تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد ۲

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) 0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 198

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 198
مشاہدے: 75112
ڈاؤنلوڈ: 4580


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 198 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75112 / ڈاؤنلوڈ: 4580
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع)

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-عهد امير المومنين (ع) جلد 2

مؤلف:
اردو

حسن مجتبىعليه‌السلام نے اپنا كا م بخوبى انجام ديا اور بہت اچھا نتيجہ نكلا كيونكہ كوفے كے بہت زيادہ لوگوں پر امام كى تقرير كا اثر ہوا اور وہ لشكر حضرت علىعليه‌السلام كى طرف چل كر آپ كے لشكر سے مل گئے طبرى نے اس واقعہ كو يوں لكھا ہے كہ ابو ليلى كا بيان ہے حضرت علىعليه‌السلام نے ايك خط كوفے والوں كو لكھا كہ :

بسم الله الرحمن الرحيم

كوفے والو ميں چونكہ خدا و رسول كے بارے ميں تمھارے عقيدے سے واقف ہوں اس لئے تمھيں دوسروں پر ترجيح ديتا ہوں اور ميں نے تمھارى طرف رخ كيا ہے تمھارے شھر كے قريب اچكا ہوں جو بھى ميرى نصرت كريگا ، وہ اپنى دينى ذمہ دارى كو پورا كرے گا ، حق و عدالت كى نصرت كرے گا ''فمن جاء نى و نصرنى فقد اجاب الحق و قضى الدين عليه'' (۲۱)

ابو طفيل كا بيان ہے كہ: حضرت علىعليه‌السلام نے كوفے والوں كو خط لكھنے كے بعد مجھ سے پيش گوئي فرمائي كہ باشندگان كوفہ ميں سے بارہ ھزار اور ايك شخص نے ميرے خط كا مثبت جواب ديا ہے ، وہ ميرى نصرت كيلئے ارہے ہيں _

اسكے بعد ابو طفيل كہتا ہے :

جو لشكر كوفے سے ايا تھا اس كا اچھى طرح شمار كيا گيا ، ان كى تعداد بغير كمى و زيادتى كے وہى تھى كہ جس كى امام نے پيشگوئي فرمائي تھى(۲۲)

ابن عبد ربہ كہتا ہے كہ كوفے كے لوگوں نے حضرت علىعليه‌السلام كى طرف بڑ ھتے ہوئے منزل ذيقار كى فوجى چھائونى ميں اپنے كو پہچا ديا ، امير المومنين نے ان كے سامنے يہ تقرير كي

بسم الله الرحمن الرحيم

بعد حمد و صلاة

اے لوگو جان لو كہ جن دنوں سارے جھان ميں فتنہ و فساد پھيلا ہوا تھا اور خاص طور سے عرب پر فتنہ كى حكمرانى تھى جبكہ انسان جنگ و خونريزى اور اختلاف كے پائوں تلے روندا جارہاتھا ، جبكہ خوف اور اذيت كا چاروں طرف ڈيراتھا، خدائے مہربان نے اپنے پيغمبر محمد مصطفى (ص) كو سارے عالم كى ہدآیت كيلئے مبعوث فرمايا اور ان كے وسيلے

____________________

۲۱_طبرى ج۵ ص ۱۸۴

۲۲_طبرى ج۵ ص ۱۹۹

۶۱

سے فساد و خونريزى كو ختم كيا ، نفاق كو مہربانى سے بدل ديا ، معاشرتى رخنوں اور طبقاتى اختلافات كا ان كے درميان سے خاتمہ كيا ، خوف و خطر سے بھرے راستوں كو امن و امان بخشا ، پرانے كينہ و عناد كو جڑ سے اكھاڑ ديا ، پھر انھيں اس حال ميں اپنى طرف وآپس بلايا كہ اللہ ان كى كوششوں سے راضى تھا اور ان كے كارناموں سے خوشنود تھا ، اپنى بارگاہ ميں وہاں بھى وہ محترم ہيں ، انھيں بہشت ميں بہترين منزلت و مقام عطا كيا _

ليكن افتاب نبوت كے غروب ہوتے ہى تمام مسلمانوں پر حوصلہ شكن مصيبت نازل ہو گئي جو اس قوم ميں اس سے پہلے نازل نہيں ہوئي تھى _

رسو ل خدا (ص) كے بعد ابو بكر نے لوگوں كے اختيارات كى زمام اپنے ہاتھ ميں لى ، انھوں نے اپنى حكومت كے زمانے ميں اپنى حد بھر مسلمانوں كے ساتھ اچھا سلوك برتا اور مسلمان بھى نسبتاً ان سے راضى تھے _

ابو بكر كے بعد عمر كرسى حكومت پر بيٹھے اور انھوں نے ابو بكر كى روش اپنائي ، ان دونوں كے بعد عثمان حكومت و خلافت پر بيٹھے انھوں نے مسلمانوں كے اختيارات پر قبضہ كيا ليكن ايسى راہ و روش اپنائي كہ تمام مسلمان غم و غصہ ميں بھر گئے ، يہاں تك كہ ان كے قتل كا ارادہ كيا اور اخر كا ر انھيں قتل كر ڈالا ، اس وقت تم لوگ ميرى طرف بڑھے اور مجھے بہت زيادہ اصرار كے ساتھ اس خلافت كو قبول كرنے پر امادہ كيا ، ميں نے جتنا بھى اپنے كو بچانا چاہا تم نے ہاتھ پھيلايا ميں نے جتنا ہاتھ كھينچا تم نے اتنا ہى مجھے اپنى طرف كھينچا ،ميں نے بہت كہا كہ مجھے اس عہدے سے معذور ركھو تم نے اتنا ہى زيادہ سختى سے اصرار كيا تمھارا اصرار بڑھتا رہا ، تم نے كہا ہم آپ كے سوا اس عہدے كيلئے كسى كو بھى قبول نہ كريں گے ، ہم كسى دوسرے كے پاس نہيں جائيں گے _

اے لوگو تم ميرى طرف يوں ٹوٹ پڑے جيسے پياسہ اونٹ كسى چشمے كيطرف جاتا ہے اور شوق كے ساتھ والہانہ پن كے انداز ميں اپنا منھ ڈال ديتا ہے تم اسى طرح ميرے گھر پر ہجوم كر كے ائے ايسا معلوم ہوتا تھا كہ جيسے كسى كو قتل كرنا چاہتے ہو ، اخر كار تم نے ہميں اتنا مجبور كيا كہ ميں نے تمھارى پيشكش قبول كر لى اور تم نے ہمارى بيعت كر لى _

