تفسير راہنما جلد ۳

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 797

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 797 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 171108 / ڈاؤنلوڈ: 5186
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

١١_ يتيموں كے ساتھ اچھے اور متين انداز ميں بات كرنا اور ان سے نيك سلوك كرنا ضرورى ہے_وليقولوا قولاً سديداً

١٢_ يتيموں كے حقوق كا خيال ركھنے كى ضرورت كے بارے ميں خداوند متعال كى خصوصى عنايت_و ليخش الّذين ذرّية ضعافاً و ليقولوا قولاً سديداً

١٣_ يتيم كے مال ميں زيادتى و ظلم كرنے كى حرمت كا فلسفہ، يتيم كى زندگى اور استقلال كو دوام بخشنا اور انسانى نسل كو اس ظلم و ستم كے برے اثرات سے محفوظ ركھنا ہے_و ليخش الذين امام رضا (ع) فرماتے ہيں :ففى تحريم مال اليتيم استبقاء اليتيم و استقلاله بنفسه و السلامة للعقب ان يصيبه ما اصابهم_ (١) يتيم كے مال كو حرام كرنے كا فلسفہ، يتيم كى زندگى كو دوام بخشنا، اسے استقلال فراہم كرنا اور نسل انسانى كو اس طرح كے برے اثرات سے بچانا ہے_

احساسات : احساسات كا كردار ٣، ٤

احكام: احكام كا فلسفہ ١٣

اخلاقى نظام: ٦

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا لطف١٢; اللہ تعالى كى تنبيہ٥،٨; اللہ تعالى كى طرف سے سزا ١٠

اولاد : اولاد كا انجام ٢

بچہ: بچے كے حقوق ١

بے تقوي ہونا: بے تقوي ہونے كے اثرات ٧

تجاوز: تجاوز كے اثرات ٧

تحريك : تحريك كے اسباب ٣

تربيت: تربيت كا طريقہ ٤

حقوق كا نظام : ١، ٣

____________________

١)عيون اخبار الرضا(ع) ج٢ ص٩٢ ح١ ب ٣٣ نورالثقلين ج١ ص٤٤٧ ح٧٢.

۳۸۱

راہ و روش: راہ و روش كى بنياديں ٦

روايت: ١٣

سزا: اخروى سزا ٩;دنيوى سزا ٩

عمل: عمل كے اثرات ٦;ناپسنديدہ عمل كے اثرات٧

كلام: كلام كرنے كے آداب ١١

لوگ: لوگوں كے حقوق كى رعايت كرنا ١،٤، ١٠

معاشرت: معاشرت كے آداب ١١

نسل: نسل كى بقاء ١٣

والدين: والدين كى ذمہ دارى ٢

ياد دہاني: ياد دہانى كے اثرات ،١٠

يتيم: يتيم سے سلوك ١١;يتيم كے حقوق ١، ٣، ٧، ٨، ١٢;يتيم كے حقوق پر تجاوز ٥، ١٣;يتيم كے حقوق پر تجاوز كى سزا ٩

آیت( ۱۰)

( إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ) جو لوگ ظالمانہ انداز سے يتيموں كا مال كھا جاتے ہيں وہ در حقيقت اپنے پيٹ ميں آگ بھر ر ہے ہيں اور عنقريب واصل جہنم ہوں گے_

١_ يتيموں كے مال ميں ظالمانہ اور ناروا طريقے سے تصرف كرنے كى حرمت_انّ الّذين يأكلون اموال اليتامي ظلماً

٢_ ظالمانہ طور پر يتيم كا مال كھانا، درحقيقت آگ كھانے كے مترادف ہے_

انّ الذين يأكلون اموال اليتامي ظلماً انّما يأكلون فى بطونهم ناراً

۳۸۲

٣_ يتيموں پر ظلم نہ ہونے كى صورت ميں ان كے مال ميں تصرف كرنا جائز ہے_انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً

٤_ يتيموں كے مال كى حفاظت كرنے كى ضرورت كے بارے ميں خداوند متعال كى خصوصى عنايت _

انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً انّما يأكلون فى بطونهم ناراً

٥_ انسان كے نيك و بد اعمال، اپنى ظاہرى صورت كے علاوہ ايك حقيقت اور واقعيت كے حامل ہيں _

انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً انّما يأكلون فى بطونهم ناراً

٦_ ہر انسان، اپنى ظاہرى صورت كے علاوہ بھى ايك حقيقت ركھتا ہے_انّما ياكلون فى بطونهم ناراً

٧_ يتيموں كا مال ضائع كرنے والوں كا انجام، دہكتى ہوئي آگ ہے_انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً و سيصلون سعيراً

٨_ جہنم ميں دہكتى ہوئي اور شعلہ ور آگ ہے_و سيصلون سعيراً

٩_ يتيم كے سرپرست كا اسكے مال ميں ، ذاتى منافع كيلئے اور واپس نہ كرنے كى نيت كے ساتھ تصرف كرنا، ظلم ہے_

انّ الذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً امام كاظم(ع) نے يتيم كے مال ميں تصرف كے متعلق پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرمايا:لا ينبغى له ان يا كل الاّ القصد فان كان من نيّته ان لايردّه عليهم فهو بالمنزل الذى قال الله عزوجل: انّ الذين ياكلون اموال اليتامي ظلماً (١) سرپرست فقط ميانہ روى كے ساتھ يتيم كے مال ميں تصرف كرسكتا ہے اگر اس كى نيت يہ ہو كہ واپس نہ كرے تو وہ اللہ تعالى كے اس فرمان كا مصداق ہے : جو لوگ ظلم كے طور پر يتيموں كے اموال كھاتے ہيں

١٠_ يتيموں كا مال ناروا طريقے سے كھانے والوں كا قيامت كے دن، ا س حالت ميں آنا كہ ان كے منہ سے شعلے نكلتے ہوں گے_انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي /قال رسول الله (ص) : يبعث اناس من قبورهم يوم القيامة تاجج افواههم نارا_ (قيامت كے دن كچھ لوگوں كو اپنى قبور سے اس حالت ميں نكالا جائے گا كہ ان كے منہ سے آگ كے شعلے نكل ر ہے ہوں گے ) آپ(ص) سے پوچھا گيا يہ كون لوگ ہيں ؟ آپ(ص) نے فرمايا:انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً (٢)

____________________

١)كافي، ج٥ ص١٢٨ ح٣ نورالثقلين ج١ ص٤٥٠ ح٩٠

٢)تفسير عياشى ج١ ص٢٢٥ ح٤٧ نورالثقلين ج١ ص٤٤٨ ح٧٦.

۳۸۳

آگ: آگ كھانا ٢

احكام: ١، ٣

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا لطف٤

انسان: انسان كى حقيقت ٦

جہنم: آتش جہنم ٨

روايت: ٩، ١٠

ظالمين: ظالمين كا انجام ٧، ظالمين كى سزا ٧

ظلم: ظلم كے موارد٩

عمل: برے عمل كى حقيقت ٥;نيك عمل كى حقيقت ٥

غاصبين: غاصبينكا حشر ١٠

قرآن كريم: قرآن كريم كى تشبيہات ٢

محرّمات: ١

يتيم: مال يتيم پر تجاوز ٧;مال يتيم سے استفادہ ٣;مال يتيم غصب كرنے كى سزا ١٠;مال يتيم كا غصب ١، ٢، ٩;مال يتيم كى حفاظت ٤;يتيم كے احكام ٣

۳۸۴

آیت( ۱۱)

( يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَا نَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأُمِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَآؤُكُمْ وَأَبناؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيما حَكِيمًا ) الله تمھيں تمھارى اولاد كے بارے ميں وصيت كرتا ہے كہ لڑكے كا حصہ دو لڑكيوں كے برابر ہوگا _ اب اگر لڑكياں دو سے زيادہ ہيں تو انھيں تمام تركہ كا دو تہائي حصہ ملے گا او راگر ايك ہى ہے تو اسے آدھا او رمرنے والے كے ماں باپ ميں سے ہرايك كيلئے چھٹا حصہ ہے اگر اولاد بھى ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوں تو ماں كے لئے ايك تہائي ہے او راگر بھائي بھى ہوں تو ماں كيلئے چھٹا حصہ ہے _ ان وصيتوں كے بعد جو كہ مرنے والے نے كى ہيں ياان قرضوں كے بعد جو اس كے ذمہ ہيں _ يہ تمھارے ہى ماں باپ او راولاد ہيں مگر تمھيں نہيں معلوم كہ تمھارے حق ميں زيادہ منفعت رساں كون ہے _ يہ الله كى طرف سے فريضہ ہے اور الله صاحب علم بھى ہے اور صاحب حكمت بھى ہے_

١_ خداوند متعال كا اولاد كى وراثت اور اس كو تقسيم كرنے كى كيفيت كے بارے ميں وصيت كرنا_

يوصيكم الله فى اولادكم

٢_ بيٹے كا وراثتميں سے حصہ، بيٹى كے حصے كے

۳۸۵

دوبرابر ہے_يوصيكم الله فى اولادكم للذكر مثل حظ الانثيين

٣_ جب ميت كى فقط دو بيٹياں ہوں تو ان كا ميراث ميں سے حصہ، دو تہائي ہوگا_*للذكر مثل حظ الانثيين خداوند متعال نے ايك بيٹى اور دو سے زيادہ بيٹيوں كے حصے كى تصريح كى ہے اور دو بيٹيوں كے حصے كے بارے ميں كچھ نہيں فرمايا_ گويا ان كى ميراث كا حصہ تعيين كرنے كيلئے فقط جملہ (للذكر ...) پر اكتفا كيا ہے_ اس لحاظ سے جب بھى ميت كے وارث، ايك بيٹا اور ايك بيٹى ہو تو بيٹے كا حصہ دوتہائي ہوگا اور ''للذكر ...'' كے مطابق ايك بيٹے كا جتنا حصہ ہوگا، دو بيٹيوں كا حصہ بھى اتنا ہى ہوگا_

٤_وراثت كا مالكيت كے اسباب ميں سے ہونا_يوصيكم الله فى اولادكم للذكر مثل حظ الانثيين

٥_ جب ميت كى (بغيركسى بيٹے كے) دو سے زيادہ بيٹياں ہوں تو ان بيٹيوں كا ميراث ميں سے حصہ دو تہائي ہوگا_

فان كنّ نساء فوق اثنتين فلهن ثلثا ما ترك

٦_ بيٹيوں كو ميراث سے ملنے والا حصہ (دوتہائي) ان كے درميان مساوى تقسيم ہوگا_

فان كنّ نساء فوق اثنتين فلهن ثلثا ما ترك چونكہ آيت ارث كے حصے بيان كررہى ہے اگر ان كے حصوں ميں فرق ہوتا تو اسكى طرف اشارہ كيا جاتا_

٧_ اگر ميت كى فقط ايك بيٹى ہو تو تركے كا نصف حصہ اس كو ملے گا_و ان كانت واحدة فلها النصف

٨_ اگر ميت كا فقط ايك بيٹاہو تو پورا تركہ اسكى ميراث ہے_للذكر مثل حظ الانثيين و ان كانت واحدة فلها النصف

چونكہ ايك بيٹى كا حصہ نصف مال ہے لہذا ''للذكر ...''كے مطابق ايك بيٹے كا حصہ لڑكى كے دوگناہوگا يعنى تمام تركہ اسكى ميراث ہوگي_

٩_ اگر متعدد بيٹے ہوں تو ميراث ميں سے ان كا حصہ ان كے درميان بطور مساوى تقسيم ہوگا_

للذكر مثل حظ الانثيين يہ كہ ہر بيٹے كا حصہ، بيٹى كے حصے سے دوگنا ہے، اس كا لازمہ يہ ہے كہ بيٹے برابر برابر حصہ ليں گے_

