تفسير راہنما جلد ۳

 تفسير راہنما7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 797

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 797 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 171582 / ڈاؤنلوڈ: 5192
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے : مہدی (عج) میری اولاد سے ہے وہ میرا ہم نام و ہم کنیت ہوگا ، اخلاق و خلق میں تمام لوگوں کی بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس کی غیبت کے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس کے بعد وہ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی _(۱)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ان احادیث میں جس طرح مہدی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اس سے کسی قسم کے شک کی گنجائشے باقی نہیں رہتی _

یہاں یہ بات عرض کردینا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بعض احادیث میں ایک ہی شخص میں اپنے نام اور اپنی کنیت کوجمع کرنے سے منع فرمایا ہے _

ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا : میرے نام اور کنیت کو ایک شخص میں جمع نہ کرو _(۲)

چنانچہ اسی ممانعت کی بناپر جب حضرت علی بن ابیطالب نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : میں نے اس سلسلے میں رسول خدا سے خصوصی اجازت لی ہے _ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی حضرت علی (ع) کی بات کی تائید کی _ اگر اس بات کو ان احادیث کے ساتھ ضمیمہ کرلیا جائے کہ جن میں مہدی کو رسول خدا کا ہم نام و ہم کنیت قراردیا گیا ہے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم کنیت کے اجتماع کو مہدی کی علامت

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۷۲_

۲_ الطبقات الکبری طبع لندن جلد ۱ ص ۶۷_

۱۰۱

بنانا اور اسے دوسروں کیلئے ممنوع قرار دینا چاہتے تھے _ اسی بنیاد پر محمد بن حنفیہ نے اپنے مہدی ہونے کے سلسلہ میں اپنے نام اور کنیت کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا : میں مہدی ہوں میرا نام رسول(ص) کا نام ہے اور میری کنیت رسول (ص) خدا کی کنیت ہے _(۱)

مہدی امام حسین (ع) کی اولاد سے ہیں

فہیمی: ہمارے علماء تو مہدی کو حسن (ع) کی اولاد سے بتاتے ہیں اور ان کا مدرک وہ حدیث ہے جو سنن ابی داؤد میںنقل ہوئی ہے _

ابواسحاق کہتے ہیں : علی (ع) نے اپنے بیٹے حسن (ع) کو دیکھ کر فرمایا: میرا بیٹا سید ہے کہ رسول (ص) نے انھیں سید کہا ہے ان کی نسل سے ایک سید ظاہر ہوگا کہ جس کا نام رسول کا نام ہوگا _ اخلاق میں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا لیکن صورت میں ان جیسا نہ ہوگا _(۲)

ہوشیار: اولاًممکن ہے کتابت و طباعت میں غلطی کی وجہ سے حدیث میں اشتباہ ہواہو اور حسین کے بجائے حسن چھپ گیا ہو کیونکہ بالکل یہی حدیث اسی متن و سند کے ساتھ دوسری کتابوں میں موجودہے اور اس میں حسن کے بجائے حسین مرقوم ہے _(۳)

ثانیاً : اس حدیث کا ان احادیث کے مقابل کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ شیعہ ، سنّی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور ان میں مہدی کو اولاد حسین سے بتایا گیا ہے _ مثال کے

____________________

۱_ الطبقات الکبری ج ۵ ص ۶۶_

۲_ سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۰۸_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۲۰۸_

۱۰۲

طور پر اہل سنّت کی کتابوں سے یہاں چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :

حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طولانی بنادے گا کہ میری اولاد سے میرا ہمنام ایک شخص قیام کرے گا _ سلمان نے عرض کی : اے اللہ کی رسول (ص) وہ آپ کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ رسول اکرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کی پشت پر رکھا اورفرمایا : اس سے ''(۱)

ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا :

'' اس امت کا مہدی ، کہ جن کی اقتداء میں جناب عیسی نماز پڑھیں گے ، ہم سے ہوگا _ اس کے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارک حسین (ع) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس امت کا مہدی میرے اس بیٹے کی نسل سے ہوگا ''_(۲)

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کی خدمت میں شرفیاب ہواتو حسین (ع) آنحضرت (ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان کے ہاتھ اور رخسار کو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:

''تم سید ، سید کے بیٹے ، سید کے بھائی ، امام کے بیٹے ، امام کے بھائی ، حجّت ، حجت کے بیٹے اور حجت کے بھائی ہو ، تم نو حجت خدا کے باپ ہو کہ جن میں نواں قائم ہوگا _(۳)

____________________

۱_ ذخائر العقبی ص ۱۳۶_

۲_ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان باب ۹_

۳_ ینابیع المودة ج۱ ص ۱۴۵_

۱۰۳

ان احادیث کا اقتضا جو کہ مہدی کے اولاد حسین(ع) سے ہونے پر دلالت کررہی ہیں ، یہ ہے کہ اس حدیث کی پروا نہیں کرنا چاہئے ، جو کہ مہدی کو نسل حسن (ع) سے قراردیتی ہے _ اگر متن و سند کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح بھی ہو تو پہلی حدیث کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے _ کیونکہ امام حسن (ع) و امام حسین (ع) دونوں ہی امام زمانہ کے جد ہیں ۷ اس لئے امام محمد باقر کی مادر گرامی امام حسن کی بیٹی تھیں ، درج ذیل حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمایا:

'' اس امت کے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں _ خدا کی قسم ان کے باپ ان سے افضل ہیں _ اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس امت کا مہدی تمہارے ان ہی دونوں بیٹوں کی اولاد سے ہوگا جب دنیا شورش ہنگاموں میں مبتلا ہوگی ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸۳_

۱۰۴

اگر مہدی مشہور ہوتے ؟

جلالی : اگر مہدی موعود کی شخصیت اتنی ہی مشہور ہوتی اور صدر اسلام کے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذکورہ تعریض سنی ہوتیں تو اصولی طور پر اشتباہ اور کج فہمی کا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبکہ دیکھنے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ائمہ اطہا رکی بعض اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی ، پس جعلی و جھوٹے مہدی جو کہ صدر اسلام میں پیدا ہوئے انہوں نے خود کو اسلام کے مہدی کا قالب میں ڈھال کر لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، نے کیسے کامیابی حاصل کی ؟ اگر مسلمان مہدی کے نام ، کنیت ، ان کے ماں ، باپ کے نام ، ان کے بارہویں امام ہونے اور دوسری علامتوں کے باوجود لوگ کیسے دھوکہ کھا گئے او رمحمد بن حنفیہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن یا حضرت جعفر صادق و موسی کا ظم (ع) کو کیسے مہدی سمجھ لیا ؟

ہوشیار: جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ صدر اسلام میں مہدی کے وجود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مسلم تھا ، ان کے وجود میں کسی کو شک نہیں تھا _ پیغمبر اکرم وجود مہدی، اجمالی صفات ، توحید و عدالت کی حکومت کی تشکیل ، ظلم و ستم کی بیخ کنی ، دین اسلام کا تسلط اور ان کے ذریعہ کائنات کی اصلاح کے بارے میں مسلمانوں کو خبر دیا کرتے تھے اور ایسے خوشخبریوں کے ذریعہ ان کے حوصلہ بڑھاتے تھے_ لیکن مہدی کی حقیقی خصوصیات اور علامتوں کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس موضوع کو کسی حد تک راز میں رکھتے او راسرار نبوت کے حاملین اور قابل اعتماد افراد ہی سے بیان کرتے تھے _

۱۰۵

رسول اسلام نے مہدی کی حقیقی علامتوں کو علی بن ابیطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بیان کرتے تھے لیکن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالی طور پر بیان کرتے تھے _ ائمہ اطہار بھی اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی سیرت پر عمل کرتے اور عام مسلمانوں کے سامنے اسے مجمل طریقہ سے بیان کرتے تھے _ لیکن ایک امام دوسرے سے مہدی کی حقیقی و مشخص علامتیں بیان کرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بیان کرتا تھا _ لیکن عام مسلمان یہاں تک ائمہ کی بعض اولاد بھی اس کی تفصیل نہیں جانتی تھی _

اس اجمالی گوئی سے پیغمبر اور ائمہ اطہار کے دو مقصد تھے ، ایک یہ کہ اس طریقہ سے حکومت توحید کے دشمن ظالموں اور ستمگروں کو حیرت میں ڈالنا تھا تا کہ وہ مہدی موعود کو نہ پہچان سکیں چنانچہ اسی طریقہ سے انہوں نے مہدی کو نجات دی ہے _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے کہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حکومت و قت اور حلفاء مہدی کو نام ، کنیت اور ان کے ماں باپ و دیگر خصوصیات کے ذریعہ پہچان لیں گے تو یقینی طور پر انکے آبا و اجداد کو قتل کرکے ان کی ولادت میںمانع ہوں گے _ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے بنی امیہ و بنی عباس ہر احتمالی خطرہ سے نمٹنے کیلئے تمام تھکنڈے استعمال کرتے تھے اور اس سلسلے میں قتل و غارت گری سے بھی درگزر نہیں کرتے تھے جس شخص کے متعلق وہ یہ سوج لیتے تھے کہ وہ ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسی کے قتل کے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان کا عزیز، خدمت گارہی ہوتا ، اپنی کرسی کو بچان کیلئے وہ اپنے بھائی اور بیٹے کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے _ بنی امیہ اور بنی عباس کو مہدی کی علامتوں اور خصوصیات کی کامل اطلاع نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے احتمالی خطرہ کے سد باب کے لئے اولاد فاطمہ اور علویوں میں سے ہزاروں افراد کو

۱۰۶

تہ تیغ کرڈالا ، صرف اس لئے تاکہ مہدی قتل ہوجائے یا وہ قتل ہوجائے کہ جس سے آپ (ع) پیدا ہونے والے ہیں _ امام جعفر صادق (ع) نے ایک حدیث میں مفضل و ابو بصیر اور ابان بن تغلب سے فرمایا:

