تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 172681
ڈاؤنلوڈ: 4217


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172681 / ڈاؤنلوڈ: 4217
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

۴۱''و هو من عمل النبين و المرسلين و الصالحين'' من لا يحضرہ الفقيہ جلد ۳/۹۸ مطبوعہ بيروت ميں /۴۰۱، بحار جلد ۴۸/۵_

۴۲ عمدة الطالب /۱۹۶'' عجباً لمن جائتہ صرة موسى فشكى القلّة''_

۴۳ فصول المہمہ/ ۲۳۷_

۴۴ المجالس السنية جلد ۲/۵۲۷_

۴۵ تحف العقول /۳۵ ''عبدٌ من عباد الله و اخ فى كتاب الله و جارٌ فى بلاد الله يجمعنا و اباه خير الاباء آدم و افضل الاديان الاسلام'' _

۲۰۱

گيارہواں سبق:

امام على ابن موسى الرضاعليه‌السلام كى سوانح عمري

۲۰۲

ولادت

آسمان ولايت كے آٹھويں ستارہ حضرت على ابن موسى الرضاعليه‌السلام ۱۱ ذى القعدہ ۱۴۸ ھ ق كو اپنے جد بزرگوار امام جعفر صادق _كى شہادت كے سولہ دن بعد پيدا ہوئے_(۱)

آپ كا نام على ركھا گيا مشہور لقب رضا اور كنيت ابوالحسن ہے پدر بزرگوار كا اسم گرامى امام موسى كاظمعليه‌السلام اور مادر گرامى كا نام نجمہ ہے(۲) ، جو خردمندى ايمان اور تقوى ميں ممتازترين عورتوں ميں سے تھيں _(۳)

امامت پر نص

امام على ابن موسى الرضا نے ۱۸۳ ھ ق ميں _ جناب موسى ابن جعفر _كى شہادت كے بعد ۳۵ برس كى عمر ميں منصب امامت سنبھالا_

آپ كى امامت كا تعيّن تمام ائمہ معصومين عليم السلام كى امامت كى طرح رسول خدا كى تعيين و تصريح اور آپ كے پدر گرامى امام موسى كاظم _كے تعارف سے ہوا_

اپنى شہادت سے پہلے موسى ابن جعفر _نے زمين پر آٹھويں حجت خدا اور اپنے بعد كے امام كا تعارف مسلمانوں كے درميان كرايا تاكہ لوگ كجروى اور گمراہى ميں نہ جائيں _

''مخزومي'' نقل كرتے ہيں كہ موسى ابن جعفر _نے مجھ كو اور چند دوسرے افراد كو بلايا اور فرمايا: تم كو معلوم ہے كہ ميں نے تم لوگوں كو كيوں بلايا ہے؟ ہم نے كہا نہيں آپ نے فرمايا ميں

۲۰۳

چاہتا ہوں كہ تم لوگ گواہ رہو كہ ميرا يہ بيٹا_ امام رضا كى طرف اشارہ كر كے_ وصى اور ميرا جانشين ہے ''(۴)

يزيد بن سليط نقل كرتے ہيں كہ عمرہ بجالانے كے لئے ميں مكہ جارہا تھا، راستہ ميں امام موسى كاظم _سے ملاقات ہوئي_ ميں نے ان سے عرض كى كہ ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائيں آپ بھى اپنے پدر بزرگوار كى طرح مجھكو بتايئے اور اپنے بعد آنے والے امام كا تعارف كرايئےامامعليه‌السلام نے امامت كے بارے ميں تھوڑى وضاحت كرنے اور اس بات كو بيان كرنے كے بعد كہ امامعليه‌السلام خدا اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے معين ہوتا ہے_ فرمايا'' ميرے بعد ميرے فرزند علىعليه‌السلام (ابن موسيعليه‌السلام ) امام ہوں گے جو علىعليه‌السلام اور عليعليه‌السلام ابن الحسينعليه‌السلام كے ہم نام ہيں _(۵)

اخلاق و سيرت

ائمہ معصومين پسنديدہ اخلاق اور بہترين سيرت ميں دوسروں كے لئے نمونہ عمل تھے اور عملى طور پر لوگوں كو پاكيزہ زندگى اور فضيلت كا درس ديتے تھے، وہ لوگ باوجود اس كے كہ امامت كے بلند مقام پر فائز اور خدا كے برگزيدہ بندہ تھے ليكن پھر بھى انہوں نے اپنے كو لوگوں سے جدا نہيں كيا_

ابراہيم ابن عباس كہتے تھے كہ : ميں نے كبھى يہ نہيں ديكھا كہ امام رضاعليه‌السلام اپنى باتوں سے كسى كو تكليف پہنچاتے ہوں اور كسى كے كلام كو قطع كرتے ہوں اور كسى حاجتمندكو_ امكان كے باوجود_ بھگا ديتے ہوں ، دوسروں كى موجودگى ميں پير پھيلاتے يا ٹيك لگاتے ہوں يا اپنے غلاموں ميں سے كسى كو كوئي ناروا بات كہتے ہوں ، يا لعاب دہن كو دوسروں كے سامنے پھينكتے ہوں اور قہقہہ مار كر ہنستے ہوں ، ان كى ہنسى بس تبسم كى حد تك تھى ، جب دسترخوان بچھايا جاتا تو تمام گھر والوں كو حتى كہ دربان اور خدمت گزار كو بھى اس پر بٹھاتے اور ان لوگوں كے ساتھ كھانا كھاتے، راتوں كو كم

۲۰۴

سوتے اور رات كے زيادہ حصہ ميں صبح تك بيدار رہتے اور عبادت كيا كرتے تھے، بہت روزے ركھتے_(۶)

'' محمدبن ابى عباد'' نقل كرتے ہيں كہ : گرمى ميں آپ كا فرش چٹائي اور جاڑوں ميں كمبل ہوتا تھا، گھر ميں كھردرا كپڑا زيب تن فرماتے ليكن جب كبھى لوگوں كے درميان جاتے تو ( معمولاً جو لباس پہننا جاتا ہے وہى پہنتے تھے) اپنے كو سنوار تے_(۷)

