تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 172801
ڈاؤنلوڈ: 4221


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172801 / ڈاؤنلوڈ: 4221
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

پہلے اس نے '' ابن ابى داؤد''(۳۲) سے سوال كيا كہ چور كا ہاتھ كہاں سے كاٹنا چاہيے ؟

ابن ابى داؤد نے كہا كہ '' كلائي سے'' اور اپنى دليل ميں قرآن كى آيت '' فاغسلوا وجوہكم و ايديكم '' پڑھي_

فقہا كا ايك گروہ ان كى موافقت ميں تھا ليكن دوسرے گروہ نے ان كے نظريہ كى مخالفت كى اور كہا كہ كہنيوں سے ہاتھ كاٹنا چاہيے اور انہوں نے اپنے نظريہ كہ تائيد ميں آيہ '' فاغسلوا وجوہكم و ايديكم الى المرافق ''(۳۳) كو دليل بنايا _

معتصم نے امام جوادعليه‌السلام كى طرف رخ كيا اور پوچھا '' اس مسئلہ ميں آپكا نظريہ كيا ہے ؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا يہ لوگ اپنا نظريہ پيش كر چكے اب مجھے معاف ركھ_

معتصم نے اصرار كيا اور امامعليه‌السلام كو قسم دے كر كہا : آپ اپنا نظريہ بيان كريں _

امامعليه‌السلام نے فرمايا: چونكہ تم نے قسم دلائي ہے اس لئے ميں اپنا نظريہ بيان كرتا ہوں دونوں فريقوں نے غلط فيصلہ كيا ہے _ كيونكہ چور كى فقط انگلياں كاٹى جائيں گى _

آپعليه‌السلام نے فرمايا : اس لئے كہ رسول خدا نے فرمايا ہے كہ سجدہ سات اعضاء پر واجب ہے _ چہرہ ، پيشانى ،دونوں ہاتھوں كى ہتھيلياں ،دونوں گھٹنے اور دونوں پيروں كے انگھوٹھے لہذا چور كا ہاتھ اگر كہنيوں سے كا ٹا جائے تو اس كا ہاتھ نہيں بچے گا كہ وہ سجدہ بجالائے اور دوسرے يہ كہ خدا فرماتا ہے كہ''انّ المساجد لله فلا تدعوا مع الله احداً'' (۳۴) سجدوں كى جگہيں خدا كے لئے ہيں پس خدا كے ساتھ كسى كو نہ پكارو'' لہذا جو خداكيلئے ہے اس كو قطع نہيں كيا جائے گا _

معتصم كو امامعليه‌السلام كا نظريہ پسند آيا اور اس نے حكم ديا كہ چور كى انگلياں كاٹى جائيں _

''ابن ابى داود ''_ جو خود اس واقعہ كے ناقل ہيں _ فرماتے ہيں كہ اس مجلس ميں ميں نے (شرم و حيا سے ) موت كى تمنّا كى _

وہ تين دن كے بعد معتصم كے پاس گيا او ركہا كہ چند دن پہلے والى نشست تمہارى حكومت كے لئے اچھى نہيں تھي، اس لئے كہ تمام علماء اور مملكت كے بزرگ افراد كے سامنے تم نے ابوجعفرعليه‌السلام كے

۲۴۱

فتوى كو_ جن كو آدھے مسلمان اپنا پيشوا مانتے ہيں اور امر خلافت كے لئے تم سے زيادہ مناسب سمجھتے ہيں _ دوسروں كے نظريہ پر ترجيح دى _ يہ خبر لوگوں كے در ميان پھيل گئي اور خود ان كے شيعوں كے لئے برہان بن گئي ہے _

معتصم جو پہلے ہى سے ہر طرح كى دشمنى اپنے دل ميں ركھتا تھا اور امامعليه‌السلام كو راستہ سے ہٹانے كے لئے موقع كى تلاش ميں رہتا تھا ، اس كو ابن ابى داود كى باتوں سے سخت جھٹكالگا اور امامعليه‌السلام كو قتل كرنے كے بارے ميں سوچنے لگا_(۳۵)

آخر كار اس نے اپنے منحوس منصوبہ كو عملى جامہ پہناديا اور امام جواد _كو جن كى عمر شريف ۲۵ سال سے زيادہ نہ تھى آخر ذى القعدہ ۲۲۰ ھ ق ميں آپعليه‌السلام كو بغداد بلايا اور زہر سے شہيد كرديا_(۳۶)

آپعليه‌السلام كے جسد اطہر كو آپعليه‌السلام كے جد گرامى قدر حضرت امام موسى ابن جعفرعليه‌السلام كے پہلو ميں سپرد لحد كيا گيا آج بھى ان دونوں اماموں كا مزار مقدس كاظمين كے نام سے مشہور ہے _

۲۴۲

سوالات

۱_حضرت امام محمد تقىعليه‌السلام كس تاريخ كو پيدا ہوئے اور ان كى پيدائيش سے پہلے شيعہ كيوں تشويش ميں مبتلا تھے؟

۲_امام جواد _نے اپنى عمر كے كتنے دن اپنے والد كے ساتھ گذار ئے كيا اس زمانہ كا كوئي واقعہ آپ كو ياد ہے ؟

۳_امام جوادعليه‌السلام كس عمر ميں منصب امامت پر فائز ہوئے ، كيا آپعليه‌السلام كى عمر عہدہ امامت كى ذمہ دارى قبول كرنے كى متقاضى تھى ، اس سلسلہ ميں امامعليه‌السلام كے ايك بيان كو ذكر كيجئے؟

۴_امام كى امامت كے ابتدائي زمانہ ميں مامون نے كون سا اقدام كيا اور اس سے اس كا كيا مقصد تھا؟

