تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد ۱

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 216

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 216
مشاہدے: 82514
ڈاؤنلوڈ: 3878


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 216 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82514 / ڈاؤنلوڈ: 3878
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران پيغمبر تا خلفا ثلاثه جلد 1

مؤلف:
اردو

شيخ ابو يعقوب نے اس طرح كہا :

فاطمہ كى سوتيلى ماں

پہلى بار عائشه و فاطمہ كے درميان كينہ و دشمنى اسطرح شروع ہوئي كہ رسول خدا نے خديجہ كے انتقال كے بعد عائشه سے عقد فرمايا ، خديجہ كى جگہ عائشه كو ملى حالانكہ فاطمہ حضرت خديجہ كى بيٹى تھيں اور يہ بات ظاہر ہے كہ جس بيٹى كى ماں مر جائے اور اسكا باپ دوسرى شادى كرلے تو اس بيٹى سے باپ كى دوسرى زوجہ سے تعلقات ٹھيك نہيں رہتے ، اور يہ بات فطرى اور مسلم ہے ، كيونكہ ہر عورت اپنے شوہر كى پہلى زوجہ كى اولاد سے دشمنى كا برتائو كرتى ہے ، خاص طور سے ايسى حالت ميں كہ جب شوہر كى پہلى زوجہ سے شديد وابستگى كا مظاہرہ ہو

اسى طرح اگر بيٹى باپ كو دوسرى عورت كى طرف توجہ كرے اسكى سوتيلى ماں ہو تو غمگين اور نگراں رہتى ہے ، باوجود يكہ خديجہ دنيا سے گذر چكى تھيں ليكن بہر حال عائشه حضرت فاطمہ كى سوتيلى ماں تھيں ، اگر خديجہ زندہ ہوتيں اور عائشه كے قدم پيغمبر كے گھر ميں ائے ہوتے تو دشمنى اور لڑائي سخت اور شديد ہوتى ، ليكن جبكہ ماں كا انتقال ہو چكا تھا تو يہ دشمنى وراثت ميں فاطمہ كو ملى تھى _

دوسرى طرف ديكھئے كہ كہا جاتا ہے كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا عائشه سے بہت محبت فرماتے تھے(۱۳) انكى بہت مراعات فرماتے ، يہ بنيادى چيز كہ رسول جس قدر عائشه سے زيادہ محبت فرماتے اسى قدر حضرت فاطمہ كا رنج و اندوہ بڑھتا جاتا ، احساسات مجروح ہوتے رہتے_

فاطمہعليه‌السلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پياري

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنى بيٹى فاطمہ كو لوگوں كى توقع سے زيادہ پيار كرتے اور تعظيم فرماتے ، اور عام ادمى جسقدر اپنى بيٹى سے اظہار محبت كرتا ہے اسى سے كہيں زيادہ محبت فرماتے ، يہ پدرانہ شفقت و محبت حد سے زيادہ اور كہيں زيادہ نظر اتى ہے _

____________________

۱۳_ عائشہ سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى محبت كے سارے افسانے تنہا عائشہ سے مروى ہيں اور ميں انشاء ا اگلے صفحات ميں ان پر تبصرہ كروں گا _

۶۱

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا چاہے وہ عام نشست ہو يا خاص ، مختلف موقعوں پر بارہا فرما چكے تھے ، فاطمہ تمام عالمين كى عورتوں كى سردار ہے ، وہ مريم بنت عمران كى مانند ہے(۱۴)

جب فاطمہ عرصہ محشر سے گذرينگى تو عرش كى جانب سے منادى پكارے گا اپنى انكھيں بند كر لو كہ فاطمہ تمھارے درميان سے گذرنے والى ہيں(۱۵)

اس قسم كى تمام احاديث ميں ذرا بھى شك و شبہ نہيں كيا جا سكتا فاطمہ اور على سے شادى بھى خدا وند عالم نے مقرب فرشتوں كو گواہ بنا كر اسمان پر فرمائي تھى(۱۶)

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اكثر فرمايا كہ جو چيز فاطمہ كو رنج پہونچاتى ہے وہ مجھے رنج پہونچاتى ہے ، جو كچھ اسے غضبناك كرتى ہے مجھے غضبناك كرتى ہے(۱۷)

وہ ميرى پارہ جگر ہے اسكى نگرانى سے ميں رنجيدہ و ملول ہوتا ہوں(۱۸)

اس قسم كى احاديث سے رسول كى زوجہ عائشه كيلئے اس بات كا سبب بنا كہ وہ فاطمہ سے حسد كريں ، جس قدر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنى بيٹى فاطمہ كا احترام فرماتے ان كا كينہ و عناد تيز سے تيز تر ہوتا ، حالانكہ ہم جانتے ہيں كہ اس سے بھى كمتر حسن سلوك بھى سوتيلى ماں كے كينہ و عناد كو بڑھاديتا ہے _

ليكن رسول كے اعزاز و اكرام فاطمہ سے جس قدر عائشه كے دل ميں كينہ و عناد تيز ہوتا ، حضرت على كے دل ميں خوشى بڑھتى اور فاطمہ كا احترام ان كے دل ميں زيادہ ہوتا اكثر ايسا ہوتا ہے كہ عورتيں اپنے شوہروں كے دل ميں عداوت و دشمنى پيدا كر ديتى ہيں كيو نكہ مثل مشہور ہے راتوں كى ہمدم (محدثات الليل )

____________________

۱۴_ كنزل العمال ج۶ ص۲۱۹ حديث شمارہ ۳۸۵۳_۳۸۵۴_۳۸۵۵

۱۵_مستدرك ج۳ ص۱۵۳_۱۵۶

۱۶_ مستدرك ج۳ ص۱۵۸ _۱۵۹ وكنز ج۶ص۲۱۸حديث ۳۸۳۴

۱۷_ مصدر سابق

۱۸_ كنزالعمال _ اسد الغابہ _ استيعاب _ حليہ ابو نعيم و خلاصہ تہذيب الكمال

۶۲

حضرت فاطمہعليه‌السلام عائشه كى بہت شكايت كرتيں اور مدينے كى ہمسايہ عورتيں كبھى كبھى اپ كے پاس اكر عائشه كى باتيں ان سے بيان كرتيں ، پھر حضرت فاطمہعليه‌السلام كا رد عمل عائشه سے بيان كرتيں جس طرح فاطمہ اپنا درد دل اپنے شوہر علىعليه‌السلام سے كہتى تھيں اسى طرح عائشه اپنے باپ سے اسكى شكايت كرتى تھيں كيو نكہ وہ جانتى تھيں كہ شوہر سے شكايت كرنے سے ان كے شوہر نہيں مانيں گے _

عناد كے كئي رخ

يہ معاملہ بجائے خود ابوبكر كے دل ميں نا پسند يدہ اثرات مرتب كرتا تھا ، وہ اس سے رنجيدہ ہوتے تھے ، اور جب وہ ديكھتے تھے كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا على كى تعريف و ستائشے كا كوئي موقع فرو گذاشت نہيں كرتے انھيں اپنے سے مخصوص قرار ديا ہے ، مقرب بنا ليا ہے تو ان كے دل ميں كينہ و عناد كى اگ بھڑك اٹھتى ، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك على كا مرتبہ و مقام ديكھ كر انھيں رشك اتا ، جبكہ وہ اپنے كو سسر ہونے كى حيثيت سے على سے زيادہ اسكا مستحق سمجھتے _

يہ حسد اور نفسياتى كسك عائشه كے چچيرے بھائي طلحہ كے دل ميں بھى تھى عائشه اپنے باپ ابو بكر اور بھائي طلحہ كے پاس جاكر انكى توقعات كو سنتى تھيں ان كے دلى درد پر توجہ كرتيں ، وہ دونوں بھى اظہار ہمدردى كرتے ، اسطرح على و فاطمہ سے كينہ وعداوت كا تبادلہ ہوتا ، ان لوگوں كے دل ميں جس قدر بھى على سے عداوت سخت تر ہونے كى بات ہو ميں اسكى صفائي نہيں دے سكتا ، ادھر علىعليه‌السلام و عائشه كے درميان حيات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ايسے واقعے پيش ائے ، گفتگو كے

