تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 172733
ڈاؤنلوڈ: 4217


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172733 / ڈاؤنلوڈ: 4217
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

اس تقرير كى وجہ سے ہشام نے حاكم مدينہ كو حكم ديا كہ ان دونوں بزرگواروں كو شام بھيج دو _ امام محمد باقرعليه‌السلام اور امام جعفر صادقعليه‌السلام دمشق پہنچے اور اموى خليفہ كا برتاؤ ديكھا(۱۵)

۲_ اقتصادى دباؤ:

پيداوار اور درآمد ميں اضافہ كے امكانات پيدا كرنے كى بجائے حكومت اموى ٹيكس اور خراج و غيرہ وصول كرنے پر زيادہ زور ديتى تھي_ بہرحال وہ خليفہ جس كے ہاتھ ميں اقتدار آتا تھا وہ پہلے كى مقدار كواور بھى بڑھا ديتا تھا_

انہوں نے تمام كسانوں اور كھيتى كرنے والوں كو مجبور كيا كہ _ قانونى ٹيكس دينے كے علاوہ _ ساسانيوں كى طرح '' نوروز كا ہديہ'' كے نام سے كچھ مزيد مال ان سے وصول كريں پہلا شخص جس نے اس كو قانونى شكل دى وہ معاويہ تھا اور صرف كوفہ اور اس كے اطراف كا ايك سال كا ہديہ نوروز ايك كڑور ۳۰ لاكھ درہم سے زيادہ تھا _اسى سے اندازہ لگايا جاسكتا ہے كہ دوسرى جگہوں ، جيسے ہرات، خراسان و غيرہ، كا ہديہ كتنا رہا ہوگا(۱۶) تمام جگہوں كى اقتصادى طور پر برى حالت تھى خاص كر عراق، جو بنى اميہ كے بڑے بڑے مالداروں كے رہنے كى جگہ اور زرخيز اور پر بركت علاقہ تھا جو زيادہ تر خليفہ يا حكومت كے سركردہ افراد كے لئے مخصوص تھا _ زمامداران حكومت اور ان كے ارد گرد رہنے والوں كى لالچى طبيعت نے وسيع و عريض اسلامى ملك كى عجيب حالت بنا ركھى تھي(۱۷) عمر بن عبدالعزيز كے زمانہ ميں كچھ دباؤ كم ہوا اور ماليات كے مشكلات حل ہوئے ليكن عمر ابن عبدالعزيز كے بعد حالات نے پلٹا كھايا اور پھر وہى صورت حال پيدا ہوگئي اور بحرانى حالت بڑھتى ہى رہي_

۳_ غير عرب كو نظر انداز كرنا:

بنى اميہ كى حكومت عربيت كى بنياد پر قائم ہوئي تھى انہوں نے تمام عہدے عربوں كو دے

۱۶۱

ركھے تھے اور اسلام كے دوسرے گروہ كو '' موالى ''(۱۸) كے نام سے پكارتے تھے، نہ صرف يہ كہ ان كو حكومت كے عہدوں سے محروم كر ركھا تھا بلكہ ان كو حقارت كى نظر سے ديكھتے تھے_ جو غير عرب تھا اس كو بصرہ سے نكال ديا گيا تھا_ يہ پناہ گزين اپنے مظاہرہ ميں '' وا محمداہ وا احمداہ'' كا نعرہ لگاتے تھے اور وہ نہيں جانتے تھے كہ كہاں جا كر پناہ ليں _(۱۹) كچھ كہتے تھے كہ: تين چيزوں گدھا، كتا اور موالي، سے نماز ٹوٹ جاتى ہے_(۲۰)

ايك دن معاويہ موالى كى بڑھتى ہوئي تعداد سے غصہ ميں آيا اور اس نے ارادہ كيا كہ ان ميں سے آدھے كو تہہ تيغ كردے ليكن '' احنف'' نے اس اقدام سے اسے روكا(۲۱) جب كوئي عرب ناد آدمى سامان خريد كر واپس آتا تھا اور راستہ ميں كسى عجمى كو ديكھ ليتا تو وہ اپنے سامان كو زمين پر ركھ ديتا تھا، اب عجمى كا فريضہ تھا كہ وہ اس كو گھر تك پہنچائے(۲۲) ان وجوہات _ اور دوسرے وجوہات _ كى بنا پر حكومت اموى كے خلاف يكے بعد ديگرے شورشيں اور ہنگامے برپا ہوئے اور ہر ايك پر يہ بات روشن ہوگئي كہ سوائے حكمرانى اور تسلط حاصل كرنے كے امويوں كا اور كوئي دوسرا مقصد نہيں ہے_

اس بغاوت كے دور ميں لوگ اس طرح اٹھ كھڑے ہوئے كہ ملك كا كنٹرول ان كے ہاتھوں سے نكل گيا اور مروان حمار _ آخرى اموى خليفہ _ كے زمانہ ميں ملك كى حالت ايسى خراب ہوگئي تھى كہ اب دھماكہ ہونے ہى والا تھا_

دوسرى طرف لوگوں نے يہ جان ليا تھا كہ خاندان پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے افراد جو اسلامى معاشرہ ميں محبوب ترين لوگ ہيں اور عدالت و تقوى كا نمونہ شمار كئے جاتے تھے _ اور صرف يہى محكم اور قابل اطمينان مركز ہيں كہ جن كو سامنے لائے بغير نجات كا كوئي دوسرا راستہ نہيں ہے_ در حقيقت اہل بيت امت اسلامى كا محور اور مرجع تھے جو سب كے جسم ميں زندگى كى روح پھونك رہے تھے_

اسى وجہ سے تمام تحريكيں اور انقلابات '' رضائے آل محمد'' كے نعرہ كے ذريعہ ايران،عراق اور شمالى افريقہ ميں(۲۳) رشد كى منزل تك پہنچے اور آخر كار نوے ۹۰ سالہ حكومت بنى اميہ كا خاتمہ