'' بنی امیہ و بنی عباس نے جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے قائم ستمگروں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے اسی وقت سے وہ ہماری دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اولاد پیغمبر کے قتل کیلئے تلوار کیھنچ لی اور اس امید پر کہ وہ مہدی کے قتل میں کامیاب ہوجائیں _ نسل رسول (ص) کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن خدا نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ستمگروں کو حقیقی واقعات کی اطلاع ہی نہ ہونے دی ''_(۱)

ائمہ اطہار(ع) مہدی کی خصوصیات کے شہرت پا جانے کے سلسلے میں اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ اپنے اصحاب اور بعض علویوں سے بھی حقائق پوشیدہ رکھتے تھے _

ابوخالد کابلی کہتے ہیں کہ : میں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض کی مجھے قائم کا نام بتادیجئے تا کہ میں صحیح طریقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمایا:

'' اے ابوخالد تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر اولاد فاطمہ سن لیں تو مہدی کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے '' _(۲)

اس اجمال گوئی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کمزور ایمان والے دین کے تسلط سے مایوس نہ ہوجائیں کیونکہ صدر اسلام سے انہوں نے پیغمبر اکرم اور حضرت علی (ع) پاکیزہ

____________________

۱_ کمال الدین جلد ۲ ص ۲۳_

۲_ غیبت شیخ ص ۳۰۲_

۱۰۷

زندگی اور ان کی عدالت کا مشاہدہ کیا تھ ا اور دین حق کے غلبہ پانے کی بشارتیں سنی تھیں ، ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے_ ہزاروں امیدوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان کے کفر کا زمانہ قریب تھا ، ابھی ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا اور تاریخ کے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کے کردار کا مشاہد کررہے تھے اور اسلامی معاشرہ کی زبوں حالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہیں حیرت زدہ کررکھا تھا _ اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کمزور ایمان والے دین اور حق کے غلبہ پانے سے مایوس ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں جن موضوعات نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنے ، ان کی امید بندھانے اور ان کے دلوں کو شاداب کرنے میں کسی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک یہی مہدی موعود کا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار میں رہتے تھے کہ مہدی موعود قیام کریں اور اسلام و مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح کریں ظلم و ستم کا قلع و قمع کریں اور قانون اسلام کو عالمی سطح پر رائج کریں _ ظاہر ہے اس کا نتیجہ اسی وقت برآمد ہوسکتا تھا کہ جب مہدی کی حقیقی علامتوں اور خصوصیات کہ لوگوں کو واضح طور پر نہ بتا یا جاتا ورنہ اگر مکمل طریقہ سے ظہور کا وقت اور علامتیں بتادی جاتیں اور انھیں یہ معلوم ہوجاتا کہ مہدی کس کے بیٹے ہیں اور کب قیام کریں گے _ مثلاً ظہور میں کئی ہزار سال باقی ہیں تو اس کا مطلوبہ نتیجہ کبھی حاصل نہ ہوتا _ اسی اجمال گوئی نے صدر اسلام کے کمزور ایمان والے افراد کے امید بندھائی چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام کو برداشت کیا _

یقطین نے اپنے بیٹے علی بن یقطین سے کہا : ہمارے بارے میں جو پیشین گوئیاں

۱۰۸

ہوئی ہیں وہ تو پوری ہوتی ہیں لیکن تمہارے مذہب کے بارے میں جو پیشین گوئی ہوئی ہیں وہ پوری نہیں ہورہی ہیں؟ علی بن یقطین نے جواب دیا : ہمارے اور آپ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا سرچشمہ ایک ہی ہے لیکن چونکہ آپ کی حکومت کا زمانہ آگیا ہے لہذا آپ سے متعلق پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے پوری ہورہی ہیں _ لیکن آل محمد (ص) کی حکومت کا زمانہ ابھی نہیں آیا ہے اس لئے ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دے کر خوش رکھا گیا ہے _ اگر ہم سے بتادیا جاتا کہ آل محمد (ص) کی حکومت دو سو یا تین سو سال تک قائم نہیں ہوگی تو لوگ مایوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے لیکن یہ قضیہ ہمارے لئے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) کی حکومت کی تشکیل کے انتظار میں گزرتا ہے _(۱)

____________________

۱_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۲۰۷_

۱۰۹

احادیث اہل بیت (ع) تمام مسلمانوں کیلئے حجّت ہیں

فہیمی :انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آپ کی احادیث نے مہدی کی خوب تعریف و توصیف کی ہے مگر آپ کے ائمہ کے اقوال و اعمال ہم اہل سنّت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور ان کی قدر و قیمت نہیں ہے _

ہوشیار: میں امامت وولایت کاموضوع آپ کے لئے ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ عترت رسول (ص) کے اقوال تمام مسلمانوں کیلئے حجت اور معتبر ہیں خواہ وہ انھیں امام تسلیم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں _ کیونکہ رسول (ص) نے اپنی احادیث میں جو کہ قطعی ہیں اور شیعہ ، سنی دونوں کے نزدیک صحیح ہیں ، اہل بیت کو علمی مرجع قرار دیا ہے اور ان کے اقوال و اعمال کو صحیح قرار دیا ہے _ مثلاً:

رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے :

'' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے _ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے _ ان میں سے ایک کتاب خدا ہے جو کہ زمین و آسمان کے درمیان

۱۱۰

واسطہ اور وسیلہ ہے دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ دیکھو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو''(۱)

اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور صحیح مانا ہے _ صواعق محرقہ میں ابن حجر لکھتے ہیں : نبی اکرم سے یہ حدیث بہت سے طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور بیسویں راویوں نے اسکی روایت کی ہے _ پیغمبر اسلام قرآن و اہل بیت کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بارہا مسلمانوں سے ان کے بارے میں تاکید کی ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدیر خم اور طائف سے واپسی پر ان کے بارے میں تاکید کی _

ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے ، جو سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ''(۲)

رسول (ص) کاارشاد ہے :

'' جو چاہتا میری زندگی جئے او رمیری موت مرے اورجنت میں درخت طوبی کے سایہ میں کہ جس کو خدا نے لگایا ہے ، ساکن ہوا سے چاہئے کہ وہ میرے بعد

____________________

۱_ ذخائر العقبی طبع قاہرہ ص ۱۶ ، صواعق محرقہ ص ۱۴۷ ، فصول المہمہ ص ۲۲ _ البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۲۰۹_ کنز العمال طبع حیدر آباد ص ۱۵۳و ۱۶۷ ، درر السمطین مولفہ محمد بن یوسف طبع نجف ص ۲۳۲ ، تذکرة الخواص ص ۱۸۲

۲_ صواعق محرقہ ص ۱۵۰ و ص ۱۸۴_ تذکرة الخواص ص ۱۸۲ _ذخائر العقبی ص ۲۰ _ دررالسمطین ص ۲۳۵_

۱۱۱

علی کو اپنا ولی قرار دے اور ان کے دوستوں سے دوستی کرے اور میرے بعد ائمہ کی اقتدا کرے ، کیونکہ وہ میری عترت ہیں ، میری ہی طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور علم و فہم کے خزانے سے نوازے گئے ہیں _ تکذیب کرنے والوں اور ان کے بارے میں میرا احسان قطع کرنے والوں کے لئے تباہی ہے ، انھیں ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ''(۱)

رسول خد ا نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

'' اے علی آپ اور آپ کی اولاد سے ہونے والے ائمہ کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا آپکی مثال ستاروں جیسی ہے ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ طلوع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا _(۲)

جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

'' علی (ع) کے دو بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں اور وہ میرے بیٹے ہیں ، علی ان کے دونوں بیٹے اور ان کے بعد کے ائمہ خدا کے بندوں پر اس کی حجت ہیں _ میری امت کے درمیان وہ علم کے باب ہیں _ ان کی پیروی کرنے والے آتش جہنّم سے بری ہیں _ ان کی اقتداء کرنے والا صراط مستقیم پر ہے ان کی محبت خدا اسی کو نصیب کرتا ہے جو جنتی ہے ''(۳)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۱۵۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۲۴_

۳_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۵۴_

۱۱۲

حضرت علی بن ابیطالب نے لوگوں سے فرمایا:

'' کیا تم جانتے ہو کہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا تھا :لوگو میں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کیونکہ مجھے خدائے علیم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ یہ سن کہ عمر بن خطاب غضب کی حالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول کیا یہ چیز آپ (ص) کے تمام اہل بیت کے لئے ہے ؟ فرمایا : نہیں یہ صرف میرے اوصیاء کے بارے میں ہے کہ ان میں سے پہلے میرے وزیر ، میرے وارث ، میرے جانشین اور مومنین کے مولا علی ہیں اور علی (ع) کے بعد میرے بیٹے حسن (ع) اور ان کے بعد میرے بیٹے حسین اور ان کے بعد حسین (ع) کی اولاد سے میرے نو اوصیا ہوں گے جو کہ قیامت تک یکے بعد دیگرے آئیں گے _ وہ روئے زمین پر علم کا خزانہ ، حکمت کے معادن اور بندوں پر خدا کی حجت ہیں _ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے خدا کی معصیت و نافرمانی کی _ جب حضرت کا بیا یہاں تک پہنچا تو تمام حاضرین نے بیک زبان کہا : ہم گواہی دیتے ہیں رسول خدا نے یہی فرمایا تھا ''_(۱)

اس قسم کی احادیث سے کہ جن سے شیعہ ، سنی کتابیں بھری پڑی ہیں ، چند چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

