تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد ۴

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 0%

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 351

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات:

صفحے: 351
مشاہدے: 172665
ڈاؤنلوڈ: 4217


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 351 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172665 / ڈاؤنلوڈ: 4217
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ)

تاريخ اسلام(حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) جلد 4

مؤلف:
اردو

چوتھاسبق :

امام حسن مجتبىعليه‌السلام كي سوانح عمري

۶۱

بچپن كا زمانہ

علىعليه‌السلام اور فاطمہعليه‌السلام كے پہلے بيٹے ۱۵ رمضان ۳ھ ق كو شہر مدينہ ميں پيدا ہوئے(۱) _ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم تہنيت كيلئے جناب فاطمہعليه‌السلام كے گھر تشريف لائے اور خدا كى طرف سے اس بچہ كا نام '' حسن'' ركھا(۲)

امام حسن مجتبىعليه‌السلام سات سال تك پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كے ساتھ رہے(۳) _

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے نواسہ سے بہت پيار كرتے تھے_ كبھى كا ندھے پر سوار كرتے اور فرماتے:

'' خدايا ميں اس كو دوست ركھتا ہوں تو بھى اس كو دوست ركھ''(۴)

اور پھر فرماتے:

'' جس نے حسنعليه‌السلام و حسينعليه‌السلام كو دوست ركھا اس نے مجھ كو دوست ركھا _ اور جو ان سے دشمنى كرتا ہے وہ ميرا دشمن ہے'' _(۵)

امام حسنعليه‌السلام كى عظمت اور بزرگى كے لئے اتنا ہى كافى ہے كہ كم سنى كے باوجود پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بہت سے عہدناموں ميں آپ كو گواہ بنايا تھا_واقدى نے نقل كيا ہے كہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ '' ثقيف'' كے ساتھ ذمّہ والا معاہدہ كيا، خالد بن سعيد نے عہد نامہ لكھا اور امام حسن و امام حسين عليہما السلام اس كے گواہ قرار پائے(۶)

۶۲

والد گرامى كے ساتھ

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اكرم كى رحلت كے تھوڑے ہى دنوں بعد آپ كے سرسے چاہنے والى ماں كا سايہ بھى اٹھ گيا _ اس بناپر اب تسلى و تشفى كا صرف ايك سہارا علىعليه‌السلام كى مہر و محبت سے مملو آغوش تھا امام حسن مجتبىعليه‌السلام نے اپنے باپ كى زندگى ميں ان كا ساتھ ديا اور ان سے ہم آہنگ رہے_ ظالموں پر تنقيد اور مظلوموں كى حمايت فرماتے رہے اور ہميشہ سياسى مسائل كو سلجھانے ميں مصروف رہے_

جس وقت حضرت عثمان نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عظيم الشان صحابى جناب ابوذر كو شہر بدر كر كے رَبَذہ بھيجنے كا حكم ديا تھا، اس وقت يہ بھى حكم ديا تھا كہ كوئي بھى ان كو رخصت كرنے نہ جائے_ اس كے برخلاف حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے دونوں بيٹوں امام حسن اور امام حسين عليہما السلام اور كچھ دوسرے افراد كے ساتھ اس مرد آزاد كو بڑى شان سے رخصت كيا اور ان كو صبر و ثبات قدم كى وصيت فرمائي_(۷)

۳۶ھ ميں اپنے والد بزرگوار كے ساتھ مدينہ سے بصرہ روانہ ہوئے تا كہ جنگ جمل كى آگ جس كو عائشےہ و طلحہ و زبير نے بھڑكايا تھا ، بجھاديں _

بصرہ كے مقام ذى قار ميں داخل ہونے سے پہلے علىعليه‌السلام كے حكم سے عمار ياسر كے ہمراہ كوفہ تشريف لے گئے تا كہ لوگوں كو جمع كريں _ آپ كى كوششوں اور تقريروں كے نتيجہ ميں تقريباً بارہ ہزار افراد امام كى مدد كے لئے آگئے_(۸) آپ نے جنگ كے زمانہ ميں بہت زيادہ تعاون اور فداكارى كا مظاہرہ كيا يہاں تك كہ اما معليه‌السلام كے لشكر كو فتح نصيب ہوئي_(۹)

جنگ صفين ميں بھى آپ نے اپنے پدربزرگوار كے ساتھ ثبات قدم كا مظاہرہ فرمايا_ اس جنگ ميں معاويہ نے عبداللہ ابن عمر كو امام حسن مجتبىعليه‌السلام كے پاس بھيجا اور كہلوايا كہ آپ اپنے باپ كى حمايت سے دست بردار ہوجائيں توميں خلافت آپ كے لئے چھوڑ دونگا _ اس لئے كہ قريش ماضى ميں اپنے آباء و اجداد كے قتل پر آپ كے والد سے ناراض ہيں ليكن آپ كو وہ لوگ قبول كرليں گے _

۶۳

ليكن امام حسنعليه‌السلام نے جواب ميں فرمايا: '' نہيں ، خدا كى قسم ايسا نہيں ہوسكتا''_ پھر اس كے بعد ان سے خطاب كركے فرمايا: گويا ميں تمہارے مقتولين كو آج يا كل ميدان جنگ ميں ديكھوں گا، شيطان نے تم كو دھوكہ ديا ہے اور تمہارے كام كو اس نے اس طرح زينت دى ہے كہ تم نے خود كو سنوارا اور معطّر كيا ہے تا كہ شام كى عورتيں تمہيں ديكھيں اور تم پر فريفتہ ہوجائيں ليكن جلد ہى خدا تجھے موت دے گا _(۱۰)

امام حسن _اس جنگ ميں آخر تك اپنے پدربزرگوار كے ساتھ رہے اور جب بھى موقع ملا دشمن پر حملہ كرتے اور نہايت بہادرى كے ساتھ موت كے منہ ميں كود پڑتے تھے_