١٠_ ارث ميں سے ايك بيٹے كے حصے اور چند بيٹوں كے حصے ميں كوئي فرق نہيں _

۳۸۶

للذكر مثل حظ الانثيين فان كنّ نساء فلهن ثلثا ما ترك و ان كانت واحدة فلها النّصف

ايك بيٹى كے حصے (فلھا النّصف) اور چند بيٹيوں كے حصے (كنّ نسائ) ميں تفاوت كا بيان كرنا اور بيٹوں كے سلسلہ ميں ايسے فرض كا ذكر نہ كرنا ، مندرجہ بالا مطلبكى طرف اشارہ ہے_

١١_ اگر ميت كى اولاد ہو تو اسكے ماں باپ ميں سے ہر ايك كا ارث ميں سے چھٹا حصہ ہے_و لابويه لكل واحد منهما السدس مما ترك ان كان له ولد

١٢_ اگر والدين ہى ميت كے وارث ہوں تو ماں كا حصہ ايك تہائي (ثلث) اور باقى (دوتہائي) ميت كے باپ كا حصہ ہے_فان لم يكن له ولد و ورثه ابواه فلامّه الثلث جملہ ''ورثہ ابواہ''سے ظاہر ہوتا ہے كہ ميت كے وارث فقط والدين ہيں _ بنابرايں چونكہ والدہ كا حصہ ثلث( ايك تہائي) ہے تو بقيہ (دوتہائي) باپ كا حصہ ہوگا_

١٣_ ميت كے چند بھائيوں كى موجودگى ميں ماں كے تيسرے حصے كا چھٹے حصے ميں تبديل ہوجانا_

و ورثه ابواه فلامّه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس مفسرين كے مطابق، ''اخوة''سے مراد دو يا دو سے زيادہ بھائي ہيں _

١٤_ ميت كے بھائيوں كا زندہ ہونا، ماں كے تيسرے حصے سےحاجب(مانع) ہونے كى شرط ہے_

و ورثه ابواه فلامّه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس جملہ ''فان كان ...''بھائيوں كے بالفعل موجود ہونے پر دلالت كرتا ہے يعنى ان كا زندہ ہونا _

١٥_ ميت كے باپ كا زندہ ہونا اور ارث لينے سے اس كا ممنوع نہ ہونا ماں كے تيسرے حصے سے، ميت كے بھائيوں كے حاجب (مانع) ہونے كى شرط ہے_و ورثه ابواه فلامه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس

١٦_ اگر ميت كے بھائي جنين( شكم مادر ميں )ہوں تو ماں كے تيسرے حصےسےحاجب (مانع) نہيں ہوتے_*

و ورثه ابواه فلامّه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس چونكہ ''اخوة'' كا انصراف ان بھائيوں ميں ہے جو پيدا ہوچكے ہوں _

١٧_ اگر ميت كے وارث فقط والدين ہوں اور ميت كے بھائي بھى موجود ہوں تو ماں كو تركے كا چھٹا حصہ ملے گا اور باقى تركہ باپ كا ہوگا_

۳۸۷

فان لم يكن له ولد و ورثه ابواه فلامّه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس

جملہ ''فان كان لہ اخوة''ايك مقدر جملے پر متفرع ہے_ يعنى ماں كا ارث ميں سے حصہ اس وقت ايك تہائي (تيسرا حصہ) ہے جب ميت كے متعدد بھائي نہ ہوں ليكن اگر ميت كے بھائي موجود ہوں توماں كا حصہ چھٹا ہوگااور چونكہ فرض يہ ہے كہ ميت كے وارث فقط والدين ہيں ، باقى حصہ باپ كا ہوگا_

١٨_ ميت كے ماں باپ يا اس كى اولاد موجود ہو تو ميت كے بھائيوں كو ميراث ميں سے كچھ نہيں ملتا_

و ورثه ابواه فلامّه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس چونكہ ميت كے بھائيوں كى موجودگى ميں (فان كان لہ اخوة) فقط اسكے ماں باپ كو اس كا وارث شمار كيا گيا ہے (و ورثہ ابواہ)_

١٩_ ميت كا فقط ايك بھائي، ماں كے تيسرے حصہ سے حاجب (مانع)نہيں بن سكتا_

جملہ ''فان كان لہ اخوة''كے مفہوم سے پتہ چلتا ہے كہ اگر ميت كا كوئي بھائي نہ ہو يافقط ايك بھائي ہو تو اس كا وہى سابقہ سہم يعنى ايك تہائي اسے ملے گا_

٢٠_ ميت كے دو بھائيوں كى موجودگى ماں كے تيسرے حصے سے حاجب(مانع) نہيں بن سكتي_

فان كان له اخوة فلامه السدس يہ اس بنا پر ہے كہ '' اخوة '' جمع ہونے كى وجہ سے دو بھائيوں كو شامل نہ ہو_

٢١_ ميت كى بہنيں ،ماں كے تيسرے حصےسے مانع (حاجب) نہيں بن سكتيں _*فان كان له اخوة فلامّه السدس

٢٢_ ارث تقسيم ہونے سے پہلے،اس مال كو جس كى وصيت ميت نے كى ہے اور اس كے دين كو اصل مال ميں سے جدا كرنا ضرورى ہے _يوصيكم الله فى اولادكم للذكر مثل حظ الانثيين من بعد وصية يوصى بها او دصيْن

''من بعد''جملہ ''يوصيكم الله ''كے متعلق ہے_ يعنى ميت كى وصيت نافذ ہونے اور اس كا قرض ادا ہوجانے تك، خداوند متعال ميراث كى تقسيم كا حكم جارى نہيں فرماتا_

٢٣_ انسان كے اپنے مال كے بارے ميں وصيت كا (اسكى موت كے بعد) نافذ ہونا_من بعد وصية يوصى بها او دين

٢٤_ ميت كا قرض ادا كرنے كيلئے اسكى جانب سے وصيت كرنے كى ضرورت نہيں _من بعد وصية يوصى بها او دين

۳۸۸

٢٥_ ميت كى وصيت پر عمل كرنا اور اس كا قرض ادا كرنا، ورثاء كيلئے اسكى ميراث كا مالك بننے كى شرط ہے_

للّذكر مثل حظ الانثيين من بعد وصية يوصى بها او دصين ''للذّكر''، ''لصھن'' اور ...كا لام، تمليك كيلئے ہے اور ''من بعد وصية'' اس تمليك كے واقع ہونے كا ظرف ہے_

٢٦_ انسان كا اپنے ان اقرباء كو نہ پہچان سكنا جو اسے زيادہ نفع پہنچاتے ہيں اور اسكے زيادہ قريب ہيں _

اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ايّهم اقرب لكم نفعاً انسان كا اپنے باپ اور بيٹے كے منافع ميں موازنہ كرنے سے عاجز ہونا اور ان ميں سے برتر كى تشخيص نہ دے سكنا_ اسكے اپنے رشتہ داروں كے نفع رسانى كى پہچان سے عاجز ہونے كى واضح ترين مثال ہے_

٢٧_ انسان، ارث كے حصے، تعيين كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتا_اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ايهم اقرب لكم نفعاً

٢٨_ دنيا و آخرت كے لحاظ سے وارثوں كے نفع و نقصان كے معيار و ميزان سے انسان كا آگاہ نہ ہونا، ان كيلئے صحيح طور پر ارث كے حصے مقرر كرنے ميں انسان كے ناتوان ہونے كى دليل ہے_اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ايهم اقرب لكم نفعاً

٢٩_ ارث چھوڑنے والوں كيلئے وارثوں كے نفع بخش ہونے كا ميزان، ميراث ميں ان كے حصوں كے مختلف ہونے كا معيار ہے_اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ايّهم اقرب لكم نفعاً

٣٠_ والدين كے مقابلے ميں اولاد كا ميت كيلئے زيادہ نفع بخش ہونا_ *اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ايّهم اقرب لكم نفعاً

اگر زيادہ سے زيادہ ارث كا معيار، وارث كا زيادہ نفع بخشہونا ہو تو والدين كى نسبت اولاد كے حصے كا زيادہ ہونا، ان كے زيادہ فائدہ مند ہونے كى علامت ہے_

٣١_ قرآن كريم ميں مذكور ارث كے حصے، خداوند متعال كى جانب سے مقرر شدہ فرائض ہيں _يوصيكم الله فى اولادكم فريضة من الله

٣٢_ ارث كے فرائض كى رعايت كرنے پر خداوند متعال كى تاكيد_يوصيكم الله فى اولادكم فريضة من الله

٣٣_ خداوند متعال عليم (بہت جاننے والا) اورحكيم (حكمت والا) ہے_ان الله كان عليما حكيماً

٣٤_ ارث كے مقرر شدہ حصوں كا سرچشمہ خداوند متعال كا علم و حكمت ہے _

يوصيكم الله فى اولادكم ان الله كان عليماً حكيماً

۳۸۹

٣٥_ اسلام كے نظام حقوق كا سرچشمہ خداوند متعال كا علم و حكمت ہے_يوصيكم الله فى اولادكم ان الله كان عليماً حكيما

٣٦_ قانون سازى ميں علم و حكمت دوضرورى شرطيں ہيں _يوصيكم الله فى اولادكم ان الله كان عليماً حكيماً

٣٧_ احكام الہى ميں معيار و مصلحت كا ہونا_اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ان الله كان عليماً حكيماً

٣٨_ ارث ميں عورتوں كى نسبت، مردوں كے حصے كے دو گنا ہونے كى وجہ يہ ہے كہ مہر اور عورتوں كے اخراجات مردوں كے ذمہ ہيں _للذكر مثل حظ الانثيين امام رضا (ع) نے مردوں كى نسبت عورتوں كے ارث ميں سے حصے كے كم ہونے كى وجہ بيان كرتے ہوئے فرمايا:لانّ المراة اذا تزوجّت اخذت و الرجل يعطى لانّ الانثى من عيال الذّكر ان احتاجت و عليه نفقتها (١) كيونكہ عورت جب شادى كرتى ہے تو مہر ليتى ہے اور مرد مہر ديتا ہے كيونكہ عورت اگر محتاج ہو تو مرد كے عيال ميں شامل ہے اور اس پر اپنى بيوى كا نفقہ واجب ہے _

٣٩_ عورتوں كے ارث ميں سے سہم كے نصف ہونے كى وجہ يہ ہے كہ عورت; جہاد ، نفقہ اور اپنے رشتہ داروں كے قتل خطا كے خون بہا سے معاف ہے_خون بہا ان كے اقوام ادا كرتے ہيں _للذّكر مثل حظ الانثيين

امام صادق(ع) عورت كے سہم ارث كے نصف ہونے كى وجہ بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں :ان المراة ليس عليها جهاد و لانفقة و لامعقلة وانما ذلك على الرجال ..(٢) اس لئے كہ عورت پر نہ جہاد واجب ہے نہ نفقہ اور نہ خون بہا _ يہ تينوں چيزيں مردوں پر واجب ہيں _

٤٠_ ميت كے مادرى بھائي ماں كے ايك تہائي حصّے كے چھٹے حصے ميں تبديل ہونے كا سبب نہيں ہوتے بلكہ تيسرا حصّہ ملتا ہے_ امام صادق(ع) مذكورہ آيت كے بارے ميں فرماتے ہيں :اولئك الاخوة من الاب فاذا كان الاخوة من الام لم يحجبوا الام عن الثلث _(٣) اس سے مراد پدرى بھائي ہيں اور مادرى بھائي ماں كے تيسرے حصے سے مانع نہيں بنتے_

٤١_ ميت كا بھائي يا بہن ماں كے ايك تہائي حصہ لينے سے مانع نہيں بنتے مگر يہ كہ دو بھائي يا ايك بھائي اور دو بہنيں ہوں _فان كان له اخوة فلامّه السدس

____________________

١)عيون اخبار الرضا (ع) ج٢ ص٩٨ ح١ ب٣٣ تفسير برھان ج١ ص٣٤٨ ح٢.

٢)كافى ج٧ ص٨٥ ح٣ نورالثقلين ج ١ ص٤٥١ ح٩٦. ٣)كافى ج٧ ص٩٣ ح٧،نورالثقلين ج١ ص٤٥٢ ح١٠٣.