____________________

۱_ جامع احادیث الشیع ج ۱ مقدمہ _

۱۱۳

الف: جس طرح قرآن قیامت تک لوگوں کے درمیان باقی رہے گا اسی طرح اہل بیت رسول بھی قیامت تک باقی رہیں گے _ ایسی احادیث کو امام غائب کے وجود پر دلیل قراردیا جا سکتا ہے _

ب: عترت سے مراد رسول (ص) کے بارہ جانشین ہیں_

ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں کو حیرت کے عالم میں بلا تکلیف نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ اپنی اہل بیت کو علم و ہدایت کا مرکز قراردیا اور ان کے اقوال و اعما ل کو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسک کرنے پر تاکید کی ہے _

د: امام قرآن اور اس کے احکام سے جدا نہیں ہوتا ہے _ اس کا پروگرام قرآن کے احکام کی ترویج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن کے احکام کا مکمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تمسک کرنے والے کو کامیابی عطا کرتا ہے _ اسی طرح امام سے بھی راہ ہدایت میں خطا نہیں ہوتی ہے اگر ان کے اقوال و اعمل کا لوگ اتباع کریں گے تو یقینا کامیاب و رستگار ہوں گے کیونکہ امام خطا سے معصوم ہیں _

علی(ع) علم نبی (ص) کا خزانہ ہیں

رسول (ص) کی احادیث اور سیرت سے واضح ہوتاہے کہ جب آنحضرت نے یہ بات محسوس کی کہ تمام صحابہ علم نبی (ص) کے برداشت کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور حالات بھی سازگار نہیں ہیں اور ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہوگی تو آپ (ص) نے اس کے لئے حضرت علی (ع) کو منتخب کیا اور علوم نبوت اور معارف اسلام کو آپ (ع) سے

۱۱۴

مخصوص کیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں رات ، دن کوشاں رہے _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے :

''علی (ع) نے آغوش رسول میں تربیت پائی اور ہمیشہ آپ(ص) کے ساتھ رہے''(۱)

پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

''خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں قریب بلاؤں اور اپنے علوم کی تعلیم دوں تم بھی ان کے حفظ و ضبط میں کوشش کرو اور خدا پر تمہاری مدد کرنا ضروری ہے ''(۲)

''حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہیں کیا '' _(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :'' رسول (ص) خدا نے ایک گھنٹہ رات میں اور ایک گھنٹہ دن میں مجھ سے مخصوص کررکھا تھا کہ جس میں آپ کے پاس میرے سو اکوئی نہیں ہوتا تھا''(۴)

حضرت علی (ع) سے دریافت کیا گیا : آپ (ع) کی احادیث سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ فرمایا:

'' میں جب رسول خدا سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ (ص) جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو آپ ہی گفتگو کا سلسلہ شروع فرماتے تھے _(۵)

____________________

۱_ اعیان الشیعہ ج ۳ ص ۱۱_

۲_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۰۴_

۳_ اعیان الشیعہ ج ۳_

۴_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۷۷_

۵_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۳۶_ طبقات بن سعد ج ۲ ص ۱۰۱_

۱۱۵

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : رسول خدا نے مجھ سے فرمایا:

'' میری باتوں کو لکھ لیا کرو _ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں فراموش کردوں گا ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ میں نے خداند عالم سے یہ دعا کی ہے کہ تمہیں حافظ اور ضبط کرنے والا قرار دے _ لیکن ان مطالب کو اپنے شریک کار اور اپنی اولاد سے ہونے والے ائمہ کے لئے محفوظ کرلو _ ائمہ کے وجود کی برکت سے بارش ہوتی ہے _ لوگوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں بلائیں ان سے رفع ہوتی ہیں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتی ہے _ اس کے بعد حسن (ع) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تمہارے بعد یہ پہلے امام ہیں _ بھر حسین(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : یہ ان کے دوسرے ہیں اور ان کی اولاد سے نو امام ہونگے ''(۱) _

کتاب علی(ع)

حضرت علی (ع) نے اپنی ذاتی صلاحیت ، توفیق الہی اور رسول خدا کی کوشش سے پیغمبر اسلام کے علوم و معارف کا احاطہ کرلیا اور انھیں ایک کتاب میں جمع کیا اور اس صحیفہ جامعہ کو اپنے اوصیاء کی تحویل میں دیدیا تا کہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ کریں _

اہل بیت کی احادیث میں یہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' ہمارے پاس ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے نیازمند نہیں

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۷_

۱۱۶

ہیں جبکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو رسول (ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کے خط میں مرقوم ہے _ اس جامع کتاب میں تمام حلال و حرام موجود ہے ''(۱) _

حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمایا :

'' اے جابر اگر ہم اپنے عقیدہ اور مرضی سے تم سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ہلاک ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہی حدیث بیا ن کرتے ہیں جو کہ ہم نے رسول خدا سے اسی طرح ذخیرہ کی ہے جیسے لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں ''(۲) _

عبداللہ بن سنان کہتے ہیں : میں نے حضرت صادق (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرماتے ہیں :

''ہمارے پاس ایک مجلد کتاب ہے جو ستر گز لمبی ہے یہ رسول(ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کا خط ہے ، لوگوں کی تمام علمی ضرورتیں اس میں موجود ہیں، یہاں تک بدن پروارد ہونے والی خراش بھی مرقوم ہے ''(۳)

علم نبوّت کے وارث

فہیمی صاحب آپ تو اولاد رسول (ص) کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن انکے اقوال کو تو بہرحال آپ کو معتبر اور حجت تسلیم کرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعین کی احادیث کو حجت سمجھتے ہیں _ اسی طرح عترت رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کو بھی حجت سمجھئے بالفرض

____________________

۱_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۳_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱_

۱۱۷

اگر وہ امام نہیں ہیں تو روایت کرنے کا حق تو ان سے سلب نہیں ہوا ہے _ ان کے اقوال کی اہمیت ایک معمولی راوی سے کہیں زیادہ ہے _ اہل سنّت کے علما نے بھی ان کے علم اور طہارت کا اعتراف کیا ہے _ (۱)

ائمہ نے باربار فرمایا ہے کہ : ہم اپنی طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ پیغمبر کے علوم کے وارث ہیں جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے آبا و اجداد کے ذریعہ پیغمبر (ص) سے نقل کرتے ہیں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :

'' میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین (ع) کی حدیث ہے ، حسین (ع) کی حدیث حسن (ع) کی حدیث ہے اور حسن (ع) کی حدیث امیر المؤمنین کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور حدیث رسول (ص) ، خدا کا قول ہے ''(۲)

فہیمی صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں کیا جوانان جنّت کے سردار حسن (ع) و حسین (ع) ، زین العابدین ، ایسے عابد و متقی اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جیسے صاحبان علم کی احادیث ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب اور کعب الاحبار کی حدیثوں کے برابر بھی نہیں ہیں ؟

پیغمبر اسلا م نے علی (ع) اور ان کی اولاد کو اپنے علوم کا خزانہ قراردیا ہے اور اس موضوع کو باربار مسلمانوں کے گوش گزارکیا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان کی طرف لوگوں کی راہنمائی

____________________

۱_ روضة الصفا ج۳ ، اثبات الوصیہ مؤلفہ مسعودی

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۱۱۸

کی ہے مگر افسوس وہ اسلام کے حقیقی راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بیت کے علوم سے محروم ہوگئے جو کہ ان کی پسماندگی کا سبب ہوا _

جلالی : ابھی میرے ذہن میں بہت سے سوالات باقی ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے انھیں آئندہ جلسہ میں اٹھاؤں گا _

انجینئر : اگر احباب مناسب سمجھیں تو آئندہ جلسہ غریب خانہ پر منعقد ہوجائے _

۱۱۹

کیا امام حسن عسکری (ع) کے یہاں کوئی بیٹا تھا؟

ہفتہ کی رات میں احباب انجینئر صاحب کے گھر جمع ہوئے اور جلالی صاحب کے سوال سے جلسہ کا آغاز ہوا _

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا

ہوشیار : چند طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا تھا :

الف: پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہونے والی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ حسن بن علی محمد کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا جو طولانی غیبت کے بعد لوگوں کی اصلاح کے لئے قیام کرے گا _ اورزمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا یہ موضوع روایات میں مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے :

مثلاً: مہدی حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں ، مہدی حضرت صادق کی چھٹی اولاد ہیں ، مہدی موسی کاظم (ع) کی پانچویں اولاد ہیں ، مہدی امام رضا (ع) کی چوتھی اولاد ہیں مہدی امام محمد تقی کی تیسری اولاد ہیں _

ب _ بہت سی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ مہدی موعود گیارہویں امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں ، بطور مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

آیت(۲۱)

( وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَی بَعْضُكُمْ إِلَی بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا ) او ر آخر كس طرح تم مال كو واپس لوگے جب كہ ايك دوسرے سے متصل ہو چكا ہے او ران عورتوں نے تم سے بہت سخت قسم كا عہد ليا ہے _

١_ عورتوں سے ان كامہر واپس لينا، انسانيت سے بعيد اور انصاف كے خلاف ہے_و كيف تا خذونه و قد افضى بعضكم الى بعض گذشتہ آيت ميں مہر كو واپس لينا، ظلم و گناہ شمار كيا گيا ہے اور يہ آيت سواليہ انداز ميں ، انسانى وجدان كو عدل و انصاف كى دعوت دے رہى ہے_

٢_ ہمبسترى كے بعد مہر ميں سے معمولى سا حصہ بھى واپس لينا، حرام ہے_و كيف تا خذونه و قد افضى بعضكم الى بعض