آپعليه‌السلام نے ايسى شجاعت كا مظاہرہ فرمايا كہ جب حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے بيٹے كى جان، خطرہ ميں ديكھى تو مضطرب ہوئے اور نہايت درد كے ساتھ آواز دى كہ '' اس نوجوان كو روكو تا كہ ( اسكى موت ) مجھے شكستہ حال نہ بنادے_ ميں ان دونوں _ حسن و حسين عليہما السلام _كى موت سے ڈرتا ہوں كہ ان كى موت سے نسل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا منقطع نہ ہوجائے''(۱۱)

واقعہ حكميت ميں ابوموسى كے ذريعہ حضرت علىعليه‌السلام كے برطرف كرديئےانے كى دردناك خبر عراق كے لوگوں كے درميان پھيل جانے كے بعد فتنہ و فساد كى آگ بھڑك اٹھى _ حضرت علىعليه‌السلام نے ديكھا كہ ايسے افسوسناك موقع پر چاہيے كہ ان كے خاندان كا كوئي ايك شخص تقرير كرے اور ان كو گمراہى سے بچا كر سكون اور ہدايت كى طرف رہنمائي كرے لہذا اپنے بيٹے امام حسنعليه‌السلام سے فرمايا: ميرے لال اٹھو اور ابوموسى و عمروعاص كے بارے ميں كچھ كہو_ امام حسن مجتبىعليه‌السلام نے ايك پرزور تقرير ميں وضاحت كى كہ :

'' ان گوں كو اس لئے منتخب كيا گيا تھا تا كہ كتاب خدا كو اپنى دلى خواہش پر مقدم ركھيں ليكن انہوں نے ہوس كى بناپر قرآن كے خلاف فيصلہ كيا اور ايسے لوگ حَكَم بنائے جانے كے قابل نہيں بلكہ ايسے افراد محكوم ( اور مذمت كے قابل) ہيں _(۱۲)

شہادت سے پہلے حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كى بناء پر حضرت حسنعليه‌السلام كو اپنا جانشين معين

۶۴

فرمايا اور اس امر پر امام حسينعليه‌السلام اور اپنے تمام بيٹوں اور بزرگ شيعوں كو گواہ قرار ديا_(۱۳)

اخلاقى خصوصيات

امام حسنعليه‌السلام ہر جہت سے حسن تھے آپ كے وجود مقدس ميں انسانيت كى اعلى ترين نشانياں جلوہ گر تھيں _ جلال الدين سيوطى اپنى تاريخ كى كتاب ميں لكھتے ہيں كہ '' حسنعليه‌السلام بن علىعليه‌السلام اخلاقى امتيازات اور بے پناہ انسانى فضائل كے حامل تھے ايك بزرگ ، باوقار ، بردبار، متين، سخي، نيز لوگوں كى محبتوں كا مركز تھے_(۱۴)

ان كے درخشاں اور غير معمولى فضائل ميں سے ايك شمہ برابر يہاں پيش كئے جار ہے ہيں :

پرہيزگاري:

آپ خدا كى طرف سے مخصوص توجہ كے حامل تھے اور اس توجہ كے آثار كبھى وضو كے وقت آپ كے چہرہ پر لوگ ديكھتے تھے جب آپ وضو كرتے تو اس وقت آپ كا رنگ متغير ہوجاتا اور آپ كاپنے لگتے تھے_ جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے كہ جو شخص خدا كے سامنے كھڑا ہو اس كے لئے اس كے علاوہ اور كچھ مناسب نہيں ہے _(۱۵)

امام جعفر صادق _نے فرمايا: امام حسنعليه‌السلام اپنے زمانہ كے عابدترين اور زاہدترين شخص تھے_ جب موت اور قيامت كو ياد فرماتے تو روتے ہوئے بے قابو ہوجاتے تھے _(۱۶)

امام حسنعليه‌السلام ، اپنى زندگى ميں ۲۵ بار پيادہ اور كبھى پابرہنہ زيارت خانہ خدا كوتشريف لے گئے تا كہ خدا كى بارگاہ ميں زيادہ سے زيادہ ادب و خشوع پيش كرسكيں اور زيادہ سے زيادہ اجر ملے_(۱۷)

سخاوت:

امامعليه‌السلام كى سخاوت اور عطا كے سلسلہ ميں اتنا ہى بيان كافى ہے كہ آپ نے اپنى زندگى ميں دوبار

۶۵

تمام اموال اور اپنى تمام پونجى خدا كے راستہ ميں ديدى اور تين بار اپنے پاس موجود تمام چيزوں كو دو حصوں ميں تقسيم كيا_ آدھا راہ خدا ميں ديديا اور آدھا اپنے پاس ركھا _(۱۸)

ايك دن آپ نے خانہ خدا ميں ايك شخص كو خدا سے گفتگو كرتے ہوئے سنا وہ كہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم ديدے_ امام _اسى وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص كو دس ہزار درہم بھيج ديئے_(۱۹)

ايك دن آپ كى ايك كنيز نے ايك خوبصورت گلدستہ آپ كو ہديہ كيا تو آپعليه‌السلام نے اس كے بدلے اس كنيز كو آزاد كرديا_ جب لوگوں نے اس كى وجہ پوچھى تو آپ نے فرمايا كہ خدا نے ہمارى ايسى ہى تربيت كى ہے پھر اس كے بعد آپعليه‌السلام نے آيت پڑھي_و اذاحُيّيتم بتحيّة: فحَيّوا باحسن منها (۲۰) '' جب تم كو كوئي ہديہ دے تو اس سے بہتر اس كا جواب دو_''(۲۱)

بردباري;

ايك شخص شام سے آيا ہوا تھا اور معاويہ كے اكسانے پر اس نے امامعليه‌السلام كو برا بھلا كہا امامعليه‌السلام نے سكوت اختيار كيا ، پھر آپ نے اس كو مسكرا كر نہايت شيرين انداز ميں سلام كيا اور كہا:

'' اے ضعيف انسان ميرا خيال ہے كہ تو مسافر ہے اور ميں گمان كرتا ہوں كہ تو اشتباہ ميں پڑگيا ہے _ اگر تم مجھ سے ميرى رضامندى كے طلبگار ہو يا كوئي چيز چاہيے تو ميں تم كو دونگا اور ضرورت كے وقت تمہارى راہنمائي كروں گا _ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو ميں اس قرض كو ادا كروں گا _ اگر تم بھوكے ہو توميں تم كو سير كردونگا اور اگر ، ميرے پاس آؤگے تو زيادہ آرام محسوس كروگے_

وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض كي: '' ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ زمين پر خدا كے خليفہ ہيں _خدا بہتر جانتا ہے كہ و ہ اپنى رسالت كو كہاں قرار دے_ آپ اور آپ كے والد ميرے نزديك مبغوض ترين شخص تھے ليكن اب آپ ميرى نظر ميں سب سے زيادہ محبوب

۶۶

ہيں ''_(۲۲)

مروان بن حكم _ جو آپ كا سخت دشمن تھا_ آپعليه‌السلام كى رحلت كے بعد اس نے آپ كى تشيع جنازہ ميں شركت كى امام حسين _نے پوچھا_ ميرے بھائي كى حيات ميں تم سے جو ہوسكتا تھا وہ تم نے كيا ليكن اب تم ان كى تشييع جنازہ ميں شريك اور رورہے ہو؟ مروان نے جواب ديا'' ميں نے جو كچھ كيا اس شخص كے ساتھ كيا جس كى بردبارى پہاڑ ( كوہ مدينہ كى طرف اشارہ) سے زيادہ تھي_(۲۳)

خلافت

۲۱/ رمضان المبارك ۴۰ ھ ق كى شام كوحضرت علىعليه‌السلام كى شہادت ہوگئي _اس كے بعدلوگ شہر كى جامع مسجد ميں جمع ہوئے حضرت امام حسن مجتبىعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور اپنے پدربزرگوار كى شہادت كے اعلان اور ان كے تھوڑے سے فضائل بيان كرنے كے بعد اپنا تعارف كرايا_ پھر بيٹھ گئے اور عبداللہ بن عباس كھڑے ہوئے اور كہا لوگو يہ امام حسنعليه‌السلام تمہارے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرزند حضرت علىعليه‌السلام كے جانشين اور تمہارے امامعليه‌السلام ہيں ان كى بيعت كرو_

لوگ چھوٹے چھوٹے دستوں ميں آپ كے پاس آتے اور بيعت كرتے رہے_(۲۴) نہايت ہى غير اطمينان نيز مضطرب و پيچيدہ صورت حال ميں كہ جو آپ كو اپنے پدربزرگوار كى زندگى كے آخرى مراحل ميں در پيش تھے آپ نے حكومت كى ذمہ دارى سنبھالي_ آپ نے حكومت كو ايسے لوگوں كے درميان شروع كيا جو مبارزہ اور جہاد كى حكمت عملى اور اس كے اعلى مقاصد پر چنداں ايمان نہيں ركھتے تھے چونكہ ايك طرف آپعليه‌السلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علىعليه‌السلام كى طرف سے اس عہدہ كے لئے منصوب تھے اور دوسرى طرف لوگوں كى بيعت اور ان كى آمادگى نے بظاہر ان پر حجت تمام كردى تھى اس لئے آپ نے زمام حكومت كو ہاتھوں ميں ليا اور تمام گورنروں كو ضرورى احكام

۶۷

صادر فرمائے اور معاويہ كے فتنہ كو سلادينے كى غرض سے لشكر ا ور سپاہ كو جمع كرنا شروع كيا، معاويہ كے جاسوسوں ميں سے دو افراد كى شناخت اور گرفتارى كے بعد قتل كراديا_ آپعليه‌السلام نے ايك خط بھى معاويہ كو لكھا كہ تم جاسوس بھيجتے ہو؟ گويا تم جنگ كرنا چاہتے ہو جنگ بہت نزديك ہے منتظر رہو انشاء اللہ_(۲۵)

معاويہ كى كارشكني

جس بہانہ سے قريش نے حضرت علىعليه‌السلام سے روگردانى كى اور ان كى كم عمرى كو بہانہ بنايا معاويہ نے بھى اسى بہانہ سے امام حسنعليه‌السلام كى بيعت سے انكار كيا_(۲۶) وہ دل ميں تو يہ سمجھ رہے تھے كہ امام حسنعليه‌السلام تمام لوگوں سے زيادہ مناسب ہيں ليكن ان كى رياست طلبى نے ان كو حقيقت كى پيروى سے باز ركھا _

معاويہ نے نہ صرف يہ كہ بيعت سے انكار كيا بلكہ وہ امامعليه‌السلام كو درميان سے ہٹا دينے كى كوشش كرنے لگا كچھ لوگوں كو اس نے خفيہ طور پر اس بات پر معين كيا كہ امامعليه‌السلام كو قتل كرديں _ اس بناپر امام حسنعليه‌السلام لباس كے نيچے زرہ پہنا كرتے تھے اور بغير زرہ كے نماز كے لئے نہيں جاتے تھے، معاويہ كے ان مزدوروں ميں سے ايك شخص نے ايك دن امام حسنعليه‌السلام كى طرف تير پھينكا ليكن پہلے سے كئے گئے انتظام كى بناپر آپ كو كوئي صدمہ نہيں پہونچا_(۲۷)

معاويہ نے اتحاد كے بہانہ اور اختلاف كو روكنے كے حيلہ سے اپنے عمال كو لكھا كہ '' تم لوگ ميرے پاس لشكر لے كر آو'' پھر اس نے اس لشكر كو جمع كيا اور امام حسنعليه‌السلام سے جنگ لڑنے كے لئے عراق كى طرف بھيجا_(۲۸)

امام حسنعليه‌السلام نے بھى حجر بن عدى كندى كوحكم ديا كہ وہ حكام اور لوگوں كو جنگ كے لئے آمادہ كريں _(۲۹)