۶۳

تبادلے ہوئے جو ان كے پوسيدہ احساسات اور فتنے ابھارنے كيلئے كافى تھے _

جيسے كہ روايت ہے ، ايك دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے على سے راز دار انہ بات كى اور يہ رازدارى كافى طويل ہوئي(۱۹) عائشه اس بات كى فكر ميں لگى ہوئي تھيں اپنے كو اچانك ان دونوں كے درميان پہونچا ديا اور كہا كہ اخر كون سى اہم بات ہے كہ اپ دونوں اتنى دير سے گفتگو كر رہے ہيں ، كافى دير لگا دى ؟

بيان كيا جاتا ہے كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اس ناگہانى امد سے سخت غضبناك ہوئے اسى كے ساتھ يہ بھى روايت كى جاتى ہے كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كيلئے كھانا بھيجا گيا تھا انھوں نے اپنے نوكر كو حكم ديا كہ انتظار ميں رہے ، جيسے ہى كھانا ائے اسے پھينك دے اس قسم كے معاملات عام طور سے عورت اور شوہر كے گھر والوں كے درميان پيش اتے ہيں _

فرزندان فاطمہ سے رسول كا والہانہ پيار :

فاطمہ كو كئي لڑكے اور لڑكياں ہوئيں ، حالانكہ عائشه اولاد سے محروم رہيں اور عائشه كے بے اولاد ہونے كا بد ترين اور دردناك ترين پہلو يہ تھا كہ رسول خدا نے فرزندان فاطمہ كو اپنى اولاد كہا ،ہميشہ انھيں اپنا فرزند كہكے خطاب فرماتے مثلافرماتے ، ميرے فرزند كو لائو ...ميرے فرزند كو مت روكو ...اور يا ميرے فرزند كے ساتھ كيا كر رہا ہے؟

ان حالات ميں جب اپنے شوہر كو ايك بے اولاد عورت ديكھتى ہے كہ اپنے بيٹى كے فرزندوں كو اپنا فرزند كہہ رہا ہے اور ان كے ساتھ ايك شفيق اور مہربان باپ كى طرح برتائو كر رہا ہے ، اپنى جان سے زيادہ عزيز ركھتا ہے انكى قدر و منزلت بڑھا رہا ہے تو كيا سوچے گى ؟

كيا وہ ان بچوں اور انكى ماں سے محبت كريگى يا ان سے نفرت كريگى ؟كيا يہ مسلسل سلگنے والى بھٹى مہربانى اور صفائي چاہے گى يا زوال كى ارزو كريگى ، اس سے بھى زيادہ دردناك تر بات يہ تھى كہ رسول نے حكم ديا _

____________________

۱۹_ اس راز و نياز كو مورخوں نے جنگ طائف كے موقع پر بتايا ہے _ كہتے ہيں كہ جب راز و نياز كافى دير ہوا تو لوگوں نے كہنا شروع كيا كہ رسول نے اپنے چچيرے بھائي سے دير تك راز و نياز كيا ايك روايت ہے كہ يہ بات ابو بكر نے كہى تھى _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب ديا كہ ميں نے راز و نياز نہيں كيا بلكہ يہ خدا كى جانب سے راز و نياز تھا _ صحيح ترمذى ج۲ ص ۲۰۰ _ تاريخ خطيب ج۷ ص ۴۰۲_ كنز العمال _ اسد الغابہ

۶۴

مسجد كى طرف كھلنے والے تمام دروازے بند كئے جائيں ، اسى وقت حكم ديا كہ ان كے داماد على كا دروازہ مسجد كى طرف كھلا رہے ؟(۲۰)

اور يہ كہ پہلے ابو بكر كو سورہء برائة كى تبليغ كے لئے ديا كہ مكہ جا كر مشركين كو سنائيں پھر انھيں اس عہدے سے بر طرف كر كے اپنے داماد على كو ديديا(۲۱) يہ بات بھى عائشه كيلئے بڑى ناگوار تھى جب خدا نے ماريہ كو ابراہيم جيسا فرزند عطا فرمايا ، على اپنى مسرت روك نہيں سكے ، جس طرح اپ دوسرى ازواج رسول كے ساتھ تعاون فرماتے تھے ، ماريہ كے ساتھ بھى تمام توجہ كے ساتھ كمك اور تعاون فرمايا _

جب ماريہ پر الزام لگايا گيا تو يہ على تھے جنھوں نے دل و جان سے انكى صفائي كى كوشش كى ، اس الزام كو بے بنياد ثابت كرنے كا عملى اقدام فرمايا يا اس سے بہتر لفظوں ميں كہا جائے كہ خدا نے على كے ہاتھوں حق ظاہر كيا اور الزام كا بطلان يوںظاہر كيا كہ انكھوں سے ديكھا جاسكے ، اور اس بارے ميں ذرا بھى چون و چرا كى گنجائشے نہ رہ جائے _

ان تمام باتوں نے عائشه كے دل ميں كينہ و نفرت بھر ديا ، ان كے خلاف تمام كينہ توزيوں كےلئے راسخ كر ديا _

جب ابراہيم كا انتقال ہوا تو ماريہ كے غم و اندوہ ميں طعنوں اور زبان كے زخموں نے بھى سر ابھارے يہ على و فاطمہ كو بھى جھيلنا پڑا كيونكہ يہ دونوں ماريہ كو اہميت ديتے تھے ، اور چاہتے تھے كہ ماريہ كو صاحب اولاد ہونے كى وجہ سے دوسرى ازواج خاص كر عائشه پر برترى حاصل ہو جائے ،ليكن تقدير نہ تو ان لوگوں كى ارزو كے مطابق تھى نہ ماريہ كى خواہش كے مطابق _

على اور مسئلہ خلافت

على كو ذرا بھى شك نہ تھا كہ بعد رسول خلافت انھيں كو ملے گى ، دوسرا كوئي بھى ان كا رقيب نہيں(۲۲) يہى اطمينان قلب تھا كہ جس وقت ان كے چچا عباس نے غسل پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كہا :

____________________

۲۰_ مسند احمد كنز ج۶ ص ۱۵۲ حديث ۲۴۹۵ و منتخب كنز ج۵ ص ۲۹ _ مستدرك ج۳ ص ۱۲۵ _ صحيح ترمذى ج۱۳ ص ۱۷۶

۲۱_ مسند احمد ج۱ ص ۳۳۱ و مستدرك ج۳ ص ۵۱ _۵۲ _ مسند احمد ج۱ ص ۲ بطريق ابو بكر و على خصائص نسائي

۲۲_ يہ ابن ابى الحديد كے استاد كى بات صحيح نہيں _ كتاب عبد اللہ بن سبا ج۱ ص ۱۰۶ _ فصل خلافت ملاحظہ ہو

۶۵

ہاتھ بڑھائو تاكہ تمہارى بيعت كر لوں تاكہ لوگ كہيں كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چچا نے اپنے بھتيجے كى بيعت كر لى ، يہ تمہارے حق ميں مفيد ہو گا پھر كسى كو تمھارى مخالفت كا يا رانہ نہ ہو گا _

على نے جواب ديا :

اے چچا كيا ميرے علاوہ بھى كوئي ہے جسے خلافت كى طمع ہو ؟

تم جلدہى ديكھ لو گے

مجھے پسند نہيں كہ مسئلہ خلافت پچھلے دروازے سے ظاہر ہو ، بلكہ ميں يہ چاہتا ہوں كہ تمام لوگ اشكار طريقے سے شريك ہوں اور خلافت كے بارے ميں رائے ديں ، يہ كہا اور خاموش ہو گئے _

اور جب رسول كى بيمارى نے شدت پكڑى تو رسول نے جيش اسامہ كو حركت كا حكم ديا(۲۳) اور ابو بكر اور دوسرے اكابر قريش مہاجر و انصار كو حكم ديا كہ جيش اسامہ كے ساتھ اسامہ كى ما تحتى ميں چلے جائيں ، اگر يہ بات مان لى جاتى اور پيغمبر كى وفات ہوئي تو على كى خلافت مسلّم اور قطعى تھي_

