تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 172812
ڈاؤنلوڈ: 4227


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172812 / ڈاؤنلوڈ: 4227
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

عرصہ حيات تنگ كردو _ اس نے حكم ديا كہ ان كے آثار كو مٹا كر ان كا خون بہايا جائے اور ان كو عام حق سے محروم كردو_

اس نے حكم ديا كہ شاعر اہل بيت '' كُمَيت'' كا گھر اجاڑ ديا جائے_ كوفہ كے حاكم كو لكھا كہ ''اولاد پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مدح كرنے كے جرم ميں كُمَيت كى زبان كاٹ دى جائے''_

يہى تھا جس نے زيد بن على بن الحسين كے انقلاب كو كچل ديا تھا اور ان كے جسم مقدس كو مثلہ كرنے كے بعد كوفہ كے كليسا كے پاس نہايت دردناك حالت ميں دار پر لٹكا ديا_

امام محمد باقرعليه‌السلام كا اپنى خلافت كے زمانہ ميں ايسے ايسے مدعيان خلافت سے مقابلہ تھا_

خلافت كے بالمقابل امامعليه‌السلام كا موقف

ہشام، امام محمد باقر اور ان كے فرزند عزيز حضرت امام جعفر صادق _كى عزت و وقار سے بہت خوف زدہ تھا اس لئے اپنى حاكميت كا رعب جمانے اور خلافت كى مشينرى كے مقابلہ ميں امام_ كى اجتماعى حيثيت و وقار كو مجروح كرنے كے لئے اس نے حاكم مدينہ كو حكم ديا كہ ان دونوں بزرگوں كو شام بھيجدے_

امامعليه‌السلام كے وارد ہونے سے پہلے اس نے اپنے درباريوں اور حاشيہ نشينوں كو امامعليه‌السلام كا سامنا كرنے كے لئے ضرورى احكامات ديئے_ يہ طے پايا كہ پہلے خليفہ اور پھر اس كے بعد حاضرين دربار جو سب كے سب مشہور اور نماياں افراد تھے، امام محمد باقرعليه‌السلام پر تہمت اور شماتت كا سيلاب انڈيل ديں _

اس عمل سے ہشام كے دو مقصد تھے، پہلا مقصد يہ تھا كہ اس سختى اور تہمت سے امامعليه‌السلام كے حوصلہ كو كمزور كركے ہر اُس كام كے لئے جس كى وہ خواہش كرے گا امام كو آمادہ كرلے گا_ دوسرا مقصد يہ تھا كہ اس ملاقات ميں كہ ، جس ميں بڑے بڑے رہبر شريك تھے، آپ كو ذليل كرديا جائے_

۱۴۱

امام محمد باقرعليه‌السلام وارد ہوئے اور معمول كے مطابق جو طريقہ تھا كہ ہر آنيوالا '' امير المؤمنين'' كے مخصوص لقب كے ساتھ خليفہ كو سلام كرتا تھا_ اس كے برخلاف آپعليه‌السلام نے تمام حاضرين كى طرف رخ كركے'' سلامٌ عليكم'' كہا، پھر اجازت كا انتظار كئے بغير بيٹھ گئے_ اس روش كى بنا پر ہشام كے دل ميں كينہ اور حسد كى آگ بھڑك اٹھى اور اس نے اپنا پروگرام شروع كرديا_ اس نے كہا'' تم اولاد على ہميشہ مسلمانوں كے اتحاد كو توڑتے ہو اور اپنى طرف دعوت ديكر ان كے درميان رخنہ اور نفاق ڈالتے ہو، نادانى كى بنا پر ( معاذاللہ) اپنے كو پيشوا اور امام سمجھتے ہو'' ہشام تھوڑى دير تك ايسى ياوہ گوئي كر تا رہا پھر چپ ہوگيا_

اس كے بعد اس كے نوكروں ميں سے ہر ايك نے ايك بات كہى اور آپ كو مورد تہمت قرار ديا_

امام محمد باقرعليه‌السلام اس تمام مدت ميں خاموشى اور اطمينان سے بيٹھے رہے_ جب سب چپ ہوگئے تو آپعليه‌السلام اٹھے اور حاضرين كى طرف مخاطب ہوئے، حمد و ثنائے خدا اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود كے بعد ان كى گمراہى اور بے راہ روى كو واضح اور اپنى حيثيت نيز اپنے خاندان كے سابقہ افتخار كو بيان كرتے ہوئے فرمايا:

'' اے لوگو تم كہاں جا رہے ہو اور ان لوگوں نے تمہارا كيا انجام سوچ ركھا ہے؟ ہمارا ہى وسيلہ تھا جس كے ذريعہ خدا نے تمہارے اسلاف كى ہدايت كى اور ہمارے ہى ہاتھوں سے تمہارے كام كے اختتام پر مہر لگائي جائے گى اگر تمہارے پاس آج يہ تھوڑے دنوں كى حكومت ہے تو ہمارے پاس دير پا حكومت ہوگي_ ہمارى حكومت كے بعد كسى كى حكومت نہيں ہوگى ہم ہى وہ اہل عاقبت ہيں جن كے بارے ميں خدا نے فرمايا ہے كہ عاقبت صاحبان تقوى كے لئے ہے''_(۱۹)

امام _كى مختصر اور ہلا دينے والى تقرير سے ہشام كو ايسا غصہ آيا كہ سختى كے سوا اور كچھ اس كى سمجھ ميں نہ آيا اس نے امامعليه‌السلام كو قيد كر دينے كا حكم ديا_