۵_ مامون كى خلافت كے مقابل امامعليه‌السلام كا كيا رو يہ تھا؟

۶_اسلامى علوم و ثقافت كى نشر و اشاعت ميں امامعليه‌السلام كا كيا كردار رہا ؟

۷_معتصم نے امامعليه‌السلام كو كيوں بغداد بلايا اور پھر آپعليه‌السلام كے قتل كادر پے كيوں ہوا؟

۸_ امام جواد _كس تاريخ كو اوركيسے شہيد ہوئے ؟

۲۴۳

حوالہ جات

۱ انوار الہيہ/۲۲۷،بحارج ۵/۱۵منقول ازعيون المعجزات_

۲ بحار جلد ۵۰/۷،۱۱،۱۳،۱۴_ايك قول كى بنا پر اسى سنہ ميں رمضان كے مہينہ ميں آپ كى ولادت ہوئي تھي_

۳ بحار جلد ۵۰/۱۱،انوار البہيہ /۲۲۵_

۴ كافى ج ۱/۲۵۲''فى باب النص على ابى الحسن الرضا''انوارالبھيّہ /۲۲۶_۲۲۵_

۵ اور يہ بھى احتمال ہے كہ مذكورہ بالا قول سے امام كا مقصديہ ہو كہ بچپن ميں حضرت امام جوادعليه‌السلام كى امامت سے شيعوں كيلئے يہ بات روشن ہوگئي كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرح يہاں بھى عمر كا سوال نہيں ہے اور ان كا علم خدا كى طرف سے ہوتا ہے _

۶ عيون اخبار الرضاج۲/۲۴۲_

۷ بحار ج ۵۰/۳۵_

۸ ارشادمفيد /۱۳۹،كافى ج۱ /۲۵۹_۲۵۸،۳۱۵_

۹ امام رضاعليه‌السلام كى عمر كے آخرى دو سال ۲۰۱ سے ۲۰۳ تك مراد نہيں ہيں جب آپ كو خراسان لے جايا گيا_

۱۰ '' ...كيف اقوم و قد ودّعت البيت و داعاًلارجوع بعدہ ''،كشف الغمہ ج ۳/۱۵۳_۱۵۲،سيرة الائمہ الاثنا عشر ج۲ /۴۴۳،انوار البہيّہ /۲۰۲_

۱۱ سورہ مريم /۱۱_

۱۲ ارشاد مفيد /۳۲۵،مناقب جلد ۴/۳۸۹_

۱۳ ''و كان على منها ج ابيه فى العلم و التقى و الزهد و الجود ''تذكرة الخواص ۳۲۱_

۱۴''محمد بن على الجواد كان من اعيان بنى هاشم و هو معروف بالسخاء و السود ولهذا سمتى الجواد'' منھاج السنة ج ۲/۱۳۷_

۱۵ جو وقف حضرت كے نام سے تھا آپ اس وقف كے متولى تھے_

۱۶ بحار جلد ۵۰/۱۰۵منقول از كافى و غيبت شيخ _

۱۷ بست افغان كا ايك قديم شہر ہے جو بلوچستان او رھند كے راستہ ميں واقع ہے اس كا مركز سجستان تھا جس كا اطلاق وسيع علاقہ پر ہوتا تھا _ ہرات سے ۸۰ فرسخ ہے _ر_ك ،معجم البلدان و المنجد باب اعلام ،كلمہ بست و

۲۴۴

سجستان _

۱۸اما بعد فان موصل كتابى هذا ذكر عنك مذهباًجميلاً و ان مالك من عملك ما احسنت فيه فاحسن الى اخوانك و اعلم ان الله عزوجل سائلك عن مثاقيل الذر و الخردل _

۱۹ بحار جلد ۵۰ / ۸۷_۸۶،انوار البھيية/۲۳۸_۲۳۷_

۲۰ بحار جلد ۵۰/۴۴ منقول از خرائج راوندى _

۲۱''اخترته لتبريزه على كافة اهل الفضل فى العلم و الفضل مع صغر سنّه'' _ بحار ج ۵۰/۷۵_

۲۲ عرب احتراماًكسى كو اس كى كنيت سے پكارتے ہيں _

۲۳ عيون اخبار الرضاجلد ۲/۲۴۲_

۲۴''نعوذ بالله مما تقولون ، بل انا له عبد ''كافى ج ۱/۲۵۸_انوار البھييہ /۲۲۸_۲۲۷_

۲۵ ''انى اعرف بھذاالفتى منكم و انّ اھل ھذالبيت علمھم من اللہ و موادہ و الھامہ ،لم تزل آبائہ اغنياء فى علم الدين و الادب عن الرعايا الناقصہ عن حد الكمال ''_بحار ۵۰/۷۵_۷۴،ارشاد /۳۲۰_۳۱۹،كشف الغمہ جلد ۳/۱۴۴/ ۱۴۳ _مناقب جلد ۴/۳۸۱_۳۸۰_اعلام الورى /۱۵۱_ اسى جلسہ ميں مامون نے ايك مناظرہ كا انعقاد كيا تھا اس واقعہ كو ''علمى اور ثقافتى كوششيں ''كے عنوان كے ذيل ميں بيان كيا گيا ہے _

۲۶ بحار جلد ۵۰/۶۳_۶۱_مناقب جلد ۴/۳۹۶،كافى جلد ۱/۴۱۴_۴۱۳_

۲۷ ارشاد مفيد /۳۲۱_۳۲۰،مناقب جلد ۴/۳۸۱،اعلام الورى /۳۵۲_۳۵۱_بحار جلد ۵۰/۷۶ _۷۵ ، كشف الغمہ جلد ۳/۱۴۵_۱۴۴،فصول المھمہ/۲۶۸_البتہ اس نشست ميں دوسرے مباحث بھى آئے منجملہ ان كے امام كا يحيى بن اكثم سے سوال اور يحيى كا امام كے جواب ميں عاجز رہ جانا اور مذكورہ بالامسئلہ كے شقوں سے متعلق امام كے جواب كو_اختصار كو مد نظر ركھتے ہوئے پيش نہيں كيا گيا ہے _