۶۲

طلحہ و زبير نے ميرے ہاتھ پر بيعت كا ہاتھ ركھا ليكن دير نہيں گذرى كہ خانہ كعبہ كى زيارت كے بہانے مدينے سے نكل گئے ،ليكن وہ خانہ ء كعبہ كے بجائے بصرہ كى طرف چل پڑے ، وہاں انھوں نے فتنہ پھيلايا اور وہاں كے مسلمانوں كو اذيت ديكر بہت سے لوگوں كو قتل كر ڈالا ، خدا كى قسم وہ لوگ بہتر جانتے ہيں كہ ميں گذشتہ خلفاء سے كمتر نہيں ہوں _

پھر امام نے فرمايا :اگر ميں حقيقت كے چہرے سے پردہ اٹھانا چاہوں تو اس سے بھى زيادہ كہہ سكتا ہوں ، حقائق كو روشن كر سكتا ہوں _

اس كے بعد آپ نے اسمان كى طرف رخ كيا اور فرمايا : خدا يا گواہ رہنا ، انھوں نے ميرے احترام اور رشتہ دارى كى رعآیت نہيں كى ميرى بيعت كا عہد توڑ ديا ، لوگوں كو ميرى عداوت و دشمنى پر ابھارا _

خدايا تو ہى ان كے منصوبوں كو مليا ميٹ كر اور جس قدر جلد ہو انكے برے كرتوتوں كى سزا دے(۲۳)

ذيقار ميں حضرت علىعليه‌السلام كى دوسرى تقرير

منزل ذيقار ميں حضرت علىعليه‌السلام كے قيام كى مدت ختم ہوئي اور آپ نے اپنے لشكر كو وہاں سے اگے بڑھانا چاہا ليكن آپ نے مناسب سمجھا كہ چلنے سے پہلے ايك شعلہ بار تقرير كى جائے _

ابن عبدالبر نے اس تقرير كو اس طرح نقل كيا :

اے لوگو اللہ نے ہر انسان پر جھاد واجب قرار ديا ہے كيونكہ جھاد كے ذريعہ سے دين خدا كى مدد ہوتى ہے ، اس كے بغير دنيا و اخرت كے امور اصلاح پزير نہيں ہوتے ، اے لوگو ، ميں آج چار شخصيتوں كے مقابل كھڑا ہوں جو ايك دوسرے كے معاون بن گئے ہيں _

طلحہ_ بہت پست اور لوگوں ميں سب سے سخى انسان

زبير_ اپنے وقت كا بہادر ترين انسان

عائشه_ مسلمانوں ميں جن كى بات سب سے زيادہ مانى جاتى ہے

يعلى بن اميہ_ يہ بھى بہت بڑا فتنہ پرداز شخص ہے

خدا كى قسم ، ميرے بارے ميں ان لوگوں كا اعتراض صحيح نہيں ہے ، كيونكہ ميں نے كوئي بھى نآپسنديد ہ كام

____________________

۲۳_ عقد الفريد ج۴ ص ۳۱۸

۶۳

انجام نہيں ديا ہے ، نہ مسلمانوں كے مال كيطرف ہاتھ بڑ ھايا ہے ، نہ اپنے خواہش نفس كى پيروى كى ہے اے لوگو ان لوگوں نے مجھ سے اس حق كا مطالبہ كيا ہے جسے انھوں نے خود كھوديا ہے ، جس خون كو انھوں نے بہايا ہے اس كا انتقام مجھ سے لينا چاہتے ہيں ، ہاں خدا كى قسم ، انھيں كے ہاتھ خون عثمان سے رنگين ہيں ، ان كے قتل ميں ميں ذرہ برابر بھى شريك نہيں ہوں ، وہى لوگ ہيں جنھيں رسول (ص) خدا نے باغى گروہ (فئہ باغيہ ) قرار ديا ہے ، انھيں ظالم قرار ديا ہے اور انھيں سر كش قوم ميں شامل كيا ہے _

ہاں ، كون سا ظلم اس سے بڑھ كر ہوگا كہ عثمان كو خود انھوں نے قتل كيا ليكن ان كے خون كا بدلہ بے گناہوں سے لے رہے ہيں اور ان سے كہ جو قتل ميں شريك نہيں تھے

كون سى سر كشى اس سے بڑھ كر ہوگى كہ انھيں ميرى عدالت و لياقت كا اعتراف بھى ہے ، انھوں نے ميرى بيعت كى اور بار بار مجھ سے عہد كيا ليكن اپنا عہد توڑ ديا اور بيعت ختم كر دي

صرف ميرے دل كو يہ سونچكرسكون ملتا ہے كہ ان پر خدا كى حجت تمام ہوگئي اور خدائے دانا ان كى خائن نيتوں سے اگاہ ہے _

خدا كى قسم طلحہ زبير عائشه يہ خود اچھى طرح جانتے ہيں كہ حق ميرے ساتھ ہے اور وہ باطل كى راہ پر ہيں ليكن اس كے باوجود ميں ان لوگوں كو حق و عدالت كى پيروى اور صلح و صفائي كى دعوت دوں گا ، اگر انھوں نے ميرى دعوت قبول كى تو ميں بھى انھيں معاف كر دوں گا ، ان كى لغزش و جرم سے چشم پوشى برتوں گا ، اور اگرپھر بھى وہ سر كشى و تمرد پر امادہ رہے تو ان كا جواب تيز تلوار سے دونگا ، كيو نكہ تلوار ہى حق كى سب سے بڑى مددگار اور باطل كو مليا ميٹ كرنے والى ہے(۲۴)

____________________

۲۴_ استيعاب حالات طلحہ ، عقد الفريد ، تاريخ جنگ جمل اغانى ج ۱۱ ص ۱۱۹

۶۴

لشكر علىعليه‌السلام زاويہ ميں

حضرت علىعليه‌السلام ذيقار سے چل كر بصرہ كے نزديك اس مقام پر پہنچے جسے زاويہ كہا جاتا تھا وہاں آپ نے كچھ دن قيام فرمايا ، اس تيسرى منزل پر بھى حضرت علىعليه‌السلام كى چھائونى ميں كچھ واقعات پيش ائے _

منجملہ يہ كہ حضرت علىعليه‌السلام نے يہاں سے ايك خط اپنے مخالف سرداروں كو لكھا :

سبط ابن جوزى نے اس خط كا مضمون نقل كيا ہے :

