تفسير راہنما جلد ۳

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 797

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 797 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 171204 / ڈاؤنلوڈ: 5186
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آگاہ  رہو جو شخص ہمارے شیعوں میں سے اس ذمہ داری کو ادا کرے اسکی فضیلت اسلام کے تمام دشمنوں سے جنگ کرنے والے مجاہدین  سے ہزار ہزار بار زیادہ ہے چونکہ علماء ہمارے مانے والے  محبین کے دین اور عقیدے کی دفاع اور محافظت کرتے ہیں جبکہ مجاہد ین انکے بدن اور جسم  کی دفاع کرتے ہیں”  اورقیامت کے دن پروردگار عالم کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا کہاں ہے ہیں ایتام آل محمد کی کفالت کرنے والے جو انکی غیبت کے دوران انکی کفالت کرتے تھے( يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ(ص) النَّاعِشُونَ  لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)

پس ائمہ اطہار ؑکے ان نورانی  کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر غیبت میں فقہا ء ؛ علماء اورخصوصاً ولی امر مسلمین کے انکے نزدیک کیا حیثیت ہے اور انکا کہنا نہ  مانا انکے حق میں جفا اور امام  کے نزدیک انکے مقام کا خیال نہ رکھنا اس شخص کو کس مقام میں لا کر کھڑا کردیتا ہے اگر چہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہےکہ ہمارے معاشرے میں  ہم میں سے بعض  خوستہ یا ناخواستہ دشمن کے غلط پڑوپکنڈوں کی  زد میں آکر  امام زمانہ کے مطیع نمائندوں کے خلاف ناحق زبان کھولنے  اور گستاخی کرنے کی جرئت کرتے ہیں جبکہ شیطان اور پیروان  شیطان اپنی تمام تر طاقتوں سمیٹ یہ کوشش  کررہیں  ہیں کہ انھی  پڑوپکنڈوں اور افواہوں کے ذریعے مجھ جیسے کمزور  مؤمنین کو علماء سے فقہاء سے دور کیا جاۓ تاکہ  انھیں دین اور ایمان کے دائرے سے نکالنا آسان ہو جاۓ ، اور ہم خود بھی جانتے ہیں کہ جو لوگ علماء اور ولایت فقیہ سے  کٹ جاتے ہیں   حقیقت میں وہ دین  اور صراط مستقیم سے کٹ جاتے ہیں   اور گمراہ ہو جاتے ہیں-نعوذ باﷲ من ذلک  - خدا ہمیں بچا کے رکھے -

پس ان روایات سےمعلوم ہوتا ہے عصر غیبت میں منتظریں کی  ایک اور اہم ذمہ داری  علماء  ،فقہاء کی اطاعت اورفرمان برداری اور خصوصیت کے ساتھ ولی امر مسلمین کے فرمان پر لببیک کہنا اور انکے نقش قدم پر چلنا ہے ۔جو کہ حقیقت میں خط ولایت  کے ساتھ متمسک  رہنا اور صراط مستقیم پر چلنا ہے - خدایا ہمیں  ہر دور میں اپنی حجت کو تشخیص دینے اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما  - آمین !ثم  آمین!

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 3 ص ۵    

۶۱

۵:  برادران ایمانی کے ساتھ ہمدردی اور معاونت

ائمہ معصومینؐ کے ارشادات کے مطابق ہر دور کے امام کو اپنے ماننے والے مؤمنین پر ایک مہربان اور فداکار باپ کی حیثیت حاصل ہے ، اور تمام مؤ منین کو انکے  فرزندی  کا شرف حاصل ہے  اور یہی وجہ ہے امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے  دوران غیبت میں مؤمنین کو ایتام آل محمد سے پکارا گیا ہے، يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)   اورکسی مؤمن بھائی کے ساتھ احسان وہمدردی ، اسکے ساتھ تعاون کرنے کو امام زمانہ کے ساتھ تعاون کرنے اور انکے حق میں ہمدردی سے پیش آنے  اسی طرح کسی مؤمن  بھائی کے حق کشی ، اسکے ساتھ بے دردی وبے اعتنائی سے پیش آنے کو امام زمانہؑ پر ظلم وجفا اور انکے ساتھ بے اعتنائی  سے پیش آنے کے برابر شمار  کیا گیا ہے ۔

لہذا منتظرین کی ایک اور بہت ہی اہم ذمہ داری عصر غیبت میں ہر ممکنہ راستوں سے برادران ایمانی کے معاشتی ،سماجی ،اجتماعی اقتصادی ، معنوی اور دیگر مختلف قسم کے مشکلات اور گرفتاریوں کو حل کرنے اور انکی ضروریات پورا کرنے کے لیے  جد وجہد کرنا ہے - چنانچہ اسی اجتماعی ذمہ داری کی  اہمیت اور اس پر عمل کرنے والوں کی خدا  و رسول اور  انکے حقیقی جانشین کے نزدیک قدر ومنزلت کو بیان کرتے ہوۓ  جناب شیخ صدوق نے سورہ عصر کے تفسیر میں امام صادق        سے نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں :(والعصر انّ الإنسان لفی خسر ) میں عصر سے مراد قائم کے ظھور کا زمانہ ہے  اور(إنّ الإنسان لفی خسر) سے مراد ہمارے دشمن ہیں اور(إلاّ الذین آمنوا ) سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنہون نے ہماری آیات کے زریعے  ایمان لائیں ہونگے  - اور ( وعملواالصالحات ) یعنی برادران دینی کے ساتھ ہمدردی  اورتعاون کرتے ہیں(وتواصوا بالحق ) یعنی امامت اور(وتواصوا بالصبر )

--------------

(1):-    مستدرکالوساةل :ج 17 ص 318

۶۲

زمانہ فترت یعنی وہی غیبت کا زمانہ ہے (جس میں امام  غائیب پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس راہ  مین پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتے ہیں )(1) یعنی اس سورہ مبارکہ میں نجات یافتہ مؤمنین سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنھون نے دوران غیبت میں اپنے مالی ،معنوی اسطاعت کے زریعے پسماندہ ،بے کس اور ناتوان مؤمنین کےہم دم  اور فریاد رس رہے ہیں  ۔

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں امام صادق        اور امام کاظم          دونوں سے روایت ہے  فرماتے ہیں :ُ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَی زِيَارَتِنَا فَلْيَزُرْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَصِلَنَا فَلْيَصِلْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنا (2) جو شخص ہم اہل بیت سے تعاون کرنے یا صلہ کرنے سے معذور ہو اسے چاہیے ہمارے چاہنے والوں کے ساتھ نیکی اور تعاون کرے  تو اسے  ہمارے ساتھ تعاون کرنے اور نیکی کرنے کا ثواب عطا ہو گا،اسی طرح اگر ہماری زیارت سے محروم ہیں تو ہمارے دوستوں اوراللہ کے  صالح بندوں کی زیارت کریں تو  خدا    اسے ہماری زیارت کرنے کا ثواب  عطا کرے گا

 چنانچہ  اما م موسی کاظم         سے روایت ہے فرماتے ہیں :مَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ الْمُؤْمِنُ فِی حَاجَةٍ فَإِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَی سَاقَهَا إِلَيْهِ فَإِنْ قَبِلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَصَلَهُ بِوَلَايَتِنَا وَ هُوَ مَوْصُولٌ بِوَلَايَةِ اللَّهِ وَ إِنْ رَدَّهُ عَنْ حَاجَتِهِ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَی قَضَائِهَا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَ کی ولایت خدا کی ولایت سے متصل ہے  )لیکن اگر اسے رد کر لے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگاريْهِ شُجَاعاً مِنْ نَارٍ يَنْهَشُهُ فِی قَبْرِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَغْفُوراً لَهُ أَوْ مُعَذَّباً فَإِنْ عَذَرَهُ الطَّالِبُ كَانَ أَسْوَأَ حَالا   (3) کسی کے پاس اسکا مؤمن بھائی کوئی نہ کوئی حاجت لے کر آۓ تو اسے  یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ  خدا کی طرف سے رحمت ہے جو اس پر نازل ہوئی ہے  پس اس حالت میں اگر اسکی حاجت پوری کر دے تو اسے ہماری ولایت کے ساتھ متصل کیا ہے  اور بے شک اسے  خدا کی ولایت حاصل ہوئی ہے (چونکہ  اہل بیت اطہارؑ  کی ولایت خدا کی ولایت کا ایک حصّہ ہے لہذا جو اہل بیت ؑؑ اطہار کی ولایت کے دائرے میں داخل ہو جائے وہ خدا کی ولایت میں آگیا ہے )

--------------

(1):- صدوق : اکمال الدین:ج۲ ،ص ۶۵۶ -  

(2):- طوسی ،تہذ یب ج ۶ ،ص۱۰۴  اور کامل زیارات :ص ۳۱۹ - 

(3):- کلینی: اصول الکاف یج : 2 ص : ۶ 19 

۶۳

لیکن اگر اسے رد کر دے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگار عالم اسکے قبرمیں آگ سے  بنائے  ہوئے ایک سانپ  کو اس پر مسلط کرۓ گا جوقیامت تک اسے ڈنستا رہے گا چاہیے اسے خدا معاف کرے یا نہ کرے اور قیامت کے دن صاحب حاجت اسکا عذر قبول نہ کرے تو اسکی حالت پہلے سے بھی  زیادہ بدتر ہو جاۓ گی-

اسی طرح  متعدد روایات میں کسی مومن بھائی کی حرمت کا خیال نہ رکھنا اسکے ساتھ نیک برتاؤ سے پیش نہ آنا اور اسکے ساتھ تعاون نہ کرنا ائمہ علیہم السلام کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ان مقدس ذوات کی بے حرمتی کرنے کےبرابر جانا گیا ہے چنانچہ ابو ہارو ن نے چھٹے امام سے نقل کیا ہے کہتا ہے  :قَالَ قَالَ لِنَفَرٍ عِنْدَهُ وَ أَنَا حَاضِرٌ مَا لَكُمْ تَسْتَخِفُّونَ بِنَا قَالَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ خُرَاسَانَ فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ نَسْتَخِفَّ بِكَ أَوْ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ أَمْرِكَ فَقَالَ بَلَی إِنَّكَ أَحَدُ مَنِ اسْتَخَفَّ بِی فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ أَسْتَخِفَّ بِكَ فَقَالَ لَهُ وَيْحَكَ أَ وَ لَمْ تَسْمَعْ فُلَاناً وَ نَحْنُ بِقُرْبِ الْجُحْفَةِ وَ هُوَ يَقُولُ لَكَ احْمِلْنِی قَدْرَ مِیلٍ فَقَدْ وَ اللَّهِ أَعْيَيْتُ وَ اللَّهِ مَا رَفَعْتَ بِهِ رَأْساً وَ لَقَدِ اسْتَخْفَفْتَ بِهِ وَ مَنِ اسْتَخَفَّ بِمُؤْمِنٍ فِینَا اسْتَخَفَّ وَ ضَيَّعَ حُرْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ  ” (1) ایک دفعہ امام صادق       نے کچھ لوگ جوآپ کے   پاس بیٹھے ہوۓ تھے او رانکے ساتھ میں بھی تھا ،ان سےکہا تمھیں کیا ہو گیا ہے ہماری حرمت کا خیال نہیں رکھتے ہو ،تو اہل خراسان کا رہنے والا  ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہم آپکو سبک شمار کرے یا آپکے فرمان میں کسی چیز کی بے اعتنائی کرے ، امام نے فرمایا ہاں انھی میں سے ایک تم بھی ہو جو ہمارے  لاج نہیں رکھتے ،اس شخص نے دوبار ا    کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپکی لاج نہ رکھوں ،فرمایا چپ ہو جاؤ   کم بخت  کیا تم نے اس شخص کی آواز نہیں سنی تھی اس وقت جب ہم جعفہ کے نزدیک تھے اور وہ تم سے کہ رہا تھا کہ مجھے صرف ایک میل تک اپنے سواری پر بٹھا کر لے چلو خدا کہ قسم میں بہت ہی تھکا ہوں ،خدا کی قسم تم نے سر اُٹھا کر  بھی اسکی طرف نہیں دیکھا اس طریقے سے تم نے اسکی بے اعتنای کی ہے اور  کوئی شخص کسی  مومن کی استخفاف  کرے اسنے ہمارے بے اعتنائی کہ ہے ،اور خدا کی حرمت ضائع کر دی ہے ۔