ايك شب اپنے مہمانوں كے ساتھ بيٹھے ہوئے باتيں كر رہے تھے كہ ناگاہ چراغ ميں كوئي خرابى پيدا ہوگئي ، مہمان نے ہاتھ بڑھا يا تا كہ چراغ كو روشن كردے حضرت نے منع فرمايا اور خود اس كام كو انجام د يا اور فرمايا'' ہم وہ ہيں كہ جو مہمانوں سے كام نہيں ليتے_(۸)

حمام ميں ايك شخص نے جو آپ كو نہيں پہچانتا تھا، كہا كہ : ذرا كيسہ سے ميرا جسم مل ديں _ امامعليه‌السلام نے قبول كيا _اس نے جب امامعليه‌السلام كو پہچان ليا تو شرمندگى كے ساتھ عذر خواہى كرنے لگا_ امامعليه‌السلام نے كيسہ سے اس كا جسم ملتے ہوئے اس كا دل ركھ ليا كہ نہيں كوئي بات نہيں _(۹)

اہل بلخ كاايك شخص نقل كرتا ہے كہ ميں خراسان كے سفر ميں امام رضاعليه‌السلام كے ساتھ تھا_ ايك دن دسترخوان بچھايا گيا امام رضا _نے تمام خدمت گاروں كو حتى كہ سپاہ ناموں جلد والوں كو بھى دسترخوان پر بٹھايا تا كہ وہ بھى آپ كے ساتھ كھانا كھائيں ، ميں نے عرض كي: ميں آپ پر فدا ہوجاؤں بہتر ہے كہ يہ لوگ دوسرے دسترخوان پر بيٹھ جائيں _آپعليه‌السلام نے فرمايا: ٹھہرو، بيشك خدا ايك ہے، سب كے ماں باپ ايك ہيں اور جزاء عمل كے مطابق ہے(۱۰)

امام رضاعليه‌السلام كے خادم_ ياسر_ نقل كرتے ہيں كہ امامعليه‌السلام نے ہم سے فرمايا كہ '' جب تم كھانا كہا رہے ہو اور ميں تمہارے پاس آكر كھڑا ہوجاؤں تو تم ( ميرے احترام كے لئے) كھڑے نہ ہونا يہاں تك كھانا كھا كر فارغ ہوجاؤ_ اسى وجہ سے اكثر ايسا اتفاق ہوا كہ امامعليه‌السلام نے ہم كو آواز دى اور ان كے جواب ميں كہہ ديا گيا كہ '' كھانا كھانے ميں مشغول ہيں ، امامعليه‌السلام ايسے موقع پر كہہ ديتے تھے كہ '' اچھا رہنے دو يہاں تك كہ كھانا كھا كر فارغ ہوجائيں ''(۱۱)

۲۰۵

يعقوب نوبختى نقل فرماتے ہيں كہ ايك سائل نے امام رضا _سے كہا كہ مروت كے بقدر مجھے عطا كيجئے امامعليه‌السلام نے فرمايا كہ ہمارى وسعت ميں يہ بات نہيں ہے_ سائل نے عرض كيا، ميرى مروت كے بقدر عطا كيجئے_ امامعليه‌السلام نے غلام كو حكم ديا كہ اس كو دو سو دينار دے ديئےائيں(۱۲)

امام كا علمى مقام

آٹھويں امام علم و فضل كے اعتبار سے اس منزل پر فائز تھے كہ ہر آدمى آپ كو پہچانتا، آپ كى علمى عظمت كا اعتراف كرتا اور آپ كے سامنے سر تعظيم خم كرديتا تھا_

آپ كا زمانہ وہى زمانہ ہے جس زمانہ ميں مختلف عقائد و افكار سے سابقہ تھا_ علوم منتقل ہو رہے تھے_ معارف يونان و اسكندريہ كے متون كا ترجمہ ہوكر دنيائے اسلام اور عرب ميں آرہا تھا، مختلف قسم كے مكاتب فكر كے نظريات اور ان كے گوناگوں عقائد معاشرہ ميں آرہے تھے اور اس كے نتيجہ ميں تضاد اور مختلف خيالات و عقائد ابھر رہے تھے، ايسے وقت ميں لوگوں كے لئے اعتماد كے قابل صرف امام رضا _كا وجو د پر فيض تھا_

آپ كا پركشش اور پر فيض محضر مبارك شاگردوں اور محققين سے موجيں مار رہا تھا، مختلف فكرى جماعتوں كے رہبروں جيسے ثنويہ، دھريہ، يہود، نصارى ،زردشتي، زنديق كے مناظروں كى مركز خلافت بنى عباس ميں گرما گرم نشستيں تاريخ ميں موجود ہيں جن ميں سے ہر مناظرہ آپ كے علمى اور ارشاد و ہدايت كے بلند مقام كو پايہ ثبوت تك پہنچاتا ہے(۱۳)

ان مناظروں ميں ايك طرف تو امام _انحرافات كا سد باب كرتے اور دوسرى طرف لوگوں كو اسلامى علوم و معارف سكھاتے تھے اور چونكہ خلفاء بنى عباس كے توسط سے ان كتابوں كے ترجمہ كا مقصد سياسى تھا جيسے علم امامعليه‌السلام سے مقابلہ يا لوگوں كے ايمان كو اہل بيتعليه‌السلام سے برگشتہ كردينا اس لئے امامعليه‌السلام نے بھى مخصوص انداز سے ان كے منصوبہ كو خاك ميں ملاديا_

۲۰۶

امامعليه‌السلام كى شخصيت

امام رضا _كى عظمت و ممتاز شخصيت كے متعلق تمام مورخين اور محدثين اتفاق نظر ركھتے ہيں يہاں تك كہ مامون جو آپ كا سخت دشمن تھا اس نے بھى بارہا اس كا اعتراف كيا ہے_

اس نے اپنے معين كردہ شخص رجاء بن ابى ضحاك سے جب امامعليه‌السلام كے مدينہ سے مرو سفر كرنے كى خفيہ خبر سنى تو كہا : '' يہ ( امامعليه‌السلام كى طرف اشارہ ) روئے زمين پر بہترين فرد اور انسانوں ميں سب سے بڑے عالم اور عابد ہيں ...''(۱۴)