بسم الله الرحمن الرحيم

يہ خط ہے امير المومنين كى طرف سے طلحہ ، زبير اور عائشه كى طرف ، تم لوگوں پر سلام

اے طلحہ اے زبير تم خود جانتے ہو كہ مجھے خلافت كى خواہش نہيں تھى ليكن لوگوں نے حد سے زيادہ اصرار كيا اور مجھے اس عظيم ذمہ دارى كو قبول كرنے پر امادہ كيا اور ميں نے يہ سنگين ذمہ دارى يعنى خلافت كو قبول كر ليا ، اور تم دونوں نے بھى اپنى باہيں پھيلائے خوش و خاطر كے ساتھ ميرى بيعت كى ، آج ميں تم پر واضح كر دينا چاہتا ہوں اور اس سلسلہ ميں وضاحت چاہتا ہوں كہ اگر تمھارى بيعت اس دن خوشى كى خاطر سے نہيں تھى تو كيوں آج پيمان شكنى كر رہے ہو ، اپنى بيعت توڑ رہے ہو _

۶۵

اللہ سے ڈرو ، اور بيعت شكنى كے گناہ سے توبہ كرو اگر تم نے خوشى سے ميرى بيعت كى تھى تو اس صورت ميں مجھے تم پر اعتراض كا حق ہے كيونكہ معلوم ہونا چاہيئے كہ تم لوگ منافق ہو اور جس عمل پر تمھارا خود ايمان نہيں تھا اسے انجام ديا ، بظاہر مجھ سے موافقت كى اور باطن ميں ميرى مخالفت كى اے طلحہ اے مہاجرين كى بزرگ فرد اے زبير اے قريش كے بہادر اگر تم نے بيعت سے پہلے ميرى مخالفت كى ہوتى تو يہ تمھارے لئے زيادہ بہتر اور ابرو مندانہ بات ہوتى جو آج ميرى بيعت كر كے پيمان شكنى كے مرتكب ہو رہے ہو _

اے عائشه تو نے بھى حكم خدا كو پائوں سے روند ڈالا اپنے شوہر رسول خدا كے ارشاد اور حكم كو نظر انداز كيا كہ حكم خدا و رسول كے خلاف اپنے گھر سے باہر نكلى _

تو ايسا كام كرنا چاہتى ہے جس كا تجھ سے كوئي تعلق نہيں اس كے باوجود تو سمجھتى ہے كہ اس طرح مسلمانوں ميں صلح و صفائي پيدا ہوگى ، واہ ، تو بھى كسقدر دھوكے ميں ہے اور حقيقت سے بہت دور نكل گئي ہے _

اے عائشه مجھے بتا ، عورتوں كو فوجى كاروائي سے كيا سرو كار ؟ كہاں عورت اور كہاں مردوں كے ساتھ جنگ كيلئے نكلنا ؟ اے عائشه حقيقت يہ ہے كہ تو مسلمانوں كے درميان فتنہ و فساد برپا كر نا چاہتى ہے اور بے گناہ مسلمانوں كا خون بہانا چاہتى ہے _

اے عائشه تو اپنے خيال ميں عثمان كا انتقام لينے كيلئے ائي ہے ، تجھے خون عثمان سے كيا سروكار تيرے لئے انتقام عثمان كا نعرہ زيبا نہيں كيونكہ وہ بنى اميہ كى فرد تھے اور تو خاندان تيم كى ہے ، كيا تو ہى نہيں تھى كہ كل ان كے قتل كا حكم ديا تھا ؟اور تو نے كہا تھا كہ اس احمق اور يہودى صفت شخص كو قتل كر ڈالو ، اسے قتل كردو يہ اسلام سے پھر گيا ہے ، آج تو كس منھ سے اس كے انتقام اور طرفدارى كيلئے كھڑى ہو گئي ہو_

۶۶

اے عائشه ، خدا كا خوف كر اور اپنے گھر وآپس جا ،اپنى غفلت كا پردہ چاك مت كر ، فاتقى اللہ و ارجعى الى بيتك و اسبلى عليك والسلام

يہ تھا اس مضمون خط كا خلاصہ جسے امير المومنين نے بصرہ كے نزديك منزل زاويہ سے عائشه كے سرداران لشكر طلحہ و زبير اور عائشه كو لكھا يہ ،معقول اور جھنجھوڑ دينے والا خط ان لوگوں نے پڑھا ليكن ان لوگوں پر اس كا كوئي اثر نہيں ہوا اور نہ ان لوگوں نے جواب ديا _

بعض مورخوں نے لكھا ہے كہ عائشه نے اس خط كا يہ جواب ديا _

اے ابو طالب كے فرزند ہمارا اقدام عتاب و ملامت سے گذر چكا ہے اور اب ہم ہرگز تمھارا حكم نہيں مان سكتے تم سے جو بن پڑے كر ڈالو اور جو كچھ تمھارے قبضے ميں ہو ہمارے لئے اٹھا نہ ركھو(۱)

تاريخ اعثم كوفى ميں ہے كہ طلحہ و زبير نے حضرت على كا تحريرى جواب نہيں ديا ليكن زبانى پيغام بھيجا كہ

اے على تم نے بہت سخت و سنگين راہ اختيار كى ہے اس راستے پر چلنا اپنے لئے لازمى سمجھ رہے ہو ، اب ہمارے لئے بھى سوائے اس كے كوئي راستہ نہيں كہ تمھارا حكم مانيں اور تم اس كے سوا كسى بات پر راضى نہيں ہو گے ہم بھى تمھارا حكم نہيں مان سكتے _

اے على تم اپنے راستے پر چلو اور ہمارے بارے ميں جو كچھ تم سے بن پڑے كر ڈالو

بہر صورت امير المومنين نے پند و نصيحت پر مشتمل يہ خط صلح و صفائي كيلئے عائشه كے سرداران لشكر كو لكھا تھا ، جو بے نتيجہ رہا ان لوگوں نے صلح و صفائي كى بات نہ سنى ، يہى وجہ تھى كہ آپ نے وہاں سے اپنے لشكر كے ساتھ بصرہ كيطرف كوچ كيا اور شھر بصرہ ميں داخل ہوگئے _

____________________

۱_ الامامة والسياسة ج۱ ص۵۵ _ ۶۲ ، جمھرة رسائل العرب ج۱ ص ۳۷۹ ، ترجمہ تعليق اعثمى ص ۱۷۴

۶۷

قارئين كرام !

