تفسير راہنما جلد ۳

 تفسير راہنما5%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 797

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 797 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 171567 / ڈاؤنلوڈ: 5191
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۳۔ سات ابواب کا ایک اور معنی

بعض حضرات کا خیال ہے کہ سات حروف سے مراد، امر، زجر، ترغیب، ترھیب، جدل ، قصّے اور مثالیں ہیں۔

اس احتمال پر محمد بن بشارکی روایت سے استدلال کیا گیا ہے جو ابو قلامہ سے منقول ہے، ابو قلامہ کہتا ہے:

''بلغنی أن النبی قال: انزل القرآن علی سبعة أحرف: أمر، وزجر، و ترغیب، و ترهیب، و جدل، و قصص، و مثل،،

''میں نے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قران سات حروف: امر، زجر، ترغیب، ترہیب، جدل، قصّوں اور مثالوں پر نازل کیا گیا ہے۔،،(۱)

گذشتہ تاویل کے جواب سے اس تاویل کا جواب بھی واضح ہے۔

۴۔ فصیح لغات

بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ سات حروف سے مراد سات فصیح عربی لغات ہیں اور یہ لغتیں قرآن میں مختلف مقامات پر بکھری ہوئی ہیں۔ وہ لغتیں یہ ہےں:

۱۔ لغت قریش۔

۲۔ لغت ہذیل۔

۳۔ لغت ہوازن۔

۴۔ لغت یمن۔

۵۔ لغت کنانہ۔

۶۔ لغت تمیم۔

۷۔ لغت ثقیف۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۴۱

یہ قول علماء کی ایک جماعت سے منسو ب ہے۔جس میں بیہقی ابہری اور صاحب قاموس شامل ہیں۔ اس قول کے بھی چند جواب ہیں:

۱۔ گذشتہ روایات نے سات حروف کے معنی و مفہوم کو بیان کردیا ہے۔ اس کے باوجود اس قسم کے معنی مراد لینا مقام و موقع روایت سے سازگار نہیں ہے۔

۲۔ سات حروف سے سات لغات مراد لینا حضرت عمر کی روایت کے منافی ہے، جس میں کہا گیا ہے:''نزل القراٰن بلغة مضر،، (۱) یعنی سارا قرآن قبیلہ مضر کی لغت میں نازل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی اس قراءت پر اعتراض کیا جس میں وہ ''حتی حین،، کی بجائے ''عتی حین،، پڑھا کرتا تھا اور انہوں نے اس کی طرف یہ بھی لکھ بھیجا کہ قرآن ھذیل کی لغت میں نازل نہیں ہوا۔ ا سلیے لوگوں کو لغت قریش کے مطابق قرآن پڑھایا گرو، لغت ھذیل کے مطابق نہیں۔(۲)

اسی طرح یہ احتمال حضرت عثمان کی روایت سے سازگار نہیں ہے جس مںی وہ قریش کے تین گروہوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: اگر قرآن کے بارے میں زید بن ثابت سے تمہارا اختلاف ہو تو اسے قریشی زبان میں لکھو کیوں کہ قرآن قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔(۳)

نیز یہ روایت بھی اس قول کے منافی ہے: ''سورۃ فرقان کی قراءت میں حضرت عمر اور ہشام بن حکیم میں اختلاف ہوا۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے پاس جاکر ہشام نے قراءت پڑھی تو آپ نے فرمایا قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے جیسے تو پڑھ رہا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر نے تلاوت کی۔ آپ نے فرمایا: قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔،،(۴)

____________________

(۱) التبیان، ص ۶۴۔

(۲) ایضاً، ص ۶۵۔

(۳) صحیح بخاری، باب نزل القرآن بلسان قریش، ص ۱۵۶۔

(۴) اس روایت کی طرف گذشتہ صفحات میں اشارہ کیا جاچکا ہے۔

۲۴۲

پوشیدہ نہ رہے کہ حضرت عمر اور ہشام دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔ اس لیے ان میں اختلاف قراءت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اختلاف حروف کی تفسیر اختلاف لغت کی صورت میں کی جائے۔ اس کے علاوہ سات حروف سے سات لغات مراد لینا کوئی عالمانہ بات نہیں ہے اور یہ ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔

۳۔ اگر اس قول کے قائل حضرات کا مقصد یہ ہے کہ قرآن ایسی لغات پر مشتمل ہے جن سے لغت قریش خالی ہے تو اس سے امت کی وہ سہولت ختم ہوجائے گی جس کی خاطر قرآن کو سات حروف میں نازل کیا گیا۔ بلکہ یہ بات خلاف حقیقت اور خلاف واقع ہے کیونکہ لغت قریش کو باقی لغات پر برتری حاصل ہے اور وہ تمام فصیح کلمات جو دوسری لغتوں میں ہیں وہ لغت قریش میں بھی ہیں۔ اسی لیے قریش عربیت کا معیار اور کسوٹی بن گئی ہے اور عربی قواعد کے لیے اسی لغت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔

اگر ان کا مقصد یہ ہو کہ قرآن کچھ اور لغات پر بھی مشتمل ہے جو لغت قریش سے ملتی جلتی ہیں تو لغات کو سات میں منحصر کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی بلکہ قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ چنانچہ ابوبکر واسطتی کہتے ہیں: ''قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ مثلاً لغت قریش، ھذیل، کنانہ، خثعم، خزرج، اشعر، نمیر۔۔۔،،(۱)

۵۔ قبیلہ ئ مضر کی لُغت

بعض علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قبیلہ مضر کے مختلف خاندانوں کی لغات ہیں جو پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ لغات یہ ہیں:

لغت قریش، لغت اسد، لغت کنانہ، لغت ھذیل، لغت تمیم، لغت ضبّۃ، اور لغت قیس، اس احتمال پر بھی وہی اعتراضات ہیں جو چوتھے احتمال پر کئے گئے ہیں۔

____________________

(۱)الاتقان، ج ۱، نوع ۳۷، ص ۲۳۰۔

۲۴۳

۶۔ قراءتوں میں اختلاف

سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں۔ چنانچہ بعض ماہرین کا کہنا ہے: ہم نے قرآن کی قراءتوں کی بنظر غائر دیکھا ہے جو کہ سات سے زیادہ نہیں ہیں:

۱۔ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ ان سے حرکت تو بدل جاتی ہے مگر کلمے کا معنی اور صورت نہیں بدلتی جیسے''هن اطهرلکم،، یا''اطهرلکم،، پڑھا جائے۔ یعنی ''ر،، کو پیش اور زبر دیا جائے۔

۲۔ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ جن میں حرکت بدلنے سے کلمہ کا معنی اور صورت بدل جاتی ہے جیسے ''ربّنا باعد بین اسفارنا،، میں ''باعد،، کو صیغہ امر ''باعد،، اور صیغہ ماضی ''باعد،، پڑھا جائے۔

۳۔ ان کی بعض صورتوں میں کلمے کی صورت تو ویسی ہی رہتی ہے مگر حروف کے اختلاف سے معنی بدل جاتے ہیں، جیسے ''ننشرھا،، اور ''ننشزھا،، 'را، اور 'زا، کے ساتھ۔

۴۔ بعض میں صورت تو بدل جاتی ہے لیکن اس کامعنی نہیں بدلتا، جیسے ''کالعھن المنفوش،، اور''کالصوف المنفوش،،۔

۵۔ صورت اور معنی دونوں بدل جاتے ہیں، جیسے ''طلح منضود،، اور ''طلع منضود،،۔

۶۔ ان میں کلمات کو مقدم اور مؤخر کردیا جائے، جیسے ''وجاء ت سکرۃ الموت بالحق،، اور ''وجاء ت سکرۃ الحق بالموت۔،،

۷۔ ان میں کمی بیشی کی جائے، جیسے''تسع و تسعون نعجة انثی،، میں''انثیٰ،، ۔''اما الغلام فکان کافراو کان أبواه مومنین،، میں ''فکان کافرا،، اور ''فان اللہ بعد اکراھھن لھن غفور رحیم۔،، میں ''لھن،، بڑھا دیا گیا ہے۔

۲۴۴

جواب:

۱۔ یہ دعویٰ ہی ہے، اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور ان روایات میں جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہ قراءتوں کے اختلاف کو سمجھتے ہی نہ تھے۔

۲۔ ان سات صورتوں میں معنیٰ کے بدلنے اور نہ بدلنے کی دو صورتیں بنائی گئی ہیں حالانکہ معنی کے بدلنے اور نہ بدلنے سے دو قسمیں نہیں بنتیں۔ کیونکہ معنیٰ کے بدلنے سے لفظ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ قراءتوں میں اختلاف تلفظ کی بنیاد پر ہے نہ کہ معنی کے۔ لہذا ایسی دو قراءتیں، ایک قراءت ہونی چاہیے نہ کہ دو۔ اس طرح قراءتیں چھ بنتی ہیں نہ کہ سات۔ اسی وجہ سے ''طلح منضود،، اور ''کالعھن المنفوش،، ایک ہی قسم شمار ہوگی۔ دو قسمیں نہیں۔

۳۔ ان قسموں میں لفظ کی صورت کے باقی رہنے جیسے۔ ''ننشزھا۔ ننشرھا،، اور باقی نہ رہنے جیسے ''طلح۔طلع،، کو بھی دو قسمیں قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ بھی دو قسمیں نہیں بلکہ ایک قسم ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ کتابت میں ''ننشزھا،، اور ننشرھا،، کی ایک ہی صورت میں لیک تلفظ میں تو مختلف ہے، اس طرح ''طلح،، اور ''طلع،، میں صورت بدلی ہوئی ہے اور ''ننشزھا،، اور ننشرھا،، میں بھی بدلی ہوئی ہے۔ کیونکہ قرآن مکتوب کا نہیں مقرّر (پڑھا جائے) کا نام ہے۔ آسمان سے لفظ نازل ہوا ہے۔ مکتوب ناز نہیں ہوا۔

۴۔ ان سات حروف سے متعلق روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ شروع میں قرآن ایک حرف میں نازل کیا گیا اور یہ واضح ہے کہ اس واحد حرف سے مراد مذکورہ اختلاف کی قسموں میں سے کوئی قسم نہیں ہوسکتی۔ لہذا باقی چھ قسمیں بھی ان میں سے نہیں ہونگی۔ بنابرایں سات حروف سے مراد سات قراءتیں نہیں ہوسکتیں۔

۵۔ قرآن کی بہت سی آیات اور کلمات پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے اور ان میں کسی کابھی اختلاف نہیں ہے۔ جب اس اتفاقی قراءت کا ان اخلاقی قراءتوں میں اضافہ کریں گے تو مجموعاً آٹھ قراءتیں بنیں گی اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن آٹھ حروف میں نازل ہوا ہے۔

۲۴۵

۶۔ گذشتہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاریان قرآن، کلمات قرآن میں اختلاف کرتے تھے، جیسا کہ حضرت عمر کے واقعہ سے ظاہر ہے۔ ان کا یہ اختلاف قرآن کے سات حروف میں سے ایک ہی حرف پر تھا۔ اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو یہ عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ان اختلاف کا مطلب ہم یہ لیں کہ جبرئیل نے پہلے قرآن ایک حرف میں نازل کیا پھر دو حرفوں میں اس کے بعد تین میں اور پھر سات حروف میں۔