نيز امامعليه‌السلام كى ولى عہدى كے سلسلہ ميں مامون نے بيس ہزار افراد كو جمع كركے خطاب كيا:'' ميں نے فرزندان عباس اور فرزندان على كے درميان تلاش كيا ليكن ان ميں سے كسى كو اس امر كے لئے على ابن موسى رضاعليه‌السلام سے زيادہ لائق، متدين، پارسا اور بافضيلت نہيں پايا(۱۵)

امامت كا زمانہ

على ابن موسى _نے اپنے پدر بزرگوار كے قيد خانہ ميں شہادت كے بعد، ۳۵ سال كى عمر ميں رہبرى اور امامت كا عہدہ سنبھالا_ آپعليه‌السلام كى امامت كى مدت بيس سال تھي، ہارون الرشيد كے زمانہ كے دس سال، امين كى حكومت كے زمانہ كے پانچ سال اور مامون كى خلافت كے عہد كے پانچ سال_

آپعليه‌السلام كى امامت كے زمانہ ميں آپعليه‌السلام كے مبارزات اور آپعليه‌السلام كے موقف و رويہ عباسى خلافت كى مشينرى كے مد مقابل تھا، واضح كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ اس زمانہ كے حالات اور خصوصيات كو ديكھتے ہوئے آپ كے زمانہ امامت كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جائے_

۱_ آغاز امامت سے خراسان بھيجے جانے تك ( ۱۸۳ ھ ق تا ۲۰۱ ھ ق)

۲_ خراسان بھيجے جانے كے بعد ( ۲۰۱ ھ ق سے ۲۰۳ ھ ق تك)

۲۰۷

الف_ آغاز امامت سے خراسان بھيجے جانے تك

على ابن موسى الرضاعليه‌السلام اپنے زمانہ كے حكام جور كى طاقت سے بے پروا ہوكر ہدايت و رہبرى اور امامت كے فرائض انجام ديتے رہے اس راستہ ميں آپعليه‌السلام نے كسى بھى كوشش سے دريغ نہيں كيا_ حكومت كے مقابل امامعليه‌السلام كا رويہ_ اس استبدادى زمانہ ميں _ ايسا واضح تھا كہ آپعليه‌السلام كے كچھ اصحاب آپعليه‌السلام كى جان كے بارے ميں ڈرنے لگے تھے_

صفوان ابن يحيى نقل كرتے ہيں كہ امام رضاعليه‌السلام نے اپنے والد كى رحلت كے بعد ايسى باتيں كہيں كہ ہم ان كى جان كے بارے ميں ڈرگئے، اور ہم نے ان سے عرض كيا، آپعليه‌السلام نے بہت بڑى بات كو آشكار كرديا ہے_ ہم آپعليه‌السلام كے لئے اسى طاغوت ( ہارون) سے ڈر رہے ہيں آپعليه‌السلام نے فرمايا: جو كوشش چاہے كر لے وہ ميرا كچھ نہيں بگاڑ سكتا(۱۶)

'' محمد ابن سنان'' فرماتے ہيں كہ ہارون كے زمانے ميں ، ميں نے امام رضاعليه‌السلام سے عرض كيا: آپ نے امر امامت كے لئے اپنے كو مشہور كر ليا اور باپ كى جگہ بيٹھے ہيں جبكہ ہارون كى تلوار سے خون ٹپك رہا ہے_

آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ : '' اگر ہارون ميرے سر كے بال ميں سے ايك بال بھى كم كردے تو تم گواہ رہنا كہ ميں امام نہيں ہوں(۱۷)

آٹھويں امامعليه‌السلام كى اس زمانہ ميں ہرچند كہ بڑى وسيع كاركردگى تھى ليكن مصلحت اسلام كا تقاضا يہ تھا كہ خلافت سے براہ راست ٹكرانے كى بجائے اپنے فريضہ الہى كو دوسرى طرح انجام ديں تا كہ وہ دشمن امام رضا _كے موقف سے ٹكرانے كے لئے تيار نہ ہوجائيں جو چھٹے امامعليه‌السلام كى عمر كے آخرى زمانہ ميں اس بنيادى نقشہ كى گہرائي اور اہميت سے واقف ہوچكے تھے جو نقشہ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (عليہماالسلام)نے جعفرى يونيورسٹى كے قالب ميں پيش كيا تھا_

آپ نے علويوں كے بہت سے قيام_ جيسے اسلامى ثقافت كى نشر و اشاعت كے لئے زيد ابن

۲۰۸

على كے قيام_ كى پشت پناہى اور حمايت كے علاوہ، اسلامى ثقافت كے مختلف پہلوؤں كى مخصوص انداز ميں اپنے زمانہ كے تقاضا كے مطابق حمايت كي_

امامعليه‌السلام كى امامت كا يہ آٹھ سالہ دور ( ابتداء امامت سے خراسان بھيجے جانے تك) جو امين و مامون كى خلافت كا زمانہ تھا ايك رخ سے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق عليہما السلام كے زمانہ سے مشابہ تھا_

اس لئے كہ ايك طرف امين و مامون كے درميان خلافت كے مسئلہ پر خونين اختلافات اور كشمكش چھڑى ہوئي تھي_(۱۸) اور نتيجہ ميں ۱۹۸ ھ ق ميں امين قتل كرديا گيا اور مامون تخت خلافت پر بيٹھا_

دوسرى طرف انحرافى ثقافت نئے قالب اور جديد شكل ميں پھيل رہى تھى علم كلام، فقہ اور اخلاق والے مكاتب فكر ہر لحظہ پراگندہ ہو رہے تھے اور انتشار پھيلا رہے تھے_ علماء ملل و اديان ، خدمت، تعاون، ترجمہ، طبابت اور قدرتى ذخائر سے فائدہ اٹھانے كے ساتھ ساتھ تفرقہ اندازى اور ايسے مسائل كو نشر كرنے ميں لگے ہوئے تھے جو اسلام سے دوراور منحرف كرنے كا سبب بنتے تھے_ مامون نے اس زمانہ ميں علم و حكمت سے دوستى كے نام پر اپنے سياسى مقاصد كو حاصل كرنے كے لئے ان كے لئے ميدان خالى كر ركھا تھا، اور اس بات كى كوشش كر رہا تھا كہ حق دار پارٹى كے ثقافتى نفود كو_ جو كہ امام محمد باقر _كے زمانہ سے مائل بہ وسعت تھا_ محدود كر دے اور معاشرہ كے ذہن كو انقلابى اور اہل بيت كى حق پر استوار ثقافت سے ہٹادے_