۲۸ بحار ج ۵۰ /۱۰۰_

۲۹ رجال شيخ طوسى /۴۰۹_۳۹۷_

۳۰ رجال كشى /۵۳۹_۵۳۸_

۲۴۵

۳۱ مروج الذہب جلد ۳/۴۸۵_۴۸۳_

۳۲ مامون،معتصم،واثق اور متوكل كے زمانہ كے بغداد كے بڑے قاضى القضا ميں سے ايك تھے _

۳۳ سورہ مائدہ /۶_

۳۴ سورہ جن/۲۸_

۳۵ بحار جلد ۵۰/۷_۵،منقول ازتفسير عياشى ج ۱/۳۲۰_۳۱۹،انوار البھية/۲۴۳_۲۴۱

۳۶ بحار جلد ۵۰/ ۱ بعض روايتوں ميں يہ آيا ہے كہ معتصم نے مامون كى بيٹى ام الفضل كے ذريعہ امام كو زہر دے ديا بحار جلد ۵۰/۱۰و اعيان الشيعة ج ۲/۳۶_

۲۴۶

تيرہواں سبق:

امام على النقىعليه‌السلام كي سوانح عمري

۲۴۷

ولادت

شيعوں كے دسويں امام ۱۵ ذى الحجہ ۲۱۲ھ ق كومدينہ كے''صريا''(۱) نامى قريہ ميں پيدا ہوئے_(۲) آپعليه‌السلام كا اسم گرامى ''علي''اورسب سے مشہور القاب ''نقي''اور ''ہادي'' ہيں اور آپعليه‌السلام كى كنيت ''ابوالحسن'' ہے _ آپعليه‌السلام ابوالحسن ثالث كے نام سے مشہور ہوئے _(۳)

نويں امام كے والد گرامى امام جواد _تھے اور آپ كى والدہ ''سمانہ''ايك بافضيلت و با تقوى خاتون تھيں آپ مقام ولايت سے آشنائي ركھنے والى اور خلافت الہى كى زبر دست دفاع كرنے والى خاتون تھيں _ خود امام ھاديعليه‌السلام اپنى والدہ گرامى كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ ميرى والدہ ميرے حق سے آشنا اور اہل بہشت ميں سے ہيں _

شيطان سركش ان سے نزديك نہيں ہوتا اور دشمن جبار كا مكر ان تك نہيں پہنچتا ، خدا ان كا محافظ اور نگہبان ہے _ وہ ہرگز صديقين و صالحين ماؤں كے صفوں سے باہر نہيں ہيں(۴)

امامعليه‌السلام كى پرورش كا ما حول

امام ہادى _نے اپنى عمر كے سات سال اور كچھ دن اپنے والد كے ساتھ ان كى تربيت اور خاص نگرانى ميں گذار ے _

آپعليه‌السلام جس ما حول ميں پروان چڑھے وہ ما حول ، دانش كے فروغ تقوى و اخلاق ،وسعت علم اور زندگى كے تمام شعبوں ميں فكر كى بلندى سے سرشار ما حول تھا _دوسرى صدى ہجرى ميں علماء كى

۲۴۸

فكرى تحريكيں اور مامون كى خلافت كى مشينرى كى طرف سے ان كے استقبال كى وجہ سے دينى حقائق كو واضح كرنے اور اس زمانہ كے روشن فكر اور سوجھ بوجھ ركھنے والى نسل تك پيغام اسلام كے پہونچانے كے مواقع اس زمانہ كے ائمہ معصومينعليه‌السلام كو حاصل تھے _

اسلام كے ترقى پذير عناصر كے گہوارہ پرورش اور زيادہ تر ائمہ كى جائے پيدائشے _مدينہ_ ميں ماں باپ كى توجہ سے اور تدبير سے امام _كے جسم و روح نے پارسائي اور دور انديشى كى منزل كمال كو سر كيا _ وہ جن كى پاكيزہ سرشت ميں دور انديشى اور ہوشمندى پوشيدہ تھى ، جو الہام الہى كے فيوض و بركات سے تمام شعبوں ميں كمالات اور امتيازات كے حامل تھے _ وہ خلافت عباسى كے ظلم و ستم سے جہاد كرنے والوں كے پيشرو اور اسلامى معاشرہ كى مشعل ہدايت قرار پائے _

امامت پر نص

سوائے على _اور موسي(جو كہ موسى مبرقع كہ نام سے مشہور تھے ) نويں امام كى اور كوئي اولاد نہ تھى ، چونكہ حضرت ہادىعليه‌السلام ،علم و معرفت ، تقوى و عبادت ميں اپنے زمانہ كے سارے لوگوں سے بلند تھے ان سے كسى كا حتى كہ ان كے بھائي كا بھى موازنہ نہيں كيا جا سكتا _ اس لئے ان كے والد كے بعد امامت اور رہبرى كا بلند مقام ان كو تفويض كيا گيا_

اسى لياقت كى بنياد نيز دوسرى باتوں كى بنا پر ان كے پدر بزرگوار نے بارہا اپنے بعد كے لئے ان كى امامت كو صراحت سے بيان فرمايا ہے _

''اميہ ابن على قيسي''نقل كرتے ہيں كہ ميں نے ابو جعفر _سے عرض كيا كہ آپعليه‌السلام كا كون جانشيں ہوگا_ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا : ميرے فرزند علىعليه‌السلام _(۵)

''صقر ابن دلف'' كہتے ہيں كہ ميں نے ابو جعفر امام جواد _سے سناآپ فرما رہے تھے كہ ميرے بعد پيشوا ميرا بيٹا على ہے ،ان كا فرمان ميرا فرمان ، انكى گفتار ميرى گفتار اور ان كى پيروى