--------------

(1):- کلینی :روضۃ الکافی،ج۸، ص ۱۰۲ -

۶۴

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں جابر جعفی امام محمد باقر        سے نقل کرتے ہیں: و نحن جماعة بعد ما قضینا نسكنا، فودعناه و قلنا له أوصنا یا ابن رسول الله. فقال لیعن قویكم ضعیفكم، و لیعطف غنیكم علی فقیركم، و لینصح الرجل أخاه كنصیحته لنفسه.... ، و إذا كنتم كما أوصیناكم، لم تعدوا إلی غیره، فمات منكم میت قبل أن یخرج قائمنا كان شهیدا، و من أدرك منكم قائمنا فقتل معه كان له أجر شهیدین، و من قتل بین یدیه عدوا لنا كان له أجر عشرین شهیدا. (1) کہ ہم نے مناسک حج اکٹھے  بجھا   لا نے  کے بعد جب   امام سے الگ ہونے کو تھے آپ سے عرض کیا اے فرزند رسول    ہمارے لیے کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا تم میں سے جو قوی ہے  قدرت ومقام رکھتا ہے اسکی ذمہ داری ہے کمزور لوگوں کی مدد کرے اور جو مالدار ہے فقیروں اور بے کسوں پر ترس کریں انکی نصرت کریں ،اوراپنے  مومن بھائی کے ساتھ اس طرح خیر خواہی سے پیش آے  جس طرح اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہ ہے .....اور اگر تم نے ہماری نصیحت پر عمل کیا  تو غیروں میں سے شمار نہیں ہوگے- اب اس حالت میں تم میں سے جو شخص  قائم آل محمدکے قیام کرنے سےپہلے مر جاۓ تووہ شہید کی موت مرا  ہے ،اور جو  اپنی زندگی میں انھیں درک کرلے اور انکے ساتھ جھاد کرے تو اسے دو شہید کا ثواب عطا کرے گا ،اور جو شخص انکے ساتھ ہوتے ہوے ہمارے کسی دشمن کو قتل کرلیں تو اسے بیس ۲۰ شہید کا اجر دیا جاۓگا- پس ان روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ منتظرین کی اپنے مومن بھائی کی نسبت کیا ذمہ داری ہے اور اس اجتماعی  ذمہ داری کی کیا اہمیت ہے کہ جس کا خیال رکھنا  ہم سب کا شرعی اور اخلا قی فریضہ ہے - 

۶: خود سازی اور دیگر سازی

منتظرین کی ایک اور اہم ذمہ داری خودسازی و اپنے جسم وروح کی تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر سازی  اور ہم نوع کی تربیت بھی ہے ،خود سازی اور دیگر سازی ایک اہم دینی وظیفہ ہونے کے ساتھ بزرگ ترین اور عالی ترین  انسانی خدمات میں سے بھی شمار ہوتا ہے

--------------

(1):- امالی طوسی ،ص ۲۳۲ اور بحار انوار ،۵۲ ،ص ۱۲۲ ،ح ۵ - 

۶۵

اور اسلامی تعلیمات میں بھی حضرت ولی عصر ؑاور انکے جان بہ کف آصحاب  تاریخ انسانیت کے پرہیز گار ؛متقی اور صالح ترین افراد ہونگے چنانچہ انکے توصیف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون٭  (1)   اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔

 اسی طرح احادیث معصومین میں بھی امام عصر ؑکے آصحاب وہ لوگ ہونگے جنھیں خدا ورسولؐ اور ائمہ معصومینؑ کی صحیح معرفت  حاصل ہوگئی ، اخلاق اسلامی سے متخلق؛ نیک کردار کے مالک ؛عملی میدان میں ثابت قدم و پائیدار ؛ دستورات دینی کے مکمل پابند اور فرامین معصومینؑ کے سامنے سر تسلم خم ہونگے ۔

چنانچہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نھج البلاغہ میں انکے توصیف میں فرماتے ہیں :وَ ذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِیهِ إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وَ إِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ أُولَئِكَ مَصَابِیحُ الْهُدَی وَ أَعْلَامُ السُّرَی لَيْسُوا بِالْمَسَايِیحِ وَ لَا الْمَذَايِیعِ الْبُذُرِ أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّهُ لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ وَ يَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه‏. “ (2) اخری زمانہ  وہ زمانہ ایسا ہو گا جس میں صرف وہ مؤمن نجات پاسکے گا کہ جو گمنام اور بے شر ہو گا مجمع اسے  نہ پہچانے اور غائب ہو جاۓ تو کوئی اسکی  تلاش نہ کرۓ یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لیۓ  نشانیان  منزل ہوں گۓ  نہ ادھر ادُھر   لگاتے پھرین گۓ  اور نہ لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریں گے ؛ ان کے لئے اﷲ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا

--------------

(1):- انبیاء :۱۰۵ - 

(2):- نہج البلاغ ہ،خ ۱۰۳ ،ص ۲۰۰ ،ترجمہس ید ذیشان حیدر جوادی - 

۶۶

اسی طرح صادق آل محمد  سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : “جو شخص چاہتا ہے کہ حضرت قائم  ؑکے اصحاب میں سے ہوں اسے چاہئے انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ پرہیزگاری اور نیک اخلاق کو پناۓ ،پھر اگر وہ اس حالت میں انکے قیام سے پہلے مر جاۓ اور بعد میں ہمارا قائم قیام کرۓ تو اسے ایسا اجر دیا جاۓگا جیسے اس نے حضرت کو درک کیا ہو.(1) اور خود معصومینؑ کے فرمان کے مطابق مبغوض ترین فرد وہ شخص ہے جو مؤمن اور امام زمانہ کے منتظر ہونے کا دعوا کرے لیکن قول وفعل میں انکے دیے ہوۓ دستورات اور دینی قوانین کے مخالفت سمت قدم اٹھاۓ چنانچہ اسی نقطے کی طرف اشارۃکرتے ہوۓ امام ذین العابدین فرماتے ہیں :لَا حَسَبَ لِقُرَشِيٍّ وَ لَا لِعَرَبِيٍّ إِلَّا بِتَوَاضُعٍ وَ لَا كَرَمَ إِلَّا بِتَقْوَی وَ لَا عَمَلَ إِلَّا بِالنِّيَّةِ وَ لَا عِبَادَةَ إِلَّا بِالتَّفَقُّهِ أَلَا وَ إِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّهِ مَنْ يَقْتَدِی بِسُنَّةِ إِمَامٍ وَ لَا يَقْتَدِی بِأَعْمَالِهِ.” (2)   کسی کو عربی اور قریشی ہونے کی بنا پر دوسروں پر کسی قسم کی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے سواۓ تواضع کے اورکسی کو کوئی کرامت حاصل نہیں ہے الا  یہ  کہ تقوای اختیار کرے  اور کوئی عمل نہیں ہے سواۓ نیت کے اور کوئی عبادت نہیں ہے سواۓ تفقہ کے (یعنی عبادت درست معرفت کے ساتھ ہے ) پس ہو شار رہو!پروردگار عالم کے نزدیک مبغوض ترین شخص وہ ہے جو ہماری ملت اور مذہب پر ہو لیکن عمل میں ہماری پیروی  واقتدا ء نہ کرے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :إِنَّا لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤْمِناً حَتَّی يَكُونَ لِجَمِیعِ أَمْرِنَا مُتَّبِعاً مُرِیداً أَلَا وَ إِنَّ مِنِ اتِّبَاعِ أَمْرِنَا وَ إِرَادَتِهِ الْوَرَعَ فَتَزَيَّنُوا بِهِ يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ وَ كَبِّدُوا أَعْدَاءَنَا بِهِ يَنْعَشْكُمُ اللَّهُ  (3) ہم کسی کو مومن نہیں جانتے جب تک وہ ہماری مکمل پیروی نہ کرۓ اور یہ جان لو ہماری پیروی پرہیز کاری اور تقوای اختیار کرنے میں ہے ،پس  اپنے آپکو زہد و  تقوای کے ذریعے زینت  دو  تاکہ خدا تمھیں  غریق رحمت کرۓ ،اور اپنے تقوای کے ذریعے ہمارے دشمنوں کو سختی وتنگی میں ڈال دو تاکہ خدا تمھیں عزت کی زندگی عطا کرے-

--------------

(1):- غیبۃ نعمانی :ص   ۱۰۶ 

(2):- کلینی :روضۃ الکافی ،ص ۲۳۴ ،ح۳۱۲ - 

(3):- کلینی :اصول کاقی ،ج۲ ،ص ۷۸ ،ح۱۳ - 

۶۷

پس ان روایات اور دوسری متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نے ان مقدس ہستیوں کو اپنے مولا ومقتدا قبول کیا ہے تو  وہ ذوات بھی ہم سےیہ توقع رکھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم عمل وکردار میں انکے  نقش قدم پر چلیں اسی لیے معصومینؑ فرماتے ہیں :کہ تم ہمارے لئے  زینت  کا باعث بن جاؤ ننگ وعار کی باعث مت بنو (1)

۷: شبہات اور بدعتوں کا مقابلہ

زمان غیبت میں ہم سب کی  خصوصاً  علماءاور بیدار طبقے کہ ایک اہم فرائض معاشرے میں خود غرض یا سادہ لوح دوستوں کے ہاتھوں مختلف قسم کےبدعتوں اور ان شبھات کا مقابلہ کرنا ہے جو امام زمان     ہ   کی غیبت کی وجہ سے انکے بارے میں وجود میں آئی ہیں چنانچہ امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِی فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِیهِمْ وَ الْوَقِیعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِی الْفَسَادِ فِی الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِی الْآخِرَةِ ” (2) میرے بعد اہل تریدد (یعنی جو  ائمہ کی ولایت و امامت کے متعلق شک وتردید کا اظہار کرے)اور اہل بدعت (یعنی دین میں نئی چیز ایجاد کرنے والا جسکا دین سے کوئی ربط نہ ہو)کو دیکھیں تو ان لوگوں سے اپنی برائت و بیزاری کا اظہار کرو ،اور اس طرح انکے خلاف پروپکنڈہ کرو  کہ آیند ہ کوئی اسلام میں اس طرح کی فساد پھلانے کی جرئت نہ کرۓ اور لوگ خود بخود ان سے دور ہو جائیں اور انکی بدعتوں کو نہ اپنائیں اگر ایسا کیا تو پروردگار عالم اسکے مقابلے میں تمھیں حسنہ دیا جاۓ گا اور تمھارے درجات کو بلند کر ے گا ۔

اسی طرح بعض شبھات دشمنوں نے خود امام زمانہؑ کے بارے میں  لوگوں کے  حضرت مہدی پر عقیدے کو کمزور کرنے اور اس میں خلل  پیدا کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے جیسا کہ آج کل نٹ پر ۱۰  ہزارسے زیادہ شبھات انکے متعلق دیا گیا ہے؛   تو علماء کی ذمہ داری ہے کہ ان شبھات کا مقابلہ کریں

--------------

(1):-کلینی: کافی ،ج ۲ ، ص ۷۷ ،ح۹ - 

(2):- کلینی : اصول کافی،ج۲ ،ص ۳۷۵ ،ح ۴

۶۸

 اور بطوراحسن  جواب دیں  اور  لوگوں کو امام زمانہ  ہ      کے مقدس وجود کی طرف جذب ہونے کا زمینہ فراہم کریں لہذا ہماری اس اہم زمہ داری اور عصر غیبت میں رونما  ہونے والے شبھات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امام صادق          فرماتے ہیں :.....  فإیاكم و الشك و الارتیاب و انفوا عن أنفسكم الشكوك و قد حذرتكم فاحذروا أسأل الله توفیقكم و إرشادكم (1) خبردار شک وریب سے پرہیز کرنا ،(یعنی انکے غیبت اور ظہور کے بارے میں) اپنے دلوں سے شکوک وشبھات باہر نکال دو میں نے تم لوگوں کو برحزر کردیا ہے لہذا تم لوگ اس قسم کے شک وتردید سے باز رہو  (چونکہ اس  امر میں شک صراط مستقیم میں شک کے برابر ہے ) میں اﷲ تعالی سے تمھارے لئے توفیقات اور ہدایت کی دعا کروں گا-

