تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 172657
ڈاؤنلوڈ: 4217


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172657 / ڈاؤنلوڈ: 4217
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

يہ كوششيں اتنى موثر اور دربار خلافت كے لئے ايسى خطرناك تھيں كہ حرمين كے امام جماعت ''بريحہ'' نے متوكل كولكھا اگر تم كو مكہ اور مدينہ كى ضرورت ہے تو على ابن محمد ہاديعليه‌السلام كو اس ديار سے نكال دو اس لئے كہ وہ ،لوگوں كو اپنى طرف بلاتے ہيں چنانچہ بہت سے افراد بھى ان كے گرويدہ ہيں _(۳۲)

اسى بات كو حكومت بنى عباس كے طرفداروں نے ،منجملہ ان كے والى مدينہ نے بھى متوكل كو لكھا اور يہى فعّاليت اور لوگوں كى چغلى ، اس بات كا باعث ہوئي كہ متوكل امامعليه‌السلام كو سامرا منتقل كرنے كے نگرانى ميں ركھے _

سامرا لے جاتے وقت مدينہ كے عوام كاردّ عمل ،امام كى سياسى اور سماجى كوششوں اور معاشرہ ميں ان كى حيثيت پر دوسرى بولتى ہوئي دليل ہے _

يحيى بن ہرثمہ نقل كرتا ہے كہ جب مدينہ والوں كو معلوم ہوا كہ ہم امام ہادىعليه‌السلام كو مدينہ سے لے جانے كے لئے آئے ہيں تو ان كے نالہ و فرياد كى ايسى آواز يں بلند ہوئيں كہ ميں نے اس سے پہلے ايسى آوازيں نہيں سنى تھيں ، جب ميں نے قسم كھا كر يہ بات كہى كہ امامعليه‌السلام كے ساتھ كوئي برا سلوك نہيں كروں گا تب لوگ چپ ہوئے _(۳۳)

مدينہ والوں كے نالہ و شيون او ران كى فرياد سے دو حقيقتوں كا پتہ چلتا ہے _ پہلى بات تو يہ ہے كہ اس سے امام كے سلسلہ ميں ان كى محبت اور الفت كا اندازہ ہوتا ہے _ اور دوسرى بات ہے كہ امامعليه‌السلام كے بارے ميں حكومت كے معاندانہ رويہ سے لوگ آگاہ ہوگئے _

لوگوں كا غم و غصہ اور ان كى تشويش دو باتوں كى بنا پر تھى :

۱_آپ كى رہبرى اور آپ كے فيوض و بركات سے محرومى اور جدائي _

۲_اس بات كا احتمال كہ پايہ تخت منتقل كرنے كہ بعد امامعليه‌السلام كو شھيد كرديا جائيگا اور اس احتمال كو خليفہ كے بھيجے ہوئے آدميوں نے لوگوں كے شك آلود چہرہ اور ان كے نالہ و فرياد سے بخوبى محسوس كرليا تھا _ اسى وجہ سے يحيى بن ہرثمہ نے قسم كھائي كہ كہيں كوئي حادثہ نہ پيش آجائے _

۲۶۱

ب: سامرا ميں امامعليه‌السلام كى فعاليت اور موقف

امام ہادىعليه‌السلام نے جو بيس سال سامرا ميں زندگى گذارى اس كھٹن ما حول ميں اپنے دوستوں اور خود اپنى نگرانى كے ، با وجود امكان كى حدتك پيغام الہى كو ہميشہ كى طرح پہنچانے ميں كامياب رہے_

آپعليه‌السلام كى كاركردگى كا خلاصہ دو حصوں ميں بيان كيا جا سكتا ہے :

۱_اپنے برحق موقف كو بيان كرنا اور اسے مضبوط بنانا اور باطل كے موقف پر تنقيد كرنا _

۲_ عوامى مركز كى پشت پناہى اور لوگوں كو دربار خلافت ميں داخل ہونے اور اس كى مدد كرنے سے روكنا _

۱_پہلا موقف

اس موقف كو بيان كرنے كے لئے چند نمونوں كا بيان كردينا ضرورى ہے _

۱_ خليفہ پر كھلم كھلا امام كى تنقيد اور واضح بيانات _

اس كا واضح ترين نمونہ وہ اشعار ہيں جو امام _نے خليفہ كى بزم ميں پڑھے اور متوكل نے گريہ كيا _

متوكل نے ايك بزم منعقد كى اور اس نے حكم ديا كہ امام ہادى _كو بھى لا يا جائے ، جب امامعليه‌السلام وہاں پہنچے تو_ متوكل جو شراب خورى ميں مشغول تھا _ اس نے امامعليه‌السلام كو اپنے پہلو ميں بٹھايا اور امامعليه‌السلام سے اس نے اس كا م كى بھى خواہش كى (معاذاللہ) امامعليه‌السلام نے فرمايا ''ميرا گوشت اور ميرا خون ہرگز شراب سے آلودہ نہيں ہوا ہے''_

متوكل آپ كو شراب پلانے سے مايوس ہوگيا اور اس نے اشعار پڑھنے كى پيشكش كى ، امام_نے فرمايا كہ ميں بہت كم شعر پڑھتا ہوں متوكل نے كہا شعر پڑھنے كے سوا اور كوئي چارہ ہى نہيں ہے _

۲۶۲

امام _نے اشعار پڑھے جس سے خليفہ بہت متاثر ہوا اتنا متاثر ہوا كہ خود خليفہ اور حاضرين مجلس نے گريہ كيا _پھر اس نے بساط شراب كو سميٹ دينے كا حكم ديا اور امام ہادى _كو چار ہزار دينار دے كر احترام سے واپس بھيجديا_(۳۴)

لوگوں كے در ميان انفرادى يا اجتماعى طور پر اپنى حقانيت اور امامت كا اثبات كے مرحلہ ميں آپ كا موقف كچھ اس طرح تھا كہ جو دربار خلافت سے آپ كے كلى منفى رويہ كے خلاف نہ تھا _