۲۴۹

ميرى پيروى ہے اور ان كے بعد ان كے بيٹے حسنعليه‌السلام ،امام ہيں _(۶)

امامعليه‌السلام كا اخلاق اور ان كى سيرت

امام ہادى _اپنے اسلاف كى طرح اخلاق اور فضائل انسانى كا مجسمہ اور كمالات نفس كا مظہر تھے _

ابن صباغ مالكى اپنى كتا ب ميں آپعليه‌السلام كى اخلاقى خصوصيات اور فضائل كا مرقع كھينچتے ہوئے فرماتے ہيں _

ابوالحسن ،على ابن محمد _كى فضيلت اور برترى كى شہرت تمام عالم ميں پھيلى ہوئي ہے_ (ان كى فضيلت ہر جگہ سايہ فگن ہے اور اس سے دوسروں كى چمك دمك ماند پڑگئي ہے ) اور ان كے بلنديوں كى طرف بڑھنے والے سلسلے آسمان كے ستاروں پر حكمرانى كررہے ہيں _ كوئي چيز منقبت نہيں شمار كى جا سكتى مگر يہ كہ اس كا لب لباب آپعليه‌السلام كے وجود ميں جلوہ گر ہے اور كوئي فضيلت و كرامت بيان نہيں ہوتى مگر يہ كہ اس كا برتر ين حصہ آپعليه‌السلام ہى كى ملكيت ہے _ ہر قابل تعريف خصلت جب بيان كى منزل ميں آتى ہے تو اس كا بلندترين اور مكمل ترين حصہ آپعليه‌السلام ہى سے متعلق ہوتا ہے _ آپعليه‌السلام كا وجود ہر نيك و ارجمند خصلت كى ايسى تجلى گاہ ہے جو آپعليه‌السلام كى عظمت كى تعريف كرتى ہے ان تمام كمالات كے استحقاق كا سرچشمہ وہ بزرگى اور كرامت ہے جو آپعليه‌السلام كے جوہر زندگى كے ساتھ ملى ہوئي ہے _ وہ عظمت و بزرگى ہے جو آپعليه‌السلام كى سرشت ميں پوشيدہ ہے _آپ كا وجود آب زلال معرفت كے علاوہ كسى اور پانى كے پينے سے منع كرتا ہے _ اس لئے آپعليه‌السلام كى جان ، پاك ہے ، آپعليه‌السلام كا اخلاق شيرين ہے، آپكى سيرت،عادلانہ اور آپ كے تمام صفات نيك ہيں آپ وقار ،سكون،صبر،عفت،طہارت،زيركى اور دانائي ميں طريقہ نبوى اور سرشت علوى پر گامزن تھے _ ايسے تزكيہ شدہ نفس كے اور ايسى بلند ہمت كے مالك تھے كہ كوئي آپعليه‌السلام كے پايہ كو پہنچ

۲۵۰

نہيں سكتا _آپعليه‌السلام كى نيك روش ميں آپعليه‌السلام كا كوئي ثانى نہيں اور كسى نے ان چيزوں كى طمع نہيں كي(۷)

عبادت و بندگي

متوكل كے معين كيے ہوئے افراد چھان بين كے لئے متعدد بار آپعليه‌السلام كے گھر ميں اچانك گھس آئے تو آپ كو كھر در الباس پہنے ہوئے ايك چٹائي پر نماز كے لئے ايستادہ لكھتے_

يحيى ابن ہرثمہ نقل كرتے ہيں كہ امام ہادى ہميشہ مسجد ميں رہتے تھے اوردنيا سے كوئي رابطہ نہيں ركھتے تھے_(۸)

حائرى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں كہ عبادت پروردگار سے شديد محبت كى بنا پر آپ راتوں كو آرام نہيں كرتے تھے اور تھوڑى دير كے علاوہ آپ سوتے نہيں تھے _ آدھى رات كو كنكروں اور ريگزاروں پربيٹھتے اور عبادت و استغفار اور تلاوت ميں رات بسركرتے تھے _(۹)

جودو بخشش

امام _كے دوستوں ميں سے چند افراد جيسے ابو عمر و عثمان ابن سعيد ،احمد ابن اسحاق اشعرى اور على ابن جعفر ہمدانى ،آپعليه‌السلام كى خدمت ميں پہنچے _احمد ابن اسحاق نے اپنے بھارى قرض كى امامعليه‌السلام سے شكايت كى ، امام ہادىعليه‌السلام نے اپنے وكيل ''ابوعمرو''سے فرمايا تيس ہزار دينار ،احمد ابن اسحاق كو اور تيس ہزار دينا ر على ابن جعفر كو ديدو اور اپنے لئے بھى تيس ہزار اٹھالو(۱۰)

ابو ہاشم جعفرى نقل كرتے ہيں كہ ميں بہت زيادہ محتاج ہو گيا _ ميں امام ہادى _كى خدمت ميں پہنچا جب ميں بيٹھ گيا تو آپ نے فرمايا : اے ابوہاشمخدا نے جو نعمتيں تم كو دى ہيں ان ميں سے كسى ايك نعمت كا شكر بجالا سكتے ہو؟ ميں چپ رہا اور يہ نہ سمجھ سكا كہ كيا كہوں _

۲۵۱

امامعليه‌السلام نے فرمايا :خدا نے تم كو ايمان ديا ہے اور اس كے ذريعہ اس نے تمہارے جسم كو دوزخ كى آگ سے بچايا ہے ، خدا نے تم كو صحت و عافيت عطا كى ہے اور اس نے اپنى عبادت كے لئے تمہارى مدد كى ،خدا نے تم كو قناعت دى ہے اور اس كے ذريعہ اس نے تمہارى آبرو بچائي ہے ، اے ابوہاشمميں نے يہ باتيں اس لئے شروع كيں كہ ميں نے گمان كيا كہ تم اس كے بارے ميں مجھ سے شكايت كرنا چاہتے ہوجس نے يہ تمام نعمتيں تم كو دى ہيں _ ميں نے حكم ديد يا ہے كہ سو(۱۰۰)دينار تم كو ديئے جائيں تم ان كو لے لو_(۱۱)