۳۹۰

امام صادق(ع) فرماتے ہيں :لايحجب عن الثلث الاخ والاخت حتى يكونا اخوين او اخ و اختين فان الله يقول ''فان كان له اخوة فلامّه السدس'' (١) ميت كا بھائي اور بہن ماں كے تيسرے حصّے سے حاجب نہيں بنتے مگر يہ كہ دو بھائي ہوں يا ايك بھائي اور دو بہنيں ہوں كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے كہ اگر ميت كيلئے بھائي ہوں تو ماں كا چھٹا حصہ ہے_

٤٢_ اگر ميت كى چار سے كم بہنيں ہوں تو ماں كے ايك تہائي حصے كے چھٹے حصے تك كم ہونے كا باعث نہيں بنتيں _

فان كان له اخوة فلامّه السدس امام صادق (ع) فرماتے ہيں :اذا كنّ اربع اخوات حجبن الامّ عن الثلث لانهنّ بمنزلة الاخوين و ان كنّ ثلاثا لم يحجبن (٢) اگر بہنيں چار ہوں تو ماں كے تيسرے حصّے سے حاجب بنتى ہيں ، كيونكہ وہ دو بھائيوں كى جگہ پر ہيں اور اگر تين ہوں تو حاجب نہيں بنتيں _

٤٣_ ميت كى بہنيں ، ماں كے ايك تہائي حصے كے چھٹے حصے تك كم ہونے كا باعث نہيں بنتيں _فان كان له اخوة فلامّه السدس امام صادق(ع) نے ميت كى دو بہنوں كى موجودگى ميں ، ارث ميں سے ماں باپ كے حصّے كے بارے ميں فرمايا:للامّ مع الاخوات الثلث ان الله قال: ''فان كان له اخوة''و لم يقل فان كان له اخوات _(٣) بہنوں كے ہوتے ہوئے ماں كا تيسرا حصّہ ہے اس لئے كہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے : اگر ميت كہ بھائي ہوں اور يہ نہيں فرمايا كہ اگر ميت كى بہنيں ہوں _

٤٤_ ميت كى غيرشرعى وصيت قابل اجرا نہيں _من بعد وصيّة يوصى بها او دصين امام صادق(ع) نے فرمايا:اذا اوصى الرجل بوصية فلايحل للوصى ان يغّير وصيّته الاّص ان يوصى بغيرما امر الله (٤) اگر كوئي شخص وصيت كرے تو وصى كيلئے اس كى وصيت كو تبديل كرنا جائز نہيں مگر يہ كہ اس كى وصيت اللہ تعالى كے حكم كے مطابق نہ ہو

٤٥_ ميت كى وصيت انجام دينے سے پہلے اس كا قرض ادا كرنا ضرورى ہے_من بعد وصية يوصى بها او دين

امام صادق(ع) نے فرمايا:ان الدين قبل الوصية (٥) قرض يقينا وصيت سے پہلے ہے_

____________________

١)تفسير عياشى ج١ ص٢٢٦ ح٥٢ نورالثقلين ج١ ص٤٥٣ ح١٠٦. ٢)كافى ج٧ ص٩٢ ح٢ تفسير برھان ج١ص ٣٤٩ ح٦.

٣)تھذيب، شيخ طوسى ج٩ص٢٨٣ح١٣ب٢٥مسلسل ١٠٢٥. ٤)تفسير قمى ج١ ص٦٥، بحار الانوار ج١٠٠ ص٢٠١ ح١، طبع ايران.

٥)تفسير عياشى ج١ص٢٢٦ ح٥٥، نورالثقلين ج١ ص٤٥٣ ح١١٠.

۳۹۱

احكام: ٢، ٣، ٤، ٥، ٦،٧، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨، ١٩، ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥، ٤٠، ١٤، ٤٢، ٤٣، ٤٤، ٤٥ احكام كا فلسفہ ٢٨، ٢٩، ٣٧، ٣٨، ٣٩ ; احكام كى تشريع ٢٧، ٢٨;احكام كے مصالح ٣٧

ارث: ارث كى تقسيم ١;ارث كے احكام ٤، ٥، ٦،٧، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨، ١٩، ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٥، ٢٧، ٣٢، ٤٠،٤١، ٤٢، ٤٣ ;ارث كے احكام كا فلسفہ ٢٩،٣٨، ٣٩;ارث كے حاجب ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨، ١٩، ٢٠، ٢١، ٤٠، ٤١، ٤٢، ٤٣ ;ارث كے حصے ٣١، ٣٤; ارث كے طبقات١٤، ١٦، ١٧، ١٨، ١٩، ٢٠، ٢١، ٢٩،٤٠ ;

اسماء و صفات: حكيم ٣٣;عليم ٣٣

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا علم ٣٤، ٣٥; اللہ تعالى كى حكمت ٣٤، ٣٥; اللہ تعالى كے اوامر ١، ٣٢

انسان: انسان كى جہالت ٢٦، ٢٨ اولاد : اولاد كى ارث ١;اولاد كى قدروقيمت ٣٠

باپ : باپ كا سہم ارث ١١ ، ١٢، ١٥، ١٧; باپ كى ارث ١٨

بھائي : بھائي كا سہم ارث ١٣، ١٥; بھائي كى ارث ١٨

بيٹا : بيٹے كا ارث ميں حصہ ٢، ٨، ٩، ١٠

بيٹي: بيٹى كا ارث ميں حصہ ٢، ٣، ٥، ٦، ٧

جہالت: جہالت كے اثرات ٢٨ حقوق كا نظام : ٣٥ روايت: ٣٨، ٣٩، ٤٠، ٤١، ٤٢، ٤٣، ٤٤، ٤٥

عورت : عورت كا ارث ميں حصہ ٣٨، ٣٩ ;عورت كے احكام ٣٩

قانون سازي: قانون سازى كى شرائط ٣٦;قانون سازى ميں حكمت ٣٦;قانون سازى ميں علم ٣٦

قرض: قرض كے احكام ٢٢، ٢٤ مالكيت: مالكيت كى شرائط ٢٥;مالكيت كے اسباب ٤

ماں : ماں كا ارث ميں حصہ ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٧، ١٩، ٤١، ٤٢، ٤٣; ماں كى ارث ١٦، ١٨، ٢٠، ٢١، ٤٠

مرد: مرد كا ارث ميں حصہ ٣٨ ميت: ميت كا قرض ٤٥

والدين: والدين كى قدروقيمت ٣٠

وصيت: قرض كى وصيت ٢٤ ; وصيت كے احكام ٢٢، ٢٣، ٢٥، ٤٤، ٤٥

۳۹۲

آیت(۱۲)

( وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإ ِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَو امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُوَاْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاء فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَی بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ وَصِيَّةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ )

اور تمھارے لئے تمھارى بيويوں كے تركہ كا نصف ہے اگر ان كى اولاد نہ ہو _ پس اگر ان كى اولاد بھى ہے تو ان كے تركہ ميں سے تمھارا چو تھائي حصہ ہے ان كى وصيتوں يا قرضوں كے بعد او ران كے لئے تمھارے تركہ ميں سے چو تھائي حصہ ہے اگر تمھارى اولاد نہ ہو اور اگر تمھارى اورلاد بھى ہے تو ان كے لئے تمھارے تركہ ميں سے آٹھواں حصہ ہے ان وصيتوں كے بعد جو تم نے كى ہيں يا قرضوں كے بعد اگر قرض ہے _ اور اگر كوئي مرد يا عورت اپنے كلالہ (مادرى بھائي يا بہن) كا وارث ہورہا ہے _ اور ايك بھائي يا ايك بہن ہے تو ہر يك كے لئے چھٹا حصہ ہے اس وصيت كے بعد جو كى گئي ہے يا قرضہ كے بعد بشرطيكہ وصيت يا قرضہ كى بنياد ورثہ كو ضرر پہنچانے پر نہ ہو _ يہ خدا كى طرف سے وصيت ہے خدا ہرشے كا جاننے و الا اور ہركام كو حكمت كے مطابق انجام دينے والا ہے _

١_ بيوى كے تركے ميں سے شوہر كا سہم ارث، نصف مال ہے بشرطيكہ بيوى كى كوئي اولاد نہ ہو_

و لكم نصف ما ترك ازواجكم ان لم يكن لهنّ ولد

۳۹۳

٢_ بيوى كے تركے ميں سے شوہر كا سہم ارث ،چوتھائي ہے_ يہ اس صورت ميں ہے كہ جب بيوى كى اولاد ہو_

فان كان لهنّ ولد فلكم الرّبع مما تركن

٣_ اگر شوہر كى كوئي اولاد نہ ہو تو اسكے تركے ميں سے بيوى كا حصہ ايك چوتھائي ہے_و لهنّ الرّبع مما تركتم ا ن لم يكن لكم ولدٌ

٤_ اگر شوہر كى اولاد ہو تو اسكے تركے ميں سے بيوى كا حصہآٹھواں ہے_فان كان لكم ولد فلهنّ الثمن ممّا تركتم

٥_ اگر ميت كے ماں باپ اور اولاد نہ ہو اور فقط ايك بہن يا ايك بھائي يا پھرايك بہن اور ايك بھائي ہو تو ہر ايك كے لئے ارث ميں سے چھٹا حصہ ہے_و ان كان رجل يورث كلالة او امرا ة و له اخ او اخت فلكل واحد منهما السدس ''رجل'، ''كان''كا اسم ہے اور ''يورث''اسكى صفت ہے اور ''كلالة''كان كى خبر ہے_ ''كلالة''سے مراد وہ شخص ہے جس كا باپ اور اولاد نہ ہو_ اور گذشتہ آيت ميں موجود كلمہ ''ورثہ ابواہ''سے ظاہر ہوتا ہے كہ ماں كے ہوتے ہوئے بھى بہن و بھائي ارث نہيں ليتے_بنابرايں بہن و بھائي اس وقت ارث ليں گے كہ جب طبقہ اول ميں سے كوئي بھى وارث نہ ہوں _ جملہ ''فلكل واحد: ...''اور جملہ ''فان كانوا اكثر ...''سے ظاہر ہوتا ہے كہ اگر ميت كى ايك بہن اور ايك بھائي بھى ہو تو ہر ايك كا سہم ارث چھٹا ہوگا_

٦_ اگر ميت (خواہ عورت ہو يا مرد) كے ماں باپ اور اولاد نہ ہو اور اسكے ايك سے زيادہ بہن اور بھائي ہوں تو ان سب كا ارث ميں حصہ، ايك تہائي ہوگا_فان كانوا اكثر من ذلك فهم شركاء فى الثلث جمع كى ضمائر (كانوا فهم ) كى وجہ سے ''اكثر''سے مراد يہ ہے كہ مجموعى طور پر وہ تين يا اس سے زيادہ ہوں _ خواہ سب بہنيں ہوں يا سب بھائي يا پھر مختلف ہوں _

٧_ ميت كے بھائيوں اور بہنوں كا سہم ارث، ان كے درميان بطور مساوى تقسيم ہوگا_

فان كانوا اكثر من ذلك فهم شركاء فى الثلث عورت مرد ميں فرق كئے بغيرايك بہن اوربھائي كا مساوى حصہ كہ جس كا ذكر گذشتہ آيت (اخ او اخت فلكل واحد منھما السدس) ميں ہوا ہے ہوسكتا ہے اس بات كى تائيد ہو كہ كلمہ ''شركائ''ميت كے بہنوں اور بھائيوں كے سہم كے مساوى ہونے كا بيان ہے_

٨_ ارث تقسيم ہونے سے پہلے ميت جو مال چھوڑ جائے، اس ميں سے جس كى وصيت كى گئي ہے اور

۳۹۴

جو قرض اس كو دينا ہے وہ اصل مال سے جدا كرنا ہوگا_من بعد وصيّة يوصين بها ا و دصين من بعد وصيّة توصون بها او دصين من بعد وصيّة يوصي بها ا و دين

٩_ ارث كا، مالكيت كے اسباب ميں سے ہونا_و لكم نصف ما ترك فلكم الرّبع و لهن الرّبع فلهنّ الثّمن فهم شركاء فى الثلث