يہاں تك جو كچھ پيش كيا گيا اس سے دونوں مخالف فوجوں كى تيارى اور بصرہ ميں پہنچنے تك كے حالات كو كتب تاريخ اور معتبر ماخذ سے نقل كيا گيا ، اب بات كو يہيں پر ختم كرتے ہيں اور حادثہ جنگ جمل كو شروع سے بيان كرتے ہيں ،اس سلسلہ ميں مشھور تاريخ نگار ابو مخنف كا بيان نقل كرتے ہيں جس كو عراق كے حالات و اخبار كى بہت اچھى اطلاع تھى اور اسے ماہر عراقيات كہنا زيادہ بہتر ہو گا _

گورنر بصرہ كو طلحہ و زبير كا خط

مشہور مورخ ابو مخنف(۲) اپنى مشہور كتاب تاريخ جنگ جمل ميں لكھتا ہے :

طلحہ زبير اور عائشه بہت تيزى كے ساتھ بصرہ ميں پہونچ گئے اور مقام حفر ابو موسى پر وارد ہوئے جو بصرہ سے قريب تھا ، وہاں سے انھوں نے گورنر بصرہ عثمان ابن حنيف كو اس موضوع كا خط لكھا :

اے عثمان ہمارا ارادہ ہے كہ بصرہ ميں داخل ہو ن ميرے انے سے بيشتر تم دارالامارہ كو خالى كر دو اور ہمارے لئے تيارى كرو ، اور تمھيں شہر كے اختيار ات بھى ہمارے حوالے كر دينا چاہيئے اور اپنے كو گورنرى كے عہدے سے علحدہ كر لو (ان داخل لنا دار الاماره )

عثمان نے خط كے مضمون سے اخنف ابن قيس كو باخبر كيا جو شيوخ بصرہ ميں شمار كئے جاتے تھے اور عقل و دانائي ميں مشھور ،تيز طرار تھے ، يہ خط ديكر ان سے كہا اے اخنف طلحہ و زبير كا لشكر بصرہ كے قريب پہنچ چكا ہے انھيں لوگوں ميں زوجہ رسول بھى ہيں لوگ ان كيلئے چاروں طرف سے سيلاب كى طرح ٹوٹے پڑ رہے ہيں ، اس سلسلے ميں تمھارى كيا رائے ہے ؟

____________________

۲_ابو مخنف لوط كا بيٹا اور خاندان مخنف سے تھا جو ازدى گروہ سے تعلق ركھتا تھا خاندان مخنف حضرت على كے دوستوں ميں شمار كيا جاتا ہے ابو مخنف مرد فاضل محدث اور مورخ تھا اور اس سلسلے ميں اس نے بہت زيادہ كتابيں لكھى ہيں اسكى ايك كتاب كا نام الجمل ہے ابن ابى الحديد نے شرح نہج البلاغہ ميں جنگ جمل كى سارى داستانيں اسى كتاب سے نقل كيا ہے ابن نديم كا بيان ہے كہ علماء كو اس بات كا اعتراف ہے كہ ابو مخنف كو عراق كے حالات تمام مورخين سے زيادہ معلوم تھے جس طرح مدائنى كو خراسان و ہند و فارس كے حالات كى خصوصى مہارت تھى واقدى كو بھى حجاز كے حالا ت سے واقفيت تھى ، ابو مخنف نے ۱۵۷ھ ميں وفات پائي

۶۸

اخنف نے كہا: اے عثمان يہ وہى لوگ ہيں جنھوں نے مسلمانوں كو قتل عثمان پہ ابھارا تھا اور ان كا خون بہايا اور آج بھى شرم و حيا سے بالائے طاق ركھ كر ہمارى طرف ارہے ہيں تاكہ خون عثمان كا ہم سے انتقام ليں ، اگر يہ مقصد ليكر ہمارے شھر ميں اگئے تو اس شھر كے لوگوں ميں اختلاف اور دشمنى پيدا ہوگى اور ہميں تلوار كى باڑھ پر ركھ ليں گے ، ہمارا خون بہا دينگے _

اے عثمان تم اس شہر كے گورنر ہو لوگ تمھارے مطيع و فرمانبردار ہيں تمھيں اس حساس موقعہ پر اپنى حيثيت سے فائدہ اٹھانا چاہيئے ، اعلان جنگ كردو ، اور كچھ بصرے كے فوجيوں كو ليكر تيزى سے ان كى طرف جائو ، كيونكہ اگر تم نے انھيں موقعہ ديديا اور وہ بصرہ ميں ائے تو لوگ تمھارى اطاعت سے منحرف ہو جائيں گے اور ان لوگوں كى اطاعت كرنے لگيں گے _

عثمان نے كہا اے اخنف ميں بھى اس بات كو سمجھ رہا ہوں كہ ہمارى بہترى جنگ كرنے ميں ہے ، ليكن ميں كيا كروں ؟ ميں فتنہ و فساد سے ڈر رہا ہوں ، اور يہ كہ يہ فتنہ مجھ ہى سے شروع ہوگا يہ سونچ كر سخت خوفزدہ ہوں ، ميں چاہتا ہوں كہ صلح و صفائي ہوجائے ، اور جب تك حضرت علىعليه‌السلام كا حكم نہ ائے ميں كوئي اقدام نہ كر سكوں _

اخنفكے بعد حكيم ابن جبلہ عثمان كے پاس ائے ، عثمان نے لشكر عائشه كے سرداروں كا خط ان كے سامنے ركھديا ، حكيم نے بھى اخنف كى رائے كى تائيد كى اور عثمان كو عائشه كے لشكر سے جنگ پر ابھارا ،حكيم نے بھى عثمان كا وہى جواب سنا جو اخنف سن چكے تھے ، حكيم نے جب اپنى پيشكش كا كوئي اثر نہيں ديكھا تو كہا :

اے عثمان اگر تم جنگ پر امادہ نہيں ہو تو مجھے اجازت دو كہ ميں اپنے قبيلہ والوں كے ساتھ ان كے خلاف قيام كروں ، اگر ان لوگوں كو امير المومنين كا حكم منوا سكوں اور ان كى بيعت كے تابع لاسكوں تو كيا اچھا ہے ، اور ديگر وہ نہ مانيں تو ہم تم سے مدد لئے بغير ان لوگوں كے ساتھ جنگ كريں _

عثمان نے كہا: اے حكيم ميں جنگ اور قتل سے ڈرتا نہيں كہ اپنے كو الگ كر كے تم كو تمھارے حال پر چھوڑ دوں ، بلكہ ميں بنيادى طور سے مسلمانوں كے ساتھ جنگ اور فتنہ و فساد كو اچھا نہيں سمجھتا اور اس سے بھاگتا ہوں ، ورنہ ميں خود اپنے دل و جان كے ساتھ جنگ پر اقدام كرتا اور اس راہ ميں پيش قدمى دكھاتا _

حكيم نے كہا ، ہاں ، صلح و صفائي تو اچھى ہے ليكن خدا كى قسم تم بھى جانتے ہو كہ اگر وہ لوگ بصرہ ميں داخل

