے اس فرمان سے نصيحت حاصل كى ، اب ميں ان تمام گذشتہ باتوں سے خدا كى بارگاہ ميں استغفار كرتا ہوں ، ميں انكى تلافى كروں گا ، اور ميرے جيسے كيلئے يہى مناسب ہے كہ گناہ سے استغفار اور توبہ كرے _

اب ميں جيسے ہى منبر سے اتروں تو معزز اور اشراف حضرات ميرے پاس اكر اپنے اپنے مطالبات پيش كريں _

قسم خدا كى ، اگر خدا يہى چاہتا ہو كہ ميں بندئہ زر خريد رہوں تو اچھى طرح وہى روش اپنائوں گا ، اور جب لوگوں سے ذليل و خوار ہو جائوں گا تو فروخت شدہ غلام كى طرح صبر و شكيبائي كا رويہ اپنا لوں گا ، جب بيچا گيا تو صا بر ہے اور اناد ہوا تو شاكر ہے ، اور كوئي كام خدا ہى كى طرف منتہى ہوتا ہے ، اور تمام امور كى بازگشت اسى كى طرف ہے _

تم ميں جو لوگ شائستہ كردار ہيں ، مجھ سے منھ نہ موڑيں اور سمجھ ليں كہ مثال كے طور پر اگر ميرا داہنا ہاتھ ان پر فرمان كى طرح نہيں ہے تو ميرا باياں ہاتھ ان پر فرماں بردار كى طرح ہے

لوگوں كو عثمان كى اس تقرير سے رقّت طارى ہو گئي ، يہاں تك كہ بہت سے لوگ رونے لگے ، ان كى بيچارگى دور ماندگى اور توبہ و استغفار سے بہت زيادہ متاثر ہوئے ، اسى حالت ميں سعيد بن زيد نے عثمان سے كہا :

اے اميرالمومنين كوئي شخص بھى اپكا اتنا دلسوز نہيں ہے جتنے خود اپ اپنے دلسوز ہيں ، اب اپ خود اپنا

محاسبہ كيجئے اور جو وعدہ كيا ہے اس پر عمل كيجئے _

مروان كى وعدہ خلافي

جب عثمان منبر سے نيچے ائے تو سيدھے اپنے گھر گئے ، وہاں انھوں نے مروان ،سعيد اور ديگر بنى اميہ كو موجود پايا يہ سبھى عثمان كى تقرير كے وقت مسجد ميں موجود نہيں تھے ، جيسے ہى عثمان بيٹھے ، مروان نے ان سے كہا :

امير المومنين اجازت ہے كہ ميں كچھ كہوں :

عثمان كى زوجہ نائلہ اس سے پہلے بول پڑيں _

۱۶۹

نہيں ، بہتر يہى ہے كہ تم كچھ نہ بولو ، خاموش رہو ، اسكے بعد وہ كہنے لگيں _

خدا كى قسم ، حالات كى كشاكش اتنى بڑھ گئي ہے كہ لوگ بلا شبہ ان سے بغاوت كر بيٹھيں گے اور قتل ہى كر ڈاليں گے ، ان كے بچوں كو يتيم كر ديں گے ، انھوں نے اس شورش كے دن ايسى بات كہى كہ كسى طرح بھى مناسب نہيں تھى اب انھيں اس سے باز انا چاہيئے

مروان اس بے جامزاحمت سے بہت غصہ ہوا ، وہ اپے سے باہر ہو كر نائلہ سے سخت لہجے ميں بولا تمھيں ان باتوں سے كيا سروكار باپ مرتے مر گيا اور يہ بھى نہ جان سكا كہ صحيح و ضو كيسے كيا جاتا ہے _

نائلہ نے غصہ و نفرت كے ساتھ جواب ديا

مروان ، خاموش ہو جا ، تم ميرے مرے باپ كا نام درميان ميں لا رہے ہو ، ان پر جھوٹا الزام لگا رہے ہو ؟حالانكہ تمہارا باپ ايسا ہے كہ كسى كو اسكى جانبدارى كا يارا نہيں _

خدا كى قسم ، اگر تيرا باپ عثمان كا چچا نہ ہوتا ، اور فطرى بات ہے كہ برا چچا بھتيجے سے وابستہ ہوتا ہے ، تو تيرے باپ كيلئے بھى ايسى بات كہتى كہ تو انكا ر نہيں كر سكتا _