اسی طرح رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں:......... یا جابر إن هذا الأمر أمر من أمر الله و سر من سر الله مطوی عن عباد الله فإیاك و الشك فیه فإن الشك فی أمر الله عز و جل كفر (2) اے جابر انکی غیبت اورظہور میں شک کرنا  خدا سے کفر اختیار کرنے کے برابر ہے -

اورہم سب جانتے ہیں کی آج کا دور ایسا دور ہے جس میں ایک طرف دشمن مختلف شبہات اور غلط پروپکنڈوں کے ذریعے لوگوں کو عقیدہ انتظار اور اسکی حقیقت سے دوررکھنے اور انکے دلوں میں شک وتردید پیدا کرنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف جعلی اور فرصت طلب افراد امام زمانہ ؑکے مقدس نام پر مؤمنین کے انکی نسبت صادقانہ عقیدے سے سؤء استفادہ کرنے اور مختلف قسم کی دکانین کھولنے کی کوشش میں لگے ہوۓ ہیں لہذا علماو اور ذمہ دار افراد کی ذمہ داری ان دونوں حدود  پر دشمن کے مقابلہ کرنا ہے

--------------

(1):- الغیبةللنعمان ی      ص     150 ،ح ۸ -    

(2):- صدوق اکمال الدین : ج ۱ ، ص ۲۸۷ - 

۶۹

۸:بے صبری سے پرہیزکرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر غیبت مشکلات اور مصائب کے ہجوم لانے کا زمانہ ہے اور مومنین سے مختلف قسم کی سختیوں اور گرفتاریوں کے ذریعے سے امتحان لیا جاۓ گا تاکہ اس طرح نیک وبد ؛صادق و کاذب اور مومن ومنافق میں تمیز ہو جاۓ اور یہ ایک سنت الہی ہے اس امت یا اس زمان کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ گزشتہ امتوں سے لیا گیا ہے اور آئیند آنے والے نسلوں سے بھی تا قیامت تک مختلف ذریعوں سے امتحان لیا جاۓ گا ۔ چناچہ اسی سنت الھی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :ما كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنینَ عَلی‏ ما أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّی يَمیزَ الْخَبیثَ مِنَ الطَّيِّبِ.....٭  ” (1) اﷲ تعالی مومنین کو منافقین سے جس حالت میں نا مشخص ہے نہیں رکھا جاۓ گا ،یہاں تک (امتحان کےذریعے )خبیث اور طیب میں تمیز پیدا ہو جاۓ ۔ اسی طرح سورہ   عنکبوت کی آیت  نمبر۲   میں فرماتا ہے :أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذینَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبینَ   (2) “کیا لوگوں نے  یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دۓ جائیں گے کہ وہ یہ کہے کہ ہم  ایمان لے آۓ ہیں اور انکا امتحان نہیں ہو گا ٭ بشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اﷲ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں ” 

--------------

(1):- سورہآل عمران : ۱۷۹ - 

(2):- سورہعنکبوت : ۲ -۳ - 

۷۰

اورناطق قرآن علی ابن ابی طالبؑ اسی بارے میں فرماتے ہیں :.....ِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ وَ لَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وَ قَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ إِنَّ فِی ذلِكَ لَآیاتٍ وَ إِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِین (1)   لوگو اﷲ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن کبھی یہ ضمانت نہیں دیا ہے کہ تم سے امتحا ن بھی نہیں لیا جاۓ گا ، اور خدا سب سے بڑکر سچا ہے ،یوں فرماتا ہے “ بے شک ان حوادث اور وقعات میں علامتیں اور نشانیان ہیں اور ہم اچھے اور بُرے سب بندوں سے امتحان لیتے ہیں ”-

اور انھیں نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ۓ اما م صادق        فرماتے ہیں :ہمارے قائم کے ظھور سے پہلے مومنین کے لئے خدا  کی  جانب سے کچھ نشانیاں ہیں ،عرض ہوا  یا ابن رسول اﷲ        وہ نشانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا وہ نشانیاں اس کلام الھی میں ذکر ہوئی ہیں اور اس آیت کی تلاوت کی“وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرینَ٭  “ (2) اور یقیناً  ہم تم سے خوف، بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے امتحان لیا جاۓ گا اور اے پیغمبر(ص) آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ” بے شک تم سے امتحان لیا جاۓ گا یعنی حضرت قائم کے خروج سے پہلے مومنین سے سلاطین جور  سے  ترس ،منگائی ،گرانی کی وجہ سے بھوک ؛گرسنگی ،تجارت میں ورشکستگی و ناگہانی موت اورفصل وکاشت میں نقصان کے ذریعے امتحان لیا جاۓ گا ،پھر فرمایا اے محمد بن مسلم یہ ہے اس آیت کی تاویل جسکی تاویل(وَ ما يَعْلَمُ تَأْویلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَ ما يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْباب‏ (3) سواۓ خدا اور راسخین  فی علم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(1):- نہج البلاغ ہخطب ہ ۱۰۳ اردو ترجمہس ید ذیشان حیدر - 

(2):- بقرہ: ۱۵۵ - 

(3):- آل عمران :۷ - 

۷۱

اور امام زمانہؑ کے طول غیبت کے دوران  مختلف قسم کےسختیوں ا ورمصیبتوں پر صبر کرنے والوں کی توصیف میں پیغمبر اکرم(ص)  فرماتے ہیںَّ:قَالَ(ص) طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ... (1) خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں.اور متعدد روایات میں انکی غیبت کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں واذیتوں پر بے صبری کرنے سے منع کیا گیا ہے اور قضاء وقدر کے سامنے تسلم ہونے کا حکم دیا ہے جیسا کہ شیخ کلینی نے اپنی سند امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے حضرت نے فرمایا :

كَذَبَ الْوَقَّاتُونَ وَ هَلَكَ الْمُسْتَعْجِلُونَ وَ نَجَا الْمُسَلِّمُونَ  (2) ظہور کے وقت تعین کرنے والے ہلاکت میں ہوں گے لیکن قضاوقدر الہی کے سامنے تسلیم ہونے والے نجات پائیں گے

۹: جوانوں کی مخصوص ذمہ داری

اسلامی تعلیمات میں جوانی اور جوان طبقے کو خاص اہمیت اور مخصوص مقام حاصل ہے ،انکے ساتھ الفت ،عطوفت کے ساتھ پیش آنے اور ہمیشہ اچھی نگاہوں سے دیکھنے پر زور دیا گیا ہے جس طرح رسول اکرم  (ص)کا فرمان ہے:اوصیكم بالشباب خیراً فإنّهم ارقُّ افئدةً انّ اللّه بعثنی بالحق بشیراً و»نذیراً  فحالفنی الشباب وخالفنی الشیوخ .تمھیں وصیت کرتا ہوں ان جوانوں کے بارے میں جو پاک دل ہوتے ہیں ،جب اﷲ تعالی نے مجھے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا تو یہ جوان تھے جنھوں نے میرے ساتھ دیا جبکہ عمر رسیدہ افراد نے میری مخالفت کی ۔

--------------

(1):- مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ - 

(2):- الکاف یج : 1 ص : 368

۷۲

پس کلام رسول پاک (ص) سےہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جوانوں کو بری نگاہوں سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انکے بارے  میں نیک سوچ رکھنا چاہیے اور تاریخ اسلام اس بات پر زندہ گواہ ہے کہ جب نبی اکرم(ص) نے ذوالعشیرمیں قریش کو توحید اور دین کی طرف پہلی بار دعوت دیا تو جس شخص نے سب سے پہلے آنحضرت(ص) کی دعوت پر لبیک کہا وہ علی ابن ابی طالب ۱۰ سالہ نوجوان تھے جبکہ بزرگان قریش آخری دم تک آپ کے مخالفت کرتے رہیں ۔

جوانی کی قدر وقیمت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود امام زمانہؑ  ظہور کریں گے تو  آپ جواں  ہونگے  جیسا کہ امیر مومنین فرماتے ہے-مہدیؐؑ  قریش کے خاندان کا  ایک دلیر ؛ شجاع اور تیز ہوش جوان ہونگے تیس یا چالیس سے کم عمر میں ظہور کریں گے - اسی طرح امام زمانہ  ؑکا خاص سفیر نفس زکیہ جنہیں رکن مقام کے درمیان شہید کیا جاۓ گا ایک جوان ہو ں گئے ـ   اما م صادق        اس بارے میں فرماتے ہیں :امام زمانہ کے ظہورکے وقت انکی طرفسے ایک جوان شخص سفیرکے عنوان سے منتخب ہونگے تاکہ امام ؑکے پیغام کو اہل مکہ تک پہنچا  ۓ اور انھیں آنحضرت کی حکومت کے پرچم تلے آنے کی دعوت دے لیکن مکہ کے حکمران اسے رکن  و مقام کے درمیان شھید کریں گے(1)   اسی طرح مختلف روایا ت میں آیا ہے کہ امام عصر کے ۳۱۳  اصحاب میں سے بہت ہی کم افراد کے سب جوان ہونگے  -چناچہ امیر مومنین        فرماتے ہیں  - امام مہدی ؑکے اصحاب سارے جوان ہونگے ان میں کوئی بھوڑے نہیں ہونگے سواۓ آنکھ میں سرمہ اور کھانےمیں نمک کی برابرکے :أصحاب المهدی شباب لا كهول فیهم إلا مثل كحل العین و الملح فی الزاد و أقل الزاد الملح (2)   اور کتنا ہی کم ہو تا ہے کھانے میں نمک  کی مقدار ۔

--------------

(1):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۶۴ -

(2):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۷۶  اور بحار انوار ج ۵۲ ، ص ۳۳۳ -

۷۳

 اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اما م زمانہؑ کے غیبی ندا پر سب سے پہلے  لبیک کہنےوالے اکثر جوان ہی ہونگے  امامؑ صادق  فرماتے ہیں: امام ؑکے ظہور کرنے کے بعد جب انکا آسمانی ندا انکے کانوں تک پہنچ جاے گی تو اس حالت میں لبیک کہیں گے کہ اپنے  اپنے چھتوں پر آرام کررہے ہونگے اور بغیر کسی آمادگی کے حرکت کریں گے اور صبح ہوتے ہوتے اپنے امامؑ کی زیارت سے شرف یاب ہونگے -  (1)

سوال نمبر 14: کیا عصر غیبت میں حضرت مھدی  سے ملاقات ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کیسے ؟

جواب : کثرت روایات اور مستند تاریخی حوالے یہ یہ بات ثابت ہے کہ غیبت صغری میں حضرت مھدی  کے نائبین خاص کے ذریعہ آپکے مانے والے آپ سے رابطہ برقرار کیے ہوے تھے او ر ان میں سے بعض افراد امام  کے حضور میں شرف یاب بھی ہوئے ہین ۔لیکن غیبت کبری میں یہ رابطہ ختم ہو گیا ہے اور امام عصر  سے عام طور پر ملاقات کرنا عادتا ً ناممکن ہے چو نکہ بنا اور وظیفہ آپکے لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہنا ہے لیکن اسکے باوجود عقلاً اور شرعاً دونو ں اعتبار سے آپکی دیدار سے مشرف ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے جسکے تقریباً تمام علماء متقدمیں اور متاخریں سب متفق ہیں ۔جیسا کہ شیخ طوسی قدس سرہ فرماتے ہیں : ہم ممکن سمجھتے ہیں کہ بہت سے اولیا اور انکی امامت کے ماننے والے حضرات انکی خدمت میں پہونچیں اور انکی ہستی سے استفادہ کریں(2)    اسی طرح سیّد ابن طاووس علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : امام کی زیارت کے راستے ہر اس شخص کے لیے کھلا ہوا ہے جسے خدا اپنے بے انتہا احسان اور انکی زیارت عنایت فرمائے(3) :  اور تاریخ میں بھی انتہائی باوقا ر افراد  اور عظیم الشان علماء کی امام زمانہ  سے ملاقات کے واقعات نقل ہوئے ہیں (4)