تاريخ ميں اس سلسلہ ميں بہت سے نمونے درج ہيں كہ امامعليه‌السلام نے اپنى پيش گوئي اور معجزات كے ذريعہ لوگوں كو اپنى حقانيت كى طرف متوجہ كرنے اور انہيں خواب غفلت سے بيدار كرنے كى بہت كوشش كى _

اس ميں سے ايك نمونہ حضرت كا ''سعيد ابن سھل '' بصرى سے سلوك ہے _ سعيد خود نقل كرتے ہيں كہ ميں واقفى(۳۵) مذہب كا تھا _ ايك دن امام ہادىعليه‌السلام سے ملا آپ نے مجھ كو مخاطب كرتے ہوئے فرمايا ،كب تك سوتے رہوگے ؟كيا تم نہيں چاہتے كہ اس غفلت سے بيدار ہوجاؤ؟امام _كى باتوں نے مجھ پر ايسا اثر كيا كہ ميں نے اپنا عقيدہ چھوڑ كر حق كو قبول كرليا(۳۶)

كسى خليفہ كے بيٹے كے وليمہ كے سلسلہ ميں امام ہادىعليه‌السلام كى بھى دعوت تھى جب آپ تشريف لے گئے تو حاضرين آپ كے احترام ميں ساكت ہوگئے ليكن ايك جوان اسى طرح باتيں كرتا اور ہنستارہا وہ چاہتا تھا كہ امام _كو لوگوں كے در ميان سبك كردے امامعليه‌السلام نے اس نوجوان كى طرف رخ كيا اور فرمايا يہ كيسى ہنسى ہے جس نے تجھے ياد خدا سے غافل بنا ديا ہے ؟در آن حاليكہ تم تين دن كے بعد مرجاؤ گے _

وہ جوان يہ باتيں سن كر چپ ہوگيا ،تمام حاضرين امام _كى پيشين گوئي كى صداقت كو پركھنے كے لئے دن گنتے رہے يہاں تك كہ تيسر ا دن آيا اور وہ نوجوان مرگيا(۳۷)

۲۶۳

۲_علمى كاركردگي

لوگوں كو آگاہ كرنے ،امامت كے موقف كى وضاحت اور اس كى تفسير بيان كرنے كے لئے امام _كى فعاليت كے محورمند مندرجہ ذيل ہيں :

۱_ مختلف اقوال يا تحريريں جو حق كو ثابت كرنے والے اور لوگوں كے ذہن ميں ابھر نے والے شبہات كو ختم كرنے كے لئے ضرورى مقامات پر سامنے آئيں _

۲_ مناظرہ كے جلسوں ميں شركت كرنا اور خليفہ يا ان لوگوں كے سوالات كے جواب دينا جن كو خليفہ سوال كرنے پراكساتا تھا _ پھر ان كو عملى اعتبار سے عاجز كردينا_

متوكل نے ايك دن ابن سكيت(۳۸) كو اكسايا كہ امام سے مشكل مسائل پوچھے ،انہوں نے ايك نشست ميں امام سے وہ مسائل پوچھے جو ان كى نظر ميں مشكل تھے امام نے ان تمام سوالوں كے جواب ديئے _

اس كے بعد ابن سكيت ،يحيى ابن اكثم كو ميدان مقابلہ ميں لايا ليكن يحيى نے بھى منہ كى كھائي اور مغلوب ہوا_ اس نے متوكل سے كہا كہ ايسے جلسے منعقد كرنا حكومت كى بھلائي كے لئے مفيد نہيں ہيں ، اس لئے كہ امام _كى برترى اور كاميابى كى آواز شيعوں كے كانوں تك پہنچ چكى ہے يہ جلسے ان كے استحكام اور فخر كا باعث بنيں گے_(۳۹)

۳_شاگردوں كى تربيت

دربار خلافت كى طرف سے محدوديت كا شكار ہونے اور آپ كے گھر آنے جانے والوں كى نگرانى ہوتے رہنے كے با وجود امام ، قدر آور شخصيتوں اور بافضيلت لوگوں كى تربيت كرنے ميں كامياب ہوگئے ،شيخ طوسى نے ان لوگوں كى تعداد جو حضرت سے روايت كرتے تھے ايك سوپچاسي(۱۸۵)لكھى ہے جن كے در ميان بڑے نماياں افراد بھى نظر آتے ہيں منجملہ ان كے :

۱_ حضرت عبدالعظيم حسنى ہيں جن كا سلسلہ چار واسطوں سے امام حسن مجتبيعليه‌السلام سے مل جاتا ہے

۲۶۴

آپ محدثين اور بزرگ علماء ميں شمار ہوتے تھے اور زہد و تقوى ميں بڑا مقام ركھتے تھے _

۲_ حسين ابن سعيد اہوازى ہيں جنہوں نے فقہ و ادب و اخلاق كے موضوع پر تقريباً تيس كتابيں لكھى ہيں ، آپ علمى مقام و منزلت كے حامل ہونے كے علاوہ لوگوں كى ارشاد و ہدايت بھى فرماتے تھے(۴۰)

۳_على ابن جعفر ميناوى جن كو متوكل نے قيد خانہ ميں ڈال ديا تھا _

۴_ مشہور اديب ابن سكيت جو متوكل كے ہاتھوں شہيد ہوئے

۴_ زيارت جامعہ

امام ہادى _كى باقى رہ جانيو الى يادگار ميں سے ايك چيز ''زيارت جامعہ'' ہے ''موسى ابن عبداللہ نخعى '' نامى ايك شيعہ كى درخواست پر آپ نے ان كو يہ زيارت تعليم فرمائي تھى _ ولايت اور معرفت امام كے سلسلہ ميں شيعوں كے حيات بخش معارف ميں سے ايك دريا اس ميں موجز لايئےور مرحوم شيخ صدوق عليہ الرحمةجيسے بزرگ عالم نے ''من لا يحضرہ الفقيہ '' اور عيون اخبار الرضا ميں ، مرحوم شيخ طوسى ''قدس سرہ'' نے تہذيب الاحكام ميں اس زيارت كو نقل كيا ہے اور اب تك اس كى مختلف شرحيں لكھى جاچكى ہيں _