مروان نے مجبور ہو كر نائلہ سے منھ پھير ليا _

دوبارہ عثمان كى طرف متوجہ ہو كر پہلى بات كى تكرار كى _

عثمان نے اسے بات كرنے كى اجازت دى تو مروان نے كہا ، ميرے ماں باپ اپ پر قربان ، كيا اچھا ہوا

كہ اپ نے يہ باتيں اس وقت كہى ہيں جب اپ كے پاس طاقت و اقتدار ہے، اپ اس طرح ذليل نہ ہوتے ، اس حالت ميں ،ميںپہلا شخص ہوتا جو اپ سے خوش ہوتا ، اپ كى تائيد كرتا ، يہاں تك كہ ظاہر بظاہر اسكى كمك كرتا ، ليكن افسوس كى بات يہ ہے كہ اپ نے يہ باتيں اس وقت كہى ہيں جب پانى چكّى ميں گھس چكا ہے ، اور اپ كے اقتدار كا اتنا ہى حصہ باقى رہ گيا ہے جتنا خاشاك اور جھاگ كا حصہ زمين پر باقى رہتا ہے _

۱۷۰

اپ نے نہايت ذلت و خوارى كے ساتھ عوام كے سامنے اپنى ضرورت كا ہاتھ پھيلاديا اور انتہائي خاكسارى و بے چارگى كے ساتھ ان كے سامنے سپر انداز ہوگئے _

خدا كى قسم اگر اپ بار بار گناہ كر كے صرف خدا كى بارگاہ ميں استغفار كرتے تو اس سے كہيں زيادہ مناسب تھا كہ اپ نے عوام كے سامنے عاجز ى اور توبہ كا مظاہرہ كيا اگر اپ چاہتے تھے كہ اپنى توبہ سے لوگوں كے دل جيت ليں تو ان كے سامنے اپنى غلطيوں اور گناہوں كا اقرار كرنا صحيح نہيں تھا ، اسى عاجزى اور غلطيوں كے اقرار كى وجہ سے لوگ اسطرح اپ كے دروازے پر امنڈ پڑے ہيں _

عثمان نے مروان سے كہا :

تم خود باہر جاكر ان لوگوں سے بات كرو كيونكہ مجھے اب ان سے بات كرتے شرم اتى ہے _

مروان گھر سے نكلا ، عثمان كے وعدے كى وجہ سے لوگوں كا ہجوم دروازے پر اگيا تھا ، شانے سے شانہ چھل رہا تھا _

ٹھيك اسى وقت مروان ان كے سامنے پہونچ گيا اور ان كى طرف رخ كر كے چلّانے لگا _

كيا بات ہے لوٹ پاٹ كرنے ائے ہو ، تمہارا منھ كالا ، ہر شخص كو ديكھ رہا ہوں كہ دوسرے كو روك كر خود اگيا ہے ، جسے ميں ديكھنا چاہتا ہوں وہ لوگ نہيں ہيں

كيا معاملہ ہے ، كيا ہمارى حكومت پر دانت تيز كئے ہوئے ہو اسطرح ہجوم كر كے ہمارى حكومت چھيننے ائے ہو ؟

نكل جائو ، دفعان ہو جائو ، خدا كى قسم ، اگر ہمارى طرف رخ كيا تو ايسى مار پڑے گى جسے تم سوچ بھى نہيں سكتے تمہيں بڑا مہنگا پڑے گا _

تم لوگ بھى كيا گدھے ہو ، اپنے گھروں كو واپس جائو ، تم لوگ دھوكے ميں ہو ، ہم ہرگز تم سے پيچھے نہيں ہٹيں گے نہ اپنا اقتدار تمہارے حوالے كريں گے _

۱۷۱

عثمان كى دور انديش زوجہ

لوگوں نے ابھى تھوڑى دير پہلے عثمان سے جو كچھ ديكھا سنا تھا اور اب جو كچھ ديكھ رہے تھے ،سخت حيرت و استعجاب ميں تھے ، وہ كيا تھا ، اب يہ كيا ہے ، اسكا جواب بہت مشكل تھا ، سب كے سب حضرت على كى بارگاہ ميں گئے اور تمام واقعات كى اطلاع دى