--------------

(1):- نعمانی الغیبہ :ص ۳۱۶  ،باب ۲۰ ح ۱۱-

(2):- کلمات المحقیقن :ص533

(3):- الطرائف : ص185 

(4):- دیکھئے:جنة الماویٰ،اور نجم الثاقب،محدث نوری

۷۴

یہاں ضروری ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کے بارے میں بحث کے حوالے سے درج ذیل نکات پر توجہ دی جائے:

پہلا نکتہ یہ ہے کہ امام  علیہ السلام  کی ملاقات کبھی ایسے لوگوںکی نصرت اور مدد کے لئے ہوتی ہے کہ جو پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تنہائی و بے کسی کا احساس کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کوئی حج کے سفر میں راستہ بھٹک گیا اور امام  علیہ السلام  یا ان کے اصحاب میں سے کسی صحابی نے اسے سرگردانی سے نجات دی اور امام  علیہ السلام سے اکثر ملاقاتیں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔

لیکن بعض ملاقاتیں عام حالات میں بھی ہوئی ہیں اور ملاقات کرنے والے اپنے مخصوص روحانی مقام کی وجہ سے امام  علیہ السلام  کی ملاقات سے شرفیاب ہوئے ہیں۔لہٰذا مذکورہ نکتے کے مد نظر توجہ رہے کہ ہر کسی سے امام  علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں خصوصاً آج کل بعض لوگ امام زمانہ  علیہ السلام  کی ملاقات کا دعویٰ کرکے اپنی دُکان چمکا کرشہرت اور دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی اور عقیدہ و عمل میں انحراف کی طرف لے جاتے ہیں، بعض دعاؤں کے پڑھنے اور بعض ایسے اعمال انجام دینے کی دعوت دیتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے اذکار اور اعمال کی کوئی اصل اور بنیاد بھی نہیں ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام  کے دیدار کا وعدہ  دے کر ایسی محفلوں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جن کے طور طریقے دین یا امام زمان علیہ السلام     کے لئے قابل قبول نہیں اوریوں وہ لوگ امام غائب کی ملاقات کو سب کے لئے ایک آسان کام قرار دیتے ہیں، جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام  علیہ السلام  خداوندعالم کے ارادہ کے مطابق مکمل طور پر غیبت میں ہیں اور صرف ایسے گنتی کے چند افراد ہی کی امام  علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے جن کی نجات فقط لطف الٰہی کے اس مظہر یعنی اما م عصر کی براہ راست عنایت پرمنحصر ہوتی ہے۔

۷۵

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام  کی ملاقات صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب امام زمانہ  علیہ السلام کی نظر میں کوئی مصلحت اس ملاقات میں ہو،

لہٰذا اگرکسی عاشق امام  علیہ السلام کو اس کے تمام تر اشتیاق ورغبت اور بھرپور کوشش کے باوجودبھی امام سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکے تو اس کوما یوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اورملاقات نہ ہونے کو امام  علیہ السلام کے لطف و کرم کے نہ ہونے کی علامت قرار نہیں دینا چاہئے، جیسا کہ جو افراد امام  علیہ السلام  کی ملاقات  سے فیض یاب ہوئے ہیں ان کی ملاقات کو ان کے تقویٰ اور فضیلت کی علامت قرارنہیں دیا جا سکتا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ اگرچہ امام زمانہ  علیہ السلام کے جمالِ پر نور کی زیارت اور دلوں کے اس محبوب سے گفتگو اور کلام کرنا واقعاً ایک بڑی سعادت ہے لیکن آئمہ  علیہم السلام خصوصاً امام عصر علیہ السلام  اپنے شیعوں سے یہ نہیں چاہتے کہ ان سے ملاقات کی کوشش میں رہیں اور اپنے اس مقصود تک پہنچنے کے لئے  چِلّہ  کاٹیں، یا جنگلوں میں مارے مارے پھریں؛ بلکہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ ہمارے شیعوں کو ہمیشہ اپنے امام کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرنا چاہئے اور آپ کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اپنی رفتار و کردار کی اصلاح کی کو شش کرنا چاہئے اورآپ کے عظیم مقاصد کے حصول کے راستے پر قدم بڑھانا چاہئے تاکہ جلد از جلدبشریت کی اس آخری امید کے ظہور کا راستہ ہموار ہوجائے اور کائنات ان کے وجود سے براہ راست فیضیاب ہو۔خود امام مہدی  علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَکثِرُْوا الدعَاء َ بِتَعجِیلِ الفرجِ، فانَّ ذَلکَ فَرَجُکُم'' (1)  

--------------

(1):- کمال الدین،ج2،باب45،ح4،ص239. اس مطلب کو محور کائنات  جناب  سیفی کی کتاب سے لیا گیا ہے ۔

۷۶

سوال نمبر 15: انتظار کیا ہے ؟  اور اسکا صحیح  معنی بیان کیجہے ؟

ج : انتظار کا صحیح مفہوم :

لغت کے اعتبارسے انتظار  ایک نفسیاتی حالت جو آئندہ اور مستقبل کے لیۓ  امیدوار ہونا ہے لیکن اسلامی تعلیمات میں انتظار نہ صرف ایک نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عقیدہ ہے عقیدہ حق وعدالت  کے طاقتوں کا ظلم وباطل کے طاقتوں پر مکمل طور پر غالب آنے ،تمام انسانی اقدار کا روۓ زمین پر برقرار ہونے اور مدینہ فاضلہ یعنی ایک آئیڈیل آفاقی معاشرے کے وجود میں لانے بلاآخر عدل الہی اور دین الہی کا اس روۓ زمین پر آخری حجت خدا کے ہاتھوں جلوہ گرہونے کا ۔

انتظار نظریہ ہے نظریہ آخری زمانہ میں منجی موعود کا ظہور کرنے اور عالم بشریت کو موجودہ حالات سے نجات دینے اور مستضعفیں کے ہاتھوں ایک آفاقی اور الھی نظام کا قائم کرنے کا ہے ۔انتظار عمل اور حرکت ہے ایسا عمل جو جس میں نفس کہ تزکیہ ہو، فردی اور اجتماعی اصلاح ہو یعنی خود سازی کے ساتھ دیگر سازی اور سماج سازی بھی ہو ،اور ایسی حرکت جو منظم اور انسانی زندگی کے تمام پہلو اور زاویوں سے  ہو، اور اس آفاقی نظام کے لیۓ  زمینہ فراہم کرۓ اور اس دور کے ساتھ ہم آہنگ اور وہم سوہوں  یہ ہے حقیقت انتظار  اسی لیے اہل بیت اطہارعلیم السلام نے واضح  الفاظ مین نظریۃانتظار کے بنیادی رکن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ انتظار صرف نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عمل ہے اور وہ بھی بہتریں عمل ہے جیسا کہ  فریقین کی جانب سے منقول ہے رسول خدا (ص) نے فرمایاافضل اعمال امتی انتظار الفرج من اﷲ (1) -میری امت کے اﷲ تعالی کی جانب سے ظہور وآسائش کا انتظار کرنا بزرک ترین عمل ہے ۔ یاکسی اور مقام پر   آپ  یوں فرماتے  ہیں  -انتظار الفرج عبادة افضل اعمال اُمّتی انتظار فرج اﷲ عزّوجل  (2) - فرج اور آسائش کا انتظار کرنا عبادت ہیں میری امت کے اعمال میں سب کے بہتر عمل اﷲ کی طرف سے فرج وکشائش کا انتظار ہے

--------------

(1):- کمال الدین:  ج ۲ باب نمبر ۵۵ ح ۱ -

(2):- کنزل العمال : ج ۳ ص ۲۷۳ ح ۶۵۰۹ -

۷۷

اور اسی مضمون میں ائمہ معصومینؑ  سے بھی بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں  جیسا کہ امیر المؤمنیں علی          فرماتے ہیں ۔انتظروا الفرج ولا تیأسو من روح اللّه ،فإنّ أحب الأعما الی اللّه عزّوجل انتظار الفرج  الآخذ بأمرنا معنا غداً فی حظیر القدس ،والمنتظر لأمرنا كالمتشحط بدمه فی سبیل اللّه (1)   آسائش اور رہائی کا انتظار کرو  خدا کی  رحمتوں سے کبھی مایوس نہ ہوجاؤ  اسلئے کہ پروردگا ر عالم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل انتظار فرج ہے اور ہماری ولایت کو مضبوطی سے تھامنے والا کل جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا  اور ہماری ولایت وامامت کے انتظار کرنے والا اس شخص کی مانند ہے  جو اﷲ کے راہ میں اپنے خون سے غلطان  ہو

د: انتظار کا غلط مفہوم اور اسکا منفی نتائیج .

ممکن ہے بسا اوقات نظریہ انتظار کو اپنے  درست اور اصلی مفہہوم  میں نہ سمجھنےبلکہ  کج فہمی  کے شکار ہونے  اور اسے غلط معنی اور مفہوم مراد لینے کی وجہ سے  یہی انتظار سازندگی وتعمیری روخ کو بدل کر تخریبی ویرانگری کا روخ اختیار کر لے اور ایک متحرک انقلابی اور پاک سرش شخص یا معاشرے کو  رکود وجمود ،مفلوج اور خباثت کی طرف دعوت دے  -

اگر آپ تاریخ  کا مطالعہ کریں تو سینکڑوں؛  ہزاروں کی تعداد میں افراد مختلف گروہوں  تنظیموں کی شکل میں نظر  آئیں گے جنہون  نے عقیدہ انتظار کو الٹا سمجھنے  اور اسے غلط مفہوم مراد لینے کی وجہ سے نہ صرف انتظار کو اپنے ترقی وسازندگی کا ذریعہ بنایا بلکہ الٹا یہی انتظار انکےمفلوج ہونے جمود کے شکار ہونے اور اپنے علاوہ سکاج کو بھی فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دینے کا سبب بنا مثال کے طور پر (انجمن حجتیہ )نامی تنظیم جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران سے پہلے انقلاب کے دوران او انقلاب کے بعد بھی ایران میں ملکی سطح  پر لوگوں کو فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دیتے تھے اور انکا یہ شعار تھا کہ ہم معاشرے میں  جتنا بھی ہو سکھے گناہوں کو اور ظلم وبربریت کو عام کر دے

--------------

(1):- بحار انوار : ج ۵۲ ص ۱۲۳ ح ۷ -

۷۸

اتنا ہی امام زمانہ کی ظہور میں تعجیل کا زمینہ فراہم ہو گا اور امام جلدی ظہور کریں گے ہم یہاں پر ان گروہوں میں سے ایک دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ مؤمنین کے لیےاس قسم کے منحرف شدہ گروہوں کو پہچاننے اور ان سے دوری اختار کرنے میں مدد ثابت ہو جاے  ۔

پہلاگروہ ـ :1

لوگوں کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ عصر غیبت میں ہماری ذمہ داری صرف اور صرف حضرت حجت         کے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنا ہے اور کسی قسم کی اصلا حی واجتماعی حرکت کو انتظار اور خدائی مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں انکا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو ؛ ہمیں کوئی ربط نہیں امام زمان       ہ خود تشریف فرما کر ان سب کو ٹھیک کریں گے،اسے پہلے جو بھی علم اٹھے گا باطل کا علم ہو گا اور لا محالہ دین و شریعت کے خلا ف ہو گا لہذا  اسے اصلاحی اور اجتما عی حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیںامام خمینی قدس اﷲ (عصر حاضر کی عظیم ہستی)ا نکے رد میں فرماتے ہیں : (کچھ لوگ انتظار فرج کو صرف مسجدوں حسینیوں اور گھروں میں بیٹہ کر امام زمانہ کے ظہور کے لیے خدا کی درگاہ میں دعا کرنے میں دیکھتا ہے اور  تکلیف اور ذمداری سمجھتے ہیں ہم سے کوئی ربط نہیں دنیا میں ملتوں  پر کیا گزرے ،خود امام ظہور کریں گے تو سب کچھ ٹھیک کریں گے )یہ ان لوگوں کی منطق ہے جو حقیقت میں اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے گریز کرتا ہے ،اسلام انکو قبول نہیں کرتا بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انکی آمد کے لیے زمینہ فراہم کر یں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں انشاء اﷲ ظہور کریں گے(1)   اگر ہماری بس میں ہوتا تو پوری دنیا  سے ظلم وجور کو مٹا دیتے ہماری شرعی ذمہ داری تھی لیکن یہ ہماری بس سے باہر ہے ،اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت حجت دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے یہ نہیں کہ تم لوگ اپنے شرعی تکلیف سے ہاتھ اُٹھاے بیٹھے اور اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دے(2)