عقدہ كشائي

'' محمد ابن طلحہ '' نقل كرتے ہيں كہ ايك دن امام ہادىعليه‌السلام سامرا سے ايك اہم كام كے لئے ايك ديہات كى طرف روانہ ہوئے _ اس در ميان ايك آدمى آپعليه‌السلام كے گھر آيا جب اس نے امامعليه‌السلام كو دہاں نہ پايا تو وہ بھى اس ديہات كى طرف روانہ ہوا جب امام كى خدمت ميں پہنچا تو اس نے عرض كيا كہ ميں كوفہ كارہنے والا ہوں آپعليه‌السلام كے خاندان كے چاہنے والوں ميں سے ہوں ليكن بہت زيادہ قرضدار ہوگيا ہوں ، اتنا قرض ہے كہ ميں اسے ادا نہيں كر سكتا اور آپعليه‌السلام كے علاوہ مجھے اور كوئي نظر نہيں آتا جو ميرى ضرورت پورى كردے _امامعليه‌السلام نے پوچھا تمہارا قرض كتنا ہے ؟اس نے كہا تقريباًدس ہزار درہم_

امامعليه‌السلام نے اس كى دلجوئي كى اور فرمايا : تم پريشان نہ ہونا اور ميں جو حكم دوں اس پر عمل كرنے ميں كوتاہى نہ كرنا پھر آپعليه‌السلام نے اپنے ہاتھ سے ايك رقعہ لكھا اور اس سے فرمايا: اس خط كو اپنے پاس ركھو اور جب ميں سامرا پہنچوں تو جتنا پيسہ اس ميں لكھا ہے اس كا ہم سے مطالبہ كرنا ،چاہے تم كو لوگوں كے سامنے ہى ايسا كرنا پڑے ،خبردار اس ميں كوتاہى نہ كرنا _

امام _كے سامراء لوٹنے پر جب خليفہ كے حلقہ بگوش افراد آپعليه‌السلام كے پاس بيٹھے ہوئے تھے

۲۵۲

وہ مرد عرب وہاں پہنچا اور اس دستخط كو دكھا كر اصرار كے ساتھ اس نے پيسے كا مطالبہ كيا، امامعليه‌السلام نے نہايت نرمى اور ملائمت سے تاخير كى معذرت كرتے ہوئے اس سے مہلت مانگى تا كہ كسى مناسب وقت پر آپعليه‌السلام وہ پيسے ادا كرديں _ ليكن وہ شخص اسى طرح اصرار كرتا رہا اور اس نے مہلت نہيں دي_

يہ بات متوكل تك پہنچى تو اس نے تيس ہزار دينا رامامعليه‌السلام كے لئے بھيجنے كا حكم ديا_

جب پيسے امامعليه‌السلام كے ہاتھوں تك پہنچے تو آپعليه‌السلام نے اس مرد عرب كو بلايا اور تمام پيسے اس كو دے ديئے _ اس نے بتايا كہ اس پيسے كے ايك تہائي سے كم ميں ميرى ضرورت پورى ہو جائے گى ليكن امام _نے تمام تيس ہزار دينار اس كو مرحمت فرما ديئے(۱۲)

امامعليه‌السلام كى معنوى ہيبت و عظمت

''محمد ابن حسن اشترعلوى ''نقل كرتے ہيں كہ '' ميں اپنے والد كے ساتھ متوكل كے گھرتھا اور آل ابوطالب و آل عباس و آل جعفر كى بھى ايك جماعت وہاں موجود تھى كہ امام ہادىعليه‌السلام تشريف لائے _ وہ تمام لوگ جو وہاں كھڑے تھے امام _كے احترام ميں سواريوں سے اتر پڑے امامعليه‌السلام گھر ميں داخل ہوئے _ حاضرين ميں سے كچھ لوگوں نے ايك دوسرے سے كہا : ہم ان كيلئے كيوں اپنى سوارى سے اتريں ،وہ نہ تو ہم سے زيادہ صاحب شرف ہيں اور نہ ہم سے عمر ميں بڑے ہيں خدا كے قسم ہم ان كے لئے سوارى سے نہيں اتريں گے _

ابوہاشم جعفرى نے _ جو وہاں موجودتھے _كہا خدا كى قسم تم لوگ جب انكو ديكھو گے تو نہايت حقير بن كر سوارى سے اتر پڑوگے _

ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ امام ہادىعليه‌السلام واپس پلٹے ،جب حاضرين كى نظر آپعليه‌السلام پرپڑى تو بے اختيار سواريوں سے اترپڑے ،ابوہاشم نے كہا :''كيا تم نے نہيں كہا تھا كہ ہم نہيں اتريں گے؟

۲۵۳

''لوگوں نے كہا:'' خداكى قسم ہم اپنے كو نہيں روك سكے اور بے اختيار اترپڑے _(۱۳)

امام _كا علمى مقام

خدا نے اپنى لامتناہى قدرت اور اپنے وسيع علم سے خاندان رسالتعليه‌السلام كو علم كے خزانے عطا كئے اور ان كو زيور علم سے آراستہ كيا_ ايسا علم كہ ان سے زيادہ علم دوسرى جگہوں پر نہيں پايا جا سكتا_

شيعوں كے ائمہ علم الہى كے پرچم دار ،خزينہ دار اور اسرار توحيد كے محافظ ہيں _ امام ہادى _اسى شجرہ طيبہ كى ايك شاخ ہيں جو وسيع اور جامع علم سے مالامال تھے _ آپعليه‌السلام كى علمى عظمت و منزلت نے عقلوں كو حيرت و استعجاب ميں ڈال دياتھا_