حضرت علىعليه‌السلام غصّے ميں بھرے عثمان كے پاس ائے اور سخت لہجے ميں بولے ابھى تم نے مروان كو نہيں چھوڑا نہ وہ تمھيں چھوڑ رہا ہے وہ تمھارا دين اور تمہارى عقل دونوں بر باد كر دے گا ؟تمھيں ذليل اونٹ كى طرح جہاں چاہتا ہے گھسيٹتا پھرتا ہے ،تم سر جھكائے چلتے چلے جارہے ہو _

خدا كى قسم ، مروان نہ تو مكمل ايمان ركھتا ہے نہ سالم فكر ، حق كى قسم ، ميں ديكھ رہا ہوں كہ وہ تمھيں ہلاكت ميں ڈال ديگا پھر وہ تمھيں نجات نہيں دے سكے گا ، تم نے اپنى حيثيت اور اپنا شرف پامال كر ديا ، اب اپنے كرتوتوں كى سر نوشت ميں گرفتار ہو ، ميں اب اس كے بعد يہاں نہيں ائوں گا نہ تم سے كوئي سروكار ركھوں گا ، نہ تمھارے كر توت پر سرزنش كروں گا _

جب حضرت علىعليه‌السلام اس حالت ميں گھر سے باہر چلے گئے توعثما ن كى زوجہ نائلہ ائيں اور اجازت طلب كر كے بوليں ،ميں نے على كى بات سنى ، اب وہ دوبارہ تمھارے پاس نہيں ايئں گے ، تم نے اپنے كو پورے طور سے مروان كے قبضے ميں ديديا ہے ، وہ جہاں چاہتا ہے تمھيں لئے پھرتا ہے ، عثمان نے جواب ديا _

بتائو بھى اب ميں كيا كروں ؟

۱۷۲

نائلہ نے جواب ديا

خدائے واحد سے ڈرو ، ابوبكر و عمر كا طريقہ اپنائو اگر تم نے مروان كى بات مانى تو تمھيں قتل كرا ديگا _

لوگوں كى نظر ميں مروان كى كوئي قدر و منزلت نہيں ، وہ لوگ مروان ہى كى وجہ سے تم سے روگرداں ہيں ، كسى كو على كے پاس بھيجو اور انھيں اشتى سے بلائو ، كيونكہ وہ تمھارے رشتہ دار ہيں ، اور لوگوں نے ان سے كوئي ظلم بھى نہيں ديكھا ہے _

عثمان نے كسى كو بھيجا كہ حضرت علىعليه‌السلام كو بلالائے ، مگر حضرت علىعليه‌السلام نے انكار كرتے ہوئے فرمايا: ميں ان سے كہہ

چكا ہوں كہ اب نہيں ائوں گا_

ادھر جب نائلہ كى بات مروان كو معلوم ہوئي تو عثمان كے پاس پہونچا اور ان كے سامنے بيٹھ كر بات كرنے كى اجازت چاہى _

عثمان نے اجازت دى تو مروان نے كہا :

يہ نائلہ ، فرافصہ كى بيٹى عثمان نے اسكى بات كاٹتے ہوئے كہا اسكے بارے ميں كوئي بات نہ كہو ، خدا كى قسم وہ تم سے زيادہ ميرى رعايت كرتى ہے اور تم سے زيادہ ميرى ھمدرد ہے _

مروان مجبوراََچپ ہوگيا

طبرى اپنى تاريخ ميں لكھتا ہے(۲)

عبدالرحمن اسود نے مروان كے بارے ميں كہا :

خدا مروان كا منھ كالا كرے ، عثمان لوگوں كے سامنے ائے اور ان كے راضى ہونے كى باتيں كہيں _