۱۴۲

امامعليه‌السلام نے زندان ميں بھى حقيقتوں كو آشكار اور واضح كيا_ زندان كى نگرانى كرنے والوں نے ہشام كو خبر دى ، يہ بات اس مشينرى كے لئے قابل تحمل نہ تھى جو دسيوں سال سے شام كو علوى تبليغات كى دست رسى سے دور ركھے ہوئے تھي_ اس نے حكم ديا كہ امام اور ان كے ساتھيوں كو زندان سے نكال كر پہرہ اور سختيوں ميں مدينہ پہنچا يا جائے اور پہلے سے بھى ضرورى احكام بھيجے جاچكے تھے كہ راستہ ميں كسى كو يہ حق حاصل نہيں ہے كہ اس معتوب قافلہ كے ساتھ كوئي معاملہ كرے_ اور ان كے ہاتھوں كسى كو روٹى اور پانى بيچنے كا حق نہيں ہے(۲۰)

اسلامى ثقافت كا احيائ

امام محمد باقرعليه‌السلام ان حالات ميں حاكم كى سخت گيرى اور ضرورت تقيہ كے باوجود _ اس بات ميں كامياب ہوگئے كہ تعليم و تربيت كے ذريعہ بہت ہى گہرى بنيادوں پر مبنى علمى تحريك بنائيں _ انہوں نے آغاز ہى سے تشيع كى بنيادى اور با مقصد دعوت كى اشاعت كيلئے ، وسيع پيمانہ پر كوشش شروع كي_ اس دعوت كى وسعت اتنى تھى كہ شيعوں كے علاقہ جيسے مدينہ اور كوفہ كے علاوہ شيعى فكر كے نفوذ كى قلمرو ميں دوسرے نئے علاقوں كا بھى اضافہ ہوا_ اس سلسلہ ميں تمام جگہوں سے زيادہ خراسان كا نام ليا جاسكتا ہے_

حج كے زمانہ ميں عراق، خراسان اور دوسرے شہروں سے ہزاروں مسلمان آپ سے فتوى معلوم كرتے تھے_ اور معارف اسلام كے ہر باب كے بارے ميں آپ سے سوال كرتے تھے_ ان بزرگ فقہاء كى طرف سے جو علمى اور فكرى مكاتب سے وابستہ تھے، آپ كے سامنے دشوار گذار مسائل ركھے جاتے تھے تا كہ آپ الجھ جائيں اور لوگوں كے سامنے خاموش رہنے پر مجبور ہوجائيں _

امام _نے ان تمام مقامات پر تشيع كے اركان كى تفصيلى توضيح كے ساتھ اس كے اعلى صفات

۱۴۳

كو محدود سطح اورگنے چنے افراد سے نكالا اور اسے آفاقى نكال كرمكتب كے مفاہيم كى نشر و اشاعت كے ذريعہ افراد كى پرورش كى اور حقيقى اسلام كو مجسم بنايا_ چنانچہ بہت سے شہروں ميں اس كا رد عمل ظاہر ہوگيا تھا_

ان كاموں كى وجہ سے لوگ ان كے گرويدہ ہوگئے تھے اور آپعليه‌السلام نے قوم ميں بہت زيادہ نفوذ پيدا كر ليا تھا_ جبكہ خلافت بنى اميہ كے زمانہ ميں قبيلہ مضر اور حمير كے درميان نسلى قتل كى آگ بھڑك رہى تھي_ مگر ہم ديكھتے ہيں كہ دونوں قبيلوں كے درميان امامعليه‌السلام كے چاہنے والے تھے جيسا كہ باقاعدہ شيعہ كہے جانے والے شعراء جيسے فرزدق تميمى مضرى اور كميت اسدى حميرى دونوں ہى امام _اور اہل بيتعليه‌السلام كى دوستى ميں متفق تھے_

اسلامى نظام كى تشكيل

امام محمد باقرعليه‌السلام نے ضرورت كى وجہ سے معاشرہ پر مسلط حكومت سے لڑنے اور آمنے سامنے كى جنگ سے اجتناب كيا اور آپ نے زيادہ تر فكرى اور ثقافتى كام كيا_ جو نظرياتى تخم ريزى بھى تھى اور سياسى تقيہ بھى _ ليكن يہ حكيمانہ انداز اس بات كا سبب نہيں بنا كہ امام _ تحريك امامت كى كلى سمت كو قريبى دوستوں اور سچے شيعوں كے لئے جو اُن كے گرويدہ تھے، واضح نہ كريں _ اور عظيم شيعى مقصد كو _ يعنى اسلامى نظام كو ناقابل اجتناب مبارزہ كے ذريعہ _ ان كے دلوں ميں زندہ نہ كريں _ امام محمد باقرعليه‌السلام كے اميد افزا طريقوں ميں سے ايك طريقہ يہ بھى تھا كہ آپ آئندہ كے لئے دل پسند نويد ديتے تھے جو چنداں دور بھى نہيں ہوتى تھي_

راوى كہتا ہے: ہم ابوجعفر _كى خدمت ميں بيٹھے ہوئے تھے ايك بوڑھا آدمى آيا، سلام كيا اور كہا كہ اے فرزند رسول خدا كى قسم ميں آپ كا اور آپ كے چاہنے والوں كا دوست ہوں يہ دوستى دنيا كى لالچ ميں نہيں ہے ميں نے آپ كے امر و نہى كو قبول كر ليا ہے اور ميں اس انتظار

