تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 172674
ڈاؤنلوڈ: 4217


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172674 / ڈاؤنلوڈ: 4217
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

ان دونوں باتوں كى وجہ سے اس كى خلافت گيارہ مہينہ سے زيادہ نہ چل سكى اور آخر كار تركوں كى شورش سے وہ قتل كرديا گيا _اور اس كى جگہ ''معتمد''خليفہ بنا(۱۹)

معتمد كا بھى اپنے اسلاف كى طرح سوائے ستمگرى اور عياشى كے اور كوئي كام نہ تھا وہ اپنا زيادہ تر وقت عياشى ميں گذار تا تھا_ يہاں تك كہ اس كا بھائي ''موفق'' رفتہ رفتہ سارے امور پر مسلط ہوگيا _ اور اس نے سارے امور اپنے ہاتھوں ميں لے لئے _(۲۰)

اس كى حكومت كے زمانہ ميں علويوں كا ايك گروہ نہايت بے دردى سے شہيد كرديا گيا اس كى خلافت كے زمانہ ميں جنگ و فساد بہت تھا_ اتنا خون خرابہ كہ مسلمانوں كے جانى نقصان كى تعداد مورخين نے ۱۵ لاكھ افراد لكھى ہے_(۲۱)

معتمد نے امام حسن عسكرىعليه‌السلام كو قيد خانہ ميں ڈال ديا اور داروغہ زندان سے ہميشہ آپعليه‌السلام كے بارے ميں پوچھا كرتاتھا اور وہ ہميشہ يہى رپورٹ ديتا تھا كہ دن ميں روزہ ركھتے ہيں اورراتوں كو نماز و عبادت ميں گذارتے ہيں _(۲۲)

شورشيں اور انقلابات

علويوں اور غير علويوں كى شورشوں اور انقلابات كا سلسلہ امام حسن عسكرىعليه‌السلام كى امامت كے زمانہ ميں بھى جارى تھا ان ميں سے نمونہ كے طور پر كچھ انقلابات كا ذكر كيا جاتا ہے _

۱_''ابراھيم بن محمد علوى ''كى تحريك جو ''ابن صوفي'' كے نام سے مشہور تھے _ انہوں نے ۲۵۶ھ ق ميں مصر ميں قيام كيا اور شہر ''اسنا'' پر قبضہ كرليا _''احمد ابن طولون'' كے سپاہيوں كو شكست ديدى ليكن دوسرى بار اس كے لشكر سے شكست كھا گئے _ اور بہت نقصان اٹھانے كے بعد بھاگ كر رو پوش ہوگئے _ پھر ۲۵۹ھ ق ميں دوبارہ قيام كيا اور لوگوں كو اپنے گرد جمع كيا _نتيجتاً مكہ پہنچنے كے بعد اس شہر كے حاكم كے ذريعہ گرفتار ہوئے اور ابن طولون كے پاس بھيجے گئے _پھر قيد

۲۸۱

كرديئے گئے زندان سے رہائي كے بعد مدينہ لوٹے اور وہيں انتقال كيا _(۲۳)

۲_'' على ابن زيد علوى '' كى تحريك :آپ نے ۲۵۴ھ ق ميں كوفہ ميں قيام كيا اور شہر پر قبضہ كركے حكومت كے نمائندہ كو شہر سے نكال ديا _خليفہ كا لشكر متعدد باران سے لڑا آخر كار ۲۵۷ھ ق ميں آپ قتل كرديئے گئے(۲۴)

۳_''عيسى ابن جعفر علوى '' كى تحريك :انہوں نے ''على ابن زيد'' كے ساتھ كوفہ ميں قيام كيا''معتز''نے ان سے جنگ كے لئے ايك لشكر بھيجا اور ان كو شكست دے دى _مسعودى نے ۲۵۵ھ ق ميں ان كے قيام كا ذكر كيا ہے_(۲۵)

۴_''صاحب زنج'' كى شورش :۲۵۵ھ ق ميں اس نے قيام كيا _ اس كى شورش ميں ہزاروں آدمى مارے گئے _ لوگوں كى عزت و ناموس پر اس كے سپاہيوں نے حملہ كيا _دسيوں شہروں ميں آگ لگادى گئي اس نے اپنے كو ''على ابن محمد''اور علوى بتايا وہ اپنا سلسلہ نسب ''على ابن حسينعليه‌السلام '' تك پہنچا تا تھا جبكہ وہ جھوٹا تھا _بلكہ اس كا سلسلہ نسب''عبد قيس'' تك پہنچتا تھا اور اس كى ماں ''بنى اسد ابن حزيمہ ''سے تھي_(۲۶)

صاحب زنج كا نعرہ غلاموں اور مزدوروں كى حمايت تھااسى وجہ سے اس كو صاحب زنج كہتے تھے _

اس كى شورش پندرہ سال تك چلتى رہى وہ ۲۵۲ھ ق ميں قتل كرديا گيا(۲۷)

۵ _ خوارج كى شورش;۲۵۲ھ ق سے''مساوربن الحميد'' كى رہبرى ميں خوارج كى شورش شروع ہوئي ۲۶۳ھ ق تك اس كے انتقال كے بعد بھى چلتى رہى _مساور نے تھوڑے دنوں ميں عراق كے بہت سے شہروں پر قبضہ كرليااور اس نے خليفہ كو خراج اور ٹيكس بھيجنے سے انكار كرديا اور تمام معركوں ميں اس نے خليفہ كے سپاہيوں پر غلبہ حاصل كيا_(۲۸)

۶_''يعقوب ليث صفارى '' كا قيام: ۲۶۲ھ ق ميں خراسان كے بہت سے لوگوں كے ساتھ انہوں نے قيام كيا اور بہت سى زمينوں پر تسلط حاصل كرليا _(۲۹)

۲۸۲

امام حسن عسكرىعليه‌السلام كى كوششيں اور موقف

حوادث كے مقابلہ ميں امام _كے اقدامات اور ان كى روش كو چار حصوں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے _

الف _ سياسى واقعات كے سلسلہ ميں امام _كا موقف

اپنے پدر بزرگوار كى طرح امام حسن عسكرىعليه‌السلام نے بھى اس سلسلہ ميں بڑا محتاط رويہ اختيار كيا حكومت كے مقابلہ ميں امامعليه‌السلام كے منفى رويہ نے ان كے احترام اور قدر و منزلت كا موقع فراہم كيا_