خود على كا خيال تھا كہ اگر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات ہو جائے تو مدينے ميں خلافت كا جھگڑا نہ ہو گا ، اس صورتحال ميں لوگ اسانى سے انكى بيعت كر ليں گے اور اس بيعت كا فسخ يا ان كا حريف ہونا ممكن ہى نہ تھا ، لا محالہ تمام لوگ انكى بيعت كريں گے _

ليكن ابو بكر نے عائشه كے اس پيغام كى بنياد پر كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كا ہنگام اگيا ہے، لشكر اسامہ سے علحدہ ہو كر مدينے پلٹ ائے _

ليكن جہاں تك لوگوں كو نماز پڑھانے والى ابو بكر كى بات ہے تو ميرى دانست ميں حضرت على نے اس كا ماحول تيار كرنے كيلئے عائشه كو متعارف كرايا ہے _

____________________

۲۳_ طبقات بن سعد ميں ہے كہ تمام مہاجرين و انصار كے سربراوردہ حضرات حكم رسول سے مامور تھے كہ لشكر اسامہ ميں شريك ہوں ان ميں ابو بكر عمر ابو عبيد ہ جراح سعد بن ابى وقاص وغيرہ تھے ، بعض نے اس حكم پر اعتراض كرتے ہوئے كہا كہ بڑے بڑے مہاجرين و انصار پر اس چھوكرے كو سردار بنا ديا ہے ، جب يہ خبر رسول كو ہوئي تو غصے ميں منبر پر گئے اور حمد و ثنائے الہى كے بعد فرمايا ، يہ كيسى باتيں ہيں جو لشكراسامہ كے بارے ميں سن رہا ہوں ، روز شنبہ انحضرت نے اس اعتراض كا جواب ديا اور تيسرے دن دو شنبہ كو انتقال فرمايا ، طبقات بن سعد ، تہذيب بن عساكر ، كنز العمال ملاحظہ فرمايئے

۶۶

جيسا كہ لوگ كہتے ہيں كہ رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا نے فرمايا كہ كوئي جا كر لوگوں كو نماز پڑھا دے اور كسى معين شخص كا نام نہيں ليا ، وہ صبح كى نماز كا وقت تھا ، ليكن يہ حكم دينے كے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ذاتى طور سے اخرى لمحے ميں على اور فضل بن عباس كے كاندھوں كا سہارا لئے ہوئے باہر ائے اور محراب ميں بيٹھ گئے پھر اپ نے خود ہى نماز پڑھائي اور گھر واپس اگئے ، سورج نكل ايا تھا كہ دنيا سے تشريف لے گئے _

عمر نے اسى امادگى اور ابو بكر كا لوگوں كو نماز پڑھانا ان كے استحقاق خلافت كى دليل بنايا ہے ، وہ كہتے ہيں كہ :

تم ميں كون اپنے لئے جائز سمجھتا ہے كہ جسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے نماز پڑھانے كيلئے مقدم قرار ديا اس سے مقدم سمجھے؟

اور يہ بات كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا گھر سے باہر ائے اور خود ہى نماز پڑھائي اس پر حمل نہيں كيا ہے كہ اس سے ابوبكر كى امامت روكنا تھا ، بلكہ كہتے ہيں كہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات پر مائل تھے كہ جہاں تك ممكن ہو خود ہى يہ كام انجام ديں اس واقع اور اس مسئلے كا سہارا ليتے ہوئے لوگوں نے ابوبكر كى بيعت كر لى حالانكہ اس سازش كا الزام على نے عائشه پر لگايا ہے كہ يہ پورا ماحول انھوں ہى نے تيار كيا تھا ، اپ نے بارہا اس بات كو اپنے اصحاب سے جو اپ كے اردگرد تھے فرمايا :

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عائشه و حفصہ سے اس معاملے ميں فرمايا ، تم دونوں يوسف والى عورتيں ہو ، اپ اس كاروائي سے اپنى نفرت اور ناپسنديدگى فرما رہے تھے _

خاص طور سے اپ نے عائشه سے اپنى برہمى ظاہر فرمائي ، كيو نكہ يہ عائشه اور حفصہ ہى تھيں جنھوں نے حكم رسول سے استفادہ كرتے ہوئے اپنے اپنے باپ كو نماز پڑھانے كى پيش دستى كى اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو جب اس نيابت كى اگاہى ہوئي تو رنجيدہ ہو كر بذات خود باہر ائے اور ابو بكر كو اس امامت سے روك كر زندگى كے اخرى لمحے ميں عملى طور سے عائشه كے اقدام كو ناكام بنايا _

اس صورتحال ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسيع تر ماحول تيار كئے ہوئے حالات ميں اس سے زيادہ كر بھى نہيں سكتے تھے كيونكہ عمر و ابوبكر نے ماحول پر پورے طور سے قبضہ كر كے لوگوں كو اسكے لئے تيار كر ليا تھا ، اس سلسلے ميں مہاجرين و انصار كے سربراوردہ افراد ان كے شريك تھے ، گردش زمانہ اور تقدير اسمانى نے بھى ان لوگوں كى مدد كى تھى _

يہ حادثے على كے لئے تمام دردوں سے اذيتناك تھے ، عظيم مصيبت اور بڑى افت تھى جو اپ كى روح كو تكليف پہونچاتى تھى ، اسكا ذمہ دار وہ صرف عائشه كو قرار ديتے تھے ، اس بات كو بار ہا اپ نے اصحاب سے كہہ كر خدا سے انصاف كا مطالبہ كيا _

۶۷

اس سے بڑھكر يہ كہ علىعليه‌السلام نے بيعت ابو بكر سے اس وقت تك ركے رہے جب تك اپ كو مجبور نہيں كيا گيا(۲۴) اپ نے كيا كيا مصائب جھيلے يہ سارى باتيں مشھور ہيں _

جس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انتقال فرمايا ، اور جب تك طويل بيمارى كے بعد فاطمہعليه‌السلام نے انتقال فرمايا ، برابر عائشه كى طرف جناب فاطمہ كو طعنوں بھرى باتوں كا سامنا كرنا پڑا جس سے اپ كى روح لرزاٹھى تھى ، جناب فاطمہ اور حضرت علىعليه‌السلام كے لئے سوائے صبر كے چارہ نہ تھا ، وہ اپنے غم و اندوہ كى شكايت خدا ہى سے كر سكتے تھے _

عائشه اپنے باپ كى حمايت اور خلافت كى چكى پھرانے والوں ميں سر فہرست تھيں مرتبہ و مقام روز بروز بڑھتا رہا ، جبكہ حضرت فاطمہعليه‌السلام اور حضرت علىعليه‌السلام شكست خوردہ كى طرح طاقت و اقتدار سے الگ ركھے گئے ،فدك فاطمہ سے چھين ليا گيا ، اپ نے بارہا اسے واپس لينے كى كوشش كى ليكن تمام كوششوں كا كوئي نتيجہ نہ نكلا _(۲۵)

اس درميان جو اپ كے پاس امد و رفت كرتيں عائشه كى طعنوں سے بھر پور باتيں اپ سے بيان كرتيں ، اس طرح اپ كے دل كو سخت تكليف پہونچتى اور انكى اور انكے شوہر كى باتيں عائشه سے بيان كر كے اتش كينہ و عداوت كو ان دونوں كے درميان بھڑكا تى تھيں _

ليكن ان دونوں گروہوں كے درميان انتہائي بد تر اختلاف موجود تھا ، ايك گروہ كامياب تھا اور دوسرا گروہ شكست خوردہ ، ايك حكمراں تھا دوسرا محكوم ، يہى وہ حالت ہے كہ غالب گروہ كى باتيں شكست خوردہ كو بڑى تكليف پہونچاتى ہيں ، اور يہ بات طئے ہے كہ دشمن كى ملامت سے ادمى كو جو روحانى اذيت ہوتى ہے وہ تمام مصيبتوں سے دردناك ہوتى ہے _