جزائری نے انصاف سے کام لیا ہے ، وہ فرماتے ہیں: ''اس مسئلے، یعنی سات حروف میں بہت سے اقوال ہیں اور اکثر اقوال حق سے دور ہیں۔،،

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقوال اختیار کرنے والوں کو خبر ہی نہیں کہ سات حروف سے متعلق روایات کس موقع پر بیان کی گئی ہیں، بس جو دل چاہا کہہ دیا۔(۱)

۷۔ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

ان روایات کی تفسیر و تاویل میں ساتواں قول یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قراءتوں میں اختلاف ہے جو گذشتہ اختلاف قراءت سے کچھ مختلف ہے۔

____________________

۱) التبیان، ص ۵۹۔

۲۴۶

اس قول کو زرقانی نے اختیار کیا ہے جسے ابو الفضل رازی نے لوائح میں نقل کیا ہے۔ زرقانی فرماتے ہیں:

''کوئی بھی کلام ہو، اس میں سات قسم کے اختلافات ہوسکتے ہیں:

۱۔ اسموں کا مفرد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث ہونے کے اعتبار سے،

۲۔ افعال میں تصریف او گردان کے اعتبار سے، جیسے ماضی ، مضارع اور امر ہے،

۳۔ اعراب اورحرکت کے اعتبار سے،

۴۔ کمی بیشی کے اعتبار سے،

۵۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے،

۶۔ کلمات کے ردّ و بدل کے لحاظ سے، اور

۷۔ لغتوں اورلہجوں کے اعتبار سے جیسے فتح امامہ ترقیق تفخیم اظہار ادغام وغیرہ ہیں۔،،

جواب:

چھٹی تاویل پر کئے جانے والے اعتراضات میں سے پہلا، چوتھا اور پانچواں اعتراض اس تاویل پر بھی وارد ہوتا ہے ان کے علاوہ اس پر یہ اعتراض بھی آتا ہے کہ اسماء میں۔ افراد تثنیہ کے اعتبار سے۔ اور افعال میں۔ تصریف کے اعتبار سے اختلاف ہیئت کے ذ یل میں آتا ہے۔ اس کو ایک مستقل قسم بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر اس تقسیم میں چھوٹی چھوٹی خصوصیات کا لحاظ کریں تو تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث، ماضی، مضارع اور امر ان سب کو مستقل قرار دینا پڑے گا پھر اس اختلاف کی قسمیں سات سے تجاوز کرجائیں گی۔ اس کے علاوہ ایک کلمہ میں ادغام، اظہار، روم، اشمام تخفیف اور تسہیل کے بعد بھی ایک ہی کلمہ شمار ہوتا ہے، زیادہ نہیں اور بقول زرقارنی، ابن قتیبہ نے اس بات کی تصریح کی ہے۔(۱)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۱۵۴۔

۲۴۷

حق تو یہ ہے کہ قراءت مںی جتنے بھی اختلاف ہوسکتے ہیں ان سب کی بازگشت چھ قسموں کی طرف ہے۔

۱۔ ہیئت و صورت میں اختلاف ہو مادہ (حروف) میں نہیں۔ جیسے ''باعد،، ماضی اور ''باعد،، امر یا ''امانٰتھم،، جمع اور ''امانتھم،، مفرد میں۔

۲۔ مادہئ (کلمہ) حروف مختلف ہوں۔ ھیئت اور صورت نہیں، جیسے ''ننشزھا،، اور ''ننشرھا،، میں۔

۳۔ مادہ اور ہیئت دونوںمیں اختلاف ہو۔ جیسے ''عھن،، اور ''صوف،، میں ہے۔

۴۔ اعراب کی وجہ سے جملے کی ہیئت و صورت میں اختلاف ہو۔ جیسے ''ارجلکم،، اور ''ارجلکم،، میں ہے۔

۵۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال گزر چکی ہے۔

۶۔ کمی اور بیشی کی وجہ سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال بھی گزر چکی ہے۔

۸۔ اکائیوں کی کثرت

سات حروف کی تاویل میں آٹھواں قول یہ ہے کےہ سات حروف سے سات کا عدد مراد نہیں ہے بلکہ اس سے اکائیوں کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ بنابرایں سات حروف سے مراد حروف کی کثرت ہے۔ جیسا کہ ستر سے دھائیوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے۔ ستر کا عدد نہیں۔ اسی طرح سات سو سے سینکڑوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے، سات سو کا عدد نہیں۔ یہ قول قاضی عیاض اور اس کے پیروکاروں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

جواب:

یہ احتمال گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف ہے، بلکہ بعض روایات میں اس احتمال کے خلاف تصریح موجود ہے اس کے علاوہ آٹھویں تاویل گذشتہ سات تاویلات سے الگ کوئی مستقل تاویل نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ سات سے مراد اکائیوں کی کثرت ہے، لیکن حروف کا کوئی معنی بیان نہیں کیا گیا۔ لہذا لا محالہ گذشتہ سات معانی میں سے کوئی معنی مراد ہوگا اور سات معنوں پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ اس پر بھی ہوں گے۔

۲۴۸

۹۔ سات قراءتیں

سات حروف (موضوع بحث) کی نویں تاویل یہ ہے کہ ان سے مراد سات قراءتیں ہیں۔

جواب:

اگر ان سات قراءتوں سے مراد مشہور سات قراءتیں ہیں تو تواتر قرااءات کی بحث میں اس کا بطلان ثابت کیا جاچکا ہے اور اگر سات قراءتوں سے مراد کوئی سی سات قراءتیں ہیں تو قراءتیں صرف سات نہیں ہیں۔

اس تاویل کی یہ توجیہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اگرچہ مجموعی طور پر قرآن میں سات سے زیادہ قراءتیں ہیں لیکن اگر ایک ایک کلمہ کو دیکھاجائے تو اس میں سات سے زیادہ قراءتیں نہیں ہیں۔

یہ توجیہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر ان کلمات سے مراد اکثر کلمات ہوں (یعنی ایسے اکثر کلمات جن میں سات قراءتیں پڑھی جاتی ہیں) تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ بہت کم کلمات ایسے ہیں جن میں سات قراءتیں پڑھی جاتی ہیں۔

یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ان سے چند کلمات مراد ہوں کیونکہ قرآن کے کچھ کلمے ایسے ہیں جن میں سات سے زیادہ قراءتیں پڑھی جاتی ہیں۔ مثلاً، ''وعبد الطاغوت،، بائیس طریقوں سے پڑھا گیا ہے اور لفظ ''اُفّ،، کو تیس سے زیادہ طریقوں سے پڑھا گیا ہے۔

ان سب کے علاوہ تاویل کی یہ وجہ سات حروف کی روایات کے شان ورود سے بھی ساز گار نہیں ہے۔

۱۰۔ مختلف لہجے

دسویں تاویل یہ ہے کہ روایات میں سے سات حروف سے مراد ایک ہی لفظ کے مختلف لہجے ہیں۔ اس قول کو رافعی نے اپنی کتاب ''اعجاز القرآن،، میں اختیار کیا ہے۔(۱)

____________________

(۱) اعجاز القرآن، ص ۷۰۔

۲۴۹

اس قول کی وضاحت: کلمات کی ادائیگی میں عرب کی ہر قوم و قبیلے کا ایک مخصوص لہجہ ہے۔ اسی لیے ہم عربوں کو سنتے ہیں کہ وہ ایک ہی لفظ مختلف لہجوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ،یقول کے ''قاف،، کو عراق کے عرب ''گاف،، سے تلفظ کرتے ہیں اور شامی ''ہمزہ،، سے۔ چونکہ تمام قوموں اور قبیلوں کو ایک ہی لہجے کا پابند بنانا جس سے وہ نامانوس ہوں، ایک قسم کی سختی سے اس لیے عربوں کی سہولت اور آسانی کی خاطر متعدد لہجوں میں ادائیگی کی اجازت دی گئی ہے اور سات کا خصوصیت سے ذکر کرنے کا مقصد صرف قراءتوں کی کثرت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ لہذا قراءتوں کا سات سے زیادہ ہونا سات حروف کی روایات کے منافی نہیں ہے۔

جواب:

اگرچہ یہ تاویل باقی نو تاویلوں کی نسبت بہتر ہے۔ مگر پھر بھی نامکمل اور قابل اشکال ہے۔ کیونکہ:

۱۔ یہ تاویل حضرت عمر اور حضرت عثمان کی روایت سے منافات رکھتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ قرآن قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے اور یہ کہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی لغت ہذیل کے مطابق ''حتی حین،، کی بجائے ''عتی حین،، پڑھنےسے منع کردیا تھا۔

۲۔ یہ تاویل حضرت عمر اور ہشام کے اختلاف کے بھی منافی ہے کیونکہ دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔

۳۔ یہ تاویل روایت موقع اور شان ورود کے منافی ہے بلکہ بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اختلاف لہجوں یا ادائیگی کی کیفیت کا نہیں ہے بلکہ اصل لفظ کا ہے اور مختلف الفاظ ہی وہ حروف ہیں جن میں قرآن نازل کیا گی اہے۔

۴۔ لفظ ''سات،، سے کثرت مراد لینا، ظاہر روایت کے خلاف ہے بلکہ بعض روایتوں میں موجود صراحت کے خلاف ہے۔

۵۔ اس تاویل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اب بھی قرآن کا مختلف لہجوں میں پڑھاجانا صحیح ہو۔ حالانکہ یہ بات تمام مسلمانوں کی سیرت کے خلاف ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پہلے تو مختلف لہجوں میں پڑھنا جائز تھا مگر بعد میں یہ بات منسوخ ہوگئی، کیونکہ یہ ایک دعویٰ بلادلیل ہے۔

۲۵۰

یہ بھی ممکن کہ مشہور اور ایک لہجے کے مطابق پڑھے جانے پر جو اجماع قطعی و یقینی قائم ہے اس کو نسخ کی دلیل قرار دیا جائے، کیونکہ اس اجماع کا واحد ماءخذ و مدرک یہ ہے کہ قرآن کا مختلف لہجوں میں نازل ہونا ثابت نہیں اور اگر مختلف لہجوں میں قرآن کی قراءت کا جواز ثابت ہو جیسا کہ آخری تاویل میں دعویٰ کیا گیا ہے تو اس اجماع و اتفاق کی بنیاد منہدم ہو جائیگی۔

اس کے علاوہ نسخ کا احتمال اس لیے بھی درست نہیں کہ رسول اسلامؐ کی متعدد بار درخواست پر قرآن سات حروف میں اس غرض سے نازل کیا گیا تاکہ امت کے لئے سہولت رہے۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ سہولت نزول قرآن کے کچھ عرصے تک ہی حاصل رہے اور پھر سلب کرلی جائے اور اس پر اجماع علماء بھی قائم ہو جائے؟

یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ امت محمدیؐ پہلے کی نسبت آج کے دور میں زیادہ رعایت و سہولت کی محتاج ہے۔ کیونکہ صدر اسلام میں اسلام کے پیروکاروں کی تعداد کم تھی اور قرآن کے ایک لہجے پر سب کا اتفاق ہوسکتا تھا، لیکن بعد میں یہ کام مشکل ہے۔

سات حروف کے بارے میں اتنے اقوال پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور باقی اقوال کا ذکر کرنے اور ان کا جواب دینے سے احتراز کرتے ہیں۔