ايسى منزلت جس كو نزديك ترين درباريوں نے بھى سمجھ ليا تھا _ اس طرح كہ ''عبيداللہ ابن خاقان '' سے امامعليه‌السلام كى ملاقات والے واقعہ سے وہ محض اس بات كى جانب متوجہ ہوگيا تھاكہ ''موفق''_ طلحہ ابن متوكل _ يہ چاہتا ہے كہ ان كے پاس آئے تو اس نے امامعليه‌السلام كو سمجھايا اور عرض كيا كہ آپ جب چاہيں تشريف لے جائيں ،چونكہ وہ جانتا تھا كہ موفق سے امام كى ملاقات ميں اس كے لئے بھى خطرہ ہے اور امامعليه‌السلام كے لئے بھى _(۳۰)

بہت سے اہم واقعات جو آپ كى امامت كے زمانہ ميں دربار خلافت كو پيش آئے اور آپ نے ان ميں سكوت اختيار كيا_ ان ميں سے شورش ''صاحب زنج'' كا نام ليا جا سكتا ہے امامعليه‌السلام كے موقف سے واقفيت كے لئے ضرورى ہے كہ اس واقعہ پر تين پہلووں سے غور كيا جائے _

۱_ صاحب زنج كا دعوى كہ اس كا سلسلہ نسب اميرالمومنين _تك پہنچتاہے_

۲_ اسلامى قدروں اور اس كے قوانين كے خلاف اس كا قيام_

۳_ حكومت بنى عباس كے خلاف اس كا قيام_

پہلى بات كے بارے ميں امام _نے نہايت واضح موقف اپنايا_ آپ نے فرمايا :''صاحب الزنج ليس منّا اهل البيت ''(۳۱) صاحب زنج ہمارے خاندان سے نہيں ہے_

۲۸۳

دوسرے پہلو كے بارے ميں امامعليه‌السلام كا موقف بڑا واضح ہے _ جن جرائم كا ارتكاب صاحب زنج كررہا تھا آپ قطعى طور پر اس سے متنفر تھے _ كيونكہ اس كے سارے كام عدل اسلامى اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى واقعى تعليمات كے خلاف تھے اور يہ بات ہر ايك پر روشن تھى اور اس سلسلہ ميں امامعليه‌السلام كے سكوت كى شايد يہى وجہ تھى كہ سب لوگ جانتے ہى ہيں _

ليكن تيسرى بات كے سلسلہ ميں امامعليه‌السلام نے كوئي خاص موقف اختيار نہيں فرمايااور ايسا راستہ اختيار كيا كہ ان كے اقدام كو حكومت كى ضمنى تائيد نہ شمار كيا جائے _ اگر چہ صاحب زنج كى شورش ميں ضعف اور بہت زيادہ انحراف موجود تھا ليكن سياسى نكتہ نظر سے يہ شورش بنى عباس كى حكومت كو كمزور كرنے اور ان كى طاقت اور نفوذ كو ختم كرنے كے لئے تھى ،اس كے ساتھ ساتھ صاحب زنج سے حكومت وقت كا ٹكراؤ ،امامعليه‌السلام اور ان كے پيرووں كے فائدہ ميں تھا اس لئے كہ خلافت كى مشينرى كا دباؤ كچھ كم ہوگيا تھا

ب:علمى اوروثقافتى تحريك ميں امامعليه‌السلام كا موقف

اگر چہ امامعليه‌السلام نے اپنى زندگى كا زمانہ حكومت كى نظر بندى ميں گذارا ليكن اس كے با وجود علمى اور ثقافتى پہلووں ميں بلند اور بيش قيمت قدم اٹھا نے ميں كامياب رہے كچھ علماء نے اس بارے ميں كہاہے كہ ''آپ سے نقل ہونے والے مختلف علوم و دانش نے كتابوں كے صفحات پر كرديئے(۳۲)

كفر آميز افكار و شبھات كى رد ميں آپ كے استدلالى اور منطقى جوابات ،مناظرے ،علمى بحثيں ، بيانات ،علمى خطوط ،تاليف كتاب(۳۳) اور شاگردوں كى تربيت كے ذريعہ حق كو واضح كرنا ،آپ كى علمى اور ثقافتى كوششوں كى آئينہ دارہے _چونكہ ان تمام موارد كو ذكر كرنا ہمارے (موجودہ)كام كے دائرہ سے خارج ہے اس لئے ہم كچھ موارد كے ذكر پر ہى اكتفا كرتے ہيں _

۱_'' يعقوب ابن اسحاق كندى '' عراق كے مشہور فلسفيوں ميں سے تھا _ اس نے تناقض قرآن

۲۸۴

كے موضوع پر كتاب لكھنے ميں اپنا كافى وقت صرف كيا تھا _امام حسن عسكرىعليه‌السلام اس واقعہ سے مطلع ہوئے اور اس فلسفى كے شاگردوں ميں سے ايك كو ايك جملہ بتا كر اس كو اس كے عقيدہ سے منصرف اور اس بات پر آمادہ كيا كہ جو كچھ اس نے لكھا ہے اس كو اس كے عقيدہ سے منصرف اور اس كتاب كو جلاڈ الے _

آپ نے اس كے شاگرد سے فرمايا كہ اس سے جاكر كہو كہ كيا اس بات كا احتمال نہيں ہے ، كہ تم نے جو كچھ سمجھا ہے ، ان كلمات (قرآن) كے كہنے والے نے اس كے علاوہ كسى اور مطلب كا ارادہ كيا ہو(۳۴)

۲_ ''ابوحمزہ نصير''نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام _ كو بارہا روم،فارس اور دوسرے مختلف نسل و زبان كے اپنے غلاموں سے ان كى زبان ميں باتيں كرتے ديكھا مجھے تعجب ہوا اور ميں نے اپنے دل ميں كہا كہ امامعليه‌السلام تو مدينہ ميں پيدا ہوئے اور دوسرے افراد نيزملتوں سے آپكارابطہ نہيں رہا پھر يہ زبانيں آپ نے كہاں سے سيكھيں ؟