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص ۱۶ -

(2):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۴ -

۷۹

 بلکہ دوران غیبت میں چونکہ احکام حکومتی اسلام جاری وساری ہیں کسی قسم کی ہرج و مرج  قابل قبول نہیں ہے ،پس حکومت اسلامی کا تشکیل دینا ہماری ذمہ داری ہے جسکا عقل حکم کرتی ہے ،تاکہ کل اگر ہم پر حملہ کرے یا ناموس مسلمین پر ہجوم لانے کی صورت میں دفاع کر سکے اور انھویں روک سکے ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں ،کہ کیا پیغمبر اکرم (ص)نے جن قوانین کی تبلیغ وتبین اور نشروتنفیذ کے لیے ۲۳ سال طاقت فرسا زحمتیں برداشت کی وہ قوانیں محدود مدت کے تھیں ؟ یا خدا نے ان قونیں کے اجرا کرنے کو ۲۰۰ سال تک کے لیے محدود کیا  ؟ کیا غیبت صغری کے بعد اسلام نے سب کچھ  چھوڑ دیا ؟(بے شک ) اس طرح کا عقیدہ اور اسکا اظہار کرنا اسلام کے منسوخ  ہو جانے پر عقیدہ رکھنے اور اسے اظہار کرنے سے زیادہ بدتر ہے ، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب اسلامی مملکتوں کا انکے حدود اور باڈروں کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے یا مالیات ،جزیہ ،خمس وزکواۃ  اور ٹیکس نہیں لینا چاہیے ،یا اسلام کے کیفری احکام دیات؛  قصاص سب کی چھٹی ہے(1)  

دوسرا اور بدترین گروہ

اس گروہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف سماج سے ظلم وستم  کو ختم کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے بلکہ  ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو گناہوں کی طرف دعوت دیں اور جتنا بھی ہو سکے ظلم وبربریت کے دائرے کو بڑاھنے کی کوشش کریں تاکہ امام زمانہ کی ظہور کے لیے زمینہ فراہم ہو جاۓ ،اس گروہ   میں بعض خود غرض  افراد بھی ہوتے ہیں  جو سوچھے سمجھے فساد کی طرف دعوت دیتے  ہیں  اور بعض ایسے سادہ لوح افراد بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے غلط افکار کی زد میں آکر منحرف  ہوچکے ہوتے ہیں ۔انکے رد میں رہبر کبیر امام خمینی فرماتے ہیں :یہ جو کہتے  ہیں ضروریات اسلام کے خلاف ہے ،یہ کہ ہم خود بھی گناہ  انجام دیں اور معاشرے میں بھی گناہوں کو  پھلائے تاکہ حضرت حجت         جلدی ظہور کرے ،....حضرت حجت      ظہور کریں گے تو  کس لیے ظہور کریں گے ؟ اس لیے ظہور کریں گے کہ دنیا  میں عدالت پھیلانے کے لیے   ،حکومت کو تقویت دینے کے لیے ، فساد کو زمین سے ریشہ کن کرنے کے لیے ظہور کریں گے ،

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۵ -

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

آیت(۳)

( وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَی فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُواْ )

اور اگر يتيموں كے بارے ميں انصاف نہ كرسكنے كا خطرہ ہے تو جو عورتيں تمھيں پسند ہيں دو ، تين ، چار ان سے نكاح كرلو او راگر ان ميں بھى انصاف نہ كرسكنے كاخطرہ ہے تو صرف ايك _ يا جو كنيزيں تمھارے ہاتھ كى ملكيت ہيں ، يہ بات انصاف سے تجاوز نہ كرنے سے قريب تر ہے _

١_ اگر يتيم لڑكيوں سے ناانصافى كا خوف ہو تو ان كے ساتھ ازدواج كرنے كى ممانعت_و ان خفتم الاّ تقسطوا فى اليتامي فانكحوا ما طاب لكم من النّسائ '' ان خفْتم''كى جزا حذف ہوگئي ہے اور ''فانكحوا''اس كا قائم مقام ہے يعني: ''ان خفتم الا ّ تقسطوا فى اليتامي فلاتنكحوھن و انكحوا''اوراس كے شان نزول ميں جو كچھ ذكر ہوا ہے اسكے مطابق يہ نہي، اس نكاح سے متعلق ہے جو مناسب مہر ادا كئے بغيربعض لوگ يتيم لڑكيوں سے كرتے ہيں _

٢_ يتيم لڑكيوں كے مال ميں خيانت كے خوف كي صورت ميں ان سے ازدواج كرنے كى ممانعت_

و آتوا اليتامي اموالهم و ان خفتم الاّ تقسطوا فى اليتامي فانكحوا جملہ ''ان خفتم ...''سے استفادہ ہوتا ہے كہ ناانصافى كے خوف كى صورت ميں يتيم لڑكيوں سے نكاح كرنا ممنوع ہے اور گذشتہ آيت كے قرينے سے ناانصافى (الا تقسطوا) سے مراد، ان كے اموال ميں انصاف اور عدل كى رعايت نہ ہونا ہے_

٣_ يتيم لڑكيوں كے ساتھ شادى كرنے ميں ، ان كے اموال ميں خيانت اور عدل و انصاف سے انحراف كا خطرہ _

۳۶۱

و ان خفتم الاّ تقسطوا فى اليتامي

٤_ ايسى بيوياں انتخاب كرنى چاہيں جو اچھى لگيں اور پسنديدہ ہوں _فانكحوا ما طاب لكم من النسآئ

٥_ بيويوں كى تعداد كا چار تك محدود ہونا_فانكحوا مثني و ثلث و رباع

٦_ تعدد زوجات كى مشروعيت، ان كے درميان عدل و انصاف قائم ركھنے كے اطمينان سےمشروط ہے_

فانكحوا ما طاب لكم من النّساء مثني و ثلث و رباع فان خفتم الاّ تعدلوا فواحدة

٧_ گھريلو روابط ميں عدل و انصاف كا خيال ركھنے كى اہميت_و ان خفتم الاّ تقسطوا فان خفتم الاّ تعدلوا فواحدة

٨_ تعدد زوجات سے، ناانصافى كا خطرہ_فانكحوا مثني و ثلث و رباع فان خفتم الاّ تعدلوا فواحدة

٩_ متعدد كنيزوں كے مالك ہونے اور ان سے جنسى لذت حاصل كرنے كا جواز_

فواحدة او ما ملكت ايمانكم نكاح كے ليے آزاد عورتوں ميں عددتعين كرنے كے مقابلے ميں كنيزوں ميں عدد تعين نہ كرنے سے ان سب سے جنسى لذت كا جواز ملتا ہے_

١٠_ متعدد كنيزوں سے ازدواج كى مشروعيت_فواحدة او ما ملكت ايمانكم صدر آيت كے قرينے سے '' فواحدة ''، ''انكحوا''كيلئے مفعول ہے_ يعنى ''فانكحوا واحدة''اور عطف كے پيش نظر''ما ملكت''بھى اس كا مفعول ہوگا_ ياد ر ہے كہ اس بناپر ''ايمانكم'' كا مخاطب وہ شخص نہيں ہے جو ازدواج كا ارادہ ركھتا ہے_

١١_ ايك بيوى پر اكتفا يا كنيزوں سے استفادہ، عورتوں كے بارے ميں عدل و انصاف سے منحرف نہ ہونے كا بہترين اور آسان ترين راستہ ہے_فواحدة او ما ملكت ايمانكم ذلك ادني الاّ تعولوا '' ذلك '' ، '' واحدة او ما ملكت ايمانكم''كى طرف اشارہ ہے _ اور ''الاّ تعولوا''مادہ ''عول''سے ہے_ جس كا معنى كجروى اور ستم ہے_

١٢_ كنيزوں كے مالكوں كيلئے ضرورى نہيں كہ وہ ان كے درميان مساوات كى رعايت كريں _فان خفتم الاّ تعدلوا فواحدة او ماملكت

۳۶۲

ايمانكم ذلك ادني الاّ تعولوا مساوات سے مراد وہ عدل و انصاف ہے جسے شوہر كو اپنى متعدد بيويوں كے درميان قائم ركھنا ضرورى ہے_

١٣_ متعدد شاديوں كا جواز، بيويوں كے نفقہ ميں عدل و انصاف كى رعايت كرنے سے مشروط ہے_

فان خفتم الاّ تعدلوا فواحدة امام صادق(ع) نے مذكورہ آيت ميں موجود''فان خفتم الاّ تعدلوا'' كے بارے ميں فرمايا: يعنى فى النفقة_(١)

احكام: ١، ٢، ٥، ٩، ١٠، ١٣

ازدواج: ازدواج كے احكام ١، ٢، ٥، ١٠، ١٣;ازدواج ميں عدل و انصاف٦، ١١; حرام ازدواج ١،٢

بيوي: بيوى كے انتخاب كا معيار ٤; بيويوں كا تعدد ٥، ٦، ٨، ٩، ١٠، ١٣

خيانت: خيانت كا پيش خيمہ ٣

روايت: ١٣

عدل: عدل كى اہميت ١، ٧، ٨، ١٣

كنيز: كنيز سے ازدواج ٩، ١٠، ١١;كنيز سے معاشرت ١٢

گمراہي: گمراہى كے موانع ١١

گھرانہ: گھرانے ميں عدالت ٧

لغزش: لغزش كا پيش خيمہ ٣; لغزش كے اسباب ٨

نفقہ: نفقہ ميں عدل و انصاف ١٣

يتيم: يتيم سے خيانت ٢، ٣ ; يتيم كا مال ٢; يتيم كے حقوق كى اہميت ١;يتيم لڑكى سے شادى ١، ٢، ٣

____________________

١)كافى ج٥ ص٣٦٣ ح١ نورالثقلين ج١ ص٤٣٩ ح٣٦.

۳۶۳

آیت(۴)

( وَآتُواْ النَّسَاء صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا ) عورتوں كو ان كامہر عطا كردو پھر اگر وہ خوشى خوشى تمھيں دينا چاہيں توشوق سے كھالو _

١_ عورتوں كا مہر ادا كرنا واجب ہے_و آتوا النّساء صدقاتهنّ كلمہ ''صدقات'' ، ''صدقة ''كى جمع ہے جس كا معني مہر ہے_

٢_ عورتيں ، اپنے مہر كى خود مالك ہيں _و آتوا النّساء صدقاتهنّ

٣_ گھريلونظام ميں عورت كا مالى استقلال_و آتوا النّساء صدقاتهنّ

٤_ مہر خود عورتوں كو دينا ضرورى ہے نہ كہ كسى دوسرے فرد كو_و آتوا النّساء صدقاتهن نحلة ''اتوا صدقات النسائ'' كى بجائے''و آتوا النساء صدقاتھن'' كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے كہ عورتوں كا مہر خود انہى كو دينا چاہيئے نہ كہ ان كے باپ يا بھائي وغيرہ كو جيساكہ ايام جاہليت ميں مرسوم تھا_

٥_ مہر، مردوں كى جانب سے اپنى بيويوں كيلئے ايك قسم كا ہديہ ہے_و آتوا النّساء صدقاتهن نحلة كلمہ ''نحلة'، ''صدقاتھنّ''كيلئے حال ہے اور اس كا معنى ہے بغيركسى عوض كے عطيہ دينا_

٦_ مہر، مردوں كے ذمہ، عورتوں كا قرض ہے_و آتوا النساء صدقاتهن نحلة بعض مفسرين كے بقول ''نحلة'' كا معنى فريضہ ہے_ مندرجہ بالامطلب ميں اسے ''دصين''سے تعبير كيا گيا ہے چونكہ مالى فريضہ در حقيقت ''دصيْن'' ہے _

٧_ مہر، رغبت و رضايت كے ساتھ اور بغيركسى احسان

۳۶۴

اورغرض و لالچ كے ادا كرنا چاہيئے_و آتوا النّساء صدقاتهنّ نحلة اسمطلب ميں كلمہ ''نحلة''كو ايك محذوف، مفعول مطلق كيلئے صفت كے طور پر اخذ كيا گيا ہے_ ''اتوھنّ ايتاء نحلة''يعنى يہ ادائيگى بغيركسى احسان و لالچ كے ہونى چاہيئے_