۱۴۴

ميں ہوں كہ آپ كى كاميابى كا زمانہ قريب آئے، كيا اب ہمارے لئے كوئي اميد ہے؟ امامعليه‌السلام نے اس بوڑھے آدمى كو اپنے پہلو ميں بٹھايا اور فرمايا اے پيرمرد كسى نے ميرے والد على ابن الحسينعليه‌السلام سے يہى پوچھا تھا، ميرے والد نے اس سے كہا تھا كہ '' اگر اسى انتظار ميں مرجاؤگے تو پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علىعليه‌السلام ، حسنعليه‌السلام ، حسينعليه‌السلام اور على بن الحسين كى بارگاہ ميں پہنچو گے اور اگر زندہ رہ جاؤگے تو اسى دنيا ميں وہ دن ديكھو گے كہ تمہارى آنكھيں روشن ہوجائيں گى اور اس دنيا ميں ہمارے ساتھ ہمارے پہلو ميں بلند ترين جگہ پاؤگے(۲۱)

اس طرح كے بيانات اس كھٹن ماحول ميں دل انگيز خواب كى طرح نظام اسلامى اور حكومت علوى كى تشكيل كے لئے شيعوں كے ستم رسيدہ دلوں ميں اميد كى كرن اور متحرك كرنے والى لہر پيدا كرتے اور آئندہ كے لئے اس بات كو يقينى اور نہ ٹلنے والى صورت ميں پيش كرتے تھے_

امامعليه‌السلام كى يہ روش اس بات كا نمونہ ہے كہ حضرت كا تعلق اپنے نزديكى اصحاب سے كيسا تھا، اور يہ روش ايك دوسرے سے منظم اور مرتب رابطہ كى نشاندہى بھى كرتى ہے_ يہى وہ حقيقت تھى جو خلافت كى مشينرى كو ردّ عمل ظاہر كرنے پر ابھارتى تھي_

ہشام كى خلافت كى مشينرى جس كو بلاذرى اموى خلفاء ميں مقتدر ترين خليفہ جانتا ہے _ اگر امام محمد باقرعليه‌السلام كے ساتھ سختى سے پيش آتى تھى تو اس كى وجہ يہ تھى كہ آپ كى روش اورعمل ميں ہشام اپنے لئے ايك قسم كى تہديد ديكھ رہا تھا اور آپ كا وجو اس كے لئے ناقابل تحمل تھا_

يہ بات ناقابل ترديد ہے كہ اگر امام محمد باقرعليه‌السلام فقط علمى زندگى ميں سرگرم عمل رہتے اور تنظيم سازى كى فكر نہ كرتے تو خليفہ اپنے لئے اس بات ميں صلاح نہيں سمجھتا كہ وہ سخت گيرى اور شدّت كے ساتھ آپ كو سخت مقابلہ كے لئے بھڑ كائے اور نتيجتاً آپ كے دوستوں اور معتقدين كو _ جن كى تعداد كم بھى نہ تھى _ اپنے اوپر ناراض اور اپنى مشينرى سے ناخوش كر لے_

۱۴۵

امام محمد باقرعليه‌السلام كے مكتب فكر كے پروردہ افراد

امام محمد باقرعليه‌السلام كے مكتب فكر ميں مثالى اور ممتاز شاگردوں نے پرورش پائي تھى ان ميں سے كچھ افراد كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے_

۱_ابان ابن تَغلب:

ابان ابن تغلب نے تين اماموں كى خدمت ميں حاضرى دى تھے_ چوتھے امامعليه‌السلام ، پانچويں امامعليه‌السلام اور چھٹے امامعليه‌السلام ابان اپنے زمانہ كى علمى شخصيتوں ميں سے ايك تھے، تغيرحديث، فقہ، قرائت اور لغت پر آپ كو تسلط حاصل تھا_ ابان كى فقہى منزلت كى وجہ ہى سے امام محمد باقرعليه‌السلام نے ان سے فرمايا كہ مدينہ كى مسجد ميں بيٹھو اور لوگوں كے لئے فتوى دو تا كہ لوگ ہمارے شيعوں ميں تمہارى طرح كے ميرے پيروكار كو ديكھيں(۲۲) جب امام جعفر صادق _نے ابان كے مرنے كى خبر سنى تو آپ نے فرمايا كہ خدا كى قسم ابان كى موت نے ميرے دل كومغموم كرديا ہے(۲۳)

۲_زرارہ ابن اَعيُن:

شيعہ علمائ، امام محمد باقرعليه‌السلام اور امام جعفر صادق _كے شاگردوں ميں سے چھ افراد كو برتر شمار كرتے ہيں اور زرارہ ان ميں سے ايك ہيں _ امام جعفر صادق _فرماتے ہيں كہ اگر برير ابن معاويہ، ابوبصير، محمد ابن مسلم اور زرارہ نہ ہوتے تو آثار نبوت مٹ جاتے، يہ لوگ حلال و حرام خدا كے امين ہيں _(۲۴) اور پھر فرماتے ہيں : برير، زرارہ ، محمد ابن مسلم اور احول، زندگى اور موت ميں ميرے نزديك سب سے زيادہ محبوب ہيں _

۳_كُمَيت اسدى :

ايك انقلابى اور با مقصد شاعر تھے ان كى زبان گويا آپ كى شاعرى دفاع اہل بيتعليه‌السلام كے سلسلہ ميں لوگوں كو جھنجوڑنے والى اور ( دشمنوں كو) اس طرح ذليل كرنے والى تھى كہ دربار خلافت كى طرف سے مستقل موت كى دھمكى دى جاتي_ كُمَيت امام محمد باقرعليه‌السلام كے شيدائي تھے اور محبت كے اس راستہ ميں انہوں نے اپنے كو فراموش كرديا تھا ايك دن امامعليه‌السلام كے سامنے امام كى مدح ميں كہے جانے والے مناسب اشعار پڑھ رہے تھے كہ امامعليه‌السلام نے كعبہ كى طرف

۱۴۶

رخ كيا اور تين بار فرمايا: خدايا كُمَيت پر رحمت نازل فرما_ پھر كُمَيت سے فرمايا اپنے خاندان سے ميں نے ايك لاكھ درہم تمہارے لئے فراہم كئے ہيں _