امامعليه‌السلام نے اس بات كى كوشش كى كہ اس طريقہ سے امامت كے حالات كو غلاموں كے لئے واضح كرديں اور ان كو يہ سمجھا ديں كہ امامعليه‌السلام كو بھى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرح اپنى طرف رجوع كرنے والوں كى زبان سے واقف ہونا چاہيے ور نہ وہ امامعليه‌السلام نہيں ہے اور اس استدلال كے ساتھ كہ ''خدا نے اپنى حجت ''امام''كو تمام مخلوقات سے جدا بنايا ہے ،علم و معرفت اور ہر چيز اسے عطا كى ہے اس وجہ سے وہ تمام ناد اور حوادث روزگار كو جانتے ہيں اس كے علاوہ دوسرى صورت ميں حجت خدا اور دوسروں كے در ميان كوئي فرق نہيں رہ جائے گا_(۳۵)

وہ اپنى علمى قدرت كو خدا كى دى ہوئي قدرت جان كراس كو اپنى امامت پر دليل جانتے تھے _

ج_عوامى مركز كى نگرانى ،اس كى پشت و پناہى اور تياري

اپنے پيرووں كے چال چلن اور اعمال كى نگرانى كے ساتھ ساتھ امام _ان كو عباسيوں كے

۲۸۵

دام ميں پھنسنے سے بچاتے اور ضرورى مقامات پر معنو ى و اقتصادى مسائل ميں ان كى مدد فرماتے تھے _نمونہ كے طور پر ملاحظہ ہو_

۱_معتز كے قتل سے بيس دن پہلے امامعليه‌السلام نے اپنے ايك چاہنے والے كو لكھا:''الزم بيتك حتى يحدث الحادث''(۳۶) اپنے گھر كے اندر بيٹھے رہو اور ہرگز باہر نہ نكلنا يہاں تك كہ كوئي حادثہ پيش آئے _

۲_'' محمد ابن على سمري''آپ كے ايك اصحابى اور آپ كے فرزند كے چوتھے نائب تھے آپ نے ان كو لكھا :''فتنةً تظلّكم فكونوا على اهبه'' (۳۷) ايك فتنہ ہے جو تمہارے اوپر سايہ ڈال رہا ہے اس بناپر ضرورى تيارى كئے رہو_

۳_ ''ابوطاہرابن بلبل '' نے سفر حج ميں على ابن جعفر ھمّانى كو ديكھا كہ بہت زيادہ بخشش و عطا كررہے ہيں واپسى پر ايك خط ميں آپ نے امام حسن عسكرىعليه‌السلام كو لكھا،امامعليه‌السلام نے جواب ميں تحرير فرمايا:''ہم نے خود ان كو (اس كام كے لئے )ايك لاكھ دينار ديئے ہيں اور جب ہم نے چاہا كہ ايك لاكھ دينار اور دے ديں تو انہوں نے قبول نہيں كيا''(۳۸)

روايت يہ بيان كرتى ہے كہ ''على ابن جعفر ''كى بخشش و عطا امام كى زير نگرانى تھى اور آپ كو اس كى خبر تھى ،اور عطا كى جانيوالى خطير رقم (ايك لاكھ دينار ) اس بات كى دليل ہے كہ پيسے عمومى مصالح اور شيعوں كى ضرورتوں ميں خرچ ہورہے تھے _

د:آپ كے فرزند حضرت مھدىعليه‌السلام كى غيبت كے بارے ميں آپ كا موقف:

چونكہ امام حسن عسكريعليه‌السلام جانتے تھے كہ خدا كى مشيت ميں ان كے فرزند كى غيبت ہے _اس لئے آپ غيبت كے مسئلہ كو اپنى حيات ہى ميں حل كردينے كى كوشش كررہے تھے _ اور اپنى امامت پر اعتقاد ركھنے والے معتقدين كے عمومى افكار كو ايسے اہم واقعہ كو قبول كرنے كے لئے آمادہ كررہے تھے جس كى مثال ماضى ميں نہيں تھى _

۲۸۶

البتہ وہ متواتر روايتيں جو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومين سے بارہويں امام كى غيبت كے بارے ميں پہنچى تھيں ان روايتوں نے اس اہم امر كو قبول كرنے كے لئے راہ ہموار كردى تھي_ليكن امام حسن عسكريعليه‌السلام كى ''موعود منتظر'' كے باپ ہونے كى حيثيت سے جو سب سے مشكل ذمہ دارى تھى وہ يہ تھى كہ وہ مسلمانوں كو آگاہ كرديں كہ ان روايتوں اور پيشن گوئيوں كے تحقق كا زمانہ آگيا ہے اور ان كے فرزند ارجمند ،ان روايتوں كے مصداق اوروہى ''قائم آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' ہيں _

ايسے افكار كا بيان اور اس كى تبليغ _ عقيدہ كے ايك اہم موضوع كے عنوان سے _لوگوں كے اذہان ميں ، وہ بھى ايسے سنگين حالات ميں بيشك بڑا مشكل اور حساس كام تھا_

اسى وجہ سے امام حسن عسكرىعليه‌السلام نے اپنى تمام كوششوں كو صرف كرديا تا كہ لوگوں كا عقيدہ اور ايمان ڈگمگانے نہ پائے اور عمومى اذہان كو اس بات كے قبول كرنے كے لئے آمادہ كرليں اور اپنے پيرووں كو متوجہ كرديں كہ غيبت پر اعتقاد ركھنا لازمى اور ضرورى ہے _

مذكورہ مقصد كو پورا كرنے كے لئے امام كى فعاليت دوحصوں ميں تقسيم ہوتى ہے _

۱_ اپنے فرزند كو لوگوں كى نظروں سے پوشيدہ ركھنا اور ان كى حفاظت كرنانيز خاص لوگوں كو ان كى نشاندہى كرنا چاہتے تھے اور اس اقدام كے علاوہ آپ نے لوگوں سے رابطہ كو محدود كركے ايك خاص تعداد تك ركھا اور آپ كى روش يہ تھى كہ خط و كتابت يا اپنے معين كئے ہوئے نمائندوں كے توسط سے شيعوں سے رابطہ پيدا كرنا تا كہ وہ اس كے عادى ہوجائيں _