١٠_ ميت كى وصيت پر عمل كرنے اور اس كا قرض ادا كرنے كے سلسلے ميں اہتمام كرنا ضرورى ہے_

من بعد وصيّة يوصين بها ا و دين من بعد وصيّة توصون بها او دين من بعد وصيّة يوصي بها او دين مسئلہ وصيت اور دصين كا تكرار، اس كى خاص اہميت پر دلالت كرتا ہے_

١١_ وصيت اس طرح نہ ہو كہ جو وارث كيلئے نقصان دہ ثابت ہو_من بعد وصيّة غيرمضار ہوسكتا ہے كلمہ''غيرمضار'' وصيت و دصين دونوں كيلئے حال ہو_ اور اصطلاحاً كہا جاتا ہے كہ ذوالحال،احد الامرين ہے جو انتزاعى عنوان ہے_ يعنى ميت كى وصيت يا اس كا قرض، نقصان دہ و ضرر رساں نہ ہو_ اور ہوسكتا ہے مورث كا حال ہو_ يعنى وہ اپنى وصيت اور دصين كے ذريعے وارث كيلئے ضرر و نقصان نہ پہنچائے_

١٢_ جو وصيت وارث كے ضرر و نقصان ميں ہو اس پر عمل كرنا ضرورى نہيں _من بعد وصيّة يوصى بها ا و دين غيرمضارّ كلمہ ''غيرمضار'' ايك طرف وصيت كرنے والے كا فريضہ معين كر رہا ہے كہ مبادا اسكى وصيت، وارث كے ضرر و نقصان ميں ہو اور دوسرى طرف جو وصيتيں ضرر و نقصان كا باعث بنيں انہيں غيرمعتبر قرار دے رہا ہے_

١٣_ قرض ايسا نہ ہو جو وارث كيلئے نقصان دہ ثابت ہو_ا و دين غيرمضارّ

١٤_ ميت كے قرضے اگر وارث كے نقصان و ضرر ميں ہوں تو ان كا ادا كرنا ضرورى نہيں _من بعد وصيّة يوصي بها او دين غيرمضارّ ''ديون''سے مراد ايك عام معنى ہے جو نسيہ (ادھار) پر مشتمل معاملات كو بھى شامل ہے_ بنابرايں اگر ميت نے كوئي ايسا معاملہ انجام ديا تھا جو نسيہ (ادھار) پر مشتمل تھا اور يہ معاملہ ضرر رساں اور نقصان دہ تھا تو ورثاء ديون كو ادا نہ كرنے كا حق ركھتے ہيں يعنى معاملہ كو فسخ كرسكتے ہيں _

۳۹۵

١٥_ دوسروں كو ضرر پہچانے سے پرہيزكرنا ضرورى ہے_من بعد وصيّة يوصي بها او دين غيرمضار ''دصيْن اور وصيت'' كو جتنى اہميت دى گئي ہے اسكے باوجود اگر وہ دوسروں كيلئے ضرر رساں و نقصان دہ ثابت ہو تو غيرمعتبر ہے اور اس سے بچنا ضرورى ہے_ لہذا دصين اور وصيت كے علاوہ دوسرے معاملات ميں تو بطريق اولي دوسروں كے نقصان و ضرر سے پرہيز كرنا ہوگا_

١٦_ خداوند متعال كا ارث كے احكام و حدود، ميت كى وصيت پر عمل كرنے اور اسكے ادا كرنے كے بارے ميں لوگوں كو سخت تاكيدكرنا_و لكم نصف ما ترك وصيّة من الله ''وصية''مفعول مطلق ہے اور ہوسكتا ہے ان تمام قوانين و احكام كے بارے ميں تاكيد ہو جو گذشتہ آيات ميں بيان ہوئے ہيں _

١٧_ خداوند متعال كا، قرض اور وصيت كے ذريعے وارثوں كو ضرر و نقصان نہ پہنچانے كے بارے ميں سخت تاكيد كرنا_من بعدوصيّة يوصى بها او دين غيرمضارّ وصيّة من الله يہ مطلب اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''وصية''آيت كے آخرى حصے كى تاكيد ہو جو دين اور وصيت كے ذريعے وارث كو ضرر نہ پہنچانے كے بارے ميں ہے_

١٨_ خداوند متعال عليم (بہت زيادہ جاننے والا) اور حليم (بہت بردبار) ہے_والله عليم حليم

١٩_ خداوند متعال كا مؤمنين كو ميت كے دصين، وصيت اورارث كے قوانين كے بارے ميں خبردار كرنا_

و لكم نصف ما ترك من بعد وصيّة والله عليم حليم

٢٠_ ميت كى اولاد نہ ہونے كى صورت ميں ، اسكے پوتے پوتياں اولاد كے بجائے ارث ليتے ہيں _ اور شوہر و بيوى اور ماں و باپ كے سہام ميں كمى كا باعث بنتے ہيں _فان كان لكم ولدٌ امام باقر(ع) و امام صادق(ع) فرماتے ہيں :فان لم يكن له ولد و كان ولد الولد ذكوراً كانوا او اناثاً فانّهم بمنزلة الولد و يحجبون الابوين والزوج والزوجة عن سهامهم الاكثر اگر ميت كى اولاد نہ ہو اور اولاد كى اولاد ہو، لڑكے ہوں يالڑكياں وہ اولاد كى جگہ پر ہيں اور ماں باپ اورزوج و زوجہ كے بڑے حصے سے مانع بن جائيں گے(١)

____________________

١)تھذيب، شيخ طوسى ج٩ ص٢٨٩ ح٣ ب٢٧ مسلسل ١٠٤٣ تفسير برھان ج١ ص٣٥١، ح ٨.

۳۹۶

٢١_ ميراث ميں كلالہ كا سہيم ہونا اس صورت ميں ہے كہ جب ميت كے ماں ، باپ اور اولاد نہ ہو_

و ان كان رجل يورث كلالة امام صادق(ع) فرماتے ہيں :الكلالة ما لم يكن ولد و لاوالد _(١) كلالہ اس وقت وارث بنتا ہے جب ميت كا باپ اور اولاد نہ ہو_

٢٢_ فقط ميت كے وہ بہن بھائي جو ماں كى طرف سے ہيں ميراث كے چھٹے حصے كے وارث ہيں يا ايك تہائي ميں شريك ہيں _و ان كان رجل يورث كلالة او امرا ة و له اخ ا و اخت فلكل واحد منهما السدس فهم شركاء فى الثلث

امام صادق(ع) نے مذكورہ آيت ميں موجود كلالہ كے بارے ميں فرمايا:انّما عنى بذلك الاخوة و الاخوات من الامّ خاصة _(٢) اس سے اللہ تعالى كى مراد ميت كے صرف مادرى بہن بھائي ہيں _

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٦، ٢٠، ثرات ٩;ارث كے ا٢١، ٢٢

ارث: ارث كى اہميت ١٩;ارث كى تقسيم ٨; ارث كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ١٦، ٢٠، ٢١، ٢٢; ارث كے طبقات ٥، ٦، ٢٠، ٢١، ٢٢

اسماء و صفات: حليم ١٨;عليم ١٨

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا خبردار كرنا ١٩; اللہ تعالى كے اوامر ١٦، ١٧

باپ: باپ كا ارث ميں سہم ٢٠

بھائي: بھائي كا سہم ارث ٥، ٦، ٧

بہن : بہن كا ارث ميں حصہ ٥،٦،٧

خالہ: الہ كا ارث ميں سہم،١٤

روايت: ٢٠، ٢١، ٢٢

شرعى فر يضہ: شرعى فريضہ اٹھ جانے كے اسباب ١٤

ضرر: ضرر اور شرعى فريضے كا اٹھ جانا ١٤

____________________

١)كافى ج٧ ص٩٩ح ٣،نورالثقلين ج١ ص٤٥٥ ح١١٩_١١٨. ٢)كافي، ج٧ ص١٠١ ح٣ نورالثقلين ج١ ص٤٥٥ ح١٢٠.

۳۹۷

كلالہ: كلالہ كى ارث ٢١

مالكيت: مالكيت كے اسباب ٩

ماموں : ماموں كا ارث ميں حصہ، ٢٢

ماں : ماں كا ارث ميں حصہ ٢٠

مؤمنين: مؤمنين كو خبردار كرنا، ١٩

مياں بيوى : مياں بيوى كا ارث ميں حصہ ١، ٢، ٣، ٤، ٢٠

ميت: ميت كا قرض ٨، ١٠، ١٣، ١٤، ١٦، ١٧، ١٩

نقصان پہنچانا: نقصان پہنچانے پر سرزنش ١٥

وصيت: وصيت پر عمل ١٠، ١٢، ١٦; وصيت كى اہميت ١٩;وصيت كى شرائط ١٧;وصيت كے احكام ١١، ١٢

آیت(۱۳)

( تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ )

يہ سب الہى حدود ہيں اور جو الله و رسول كى اطاعت كرے گا خدا اسے ان جنتوں ميں داخل كرے گا جن كے نيچے نہريں جارى ہوں گى اور وہ ان ميں ہميشہ رہيں گے او ردر حقيقت يہى سب سے بڑى كاميابى ہے _

١_ ميت كى وصيت پر عمل كرنا، اس كا قرض اداكرنا اور ارث كے احكام و قوانين پر عمل كرنا حدود الہى ہيں _

تلك حدود الله ''تلك''ان تمام احكام كى طرف اشارہ ہے جو ارث كى آيات ميں بيان ہوئے ہيں _

۳۹۸

٢_ خدا اور اسكے رسول(ص) كى اطاعت، جنت ميں داخل ہونے اور اس ميں ہميشہ ہميشہ رہنے كا سبب ہے_

و من يطع الله و رسوله يدخله جنّات خالدين فيها

٣_ پيغمبراكرم(ص) كى اطاعت، خداوند متعال كى اطاعت ہے_تلك حدود الله و من يطع الله و رسوله

''رسول''كا اس ضمير كى طرف اضافہ ہونا جو ''الله ''كى طرف پلٹتى ہے يہ ظاہر كرتا ہے كہ رسول اكرم (ص) كى اطاعت اسلئے لازم قرار دى گئي ہے كہ آپ(ص) خدا كے رسول(ص) اور پيا م رساں ہيں لہذا درحقيقت اطاعت رسول(ص) ،خداوند متعال كى اطاعت ہے_

٤_ ارث كے احكام پر عمل، خداوند متعال اور رسول اكرم (ص) كى اطاعت ہے اور بہشت ميں داخل ہونے كا سبب ہے_يوصيكم الله فى اولادكم و من يطع الله و رسوله يدخله جنّات ''من يطع ...''كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك، ارث كے احكام و قوانين كا لحاظ ركھنا ہے_

٥_ بہشت ميں بہتى نہروں كا موجود ہونا_جنّات تجرى من تحتها الانهار

٦_ بہشت كا متعدد اور جاودانى ہونا_يدخله جنّات تجرى من تحتها الانهار خلدين فيها اہل بہشت كے بہشت ميں دائمى قيام كا لازمہ خود بہشت كى جاودانى ہے_

٧_ مؤمنين كو ارث كے احكام و قوانين پر عمل كرنے اور انہيں نافذ كرنے كى ترغيب و تشويق _تلك حدود الله و من يطع الله و رسوله يدخله جنّات

٨_ بہشت جاوداں ميں داخل ہونا، عظيم سعادت ہے_يدخله جنّات و ذلك الفوز العظيم

٩_ حدود الہى (ارث كے قوانين و احكام وغيرہ) كى رعايت اور خدا و رسول(ص) كى اطاعت، عظيم سعادت و كاميابى ہے_تلك حدود الله و من يطع الله و رسوله و ذلك الفوز العظيم

ہوسكتا ہے ''ذلك''خدا و رسول(ص) كى اطاعت كى طرف اشارہ ہو كہ اسكے موارد ميں سے ايك، ارث كے قوانين و احكام اور حدود الہى كى رعايت كرنا ہے_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى اطاعت ٢، ٣، ٤، ٩

۳۹۹

احكام: ١، ٤، ٧، ٩

ارث: ارث كے احكام ١، ٤، ٧، ٩

اطاعت: اطاعت كے اثرات ٢

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى اطاعت ٢،٣، ٤، ٩;اللہ تعالى كى حدود١، ٩

