تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 172673
ڈاؤنلوڈ: 4217


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172673 / ڈاؤنلوڈ: 4217
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

تھى كہ بے اختيار نالہ و گريہ كى آواز بلند ہونے لگى _امامعليه‌السلام راستہ ميں چلتے رہے ليكن ہر دس قدم كے بعد كھڑے ہوجاتے اور چار بار تكبير كہتے _(۳۷)

فضل بن سہل نے اس كى رپورٹ مامون كو دى اور اتنا اضافہ كيا كہ '' اگر رضاعليه‌السلام اسى طرح بڑھتے رہے تو فتنہ و آشوب بر پا ہو جائے گا اور ہمارے پاس جان بچانے كا كوئي ذريعہ نہيں ہے آپ ان تك يہ پيغام بھيج ديں كہ لوٹ جائيں ''_

مامون نے امامعليه‌السلام سے كہلو ا بھيجا كہ '' ہم نے آپ كو زحمت دى آپ لوٹ جائيں جو پہلے نماز پڑھاتا تھا وہى نماز پڑھائے گا ''_

امامعليه‌السلام وہيں سے پلٹ گئے(۳۸) او وہ لوگ جو آشفتہ اور پراگندہ تھے انہوں نے مامون كے نفاق اور عوام فريبى كو سمجھ ليا اور يہ جان ليا كہ مامون امامعليه‌السلام كے لئے جو كچھ كررہا ہے وہ فقط دكھا واہے اس كا ہدف صرف اپنے سياسى مقاصد تك پہنچنا ہے _

شہادت امامعليه‌السلام

مامون امامعليه‌السلام كى روز افزوں عزت ووقعت كو ديكھ كر ہميشہ خوف زدہ رہتا تھا _ جب اس نے يہ سمجھ ليا كہ امامعليه‌السلام كو اپنے سياسى اغراض و مقاصد كے لئے كسى طرح بھى استعمال نہيں كر سكتا تو اس نے امامعليه‌السلام كے قتل كا ارادہ كر ليا ، اس لئے كہ وہ جانتا تھا كہ جتنا زمانہ گذر تا جائے گا اتنى ہى زيادہ امامعليه‌السلام كى عظمت اور حقانيت نماياں ہوتى جائے گى اور اس كا فريب و نفاق واضح ہوتا جائے گا _

دوسرى طرف امامعليه‌السلام كو وليعہدى كے لئے معين كرنے سے بنى عباس خليفہ كے بارے ميں برانگيختہ ہو گئے _ اتنا بر ہم ہوئے كہ مخالفت ظاہر كرنے كے لئے انہوں نے '' ابراہيم ابن مہدى عباسى '' كى بيعت كر لى _(۳۹)

لہذا مخصوص منصوبہ كے تحت ماہ صفر كے آخر ميں ۲۰۳ ھ ق ميں جب آپعليه‌السلام كى عمر پچپن سال

۲۲۱

كى تھى آپعليه‌السلام كو زہر دے ديا _(۴۰)

اور اپنے جرم پر پردہ ڈالنے كے لئے شہادت كى خبر پھيلنے كے بعد گريبان چاك ، سر پيٹتے آنكھوں سے آنسو بہاتے ہوئے امامعليه‌السلام كے گھر كى طرف دوڑا_

لوگ امامعليه‌السلام كى شہادت كى خبر سنتے ہى آپعليه‌السلام كے گھر كے اردگرد جمع ہو گئے _گريہ و نالہ كى آواز بلند تھى ، مامون كو آپ كے قاتل كى حيثيت سے لوگ ياد كررہے تھے اور بلند آواز سے فرياد كررہے تھے كہ'' فرزند رسول خدا قتل كرديئے گئے ''(۴۱) اور اپنے كو حضرتعليه‌السلام كے جسد مطہر كى تشييع كے لئے آمادہ كررہے تھے_

مامون نے محسوس كيا كہ اگر آپ كے جسد مطہر كى آشكارا تشييع كى گئي تو ممكن ہے كہ كوئي حادثہ پيش آجائے لہذا اس نے حكم ديا كہ اعلان كرديا جائے كہ آج تشييع نہيں ہو گي_ جب لوگ متفرق ہو گئے تو راتوں رات امامعليه‌السلام كو غسل ديا گيا اور ہارون كى قبر كے پاس جو باغ'' حميد ابن قحطبہ '' ميں واقع ہے سپرد خاك كرديا گيا_(۴۲)

۲۲۲

سوالات

۱ _ آٹھويں امامعليه‌السلام كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور كس تاريخ اور سن ميں آپ نے امامت كا منصب سنبھالا ، آپ كى امامت كى مدت كتنى تھى اور اس مدت ميں كتنے خلفائے بنى عباس كا زمانہ رہا ؟

۲_ ہارون كى حكومت كے مد مقابل امامعليه‌السلام كا موقف كيا تھا اور آپعليه‌السلام كے بعض اصحاب آپ كى جان كے سلسلہ ميں كيوں خوف ركھتے تھے؟

۳_ امين اور مامون كے درميان كشمكش اور جھگڑے نے امامعليه‌السلام رضا كو كيا حيثيت اور موقع فراہم كيا _

۴_ امامعليه‌السلام كى زندگى كے ۱۸ مہينے ميں كيا اہم اتفاقات رونما ہوئے اور يہ مسئلہ كس كى طرف سے اور كيوں اٹھا؟

۵_ ولى عہدى كى پيش كش كے مقابل امامعليه‌السلام كا كيا موقف تھا؟ آپ كے دو اقوال ذكر فرمايئے

۶_ آخر كار امامعليه‌السلام نے ولى عہدى كيوں قبول كى ؟

۷_ نيشاپور او رنماز عيد كے واقعہ كى مختصر توضيح كيجئے ؟

۸_ امامعليه‌السلام كس عمر اور تاريخ ميں كس طرح شہيد ہوئے ، شہادت كے بعد مامون كا كيا رد عمل رہا_؟

۲۲۳

حوالہ جات

۱ كافى ج ۱ /۴۰۶ ،اعلام الورى ۲۱۳، ارشاد مفيد /۳۰۴ ، بحار جلد ۴۹/ ۲،۳ فصول المہمہ / ۲۴۴ _