يہ اس بنا پر ہے كہ جب ''وقد افضي'' مباشرت سے كنايہ ہو_

٣_ مياں بيوى كے ازدواجى تعلقات اور ان كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والى ہم دلى و يگانگت پر توجّہ اور غوروفكر مانع بنتا ہے كہ انسان اپنى بيوى پر ظلم كرے اور اس سے مہر واپس لے_و كيف تا خذونه و قد افضى بعضكم الي بعض

''افضي''كا مصدر ''افضائ'' ہے جس كا معنى اتصال ہے_ اور آيت ميں ہوسكتا ہے يہ زوجين كے اتحاد و يگانگت سے كنايہ ہو نہ مباشرت سے ورنہ خداوند متعال يہ فرماتا ''و قد افضيتم اليهنّ'' _

٤_ بيوى كے ساتھ ماضى كيمعاشرت كا احترام اور اس كى طرف توجہ كا لحاظ ركھنا ضرورى ہے_

و قد ا فضى بعضكم الي بعض يہ اس بنا پر ہے كہ جب ''قد ا فضي''سے مراد پيوند معاشرت ہو_

۴۲۱

٥_ ظلم اور گناہ سے روكنے كيلئے انسانى احساسات اور عواطف كو ابھارنا، قرآنى طريقوں ميں سے ايك طريقہ ہے_

اثماً مبيناً و كيف تاخذونه و قد افضى بعضكم الى بعض

٦_ جنسى مسائل بيان كرنے كے سلسلے ميں قرآن كا ادب و احترام كا لحاظ ركھنا_

و قد افضى بعضكم الى بعض مباشرت اور دخول كا معنى بيان كرنے كيلئے كلمہ ''افضي''كا استعمال ( يہ اس بنا پر ہے كہ جب ''افضي''كا معنى مباشرت ليا جائے) كلام كى ادائيگى ميں قرآنى ادب كو ظاہر كرتا ہے_

٧_ جنسى مسائل بيان كرتے وقت صراحت گوئي سے پرہيز كرنا ايك اچھا اور پسنديدہ طريقہ ہے_و قد افضى بعضكم الى بعض

٨_ عہد و پيمان كى پابندى كرنا ضرورى ہے_و كيف تاخذونه و اخذن منكم ميثاقاً غليظاً

٩_ عورتوں كا مہر واپس لينا، اس محكم عہد و پيمان كو توڑنا ہے جو بيويوں نے اپنے شوہروں سے لے ركھا ہے_

و كيف تاخذونه و قد افضى بعضكم الى بعض و اخذن منكم ميثاقاً غليظاً

١٠_ ازدواجى تعلقات پر مبنى عہد و پيمان كى رعايت كرنے كے سلسلے ميں احساس ذمہ دارى پيدا كرنے كيلئے قرآنى طريقوں ميں سے ايك انسانى وجدان كو بيدار كرنا ہے_و كيف تاخذونه و اخذن منكم ميثاقاً غليظاً

١١_ مہر، ہمبسترى اور ازدواجى عہد و پيمان كے مقابلے ميں عورت كا حق ہے _و كيف تاخذونه و قد افضي

جملہ ''و قد افضي''كہ جو مباشرت سے كنايہ ہے اور جملہ ''اخذن منكم''كہ جو عقد ازدواج پر دلالت كرتا ہے، دونوں سے ظاہر ہوتا ہے كہ عورت ان دونوں چيزوں كے بدلے مہر كى مالك بن جاتى ہے_

١٢_ عقد نكاح وہ محكم و پكا عہد و پيمان ہے جو عورت نے مرد سے لے ركھا ہے_و اخذن منكم ميثاقاً غليظاً

امام باقر(ع) نے مذكورہ آيت ميں موجود ميثاق كے بارے ميں فرمايا:''الميثاق''الكلمة التى عقد بها النكاح (١) ميثاق سے مراد عقد نكاح ہے

____________________

١)كافى ج٥ ص٥٦٠ ح١٩ تفسير برھان ج١ص٣٥٥ ح٨.

۴۲۲

١٣_ ازدواج كے وقت عورت مرد سے يہ عہدو پيمان ليتى ہے كہ يا تو وہ بيوى كے ساتھ نيك و پسنديدہ سلوك كرتے ہوئے زندگى بسر كرے يا نيك سلوك كرتے ہوئے اسے آزاد چھوڑ دے_

و اخذن منكم ميثاقاً غليظاً امام باقر(ع) سے مذكورہ آيت ميں موجود ''ميثاق''كے بارے ميں منقول ہے''الميثاق الغليظ'' هو العهد الماخوذ على الزوّج حالة العقد من امساك بمعروف او تسريح باحسان _(١) ''ميثاق غليظ''سے مراد وہ عہد و پيمان ہے جو عقد كى حالت ميں شوہر سے ليا جاتا ہے كہ يا وہ اچھے انداز سے بيوى كے ساتھ زندگى گذارے يا نيك سلوك كرتے ہوئے اسے چھوڑ دے_

احكام: ١، ٢

ازدواج: ازدواج كى حقيقت١٢

انسان: انسانى احساسات ٥

تحريك : تحريك كى اہميت ٥، ١٠

تربيت: تربيت كا طريقہ ٥، ١٠

خانوادہ: خانوادگى روابط كى اہميت ٣

ذكر: ذكر كے اثرات ٣

رُشد: رُشد كے اسباب ٥

روايت: ١٢، ١٣

سخن: آداب سخن ٧

ظلم: ظلم كے موانع ٥ عمل: پسنديدہ عمل ٧;ناپسنديدہ عمل ١

عورت : عورت كے حقوق ١، ٢، ١١ عہد: عہد وفا كرنے كى اہميت ١٠

عہد شكني:

____________________

١)مجمع البيان ج٣ص٤٢ تفسير برھان ج١ص٣٥٦ ح١١.

۴۲۳

عہد شكنى كے اسباب ٩

قرآن كريم: قرآن كريم كى خصوصيت ٦

گناہ: گناہ كے موانع ٥

محرّمات: ٢

معاشرت: سابقہ معاشرت، ٤

معاہدے: معاہدوں پر عمل كرنا ٨

مہر: مہر كا كردار ١١; مہر كے احكام ١، ٢;مہر واپس لينا ١، ٢، ٣، ٩

مياں بيوى : بيوى كے ساتھ معاشرت ١٣;مياں بيوى كا عہد و پيمان ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣

وجدان: وجدان كا كردار ١٠

آیت( ۲۲)

( وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً )

او رخبردار جن عورتوں سے تمھارے باپ دادانے نكاح (جماع) كيا ہے ان سے نكاح نہ كرنا مگر وہ جواب تك ہو چكا ہے _يہ كھلى ہو ئي برائي او رپروردگا ركا غضب او ربدترين راستہ ہے _

١_ جو عورت باپ كى بيوى رہ چكى ہو اس سے ا زدواج كرنے كى حرمت_و لاتنكحوا ما نكح اباؤكم من النسائ

يہ اس بنا پر ہے كہ جب ''ما نكح اباؤكم''ميں نكاح سے مراد عقد ازدواج ہو نہ كہ مباشرت_

٢_ جس عورت سے باپ نے مباشرت كى ہو اس سے ازدواج كرنے كى حرمت_و لاتنكحوا ما نكح اباؤكم يہ اس بناپر ہے كہ نكاح سے مراد مباشرت ہو نہ عقد نكاح_

٣ _ اجداد كى بيويوں سے ازدواج كرنے كى حرمت_

۴۲۴

و لا تنكحوا ما نكح اباؤكم كلمہ ''آبائ'' لغت قرآن ميں ، باپ، دادا اور اجداد كو شامل ہے_ مندرجہ بالا مفہوم كى تائيد امام باقر(ع) كے اس فرمان سے بھى ہوتى ہے:ولا يصلح للرجل ان ينكح امراة جدّہ(١) مرد كيلئے اجداد كى بيويوں سے نكاح كرنا جائز نہيں ہے_

٤_ باپ كى منكوحہ سے شادى كرنا زمانہ جاہليت كى رسوم ميں سے ہے_و لاتنكحوا ما نكح اباؤكم من النساء الاّ ما قد سلف

٥_ باپ كى منكوحہ سے جو شادياں ، حرمت كا حكم بيان ہونے سے پہلے انجام پاچكى تھيں وہ باطل نہيں ہوئيں _

و لا تنكحوا ما نكح اباؤكم من النساء الّا ما قد سلف

٦_ قانون كا اطلاق ماسبق پر نہيں ہوتا_ولاتنكحوا ما نكح اباؤكم من النساء الّاص ما قد سلف

٧_ باپ كى منكوحہ (يا وہ عورت جس سے باپ نے مباشرت كى ہو) سے ازدواج كا ناپسنديدہ ہونا اور خداوند متعال كے غضب كا باعث بننا_و لا تنكحوا ما نكح اباؤكم انّه كان فاحشةً و مقتاً و سصائص سبيلاً ''مقت''كا معنى غضب ہے_

٨_ باپ كى منكوحہ سے شادى كرنا، ايام جاہليت كے لوگوں كى نظروں ميں بھى قابل نفرت تھا_

انّه كان فاحشة و مقتاً ہوسكتا ہے جملہ ''انہ كان مقتاً''اس عمل كى تاريخى قباحت كى طرف اشارہ ہو جو زمانہ جاہليت كے عربوں ميں رائج تھي_ چونكہ وہ لوگ باپ كى بيوى سے شادى كو ''نكاح مقت'' كہتے تھے_

٩_ باپ كى منكوحہ سے شادى كرنا زنا ہے_*و لا تنكحوا ما نكح اباؤكم انّه كان فاحشة

يہ اس لحاظ سے كہ ''فاحشة'' قرآن ميں بہت سے مقامات پر زنا سے كنايہ كے طور پر استعمال ہوا ہے_

احكام: ١، ٢، ٣، ٥

ازدواج: ازدواج كے احكام١، ٢، ٣، ٥;ايام جاہليت ميں ازدواج ٤;حرام ازدواج ١، ٢، ٣، ٩;ناپسنديدہ ازدواج ٧، ٨

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا غضب ٧

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسوم ٤، ٨

____________________

١)كافى ج٥ ص٤٢٠،ح ١، نورالثقلين ج١ ص٤٦٠ ح١٤٣.