۲_مسئلہ غيبت كا بيان اور اس كى تشريح ''انتظار فرج''كى فكر كومسلمانوں كے ذہنوں ميں بٹھانا،اس موقف كوواضح اور مستحكم كرنے كيلئے مختلف مناسبتوں سے آپ كا بيان اور اعلان ہوتا رہتا تھا_

ان بيانات كے چند پہلو ملاحظہ ہوں :

۱_امام مھدى _كے صفات كے بارے ميں عمومى اور كلى پہلو نيز امام مھدىعليه‌السلام كے ظہور اور قيام كى خصوصيتيں بيان كرناجيسا كہ اپنے اصحاب ميں سے ايك صحابى كے جواب ميں آپ نے

۲۸۷

فرمايا:قائمعليه‌السلام جب قيام كريں گے تو اس وقت حضرت داؤدعليه‌السلام كى طرح بغير بينّہ كے اپنے علم كى بنياد پر لوگوں كے درميان فيصلہ كريں گے _(۳۹) يا وہ قول جس ميں آپ فرماتے ہيں جس زمانہ ميں قيام كريں گے اس زمانہ ميں آپ حكم ديں گے كہ مينارے اور مسجدوں ميں مخصوص جگہيں ويران كردى جائيں _(۴۰)

امامعليه‌السلام ان خصوصيتوں كو بيان كركے اس بدعت كے مقابلہ ميں اپنے منفى رويہ كو بيان كررہے،ہيں _

۲_ اس اہم مسئلہ كو قبول كرنے كيلئے شيعوں كے واسطے عمومى اور خصوصى بيانات منجملہ ان كے وہ خط ہے جو آپ نے ''ابن بابويہ'' قمى كو لكھا ہے _ آپ لكھتے ہيں كہ ميں تم كو بردبارى اور انتظار فرج كا حكم ديتا ہوں _پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا :ہمارى امت كا سب سے بہتر عمل انتظار فرج ہے ہمارے شيعہ ہميشہ غم و الم ميں مبتلا رہيں گے يہاں تك كہ ميرا فرزند ظہور كرے گابيشك رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كے ظہور كى بشارت دى ہے ،وہ زمين كو ايسے ہى عدل و انصاف سے بھر ديں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ہوگى _

اے مرد بزرگوار تم صابر رہو اور ہمارے تمام شيعوں كو صبر و شكيبائي كى دعوت دو_اس لئے كہ زمين خدا كى ملكيت ہے وہ اپنے بندوں ميں سے جس كو چاہے گا اس كا وارث بنائے گا اور عاقبت (نيك انجام)پرہيزگاروں كے لئے ہے(۴۱)

شہادت امام حسن عسكريعليه‌السلام :

خلفاء بنى عباس _ منجملہ ان كے معتمد _ جانتے تھے كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين بارہ افراد ہيں _ ان ميں سے بارہواں غيبت كے بعدظہور كرے گا اور ظلم و جور كى بساط كو الٹ كر ركھدے گا_

اسى وجہ سے معتمد نہايت شدّت سے امام حسن عسكرىعليه‌السلام كى نگرانى كرتا تھا ،اور طبيب يا معالج يا

۲۸۸

خدمتگذار كے عنوان سے اس نے جاسوسوں كو امام حسن عسكرىعليه‌السلام كے گھر ميں ركھ ديا تھا تا كہ وہ امام كى زندگى كو نزديك سے ديكھتے رہيں اور ان كے فرزند كے بارے ميں جستجو كريں _(۴۲)

آخر كار جب معتمد نے ديكھا كہ لوگوں كى توجہ دن بدن امامعليه‌السلام كى طرف بڑھتى جارہى ہے ،نگرانى اور قيدى بنانے كا الٹا اثر ہو رہا ہے تو اس نے آپ كو قتل كردينے كا ارادہ كرليا _اور خفيہ طور پر اس نے زہر دے ديا_امام آٹھ روز كے بعد صاحب فراش ہوگئے اور ۸ ربيع الاول ۲۶۰ھ ق ميں عالم جاودانى كى طرف كوچ كرگئے اور اپنے والد بزرگوار كى قبر كے پاس سامرا ميں سپرد لحد كئے گئے(۴۳) _

۲۸۹

سوالات:

۱_ امام حسن عسكرىعليه‌السلام نے كس تاريخ ميں ولادت پائي اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ اپنى عمر كے كتنے دن گذارے؟

۲ _ امام حسن عسكرىعليه‌السلام كى امامت كا زمانہ كس سن ميں شروع ہوا _ اور كتنے دن تك رہا آپ كتنے خلفا كے معاصر رہے اور ان ميں سے ہر ايك كے ساتھ كتنے سال رہے؟

۳ _ آپ كے زمانہ كے خلفاء كا آپ كے ساتھ كيسا سلوك تھا اور امام حسن عسكرىعليه‌السلام ميں دوسرے ائمہ كى بہ نسبت كيا خصوصيتيں تھيں ؟

۴ _ امام حسن عسكرىعليه‌السلام كے زمانہ ميں خلافت بنى عباس كے خلاف جو انقلاب اور شورشيں برپاہوئيں ان ميں سے چند نمونے بيان كيجئے؟

۵ _ آپ كے فرزند حضرت مہدى (عج) كى غيبت كے بارے ميں آپ كے موقف كى تشريح فرمايئے

۶ _ امام حسن عسكرىعليه‌السلام نے كس تاريخ ميں كس طرح اور كس شخص كے ذريعے شہادت پائي؟

۲۹۰

حوالہ جات

۱ بحار جلد ۵۰/۲۳۶،منقول از مصباح كفعمى و اقبال الاعمال ،آپ كى ولادت كى تاريخ كے بارے ميں دوسرے اقوال بھى ہيں منجملہ ان كے۸ ربيع الآخر ۲۳۲ھ ق(مناقب جلد ۴/۴۲۲اعلام الورى /۳۶۷)ربيع الاول ۲۳۰ھ ق و غيرہ_

۲ بحار جلد ۵۰/۲۳۶''حديثہ''بھى لكھا گيا ہے نيز ''سوسن ''كہا گيا ہے _

۳ ارشاد مفيد /۳۳۸،بحار ۵۰/۲۴۰،منقول از كمال الدين صدوق اور غيبت شيخ،اعلام الورى /۲۰۷،كافى جلد ۱/۳۲۸،كشف الغمہ جلد ۲/۴۰۶_