يہى وہ جگہ ہے جہاں اسلامى معاشرہ كے لئے اس آٹھ سالہ دور ميں امام كى شخصيت ابھر كر سامنے آئي اور شيعوں كو بھى موقع ملا كہ مسلسل آپ سے رابطہ ركھيں اور آپ كى رہنمائي سے بہرہ مند ہوتے رہيں خاص كر اس وقت سے جب آپ نے بصرہ اور كوفہ كا سفر كيا اور عوامى مركز سے براہ راست ارتباط پيدا كيا تو ان دو شہروں كے عوام نے پہلے سے آمادگى كى بنا پر اپنے رہبر كا شاندار استقبال كيا_ امامعليه‌السلام نے اپنے دوستوں اور شيعوں سے ملاقات كے علاوہ مختلف قوموں كے

۲۰۹

دانشمندوں اور مختلف جماعتوں كے ليڈروں سے بحث و مناظرہ كى نشستيں تشكيل ديں اور معارف اسلامى كى مختلف انداز سے نشر و اشاعت كي(۱۹)

امامعليه‌السلام اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے موقف كے استحكام اور اسلامى معاشرہ كے مختلف طبقوں كے درميان اپنے نفوذ كو وسعت دينے ميں كامياب ہوئے_

مامون سے ايك گفتگو ميں آپعليه‌السلام لوگوں كے در ميان اپنے نفوذ كے ميزان كى طرف اشارہ فرماتے ہيں كہ:اس امر _ولى عہدى _ نے ہمارے لئے كسى نعمت كا اضافہ نہيں كيا ہے _ ميں جب مدينہ ميں تھا تو ميرى تحرير مشرق و مغرب ميں چلتى تھى(۲۰)

اكثر ايسا ہوتا تھا كہ حكومت كے مسائل كو حل كرنے اور مختلف گروہوں كے غصہ كوٹھنڈا كرنے كے لئے مامون امام رضا _سے رابطہ قائم كرتا تھا اور ان سے يہ خواہش كرتا تھا كہ لوگوں سے باتيں كريں اور ان كو خاموش رہنے اور چپ ہو جانے كى دعوت ديں _(۲۱)

علويوں كا قيام

علويوں نے بھى دربار خلافت كے جھگڑوں اور ان كے آپس ميں الجھ جانے سے فائدہ اٹھا يا اور امام _كى شخصيت اور ان كے موقف پر تكيہ كرتے ہوئے خلافت كى مشينرى كے خلاف قيام اور شورش بر پا كى منجملہ اُن كے :(ابوالسرايا) كا قيام تھا ،(۲۲) انہوں نے محمد ابن ابراہيم طباطباكى بيعت كے نعرہ كے ساتھ ۱۹۹ ھ ق ميں كوفہ ميں خروج كيا اور لوگوں كو خاندان پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نصرت اور شہيدان آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خون كا انتقام لينے كى دعوت دى _ابوالسرايا كا لشكران تمام سپاہيوں كو ختم كرديتا تھا جن كو حكومت ان لوگوں سے مقابلہ كے لئے بھيجتى تھى اور يہ لشكر جس شہر ميں بھى جاتا اس كو اپنے قبضہ ميں لے ليتا تھا(۲۳)

وہ دو ماہ سے كم عرصہ ميں مامون كے دو لاكھ كے لشكر كو قتل كرنے ميں كامياب رہے _اس

۲۱۰

طرح كوفہ، جس نے حسين ابن على كے ساتھ خيانت كا ثبوت ديا اور زيد ابن على كو تنہا چھوڑدياتھا ، اس بار ابن طباطباكى ہمراہى ميں علوى تحريك اور اس كے اعلى مقاصد كے دفاع كيلئے اٹھ كھڑاہوا_

كوفہ ميں ابوالسراياكے قيام كے علاوہ مختلف علاقوں جيسے بصرہ ، يمن،واسط،مدائن حتى بين النہرين اور شام ميں علويوں اور غير علويوں نے قيام كيا اور حكومت عباسى كے مدمقابل ڈٹ گئے_(۲۴)

يہ تمام چيزيں اس بات كى بيّن دليل ہيں كہ مختلف طبقات كے لوگ غير اسلامى حكومت اور عباسيوں كے ظلم كے خلاف تھے اور اہل بيتعليه‌السلام كے حق طلب اور مكتب عدالت كے گرويدہ ہوتے جارہے تھے _

اسى وجہ سے ہم ديكھتے ہيں اسلامى مملكت كے اندر مامون كى تمام تر كوششوں كے باوجود يہاں تك كہ اپنے بھائي امين كے قتل كردينے كے بعد بھى تمام اسلامى علاقوں پر جيسا چاہتا تھا ويسا تسلط نہ حاصل كرسكا_

اگر چہ اس زمانہ ميں _ ظاہرى قدرت اور ذر و زور كے اعتبار سے _ نگا ہيں حكومت كے پايہ تخت (مرو) پرجمى ہوئي تھيں ،ليكن دينى وراثت ،آوازہ حق اور حق كے اصلى رہبر كے چہر ہ كو ديكھنے كے لئے نگاہيں مدينہ كى طرف متوجہ تھيں يعنى اس شہر كى جانب جہاں فرزندپيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور پيشوائے حق حضرت على ابن موسى رضا _رہتے تھے _

اس عرصہ ميں دوسرے تمام لوگوں سے زيادہ اچھى طرح مامون كو معلوم تھا كہ كون سا حادثہ اس كے انتظار ميں ہے ان تحريكوں كا سرچشمہ كہاں ہے كس كى پشت و پناہى اور موقف پر اعتماد كرتے ہوئے يہ تحريكيں چل رہى ہيں اس وجہ سے اس نے اس بنيادى اور بڑى بات كى اصولى چارہ جوئي كرنے كى تركيب سوچى _