گذشتہ تمام بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ قرآن کا سات حروف میں نازل ہونا کوئی صحیح معنی نہیں رکھتا، لہٰذا ان تمام راویتوں کو جو سات حروف پر دلالت کرتی ہیں رد کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً جب معصومین (علیہم السلام) کی احادیث بھی اس کی تکذیب کریں اور یہ ثابت کریں کہ قرآن صرف ایک حرف میں نازل ہوا ہے اور اختلاف رایوں کاایجاد کردہ ہے۔

۲۵۱

مسئلہ تحریف قرآن

٭ معنوی تحریف کی تعریف

٭ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

٭ نسخ تلاوت

٭ تحریف، قرآن کی نظر میں

٭ تحریف اور سُنّت

٭ نماز میں سورتوں کی اجازت

٭ خلفاء پر تحریف کا الزام

٭ قائلین تحریف کے شبہات

٭ روایاتِ تحریف

٭ روایات کاحقیقی مفہوم

۲۵۲

اس موضوع میں وارد ہونے قبل مناسب ہے کہ کچھ ایسے امور بیان کئے جائیں جن کا اصل مقصد سے تعلق ہے اور مقصد کی تحقیق اور وضاحت کے لیے ان سے بے نیاز نہیں رہا جاسکتا۔

۱۔ معنی تحریف کی تعریف

لفظ تحریف متعدد معنوں میں مشترکہ طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض معنیٰ میں قرآن میں تحریف بالاتفاق واقع ہوئی ہے اور بعض میں بالاتفاق واقع نہیں ہوئی اور کچھ کے بارے میں اختلاف ہے، اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:(۱)

i ۔ کسی چیز کو اس کے اپنے اصلی مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر رکھنے کو تحریف کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ) (۴:۴۶)

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) یہود سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو باتوں میں ان کے محل و موقع سے ہیر پھیر ڈال دیتے ہیں۔،،

قرآن کریم میں اس معنیٰ میں تحریف واقع ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ حقیقت قرآن کے معنی مقصود کے خلاف تفسیر کرنے کی کوشش کرنا تحریف ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اہل بدعت اور فاسد مذاہب کے پیروکار ہمیشہ قرآن کی تعبیر اپنی آراء اور خواہشات کے مطابق کرکے تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس قسم کی تحریف سے شریعت نے بھی

___________________

(۱) ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۶۔

۲۵۳

منع فرمایا ہے اور اس قسم کے لوگوں کی مذمّت کی ہے۔ چنانچہ امام محمد باقر(علیہ السلام) نے سعد الخیر کے نام اپنے ایک خط میں فرمایا:

''وکان من نبذهم الکتاب أن أقاموا حروفه و حرّفوا حدوده، فهم یروونه ولا یرعونه، والجهال یعجبهم حفظهم للروایة، و العلماء یحزنهم ترکهم للرعایة،، (۱)

''قرآن کو پس پشت ڈالنے کا ان کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے حروف قرآن کو تو قائم رکھا لیکن اس کی حدود میں تحریف کی۔ وہ قرآن کی روایت تو کرتے ہیں لیکن اس کی رعایت نہیں کرتے۔ جہلاء اس کی روایت کے حفظ کو پسند کرتے ہیں اور علماء اس کی رعایت کے ترک سے محزون ہوتے ہیں۔،،

ii ۔ تحریف کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ اصل قرآن تو محفوظ ہے لیکن اس کے حروف اور حرکات میں کمی و زیادتی ہوئی ہے۔ چنانچہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ساری قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن ان قراءتوں میں سے ایک قراءت کے مطابق ہے اور باقی قراءتیں یا زیادتی پر مشتمل ہیں یا ان میں کمی واقع ہوئی ہے۔

iii ۔ تحریف کا ایک معنیٰ یہ لیا جاتا ہے کہ ایک یا دو کلموں کی کمی یا زیادتی ہوئی ہے اور خود اصل قرآن محفوظ ہے۔

اس معنی کے اعتبار سے صدر اسلام اور صحابہ کرام کے دور میں تحریف بنتی ہے اور اس ضمن میں مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہی کافی ہے کہ حضرت عثمان نے متعدد قراءتوں کو جلا دیا تھا اور انہوں نے اپنے والیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ہر اس قرآن کو جلا ڈالیں جو ان کا جمع کردہ نہیں ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ قرآن حضرت عثمان کے جمع کردہ قرآن سے مختلف تھے ورنہ انہیں جلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ علماء نے وہ مقامات بھی اپنی تحریوں میں بیان کئے ہیں جہاں مختلف قرآنوں میں اختلاف موجود ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن داؤد سبحستانی نے اپنی کتاب ''کتاب المصاحف،، میں تحریر کیا ہے۔ بنابرایں اس قسم کی تحرف حضرت عثمان کی طرف سے یا دوسرے قرآن لکھنے والوں کی طرف سے یقیناً واقع ہوئی تھی۔

____________________

(۱) الوافی، آخر کتاب الصلوٰۃ، ج ۵، ص ۲۷۴۔

۲۵۴

ہم آگے چل کر یہ بات بھی واضح کریں گے کہ حضرت عثمان نے جس قرآن کو جمع کرنے کا اہتمام کیا تھا وہ عیناً وہی قرآن تھا جو مسلمانوںمیں رائج تھا اور حضرت رسول کریمؐ کے زمانے سے دست بہ دست ان تک پہنچا تھا۔ اس لیے تحریف زیادتی و کمی کی صورت میں اگر واقع ہوئی ہے تو ان قرآنوں میں واقع ہوئی تھی جو حضرت عثمان کے زمانے کے بعد ختم ہوگئے تھے اور اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے، اس میں نہ کوئی کمی ہے اور نہ کوئی زیادتی۔

مختصر یہ کہ جو لوگ دیگر اصحاب کے مصاحف متواتر نہ ہونے کے قائل ہیں، جیسا کہ صحیح بھی یہی ہے تو اس معنیٰ میں اگرچہ

تحریف صدر اوّل میں واقع ہوئی تھی لیکن حضرت عثمان کے دور کے بعد اس قسم کی تحریف منقطع ہوگئی اور وہی قرآن ہمارے پاس باقی رہ گیا ج ورسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے تواتر ثابت ہے۔

جو لوگ تمام قرآنوں کے متواتر ہونے کے قائل ہیں ان کو لامحالہ متنازع فیہ معنیٰ میں تحریف قرآن اور قرآن کے کسی حصّے کے صائع ہونے کا قائل ہونا ہوگا۔ اس سلسلے میں طبری اور دوسرے لوگوں کی تصریح کا ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت عثمان نے سات حروف میں سے چھ کو کالعدم کر دیا جس میں قرآن نازل ہوا تھا اور قرآن کو ایک ہی حرف میں منحصر کردیا۔(۱)

iv ۔ قرآنی آیات اور سورتوں میں کمی و زیادتی واقع ہوئی ہو لیکن پھر بھی رسول کریمؐ پر نازل شدہ قرآن محفوظ ہو اور رسول کریمؐ نے بھی مسلمہ طور پر ان آیات کی تلاوت فرمائی ہو۔

مثلاً بسم اللہ کے بارے میں مسلمانوں نے اتفاق کیا ہے کہ رسول کریمؐ نے سورہ براءت کے علاوہ تمام سورتوں سے پہلے بسم اللہ کی تلاوت فرمائی ہے اس کے باوجود علماء اہلسنت کا اختلاف ہے کہ آیا بسم اللہ قرآن کا حصّہ ہے؟

ان میں سے بعض نے یہی نظریہ اختیار کیا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ بلکہ مالکی نظریہ یہ ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر نمازی اختلاف سے نکلنے کے لیے اس کو پڑھے مکروہ نہیں ہے۔

____________________

(۱) قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کے باب کی طرف رجوع فرمائیں۔

۲۵۵

ایک اور جماعت کا کہنا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے۔ شیعوں کے نزدیک مسلم ہے کہ بسم اللہ سوائے سورہ توبہ کے باقی سورتوں کی جزء ہے اور یہ قول بعض علماء اہل سنت نے بھی اختیار کیا ہے چنانچہ اس کی تفصیل سورہ فاتحہ کی تفسیر کے دوران بیان کی جائے گی۔ اس سے یہ بات ثابت ہ وجاتی ہے کہ قرآن میں (مثلاً بسم اللہ ہی کے بارے میں) کمی یا زیادتی واقع ہوئی ہے۔

v ۔ تحریف کا پانچواں معنی یہ ہے کہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے اس کا بعض حصہ قرآن نہیں ہے۔

تحریف کی اس قسم کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ے بلکہ اس کا باطل ہونا بدیہی و آشکار ہے۔

vi ۔ کمی کے اعتبار سے تحریف ہو۔ بایں معنی کہ اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے وہ اس سارے قرآن پر مشتمل نہ ہو جو آسمان سے نازل ہوا ہے بلکہ اس کا بعض حصہ لوگوں کے ہاتھ سے ضائع ہوگیا ہو۔

ا س معنی میں تحریف محل بحث ہے۔ بعض اس تحریف کے قائل ہیں اور بعض منکر ہیں۔

۲۔ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

مسلمانوں میں مشہور قول یہی ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اور جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ وہی مکمل قرآن ہے جو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل ہوا ہے۔ بہت سے علماء اعلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ جیسے رئیس المحدثین شیخ صدوق محمد بن بابویہ ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ عقیدہئ عدم تحریف، عقائد امامیہ کا ایک حصہ ہے۔ انہی علماء میں شیخ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوقی ہیں، جنہوں نے اپنی تفسیر التبیان میں اس کی تصریح فرمائی ہے اور اس قول کو اپنے محترم استاد سید مرتضیٰ علم الہدیٰ سے نقل فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عدم تحریف پر علم الہدیٰ کی نہایت مضبوط دلیل بھی نقل کی ہے۔

انہی علماء میں مشہو رمفسر طبرسی بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی تفسیر مجمع البیان کے مقدمے میں ا س کی تصریح فرمائی ہے۔

انہی علماء میں شیخ الفقہا الشیخ جعفر بھی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب ''کشف الغطائ،، میں قرآن پر بحث کے دوران عدم تحریف پر اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے۔

۲۵۶

انہی علماء میں جلیل القدر علامہ شہشھانی بھی شامل ہیں۔ انہو ںنے اپنی کتاب ''العروۃ الوثقیٰ،، میں قرآن مجید پر بحث کے دوران اسی نظریئے کو اختیار کیا ہے اور اکثر مجتہدین کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے۔

مشہور محّدث مولیٰ محسن کاشانی بھی انہی علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی دونو ںکتب(۱) میں اسی قول کو اختیار فرمایا ہے۔

جلیل عالم اور مجاہد شیخ محمد بلاغی بھی انہی علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی تفسیر ''آلاء الرحمن،، میں یہی فرمایا ہے۔