٨_ عورت اپنے مہر كا كچھ حصہ اپنے شوہر كو بخش سكتى ہے_فان طبن لكم عن ش منه نفساً

٩_ عورتوں كى مكمل رضايت حاصل كئے بغير، ان كے مہر ميں شوہروں كے تصرف كاحرام ہونا_

و اتوا النّساء فان طبن لكم عن ش منه نفساً فكلوه جملہ ''فان طبن لكم ...''(وہ اگر اس ميں سے كچھ تمہيں خوشى سے دے ديں تو اسے لے لو اور تصرف كرو) كے معنى سے، بغيررضايت كے تصرف كى حرمت ظاہر ہوتى ہے_

١٠_ عقد ازدواج ميں مہر كا مقرر كيا جانا، ملكيت كے اسباب ميں سے ہے_و اتوا النّساء صدقاتهنّ

١١_ ہبہ كا ملكيت كے اسباب ميں سے ہونا_فان طبن لكم فكلوه ''كلوہ''مكمل تسلط سے كنايہ ہے اور وہ ملكيت ہے_

١٢_مالك كى رضايت،اسكے مال ميں دوسروں كے تصرف كے جواز كى شرط ہے_فان طبن لكم عن ش منه نفساً فكلوه هنيا ً مريئاً

١٣_ جو مال، عورت اپنے مہر سے شوہر كو بخشتى ہے وہ اس كيلئے حلال ہے_فان طبن لكم عن ش منه نفساً فكلوه هنياً مريئاً

١٤_ خداوند متعال كا، عورتوں كو اپنا سارا مہر شوہروں كو نہ بخشنے كى ہدايت كرنا_

فان طبن لكم عن ش منه نفساً فكلوه ''من'' تبعيضيہ سے ظاہر ہوتا ہے كہ مہر كا كچھ حصہ بخشنے كى بات كرنا اورا سكى تصريح كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ عورتوں كو اپنا سارا مہر ہبہ نہيں كرنا چاہيئے_

١٥_ شوہر، عورت كے راضى ہونے كى صو رت ميں اسكے مال سے استفادہ كرنے كا مجاز ہے_

فان طبن لكم عن ش منه امام صادق(ع) ياامام كاظم(ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں پوچھے گئے سؤال كے جواب ميں فرمايا:يعنى بذلك اموالهن التى فى ايديهن مما ملكن _(١) ان سے مراد وہ اموال ہيں جن كى وہ مالك ہيں _

____________________

١)تفسير عياشى ج١ص٢١٩ ، ح١٦ نورالثقلين ج١ ص٤٤١، ح٤٦.

۳۶۵

١٦_ عورت كا ولى و سرپرست، اس كا مہر اپنے لئے نہيں لے سكتا_و اتوا النّساء صدقاتهن امام باقر(ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں فرمايا:هذا خطاب للاولياء لانّ الرّجل منهم كان اذا زوجّ ايّمة اخذ صداقها دونها فنهاهم الله عن ذلك _(١) يہ اولياء سے خطاب ہے كيونكہ جب كوئي شخص بيوہ عورت سے شادى كرتا تو اس كا مہر اس كے بجائے اس كا سرپرست لے ليتا_ اللہ تعالى نے اولياء كو اس سے منع كيا_

احكام: ١، ٤، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٤، ١٦

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى نصيحتيں ١٤

خانوادہ : خانوادہ كا نظام ٣

روايت: ١٥، ١٦

عورت: عورت كا مال ١٥; عورت كى مالكيت ٢، ٣; عورت كے اختيارات ٨;عورت كے حقوق ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٩، ١٥; عورت كے سرپرست ١٦

غصب: غصب كى حرمت ٩

مالكيت: ذاتى مالكيت، ٢مالكيت كے احكام ١٢;مالكيت كے اسباب ١٠، ١١

مرد: مرد كے اختيارات ١٥

مہر: مہر كا مالك ٢;مہر كا ہبہ كرنا ١٣، ١٤;مہر كى حقيقت ٥;مہر كے احكام ١، ٤، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٦

واجبات: ١٠

ہبہ: ١١

____________________

١)تفسير تبيان ج٣ ص١١٠، مجمع البيان ج٣ ص١٢.

۳۶۶

آیت(۵)

( وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَهَاء أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّهُ لَكُمْ قِيَاماً وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا )

اور ناسمجھ لوگوں كو ان كے وہ اموال جن كو تمھارے لئے قيام كاذريعہ بنا يا گيا ہے نہ دو _ اس ميں ان كے كھانے كپڑے كا انتظام كردو اور ان سے مناسب گفتگو كرو_

١_ مال و ثروت، سفيہہ افراد كے اختيار ميں نہيں دينا چاہيئے_و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم

٢_ سفيہہ كا مال ميں تصرف كرنے سے ممنوع ہونا_و لاتؤتوا السفهاء اموالكم

٣_ سفيہہ افراد پر خرچ كرتے وقت، مال ان كے ہاتھ ميں نہيں دينا چاہيئے_*و لاتؤتوا السفهاء اموالكم

بعض كى رائے ہے كہ ''ايتائ''سے مراد ان پر خرچ كرنا ہے_ يعنى ان پر اپنا مال خرچ كرتے وقت، مال ان كے ہاتھ ميں نہيں دينا چاہيئے بلكہ ان كے مفاد و منافع ميں استعمال كرنا چاہيئے_

٤_ سفيہہ ا فراد كے كم قيمت مال كو ان كے اختيار ميں دينے كا جواز_ ولاتؤتوا السّفهاء اموالكم الّتى جعل الله لكم قياماً

اس احتمال كى بنا پر كہ ''التّى جعل ...''ايك قيد احترازى ہے_ لہذا اس بنا پر جس مال كى اقتصادى اہميت زيادہ نہيں ہے وہ سفيہ افراد كے ہاتھ ميں ديا جاسكتا ہے_

٥_ سفيہہ كا مال، اسكے ولى وسرپرست كے اختيار ميں ہونا چاہيئے_و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم

جملہ ''لاتؤتوا ''(مال، سفيہہ افراد كو نہ دو) سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كا مال كسى دوسرے كے اختيار ميں ہونا چاہيئے اور چونكہ آيت كے مخاطبين ہر سفيہہ كے سلسلے ميں تمام مسلمان نہيں

۳۶۷

ہوسكتے_ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ خطاب (سفيہہ كے سرپرست) سے ہے_

٦_ افراد كے ذاتى مال كے بارے ميں معاشرے كے كچھ حقوق ہيں _و لاتؤتوا السفهاء اموالكم

سفيہہ افراد كے ذاتى مال كى نسبت، معاشرے كى طرف دينے سے ظاہر ہوتا ہے كہ معاشرہ، افراد كے ذاتى اموال كے بارے ميں كچھ حقوق ركھتا ہے_

٧_ معاشرے كے اقتصادى امور، سفيہہ افراد كے اختيار ميں نہ ديئے جائيں _و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم

٨_ مال و ثروت كا حقيقى مالك، خداوند متعال ہے_اموالكم التى جعل الله لكم قياماً

٩_ مال و ثروت، معاشرے كے قائم و برقرار رہنے كا وسيلہ ہے_اموالكم التى جعل الله لكم قياماً

كلمہ '' قياماً ''كامعنى برقرار و قائم كرنے والا ہے_ (لسان العرب)_

١٠_ جو لوگ اپنا مال و دولت، معاشرے كى مصلحتوں كے خلاف، خرچ كرتے ہيں ، دين كى نظر ميں سفيہہ ہيں _*

اموالكم الّتى جعل الله لكم قياماً جملہ''لاتؤتوا السّفهاء اموالكم التى قياماً'' سے ظاہر ہوتا ہے كہ خداوند متعال نے اسلئے سفيہہ افراد كو مال دينے كى ممانعت كى ہے كہ وہ اس مال كو معاشرے كى مصلحتوں اور اسكے قيام اور برقرارى و استحكام كے خلاف استعمال كرتے ہيں _ بنابرايں معاشرے كى مصلحت كے خلاف مال صرف كرنا،سفيہانہ عمل ہے اور صرف كرنے والا سفيہہ ہے_

١١_ مال و ثروت كو معاشرے كى اقتصادى و معاشى ترقى كيلئے استعمال كرنا چاہيئے_

اموالكم الّتى جعل الله لكم قياماً يہ كہ خداوند متعال نے مال و ثروت كو معاشرے كے قائم و برقرار ركھنے كيلئے عطا كيا ہے اور اسى وجہ سے اس كا بيوقوف لوگوں كو دينا ممنوع قرار ديا ہے_ اس سے پتہ چلتا ہے كہ مال و ثروت، اقتصادى ترقى كيلئے استعمال ہونا چاہيئے كہ جس سے معاشرہ برقرار و قائم ر ہے_

١٢_ سفيہہ افراد كى خوراك و پوشاك (مخارج زندگي) كى فراہمى معاشرے كى ذمہ دارى ہے_و ارزقوهم فيها و اكسوهم

۳۶۸

١٣_ سفيہہ افراد كے سرمائے سے، كاروبار كرنے اور اسكے منافع سے ان كے اخراجات پورے كرنا ضرورى ہے_

و ارزقوهم فيها و اكسوهم خداوند متعال نے سفيہہ افراد كى روزى ان كے اموال ميں قرار دى ہے نہ ان كے اموال سے_ لہذا فرمايا ہے ''و ارزقوھم فيہا''يہ نہيں فرمايا ''منھا'' اور اس كا واحد راستہ يہ ہے كہ ان كا سرمايہ تجارت ميں لگايا جائے اور اسكے منافع سے ان كے مخارج پورے كئے جائيں _

١٤_ سفيہہ افراد كے ساتھ رفتار و گفتار ميں اچھا اور تعميرى اندازاپنانا ضرورى ہے_و قولوا لهم قولاً معروفاً اس مطلب ميں كلمہ ''قولاً'' اپنے كنائي معنى يعنى مطلق معاشرت (رفتار و گفتار) ميں ليا گيا ہے_

١٥_شراب خور كو اسكى سفاہت كى وجہ سے مال و ثروت دينے كى ممانعت_و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم امام صادق(ع) نے شراب خور كو امين بنانے كى ممانعت كرتے ہوئے فرمايا: ان الله يقول: ''ولاتؤتوا السّفھاء اموالكم''فاُّى سفيہ اسفہ من شارب الخمر؟(١) يعنى شارب الخمر سے بڑھ كر اور كون سفيہہ ہوگا_

١٦_ مال و ثروت كو تباہى و بردبارى سے بچانے كى خاطر اسے سفيہہافراد كے سپرد نہيں كرنا چاہيئے_

و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم امام باقر(ع) :انّ الله نهى عن و فساد المال انّ الله عزوجل يقول و لاتؤتوا السفهاء اموالكم ..(٢) اللہ تعالى نے مال و ثروت كو تباہ و برباد كرنے سے منع فرمايا ہے _ بےشك اللہ تعالى كا ارشاد ہے اور سفہاء كو اپنے اموال نہ دو

١٧_ ناقابل اعتماد لوگوں كو مال و ثروت دينے سے اجتناب كرنا ضرورى ہے_

و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم امام صادق(ع) نے مذكورہ آيت ميں ''السفھائ'' كے بارے ميں فرمايا: ''من لا تثق به '' جس پر تمہيں اعتماد نہ ہو_(٣)

١٨_ يتيموں كے بلوغ و رشد كے مرحلے تك پہنچنے سے پہلے انہيں ان كا مال و ثروت دينے سے پرہيزكرنا ضرورى ہے_

و لاتؤتوا السّفهاء اموالكم امام صادق(ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں كئے گئے سوال كے جواب ميں فرمايا:'' لا تعطوهم

____________________

١)كافى ج٥ ص٢٩٩ ح١ نورالثقلين ج١ص ٤٤٣ ح٥٢. ٢)كافى ج٥ ص٣٠٠ ح٢ ،نورالثقلين ج١ص ٤٤٢ ح٥٥

٣)تفسير عياشى ج١ ص٢٢٠ ح٢٠،نورالثقلين ج١ ص٤٤١ ، ح ٤٨.