۲_ دوسرا موقف

اس موقف كى وضاحت كے لئے بھى ہم چند موارد كو بطور نمونہ ذكر كريں گے _

۱_ شيعوں كى حمايت اور پشت پناہي

اس سلسلہ ميں امامعليه‌السلام كى كوشش يہ تھى كہ اپنے دوستوں كى معنوى اور اقتصادى مشكلات كى حمايت و مدد كريں ، چنانچہ مختلف علاقوں سے جو پيسے خمس ،زكوة اور خراج كے پہنچا كرتے تھے امامعليه‌السلام ان لوگوں كو دے ديتے تھے تا كہ وہ لوگ اسے عمومى مصالح اور لازمى ضرورتوں ميں صرف كريں _

۲۶۵

اصحاب ميں سے تين افراد كے در ميان نوّے ہزار دينار ديئےانے كا واقعہ ہم گذشتہ صفحات ميں بيان كرچكے ہيں جو اس حقيقت پر واضح دليل ہے _

مذكورہ رقم كا ديا جانا ايسا حيرت انگيز ہے كہ ابن شہر آشوب اس واقعہ كو نقل كرتے كے بعد لكھتے ہيں كہ اتنى بڑى رقم كا خرچ كرنا صرف بادشاہوں كے بس كا كام ہے اور اب تك سنا نہيں گيا كہ كسى نے ايسے بخشش كى ہو_

جو قرآئن اس روايت ميں نظر آتے ہيں وہ اس احتمال كى نفى كرتے ہيں كہ امام نے يہ سارے پيسے اپنے اصحاب كو ذاتى مصارف كے لئے ديئےوں _

رقم كى زيادتى ان ميں سے دو افراد كو بغير در خواست اور بغير كسى ضرورت كے اتنى بڑى رقم ديا جانا _ يہ ہمارے دعوى كے گواہ بن سكتے ہيں _

۲_اصحاب كو حكومت كے شيطانى پھندے ميں پھنسنے سے روكنا اور ان كى ہدايت كرنا _

اپنے بھائي كو متوكل كى بزم شراب سے امامعليه‌السلام كا روكنا امامعليه‌السلام كے اس موقف كا بڑا واضح نمونہ ہے_(۴۱)

۳_اپنے پيرووں سے مسلسل تحريرى رابطہ ركھنا اور ان كو ضرورى ہدايات ديتے رہنا _نمونہ ملاحظہ فرمائيں :

محمد ابن فرج رخجى كو آنے والے ايك خطرہ سے آگاہ كرتے ہوئے تحرير فرماتے ہيں كہ :''يا محمد اجمع امرك و خذ حذرك '' اپنے كاموں كو سميٹ لو اور ہوشيار ہو _ محمد فرماتے ہيں كہ ميں نے امام_كا مطلب نہيں سمجھا يہاں تك كہ خليفہ كے معين كردہ آدمى آگئے اور انہوں نے گرفتار كرنے اور بہت زيادہ مارنے پٹينے كے بعد مجھ كو قيد ميں ڈال ديا اور ميں آٹھ سال تك قيد ميں رہا_(۴۲)

اگر محمد ابن فرج امامعليه‌السلام كا مطلب سمجھ گئے ہوتے تو شايد اس خطرہ سے نكل جاتے _

۲۶۶

شہادت امامعليه‌السلام

تمام پريشانيوں اور محدوديتوں كے با وجود امام _بنى عباس كے ظالموں سے معمولى سمجھوتہ پر بھى راضى نہيں تھے اور يہ بات طبيعى ہے كہ امامعليه‌السلام كى الہى شخصيت ان كى اجتماعى حيثيت اور خلفاء كے ساتھ ان كا منفى رويہ ان لوگوں كے لئے خوف و ہراس پيدا كرنے والا اور ناگوار تھا _ اس وجہ سے آپ كے حق ميں تمام مظالم كرنے يہاں تك كہ زندان ميں ڈال دينے كے بعد بھى خوف و ہراس سے محفوظ نہ تھے ،اور ان كے پاس كوئي راہ چارہ نہ تھى كہ وہ نور خدا كو خاموش كرديں اور آپ كو قتل كرديں _

چنانچہ تيسرى رجب ۲۵۴ھ ق ميں ۴۲سال كى عمر ميں معتز كى خلافت كے زمانہ ميں آپ كو زہر ديا گيا اور سامرا ميں آپ اپنے ہى گھر ميں سپر و لحد كئے گئے_(۴۳)

۲۶۷

سوالات

۱_ امام ہادىعليه‌السلام كس مقام پر كس تاريخ كو پيداہوئے ،آپ كے والداور والدہ كا نام لكھيے ؟

۲_ دسويں امامعليه‌السلام نے كس تاريخ اور كس سن ميں امامت كے عہدہ كى ذمہ دارى سنبھالى آپ كى امامت كى مدت كتنى ہے ؟آپ كے معاصر خلفاء كا نام بتايئے

۳_ دسويں امامعليه‌السلام كى امامت كے زمانہ كى خصوصيت كو مختصر طور پر بيان كيجئے ؟

۴_ متوكل كا امام ہادىعليه‌السلام كے ساتھ كيسا سلوك تھا _ اس نے امامعليه‌السلام كو كس وجہ سے سامرابلوايا؟

۵_ كيا مدينہ ميں امام _كى سياسى اجتماعى فعاليت پر دليليں موجود ہيں ؟

۶_سامرا ميں امام ہادىعليه‌السلام كى فعاليت اور ان كے موقف كو اختصار سے بيان فرمايئے