يہ قربت اور صفائي ان پر ايسى محيط تھى كہ بے اختيار منبر پر رونے لگے ، لوگ بھى رونے لگے ، ميں نے خود ديكھا كہ عثمان كى داڑھى انسوئوں سے تر تھى ، وہ اسى حالت ميں كہہ رہے تھے خدا يا تجھ سے بخشائشے كا طلبگارہوں ، خدا يا تجھ سے بخشايش كا طلبگار ہوں _ خدايا تجھ سے بخشايش كا طلبگار ہوں _ بخدا اگر ايسا ہو كہ ميں زر خريد غلام ہو جائوں تو ميں گردن جھكا دوں ، اور راضى رہوں گا ، جب ميں گھر پہنچوں تو تم لوگ ميرے پاس ائو ، خدا كى قسم ، اب كبھى تم سے پنہاں نہيں رہوں گا ، دروازے پر دربان نہيں ركھوں گا ،تمھارا حق دوں گا اور زيادہ ہى دوں گا ، اور تم لوگوں كى خوشنودى كا سامان زيادہ سے زيادہ فراہم كروں گا ،ميں تم لوگوں كو زبان ديتا ہوں كہ مروان اور اسكے رشتہ داروں كو اپنے پاس سے دھتكاروں گا _

___________________

۲_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۱۱۲، ابن اثير ج۳ ص ۹۶

۱۷۳

جب عثمان اپنے گھر پہونچے تو حكم ديا كہ گھر كا دروازہ كھول ديا جائے اور اس پر دربان نہيں ركھا جائے _

ليكن مروان ان كے ساتھ گھر كے اندر گيا ، دير نہيں گذرى كہ خليفہ كى رائے تبديل كردى ، انھيں فريب ديا ، اور اسقدر مكّارى و حيلہ كام ميں لايا كہ لوگوں كے ساتھ صلح و صفائي كے ارادہ سے منھ موڑ ديا ، نتيجہ يہ ہوا كہ

عثمان شرم سے تين دن تك گھر سے باہر نہيں نكلے(۳)

اس دن مروان خود عثمان كے گھر سے باہر نكلا اور چلّانے لگا چند لوگوں كو چھوڑ كے جنھيں ميں چاہتا ہوں ، بقيہ تم سب كا منھ كالا ہو ، اپنے گھروں كو واپس جائو ، اگر اميرالمومنين كو تم ميں كسى سے كوئي كام ہو گا تو ادمى بھيج كے بلواليں گے ورنہ اسے گھر سے نكلنے كا حق نہيں ہے _

اس موقع پر ميں حضرت على كو تلاش كرنے نكلا ، جب مسجد ميں پہونچا تو انھيں ديكھا كہ قبر رسول اور منبر كے درميان بيٹھے ہوئے ہيں اپكے پہلو ميں محمد بن ابى بكر اور عمار ياسر بيٹھے ہوئے لوگوں كے ساتھ مروان كے سلوك بيان كر رہے ہيں ،حضرت على نے مجھے ديكھا تو فرمايا ،جس وقت عثمان تقرير كررہے تھے تم وہاں تھے ؟ميں نے جواب ديا ، جى ہاں

حضرت علىعليه‌السلام نے پوچھا ، مروان نے جو كچھ لوگوں سے كہا اسے بھى تم نے سنا ؟

ميں نے جواب ديا ، جى ہاں ،اس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا :

خدا مسلمانوں كى فرياد كو پہونچے ، اگر ميں گھر ميں بيٹھ رہتا ہوں اور اس سے سروكار نہيں ركھتا تو عثمان كہتے ہيں ،اپ نے نہ ميرا خيال كيا نہ ميرے حق كا خيال كيا نہ رشتہ دارى كا خيال كيا ، اور اگر بيكار نہيں بيٹھتا اور لوگوں سے بات كرتا ہوں تو مروان ٹپك پڑتا ہے اوربا وجود اس كے كہ وہ مسن ہيں ، صحابى رسول ہيں عثمان كے ساتھ كھلواڑ كرنے لگتا ہے ، جہاں چاہتا ہے گھسيٹتا پھرتا ہے ،يہى باتيں ہو رہى تھيں كہ عثمان كا پيادہ ايا اور حضرت على سے بولا ، عثمان اپ كو بلا رہے ہيں _

____________________

۳_ خليفہ كے فرائض ميں نماز جماعت پڑھانا بھى تھا ، وہ تين دن تك نماز نہيں پڑھا سكے ( سردار نيا )

۱۷۴

حضرت علىعليه‌السلام نے غصّے ميں بلند اواز سے فرمايا :