علماء کی ایک جماعت نے بھی عدم تحریف کا قول بہت سے بزرگ علماء سے نقل کیا ہے۔ جیسا کہ شیخ المشایخ شیخ مفید، شیخ بہائی، محقق قاضی نور اللہ اور اس پایہ کے دیگر علماء کرام ہیں۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ علماء میں سے جس نے بھی امامت کے موضوع پر کتاب لکھی ہے اور اس سلسلے میں جو ناخوشگوار واقعات تاریخ میں پیش آئے ہیں، ان سب کا ذکر انہوں نے کیا ہے لیکن تحریف قرآن کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لہذا اگر ان کا نظریہ تحریف قرآن کا ہوتا تو وہ ضرور اس کا ذکر کرتے۔ اس لیے کہ یہ بات قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعہ سے کہیں زیادہ اہم اور قابل ذکر ہے۔

مختصر یہ کہ علماء محققین میں یہ امر مسلم ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔ البتہ شیعوں میں محدثین کی ایک جماعت اور کچھ علمائے اہل سنت تحریف کے قائل ہیں۔

رافعی کہتے ہیں:

''اہل کلام میں سے کچھ لوگ، جن کو سوائے ظن و تاویل اور ہر امر اور قول میں جدلی اسلوب اختیار کرنے کے اس فن میں دست رسی حاصل نہیں تھی، کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ قرآن میں سے کچھ چیزیں ساقط ہوگئی ہوں۔ یہ بات انہوں نے

____________________

(۱) الوافی، ج ۵، ص ۲۷۴ اور علم الیقین، ص ۱۳۰۔

۲۵۷

جمع قرآن کے سلسلے میں واقع ہونے والے حالات سے اخذ کی ہے۔،،(۱)

طبرسی نے ''مجمع البیان،،میں تحریف قرآن کے قول کو سنیوں کے ایک مذہب ''حشویہ،، کی طرف نسبت دی ہے۔

مؤلف: عنقریب آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ نسخ تلاوت عیناً تحریف ہے۔ بنابرایں نسخ تلاوت کے نظریہ، جو علماء اہل سنت میں مشہور ہے، کا لازمہ ہے کہ تحریف کا نظریہ بھی مشہور ہو (یعنی جس کے نزدیک نسخ تلاوت مشہور ہے اس کے نزدیک تحریف قرآن بھی مشہور ہوناچاہیے)۔

۳۔ نسخ تلاوت

اکثر علماء اہل سنت نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بعض قرآن کی تلاوت منسوخ ہوگئی ہے اور بعض راویات میں وارد شدہ اس مفہوم: ''اءنہ کان قرآناً علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو انہوں نے نسخ تلاوت سمجھا ہے۔ پس ہمارے لیے مناسب ہے کہ اس قسم کی روایات کا ذکر کریں تاکہ واضح ہوجائے اس قسم کی روایات کو مان لینا تحریف قرآن کو ماننے کے مترادف ہے:

۱۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے منبر پر فرمایا:

''خدا نے محمدؐ ک وبرحق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب میں آیہ رجم بھی تھی۔ ہم نے اس کی تلاوت کی، ا س کو سمجھا اور اسے یا دیا۔ اسی لیے جب رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری فرمائی اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ اس امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب کوئے کہنے والا یہ کہے گا کہ قسم بخدا آیہ رجم قرآن میں نہیں ہے اور اس طرح خدا کا ایک حکم ترک ہو جائے گا او رلوگ گمراہی میں مبتلا ہوجائیں گے، ہاں! حکم رجم، یعنی سنگساری کا حکم قرآن میں ہر اس مرد اور عورت کے لئے معین ہے جو بیوی رکھنے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو اور جو آیہ ہم قرآن میں پڑھتے تھے وہ یہ تھی:أن لا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم یا وہ اس طرح تھی:ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم ۔(۲)

____________________

(۱) اعجاز القرآن، ص ۴۱۔

(۲) صحیح بخاری، ج ۸، ص ۲۶۔ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۱۱۶۔

۲۵۸

سیوطی لکھتے ہیں کہ ابن اشتر نے اپنی کتاب ''مصاحف،، میں لیث بن سعد سے روایت کی ہے:

''سب سے پہلے حضرت ابو بکر نے قرآن جمع کیا اور زید نے ان کے لیے لکھا اور جب حضرت عمر آیہ رجم لے کر آئے تو اس نے اسے نہیں لکھا، اس لیے کہ حضرت عمر اکیلے تھے۔(۱)

مؤلف: آیہ رجم، جس کے بارے میں حضرت عمر کا دعویٰ ہے کہ یہ قرآن کا حصہ ہے اور اسے قبول نہیں کیا گیا، اس کی چند صورتیں روایت ہوئی ہیں اور ان میں سے کچھ یہ ہیں:

i ۔''اذا زنی الشیخ و الشیخه فارجموهما البتة، نکالاً من الله، و الله عزیز حکیم،،

ii ۔''الشیخ و الشیخ ةفارجموهما البتة بما قضیا من اللذة،،

iii ۔''ان الشیخ و الشیخه اذا زنیا فارجموهما ألبتة،،

بہرحال موجودہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس سے رجم کا حکم نکالا جاسکے۔ پس بنابرایں قرآن کے دو تہائی سے زیادہ حصے ساقط ہوگئے ہیں۔

۲۔ طبرانی نے موثق سند سے حضرت عمر بن الخطاب سے روایت کی ہے:

''قرآن دس لاکھ ستائیس ہزار حروف پر مشتمل ہے۔،،(۲)

جبکہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے یہ اس مقدار کے ایک تہائی بھی نہیں ہے۔ پس بنابرایں قرآن کے دو تہائی سے زیادہ حصے ساقط ہوگئے ہیں۔

____________________

(۱) الاتقان، ج ۱، ص ۱۰۱۔

(۲) الاتقان،ج ۱، ص ۱۲۱۔

۲۵۹

۳۔ ابن عباس نے حضرت عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

''اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کو بر حق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس میں سنگساری کی آیہ بھی تھی۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری رفمائی۔ اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ پھر کہا: ہم اس آیہ کو اسطرح پڑھتے تھے:''ولا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم،، یا''ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم،، (۱)

۴۔ نافع روایت کرتا ہے کہ ابن عمر نے کہا:

''تم میں سے شاید کوئی یہ کہے کہ اس نے پورا قرآن پڑھ لیا ہے۔ اسے کیا پتہ کہ یہ پورا قرآن نہیں ہے اور اس کا ایک کثیر حصہ ضائع ہوچکا ہے۔ لہذا اسے یہ کہنا چاہیے کہ اس قرآن کا وہ حصہ اس نے لیا ہے جو موجود ہے۔(۲)

۵۔ عروۃ بن زبیر حضرت عائشہ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا:

''رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں سورہ احزاب دو سو آیات پر مشتمل ہوا کرتی تھی لیکن جب حضرت عثمان نے قرآن لکھا تو اس وقت وہی سورے رہ گئے جو اب ہمارے ہاتھ میں موجود ہیں۔،،(۳)

۶۔ ابو یونس کی دختر حمیدہ ناقل ہے:

''میرے والد جو ۸۰ سالہ تھے، حضرت عائشہ کے قرآن سے یہ آیہ پڑھا کرتے تھے:

''ان الله و ملائکته یصلون علی النبی یاأیها الذین آمنوا صلوا علیه و سلموا تسلیما، و علی الذین یصلون الصفوف الأول،، حمیدہ کہتی ہے: قرآن میں حضرت عثمان کے تغیر و تبدل کرنے سے پہلے کی یہ بات ہے۔،،(۴)

____________________

(۱) مسند احمد، ج ۱، ص ۴۸۔

(۲) الاتقان،ج ۲، ص ۴۰۔۴۱۔

(۳) ایضاً۔

(۴) الاتقان، ج ۲، ص ۴۰۔۴۱۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

ان اردنا الاّ احساناً و توفيقا اولئك الّذين يعلم الله ما فى قلوبهم

٦_ پيغمبراكرم(ص) (سنت) سے روگردانى اور طاغوت كى طرف رجوع كرنے ميں منافقين كے خفيہ اور پليد ارادے_

ان يتحاكموا الى الطاغوت ان اردنا الاّ احساناً و توفيقاً_ اولئك الذين يعلم الله ما فى قلوبهم

٧_ منافقين كى پليد نيتوں كو فاش كرنے كے بارے ميں خداوند متعال كا انھيں خبردار كرنا_

اولئك الّذين يعلم الله ما فى قلوبهم ''ما فى قلوبھم''ميں موجود ابہام سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ منافقين طاغوت كى طرف رجوع كرنے ميں اپنے دل ميں پليد ارادے ركھتے تھے كہ جن سے فقط خداوند متعال آگاہ تھا_

٨_ پيغمبراكرم(ص) كا فريضہ تھا كہ آپ(ص) ان لوگوں كى خطا اور غلطى كو نظرانداز كرديں جو طاغوت كى طرف رجوع كرنے كے بعد اظہار ندامت كرتے تھے_ثم جاؤك يحلفون بالله ان اردنا الاّ احساناً فاعرض عنهم

كلمہ ''اعراض''، ''عظہم''(انہيں نصيحت كرو) كے قرينے سے، ان كى خطا و غلطى سے اعراض كا معنى ديتا ہے نہ كہ ان سے دورى اختيار كرو_

٩_ پيغمبراكرم (ص) كا فريضہ تھا كہ جو منافقين طاغوت كى طرف رجوع كرنے پر ندامت و پشيمانى كا اظہار كرتے ہيں ، آپ(ص) انہيں وعظ و نصيحت كريں _يريدون ان يتحاكموا الى الطّاغوت فاعرض عنهم و عظهم

١٠_ الہى نمائندوں اور رہبروں كے فرائض ميں سے ہے كہ وہ مخالفين كے ساتھ درگذر، صبر و تحمل اور شرح صدر سے كام ليں _اولئك الّذين فاعرض عنهم و عظهم و قل لهم فى انفسهم قولاً بليغا

١١_ منافقين كے ساتھ پيغمبراكرم(ص) كا رويہ اور طرز عمل، تعليمات الہى كے مطابق تھا_

اولئك الّذين يعلم الله ما فى قلوبهم فاعرض عنهم و عظهم و قل لهم فى انفسهم قولاً بليغاً

١٢_ منافقين كے حيلوں و بہانوں كے مقابلے ميں الہى نمائندوں ، رہبروں اور پيغمبر اكرم (ص) كو ہوشيار رہنے كى ضرورت_ان اردنا الاّ احساناً و توفيقاً_ اولئك الّذين يعلم الله ما فى قلوبهم فاعرض عنهم خداوند متعال پيغمبراكرم(ص) كو درگذر اور وعظ و نصيحت كرنے كا حكم دينے سے پہلے آپ(ص) كو تعليم دے رہا ہے كہ منافقين كا عذر محض جھوٹ اور بے بنياد ہے_ تاكہ اس طرح آنحضرت(ص) كو ان كے حيلوں و بہانوں كى طرف متوجہ كرائے اور وعظ و

۵۸۱

نصيحت كو اس بنياد پر قائم كرے_

١٣_ منافقين كے ساتھ طرز عمل ميں انہيں تنہائي ميں پند و نصيحت كے ساتھ ساتھ تعميرى موقف اختيار كرنا چاہيئے_

فاعرض عنهم و عظهم و قل لهم فى انفسهم قولاً بليغاً اگر ''فى انفسھم'، ''قُل'' كے متعلق ہو تو يہ معنى دے رہا ہے كہ آپ(ص) كى يہ پند و نصيحت تنہائي ميں اور دوسروں كى نظروں سے پوشيدہ ہونى چاہيئے_