۲ اس خاتون كا دوسرا نام تكتُّم تھا_

۳ اعلام الورى / ۳۱۳_

۴ اعلام الوري/ ۳۱۶ كافى ج ۱ / ۲۴۹ ، ارشاد مفيد /۳۰۶ ،الفصول المہمہ ۲۴۴_

۵ '' والامر الى ابنى على سمى على و علي''،/ اعلام الورى ۳۱۸_۳۱۷ ،كافى ج ۱/۲۵۲ _ ۲۵۱ ،ارشاد مفيد ۳۰۷ _ ۳۰۶_

۶ اعلام الوري/ ۳۲۷ ، بحار جلد ۴۹ /۹۱_۹۰ ،مناقب جلد ۴/ ۳۶۰ ،عيون اخبار الرضا ج۲ / ۱۸۳_۱۸۲_

۷ اعلام الوري/ ۲۲۸، بحار جلد ۴۹ /۸۹ ،عيون اخبار الرضا ج۲ / ۱۷۶،مناقب جلد ۴/ ۳۶۰ _

۸ ''انا قومٌ لا نستخدم اضيافنا'' كافى جلد ۶/۲۸۴، بحار جلد ۴۹/۱۰۲_

۹ مناقب جلد ۴/ ۳۶۲ بحار جلد ۴۹/ ۹۹_

۱۰ مہ ان الرب واحدٌ و الاب واحدٌ والجزاء بالاعمال ، بحار جلد ۴۹/ ۱۰۱ ،كافى جلد ۸/۲۳۰_

۱۱ كافى جلد ۶ / ۲۹۸، بحار جلد ۴۹/ ۱۰۲

۱۲ مناقب جلد ۴/ ۳۶۰

۱۳ ان مناظروں كے بارے ميں معلومات حاصل كرنے كے لئے كتاب بحار جلد ۴۹ / ۱۹۸ كے بعد كے صفحات اور عيون اخبار الرضا جلد ۱/۱۶۵_۹۵ ملاحظہ ہوں _

۱۴ ''ہذا خير اہل الارض واعلمہم و اعبدہم ...'' عيون اخبار الرضا جلد ۲/ ۱۸۲ ، بحار ج ۴۹ / ۹۵_

۵ دائرة المعارف فريدو جدى جلد ۴/ ۲۵۰ ''مادہ رضا'' مروج الذہب ۳/ ۴۴۱، كامل ابن اثير ج۶ / ۳۲۶، طبرى جلد ۸/ ۵۵۴_

۱۶ ارشاد مفيد / ۳۱۸ ،بحار جلد ۴۹ / ۱۱۳،۱۱۵، مناقب جلد ۴/۳۴۰، اعلام الورى / ۳۲۵، الفصول المہمہ / ۳۴۵_

۱۷ '' ان اخذہا رون من را سى شعرة فاشہدوا انى لست بامام ''كافى جلد ۸/۲۵۸ _ ۲۵۷ مناقب جلد ۴ / ۳۲۹،آخر كار وہى ہوا جو كہ امام نے فرمايا تھا ہارون كو امام پرہاتھ ڈالنے كى فرصت پانے كى

۲۲۴

بجائے اپنے سپاہيوں كے ساتھ مشرقى ايران ميں پيدا ہونے والى شورش دبانے كے لئے خراسان كى طرف سے گذرا راستہ ميں بيمار ہوا اور انجام كار ۱۹۳ ھ ميں طوس ميں انتقال كرگيا تاريخ ابى الفداء جلد ۱ جزء دوم / ۱۸''_

۱۸ اس اختلاف كا سبب يہ تھا كہ ہارون نے امين كو اپنے بعد خلافت كے لئے مقرر كيا تھا ليكن اس كى شرط يہ تھى كہ وہ مامون كو اپنا وليعہد بنائے اور خراسان كے صوبہ كى حكومت اس كے حوالہ كردے ليكن امين نے ہارون كى موت كے بعد مامون كو ولى عہدى سے معزول كرديا اور اپنے بيٹے موسى كو اس عہدہ كے لئے نامزد كرديا _يہى بات ان دونوں كے درميان كشمكش اور خوں چكان جنگ كا باعث بنى ، كامل جلد ۶/۲۲۷_

۱۹ امام كے بصرہ اور كوفہ كے سفر اور آپ كى خدمت ميں پہونچ كر شيعوں كے استفادہ اور اسى طرح آپ كے مناظرہ كے بارے ميں بحار جلد ۴۹/ ۸۱ _۷۹ ملاحظہ ہوں _

۲۰ولقد كنت بالمدينه و كتابى ينفذ فى المشرق والمغرب بحار جلد ۴۹/۱۵۵_۱۴۴،كافى ج ۸/۱۵۱ _

۲۱ عيون اخبار الرضا جلد ۲/۱۶۲،۱۶۱_الحياة السياسية لامام الرضا/۱۴۶،مناقب ج ۴/۳۴۷،اعلام الورى /۳۳۸_

۲۲ يہ امام حسن مجتبىعليه‌السلام كى نسل سے تھے ،ابوالفرج نے جابر جعفى سے روايت كى ہے كہ حضرت امام محمد باقر _نے ان كى خروج كى خبر دى اور فرمايا ۱۹۹ھ ميں ہم اہل بيتعليه‌السلام ميں سے ايك شخص منبر كوفہ پر خطبہ پڑھے گا خدا اس كے وجود كى بنا پر ملائكہ پر مباحات كرے گا تتمةالمنتہى /۲۶۴،مقاتل الطالبين /۳۴۸_

۲۳ ضحى الاسلام ج ۳ /۲۹۴،تاريخ طبرى جلد ۸/۳۵۰،الحياة السياسية لامام الرضا/۱۸۳_

۲۴ الحياة السياسية لامام الرضا /۱۸۳منقول از مقاتل الطالبين ،البدايہ والنہايہ _

۲۵ الحياة السياسية لامام الرضاعليه‌السلام ۲۱۴_۲۱۳،بحار جلد ۴۹/۱۳۹،مسند امام رضا ۱/۷۸،۷۷،عيون اخبار الرضا ج ۲ /۱۵۲_