۷_امامعليه‌السلام كى شہادت كس تاريخ كو اور كيسے ہوئي؟

۸_شہادت كے وقت دسويں امامعليه‌السلام كى كيا عمر تھى ؟

۲۶۸

حوالہ جات

۱. ''صريا '' مدينہ سے تين ميل كے فاصلہ پر ايك قريہ ہے جس كو موسى ابن جعفرعليه‌السلام نے آباد كيا تھا ،مناقب جلد ۴/۳۸۲،بحار جلد ۵۰/۱۱۵''صربا''بھى لكھا گيا ہے _

۲. بحار جلد ۵۰/۱۱۴،۱۱۵،مناقب ج ۴ /۴۰۱،اعلام الورى /۳۵۵،ارشاد /۳۲۷،انوار البھية ۲۴۴_

۳. اصطلاح راويان شيعہ ميں ابوالحسن اول امام ہفتم اور ابوالحسن ثانى امام ہشتم ہيں _

۴.''امى عارفه بحقى و هى من اهل الجنة لا يقربها شيطان ما رد و لا ينالها كيد جبار عنيد و هى مكلوئَة بعين الله التى لا تنام و لا تخلف عن امهات الصديقين و الصالحين '' سفينة البحار ۲/۲۴۰،انوار البہية /۲۴۵_

۵. اثباة الہداة جلد ۶/۲۰۹_

۵. بحار جلد ۵۰/۱۱۸_

۶. الفصول المہمہ/۲۸۳_۲۸۲_

۷. المقنا جلد ۲/۲۱۸ نوشتہ '' دخيل '' منقول از اصول كافى ، تذكرة الخواص /۳۲۲_

۸. نور الابصار /۲۷۷ ، ائمتنا نوشتہ ،''دخيل'' جلد ۲۱۸_

۹. مناقب جلد ۴/۴۰۹_

۱۰. بجار جلد ۵۰/۱۲۹، انوار البہيہ/۲۴۷_

۱۱. بحار جلد ۵۰/۱۷۵، كشف الغمہ جلد ۳/ ۱۶۵ _ ۱۶۴ _ نور الابصار شنبلنجى /۱۸۲_ ۱۸۱ _ الفصول المہمہ /۲۷۹ _ ۲۷۸ ، الصواعق المحرقہ /۲۰۷ _ ۲۰۶، انوار البہيہ / ۲۵۶_۲۵۵_

۱۲. اعلام الورى /۳۶۱_ ۳۶۰_ مناقب جلد ۴/۴۰۷، بحار جلد۵۰/۱۳۷_ انوار البہيہ /۲۴۷_

۱۳. مزيد معلومات كے لئے جبر و تفويض كے مسئلہ ميں امام كا خط اور اسى طرح آ پ كے احتجاجات جو كتاب تحف العقول ميں صفحہ ۲۵۶_۳۳۸ پر موجود ہيں ملاحظہ فرمائيں _

۱۴. اور شايد اس دور ميں بنى عباس كے چھ خليفہ تك ہاتھوں ہاتھ خلافت پہنچنے كى علتوں ميں سے ايك بڑى وجہ يہى مسئلہ تھا_ اور خلافت كے عہدہ پرنسبتاً زيادہ دنوں تك متوكل كے قابض رہنے كى وجہ يہ تھى كہ وہ ايك حد تك قدرت كو اپنے ہاتھوں ميں لئے رہنے اور ان لوگوں كى اسيرى سے اپنے آپكو نجات دينے ميں كامياب ہو گيا_

۲۶۹

۱۵.اليس من العجائب ان مثلى ---يرى ما قل ممتنعاً عليه

و تو خذباسمه الدنيا جميعا ---و ما من ذاك شيئي فى يديه

اليه يحمل الاموال طرًا ---و يمنع بعض ما يجبى اليه

۱۶. '' خليفة فى قفس بين و صيف: و بغاء ، يقول ما قالالہ كما يقول البغائ''_مروج الذہب جلد ۴/۶۱_

۱۷. مقاتل الطالبين / ۳۸۴_ ۳۸۲_

۱۸. مقاتل الطالبين /۴۲۴_۴۲۰ كامل ابن اثير جلد ۷/۱۳۰_۱۲۶_

۱۹. مقاتل الطالبين /۴۰۶ ، كامل ابن اثير جلد ۷/۱۳۰،۲۴۸،۴۰۷_ مروج الذہب ج ۴/۶۸_

۲۰. مقاتل الطابين /۴۰۶، مروج الذہب جلد ۴/۶۹_

۲۱. تاريخ الخلفاء /۲۵۱_۳۵۰_

۲۲. تاريخ الخلفائ/۳۴۷، تاريخ ابوالفداء /جزء دوم /۳۸_

۲۳.بالله ان كانت اميّه قد اتت ---قتل بن بنت نبيّها مظلوما ً

فلقد اتاه بنو ابيه بمثله ---هذا لعمرى قبره مهدوماً

اسفو على ان لا يكونوا شاركوا ---فى قتله فتتّبعوه رميماً

۲۴. الفداء نے اپنى تاريخ ميں ابن سكيب كا بيان اس طرح لكھا ہے كہ '' قنبر تجھ سے اور تيرے دونوں بيٹوں سے زيادہ مجھ كو محبوب ہيں _

۲۵. تاريخ الخلفاء / ۳۴۸، تاريخ ابى الفداء جلد۱/جزء دوم /۴۱(۴۰)

۲۶. المختصر فى اخبار البشر (معروف تاريخ ابى الفدائ) جلد ۱ / جزء دوم /۳۸

۲۷. امام كے سامرا جانے كى تاريخ ميں اختلاف ہے ، مرحوم مفيد نے ارشاد ميں امام كو متوكل كے خط لكھنے كى تاريخ جمادى الآخر ۲۴۳ھ ق( ارشاد /۳۳۳ ) بتائي ہے ليكن جو مناقب جلد ۴/۴۰۱ اور ديگر كتابوں ميں سامرا ميں امام كى قيام كى مدت بيس سال لكھى ہے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ آپ كے سامرا جانے كى تاريخ وہى ۲۳۴ ھ قہے ، اس لئے يہ بات بعيد معلوم ہوتى ہے كہ متوكل امام كى فعاليت سے گيارہ سال غافل رہا ہو اور اس نے كوئي فكر نہ كى ہو _