۶۸

امام حسنعليه‌السلام كے حكم كے بعد كوفہ كى گليوں ميں منادى نے '' الصّلوة الجامعة '' كى آواز بلند كى اور لوگ مسجد ميں جمع ہوگئے امام حسنعليه‌السلام منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ : '' معاويہ تمہارى طرف جنگ كرنے كے لئے آرہا ہے تم بھى نُخَيلہ كے لشكر گاہ كى طرف جاؤ ...'' پورے مجمع پر خاموشى طارى رہى _

حاتم طائي كے بيٹے عدى نے جب ايسے حالات ديكھے تو اٹھ كھڑا ہوا اور اس نے كہا سبحان اللہ يہ كيسا موت كا سناٹا ہے جس نے تمہارى جان لے لى ہے؟ تم امامعليه‌السلام اور اپنے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرزند كا جواب نہيں ديتے خدا كے غضب سے ڈرو كيا تم كو ننگ و عار سے ڈر نہيں لگتا ...؟ پھر امام حسنعليه‌السلام كى طرف متوجہ ہوا اور كہا'' ميں نے آپ كى باتوں كو سنا اور ان كى بجا آورى كے لئے حاضر ہوں _ پھر اس نے مزيد كہا_ اب ميں لشكرگاہ ميں جارہا ہوں ، جو آمادہ ہو وہ ميرے ساتھ آجائے_ قيس بن سعد، معقل بن قيس اور زياد بن صَعصَعہ نے بھى اپنى پرزور تقريروں ميں لوگوں كو جنگ كى ترغيب دلائي پھر سب لشكر گاہ ميں پہنچ گئے_(۳۰)

امام حسنعليه‌السلام كے پيروكاروں كے علاوہ ان كے سپاہيوں كو مندرجہ ذيل چند دستوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے:

۱_ خوارج، جو صرف معاويہ سے دشمنى اور ان سے جنگ كرنے كى خاطر آئے تھے نہ كہ امامعليه‌السلام كى طرف دارى كے لئے_

۲_حريص اور فائدہ كى تلاش ميں رہنے والے افراد جو مادى فائدہ اور جنگى مال غنيمت حاصل كرنے والے تھے_

۳_ شك كرنے اور متزلزل ارادہ كے حامل افراد جن پر ابھى تك امام حسنعليه‌السلام كى حقانيت ثابت نہيں ہوئي تھي، ظاہر ہے كہ طبعى طور پر ايسے افراد ميدان جنگ ميں اپنى جاں نثارى كا ثبوت نہيں دے سكتے تھے_

۴_ وہ لوگ جنہوں نے اپنے قبيلہ كے سرداروں كى پيروى ميں شركت كى تھى ان ميں كوئي

۶۹

دينى جذبہ نہ تھا_(۳۱)

امام حسنعليه‌السلام نے لشكر كے ايك دستہ كو حَكَم كى سردارى ميں شہر انبار بھيجا، ليكن وہ معاويہ سے جاملا اور اس كى طرف چلاگيا_ حَكَم كى خيانت كے بعد امامعليه‌السلام مدائن كے مقام '' ساباط'' تشريف لے گئے اور وہاں سے بارہ ہزار افراد كو عبيداللہ بن عباس كى سپہ سالارى ميں معاويہ سے جنگ كرنے كے لئے روانہ كيا اور قيس بن سعد كو بھى اس كى مدد كے لئے منتخب فرمايا كہ اگر عبيداللہ بن عباس شہيد ہوجائيں تو وہ سپہ سالارى سنبھال ليں _

معاويہ ابتداء ميں اس كو شش ميں تھا كہ قيس كو دھوكہ ديدے_ اس نے دس لاكھ درہم قيس كے پاس بھيجے تا كہ وہ اس سے مل جائے يا كم از كم امام حسنعليه‌السلام سے الگ ہوجائے، قيس نے اس كے پيسوں كو واپس كرديا اور جواب ميں كہا: '' تم دھوكہ سے ميرے دين كو ميرے ہاتھوں سے نہيں چھين سكتے_''(۳۲)

ليكن عبيداللہ بن عباس صرف اس پيسہ كے وعدہ پر دھوكہ ميں آگيا اور راتوں رات اپنے خاص افراد كے ايك گروہ كے ساتھ معاويہ سے جاملا صبح سويرے لشكر بغير سرپرست كے رہ گيا، قيس نے لوگوں كے ساتھ نماز پڑھى اور اس واقعہ كى رپورٹ امام حسنعليه‌السلام كو بھيج دى _(۳۳)

قيس نے بڑى بہادرى سے جنگ كى چونكہ معاويہ نے قيس كو دھوكہ دينے كے راستہ كو مسدود پايا اس لئے اس نے عراق كے سپاہيوں كے حوصلہ كوپست كردينے كے لئے دوسرا راستہ اختيار كيا_ اس نے امام حسنعليه‌السلام كے لشكر ميں ، چاہے وہ مَسكن(۳۴) ميں رہا ہو يا مدائن ميں ، چند جاسوس بھيجے تا كہ وہ جھوٹى افواہيں پھيلائيں اور سپاہيوں كو وحشت ميں مبتلاكريں _

مقام مَسكن ميں يہ پروپيگنڈہ كرديا گيا كہ امام حسنعليه‌السلام نے معاويہ سے صلح كى پيشكش كى ہے اور معاويہ نے بھى قبول كرلى ہے_(۳۵) اور اس كے مقابل مدائن ميں بھى يہ افواہ پھيلادى كہ قيس بن سعد نے معاويہ سے سازباز كرلى اور ان سے جاملا ہے_(۳۶)

ان افواہوں نے امام حسنعليه‌السلام كے سپاہيوں كے حوصلوں كو توڑ ديا اور يہ پروپيگنڈے امامعليه‌السلام كے