۱۶۲

كرديا_

امام _اور تحريكوں كا رابطہ

انقلاب كے شروع ميں تمام آنكھيں امام جعفر صادقعليه‌السلام پر لگى ہوئي تھيں اس لئے كہ ان سے زيادہ مناسب كوئي اور نہ تھا جن كو لوگ پہچانتے ہوں ، ليكن امام _چونكہ لوگوں كى نيتوں اور ان كے ضمير سے آگاہ تھے اس لئے آپ نے پہلے ہى دن سے موافقت كا اظہار نہيں كيا ہرچند كہ آپ نے اختلاف بھى نہيں كيا_ امام _جانتے تھے كہ ہر قيام اگرچہ '' رضائے آل محمد'' كے نام پر ہو رہا ہے ليكن اس كا مقصد كچھ اور ہى ہے كاميابى كے بعد انقلاب كے رخ كو موڑ كر وہ لوگ اپنے مقاصد كے لئے انجام كو پہنچائيں گے اور اس حقيقت كو امام _كے ارشادات سے معلوم كيا جاسكتا ہے_

۱_ عبداللہ ابن حسن نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے خواہش ظاہر كى وہ دعوت ميں پيشقدمى كرنے والے سفّاح اور منصور كے ساتھ ہوجائيں آپ نے فرمايا: ان دونوں كى نيت صاف نہيں ہے، تمہارے اور ہمارے نام سے'' رضائے آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' كے نعرہ كے سايہ ميں انہوں نے ايك تحريك چلا ركھى ہے ليكن نتيجہ كے موقع پر تم كو اور تمہارے دونوں بيٹوں كو پيچھے دھكيل كر اپنے كو لوگوں كے حكمران كى حيثيت سے پہچنوائيں گے(۲۴)

۲_ سدير صيرفى كى دعوت ميں تعاون كرنے كے جواب ميں بھى امام _نے فرمايا:''ميں ان لوگوں ميں اخلاص نہيں ديكھ رہا ہوں ''_(۲۵)

۳_ ابومسلم خراسانى نے، جس نے عباسيوں كو حكومت تك پہنچايا، ايك خط ميں امام جعفر صادق عليه‌السلام كو لكھا'' ميں لوگوں كو اہل بيت كى دوستى كى طرف دعوت ديتا ہوں كيا آپ اس بات كى طرف مائل ہيں كہ ميں آپ كى بيعت كروں ؟ امام _نے جواب ديا'' نہ تم ہمارے مكتب كے آدمى ہو اور نہ زمانہ ہمارا زمانہ ہے(۲۶)

۱۶۳

بنى عباس كا زمانہ

بنى عباس '' عبدالمطلب ابن عباس'' پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چچا كى اولاد سے تھے انہوں نے شروع ميں سيدالشہداءعليه‌السلام كے خون كے انتقام اور خوشنودى آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امويوں كے ظلم و ستم سے نمٹنے كے نام پر لوگوں كو اپنے ارد گرد جمع كيا اور ايراني، جو اولاد عليعليه‌السلام سے محبت كرتے تھے ان سے فائدہ اٹھايا اور انہوں نے بنى اميہ سے جنگ كى تا كہ امويوں سے حكومت لے كر جو اس كا حقدار ہے اس كے حوالے كرديں گے اور انجام كار انہوں نے ابومسلم خراسانى اور ايرانيوں كى مدد سے، جو اُن كے اردگرد جمع تھے بنى اميہ كو درميان سے نكال باہر كرديا_ ليكن خلافت كو امام وقت جعفر بن محمد _كے حوالہ كرنے كے بجائے خود ہى اس پر قبضہ كر ليا(۲۷) آغاز ميں بنى عباس نے اسلام كو ظاہر كركے اس عنوان سے كہ '' ہم آل پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں '' يہ كوشش كى كہ اپنے كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا حقيقى وارث اور خلافت كے لئے نہايت موزوں ظاہر كريں _ اور چونكہ وہ دوسروں كى بہ نسبت يہ بات اچھى طرح جانتے تھے كہ وہ اس منصب كے لائق نہيں ہيں _ اس لئے محض اقتدار كے ہاتھ ميں آتے ہي، سابقہ ظالموں كى طرح انہوں نے بھى اپنى سلطنت كى حفاظت كيلئے امام جعفر صادقعليه‌السلام اور ان كے چاہنے والوں پر سختى اور دباؤ ڈالنا شروع كرديا اور ہر ممكن كوشش كى كہ معاشرہ كو خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دور ہى ركھا جائے تا كہ جس حكومت كو خاندن پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نام سے اسلام كا اظہار كركے حاصل كيا ہے كہيں وہ ہاتھ سے نكل نہ جائے_

بنى عباس كے پہلے خليفہ سفاح نے چارسال تك اور دوسرے خليفہ منصور نے ۲۲ سال تك يعنى امام جعفر صادقعليه‌السلام كى شہادت كے دس سال بعد تك اقتدار كواپنے ہاتھ ميں ركھا_

امام _نے اس تمام مدت ميں خصوصاً منصور كے دور حكومت ميں بڑى دشوارى اور پريشانى ميں زندگى گذارى اگرچہ آپعليه‌السلام كو حكومت كى سختى اور پابندى كى وجہ سے سچے اسلام كے خدوخال كو دنيا كے سامنے پيش كرنے كا موقع نہيں ملا _ ليكن مناسب حالات ميں حكام وقت پر اعتراض اور

۱۶۴

ان كو ٹوكنے سے بھى گريز نہيں كيا_ جب منصور نے ايك خط كے ذريعہ چاہا كہ آپعليه‌السلام اس كو نصيحت كريں تو آپ نے اس كے جواب ميں لكھا'' جو دنيا كو چاہتا ہے وہ تم كو نصيحت نہيں كرسكتا اور جو آخرت كو چاہتا ہے وہ تمہارا ہم نشين نہيں ہوسكتا''(۲۸) ايك دن منصور كے چہرہ پر ايك مكھى بيٹھ گئي ايسا بار بار ہوتا رہا يہاں تك كہ منصور تنگ آگيا اور اس نے غصہ ميں امام _جو وہاں تشريف فرما تھے سے پوچھا كہ '' خدا نے مكھى كو كيوں پيدا كيا ہے؟ امام نے فرمايا:'' تا كہ جو جابر ہيں انہيں ذليل اور رسوا كرے(۲۹) امام جعفر صادقعليه‌السلام نے ہر ممكن صورت ميں اپنے بصيرت افروز بيانات ميں ولى امر اور اسلام كى باگ ڈور سنبھالنے والوں كے شرائط كو بيان فرمايا اور حكومت بنى عباس كے اصلى چہرہ اور اس كى شكل و صورت كو واضح كرديا_