۲۸. بحار جلد ۵۰/۲۰۱_ ۲۰۰ ، ارشاد مفيد / ۳۳۲ ، تذكرة الخواص / ۳۲۲

۲۷۰

۲۹. آپكا سفر زبردستى كا سفر تھا اس كى دليل خود آپ كا قول ہے آپ نے فرمايا: مجھ كو مدينہ سے زبردستى سامرا لايا گيا بحار ۵۰/۱۲۹

۳۰. چونكہ وہ گھر جہاں امام ہادى _اور ان كے بعد امام حسن عسكرى _ نظر بندكئے گئے تھے عباسى لشكرگاہ كے پاس تھا اور اس محلہ كو محلہ عسكر كہتے تھے اس لئے يہ دونوں امام عسكريين كے نام سے مشہور ہوئے بحار ۵۰/ ۳۶۲_

۳۱. فصول المہمہ /۲۸۱_۲۸۰،ارشاد مفيد /۳۳۴_۳۳۳،تذكرہ الخواص ۳۶۲،انوار البہيّة /۲۵۹،بحار ج۵۰ /۲۰۰_

۳۲. ''ان كان لك فى الحرمين حاجة فاخرج على بن محمد منھا فانّہ قد دعا الناس الى

نفسہ و اتبعہ خلق كثير''بحار جلد ۵۰/۲۰۹،سيرة الائمہ الاثنى عشر جلد ۲/۴۸۵_

۳۳. مروج الذہب جلد ۴/۸۴،بحار جلد ۵۰/۲۱۷،تذكرة الخواص /۳۳۲_

۳۴. تذكرة الخواص /۳۲۳،مروج الذہب جلد ۴/۱۲_۱۰،تو ر الابصار شبلخى /۱۸۲،بحار جلد ۵۰/۲۱۱،امام نے جو اشعار پڑھے ان ميں سے كچھ اشعار ملاحظہ ہوں :

با تو على قلل الاجبال تحرسهم ---غلب الرجال فما اغنتهم القلل

و استنزلوا بعد عزمن معاقلهم ---و اسكنوا حضراً يا بئس ما نزلوا

ناداهم صارخٌ من بعد دفنهم ---اين الاساور و التيجان و العلل

اين الوجوه التى كانت منعمه ---من دونها تضرب الاستار و الكلل

فافصح القبر عنهم حين سائلهم ---تلك الوجوه عليها الدّود تنتقل

قد طال ما اكلوا دهراً و ما شربوا ---فاصبحوا بعد طول الا كل قد اكلوا

انہوں نے پہاڑ كى چوٹيوں كو اپنے رہنے كى جگہ قرار دى اور مسلح افراد ان كى حفاظت كررہے تھے ليكن ان ميں سے كوئي چيز بھى موت كو نہ روك سكى _

انجام كار عزت كى بلند چوٹيوں سے قبر كے گڑھے ميں گر پڑے انہوں نے كتنى برى جگہ كو اپنے رہنے كى جگہ قرار ديا ايسى صورت ميں آواز آئي كہ وہ تاج و زينت و جلال و شكوہ سب كہاں چلے گئے _

كہاں گئے وہ نعمتوں ميں غرق چہرے جو مختلف پردوں كے پيچھے زندگى گذارتے تھے (جہاں بارگاہ تھى پردے اور دربان تھے ) ايسے موقع پر قبر نے آواز دى اور كہا : نازوں كے پروردہ چہروں كو كيڑے مكوڑے

۲۷۱

كھارہے ہيں _

۳۵. واقفى وہ لوگ ہيں جنہوں نے موسى ابن جعفرعليه‌السلام كى امامت پر توقف كيا ان كے بعد آپ كى امامت كو انہوں نے قبول نہيں كيا ، ان كا عقيدہ ہے كہ موسى بن جعفر كا انتقال نہيں ہوا ہے بلكہ وہ نظروں سے پنہاں ہوگئے اور ايك دن ظہور فرمائيں گے _

۳۶. مناقب جلد ۴/۴۰۷، بحار جلد ۵۰/۱۷۲_

۳۷. مناقب جلد ۴/۴۱۵ _۴۱۴_

۳۸. مناقب جلد ۴/۴۰۵ _۴۰۳،بحار جلد ۵۰/۱۷۲_۱۶۴_

۳۹. ابن سكيت ہر چند كہ دل سے شيعہ اور دوستدار اہل بيت تھے ليكن چونكہ وہ متوكل كے بيٹوں كے معلم بھى تھے اور شايد وہ اپنے عقيدہ كو چھپا تے تھے اس وجہ سے انہوں نے يحيى بن اكثم كو اس بات كے لئے آمادہ كيا كہ وہ امام سے سوال كرے _

۴۰. تنقيح المقال جلد ۱/۳۲۹_

۴۱. اس واقعہ كا خلاصہ يہ ہے كہ :جب متوكل امام ہادى پر دسترسى حاصل نہ كر سكا اور آنحضرت كو مجلس لہو لعب اور عيش و عشرت ميں نہ كھينچ سكا تو كچھ لوگوں كى پيشكش پر اس نے آپ كے بھائي موسى كو اپنى محفل ميں دعوت دينے كا ارادہ كيا _ اور يہ دكھا كر كہ ابن رضا اس كے دستر خوان پر بيٹھے ہيں امام ہادىعليه‌السلام كى شخصيت اور حيثيت كو داغدار بنا نا چاہا _ موسى اس كى دعوت پر سامراء پہونچے اور تمام چيزيں پہلے سے فراہم تھيں جو لوگ پہلے سے تيار بيٹھے تھے وہ ان كے استقبال كو پہنچے امامعليه‌السلام بھى ان كے ساتھ وہاں گئے اور پہلى ملاقات ميں انہوں نے اپنے بھائي كو متوكل كے خيانت آميز نقشہ ميں پھنستے ہوئے ديكھ كر ان كو اس كے جلسہ ميں شركت كرنے سے روكا ليكن موسى نے امام كے نصيحتوں كا اثر نہيں ليا امام نے جب يہ محسوس كرليا تو آپ نے نہايت يقينى لہجہ ميں كہا :تم كو متوكل كى بزم ميں شركت كرنے كا موقع ہى نہيں ملے گا _ آخر كار وہى ہوا جسكى پيشين گوئي امامعليه‌السلام نے كى تھى _ ارشاد مفيد /۳۳۲_۳۲۱_مناقب جلد ۴/۴۱۰_۴۱۹بحار ۵۰/۱۵۸_

