تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 172651
ڈاؤنلوڈ: 4217


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172651 / ڈاؤنلوڈ: 4217
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

بزم ميں بادہ خوارى ميں مشغول رہتا اور گستاخى سے كہتا تھا:

'' اگر دين احمد ميں شراب حرام ہے تو اس كو دين مسيح بن مريم ميں پيو''(۸)

يزيد مسيحيت كى تعليمات كى اساس پر پلا تھا اور وہ دل سے اس كى طرف مائل تھا_(۹)

اور دين اسلام سے اس كا كوئي ربط نہيں تھا جبكہ اسلام كى بنياد پروہ لوگوں پر حكومت كرناچاہتا تھا_ اس طرح سے جو نقصانات اسلام كو معاويہ كے زمانہ ميں پس پردہ پہنچ رہے تھے اب وہ يزيد كے ہاتھوں آشكار طور پرپہنچ رہے تھے_

اپنى حكومت كے پہلے سال اس نے حسين ابن علىعليه‌السلام اور ان كے اصحاب كو شہيد كيا ان كے اہل بيت كو اسير كيا_

حكومت كے دوسرے سال اس نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے شہر _مدينہ_ كے لوگوں كے مال اور ناموس كو اپنے لشكر والوں پر مباح كرديا اور اس واقعہ ميں چارہزار آدميوں كو اس نے قتل كيا_

تيسرے سال خانہ كعبہ _ مسلمانوں كے قبلہ_ پر اس نے منجنيق سے سنگ بارى كى _

ايسے سياسى اور اجتماعى حالات ميں حسينعليه‌السلام ابن علىعليه‌السلام نے انقلاب كے لئے حالات كو مكمّل آمادہ پايا_ اب بنى اميہ كے مزدور، عمومى افكار كو قيام حسينعليه‌السلام ابن عليعليه‌السلام كے مقاصد كے بارے ميں بدل كر اس كو '' قدرت و تسلط كے خلاف كشمكش'' كے عنوان سے نہيں پيش كرسكتے تھے اس لئے كہ بہت سے لوگ يہ ديكھ رہے تھے كہ حكومت كى رفتار دينى ميزان اور الہى تعليمات كے خلاف ہے_

اور يہ بات خود مجوّز تھى كہ حسينعليه‌السلام ابن علىعليه‌السلام اپنے سچے اصحاب كو جمع كريں اور حكومت كے خلاف قيام كريں ايسا قيام جس كا مقصد اسلام اور سيرت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زندہ كرنا تھا نہ كہ خلافت اور قدرت حاصل كرنا_

۱۰۱

انقلاب كى ماہيت

امام حسينعليه‌السلام كى تحريك ميں ايك اہم مسئلہ اس كى كيفيت و ماہيت كا تجزيہ ہے_ آيا امام حسينعليه‌السلام كا اقدام ايك انقلاب تھا يا ايك اتفاقى دھماكہ تھا؟ كچھ لوگ جو انسانى مقدس واقعات كو ہميشہ محدود اور مادى ترازو پر تولتے ہيں وہ قيام كربلا كى تفسير و تعبير اپنى نادانى اور جہالت كى بناء پر ايك حادثاتى دھماكے سے كرتے ہيں _(۱۰) اس سلسلہ ميں كہتے ہيں كہ كبھى مادى واقعا ت ميں تدريجى تغيرات اس حد تك پہنچ جاتے ہيں كہ وہ واقعہ ديگر تغيرات كو قبول نہيں كرسكتا، انجام كار جزئي تغيرات ايك نئي چيز كو وجود ميں لاتے ہيں يہ قانون، معاشرہ اور تاريخ ميں حاكم ہے_ معاشرہ ايك حدتك ظالموں كے ظلم كو قبول كرتا ہے جب وہ اس مرحلہ ميں پہنچ جاتا ہے كہ اب اس سے قبوليت كى توانائي ختم ہوجاتى ہے تو نتيجہ ميں حكومت كرنے والے نظام كے خلاف ايك دھماكہ كى شكل ميں انقلاب آجاتا ہے _

اس بنياد پر لوگ كہتے ہيں كہ : '' اميرالمؤمنينعليه‌السلام كى شہادت كے بعد اموى مشينرى كا مسلمان ملت پر دباؤ بڑھ گيا تھا اور معاويہ كے مرنے كے بعد اس كے بيٹے يزيد نے اس دباؤ كو دوگنا كرديا تھا اس فشار كى بناپر حسينعليه‌السلام كے صبر كا پيمانہ لبريز ہوگيا اور ان كا قيام اسى دھماكہ كا پيش خيمہ تھا_

امام حسينعليه‌السلام كى تحريك كے بارے ميں ايسے فيصلے كا سوتا مادى تجزيہ كرنے والوں كے عقيدہ سے پھوٹتا ہے اور اگر وہ قيام امام حسينعليه‌السلام كى تاريخ كے متن كو ملاحظہ كرتے اور حقيقت بين اورحق كے شيدائي ہوتے تو ايسا فيصلہ نہ كرتے_

امام حسنعليه‌السلام كى شہادت كے بعد سے معاويہ كى موت تك كے امام حسينعليه‌السلام كے اقوال اوروہ خط و كتابت جو ان كے اور معاويہ كے درميان ہوئي ہے، جس ميں امامعليه‌السلام كا موقف واضح طور پر معاويہ كے خلاف تھا اور آپ معاويہ كو مورد سوال قرار ديتے اور اس كے خلاف قيام كى دھمكى ديتے تھے_

اسى طرح وہ تقريريں جو مختلف موقعوں پر امام حسينعليه‌السلام نے كى ہيں اگر ان سب كو ديكھا جائے تو