ايك دن آپ كے ايك صحابى نے آپ سے پوچھا كہ آپ كے كچھ پيروكار تنگدستى ميں گذر بسر كر رہے ہيں ان كو يہ پيشكش ہوئي ہے كہ ان ( بنى عباس ) كے لئے گھر بنائيں نہريں كھوديں اور اس طرح اجرت حاصل كريں ، يہ كام آپ كى نظر ميں كيسا ہے؟ آپ نے فرمايا ميں اس بات كو پسند نہيں كرتا كہ ان كے لئے ايك گرہ بھى ڈالوں يا ايك خط بھى كھينچوں چاہے وہ اس كے لئے كتنے ہى پيسے كيوں نہ ديں اس لئے كہ جو لوگ ظالموں كى مدد كرتے ہيں ، قيامت ميں آگ كے شعلے ان كو اپنے گھيرے ميں لئے رہيں گے يہاں تك كہ خدا بندوں كے درميان فيصلہ كرے''(۲۹)

امام جعفر صادقعليه‌السلام كا اصلاحى منصوبہ

بحرانى حالات اور آپس كى رسہ كشى اور مخالفوں سے جنگ، نيز وہ حالات جو امام محمد باقرعليه‌السلام نے پہلے سے سازگار كر ركھے تھے يہ سب مل كر اس بات كا سبب بنے كہ امام جعفر صادقعليه‌السلام وہى سچے مظہر اميد قرار پائيں جن كا انتظار شيعوں نے مدتوں كيا تھا_ اور وہى '' قيام كرنے والا'' ٹھہريں جو

۱۶۵

اپنے اسلاف كے طولانى مجاہدات كو نتيجہ تك پہنچائے گا_ يہاں تك كہ كبھى امام محمد باقر _كى صراحت بھى اس آرزو كى پرورش ميں موثر رہى ہے_

جابرابن يزيد نقل كرتے ہيں : كسى نے امام محمد باقرعليه‌السلام سے ان كے بعد قيام كرنے والے كا نام پوچھا تو امام نے ابوعبداللہ ( امام جعفر صادق) كے شانہ پر ہاتھ ركھا اور فرمايا: '' بخدا يہ ہے آل محمد كا قيام كرنے والا''(۳۰) '' قيام '' ائمہ اور شيعوں كے عرف ميں وہى مفہوم ركھتا تھا جو مفہوم اس كلمہ سے آج سمجھا جاتا ہے_ قيام كرنيوالا وہ شخص ہے جو مسلط طاقت كے خلاف اور اسلام كى حاكميت كے لئے اٹھ كھڑا ہو اس مفہوم كا لازمہ جنگى قدرت نمائي نہيں ہے ليكن ہر جہت سے تعرض اور مخالفت كو ضرور ظاہر كرتا ہے_

اس بناء پر امام جعفر صادقعليه‌السلام اپنى ايك اعتراض آميز اصلاحى تحريك شروع كرتے ہيں ليكن يہ ان كا قيام آخرى مرحلہ ( يعنى جنگى اقدام ) تك، اور آخر ميں قدرت حاصل كر لينے تك پہنچے گا يا نہيں ؟ يہ وہ باتيں ہيں جن كا يقين آئندہ كے واقعات اور پيشرفت كى كيفيت پر مبنى ہے_

ان سے پہلے دو امام _ امام زين العابدين اور امام محمد باقر عليہما السلام _ اس دشوار راستہ كے پہلے مرحلہ كو سر كر چكے ہيں _ اب ان كى بارى ہے كہ يہ آخرى قدم اٹھائيں اور اپنے باپ ودادا كى كوشش كو نتيجہ تك پہنچائيں _ اتفاق سے سياسى اور اجتماعى حالات بھى _ جيسا كہ اشارہ كيا جا چكا _ سازگار تھے _ امامعليه‌السلام نے مناسب حالات سے استفادہ كرتے ہوئے بنيادى كام اور اپنى سخت ذمہ دارى كو شروع كرديا تھا_

ہم اس مقام پر آپ كى ۳۳ سالہ امامت كے پر ثمر اور سعى و كوشش سے بھر پور زندگى كے اہم كاموں ميں سے دو نماياں كارناموں كى طرف اشارہ كر رہے ہيں :

۱_ امامت كے مسئلہ كا بيان اور اس كى تبليغ

۱۶۶

۲_اسلامى تہذيب وثقافت كا بيان اور اس كى نشر و اشاعت اور جعفرى يونيورسٹى كى داغ بيل ڈالنا_

الف _ مسئلہ امامت كا بيان اور اس كى تبليغ

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد سے ہى ائمہ شيعہ كى تبليغ ميں سر فہرست اہل بيت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى امامت كا اثبات رہا ہے_ اس موضوع كو امام زادوں كى تحريك ميں بھى مشاہدہ كيا جاسكتا ہے جيسا كہ زيد ابن على ابن الحسينعليه‌السلام اس كى واضح مثال ہيں _

امام جعفر صادقعليه‌السلام كى تبليغ بھى اس روش سے باہر نہ تھي_ آپ نے اس بات كى تبليغ و اشاعت كے وقت اپنے آپ كو ايسے جہاد كے مرحلہ ميں پايا جہاں حكام وقت كى نفى كے باوجود اپنے كو ولايت و امامت كے حقيقى حقدار كے عنوان سے لوگوں كے سامنے پہچنوايا جائے_ حتى كہ آپ نے اس سلسلہ ميں اسى پر بس نہيں كيا بلكہ آپ اپنے نام كے ساتھ ائمہ اور اپنے اسلاف كا نام بھى بتاتے ہيں اور اس بيان كے ساتھ اپنى امامت كو اپنے اسلاف كى امامت پر مرتب ہونے والا لازمى نتيجہ شمار كرتے ہيں اور يہ بتانے كے لئے كہ ہم وہ نہيں ہيں جنكى كوئي اصل نہ ہو، اپنے سلسلہ كو پيغمبر سے متصل كرتے ہيں _