كُمَيت نے كہا'' ميں سيم و زر كا طالب نہيں ہوں فقط اپنا ايك پيراہن مجھے عطا فرمائيں _ امامعليه‌السلام نے پيراہن ان كو ديديا(۲۵)

۴_محمد بن مسلم فقيہ اہل بيت:

امام محمد باقر اور امام جعفر صادق عليہما السلام كے سچے دوستوں ميں سے تھے آپ كوفہ كے رہنے والے تھے ليكن امام كے علم بيكراں سے استفادہ كرنے كے لئے مدينہ تشريف لائے_

عبداللہ ابن ابى يعفور بيان كرتے ہيں :'' ميں نے امام جعفر صادق _سے عرض كيا كہ كبھى مجھ سے سوالات ہوتے ہيں جن كا جواب ميں نہيں جانتا اور آپ تك بھى نہيں پہنچ سكتا_ آخر ميں كيا كروں ؟ امامعليه‌السلام نے محمد ابن مسلم كا نام بتايا اور فرمايا كہ :'' ان سے كيوں نہيں پوچھتے؟''(۲۶)

كوفہ ميں رات كے وقت ايك عورت محمد ابن مسلم كے گھر آئي اور اس نے كہا، ميرى بہو مرگئي ہے اور اس كے پيٹ ميں زندہ بچہ موجود ہے ہم كيا كريں ؟

محمد ابن مسلم نے كہا:'' امام محمد باقرعليه‌السلام نے جو فرمايا ہے اس كے مطابق تو پيٹ چاك كركے بچہ كو نكال لينا چاہئے اور پھر مردہ كو دفن كردينا چاہئے_

پھر محمد ابن مسلم نے اس عورت سے پوچھا كہ ميرا گھر تم كو كيسے ملا؟ عورت بولي: '' ميں يہ مسئلہ ابو حنيفہ كے پاس لے گئي انہوں نے كہا كہ ميں اس بارے ميں كچھ نہيں جانتا، ليكن تم محمد ابن مسلم كے پاس جاؤ اور اگر وہ فتوى ديديں تو مجھے بھى بتادينا(۲۷)

شہادت كے بعد مبارزہ

امام محمد باقرعليه‌السلام كى رہبرى كا ۱۹ سالہ زمانہ نہايت دشوار حالات اور ناہموار راہوں ميں گذرا_ آخر ميں آپ كى كم مگر پر بركت عمر كے اختتام كا وقت آيا تو اس شعلہ ور مركز كے گرم خاكستر سے

۱۴۷

آپ نے اپنى آخرى برق اموى سلطنت كى بنياد پر گرداي_

امام نے اپنے بيٹے امام جعفر صادق _كو حكم ديا كہ ان كے پيسوں ميں سے ايك حصہ ( ۸۰۰ درہم) دس سال كى مدت تك عزادارى اور ان پر گريہ كرنے ميں صرف كريں _ عزادارى كى جگہ ميدان منى اور عزادارى كا زمانہ حج كا زمانہ ہے(۲۸) حج كا زمانہ دور افتادہ اور نا آشنا دوستوں كى وعدہ گاہ ہے_ اگر كوئي پيغام ايسا ہو كہ جسے تمام عالم اسلام تك پہنچانا ہو تو اس سے بہتر موقع اور كوئي نہيں ہے_ حج كے اعمال مسلسل چند دنوں تك متعدد مقامات پر انجام پاتے ہيں اور يہ ظاہر ہے كہ سب سے زيادہ مناسب جگہ منى ہے چونكہ عرفات سے واپسى پر حاجى تين راتوں تك وہاں ٹھہرتے ہيں ، اس لئے آشنائي اور ہمدردى كے لئے سب جگہوں سے زيادہ موقع وہيں ملتا ہے_ اور يہ طبيعى بات ہے كہ اگر ان تين دنوں ميں اس بيابان ميں ہر سال مجلس عزا برپا ہو تو ہر آدمى كى نظر اس پر پڑے گى اور آہستہ آہستہ لوگ اس سے آشنا ہوجائيں گے اور خود ہى سوال كرنا شروع كرديں گے كہ '' كئي برسوں سے مدينہ كے كچھ لوگ _ وہ مدينہ جو مركز اسلام اور مركز صحابہ ہے _ حج كے زمانہ ميں منى ميں مجلس عزا برپا كرتے ہيں وہ بھى عالم اسلام كى بلند شخصيت محمد ابن على ابن الحسين كے لئے تو كيا ان كى موت طبيعى نہ تھي؟ ان كو كس نے قتل كيا يا زہر ديا ہے؟ اور كيوں ؟ آخر انہوں نے كيا كہا اور كيا كيا؟ كيا اس كا كوئي سبب تھا اور ان كى كوئي دعوت تھي؟ كيا ان كا وجود خليفہ كے لئے خطرہ كا باعث تھا؟ دسيوں ابہام اس كے پيچھے دسيوں سوالات اور جستجو والى باتيں اور پھر صاحبان عزا يا اطلاع ركھنے والے ان لوگوں كى طرف سے، جو اس پراگندہ جمعيت ميں شريك تھے، جوابات كا ايك سيلاب_

يہ تھا امام محمد باقرعليه‌السلام كا كامياب نقشہ، شہادت كے بعد جہاد كا نقشہ اور يہ ہے اس پُر بركت زندگى كا وجود جن كى موت اور زندگى خدا كے لئے ہے_