۲۶ الحياة السياسية لامام الرضا/۱۸۹_۱۸۸_

۲۷ مناقب جلد ۴/۳۶۳_عيون اخبارالرضا جلد ۲/۱۳۹،بحارجلد ۴۹/۱۲۹_

۲۸ انوار البھيّہ /۲۰۷،مناقب ج ۴ /۳۶۷،اعلام الورى /۳۴۳_

۲۹ مناقب ج ۴/۳۶۳،بحار ج ۴۹/۱۲۹،عيون اخبار الرضا جلد ۲/۱۳۹_۱۳۸_

۲۲۵

۳۰ اس سلسلہ ميں ملاحظہ ہو مناقب جلد ۴/۳۶۳_۳۶۲،بحار جلد ۴۹/۱۳۰_۱۲۹،ارشاد مفيد /۳۱۰،عيون اخبار الرضا جلد ۲/۱۳۹_۱۳۸اعلام الورى /۳۳۳_۳۳۴_عنقريب ان شرائط كى طرف اشارہ كيا جائے گا امام جن شرطوں كے قائل تھے _

۳۱ عيون اخبار الرضا جلد ۲/۱۳۶،بحار جلد ۴۹/۱۳۰_

۳۲ عيون اخبار الرضا جلد ۲/۱۳۹،مناقب جلد ۴/۳۶۴،بحار جلد ۴۹/۱۴۰_ شايد امام كا نظريہ يہ رہا ہو كہ لوگ اہل بيت كو سياست كے ميدان ميں ديكھ ليں اور ان كو بھول نہ جائيں _ شايد اصل كى تشبيہ خفيہ مصالح پر مشتمل رہى ہو _

۳۳ مناقب جلد ۴/۳۶۴،بحار جلد ۴۹ /۱۳۰_

۳۴ بحار جلد ۴۹/۱۱۷،مناقب جلد ۴/۳۴۰،عيون اخبار الرضا جلد ۲/۲۱۹_

۳۵ بحار جلد ۴۹/ ۱۲۳_ مسند امام رضا جلد ۱/۵۹ ''مقدمہ ''و ۴۳ ،عيون اخبار الرضا جلد ۲/ ۱۳۲_۱۳۴،الفصول المہمہ/۲۵۴_

۳۶ مناقب جلد ۴/۳۶۳،ارشاد مفيد /۳۱۰،اعلام الورى /۳۳۴''اجيبك الى ما تريد من ولاية العهد على اننى لا امر و لاانهى و لا افتى و لا اقصى و لا اوى و لا اعزل و لا اغيرّ شيئاً مما هو قائمٌ'' _

۳۷ تكبير كى صورت اس طرح تھى :الله اكبر ،الله اكبر على ما هدانا ،الله اكبر على ما رزقنا من بهيمة الانعام و الحمدالله على ما ابلانا _

۳۸ ارشاد مفيد /۳۱۳_۳۱۲_الحياة السياسة الامام الرضا /۳۵۵_۳۵۳،عيون اخبار الرضا جلد ۲/۱۴۹ _۱۴۸ _ بحار جلد ۴۹/۱۳۵_۱۳۴_اعلام الورى /۳۳۶_۳۳۷الفصول المہمة/۲۶۱_۲۶۰_

۳۹ عيون اخبار الرضا جلد ۲/۱۶۳،كامل ابن اثير جلد ۶/۳۲۷_۳۴۱_

۴۰ بحار جلد ۴۹/۲،ارشادمفيد /۳۰۴،مسند امام الرضا جلد۱/۱۰،كافى جلد ۱/۴۰۶،فصول المہمہ/۲۶۴_

۴۱ قتل ابن رسول اللہ _

۴۲ عيون اخبار الرضاجلد ۲/۲۴۴،مسند الامام الرضا جلد ۱/۱۳۱_۱۳۰_

۲۲۶

بارہواں سبق :

امام محمد تقىعليه‌السلام كى سوانح عمري

۲۲۷

ولادت

امام رضا _كى عمر ۴۵ سال سے زيادہ ہو چكى تھى ليكن ابھى تك آپ كے ہاں كوئي اولاد نہيں تھيں _

يہ بات شيعوں كے لئے جو كہ _ پيغمبر -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام كى روايتوں كى بنا پر _ اس بات كے معتقد تھے كہ نويں امام كو آٹھويں امام كا بيٹا ہونا چاہيئے اسى وجہ سے كبھى امام كى خدمت ميں پہنچ كر شيعہ اپنى تشويش كا اظہار كرتے اور امامعليه‌السلام جواب ميں ان كا دل ركھتے ہوئے فرماتے تھے كہ '' خدا ہم كو بيٹا دے گا _(۱)

آخر كار انتظار كى گھڑياں ختم ہوئيں اور دسويں ماہ رجب ۱۹۵ ھ ق كو آسمان ولايت كا نواں ستارہ طلوع ہوا(۲) _ آپ كا نام ''محمد '' كنيت ''ابوجعفر '' اور سب سے مشہور القاب '' جواد'' اور ''تقي'' ہيں _ آپ كى والدہ گرامى كا نام ''سبيكہ '' تھا امام رضاعليه‌السلام نے ان كا نام '' خيزران'' ركھا _ آپ رسول خداعليه‌السلام كى زوجہ جناب ماريہ قبطيہ كے خاندان سے تھيں _

اس خاتون كى عظمت و بزرگى كے لئے اتنا ہى كافى ہے كہ امام موسى ابن جعفرعليه‌السلام نے آپ كے گھرامام رضا _كے آنے سے برسوں پہلے آپ كى بعض خصوصيات كو بيان فرمايا اور _ اپنے ايك صحابي_ ابن سليط سے كہا كہ اگر ان سے ملاقات ممكن ہو تو ان تك ميرا سلام پہنچانا _(۳)

ابو يحيى صنعانى نقل كرتے ہيں كہ ميں امامعليه‌السلام رضا _كى خدمت ميں حاضر تھا كہ لوگ امام جوادعليه‌السلام كو _ جو اس وقت كم سن تھے_ لے آئے حضرتعليه‌السلام نے فرمايا '' يہ بچہ وہ مبارك بچہ ہے كہ ہمارے

۲۲۸

شيعوں كے لئے اس سے زيادہ مبارك بچہ پيدا نہيں ہوا ہے _(۴)

شايد امام كے قول كى دليل وہى ہو جس كى طرف اس سے پہلے اشارہ ہو چكا ہے اس لئے كہ امام جوادعليه‌السلام كى پيدائشے نے شيعوں كى يہ تشويش ختم كردى كہ امام رضا _كا كوئي جانشين نہيں ہے چنانچہ آپ كى ولادت ايمان و اعتقاد كى استوارى كا سبب بنى _(۵)