۲۱۱

ب_ سفر خراسان كى پيشكش كے آغاز سے شہادت تك

امامعليه‌السلام كى زندگى كا يہ حصہ جو تقريباً ۱۸ مہينوں پر پھيلا ہوا ہے _ كم مدت ہونے كے با وجود اس واقعہ كو اپنے دامن ميں لئے ہے جس نے خلافت عباسى كے مد مقابل امامت كے موقف كو دوسرى سطح ميں قرار ديا _

مشكلات اور دشوارياں جو علويوں كى طرف سے پيدا ہوگئي تھيں جن كا سرچشمہ ان كے راس و رئيس امام رضا _كى گراں قدر شخصيت تھى ، وہ دشوارياں جنہوں نے حكومت كو زوال كے معرض خطر ميں ڈال ركھا تھا _ ان كے چنگل سے نجات حاصل كرنے كے لئے مامون نے وہ نيا طريقہ اپنا يا جس كو آج تك اس نے نہيں اپنا يا تھا _ اور وہ طريقہ يہ تھا كہ وليعھدى كى پيشكش كركے اہم ترين مخالف شخصيت كو اپنے مركز قدرت ميں آنے كى دعوت دے اور ان كو اپنا بالا دست بنادے_

لہذا نہ چاہنے كے با وجود اپنے وزير (فضل ابن سہل ) سے مشورہ كے بعد امامعليه‌السلام كو مدينہ سے مامون نے مرو بلايا اور وليعہدى قبول كرنے كے لئے مجبور كيا_

مامون كے اس خلاف توقع اور نئے اقدام ميں ابتداء ميں اس كى حكومت كے لئے بڑى مشكليں پوشيدہ تھيں جن ميں سب سے بڑى مشكل يہ تھى كہ عباسيوں اور علويوں كى رائے اس اقدام كا استقبال نہيں كررہى تھى _ اس لئے كہ وہ لوگ يہ ديكھ رہے تھے كہ اس نے مسند خلافت تك پہنچنے كے لئے اپنے بھائي كو قتل كرديا اور خود بھى اہل بيتعليه‌السلام كے سخت ترين دشمنوں ميں شمار كياجاتاتھا اس لئے مامون نے كسى بھى ممكنہ صورت سے اپنے صدق و اخلاص كو ثابت كرنے كے لئے مندرجہ ذيل اقدامات كئے :

۱_سياہ لباس كو جو عباسيوں كا شعار تھا، جسم سے اتار پھينكا اور سبز لباس جو علويوں كا شعار تھا پہن ليا_

۲۱۲

۲_اس نے حكم ديا كہ امام رضاعليه‌السلام كے نام كے سكّے ڈھالے جائيں اور ہرشہر ميں منجملہ ان كے مدينہ ميں ان كے نام كا خطبہ پڑھا جائے _

۳_اپنى بيٹى ام حبيبہ كو_ با وجود اس كے كہ امامعليه‌السلام سے چاليس سال چھوٹى تھى _امام _كى زوجيت ميں دے ديا_

۴_امام رضاعليه‌السلام اور علويوں كا بظاہر احترام واكرام كرنے لگا_

مامون مطمئن تھا كہ ان اقدامات ميں سے كوئي بھى اقدام يہاں تك كہ امامعليه‌السلام كے لئے بيعت حاصل كرنا بھى اس كے نقصان كا سبب نہيں ہے _ اس سياست كو اپنا نے كا مقصد يہ تھا كہ اس وقت فوراًعلويوں كى شورش كو روك ديا جائے اور ايك طويل مدتى منصوبہ كے تحت امام _كو ميدان سے الگ ہٹاديا جائے _

ولى عہدى كا واقعہ

امام رضا _كى ولى عہدى كے واقعہ كو دو لحاظ سے ديكھنا چاہئے ، ايك تو اس زمانہ كى خلافت كى مشينرى كى سياست كے اعتبار سے اور دوسرے امام كے نظريہ كے مطابق _

الف _خلافت كى سياست كے اعتبار سے

ولى عہدى كے مسئلہ ميں مامون كے چند مقاصد پوشيدہ تھے ان ميں سے اہم ترين مقاصد كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے _

۱_ امام رضا _كى شخصيت سے جو خطرہ تھا اس سے اپنے آپ كو بچالينا _

۲_امام رضا _كو اپنے زير نظر ركھنا اور شايد مامون نے اپنى بيٹى سے آپ كى شادى اسى وجہ سے كى تھى كہ ان كى بيرونى سرگرميوں كو زير نظرركھنے كے علاوہ ان كى داخلى زندگى ميں بھى ايك نگہبان معين كردے جو ہمارے لئے بھى قابل اطمينان ہو اور ان كا بھى اعتماد حاصل كرلے _

۲۱۳

چنانچہ ہم ديكھتے ہيں كہ امام _كو مرو بلاتے ہى اس نے جاسوسوں كو معين كرد يا منجملہ ان كے ہشام ابن ابراہيم راشدى جو امام _كے نزديك ترين افراد ميں سے تھا اور امام _كے امور اسى كے ہاتھ سے انجام پاتے تھے وہ فضل ابن سہل اور مامون سے رابطہ پيدا كركے اپنى مخصوص حيثيت كو ان كے سامنے بيان كرتاہے اور مامون اس كو (عمومى رابطہ كا ذمہ دار ) امامعليه‌السلام كا نگہبان بنا ديتا ہے اس كے بعد امام _سے وہى ملاقات كرسكتا تھا جس كو ہشام چاہتا _نتيجہ يہ ہوا كہ امام كے دوستوں كى ملاقات كم ہوگئي اور جو كچھ امام كے گھر ميں ہوتا اس كى خبر ہشام مامون كو ديتا _(۲۵) اور وہ اس طرح امام كے شيعوں اور رشتہ داروں كو مكمل طور پر پہچانتا تھا _