۱۰۲

يہ سارى چيزيں ہم كو اس بات كا پتہ ديتى ہيں كہ ابوعبداللہ الحسينعليه‌السلام كى وہ تحريك بہت منظم تھى جس كا نقشہ آزاد منش افراد كے سردار كھينچ رہے تھے اور امت كو اس راستہ پر اس نقشہ كے مطابق عمل كرنے كى دعوت دے رہے تھے اس كے بعد اب قيام سيد الشہداء _كو ايك ناگہانى حادثہ يا دھماكہ كيسے كہا جاسكتا ہے اگر يہ انقلاب ايك انجانا دھماكہ ہوتا تو اسے بہتر آدميوں ميں منحصر نہيں رہنا چاہئے تھا_ بلكہ اس كو معاشرہ كے تمام افراد كو گھير لينا چاہيے تھا امام حسينعليه‌السلام كے آگاہانہ انقلاب كو بتانے والے تاريخى قرائن كا ايك سلسلہ اب پيش كيا جارہا ہے _

يزيد كيلئے بيعت ليتے وقت امامعليه‌السلام كى تقرير

لالچ اور دھمكى كے ذريعہ معاويہ نے يزيد كى ولى عہدى كے لئے اہم شخصيتوں كے ايك گروہ كى موافقت حاصل كرلى تھى جب حسين ابن علىعليه‌السلام كے سامنے بات ركھى گئي تو آپ نے اپنى ايك تقرير ميں فرمايا:

'' تم نے اپنے بيٹے كے كمال اور تجربہ كارى كے سلسلہ ميں جو تعريف كى وہ ہم نے سُني، گويا تم ايسے آدمى كے بارے ميں بات كررہے ہو جس كو ياتو تم نہيں پہچانتے ہو يا اس سلسلہ ميں فقط تم كو علم ہے_جيسا چاہيے تھا يزيد نے ويسا ہى اپنے كو پيش كيا اور اس نے اپنے باطن كو آشكار كرديا_ وہ كتوں سے كھيلنے والا كبوتر باز اور ہوس پرست شخص ہے جس نے اپنى عمر ساز و آواز اور عيش و عشرت ميں گذارى ہے_ كياہى اچھا ہوتا كہ تم اس كام سے صرف نظر كرتے اور اپنے گناہ كے بوجھ كو اور گراں بار نہ بناتے(۱۱) ''

معاويہ كے نام امام حسينعليه‌السلام كا خط

امام حسينعليه‌السلام نے ايك مفصل خط معاويہ كو لكھا اور اس كے بڑے بڑے جرائم كويا دلايا ، جن

۱۰۳

ميں سر فہرست پرہيزگار، بزرگ اور صالح اصحاب اور شيعيان على _كا قتل تھا، فرمايا:

'' اے معاويہ تمہارا كہنا ہے كہ ميں اپنى رفتار و دين اور امت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خيال ركھوں اور اس امت ميں اختلاف و فتنہ پيدا نہ كروں _ ميں نہيں سمجھتا كہ امت كے لئے تمہارى حكومت سے بڑا كوئي اور فتنہ ہوگا_ جب ميں اپنے فريضہ كے بارے ميں سوچتا ہوں اور اپنے دين اور امت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نظر ڈالتاہوں تو اس وقت اپنا عظيم فريضہ يہ سمجھتا ہوں كہ تم سے جنگ كروں ...''

پھر آخر ميں فرمايا:

'' تمہارے جرائم ميں غير قابل معافى ايك جرم يہ ہے كہ تم نے اپنے شراب خوار اور كتوں سے كھيلنے والے بيٹے كے لئے لوگوں سے بيعت لى ہے(۱۲) _''

منى ميں امام حسينعليه‌السلام كى تقرير

معاويہ كى حكومت كے آخرى زمانہ ميں سرزمين منى پر نو سوسے زيادہ افراد كے مجمع ميں ، جس ميں ، بنى ہاشم اور اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں سے بزرگ شخصيتيں شامل تھيں _ امام حسينعليه‌السلام نے

ملك پر حكومت كرنے والے نظام كے بارے ميں استدلالى بيان كے ذريعہ بحث كى اور ان سے يہ خواہش كى كہ ان كى باتوں كو دوسروں تك پہنچائيں اور اپنے شہروں ميں واپس پہنچ جانے كے بعد اپنے نظريہ سے امامعليه‌السلام كو مطلع كريں _ امام حسينعليه‌السلام نے معاويہ كو اپنى تنقيد كا نشانہ بناتے ہوئے اپنى تقرير كا آغاز كيا اور ملت اسلاميہ خصوصاً پيروان علىعليه‌السلام كے بارے ميں معاويہ جن جرائم كا مرتكب ہوا تھا كو ياد دلايا(۱۳) _

عراق كى طرف روانگى سے پہلے امام حسينعليه‌السلام كى تقرير

آٹھ ذى الحجہ كو عراق روانگى سے پہلے امام حسينعليه‌السلام نے لوگوں كے ايك مجمع ميں حج نہ كرنے

۱۰۴

اور عراق كى طرف جانے كى وضاحت كى اور فرمايا:

'' ايك دلہن كے گلے كے ہار كى طرح موت انسان كى گردن سے بندھى ہوئي ہے ميں اپنے بزرگوں كا اس طرح مشتاق ہوں جس طرح حضرت يعقوبعليه‌السلام حضرت يوسف كے مشتاق تھے_ ميں يہيں سے اس جگہ كا مشاہدہ كر رہا ہوں جہاں ميں شہادت پاؤں گا اور بيابانى بھيڑيے ميرے بدن كے ٹكڑے ٹكڑے كرديں گے'' پھر فرمايا:'' جو لوگ اس راستہ ميں خون دينے اور خدا سے ملاقات كرنے كے لئے آمادہ ہيں وہ ميرے ساتھ آئيں ميں انشاء اللہ صبح سويرے روانہ ہو جاؤں گا(۱۴) _