۱۴۸

امام _كى شہادت

۷ ذى الحجہ ۱۱۴ ھ ق كو ۵۷ برس كى عمر ميں ظالم اموى بادشاہ ہشام بن عبدالملك كے ہاتھوں سے حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام مسموم اورشہيد ہوئے(۲۹) شہادت كى رات آپ نے اپنے فرزند حضرت جعفر ابن محمد _سے فرمايا كہ '' ميں آج كى رات اس دنيا كو چھوڑ دونگا_ ميں نے ابھى اپنے پدر بزرگوار كو ديكھا ہے كہ وہ خوشگوار شربت كا جام ميرے پاس لائے ہيں اور ميں نے اس كو پيا اور انہوں نے مجھے سرائے جاويد اور ديدار حق كى بشارت دي_

امام جعفر صادق _نے اس خدا داد علم كے دريائے بيكراں كے تن پاك كو امام حسن مجتبىعليه‌السلام اور امام زين العابدين كے پہلو ميں قبرستان بقيع ميں سپرد خاك كيا(۳۰)

۱۴۹

سوالات:

۱_ امام محمد باقرعليه‌السلام كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور آپ نے اپنے جدحسين بن على _اور اپنے پدر گرامى قدر امام زين العابدين _كے ساتھ كتنے دنوں تك زندگى بسر كي؟

۲_ امام محمد باقرعليه‌السلام كے بارے ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كيا پشين گوئي تھي؟

۳_ اخلاق امام محمد باقرعليه‌السلام ميں سے ايك نمونہ بيان فرمايئے

۴_ كن كن اموى خلفاء كے زمانہ ميں امامعليه‌السلام تھے اور امامعليه‌السلام كے بارے ميں انكى عمومى روش كيا تھي؟

۵_ خلافت ہشام كے بارے ميں امامعليه‌السلام كاموقف بيان كيجئے_

۶_ اسلامى تہذيب و ثقافت كے احياء ميں امام محمد باقرعليه‌السلام كى كيا خدمات تھيں ؟

۷_ اسلامى تہذيب وثقافت كى نشر و اشاعت جو خليفہ كے غيظ و غضب كو بھڑ كانے كا اصلى سبب تھي، اس ميں امام كى اہم ترين فعاليت كيا تھي؟

۸_ امام محمد باقرعليه‌السلام كے مكتب فكر كے تين اصحاب اور شاگردوں كا نام بتايئے

۹_ حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام كس تاريخ كو اور كيسے شہيد ہوئے؟

۱۵۰

حوالہ جات

۱ مصباح المتھجدشيخ طوسي/ ۵۵۷، بحار الانوار لد ۴۶/ ۲۱۳_

۲ كافى جلد ۱/ ۴۶۹'' كانت صديقہ لم تدرك فى آل الحسن امراة مثلہا''_

۳ امالى شيخ صدوق /۲۱۱، بحار الانوار جلد ۴۶/۲۲۳_

۴ امالى شيخ طوسى /۲۶۱، بحار الانوار جلد ۴۶/ ۲۳۳_ ۲۳۴ اختصار كے ساتھ _

۵ ارشاد مفيد /۲۶۴، بحار جلد ۴۶/۲۸۷، مناقب جلد ۴/۲۰۱_

۶ علل الشرائع جلد ۱/ ۲۲۲، بحار جلد ۴۶/۲۲۵_

۷ ارشاد مفيد/۳۶۳ مطبوعہ بصيرتى قم_

۸ ارشاد مفيد /۲۶۳، بحار جلد ۴۶/۲۸۶،۲۸۹_

۹ مناقب ابن شہر آشوب جلد ۴/۱۹۷، بحار جلد ۴۶/۲۸۹_

۱۰ الصواقع المحرقہ /۱۲۰_

۱۱ مناقب جلد ۴/۱۹۵، بحار جلد ۴۶/۲۹۴_ ۲۹۵_

۱۲ مروج الذہب جلد ۳/۱۵۷_

۱۳ سياست ميں خشونت اور سختى كے لئے كنايہ ہے_

۱۴ مروج الذہب ۳/۱۶۰_۱۶۱_

۱۵ كامل ابن اثير جلد ۴/۵۷۷_

۱۶ تاريخ سياسى اسلام جلد ۱/۳۲۴_

۱۷ العقد الفريد جلد ۵/۱۷۶_

۱۸ تاريخ سياسى اسلام جلد ۱/۳۳۱_

۱۹ ناقب ابن شہر آشوب ج ۴/۱۸۹''ايها الناس اين تذهبون و اين يراد بكم؟بنا هدى الله اولكم و بنا يختم آخركم فان يكن لكم ملك معجل'' فانّ لنا ملكا موجلاً و ليس من بعد ملكنا ملكٌ لانا اهل العاقبه، يقول الله تعالى '' و العاقبة للمتقين'' _

۲۰ مناقب ابن شہر آشوب جلد ۴/۱۹۰، بحار جلد ۴۶/۳۱۲، دلائل الامامہ للطبرى /۱۰۸_

۱۵۱

۲۱ بحار الانوار جلد ۴۶/۳۶۱ _ ۳۶۲_

۲۲ جامع الرواة جلد ۱/۹، معجم رجال الحديث جلد ۱/۱۴۷_

۲۳ جامع الرواة جلد ۱/ ۹، معجم الرجال الحديث جلد ۱/۱۴۷_

۲۴ جامع الرواة جلد ۱/۱۷۱_

۲۵ سفينة البحار جلد ۲/۴۹۶، مناقب ابن شہر آشوب جلد ۴/۱۹۷_

۲۶ جامع الرواة ۲/۱۶۴_

۲۷ رجال كشى /۱۶۲ چاپ دانشگاہ مشہد_

۲۸ بحار الانوار جلد ۴۶/۲۱۵، ۲۲۰''عن ابى عبدالله قال : قال لى ابي: يا جعفر اوقف لى من مالى كذا و كذا النوادب تند بنى عشر سنين بمنى ايام مني'' _