۴۲. اعلام الورى /۳۵۸،مناقب جلد ۴/۴۱۴،بحار ج ۵۰ /۱۴۰_

۴۳. اعلام الورى /۳۵۵،ارشاد مفيد /۳۳۴،مناقب جلد ۴/۴۰۱،بحار جلد ۵۰/۱۱۴_۱۱۷_

۲۷۲

چودہواں سبق:

امام حسن عسكرىعليه‌السلام كي سوانح عمري

۲۷۳

ولادت

شيعوں كے گيا رہويں امام ۱۰ ربيع الثانى ۲۳۲ ھ ق كو مدينہ ميں پيدا ہوئے(۱) آپ كا نام حسن ، كنيت ابومحمد اور سب سے زيادہ مشہور لقب عسكرى تھا _ آپ كے والد بزرگوار امام ہادى _اور مادر گرامى ''حديث '' تھيں(۲)

امامت كى تعيين

بار ہويں امامعليه‌السلام تك تمام ائمہ كا عام روايتيں تعارف كراتى ہيں ان كے علاوہ امام ہادى _نے ہر طرح كے ابہام كو دور كرنے اور تاكيد كے لئے اپنے فرزند ارجمند امام حسنعليه‌السلام كا تعارف اپنے شيعوں كے درميان امام اور پيشوا كى حيثيت سے كرايا _ ان ميں سے كچھ تصريحات كى طرف يہاں اشارہ كيا جارہا ہے_

۱_ ''ابوہاشم جعفرى '' امام ہادى _سے نقل كرتے ہيں كہ آپ نے فرمايا : ميرے جانشين ميرے بيٹے حسنعليه‌السلام ہيں ، ميرے جانشين كے ساتھ كس طرح رہوگے ؟ميں نے عرض كيا كہ كيسے رہنا چاہيے ،ميں آپ پرنثار ہوجاؤں ؟

آپ نے فرمايا : جب كوئي شخص ان كو نہ ديكھے تو اس كے لئے درست نہيں ہے كہ انكے نام كا ذكر كرے _

ميں نے پوچھا:پھر ان كو ہم لوگ كيسے پكاريں گے ؟آپ نے فرمايا :تم كہنا''الحجة من

۲۷۴

آل محمد'' (۳)

۲_ ''صقر بن دلف '' كہتے ہيں كہ ميں نے امام ہادى _كو فرماتے ہوئے سنا كہ: بيشك ميرے بعد ميرا بيٹا ''حسنعليه‌السلام '' امام ہے اور ان كے بعد ان كے بيٹے ''قائم'' ہوں گے يہ وہ ہيں جو زمين كو ظلم جور سے پر ہونے كے بعد عدل و انصاف سے بھر ديں گے _(۴)

۳_ ''يحيى بن يسار قنبري'' نقل كرتے ہيں كہ امام ہادى _نے اپنى رحلت سے چار مہينہ پہلے اپنے بيٹے امام حسنعليه‌السلام سے وصيت كى اور ان كى امامت و خلافت كى طرف اشارہ فرمايا مجھ كو اور كچھ دوستوں كو اس پر گواہ قرار ديا_(۵)

والد بزرگوار كے ساتھ

امام حسن عسكرىعليه‌السلام نے اپنى عمر كے ۲۲ سال اپنے پدربزرگوار كے دامن تربيت ميں گذارے_ دو سال كى عمر ميں اپنے پدر عاليقدر كے ساتھ سامرا تشريف لے گئے اور بيس سال كى اس تمام مدت ميں آپ امام ہادى _كى خدمت ميں تھے ، خلفاء بنى عباس نے آپ كے كردار اور روابط كى نگرانى كى ، بنى عباس كے حكمرانوں خصوصاً متوكل كى خاندان علىعليه‌السلام اور خاص كر آپ كے والد امام ہادى _كے ساتھ برتے جانے والے مظالم اور كينہ توزى كو امام حسن عسكرىعليه‌السلام نے بہت قريب سے مشاہدہ فرمايا _

امام حسن عسكرىعليه‌السلام اس طويل مدت ميں اپنے والد كے مددگار ان كے موقف كے پشت پناہ رہے _ ليكن'' عسكريين'' عليہما السلام كو خلفاء بنى عباس نے چونكہ حدسے زيادہ محدود كرديا تھا اس لئے ان دونوں بزرگوار وں كى سياسى اورمبارزاتى زندگى كے متعلق ابہام پايا جاتاہے اسى وجہ سے ہم ديكھتے ہيں كہ تاريخ ،امام حسن عسكرىعليه‌السلام كى كوششوں اور ان كے موقف كے بارے ميں خاموش ہے _

۲۷۵

اخلاقى خصوصيات و عظمت

امام حسن عسكرىعليه‌السلام معنوى فضل و كمالات ميں پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور اپنے تمام اسلاف كے مكمل آئينہ دار تھے چنانچہ ہر دوست و دشمن آپ كى اخلاقى عظمت و خصوصيات كا معترف تھا_