كيا ان تمام تقريروں ، كربلا ميں شب عاشور اپنے اصحاب كو رخصت كر دينے اور بيعت سے چشم پوشى كرنے كے باوجود يہ كہنا روا ہے كہ امامعليه‌السلام كے قيام كو ايك ناگہانى دھما كہ سمجھ ليا جائے؟ وہ ليڈر جو لوگوں كے غم و غصّہ اور ناراضگى سے فائدہ حاصل كرنا چاہتا ہو كيا وہ ايسى باتيں زبان پر لاسكتا ہے_

انقلاب كے اثرات و نتائج

دوسرا اہم مسئلہ يہ ہے كہ كيا حسينىعليه‌السلام انقلاب اس وقت كے معاشرہ كو كوئي فائدہ پہنچا كر ضرورى كاميابى حاصل كر سكا يا دنيا كے بہت سے شكست خوردہ انقلابات كى طرح ناگہانى طور پر شعلہ ور ہوا اور پھر بجھ كر رہ گيا؟

عاشور كے انقلاب كے اثراب كو سمجھنے كے لئے ہم فورى يقينى كاميابى يا حكومت پر قبضہ اور قدرت حاصل كر لينے كى ( منطق) سے ماوراء ہو كر ديكھيں ، اس لئے كہ وہ دلائل موجود ہيں جو اس بات كا پتہ ديتے ہيں كہ ابو عبداللہ الحسينعليه‌السلام اس سرنوشت سے آگاہ تھے جس كا وہ انتظار كر رہے تھے_ اس بنا پر فورى كاميابى قيام حسينىعليه‌السلام كا مقصد نہيں تھي_ آپ جانتے تھے كہ ان حالات ميں

۱۰۵

فورى طور جنگى كاميابى ممكن نہيں ہے_

ان مطالب كے مجموعہ سے يہ پتہ چلتا ہے كہ ہم كو انقلاب حسينىعليه‌السلام سے ايسے نتائج كى توقع نہيں كرنى چاہيے جو عام طور پر سارے انقلابات سے حاصل ہوتے ہيں بلكہ ہم كو آپ كے انقلاب كے اثرات و نتائج كو مندرجہ ذيل باتوں ميں ڈھونڈنا چاہئے:

۱_ امويوں كے جھوٹے دينى نفوذ كو ختم كرنا اور زمانہ جاہليت كى بے دينى و الحاد كى اس روح كو واضح كرنا جو حكومت اموى كے، مخالف اسلام اعمال كى توجيہ كرتى تھي_

۲_ ہر ايك مسلمان كے ضمير ميں گناہ كے احساس كو عام كرنا اور اس كو اپنے اوپر تنقيد كرنے كى حالت ميں تبديل كر دينا تا كہ اس كى روشنى ميں معاشرہ اور زندگى ميں ہر آدمى اپنى حيثيت كو معين كرے_

۳_ اسلامى معاشرہ ميں پھيلنے والى برى باتوں كے خلاف مبارزہ اور جنگ كى روح كو اس غرض سے برانگيختہ كرنا كہ اسلامى قدروں كااعادہ اور اس كا استحكام ہوجائے_

الف _ امويوں كے جھوٹے دينى نفوذ كو ختم كرنا

اموى يہ دكھا نے كے لئے كہ وہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين ہيں اور انكى حكومت، خدا كے تعيين كردہ احكام كے مطابق ہے، لوگوں كے دينى عقائد سے فائدہ حاصل كر رہے تھے اور ان كا مقصد تھا كہ ہر طرح كى ممكنہ تحريك كى پہلے ہى سے مذمت كى جائے اور دين كے نام پر اپنے لئے اس حق كے قائل ہوجائيں اور ہر طرح كے تمّرد كو چاہے وہ اپنى سمجھ سے كتنے ہى حقدار كيوں نہ ہوں ، ختم كرديا جائے_

اس غرض سے وہ زبان پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منسوب جھوٹى حديثوں كے ذريعہ لوگوں كو دھوكہ ديتے _ اس طرح _ لوگوں كا حكومت اموى پر ايسا ايمان ہوگيا تھا كہ وہ اموى حكومت حدود دين سے چاہے جتنى بھى خارج كيوں نہ ہوجائے، لوگ پھر بھى اموى حكومت كے خلاف قيام كو حرام سمجھتے تھے_

۱۰۶

امويوں نے اپنے كثيف اعمال پر كس حد تك دين كا پردہ ڈال ركھا تھا اس كو واضح كرنے كے لئے ہم يہاں انقلاب حسينيعليه‌السلام سے دو تاريخى نمونے نقل كر رہے ہيں :

۱_ ابن زياد نے لوگوں كو مسلم كى مدد سے روكنے كے لئے جو خطبہ ديا اس ميں اس نے كہا:

'' واعتصموا بطاعة الله وطاعة ائمتكم '' (۱۵)

خدا اور اپنے پيشوا ( ائمہ) كى اطاعت كرو_

۲_ عَمر وبن حجّاج زُبيدى _ كربلا ميں اموى سپاہ كے كمانڈروں ميں ايك كمانڈر نے جب ديكھا كہ بعض سپاہى حسينعليه‌السلام سے مل كر ان كى ركاب ميں جنگ كر رہے ہيں تو اس نے چلاكر كہا '' اے اہل كوفہ اپنے امير كى اطاعت كرو اور جماعت كے ساتھ رہو اور اس كو قتل كرنے كے سلسلہ ميں اپنے دل ميں كوئي شك نہ آنے دو جو دين سے خارج ہوگيا اور جس نے امام كى مخالفت كي(۱۶)

ايسے ماحول ميں نقلى دينى نفوذ كو ختم كرنے كے لئے سب سے زيادہ اطمينان بخش راستہ يہ تھا كہ كوئي ايسا شخص اس كے خلاف قيام كرے جو تمام افراد ملت كى نظر ميں مسلّم دينى امتيازات كا حامل ہو تا كہ حكومت اموى كے كريہہ چہرہ سے دينى نقاب اتار كر پھينك دے اور اس كى گندى ماہيت كو آشكار كردے_