بہشت: بہشت كا متعدد ہونا ٦;بہشت كى ابديت ٦، ٨; بہشت كى نعمات٥; بہشت كى نہريں ٥; بہشت كے موجبات٢،٤ ; بہشت ميں جاودانى ٢

رُشد: رُشد كے اسباب ٩

سعادت و كاميابي: سعادت و كاميابى كے اسباب ٩; سعادت و كاميابى كے موانع ٨

شرعى فريضہ : شرعى فريضہ پر عمل ٧

ميّت: ميت كا قرض ١

وصيّت: وصيت پر عمل ١

آیت(۱۴)

( وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ )

اور جو خدا و رسول كى نافرمانى كرے گا اور اس كے حدود سے تجاوز كر جائے گا خدا اسے جہنم ميں داخل كردے گا او روہ وہيں ہميشہ ر ہے گا او راس كے لئے رسوا كن عذاب ہے _

١_ خدا و رسول(ص) كى نافرمانى اور حدود الہى سے تجاوز، جہنم كى آگ ميں داخل ہونے اور اس ميں ہميشہ رہنے

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

جو كچھ اس آيت كے شان نزول ميں آيا ہے اسكے مطابق مكہ ميں مسلح جنگ سے يہ نہى ہجرت رسول خدا سے پہلے كى گئي تھي_

٢_ صدر اسلام كے بعض مسلمانوں كا جہاد اور مسلح جنگ كا حكم صادر ہونے سے پہلے كفار كے ساتھ لڑنے كامطالبہ كرنا_الم تر الى الذين قيل لهم كفّوا ايديكم فلما كتب عليهم القتال

جملہ '' فلما كتب ''سے معلوم ہوتا ہے كہ ''كفّوا''سے مراد، مسلح جنگ سے روكنا ہے_

٣_ صدر اسلام كے بعض مسلمان، كفار كے ساتھ جنگ كا راستہ ہموار ہونے سے پہلے ہى ان كے ساتھ لڑنے كے خواہشمند تھے_الم تر الى الذين قيل لهم كفّوا ايديكم جيساكہ پہلے بھى كہا گيا ہے كہ''فلما كتب ...''كا معنى حكم جہاد كا صادر ہونا ہے_ اور ہوسكتاكہ اس سے مراد، جہاد كى زمينہموار ہونا اور جہاد كى شرائط فراہم ہونا ہو_ يعنى جب پيغمبراكرم (ص) نے مسلمانوں كو جہاد كى دعوت دي

٤_ نماز قائم كرنا اور زكات ادا كرنا ضرورى ہے_الم تر الى الذين قيل لهم كفّوا ايديكم و اقيموا الصلوة واتوا الزكوة

٥_ اسلام ميں عبادى و اقتصادى مسائل كا باہمى رابطہ_اقيموا الصلوة واتوا الزكوة

٦_ ديگر انفرادى و اجتماعى عبادات كى نسبت نماز قائم كرنے اور زكات ادا كرنے كى زيادہ اہميت ہے_

قيل لهم كفّوا ايديكم و اقيموا الصلوة واتوا الزكوة چونكہ واجبات ميں سے فقط نماز اور زكوة كى طرف اشارہ كيا گيا ہے جبكہ اس وقت يقيناً ديگر امور بھى واجب تھے_

٧_ جہاد كى تشريع پر نماز و زكات كى تشريع كا مقدم ہونا_الم ترى الى الّذين اقيموا الصلوة واتوا الزكوة فلّما كتب عليهم القتال يہ اس بنا پر ہے كہ ''فلما كتب''سے مراد جہاد كااصل وجوب ہو نہ كہ اس كيلئے زمينہموار ہونا_

٨_ جہاد و فداكارى كيلئے آمادگى اور خودسازى ميں زكات كى ادائيگى اور نماز كے قائم كرنے كا كردار_

الم تر الى الّذين قيل لهم كفّوا ايديكم و اقيموا الصلوة و اتوالزكوة فلمّا كتب عليهم القتال

مسلح جنگ سے روكنے كے بعد نماز قائم كرنے اور زكات ادا كرنے كے بارے ميں حكم خدا وند متعال كا نازل ہونا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ جب تك معاشرے ميں اقامہ نماز اور ادائے زكوة پورى طرح رائج نہ ہوجائے جہاد و مبارزت كى

۶۲۱

شرائط فراہم نہيں ہوتيں _

٩_ جہاد اور مبارزت كى ضرورى شرائط ميں سے ايك دينى معاشرے ميں خدا كى عبادت و بندگى كى روح كو اجاگر كرنا ہے_قيل لهم كفّوا ايديكم و اقيموا الصلوة واتوا الزكوة

١٠_ جہاد و مبارزت كيلئے ہر دينى معاشرے ميں مال و دولت كے ايثار اور ناداروں كى اقتصادى حالت درست كرنے كا جذبہ پيدا كرنا ضرورى شرائط ميں سے ہے_كفوا ايديكم و اقيموا الصلوة و اتوا الزكوة

١١_ كفار كے ساتھ لڑنے سے پہلے خودسازى كرنے كى ضرورت_و اقيموا لصلوة و اتوا الزكوة فلما كتب عليهم القتال

١٢_ زكات كى نسبت، نماز كو زيادہ اہميت حاصل ہے_*و اقيموا الصلوة و اتوا الزكوة آيت ميں زكات پر نماز كو مقدم كرنا ہوسكتا ہے نماز كى زيادہ اہميت كى طرف اشارہ ہو_

١٣_ صدر اسلام ميں جہاد و مبارزت كا ادعا كرنے والے بعض افراد كا جہاد كے فرمان سے خوف زدہ ہوجانا_

فلما كتب عليهم القتال اذا فريق منهم يخشون النّاس كخشية الله او اشد خشية

١٤_ صدر اسلام كے بعض مسلمان ،دشمن كے ساتھ جنگ و جہاد سے اس طرح خوف زدہ تھے جس طرح خوف خدا ركھنے والے خدا سے ڈرتے ہيں _اذا فريق منهم يخشون النّاس كخشية الله مذكورہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ ''كخشية الله ''، ''يخشون''كے فاعل كيلئے حال ہو تو اس صورت ميں ايك مضاف مقدر ہے اور تقدير ميں جملہ يوں ہوگا_ يخشون النّاس مثل اہل خشية الله

١٥_ صدر اسلام كے بعض مسلمان، خوف خدا ركھنے والوں كے خوف سے بھى زيادہ دشمن كا مقابلہ كرنے سے خوف زدہ تھے_اذا فريق منهم يخشون النّاس او اشدّ خشيةً ''او اشدّ خشية''ميں ''او'' تقسيم كيلئے ہے اور اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ جنگ سے خوف زدہ مسلمانوں كے دو گروہ تھے_

١٦_ صدر اسلام كے بعض مسلمان جس طرح خداوند متعال سے ڈرتے تھے، اسى طرح دشمن كا مقابلہ كرنے سے ڈرتے تھے_

۶۲۲

اذا فريق منهم يخشون النّاس كخشية الله مذكورہ بالامطلب ميں''كخشية الله ''كو مفعول مطلق محذوف كى صفت كے طور پر ليا گيا ہے اور ''خشية''كا فاعل ايك ضمير ہے جو ''فريق''كى طرف پلٹ رہى ہے يعنى ''يخشون النّاس مثل خشيتھم من الله ''_

١٧_ صدر اسلام كے بعض مسلمان، خوف الہى سے زيادہ جنگ كے خوف ميں مبتلا تھے_ يخشون النّاس كخشية الله او اشدّ خشية

١٨_ صدر اسلام كے بہت سے مسلمان حكم جہاد كے سامنے سر تسليم خم كرنے اور دشمن كے ساتھ جنگ كيلئے آمادہ ہوگئے تھے_اذا فريق منهم يخشون النّاس

١٩_ خوف خدا اور دشمن سے نہ ڈرنا، صدر اسلام كے بہت سے مسلمانوں كى خصوصيت تھي_اذا فريق منهم يخشون النّاس كخشية الله

٢٠_ لوگوں كو جہاد سے روكنے والے عوامل ميں سے ايك غيرخدا سے ڈرنا ہے_يخشون النّاس كخشية الله

٢١_ دشمنوں كا مقابلہ كرنے سے ڈرنے والے مسلمانوں كى سرزنش_فلما كتب عليهم القتال اذا فريق منهم يخشون النّاس

٢٢_ خداوند متعال كى ذات اس قدر بلند و بالا مقام كى حامل ہے كہ جس كے سامنے ہى خوف و خشيت سزاوار ہے_

اذا فريق منهم يخشون الناس كخشية الله او اشدّ خشية تعظيم سے آميختہ خوف كو ''خشية''كہتے ہيں _ يعنى كسى شخص يا چيزكى عظمت اس سے خوف زدہ ہونے كا باعث بن جائے تو كہا جاتا ہے كہ يہ اس سے'' خشيت '' ركھتا ہے اور غيرخدا سے ڈرنے پر خداوند متعال كا مذمت كرنا دلالت كرتا ہے كہ فقط اسى سے ''خشيت ''ركھنى چاہيئے_

٢٣_ بعض مسلمانوں كا فرمان جہاد پر اعتراض كرنا اور اس ميں تاخير كى درخواست كرنا_و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال لولااخّرتنا الى اجل قريب

٢٤_ صدر اسلام كے بعض مسلمانوں كى طرف سے حكم جہاد پر اعتراض كرنے كا سبب ان كا خوف زدہ ہونا تھا_

يخشون النّاس و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال

۶۲۳

٢٥_ جنگ سے ہراساں مسلمانوں كا ،حكم جہاد كو لغو كرنے كا مطالبہ كرنا_و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال لولااخّرتنا الى اجل قريب بعض كى رائے ہے كہ ''اجل قريب''سے مراد موت كا وقت ہے اور موت كے وقت تك حكم جہاد كى تاخير كا معنى اسے لغو كرنا ہے_

٢٦_ حكم جہاد كے نزول كے ساتھ لوگوں كے ايمان كى حقيقت اور ان كے باطن كا ظاہر ہونا_

فلمّا كتب عليهم القتال اذا فريق منهم يخشون النّاس و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال

٢٧_ آخرت اور اسكى نعمتوں كے مقابلے ميں دنيوى فوائد اور منافع كا ناچيز اور كم اہميت ہونا_قل متاع الدّنيا قليل و الآخرة خير لمن اتّقي

٨ ٢_ انسان كى نظر ميں دنيوى منافع كى قدر قيمت ہونے كى وجہ سے جہاد اور فرامين الہى سے روگردانى و تخلف كا راستہ ہموار ہوتا ہے_و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال قل متاع الدنيا قليل چونكہ جملہ ''قل متاع الدنيا''ان كے اعتراض كا جواب ہے_ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ حكم جہاد سے تخلف كا اصل سبب، دنيا سے ان كى وابستگى ہے_

٢٩_ پرہيزگاروں كيلئے آخرت كا دنيا سے بہتر ہونا_و الآخرة خير لمن اتقي

٣٠_ اخروى سعادت، پرہيزگارى سے مشروط ہے_والآخرة خير لمن اتقي

٣١_ احكام الہى كے سامنے سر تسليم خم نہ كرنا اور دشمن كا مقابلہ كرنے سے ڈرنا، بے تقوي ہونے كى علامت ہے_

و قالوا ربّنا لم كتبت علينا القتال لو لااخّرتنا الى اجل قريب والآخرة خير لمن اتقي ہوسكتا ہے ''اتقي''كا مفعول وہ امور ہوں جو آيت ميں جہاد سے تخلف كرنے والوں كى طرف منسوب كئے گئے ہيں مثلاً حكم خدا پر اعتراض كرنا اور جہاد و جنگ سے ڈرنا_

٣٢_ فرائض كے انجام دينے كى ترغيب دلانے كيلئے قرآن كا انسان كى مفاد پرستى كى سرشت سے استفادہ كرنا_