۶۹

ہوگئے تو لوگوں كا دل اپنى طرف موڑ ليں گے اور تم كو عہدے سے معزول كر دينگے _

ليكن حكيم نے جنگ كيلئے جس قدر اصرار كيا عثمان نے ان كى پيشكش نہيں مانى _

امير المومنين كا خط اپنے گورنر بصرہ كے نام

امير المومنين ربذہ ميں تھے كہ آپ كو خبر ملى كہ عائشه كا لشكر بصرہ كے قريب پہنچ گيا ہے آپ نے اپنے گورنر كو اس مضمون كا خط لكھا :

يہ خط بندئہ خدا امير المومنين على كى طرف سے اپنے گورنر عثمان ابن حنيف كے نام

اے عثمان باغى اور ظالم نے اللہ سے عہد كيا پھر اپنا عہد توڑ ديا ،اور اب ان كا رخ تمھارى طرف ہے ،شيطان نے ان لوگوں كو اتنا مغرور بنا ديا ہے كہ مرضيء خدا كے خلاف اقدام كر رہے ہيں ، ليكن خدا كا عذاب اس سے زيادہ درد ناك اور انتقام كا تازيانہ اس سے بہت سخت ہو گا _

اے عثمان وہ لوگ بصرہ ميں داخل ہوں تو انھيں حكومت وقت كى اطاعت اور ميرى بيعت كى دعوت دو اگر وہ اثبات و تائيد ميں جواب ديں تو ان كا احترام واجب ہے اور اگر تمھارى دعوت قبول نہ كريں ( اپنى مخالفت ميں مصر ہوں تو ان سے جنگ كرو تاكہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں كے درميان حاكم ہو خدائے دادگر كا فيصلہ عادلانہ ہو گا ) ميں اس خط كو تمہارے پاس ربذہ سے لكھ رہاہوں اور ميں خود بھى تمہارے پاس بہت جلد پہنچوں گا _ كاتب خط عبيد اللہ ابن ابى رافع بتاريخ ۳۶ھ _(۳)

____________________

۳_ عبيد اللہ ابن ابى رافع مدينہ كے باشندے تھے ازاد كردہ رسول اللہ اور ان كے بآپ كو بھى رسول نے ازاد كيا تھا حضرت على نے انھيں اپنے خزانے كا انچارج اور منشى مقرر كيا تھا ، تہذيب التہذيب ج۶ ص۱۵

۷۰

ابو مخنف كا بيان ہے كہ :جب على كا خط عثمان كے پاس پہنچا تو مشہور افراد ابوالاسود دئيلي(۴) اور عمران ابن حصين كو بلايا اور انھيں مامور كيا كہ جاكر لشكر عائشه كے سرداروں سے ملاقات كريں اور ان كے بغاوت كى وجہ اور مقصد كو پوچھيں _

ابو الاسود اور عمران حفر ابو موسى ميں واقع لشكر عائشه كى چھائونى ميں پہنچے پہلے انھوں نے عائشه سے ملاقات كر كے گفتگو كى اور موعظہ و نصيحت كى _

عائشه نے كہا اچھا ہوتا تم لوگ طلحہ و زبير سے ملاقات كرتے اور ان سے بھى گفتگو كرتے ، ابو الاسود اور عمران زبير كے پاس گئے ان سے بھى گفتگو كى _

زبير نے كہا ہمارے اس قيام كا دو بنيادى مقصد ہے _

۱_ انتقام خون عثمان ، ہم ان لوگوں كو قتل كرنا چاہتے ہيں جنھوں نے عثمان كو قتل كيا ہے_

۲_ على كو چاہيئے كہ خلافت سے معزول ہو جائيں اور مسلمانون كى جماعت ،كسى دوسرے كو شورى كے ذريعہ سے منتخب كر لے _

ان لوگوں نے زبير كا جواب ديا :

جہاں تك انتقام خون عثمان كى بات ہے تو عثمان كو بصرہ والوں نے قتل نہيں كيا ہے كہ تم ان لوگوں سے انتقام لو _

اے زبير تم خود اچھى طرح جانتے ہو كہ قاتلان عثمان كون لوگ ہيں ؟ اور كہاں ہيں ؟

تم اور تمھارے ساتھى طلحہ نے اور عائشه نے جو آج انتقام خون عثمان كا پرچم لہرا رہے ہو كل تم عثمان كے سخت ترين دشمن تھے اور تمہيں تھے كہ لوگوں كو ان كے قتل پر ابھاررہے تھے_

____________________

۴_ ابو الاسود كا نام ظالم تھا وہ عمر و ابن سفيان ابن جندل كے فرزند تھے دئيلى قبيلہ دئل كى طرف منسوب ہے اور دئل قبيلہ كنانہ كى شاخ تھا وہ بزرگ تابعى تھے اور حضرت على كے دوستوں ميں شمار كئے جاتے تھے ، جنگ صفين ميں على كے ساتھ تھے امير المومنين نے علم نحو اور قواعد زبان عربى پورے طور سے انھيں تعليم كئے تھے ، انھوں نے اس كى شرح كر كے اسے ايك علمى بنياد ديدى ، ابو الاسود نے ۸۵ سال كى عمر ميں عمر ابن عبدالعزيز كے زمانے ميں بصرہ ميں وفات پائي فہرست ابن نديم ص ۶۰ ، ۶۲ ،وفيات الاعيان ج۲ ص۲۱۶_ ۲۱۹

۷۱

اب رہ گئي حضرت على كے معزول ہونے كى بات تو تم عہدہء خلافت سے كيسے معزول كر سكتے ہو ؟ اور ان كا مسلّم حق كيسے چھين سكتے ہو ؟ جبكہ تمھيں نے باہيں پھيلا كر خوشى خاطر كے ساتھ ان كى بيعت كى تھى تمھارى بيعت ميں ذرا بھى زور زبردستى نہيں تھى _

اے زبير واقعى بہت تعجب كى بات ہے جس دن رسول (ص) خدارحمت حق سے ملحق ہوئے اور لوگوں نے ابوبكر كى بيعت كى تونے ان كى بيعت كرنے سے انكار كيا تھا ، ہاتھ ميں تلوارليكر بھانج رہے تھے كہ خلافت كيلئے على سے بہتر كوئي نہيں ، ليكن آج انھيں سے ايسى سخت مخالفت پر امادہ ہو ، كہاں وہ طرفدارى ؟ اور كہاں يہ دشمنى و مخالفت ؟

زبير نے جب اپنے كو عثمان ابن حنيف كے نمائندوں كے سامنے زچ ہوتے ديكھا اور اپنے كو لاجواب پايا تو كہا :