اس تاريخى حقيقت كو ثابت كرنے كيلئے بہت سى روايتيں موجود ہيں _ نمونہ كے طور پر '' عمر ابن ابى المقدام '' كى روايت ، جو شايد اس باب ميں ذكر ہونے والى روايتوں ميں ، بہترين روايت سے اسے پيش كرتے ہيں _

وہ نقل كرتے ہيں كہ : امام جعفر صادقعليه‌السلام كو ہم نے ديكھا كہ ۹ ذى الحجہ ( روز عرفہ ) صحرائے عرفات ميں لوگوں كے درميان كھڑے ہيں اور بلند آواز سے ( اس پيغام كو) آپ نے تين مرتبہ دہرايا:

۱۶۷

''ايها الناس انّ رسول الله كان الامام، ثم كان عليّ بن ابى طالب ثم الحسن، ثم الحسين، ثم على بن الحسين، ثم محمد بن علي، ثم هه ...''(۳۱)

يعنى اے لوگو ( مسلمانوں كے ) پيشوا پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے ان كے بعد على ابن ابى طالب اور ان كے بعد ( ان كے بيٹے) حسن اور ان كے بعد حسين، حسين كے بعد على ابن الحسين پھر محمد ابن على اور ان كے بعد ميں امام ہوں ، لہذا جو سوال پوچھنا ہو پوچھو_

امام نے چہرہ كو داہنى طرف موڑا اور تين مرتبہ اسى پيغام كو پيش كيا پھر بائيں طرف آپ نے رخ كيا اور تين بار اسى كى تكرار كرتے رہے_ پھر پيچھے مڑے اور پھر اسى آواز كو بلند كيا اور وہى پيغام دہراتے رہے(۳۲) اس طرح آپ نے بارہ مرتبہ اپنى بات بيان كى اور امامت كے پيغام كو بلند آواز سے ميدان عرفات ميں جمع ہونے والے ان تمام لوگوں كے كانوں تك پہنچايا جو مسلم علاقوں سے آئے ہوئے تھے_ تا كہ اس طرح تمام دنيائے اسلام ميں يہ پيغام پھيل جائے_

ب_ اسلامى ثقافت كى نشر و اشاعت

دينى تہذيب اور اسلامى ثقافت كو اس وقت بہت فروغ ملا اور تيزى سے اس كى جڑيں چارو ں طرف پھيل گئيں _ ائمہ كى زندگى ميں اس كى جو شكل تھى اس سے زيادہ واضح، نماياں اور وسيع صورت ميں اس كو ديكھا جاسكتا ہے_ يہاں تك كہ فقہ شيعہ نے '' فقہ جعفري'' كا نام اختيار كيا اور جنہوں نے امام كے سياسى كام كو نظر انداز كيا ہے وہ بھى اس بات پر متفق ہيں كہ آپ كے پاس وسيع ترين علمى اور فكرى وسائل تعليم موجود تھے_

آپ كى علمى تحريك اس قدر پھيلى كہ اس نے تمام اسلامى علاقوں كو اپنے حلقہ ميں لے ليا، لوگ ان كے علم كا چر چاكرنے لگے اور تمام شہروں ميں ان كى شہرت ہوگئي(۳۳) آپ ايك بہت بڑى اسلامى يونيورسٹي_ جسكى داغ بيل آپ كے پدر بزرگوار نے ڈالى تھى _ تشكيل دينے ، اس ميں چار ہزار افراد كو مختلف علوم ميں تربيت كرنے ۳۴ اور ايسى اہم شخصيتوں كو

۱۶۸

عالم اسلام كے حوالہ كرنے ميں كامياب ہوگئے جو اپنے زمانہ كے روشن چراغ اور محققين وقت گذرے ہيں _

آپ كے كارنامے محض تفسير، حديث اور فقہ ميں منحصر نہيں تھے بلكہ آپ فلسفہ، كلام، رياضيات اور علم كيميا ميں بھى باب علم كھولنے ميں كامياب رہے، ہشام بن حكم، مفضل بن عمر، مومن طاق، ہشام ابن سالم فلسفہ و كلام ميں آپ كے ممتاز شاگرد تھے _ زرارہ، محمد ابن مسلم، جميل ابن درّاج، حمران ابن اعين، ابوبصير اور عبداللہ ابن سنان فقہ، اصول اور تفسير ميں ماہر تھے، جابر ابن حيان رياضيات اور كيميا ميں ، جابر جو _ بابائے كيميا كہے جاتے ہيں _ وہ پہلے شخص ہيں جنہوں نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے علم كيميا حاصل كيا اور اس سلسلہ ميں كتاب لكھي، ليبارٹرى قائم كى اور قابل قدر تحقيقات چھوڑيں(۳۵) جو بات يہاں بيان كى جانى چاہئے _ جو كہ امام جعفر صادقعليه‌السلام كى زندگى كے بارے ميں جستجو كرنے والے بہت سے لوگوں سے پوشيدہ رہ گئي ہے _ وہ آپ كى سياسى اور اعتراض آميز تحريك ہے_

مقدمہ كے طور پر يہ بات جان لينى چاہئے كہ خلافت اسلامى فقط ايك سياسى مشينرى نہيں ہے بلكہ خلافت ايك سياسى اور مذہبى قيادت كا نام ہے اور اسلام ميں خليفہ سياست كے علاوہ لوگوں كے دينى امور اور مذہبى پيشوائي كا بھى ذمہ دار ہے_