۲۹ بحار الانوار جلد ۴۶/۲۱۷_

۳۰ بحار الانوار جلد ۴۶/۲۱۳_ ۲۱۵_

۱۵۲

نواں سبق:

امام جعفر صادقعليه‌السلام كي سوانح عمري

۱۵۳

ولادت

آسمان ولايت كے چھٹے ستارے حضرت جعفر ابن محمد (عليہما السلام)۱۷ ربيع الاول كو اپنے جدّ بزرگوار، رسول خدا كى ولادت كے دن، ۸۶ ھ كو مدينہ ميں پيدا ہوئے_ آپ كى مشہور ترين كنيت'' ابوعبداللہ'' اور معروف ترين لقب ''صادق'' تھا(۱) پدر بزرگوار امام محمد باقر _اور مادر گرامى فروہ بنت قاسم ابن محمد بن ابى بكر تھيں _ جو امام جعفر صادقعليه‌السلام كے قول كے مطابق پرہيزگار، با ايمان اور نيكو كار خواتين ميں سے تھيں(۲) آپ كى عمر مبارك ۶۵ سال تھى ، ۱۲ سال آپ نے اپنے جد امام زين العابدينعليه‌السلام كى آغوش محبت ميں اور ۹ سال اپنے پدر گرامى امام محمد باقر _كے ساتھ گذارے آپ كى امامت كا زمانہ ۳۴ سال ۱۱۴ ھ ق سے ۱۴۸ ھ تك رہا(۳)

امام _كى پرورش كا ماحول

امام _نے اپنى زندگى كا نصف زمانہ اپنے جد بزرگوار اور پدر عاليقدر كى تربيت ميں گذارا_ يہ قيمتى زمانہ آپ كے لئے ايسے بلند مدرسہ اور خاندان وحى سے علم و دانش اور فضيلت و معرفت الہى كے كسب كا بہترين موقع تھا_

امام _بچپن ہى سے رنج و مصائب كے ساتھ غمزدہ خاندان ميں پل كر بڑے ہوئے_ امام زين العابدينعليه‌السلام كے خاندان جيسا كوئي ہى گھرانہ ملے گا جس نے ايسے مصائب و آلام اورروحانى

۱۵۴

درد و الم كو ديكھا ہو_ امام حسينعليه‌السلام اور ان كے اصحاب كى شہادت كى جاں گداز ياد، معصوم بچوں اور اہل بيت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اشكوں نے امام سجاد _كے خاندان كے تمام افراد كو ماتم اور دائمى رنج و غم ميں مبتلا كر ركھا تھا_ امام جعفر صادقعليه‌السلام نے ايسے گھرانے ميں آنكھيں كھوليں _ اور جيسے جيسے بڑے ہوتے گئے، اپنے زمانہ كے سياسى و اجتماعى حالات سے آشنا ہوتے گئے_ اور آپ كى آنكھوں كے سامنے نئے نئے افق كے دروازے كھلتے گئے_

آپ بہت قريب سے ديكھ رہے تھے كہ آپ كے جد و پدر كے ايك ايك عمل اور آپ كے گھر آنے جانے والے لوگوں كى اموى مشينرى نگرانى كر رہى ہے، اور يہ بھى ديكھ رہے تھے كہ آپ كے اصحاب كتنى زحمت اور دشوارى كے ساتھ آپ سے ملاقات كر پاتے ہيں _

دوسرى طرف، دادا اور پدر بزرگوار كے پاس تشنگان علوم كے، اگرچہ محدود تعداد ميں ، آنے جانے سے، مختلف علوم اسلامى اور علمى و فقہى بحثوں كا آپ نے مشاہدہ كيا تھا، اصول امامت كو مستحكم بنانے، احكام كو بيان كرنے ، اسلام كى اصلى تہذيب كى نشر و اشاعت اور اہل بيت كى روش پر قرآن كى تفسير كى راہ ميں اپنے والد كى كوششوں اور دشواريوں كا آپ نزديك سے مشاہدہ فرما رہے تھے اور خاندان كے بڑے بيٹے كے عنوان سے ان تمام كاموں ميں شريك تھے_

امام _كا اخلاق اور انكى سيرت

امام جعفر صادقعليه‌السلام اسلامى اخلاق اور انسانى فضائل كا مكمل نمونہ تھے_ جيسا كہ آپ نے خود اپنے پيروكاروں سے فرمايا:'' كونوا دعاة الناس بغير السنتكم ''(۴) لوگوں كو بغير زبان كے ( اپنے عمل سے ) دعوت دو زندگى كے تمام پہلوؤں ميں اسلام كى روشنى كا درس پہنچا نے كے لئے آپ كى پورى زندگى وقف تھي_

اب ہم آپ كے اخلاق و سيرت كے چند نمونوں كى طرف اشارہ كريں گے_ اس اميد كے

۱۵۵

ساتھ كہ آپ كے راستہ پر چلنے والوں اور آپ كے مكتب كى نگہبانى كرنے والوں كے لئے نمونہ قرار پائيں _

الف_ حلم و بردباري

حفص بن ابى عائشےہ سے روايت ہے كہ امام جعفر صادقعليه‌السلام نے اپنے خدمت گذار كو كسى كام كے لئے بھيجا_ ليكن جب دير ہوگئي تو آپ خود ہى اس كام كے لئے نكل پڑے_ غلام كو آپ نے ديكھا كہ ايك گوشہ ميں سو رہا ہے آپ اس كے سرہانے بيٹھ كر اس كو پنكھا جھلنے لگے_ غلام جب بيدار ہوا تو آپ نے اس سے صرف اتنا كہا كہ '' يہ مناسب نہيں ہے كہ انسان دن ميں بھى سوئے اور رات ميں بھي، رات تمہارے لئے ہے ليكن دن ہمارے لئے ہے''(۵)