تم لوگ طلحہ كے پاس جائو انھيں سے بات كرو ديكھو وہ كيا كہتے ہيں _

ابو الاسود اور عمران طلحہ كے پاس گئے ليكن انھيں سخت مزاج اور فتنہ انگيز پايا انھوں نے سمجھ ليا كہ ان كا مقصد صرف جنگ كى اگ بھڑ كاناہے اس كے سوا اور كوئي مقصد نہيں وہ لوگ وہاں سے مايوس ہو كر عثمان ابن حنيف كے پاس وآپس اگئے اور سارا واقعہ انھيں سناديا _

ابوالاسود نے اس سلسلے ميں كچھ اشعار كہے ہيں :

يابن حنيف قد اتيت فانفر

و طاعن القوم و جالد و اصبر

و ابرز لها مستلثما و شمر

اتينا الزبير فدانى الكلام

و طلحه كا لنجم او ابعد

و احسن قوليهما فادح

يضيق به الخطب مستنكد(۵)

'' اے پسر حنيف اگاہ ہو جائو كہ دشمن كا لشكر جنگ كے سوا كوئي مقصد نہيں ركھتا تم بھى اٹھ كھڑے ہو اور ان كے مقابلہ ميں جنگ كرنے كيلئے اپنے كو امادہ كرو ، ان لوگوںكى سرزنش كيلئے كوشش كرو اور اس راہ ميں استقامت دكھائو ہم نے زبير سے

____________________

۵_ الامامة والسياسة ج۱ ص ۶۱ ، ابن اعثم ص ۱۸۰ ، عقد الفريد ج۴ ص ۳۱۳ ، مروج الذھب و كامل ابن اثير ج۵ ص ۱۸۴ ، تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۵۷ ، ابو مخنف در كتاب جمل

۷۲

بات كى تو اس كى باتوں ميں نرمى ديكھى ليكن طلحہ بہت تند تھا ، وہ بے راہ روى كا شكار تھا ، اسكا فاصلہ صلح سے اتنا ہى ہے جتنا زمين كا اسمان سے ، ان كى سب سے اچھى بات بہت برى تھى بہت سخت تھى اور فتنہ انگيز تھى _

انھوں نے ہميں بہت ڈرايا دھمكايا ليكن ان كى سارى باتيں ہمارى نگاہ ميں بے وقعت تھيں _

ابو الاسود نے جيسے ہى اپنے اشعار ختم كئے ، عثمان ابن حنيف جوش مين بھر گئے اور كہا ، ہاں ، دونوں مقدس شھروں مكہ و مدينہ كى قسم تم نے جيسا كہ بيان كيا ميں ان لوگوں سے ايسى ہى جنگ كروں گا _

پھر حكم دياكہ فوجى تيارى كا عام اعلان كيا جائے اور سب لوگ جنگ كيلئے امادہ ہو جائيں ، بصرے ميں نعرے گونجنے لگے بصرے والے اسلحوں سے اراستہ ہو كر عثمان ابن حنيف كے پاس اگئے_

لشكر بصرہ وہاں كے ايك وسيع ميدان كى سمت جس كا نما مر بد تھا بڑھنے لگا ، جہاں لشكر عائشه كى چھائونى تھى اور دونوں لشكر اسى ميدان ميں امنے سامنے ہوگئے _

شعلہ بار تقريريں

مرد جشمى نے تقرير كي

لشكر بصرہ اور لشكر عائشه ميدان مربد ميں امنے سامنے تھے اتنے ميں لشكر بصرہ سے قبيلہ جشم كا ايك شخص كھڑا ہوا اور اپنے كو پہنچوانے كے بعد بصرے والوں سے اس طرح مخاطب ہوا _

اے لوگو يہ جمعيت جسے تم ديكھ رہے ہو شھر مكہ سے ايا ہے اور اس نے تمھارى طرف رخ كيا ہے ، ليكن نہ انھيں بد امنى كا ڈر ہے نہ فرار اور ہرج مرج كا كيونكہ يہ لوگ اس شھر ميں تھے كہ جو سب كے لئے امن و پناہ كى جگہ ہے اور تمام موجودات وہاں امن ميں رہتے ہيں يہاںتك كہ پرندے حيوانات اور درندے بھى اس شہر ميںلوگوں كے گزند سے اسودہ خاطر ہوتے ہيں ، اس بناء پر يہ لوگ خوف كى وجہ سے يہاں نہيں ائے ہيں بلكہ خون عثمان كا انتقام لينے كيلئے سيلاب كى طرح ہمارے شہر ميں ٹوٹ پڑے ہيں حالانكہ ہم بصرے والوں نے نہ قتل عثمان ميں شركت كى نہ ہم ميں كا كوئي شخص ان كے قتل ميں شامل تھا _

۷۳

اے لوگو ميرى بات پر توجہ دو اور اس لشكر كو جہاں سے ايا ہے وہيں وآپس كردو اور اگر تم نے غيرت و صلاح كو راہ نہيں دى تو تمھارے درميان جنگ كى ايسى اگ بھڑكے گى جو كبھى خاموش نہ ہوگى اور اس كے شعلے تمہارى زندگى كو اپنا لقمہ بنا ليں گے _

اس شخص كى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ بصرے كہ كچھ لوگوں نے اس پر سنگ بارى كر دى اور وہ خاموش ہو كر بيٹھ گيا _

طلحہ كى تقرير

ابو مخنف كا بيان ہے كہ اس جشمى شخص كى تقرير كے بعد طلحہ كھڑے ہوئے اور بہت كوشش كے بعد چيختے چلاتے لوگوں كو خاموش كيا اور كہا :

اے بصرے والو تم سبھى جانتے ہو كہ عثمان ابن عفان ايك شريف شخص اور با فضيلت ادمى تھے ، بہت اچھے سابق الاسلام تھے ، وہ انھيں مہاجرين ميں تھے كہ جن كے بارے ميں اللہ نے اپنى رضا كا اعلان كيا اور قران نے ان لوگوں كے فضائل بيان كئے _

ہاں ، عثمان گروہ مہاجرين كى فرد تھے اور صحابى رسول تھے ، مسلمانوں كے امام تھے ليكن اپنى خلافت كے اخرى زمانے ميں روش بدل دى تھى اوركبھى كبھى وہ عدالت كى راہ سے منحرف ہو جاتے تھے ، ہم نے اس معاملے ميں ان كو چونكايا ، (ان پر اعتراض كيا ) تو انھوں نے ہمارى باتوں كو قبول كيا اور اپنے كرتوتوں سے توبہ كى ، پھر وہ عدالت كى راہ پر چل پڑے ، ليكن كيا فائدہ ؟

وہ شخص كہ جس نے آج مسلمانوں كے معاملات كى لگام بغير مسلمانوں كى رضا اور اطلاع كے غاصبانہ طريقے سے اپنے ہاتھ ميں تھام لى ہے ، وہ ان پر ٹوٹ پڑا اور انھيں بے گناہ قتل كر ڈالا ، كچھ فسادى اور لآپرواہ لوگوں نے بھى اس ظالمانہ عمل ميں اس كى مدد كي_