حسن ابن محمد اشعرى ، محمد بن يحيى اور كچھ دوسرے لوگوں نے نقل كيا ہے كہ ايك دن احمد ابن عبداللہ خاقان(۶) _ قم كى زمينوں اور خراج كا نگران _ كى نشست ميں علويوں اور ان كے عقائد كا تذكرہ چل رہاتھا _ احمد ابن عبداللہ نے _ جو اہل بيت كے سخت ترين دشمنوں اور ناصبيوں ميں سے تھا _ كہا ''كردار، وقار، عفت، نجابت، فضيلت اور عظمت ميں ،ميں نے اپنے خاندان اور بنى ہاشم ميں حسن بن على _جيسا كسى كو نہيں ديكھا ،ان كا خاندان ان كو سن رسيدہ اورمحترم شخصيتوں پر مقدم ركھتا تھا اور لشكر كے صاحب حيثيت افراد، وزراء اور ديگر افراد كے نزديك بھى ان كا يہى مقام تھا _

اس كے بعد وہ اپنے باپ سے امام حسن عسكرى كى ملاقات كا واقعہ_ جو اس كے باپ كے نزديك آپ كى عظمت و بزرگى كا حاكى ہے _ بيان كرتے ہوئے كہتا ہے :

ميرے باپ نے امام حسن عسكرىعليه‌السلام كے بارے ميں مجھ سے كہا: ''اگر خلافت بنى عباس كے ہاتھ سے نكل جائے تو مقام خلافت كو بچانے كے لئے بنى ہاشم ميں سے ان سے زيادہ كوئي مناسب نہيں ہے اور يہ بات ان كى فضيلت ،عفت،زھد،عبادت اور نيك اخلاق كى بناپر ہے _ اگر تم نے ان كے والد كو ديكھا ہوتا تو تم كو ايك بزرگ اور بافضيلت انسان كى زيارت كا شرف حاصل ہوتا''_(۷)

۲۷۶

امام حسن عسكرىعليه‌السلام كا زھد

''مفوّضہ''(۸) ميں سے كچھ لوگوں نے ''كامل بن ابراہيم مدنى '' كو چند مسائل پوچھنے كے لئے امامعليه‌السلام كى خدمت ميں بھيجا ان كا بيان ہے كہ ''جب ميں آپ كى خدمت ميں پہنچا تو ميں نے ديكھا كہ سفيد اور لطيف لباس آپ كے جسم پرہے ميں نے اپنے دل ميں كہا كہ ولى اور حجت خدا نرم اور لطيف لباس پہنتے ہيں اور ہم كو دوسرے بھائيوں كے ساتھ ہمدردى كا حكم ديتے ہيں اور ايسے لباس پہننے سے روكتے ہيں _

امامعليه‌السلام مسكرائے پھر اپنى آستين چڑھائي ،ميں نے ديكھا كہ كھر درا اور كالالباس (اس لباس كے نيچے )پہنے ہوئے ہيں _ پھر آپ نے فرمايا :''هذا للله و هذالكم'' يہ _ كھر درالباس _ خدا كے لئے اور يہ نرم و سفيد لباس جو ميں نے اس كے اوپر پہن ركھا ہے _ تمہارے لئے ہے _(۹)

عبادت اور بندگي

اپنے والد بزرگوار كى طرح امام حسن عسكرىعليه‌السلام بھى خداكى عبادت اور بندگى كا بہترين نمونہ تھے _

''محمد شاكرى '' نقل كرتے ہيں كہ امامعليه‌السلام كا طريقہ يہ تھا كہ محراب عبادت ميں بيٹھ جاتے اور سجدہ ميں چلتے جاتے ،ميں سوجاتا تھا اور پھر جب بيدار ہوتا تھا تو ديكھتا كہ امام اسى طرح سجدہ كى حالت ميں ہيں _(۱۰)

جب امامعليه‌السلام قيد خانہ ميں تھے اس زمانہ ميں بعض عباسيوں نے ''صالح بن وصيف'' _داروغہ زندان _كو سمجھايا كہ ان كے ساتھ سختى كرو _ اس نے اپنے آدميوں ميں سے دو نہايت شرير افراد كو اس كام كے لئے معين كيا ليكن وہ دونوں حضرت كے ساتھ رہ كر بدل گئے اور عبادت و نماز ميں بلند مقام پر پہنچ گئے _ داروغہ زندان نے ان كو بلايا اور كہا تم پروائے ہو تم اس شخص كے لئے ايسے

۲۷۷

بن گئے ؟

انہوں نے كہا'' ہم اس شخص كے بارے ميں كيا كہيں جو دن كو روزہ ركھتا ہے ، پورى رات عبادت كے لئے كھڑا رہتا ہے كسى سے بات نہيں كرتا ،سوائے عبادت كے اس كا دوسرا كوئي كام نہيں ہے _ جب وہ ہم كو ديكھتا ہے تو ہمارا جسم لرزنے لگتا ہے اور اہم اپنا توازن كھوبيٹھتے ہيں(۱۱)

جودو كرم

''على ابن ابراہيم ابن موسى ابن جعفر'' فرماتے ہيں كہ ايك زمانہ ميں ،ميں تہى دست ہوگيا تھا ميں نے اپنے بيٹے ''محمد'' سے كہا اس شخص كے پاس (امام حسن عسكرىعليه‌السلام ) چلاجائے جو، جود و كرم ميں مشہور ہے _

اور جب ميں امام _كى خدمت ميں پہنچا تو انہوں نے مجھ كو آٹھ سو درہم عطا فرمائے(۱۲)

''ابوہاشم جعفرى '' نقل كرتے ہيں كہ ميں بہت تنگ دستى ميں مبتلا تھا _ميں نے امام حسن عسكرىعليه‌السلام سے مدد طلب كرنے كا ارادہ كيا ليكن مجھے بہت شرم آئي جب ميں گھر لوٹا تو اما معليه‌السلام نے ايك خط كے ساتھ سو دينار ميرے لئے بھجوائے _ خط ميں لكھا تھا _ جب تم كو ضرورت ہو بغيرشرمائے مجھ سے مدد مانگ لينا انشاء اللہ جو مانگو گے ملے گا_(۱۳)