تعيين امامت

ہر چند كہ نويں امامعليه‌السلام كى امامت محتاج بحث نہيں ہے اس لئے كہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور سابق ائمہعليه‌السلام كے تصريحى بيانات كے علاوہ يہ بات بھى ہے كہ آپعليه‌السلام آٹھويں امامعليه‌السلام كے ايك ہى بيٹے تھے اور آپ كے علاوہ خاندان علوى ميں كوئي بھى اس الہى منصب كے لائق نہ تھا ليكن نمونہ كے طور پر آپعليه‌السلام كى امامت كے سلسلہ ميں امام رضا _كے چند صريحى بيانات پيش كئے جارہے ہيں _

۱_ '' محمد ابن ابى عباد '' نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام رضا _سے سنا آپ فرما رہے تھے كہ ميرے بعد ابوجعفر ميرے خاندان كے درميان ميرے وصى اور جانشين ہوں گے(۶) _

۲_ '' عبداللہ ابن جعفر '' نقل كرتے ہيں كہ ميں صفوان ابن يحيى كے ساتھ امام رضاعليه‌السلام كى خدمت ميں پہنچا ، امام جواد _بھى جو ابھى تين سال كے تھے وہاں موجود تھے ميں نے امامعليه‌السلام سے پوچھا كہ اگر كوئي حادثہ پيش آجائے تو آپ كا جانشين كون ہوگا؟ امامعليه‌السلام نے ابوجعفرعليه‌السلام كى طرف اشارہ كيا اور فرمايا: '' ميرا بيٹا'' ميں نے عرض كيا كہ '' اس سن و سال ميں ؟'' آپعليه‌السلام نے فرمايا '' ہاں اسى سن و سال ميں ، خداوند عالم نے حضرت عيسى ابن مريمعليه‌السلام كو اپنى حجت قرار ديا جبكہ آپ دوسالہ بچے تھے_''(۷)

۳_ '' خيراني'' اپنے باپ سے نقل كرتے ہيں كہ انہوں نے كہا كہ ميں خراسان ميں امام رضا_كے پاس تھا كسى نے آپ سے دريافت كيا ، اگر آپ كے ساتھ كوئي حادثہ پيش آجائے تو

۲۲۹

كس كى طرف رجوع كيا جائے ؟

آپ نے فرمايا:'' ميرے بيٹے ابوجعفر _كى طرف''گويا سوال كرنے والے نے حضرت امام جوادعليه‌السلام كى عمر كو كافى نہيں سمجھا _ اسى لئے امامعليه‌السلام نے اضافہ فرمايا كہ خداوند عالم نے حضرت عيسى بن مريمعليه‌السلام كو نبوت و رسالت كے لئے معين فرمايا جبكہ ان كى عمر ، ابوجعفر كى اس وقت كى عمرسے بھى كم تھى _(۸)

والد كے ساتھ

امام جواد _نے اپنى عمر كے تقريباً چھ سال(۹) اپنے والد بزرگوار امام رضاعليه‌السلام كے ساتھ گذارے ، جس سال حضرت رضاعليه‌السلام كو خراسان بھيجا گيا آپ اپنے والد كے ساتھ مكہ تشريف لے گئے _ حالت طواف ميں آپ نے نہايت غور اور دقت نظر سے اپنے پدر بزرگوار كے اعمال اور ايك ايك بات كا جائزہ ليا اور يہ محسوس كيا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس شخص كى طرح خانہ خدا كو وداع كررہے ہيں جسے اب پھر دوسرى بار لوٹ كر نہيں آنا ہے اس وجہ سے آپ _ جبكہ آپ كے چہرہ پر غم و اندوہ كے آثار تھے_ حجر اسماعيل كے اندر بيٹھے تھے اور امام رضا _كے خادم سے جس نے آپ كو وہاں سے اٹھانا چاہا فرمايا : ميں يہيں رہوں گا اور اپنى جگہ سے حركت نہيں كروں گا جب تك خدا كا حكم نہ ہو _

خادم نے يہ ماجرا امام رضا _سے بيان كيا امامعليه‌السلام بہ نفس نفيس اپنے بيٹے كے پاس پہنچے اور آپعليه‌السلام نے فرمايا ميرے لال اٹھو چليں ، آپ نے عرض كيا '' بابا جان ،ہم كيسے چليں جبكہ ہم يہ ديكھ رہے ہيں كہ آپعليه‌السلام كعبہ كو اس طرح وداع كررہے ہيں جيسے دوسرى بار پلٹ كر نہيں آناہے(۱۰) ''

ايك معصوم بچے كى چھ سال كى عمر ميں اس درجہ كمال اور ذاتى نبوغ كا اظہار ہو رہا ہے _

۲۳۰

آپعليه‌السلام كى امامت

نبوت كى طرح امامت بھى ايك الہى عطيہ ہے جسے خداوند عالم اپنے منتخب اور لائق بندوں كو عطا كرتا ہے او اس بخشش و عطا ميں سن و سال كا كوئي دخل نہيں ہے _ نويں اما م آٹھ يا نو سال كى عمر ميں امت كى امامت اور رہبرى كے منصب پر فائز ہوئے _

''معلّى بن محمد '' نقل كرتے ہيں كہ امام رضاعليه‌السلام كى رحلت كے بعد ميں امام جواد _سے ملا اور ان كے قد و قامت كو بغور ديكھا تا كہ شيعوں كے سامنے ان كى توصيف كر سكوں اسى اثنا ء ميں آپعليه‌السلام بيٹھ گئے اور فرمايا : '' اے معلّى ، خدا نے امامت ميں بھى نبوت كى طرح احتجاج كيا ہے اور فرمايا ہے:

'' و اتنيناہ الحكم صبيّا''(۱۱)

ہم نے يحيى كو بچپن ميں نبوت دي_(۱۲)