ہاں ، عثمان تمام مسلمانوں كے نزديك قابل احترام تھے وہ بے گناہ اور مظلوم قتل كئے گئے _

اے بصرہ والو ہم اس پاك اور بے گناہ شخص كا انتقام لينے كيلئے يہاں ائے ہيں تاكہ ان كے قاتلوں كو قابو ميں كر كے قتل كريں اور مسلمانوں ميں استقلال پيدا كريں ، اور وہ اختيارات جوا ن كے ہاتھ سے نكل گئے ہيں وآپس

۷۴

لائيں ، شورى كے ذريعہ كسى شخص كو خلافت و حكمرانى كيلئے انتخاب كر ليں ، كيونكہ خلافت و حكمرانى صرف عوام كا حق ہے ، اور جو شخص استبدادى طريقے سے اور لوگوں كو دھوكا ديكر اس عہدے پر قبضہ جما لے اس كى استبدادى حكومت كا پايہ ہلا دينا چاہيئے اور ختم كر دينا چاہيئے _

زبير كى تقرير

طلحہ كى تقرير كے بعد زبير كھڑے ہو كر تقرير كرنے لگے وہ بھى طلحہ كيطرح عثمان كى بے گناہى اور يہ كہ على ان كے قاتل ہيں بيان كرنے لگے ، پھر انھوں نے طلحہ كے بيان كى تائيد كى _

يہيں پر كچھ بصرہ والے كھڑے ہو گئے اور طلحہ اور زبير پر اعتراض كرنے لگے ، انھوں نے واضح طريقے سے كہا :

اے طلحہ اے زبير كيا تم لوگوں نے حضرت على كى بيعت نہيں كى تھى اور ان كى اطاعت كا عہد و پيمان نہيں كيا تھا ، اخر كيا بات ہوئي كہ كل تم نے بيعت كى اور آج تم نے بيعت توڑ دى ؟

ان لوگوں نے جواب ديا ، ہم نے اپنے اختيار اور رضا و رغبت سے على كى بيعت نہيں كى ، اور ہمارى گردن پر كسى كى بيعت و اطاعت كا حق نہيں ہے جو ميرے اوپر اعتراض كرے اور ہميں بيعت شكنى كا الزام دے _

بات يہاں تك پہنچى تھى كہ اہل بصرہ كے درميان شديد اختلاف پيدا ہو گيا ، ہلّڑ ہنگامہ ہو نے لگا كيونكہ كچھ تو طلحہ و زبير كى طرفدارى كرنے لگے ، ان كى باتوں كى تائيد و تصديق كرنے لگے اور صحيح ہے صحيح ہے كے نعرے لگانے لگے اور كچھ دوسرے لوگ ان كو جھٹلانے لگے ، كہنے لگے كہ طلحہ و زبيرجھوٹ بول رہے ہيں ، ان كى باتوں ميں مكارى پائي جاتى ہے _

عائشه كى تقرير

ابو مخنف كا بيان ہے كہ: لوگوں كا اختلاف اور ہنگامہ كا فى طول پكڑ گيا ، يہاں تك كہ خود عائشه نے انھيں خاموش

۷۵

كرنے كيلئے مداخلت كى ، اپنے اونٹ پر سوار ہوئيں لوگوں كے سامنے اكر بہت بلند اواز ميں كہا :

اے لوگو بس كرو ، اپنى بات كم كرو ، خاموش ہو جائو ، خاموش ، خاموش ، جب لوگوں نے عائشه كى اواز سنى تو خاموش ہوگئے ، ہلّڑ ہنگامہ خاموشى ميں بدل گيا ، جب مربد كے تمام گوشہ و كنار ميں خاموشى پھيل گئي تو عائشه نے بصرہ والوں سے اس طرح خطاب فرمايا :

اے لوگو امير المومنين عثمان راہ حق و عدالت سے منحرف ہوئے اور اصحاب رسول كو تكليف پہنچائي، فسادى اور ناتجربہ كار چھوكروں كو حكومت ميں لگا ديا ، ايسے منحرف اور فاسد لوگوں كى حمآیت كى جنھيں رسول اللہ نے جلا وطن كيا تھا ، اور ان پر غضبناك ہوئے تھے _

مسلمانوں نے ان پر اعتراض كيا ان كے كر توتوں كے نتائج سے باخبر كيا انھوں نے بھى لوگوں كى نصيحتوں سے سبق حاصل كيا اور اپنے برے اعمال پر شرمندہ ہوئے ، اپنے دامن الودہ كو اب توبہ سے دھو ڈالا ، اپنے كو گناہوں اور لغزشوں سے پاك كر ليا _

ليكن كچھ لوگوں نے ان كى توبہ كو اہميت ديئے بغير انھيں قتل كر ڈالا اس پاك اور بے گناہ شخص كا خون بہا ديا ، ان كے قتل سے ڈھير سارے گناہوں كے مرتكب ہوئے ، ان كى خلافت كا مقدس لباس اس مقدس ماہ ذى الجحہ (جس ميں جنگ حرام ہے ، اور اس شھر مدينہ ميں جس كا احترام اسلام نے لازم قرار ديا ہے )ہاں ان حالات و شرائط كے باوجود انھيں يوں قتل كر ڈالا جيسے قربانى كا اونٹ پئے كيا جاتا ہے _

اے لوگو جان لو كہ قريش عثمان كو قتل كر كے خود اپنے تيروں كا نشانہ بن گئے ہيں اور اپنے ہاتھ اور منھ كو خون سے الودہ كر ليا ہے ، قتل عثمان ان لوگوں كو مقصد تك نہ پہنچائے انھيں كوئي فائدہ نہ بخشے ، خدا كى قسم ، انھيں كوئي بلا گھير لے گى ، جو انھيں مليا ميٹ كر دے گي، ہاں ، انگاروں سے بھرى افت ، ان كو جڑ سے اكھاڑ پھينكنے والى ، ايسى افت كہ ان كے سوتوں كو جگا دے اور بيٹھے ہوئے لوگوں كو اٹھا دے _

اے لوگو _اول تو يہ كہ عثمان كا گناہ ايسا نہيں تھا كہ ان كا قتل جائز ہو جائے دوسرے يہ كہ تم نے انھيں توبہ كى دعوت دى پھر ان كى توبہ پر اعتنا كئے بغير چڑھ دوڑے اور بے گناہ خون بہاديا ، پھر تم نے على كى بيعت كر لى ،اور ان كو غاصبانہ طريقے سے خلافت كى كرسى پر بيٹھا ديا _