۳۶۹

اموالهم حتى تعرفوا منهم الرشد (١) ان سے مراد يتيم ہيں ، انہيں ان كا مال اس وقت تك نہ دو جب تك وہ رشد و بلوغ تك نہ پہنچ جائيں _

احكام: ١، ٢، ٤، ٥، ١٣، ١٥، ١٦، ١٨

اقتصاد: اقتصادى ترقي، ١١ اقتصادى نظام: ١، ٦، ٧، ١٦،١٧

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى مالكيت ٨

انفاق: سفيہہ پر انفاق ٣

روايت: ١٥، ١٦ ، ١٧، ١٨

سخن : سخنميں ادب ١٤

سرمايہ: سرمايہ كى اہميت ١١

سفيہہ: ١٠، ١٥ سفيہہ كا مال ٤،٥، ١٣ ;سفيہہ كا ممنوع التصرف ہونا ٥; سفيہہ كى ضروريات پورى كرنا ١٢، ١٣; سفيہہ كى ممانعت ٢، ٣ ; سفيہ كى كفالت ٥;سفيہہ كے احكام ١، ٤، ٥، ٧، ١٢، ١٣، ١٥، ١٦ ;سفيہہ كے ساتھ معاشرت١٤

شراب خور: شراب خور كى سفاہت ١٥; شراب خور كے احكام ١٥

مال: مال كا كردار ٩، ١٠; مال كى حفاظت ١٦;مال كے احكام ٢، ٣، ١٧

معاشرہ: معاشرے كى ترقى كے اسباب ١١; معاشرے كى تشكيل كے اسباب ٩;معاشرے كى ذمہ دارى ٦، ١٢ ; معاشرے كى مصلحتيں ١٠

ممنوع التصرف لوگ: ٢، ٣

يتيم: يتيم كا مال ١٨;يتيم كے احكام ١٨

____________________

١)تفسير عياشى ج١ ص٢٢٠ ح٢٣، نورالثقلين ج١ ص ٤٤٢ ، ح ٥٠.

۳۷۰

آیت(۶)

( وَابْتَلُواْ الْيَتَامَی حَتَّیَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأ ْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَی بِاللّهِ حَسِيبًا )

او ريتيموں كا امتحان لو اور جب وہ نكاح كے قابل ہوجائيں تو اگر ان ميں رشيد ہونے كا احساس كرو تو ان كے اموال ان كے حوالے كردو اورزيادتى كے ساتھ يااس خوف سے كہ كہيں وہ بڑے نہ ہوجائيں جلدى جلدى نہ كھا جاؤ _ او رتم ميں جوغنى ہے وہ ان كے مال سے پرہيز كرے او رجو فقير ہے وہ بھى صرف بقدر مناسب كھائے _ پھرجب انكے اموال ان كے حوالے كرو تو گواہ بنالو اور خداتو حساب كے لئے خود ہى كافى ہے _

١_ يتيموں كے اقتصادى بلوغ كى تشخيص كيلئے، نكاح و بلوغ كى عمر تك ان كى آزمائش كاضرورى ہونا_

و ابتلوا اليتامي حتّي اذا بلغوا النكاح رشداً

٢_ يتيموں كو ان كا مال سپرد كرنے كى دو شرطيں ہيں ايك جنسى بلوغ كے مرحلہ تك پہنچنا اور دوسرا اقتصادى رشد _

حتّى اذا بلغوا النّكاح فان انستم منهم رشداً فادفعوا اليهم اموالهم

٣_ يتيموں كے اپنے مال ميں تصرف كا جواز، جنسى بلوغ كے مرحلے تك پہنچنے اور اقتصادى رشد سے مشروط ہے_

و ابتلوا اليتامي فادفعوا اليهم اموالهم

۳۷۱

٤_ يتيموں ميں اقتصادى رشد كے معلوم ہوجانے اور جنسى بلوغ كے مرحلے تك پہنچنے كے بعد، ان كا مال انہيں واپس كرنے كا وجوب_و ابتلوا اليتامي فان انستم منهم رشدا فادفعوا اليهم اموالهم

مندرجہ بالامطلبكى تائيد امام صاوق(ع) كے اس فرمان سے ہوتى ہے جو آپ(ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں فرمايا:ايناس الرشد حفظ المال _(١) ''ايناس الرشد'' سے مراد مال كى حفاظت ہے_

٥_( نابالغ ) بچے اور جو لوگ اقتصادى رشد (فہم) نہيں ركھتے، وہ اپنے مال ميں تصرف كرنے سے ممنوع ہيں _*

وابتلوا اليتامي فان انستم منهم رشداً فادفعوا

٦_ مالكيت كا لازمہ تصرّف كا جواز نہيں ہوتا_و ابتلوا اليتامي فان انستم منهم رشداً فادفعوا

نابالغ يتيم، اپنے مال ميں تصرف كرنے سے ممنوع ہيں ، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ فقط مالك ہونے كا لازمہ، مال ميں تصرف كا جواز نہيں ہے_

٧_ ولى و سرپرست كى نگرانى ميں اور اجازت كے ساتھ يتيم بچوں كا اپنے مال ميں تصرف صحيح ہے_

وابتلوا اليتامى حتى اذا بلغوا النكاح كيونكہ آزمائش اسى وقت ہوسكتى ہے جب يتيم اپنے اموال ميں تصرف كرے اور اس كا ولى و سرپرست اس كے تصرفات كى نگرانى كرے_

٨_ بچوں كى ذاتى مالكيت_و ابتلوا اليتامي فادفعوا اليهم اموالهم

٩_ يتيموں كے مال ميں ، اولياء كے اسراف اور سوء استفادہ كى حرمت_اموالهم و لاتاكلوها اسرافاً و بداراً ان يكبروا

١٠_ يتيم كى خدمت كے عوض اسكے مال سے، مالدار ولى كيلئے (كچھ) لينا حرام ہے_و من كان غنيا فليستعفف بعض كى رائے ہے كہ يتيم كے مال سے استفادہ كرنے اور اس ميں تصرف كرنے سے مراد وہ استفادہ و تصرف ہے جو يتيموں كا ولى و سرپرست كام كے عوض اور مزدورى كے عنوان سے يتيم كے مال سے ليتا ہے_

١١_ مالدار ولى وسرپرست كا يتيموں كے مال سے ان كى خدمت كے بدلے عوض نہ لينا، ايك پسنديدہ (مستحب) عمل ہے_و من كان غنياً فليستعفف

____________________

١)من لايحضرہ الفقيہ ج٤ ص١٦٤ ح٧ ب ١١٣، نورالثقلين ج١ ص٤٤٤ ح٦٠.

۳۷۲

مندرجہ بالا مطلب (اسے چاہيئے كہ يتيم كا مال كھانے سے پرہيز كرے) سے استحبابى معنى مراد لياگيا ہے_چونكہ اسكے مقابل ''فلياكل'' ہے كہ جو وجوب پر دلالت نہيں كرتا_

١٢_ ولى و سرپرست كے فقيرہونے كى صورت ميں ، يتيم كى خدمت كے عوض، اسكے مال سے معمول كے مطابق استفادہ كرنے كا جواز_و من كان فقيراً فلياكل بالمعروف

١٣_ كام كى قدرو قيمت مقرر كرنے ميں عرف عام كا معتبر ہونا_فلياكل بالمعروف كلمہ ''بالمعروف'' يعنى جو عام لوگوں كى رائے ميں قابل قبول ہو _

١٤_ يتيموں كو ان كا مال سپرد كرتے وقت اس پر شاہد (گواہ) بنانا ضرورى ہے_فاذا دفعتم اليهم اموالهم فاشهدوا عليهم

١٥_ دوسروں كا مال، ان كے سپرد كرتے وقت اس پر گواہ بنانا ضرورى ہے_فاذا دفعتم اليهم اموالهم فاشهدوا عليهم بظاہر گواہ بنانے كا معيار فقط يتيم كا مال نہيں _ لہذا يہ آيت ہر قسم كا مال اور دين ادا كرتے وقت اس پر گواہ بنانے كے ضرورى ہونے كى دليل بن سكتى ہے_

١٦_ اعمال كا حساب لينے ميں خداوند متعال كا كافى ہونا_و كفي بالله حسيباً

١٧_ خداوند متعال كے دقيق حساب لينے كا اعتقاد (دينى وجدان) دوسروں كے حقوق كى رعايت كرنے كى بنياد بنتا ہے_

و كفي بالله حسيباً

١٨_ خداوند متعال كا يتيموں كے سرپرستوں كو، ان كے حقوق كى رعايت نہ كرنے كے سلسلے ميں خبردار كرنا_

فان انستم منهم رشداً و كفي بالله حسيباً

١٩_ يتيم كے ولى و سرپرست كا اسكے مال سے معمول كے مطابق استفادہ كرنے كا جواز اس بات سے مشروط ہے كہ وہ يتيم كى مصلحت كيلئے اپنا وقت صرف كرے اور يتيم كا مال بھى كم نہ ہو (كافى ہو)_و من كان فقيراً فلياكل بالمعروف

مذكورہ آيت كے بارے ميں امام صادق(ع) فرماتے ہيں :ذلك رجل يحبس نفسه عن المعيشة فلا با س ان يا كل بالمعروف اذا كان يصلح لهم اموالهم فان كان المال قليلاً فلا يا كل منه شيئاً (١) يہاں مراد وہ شخص ہے جس نے يتيموں كى خاطر ان كے مال كى اصلاح اور مصلحت كيلئے خود كو مصروف كرديا ہو اور اپنے كام كاج سے رہ جائے تو وہ

____________________

١)كافى ج٥ ص١٣٠ ح٥، نورالثقلين ج١ص ٤٤٥ ح٦٩.

۳۷۳

ضرورت اور معمول كے مطابق مال يتيم ميں سے لے سكتا ہے_ اور اگر مال يتيم كم ہو تو پھر نہيں لے سكتا ہے_

٢٠_ سخت ضرورت كے وقت، ولى و سرپرست يتيم كے مال سے استفادہ كرسكتا ہے_فلياكل بالمعروف

مذكورہ آيت كے بارے ميں امام صادق(ع) فرماتے ہيں :المعروف هو القوت و انما عنى الوصّى او القيم فى اموالهم و ما يصلحهم _(١) ''المعروف'' سے مراد ضرورى اخراجات ہيں اور (وہ شخص جسے اخراجات لينے كا حق ہے) مراد وصى يا وہ شخص ہے جو يتيموں كے اموال اور ان كے امور كا سرپرست ہے_

٢١_ ضرورت كے وقت، يتيم كا سرپرست اسكے مال ميں سے قرض لے سكتا ہے_فلياكل بالمعروف اما م باقر(ع) مذكورہ آيت كے بارے ميں فرماتے ہيں :معناه من كان فقيراً فليا خذ من مال اليتيم قدر الحاجة و الكفاية على جهة القرض ثم يردّ عليه ما ا خذ اذاوجد (٢) اس سے مراد يہ ہے كہ فقير بقدرضرورت يتيم كے مال ميں سے لے سكتا ہے_ پھر جب اس كے پاس مال آجائے تو وہ قرض كو لوٹا دے_

احكام: ٢، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٤، ١٥، ١٩ احكام ثانوى ٢٠، ٢١

اسراف: اسراف كى حرمت ٩ ;اسراف كے احكام ٩

اقتصاد: اقتصادى ترقى ١، ٢، ٣، ٤

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا خبردار كرنا ١٨ ; اللہ تعالى كى جانب سے حساب لينا ١٦، ١٧

امانتداري: امانتدارى كے احكام ١٥; امانت دارى ميں گواہى ١٥

امتحان: امتحان كا فلسفہ ١

ايمان: اللہ تعالى پر ايمان ١٧

بچہ : بچے كا ممنوع التصرف ہونا ٥;بچے كى مالكيت ٨;بچے كے تصرفات ٥، ٧

روايت: ٤، ١٩،٢٠، ٢١

عرف: عرف عام كى اہميت١٣

عمل: عمل صالح١١ ; عمل كا حساب ١٦

قدر و قيمت: قدر و قيمت كا معيار ١٣

____________________

١)كافى ج٥ ص١٣٠ ح٣، نورالثقلين ج١ص ٤٤٦ ح٦٧. ٢)مجمع البيان ج٣ص١٧تفسير برھان ج١ص٣٤٥ح٢٠.