۴ بحار جلد ۵۰/۲۳۹منقول از كمال الدين صدوق _

۵ بحار جلد ۵۰/۱۴۶،اعلام الورى /۳۷۰ ، كافى جلد۱/۳۲۵،ارشاد /۳۳۵،غيبت شيخ /۱۲۰،كشف الغمہ جلد ۲/۴۰۴،فصول المہمة/۳۸۴،ارشاد و غيبت شيخ راوى كا نام يحيى بن يسار عنبرى لكھا ہے _

۶ احمد كا باپ (عبداللہ ابن خاقان )حكومت بنى عباس كے وزيروں اور نماياں لوگوں ميں سے تھا_

۷ ارشاد مفيد ۳۳۹_۳۳۸،اعلام الورى /۳۷۷_۳۷۶،كافى جلد ۱/۵۰۳ ،كشف الغمہ جلد ۳/۱۹۷،بحار جلد ۵۰/۳۲۷_۳۲۵،كمال الدين صدوق جلد ۱/۴۲_۴۰ مطبوعہ جامعہ مدرسين_

۸ مفوضہ ان لوگوں كو كہتے ہيں جو بندوں كے افعال كے بارے ميں ارادہ الہى كو بے اثر مانتے ہيں ان كے مقابل والے فرقہ كو جبريہ كہتے ہيں

۹ بحار جلد ۵۰/۲۵۳منقول از غيبت شيخ ائمتنا جلد ۲/۲۷۱منقول از اثبات الھداة_

۱۰ سفينة البحار ج ۱/۲۶۰_ائمتنا جلد ۲/۲۶۹_

۱۱ بحار جلد ۵۰/۳۰۸،اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۱،كافى جلد ۱/۵۱۲،اعلام الورى /۳۷۹،كشف الغمہ جلد ۱۲/۴۱۴،مطبوعہ تبريز _مناقب جلد ۴/۴۲۹،ارشاد /۳۴۴_

۱۲ اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۰ كافى جلد ۱/۵۰۶،ارشاد /۳۴۱،بحار جلد ۵۰/۲۷۸،مناقب جلد ۴/۴۳۸_ ۴۳۷، كشف الغمہ جلد ۳/۳۰۰(تين جلدوں والى مطبوعہ بيروت)_

۱۳ اعلام الوري/۳۷۲،مناقب ج ۴/۴۳۹،بحار جلد ۵۰/۲۶۷_

۱۴ مروج الذہب جلد ۴/۹۱

۲۹۱

۱۵ ''بعد ثالث : ياتيكم الفرج''بحار ج ۵۰/۲۵۱بہ نقل ا ز غيبت شيخ ۱۳۴، كشف الغمہ ج ۳/۲۰۶_۲۹۵ فصوال المہمہ/۲۸۵_

۱۶ مروج الذہب ج۴/۹۲_

۱۷ ملاحظہ فرمايئےروج الذہب ج۴/۹۶و كامل ابن اثير ج ۷/۳۳۵_۳۳۳_

۱۸ بحار ج ۵۰/۳۱۳''و كان المهتدى قد صحّح العزم على قتل ابى محمد فشغله لله بنفسه حتى قتل''

۱۹ تاريخ الخلفائ/۳۶۳،مروج الذہب جلد ۴/۹۹_

۲۰ مروج الذہب جلد ۴/۳۶۳_۳۶۵_۳۶۷_

۲۱ مروج الذہب جلد۴/۳۶۴_

۲۲ انوار البھيّہ /۲۸۶_

۲۳ كامل ابن ثير جلد ۷/۲۳۸_۲۶۳_۲۶۴_

۲۴ مروج الذہب جلد۴/۹۴_

۲۵ مروج الذہب جلد ۴/۹۴_

۲۶ كامل ابن اثير جلد ۷/۲۰۶_۲۰۵_

۲۷ مروج الذہب جلد ۴/۱۰۸،كامل بن اثير جلد۷/۲۵۵_۲۰۶_

۲۸ كامل ابن اثير جلد۷/۱۷۴_

۲۹ مروج الذہب جلد۴/۱۱۲_

۳۰ اس وزير كے سلسہ ميں جو تاريخ سے استفادہ ہوتا ہے اور جو كچھ خود اس كى باتوں سے آشكارہوتا ہے وہ امامعليه‌السلام كا احترام كرتا تھا اور آپ كى منزلت اور عظمت كا قائل تھا_شايد اسى وجہ سے امامعليه‌السلام اس كے ديدار كيلئے تشريف لے گئے تھے تا كہ اس كى اس كيفيت كو اور قوى بنا ياجا سكے _

۳۱ مناقب جلد ۴ ص ۴۲۹_

۳۲ ''فقد روى عنه من انواع العلم ما ملا بطون الدفاتر ''اعيان الشيعہ جلد ۱/۴۰

۳۳ اس تفسير كى طرف اشارہ ہے جو تفسير حسن عسكريعليه‌السلام كے نام سے مشہور ہے مرحوم علامہ مجلسى بحار الانوار ميں فرماتے ہيں كہ ''امام حسن عسكريعليه‌السلام كى طرف منسوب تفسير مشہور كتابوں ميں سے ہے اور مرحوم صدوق كے لئے

۲۹۲

مورد وثوق ہے ہر چند كہ كچھ محدثين نے امامعليه‌السلام كى طرف اس كى نسبت سے انكار كيا ہے ليكن صدوق كا قول _ چونكہ وہ امامعليه‌السلام كے زمانہ سے قريب تھے _ اس لئے معتبر ہے _اعيان الشيعہ ج۲/۴۱(دہ جلدى چاپ بيروت)_

۳۴'' هل يجوزان يكون مراده بما تكلم منه غير المعانى التى ظننتها انّك ذهبت اليها'' بحار جلد ۵۰/۳۱۱،مناقب ۴/۴۲۴_

۳۵''ان الله تبارك وتعالى بيّن حجته من سائر خلقه و اعطاه معرفة كل شى فهو يعرف اللغات و الانساب و الا جال و الحوادث و لولا ذلك لم يكن بين الحجة و الحجوج فرق' 'اعلام الورى /۳۵۶،مناقب ج ۴/۴۲۸،كشف الغمہ ج ۳/۲۰۲،ارشاد /۳۴۳،بحار ج ۵۰/۲۶۸