مكارم اخلاق و فضائل

ائمہ معصومين كى خصوصيتوں ميں سے ايك حقيقتوں كى شناخت اور اس كا ادراك عام لوگوں كى قوت ادراك سے زيادہ تھا _ اس ذاتى نبوغ اور عقلى فروغ كے ظہور كے لئے بچپن بھى مانع نہيں تھا ، اسى وجہ سے ان حضرات كى زندگى اور ان كى عادتيں پيدائشے ہى سے دوسروں كے لئے اسوہ اور نمونہ قرار پاتى ہيں _ ان حضرات كى علمى برترى اور مراتب كمال كا علماء اور بزرگوں كا اعتراف ، اس حقيقت كى مؤيد ہے _ امام محمد تقىعليه‌السلام كے اخلاقى فضائل كا گوشہ بيان كرنے سے پہلے اہل سنت كے علماء كاان كے بارے ميں نظريہ بيان كرنا ضرورى ہے _

سبط ابن جوزى فرماتے ہيں : ''محمد جوادعليه‌السلام علم ، تقوى ، پرہيزگارى اور سخاوت ميں اپنے والد بزرگوار كے راستہ پر تھے _(۱۳)

۲۳۱

'' ابن تيميہ'' كا بيان ہے كہ محمد ابن على _جن كا لقب جواد تھا بنى ہاشم كے بزرگوں اور ممتاز شخصيتوں ميں سے تھے وہ سخاوت اور بزرگى ميں مكمل شہرت ركھتے تھے _ اسى وجہ سے جواد نام پڑا_(۱۴)

الف _ جود وسخاوت

امام جواد _، بخشش و عطا اور كرامت كا مكمل مصداق تھے لوگ ان كے عطيوں او عنايتوں سے بہرہ ورہوتے تھے _ اس حقيقت كى نشان دہى '' جوادعليه‌السلام '' كے لقب سے ہوتى ہے '' على بن ابراہيم '' اپنے والد سے نقل كرتے ہيں كہ ميں امام جوادعليه‌السلام كى خدمت ميں تھا كہ '' صالح ابن محمد'' _ قم كے اوقاف كے متولى(۱۵) _ وہاں آئے اور عرض كيا : ميرے آقا وقف كى آمدنى ميں سے دس ہزار درہم حلال كر ديجئے ، اس لئے كہ ہم نے اس كو اپنے خاندان كے نفقہ ميں خرچ كرديا ہے _

امام نے خندہ پيشانى سے فرمايا : ميں نے حلال كيا _(۱۶)

ب_ دوسروں كى مشكل كو حل كرنا

بست سجستانى(۱۷) سے قبيلہ بنى حنيفہ كا ايك شخص نقل كرتا ہے كہ ميں معتصم كى خلافت كے ابتدائي زمانہ ميں مكہ كے سفر ميں امامعليه‌السلام كے ساتھ تھا_ حكومت كى كچھ ذمہ دار افراد بھى دستر خوان پر حاضر تھے _ ميں نے امامعليه‌السلام سے عرض كيا كہ آپ پر فدا ہوجاؤں ، ميرے علاقہ كا حاكم آپ كے خاندان كے دوستداروں ميں سے ہے اور خراج كے سلسلہ ميں ، ميں اس كے محكمہ كا قرضدار ہوں ليكن مجھ ميں ادا كرنے كى طاقت نہيں ہے _ اگر آپ مصلحت سمجھيں تو اس كو ايك خط لكھ ديں تا كہ وہ اس سلسلہ ميں ہمارے حق ميں محبت كا ثبوت دے _

امامعليه‌السلام نے فرمايا: كہ ميں اس كو نہيں پہچانتا ميں نے عرض كيا كہ:'' جيسا كہ ميں نے كہا كہ وہ آپ كا عقيدت مند ہے اس لئے يقينى طور پر آپ كا خط ميرے لئے مفيد ہو گا _ امامعليه‌السلام نے كا غذ قلم اٹھا يا اور لكھا حامل رقعہ نے تمہارے عقيدہ كى تعريف كى ، جان لو كہ اگر تم احسان اور نيك كام

۲۳۲

كروگے وہ تمہارے لئے فائدہ مند ہو گا _ اس بنا پر اپنے برادران دينى كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى كرو اور يہ جان لو كہ خداوند عالم ايك ذرہ برابر شے كے بارے ميں بھى تم سے سوال كريگا(۱۸) ميں نے خط ليا اور چل پڑا جب خط كى اور ميرے پہنچنے كى خبر سجستان كے انچارج كے پاس پہنچى تو وہ شہر سے دو فرسخ دور تك ميرے استقبال كے لئے آيا اس نے خط ليا اس كو چوما اور اپنى آنكھوں سے لگايا اور پوچھا تمہارى كيا حاجت ہے؟ ميں نے اس سے اپنى پريشانى بيان كى اس نے حكم ديا كہ ميرا نام قرض والے رجسٹر سے نكال ديا جائے _ اور جب تك وہ انچارج كام پررہا ميرا ٹيكس معاف رہا _ اس كے علاوہ اس نے ميرى اچھى خاصى مدد كى اور جب تك وہ زندہ رہا اس خط كى بركت سے اس نے ميرے حق ميں نيكى اور حسن سلوك ميں كوئي كمى نہيں كى(۱۹)

۳_ '' محمد ابن سہل قمى '' نقل كرتے ہيں كہ ميں مدينہ گيا اور امام جوادعليه‌السلام كے پاس پہنچا اور ميں نے چاہا كہ ان سے ايك لباس مانگ لوں ليكن ميں مانگ نہ سكا ، ميں نے اپنے دل ميں كہا كہ اپنى خواہش لكھ كردوں پھر ميں نے لكھ ديا ليكن ميرے دل ميں يہ بات گذرى كہ خط كو نہ بھيجوں ، ميں نے خط پھاڑ ڈالا اور مكہ كى طرف چل پڑا _ اسى حال ميں ايك شخص كو ميں نے ديكھا كہ اس كے ہاتھ ميں ايك رومال ہے اور وہ قافلہ ميں مجھ كو ڈھونڈھ رہا ہے_ وہ مجھ تك پہنچا اور اس نے كہا: ميرے آقا نے تيرے لئے يہ لباس بھيجا ہے _(۲۰)

امام جوادعليه‌السلام كى شخصيت

امام جوادعليه‌السلام نے امامت كے انوار مقدس كے پر تو اور خدا كى عبادت و بندگى ميں ايسى اجتماعى شخصيت اور حيثيت حاصل كى كہ جس كا اعتراف دوست و دشمن دونوں ہى كرتے ہيں _

آپعليه‌السلام كے سخت ترين دشمن مامون نے آپ سے اپنى بيٹى كى شادى كے سلسلہ ميں عباسيوں كے اعتراض كے جواب ميں كہا : ميں نے ان كا انتخاب اس لئے كيا ہے كہ ميں نے كمسنى كے