يہ حقيقت اس بات كا سبب بنى كہ خلافت كى پہلى كڑى سے لے كر بعد تك كے حكمرانوں كو چونكہ دينى واقفيت كا بہت كم حصّہ ملا تھا يا كلى طور پر دين سے بے بہرہ تھے اس لئے اس كمى كو اپنے سے وابستہ رہنے والى دينى شخصيتوں كے ذريعہ پورا كرتے رہے اور اپنے حكومت سے كرايہ كے فقہاء ،مفسرين اور محدثين كو ملحق كركے يہ چاہا كہ دين و سياست مركب ہوجائيں اور ضرورت كے موقع پر اپنے منشاء كے مطابق آسانى سے _ ان لوگوں كے ذريعہ _ احكام دين كو مصلحت كے تقاضہ كے مطابق بدل ديں _

۱۶۹

اس مقدمہ كے بعد بڑى وضاحت كے ساتھ يہ بات سمجھى جاسكتى ہے كہ '' فقہ جعفري'' خلافت سے وابستہ فقيہوں كے مقابل محض ايك دينى عقيدہ كا معمولى اختلاف نہ تھا_ بلكہ مندرجہ ذيل دو معترضانہ مضامين كا حامل تھا_

۱_ حكومت كى دينى آگہى سے ناواقفيت، اور لوگوں كے فكرى امور كى ذمہ دارى لينے كے بارے ميں كمزورى كا اظہار اور نتيجتاً اس بات كو ثابت كرنا كہ حكومت ميں خلافت كے عہدہ كى ذمہ دارى قبول كرنے كى صلاحيت نہيں ہے_

۲_ احكام فقہى كے بيان ميں مصلحت انديشى كے بنا پر جن مقامات پر تحريف ہوئي ہے ان موارد كى نشان دہى كرنا اور فقيہوں كى حكومت كرنے والى طاقت كى خواہشوں كى پيروى كو طشت از بام كرنا_

امام جعفر صادقعليه‌السلام فقہ، معارف اسلامى اور تفسير قرآن كو حكومت سے وابستہ علماء كے طريقہ كے خلاف ايك الگ طريقہ سے بيان كركے عملى طور پر اس مشينرى كے خلاف جہاد كے لئے اٹھے اور حكومت كى مذہبى نقاب كو پلٹ ديا_

امام _كو ان كى تدريسى اور فقہى كاركردگى پر منصور كى طرف سے دھمكى اور دباؤ كا سامنا كرنا نيز حجاز و عراق كے معروف فقہاء كو حكومت كے دارالحكومت ميں پلٹ آنے پر منصور كا اصرار اسى احساس اور توجہ كا نتيجہ تھا_

امام جعفر صادقعليه‌السلام ضرورى حالات ميں اسى تنقيدى مضمون كو جوان كے فقہ اور تفسير كے درس ميں تھا، لوگوں كے درميان ركھتے تھے ايك حديث ميں آپ سے منقول ہے كہ '' ہم ہى وہ ہيں كہ جن كى فرماں بردارى كو اللہ نے واجب قرار ديا ہے جبكہ تم ان لوگوں كى پيروى كرتے ہو كہ جن كى جہالت كى بنا پر لوگ اللہ كے سامنے كوئي عذر پيش نہيں كرسكتے(۳۶) خلاصہ يہ كہ امامعليه‌السلام نے اپنى علمى تحريك اور اپنى حقيقى خلافت كے ذريعے سے امواج فاسد كى

۱۷۰

رائج دين شناسى سے اپنى معترضانہ روش كے ساتھ كہ، جن كو اموى اور عباسى حكومت كے سياسى حالات نے پيدا كر ديا تھا، مذہبى اور قومى كشمكش كو مذكورہ بالا دو حصوں ميں اور بھى شديد كرديا اور مبارزہ كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے_

اور غاليوں ، زنديقوں ، مرجئہ، خوارج، صوفيہ اور مختلف گروہوں اور دستوں كے انحرافى راستوں كو، اپنے مباحثہ اور مناظرہ كے ذريعہ امت اسلامى كے لئے طشت از بام كرديا _(۳۷) ان گروہوں نے انحراف پھيلانے كے لئے سازگار حالات بنالئے تھے_

شہادت امام جعفر صادقعليه‌السلام

منصور، بنى عباسى كا ظالم خليفہ با وجود اس كے كہ اس نے امامعليه‌السلام كو اپنى نگرانى اور نہايت محدود ماحول ميں ركھا تھا، آپ پر اپنے جاسوس مقرر كرديئے تھے، پھر بھى آپ كے اس وجود كو معاشرہ ميں برداشت نہ كرسكا جس كى امامت اور رہبرى كا آوازہ دور دراز كے اسلامى علاقوں ميں پھيل چكا تھا_ اس نے آپ كو زہر دينے كا ارادہ كر ليا_

امام جعفر صادقعليه‌السلام ۲۵ شوال ۱۴۸ ھ كو ۶۵ سال كى عمر ميں منصور كے ذريعہ زہر سے شہيد ہوئے آپ كے جسم اقدس كو آپ كے پدر گرامى كے پہلو ميں بقيع ميں سپرد خاك كرديا(۳۸)

جعفرى يونيورسٹى كے تربيت يافتہ افراد

امام جعفر صادقعليه‌السلام كى بڑى درس گاہ ميں بہت سے ايسے شاگردوں نے پرورش پائي جنہوں نے مختلف مضامين ميں علوم و معارف اسلام كو حاصل كركے دوسروں تك منتقل كيا_ہم ان كے بلند مقام اور بزرگى كو ظاہر كرنے كے لئے ان شاگردوں ميں سے جنہوں نے اس درس گاہ ميں

۱۷۱

تربيت پائي تھى چند نامور شاگردوں كا اختصار سے تعارف كرائيں گے(۴۰)

حمران بن اَعْيُن

اعين كا خاندان عام طور پر ائمہ كا پيرو تھا، حمران اور ان كے بھائي '' زرارہ'' دونوں شيعوں كى نماياں شخصيتوں ميں سے شمار ہوتے تھے اور اپنے زمانہ كے دانش مند و با فضيلت افراد تھے_ امام محمد باقر اور امام جعفر(عليہماالسلام) صادق كے بزرگ صحابہ ميں شمار كئے جاتے تھے_