ايسا مجاہد فى سبيل اللہ سوائے حسينعليه‌السلام بن عليعليه‌السلام كے اور كوئي دوسرانہ تھا اس لئے كہ آپ كا دوسروں كے دلوں ميں نفوذ و محبوبيت اور خاص احترام تھا_ انقلاب حسينعليه‌السلام كے بالمقابل يزيد كے رد عمل نے اسلام اور اموى حكومت كے درميان حد فاصل كھينچ دى اور اموى حكومت كى حق كے خلاف ماہيت كو روشن كرديا_ جو مظالم بنى اميہ نے حسينعليه‌السلام ،ان كے اصحاب اور اہل بيتعليه‌السلام پرڈھا ئے تھے اس كى وجہ سے ان كے وہ سارے دينى اور مذہبى رنگ مكمل طور پر اڑگئے جو انہوں نے اپنے اوپر چڑھا ركھے تھے اور اس كام نے ان كى مخالف دين ماہيت كو آشكار كرديا_

حسين ابن علىعليه‌السلام نے اپنى مخصوص روش سے امويوں كى دينى پايسى كو خطرہ ميں ڈال ديا انہوں نے جنگ شروع كرنے كے لئے اصرار نہيں كيا اور امويوں كو اس بات كى فرصت دى كہ وہ ان كو

۱۰۷

اور ان كے اصحاب كو قتل كرنے سے گريز كريں ليكن ان لوگوں كو حسينعليه‌السلام اور ان كے اصحاب كا خون بہانے كے علاوہ اور كچھ منظور نہيں تھا_ اور يہى بات امويوں كى زيادہ سے زيادہ رسوائي كا باعث بني_

انہوں نے حسينعليه‌السلام كے ساتھ سختى سے كام لے كر در حقيقت اسلام سے جنگ كى اور حسينعليه‌السلام ابن علىعليه‌السلام نے بھى اس بات سے مناسب فائدہ اٹھايا اور ہر مناسب موقع پر اس نكتہ پر تكيہ كيا اور اپنے درخشاں موقف كو مسلمانوں كے سامنے پيش كيا_

ب _ احساس گناہ

انقلاب حسينعليه‌السلام كا دوسرا اثر خصوصاً اس كا اختتامى نقطہ تمام افراد ميں احساس گناہ كا پيدا كرنا اور ضمير كى بيدارى تھى جس كے بعد وہ آپ كى مدد كے لئے دوڑ پڑے، ليكن نہيں آئے، گنہگار ہونے كا احساس اور وجدان و عقل كى توبيخ و سرزنش، ان لوگوں كے دلوں ميں جنہوں نے مد د كا وعدہ كر كے مددنہيں كي، اسى كربلا كے عصر عاشور سے ابن زياد كے لشكر كے درميان عامل قوى تھا _ اس احساس گناہ كے دو پہلو ہيں ، ايك طرف يہ احساس، گنہگار كو اپنے جرم و گناہ كے جبران پر ابھارتا ہے اور دوسرى طرف ايسے گناہ كے ارتكاب كا سبب بننے والوں كے لئے لوگوں كے دلوں ميں كينہ اور عداوت پيدا كرتا ہے_

ضمير كى بيدارى اورگناہ كا احساس ہى تھا جس نے انقلاب كے بعد بہت سى اسلامى جمعيتوں كو اپنے گناہ كا جبران كرنے كى غرض سے كوششيں كرنے پر ابھارا اور امويوں كے بارے ميں لوگوں كے دلوں ميں زيادہ سے زيادہ كينہ اور عداوت پيدا كيا_

اس وجہ سے واقعہ كربلا كے بعد امويوں كو متعدد انقلابات سے روبرو ہونا پڑ ا ان سب كا سرچشمہ ان كا اصلى سبب انقلاب حسينعليه‌السلام ، انقلابى افراد كا امويوں كى مدد سے انكار اور ان سے انتقام لينے كا جذبہ تھا_

۱۰۸

امام حسينعليه‌السلام كے پس ماندگان كى اسيرى كے زمانہ كى تقريريں بھى اس سلسلہ ميں بہت موثر ثابت ہوئيں _

ج _ روح جہاد كى بيداري

حسينعليه‌السلام ابن علىعليه‌السلام كى شہادت كے بعد جنگ و جہاد كى روح امت اسلامى ميں جاگ اٹھي_ انقلاب سے پہلے انفرادى اور اجتماعى بيماريوں كا ايك سلسلہ، اسلام كے تحفظ كى راہ ميں مسلمانوں كے انقلاب لانے سے مانع تھا_ ليكن امام حسينعليه‌السلام كے انقلاب نے، انقلاب كى تمام انفرادى و اجتماعى ركاوٹوں كو توڑ ديا اور اسلام كے پيكر ميں ايك نئي روح پھونك دي_

حسينعليه‌السلام بن علىعليه‌السلام كے انقلاب كے بعد بہت سى ايسى تحريكيں معرض وجود ميں آئيں جن كو اسلامى معاشرہ كے افراد كى پشت پناہى اور حمايت حاصل تھي_ ذيل ميں ہم ان تحريكوں ميں سے چند كا ذكر كريں گے_

۱_ شہادت حسينىعليه‌السلام كا پہلا براہ راست ردّ عمل پيغمبراكرمعليه‌السلام كے ايك صحابى سليمان بن صرد كى قيادت ميں انقلاب، توّابين كے نام سے شہر كوفہ ميں ظاہر ہوا_ اس تحريك ميں بزرگ شيعوں اور اميرالمؤمنينعليه‌السلام كے اصحاب ميں سے ايك گروہ نے شركت كي_

توّابين كى تحريك ۶۱ ھ سے شروع ہوئي اور يزيد كى زندگى تك پوشيدہ طور پر لوگوں كو خون حسينعليه‌السلام كا بدلہ لينے كے لئے دعوت ديتى رہي_ ان لوگون نے يزيد كے مرنے كے بعد احتى اط اور رازدارى كو ختم كرديا اور اعلانيہ طور پر اسلحہ اور لشكر جمع كركے آمادہ كارزار ہوگئے_ انكا نعرہ '' يالثارات الحسينعليه‌السلام '' تھا ان كے قيام كا جو شيوہ تھا اس سے ان كى پاك بازى اور اخلاص كا پتہ چلتا تھا_(۱۷) ''