۲۳۳

باوجود علم و فضل ميں ان كو سب سے ممتاز پايا_(۲۱)

آپعليه‌السلام كى شخصيت اپنے پدر بزرگوار كے نزديك ايسى تھى كہ '' محمد ابن ابى عباد'' _ كاتب امام رضاعليه‌السلام بيان كرتے ہيں كہ امام رضا _اپنے بيٹے محمد كو ہميشہ كنيت كے ساتھ ياد كرتے تھے(۲۲) _ ( اور جب امام جوادعليه‌السلام كا خط پہنچتا تھا) تو فرماتے تھے كہ '' ابوجعفر نے مجھے لكھا ہے''(۲۳)

'' محمد بن حسن ابن عمار'' نقل كرتے ہيں :

'' دو سال تك ميں مدينہ ميں على بن جعفر كى خدمت ميں جاتا رہا انہوں نے جو روايت اپنے بھائي موسى ابن جعفر سے سنى تھى مجھ سے بيان كيا كرتے تھے اور ميں لكھتا رہتا تھا _

ايك دن ميں مسجد نبوى ميں ان كے پاس بيٹھا تھا كہ امام جوادعليه‌السلام تشريف لائے _ على ابن جعفر بغير جوتے اور ردا كے اپنى جگہ سے اٹھے ، آپ كے ہاتھوں كو بوسہ ديا آپ كى تعظيم كى ، امامعليه‌السلام نے ان سے فرمايا اے چچا آپ بيٹھئے خدا آپ پر رحمت نازل كرے _

انہوں نے كہا : اے ميرے سردار : ميں كيسے بيٹھ سكتا ہوں جبكہ آپ كھڑے ہيں ، جب على ابن جعفر اپنى جگہ پلٹ آئے تو ان كے دوستوں اور ساتھيوں نے ان كى سرزنش كى اور كہا كہ آپ ان كے باپ كے چچا ہيں اور اس طرح ان كا احترام كرتے ہيں

على ابن جعفر نے فرمايا : چپ رہو خدا نے اس سفيد داڑھى كو _ اپنى داڑھى كى طرف اشارہ كرتے ہوئے _ امامت كے لائق نہيں سمجھا اور اس جوان كو اس كے لائق پايا اور امام قرارد يا ( كيا تم چاہتے ہو كہ) ان كى فضليت كا انكار كردوں ؟ تم جو كہتے ہو ميں اس سے خدا كى پناہ مانگتا ہوں ، ميں اس كا بندہ ہوں _(۲۴)

خلافت كے مقابلہ ميں امامعليه‌السلام كا موقف

آپعليه‌السلام كے سات سالہ زمانہ امامت ميں آپعليه‌السلام كے ہم عصر ،مامون اور معتصم نامى دو خلفا ء تھے

۲۳۴

ان كى حكومت كے زمانہ ميں آپ كا موقف امام على ابن موسى الرضاعليه‌السلام كے موقف كو جارى ركھنا تھا ، اور اس كى وجہ يہ تھى كہ خلافت كى مشينرى كے موقف ميں اتحاد پايا جاتا تھاجيسا كہ اس سے پہلے بيان ہو چكا ہے كہ امام رضا _كى وليعہدى سے امامت كا موقف بنى عباس كى طاقت كے مركز تك پہنچ گيا تھا _ اور چونكہ حكومت نے اپنے موقف كو تبديل نہيں كيا اس بنا پر بيٹھ رہنا درست نہ تھا_

خلافت كى مشينرى نے بھى اس مسئلہ كو بخوبى درك كرليا تھا اور امام رضاعليه‌السلام كو نماز عيد سے روك دينا بھى اسى حقيقت كى بنا پر تھا _ مامون اس سے ڈرتا تھا كہ ايك نماز پڑھا كر خلافت پر تصرف كرنے كے لئے امامعليه‌السلام كہيں زمينہ ہموار نہ كرليں _

شادى كى سازش

مامون نے بہت كوشش كى كہ امام رضاعليه‌السلام كو زہر ديا جانيوالا واقعہ بہت خفيہ اور پوشيدہ طور پر انجام پاجائے ليكن تمام پردہ پوشيوں اور ريا كاريوں كے باوجود آخر كار علويوں پر يہ بات آشكار ہو گئي كہ امامعليه‌السلام كا قاتل اس كے علاوہ اور كوئي نہيں تھا لہذا مامون بہت ناراض ہوا اور انتقام پر ا ترآيا_

انقلابيوں كى چارہ جوئي كرنے اور ان كى رضامندى حاصل كرنے كے لئے مامون نے آٹھويں امام كے فرزند كے لئے مہربانى اور دوستى كا اظہار كيا اور زيادہ فائدہ حاصل كرنے كے لئے اس نے يہ ارادہ كيا كہ اپنى بيٹى '' ام الفضل'' كى شادى امام جوادعليه‌السلام سے كردے _ اور اس نے كوشش كى كہ امام رضاعليه‌السلام پر ولى عہدى تھوپ كر اس نے جو فائدہ حاصل كرنے كى كوشش كى تھى اس رشتہ كو قائم كر كے وہى فائدہ حاصل كرلے _

بنى عباس كو مامون كے اس ارادہ سے خوف محسوس ہوا اور صورت حال كو قبل از وقت روكنے كے لئے جو امام رضاعليه‌السلام كے زمانہ ميں پيدا ہو گئي تھى ، جمع ہو كر ايك وفد كى صورت ميں مامون كے

۲۳۵

پاس پہنچے اور كہنے لگے گذشتہ زمانہ ميں ہمارے اور علويوں كے درميان جو كچھ ہوا آپ اس سے اچھى طرح واقف ہيں اور آپ يہ بھى جانتے ہيں كہ گذشتہ خلفاء نے ان كو شہر بدر كيا اور ان كى توہين كى ہے _ ہم اس سے پہلے امام رضاعليه‌السلام كى ولى عہدى سے فكرمند تھے ليكن خدا نے وہ مشكل حل كردى _