قل متاع الدّنيا قليل و الآخرة خير لمن اتقي

٣٣_ خداوند م متعال اپنے بندوں پر ذرّہ بھر ظلم نہيں كرتا_و لاتظلمون فتيلاً ''فتيل''ايك انتہائي باريك دھاگے كو كہا جاتا

۶۲۴

ہے_ اور بہت ہى چھوٹى چيزوں كو اس سے تشبيہ دى جاتى ہے_

٣٤_ خداوندمتعال، مجاہدين كا اجر بغيركسى كمى و كاستى كے مكمل طور پر ادا كرتا ہے_

فلمّا كتب عليهم القتال و لاتظلمون فتيلا جملہ''لاتظلمون فتيلاً'' كا معنى يہ ہے كہ اجر و ثواب عطا كرنے ميں ان پر ظلم نہيں ہوتا، يعنى وہ اپنا اجر مكمل طور پر حاصل كرتے ہيں _

٣٥_ الہى جزا و سزا كے نظام كا ہر قسم كے ظلم و ستم سے پاك ہونا_فلمّا كتب عليهم القتال و لاتظلمون فتيلا

٣٦_ خداوند متعال كا زمانہ رسول خدا (ص) كے سست عناصر كو جنگ و جہاد كے بارے ميں خالى اور كھوكھلے دعووں سے باز رہنے كى دعوت دينا_الم تر الى الّذين قيل لهم كفّوا ايديكم امام صادق(ع) نے اس آيت كى تفسير ميں فرمايا:يعنى كفّوا السنتكم (١) اپنى زبانوں كو روكو_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى سيرت ١; آنحضرت (ص) مكہ ميں ١

اسلام: اسلام كى خصوصيت ٥; صدر اسلام كى تاريخ ١،١٣، ١٥، ١٦، ١٧ ٨ ١، ١٩، ٣٦

اقتصادى نظام: ٥

اقدار: ١٢

اللہ تعالى: اللہ تعالى اور ظلم ٣٣، ٣٥; اللہ تعالى كا اجر ٣٥; اللہ تعالى كا خوف ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٩ ; اللہ تعالى كى حدود سے عصيان ٣١; اللہ تعالى كى عطا ٣٤;اللہ تعالى كى عظمت ٢٢

انسان: انسان كى مفاد پرستى ٣٢

ايثار: ايثار كے اثرات ١٠

ايمان: ايمان اور جہاد ٢٦; ايمان كے اثرات ٢٦

بے تقوي ہونا: بے تقوي ہونے كى علامتيں ٣١

تربيت: تربيت كا طريقہ ٣٢

تقوي:

____________________

١_كافى ج٢ ص١١٤، ح٨ نورالثقلين ج١ ص٥١٧ ح٤٠٧، تفسير عياشى ج١ ص٢٥٨ ح١٩٧.

۶۲۵

تقوي كے اثرات ٣٠

جنگ: جنگ كا خوف ١٤، ١٧، ٢٥;جنگ ميں خودسازى ١١

جہاد: جہاد سے تخلف كے ا سباب ٢٠;جہاد كا پيش خيمہ ٨; جہاد كا خوف ١٣;جہاد كا مطالبہ ٢;جہاد كى تشريع ٧;جہاد كى شرائط ٩، ١٠ خشوع: خشوع كى اہميت ٢٢

خودسازي: خودسازى كى اہميت ١١;خودسازى كے اسباب٨

خوف: پسنديدہ خوف ٢٢; خوف كے اثرات ٢٤;خوف كے اسباب ١٣; ناپسنديدہ خوف ١٤، ٢٠، ٢١

دشمن: شمن سے ڈرنا ١٥، ١٦، ٢١، ٣١

دينى تعليمات كا نظام: ٥ روايت: ٣٦ زكات: زكات كى ادائيگى ٤،ا ;زكات كى ادائيگى كى اہميت ٦; زكات كى تشريع٧; زكات كى فضيلت ١٢;زكات كے اثرات ٨

سعادت: اخروى سعادت كے اسباب ٣٠

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ كى طرف تشويق ٣٢

ضرورت مند افراد: ضرورت مند افراد كى ضرورت پورى كرنا ١٠

عبادت: عبادت اور اقتصاد ٥; عبادت كے اثرات ٩

عبوديت: عبوديت كے اثرات ٩

عسكرى آمادگي: ١٨

عصيان: عصيان كا پيش خيمہ ٢٨

قرآن كريم: قرآن كريم كى تشبيہات ١٤، ١٥، ١٦

كفار: كفار كے ساتھ جنگ، ٢، ٣، ١١

مبارزت: مبارزت كى شرائط ٩، ١٠

متقين: متقين كى اخروى زندگى ٢٩ متقين كى دنيوى زندگى ٢٩

۶۲۶

مجاہدين: مجاہدين كا صلہ ٣٤

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمان ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨، ١٩; صدر اسلام كے مسلمانوں كا رويہ ٢٣،٢٤ ; صدر اسلام كے مسلمانوں كا مطالبہ ٢، ٣; مسلمان اور جہاد ٢٣، ٢٤، ٢٥;مسلمان اور كفار١;مسلمانوں كا رويہ ٢٣;مسلمانوں كامطالبہ٢٥; مسلمانوں كى سرزنش ٢١

مؤمنين: مؤمنين كى حقيقت ٢٦

عدالتى نظام:٣٥

نعرہ: ناپسنديدہ نعرہ٣٦

نعمت: اخروى نعمات كى قدر و قيمت ٢٧;دنيوى نعمات كى قدر و قيمت ٢٧، ٢٨

نماز: نماز قائم كرنا ٤; نماز قائم كرنے كى اہميت ٦; نماز كى تشريع ٧; نماز كى فضيلت ١٢;نماز كے اثرات ٨

آیت( ۷۸)

( أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِ اللّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلًّ مِّنْ عِندِ اللّهِ فَمَا لِهَـؤُلاء الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا )

تم جہاں بھى رہو گے موت تمھيں پالے گى چا ہے مستحكم قلعوں ميں كيوں نہ بند ہو جاؤ _ ان لوگوں كا حال يہ ہے كہ اچھے حالات پيدا ہوتے ہيں توكہتے ہيں كہ يہ خدا كى طرف سے ہے او رمصيبت آتى ہے تو كہتے ہيں كہ يہ آپ كى طرف سے ہے توآپ كہہ ديجئے كہ سب خدا كى طرف سے ہے پھر آخر اس قوم كو كيا ہو گيا ہے كہ يہ كوئي بات سمجھتى ہى نہيں ہے _

١_ موت، انسانى انجام كا ايك ناقابل اجتناب مرحلہ ہے_

۶۲۷

اين ما تكونوا يدرككم الموت

٢_ آخرت كى فكر ميں رہنا، موت كے يقينى ہونے كى طرف توجّہ كرنا اور دنيوى مال و دولت كو قليل سمجھنا، ميدان جہاد ميں حاضر ہونے كا راستہ ہموار كرتا ہے_فلمّا كتب عليهم القتال قل متاع الدّنيا قليل والآخرة خير ...اين ما تكونوا يدرككم الموت

٣_ موت سے فرار، جہاد ميں شركت سے مانع بنتا ہے_فلمّا كتب عليهم القتال يخشون النّاس اين ما تكونوا يدرككم الموت

٤_ كوئي بھى چيز حتي محكم و بلند قصر اور قلعے بھى موت سے ركاوٹ نہيں بن سكتے_اين ما تكونوا يدرككم الموت و لو كنتم فى بروج مشيّدة '' مشيدة''كا مصدر ''تشييد'' ہے اور مشيد كا معنى بلند اور مستحكم عمارت ہے_ ''بروج''، ''بُرج''كى جمع ہے جس كا معنى ہے قصر (مفردات راغب) اور قلعہ (لسان العرب)_

٥_ كوئي بھى چيز حتي ستاروں ميں زندگى گذارنا بھى موت كو نہيں ٹال سكتا_*اين ما تكونوا يدرككم الموت و لو كنتم فى بروج مشيّدة يہ اس بناپر ہے كہ آيت ميں ''بروج''سے مراد ستارے اور كواكب ہوں _ جيساكہ ''لسان العرب''نے آيت مجيدہ ''والسماء ذات البروج'' كا يہى معني نقل كيا ہے اور ''لو كنتم'' سے بھى اس معنى كى تائيد ہوتى ہے_

٦_ عصر پيغمبراكرم(ص) كے بعض مسلمان، خير و بھلائي كو خداوند متعال كى طرف سے اور شر و برائي كو پيغمبراكرم(ص) كى طرف سے خيال كرتے تھے_و ان تصبهم حسنة يقولوا هذه من عندالله و ان تصبهم سيّئة يقولوا هذه من عندك بظاہر ''تصبھم''ميں ضمير سے مراد كمزور ايمان مسلمان ہيں _

ان كا خيال تھا كہ مسلمان ہونے كے بعد جو مشكلات ان پر آپڑى ہيں وہ سب پيغمبراكرم(ص) كى طرف سے ہيں _

٧_ آنحضرت(ص) كے خلاف يہوديوں اور منافقوں كے پروپيگنڈے اور ايذا رسانى كا ايك طريقہ يہ تھا كہ وہ آپ(ص) كو شر و برائي كے عامل كے عنوان سے متعارف كرواتے تھے_ان تصبهم سيّئة يقولوا هذه من عندك

بعض مفسرين نے آيت كے شان نزول كو مدنظر ركھتے ہوئے كہا ہے كہ ''تصبھم'' كى ضمير سے

۶۲۸

مراد منافقين اور يہودى ہيں جوكہ قحط و خشك سالى جيسے حوادث كو پيغمبراكرم(ص) سے منسوب كرتے تھے اور اس طرح آپ(ص) كے خلاف پروپيگنڈا كرتے تھے_

٨_ خداوند متعال تمام امور كا سرچشمہ و منبع ہے_قل كل من عندالله

٩_ كائنات اور اسكے حوادث كيلئے دو مبداء (ثنويت) كا نظريہ ايك بيہودہ اور ناقابل قبول عقيدہ ہے_قل كلّ من عندالله

١٠_ برائيوں كو پيغمبراكرم(ص) كى طرف منسوب كرنا اور اچھائيوں كو خداوند متعال كى جانب (ثنويت ) معارف الہى كو بالكل ہى درك نہ كرنے كى علامت ہے_فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً مورد كى مناسبت سے ''حديثاً''سے مراد ''معارف الہي''ہيں _

١١_ ان لوگوں كى مذمت و تحقيرجو خداوند متعال كو كائنات كے تمام حوادث كا محور نہيں سمجھتے اور اسے درك نہيں كرتے، ان كى مذمت كى جانا_فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً ''حديثاً''كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك خداوند متعال كو كائنات كے حوادث كا محور جاننا ہے_

١٢_ خداوند متعال كو تمام حوادث كا محور جاننے (توحيد افعالي) كيلئے گہرے غوروفكر كى ضرورت ہے_فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً

١٣_ توحيد كو درك نہ كرنا، معارف الہى ميں سے كسى بھى چيز كو درك نہ كرنے كے مترادف ہے_قل كلّ من عندالله فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً

١_ حكم و موضوع كى مناسبت سے ''حديثاً''سے مراد وہ امور ہيں جو معارف كے باب ميں بيان ہوئے ہيں _

٢_ خداوند متعال نے ان لوگوں كى طرف تمام معارف كو درك نہ كرنے كى نسبت دى ہے جو حوادث كے مبدائے واحد كو درك نہيں كرتے_ لہذا توحيد كے ادراك او ر دوسرے معارف الہى كے ادراك ميں ايك قسم كا تلازم پايا جاتا ہے_

١٤_ خداوند متعال كى طرف سے جہلا كى سرزنش_فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً

١٥_ ثنويت كے گمان اور توحيد كو درك نہ كرنے كا لازمہ كسى بھى چيز كو درك نہ كرنا ہے_فمال هؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثاً

١٦_ خداوند متعال(سلامتي، امنيت اور وسعت رزق

۶۲۹

جيسي) تمام نعمتوں اور تمام مصائب (و آزمائشوں مثلاً بيماري، خوف اوربھوك وغيرہ) كا سرچشمہ ہے_

و ان تصبهم حسنة يقولوا هذه من عندالله و ان تصبهم سيئة يقولوا هذه من عندك قل كلّ من عندالله آئمہ معصومين(ع) سے مذكورہ بالا آيت ميں سيئات و حسنات كى تفسير ميں منقول ہے كہ:الصحة والسلامة والامن والسعة فى رزق و قدسّما ها الله حسنا ت يعنى بالسيئة ها هنا المرض والخوف والجوع ..(١) صحت و سلامتي، امن و امان اور رزق ميں وسعت كو اللہ تعالى نے حسنات كہا ہے اور '' سيئة'' سے يہاں مراد مرض، خوف اور بھوك ہے_

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) پر افترا ١٠ ; آنحضرت (ص) كو اذيت و آزار ٧

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ٧

اللہ تعالى: اللہ تعالى اور شر ٨; اللہ تعالى كى طرف سے سرزنش١٤

امن و امان: امن و امان كا سرچشمہ ١٦

انسان: انسان كا انجام ١

بصلا : بصلا كا سرچشمہ١٦

بھوك: بھوك كا سرچشمہ ١٦

بيماري: بيمارى كا سرچشمہ ١٦

تعقل: تعقل كے اثرات ١٢

توحيد: توحيد افعالى ١٢;توحيد كى اہميت ١٣، ١٥

ثنويت: ثنويت كا نظريہ ٩; ثنويت كے اثرات ١٥

جہاد:

____________________

١)تفسير قمى ج١ ص١٤٤ نورالثقلين ج١ ص٥١٩ ح٤١٦.