۳_معاشرتى زندگى اور عوام كے مراكز سے امام _كا رابطہ منقطع كردينا _ تا كہ اس طرح آپكے چاہنے والے آپ تك نہ پہنچ سكنے كى وجہ سے پراكندگى كا شكار ہو جائيں _

۴_امام كى معنوى حيثيت اور نفوذ سے علويوں كى شورشوں كو ختم كرنے اور عباسيوں كے خلاف لوگوں كے غيظ و غضب اور كينہ كو ختم كرنے ميں فائدہ حاصل كرنا _ اس نے يہ سمجھاتھا كہ آپ كى شخصيت كا جتنا معنوى نفوذ ہے اور جتنى عوامى پشت پناہى آپ كو حاصل ہے آپ سے اپنا سلسلہ جوڑ كراتنى ہى جگہ اس كى حكومت بھى لوگوں كے در ميان پيدا كرلے گى _

۵_اپنى حكومت كو شرعى حيثيت دينا: اس لئے كہ علويوں كے علاوہ _ جو حكومت بنى عباس كى حكومت كى بنياد كو غير شرعى سمجھتے تھے _جو لوگ مامون كے ذريعہ قانونى خليفہ يعنى امين كے قتل كى وجہ سے _ خلافت بنى عباس كو مانتے ہوئے _ بھى وہ مامون كى خلافت كو شك و ترديد كى نظر سے ديكھتے تھے _ اس لئے بہت سے لوگوں نے مامون كى بيعت نہيں كى تھى _(۲۶)

۶_ اہل بيت كى الہى رہبرى كو داغدار كرنا اور امام رضا _كى اجتماعى اور معنوى حيثيت كو چكنا چور كردينا _ اس لئے كہ مامون يہ سمجھتاتھا كہ امامعليه‌السلام كا ولى عہدى كو قبول كر لينا آپ كى معنوى رہبرى كو بہت نقصان پہنچائے گا اور امام پر لوگوں كا اطمينان ختم ہو جائے گا_

خاص طور پر سن كے اس فرق كى وجہ سے جو امامعليه‌السلام اور مامون كے در ميان تھا _ امام _مامون

۲۱۴

سے ۲۲سال بڑے تھے (اب ايسى صورت ميں )ولى عہدى قبول كرلينے كو لوگ امام _كى دنيا پرستى پر محمول كرتے _ اس لئے كہ اس مسئلہ كو اہل بيت (عليہم السلام) كے اس نظريہ اور نعرہ كے خلاف پاتے جو وہ بلند كيا كرتے تھے _

آٹھويں امامعليه‌السلام نے مامون كے ساتھ اپنى ايك گفتگو ميں اس نقشہ كى طرف اشارہ كيا ہے :آپعليه‌السلام فرماتے ہيں :تم يہ چاہتے ہو كہ لوگ كہنے لگيں كہ على ابن موسى الرضاعليه‌السلام دنيا سے روگرداں نہيں ہيں ، يہ دنياہى تو ہے جوان تك آئي ہے ، كيا تم لوگ نہيں ديكھتے كہ انہوں نے كس طرح خلافت كى طمع ميں ولى عہدى قبول كرلى(۲۷)

دوسرى طرف مامون كو يہ معلوم تھا كہ امامعليه‌السلام كا حكومت كا مشينرى ميں داخل ہونا_ ان تمام خرابيوں اور عظيم انحرافات كے بعد _ اصلاح كا باعث نہيں بنے گا وہ چاہتا تھا كہ امامعليه‌السلام كو ايسى جگہ پر لايا جائے تا كہ لوگوں كو سمجھايا جا سكے كہ امامعليه‌السلام امر خلافت كے لائق نہيں ہيں _

مامون نے حميد ابن مھران اور دوسرے عباسيوں كے جواب ميں جو امام رضا _كو ولى عہدى سپردكرنے پر سرزنش كررہے تھے ، اپنے بعض مقاصد كو شمار كرتے ہوئے اعتراف كيا ہے كہ ...يہ ہم سے پوشيدہ اور دور تھے اپنى طرف لوگوں كو دعوت ديتے تھے ہم نے چاہا كہ ان كو اپنا ولى عہد قرار ديں تا كہ ان كى دعوت ہمارے لئے ہوجائے اور يہ ہمارى سلطنت و خلافت كا اعتراف كرليں اور ان كے شيدائي يہ سمجھ ليں كہ جس چيز كا وہ دعوى كرتے ہيں ان ميں وہ چيز نہيں ہے _ہم كو يہ خوف تھا كہ اگر ان كو ان كے حال پر چھوڑ ديا جائے تو يہ ہنگامہ بر پا كرديں گے _ ايسا ہنگامہ جس كو ہم لوگ نہيں روك سكتے اور يہ ايسى صورت حال پيدا كريں گے كہ جس كے مقابلہ كى تاب ہم ميں نہيں ہے _(۲۸)

ب:امام _كے نكتہ نظر سے

امامعليه‌السلام كو پہلے مامون كى پيش كش كا سامنا ہوا ليكن امامعليه‌السلام نے بڑى شدت سے اس كو قبول كرنے

۲۱۵

سے انكار كيا اور جواب ميں فرمايا : ''اگر خلافت تمہارا حق ہے تو تم كو يہ حق نہيں ہے كہ خدا كے پہنائے ہوئے اس لباس كو اپنے جسم سے اتار كردوسرے كے جسم پر پہنادو اور اگر تمہارا حق نہيں ہے تو اس چيز كو كس طرح تم دے رہے ہو جو تمہارى ملكيت نہيں ہے ''_(۲۹)

مامون نے ولى عہدى كى پيش كش كى اور امام _كو ہر طرح سے اسے قبول كرنے پر مجبور كيا اس نے كہا : ''عمر ابن خطاب نے اپنے بعد خلافت كے منصب كے لئے ايك شورى (كميٹي) بنائي اور انكو حكم ديا كہ جو مخالفت كرے اس كى گردن اڑادينا _ اب جو ميں نے ارادہ كيا ہے اس كو قبول كرلينے كے سوا اور كوئي چارہ نہيں ہے ور نہ ميں آپ كى گردن اڑادوں گا_امامعليه‌السلام نے اس كى پيش كش كو چند بار ٹھكرانے كے بعد بجبرو اكراہ ، مشروط طريقہ پر ولى عہدى كو قبول كرليا(۳۰) _مامون نے ۵رمضان ۲۰۱ھ ق كو امامعليه‌السلام كى ولى عہدى اور بيعت كا جشن منايا _