۳۶ كشف الغمہ جلد ۳/۲۰۰،كافى جلد ۱/۵۰۶،بحار جلد ۵۰/۲۷۷،مناقب ج ۴/۴۳۶،ارشاد/۳۴۰_

۳۷ كشف الغمہ ۳/۲۰۷،تاريخ الغيبة الصغرى تاليف محمدصدر /۱۹۹،بحار جلد ۵۰/۲۹۸،اما م كا يہ جملہ بھى معتز كے قتل كى طرف اشارہ ہے _

۳۸''قد كنا امرنا له بماة الف دينار:، ثم امرنا له بمثلها فابى قبوله ابقاء ً علينا'' بحار جلد ۵۰/۲۰_۳۰۶،اعيان الشيعہ جلد ۲/۴۱،ائمتنا جلد ۲/۲۷۳،مناقب ج ۴/۲۲۴_عبارت ميں تھوڑے اختلاف كے ساتھ _

۳۹''اذا قام يقضى بين الناس بعلمه كقضاء داود عليه‌السلام و لا يسئل البينّة'' بحار جلد ۵۰/۲۶۴،مناقب جلد ۴/۴۳۱، كشف الغمہ ج ۳/۲۰۳،ارشاد ۳۴۳_

۴۰ ''اذا قام القائم امر بهدم المنائر و المقاصير التى فى المساجد '' ...بحار جلد ۵۰/۲۵۰،مناقب جلد ۴/۴۳۷،اعلام الورى /۳۵۵،مناقب اور اعلام الورى ميں ''منائر''كى جگہ ''منابر''لكھا ہوا ہے _

۴۱عليك بالصبر و انتظار الفرج ،قال النبى افضل اعمال امتى انتظار الفرج و لا يزال شيعتنا فى حزن حتى يظهر ولدى الذى بشر به النبى يملا الارض قسطاً و عدلاً كما ملئت جوراً و ظلماً ،فاصبر يا شيخى يا ابالحسن ،على و امر جميع شيعتى بالصبر فانّ الارض لله يورثها من يشاء من عباده و العاقبة للمتقين _مناقب ج۴/۴۲۶_بحار ج۵۰/۳۱۸_

۴۲ كمال الدين صدوق ج۱/۴۳_۴۲،مطبوعہ جامعہ مدرسين_

۴۳ مناقب جلد ۲/۴۲۲،بحار جلد ۵۰/۲۳۶_۲۳۷،كشف الغمہ جلد۳/۱۹۲_اعلام الورى /۳۴۹،ارشاد مفيد /۳۴۵،فصول المہمہ /۲۸۹_

۲۹۳

پندرہواں سبق:

امام زمانہ حضرت حجت (عج) كي زندگى كے حالات (پہلا حصہ)

۲۹۴

ولادت

شيعوں كے بار ہويں امام اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے آخرى وصى روز جمعہ صبح صادق كے وقت ۱۵_شعبان ۲۵۵ھ ق يا ۲۵۶ھ ق كو مقام سامّرا ميں پيدا ہوئے _(۱)

ائمہ نے اپنے شيعوں سے ان كے نام كو بيان كرنے سے منع فرمايا اور اتنا فرمايا كہ وہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہم نام ہيں ،ان كى كنيت بھى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى كى كنيت ہے(۲)

آپ كے مشہور ترين القاب مہدى ،قائم،حجت،اور بقية اللہ ہيں _

آپ كے پدر بزرگوار ،گيا رہويں امام حضرت امام حسن عسكرى _اور مادر گرامى ''نرجس''(۳) بنت ''يوشعا'' ہيں جو قيصر روم كے بيٹے اور جناب عيسىعليه‌السلام كے ايك حوارى ''شمعون كى نسل سے تھيں ان عظيم المرتبت خاتون كى عظمت كے لئے اتنا كافى ہے كہ امام حسن عسكرى _كى پھوپھى جناب ''حكيمہ''نے جو خاندان امامت كى ايك بزرگ خاتون تھيں _ انھيں اپنى اور اپنے خاندان كى سردار كا خطاب ديا ہے اور خود كو ان كى خدمت گذار سمجھتى تھيں _(۴)

جب جناب نرجس روم ميں تھيں تو ايك دن انہوں نے خواب ميں ديكھا كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام اور حضرت عيسىعليه‌السلام نے امام حسن عسكرى _سے ان كا عقد كرديا _

آپ خواب كے عالم ميں حضرت فاطمہ زہرا عليہا السلام كى دعوت پر مسلمان ہوئيں ليكن انہوں نے اپنے وابستگان سے اپنا اسلام چھپائے ركھا_

آخر كا ر آپ كو خواب ميں حكم ملاكہ كنيزوں اور قيصر كے خدمت گذاروں كے درميان چھپ كر

۲۹۵

اس لشكر كے ساتھ جو مسلمانوں سے جنگ كے لئے سرحد كى طرف جارہاہے ،چلى جائيں _

آپ نے ايسا ہى كيا اور سرحد پر چند دوسرے افراد كے ساتھ لشكر اسلام كى اسيرى ميں آگئيں اور بغداد لے جائي گئيں _

يہ واقعہ احتمال قوى كى بناپر ۲۴۸ھ ق ميں رونما ہوا جو امام ہادى _كے سامرا ميں قيام كا تير ھواں سال تھا اور امام حسن عسكرى _اسوقت سولہ سال كے تھے _امام ہادىعليه‌السلام كے قاصد نے ايك خط بغداد ميں جناب نرجس كو ديا جو رومى زبان ميں لكھا ہواتھا _اور ان كو بردہ فروشوں سے خريد كر وہ قاصد''سامرا''لايا_

جو كچھ جناب نرجس نے خواب ميں ديكھا تھا امام ہادى _نے اسے بيان كرديا _ اور بشارت دى كہ وہ گيا رہويں امامعليه‌السلام كى بيوى اور ايسے بيٹے كى ماں بنيں گى جو سارى دنيا پر تسلط حاصل كركے زمين كو عدل و انصاف سے پر كردے گا_ اس كے بعد آپ نے جناب نرجس كو اپنى بہن''حكيمہ'' كے حوالے كيا تا كہ وہ ان كو آداب و احكام اسلام سكھا ئيں كچھ دنوں كے بعد جناب ''نرجس''امام حسن عسكرى _كى زوجيت ميں آئيں(۵)