صفات خداوند عالم ،تنزيہ و تقديس پروردگار كے بارے ميں آپعليه‌السلام كى حديثيں ،مذہب ،جبرو تفويض،اور جبر و تفويض كے در ميانى امر كے اثبات پر مفصل خط ،زيارت ائمہ كے كلمات جو''زيارت جامعہ''كے نام سے مشہور ہے ،آپعليه‌السلام كى يادگاريں ہيں _مخالفين كے ساتھ مختلف موضوعات پر احتجاجات(۱۴) و غيرہ ...علماء كے لئے مورد توجہ ہيں جو كہ آپعليه‌السلام كے علمى پہلووں كى گہرائي اوروسعت كا پتہ ديتے ہيں _

امامت كا زمانہ

امام ہادى _ ۲۲۰ھ ق ميں _ اپنے والد بزرگوار كى شہادت كے بعد _آٹھ سال كى عمر ميں امامت كے عہدہ پر فائز ہوئے ، آپعليه‌السلام كى امامت كى مدت ۳۳ سال اور كچھ دن تھى اس مدت ميں بنى عباس كے چھ خلفاء آپعليه‌السلام كے ہم عصر رہے _ ان كے نام معتصم ،واثق ،متوكل ،منتصر،مستعين ا ور معتزہيں _

۲۵۴

دوران امامت كى خصوصيتيں

دسويں امامعليه‌السلام كى امامت كا زمانہ پريشانى ،تشويش اور انقلاب كا زمانہ تھا _ اس زمانہ ميں خاندان على _اور ان كے پيروكاروں كے ساتھ حكومت كا سخت اور براسلوك اپنے عروج پرپہنچا ہواتھا _ اور اس شدت پسند روش كى بنا پر وسيع و عريض اسلامى مملكت كے گوشہ و كنار ميں علويوں كى شورشيں بہت پھيلى ہوئي تھيں _

يہاں پر اب ہم خلافت كے اس زمانہ كى بعض خصوصيات كى طرف اشارہ كرتے ہيں تا كہ دسويں امام كے سياسى حالات كو اچھى طرح سمجھاجا سكے _

الف :دربار خلافت كى ہيبت و عظمت كا زوال اور موالى كا تسلط

اس زمانہ ميں ترك ،قبطى اور موالى كا سرنوشت مملكت اسلامى پر تسلط اور مملكت كے امور سے خليفہ كى كنارہ كشى نے دربار خلافت كى عظمت و ہيبت كو ختم كرديا ،خلافت مذكورہ لوگوں كے ہاتھوں ميں ايك گيند كى طرح تھى جسے جدھر چاہتے تھے پھينك ديتے تھے(۱۵)

يہاں تك كہ ''معتمد''نے اس تلخ حقيقت كا اعتراف كيا اور چنداشعار ميں اس نے كہا: كيا يہ تعجب خيز نہيں ہے كہ ميرے جيسا شخص نہايت چھوٹى چيز سے روك ديا جائے _ اس كے نام پر پورى دنيا حاصل كى جائے حالانكہ اس ميں سے كوئي چيز اس كے ہاتھ ميں نہيں ہے _ فراوان مال و دولت اس كى طرف منتقل ہو ليكن ان ميں سے ذرا سى چيز بھى اس كو نہ دى جائے _

خلافت كى مشينرى ميں ان لوگوں كا دخل و رسوخ اور اہل بغداد كے لئے حدسے زيادہ مزاحمت و پريشانى اس بات كا سبب بنى كہ معتصم ان لوگوں كو_جن كى فوج اور انتظامى فورس ميں كثرت تھي_ لوگوں كى دسترس سے باہر كسى دوسرى جگہ منتقل كردے _ چنانچہ شہر سامرہ كو اس كام كيلئے چناگيا اور اسى كو دارالخلافہ قرار ديا گيا اور لشكركو بھى اسى شہر ميں منتقل كرديا گيا_

ان عناصر كے راس و رئيس ''موسى ابن بغا'' ان كے بھائي ''محمد ابن بغائ''_''بغا شرابى كوچك

۲۵۵

''اور ''وصيف''تھے مؤخرالذكر دونوں افراد مستعين پر ايسے مسلط تھے كہ ان كے بارے ميں كہا جاتا تھا كہ ''خليفہ وصيف اور بغاء كے در ميان قفس ميں قيد ہے وہ لوگ جو بھى كہتے ہيں يہ طوطے كى طرح وہى بولتا ہے_(۱۶)

ب: علويوں كى تحريك كى وسعت

اس زمانہ ميں ''رضا ئے آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' اور حكومت كے ظلم و جور كے خلاف اور اعتراض كے عنوان سے بہت سى تحريكيں اٹھيں _ تحريك كے ليڈر يہ ديكھ رہے تھے كہ ان كے امام فوجى اڈہ كے اندر سامرا ميں قيد ہيں اور خلافت كى مشينرى ان كى نگرانى كررہى ہے اور كسى مخصوص آدمى كے نام پرلوگوں كو اكٹھا كرنا اس كے قتل كا باعث ہوتا ہے _ اس لئے وہ لوگوں كو كلى طور پر رضائے آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف دعوت ديتے تھے _

مورخين نے اٹھارہ تحريكوں كے نام بيان كئے ہيں _ ہم ان ميں سے اختصار كے ساتھ چند تحريكوں كا نام ذكركر رہے ہيں :

۱_محمد ابن قاسم علوى كى تحريك :يہ ايك عالم ،زاہد اور متقى آدمى تھے _انہوں نے معتصم كے زمانہ ميں طالقان ميں قيام كيا _ اور عبداللہ ابن طاہر كے ساتھ ايك جھڑپ كے بعد ۲۱۹ھ ق ميں عبداللہ كے ہاتھوں گرفتار ہو كر معتصم كے پاس لائے گئے _(۱۷)