ان سے كہہ دو كہ اب ميں نہيں ائوں گا اور نہ تمھارے اور مسلمانوں كے درميان واسطہ بنوں گا _

عثمان كا پيادہ حضرت علىعليه‌السلام كا جواب پہونچا نے چلاگيا،اگے عبدالرحمن بن اسود اپنى بات يوں بيان كرتے ہيں كہ اس واقعے كے دو رات بعد ميں نے عثمان كو ديكھا كہ اپنے گھر سے چلے ارہے ہيں ميں نے عثمان كے غلام نائل سے پوچھا _

اميرالمومنين كہاں جارہے ہيں ؟

حضرت على كے گھر اس كے دوسرے دن ميں حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں پہونچا تو انھوں نے خود فرمايا :

گذشتہ شب عثمان ميرے پاس اكر كہنے لگے ، اب ميں دوبارہ اپنى گذشتہ غلط حركتيں نہيں دہرائوں گا ، ميں نے جو كچھ وعدہ كيا ہے اسے پورا كروں گا ميں نے ان كے جواب ميں كہا كيا اس كے بعد كہ تم نے منبر رسول پر لوگوں كے سامنے تقرير كى انھيں ہر طرح تعاون كرنے كى زبان دى ، انھيں مطمئن كر كے تم اپنے گھر پلٹے ، اسكے بعد مروان تمھارے گھر سے نكلا اور ان لوگوں سے جو تعاون كے اميدوار تھے گالياں دينے لگا انھيں برا بھلا كہا ، سبھى كو دكھ پہونچايا _

عثمان رنجيدہ ہو كر گھر سے جاتے ہوئے كہہ رہے تھے ، ميرى رشتہ دارى كا تم نے كچھ بھى خيال نہ كيا ، مجھے ذليل كيا اور لوگوں كو ميرے اوپر گستاخ بنا ديا ، ميں نے جواب ديا خدا كى قسم ميں اج سے پہلے تمہارا سب سے بڑا مددگار اور ساتھى تھا ، لوگوں كى اذيت سے تمھيں بچاتا تھا ، ليكن جب بھى ميں نے تمھار ى خوشنودى كى خاطر اپنے كو گرا يا ، مروان ٹپك پڑا اور تم نے اسكى بات مان لى ، اور ميرى سارى كوششوں پر پانى پھيرديا حضرت علىعليه‌السلام نے اخر ميں فرمايا ، عثمان نكلے اور اپنے گھر چلے گئے _

عبداللہ الرحمن كا بيان ہے كہ ، ميں نے اس تاريخ سے حضرت علىعليه‌السلام كو خليفہ كے معاملے ميں دخل ديتے نہيں ديكھا ، نہ پہلے كى طرح ان كا دفاع كرتے ديكھا(۴) _

____________________

۴_ تاريخ گواہى ديتى ہے كہ حضرت على نے عثمان كا سب سے زيادہ دفاع كيا يہاںتك كہ عثمان كے رشتہ دار بنى اميہ سے بھى زيادہ دفاع كيا ، ان كا دفاع مفيد بھى تھا ، مولف محترم نے تاريخى احاطہ بندى نہيں كى ہے ، صرف چند نمونے پيش كئے ہيں (سردار نيا )

۱۷۵

محاصرئہ عثمان

ہم نے ديكھا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے عثمان كى جان بچانے كيلئے كئي بار سچے دل سے اقدامات كئے ، اور جن لوگوں پر انھوں نے اور ان كے كارندوں نے ستم ڈھائے تھے ان كے درميان ايلچى بھى بنے تاكہ شعلہء انقلاب ٹھنڈا ہو جائے ، خليفہ كى جان بچ جائے ، ليكن ان تمام تدبيروں اور كوششوں ميں ہر بار عثمان قسم كھاتے ، عہد كرتے كہ لوگوں كى گردن سے عمّال بنى اميہ كے ہاتھ كوتاہ كروں گا ، ليكن احمق حاشيہ نشينوں كے بہكانے خاص طور سے بنى اميہ كى فرد مروان كى وجہ سے ہر وعدہ پيروں تلے روند ڈالتے نتيجے ميں ايك دوسرا فتنہ كھڑا ہو جاتا ، مجبور ہو كر وہ دوبارہ حضرت على سے چارہ جوئي كى درخواست كرتے ،خليفہ كى سستى اور رذالت اس حد كو پہونچ گئي كہ امام نے ناگريز طور پر اس ذمہ دارى سے ہاتھ كھينچ ليا ، اور عثمان كو ان كے حال پر چھوڑ ديا تاكہ وہ اور ان كا مشير مروان اور دوسرے سرداران بنى اميہ ان لوگوں سے جو اپنا حق لينے اور انصاف چاہنے كيلئے عثمان كا محاصرہ كئے ہوئے ہيں ، اپس ميں سمجھ ليں _