١٤_ پندو نصيحت كو اس طرح ہونا چاہيئے كہ جو سننے والے پر اثر كرے_و قل لهم فى انفسهم قولاً بليغاً

يہ اس احتمال كے مطابق ہے كہ ''فى انفسھم'' ، ''بليغاً''كے متعلق ہو تو جملے كا معنى يوں ہوگا_ ان كے ساتھ ايسى بات كرو جو ان كے دل و روح ميں اتر جائے_

١٥_ معاشرے كے مختلف طبقات اور گروہوں كے ساتھ ان كے متعلق صحيح اطلاعات و آگاہى كے مطابق طرز عمل اپنا نا چاہيئے_اولئك الّذين يعلم الله ما فى قلوبهم فاعرض عنهم چونكہ خداوند متعال نے پہلے اپنے پيغمبر(ص) كو منافقين كے باطن اور نيّت سے آگاہ كيا ہے اور اسكے بعد ضرورى احكام اور ان كے ساتھ سلوك كے طريقے سے روشناس كرايا ہے_

١٦_ حكم خدا و رسول(ص) كى مخالفت كرنے والے منافقين سے دور رہنا اسلئے ضرورى ہے كہ وہ عذاب الہى ميں گرفتار ہوكر بدبخت و ذليل ہوجائيں گے_و اذا قيل لهم تعالوا الى ما انزل الله و الى الرّسول فاعرض عنهم

امام كاظم(ع) منافقين سے دورى اختيار كرنے كے ضرورى ہونے كى وجہ بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں :فقد سبقت عليهم كلمة الشّقاء و سبق لهم العذاب (١) كيونكہ ان كيلئے شقاوت و بدبختى اور عذاب كو لكھ ديا گيا ہے

آنحضرت (ص) : آنحضرت(ص) اور منافقين ١١، ١٢;آنحضرت(ص) سے روگردانى ٦; آنحضرت (ص) كى ذمہ داري٨، ٩; آنحضرت(ص) كے مخالفين ١٦

-اجتماعى روابط: ١٥

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا عذاب ١٦; اللہ تعالى كا علم غيب;اللہ تعالى كى تعليمات ١١

____________________

١)كافى ج٨ ص١٨٤ ح٢١١، تفسير برھان ج١ ص٣٨٧ ح٣ نورالثقلين ج١ ص٥٠٩ ح٣٦٨، تفسير عياشى ج١ ص٢٥٥ ح١٨٣.

۵۸۲

انسان: انسان كے اسرار٢

پشيماني: پشيمانى كا اظہار ٨،٩

خطا: خطا كا معاف كرنا ٨

روايت: ١٦

زيركي: زيركى كى اہميت ١٢

سنت: سنت سے روگردانى ٦

شرح صدر: شرح صدركى اہميت ١٠

طاغوت: طاغوت كى طرف رجوع ٨، ٩

عفو: عفو كى اہميت ١٠

قيادت: قيادت كى ذمہ دارى ١٠، ١٢;قيادت كى زيركى و ہوشيارى ١٢

منافقين: منافقين اور آنحضرت(ص) ٣،٦;منافقين سے روگردانى ١٦;منافقين كا جھوٹ بولنا ٤;منافقين كا خطرہ ١٦; منافقين كا خير خواہ ہونا ٤;منافقين كا طرز عمل ٤; منافقين كا عذاب ١٦; منافقين كا عمل ٣;منافقين كا مكر ١٢; منافقين كا نفاق، ٥; منافقين كو تنبيہ ، ٧; منافقين كو نصيحت ٩،١٣;منافقين كى پشيمانى ٩ ; منافقين كى صلح جوئي ٤ ; منافقين كى عذر خواہى ٣;منافقين كے اسرار ١; منافقين كے راز كا فاش كرنا ٧ ;منافقين كے ساتھ برتاؤ كى روش ١٣; منافقين كے ساتھ رويہ ١١

موعظہ: موعظہ كے آداب ١٤

موقف اختيار كرنا: ١٣

۵۸۳

آیت(۶۴)

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) اور ہم نے كسى رسول كوبھى نہيں بھيجا ہے مگر صرف اس لئے كہ حكم خداسے اس كى اطاعت كى جائے اور كاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم كيا تھا تو آپ كے پاس آتے او رخود بھى اپنے گناہوں كے لئے استغفار كرتے اور رسول بھى ان كے حق ميں استغفار كرتا تويہ خدا كو بڑاہى توبہ قبول كرنے والا اورمہربان پاتے _

١_ انبيائے الہى (ع) اسلئے مبعوث ہوئے ہيں كہ لوگ ان كى اطاعت كريں _و ما ارسلنا من رسول: الاّ ليطاع باذن الله

٢_ افعال الہى كا بامقصد و با ہدف ہونا_و ما ارسلنا الاّ ليطاع

٣_ فقط اذن الہى كى صورت ميں غيرخدا كى اطاعت جائز ہے_و ما ارسلنا من رسول: الاّ ليطاع باذن الله

٤_ پيغمبر(ص) كى اطاعت، خداوند متعال كى اطاعت كے بعد ہے_و ما ارسلنا من رسول الاّ ليطاع باذن الله

٥_ كوئي بھى حكومت اس وقت تك مشروع نہيں ہے جب تك قوانين الہى كے دائرے ميں نہ ہو_

و ما ارسلنا من رسول: الاّ ليطاع باذن الله

٦_ انصاف كيلئے طاغوت اور ظالم عدالتوں كى طرف رجوع كرنا، اپنے آپ كے ساتھ ظلم كے مترادف ہے_

يريدون ان يتحاكموا و لو انّهم اذ ظلموا انفسهم

٧_ فرامين پيغمبراكرم(ص) كى نافرماني، گناہ، نفاق اور اپنے اوپر ظلم ہے_و ما ارسلنا من رسول: الاّ ليطاع باذن الله و لو انهم اذ ظلموا انفسهم

۵۸۴

''ليطاع'' كے قرينےسے ''اذ ظلموا''ميں ظلم سے مراد، رسول خدا (ص) كى مخالفت ہے اورگذشتہ آيات كے پيش نظر كہ جن ميں رسول خدا (ص) سے اعراض كرنے والوں كو منافق كہا گيا ہے، كہہ سكتے ہيں رسول خدا (ص) كى مخالفت اور آپ(ص) سے اعراض و روگردانى ايك قسم كا نفاق ہے_

٨_ حاكميت پيغمبر(ص) كى مخالفت كے گناہ سے درگذر كرنا، آنحضرت(ص) كى حاكميت كو مكمل طور پر قبول كرنے سے مربوط ہے_يريدون ان يتحاكموا و لو انّهم اذ ظلموا انفسهم جاؤك فاستغفروا الله منافقين كا طاغوت كى طرف رجوع كرنا، حاكميت پيغمبراكرم (ص) كى مخالفت ہے_اور جملہ ''جاؤك ...''حاكميت پيغمبراكرم(ص) كو قبول كرنے سے كنايہ ہے_ چونكہ فقط آنحضرت(ص) كے نزديك آجانا تو اہميت نہيں ركھتا_

٩_ حاكميت پيغمبراكرم(ص) ، كى مخالفت كرنے والوں كے گناہ سے درگذر بارگاہ خدا ميں ان كى توبہ اور آنحضرت (ص) كى طرف سے انہيں قبول كئے جانے سے مربوط ہے_يريدون ان يتحاكموا و لوانهم اذ ظلموا لو جدوا الله توّاباً ہوسكتا ہے جملہ ''واستغفر لھم الرّسول''اس بات سے كنايہ ہو كہ ان كى توبہ كا قبول ہونا (لوجدوا الله توّاباً)اس صورت ميں ممكن ہے جب آنحضرت(ص) بھى ان كى توبہ كو قبول كريں _

١٠_ آنحضرت (ص) كى حاكميت كو نقض كرنے والوں كے گناہ سے درگذر كرنے كى شرط يہ ہے كہ خود پيغمبر(ص) بھى ان كيلئے استغفار كريں _و لوانهم اذ ظلموا و استغفر لهم الرّسول لوجدوا الله توّاباً

١١_ حاكميت اسلامى كى مخالفت كرنے والوں كى توبہ كو قبول كرنا رہبر و قائد كے اختيار ميں ہے_

و لو انهم جاؤك فاستغفروا الله و استغفر لهم الرّسول

١٢_ حاكميت اسلامى كى مخالفت كرنے والوں كى توبہ كى قبوليت، رہبر و قائد كے ہاتھ پر دوبارہ بيعت كرنے سے مربوط ہے_و لو انهم اذ ظلموا انفسهم جاؤك فاستغفروا الله و استغفر لهم الرّسول

١٣_ خداوند متعال كى جانب سے خطاكاروں كى توبہ قبول ہونے ميں ، پيغمبراكرم (ص) كے استغفار كا كردار_

فاستغفروا الله و استغفر لهم الرّسول لوجدوا الله تواباً رحيماً

١٤_ ارتكاب گناہ كى صورت ميں استغفار و توبہ اور گذشتہ

۵۸۵

خطاؤں كى تلافى كرنا ضرورى ہے_و لو انّهم اذ ظلموا انفسهم جاؤك آيت ميں جس گناہ كا ذكر ہورہا ہے وہ پيغمبراكرم(ص) سے اعراض و روگردانى كرنا ہے اور اس گناہ سے توبہ كى قبوليت كو آنحضرت(ص) كى طرف رجوع كرنے (جاؤك) سے مشروط قرار ديا گيا ہے كہ يہى گذشتہ خطا كى تلافى ہے_

١٥_ خطاكاروں حتي منافقوں كيلئے توبہ اور بازگشت كا راستہ كُھلا ہے_و لو انّهم اذ ظلموا انفسهم جاؤك لوجدوا الله تواباً رحيماً

١٦_ استغفار (گناہوں كى مغفرت طلب كرنا) ، رحمت الہى كے حصول، توبہ كى قبوليت اور گناہوں كى بخشش كا باعث ہے_فاستغفروا الله واستغفر لهم الرّسول لوجدوا الله توابا رحيماً

١٧_ خداوند متعال توّاب (توبہ قبول كرنے والا) اور رحيم (مہربان) ہے_لوجدوا الله تواباً رحيماً

١٨_ سب لوگوں حتي منافقوں كيلئے بھى قبوليت توبہ اور رحمت الہى كے نزول كى اميد ہے_

رايت المنافقين يصدّون فاستغفروا الله و استغفر لهم الرّسول لوجدوا الله توّاباً رحيماً

١٩_سرزنش كے بعد اميد پيدا كرنا، قرآنى تربيت و ہدايت كا ايك طريقہ ہے_اعرض عنهم و عظهم لوجدوا الله تواباً رحيماً

٢٠_ توبہ و استغفار ، خداوند متعال كى رحيميّت و توابيّت كو درك كرنے كا پيش خيمہ ہے_فاستغفروا الله و استغفر لهم الرّسول لوجدوا الله توابا رحيماً جملہ ''لوجدوا الله ''كا معنى يہ ہے كہ انسان اپنى توبہ كے بعد احساس كرنے لگتا ہے كہ خداوند متعال نے اسكے گناہوں كو بخشش ديا ہے اور وہ اپنے آپ كو گناہ كے بوجھ سے ہلكا سمجھنے لگتا ہے_