۴۲۵

زنا: زنا كے موارد٩

عمل: ناپسنديدہ عمل ٧

قانون: قانون كى حدود ٥، ٦

آیت(۲۳)

( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّ تِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا )

تمھارے او پر تمھارى مائيں ، بيٹياں ،بہنيں ،پھوپھياں ، خالائيں ، بھتيجياں ، بھانجياں وہ مائيں جھنوں نے تم كو دودھ پلا يا ہے ،تمھارى رضاعى (دود ھ شريك )بہنيں ،تمھارى بيويوں كى مائيں ، تمھارى پروردہ عورتيں جو تمھارى آغوش ميں ہيں او ران عورتوں كى اولاد ، جن سے تم نے دخول كيا ہے ہاں اگر دخول نہيں كيا ہے تو كوئي حرج نہيں ہے او رتمھارے فرزندوں كى بيوياں جو فرزند تمھارے صلب سے ہيں او ردو بہنوں كا ايك ساتھ جمع كرنا سب حرام كرديا گيا ہے علاوہ اس كے جو اس سے پہلے ہو چكا ہے خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے _

١_ ماؤں ، بيٹيوں ، بہنوں ، پھوپھيوں ، خالاؤں ، بھتيجيوں اور بھانجيوں سے ازدواج كرنے كى

۴۲۶

حرمت_حرمت عليكم امّهاتكم و بناتكم و اخواتكم و عمّاتكم و خالاتكم و بنات الاخ و بنا ت الاخت

گذشتہ آيات كى مناسبت سے كہ جن ميں ازدواج كى بات ہورہى تھى اس آيت ميں بھى حرمت سے مراد، اس قسم كى خواتين سے ازدواج كى حرمت ہے_

٢_ رضاعى ماں ، رضاعى بہن اور ساس سے ازدواج كرنے كى حرمت_حرمت عليكم و امهاتكم اللاتى ارضعنكم و اخواتكم من الرّضاعة و امّهات نسائكم

٣_ اس بيوى كى بيٹى سے ازدواج كرنے كى حرمت جس كے ساتھ ہم بسترى كى گئي ہے_حرّمت و ربائبكم اللاتى فى حجوركم من نسائكم التى دخلتم بهنّ چونكہ ''اللاتى دخلتم بھنّ''كا مفہوم ''ان لم تكونوا دخلتم بھنّ'' بيان كيا گيا ہے ليكن''اللاتى فى حجوركم' 'كا مفہوم بيان نہيں كياگيا_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ربيبہ كے ساتھ ازدواج كى حرمت ''فى حجوركم''سے مقيد نہيں _

٤_ انسان كيلئے اپنى لے پالك (بيوى كى بيٹي) سے شادى كرنا اس صورت ميں جائز ہے كہ جب اسكى ماں سے ہم بسترى نہ كى ہو_فان لم تكونوا دخلتم بهنّ فلا جناح عليكم

٥_ بيوى كى بيٹى (ربيبہ) كے ساتھ شادى كے جواز كى شرائط ميں سے ايك بيوى (يعنى لے پالك كى ماں ) كى موت يا اس كو طلاق دينا ہے_حرّمت امّهات نسائكم ربائبكم فان لم تكونوا دخلتم بهنّ ساس كے ساتھ شادى كرنے كى حرمت سے ظاہر ہوتا ہے كہ ربيبہ كے ساتھ ازدواج كرنے كى شرط يہ ہے كہ اسكى ماں ، ازدواج كرنے والے كى بيوى نہ ر ہے _

٦_ مرد كيلئے اپنى بہو سے شادى كرنے كى حرمت_حرّمت و حلائل ابنائكم الذين من اصلابكم

٧_ منہ بولے يا رضاعى بيٹے كى بيوى سے ازدواج كا جواز_حرّمت و حلائل ابنائكم الذين من اصلابكم

٨_ نسبي، رضاعى اور سببى محارم سے ہر قسم كى جنسى لذت كى حرمت_حرّمت عليكم امّهاتكم و حلائل ابنائكم خود '' امہات و ''كى طرف حرمت كى نسبت سے ظاہر ہوتا ہے نہ فقط ازدواج بلكہ مذكورہ خواتين سے ہر قسم كى لذت و جنسى استفادہ حرام ہے_

۴۲۷

٩_ بيك وقت دو بہنوں سے شادى كرنے كى حرمت_حرّمت و ان تجمعوا بين الاختين

١٠_ بيوى سے (طلاق ، موت يا ...كے ذريعے) جدا ہونے كى صورت ميں اسكى بہن سے شادى كرنے كا جواز_

حرّمت و ان تجمعوا بين الاختين چونكہ بيك وقت دو بہنوں كے ساتھ ازدواج كرنے كى حرمت ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ ايك بہن سے جدا ہوجانے كى صورت ميں دوسرى بہن كے ساتھ شادى كى جاسكتى ہے_

١١_ دو بہنوں سے ايك ساتھ شادى كرنے كى حرمت، ان شاديوں كو شامل نہيں جو آيت كے نزول سے پہلے انجام پاچكى نہيں _حرّمت و ان تجمعوا بين الاختين الا ما قد سلف

١٢_ آيہ مجيدہ ''حرّمت ...الا ما قد سلف''كے نزول كى وجہ سے دو بہنوں كے ساتھ كى گئي شاديوں كاباطل ہوجانا اور اس آيت كے نزول كے وقت تك ان كا صحيح ہونا_و ان تجمعوا بين الاختين الاّ ما قدسلف چونكہ بيك وقت دو بہنوں اور دوسرى محارم كے ساتھ ازدواج كى حرمت سے ان كے باطل ہونے كا بھى پتہ چلتا ہے_ لہذا كہہ سكتے ہيں كہ استثناء ''الا ما قد سلف''سے مراد يہ ہے كہ ايسے نكاح (آيت كے نزول سے پہلے تك) صحيح تھے ليكن اس كے بعد ان كے بطلان كا حكم جارى ہوگا_

١٣_ دو بہنوں كے ساتھ ازدواجى تعلقات پر مبنى زندگى كو جارى ركھنے كا جواز اس صورت ميں ہے كہ جب ان كے ساتھ شادى آيت مجيدہ ''ان تجمعوا ...''كے نزول سے پہلے انجام پائي ہو_*الاّ ما قدسلف ''حرّمت ان تجمعوا''ميں تحريم، حال اور مستقبل دونوں كو شامل ہے_ چونكہ گذشتہ افعال كو تحريم نہيں كيا جاسكتا_ لہذا استثناء يعنى ''الاّ ما قد سلف''دو بہنوں كے درميان حال اور مستقبل ميں جمع كرنے كى حليت كا بيان ہے_ البتہ اس شرط كے ساتھ كہ ان دونوں كے ساتھ شادي، آيت كے نزول سے پہلے انجام پاچكى ہو_

١٤_ سببي، نسبى اور رضاعى محارم كے ساتھ شادى كرنے كى حرمت ان شاديوں كو شامل نہيں كہ جو آيت مجيدہ ''حرمت عليكم''كے نازل ہونے سے پہلے انجام پاچكى تھيں _حرّمت الّا ما قد سلف

يہ اس بنا پر ہے كہ جب جملہ''الاّ ما قد سلف'' آيت ميں مذكور تمام محرمات سے استثناء ہو_

١٥_ محارم اور دو بہنوں كے ساتھ بيك وقت شادى كرنا، ايام جاہليت كى رسوم ميں سے تھا_

۴۲۸

حرّمت و ان تجمعوا بين الاختين الا ما قد سلف

١٦_ قانون كا اطلاق ماسبق پر نہيں ہوتا_حرّمت عليكم الاّ ما قد سلف

١٧_ خداوند متعال ہميشہ غفور (بہت بخشنے والا) اور رحيم (بہت مہربان) ہے_انّ الله كان غفوراً رحيماً

١٨_ خداوند متعال كا دو بہنوں كے ساتھ بيك وقت اور محارم كے ساتھ ازدواج كى حرمت كا حكم بيان كرنے سے پہلے انہيں صحيح قرار دينا، اپنے بندوں كى نسبت اسكى رحمت كا ايك جلوہ ہے_و ان تجمعوا بين الاختين الاّص ما قد سلف ان الله كان غفوراً رحيماً

١٩_ تحريم كے حكم سے پہلے محارم كے ساتھ انجام پانے والى شاديوں كے نتيجے ميں پيدا ہونے والے نقصانات كى تلافى كرنے والا خود خداوند متعال ہے_حرّمت انّ الله كان غفوراً رحيماً

٢٠_ ساس كے ساتھ شادى كرنے كى حرمت خواہ اسكى بيٹى كے ساتھ ہم بسترى نہ بھى كى گئي ہو_وامّهات نسائكم امير المؤمنين(ع) فرماتے ہيں :اذا تزوّج الابنة فدخل بها او لم يدخل بها فقد حرّمت عليه الاّم (١) اگر كسى لڑكى سے شادى كرے تو اس كى ماں حرام ہوجاتى ہے چا ہے لڑكى سے ہمبسترى كرے يا نہ كرے_

٢١_ جو لڑكي، مرد كى سابقہ بيوى يا كنيز سے پيدا ہوئي ہو اسكے ساتھ شادى كرنے كى حرمت_و ربائبكم اللاتى فى حجوركم امام صادق(ع) سے سوال كيا گيا كہ مرد كا ايسى لڑكى سے شادى كرنا كيسا ہے جو اسكى سابقہ كنيز سے كسى دوسرے مرد كے ساتھ شادى كرنے كے بعد متولد ہوئي ہو_ آپ(ع) نے جواب ميں فرمايا: ھى عليہ حرام و ھى ابنتہ و الحرّة والمملوكة فى ھذا سوائ،(٢) يہ اس پر حرام ہے كيونكہ يہ اس كى بيٹى ہے اور اس حكم ميں آزاد عورت اور لونڈى ميں كوئي فرق نہيں ہے_اسكے بعد امام (ع) نے مذكورہ آيت كى تلاوت فرمائي

٢٢_ مرد كيلئے اپنى بيوى كى بيٹى سے شادى كرنے كى حرمت، اگرچہ وہ اسكے گھر ميں نہ ہو_و ربائبكم اللاتى فى حجوركم

امير المؤمنين (ع) فرماتے ہيں :الربائب عليكم حرام مع الامّهات اللاتى قد دخلتم بهنّص، هُنّ فى الحجور و غيرالحجور

____________________

١)تھذيب شيخ طوسى ج٧ ص٢٧٣ ح٢ ب ٢٥ مسلسل ١١٦٦، نورالثقلين ج١ ص٤٦٤ ح١٥٦.