۷۰

اس لشكر كے كمزور ہونے كا سبب بنے جو لشكر ہر لحاظ سے طاقت ور اور مضبوط تھا _

معاويہ كى سازشوں اور افواہوں سے خوارج اور وہ لوگ جو صلح كے موافق نہ تھے انہوں نے فتنہ و فساد پھيلانا شروع كرديا_ انھيں لوگوں ميں سے كچھ افراد نہايت غصّہ كے عالم ميں امامعليه‌السلام كے خيمہ پر ٹوٹ پڑے اور اسباب لوٹ كرلے گئے يہاں تك كہ امام حسنعليه‌السلام كے پير كے نيچے جو فرش بچھا ہوا تھا اس كو بھى كھينچ لے گئے _(۳۷)

ان كى جہالت اور نادانى يہاں تك پہنچ گئي كہ بعض لوگ فرزند پيغمبر كو ( معاذ اللہ) كافر كہنے لگے_ اور '' جراح بن سَنان'' تو قتل كے ارادہ سے امامعليه‌السلام كى طرف لپكا اور چلّا كربولا، اے حسنعليه‌السلام تم بھى اپنے باپ كى طرح مشرك ہوگئے ( معاذاللہ) اس كے بعد اس نے حضرت كى ران پروار كيا اور آپعليه‌السلام زخم كى تاب نہ لاكر زمين پر گرپڑے ، امام حسنعليه‌السلام كو لوگ فوراً مدائن كے گور نر '' سعدبن مسعود ثقفي'' كے گھر لے گئے اور وہاں كچھ دنوں تك آپ كا علاج ہوتا رہا_(۳۸)

اس دوران امامعليه‌السلام كو خبر ملى كہ قبائل كے سرداروں ميں سے كچھ نے خفيہ طور پر معاويہ كو لكھا ہے كہ اگر عراق كى طرف آجاؤ توہم تم سے يہ معاہدہ كرتے ہيں كہ حسنعليه‌السلام كو تمہارے حوالے كرديں _

معاويہ نے ان كے خطوط كو امام حسنعليه‌السلام كے پاس بھيج ديا اور صلح كى خواہش ظاہر كى اور يہ عہد كيا كہ جو بھى شرائط آپعليه‌السلام پيش كريں گے وہ مجھے قبول ہيں _(۳۹)

ان دردناك واقعات كے بعد امامعليه‌السلام نے سمجھ ليا كہ معاويہ اور اس كے كارندوں كى چالوں كے سامنے ہمارى تمام كوششيں نقش بر آب كے سوا كچھ نہيں ہيں _ ہمارى فوج كے صاحب نام افراد معاويہ سے مل گئے ہيں لشكر اور جانبازوں نے اپنے اتحاد و اتفاق كا دامن چھوڑديا ہے ممكن ہے كہ معاويہ بہت زيادہ تباہى اورفتنے برپا كردے_

مذكورہ بالا باتوں اور دوسرى وجوہ كے پيش نظر امام حسنعليه‌السلام نے جنگ جارى ركھنے ميں اپنے پيروكاروں اور اسلام كا فائدہ نہيں ديكھا_ اگر امامعليه‌السلام اپنے قريبى افراد كے ہمراہ مقابلہ كيلئے اٹھ كھڑے ہوتے اور قتل كرديئے جاتے تو نہ صرف يہ كہ معاويہ كى سلطنت كے پايوں كو متزلزل

۷۱

كرنے يا لوگوں كے دلوں كو جلب كرنے كے سلسلہ ميں ذرّہ برابر بھى اثر نہ ہوتا، بلكہ معاويہ اسلام كو جڑ سے ختم كردينے اور سچے مسلمانوں كا شيرا زہ منتشر كردينے كے ساتھ ساتھ اپنى مخصوص فريب كارانہ روش كے ساتھ لباس عزا پہن كر انتقام خون امام حسنعليه‌السلام كے لئے نكل پڑتا اور اس طرح فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خون كا داغ اپنے دامن سے دھوڈالتا خاص كر ايسى صورت ميں جب صلح كى پيشكش معاويہ كى طرف سے ہوئي تھى اور وہ امامعليه‌السلام كى طرف سے ہر شرط قبول كرلينے پر تيار نظر آتا تھا_ بنابرايں ( بس اتنا) كافى تھا كہ امامعليه‌السلام نہ قبول كرتے اور معاويہ ان كے خلاف اپنے وسيع پروپيگنڈے كے ذريعہ اپنى صلح كى پيشكش كے بعد ان كے انكار كو خلاف حق بناكر آپعليه‌السلام كى مذمت كرتا_ اور كيا بعيد تھا_ جيسا كہ امامعليه‌السلام نے خود پيشين گوئي كردى تھي_ كہ ان كو اور ان كے بھائي كو گرفتار كرليتا اور اس طريقہ سے فتح مكہ كے موقع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھوں اپنى اور اپنے خاندان كى اسيرى كے واقعہ كا انتقام ليتا_ اس وجہ سے امامعليه‌السلام نے نہايت سخت حالات ميں صلح كى(۴۰) پيشكش قبول كرلي_

معاہدہ صلح

معاہدہ صلح امام حسن _ كا متن، اسلام كے مقدس مقاصد اور اہداف كو بچانے ميں آپ كى كوششوں كا آئينہ دار ہے_ جب كبھى كوئي منصف مزاج اور باريك بين شخص صلح نامہ كى ايك ايك شرط كى تحقيق كرے گا تو بڑى آسانى سے فيصلہ كرسكتا ہے كہ امام حسنعليه‌السلام نے ان خاص حالات ميں اپنى اور اپنے پيروكاروں اور اسلام كے مقدس مقاصد كو بچاليا_

صلح نامہ كے بعض شرائط ملاحظہ ہوں :

۱_ حسنعليه‌السلام زمام حكومت معاويہ كے سپردكر رہے ہيں اس شرط پر كہ معاويہ قرآن وسيرت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شائستہ خلفاء كى روش پر عمل كرے_(۴۱)

۷۲

۲_ بدعت اور علىعليه‌السلام كے لئے ناسزا كلمات ہر حال ميں ممنوع قرار پائيں اور ان كى نيكى كے سوا اور كسى طرح يادنہ كيا جائے _(۴۲)