۲_ انقلاب توابين كے بعد انقلاب مدينہ شروع ہوا_ حضرت زينب كبرى سلام اللہ عليہا مدينہ واپسى كے بعد انقلاب كى كوشش كرتى رہيں اس طرح كہ مدينہ ميں يزيد كا مقرر كردہ حاكم، مدينہ

۱۰۹

كے حالات كے خراب ہونے سے خوف زدہ ہوگيا اور جناب زينبعليه‌السلام كى كاركردگى كى رپورٹ اس نے يزيد كو بھيجي، يزيد نے جواب ميں لكھا كہ '' لوگوں كے ساتھ زينبعليه‌السلام جو رابطہ قائم كر رہى ہيں اس كو منقطع كردو(۱۸) ''

اسى زمانہ ميں اہل مدينہ كى نمائندگى كرتے ہوئے ايك وفد شام پہنچا اور واپس آنے كے بعد اس نے اہل مدينہ كے مجمع ميں تقرير كى اور يزيد پر ان لوگوں نے تنقيد كى ، ان كى حقائق پر مبنى تقريروں كے بعد اہل مدينہ نے قيام كيا، يزيد كے گور نر كوان لوگوں نے مدينہ سے نكال ديا پھر يزيد كے حكم سے شام كى خون كى پياسى فوج نے شہر مدينہ پر حملہ كرديا اور نہايت سختى اور خباثت كے ساتھ اس نے قيام مدينہ كو كچل ڈالا_ اور لشكر كے سپہ سالار نے تين دن تك مدينہ كے مسلمانوں كى جان، مال اور عزت و آبرو كو اپنے سپاہيوں كے لئے مباح قرار ديا_(۱۹)

اس كے بعد ۶۷ ھ ميں ''مختار ابن ابى عبيدہ ثقفى نے عراق ميں انقلاب برپا كيا اور خون حسينعليه‌السلام كا انتقام ليا_

اس طرح مختلف تحريكيں اور انقلابات ايك دوسرے كے بعد رونما ہوتے رہے يہاں تك كہ بنى اميہ كے خاتمہ پر يہ سلسلہ ختم ہوا_

۱۱۰

سوالات

۱_ رہبران الہى كى تحريكوں خصوصاً حسينعليه‌السلام بن عليعليه‌السلام كى تحريك ميں كون سى خصوصيت تھى كہ مرور زمانہ اس كے فروغ اور اس كى ابھارنے والى كيفيت پر اثر انداز نہيں ہوسكا اور زمانوں كے گذر جانے سے اس كو فراموش نہيں كيا جاسكا_

۲_ اموى حكومت كے خلاف قيام كى اہم ترين وجوہات مختصراً بيان فرمايئے

۳_ امام حسينعليه‌السلام نے معاويہ كے زمانہ ميں كيوں قيام نہيں كيا؟

۴_ حسينعليه‌السلام ابن على كے انقلاب كى ماہيت كيا ہے، وہ ايك انجانا دھما كہ تھا يا آگاہانہ انقلاب اور كيوں ؟

۵_ حكومت يزيد كے مقابل حسين بن علىعليه‌السلام كے قيام كے اسلامى معاشرہ ميں كيا اثرات و نتائج رہے؟ اختصار سے اسكى وضاحت كيجئے_

۱۱۱

حوالہ جات

۱ الاغاتى جلد ۶/ ۳۵۶_

۲ مقاتل الطالبين / ۱۲۰ ،البدايہ والنہايہ / ۱۹۷_

۳ '' انى لم اخرج اشراً و لا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً و انما خرجت لطلب الاصلاح فى امة جدى صلى اللہ عليہ و آلہ و اريد ان آمر بالمعروف و انھى عن المنكر و اسير بسيرة جدى و ابى على بن ابى طالب ...''(بحار ج ۴۴ / ۳۲۹ مناقب جلد ۴/ ۸۹_

۴''ان رسول الله قال من را ى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم الله ناكثاً لعهد الله مخالفاً لسنة رسول الله يعمل فى عبادالله بالاثم و العدوان فلم يغير ما عليه بفعل و لا قول _ كان حقاً على الله ان يدخله مدخله، اَلا وان هؤلاء قد لزموا طاعة الشيطان و تركو طاعة الرحمن و اظهر الفساد و عطلوا الحدود و استاثروا بالفى و احلوا حرام الله و حرموا حلاله، و انا ا حق من غير ...'' تاريخ طبرى ج / ۴۰۳ ، كامل ابن اثير ج ۴ / ۴۸ مقتل مقوم ۲۱۸ مقتل ابى مخنف_

۵ امام حسينعليه‌السلام نے جو خط معاويہ كو لكھا تھا اس كے متن سے آگاہى كے لئے كتاب الامامہ و السياسة ج ۱ص۱۵۵ ص ۱۵۷ ص ۱۶۰ ملاحظہ فرمائيں _

۶ امام حسن كى زندگى كى تاريخ كى تحقيق ميں ہم ان اسباب كى طرف اشارہ كرچكے ہيں _

۷ اخبار الطوال / ۲۲۱ ، ثورة الحسين / ۱۶۱ ، انساب الاشراف بلاذرى ج ۳/۱۷ ، ۱۵۲_

۸ فان حرمت يوماً على دينفخذھا على دين المسيح بن مريم(تتمہ المنتہى / ۴۳)

۹ سمو المعنى عبداللہ علائي / ۵۹_

۱۰ اس تفسير كى بنياد، ديالكتيك (جدليات) كے اصول چہارگانہ پر استوار ہے جو كميت كو اصل نام كے ساتھ كيفيت ميں تبديل كرتاہے_