۲_يحيى ابن عمر علوى كى تحريك :يحيى ايك زاہد متقى اور باعلم و عمل آدمى تھے _ انہوں نے ۲۵۰ھ ميں كوفہ ميں قيام كيا اور بہت سے لوگوں كو اپنے اردگرد جمع كرليا اور بيت المال پرحملہ كركے بيت المال اپنے قبضہ ميں كرليا ،زندانوں كے دروازے كھول كر قيديوں كو آزاد كرديا اور شہر كے حكام كوشہر سے باہر نكال ديا ليكن آخر ميں شكست كھا كر ''حسين ابن اسماعيل '' كے ہاتھوں قتل ہوئے _ ان كى لاش كو دار پر لٹكايا گيا _(۱۸)

۳_حسين ابن زيد كى تحريك : انہوں نے ۲۵۰ھ ق ميں طبرستان ميں قيام كيا ''اس سرزمين

۲۵۶

اور (شہر)گرگان پر قبضہ كرليا اور ۲۷۰ھ ق ميں انتقال فرما گئے ان كے بھائي ''محمد''ان كے جانشين ہوئے(۱۹)

۴_محمد ابن جعفر علوى كى تحريك :آپ نے ۲۵۰ھ ق ميں خراسان ميں قيام كيا ليكن عبداللہ ابن طاہر كے ہاتھوں گرفتار ہو كر قيد كرديئے گئے اور وہيں انتقال فرمايا_(۲۰)

امامعليه‌السلام كے ساتھ متوكل كا سلوك

امام ہادىعليه‌السلام اگر چہ خلفائے بنى عباس ميں سے چھ خلفاء كے ہمعصر رہے ليكن متوكل اور معتز سے آپعليه‌السلام نے دوسرے خلفاء كى بہ نسبت زيادہ دكھ سہے _ ان دونوں خلفاء كى سياست مخالفين ،خصوصاً علويوں كا قلع قمع كرڈالو كى سياست تھى _

متوكل حكومت بنى عباس ميں سب سے بڑا ظالم اور بد سرشت بادشاہ تھا اس كى حكومت كى مدت چودہ ۱۴)سال كچھ دن تھى (۲۳۲ھ ق_۲۴۷ھ ق)اور يہ زمانہ د سويں امامعليه‌السلام اور ان كے تابعين كے لئے سخت ترين زمانہ شمار كيا جاتا ہے _

متوكل جس كا دل اميرالمؤمنين ،ان كے خاندان اور ان كے شيعوں كے لئے كينہ سے بھرا ہواتھا _ وہ اس بات كى كوشش كرتاتھا كہ اس خاندان كے نماياں افراد كو نہايت بے دردى سے ختم كردے _ اسى لئے اس نے علويوں كے ايك گروہ كو قتل كيا اور دوسرے گروہ كو بھى نيست و نابود كرڈالا_

وہ ائمہ كى جانب بڑھتے ہوئے عمومى افكار كو روكنے اور ائمہعليه‌السلام كو گوشہ نشين بنانے كے لئے جھوٹے خواب نقل كركے لوگوں كو محمد ابن ادريس شافعى كى _جو گذر چكے تھے _ پيروى كرنے كا شوق دلاتاتھا_(۲۲) اور ۲۳۶ھ ق كو اس نے حكم ديا كہ سيدالشہداء حضرت امام حسين عليہ السلام كے مرقد مطہر كو ويران كرديا جائے اور اس زمين پر زراعت كى جائے تا كہ لوگ اس مرقد مطہر كى

۲۵۷

زيارت كونہ جائيں جو شيعوں كا مركز اور دربار خلافت كے ظلم و استبداد كے خلاف شيعوں كى تحريكوں كے لئے الھام بخش ہے _(۲۳)

ليكن نہ صرف يہ كہ شيعہ كسى بھى طرح اس تربت پاك كى زيارت سے باز نہيں آئے بلكہ يہ جرم ان كے مبارزات كى شدت كو بڑھانے كا سبب بنا اور انہوں نے اپنے نفرت و غصہ كو نعروں اور اشعار كى شكل ميں بغداد كے شہر اور مسجد كى ديواروں پر لكھ كر ظاہر كيا _ ايك شعر كا مضمون ملاحظہ ہو :'' خدا كى قسم اگر بنى اميہ نے ظلم و ستم كے ساتھ فرزند پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قتل كرديا تو اب بنى عباس _ جو فرزندان عبدالمطلب اور ان كى نسل سے ہيں _ انہوں نے بھى بنى اميہ كے جرائم كى طرح جرم كا ارتكاب كيا،يہ قبر حسينعليه‌السلام ہے جو ويران ہو گئي ہے _ اور يہ كہ بنى عباس كو اس بات كا افسوس ہے كہ انہوں نے قتل امام حسينعليه‌السلام ميں شركت نہيں كى اور اب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تربت پر ظلم اور ان كى قبر كو ويران كركے وہ بنى اميہ كے جرائم كى پيروى كررہے ہيں _(۲۴)

ائمہ اہل بيت كى دوستى اور ان كى پيروى كے جرم ميں متوكل لوگوں پر سختى كرتا اور ان كو سزائيں ديتا تھا_

ابن سكيت ايك شيعہ اديب اور شاعر متوكل كے بيٹوں _ معتز اور مؤيد _ كے معلم تھے ايك دن خليفہ نے دونوں بيٹوں كى طرف اشارہ كركے ابن سكيت سے پوچھا كہ ''تيرے نزديك يہ دونوں زيادہ محبوب ہيں يا امام حسن و امام حسين(عليہما السلام) ؟ابن سكيت نے بے جھجك جواب ديا كہ امير المؤمنين كے غلام قنبر تيرے دونوں بيٹوں سے بہتر ہيں _(۲۵)