حمران كى معنوى بزرگى اور ممتاز مقام كے حامل ہونے كے علاوہ علوم قرآن اور ديگر علوم منجملہ علم نحو، لغت، ادبيات عرب'' ميں بھى صاحب نظر تھے ان كے نظريات سے ان كے بعد آنيوالے دانش مند استناد كرتے رہے_(۴۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے ان كے بارے ميں فرمايا'' حمران بن اعين'' ايك ايسے با ايمان شخص ہيں جو ہرگز اپنے دين سے پلٹنے والے نہيں ہيں ، نيز آپ نے فرمايا'' حمران اہل بہشت سے ہيں ''_(۴۲)

ہشام ابن سالم نقل كرتے ہيں كہ ايك دن ايك جماعت كے ساتھ ميں امام جعفر صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر تھا_ اہل شام ميں سے ايك شخص وہاں وارد ہوا امامعليه‌السلام نے اس سے پوچھا كيا چاہتے ہو؟ اس نے كہا ميں آپ سے مناظرہ كے لئے آيا ہوں _ آپ نے فرمايا كس چيز كے بارے ميں مناظرہ كرنا چاہتے ہو؟ اس نے كہا: كہ قرآن كے بارے ميں ، امام نے اس كو '' حمران'' سے رجوع كرنے كے لئے كہا، اس نے كہا كہ ميں آپ سے مناظرہ كرنے آيا ہوں نہ كہ حمران سے آپ نے فرمايا: اگر تم نے حمران كو شكست ديدى تو گويا تم نے مجھ پر كاميابى حاصل كر لي_

وہ شامى حمران كے ساتھ بحث كرنے لگا اس نے جو بھى پوچھا بڑا مستند جواب ملا يہاں تك كہ

۱۷۲

وہ تھك گيا ، امامعليه‌السلام نے اس سے پوچھا تم نے حمران كو كيسا پايا؟ اس نے كہا وہ ايك ماہر استاد ہيں ميں نے جو پوچھا انہوں نے اس كا جواب ديا(۴۳)

مفضل ابن عمر

مفضل امام جعفر صادقعليه‌السلام كے ايك بزرگ صحابى تھے اور ايك مشہور فقيہ شمار كئے جاتے تھے جو امامعليه‌السلام كے بعض امور كے ذمہ دار تھے(۴۴) شيعوں كا ايك وفد مدينہ ميں آيا اور اس نے امامعليه‌السلام سے خواہش ظاہر كى كہ كسى ايسے شخص كا ان سے تعارف كرا ديں كہ جس سے _ دينى امور ميں _ ضرورت كے وقت رجوع كيا جاسكے امام نے فرمايا جس كسى كا كوئي سوال ہو وہ آئے اور مجھ سے دريافت كرلے ان لوگوں نے اصرار كيا كہ آپ ضرور كسى كا تعارف كرائيں _ امامعليه‌السلام نے فرمايا مفضل كو ميں نے تمہارے لئے معين كيا وہ جو كہيں قبول كر لو اس لئے كہ وہ حق كے سوا كچھ نہيں كہتے_(۴۵)

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے چند نشستوں ميں توحيد كے سلسلہ ميں جناب مفضل كو خاص درس ديئےجن كا مجموعہ كتابى شكل ميں '' توحيد مفضل'' كے نام سے مشہور ہے يہ دروس مفضل پر امام كى مخصوص عنايت اور امامعليه‌السلام كے نزديك ان كے علوّ مرتبت و مقام پر شاہد ہيں _

جابربن يزيد جعفي

جابر كوفہ كے رہنے والے تھے ليكن امامعليه‌السلام سے استفادہ كرنے كى غرض سے مدينہ پہنچے اور آپكے مكتب پر فيض سے استفادہ كرنے كے بعد علمى اور معنوى بلندى پر فائز ہوئے اور آپ كے نماياں اصحاب ميں شامل ہوگئے_

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے سوال ہوا كہ آپ كے نزديك جابر كا كيا مقام ہے ؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا: جابر ميرے نزديك اسى طرح ہيں جس طرح سلمان پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك تھے_(۴۶)

آپ عقائد تشيّع كے كھلّم دفاع كى وجہ سے ہميشہ مخالفين كى تنقيد كا شكار رہے اور چونكہ آپ

۱۷۳

نے كچھ حقائق كے بيان كے لئے ماحول كو ناسازگار ديكھا تو ان بہت سى حديثوں كو بيان كرنے سے گريز كيا جو آپ نے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (عليہماالسلام) سے سن ركھى تھيں _ آپ فرماتے تھے كہ '' پچاس ہزار حديثيں ميرے سينہ ميں ہيں جن ميں سے ابھى تك ميں نے ايك حديث بھى بيان نہيں كي''(۴۷)

۱۷۴

سوالات

۱_ امام جعفر صادقعليه‌السلام كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور آپ نے كيسے ماحول ميں پرورش پائي؟

۲_ امام _كے اخلاق و كردار كے دو نمونے پيش كيجئے_

۳_ امام جعفر صادقعليه‌السلام كى علمى عظمت و منزلت كے بارے ميں دو اہم شخصيتوں كے نظريات پيش كيجئے_

۴_ امام جعفر صادقعليه‌السلام بنى اميہ اور بنى عباس كے كون كون سے بادشاہوں كے ہم عصر تھے؟

۵_ اموى حكومت كے زوال كا سبب بيان كيجئے_

۶_ امام _نے شورش كرنے والوں كى موافقت كيوں نہيں كي؟

۷_ اہل بيت اور علويوں كے ساتھ بنى عباس كا سلوك كيسا تھا اور امام جعفر صادقعليه‌السلام نے ان كے مقابلہ ميں كونسا رويہ اختيار كيا؟

۸_ امام جعفر صادقعليه‌السلام نے اپنے اصلاحى منصوبوں ميں كن مسائل كو ترجيح دي؟

۹_ خلافت كى مشينرى كے مقابل امام كى سياسى تنقيد آميز علمى تحريك كے پہلو كو واضح كيجئے_