يہاں تك ميرے استاد كى بات پہونچى تھى كہ ميں نے عرض كى كيا اپ بھى كہتے ہيں كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے كسى معين شخص كو نماز پڑھانے كا حكم نہيں ديا تھا ، يہ صرف عائشه تھيں جنھوں نے خود سرانہ طريقے سے اپنے باپ كو اس كام پر مامور كيا تھا _

____________________

۲۴_ تفصيلات كيلئے كتاب عبد اللہ بن سبا فصل سقيفہ ملاحظہ فرمائيں

۲۵_ طبقات بن سعد ج۲ _ صحيح بخارى _ المغازى باب غزوئہ خيبر ج۳ ص ۳۸ _ صحيح مسلم ج۱ ص ۷۲ _ ج۳ ص ۱۵۳ _ طبرى _ ابن كثير _ مسند احمد بن حنبل ج۱ ص ۴ _ ج ۶ ص۹

۶۸

استاد نے جواب ديا ، ميں يہ نہيں كہتا ، يہ بات على نے كہى ہے ، اور ظاہر ہے كہ انكى ذمہ دارى الگ ہے اور ميرى ذمہ دارى الگ ہے ، وہ خود جائے واقعہ پر موجود تھے اور تمام باتوں كو اپنى انكھوں سے ديكھا تھا ، ليكن مجھے جو حديثيں ملى ہيں ان سے معلوم ہوتا ہے كہ رسول خدا نے ابوبكر كو نماز پڑھانے پر مامور كيا تھا ، جبكہ على كا مدرك علم و اطلاع ہے ، انھوں نے تمام سرگرميوں كو خود ديكھا تھا ،يا كم سے كم اپ اس پر ظن قوى ركھتے تھے _

اسكے بعد استاد اپنى بات اگے بيان كرنے لگے_

بالاخر فاطمہعليه‌السلام نے انتقال فرمايا ، اپ كے انتقال ميں تما م خواتين نے شركت كى سوائے عائشه كے جنھوں نے نہ صرف يہ كہ سستى دكھائي اور بنت نبى كى ماتم پرسى ميں نہيں گئيں بلكہ اس كے بر عكس اپنى خوشى اور شادمانى كا اظہار كيا جو على تك پہونچائي گئي _

على نے فاطمہ كے انتقال كے بعد ابوبكر كى بيعت كر لى ،اور جيسا كہ كہتے ہيں عائشه نے بيعت على كے بعد چونكہ كوئي انكے باپ كا حريف خلافت نہيں تھا نہ خلافت كا دعويدار تھا بہت زيادہ خوشى كا اظہار كيا ،يہى صورتحال خلافت عثمان كے زمانے تك رہى ، جبكہ پرانے كينے سينوں ميں موجيں مار رہے تھے ، اور خون بھڑك رہے تھے ،زمانہ جيسے جيسے گذرتا على پر مصائب بڑھتے ہى جاتے ، اپ كى روحانى اذيت ميں اضافہ ہى ہوتا ، دل كا درد بڑھتا جاتا يہاں تك كہ عثمان قتل كر دئے گئے ،عثمان كو قتل كرانے ميں عائشه نے خود ہى موثر كردار ادا كيا ، لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكا يا ، وہ عثمان كى سب سے بڑى مخالف تھيں ، قتل عثمان كے سلسلے ميں لوگوں سے كہتيں ، خدا عثمان كو قتل كرے _

عائشه نے اسلئے عثمان كو خون بہانے كى بات كہى كہ وہ چاہتى تھيں كہ عثمان خاندان بنى اميہ سے ہيں ، ان سے چھين كر ان كے خاندان تيم ميں پھر واپس اجائے ، اور اس سلسلے ميں انھوں نے اپنے چچيرے بھائي طلحہ كو اگے اگے كر كے خلافت كا اميد وار بھى بنا ديا تھا ،ليكن جب عثمان قتل كر دئے گئے تو لوگوں نے عائشه كى توقع كے خلاف على بن ابى طالب كو خلافت كے لئے چن ليا ،_ انكى بيعت كر لى ، جب يہ خبر عائشه كو ملى تو بے اختيار انہ فرياد كرنے لگيں ،ہائے افسوس عثمان پر ، عثمان مظلوم قتل كئے گئے _

ا س طرح عائشه نے دوسرى بار فرزند ابو طالب سے اپنى پرانى دشمنى ظاہر كى ، اور اس راہ ميں اتنى كوشش كى كہ لوگوں كو علىعليه‌السلام كى خلاف اس قدربھڑكايا كہ جنگ جمل ہوگئي ، اور پھر بعد ميں وہى راہ اپنائي جسے ميں نے شروع ميں بيان كيا ،يہ شيخ ابو يعقوب كے بيان كا خلاصہ تھا جو نہ تو مذہب اہلبيت پر تھے نہ شيعہ كى طرح جانبدارى برتنے والے تھے _

ہم نے خطبہء امير المومنين كا بڑا حصہ پاشالى طريقے سے بيان كيا جسے بن ابى الحديد نے نقل كيا ہے ، اس سے ام

۶۹

المومنين عائشه كى على سے كينہء ديرينہ كى وضاحت ہوتى ہے ، بن ابى الحديد كے استاد نے اپنے بيان ميں عائشه كى زندگى كے پيچيدہ اور مبہم گوشوں كى اچھى طرح تشريح كى ہے ، اسميں انھوں نے ازدواج كے دوران اہلبيت سے روابط كے حالات ، بعد وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اہلبيتعليه‌السلام كے خلاف كا روائيوں كى مكمل تشريح كى ہے ، ہم نے بھى جہاں تك ان كى زندگى كے رخوں كے اشارے كئے ہيں اسى پر اكتفا كرتے ہيں ، كيونكہ اگر انكى زندگى كے ادوار كا اس سے زيادہ تحقيقى تجزيہ كريں جس نے اسلامى معاشرے كو متاثر كيا ...جو بجائے خود ايك مستقل كتاب كى متقاضى ہے ، تو خوف ہے كہ ہم اپنے مقصد اصلى سے ہٹ جائيں گے ، ہمارا تو صرف يہ مقصد ہے كہ ام المومنين كى احاديث كا تجزيہ كريں _

خلاصہ

جو كچھ ہم نے قارئين تك پہونچايا اس كا خلاصہ يہ ہے كہ ، ام المومنين سخت متعصب خاتون تھيں ، طبيعت ميں حسد بھرا ہوا تھا جسے حيات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں دوسرى ازواج رسول سے ان كے برتائو اور اہلبيت كے ساتھ سلوك كو ديكھ كر معلوم كيا جاسكتا ہے _

اس كے علاوہ جب كہ ہم نے تھوڑا حصہ نقل كيا اور ائندہ تفصيل سے بيان كريں گے ، ام المومنين اپنى گرمئي مزاج خاندان والوں كے مفادات كے تحفظ ، اپنى پارٹى كى مصلحتوں(۲۶) كے بارے بڑى غيرت مند اور متعصب تھيں ، اپنى طبيعى سختى كى صفت ہى كى وجہ سے انھوں نے سخت اور اہم كارستانياں اور سنگين افعال كے لئے اپنى تلخ و تند اور انقلابى باتوں كا جال بچھايا_

____________________

۲۶_ ام المومنين عائشہ نے رسول خدا كے گھر ميں اپنى پارٹى بنا لى تھى ، جيسا كہ خود اس بارے ميں كہتى ہيں ، ازواج رسول دو گروہوں ميں بٹ گئيں ، ايك پارٹى ميں عائشہ حفصہ اور سودہ تھيں اور دوسرى پارٹى ميں ام سلمہ اور دوسرى ازواج تھيں ، بقيہ حديث سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب فاطمہ اسى دوسرى پارٹى ميں تھيں جو مخالف عائشہ تھى ، اس سلسلے ميں صحيح بخارى ملاحظہ فرمايئے ليكن رسول خدا كے گھر كے باہر ام المومنين نے اپنے خاندان تحفظ كے مفادات اور اپنى پارٹى كى ترقى كيلئے برابر كام كرتى رہيں _