ب_ عفو اور درگذر

امام جعفر صادقعليه‌السلام كو كسى نے خبر دى كہ آپ كے فلاں چچازاد بھائي نے لوگوں كے درميان آپ كو بہت برا بھلا كہا ہے_ آپ اٹھے، وضو كيا، دو ركعت نماز پڑھى اور نماز كے بعد آپ نے رقت قلب سے فرمايا:'' خدايا ميں نے اپنا حق ادا كرديا، تيرا جود و كرم سب سے زيادہ ہے تو اس سے درگذر كر اور اس كے اعمال كا مواخذہ نہ كر''(۶)

ج_ حاجت مندوں كى مدد

ابوجعفر خثعمى نقل كرتے ہيں كہ امام جعفر صادقعليه‌السلام نے ايك تھيلى جس ميں پچاس دينار تھے، ايك شخص كو دينے كے لئے مجھے دى اور آپ نے تاكيد كى كہ ميرا نام نہ بتانا جب ميں نے تھيلى اس آدمى كو دى تو اس نے شكريہ ادا كيا اور كہا: يہ كس كى طرف سے امداد آئي ہے_ وہ كون شخص ہے جو چند دنوں كے بعد ايك بار يہ امداد ميرے پاس بھيج ديتا ہے جس سے ايك سال كا ميرا خرچ چل جاتا ہے، ليكن اس كو امام صادقعليه‌السلام سے گلہ تھا كہ آپ قدرت ركھتے ہوئے بھى ہمارى مدد نہيں

۱۵۶

كرتے''(۷)

د_ امام _اور زراعت

ابوعمرو شيبانى نقل كرتے ہيں كہ:'' امام جعفر صادقعليه‌السلام كو ميں نے ديكھا كہ موٹا اور كُھردرا لباس پہنے ہوئے ہيں اور حالت يہ ہے كہ پسينہ بہہ رہا ہے، اور بيلچہ لے كر كھيت ميں كام كر رہے ہيں ميں نے عرض كي:'' ميں آپ پر قربان ہوجاؤں ، بيلچہ مجھے ديديں تا كہ آپ كى بجائے ميں كام كروں آپ نے فرمايا'' مجھے يہ پسند ہے كہ انسان حصول معاش كے لئے گرمى كى تكليف برداشت كرے''(۸)

امام _كى شخصيت و عظمت

امام جعفر صادقعليه‌السلام كى عظمت اور شخصيت كو نماياں كرنے كے لئے اتنا كافى ہے كہ آپ كا سخت ترين دشمن، منصور دوانقى جب آپ كى خبر شہادت سے مطلع ہوا تو اس نے گريہ كيا اور كہا'' كيا جعفر ابن محمد كى نظير مل سكتى ہے؟''(۹)

مالك ابن انس _ جو كہ اہل سنت كے چار اماموں ميں سے ايك ہيں _ فرماتے ہيں كہ : جعفر ابن محمد كے جيسا نہ كسى آنكھ نے ديكھا اور نہ كسى كان نے سنا اور نہ كسى انسان كے دل ميں يہ بات آئي كہ علم و عبادت و پرہيزگارى كے اعتبار سے جعفر بن محمد سے برتر بھى كوئي ہوگا(۱۰) ابن ابى العوجاء _ اس زمانہ كے مادہ پرستوں كا امام _ امام كى شخصيت كا اعتراف كرتے ہوئے كہتا ہے'' يہ (امام صادق) بشر سے بالاتر ہيں اگر زمين پر كسى روحانى كا وجود ہوسكتا ہے اور وہ بشر كى صورت ميں جلوہ گر ہو تو وہ جعفر ابن محمد ہيں ''(۱۱)

۱۵۷

امام كا علمى مقام

امام جعفر صادقعليه‌السلام كى بلندترين علمى شخصيت اور ان كے علوم كا آوازہ اس زمانے كے معاشرہ ميں اتنا پھيلا كہ علمى محافل اور فضل و دانش كى مجالس ميں نہايت عظمت و احترام كے ساتھ آپ كو ''صادق آل محمد'' كے لقب سے ياد كيا جانے لگا_ دوست اور دشمن ہر ايك نے آپ كے علمى مقام كى برترى كے بارے ميں زبان كھولي_

ابو حنيفہ _ اہل سنت حنفى مسلك كے امام فرماتے ہيں كہ '' ميں نے جعفر ابن محمد سے زيادہ فقيہ كسى كو نہيں ديكھا ايك دن منصور كے حكم كے مطابق ميں نے چاليس فقہى مسائل تيار كئے تا كہ خليفہ كے سامنے كسى جلسہ ميں آپ سے سوال كروں ، سوالات ہوجانے كے بعد امام جعفر صادقعليه‌السلام نے ان ميں سے ايك ايك سوال كے موارد اختلاف كے بارے ميں ايسا كامل جواب ديا كہ سب نے اعتراف كر ليا كہ اختلاف آراء كے بارے ميں آپ سب سے زيادہ علم و آگہى ركھتے ہيں(۱۲) ڈاكٹر عبدالقادر محمود _ مصرى دانشمند اور صاحب قلم، ''الامام الصادق رائد السنة و الشعيہ'' _ نامى كتاب كے مؤلف اپنى كتاب كے مقدمہ ميں رقم طراز ہيں '' امام جعفر صادقعليه‌السلام اہل سنت اور شيعہ دونوں كے مرجع ہيں ، آپعليه‌السلام كى عظمت كے لے يہى كافى ہے كہ آپعليه‌السلام فقہ كے ائمہ ابوحنيفہ اور مالك اور كيميا كے ماہر جابربن حيان كے استاد ہيں ، اور ان كا وجود ايك مكتب اور مذہب سے مخصوص نہيں ہے بلكہ سب سے متعلق ہے_