مسئلہ ولى عہدى كے بارے ميں امامعليه‌السلام كا موقف واضح ہوجانے كيلئے ہم_ مختصر طور پر_ تين موضوعات كى تحقيق كريں گے _

۱_امامعليه‌السلام كى ناراضگى كے دلائل

۲_ولى عہدى قبول كرنے كے دلائل

۳_امامعليه‌السلام كا منفى رويہ

امامعليه‌السلام كى ناراضگى كے دلائل

۱_ريان ابن صلت نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام رضا _كى خدمت ميں عرض كيا :اے فرزند رسول كچھ لوگ كہتے ہيں كہ آپ نے مامون كى ولى عہدى كو قبول كرليا ہے جبكہ آپ دنيا كى نسبت زہد اور بے رغبتى كا اظہار فرما تے ہيں ؟امام _نے فرمايا:''يہ كام ميرى خوشى كا باعث نہ تھا ليكن ميں ولى عہدى قبول كرنے اور قتل كئے جانے كے در ميان قرار ديا گيا مجبورا ميں نے ولى

۲۱۶

عہدى كو قبول كيا ...''(۳۱)

۲_ محمد ابن عرفہ نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امامعليه‌السلام سے عرض كيا اے فرزند رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپعليه‌السلام نے ولى عہدى كو كيوں قبول كيا ؟آپعليه‌السلام نے فرمايا :اسى دليل سے جس دليل سے ميرے جد علىعليه‌السلام كو شورى ميں شركت كرنے پر آمادہ كيا گيا تھا ''_(۳۲)

۳_امامعليه‌السلام كے خادم ياسر نقل كرتے ہيں كہ : امامعليه‌السلام كے ولى عہدى كو قبول كرلينے كے بعد ميں نے ان كو ديكھا كہ آپ ہاتھوں كو آسمان كى طرف بلند كركے فرماتے تھے : خدايا تو جانتا ہے كہ ميں نے بجبرو اكراہ اسے قبول كيا ہے _لہذا مجھ سے مؤاخذہ نہ كرنا جس طرح تو نے اپنے بندہ يوسف كا_ جب انہوں نے مصر كى حكومت كو قبول كيا _ مؤاخذہ نہيں كيا _(۳۳)

ولى عہدى قبول كرنے كے دلائل :

ولى عہدى كو ان شرطوں كے ساتھ قبول كرنا جو امامعليه‌السلام نے ركھى تھيں ، اس زمانہ كى سياسى اور اجتماعى مصلحت كا تقاضا تھا ور نہ اگر كوئي بھى مصلحت اس كے قبول كرنے ميں نہ ہوتى تو امامعليه‌السلام قبول ہى نہ كرتے چاہے نتيجہ ميں ان كا خون ہى كيوں نہ بہاديا جاتا اس موضوع كو واضح كرنے كے لئے چند نكات پيش كيے جاتے ہيں _

۱_ انكار كى صورت ميں امامعليه‌السلام كو جو قيمت ادا كرنى پڑتى وہ صرف ان كى جان نہ تھى بلكہ آپ كے پيروكار سب كے سب واقعى خطرے ميں پڑجاتے اور اس سے كوئي مطلوبہ نتيجہ بھى ہاتھ نہ آتا _

۲_شيعوں كى امامت كى جگہ اس وقت تك زندانوں اور شہادت گاہوں كے اندر ہى تھى اور شيعہ جو خلافت اسلامى كے اہل تھے _ امير المؤمنين كے زمانہ كے علاوہ_ كبھى بھى قانونى حيثيت (ظاہرى حيثيت) ان كو نہيں ملى تھى كہ وہ تخت خلافت كے دامن ميں ترقى كريں اور راستہ طے كريں _

۲۱۷

سلف كے مسلسل جہاد اور ان كے خون پاك كى قيمت تھى كہ يہ حيثيت امام على ابن موسى الرضاعليه‌السلام كى بلند و بالا شخصيت ميں اجا گر ہوئي تھى لہذا اس سے فائدہ اٹھا نا چاہئے تھا تا كہ لوگ يہ نہ سوچ بيٹھيں كہ اہل بيتعليه‌السلام _ جيسا كہ لوگوں نے مشہور كر ركھا ہے _ صرف عالم اور فقيہ ہيں جن كا سياست اور عملى ميدان ميں كوئي حصہ نہيں ہے اور شايد ابن عرفہ كو امامعليه‌السلام كا جواب بھى اس بات كى طرف اشارہ ہو_

۳_امامعليه‌السلام اپنى ولى عہدى كے زمانہ ميں مامون كے اصلى چہرہ كو لوگوں كے در ميان پہچنوانے اور اس كى نيت و مقصد كا پول كھول كر لوگوں كے ذہن و دماغ سے ہر طرح كے شك و شبہ كو ختم كرنے ميں كامياب ہوگئے _

۴_ جو نشستيں مامون نے منعقد كيں ان ميں امام ،علوم اہل بيت كى برترى اور دوسروں كے انحراف كو آشكار كرنے ميں كامياب ہوگئے _

امام كا منفى رويہ

امامعليه‌السلام نے مامون كى بہانہ بازى والى سياست كو پہچان كر شروع ہى سے ، يہاں تك كہ ولى عہدى قبول كرنے سے پہلے ہى مامون كى مشينرى كے مقابل منفى موقف اختيار كيا نمونہ كے طور پران ميں سے كچھ مواقف پيش كئے جارہے ہيں _