۷۰

فصل دوم

شيخين

۱_ ابو بكر كا لقب صديق اور عتيق تھا ، نام عبد اللہ تھا ، ابو قحافہ عثمان كے فرزند تھے قبيلہ تيم كى فرد تھے جو قريش كا قبيلہ تھا ،ان كى ماں كا نام ام الخير تھا ، جو سلمى يا ليلى كے نام سے موسوم تھيں ، عامر كى بيٹى تھيں ، يہ بھى تيم كے قرشى قبيلے كى تھيں _

ابو بكر عام الفيل كے دو يا تين سال بعد مكہ ميں پيدا ہوئے ، يہ ان لوگوں ميں ہيں جنھوں نے خديجہ ، على زيد اور جعفر كے بعد اسلام قبول كرنے ميں سبقت كى _

ابو بكر نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے ہمراہ مكہ سے مدينہ ہجرت كى ، جنگ بدر اور بعد كى جنگوں ميں شريك ہوئے ، وفات پيغمبر كے بعد اس سے پہلے كہ جنازہ رسول دفن ہو سقيفہ بن ساعدہ ميں اپنے ديرينہ ساتھى عمر كے تعاون سے ايك اسان انقلاب كے سھارے زمام امور اپنے ہاتھ ميں لى _

ابو بكر نے ۲۲ جمادى الثانيہ ۱۳ كو انتقال كيا ، ان كا جنازہ رسول كے پہلو ميں دفن كيا گيا ، عمر ۶۳ سال پائي ، انكى خلافت كا زمانہ دو سال تين مہينے اور چھبيس يا دس دن تك رہا _

۲_ ابو حفص ، فاروق ، عمر بن خطاب ، قريشى قبيلہ عدى كى فرد نفيلى كى نسل سے تھے ، انكى ماں كا نام حنتمہ تھا جو مغيرہ كے فرزند ھشام يا ہاشم كى بيٹى كہى جاتى ہيں _

عمر نے پچاس لوگوں كے بعد اسلام قبول كيا اور مسلمان ہوئے ، كچھ دن بعد مكہ سے مدينے ہجرت كى ، جنگ بدر اور دوسرى جنگوں ميں شريك رہے _

ابو بكر نے بستر مرگ پر انھيں اپنا جانشين بنايا ، ايام خلافت عمر ہى ميں اسلامى فتوحات جزيرة العرب كے باہر شروع ہوئيں ، عمر نے ۵۵ سال يا بقولے ۶۳ سال عمر پائي ، ۲۶ ذى الحجہ ۲۳ ميں مغيرہ كے غلام ابو لولو كے خنجر سے زخمى ہوئے _

پہلى محرم ۲۴ ھ كو جوار ابو بكر ميں دفن كئے گئے ، زمانہء خلافت دس سال چھہ مہينے پانچ روز ہے ، ابو بكر و عمر صدر اسلام ميں ايك دوسرے كے جگرى دوست تھے ، ہميشہ دونوں كا نام ايك ساتھ اتا ہے اسى لئے انھيں شيخين كہا جاتا ہے _

۷۱

سكھ چين كا زمانہ

صدر اسلام كى اكيلى خاتون مفتي

ام المومنين عائشه كى تمام زندگى سوائے ابو بكر اور ان كے دوست عمر كے زمانہ خلافت كے ، شديد سياسى كشمكش اور ناقابل شكست سر گرميوں ميں گذرى ، تاكہ يہ خلافت جو خاندان تيم سے نكل گئي ہے ، پھر واپس اكر ان كے عزيزوں اور رشتہ داروں كو حكمراں بنا سكے _

ليكن جيسا كہ ہم نے بتايا خلافت شيخين (ابو بكر و عمر )كے زمانے ميں اس خيال سے كہ ان كے گروہ نے دوسرے گروہوں پر بنام مدينہ پيش دستى كر كے زمام حكومت قبضے ميں كر ليا تھا ، بہت خوش تھيں اورذہن ودماغ كو بڑا سكون و اطمينان نصيب ہوا تھا كيونكہ اس زمانے ميں جو شخص خليفہ ہے يا جو اس كے حوالى موالى ہيں انكے نزديك ان كا مرتبہ و مقام سارى دنيا ميں اور دنيائے اسلام ميں بہت بڑھ گيا تھا ، اسكى وجہ سے دنيا بھر كى اور سارے مسلمان كى توجہ انھيں كى طرف مڑ گئي تھى ، تمام ازواج رسول كے مقابلے ميں صرف انھيں كى طرف گردن جھكتى تھى ، رسول خدا كى دوسرى تمام خواتين سے ان كا مرتبہ بلند تر ہو گيا تھا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رحلت فرمائي تو اپ كى ازواج قيد حيات ميں تھيں ، ليكن تاريخ ہميں يہ نہيں بتاتى كہ عمر و ابو بكر نے عائشه كے علاوہ كسى بھى زوجہ ء رسول كو خاص مرتبہ و مقام عطا كيا ہو ، كيا معاملات كے تصفيے ميں يا فتوى كے سلسلے ميں ان كے علاوہ كسى كى طرف رجوع كيا جاتا ہو _

ہمارى اس دليل كو طبقات بن سعد ميں ملاحظہ كيا جاسكتا ہے جنھوں نے محمد بن ابى بكر كے فرزند قاسم كا قول نقل كيا ہے ، وہ لكھتے ہيں :

عائشه زمانہ حكومت ابو بكر ، عمر اور عثمان ميں اكيلى وہ خاتون تھيں جو فتوى صادر كرتيں تھيں ، اور يہ صورتحال زندگى كے اخرى لمحے تك رہى(۲۷)

__________________

۲۷_ طبقات بن سعد ج۸ ص۳۷۵

۷۲

دوسرى جگہ محمود بن لبيد كا قول لكھا ہے :

عائشه زمانہ حكومت ابوبكر و عمر و عثمان ميں فتوى صادر كرتيں اور احكام نافذ كرتى تھيں ، اور اخرى عمر تك يہ سلسلہ جارى رہا _

ابو بكر اور عمر كے علاوہ تمام صحابائے كبار ان سے مراجعہ فرماتے ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى سنت اور مختلف مسائل ان سے پوچھتے اور انھيں سے حكم حاصل كرتے _

ان تمام باتوں كو جانے ديجيئے ، عمر نے جس وقت تمام ازواج رسول كا وظيفہ مقرر كيا تو عائشه كو سب پر مقدم ركھا ان كے حقوق دوسروں سے زيادہ قرار دئے

يہ معاملہ طبقات بن سعد ميں مصعب بن سعد كا قول اس طرح نقل كيا ہے _ عمر نے ازواج رسول كا ماہانہ وظيفہ دس ہزار مقرر كيا اور عائشه كو سب پر مقدم كر كے بارہ ہزار مقرر كيا ، عمر كى دليل يہ تھى كہ عائشه رسول خدا كى سب سے زيادہ چہيتى بيوى تھيں(۲۸)

عائشه حج كے لئے گئيں

اس صورتحال كے با وجود خليفہ وقت عمر بن خطاب تمام ازواج رسول پر انھيں مقدم قرار دينے فتوى حاصل كرنے ، سنت رسول معلوم كرنے ، تمام مسلمانوں ميں ان كا مرتبہ و مقام بڑھانے ، دوسروں كے مقابل ان كا زيادہ وظيفہ مقرر كرنے كے با وجود ام المومنين عائشه كو دوسرى ازواج رسول كى طرح مدينے سے باہر جانے كى اجازت نہيں ديتے تھے ، يہاں تك كہ حج و عمرہ كى بھى اجازت نہيں ديتے تھے _

عمر كى سياست يہ تھى كہ بڑے اور مشھور صحابہ مدينے سے باہر نہ جائيں اسى بنياد پر جب زبير نے جنگ ميں شركت كرنے كى اجازت چاہى تو جواب ديا(۲۹) نہيں ، مجھے اتفاق نہيں ہے ،