امام جعفر صادقعليه‌السلام كے ہم عصر زمامداران حكومت

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے ۱۱۴ ھ ق ہيں امت كى رہبرى كى ذمہ دارى اپنے ہاتھوں ميں لي_ چند خلفاء بنى اميہ و بنى عباس آپ كے ہم عصر تھے_ خلفاء بنى اميہ ميں سے ہشام بن

۱۵۸

عبدالملك وليد بن يزيد، يزيد ابن وليد، ابراہيم ابن وليد اور مروان حمار اور خلفاء بنى عباس ميں سے ابوالعباس سفّاح اور منصور دوانقى آپ كے ہمعصر تھے_

بنى اميہ كے جرائم

۴۰ ھ ق _ اميرالمؤمنين _كى شہادت كے بعد معاويہ كے ہاتھوں ميں زمام حكومت آنے سے لے كر _ ۱۳۲ ھ ق تك _ جو بنى اميہ كى حكومت كے ختم ہونے كا زمانہ ہے _ دنيائے اسلام عملى طور پر بنى اميہ كے قبضہ ميں تھي_

تقريباً ايك صدى تك امويوں كى حكومت تاريخ اسلام كے ادوار ميں سياہ ترين حكومت تھي، اس زمانہ ميں اسلام اور مسلمان بنى اميہ كے ہاتھوں كا كھلو نہ تھے_ مسلمان، خاص كر خاندان نبوت كے پيرو شدت، سختى اور گھٹن ميں زندگى بسر كررہے تھے_ اميرالمؤمنين على _كيلئے ناروا الفاظ استعمال كرنا بنى اميہ كے منصوبوں ميں سر فہرست تھا_ كربلا كا خونين حادثہ اور سيدالشہداء حسينعليه‌السلام ابن علىعليه‌السلام كى شہادت اس گروہ كے جرائم كا اوج شمار كيا جاتا ہے_ كربلا كے قتل عام كے بعد بھى بہت سے بزرگ شيعہ اور علويوں كو اہل بيت كے طرف دار ہونے كے جرم ميں يا تو قتل كرديا گيا يا كئي سال تك تاريك اور خوفناك قيد خانوں ميں نہايت برى حالت ميں ركھا گيا_

وليد ابن عبدالملك نے حكومت حاصل كر لينے كے بعد اپنى پہلى تقرير ميں كہا'' جو بھى ہمارے سامنے سركشى كرے گا ہم اس كو قتل كرديں گے اور جو سكوت اختيار كرے كا_ سكوت كا درد اسے مارڈلے گا(۱۳) بنى اميہ ملحد اور خدا سے غافل تھے انہوں نے ابتداء ہى سے دين اسلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنى كر ركھى تھى _ بعد كے واقعات اور بدر و احد و غيرہ كى جنگ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اميرالمؤمنينعليه‌السلام اور آپ كے خاندان كے بارے ميں كينہ ميں شدّت كا باعث بنى اور بعد ميں جب بھى موقع ملا انتقاماً اسلام

۱۵۹

اور امت اسلامى كو ختم كرنے ميں كسى بھى فريب و جرم كو فروگذاشت نہيں كيا گيا

بنى اميہ كى حكومت ختم ہونے كے وجوہات

تاريخ ميں خاندان بنى اميہ كے خلاف عراق، ايران، اور شمالى افريقہ كے مسلمانوں كے قيام كے اسباب بہت پھيلے ہوئے ہيں ہم ان وجوہات ميں سے صرف ان تين وجوہات كو جو تمام وجوہات سے زيادہ امويوں كے تخت و تاج كو بربادى كے تيز اور تند طوفانوں تك لے گئيں ، ذكر كر رہے ہيں _

۱_ ائمہعليه‌السلام كا مسلسل جہاد اور انكى پھيلائي ہوئي روشني:

اس ميں كوئي رشك نہيں كہ ائمہ اور ان كے اصحاب كى پھيلائي ہوئي روشنى اور ان كے مبارزہ خصوصاً واقعہ كربلا نے حكومت بنى اميہ كے خلاف نفرت اور شورش پھيلانے ميں بڑا اہم كردار ادا كيا_ نمونہ كے طور پر ملاحظہ ہو: امام جعفر صادقعليه‌السلام نے اپنى پورى زندگى _ منجملہ ان كے ان برسوں ميں جب بنى اميہ حكومت كر رہے تھے _ جہاں تك بنى اميہ كى نگرانيوں اور پابنديوں نے اجازت دى آپ جہاد كرتے رہے اور ظلم و ستم كے خلاف جنگ ميں مصروف رہے_

ہشام كى حكومت كے زمانہ ميں ايك سال جب امام جعفر صادقعليه‌السلام اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ حج كوتشريف لے گئے تھے_ حجاج كے عظيم اجتماع ميں آپ نے تقرير كى اور اس تقرير ميں اہل بيتعليه‌السلام كى امامت و رہبرى كے بارے ميں فرمايا:

'' حمد و شكر اس خدا كا جس نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حق كے ساتھ بھيجا اور ہم كو ان كے ذريعہ كر امت بخشى ہم لوگوں كے درميان خدا كے منتخب بندے ہيں _ نجات وہ پائے گا جو ہمارا پيرو ہے اور بد نصيب و تيرہ بخت وہ ہے جو ہم سے دشمنى كرتا ہے كچھ لوگ زبان سے ہمارى دوستى كا اظہار كرتے ہيں ليكن دل سے ہمارے دشمن كے دوست ہيں ''(۱۴)

۱۶۰