عكرمہ نے عثمان كے محاصرے كى تفصيلات كو ابن عباس سے نقل كيا ہے ،عثمان كا دوسرى بار محاصرہ كيا گيا ، پہلى بار عثمان بارہ روز تك مصريوں كے محاصرے ميں تھے ، اخر ميں على نے مقام ذى خشب پر ان سے ملاقات كر كے واپس كيا ، خدا كى قسم على نے بھر پور خلوص نيت سے عثمان كو چھٹكارا دلانے كا ايثار كيا ، اور كوئي اقدام اٹھا نہيں ركھا ، يہاں تك كہ عثمان سے انھيں دلتنگ كرديا گيا وجہ يہ تھى كہ مروان و سعيد كے علاوہ دوسرے رشتہ دار عثمان كو على كے خلاف بھڑكاتے رہتے تھے ، اور عثمان بھى على كے بارے ميں جو باتيں كہى جاتيں انھيں مان ليتے تھے اور تصديق كرتے تھے ،وہ سب عثمان سے كہتے كہ اگر على چاہيں تو كسى كى ھمت نہيں كہ اپكے قريب اكر كچھ بول سكے ادھر اپ عثمان كو نصيحت كرتے ، انھيں ہدايت ديتے مروان اور اسكے رشتہ داروں كے حق ميں ان سے سخت باتيں كہتے ، وہ سب بھى حضرت على كے اس سلوك سے خفا ہو كر عثمان سے كہتے اپ تو ان كے امام اور پيشوا ہيں ،ان سے برتر ہيں ، ان كے رشہ دار ہيں ،چچيرے بھائي ہيں ، اپ كے سامنے وہ ايسے ہيں اور اپ كے پيٹھ پيچھے اپكو كيا كہتے ہيں ؟اس طرح كى باتيں اتنى بار عثمان سے كہى گيئں كہ على نے عثمان كے تعاون سے اپنا دامن كھينچ ليا ابن عباس كا بيان ہے _

۱۷۶

جس دن ميں مدينے سے مكّہ جارہا تھا ، اس دن ميں على كے پاس گيا ،اور ان سے كہا ، عثمان نے مجھے حكم ديا ہے كہ ميں مكّہ چلاجائوں حضرت علىعليه‌السلام نے كہا :

عثمان حقيقت پسند نہيں رہ گئے كہ كوئي انھيں نصيحت و رہنمائي كرے ، انھوں نے اپنے گرد مٹھى بھر ذليل اور پست فطرت افراد كو جمع كرليا ہے جنھوں نے زميندارياں ہضم كرلى ہيں اور ماليات و خراج كو اپنے سے مخصوص كرليا ہے ، لوگوں كى گاڑھى كمائي مال غنيمت كى طرح كھا رہے ہيں _

ميں نے انھيں جواب ديا

وہ ہم لوگوں سے رشتہ دارى كى وجہ سے حق ركھتے ہيں كہ اپ انكى حمايت كريں ، اس بارے ميں اپكا كوئي عذر قابل قبول نہيں ، ابن عباس اخر ميں بولے _

خدا جانتا ہے كہ ميں نے چہرے پر عثمان سے نرمى اور شفقت كو واضح طور سے ديكھا ، ليكن دوسرى طرف ميں نے ديكھا كہ ان حالات پر وہ بہت بر ہم ہيں _

اسى طرح عكرمہ كہتا ہے(۵)

عثمان جمعہ كے دن منبر پر گئے ، حمد خدا بجالائے ، ٹھيك اسى موقع پر ايك شخص كھڑا ہوا اور عثمان سے بولا اگر صحيح كہہ رہے ہو تو قران كو اپنا رہنما بنائو اسكے احكام پر عمل كرو _