۱_مامون كى خواہش يہ تھى كہ آپ اپنے خاندان ميں سے جس كو چاہيں اپنے ہمراہ لائيں ليكن اس كے برخلاف امامعليه‌السلام يہ تبانے كے لئے كہ يہ ايك زبر دستى كا سفر ہے اور مجھ كو وطن سے دور كيا جارہا ہے _ اپنے خاندان ميں سے كسى كو حتى اپنے اكلوتے بيٹے امام جوادعليه‌السلام كو بھى اپنے ساتھ نہيں لائے اور گھرسے نكلتے وقت انہوں نے اپنے خاندان والوں سے اپنے سامنے گر يہ كرنے كى خواہش كي_(۳۴)

۲۱۸

۲_ امام _مدينہ سے ''مرو''كے راستہ ميں جب نيشاپور پہنچے تووہاں علماء اور مختلف گروہ كے لوگوں نے استقبال كيا امامعليه‌السلام نے ان كى خواہش پر اس حديث كو بيان فرمايا جو''سلسلة الذہب ''كے نام سے مشہور ہے :

''الله عزوجل يقول :لااله الا الله حصنى فمن قالها دخل حصنى و من دخل حصنى امن من عذابي'' (۳۵)

خداوند عالم فرماتا ہے كہ كلمہ توحيد ميراقلعہ ہے جو اس كلمہ كو پڑھے وہ ميرے قلعہ ميں داخل ہوگيا اور جو ميرے قلعہ ميں داخل ہو گيا وہ ميرے عذاب سے محفوظ ہوگيا_

جب حديث ختم ہوگئي تو امامعليه‌السلام نے اپنى سوارى آگے بڑھادى ليكن چند قدم چلنے كے بعد پھرٹھہرے اور سر كو كجاوہ سے باہر نكال كر فرمايا :''بشروطھا و انا من شروطھا'' كلمہ توحيد كے كچھ شرائط ہيں اور منجملہ ان شرائط كے ميں ہوں _

اس مقام پر امامعليه‌السلام نے ولايت كے مسئلہ كو توحيد كے بنيادى مسئلہ كے ساتھ بيان فرمايا اور جملہ ''انا من شروطھا'' كے ذريعہ آپعليه‌السلام نے بنيادى اور كلى موضوع كى نشاندہى فرمائي، اسى وجہ سے آپعليه‌السلام نے روايت بيان كرنے سے پہلے اس روايت كے سلسلہ كو بھى بيان فرمايا اور لوگوں كے كثير مجمع كو يہ سمجھايا كہ امت كى رہبرى اور ولايت كا تعلق مبدا اعلى اور خدا سے ہے _ اس طرح آپعليه‌السلام نے اپنى امامت كو خدا كى طرف منسوب كركے حكومت مامون كى مشروعيت پر خط بطلان كھينچ ديا_

۳_امامعليه‌السلام نے ولى عہدى كو قبول كرنے كے لئے كچھ شرطيں ركھيں اور فرمايا (وليعہدى ) مجھے قبول ہے ليكن اس كى شرط يہ ہے كہ ميں امر و نہى كر نيو الا اور مفتى و قاضى نہيں رہوں گا كسى كو معزول و منصوب نہيں كروں گا اور كسى چيز كو تبديل نہيں كرونگا_(۳۶)

امامعليه‌السلام نے يہ منفى موقف اختيار كركے مامون كے بعض مقاصد پر خط بطلان كھينچ ديا اس لئے كہ اس روش كو اختيار كرنا مندرجہ ذيل باتوں كى دليل ہے :

۲۱۹

الف _لوگوں كے ذہنوں ميں بہت زيادہ شبہ اور ابہام كا پيدا كرنا اور نتيجہ ميں مامون كو متہم كردينا _

ب_مامون حكومت كى شرعى حيثيت كو ختم كرنا_

ج_اپنى پارسائي اور زہدكااثبات

۴_نماز عيد اور امام كا موقف_

مامون نے امامعليه‌السلام سے چاہا كہ نماز عيد پڑھاديں آپعليه‌السلام نے جواب ديا كہ ميرے اور تمہارے درميان جو شرطيں ہيں ان كى بنا پر تم مجھ كو معذور سمجھو_ مامون نے كہا ''اس سے ہمارا مقصديہ ہے كہ لوگ مطمئن ہو جائيں اور آپ كى فضيلت كو پہچان ليں _

امامعليه‌السلام نے جب مامون كا اصرار ديكھا تو فرمايا كہ اگر مجبوراً مجھے اس كام كے لئے جانا ہى پڑا تو ميں نماز ادا كرنے كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت اميرالمؤمنينعليه‌السلام كى طرح نكلوں گا_

مامون نے قبول كيا اور حكم ديا كہ حكام ،دربارى اور عام افراد عيد كى صبح كو امام رضاعليه‌السلام كے گھر كے پاس حاضر ہوں _

عيد كى صبح ہوئي ، امامعليه‌السلام نے غسل فرمايا اور سفيد عمامہ مخصوص انداز سے اپنے سر پر ركھا اپنے آپ كو خوشبو سے معطر كيا ، ہاتھ ميں عصاليا اور ننگے پير اس حالت ميں كہ اپنے لباس كے دامن كو آدھى پنڈلى تك اوپر اٹھاركھا تھا نكلے اور اپنے گھر كے افراد كو بھى آپعليه‌السلام نے حكم ديا كہ اسى انداز سے باہر نكليں اس كے بعد سر كو آسمان كى طرف بلند كركے آپعليه‌السلام نے تكبير كہى ، آپعليه‌السلام كے ساتھ چلنے والوں نے بھى آپعليه‌السلام كى آواز سن كر تكبير كہى _ لشكر كے كمانڈر ، مملكت كے اعلى عہدوں پر فائز افراد اور عوام گھر سے با ہر نہايت سج دھج كے ساتھ منتظر كھڑے تھے جب امامعليه‌السلام كو ايسى حالت ميں ديكھا تو سواريوں سے اتر پڑے اور پيروں سے جوتے نكال ڈالے _ امامعليه‌السلام تكبيروں كو بار بار دہرا تے رہے اور جم غفير،ان كے ساتھ تكبير كہتارہا _ما حول ميں ايسى عظمت برس رہى تھى اور ايسا شور ہورہا تھا جيسے آسمان وزمين، در و ديوار شہر مرو، ان كے ساتھ تكبير كہہ رہے ہوں لوگوں ميں ايسى كيفيت

۲۲۰