٢١_ بندوں پر رحمت الہى كے نزول ميں پيغمبراكرم(ص) كى شفاعت اوروسيلہ كا كردار_و لو انّهم اذ ظلموا و استفغر لهم الرّسول لوجدوا الله توّابا رحيماً

٢٢_ خداوند متعال كى بارگاہ ميں پيغمبراكرم(ص) كا بلند مقام و مرتبہ_واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توّاباً رحيماً

۵۸۶

يہ كہ خداوند متعال نے بندوں كى قبوليت توبہ كو ان كيلئے رسول اكرم(ص) كى طلب مغفرت سے مشروط قرار ديا ہے اس سے آنحضرت (ص) كا خداوند متعال كى بارگاہ ميں مقام و مرتبہ ظاہر ہوتا ہے_

٢٣_ خطا كاروں كى قبوليت توبہ ان سے مہر و محبت كے ساتھ ہونى چاہيئے_و لو انّهم اذ ظلموا انفسهم لوجدوا الله توّاباً رحيماً ''توّابا''كے بعد خداوند متعال كو ''رحيماً''سے متصف كرنا، ظاہر كرتا ہے كہ انسان جب كسى فرد كى خطا سے درگذر كرے تو پھر اس سے مہر و محبت كرنے سے دريغ نہ كرے_

٢٤_ قابليّت، صفات الہى كى تجلّى سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_واستغفر لهم الرّسول لوجدوا الله تواباً رحيماً

جملہ ''لوجدوا الله ''كا معنى يہ ہے كہ اگر گناہگار بندے توبہ و استغفار نہ كريں يعنى ان ميں قابليت و صلاحيت نہ ہو تو خداوند متعال كے ''توّاب''اور ''رحيم''ہونے كو پانہيں سكتے اور يہ (توابيت و رحيميت خداوند) ان كے شامل حال نہيں ہوتى نہ يہ كہ خداوند متعال توّاب و رحيم نہيں _

٢٥_ انسان اور رحمت الہى كے جلوہ سے بہرہ مند ہونے كے درميان ايك حجاب ،گناہ ہے_

و لو انّهم اذ ظلموا لوجدوا الله تواباً رحيماً

آنحضرت (ص) : آنحضرت (ص) كا استغفار ١٠، ١٣; آنحضرت(ص) كا تقرب ٢٢; آنحضرت(ص) كى اطاعت ٤، ٨; آنحضرت (ص) كى حكومت ٨،٩،١٠;آنحضرت (ص) كى شفاعت كا كردار ٢١; آنحضرت (ص) (ص) كے حكم كى نافرماني٨، ٩،١٠; آنحضرت(ص) كے فضائل ٢٢

استغفار: استغفار كى اہميت ١٤; استغفار كے اثرات ١٦، ٢٠

اسما و صفات: توّاب ١٧; رحيم ١٧

اطاعت: اطاعت كے اثرات ٨;غير خدا كى اطاعت ٣

اللہ تعالى: اللہ تعالى كااذن ٣;اللہ تعالى كى اطاعت ٤، اللہ تعالى كى توابيت ١٧، ٢٠; اللہ تعالى كى رحمت ٢٠; اللہ تعالى كى رحمت كى عموميت ١٨; اللہ تعالى كى رحمت كے موانع ٢٥; اللہ تعالى كى رحمت كے موجبات ١٦، ٢١; اللہ تعالى

۵۸۷

كى صفات كى تجلى ٢٤; اللہ تعالى كى مہربانى ١٧; اللہ تعالى كے افعال كا بامقصد ہونا ٢

اميدواري: اميدوارى كى اہميت ١٨، ١٩

انبيا(ع) : انبيا(ع) كى اطاعت ١; انبيا (ع) كى بعثت كا فلسفہ ١

تربيت: تربيت كا طريقہ ١٩; تربيت ميں اميدوار ہونا ١٩; تربيت و سرزنش ١٩

توبہ: توبہ قبول ہونا ١١، ١٢، ١٣، ١٦، ١٨;توبہ كى اہميت ١٤; توبہ كے اثرات ٩،٢٠; توبہ كے قبول ہونے كے آداب ٢٣;

حكومت: اسلامى حكومت كو ردّ كرنا ١١،١٢;حكومت كى مشروعيت كا معيار ٥

طاغوت: طاغوت كى طرف رجوع كرنا ٦; طاغوت كى قضاوت٦

ظلم: اپنے اوپر ظلم ٦، ٧ ;ظلم كے موارد٦

عدالت : بے صلاحيت عدالت ٦

عفو: عفو كى شرائط ١٠

قيادت: قيادت سے بيعت ١٢; قيادت كا كردار ١١

گناہ: گناہ سے توبہ ١٤; گناہ سے درگذر ٨، ٩، ١٠;گناہ كى تلافى ١٤ ; گناہ كى مغفرت ١٦;گناہ كے اثرات ٢٥; گناہ كے موارد ٧

گناہگار: گناہگار كى توبہ ١٥، ٢٣

لياقت : لياقت كا كردار ٢٤

مقربين: ٢٢

منافقين: منافقين كى توبہ ١٥، ١٨

نفاق: نفاق كے موارد ٧

۵۸۸

آیت(۶۵)

( فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّیَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا ) پس آپ كے پروردگار كى قسم كہ يہ ہرگز صاحب ايمان نہ بن سكيں گے جب تك آپ كو اپنے اختلافات ميں حصكصمنہ بنائيں اورپھر جب آپ فيصلہ كرديں تو اپنے د ل ميں كسى طرح كى تنگى كا احساس نہ كريں او رآپ كے فيصلہ كے سامنے سراپا تسليم ہو جائيں _

١_ جن لوگوں نے اختلافات كے حل كيلئے حاكميت پيغمبراكرم (ص) كو قبول نہيں كيا، ان كى بے ايمانى پر خداوند متعال كا قسم كھانا_فلا و ربّك لايؤمنون حتّي يحكموك فيما شجر بينهم

٢_ خدا تعالى كا پيغمبراكرم (ص) كى نسبت اپنى ربوبيت ،كى قسم كھانا_فلا و ربّك

٣_ خداوند متعال ، پيغمبر(ص) كا مربى اور تربيت كرنے والا ہے_فلا و ربّك

٤_ خداوند متعال كى بارگاہ ميں پيغمبراكرم(ص) كا بلند و بالا مقام و مرتبہ_فلا و ربّك ضمير خطاب كى طرف ''ربّ''كا اضافہ، اضافہ تشريفيّہ ہے اور مخاطب كے بلند مقام و مرتبے كو ظاہر كرتا ہے_

٥_ لوگوں كا فريضہ ہے كہ وہ ہر قسم كے اختلافات اور تنازعات كے حل كيلئے قضاوت و انصاف كى خاطر پيغمبراكرم (ص) كى طرف رجوع كريں _فلا و ربّك لايؤمنون حتّي يحكّموك فيما شجر بينهم

٦_ حكومت اور مقام قضاوت كيلئے پيغمبراكرم (ص) كى

۵۸۹

تربيت كا سرچشمہ ،ربوبيت الہى ہے_فلا و ربّك لايؤمنون حتّى يحكموك مندرجہ بالا مطلب كلمہ ''ربّ''كے استعمال اور ضمير خطاب كى طرف اسكے مضاف ہونے سے اخذ كيا گيا ہے_

٧_ قضاوت ، پيغمبر اسلام(ص) اور ديگر الہى رہبروں كا كام ہے _فلا و ربك لايؤمنون حتّي يحكموك فيما شجر بينهم

٨_ اختلافات ميں پيغمبراكرم(ص) كى حاكميت قضاوت كو قبول كرنا اور قلبى طور پر آنحضرت(ص) كے حكم كو قبول كرنا ايمان كى علامات ميں سے ہے_فلا و ربّك لايؤمنون حتّي يحكموك فيما شجر بينهم ثمّ لايجدوا فى انفسهم حرجاً مما قضيت

٩_ اختلافات كے حل كيلئے پيغمبراكرم(ص) كے علاوہ كسى اور كى طرف رجوع كرنا، بے ايمانى كى علامت ہے_

فلا و ربّك لايؤمنون حتّي يحكموك فيما شجر بينهم

١٠_ اختلافات ميں پيغمبراكرم(ص) كے فيصلے سے ناخوش ہونا، بے ايمانى كى علامت ہے_ثم لايجدوا فى انفسهم حرجاً مما قضيت ''حرج''كا معنى تنگى وضيق ہے اور نفس ميں حرج يعنى دل تنگى اور ناخوشي_

١١_ پيغمبراكرم(ص) اور آپ(ص) كے احكام قضائي كے سامنے ہر لحاظ سے سر تسليم خم كرنا، ايمان كى علامتوں ميں سے ہے_فلا و ربّك لايؤمنون حتّي يحكّموك و يسلّموا تسليماً

١٢_ ہر لحاظ سے احكام الہى كے سامنے سر تسليم خم كرنا، ايمان كى علامتوں ميں سے ہے_فلا و ربّك لايؤمنون حتّي يحكّموك و يسلّموا تسليما جملہ ''فلا و ربّك'' كو گذشتہ آيات (اطيعوا الله ...) ميں بيان شدہ مطالب پر متفرع كرنا، يہ ظاہر كرتا ہے كہ پيغمبر(ص) كے قضائي احكام كے سامنے سرتسليم خم كرنے كا معيار، فرامين خدا كى پيروى كرنا ہے_

١٣_ پيغمبراكرم(ص) كے احكام قضائي كے سامنے سر تسليم خم نہ كرنا، بے ايمانى كى علامت ہے_

فلا و ربّك لايؤمنون حتّي يحكّموك و يسلّموا تسليما

١٤_ برحق حكمرانوں كے عدل و انصاف اور احكام كے سامنے سر تسليم خم كرنا ايمان كى نشانيوں ميں سے ہے_*

فلا و ربّك لايؤمنون حتّي يحكّموك و يسلّموا تسليماً

چونكہ امر قضاوت تو ہميشہ پيش آتا ہے اور احكام

۵۹۰

قرآن بھى دائمى ہيں جبكہ پيغمبراكرم(ص) ہر زمانے ميں موجود نہيں ہيں _ بنابرايں مذكورہ آيت تمام الہى رہبروں اور آنحضرت(ص) كے برحق جانشينوں كو شامل ہے_

١٥_ الہى رہبروں كے سامنے سر تسليم خم كرنا ضرورى ہے_*فلا و ربّك لايؤمنون حتي يحكّموك و يسلّموا تسليماً

١٦_ بندگي خدا كا دعوي كرنے والوں كى جانب سے افعال الہى كى كيفيت اور پيغمبر اكرم(ص) كے كردار و طرز عمل ميں شك و ترديد پر مبنى عقائد و اقوال ، شرك كى علامت ہيں _لايؤمنون حتّي يحكّموك و يسلّموا تسليما

امام صادق(ع) نے فرمايا:لو اصنّ قوماً عبدواالله ثم قالوا لشيء صنعه الله و صنعه رسول الله اصلاّ صنع خلاف الذى صنع؟ او وجدوا ذلك فى قلوبهم لكانوا بذلك مشركين _ اسكے بعد آپ(ص) نے مذكورہ بالا آيت كى تلاوت فرمائي_(١) اگر كوئي قوم اللہ كى عبادت كرے پھر اللہ اور اللہ كے رسول كے كام كے بارے ميں ك ہے كہ اس كام كو اس طرح انجام كيوں نہيں ديا؟ يا اسے دل ميں سوچے تو وہ مشرك ہوجائے گا_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) اور حل اختلاف ٥; آنحضرت (ص) كا تقرب ٤ ; آنحضرت(ص) كا مربى ٣، ٦; آنحضرت (ص) كى حكومت٦; آنحضرت كى قضاوت، ٥، ٦،٧،١٠، ١١ ; آنحضرت(ص) كى قضاوت قبول كرنا ٨ ; آنحضرت (ص) كى قضاوت كو ردّ كرنا ١، ١٣; آنحضرت (ص) كے بارے ميں شك ١٦; آنحضرت كے حكم كى نافرمانى كرنا ٩، ١٣; آنحضرت(ص) كے سامنے سر تسلم خم كرنا ١١;آنحضرت(ص) كے فضائل ٢، ٤، ٦

اختلاف: حل اختلاف كا مرجع ٨، ٩

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى ربوبيت ٢، ٣، ٦;اللہ تعالى كى قسم ١، ٢; اللہ تعالى كے افعال ميں شك ١٦

ايمان: ايمان كے اثرات ٨، ١١، ١٢، ١٤

روايت: ١٦

شرعى فريضہ :

شرعى فريضے پر عمل٢

____________________

١)كافى ج١ ص٣٩٠ ح٢ نورالثقلين ج١ ص٥١١ ح٣٧٤ تفسير عياشى ج١ ص٢٥٥ ح٣٧٤.