عثمان نے اس سے كہا ، بيٹھ جائو ، وہ شخص بيٹھ گيا ليكن پھر دوبارہ اٹھكر اعتراض كرنے لگا ، عثمان نے تين بار اسے بيٹھنے كا حكم ديا ، اس درميان لوگوں ميں اختلاف بڑھ گيا ايك دوسرے پر كنكرياں مارنے لگے ، سنگبارى اتنى شديد تھى كہ اسمان نظر نہيں ارہا تھا ، سنگريزوں كى مار سے عثمان كى حالت يہ ہوئي كہ وہ منبر سے بيہوش ہو كر گر پڑے ، اسى حالت ميں لوگوں نے انھيں گھر پہونچا يا ، ٹھيك اسى وقت عثمان كا ايك نوكر ہاتھ ميں قران ليكر گھر سے باہر نكلا اور بلند اواز سے يہ آيت پڑھنے لگا _

____________________

۵_ تاريخ طبرى ج۵ ص ۱۱۳

۱۷۷

انّ الذين فرقو ا دينهم انعام آيت ۱۵۹

جن لوگوں نے اپنے دين كو ٹكڑے ٹكڑے كر ديا اور گروہ گروہ بن گئے ، يقيناان سے تمھارا كوئي واسطہ نہيں انكا معاملہ تو اللہ كے سپرد ہے(۶)

علىعليه‌السلام نے اپنے كو عثمان كے گھر پر پہونچايا ، وہ بيہوش تھے اور ان كے گرد بنى اميہ بيٹھے ہوئے تھے ،حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا :

اميرامومنين كو كيا ہو گيا ہے ؟

تمام بنى اميہ ايك اواز ہو كر چلّانے لگے _

عليتم نے ہميں مار ڈالا ، امير المومنين كو يہ دن دكھايا ، بخدا اگر تم اپنى ارزو پاگئے تو ہم بھى تمھارے اوپر زندگى تلخ كرديں گے _

حضرت علىعليه‌السلام نے انكا يہ جواب سنا تو غصّے ميں بھرے ہوئے خليفہ كے گھر سے نكل ائے عكرمہ كا يہ بھى بيان ہے كہ :

مدينہ كے باشندوں نے عثمان كو خط لكھا جسميں انكى غلط باتوں كو گنا يا گيا تھا ، اور اصرار كيا گيا تھا كہ وہ توبہ كريں ، تحرير ميں قسم كھا كر كہا گيا تھا كہ ہر گز نہيں بخشيں گے جب تك حكم خدا كے مطابق عمل نہ كرو گے ، ان كا حق نہ ديدوگے ، ورنہ قتل كرديا جائے گا

عثمان موت كى دھمكى سے بہت زيادہ ڈرے ہوئے تھے بنى اميہ كے اپنے طرفداروں ، اپنى بيوى اوربچوں سے بچائو كے بارے ميں مشورہ كرتے ہوئے كہا :

تم سب لوگ ديكھ رہے ہو كہ چاروں طرف سے دبائو پڑرہا ہے لوگوں كى بغاوت كا شعلہ مجھے اپنى لپيٹ ميں لے چكا ہے اب كيا تدبير كى جائے ؟

____________________

۶_ سورہ انعام آيت ۱۵۹لست منهم فى شئي

۱۷۸

سب نے رائے دى كہ كسى كو بھيجكر على كو بلايئےور كہيئے كہ وہ لوگوں سے بات كريں ، ان كے مطالبات پورے ہونے كا وعدہ كريں تاكہ اس درميان امدادى كمك پہونچ جائے ;

عثمان نے كہا :

اب عوام دھوكہ نہيں كھايئں گے ، كوئي عذر يا بہانہ ہرگزنہيں مانيں گے ، ميں نے پہلى دفعہ ان سے عہد و قرار كيا ليكن اس پر عمل نہيں كيا ، اس بار يقينى طور پر مجھ سے عہد خدا وندى كا مطالبہ كر كے ضامن بھى چاہيں گے ، جب ميں ايسا كروں گا تو وہ پورا كرنے كى مانگ كريں گے ، مروان نے كہا :