اب ہم آپ كو خدا كا واسطہ ديتے ہيں كہ آپ ہم كو دوبارہ غمگين نہ كريں اور اس شادى سے صرف نظر كريں اور اپنى بيٹى كو بنى عباس كے كسى ايسے فرد سے بياہ ديں جو اس رشتہ كے لائق ہو ، '' مامون نے ان كے جواب ميں علويوں كى بزرگى ، خلفاء سابقين كى خطا اور ولى عہدى كے مسئلہ كى تائيد كرتے ہوئے امام جوادعليه‌السلام كى تعريف كى اور بزرگى بيان كى او ر كہا كہ ميں اس جوان كو تم سے زيادہ جانتا ہوں يہ ايسے خاندان سے ہيں جن كا علم خداداد ہے ، ان كے آباء و اجداد ہميشہ علم دين و ادب ميں لوگوں سے بے نياز تھے_(۲۵)

يہ دوستى كا مظاہرہ اور مكارانہ رياكاريوں كے ذريعہ اس شادى سے سياسى مقصد حاصل كرنے كے علاوہ مامون كا اور كوئي مقصد نہ تھا ، جو مقاصد وہ حاصل كرنا چاہتا تھا ان ميں سے چند كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے :

۱_ اس كا ارادہ تھا كہ اس رشتہ سے دامن پر لگے ہوئے قتل امام رضاعليه‌السلام كے داغ كو صاف كردے اور اپنے خلاف علويوں كے اعتراضات اور قيام كو روك دے اور اہل بيتعليه‌السلام كے دوستدار و طرفدار كے عنوان سے اپنا تعارف كرائے _

۲_ اپنى بيٹى كو امامعليه‌السلام كے گھر بھيج كر ہميشہ كے لئے حضرت كے كاموں كى نگرانى كرنا _

۳_ مامون كا خيال خام يہ تھا كہ اس ازدواج كے ذريعہ امامعليه‌السلام كو عيش و عشرت كے دربار سے وابستہ كرديگا اور ان كو لہو ولعب اور عيش و عشرت والى زندگى گذار نے پر آمادہ كردے گا _ تا كہ اس راستہ سے امامعليه‌السلام كى عظمت اور تقدس كو ٹھيس پہنچائے اور آپعليه‌السلام كو عصمت و امامت كے بلند مقام سے گرا كر لوگوں كى نظروں ميں حقير كردے _

۲۳۶

'' محمد ابن ريان'' نقل كرتے ہيں كہ مامون نے بہت كوشش كى كہ امام كو لہو و لعب كے لئے آمادہ كرے ليكن كامياب نہيں ہو ا _ اس كى بيٹى كى شادى كے جشن ميں سو ايسى خوبصورت كنيزيں جو جواہرات سے بھرے ہوئے جام اپنے ہاتھوں ميں لئے تھيں ، مامون نے ان سے كہا كہ امامعليه‌السلام كے آنے كے بعد ان كے استقبال كو بڑھيں ، وہ كنيزيں استقبال كو بڑھيں ليكن امام جوادعليه‌السلام بغير كوئي توجہ ديئےہاں وارد ہوئے اور آپعليه‌السلام نے عملى طور پر يہ بتاديا كہ ہم ان كاموں سے بيزار ہيں _(۲۶)

مامون ان مقاصد اور دوسرے مقاصد تك پہنچنے كے لئے _ امام رضاعليه‌السلام كى شہادت كے ايك سال بعد ۲۰۴ھ ق ميں امام جوادعليه‌السلام كو مدينہ سے بغداد لے آيا اور اس نے اپنى بيٹى كى ان سے شادى كردى اور اس بات پر اصرار كيا كہ امام بغداد ہى ميں اس كے مزيّن محلوں ميں زندگى گذاريں _

ليكن امامعليه‌السلام نے مدينہ واپس جانے پر اصرار كيا ، تا كہ مامون كے بنائے ہوئے نقشہ كو نقش بر آب كرديں اس وجہ سے آپعليه‌السلام اپنى بيوى كے ساتھ مدينہ پلٹ گئے اور ۲۲۰ ھ ق تك مدينہ ميں مقيم رہے _

علمى اور ثقافتى كوششيں

امام جواد _نے بادل نخواستہ مختلف صورتوں ميں خلافت كى مشينرى كے زير نگرانى زندگى گذارى مگر اس درميان امكانى حد تك سماجى اور ثقافتى محاذوں پر كوششيں كرتے رہے _

ان محاذوں ميں سے '' بحث و مناظرہ'' كا ايك محاذ ہے _ امامعليه‌السلام نے اس موقف ميں اپنے پدر بزرگوار كى روش كو برقرار ركھا اور آپعليه‌السلام نے ان جلسوں ميں شركت كى جو مامون نے امامعليه‌السلام كى علمى اور ثقافتى حيثيت كو شكست دينے كے لئے منعقد كئے تھے اور حقائق و معارف اسلامى كے بيان كے

۲۳۷

ساتھ ساتھ آپعليه‌السلام نے دربار خلافت سے وابستہ فقاہت اور دربارى قاضى القضاة كے چہرہ كو بے نقاب كيا _

مامون نے امام نہم كى امامت كے آغاز ميں دوبار مجلس مناظرہ منعقد كى ايك مجلس ميں جس ميں بنى عباس كے بہت سے افراد ، نماياں اور ممتاز دربارى شخصيتيں موجود تھيں ، مامون نے _ اس زمانہ كے قاضى القضاة _ '' يحيى بن اكثم'' كو امامعليه‌السلام سے سوال كرنے كے كئے كہا _

اس نے پہلا سوال اس طرح كيا:

آپ اس شخص كے بارے ميں كيا فرماتے ہيں جس نے حالت احرام ميں شكار كيا ہو ؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا ( مسئلہ كى مختلف صورتيں ہيں ) حرم كے اندر تھا يا باہر ، اس كو اس كا م كى حرمت كى خبر تھى يا نہيں ، عمداً اس نے شكار كيا يا سہواً ، غلام تھا يا آزاد ، شكار چھوٹا تھا يا بڑا ، اس نے پہلى بار ايسا كيا ہے يا دوسرى بار ، شكار پرندہ كا تھا يا غير پرندہ ،چھوٹا تھا يا بڑا ، شكار كے بعد اپنے فعل پروہ پشيمان تھا يا پھر كرنے كا ارادہ ركھتا تھا ، شكار رات ميں كيا تھا يا دن ميں ،اس كا احرام عمرہ كا احرام تھا يا حج كا؟