۵۹۱

شرك: شرك كى علامتيں ١٦

قيادت: برحق قيادت١٤ دينى قيادت ١٥;قيادت كى قضاوت ٧;قيادت كى قضاوت كو قبول كرنا ١٤ ; قيادت كے اختيارات ٧; قيادت كے سامنے سر تسليم خم كرنا ١٤، ١٥

كفار: ١

كفر: كفر كى علامتيں ٩، ١٠، ١٣

لوگ : لوگوں كى ذمہ داري٥

مقربين: ٤

آیت( ۶۶)

( وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُواْ مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلاَّ قَلِيلٌ مِّنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُواْ مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا )

اوراگر ہم ان منافقين پر فرض كرديتے كہ اپنے كو قتل كر ڈاليں يا گھر چھوڑ كر نكل جائيں تو چند افراد كے علا وہ كوئي عمل نہ كرتا حالانكہ اگر يہ اس نصيحت پر عمل كرتے تو ان كے حق ميں بہترہى ہو تا اور ان كو زيادہ ثبات حاصل ہوتا _

١_ خداوند متعال نے ہرگز امت اسلام كو خودكشى كرنے اور گھر بار چھوڑ نے كا حكم نہيں ديا_

و لو انّا كتبنا عليهم ان اقتلوا انفسكم او اخرجوا من دياركم گھر بار چھوڑنے سے مراد جوكہ ''اخرجوا من دياركم'' كے كلمات كے ساتھ بيان ہوا ہے، وہ معنى ہے جس پر ہجرت كا اطلاق نہيں ہوتا_

٢_ خداوند متعال كے تمام فرامين حتى خودكشى اور گھر بار چھوڑنے تك كے فرمان كے سامنے سر تسليم خم كرنا ضرورى ہے_و يسلّموا تسليما _ و لو انا كتبنا عليهم ان اقتلوا انفسكم او اخرجوا من دياركم

٣_ اگر خداوند متعال ، خودكشى كرنے يا گھر بار چھوڑنے كا

۵۹۲

حكم ديتا تو بہت تھوڑے لوگ اسے قبول كرتے_و لو انا كتبنا عليهم ان اقتلوا انفسكم ما فعلوه الا قليل منهم

٤_ خداوند متعال نے ہرگز خودكشى يا گھر بار چھوڑنے كو، مسلمان كى توبہ قبول ہونے كى شرط قرار نہيں ديا_

و لو ا نّصهم اذ ظلموا انفسهم و لو انا كتبنا عليهم ان اقتلوا انفسكم او اخرجوا من دياركم گذشتہ آيات كے پيش نظركہ جن ميں قبوليت توبہ كى شرط، رسول خدا (ص) كے حضور حاضر ہونا تھا_ يہاں ہم كہہ سكتے ہيں يہ آيت، مسلمانوں كى توبہ كے خودكشى اور گھر بار چھوڑنے سے مشروط ہونے كى نفى كررہى ہے جبكہ بعض گذشتہ امتوں كى توبہ كى قبوليت بعض صورتوں ميں ان دو امور كے ساتھ مشروط تھي_

٥_ اگر قبوليت توبہ، خودكشى يا گھر بار چھوڑنے سے مشروط ہوتى تو سوائے چند افراد كے، سب لوگ اس سے روگرداں ہوجاتے_و لو انّهم اذ ظلموا انفسهم جاؤك فاستغفروا الله و لو انّا كتبنا ما فعلوه الا قليل منهم

٦_ لوگوں كى اكثريت، اپنے عزيز و اقارب كے ساتھ جنگ و نبرد كرنے اور راہ خدا ميں ہجرت كرنے كيلئے آمادہ نہيں ہوتى _*و لو كتبنا عليهم ان اقتلوا انفسكم اواخرجوا من دياركم ما فعلوه الا قليل منهم بعض كى رائے ہے كہ ''اقتلوا انفسكم''سے مراد جہاد اور ''اخرجوا من دياركم''سے مراد ہجرت ہے اور جہاد كو قتل نفس سے اسلئے تعبير كيا گيا ہے كہ نزول آيت كے زمانے ميں غالباً مسلمانوں كو اپنے عزيز و اقارب كے ساتھ لڑنا پڑتا تھا_

٧_ انسان كا اپنے آپ ، اپنے شہر اور وطن (گھربار) سے وابستہ ہونا خداوند متعال كے سامنے سرتسليم خم كرنے سے مانع بنتا ہے_و يسلّموا تسليما_ و لو انا كتبنا ما فعلوه الا قليل منهم

٨_ خداوند متعال كى طرف سے اوامر و نواہى كو انسانوں كے مصالح و مفاسد كى بنياد پر قرار ديا گيا ہے_

و لو انّهم فعلوا ما يوعظون به لكان خيراً لهم

٩_ انسان كى سعادت اور بھلائي، احكام الہى پر عمل كرنے سے مربوط ہے_

و لو انّهم فعلوا ما يوعظون به لكان خيرا لهم

١٠_ احكام الہي(اوامر و نواہي) خداوند متعال كے مواعظ ہيں _و لو انّهم فعلوا ما يوعظون به لكان خيراً لهم

۵۹۳

١١_ الہى احكام و مواعظ پر عمل كرنے كے نتيجے ميں ، ايمان ميں ثبات و پائيدارى كاحاصل ہونا_و لو انهم فعلوا ما يوعظون به لكان خيراً لهم و اشدّ تثبيتا گذشتہ آيات كے قرينے سے ''تثبيتاً''كا متعلق، ايمان كو بنايا گيا ہے_

١٢_ پيغمبراكرم(ص) كى طرف قضاوت كيلئے رجوع كرنا، آنحضرت(ص) كے حكم پر خوشى كا اظہار كرنا اور آپ(ص) كے سامنے كامل طور پرسر تسليمخم كرنا، ايمان ميں پائيدارى اور سعادت كا موجب بنتا ہے_فلا و ربّك و لو انهم فعلوا ما يوعظون به لكان خيراً لهم و اشدّ تثبيتاً يہ اس بنا پر ہے كہ ''ما يوعظون'' سے مرادگذشتہ آيت ميں مذكورہ مطالبہوں نہ ہجرت اور قتل _

١٣_ خدا اور رسول اكرم(ص) كے فرمان سے تخلف كرنے والوں كى سعادت اور ايمان ميں ان كا ثبات اس بات سے مربوط ہے كہ وہ پيغمبراكرم(ص) كے حضور حاضر ہوكر، آنحضرت(ص) كى شفاعت كے ذريعہ غفران الہى كى درخواست كريں _و لو انّهم اذ ظلموا انفسهم و لو انّهم فعلوا ما يوعظون به لكان خيراً لهم و اشد تثبيتاً

١٤_ نفس انسان پر، عمل كا اثر انداز ہونا_و لو انّهم فعلوا و اشد تثبيتاً

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى قضاوت كوقبول كرنا ١٢; آنحضرت(ص) كے سامنے سرتسليم خم كرنا ١٢; آنحضرت (ص) كے فضائل ١٣

اجتماعى گروہ: ٣، ٥

احكام: فلسفہ احكام ٨

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا موعظہ ١٠، ١١ ;اللہ تعالى كى اطاعت ٣; اللہ تعالى كى طرف سے مغفرت ١٣; اللہ تعالى كے اوامر ١، ٣، ١٠; اللہ تعالى كے اوامركے مصالح ٨; اللہ تعالى كے حكم كى نافرمانى ١٣;اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم كرنا ٢; اللہ تعالى كے نواہى ٨، ١٠

ايمان: ايمان ميں استقامت١١;ايمان ميں استقامت كے اسباب ١٢

توّابين: ٥

توبہ: توبہ كے موانع ٥; جلاوطنى كے ذريعے توبہ ٥;خودكشى

۵۹۴

كے ذريعے توبہ ٥;قبولى توبہ كى شرائط٤

خلاف ورزى كرنے والے: خلاف ورزى كرنے والوں كى توبہ ١٣

سرتسليم خم كرنا: سر تسليم خم كرنے كى اہميت ٢; سر تسليم خم كرنے كے موانع ٧

سعادت: سعادت كے اسباب ٩، ١٢، ١٣

شرعى فريضہ : شرعى فريضہ پر عمل كے اثرات ٩، ١١

عمل: عمل كے اثرات١٤

لوگ: لوگوں كى اكثريت ٦

مسكن: مسكن سے وابستگى ٧

وابستگي: وابستگى كے اثرات ٧

وطن: وطن سے محبت ٧

ہجرت: راہ خدا ميں ہجرت ٦

آیت ( ۶۷)

( وَإِذاً لَّآتَيْنَاهُم مِّن لَّدُنَّـا أَجْراً عَظِيمًا ) او رہم انھيں اپنى طرف سے اجر عظيم بھى عطا كرتے _

١_ پيغمبراكرم(ص) كى طرف قضاوت كيلئے رجوع كرنا اور آپ(ص) كے حكم و قضاوت سے دل تنگ و پريشان نہ ہونا، عظيم اجر الہى كا موجب بنتا ہے_فلا و ربّك اذاً لاتيناهم من لُّدنا اجراً عظيماً يہ مطلب اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ ''ما يوعظون'' سے مراد وہى مسائل ہوں جو آيت نمبر ٦٥ ميں بيان ہوئے ہيں _

٢_ احكام خداوند متعال كے سامنے ہر لحاظ سے سر تسليم خم كرنے اور اسكے مواعظ پر عمل كرنے كے نتيجے ميں عظيم اجر الہى حاصل ہوتا ہے_و يسلموا تسليما و لو انّهم فعلوا ما يوعظون به و إذاً لاتيناهم من لّدنا اجراً عظيماً