زمانہ امامت

اپنے والد گرامى كے بعد امام حسن عسكرىعليه‌السلام نے ۲۵۴ھ ق ميں منصب امامت كو سنبھالا آپ اپنى امامت كے قليل دور _چھ سال _ ميں خلفائے بنى عباس ميں سے تين خلفاء معتز (ايك سال) مھتدى (ايك سال) اورمعتمد(چارسال) كے ہمعصر رہے _

۲۷۸

امامعليه‌السلام كے بارے ميں خلفاء كى سياست

آپ كے زمانہ كے تينوں خلفاء كى سياست وہى گندى سياست تھى جو پہلے خلفاء كى آپ كے بزرگوں كے ساتھ تھى _ سياست ،مامون كے زمانہ كے بعد اور بھى زيادہ شديد اور تكليف دہ ہو گئي جيسا كہ ديكھتے ہيں كہ تين اماموں يعنى امام جوادعليه‌السلام ۲۵سال ،امام ہادىعليه‌السلام ۴۱سال ، امام حسن عسكرىعليه‌السلام ۲۸ سال، كى مجموعى زندگى ۹۴ سال سے آگے نہيں بڑھتى _

ان اماموں كے ہم عصر خلفاء كا رويہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ وہ ائمہ كى كوششوں اور مبارزات سے بے حد خائف تھے اور انہوں نے انسانى معاشرہ كى ان روشن شعلوں كو اسى وجہ سے محدود كردياتھا اور ان كے اوپر كڑى نظر ركھّے ہوئے تھے _

اس در ميان امام حسن عسكريعليه‌السلام دوسرے دونوں ائمہ كى بہ نسبت زيادہ نظربندى اور نگرانى ميں تھے اس كى وجہ يہ تھى كہ :

۱_ امام حسن عسكريعليه‌السلام كے زمانہ ميں اہل بيت كے پيرو ايك عظيم اور قابل توجہ طاقت كى صورت ميں ابھر كر سامنے آئے تھے ، وہ لوگ مسلسل قيام كرنے اور ''رضا ئے آل محمد'' كا نعرہ لگانے كى بناء پر عوام الناس كے خيالات كو خاندان رسالت كى طرف متوجہ كررہے تھے _ اور خاندان رسالت كى ممتاز شخصيت امام حسن عسكرىعليه‌السلام تھے_

معتز كے زمانہ ميں ، علويوں اور خاندان جعفر طيار و عقيل ميں سے سترسے زيادہ ايسے افراد كو قيد كركے سامرا لايا گيا جنہوں نے حجاز ميں قيام كيا تھا _(۱۴)

۲_ متواتر اخبار و روايات كے ذريعہ ان لوگوں كو معلوم تھا كہ مھدى موعودعليه‌السلام جو تمام باطل اور خود ساختہ حكومتوں كى بنياد كو ختم كرديں گے _ وہ نسل امام حسن عسكريعليه‌السلام سے ہوں گے _

خود امام حسن عسكرىعليه‌السلام كے بارے ميں خليفہ نے قتل كا ارادہ كيا اور ''سعيد حاجب ''كو حكم ديا كہ امامعليه‌السلام كو كوفہ لے جائے اور لوگوں كى نظروں سے دور ،راستہ ميں قتل كردے ليكن امامعليه‌السلام نے اپنے ايك

۲۷۹

ايسے صحابى كے خط كے جواب ميں جو ايسى خبر سن كر تشويش ميں پڑگئے تھے لكھا كہ ''تين دن كے بعد سب كچھ ٹھيك ہو جائے گا(۱۵)

اور تين دن كے بعد در بار عباسى كے تركوں نے _ جنہوں نے معتز كو اپنے لئے نفع بخش نہيں پايا ، حملہ كركے خلافت سے ہٹاكر ايك تہہ خانہ ميں قيد كرديا اوروہ وہيں مرگيا _(۱۶)

معتز كے بعد ۲۵۵ھ ق ميں مھتدى مسند خلافت پر پہنچا اس كى روش _ جيسا كہ تاريخ بيان كرتى ہے _ خلفائے بنى عباس كے در ميان ايسى تھى كہ خلفاء بنى اميہ كے درميان جيسى روش عمربن عبدالعزيز كى تھى _ اس نے لوگوں كى فرياد رسى كے لئے قبة المظالم'' نام كا خيمہ نصب كيا وہ وہاں بيٹھ جاتا تھا اور لوگوں كے مشكلات كو حل كيا كرتا تھا _ اسى طرح اس نے شراب كو حرام قرار ديا اور گانے بجانے سے گريز كيا(۱۷) ليكن يہ ظاہرى اور منافقانہ باتيں تھيں اور اس ميں محض سياسى غرض پوشيدہ تھى امام حسن عسكرىعليه‌السلام كے ساتھ اس كا سخت رويہ اس بات كى بہترين دليل ہے ،امام _كو مدتوں قيد ميں ركھا يہاں تك كہ اس نے آپ كے قتل كا ارادہ كيا ليكن اس كو اجل نے موقع نہيں ديا اور وہ ہلاك ہوگيا_(۱۸)

مھتدى اگر چہ حق و عدالت كى طرفدارى ظاہر كرتا تھا ليكن جو حق وہ چاہتا تھا وہ اسلامى اصولوں پر منطبق نہيں ہوتا تھا اسى وجہ سے اس كى روش عمومى تنفر اور ملامت كا نشانہ قرار پائي _

امامعليه‌السلام اور ان كے پيرو دونوں ہى اسلام كے نگہبان اور سماجى حق و انصاف قائم كرنے والے تھے _

امام كى نظر ميں معاشرہ كى بنيادى مشكل يہ نہيں تھى كہ مھتدى قابض تھا، بلكہ بنيادى مشكل يہ تھى كہ رہبرى اپنى اصلى روش سے منحرف ہوگئي تھى اور لوگ اسلامى تعليم و تربيت و ثقافت سے دور ہوگئے تھے_

جو دربارى اور دربار خلافت سے وابستہ افراد لہو و لعب اور عياشى سے انس پيدا كرچكے تھے ان كے لئے بھى مھتدى كا رويہ بڑا گراں تھا_

۲۸۰