۳_ كوفہ كے بيت المال ميں پچاس لاكھ درہم موجود ہيں ، وہ امام مجتبىعليه‌السلام كے زير نظر خرچ ہوں(۴۳) گے اور معاويہ '' داراب گرد'' كى آمدنى سے ہر سال دس لاكھ درہم جنگ جمل و صفين كے ان شہداء كے پسماندگان ميں تقسيم كرے گا جو حضرت علىعليه‌السلام كى طرف سے لڑتے ہوئے قتل كرديئے گئے تھے_(۴۴)

۴_ معاويہ اپنے بعد كسى كو خليفہ معين نہ كرے _(۴۵)

۵_ ہر شخص چاہے وہ كسى بھى رنگ و نسل كا ہو اس كو مكمل تحفظ ملے اور كسى كو بھى معاويہ كے خلاف اس كے گذشتہ كاموں كو بناپر سزا نہ دى جائے_(۴۶)

۶_ شيعيان علىعليه‌السلام جہاں كہيں بھى ہوں محفوظ رہيں اور كوئي ان سے معترض نہ ہو _(۴۷)

امامعليه‌السلام نے اور دوسرى شرطوں كے ذريعہ اپنے بھائي امام حسينعليه‌السلام اور اپنے چاہنے والوں كى جان كى حفاظت كى اور اپنے چند اصحاب كے ساتھ جن كى تعداد بہت ہى كم تھى ايك چھوٹا سا اسلامى ليكن با روح معاشرہ تشكيل ديا اور اسلام كو حتمى فنا سے بچاليا_

معاويہ كى پيمان شكني

معاويہ وہ نہيں تھا جو معاہدہ صلح كو ديكھ كر امامعليه‌السلام كے مطلب كو نہ سمجھ سكے_ اسى وجہ سے صلح كى تمام شرطوں پر عمل كرنے كا عہد كرنے كے باوجود صرف جنگ بندى اور مكمل غلبہ كے بعد ان تمام شرطوں كو اس نے اپنے پيروں كے نيچے روند ديا اور مقام نُخَيلہ ميں ايك تقرير ميں صاف صاف كہہ ديا كہ '' ميں نے تم سے اس لئے جنگ نہيں كى كہ تم نماز پڑھو، روزہ ركھو اور حج كے لئے جاؤ بلكہ ميرى جنگ اس لئے تھى كہ ميں تم پر حكومت كروں اور اب ميں حكومت كى كرسى پر پھنچ گيا ہوں اور

۷۳

اعلان كرتا ہوں كہ صلح كے معاہدہ ميں جن شرطوں كو ميں نے ماننے كيلئے كہا تھا ان كو پاؤں كے نيچے ركھتا ہوں اور ان كو پورا نہيں كروں گا_(۴۸)

لہذا اس نے اپنے تمام لشكر كو اميرالمؤمنينعليه‌السلام كى شان ميں ناسزا كلمات كہنے پر برانگيختہ كيا_ اس لئے كہ وہ جانتا تھا كہ انكى حكومت صرف امام كى اہانت اور ان سے انتقامى رويہ كے سايہ ميں استوار ہوسكتى ہے_ جيسا كہ مروان نے اس كو صاف لفظوں ميں كہہ ديا كہ '' على كو دشنام ديئےغير ہمارى حكومت قائم نہيں رہ سكتى ''(۴۹)

دوسرى طرف اميرالمؤمنينعليه‌السلام كے چاہنے والے جہاں كہيں بھى ملتے ان كو مختلف بہانوں سے قتل كرديتا تھا _ اس زمانہ ميں تمام لوگوں سے زيادہ كوفہ كے رہنے والے سختى اور تنگى سے دوچار تھے_ اس لئے كہ معاويہ نے مغيرہ كے مرنے كے بعد كوفہ كى گورنرى كو زياد كے حوالہ كرديا تھا اور زياد شيعوں كو اچھى طرح پہچانتا تھا، وہ ان كو جہاں بھى پاتا بڑى بے رحمى سے قتل كرديتاتھا_(۵۰)

مدينہ كى طرف واپسي

معاويہ ہر طرف سے طرح طرح كى امام _كو تكليفيں پہنچانے لگا_ آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب پر اس كى كڑى نظر تھى ان كو بڑے سخت حالات ميں ركھتا اور عليعليه‌السلام و خاندان علىعليه‌السلام كى توہين كرتا تھا_

يہاں تك كہ كبھى تو امام حسنعليه‌السلام كے سامنے آپ كے پدر بزرگوار كى برائي كرتا اور اگر امامعليه‌السلام اس كا جواب ديتے تو آپعليه‌السلام كو بھى ادب سكھانے كى كوشش كرتا_(۵۱) كوفہ ميں رہنا مشكل ہوگيا تھا اس لئے آپ نے مدينہ لوٹ جانے كا ارادہ كيا_

ليكن مدينہ كى زندگى بھى آپ كے لئے عافيت كا سبب نہيں بنى اس لئے كہ معاويہ كے كارندوں ميں سے ايك پليد ترين شخص مروان مدينہ كا حاكم تھا، مروان وہ ہے جس كے بارے

۷۴

ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا: '' ہو الوزغ بن الوزغ، الملعون بن الملعون''(۵۲) '' اس نے امامعليه‌السلام اور آپ كے اصحاب كا جينا مشكل كرديا تھا يہاں تك كہ امام حسنعليه‌السلام كے گھر تك جانا مشكل ہوگيا تھا، باوجوديكہ امامعليه‌السلام دس برس تك مدينہ ميں رہے ليكن ان كے اصحاب ، فرزند پيغمبر كے چشمہ علم و دانش سے بہت كم فيض ياب ہوسكے_

مروان اور اس كے علاوہ دس سال كى مدت ميں جو بھى مدينہ كا حاكم بنا اس نے امام حسنعليه‌السلام اور ان كے چاہنے والوں كو تكليف و اذيت پہونچانے ميں كوئي كمى نہيں كي_