امامعليه‌السلام نے جب مسئلہ كى اس طرح عالمانہ شقيں بيان كيں اور اس كى يوں تشريح كردى تو يحى بن اكثم انگشت بدندان رہ گيا ، اس كے چہرہ پر شكست كے آثار نماياں ہوگئے ، اس كى ز بان لكنت كرنے لگى اس طرح كہ وہ مذكورہ بالا صورتوں ميں سے كسى صورت كا يقين نہ كر سكا _ حاضرين نے امامعليه‌السلام كى علمى صلاحيت و قدرت اور قاضى القضاة كى شكست كا اندازہ كر ليا_(۲۷)

امام جواد _مامون كے منعقدكئے ہوئے جلسوں كے علاوہ ضرورى موقع پر اسلامى ثقافت كى توسيع اور شبہات و اشكالات كو دور كرنے كے لئے مختلف گوشہ و كنارسے مدينہ آئے ہوئے علماء اور دانشمندوں كے ساتھ بحث و گفتگو كرنے كيلئے بيٹھتے تھے ، نمونہ كے طور پر ايك مورد پيش كيا جاتا ہے : بغداد اور دوسرے شہروں كے اسّى افراد حج كے بعد مدينہ كو چلے تا كہ امامعليه‌السلام جواد سے ملاقات كريں ، وہ لوگ پہلے عبداللہ ابن موسى ( امام كے چچا) سے ملے ليكن وہ ان كے مسائل كے جواب سے عاجز رہے اتنے ميں امام جواد _ تشريف لائے اور آپ نے ان كے ايك ايك مسئلہ اور

۲۳۸

مشكلات كا جواب عنايت فرمايا ، علماء نہايت مسرت كے عالم ميں اس مجلس سے نكلے اور امامعليه‌السلام كے لئے دعا كى _(۲۸)

امامعليه‌السلام كے بچپن كو ديكھتے ہوئے ان جلسوں اور باتوں كے ضمن ميں جو مسئلہ مناظرہ كے دونوں فريق كے درميان مورد توجہ تھا وہ آپعليه‌السلام كى امامت كا مسئلہ تھا_

ايك طرف امامعليه‌السلام نے علمى مشكلات سے پردہ اٹھا يا اور امامت كے موقف كى تشريح اور حقائق كو بيان كرتے ہوئے ان لوگوں كو _ جو آپعليه‌السلام كى كمسنى كى وجہ سے _ آپعليه‌السلام كى امامت كے بارے ميں شك اور تردد ميں مبتلا تھے، حقيقت سے آشنا كيا اور ہر طرح كے شبہ اور ترددسے ان كے ذہنوں سے صاف كيا _ اور دوسرى طرف عبداللہ ابن موسى ، امام كے چچا و غيرہ جيسے افراد كو جو بغير لياقت اور صلاحيت كے اپنے كو امامت كى جگہ پر لارہے تھے ، عملى طور پر ميدان سے دور ہٹا ديا اور ان كو گوشہ گير بناديا_

نماياں افراد كى تربيت

امام جواد _كے علمى اور ثقافتى كاموں ميں سے ايك كام ايسے ممتاز افراد كى تربيت تھى جن ميں سے ہر ايك ثقافت و معارف اسلامى كا ايك منارہ كہا جاتا تھا _

مرحوم شيخ طوسى نے امام جوادعليه‌السلام كے شاگردوں ، راويوں اور اصحاب كى تعداد تقريباً ايك سو دس افراد بتائي ہے(۲۹) _ اس سے پتہ چلتا ہے كہ اس زمانہ ميں لوگوں كا حضرت سے ملنا كتنا محدود اور مشكل تھا_ ليكن اس كے با وجود انہيں محدود افراد ميں كچھ روشن چہرے موجود ہيں منجملہ انكے :

۱_ ابوجعفر ، محمد ابن سنان زہري

۲_ احمد ابن ابى نصر بزنطي

۳_ ابو تمام حبيب ابن اوس طائي

۲۳۹

۴_ ابوالحسن ، على ابن مہزيار اہوازي

۵_ فضل بن شاذان نيشاپوري

۶_ زكريا ابن آدم و غيرہ ہيں

امامعليه‌السلام كے مكتب كے پروردہ افراد ميں سے ہر ايك كسى نہ كسى انداز سے پريشانى اور سختى ميں مبتلا تھا _ عبداللہ ابن طاہر _ حاكم نيشاپور نے _ فضل بن شاذان كو نيشاپور سے باہر نكال ديا _ پھراس كے بعد ان كى كتابوں كى تفتيش كى جب ان كتابوں كے مندرجات سے لوگوں نے اس كو آگاہ كيا_ تب اس كو اطمينان حاصل ہوا اور اس نے كہا كہ ميں ان كے سياسى عقيدہ كو بھى جانتا ہوں _(۳۰)

ابو تمام بھى اس دشمنى سے نہ بچ سكے ، اس زمانہ كے امراء جو خود بھى اہل شعر و ادب تھے ، وہ بھى ان كے شعر كو سننے كے لئے تيار نہ تھے جبكہ آپ اس زمانہ كے بہترين شاعر تھے اور اگر كسى نے پہلے سے بتائے بغير ان كا شعر پڑھ ديا اور اميروں كو پسند آگيا تو يہ سمجھ لينے كے بعد كہ يہ ابوتمام كا شعر ہے فوراً اصلى نوشتہ كو پھاڑڈالنے كا حكم ديتے تھے_(۳۱)

معتصم كے دور حكومت ميں

مامون كى موت كے بعد ۲۱۸ ھ ميں اس كا بھائي اس كى جگہ پر خلافت كے منصب بيٹھا اور امام جوادعليه‌السلام كے سلسلہ ميں اس نے مامون والى ہى سياست اختيار كى ، جب مدينہ ميں امام كى فعاليت سے خوفزدہ ہوا تو وہ ۲۲۰ ھ ميں امامعليه‌السلام كو زبر دستى مدينہ سے بغداد لے آيا تا كہ نزديك سے ان كى نگرانى كر سكے اسكى حكومت ميں ايك شخص نے چورى كا اقرار كيا اور اس نے خليفہ سے يہ خواہش ظاہر كى كہ الہى حدود جارى كر كے اس كو پاك كرديا جائے ، معتصم نے تمام فقيہوں كو جلسہ ميں جمع كيا اور امام جواد _كو بھى بلايا _

۲۴۰