متوكل كو ہرگز ايسے جواب كى اميد نہ تھى چنانچہ وہ بڑا غضب ناك ہوا اس نے ان كى زبان گدّى سے كھنچ لئے جانے كا حكم ديا اور اس دردناك طريقہ سے ان كو شہيد كرديا_(۲۶)

امير المؤمنينعليه‌السلام سے كينہ اور عداوت نے متوكل كوايسى پستى اور رذلت ميں پہنچا ديا تھا كہ وہ ناصبيوں اور دشمنان اہل بيتعليه‌السلام كو اپنے قريب كرتاتھا اور كينہ سے لبريز دل كى تسكين كے لئے حكم ديتا تھا كہ ايك مسخرہ اپنى شرم آور حركات سے امير المؤمنين كا مذاق اڑائے اور ايسے ميں متوكل

۲۵۸

شراب پيتا اور يہ مناظر ديكھ كر قہقہہ لگا تا _(۲۷)

سامرا ميں امام _كى جلا وطني

۲۳۲ھ ق ميں جب متوكل نے اقتداراپنے ہاتھ ميں ليا تو اس نے مختلف طبقہ كے لوگوں ميں امام ہادىعليه‌السلام كے نفوذ اور ان سے لوگوں كى محبت كو ديكھا تو بہت خوفزدہ ہوا اس وجہ سے اس نے چاہا كہ امامعليه‌السلام كو مدينہ سے سامرا بلائے اور آٹھويں امامعليه‌السلام كے سلسلہ ميں مامون كے رويہ كى پيروى كرے تا كہ آپ كو ان كے چاہنے والوں سے دور كرنے كے ساتھ ساتھ فعاليت سے بھى روك دے اور قريب سے نگرانى كرتا رہے _

حرمين كے امام جماعت اور والى مدينہ نے امام _كے بارے ميں متوكل سے جو چغلى لگائي تھى اس نے خليفہ كو اس ارادہ كو عملى جامہ پہنانے پر اكسايا اس وجہ سے اس نے ۲۳۴ھ ق۱۰۴

ميں امام كے لئے ايك خط لكھا اور اس كو يحيى ابن ہر ثمہ كے ذريعہ بھيجا اور حكم ديا كہ سامرا لاياجائے _(۲۸)

امامعليه‌السلام اگر چہ متوكل كى برى نيت سے واقف تھے پھر بھى آپعليه‌السلام نے اپنے آباء كرام كى پيروى كرتے ہوئے اس بات ميں بھلائي نہيں محسوس كى كہ متوكل كى مخالفت كى جائے اس لئے كہ اس كى مخالفت چغلى لگانے والوں كے لئے سند بن جاتى اور خليفہ كو اور زيادہ بھڑ كاديتى اسى وجہ سے آپعليه‌السلام اس جبرى سفر پر آمادہ ہوگئے _(۲۹)

اور اپنے بيٹے امام حسن عسكرىعليه‌السلام كولے كر خليفہ كے بھيجے ہوئے آدميوں كے ساتھ سامرا ء كے سفر پر چل پڑے _

متوكل نے آپ كى شخصيت كو نقصان پہنچانے اور اپنى طاقت كے مظاہرہ كے لئے حكم ديا كہ امامعليه‌السلام كو ايك نامناسب جگہ جس كا نام ''خان الصعاليك'' تھا ،جو گدا گروں كى جگہ تھى ،وہاں

۲۵۹

اتاراجائے اور ايك دن وہاں ٹھہرانے كے بعد محلہ عسكر(۳۰) ميں امامعليه‌السلام كے لئے ايك گھر ليا گيا اور آپعليه‌السلام كو اس ميں منتقل كيا گيا(۳۱) آخر عمر تك آپعليه‌السلام اسى جگہ مقيم رہے اور متوكل اور اس كے بعد كے خلفا ء كى طرف سے ہميشہ نظر بند رہے _ سامرا ميں بيس سالہ قيام كے دوران آپعليه‌السلام نے بڑے دكھ سہے ،خاص كر متوكل كى طرف سے ہميشہ تہديد اور آزار كا شكار رہے _ بغير كسى اطلاع كے پيسہ اور اسلحہ كى تلاشى كے بہانہ بارہا آپعليه‌السلام كے گھر كى تلاشى ہوتى رہى اور بہت سے مواقع پر خود آپعليه‌السلام كو خليفہ كے پاس لے جايا گيا_

معتز ،متوكل كا بيٹا بھى اپنے باپ سے كم نہ تھا _ علويوں كے ساتھ اس كا سلوك بہت ناروا تھا _ اس كى حكومت كے زمانہ ميں بہت سے علويوں كو يا تو زہر ديا گيا يا قتل كرڈالاگيا _ امام ہادىعليه‌السلام اسى كے زمانہ ميں شہيد ہوئے _

امامعليه‌السلام كى فعاليت اور آپعليه‌السلام كا موقف

امام ہاد ى _كى علمى اور سماجى فعاليت اور خلافت كى مشينرى كے مقابل آپ كے موقف سے آگاہى كے لئے ضرورى ہے كہ ہم مسئلہ كى دوحصوں ميں تشريح كريں _

۱_مدينہ ميں آپعليه‌السلام كى فعاليت اور آپعليه‌السلام كا موقف

۲_ سامرا ميں حضرتعليه‌السلام كى كار كردگى اور آپ كا موقف

الف :مدينہ ميں آپ كى فعاليت اور موقف

اپنے والد بزرگوار كى شہادت كے بعد اپنى امامت كے زمانہ ميں امام ہادىعليه‌السلام نے تقريباً تيرہ سال نہايت دشوار گذار اور كھٹن ما حول ميں مدينہ ميں زندگى بسر كى اور آپعليه‌السلام نے مختلف گروہوں كو آگاہى بخشنے ،طاقتوں كو جذب كرنے اور عوامى مركز تشكيل دينے ميں اپنى تمام تركوششيں صرف كيں _

۲۶۰