شہادت

معاويہ جو امامعليه‌السلام كى كمسنى كے بہانہ سے اس بات كے لئے تيار نہيں تھا كہ آپعليه‌السلام كو خلافت دى جائے وہ اب اس فكر ميں تھا كہ اپنے نالائق جوان بيٹے يزيد كو ولى عہدى كے لئے نامزد كرے تا كہ اس كے بعد مسند سلطنت پر وہ متمكن ہوجائے_

اور ظاہر ہے كہ امام حسنعليه‌السلام اس اقدام كے راستہ ميں بہت بڑى ركاوٹ تھے اس لئے كہ اگر معاويہ كے بعد امام حسنعليه‌السلام مجتبى زندہ رہ گئے تو ممكن ہے كہ وہ لوگ جو معاويہ كے بيٹے سے خوش نہيں ہيں وہ امام حسنعليه‌السلام كے گرد جمع ہوجائيں اور اس كے بيٹے كى سلطنت كو خطرہ ميں ڈالديں لہذا يزيد كى ولى عہدى كے مقدمات كو مضبوط بنانے كے لئے اس نے امام حسنعليه‌السلام كو راستہ سے ہٹادينے كا ارادہ كيا_ آخر كار اس نے دسيسہ كارى كا مظاہرہ كرتے ہوئے امام حسنعليه‌السلام كى بيوى '' جعدہ بنت اشعب'' كے ذريعہ آپعليه‌السلام كو زہر ديد يا اور امام معصومعليه‌السلام سينتاليس سال كى عمر ميں ۲۸/ صفر ۵۰ھ ق كو شہيد ہوگئے اور مدينہ كے قبرستان بقيع ميں دفن ہوئے_(۵۳)

۷۵

سوالات

۱_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ امام حسنعليه‌السلام كتنے دن رہے اور اس مدت ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى محبت امام حسنعليه‌السلام سے كس طرح كى تھي؟ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى احاديث ميں سے ايك كازكر فرمايئے

۲_ اپنے پدربزرگوار كے زمانے ميں ، امام حسنعليه‌السلام كا جنگ جمل و صفين ميں كيا عمل رہا؟ مختصراً بيان كيجئے؟

۳_ امامعليه‌السلام كى پرہيزگارى اور سخاوت كے واقعات ميں سے ايك ايك نمونہ بيان فرمايئے

۴_ حكومت كى ذمہ دارى قبول كرنے كے بعد معاويہ كے سلسلہ ميں امامعليه‌السلام كا كيسا موقف رہا؟ مختصراً بيان كيجئے_

۵_ امام كے سپاہيوں ميں كس طرح كے لوگ تھے؟

۶_ صلح كے اسباب و علل كو مختصراً بيان كيجئے_

۷_ صلح كى تين شرائط كو بيان كرتے ہوئے صلح كے نتائج كو امامعليه‌السلام كے نظريہ كے مطابق بيان كيجئے_

۸_ امامعليه‌السلام كس تاريخ كو كيسے اور دشمن كے ذريعہ كن وجوہ كى بناپر شہيد ہوئے؟

۷۶

حوالہ جات

۱ ارشاد مفيد ص ۱۸۷_ تاريخ الخلفاء سيوطى /۱۸۸_

۲ بحار جلد ۴۳/۲۳۸ _

۳ دلائل الامامہ طبرى /۶۰_

۴ تاريخ الخلفاء /۱۸۸ ، تذكرة الخواص /۱۷۷ '' اللہم انى احبّہ فاحبّہ'' _

۵ بحار جلد ۴۳/ ۲۶۴، كشف الغمہ جلد ۱/۵۵۰ مطبوعہ تبريز سنن ترمذى جلد ۵/۷''من احبّ الحسن و الحسين عليه‌السلام فقد احبّنى و من ابفضها فقد ابغضني_''

۶ طبقات كبير جلد ۱ حصہ ۲/۲۳_

۷ حياة الامام حسن جلد ۱ ص ۲۰، مروج الذہب جلد ۲/۳۴۱، تاريخ يعقوبى جلد ۲ ص ۱۷۲_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد ۸/۲۵۲_ ۵۵_

۸ كامل ابن اثير جلد ۳/۲۲۷_ ۲۳۱_

۹ حياة الامام الحسن جلد ۱/۳۹۶_ ۳۹۹_

۱۰ وقعہ صفين /۲۹۷_

۱۱ نہج البلاغہ فيض الاسلام خطبہ ۱۹۸ ص ۱۱۶۶۰ ،املكو عنّى هذا الغلام لا يهدّنى فانّنى انفس بهذين يعنى الحسن و الحسين على الموت لئلا ينقطع بهما نسل رسول الله _

۱۲ الامامہ و السياسة جلد ۱ ص ۱۱۹، حياة الامام الحسن جلد ۱ ص ۴۴۴_

۱۳ اصول كافى جلد ۱/ ص ۲۹۷_

۱۴ تاريخ الخلفاء /۱۸۹_

۱۵ مناقب ابن شہر آشوب جلد ۴/۱۴ '' حقٌ على كل من وقف بين يدى رب العرش ان يصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ''_

۱۶ بحار جلد ۴۳/۳۳۱_

۱۷ بحار جلد ۴۳/۳۳۱، تاريخ الخلفاء /۱۹۰، مناقب ابن شہر آشوب ۴/۱۴_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد ۱۶/۱۰ ، تذكرة الخواص /۱۷۸_

۱۸ تاريخ يعقوبى جلد ۲/۲۱۵، بحار جلد ۴۳/ ۳۳۲، تاريخ الخلفاء /۱۹۰، مناقب جلد ۴/۱۴ _

۷۷

۱۹ كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ۱/۵۵۸_

۲۰ سورہ نساء /۸۶_

۲۱ بحار جلد ۴۳/۳۴۲_

۲۲ بحار جلد ۴۳ /۳۴۴_

۲۳ تاريخ الخلفاء /۱۹۱ ، شرح ابن ابى الحديد جلد ۱۶ / ۱۳ ، ۵۱ واقعہ كے آخرى حصہ ميں تھوڑے فرق كے ساتھ_