۱۱ الامامہ و السياسہ ج۱ / ۱۶۰، ۱۶۱_

۱۲ الامامہ والسياسہ ج ۱ ص ۱۵۶، انساب الاشراف ج ۲ ترجمہ معاويہ ابن ابى سفيان ،بحار الانوارجلد ۴۴/۲۱۲_

۱۱۲

۱۳ اصل سليم بن قيس /۱۸۳_۱۸۶ مطبوعہ نجف_

۱۴ لہوف/۴۱، بحار جلد ۴۴/۳۶۶_۳۶۷، مناقب ۴/۲۹''خطّ الموت على ولد آدم َفخَظَّ القلادة على جيد الفتاة وَ ما ا ولهَنى الى اَسلافى اشتى اقَ يَعقُوبَ الى يُوسُف، وَ خُيّرَ ليّ مصرع: اَنَا لا قيه، كانّى باَوصالى يَتَقَطَّعُها عَسَلانُ الفَلَوات بَينَ النَّواويس و كَربَلا من كان فينا باذلاً مهجته موصّلناً عَلى لقاء الله نفسه فليرحَل معنا فانّى راحل مصبحاً انشاء الله _

۱۵ تاريخ طبرى ج ۵/۳۶۸ ، بحار ج ۴۴/۳۴۸_

۱۶ تاريخ طبرى ج ۵/۴۳۵، كامل ابن اثير ج ۴/۶۷_

۷ ۱ انقلاب توابين كے واقعہ كى تفصيل طبرى نے اپنى تاريخ كى جلد ۵/ ۵۵۱ _ ۵۶۸ پر لكھا ہے_

۱۸ زينب كبرى تاليف جعفر النقدي/ ۱۲۰، ثورة الحسين تاليف محمد مہدى شمس الدين_

۱۹ طبرى ج ۵/۴۸۲_ كامل ابن اثير ج ۴/۱۱۱_ ۱۱۳ اور يہ واقعہ تاريخ ميں واقعہ حرّہ كے نام سے مشہور ہے_

۱۱۳

ساتواں سبق :

امام زين العابدينعليه‌السلام كي سوانح عمري

۱۱۴

ولادت

آسمان ولايت كے چوتھے درخشاں ستارے امام على بن الحسين _كى پيدائشے پانچ شعبان ۳۸ ھ كو شہر مدينہ ميں ہوئي_(۱)

سيد الشہداء حضرت امام حسين _آپ كے والد اور ايران كے بادشاہ يزدگرد كى بيٹى آپ كى مادر گرامى ہيں _(۲) آپ كى ولادت اميرالمؤمنينعليه‌السلام كى شہادت سے دو سال پہلے ہوئي نقريباً ۲۳ برس تك اپنے والد بزرگوار كے ساتھ رہے_(۳)

اخلاقى خصوصيتيں

امام زين العابدينعليه‌السلام انسانيت كى خصوصى صفات اور نفس كے كمالات كا مكمل نمونہ تھے_ مكارم اخلاق اور ستم رسيدہ و فقراء كى دستگيرى ميں آپ كے مرتبہ كا كوئي نہ تھا_ اب آپ كے اخلاق و عادات كا تذكرہ كيا جاتا ہے_

۱_ آپعليه‌السلام سے متعلق افراد ميں سے ايك شخص نے لوگوں كے مجمع ميں آپ كى شان ميں ناروا كلمات كہے اور چلاگيا_ امام چند لوگوں كے ساتھ اس كے گھر گئے اور فرمايا تم لوگ ہمارے ساتھ چلو تا كہ ہمارا بھى جواب سن لو_

راستہ ميں آپ مندرجہ ذيل آيت، جس ميں كچھ مؤمنين كے اوصاف عالى كا تذكرہ ہے، پڑھتے جاتے تھے_

''و الكاظمين الغيظ و العافين عن الناس و الله يحب

۱۱۵

المحسنين ''(۴)

'' وہ لوگ جو اپنا غصہ پى كر لوگوں سے درگذر كرتے ہيں اور خدا نيكو كاروں كو دوست ركھتا ہے''_

جب اس آدمى كے گھر كے دروازہ پر پہنچے اور امامعليه‌السلام نے اس كو آواز دى تو وہ اس گمان ميں اپنے كو لڑنے كے لئے تيار كركے باہر نكلا كہ امامعليه‌السلام گذشتہ باتوں كا بدلہ لينے آئے ہيں _ حضرت سيد سجادعليه‌السلام نے فرمايا: ميرے بھائي تو تھوڑى دير پہلے ميرے پاس آيا تھا اور تو نے كچھ باتيں كہى تھيں ، جو باتيں تونے كہى ہيں اگر وہ ميرے اندر ہيں تو ميں خدا سے بخشش كا طلبگار ہوں اور اگر نہيں ہيں تو خدا سے ميرى دعا ہے كہ وہ تجھے معاف كردے_

امام زين العابدينعليه‌السلام كى غير متوقع نرمى نے اس شخص كو شرمندہ كرديا وہ قريب آيا اور امامعليه‌السلام كى پيشانى كو بوسہ ديكر كہا :'' ميں نے جو باتيں كہيں وہ آپ ميں نہيں تھيں اور ميں اس بات كا اعتراف كرتا ہوں كہ جو كچھ ميں نے كہا تھا ميں اس كا زيادہ سزاوار ہوں ''_(۵)

۲_ زيد بن اسامہ حالت احتضار ميں بستر پر پڑے ہوئے تھے سيد سجادعليه‌السلام ان كى عيادت كے لئے ان كے سرہانے تشريف لائے ،ديكھا كہ زيد رو رہے ہيں آپ نے پوچھا آپ كيوں رو رہے ہيں ، انہوں نے كہا پندرہ ہزار دينار ميرے اوپر قرض ہے اور ميرا مال ميرے قرض كے برابر نہيں ہے_ امامعليه‌السلام نے فرمايا: '' مت رويئے آپ كے قرض كى ادائيگى ميرے ذمہ ہے''_ پھر جس طرح آپ نے فرمايا تھا اسى طرح ادا بھى كرديا_(۶)