٢)كافى ج٥ ص٤٣٣ ح١٠_ تفسير برھان ج١ ص٣٥٨، ح١٥، ١٦.

۴۲۹

سوائ (١) بيويوں كى بيٹياں تم پر حرام ہيں اگر تم نے بيويوں كےساتھ مباشرت كى ہو، چا ہے ان كى بيٹياں تمہارى لے پالك ہوں يا نہ ہوں _

٢٣_ مرد كيلئے اپنى غيردائمى بيوى كى بيٹى سے شادى كرنے كى حرمت_ امام رضا(ع) سے مرد كيلئے اپنى غيردائمى بيوى كى بيٹى سے شادى كرنے كے جواز كے بارے ميں پوچھا كيا گيا تو آپ(ع) نے فرمايا: جائز نہيں(٢) _

٢٤_ مرد كيلئے اپنے نواسے كى بيوى سے شادى كرنے كى حرمت_و حلائل ابنائكم الّذين من اصلابكم

ا مام باقر(ع) فرماتے ہيں :انهما (حسن (ع) و حسين(ع) ) من صلب رسول الله ، قال الله تعالى ''و حلائل ابنائكم الّذين من اصلابكم''فسلهم يا ابا الجارود هل كان يحلّ لرسول الله نكاح حليلتيهما؟ فان قالوا: نعم كذبوا و فجروا و ان قالوا: لافهما ابناه لصلبه (٣) بے شك حسن(ع) و حسين (ع) رسول اللہ كى صلب سے ہيں _ اللہ تعالى فرماتا ہے '' تمہارے اوپر صلبى بيٹوں كى بيوياں حرام ہيں تو اے ابوالجارود ان سے سوال كرو كہ كيا رسول اللہ (ص) كيلئے حلال تھا كہ وہ حسن (ع) و حسين (ع) كى بيويوں سے نكاح كريں اگر وہ كہيں كہ ہاں تو انہوں نے جھوٹ بولا اور فسق و فجور كا ارتكاب كيا اور اگر وہ كہيں نہيں تو پھر يہ دونوں (حسن (ع) و حسين (ع) ) رسول اللہ (ص) كے صلبى بيٹے ہيں _

٢٥_ جو مسلمان، اسلام لانے سے پہلے، بيك وقت دو بہنوں كا شوہر تھا_ اس كا فريضہ ہے كہ ان دونوں ميں سے كسى ايك كو، اپنى مرضى كے مطابق طلاق ديدے_و ان تجمعوا بين الاختين الا ما قد سلف رسول خدا (ص) نے اس شخص سے كہ جس نے مسلمان ہونے سے پہلے ايك ساتھ دو بہنوں سے شادى كى ہوئي تھي، فرمايا:طلّق ايتهما شئت (٤) دونوں ميں سے جسے چا ہے طلاق دے دے_

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥

____________________

١)تھذيب شيخ طوسى ج٧ ص٢٧٣ ح١ب٢٥ مسلسل،١١٦٥ ;نورالثقلين ج١ ص٤٦٤ ح١٥٥.

٢)كافى ج٥ ص٤٢٢ ح٢;نورالثقلين ج ١ ص٤٦٣ ح١٥٣ تھذيب شيخ طوسى ج٧ ص٢٧٧ ح١١ ب ٢٥.

٣)كافى ج٨ ص٣١٨ ح٥٠١ نورالثقلين ج١ ص٤٦١ ح١٤٧.

٤)الدرالمنثور ج٢ ص٤٧٥.

۴۳۰

ازدواج: ازدواج كى شرائط ٥; ازدواج كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣، ١٨، ١٩، ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥ ; بہو سے ازدواج ٦، ٧، ٢٤;حرام ازدواج ١، ٢، ٣، ٦، ٩، ١١، ١٢، ١٤، ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥;دو بہنوں سے ازدواج ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣، ١٥، ١٨، ٢٥;ربيبہ سے ازدواج ٣، ٤، ٥، ٢٢، ٢٣;محارم سے ازدواج ١٤، ١٥، ١٨، ١٩

اسماء و صفات: رحيم ١٧;غفور ١٧

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى رحمت١٨; اللہ تعالى كى مغفرت ١٩

بہن: رضاعى بہن ٢

بيٹا: رضاعى بيٹا ٧

روايت: ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسومات١٥

قانون: قانون كى حدود ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٦، ١٩، ٢٥

لذائذ: حرام لذائذ ٨

ماں : رضاعى ماں ٢

محارم: رضاعى محارم ٨، ١٤;سببى محارم ٨، ١٤;نسبى محارم ٨، ١٤

محرّمات: ١، ٢، ٨، ١٤، ٢٠، ٢٢، ٢٣، ٢٤

آیت( ۲۴)

( وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاء ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا )

او رتم پر حرام ہيں شادى شدہ عورتيں _ علاوہ ان كے جو تمھارى كنيزيں بن جائيں _ يہ خدا كا كھلا ہوا قانون ہے او ران سب عورتوں كے علاوہ تمھارے لئے حلال ہے كہ اپنے اموال كے ذريعہ عورتوں سے رشتہ پيدا كر و عفت و پاك دامنى

۴۳۱

كے ساتھ ، سفاح وزنا كے ساتھ نہيں پس جو بھى ان عورتوں سے تمتع كرے ان كى اجرت انھيں بطور فريضہ ديدے او رفريضہ كے بعد آپس ميں رضامندى ہو جائے تو كوئي حرج نہيں ہے بيشك الله عليم بھى ہے اور حكيم بھى _

١_ شوہردار عورت خواہ مسلمان نہ بھى ہو، پھر بھى اس سے جنسى لذت حاصل كرنے اور اسكے ساتھ شادى كرنے كى حرمت_حرّمت والمحصنات من النّسائ ''محصنة''مسلمان، عفيف، آزاد يا شوہردار عورت كو كہتے ہيں اور حكم و موضوع كى مناسبت سے آيت ميں اس سے مراد شوہردار عورت ہے_ ''المحصنات''كيلئے ''من النسائ''كى قيد، تاكيد كيلئے ہے_ اور يہ غيرمسلمان عورت كے شمول پر دلالت كررہى ہے_

٢_ شوہردار كنيز سے اسكے مالك كيلئے، جنسى لذت حاصل كرنے كا جواز_حرّمت والمحصنات من النّساء الاّ ما ملكت ايمانكم ياد ر ہے كہ مذكورہ حكم، چند شرائط كا حامل ہے جو فقہ ميں بيان كى گئي ہيں _

٣_ غلاموں كى نسبت، انسان كى مالكيت كا تائيد شدہ ہونا_ما ملكت ايمانكم

٤_ محارم ، شوہردار عورتوں اور بيك وقت دوبہنوں كے ساتھ شادى كرنے كى حرمت، خداوند متعال كے قطعى اور ناقابل تغير احكام ميں سے ہے_حرّمت كتاب الله عليكم

٥_ خداوند متعال كا ازدواج اور جنسى تعلقات كے بارے ميں الہى احكام و قوانينكى پابندى كرنے كى ضرورت پر تاكيد كرنا_حرّمت كتاب الله عليكم مندرجہ بالا مطلبميں ''كتاب الله ''كو فعل مقدر (الزموا) كا مفعول بنايا گيا ہے_ يعنى احكام الہى كى پابندى كرتے ر ہو_

٦_ شوہردار ، محارم اور سالى كے علاوہ دوسرى تمام عورتوں سے شادى كرنے اور مباشرت كرنے كا جواز_

حرّمت عليكم امّهاتكم و احلّ لكم ماوراء ذلكم ''ذلكم''ان تمام موارد كى طرف اشارہ ہے جو اس آيت اور اس سے پہلے والى آيت ميں بيان ہوئے ہيں _ ٧

_ اسلام ميں شادى اور جنسى روابط سے متعلق احكام و قوانين كا دوسرے تمام الہى اديان كے احكام و قوانين سے مختلف ہونا_*

۴۳۲

و احلّ لكم ماوراء ذلكم كلمہ ''لكم'' ہوسكتا ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہوكہ اس آيت اور گذشتہ آيات ميں جتنے بھى احكام و قوانين بيان ہوئے ہيں وہ سب تمہارے لئے مخصوص ہيں اور دوسرے سابقہ اديان كيلئے كسى دوسرے انداز ميں پيش كئے گئے ہيں _

٨_ ازدواجى تعلقات اور شادى كيلئے عقد نكاح كى شرائط ميں سے ايك، مہر كے عنوان سے كچھ مال كى تعيين ہے_