۶۳۰

جہاد كا پيش خيمہ٢;جہاد كے موانع ٣

جہلا: جہلا كى سرزنش ١٤

حوادث: حوادث كا سرچشمہ ١١

خوف : خوف كا سرچشمہ١٦

خير: خير كا سرچشمہ ٦، ٨، ١٠

دورانديشي: دور انديشى كے اثرات ٢

دين: دين فہمى كا پيش خيمہ١٣; دينى تعليمات سے جہالت ١٠

روايت: ١٦

سلامتي: سلامتى كا سرچشمہ١٦

شر: شر كا سرچشمہ ٦، ٨، ١٠

شرك: شرك افعالى كى مذمت ١١

عقيدہ: باطل عقيدہ ٩، ١٥

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمانوں كا عقيدہ ٦

منافقين: منافقين اور آنحضرت (ص) ٧;منافقين كا رويہ٧

موت: موت سے فرار ٣; موت كا حتمى ہونا ١، ٢، ٤، ٥; موت كے ذكر كے اثرات ٢

نظريہ كائنات: نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ٢،٣

نعمت: دنيوى نعمتوں كى اہميت ٢;نعمت كا منبع١٦

يہود: يہود اور آنحضرت(ص) ٧; يہود كا رويہ٧

۶۳۱

آیت( ۷۹)

( مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولاً وَكَفَی بِاللّهِ شَهِيدًا ) تم تك جو بھى اچھائي اور كاميابى پہنچى ہے وہ الله كى طرف سے ہے اور جو بھى برائي پہنچى ہے وہ خود تمھارى طرف سے ہے اور اے پيغمبر ہم نے آپ كولوگوں كے لئے رسول بنايا ہے او رخدا گواہى كے لئے كافى ہے _

١_ انسان كو جو بھى بھلائي پہنچتى ہے وہ الله كى طرف سے ہے اور جو بھى بُرائي پہنچتى ہے وہ خود اسكى اپنى جانب سے ہے_ما ا صابك من حسنة فمن الله و ما اصابك من سيئة فمن نفسك اگرچہ اس آيت كے مخاطب پيغمبر(ص) ہيں ليكن اس سے تمام انسان مراد ہيں ، كيونكہ پيغمبر اكرم(ص) اور ديگر لوگوں كے درميان حقيقى و واقعى احكام كے لحاظ سے كوئي فرق نہيں _

٢_ خداوند متعال كى جانب سے وارد ہونے والے مصائب اور مشكلات خود انسانى اعمال كا نتيجہ ہيں _

قل كلّ من عندالله و ما اصابك من سيئة فمن نفسك گذشتہ آيت ميں خوبيوں اور بديوں كو خداوند متعال كى طرف منسوب كيا گيا ہے_ اور اس آيت ميں سيئات (بديوں ) كا سبب خود انسان كو قرار ديا گيا ہے_اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ انسان كے اعمال ہيں كہ جو خداوند متعال كى طرف سے مشكلات و مصائب ايجاد ہونے كا باعث بنتے ہيں _ بنابرايں يہ ناگوار حوادث ايك جانب سے خداوند متعال كى طرف اور دوسرى جانب سے خود انسان كى طرف منسوب ہيں _

٣_ ناگوار حوادث كے ايك لحاظ سے خداوند متعال كى طرف منسوب ہونے اور دوسرى جانب خود انسان كى طرف انتساب كا عام لوگوں كے فہم سے دو ر ہونا_قل كلّ من عندالله ما ا صابك من حسنة

۶۳۲

فمن الله و ما اصابك من سيّئة فمن نفسك اسكے باوجود كے رسول خدا (ص) اور دوسروں كے درميان، مشكلات و مصائب سے متعلق قوانين كے بارے ميں كوئي فرق نہيں ليكن آيت كا مخاطب پيغمبراكرم(ص) كو قرار ديا گيا ہے تاكہ اس نكتہ كى طرف اشارہ كيا جائے كہ اس حقيقت كو عام لوگ نہيں سمجھ سكتے_

٤_ تمام انسانوں حتى خود پيغمبراكرم(ص) پر خير و شر سے متعلق نظام تكوينى كا حاكم ہونا_ما اصابك من حسنة فمن الله و ما اصابك من سيئة فمن نفسك

٥_ حضرت محمد(ص) ، پيغمبرخدا اور عالمى رسالت كے حامل ہيں _و ارسلناك للنّاس رسولاً

٦_ انبيائے كرام(ع) كى رسالت كا سب لوگوں كيلئے مفيد ہونا_و ارسلناك للنّاس رسولاً ''للّناس''ميں ''لام'' حضرت محمد (ص) كى رسالت كے تمام افراد كيلئے باعث بركت اور فائدہ مند ہونے كى طرف اشارہ ہے_ ورنہ اسے ''الي''كے ساتھ متعدى كر كے يہ بھى فرمايا جاسكتا تھا''الى الناس رسولاً'' _

٧_ پيغمبراكرم(ص) لوگوں كى سعادت و بھلائي كيلئے رسول بن كر آئے ہيں نہ كہ ان كيلئے باعث شر و فساد ہيں _

و ان تصبهم سيئة يقولوا هذه من عندك و ارسلناك للنّاس رسولاً جملہ ''و ارسلناك للنّاس''(ہم نے تجھے لوگوں كيلئے مفيد پيغمبر(ص) بناكر بھيجا) ان لوگوں كے خيال كا ردّ ہے جو آپ(ص) كو شر و بدى كا باعث سمجھتے تھے (يقولوا ھذہ من عندك)_

٨_ پيغمبراكرم(ص) كى رسالت پر، خداوند متعال كى گواہى كا كافى ہونا_و ارسلناك للنّاس رسولاً و كفى بالله شهيداً

٩_ قرآن ميں پيش كئے جانے والے معارف كى حقانيت پر خداوند متعال كى گواہي، كافى ہے_

ما اصابك من حسنة فمن الله و ما اصابك من سيئة فمن نفسك و كفى بالله شهيداً مذكورہ بالا مطلب اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ: ''شہيداً''ان معارف سے متعلق ہو جن كى وضاحت آيات كے اس حصے ميں كى گئي ہے_

١٠_ انبياء (ع) اور لوگوں كے ايك دوسرے سے متعلق اعمال و روابط پر خداوند متعال كى گواہى و شہادت كا، كافى ہونا_و ارسلناك للنّاس رسولاً و كفى بالله شهيداً ''ارسلناك للنّاس رسولاً'' سے دو معانى اخذ ہوتے ہيں _ ايك پيغمبراكرم(ص) كى ذمہ دارى كا بيان يعنى تبليغ رسالت اور دوسرا لوگوں كى ذمہ

۶۳۳

دارى كا بيان، يعنى آنحضرت(ص) كى رسالت كو قبول كرنا_ اور ''كفى بالله شہيداً'' ہو سكتا ہے انجام فرائض ميں پيغمبراكرم(ص) كے اعمال و كردار اور رسالت قبول كرنے ميں لوگوں كے اعمال كى طرف ناظر ہو_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى رسالت٥ ; آنحضرت (ص) كى رسالت پر گواہ ٨; آنحضرت (ص) كے فضائل٧

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى گواہى ٨، ٩،١٠

انبيا(ع) : انبيا ء (ع) اور لوگ ١٠; انبيا (ع) كى رسالت كے اثرات ٦

انسان: انسان كى جہالت ٣

خير: خير كا منبع ١، ٧; خير و بھلائي كى تكوينى حاكميت ٤

سختى : سختى كا منبع ٢

سعادت: سعادت كا سرچشمہ ٧

شر: شركا منبع ١، ٧; شر كى تكوينى حاكميت ٤

عمل: عمل كے اثرات ٢

قرآن كريم : قرآن كريم كے معارف پر گواہ ٩

مصائب: مصائب كا سرچشمہ٢

آیت( ۸۰)

( مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا )

جو رسول كى اطاعت كرے گا اس نے الله كى اطاعت كى او رجو منہ موڑلے گاتو ہم نے آپ كو اس كا ذمہ داربنا كر نہيں بھيجا ہے _

١_ پيغمبراكرم(ص) كى اطاعت، خداوند متعال كى اطاعت ہے_

۶۳۴

من يطع الرّسول فقد ا طاع الله

٢_ سنت رسول خدا (ص) كى پيروى كرنا ضرورى ہے_من يطع الرّسول فقد ا طاع الله

٣_ پيغمبراكرم(ص) كے حكومتى اوامر كى اطاعت اور پيروى كرنا ضرورى ہے_من يطع الرسول فقد اطاع الله

آنحضرت (ص) كے فرامين كى اطاعت سے مراد ان اوامر كى اطاعت نہيں ہے جو آپ (ص) خداوند متعال كى جانب سے ابلاغ كرتے ہيں _ چونكہ اس سلسلے ميں واضح ہے كہ اطاعت رسول(ص) اطاعت خدا ہے، جس كيلئے ياددہانى كى ضرورت نہيں ، لہذا يہاں مراد وہ اوامر ہيں جو آنحضرت (ص) خود اپنى جانب سے صادر فرماتے ہيں _

٤_ بارگاہ خداوند متعال ميں پيغمبراكرم(ص) كو بلند مقام و مرتبہ حاصل ہے_من يطع الرّسول فقد ا طاع الله

٥_ پيغمبراكرم(ص) كى اطاعت، خداوند متعال كى اطاعت كے بعد ہے_من يطع الرسول فقد اطاع الله

٦_ پيغمبراكرم(ص) ، كفار كے كفر اختيار كرنے اور انسانوں كے آپ(ص) سے روگردانى و اعراض كرنے كے سلسلے ميں كسى قسم كى ذمہ دارى نہيں ركھتے_و من تولّى فما ارسلناك عليهم حفيظاً

٧_ پيغمبراكرم(ص) لوگوں كے ايمان و عمل كى حفاظت و نگہباني، جبر و سختى كے ساتھ كرنے پر مامور نہيں _

و من تولّى فما ا رسلناك عليهم حفيظاً

٨_ لوگوں كى ہدايت كيلئے پيغمبراكرم(ص) كا سخت جدوجہد كرنا اور ان كے ہدايت يافتہ ہونے كا اشتياق ركھنا_

فما ارسلناك عليهم حفيظاً جملہ ''فما ارسلناك ''اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ پيغمبراكرم(ص) لوگوں كى ہدايت كيلئے بہت زيادہ كوشش و سعى فرماتے تھے يہاں تك كہ اپنا فريضہ سمجھتے جس طرح بھى ہوسكے لوگوں كو مؤمن بنايا جائے_

٩_ برحق رہبر (امام) كى مكمل معرفت حاصل كر كے اسكى اطاعت كرنا، خداوند متعال كى اطاعت ہے اور اسكى خوشنودى كا باعث بنتى ہے_و من يطع الرّسول فقد اطاع الله امام باقر(ع) نے فرمايا:رضى الرحمان الطاعة للامام بعد معرفته ان الله تبارك

۶۳۵

و تعالى يقول: ''من يطع الرسول فقد اطاع الله ''(١) ...خدائے رحمان كى رضا امام كى معرفت كے بعد اس كى اطاعت ميں ہے بيشك اللہ تعالى فرماتا ہے:''من يطع الرسول فقد اطاع الله ...''