۳۷۴

كام: كام كى قدر و قيمت١٣

لوگ: لوگوں كے حقوق كى رعايت كرنا ١٧

مالكيت: ذاتى مالكيت ٨ ;مالكيت كے احكام ٦

مال ميں تصرف: مال ميں تصرف كى شرائط ٦

محرمات: ٩، ١٠

ممنوع التصرف لوگ: ٥

واجبات: ٤

وجدان: دينى وجدان ١٧

ولى : ولى كے اختيارات ١٢، ١٩، ٢٠، ٢١

يتيم: يتيم كا امتحان ١; يتيم كا تصرف ٢ ، ٣ ،٧;يتيم كا مال ٢، ٧، ٩، ١٤;يتيم كى ترقي١، ٢، ٣ ;يتيم كى خدمت ١٠، ١٢ ، ١٩;يتيم كى كفالت ٧، ٢٠، ٢١;يتيم كى مصلحت١٩ ;يتيم كے احكام ٢، ٣، ٤، ١٩; يتيم كے حقوق ١٨; يتيم كے سرپرست ٩، ١٠، ١٢، ١٨; يتيم كے مال سے استفادہ ١٠، ١١، ١٢، ١٩، ٢٠، ٢١

آیت(۷)

( لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا )

مردوں كے لئے ان كے والدين او راقربا كے تركہ ميں ايك حصہ ہے اور عورتوں كے لئے بھى ان كے والدين اور اقربا كے تركہ ميں حصہ ہے وہ مال بہت ہو يا تھوڑا يہ حصہ بطور فريضہ ہے_

١_ تمام مرد اور عورتيں اپنے ماں باپ اور قريبى رشتہ داروں سے ارث ليتے ہيں _

للرّجال نصيب ممّا ترك الوالدان والاقربونص وللنسآء نصيب

۳۷۵

٢_ ماں باپ اور قريبى رشتہ داروں كے وارثوں كا، ميراث ميں معين حصہ _للّرجال نصيب ما ترك و للنساء نصيب نصيباً مفروضاً

٣_ ميراث ميں حصہ دار بننے كا معيار، وارث كا ميت كے ساتھ رشتہ دار ہونا ہے_للرّجال نصيب والاقربون و للنساء والاقربون

٤_ ميت كے قريبى رشتہ داروں كا ارث لينے ميں مقدم ہونا_للرّجال نصيب ممّا ترك الوالدان والاقربون

''الاقربون''كا معنى ہے، قريبى ترين رشتہ دار _ (لسان العرب) لہذا جو وارث تمام رشتہ داروں سے زيادہ ميت كے نزديك ہو وہى ارث لينے ميں مقدم ہے_

٥_ عورتوں كو ارث سے محروم كرنے والى جاہلانہ رسم كا ختم كيا جانا_و للنساء نصيبٌ

مرحوم طبرسى نقل كرتے ہيں كہ عرب جاہليت ميں عورتوں كو ارث سے محروم كرديتے تھے اور يہ آيت اسى رسم كو ختم كرنے كيلئے نازل ہوئي ہے_

٦_ ميت كى ميراث سے عورتوں اور مردوں كے حصے كا متفاوت ہونا_للّرجال نصيبٌ و للنساء نصيبٌ

عورت اور مرد كيلئے ، كلمہ ''نصيب'' كا تكرار ارث سے ان دونوں كے حصہ كے متفاوت ہونے كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے_

٧_ ارث كا مالكيت كے اسباب ميں سے ہونا_للرّجال نصيب و للنساء نصيبٌ مما ترك الوالدان والاقربون

٨_ ميراث ميں مقرر شدہ حصہ، وارثوں كا حق ہے، خواہ ميت كا تركہ تھوڑا ہو يا زيادہ_للرّجال نصيب ممّا قل منه او كثر نصيباً مفروضاً

٩_ارث كى تقسيم ميں دقت كرنا اور وارثوں كے حقوق ضائع نہ كرنا ضرورى ہے_للرّجال نصيب و للنساء نصيب مما قلّ او كثر نصيبا مفروضا اس بات كى تصريح كہ تركہ جتنا بھى كم ہو وارثوں كو اس ميں سے حصہ لينا چاہيئے اور حصہ دار بننا چاہيئے_ يہ مسئلہ ارث كى اہميت اور حصہ داروں كو ان كا حصہ دينے ميں دقت كرنے كى ضرورت پر دلالت كرتا ہے_

۳۷۶

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٨

ارث: ارث كا كردار ٧;ارث كى تقسيم ٩;ارث كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٨;ارث كے اسباب ١، ٣; ارث كے طبقات ٢، ٤ ; ايام جاہليت ميں ارث ٥

جاہليت: جاہليت كى رسوم٥

عورت: عورت كى ارث ٦

مالكيت: مالكيت كے اسباب ٧

مرد: مرد كى ارث ٦

وارث: وارث كے حقوق ٨، ٩

آیت(۸)

( وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُوْلُواْ الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا ) اوراگر تقسيم كے وقت ديگر قرابتدار ، ايتام، مساكين بھى آجائيں تو انھيں بھى اس ميں سے بطور رزق دے دو اور ان سے نرم اور مناسب گفتگو كرو_

١_ ارث تقسيم كرتے وقت اگر ضرورت مند قريبى رشتہ دار، يتيم اور مساكين موجود ہوں تو انہيں ميت كے مال سے بہرہ مند كرنا ضرورى ہے_و اذا حضر القسمة اولوا القربي واليتامي والمساكين فارزقوهم منه يتيم و مسكين كے ساتھ''اولوا القربي'' كا ذكر اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ''اولوا القربي'' سے مراد ضرورت مند رشتہ دار ہيں نہ كہ مالدار رشتہ دار كہ جو يتيموں اور مسكينوں كے ساتھ كسى قسم كا تناسب نہيں ركھتے_ آيت كے ذيل ميں ان كے ساتھ اچھا اور محبت بھرا سلوك كرنے كى ترغيب دلائي گئي ہے اس سے بھى مذكورہ معنى كى تائيد ہوتى ہے_

۳۷۷

٢_ رشتہ داروں ، يتيموں اور مسكينوں كو ميراث سے بہرہ مند كرتے وقت، ان كے ساتھ نيك اور محبت بھرا سلوك كرنا ضرورى ہے_و اذا حضر القسمة فارزقوهم منه و قولوا لهم قولاً معروفاً

٣_ رشتہ داروں ، يتيموں اور مسكينوں كى ضروريات كى طرف توجّہ اور ان كے ساتھ نيك سلوك كرنا ضرورى ہے_

اولوا القربي واليتامي والمساكين فارزقوهم منه و قولوا لهم قولاً معروفاً

٤_ بات چيت كرتے وقت ادب كا لحاظ ركھنا ضرورى ہے_و قولوا لهم قولاً معروفاً ''قول معروف''كا معنى وہ قول ہے جو عرف و شرع ميں پسنديدہ ہو_ اس كو مؤدبانہ گفتگو بھى كہتے ہيں _

احكام: ١

ارث: ارث كے احكام ١

رشتہ دار: رشتہ داروں سے سلوك ٢، ٣;رشتہ داروں كى ضروريات پورى كرنا ٣; رشتہ داروں كے حقوق ١، ٢

سخن: سخن ميں ادب، ٤

ضرورت مند لوگ: ضرورت مندوں كى ضرورت پورى كرنا ١، ٣

مساكين: مساكين سے سلوك ٢;مساكين كى ضروريات پورى كرنا ٢

معاشرت: آداب معاشرت ٤

يتيم: يتيم سے سلوك ٢، ٣;يتيم كى ضرورت پورى كرنا ٣

۳۷۸

آیت(۹)

( وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُواْ مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُواْ عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللّهَ وَلْيَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًا )

اور ان لوگوں كو اس بات سے ڈرنا چاہئے كہ اگر وہ خود اپنے بعد ضعيف و ناتواں اولاد چھوڑ جاتے تو كس قدر پريشان ہوتے لہذا خدا سے ڈريں اورسيدھى سيدھى گفتگو كريں _

١_ جو لوگ معاشرے كى طرف سے اپنے يتيم بچوں كے حقوق كى رعايت كے خواہاں ہيں انہيں چاہيئے كہ وہ دوسروں كے يتيم بچوں كے حقوق كا خيال ركھيں _و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذريّة ضعافاً خافوا عليهم فليتّقُوا الله

پہلے جملے (لو تركوا من خلفهم ذريّة ضعافاً ) كے قرينے سے جملہ''فليتقوا الله ''كا معنى اس طرح ہوگا:''فليتّقوا الله فى امر الذّريّة الضعاف ''يعنى جو لوگ اپنى موت كے بعد اپنے يتيم بچوں كے حقوق كے بارے ميں پريشان ہيں ان كيلئے ضرورى ہے كہ وہ دوسرے لوگوں كے يتيم بچوں كے بارے ميں تقوائے الہى اختيار كريں _

٢_ اپنى اولاد كے انجام كے بارے ميں سرپرستوں كى ذمہ داري_و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيةً ضعافاً

اولاد كے مستقبل كے بارے ميں پريشانى اور ان كى نسبت احساس ذمہ داري، انسان كى ايك قدرتى حالت ہے كہ جس كى تائيد خداوند متعال نے بھى كى ہے اور اپنے حكم كى بنا، تقوائے الہى (فليتقّوا الله ) كى رعا يت كو قرار ديا ہے_

٣_ انسانى احساسات ،معاشرے كے يتيموں كے حقوق كا خيال ركھنے كے بارے ميں احساس ذمہ دارى كا پيش خيمہ ہيں _و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذريّةً ضعافاً خافوا عليهم

٤_ دوسروں كے حقوق كا خيال ركھنے كى ترغيب دلانے كيلئے احساسات كى تحريك، ايك قرآنى طريقہ

۳۷۹

ہے_و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيّة ضعافاً خافوا عليهم

٥_ يتيموں كے حقوق كا خيال نہ ركھنے كے بارے ميں خداوند متعال كا خبردار كرنا_و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيّة ضعافاً فليتقوا الله

٦_ كردار و عمل ميں عمل اور ردّ عمل كا قانون حكم فرما ہے_و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيّهً ضعافاً خافوا عليهم

چونكہ آيت كا مطلب يہ ہے كہ اگر تم دوسروں كے يتيموں كے حقوق كا خيال نہيں ركھوگے تو تمہارے يتيموں كے حقوق كا خيال بھى نہيں ركھا جائے گا_

٧_ دوسروں كے يتيموں كے حقوق كے بارے ميں تقوي اختيار نہ كرنے سے معاشرے كى طرف سے اپنے يتيموں كے حقوق پائمال ہونے كا راستہ ہموار ہوتا ہے_و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيّة ضعافاً خافوا عليهم فليتّقوا الله اس مطلب كى تائيد امام صادق(ع) كے اس فرمان سے ہوتى ہے : يعنى ليخش ان اخلفہ فى ذريّتہ كما صنع بھؤلاء اليتامي_(١) انسان اس بات سے ڈرے كہ اس كے يتيموں كے ساتھ وہى سلوك كيا جائے جو اس نے دوسرے يتيموں كے ساتھ كيا ہے_

٨_ خداوند متعال كا ان لوگوں كو خبردار كرنا جو يتيموں كو ان كى ميراث سے محروم كرتے ہيں _للرّجال نصيب و للنساء نصيب و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم ذرّيّة ضعافاً فليتّقوا الله گذشتہ آيت كے ساتھ اس آيت كے ارتباط كے مطابق، يتيموں كے بارے ميں خوف اور وحشت كا مورد نظر مصداق، انہيں ارث سے محروم كرنا ہے_

٩_ يتيموں كے حقوق پائمال كرنے والوں كيلئے دنيوى اور اخروى سزا و عقوبت كا منتظر ہونا_

و ليخش الّذين لو تركوا من خلفهم فليتّقوا الله جملہ ''و ليخش ...''دنيوى كيفر و سزا كى طرف اشارہ ہے اور جملہ ''فليتّقوالله ''(خدا سے ڈرو)، اخروى عقوبت و عذاب پر دلالت كر رہا ہے_

١٠_ كيفر الہى كى جانب توجّہ، دوسروں كے حقوق كا خيال ركھنے كى راہ ہموار كرتى ہے_و ليخش فليتّقوا الله

____________________

١)كافى ج٥ ص ١٢٨ ح ١ ، تفسير عياشى ج ١ ص ٢٣٨ ح ٣٨.

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797