''حكيمہ'' جب بھى امام حسن عسكريعليه‌السلام كى خدمت ميں پہنچتيں دعا فرماتيں كہ خداوند عالم ان كو فرزند عطا فرمائے _ وہ نقل كرتى ہيں كہ ايك روز عادت كے مطابق امامعليه‌السلام كے ديدار كے لئے گئيں ميں نے وہى دعا پھر امامعليه‌السلام كے سامنے دہرائي امامعليه‌السلام نے فرمايا جو بيٹا آپ ميرے لئے خدا سے مانگ رہى ہيں وہ آج كى رات پيدا ہونے والاہے_

ميں نے عرض كيا ميرے سردار وہ بچہ كس سے پيدا ہوگا؟آپ نے فرمايا ''نرجس سے''ميں اٹھى اور ميں نے نرجس كو جستجو كى نگاہ سے ديكھا حمل كى كوئي علامت نہيں ہے _امامعليه‌السلام مسكر ائے اور فرمايا:سپيدہ سحرى كے وقت آپ پر آشكار ہوجائے گا_اس لئے كہ وہ مادر موسىعليه‌السلام كى طرح ہيں جن كا حمل ظاہر نہيں ہواتھا اور ولادت كے وقت تك كسى كو ان كے حمل كى خبر نہ تھى اس لئے كہ فرعون ،موسىعليه‌السلام كى تلاش ميں عورتوں كے شكم كو چاك كرديتا تھا اور يہ بچہ_ جو آج كى رات پيدا ہوگا _حضرت

۲۹۶

موسىعليه‌السلام كى طرح ہے _

جناب حكيمہ نقل فرماتى ہيں كہ ميں سپيدہ سحر تك نرجس كى نگرانى كرتى رہى اور وہ نہايت آرام كے ساتھ ميرے پاس سوئي ہوئي تھيں يہاں تك كہ طلوع فجر كے وقت وہ گبھراكراٹھ بيٹھيں _ميں نے ان كو اپنى آغوش ميں سنبھالا اور ان كے اوپر اسم خدا پڑھ كردم كيا، امامعليه‌السلام نے _دوسرے كمرے سے آواز دى _ ان كے اوپر سورہ انا انزلنا دم كيجئے_

ميں نے سورہ اناانزلنا پڑھنے كے بعد نرجس كى حالت كو ديكھنا شروع كيا _انہوں نے فرمايا جو آپ كے سردار نے خبر دى تھى وہ بات ظاہر ہوگئي ہے_

ميں اسى طرح سورہ قدر پڑھنے ميں مشغول تھى كہ بچہ شكم مادر ميں ميرا ہم آواز ہوگيا اس نے بھى سورہ قدر كى تلاوت كى اور مجھ كو سلام كيا ،ميں ڈرگئي ،امام حسن عسكريعليه‌السلام نے آواز دى :،امر خدا ميں تعجب نہ كريں _خداوند عالم ہم كو بچپن ميں حكمت سے گويائي عطا كرتا ہے _اور بڑے ہونے كے بعد زمين پر حجت قرار ديتا ہے _

ابھى امامعليه‌السلام كى بات ختم بھى نہيں ہوئي تھى كہ يكايك نرجس سامنے سے غائب ہوگئيں جيسے ہمارے اور ان كے درميان پردہ حائل ہوگيا ہو ،ميں آواز ديتى ہوئي امامعليه‌السلام كى طرف گئي _امامعليه‌السلام نے فرمايا :پھوپھى جان آپ وہيں تشريف لے جائيں ان كو اپنى جگہ پر پائيں گي_

ميں وہاں پلٹ آئي ابھى تھوڑى دير بھى نہ گذرى تھى كہ ميرے اور ان كے درميان پردہ ہٹ گيا_اور ميں نے ''نرجس''كو اس طرح نور ميں غرق ديكھا كہ ميرى آنكھوں ميں ان كو ديكھنے كى طاقت نہ تھي_

اسى عالم ميں ،ميں نے ايك بچہ كو ديكھا جو سجدہ كے عالم ميں تھا اور اپنى انگلى اوپر اٹھائے ہوئے كہہ رہا تھا:''اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و انّ جدى محمداً رسول الله و انّ ابى امير المومنين ''اس كے بعد آپ نے ايك ايك امام كى امامت كى گواہى دى اور فرمايا خداياميرے وعدہ كو پورا كر اور ميرے كام كو اتمام كو پہنچا ،ميرے قدم كو ثبات و

۲۹۷

استوارى عطا كر اور ميرے ذريعہ زمين كو عدل و انصاف سے بھر دے(۶)

پوشيدہ ولادت

امام عسكرىعليه‌السلام كے زمانہعليه‌السلام امامت ميں حكام بنى عباس كے درميان بڑى تشويش اور فكر مندى تھى ،تشويش ان كثير اخبارات و احاديث كى بنا پر تھى جو_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ سے _ مروى تھيں _ان ميں يہ ذكر آچكاتھا كہ امام حسن عسكري_ كے ہاں ايك بيٹا پيدا ہوگا جو حكومتوں كى بنيادوں كو پلٹ دينے والا اور تاج و تخت كو الٹ دينے والا ہوگا _ وہ دنيا كو عدل و انصاف سے بھر دے گا _(۷) اس لئے امام حسن عسكريعليه‌السلام سخت پريشانى ميں تھے اور خلافت كى مشينرى يہ كوشش كررہى تھى كہ اس نو مولود كو پيدا ہونے سے روك دے _(۸)

يہى وجہ تھى جو حضرت مہدىعليه‌السلام كے حمل اور ولادت كے زمانہ كو لوگوں سے پوشيدہ ركھا گيا اور خدا نے ان كے حمل كو جناب موسى _كى طرح مخفى ركھا_

ولادت كے بعد سوائے خاص اصحاب اور دوستوں كے كسى نے مھديعليه‌السلام كو نہيں ديكھا اور وہ بھى الگ الگ ايك ساتھ اور عام طور پر نہيں _