۳_ راتوں كو امام زين العابدينعليه‌السلام مدينہ كے بے سہارا اور ضرورت مندوں ميں اس طرح روٹياں تقسم كرتے تھے كہ پہچانے نہ جائيں اور ان لوگوں كى مالى امداد فرماتے تھے_ جب آپ كا انتقال ہوگيا تب لوگوں كو پتہ چلا كہ وہ نامعلوم شخصيت امام زين العابدينعليه‌السلام كى تھي_ آپ كى وفات كے بعد يہ معلوم ہوا كہ آپ ايك سو خاندانوں كا خرچ برداشت كرتے تھے اور ان لوگوں كو يہ نہيں معلوم تھا كہ ان كے گھر كا خرچ چلانے والے امام زين العابدينعليه‌السلام ہيں _(۷)

۱۱۶

۴_ امام محمد باقر _فرماتے ہيں كہ:'' ميرے پدر بزرگوار نماز ميں اس غلام كى طرح كھڑے ہوتے تھے جو اپنے عظيم بادشاہ كے سامنے اپنے پيروں پر كھڑا رہتا ہے_ خدا كے خوف سے لرزتے رہتے اور ان كا رنگ متغير ہوجاتا تھا اور نماز كو اس طرح ادا كرتے تھے كہ جيسے يہ ان كى آخرى نماز ہو(۸)

حضرت سجادعليه‌السلام كى عظمت

آپ كى شخصيت اور عظمت ايسى تھى كہ دوست دشمن سبھى متاثر تھے_

يزيد ابن معاويہ نے واقعہ '' حرّہ''(۹) كے بعد حكم ديا كہ تمام اہل مدينہ غلام كے عنوان سے اس كى بيعت كريں اس حكم سے اگر كوئي مستثنى تھا تو وہ صرف امام على بن الحسين _تھے(۱۰) ہشام بن عبدالملك _ اموى خليفہ _ حج ادا كرنے كے لئے مكہ آيا تھا، طواف كے وقت لوگوں كا ہجوم ايسا تھاوہ حجر اسود كااستلام نہ كرسكا(۱۱) مجبوراً ايك طرف بيٹھ گيا تا كہ بھيڑ كم ہوجائے_ اسى وقت امام زين العابدينعليه‌السلام مسجد الحرام ميں داخل ہوئے_ اور طواف كرنے لگے لوگوں نے امامعليه‌السلام كے لئے راستہ چھوڑ ديا_ آپ نے بڑے آرام سے حجر اسود كو بوسہ ديا _ہشام آپ كے بارے ميں لوگوں كا احترام ديكھ كر بہت ناراض ہوا_ شام كے رہنے والوں ميں سے ايك شخص نے ہشام سے پوچھا كہ يہ كون تھے جن كو لوگ اتنى عظمت دے رہے تھے؟ ہشام نے اس خوف سے كہ كہيں اس كے ساتھ والے امامعليه‌السلام كے گرويدہ نہ ہو جائيں جواب ديا كہ :'' ميں ان كو نہيں پہچانتا''

حريت پسند مشہور شاعر فرزدق بے جھجك كھڑے ہوگئے اور كہا'' ميں ان كو پہچانتا ہوں '' اس كے بعد ايك طويل قصيدہ امام زين العابدينعليه‌السلام كى مدح و عظمت اور تعارف ميں پڑھ ڈالا_ اشعار اتنے مناسب اور ہشام كے لئے ايسا طماچہ تھے كہ اموى خليفہ شدّت ناراضگى كى بنا پر ردّ عمل پر آمادہ ہوگيا_اس نے حكم ديا كہ فرزدق كو قيد خانہ بھيجديا جائے_

۱۱۷

امامعليه‌السلام جب اس واقعہ سے مطلع ہوئے تو آپ نے صلہ كے طور پر فرزدق كے پاس كچھ بھيجا فرزدق نے ان درہموں كو واپس كرديا اور كہلوا بھيجا كہ ميں نے يہ اشعار خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر پڑھے تھے_ امامعليه‌السلام نے فرزدق كے خلوص نيت كى تصديق كى اور دوسرى بار پھر وہ درہم فرزدق كو بھيجے اور ان كو قسم دى كہ قبول كرليں _ فرزدق نے ان كو قبول كرليا اور مسرور گيا_ يہاں چند اشعار كا ترجمہ نمونہ كے طور پر پيش كرتے ہيں :_

۱_ '' اے سوال كرنے والے تو نے مجھ سے جود و سخا اور بلندى كے مركز كا پتہ پوچھا ہے، تو اس كا روشن جواب ميرے پاس ہے_''

۲_'' يہ وہ ہے كہ مكہ كى سرزمين جس كے نقش قدم كو پہچانتى ہے، خانہ كعبہ ،حرم خدا اور حرم سے باہر كى زمين پہچانتى ہے_''

۳_ '' يہ اس كے فرزند ہين جو بہترين خلائق ہيں ، يہ پرہيزگار، پاكيزہ، اور بلندحشم ہيں ''

۴_'' يہ وہ ہيں كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گرامى '' احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' جن كے جدہيں ''_

۵_ ''اگر ركن جان جاتا كہ اس كو بوسہ دينے كيلئے كون آرہا ہے تو وہ بےتاب ہوكر اپنے كو زمين پر گرا ديتا تا كہ اس كى خاك پاكو چوم لے''_

۶_'' ان بزرگوار كا نام '' علىعليه‌السلام '' ہے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ان كے جد ہيں _ ان كى روشنى سے امتوں كى راہنمائي ہوتى ہے ...''(۱۲)