۱۰_ امام جعفر صادقعليه‌السلام كس تاريخ كو كس شخص كے ذريعہ اور كس طرح شہيد ہوئے؟

۱۷۵

حوالہ جات

۱ اعلام الورى /۲۶۶، ارشاد مفيد/۲۷۰، مناقب ابن شہر آشوب جلد ۴/۲۷۹_ ۲۸۰_

۲ اصول كافى جلد ۱/۴۷۲'' و كانت امى ممن آمنت و اتقت و احسنت'' بحار جلد ۴۷/۷_

۳ بحار جلد ۴۷/ ۴و ۶_

۴ اليحاة جلد ۱/۲۹۰، قرب الاسناد /۵۲_

۵ مجلد جلد ۴۷/۵۶،مناقب جلد ۴/۲۷۴، اعيان الشيعہ جلد ۱/۶۶۳_ الوسائل جلد۱۱/۲۱۱_

۶ مشكاة الانوار_

۷ بحار الانوار ج ۴۷/۵۴_ مناقب ج ۴/۲۷۳_

۸انى اُحبّ ان يتاذّى الرجل بجر الشمس فى طلب المعيشه بحار ج ۴۷/۵۷

۹ بحار جلد ۴۷/ ۱۱۳ '' و اين مثل جعفر؟''_

۱۰ الامام الصادق و المذہب الاربعہ جلد ۱/۵۳ منقول از التہذيب جلد ۲/۱۰۴_ مناقب ج ۴/۲۷۵، بحار ۴۷/۲۸_

۱۱ الامام الصادق و المذاہب الاربعہ جلد ۱/۵۴_

۱۲ الامام الصادق و المذاہب الاربعہ جلد ۱/۵۳_

۱۳ تاريخ طبرى ۶/۴۲۳، تاريخ كامل ۴/۵۲۳_

۱۴ دلائل الامامت طبرى /۱۰۴_

۱۵ دلائل الامامت طبري/۱۰۴_

۱۶ تاريخ يعقوبى جلد ۲/۲۱۸_

۱۷ عراق ميں ہشام كا گورنر خالد ابن عبداللہ قسرى پر يہ اتہام تھا كہ اس كى سالانہ آمدنى ايك كڑور تيس لاكھ دينار ہے (البدايہ و النہايہ جلد ۹/۳۳) ہشام كى بيوى كے پاس ايسا لباس تھاجس كے تار سونے كے تھے اور اس پرگراں بہانگينے جڑے ہوئے تھے اور اتنے تھے كہ اس كے بوجھ سے وہ چل نہيں سكتى تھي_ قيمت لگانے والے اس كى قيمت معين نہ كر سكے جب گورنر اور خليفہ كى بيوى كى يہ حالت ہے تو پھر خود خليفہ كى كيا حالت ہوگى ( بين الخفاء و الخلفائ/۲۸)_

۱۷۶

۱۸ مولى كى جمع موالى ہے جس كے ايك معنى آزاد شدہ غلام كے ہيں شايد اسى مناسب سے غير عرب كو وہ لوگ موالى كہتے تھے_

۱۹ السيادة العربيہ /۵۶، تاريخ التمدن الاسلامى جلد ۱/۲۷۴، الحياة السياسيہ لامام الرضا/۳۶_

۲۰و ۲۱ العقد الفريد مطبوعہ مصر ۱۹۳۷ جلد ۲/۲۷۰، تاريخ التمدن الاسلامى جلد۱/۳۴۱، الحياة السياسية الامام الرضا/۲۶_

۲۲ ضحى الاسلام جلد ۱/۲۵، الحياة السياسية لامام الرضا /۲۷_

۲۳ جو تحريكيں بنى اميہ كے خلاف اٹھيں ان ميں مكمل طور پر مذہبى رنگ و وجوہات تھے_ مثلا ۱_ اہل مدينہ كى تحريك '' واقعہ حرّہ'' ۲_ قاريان كوفہ و عراق كى تحريك ۸۳ ھ ميں ''ديرجماجم'' كے عنوان سے اور ان سے پہلے مختار اور توابين كا قيام ۶۷ ھ ميں _ ۳_ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كے نام پر ۱۲۶ ھ ميں يزيد بن وليد كامعتزليوں كے ساتھ قيام _ ۴_ عبداللہ ابن زبير كا قيام جو شام كے علاوہ دوسرے علاقوں پر مسلط تھے_ ۵_ وہ شورش جو ہشام كے خلاف افريقہ ميں برپا ہوئي_ ۶_ وہ تحريك جو خوارج نے ''طالب الحق'' نامى شخص كى رہبرى ميں اٹھائي تھي_ ۷_ حارث بن سريع كا ۱۱۶ ھ ميں قيام جو لوگوں كو كتاب خدا اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف دعوت دے رہا تھا_ ۸_ زيدبن على ابن الحسين كا ۱۲۰ ھ ميں قيام اور دوسرے قيام_ البتہ كچھ شورشيں حكمرانى كى غرض سے بھى برپا ہوئيں جيسے قيام آل مہلب ( ۱۰۲ ہجري) قيام مطرف بن مغيرہ (الحياة السياسية للام الرضا ص ۲۲)_

۲۴ زندگانى پيشوايان اسلام مصنفہ استاد جعفر سبحانى /۷۴ منقول از اصول كافي_

۲۵ الملل و النحل شہرستانى جلد ۱/۱۵۴، ينابيع المودة /۳۸۱_ الحياة السياسية لامام الرضا/۴۱_

۲۶ تفصيل كيلئے كتاب الحياة السياسية للامام الرضا /۶۳_ ۲۹ ملاحظہ ہو_

۲۷ بحار /۴۷/۱۸۴''من اراد الدنيا لا ينصحك و من اراد الاخر لا يصحبك'' _

۲۸ ''فقال المنصور يا اباعبدالله لم خلق الله الذباب؟ قال ليذلّ به الجبابره'' مناقب جلد۴/۲۱۵ _ الفصول المہمہ /۲۳۶، كشف الغمہ جلد ۲/۱۵۸، بحار جلد ۳۷/۱۶۶_