۲۴ ارشاد مفيد /۱۸۸ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد ۱۶/۳۰ مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت ۵۰ _ ۵۲_

۲۵ ارشاد مفيد ۱۸۹ ، بحارجلد ۴۴/۴۵ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد ۱۶ / ۳۱ مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت / ۵۳ اما بعدفانك دسَّست الرجال للاحتى ال و الاغتيال و ارصدت العيون كانك تحت اللقاء و ما اشك فى ذالك فتوقعه انشاء الله _

۲۶ امام حسينعليه‌السلام كے مقابل معاويہ كى منطق سے واقفيت كے لئے امام حسنعليه‌السلام كے نام معاويہ كا وہ خط پڑھاجائے جس كو ابن ابى الحديد نے اپنى شرح كى ج ۱۶ / ۳۷ پر درج كيا_

۲۷ بحار جلد ۴۴/۲۳_

۲۸ شرح شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۶/ ۳۷ و ۳۸ مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت /۶۰_

۲۹ ارشاد مفيد /۱۸۹ ،بحار جلد ۴۴ / ۴۶ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ۱۶ / ۳۸ مقاتل الطالبين / ۶۱_

۳۰ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد ۱۶ / ۳۷ _ ۴۰ ،بحار جلد ۴۴ / ۵۰_

۳۱ ارشاد مفيد /۱۸۹ ، بحار ۴۴/ ۴۶_

۳۲ تاريخ يعقوبى ج ۲ / ۲۱۴_

۳۳ ارشاد مفيد ۱۹۰_

۳۴ مسكن منزل كے وزن پرہے _ نہر دجيل كے كنارے پر ايك جگہ ہے جہاں قيس كى سپہ سالارى ميں امام حسنعليه‌السلام كا لشكر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا_

۳۵ تاريخ يعقوبى جلد ۲ / ۲۱۴_

۳۶ تاريخ يعقوبى ج ۲ / ۲۱۴_

۳۷ ارشاد مفيد /۱۹۰ ، تاريخ يعقوبى جلد ۲ / ۲۱۵ ، بحار جلد ۴۴ / ۴۷ ، شرح ابن ابى الحديد جلد ۱۶/ ۴۱ مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت / ۶۳_

۷۸

۳۸ ارشاد مفيد /۱۹۰ ، تاريخ يعقوبى ج ۲ / ۲۱۵ ، بحار جلد ۴۴ / ۴۷ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۱۶/ ۴۱ مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت /۶۳_

۳۹ ارشاد مفيد /۱۹۰ _ ۱۹۱ ، تاريخ يعقوبى جلد ۲ / ۲۱۵_

۴۰ بحار جلد ۴۴/ ۱۷ ، شرح ابن ابى الحديد ۱۶ / ۴۱_ ۴۲، مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت /۱۴_

۴۱ بحار جلد ۴۴/ ۶۵_

۴۲ ارشاد مفيد /۱۹۱ ،مقاتل الطالبين ،حياة الامام الحسن بن على جلد ۲ / ۲۳۷ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ۱۶ / ۴_

۴۳ تاريخ دول الاسلام جلد ۱/ ۵۳ ،حياة الامام الحسن بن على ج ۲ / ۲۳۸، تذكرة الخواص ابن جوزى /۱۸۰ ، تاريخ طبرى ج ۵ / ۱۶۰_

۴۴ جوہرة الكلام ، حياة الامام الحسن بن على جلد ۲/ ۳۳۷_

۴۵ بحارالانوار جلد ۴۴/۶۵_

۴۶ مقاتل الطالبين / ۴۳_

۴۷ ارشاد مفيد حياة الامام الحسن بن على جلد ۲/۲۳۷ شرح ابن ابى الحديد ۱۶/۴_

۴۸ حياة الامام الحسن بن على جلد ۲/۲۳۷ مقاتل الطالبين / ۴۳ ، ذخائر العقبى ميں اتنا مزيد ہے كہ معاويہ نے شروع ميں ان شرائط كو مطلقاً قبول نہيں كيا اور دس آدميوں كو منجملہ قيس بن سعد كے مستثنى كيا اور لكھا كہ ان كو جہاں بھى ديكھوں گاان كى زبان اور ہاتھ كاٹ دوں گاامام حسنعليه‌السلام نے جواب ميں لكھا كہ : ايسى صورت ميں ، ميں تم سے كبھى بھى صلح نہيں كرونگا، معاويہ نے جب يہ ديكھا تو سادہ كاغذ آپ كے پاس بھيجديا اور لكھا كہ آپ جو چاہيں لكھديں ميں اسكو مان لونگا اور اس پر عمل كرونگا_

۴۹ بحار ۴۴/ ۴۹ ،ابن شرح نہج البلاغہ ابى الحديد ج ۱۶/ ۱۴_ ۱۵ ، ۴۶ مقاتل الطالبين مطبوعہ بيروت /۷۰ ارشاد، مفيد ۹۱_

۵۰ الصواعق المحرقہ / ۳۳ (لا يستقيم لنا الامر الا بذالك اى بسبّ علي )_

۵۱ حياة الامام الحسن ابن على جلد ۲/ ۳۵۶_

۵۲ ارشاد مفيد /۱۹۱ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد ۱۶/ ۴۷_

۵۳ حياة الامام الحسن بن على جلد ۱/۲۳۹ ، مستدرك حاكم جلد ۴/ ۴۷۹_

۵۴ دلائل الامامہ طبرى /۶۱ ، كشف الغمہ جلد ۱ ص ۵۱۵ ص ۵۱۶ مطبوعہ تبريز، ارشاد مفيد /۱۹۲ ، مرحوم مفيد عليہ الرحمہ نے شہادت كے وقت آپ كى عمر ۴۸ سال بيان كى ہے_

۷۹

پانچواں سبق :

امام حسينعليه‌السلام كى سوانح عمري (پہلا حصہ )

۸۰