خواص كيلئے اعلان

امام حسن عسكرى _كى روش يہ تھى كہ اپنے فرزند كو عام لوگوں كى نظروں سے مخفى ركھنے كہ باوجود مناسب موقع پر قابل اطمينان افراد كو حضرت مھدىعليه‌السلام كے وجود سے آگاہ فرماتے رہتے اور ان كو حضرت مھدىعليه‌السلام كے سامنے حاضر ہونے كا فيض پہنچا تے رہتے تھے ،تا كہ اس طرح وہ ان كى پيدائشے اور وجود كا يقين حاصل كرليں اور مشاہدہ فرماليں نيز ضرورى موقع پر دوسرے شيعوں كو اطلاع ديں تا كہ آپ كے بعد لوگ گمراہى ميں نہ پڑجائيں _

۲۹۸

اس وجہ سے امام مھدىعليه‌السلام كى ولادت سے لے كر امام حسن عسكرى _كى شہادت تك (۵ سے ۶سال كى مدت تك ) گيا رہويں امامعليه‌السلام كے بہت سے قريبى افراد ،شاگرد اور خصوصى اصحاب نے امام مھدىعليه‌السلام كى زيارت كى _

نمونہ كے طور پر چند واقعات كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے :

۱_امام حسن عسكرى _كے قريبى اصحاب اور بزرگ شيعوں ميں سے ايك شخص ''احمدابن اسحاق ''نقل كرتے ہيں كہ ميں امام حسن عسكريعليه‌السلام كى خدمت ميں پہنچااور ميں نے چاہا كہ ان كے جانشين كے بارے ميں ان سے سوال كروں كہ اتفاقاً حضرت نے خود ہى بات شروع كى اور فرمايا:اے احمدبيشك خداوند عالم نے جب سے آدم كو پيدا كيا زمين كو حجت خدا سے خالى نہيں چھوڑا اور كبھى خالى نہيں ركھے گا اور حجت خدا كے واسطے سے اہل زمين سے بلائيں دفع ہوتى ہيں ،بارش ہوتى ہے اور زمين كى بركتيں حاصل ہوتى ہيں _ميں نے عرض كيا :فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كے بعد امام اور جانشين كون ہے ،حضرت گھر كے اندر تشريف لے گئے اور اپنے تين سالہ بچے كو جس كا چہرہ چو دھويں رات كے چاند كى طرح چمك رہاتھا،كاندھے پر بٹھا ئے ہوئے با ہر تشريف لائے اور فرمايا :اے احمد ابن اسحاق اگر خدا اور اس كى حجت ائمہ كے نزديك تم مكّرم نہ ہوتے تو ميں اس بچہ كو تمہيں نہ دكھا تا،بيشك يہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا ہم نام اور ہم كنيت ہے يہ وہ ہے كہ جو ظلم و جور سے بھرى ہوئي زمين كو عدل و انصاف سے پر كردے گا(۹)

۲_''معاويہ ابن حكيم ''محمد ابن ايوب بن نوح اورمحمد ابن عثمان عمرى نے نقل كيا ہے كہ شيعوں ميں ہم چاليس افراد امام حسن عسكرىعليه‌السلام كى خدمت ميں پہنچے آپ نے ہم لوگوں كو اپنے بيٹے كو لاكر دكھا يا اور فرمايا: ميرے بعد يہ تمہارا امام اور ميرا جانشين ہے _ ان كى پيروى كرنا اور (ان كے پاس سے )پراگندہ نہ ہونا و رنہ ہلاك ہوجاؤگے اور تمہارا دين تباہ ہوجائے گا اور يہ بھى جان لوكہ آج كے بعد تم ان كو نہيں ديكھو گے _(۱۰)

۳_''احمد ابن اسحاق قمي''نقل كرتے ہيں كہ جب حضرت مھدىعليه‌السلام پيدا ہوئے تو ميرے جد

۲۹۹

كے پاس ايك خط ہمارے آقا امام حسن عسكرىعليه‌السلام كى طرف سے پہنچا جسے حضرت نے اپنے ہاتھ سے لكھا تھا_

اس ميں لكھا تھا كہ''ہمارے يہاں ايك بيٹاپيدا ہوا ہے _ضرورى ہے كہ تم اس كى ولادت كى خبر كو مخفى ركھوہم اپنے قريبى رشتہ داروں اور دوستوں كو رشتہ دارى اور دوستى كى بنا پر آگاہ كررہے ہيں _ اس كے علاوہ ہم كسى كو اس امر سے آگاہ نہيں كريں گے _ ہم نے اس بات كو پسند كيا كہ اس بچے كى ولادت كى خبر تم كو ديں تا كہ خداوند عالم اس كى وجہ سے تم كو مسرور كرے جيسا كہ اس نے ہم كو مسرور كيا والسلام(۱۱)

حضرت مھدى _كے شمائل اور خصوصيات

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ اكرم سے جو كثرت سے روايتيں نقل ہوئي ہيں ان كى بنياد پر مورخين و محدثين اسلام نے امام عصرعليه‌السلام كے شمائل اور اوصاف اپنى كتابوں ميں بيان كئے ہيں يہاں ان ميں سے كچھ باتوں كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے _(۱۲)

جواں سال ،گندمى رنگ،ہلالى اور كشيدہ ابرو،سياہ اوربڑى بڑى آنكھيں ،چوڑا شانہ ،سفيد براق اور كشادہ دندان مبارك ،ستواں اور خوبصورت ناك ،بلند اورروشن پيشانى _شب زندہ دارى كى بناپر _ سر كے بال دوش پر بكھرے ہوئے _(۱۳) كم گوشت والے گا ذرا ذردى مائل_ داہنے گال پرتل اور شانوں كے درميان علامت نبوت كى سى علامت ہے ...يہ ہے امام زمانہعليه‌السلام كا حليّہ مبارك_

آپ كے خصوصيات ميں سے يہ ہے كہ آپ فرزند پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كى اولاد ميں سے ہيں _نسل امام حسين _سے نويں پيشوا ،خاتم الاوصياء ،آخرى نجات دھندہ اور عالمى قائد ہيں جو سارى دنيا كو ظلم و جور سے پر ہونے كے بعد عدل و انصاف سے بھر ديں گے _

۳۰۰