۲۹ وسائل جلد ۱۲/۱۲۹ما احب انى عقدت لهم عقدة او وكيت لهم و كائر و الا، لى ما بين لابتيها و لامدة بقلم ان عوان الظلمة يوم القيمة فى سرارق من نارحتى يحكم الله بين الصباد _

۳۰ بحار جلد ۴۷/۱۳، كافى جلد۱/۳۰۷، ارشاد مفيد /۲۷۱'' قال مسئل ابوجعفر عن القائم بعدہ

۱۷۷

فضرب بيده على ابيعبدالله فقال: هذا و الله قائم آل محمد ...''_

۳۱ راوى بيان كرتا ہے كہ ميں جب منى ميں آيا تو ميں نے اہل لغت اور عربى جاننے والوں سے '' ھَہ'' كے بارے ميں سوال كيا تو لوگوں نے كہا'' ھہ'' فلاں قبيلہ كى زبان ہے اور اس كے معنى اسى طرح سے ہيں ''انا فاسئلوني'' يعنى مجھ سے سوال كرو_

۳۲ بحار ج ۴۷/۵۸ منقول از كافي_

۳۳ الصواعق المحرقہ /۱۲۰_

۳۴ مناقب ابن شہر آشوب جلد ۴/۲۴۷، ارشاد مفيد /۲۷۱، بحار جلد ۴۷/۲۷_

۳۵ ر _ ك _ مطرح الانظار شرح حال جابر اور تاريخ ابن خلكان ترجمہ امام صادقعليه‌السلام _

۳۶ نحن قومٌ فرض اللہ طاعتنا و انتم تاتمّون بمن لا يعذر الناس بجہالتہ كافى ج۱/۱۸۶_

۳۷ امام محمد باقر اور امام صادق عليہما اسلام كى زندگى كى تاريخ كى تنظيم اور تدوين ميں كتاب '' پيشواى صادق'' مصنفہ استاد اور امام شناس محقق، رہبر جمہورى اسلامى حضرت آيت اللہ سيد على خامنہ اى سے دوسرى كتابوں كى بہ نسبت زيادہ استفادہ كيا گيا ہے_

۳۸ كافى جلد ۱/۴۷۲، بحار جلد ۴۷/۱_ اعلام الورى /۲۶۶، مناقب جلد ۴/۲۸۰_ ارشاد مفيد/۲۷۱_

۳۹ امام جعفر صادقعليه‌السلام كى زندگى كے بارے ميں ايك حصہ يہاں ، چونكہ اس حصہ كا حجم دوسرے حصوں سے زيادہ ہوگيا لہذا اسے آخر ميں ركھا گيا ہے_

۴۰ يہ بتا دينا ضرورى ہے كہ '' امام محمد باقر عليہ السلام'' كى زندگى والے حصہ ميں بھى امام جعفر صادق اور امام محمد باقر عليہما السلام كے شاگردوں ميں سے چند افراد كا اجمالى تذكرہ ہوا ہے_

۴۱ قاموس الرجال جلد ۳/۴۱۳_

۴۲ رجال كشي/۱۷۶،۱۸۰_

۴۳ رجال كشي/۲۷۶_

۴۴ جامع الرواة جلد ۲/۲۵۸_

۴۵ رجال كشي/ ۳۲۷، قاموس الرجال جلد ۳/۴۱۶ ''اسمَعوا منہ وَ اقبَلُوا عنہ فانّہ لايقولُ عَليَ اللہ و عَليَّ الا الحق''_

۴۶ قاموس الرجال جلد ۳/۳۳۵_

۴۷ صحيح مسلم جلد ۱/۱۰۲ ليكن رجل كشى ص ۱۹۴ پر جابر كے قول كے مطابق ان احاديث كى تعداد ۷۰ ستر ہزار نقل ہوئي ہے_

۱۷۸

دسواں سبق :

امام موسى بن جعفرعليه‌السلام كي سوانح عمري

۱۷۹

ولادت

ساتويں امام حضرت موسى بن جعفرعليه‌السلام ۷ صفر ۱۲۸ ھ ق كو مقام ابواء(۱) ميں پيدا ہوئے_(۲) آپ كے والد بزرگوار حضرت امام جعفرعليه‌السلام ابن محمدعليه‌السلام تھے اور مادر گرامى حميدہ بربريہ تھيں ان كا تعلق ايك بافضيلت غير عرب بزرگ خاندان سے تھا_ آپ كى والدہ خاندانى اصل اور فضائل انسانى سے مالامال تھيں امام جعفر صادق _نے ان كے بارے ميں فرمايا : '' حميدہ خالص سونے كى طرح پليدگى سے پاك ہيں ہمارے اور ہمارے بعد والے امامعليه‌السلام پر يہ خدا كا لطف ہے كہ ان كے قدموں كو اس نے ہمارے گھر تك پہنچايا_(۳)

امام جعفر صادقعليه‌السلام كے گھر اور ان كے علوم سے استفادہ كرنے كے بعد وہ اس منزل پر پہنچ گئيں كہ امامعليه‌السلام نے حكم ديا كہ مسلمان عورتيں دينى مسائل حاصل كرنے كے لئے ان كے پاس آئيں(۴)

امام جعفر صادق _نے اپنے بيٹے كى ولادت كى خبر معلوم ہونے كے بعد فرمايا: '' ميرے بعد امامعليه‌السلام اور خداوند كى بہترين مخلوق نے ولادت پائي ...''(۵)

اس نومولود كے لئے جس نام كا انتخاب كيا گيا وہ '' موسى '' تھا اس زمانہ تك خاندان نبوت ميں يہ نام نہيں ركھا گيا تھا_ يہ نام موسى بن عمرانعليه‌السلام كى كوششوں اور بت شكنى كى ياد دلانے والا نام تھا_

آپ كے مشہور القاب ميں كاظم، عبدصالح، باب الحوائج اور آپ كى سب سے مشہور كنيت ابوالحسن اور ابوابراہيم ہے(۶)

۱۸۰