____________________

۲۸_ طبقات بن سعد ج۸ ص۶۷ ، اجابہ ۷۱ _۷۵،كنز العمال ج۷ ص۱۱۶ منتخب كنز ،اصابہ ج۴ س۲۴۹ ، طبرى ج۴ ص۱۶۱ ، ابن كثير ج۲ ص۲۴۷ _مستدرك ج۴ ص ۸ _ شرح نہج البلاغہ ج۳ ص ۱۵۴ _ بلاذرى ص ۴۵۴ _ ۴۵۵ احكام السلطانيہ ماوردى ص ۲۲۲_ واضح ہو كہ يہ خلافت كا سياسى مقتضا تھا كہ عائشہ كو رسول كى چہيتى بيوى كى حيثيت سے متعارف كرايا جائے ليكن حقيقت ايسى نہيں تھى ، بلكہ خلافت نے اپنے زمانے ميں اس بات كو مشھور كيا

۲۹_ ابن ابى الحديد ج۴ ص۴۵۷ ،تاريخ خطيب بغدادى ج۷ ص۴۵۳

۷۳

كيونكہ ميں اس بات سے ڈرتا ہوں كہ اصحاب رسول لوگوں كے درميان پھيل جائيں گے تو گمراہى پھيلائيں گے(۳۰)

ليكن عمر نے اپنى عمر كے اخرى سال ازواج رسول كو مدينے سے باہر جانے كى پاليسى بدل دى تھى ، يہ بات طبقات بن سعد ميں اس طرح ہے _

عمر بن خطاب ازواج رسول كو مدينے كے باہر جانے سے روكتے تھے ، يہاں تك كہ حج و عمرے كيلئے بھى جانے سے روكتے ، ليكن ۲۳ ھ ميں جبكہ انھوں نے اخرى حج كيا تمام ازواج نے سوائے زينب اور سودہ كے ان سے اجازت چاہى كہ حج كيلئے مدينے سے باہر جائيں سودہ اور زينب نے حج كيلئے بھى گھر سے قدم باہر نہ نكالا ، وہ كہتى تھيں _

ہم وفات رسول كے بعد ہرگز اونٹ كى پشت پر سوار نہيں ہوئے ، يہ اس بات كا كنايہ تھا كہ انھوں نے كبھى سفر نہيں كيا _(۳۱)

خود سودہ كہتى ہيں ، ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى حيات ميں حج و عمرہ كيا اب حكم رسول كے مطابق گھر ميں بيٹھى ہوں _

بہر حال عمر نے ازواج رسول كى درخواست منظور كى اور حكم ديا كہ ان كے لئے ھودج تيار كئے جائيں ، ان پر سبز رنگ كى محمليں سجائي گئيں تاكہ ازواج رسول لوگوں كى انكھوں سے پوشيدہ رہيں ،

پھر ان كى نگرانى ميں عثمان اور عبد الرحمن بن عوف(۳۲) كو معين كر كے ضرورى احكامات صادر كئے گئے ا ور اسطرح انھوں نے مدينے سے مكہ سفر كيا _

____________________

۳۰_ واقعى عمر كس بات سے ڈرتے تھے اور لوگوں كے گمراہى كا انديشہ كيوں تھا ؟ كيا انھيں اسكا ڈر تھا كہ اصحاب رسول لوگوں كے درميان جا كر حلال و حرام اور قوانين اسلام متغير كر كے گمراہى پھيلائيں گے ؟يا اس سے ڈر تے تھے كہ بعض اكابر صحابہ كے بارے ميں اصحاب رسول كى لوگوں كو جانكارى ہو جائے گى ، اور لوگ خلافت كے افراد سے بد ظن ہو جائيں گے ؟ يا بعض كو مدينے سے اسلئے جا نے نہيں ديتے تھے كہ انكى مخالفت كا انديشہ تھا ؟ بہر حال يہ مسئلہ الگ سے علمى استدلال كے ساتھ مطالع كا مستحق ہے ، عمر جيسے ھوشمند اور زيرك كى بات كو يو نہى نہيں اڑ ايا جا سكتا ، ان كے اقدام كو عوامى رنگ دنيا انصاف سے بعيد ہے انكى دور انديشى اور سياسى بصيرت پر ظلم ہے (سردار نيا )

۳۱_ زينب اور سودہ كے گھر سے نہ نكلنے كى وجہ يہ تھى كہ رسول خدا نے اخرى حج ميں انھيں ازواج سے فرمايا تھا ، اس حج كے بعد تم سب كو گھر ميں بيٹھى رہنا ہے ، يہ بھى فرمايا كہ ميرے بعد تم ميں سے جو بھى تقوى اختيار كرے اور حكم كى مخالفت نہ كرے اور اپنے گھروں ميں نچلى بيٹھى رہے گى ، گھر سے قدم باہر نہ نكالے گى ، وہ قيامت ميں بھى ميرى زوجہ رہے گى طبقات بن سعد ۸/ ۲۰۸

۳۲_ ابو محمد ، عبد الرحمن بن عوف قريش كے بنى زھرہ سے تھے ، انكى ماں شفا بھى اسى قبيلے سے تھيں ، عام الفيل كے دس سال بعد پيدا ہوئے ، جاہلى زمانے ميں عبد عمر يا عبد كعبہ نام تھا ، رسول خدا نے ان كے اسلام قبول كرنے كے بعد عبد الرحمن نام ركھا ، انھوں نے حبشہ اور مدينے مين ہجرت كى ، جنگ بدر ميں اور تمام جنگوں ميںشركت كى ، عمر نے انھيں شورى كى ايك فرد نامزد كيا تھا ، عبد الرحمن نے ۳۱ھ يا يا۳۲ھ مدينے ميں انتقال كيا اور بقيع ميں دفن كئے گئے ، اصابہ ۲/ ۴۰۸ _ ۴۱۰ استيعاب در حاشيہ اصابہ ، اسد الغابہ ۳/ ۳۱۳ _ ۳۱۷ ملاحظہ ہو

۷۴

عثمان اگے اگے سوارى ہانك رہے تھے ، كبھى كبھى بلند اواز سے اعلان كرتے ، خبر دار ، كسى كو حق نہيں كہ محمل كے قريب ائے اور خواتين رسول كو ديكھے _

پھر وہ خود بھى كسى كو ان سے قريب انے سے روكتے ، چنانچہ راستے ميں ايك شخص محمل كے قريب ايا تو اسے للكارا _

دور رہو ، دور رہو _

عبد الرحمن سوارى كے پيچھے پيچھے تھے ، انھوں نے بھى ہانك لگائي ، الگ رہو _

مسور بن مخرمہ(۳۳) كا بيان ہے:

اتفاق سے اگر كوئي شخص اپنى سوارى ٹھيك كرنے كيلئے راستے ميں ٹھر گيا اور اونٹ بيٹھا ديا تو عثمان جو قافلے كے اگے اگے چل رہے تھے ، اسكے قريب جا كر كنارے كرديتے اور اگر راستہ وسيع ہوتا تو حكم ديتے كہ قافلہ اپنا راستہ بدل كر اس مرد سے كنارے ہو جائے ، اور داہنے يا بائيں راستے سے نكل جائے ، اگر اس كے علاوہ صورتحال ہوتى تو قافلے كو حكم ديتے كہ قافلہ ٹھر جائے تاكہ اس شخص كا كام ختم ہو جائے اور اپنى سوارى پر سوار ہو كر اگے بڑھ جائے ، اسكے بعد عثمان حكم ديتے كہ قافلہ اگے چلے ، ميں خود گواہ ہوں كہ انھوں نے مكے سے چلنے والے لوگوں كو جو مخالف سمت سے سامنے ائے تھے ، حكم ديا كہ راستے كے داہنے يا بائيں جانب اپنے اونٹوں كو بٹھا ئيں تاكہ قافلے پر نگاہ پڑنے كا فاصلہ دور ہو جائے _

عمر راستے ميں جہاں بھى منزل قرار ديتے ازواج رسول وہيں اترتى تھيں ، انھيں اكثر گھاٹى كے اندر ركھا جا تا اور وہ خود گھاٹى كے دہانے پر قيام كرتے ، يا بعض روايات كى بنا پر ان ازواج رسول كو گھاٹى كے انتہائي حصے پر ركھا جاتا جہاں تك پہونچنے كا راستہ نہيں ہوتا ، يہ بھى كہتے ہيں كہ ان كى منزل درختوں كے سائے ميں ركھى جاتى اور كسى حال ميں بھى لوگوں كو اجازت نہيں تھى كہ ان كے پاس سے گذرے_