اے اميرامومنين ، جب تك اپ كو طاقت نہ پہونچ جائے اس وقت تك ان سے قريب رہيئے انھيں كسى طرح بہلاتے رہيئے ،ان سے مجادلہ كرتے رہيئے ، جو كچھ اپ سے مطالبہ كررہے ہيں ، اپ وعدہ كرتے رہيئے ، جتنا بھى ہو سكے ان سے نرم گفتگو كيجئے اور جب كہ وہ لوگ اپ سے بغاوت كررہے ہيں تو اس عہد و پيمان كى كوئي وقعت بھى نہيں نہ اعتبار رہے گا _

عثمان نے يہ بات مان لى اور كسى كو حضرت علىعليه‌السلام كے پاس بلانے كيلئے بھيجا ، جب اپ تشريف لائے تو ان سے كہا :

اپ ان لوگوں كا سلوك ديكھ رہے ہيں ، اپ نے ديكھا كہ انھوں نے كيا كيا ،اور ميں نے كيسا مظاہرہ كيا ، ميرى حيثيت كو اپ اچھى طرح جانتے ہيں ، ميں اس گروہ سے اپنى جان كے بارے ميں بے خوف نہيں ہوں ، اپ جس طرح سے ہو سكے ان كے شر كو مجھ سے دور كيجئے ، خدائے تعالى ضامن ہوگا ، يہ لوگ جو كچھ چاہتے ہيںميں خود اپنى ذات سے اور اپنے رشتہ داروں سے انھيں ديدوں گا ، اگر چہ اس راہ ميں ميرا خون بھى بہا ديا جائے _

۱۷۹

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا :

يہ لوگ اپ كے خون سے زيادہ اپكے انصاف كے ضرورتمند ہيں ، اپ كو معلوم ہونا چاہيئے كہ ميں نے اس دروازے كى اڑ ميں اپ كى مخالفت ميں ايسے لوگوں كو ديكھا ہے كہ جب تك وہ اپنا حق نہيں لے ليں گے كسى طرح بھى اپ سے نرمى كا برتائو نہ كريں گے ، اپ نے پہلى مرتبہ ان سے خدا كو گواہ كركے عہد و پيمان كيا كہ ان گورنروں اور كارمندوں كو برطرف كردوں گا جنكى وجہ سے يہ عوام اپ سے غصہ ہيں ،اور ميں نے بھى اسى عہد و پيمان كى بنياد پر ان لوگوں كو اپ كے پاس سے پراگندہ كيا _

ليكن اپ نے كسى ايك وعدے كو بھى پورا نہيں كيا نہ اس پر عمل كيا ، اب دوسرى بار مجھے دھوكہ مت ديجئے ، اور بيہودہ باتوں سے مجھے نہ بہلايئے ، كيونكہ اگر اس بار ان سے ملاقات كروں گا تو حق و عدالت كى روشنى ميں ان كا حق ديدوں گا _

_مجھے منطور ہے ، اپ ان سے وعدہ كرليجئے ، خدا كى قسم ان باتوں كو پورا كرنے كيلئے ميں اقدام كروں گا _

حضرت علىعليه‌السلام عثمان كے گھر سے نكلے اور لوگوں سے كہا :

تم لوگ اپنے حق كا مطالبہ كررہے ہو ، وہ تمھيں مل جائے گا ، عثمان نے تمھارى بات مان لى ہے ، انھوں نے اپنے اوپر لازم كر ليا ہے كہ تمھارے بارے ميں حق و عدالت وہ خود اور دوسروں كى طرف سے مراعات كريں گے

_ہميں منظور ہے ، ليكن ہميں اطمينان دلايئےيو نكہ ہم ان كے قول پر عمل نہ كرنے كى وجہ سے اعتماد نہيں كرتے _

حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا :

_حق تم لوگوں كے ساتھ ہے پھر اپ عثمان كے پاس واپس گئے اور انھيں صورتحال كى خبر دى _

عثمان نے كہا :ہميں مہلت ديجئے ، تاكہ اس مہلت كے سائے ميں ان كے مطالبات كو عملى جامہ پنھاسكوں ، كيونكہ يہ ميرے بس ميں نہيں ہے كہ ان كے تمام مطالبات كو ايك دن ميں پورا كرسكوں _

۱۸۰