آنحضرت(ص) : آنحضرت(ص) اور كفار ٧; آنحضرت(ص) اور لوگ ٧; آنحضرت(ص) كى اطاعت ١، ٤، ٦ ;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كى حدود ٧، ٨ ; آنحضرت(ص) كے رجحانات ٩ ; آنحضرت (ص) كے فضائل ٥

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى اطاعت ١، ٦، ١٠; اللہ تعالى كى رضا١٠

روايت: ١٠

قيادت: قيادت كى اطاعت ١٠

لوگ : لوگوں كى ہدايت ٩

مقرّبين: ٥

آیت( ۸۱)

( وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُواْ مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ وَاللّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَی اللّهِ وَكَفَی بِاللّهِ وَكِيلاً )

اوريہ لوگ پہلے اطاعت كى بات كرتے ہيں _ پھر جب آپ كے پاس سے باہر نكلتے ہيں تو ايك گروہ اپنے قول كے خلاف تدبيريں كرتا ہے او رخدا ان كى ان باتوں كو لكھ رہا ہے _ آپ ان سے اعراض كريں اور خدا پر پھر وسہ كريں او رخدا اس ذمہ دار ى كے لئے كافى ہے _

١_ صدر اسلام كے بعض مسلمانوں كا رسول خدا(ص) كے حضور اطاعت كامل كا اظہار كرنا اور پھر خفيہ محفلوں ميں آپ(ص) كى مخالفت كيلئے باہمى مشورے كرنا_

____________________

١)كافى ج١ ص١٨٥ ح١_ نورالثقلين ج١ ص٥٢٠، ح٤٢٠، تفسير عياشى ج١ ص٢٥٩ ح ٢٠٢ كافى ج٢ ص١٩ ح٥.

۶۳۶

و يقولون طاعة فاذا برزوا من عندك بيّت طائفةٌ منهم غيرالذى تقول ''طاعة''ايك محذوف مبتدا كيلئے خبر ہے_ يعنى ''امرنا طاعة''( ہمارا كام تيرى اطاعت كرنا ہے) فعل مضارع '' يقولون'' اور ''يبيتون'' استمرار پر دلالت كرتے ہيں اور ان كے طريقہ كار كى حكايت كر ر ہے ہيں ''يبيّتون'' كا مصدر ''تبييت'' ہے جس كا معنى امور كى تدبير كرنا ہے ''غيرالذى تقول''يعنى امر پيغمبر(ص) كى مخالفت_

٢_ مسلمانوں كے ايك گروہ كا دشمنان دين كے ساتھ جنگ كے بارے ميں پيغمبرخدا (ص) كے فرمان كى مخالفت كرنے اور اسے نظر انداز كرنے كيلئے تدابير سوچنا_يقولون طاعة بيّت طائفة منهم غيرالذى تقول گذشتہ آيات كے پيش نظرجو جہاد كے بارے ميں تھيں ، اس آيت ميں مورد نظر فرمان وہي، دشمنان دين كے خلاف جنگ كرنے كے بارے ميں جہاد كا حكم ہے_

٣_ مدينہ ميں پيغمبراكرم(ص) كے خلاف منافقين كے سازش و غدارى پر مبنى خفيہ اجلاس_يقولون طاعة فاذا برزوا من عندك بيّت طائفة منهم غيرالذى تقول بعض كے نزديك يہ آيت منافقين كے بارے ميں ہے_

٤_ بعض كمزور ايمان مسلمانوں كے سرداروں كا پيغمبراسلام(ص) كى مخالفت كيلئے تدابير سوچنے كى خاطر راتوں كو خفيہ اجلاس كرنا_بيت طائفة منهم غيرالذى تقول آيت شريفہ كے ظاہر سے يہ پتہ چلتا ہے كہ جو لوگ اطاعت كا اظہار كرتے تھے وہ سب مخالفت كى سعى كرر ہے تھے، نہ كہ فقط ايك گروہ_ لہذا حكم و موضوع كى مناسبت سے ''طائفة''سے ان كے سردار مراد ہيں _

٥_ خداوند متعال كا، تخلف كرنے والےمسلمانوں كى سازش پر مبنى خفيہ سرگرميوں كے بارے ميں غيبى خبريں دينا_

فاذا برزوا من عندك بيّت طائفة منهم غيرالذى تقول

٦_ خداوند متعال كا خود سازشى گروہ كے سازش پر مبنى قول و فعل كو ان كے نامہ اعمال ميں ثبت كرنا_

والله يكتب ما يبيّتون

٧_ پيغمبراكرم(ص) اور آپ(ص) كے فرامين كے خلاف سازش كرنے والوں كيلئے خداوند متعال كى طرف سے تہديد و مؤاخذہ _

۶۳۷

والله يكتب ما يُبيّتون جملہ ''والله يكتب ...''بنى آدم كے اعمال كے ثبت ہونے كے بيان كے علاوہ سازشى گروہ كى تہديد و مؤاخذہ كى طرف اشارہ بھى ہے_

٨_ بنى آدم كے تمام اعمال و كردار اور اقوال كا ان كے نامہ اعمال ميں ثبت ہونا_والله يكتب ما يُبيّتون

٩_ خداوند متعال كا اپنے پيغمبراكرم(ص) كو دوغلے، اور سازشى مسلمانوں سے بے اعتنائي اختيار كرنے كى نصيحت كرنا_و يقولون طاعة فاعرض عنهم

١٠_ پيغمبراكرم(ص) كا اپنے فرامين كے سلسلے ميں منافقانہ رويہ اختيار كرنے والے مسلمانوں سے مدارا كرنے پر مامور ہونا_و يقولون طاعة فاعرض عنهم مذكورہ بالا مطلب ميں ''اعراض''كو درگذر كے معنى ميں ليا گيا ہے يعنى ان سے انتقام لينے كى كوشش نہ كر_

١١_ سب لوگوں كيلئے ضرورى ہے كہ وہ خداوند متعال پر توكل و اعتماد كريں _و توكل على الله

١٢_ خداوند متعال پر توكل تمام مشكلات كيلئے كارساز ہے_و توكل على الله

١٣_ سازشى گروہ سے پيغمبراكرم(ص) كى بے اعتنائي و اعراض كاآپ(ص) كيلئے مشكلات و مسائل كا باعث بننا_

فاعرض عنهم و توكّل على الله اعراض كے حكم كے بعد توكل كا حكم اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ سازشى گروہ سے پيغمبر اكرم(ص) كى بے اعتنائي كے نتيجے ميں آپ (ص) كو مشكلات كا سامنا ہوسكتا ہے كہ جس كيلئے خداوند متعال پر توكل كرنا ضرورى ہے_

١٤_ تخلف كرنے والے مسلمانوں سے بے اعتنائي واعراض كرنے كے نتائج و عواقب سے محفوظ رہنے كيلئے پيغمبراكرم(ص) كا فريضہ ہے كہ آپ(ص) خداوند متعال پر توكل كريں _و يقولون طاعة فاعرض عنهم و توكل على الله و كفى بالله وكيلاً

١٥_ خداوندمتعال، وكيل ہے_و كفى بالله و كيلاً

١٦_ خداوند متعال توكل كرنے والے انسان كيلئے ايساوكيل ہے جو كافى ہے_و توكلّ على الله و كفى بالله وكيلاً

۶۳۸

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) اور مسلمان ١٠ ; آنحضرت (ص) كى اطاعت ١;

آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ١٠، ١٤; آنحضرت (ص) كى مشكلات ١٣;آنحضرت (ص) كے حكم كى نافرمانى ١; آنحضرت (ص) كے دشمن ٧

اسلام: در اسلام كى تاريخ ١،٢،٤، ٩

اسماء و صفات: وكيل ١٥، ١٦

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا علم غيب ٥ ; اللہ تعالى كى طرف سے تہديد ٧; اللہ تعالى كى نصيحتيں ٩ ;اللہ تعالى كے افعال ٦

تخلف كرنے والے: تخلف كرنے والوں سے اجتناب ١٤

توكلّ : توكلّ كى اہميت ١١، ١٤ ;توكل كے اثرات ١٢;خدا پر توكل ١١

دشمن: دشمن كے خلاف مبارزت ٢

سازشى گروہ: سازشى گروہ سے اجتناب ١٣; سازشى گروہ كو تہديد ٧

سختي: سختى كو آسان كرنے كے ذرايع ١٢

عمل: عمل كا ثبت ہونا ٦، ٨

متوكلين: ١٦

مخالفين: مخالفين كا مقابلہ كرنے كى روش ٩

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمان ٤;صدر اسلام كے مسلمانوں ميں نفاق ١ ; مسلمان اور آنحضرت(ص) ٤ ;مسلمان اور دشمن ٢;مسلمانوں سے مدارا ١٠;مسلمانوں كا عصيان ٥; مسلمانوں ميں نفاق ٩

منافقين: صدر اسلام كے منافقين ٣;مدينہ كے منافقين ٣; منافقين اور آنحضرت (ص) ٣;منافقين سے اجتناب ٩; منافقين كى سازش ٣

۶۳۹

آیت( ۸۲)

( أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا )

كيا يہ لوگ قرآن ميں غور وفكر نہيں كرتے ہيں كہ اگر وہ غير خدا كى طرف سے ہوتا تو اس ميں بڑا اختلاف ہوتا _

١_ قرآن ميں گہرا غوروفكر اور تدبّر ضرورى ہے_ا فلايتدبّرون القرآن

كسى چيز ميں مسلسل غوروفكر كرنے كو تدبّر كہتے ہيں كہ اسے گہرے غوروفكر سے تعبير كيا جاتا ہے_

٢_ قرآن كريم رسالت پيغمبر(ص) كى حقانيت كى دليل ہے_و ارسلناك للنّاس رسولاً و كفى بالله شهيداً ا فلايتدبرون القرآن آيت نمبر ٧٩ ميں بيان كيا گيا ہے كہ خداوند متعال حقانيت پيغمبراكرم(ص) كا گواہ ہے_ اور اس آيت ميں گواہى و شہادت كى كيفيت كى وضاحت اس طرح كى جاتى ہے كہ خداوند متعال نے قرآن كو پيغمبر(ص) پر معجزہ كى صورت ميں نازل فرمايا ہے تاكہ آپ(ص) كى حقانيت كا شاہد ہو_

٣_ قرآن كريم ايك ايسى كتاب ہے جو سب كيلئے قابل فہم ہے_افلايتدبّرون القرآن

٤_ قرآن، پيغمبر اكرم(ص) پر نازل ہونے والى آسمانى كتاب كا نام ہے_ا فلايتدبّرون القرآن

٥_ قرآن ميں غوروفكر نہ كرنے پر خداوند متعال كى طرف سے سرزنش _افلايتدبرون القرآن

٦_ قرآن ميں تدبّر سے نفاق اور ايمان كى كمزورى كے بر طرف ہونے كا راستہ ہموار ہوتا ہے_

و يقولون طاعة افلايتدبرون القرآن ضعيف الايمان مسلمانوں اور منافقوں كو قرآن ميں تدبّر كرنے كى ترغيب ہوسكتا ہے ان كيلئے نفاق اور كمزوري ايمان كو بر طرف كرنے كى راہنمائي ہو_

٧_ اگر قرآن خداوند متعال كى جانب سے نہ ہوتا تو اس

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797