____________________

۳۳_ ابو عبد الرحمن كنيت تھى ، مسوربن مخرمہ بن نوفل نام تھا ، قبيلہ قريش كے بنى زھرہ كى فرد تھے ، انكى ماں عاتكہ بنت عوف ، عبد الرحمن بن عوف كى بہن تھيں ، مسور ہجرت كے دوسرے سال پيدا ہوئے ، اور جس سال شاميوں نے ابن زبير پر چڑھائي كى اور خانہ كعبہ پر منجنيق سے گولے برسائے ، يہ مسور وماں حجر اسماعيل ميں نماز پڑھ رہے تھے ايك پتھر انھيں لگا اور مر گئے ، انكى موت ربيع الاول ۶۴ ھ ميں ہوئي ، اسد الغابہ ۴/ ۳۶۵ ، طبقات بن سعد ، استيعاب اور اصابہ ديكھى جائے

۷۵

ام المومنين عائشه نے صرف اسى حج ميں مدينے سے قدم باہر نكالا ، پھر تمام زمانہ خلافت عمر ميں كبھى مدينے سے باہر نہيں گئيں ، وہ بڑے سكھ چين سے احترام كے ساتھ اپنے ہى گھر ميں زندگى گذارتى رہيں ارباب حكومت و اقتدار بعض معاملات ميں انھيں فتوى كے سلسلے ميں رجوع كرتے اور ان كے احكام پر عمل كرتے _

وہ بھى ان كے جواب ميں مناسب حال حديث رسول سناتى تھيں ، وظيفہ كے امتياز كے علاوہ يہى ايك بات كہ ارباب اقتدار صرف انھيں سے فتوى اور احكام حاصل كرتے اس كا ثبوت ہے كہ وہ حكومت كى نظر ميں تعظيم و احترام كى مستحق تھيں ، جس خاتون كى خود خليفہ تعظيم كرے اسكى دوسرے افراد كس قدر تعظيم كرتے ہوں گے يہ ہر شخص سمجھ سكتا ہے _

اب يہ

اس فصل كو ايك واقعے پر ختم كيا جاتا ہے ، جس سے اندازہ ہو تا ہے كہ خليفہ عمران كا كسقدر احترام كرتے تھے _

ازاد كردہء عائشه ذكوان كا بيان ہے كہ مال غنيمت كى ايك ٹوكرى فتح عراق كے بعد خليفہ عمر كى خدمت ميں پيش كى گئي ، اسميں ايك موتى تھا عمر نے اپنے ساتھيوں سے پوچھا ، جانتے ہو اس موتى كى قيمت كيا ہے ؟

سب نے كہا ، جى نہيں ، وہ لوگ يہ بھى نہيں سمجھ پا رہے تھے كہ اسے مسلمانوں ميں كسطرح سے تقسيم كيا جائے _

عمر نے كہا ، كيا تم لوگ اجازت ديتے ہو كہ موتى عائشه كو ديديا جا ئے ، كيونكہ رسول خدا ان كو بہت پيار كرتے تھے ؟

سب نے كہا ، جى ہاں

عمر نے وہ موتى عائشه كے پاس بھيجوا ديا

عائشه نے كہا ،خدا نے عمر كو كتنى عظيم فتح عطا كى ہے ؟(۳۴) _

____________________

۳۴_ سير النبلاء ج۲ ص ۱۳۳ _ مستدرك حاكم و تلخيص ذھبي

۷۶

احاديث عائشه تقويت خلافت كے بارے ميں

حديث گڑھنے كے مواقع

قريب قريب يقين كے ساتھ يہ بات كہى جا سكتى ہے كہ ام المومنين عائشه كى احاديث ان كے باپ ابوبكر كے زمانے ميں اور اسى طرح عمر كے زمانے ميں بہت كم گڑھى گئيں ، كيونكہ ان ايام ميں لوگوں كى تمام توجہ فتوحات كى طرف تھى بار بار لشكر كشى كى وجہ سے مال غنيمت حاصل ہو رہا تھا _

دوسرے يہ كہ عام طور سے فكرى ہم اہنگى اور عدم اختلاف تھا ، سبھى لوگوں نے پورے طور سے ان لوگوں كى خلافت مان لى تھى ، اور يہ كہ تمام مدينے كے باشندے كم و بيش صحبت رسول سے فيضياب تھے يا اصحاب كے ہم عصر تھے ، اسلئے بطور كلى حديث كى مقدار عددى اعتبار سے بہت كم تھى ، اور اس وقت زيادہ حديثيں گڑھنے كى ضرورت بھى نہيں تھى _

ليكن ان تمام حالات كے باوجود اس زمانے ميں بھى عائشه كى احاديث نقل كى گئيں ہيں ، جو حكومت وقت (ابو بكر و عمر ) كے اثبات ميں ہيں ، كيونكہ عائشه كى شخصيت اپنے باپ اور ان كے جگرى دوست عمر كى حكومت كے سخت ترين طرفداروں ميں سے تھى ، لوگوں كے دل ميں بہتر اور گہرے انداز ميں ثابت و راسخ كرنے كيلئے اس سے بہتر كيا تھا كہ ان كے مرتبہ و مقام كے بارے ميں رسول خدا كے ارشادات بيان كئے جائيں ، انھيں پيغمبر كى نظر ميں بلند مقام اور اہم ترين بتايا جائے _

اب يہاں بطور نمونہ اس قسم كى چند حديثيں نقل كى جاتى ہيں جنھيں حكومت ابو بكر و عمر كے زمانے كى سمجھنا زيادہ مناسب ہے _

يہ حديث مسلم نے اپنى صحيح ميں قول عائشه نقل كيا ہے جو اسى قسم كى ہے توجہ فرمايئے

عائشه كہتى ہيں كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا جسوقت بستر بيمارى پر تھے ، مجھ سے فرمايا ، اپنے باپ اور بھائي سے كہو كہ ميرے پاس ائيں تاكہ ميں ايك وصيت لكھ دوں ، كيونكہ ميں اس بات سے ڈرتا ہو ں كہ كوئي خام طمع اميد لگائے يا كہے كہ ميں خلافت كا زيادہ حقدار ہوں ، حالانكہ خدا و مومنين سوائے ابوبكر كے كسى دوسرے كو اسكا حقدار نہيں سمجھتے(۳۵)

____________________

۳۵_ صحيح مسلم باب فضائل ابو بكر ج۷ ص۱۱۰ ، مسند احمد ج۶ ص۴۷_۱۴۴،و طبقات بن سعد ، و كنز العمال _ منتخب كنز

۷۷

بخارى بھى ابو مليكہ سے ايسى ہى روايت نقل كرتے ہيں :

عائشه نے كہا كہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى بيمارى شدت پكڑگئي تو عبد الرحمن بن ابى بكر سے فرمايا ، شانے كى ہڈى(۳۶) يا كوئي تختى ميرے لئے فراہم كرو كہ ابو بكر كے بارے ميں وصيت ان كے نام كے ساتھ لكھ دوں تاكہ كوئي انكى مخالفت نہ كرے(۳۷)

ليكن جيسے ہى عبد الرحمن اٹھے كہ حكم رسول بجالائيں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اے ابو بكر خدا و مومنين ہرگز اجازت نہ ديں گے كہ تمھارے خلاف نزاع بڑھے (اور چونكہ پيغمبر كے ارشاد كے مطابق خدا و مومنين خلافت و حكومت ابوبكر كے بارے ميں اج تك كسى قسم كے اختلاف كى اجا زت نہيں دے رہے ہيں اسلئے وصيت لكھنے كى ضرورت نہيں )

يہ بھى صحيح مسلم ميں ابو مليكہ كا قول مروى ہے، كہ عائشه سے پوچھا گيا ، اگر فرض كيا جائے كہ رسول خدا اپنا جا نشين معين كريں تو كس كا انتخاب فرمائيں گے ؟

عائشه نے جواب ديا ، ابو بكر كو

ابو بكر كے بعد كس كو خلافت كے لئے نامزد كريں گے ؟

عمر كو

ان كے بعد ؟

ابو عبيدہ جراح كو(۳۸)