٣_ جانبازى اور ہجرت (راہ خدا ميں فداكارى اور

۵۹۵

مشكلات برداشت كرنا) عظيم اجر الہى كا موجب ہے_*و لو انّهم فعلوا ما يوعظون و اذاً لاتيناهم من لدنا اجراً عظيماً يہ اس بنا پر ہے كہ ''ما يوعظون''سے مراد وہى جہاد و ہجرت ہوں جو گذشتہ آيت ميں بيان ہوئے ہيں _

٤_ ايمان ميں ثابت قدم رہنے والے لوگ، خداوند متعال كے خاص اور عظيم اجر سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

اشدّ تثبيتا_ و اذا لا تيناهم من لّدنا اجراً عظيماً مذكورہ بالا مطلبميں''اذاً لا تيناهم' 'كو ''اشدّ تثبيتاً ''كا نتيجہ قرار ديا گيا ہے_

آنحضرت (ص) : آنحضرت (ص) كى قضاوت كو قبول كرنا ١

اجر: اجر كے مراتب ١، ٢، ٣، ٤ ; اجر كے موجبات ١، ٣، ٤

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا موعظہ ٢; اللہ تعالى كى طرف سے اجر ١، ٣، ٤ ; اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم كرنا٢

ايثار: ايثار كا اجر ٣

ايمان: ايمان ميں استقامت ٤

سرتسليم خم كرنا: سرتسليم خم كرنے كا اجر ٢

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كرنے كا ثواب ٢

صابرين: صابرين كا اجر و ثواب ٤

ہجرت: ہجرت كا اجر ٣

آیت(۶۸)

( وَلَهَدَيْنَاهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا )

او رانھيں سيدھے راستہ كى ہدايت بھى كرديتے _

١_ الہى احكام و مواعظ پر عمل كرنے كے نتيجے ميں صراط مستقيم كى طرف ہدايت پانا_

۵۹۶

و لو انّهم فعلوا ما يوعظون به و لهديناهم صراطاً مستقيماً

٢_ صراط مستقيم پر چلنے اور ہدايت حاصل كرنے كے اسباب ميں سے ايك قضاوت كيلئے پيغمبراكرم(ص) كى طرف رجوع كرنا ، آپ(ص) كے حكم پر راضى رہنا اور آپ(ص) كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہے_

حتّي يحكموك و لو انّهم فعلوا ما يوعظون به و لهدينا هم صراطاً مستقيماً يہ اس بنا پر ہے كہ ''ما يوعظون بہ ...''سے مراد وہى مسائل ہوں جو آيت نمبر٥ ٦ ميں بيان ہوئے ہيں يعنى پيغمبر(ص) كى حاكميت اور كو قبول كرنا_

٣_ صراط مستقيم تك رسائي; راہ خدا ميں مشكلات براداشت كرنے ، فداكارى و ايثار، ہجرت اور جاں نثارى كے زير سايہ ہى امكان پذير ہے_و لو انّا كتبنا و لو انّهم فعلوا ما يوعظون به و لهديناهم صراطاً مستقياً

يہ اس بنا پر ہے كہ ''ما يوعظون بہ''سے مراد وہى ہجرت و جہاد ہو كہ جس كا ذكر آيت نمبر ٦٦ ميں كيا گيا ہے_

٤_ صراط مستقيم كى طرف ہدايت اور اس كا حصول، ايمان ميں ثبات و پائيدارى كا نتيجہ ہے_

و لو انّهم فعلوا ما يوعظون به لكان خيراً لهم و اشدّ تثبيتاً و اذاً و لهدينا هم صراطا مستقيماً

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ ''و لھديناھم''كو ''اشدّ تثبيتاً''كے نتيجہ كے طور پر ليا گيا ہے_

٥_ صراط مستقيم پر فائز ہونے ميں ايك بڑى ركاوٹ، دنيا سے وابستہ ہونا، مواعظ الہى سے بے اعتنائي برتنا اور احكام پيغمبراكرم(ص) كى پيروى نہ كرنا ہے_فلا و ربك و لو انّا كتبنا و لو انهم فعلوا و لهدينا هم صراطاً مستقيماً

٦_ خداوند متعال انسانوں كو صراط مستقيم كى طرف ہدايت كرنے والا ہے_و لهدينا هم صراطاً مستقيماً

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى قضاوت قبول كرنا ٢; آنحضرت (ص) كے حكم كى نافرمانى كرنا ٥; آنحضرت(ص) كے سامنے سرتسليم خم كرنا ٢

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا موعظہ ١; اللہ تعالى كى طرف سے ہدايت٦

ايمان: ايمان ميں استقامت كے اثرات ٤

۵۹۷

ايثار: ايثار كے اثرات ٣

دنيا پرستي: دنيا پرستى كے اثرات ٥

سختي: سختى كے وقت استقامت ٣

شرعى فر يضہ: شرعى فريضہ پر عمل كے اثرات ١

صراط مستقيم: ١، ٢، ٣، ٤، ٦ صراط مستقيم كے موانع ٥

عصيان: عصيان كے اثرات ٥

ہجرت: ہجرت كے اثرات ٢

ہدايت: ہدايت كے اسباب ١، ٢، ٣، ٤،٦ ;ہدايت كے موانع ٥

آیت(۶۹)

( وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا ) او رجو بھى الله اور رسول كى اطاعت كرے گاوہ ان لوگوں كے ساتھ ر ہے گا جن پر خدا نے نعمتيں نازل كى ہيں انبياء ،صديقين ، شہداء اور صالحين او ريہى بہترين رفقاء ہيں _

١_ انبيا (ع) ، صديقين، شہدا اور اعمال پر گواہ اور صالحين كى ہمراہى ، خدا و رسول(ص) كى اطاعت كرنے كا اجر و ثواب ہے_و من يطع الله والرسول والصالحين ''صديق'' يعنى بہت سچ بولنے والا، شايد اس كا مبالغہ ہونا، قول و فعل ميں ان كى صداقت كى طرف اشارہ ہے_ بعض كى رائے ہے كہ صديقين سے مراد وہ لوگ ہيں جنہوں نے سب سے پہلے انبياء (ع) كى تصديق كي_ اور شہداء سے مراد راہ خدا ميں قتل ہونے والے يا انسانوں كے اعمال پر گواہ

۵۹۸

افراد يا دين كے حقيقى علما ہيں _

٢_ خداوند متعال كى بارگاہ ميں رسول خدا (ص) كا بلند مقام و مرتبہ _و من يطع الله والرّسول

اطاعت پيغمبر اكرم(ص) كا اطاعت خداوند متعال كے بعد قرار پانا، آنحضرت(ص) كى عظمت و مقام كو ظاہر كرتا ہے_

٣_ اطاعت رسول(ص) وہى اطاعت خدا ہے_و من يطع الله والرّسولّ

٤_ انبياء (ع) ،صديقين، شہداء اور صالحين كا عظيم نعمت الہى سے بہرہ مند ہونا_و من يطع الله والرسول فاولئك مع الذين انعم الله عليهم والصالحين جمله ''انعم الله عليهم'' ميں اسم جلالہ ''الله ''كى تصريح، اس نعمت كى عظمت كى طرف اشارہ ہے_

٥_ انبيا (ع) ، صديقين، شہدا ء اور صالحين صراط مستقيم پر چلنے والے اور ہدايت خاص سے بہرہ مند افراد ہيں _

و لهديناهم صراطاً مستقيما_ و من يطع الله والرّسول فاولئك مع الذين انعم الله عليهم گذشتہ آيت كے پيش نظر جس ميں اطاعت گذاروں كو، صراط مستقيم پر چلنے والا كہا گيا ہے اور اس آيت ميں انہيں انبيا(ع) اور كا ساتھى كہا گيا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انبيا (ع) اور ...صراط مستقيم پر چلنے والے ہيں _

٦_ خدا و رسول(ص) كے پيروكار، جنت ميں انبيا(ع) ، صديقين، شہداء اور صالحين كے ہم نشين ہوں گے_

و من يطع الله فاولئك مع الذين انعم الله عليهم من النّبيين والصالحين چونكہ انبيا(ع) كى ہم نشينى ان كے سب پيروكاروں كو دنيا ميں نصيب نہيں ہوسكتى لہذا آخرت اور جنت ميں ہى يہ ہم نشينى حاصلہوگي_

٧_ پيغمبرہونا، صديق، شاہد اور صالح ہونا ايك بلند مقام و مرتبہ اور عظيم نعمت ہے_*فاولئك مع الذين انعم الله عليهم من النّبيين والصالحين يہ اس احتمال كى بنا پر ہے كہ ''انعم الله عليھم'' ميں نعمت سے مراد مقام نبوت اور ہو_

٨_ مقام و مرتبے كے لحاظ سے انبياء (ع) كو صديقين پر، صديقين كو شہداء پر اور شہدا ء كو صالحين پر برترى حاصل ہے_فاولئك مع الذين انعم الله عليهم من النّبيّين والصالحين

درجات كى ترتيب، آيت ميں ذكر شدہ ترتيب سے ماخوذ ہے_

۵۹۹

٩_ انبيا(ع) ،صديقين، شہدا اور صالحين كى ہم نشينى كا بہشت ميں الہى نعمتوں ميں سے ہونا_

فاولئك مع الذين انعم الله عليهم يہ كہ انبياء (ع) اور كى ہم نشيني، خدا و رسول(ص) كے پيروكاروں كيلئے جزا شمار كى گئي ہے، اسى سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

١٠_ انبيا(ع) ، صديقين، شہدا اور صالحين كا مقام و مرتبہ، خدا و رسول(ص) كے اطاعت گذاروں كے مقام و مرتبے سے بلند ہے_و من يطع الله والرّسول فاولئك الصالحين

١١_ انبيا(ع) ، صديقين، شہدا (اعمال پر گواہ افراد يا علما يا راہ خدا ميں قتل ہونے والے افراد) اور صالحين كا بلند مقام و مرتبہ _فاولئك مع الذين انعم الله عليهم من النّبيين والصديقين والشهداء والصالحين

١٢_ انبيا(ع) ، صديقين، شہدا اور صالحين، خدا و رسول(ص) كے اطاعت گذار بندوں كيلئے بہترين دوست اور ہمنشين ہيں _و من يطع الله و الرسول و حسن اولئك رفيقاً

١٣_ انسان كے ليے اچھے دوست و ہمنشين كى بڑى قدر قيمت _و من يطع الله والرّسول و حسن اولئك رفيقاً

چونكہ انبيا (ع) اور ...كے ساتھ رفاقت اور ہم نشينى كو اطاعت گزار بندوں كا اجر قرار ديا گيا ہے جس سے نيك افراد كے ساتھ رفاقت و ہم نشينى كى قدر و منزلت ظاہر ہوتى ہے_

١٤_ رفيق اور دوست كے انتخاب كا معيار، صداقت، علم اور خيرو صلاح ہے_و حسن اولئك رفيقاً اس مطلب ميں ''شہدائ''سے مراد علما ہيں _

آنحضرت (ص) : آنحضرت (ص) كا تقرب٢; آنحضرت(ص) كى اطاعت ٣، ٦، ١٠، ١٢; آنحضرت (ص) كے فضائل٢

اطاعت: اطاعت كى جزا ١

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى اطاعت ١، ٣، ٦، ١٠،١٢; اللہ تعالى كى نعمات ٧، ٩

انبيا (ع) : انبيا كى ہم نشينى ١، ٦، ٩، ١٢;انبيا كے فضائل ٤،٥، ٨،

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797