ان تبتغوا باموالكم محصنين ''باموالكم'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ شادى اور جنسى تعلقات كيلئے بيوى كا انتخاب مہر كى تعيين كے ساتھ ہوگا_ ياد ر ہے كہ ''ان تبتغوا'' كا مفعول بہ حذف ہوگيا ہے اور وہ نامحرمعورتيں ہيں _

٩_ فحشاء (زنا وغيرہ) اور بے حيائي كے كاموں ميں مال و ثروت خرچ كرنے كى حرمت_

احلّ لكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غيرمسافحين ''محصنين''، ''ان تبتغوا''كے فاعل كيلئے حال ہے اور جس طرح يہ ''ابتغائ'' كو عفو و پاكدامنى سے مقيد كرسكتا ہے، اموال كے مصرف كو بھى اس سے مقيد كرسكتا ہے_

١٠_ مردوں كيلئے عفت و پاكدامنى اختيار كرنااور جنسى مسائل ميں حدود الہى كى حفاظت كرناضرورى ہے_

محصنين غيرمسافحين ''محصنين''، ''ابتغائ''كے فاعل كيلئے حال ہے_ يعنى ازدواج اور جنسى روابط كيلئے بيوى كا انتخاب، حلال صورت ميں ہوناچاہيئے نہ كہ زنا اور بے حيائي كى صورت ميں _ ياد ر ہے كہ ''سفاح''كا معنى بے حيائي اور زنا ہے_ اور غيرمسافحين''محصنين كيلئے تاكيد ہے_

١١_ ازدواج موقت (متعہ) كى مشروعيت_فما استمتعتم به منهنّ مہر كى ادائيگي، استمتاع سے مشروط كى گئي ہے_ اور استمتاع سے مراد ازدواج موقت (متعہ) ہے_ كيونكہ عقد دائمى ميں اجرت و مہر كى ادائيگى استمتاع اور جنسى لذت سے مشروط نہيں _ مندرجہ بالا مطلب كى تائيد امام باقر(ع) كے اس فرمان سے بھى ہوتى ہے كہ جس ميں آپ(ص) نے ازدواج موقت كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرمايا :نزلت فى القرآن '' فما استمتعتم به منهنّ فاتوهن اجورهنّ فريضة ..(١)

١٢_ ازدواج موقت (متعہ) ميں مہر كى مقدار معين كرنا واجب ہے_فما استمتعتم به منهنّ فاتوهُنّ اجورهن فريضة من بعد الفريضة ''فريضة''كہ جو فعيل بمعنى مفعول ہے ''اجور''كيلئے حال ہے يعنى معين شدہ اجرت_

____________________

١)كافى ج٥ ص٤٤٨ ح١، نورالثقلين ج١ ص٤٦٧ ح١٧١، تفسير برھان ج١ ص٣٦٠ ح١.

۴۳۳

١٣_ ازدواج موقت (متعہ) ميں عورتوں سے جنسى لذت حاصل كرنے كے عوض اجرت (مہر) ادا كرنا واجب ہے_

فما استمتعتم به منهنّ فاتوهن اجورهنّ فريضة

١٤_ ازدواج موقت ميں صحت عقد كى شرط، مہر كى مقدار معين كرنا ہے_فما استمتعتم به منهنّ فاتوهن اجورهنّ فريضة عقد ميں مہر كى مقدار تعيين كرنے كا ضرورى ہونا، ظاہر كرتا ہے عقد كى صحت اس مہر سے مشروط ہے_

١٥_ اسلام كا عورتوں كے اقتصادى حقوق كى حمايت كرنا_ان تبتغوا باموالكم فاتوهنّ اجورهنّ

١٦_ طرفين كى رضامندى سے مہر كى مقدار ميں تبديلى (كم و زيادہ) كرنے يا اسے بخش دينے كا جواز_

و لاجناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة

١٧_ خداوند متعال عليم (بہت زيادہ جاننے والا) اور حكيم (حكمت والا) ہے_انّ الله كان عليماً حكيماً

١٨_ خداوند متعال حكيم عالم ہے_انّ الله كان عليماً حكيماً يہ اس بنا پر ہے كہ جب '' حكيماً ''، ''عليماً'' كيلئے صفت ہو_

١٩_ جنسى مسائل اور ازدواج سے متعلق احكام و قوانين كا سرچشمہ علم و حكمت الہى ہے_

والمحصنات انّ الله كان عليماً حكيماً

٢٠_ ازدواج موقت (متعہ) اور اسكے احكام كى تشريع كا منبع علم و حكمت الہى ہے_فما استمتعتم به منهن انّ الله كان عليماً حكيماً

٢١_ قانونساز كيلئے علم و حكمت، دو ضرورى عُنصر ہيں _والمحصنات انّ الله كان عليماً حكيماً

احكام و قوانين مقرر كرنے كے بعد، علم و حكمت الہى كا بيان، اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ قانونساز كو علم و حكمت كا حامل ہونا چاہيئے اور قانون كو ان دو بنيادوں پر وضع كيا جانا چاہيئے_

٢٢_ جو غيرمسلم شوہردار عورتيں جنگ ميں اسير ہوگئي ہوں ان كے ساتھ شادى كرنے كا جواز_حرّمت الاّ ما ملكت ايمانكم

۴۳۴

امير المؤمنين (ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں فرمايا:من سبى من كان لها زوج _(١) يعنى قيد ہونے والى شوہر دار عورتيں

٢٣_ مرد كيلئے اپنى بيوى كى بھانجى و بھتيجى كے ساتھ ازدواج كرنے كا جواز_و احلّ لكم ماوراء ذلكم

امام كاظم (ع) نے بيوى كى بھتيجى و بھانجى كے ساتھ مرد كى شادى كے بارے ميں فرمايا:لابأس لانّ الله عزوجل قال: ''و احل لكم ماوراء ذلكم'' (٢) كوئي حرج نہيں كيونكہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے: '' و احل لكم و راء ذلكم''كافى ج٥ ص ٤٢٤ روايت نمبر١ميں ايسى شادى كو بيوى كى اجازت سے مشروط قرار دياگيا ہے_

٢٤_ ازدواج موقت ميں اسكى مدت ختم ہونے كے بعد، مدت (عقد) اور عورت كا مہر بڑھانے كا جواز_

فما استمتعتم به منهنّ لاجناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة امام باقر(ع) نے مذكورہ آيت كى تفسير ميں فرمايا:لابا س بان تزيدها وص تصزيدصك اذا انقطع الاجل فيما بينكما يقول استحللتك باجل آخر برضى منهما (٣) اس ميں كوئي حرج نہيں كہ مدت ختم ہوجانے كے بعد آپس ميں باہمى توافق سے مہر و مدت ميں اضافہ كرليں باين طور كہ مرد ك ہے'' استحللت باجل آخر'' _

٢٥_ طرفين كى رضا مندى سے ازدواج كے بعد، مياں بيوى كے درميان ہر قسم كى قرار داد كا جواز_

و لاجناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة امام صادق(ع) نے مذكورہ آيت كے بارے ميں فرمايا:ما تراضوا به من بعد النكاح فهو جائز (٤) نكاح كے بعد باہمى رضامندى سے ہر قرار داد جائز ہے _

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٨، ٩، ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٦، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥ احكام كى تشريع ٢٠

ازدواج: اديان الہى ميں ازدواج ٧;ازدواج كى اہميت ٥; ازدواج كى شرائط ٨;ازدواج ميں عہد و پيمان ٢٥; ازدواج ميں مہر٨; ازدواج كے احكام ١، ٤، ٦، ٧، ٨، ١٤، ١٩، ٢٢، ٢٣، ٢٥; ازدواج موقت كے احكام ١١، ١٢، ١٣، ٢٠، ٢٤;اسلام ميں ازدواج ٧; حرام ازدواج ١، ٤ ;دو بہنوں سے ازدواج ٤;صحت ازدواج كى شرائط ١٤;

غيرمسلم سے ازدواج ٢٢;محارم كے ساتھ ازدواج ٤

____________________

١)مجمع البيان ج٣ص ٥١ نورالثقلين ج١ ص٤٦٦ ح١٦٥. ٢)نورالثقلين ج١ ص٤٦٦، ح ١٦٦.

٣)تفسير عياشى ج١ ص٢٣٣ ح٨٢ نورالثقلين ج١ ص٤٦٨ ح١٧٥. ٤) كافى ج ٥ ص٤٥٦ ح٢ نورالثقلين ج١ ص٤٦٧ ح١٧٣تفسير برہان ج١ ص٣٦٠ ح٦.