اس طرح كى روايات جنھيں ام المومنين عائشه سے فضائل شيخين ميںروايت كى گئيں ہيں بہت زيادہ ہيں ، ہم ان روايات كو تحقيق كے باب ميں انكا تجزيہ كريں گے ، يہاں اسے بطور نمونہ پيش كيا گيا _

____________________

۳۶_ اس زمانے ميں كاغذ كى جگہ شانے كى ہڈى استعمال كى جاتى تھى

۳۷_ صحيح مسلم ج۷ ص۱۱۰ ، طبقات بن سعد ،مسند احمد ، مستدرك ، كنزل العمال منتخب _ مستدرك ميں ابو عبيدہ نام ملتا ہے

۳۸_ ابو عبيدہ جراح كا نام عامر بن عبد اللہ قرشى فہرى تھا ، سابقين اسلا م ميں تھے ، دونوں ہجرت ميں شريك ہوئے ، عمر كى طرف سے حاكم شام ہوئے ۱۸ھ ميں وہيں مرض طاعون ميں انتقال كيا ، اور بعد ميں اردن ميں دفن كئے گئے ، استيعاب ، اصابہ اسد الغابہ

۷۸

ان احاديث كى پيدائشی كا زمانہ

يہ احتمال زيادہ ہے كہ اس قسم كى احاديث كى روايت اور شہرت ابو بكر اور عمر كے زمانہ ء خلافت ميں ہوئي ، كيونكہ ان دونوں خلفاء راشدين كا نام ايك كے بعد دوسرے كا ترتيب سے ليا گيا ہے ، ليكن يہ كہ اگر رسول كسى كو خليفہ بنانا چاہتے تو اسى ترتيب سے خليفہ بنا تے _

ہم اس قسم كى احاديث كو چار حصوں ميں تقسيم كرتے ہيں

پہلى قسم ان احاديث كى ہے جن ميں چاروں خلفاء كے نام اسى ترتيب سے على ابن ابى طالب تك لئے گئے ہيں _

جس ترتيب سے خليفہ بنے ہيں ، ميرے خيال ميں ايسى حديثيں حضرت على بن ابى طالب كے بعد بنائي گئي ہيں ، جبكہ چاروں خلفاء كا زمانہ ختم ہو چكا تھا _

محب طبرى نے رياض النضرہ ميں حديث رسول كو نقل كيا ہے وہ اسى قسم ميں اتى ہيں _

رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا نے فرمايا: ميں اور ابو بكر ، عمر ، عثمان اور على حضرت ادم كى خلقت سے ہزار سال پہلے انوار كى شكل ميں عرش كے دا ہنى جانب تھے ، جب ادم خلق ہوئے تو خدا وند عالم نے ہميں انكى پشت ميں قرار ديا اور اسى طرح پاكيزہ اصلاب ميں منتقل ہوتے رہے ، يہاں تك كہ مجھے صلب عبد اللہ ميں ابو بكر كو صلب ابو قحافہ ميں عمر كو صلب خطاب ميں ، عثمان كو صلب عفان اور على كو صلب ابو طالب ميں منتقل كيا _

پھر خدا وند عالم نے ان سب كو ميرے لئے چن ليا ، نتيجے ميں ابو بكر كو صديق اور عمر كو فاروق ، عثمان كو ذوالنورين اور على كو ميرا وصى قرار ديا ،پس جو شخص بھى ميرے اصحاب كى برائي كرے وہ ايسا ہے جيسے اس نے ميرى برائي كى ، اور جو شخص بھى مجھے دشنام دے اس نے خدا كو دشنام ديا ، اور جو شخص خدا كو دشنام ديگا اسے اوندھے منھ جہنم ميں جھونك ديا جائے گا

اس حديث كا وضعى زمانہ خود بخود روشن ہے

۱_ اس قسم كى احاديث كا گڑ ھا جانا اور شائع ہونے كا زمانہ اس وقت كو سمجھنا چاہيئے جب چاروں خلفاء كى خلافت ختم ہو چكى تھى ، بلكہ بہت بعد ميں ہونا چاہيئے كيونكہ ميرى بيان كى ہوئي باتوں كے علاوہ اس حديث ميں دشنام دينا اور برا بھلا كہنے كى بات ہے ، اور ہم جانتے ہيں كہ سب و شتم كى رسم حكومت معاويہ كے زمانے ميں اور اسكے بعد

جارى ہوئي ، اور اسكا حكم اسى نے ديا تھا ، رسول خدا كے زمانے ميں يہ رسم نہيں تھى كہ كوئي كسى صحابى كو دشنام دے اور اس حكم كا خدا و رسول كى جانب سے مستحق قرار پائے _

۷۹

۲_ اگر چہ اس حديث ميں چاروں خلفاء كا نام ترتيب خلافت كے لحاظ سے ايا ہے ، اس قسم كى احاديث امام كے زمانے ميں نہ گڑھى جا سكتى ہے نہ مشھور كى جا سكتى ہے كيونكہ جس وقت امام نے خلافت قبول فرمائي تو تمام لوگ پورے طور سے دو گروہوں ميں بٹ گئے تھے ، ايك گروہ شدت سے عثمان كو برا بھلا كہہ رہا تھا ، دوسرا گروہ بھى حضرت علىعليه‌السلام ولى كو اچھا نہيں سمجھ رہا تھا ، انھيں اچھائيوں كے ساتھ ياد نہيں كرتا تھا ،، اس صورتحال ميں كون شخص ايسى حديث وضع كر سكتا ہے ؟

۳_ حكو مت معاويہ ميں بھى اگر چہ سب و شتم كا بازار ہر جگہ گرم تھا حديثيں گڑھنے ميں لوگ ايك دوسرے سے بازى ليجانے كى كوشش كر رہے تھے ، ليكن بنيادى حيثيت سے اس كو صرف على اور انكى اولاد اور بنى ہاشم كے خلاف مخصوص ركھا گيا تھا ، اور اموى سياست اس بات كى متقاضى تھى كہ حضرت على كو ديگر خلفاء راشدين سے الگ كر ديا جائے ، ان كا نام اس ستون سے حذف كر ديا جائے ، ان تينوں كو ہر حقيقت سے على پر برترى دى جائے ، اور ہم جانتے ہيں كہ يہى سياست اخرى حكومت بنى اميہ تك جارى رہى _

۴_ ان تمام باتوں كے بعد ہم يہ كہے بغير نہيں رہ سكتے كہ اس حديث كے وضع و انتشار كا زمانہ اس عہد ميں متعين ہوتا ہے جب بنى اميہ كا زوال ہو رہا تھا اور بنى عباس كو اقتدار ملنے كے اثار نماياں تھے _

اسكى دليل يہ ہے كہ خلفاء بنى عباس بھى جنھوں نے اپنے چچا كے فرزندوں علويين كے نام پر اقتدار حاصل كيا تو اپنے سلف بنى اميہ كى طرح معمولى بہانوں سے علويوں كا بے رحمانہ خون بہايا _

ان باتوں كى بنياد پر اس حديث كے وضع و انتشار كا زمانہ يہى متعين ہوتا ہے كہ بنى اميہ كا دور ختم ہو رہا تھا اور اہلبيت كے نام پر لوگوں كو دعوت دى جا رہى تھى ، كيو نكہ يہى موقع تھا جب بنى ہاشم كے دونوں خاندان علوى اور عباسى مل كر اموى اقتدار كو اكھاڑ پھينكنے كى سعى كر رہے تھے اور بنى عباس كى سياست اس موقع پر ايسى تھى كہ اموى سياست كو ذكر دينے كيلئے نام على كو خلفاء ثلثہ كے نام كے ساتھ شائع كيا جائے در انحاليكہ ہم جانتے ہيں كہ خلفاء بنى اميہ ان تينوں خلفاء كو ہٹا كر صرف على ہى پر سب و شتم كرتے تھے ، حضرت علىعليه‌السلام كے نام كو خلفاء راشدين كى فہرست سے حذف كر ديا تھا _

ايسا گمان ہوتا ہے كہ بنى عباس اتنے ہى پر مطمئن نہيں ہوئے انھوں نے قدم اگے بڑھايا اور بنى اميہ كى

۸۰