امام سجادعليه‌السلام اور پيغام عاشورائ

واقعہ كربلا كے بعد امام حسينعليه‌السلام كے بيٹوں ميں سے صرف آپ ہى زندہ بچے تھے_ اپنے پدر عاليقدر كى شہادت كے بعد دسويں محرم ۶۱ ھ كو آپعليه‌السلام نے امامت و ولايت كا عہدہ سنبھالا اور شہادت كے دن تك يزيد بن معاويہ، معاويہ بن يزيد، مروان بن حكم، عبدالملك بن مروان اور

۱۱۸

وليد بن عبدالملك جيسے زمامداران حكومت كا زمانہ آپعليه‌السلام نے ديكھا_

آپعليه‌السلام كى امامت كا دور اور معاشرہ ميں حكومت كرنے والے اس زمانہ كے سياسى حالات تمام ائمہ كى زندگى ميں پيش آنے والے حالات سے زيادہ دشوار اور حساس تھے _ سيرت و روش پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انحراف، امام زين العابدينعليه‌السلام كے زمانہ ميں اپنے عروج پر تھا_ اور اس كى شكل بالكل صاف نظر آتى تھي_

امام زين العابدينعليه‌السلام كى روش ان كى امامت كے زمانہ ميں دو حصوں ميں تقسيم كى جاسكتى ہے_

الف : اسيرى كا زمانہ ب: اسيرى كے بعد مدينہ كى زندگي

الف:كربلا كے جاں گداز واقعہ ميں امام زين العابدينعليه‌السلام اپنے بزرگوار كے ساتھ تھے_ خدا كے لطف و كرم نے دشمن كے گزند سے محفوظ ركھا ليكن باپ كى شہادت كے بعد اسير ہوگئے اور دوسرے لوگوں كے ساتھ كوفہ اور شام تشريف لے گئے_

اس ميں كوئي شك نہيں كہ اہل بيت امام حسينعليه‌السلام كا اسير ہونا _ آپ كے مقدس انقلاب كو كاميابى تك پہنچانے ميں بڑا مؤثر ثابت ہوا_ چوتھے امامعليه‌السلام نے اسيرى كے زمانہ ميں ہرگز تقيہ نہيں كيا اور كمال بردبارى اور شہامت كے ساتھ تقريروں اور خطبوں ميں واقعہ كربلا كو لوگوں كے سامنے بيان فرمايا اور حق و حقيقت كا اظہار كرتے رہے_ مناسب موقع پر خاندان رسالت كى عظمت كو لوگوں كے كانوں تك پہنچاتے رہے، اپنے پدربزرگوار كى مظلوميت اور بنى اميہ كے ظلم و ستم اور بے رحمى كو لوگوں كے سامنے واضح كرتے رہے_

امام زين العابدينعليه‌السلام با وجود اس كے كہ اپنے باپ كى شہادت كے وقت بيمار تھے، باپ ،بھائيوں اور اصحاب كى شہادت پر دل شكستہ اور رنجيدہ بھى تھے ليكن پھر بھى يہ رنج و آلام آپ كے فرائض كى انجام دہى اور خون آلود انقلاب كربلا كے تحفظ ميں ركاوٹ نہ بن سكے_ آپ نے لوگوں كے افكار كو روشن كرنے كے لئے ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھايا_

۱۱۹

كوفہ ميں

اسيروں كا قافلہ كوفہ پہنچا _ جب لوگ جناب زينبعليه‌السلام اور ان كى بہن ام كلثومعليه‌السلام كے خطبوں سے پشيمان ہو كر رونے لگے تو امام زين العابدينعليه‌السلام نے اشارہ كيا كہ مجمع خاموش ہوجائے پھر پروردگار كى حمد و ثنا اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام كے بعد آپعليه‌السلام نے فرمايا:

'' اے لوگو ميں على بن الحسينعليه‌السلام ہوں ، ميں اس كا فرزند ہوں كہ جس كو فرات كے كنارے بغير اس كے كہ انہوں نے كسى كا خون بہايا ہو يا كسى كا حق ان كى گردن پر ہو، ذبح كرديا گيا_ ميں اس كا فرزند ہوں جس كا مال شہادت كے بعد لوٹ ليا گيا اور جس كے خاندان كو اسير بنا كر يہاں لايا گيا_ لوگو كيا تمہيں ياد ہے كہ تم نے ميرے باپ كو خط لكھ كر كوفہ بلايا اور جب وہ تمہارى طرف آئے تو تم نے ان كو قتل كرديا؟ قيامت كے دن پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے كس منہ سے جاؤگے؟ جب وہ تم سے فرمائيں گے كہ '' كيا تم نے ميرے خاندان كو قتل كرديا اور ميرى حرمت كى رعايت نہيں كى لہذا تم ميرى امت ميں سے نہيں ہو''(۱۳) حضرت امام زين العابدينعليه‌السلام كى تقرير نے طوفان كى طرح لوگوں كو ہلا كر ركھ ديا_ ہر طرف سے گريہ و زارى كى آوازيں آنے لگيں ، لوگ ايك دوسرے كو ملامت كرنے لگے كہ تم ہلاك اور بدبخت ہوگئے اور حالت يہ ہے كہ تم كو خود ہى نہيں معلوم_

امام حسينعليه‌السلام كے اہل حرم كو ابن زياد كے دربار ميں لے جايا گيا اور جب ابن زياداور امام زين العابدينعليه‌السلام كے درميان گفتگو ہوئي تو آپعليه‌السلام نے نہايت يقين اور شجاعت كے ساتھ ہر موقع پر نہايت دنداں شكن جواب ديا جس سے ابن زياد ايسا غضب ناك ہوا كہ اس نے امامعليه‌السلام كے قتل كا حكم ديديا_

اس موقع پر جناب زينب سلام اللہ عليہا نے اعتراض كيا اور فرمايا كہ :'' اگر تم على ابن الحسينعليه‌السلام كو قتل كرنا چاہتے ہو تو ان كے ساتھ مجھے بھى قتل كردو''_ امامعليه‌السلام نے اپنى پھوپھى سے فرمايا:''آپ

۱۲۰