۴۳۵

اسماء و صفات: حكيم ١٧، ١٨;عليم ١٧، ١٨

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا علم ١٨، ١٩، ٢٠ اللہ تعالى كى حدود ١٠; اللہ تعالى كى حكمت ١٩، ٢٠; اللہ تعالى كے اوامر٥

انسان: انسان كا مملوك ہونا ٣

جنسى روابط: جنسى روابط كى حدود ٥

حكمت: حكمت كى اہميت ١٢

روايت: ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥

عفت: عفت كى اہميت ١٠

علم: علم كى اہميت ٢١

عورت : عورت كے حقوق ١٥

قانونسازي: قانونسازى كى شرائط ٢١; قانونسازى ميں حكمت ٢١; قانونسازى ميں علم ٢١

كنيز: كنيز سے استمتاع ٢

لذائذ: حرام لذائذ ١; جائز لذائذ ٢

مال كا مصرف: حرام مال كا مصرف ٩

محرمات: ١، ٤، ٩

مہر: مہر كے احكام ١٢، ١٣، ١٤، ١٦

۴۳۶

آیت( ۲۵)

( وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) او رجس كے پاس اس قدرمالى وسعت نہيں ہے كہ مومن آزاد عورتوں سے نكاح كرے تو وہ مومنہ كنيز عورت سے عقد كرلے _ خدا تمھارے ايمان سے باخبر ہے تم سب ايك دوسرے سے ہو_ ان كنيزوں سے ان كے اہل كى اجازت سے عقد كرو او رانھيں ان كى مناسب اجرت (مہر) دے دو_ ان كنيزوں سے عقد كرو جو عفيفہ اورپاك دامن ہوں نہ كہ كھلم كھلا زنا كار ہوں نہ چورى چھپے دوستى كرنے والى ہوں پھر جب عقد ميں آگئيں تو اگر زنا كرائيں تو ان كے لئے آزاد عورتوں كے نصف كے برابرسزا ہے _ يہ كنيزوں سے عقد ان كے لئے ہے جو بے صبرى كا خطرہ ركھتے ہوں ورنہ صبر كرو تو تمھارے حق ميں بہتر ہے اورالله غفور و رحيم ہے _

١_ مسلمان كنيزوں كے ساتھ ازدواج كرنے كا جواز_فمن ما ملكت ايمانكم من فتياتكم المؤمنات

٢_ اگر آزاد مؤمن عورت كے ساتھ شادى كرنے كيلئے مالى قدرت نہ ہو تو كنيزوں كے ساتھ شادى كرنا

۴۳۷

جائز ہے_و من لم يستطع منكم طولاً ان ينكح المحصنات المؤمنات فمن ما ملكت ايمانكم اس مطلب كى تائيد امام باقر(ع) كا يہ فرمان كرتا ہے كہ جس ميں آپ(ع) نے ''طولا''كے معنى كے بارے ميں فرمايا:من لم يجد منكم غني _(١) اس سے مراد وہ ہے جو تونگر نہ ہو_

٣_ غيرمؤمن كنيزوں كے ساتھ شادى كرنا جائز نہيں _فمن ما ملكت ايمانكم من فتياتكم المؤمنات

٤_ غيرمسلم عورتوں سے شادى كرنے كى ممانعت_ *المحصنات المؤمنات فمن فتياتكم المؤمنات

چونكہ مذكورہ جملہ ميں آزاد عورتوں كے ساتھ كنيز كو بھى اہل ايمان كى قيد سے مقيد كيا گيا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے غيرمؤمن عورتوں سے ازدواج جائز نہيں _

٥_ خداوند متعال كا انسانوں كے ايمان سے كاملاً آگاہ ہونا_والله اعلم بايمانكم

٦_ كنيزيں اگر ايمان كا اظہار كريں تو ان كے ساتھ شادى كرنا جائز ہے_من فتياتكم المؤمنات والله اعلم بايمانكم

انسانوں كے ايمان كے بارے ميں خداوند متعال كے كامل علم كى ياددہانى وہ بھى كنيزوں كے ساتھ ازدواج كو ايمان سے مشروط قرار دينے كے بعد، اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ كنيزوں كے ساتھ شادى كيلئے ان كا، ظاہرى ايمان ہى كافى ہے_

٧_ ايمان سے مشروط احكام و قوانين، فقط اظہار ايمان پر مبنى ہيں ، نہ كہ ايمان واقعى پر_من فتياتكم المؤمنات والله اعلم بايمانكم

٨_ انسان كا بعنوان مسلمان قبول ہونا، اسكے اظہار ايمان سے مربوط ہے نہ كہ ايمان واقعى سے_من فتياتكم المؤمنات والله اعلم بايمانكم

٩_ انسانوں كا ايك دوسرے سے ہونا، ان كے انسان ہونے ميں برابرى كى علامت ہے_بعضكم من بعض

١٠_ غلاموں كے انسانى مقام و مرتبہ كا دوسرے تمام انسانوں كے ساتھ يكساں ہونا_من فتياتكم المؤمنات بعضكم من بعض

١١_ اسلام كا كنيزوں كى تحقير كرنے اور ان كے ساتھ ازدواج كو ننگ و عار سمجھنے كے خلاف جنگ كرنا_

____________________

١)مجمع البيان /ج٣ ص٥٤، نورالثقلين ج١ ص٤٦٩ ح١٨٣.

۴۳۸

فمن ما ملكت ايمانكم بعضكم من بعض

١٢_ كنيز كے ساتھ ازدواج كيلئے اسكے مالك كى اجازت شرط ہے_فانكحوهنّ باذن اهلهنّ ''اہل كنيز''سے مراد اس كا مالك ہے_

١٣_ غلاموں كى انسانى حيثيت و منزلت كى حفاظت كا ضرورى ہونا اورانہيں مالك كے گھرانے كا ايك فرد شمار كيا جانا_

فانكحو هن باذن اهلهنّ خداوند متعال نے كنيز كے مالك كو اہل كے عنوان سے تعبير كيا ہے_ تاكہ اس بات كى طرف متوجہ كرائے كہ غلام اور كنيز مالك كے گھرانے كا حصہ ہيں اور خاندان كے دوسرے افراد كى طرح ہيں _

١٤_ معاشرے كے عام رواج كے مطابق كنيزوں كو بھى اجرت (مہر) ادا كرنا واجب ہے_و اتوهُنّ اُجورهنّ بالمعروف

١٥_ كنيز اپنے مہر كى خود مالك ہے_فمن ما ملكت ايمانكم و اتوهنّ اجورهنّ خداوند متعال تصريح كر رہا ہے كہ كنيز كا مہر خود اسے ديا جائے (اتوھنّ اجورھنّ ) نہ كہ يہ فرما رہا ہے كہ: اتوا اجورھنّ، اس سے معلوم ہوتا ہے مہر كى مالك خود كنيز ہے نہ كہ اس كا مالك_

١٦_ غلاموں كے اجتماعى و اقتصادى حقوق كى حفاظت كرنا ضرورى ہے_بعضكم من بعض اتوهنّ اجورهنّ

١٧_ كاموں كى اُجرت كى مقدار كے تعين كا معيار، عرف عام ہے_اتوهنّ اجورهن بالمعروف

١٨_ كنيز كے ساتھ شادى كرنے كا جواز، اسكى پاكدامنى سے مشروط ہے_فمن ما ملكت ايمانكم محصنات غير مسافحات بظاہر كلمہ '' محصنات'' ، ''ماملكت ايمانكم'' كيلئے حال ہے بنابرايں ، كنيز كے ساتھ ازدواج كو اس كى پاكدامنى سے مشروط كيا گيا ہے_

١٩_ زناكار كنيزوں سے شادى كرنا جائز نہيں _فانكحوهنّ غيرمسافحات

٢٠_ يار باز ، كنيز كے ساتھ شادى كرنا جائز نہيں _فانكحوهنّ غيرمسافحات و لامتخذات اخدان

''اخدان'، ''خدْن''كى جمع ہے جس كا معنى يار و دوست ہے_

۴۳۹

٢١_ عورت كو بيوى بنانے كيلئے منتخب كرنے كا معيار اسكى پاكدامنى ہے_فانكحوهنّ محصنات غيرمسافحات و لامتخذات اخدان

٢٢_ كنيز كو عام رواج كے مطابق اجرت ادا كرنے كے ضرورى ہونے كى شرط يہ ہے كہ وہ شادى كے بعد پاكدامن ر ہے *اتوهنّ اجورهنّ بالمعروف محصنات غيرمسافحات و لامتّخذات اخدان يہ اس بنا پر ہے كہ جب ''محصنات غير مسافحات'' ، ''اتوھنّ''كے مفعول اول كيلئے حال ہو_ اس صورت ميں ''محصنات'، ''اتوا'' كيلئے قيد ہے_

٢٣_ مسلمان شوہردار كنيزوں كى حد زنا، آزاد عورتوں كى حد سے نصف ہے_فاذا احصنّ فان اتين بفاحشة فعليهنّ نصف ما على المحصنات من العذاب چونكہ فعل ''احْصنّص'' مجہول ہے_ اس سے، شوہردار ہونا مراد ہے_ كيونكہ اسكى ضمير ''مؤمنات''كى طرف لوٹتى ہے اس سے دو نوں شرائط، يعنى مسلمان اور شوہردار ہونا، ظاہر ہوتا ہے_ مندرجہ بالامطلب ميں ''احصنّ''كيلئے ذكر شدہ معنى كى تائيد امام صادق(ع) كے اس فرمان سے ہوتى ہے كہ آپ(ع) نے اسكے بارے ميں فرمايا:يعنى نكاحهنّ ..._(١)

٢٤_ شوہردار كنيز، ہر قسم كے فحشاء (بے حيائي) كے ارتكاب كى صورت ميں ، آزاد عورت كى سزا كے نصف كى مستحق ہے_فاذا احصنّ فان اتين بفاحشة فعليهنّ نصف ما على المحصنات اس مطلبميں ''فاحشة''سے مراد ہر برا اور بے حيائي كا فعل ہے نہ كہ ''زنا'' _

٢٥_ جنسى مشكلات اور مسائل ميں مبتلا ہونے كا خوف كنيزوں كے ساتھ شادى كا جواز فراہم كرتا ہے_

فانكحوهنّ ذلك لمن خشى الْعنت منكم ''عنت''بمعنى مشقت ہے اور موردكى مناسبت سے اس سے مراد وہ مشقتيں اور مشكلات ہيں جو انسان پر جنسى دباؤ كى وجہ سے ہوتى ہيں _ ''ذلك''كنيزوں سے ازدواج كرنے كى طرف اشارہ ہے_

٢٦_ زنا اور فحشاء (بے حيائي) ميں مبتلا ہونے كا خوف، كنيزوں سے شادى كرنے كا جواز فراہم كرتا ہے_*

ذلك لمن خشى العنت منكم بہت سے مفسرين كى كا كہنا ہے كہ آيت شريفہ ميں ''عنت''سے مراد زنا ہے_

____________________

١)تفسير عياشى ج١ ص٢٣٥ ح٩٦ نورالثقلين ج١ ص٤٧٠ ح١٩٠.

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797