۷۶

ذرا سوچو _ميں نے تمھارے فائدے كيلئے عثمان كى فحاشيوں پر غم وغصہ كا مظاہرہ كيا تھا ، ليكن آج عثمان كے فائدے كيلئے جو تم نے ان پر تلوار كھينچى غم و غصہ كا مظاہرہ نہ كروں ؟ اور خاموش ہو جائوں ؟

اے لوگو ہوش ميں ائو ، كيونكہ عثمان كو مظلوم اور بے گناہ قتل كيا گيا اور اب تم لوگوں پر لازم ہے كہ ان كے قاتلوں كو تلاش كرو اور جہاں بھى ان پر قابو پائو انھيں قتل كر ڈالو _

اس كے بعد ان چھ افراد ميں سے كہ جن كو عمر نے معين كيا تھا شورى كے ذريعے سے خليفہ مقرر كر لو ، ليكن ايسا ہر گز نہيں ہونا چاہيئے كہ جس نے قتل عثمان ميںشركت كى ہے وہ شورى ميں يا خليفہ معين كرنے ميں كسى قسم كى مداخلت كرے _

ابو مخنف كا بيان ہے كہ :عائشه كى بات ابھى يہيں تك پہنچى تھى كہ لوگ موج دريا كيطرح جوش ميں بھر گئے اور پيچ و تاب كھانے لگے _

ايك نے كہا كہ حقيقت وہى ہے جو عائشه نے كہا :

دوسرے نے كہا كہ :عائشه نے غلط بات كہى ہے كيونكہ انھيں حق نہيں ہے كہ گھر سے باہر نكليں _

ايك بولا ، انھيں كيا حق پہنچتا ہے كہ معاشرتى معاملات ميں دخل ديں

اخركار ، ہر شخص اپنى اپنى ہانكنے لگا ، اوازيں بلند ہونے لگيں

لوگوں كى چيخ پكا ر بڑھنے لگى اوراختلاف پيدا ہونے لگا يہاں تك كہ جوتے لوگوں كے سروں پر چلنے لگے ، گھوسے اور مكّے ايك دوسرے كى ضيافت كرنے لگے _

بس يہيں سے بصرہ كے باشندے دوحصوں ميں بٹ گئے اور ايك دوسرے كے امنے سامنے محاذ ارائي اور صف بندى كرنے لگے _

ايك پارٹى گورنر بصرہ عثمان كى طرفدارى ہو گئي اور دوسرى پارٹى عائشه كى طرفدار ہوگئي اسطرح عائشه نے اپنى تھوڑى دير كى تقرير ميں كچھ لوگوں كو اپنا ہم خيال بنا ليا اور اپنے لشكر كى تعداد ميں اضافہ كر ليا _

پہلى جنگ

ابو مخنف كا بيان ہے كہ :ميدان مربد ميں جو تقريريں اور باتيں ہوئيں اس كے بعد لوگ متفرق ہو گئے

۷۷

ليكن طلحہ و زبير نے عثمان ابن حنيف كو اسير كرنے كيلئے كچھ لوگوں كے ساتھ دارالامارہ پر قبضہ جمانے شہر كے مركزى حصے كى طرف چلے ، ليكن انھيں لشكر عثمان كى شديد مقاومت كرنى پڑى كيونكہ بصرے والے شہر كے تمام حصوں سے واقف تھے اور لشكر عائشه كے حملے سے قبل ہى تمام گلى كوچوں تك كو اپنے قبضے ميں كر ليا تھا اور گھات لگائے بيٹھے تھے _

جب عائشه كا لشكر شہر كے مركزى حصے كيطرف نہيں بڑھ سكا تو اپنا راستہ ميدان اور باغوں كى طرف بدل ديا ، لشكر بصرہ نے وہاں بھى روكا اور دونوں ميں گھمسان كى جنگ ہونے لگى اس مقاومت ميں حكيم ابن جبلہ نے اپنے قبيلے والوں كے ساتھ دوسروں سے كہيں زيادہ جد وجہد كى اور لشكر عائشه پر حملہ كيا ، بصرہ كى عورتوں نے بھى كوٹھوں سے سنگبارى كى اور اسطرح بصرے والوں نے لشكر عائشه كو پسپا كر كے قبرستان بنى مازن تك ڈھكيل ديا _

عائشه كے فوجى وہاں دفاعى حالت ميں ٹھر گئے تاكہ چھائونى سے ان كى مدد اسكے اور شكست خوردہ لشكر اس كمك كے ذريعے بصرہ كے باہر زابوقہ كى طرف جاسكے ، وہاں بھى ايك وسيع اور بنجر ميدان دار الرزق كے نام سے تھا ، وہيں چلے گئے اور اسى كو اپنى چھائونى بنا ليا ،اسطرح پہلى جنگ ميں گورنر بصرہ كو فتح حاصل ہوئي اور عائشه كا لشكر پيچھے ہٹ گيا _

اس كے بعد ابو مخنف كہتا ہے كہ: قبيلہ تيم كے ايك سردار عبداللہ ابن حكيم جن كو طلحہ و زبير نے قتل عثمان كے بارے ميں خط لكھ كر مدد طلب كى تھى ، وہ طلحہ كے پاس ائے اور اس خط كو دكھا كر رائے طلب كرتے ہوئے پوچھا _

اے طلحہ كيا تم ہى نہيں ہو كہ جس نے ہميں خط لكھا تھا اور ہميں قتل عثمان پر ابھارا تھا _

طلحہ نے كہا ہاں ، يہ خط ہمارى ہى طرف سے ہے عبداللہ نے كہا اے طلحہ ، تم پر حيرت ہے كہ اس خط كے مطابق تم كل ہميں عثمان كو معزول كرنے اور انھيں قتل كرنے پر ابھار رہے تھے اخر كا ر تم نے انھيں قتل كر ڈالا اور آج انھيں كى طرفدارى اور ان كا انتقام لينے كيلئے ہمارے پاس ائے ہو _

اے طلحہ خدا كى قسم ، تمھارا مقصد صرف يہ ہے كہ دنيا حاصل كر لو اور حكومت پر قبضہ جمالو ،اور ايك غلط اور نامناسب محرك تمھيں اس جنگ پر ابھار رہا ہے ورنہ تم نے كل على كى بيعت كيوں كى تھى اور راضى خوشى ان كے ہاتھ پر اپنا ہاتھ كيو ں ركھا تھا ، اور آج تم نے اپنى بيعت توڑ دى ہے ، اور ان كى مخالفت ميں كھڑے ہو گئے ہو ؟ ان تمام باتوں سے بد تر يہ كہ يہاں تم شھر كو فتنہ و فساد ميں الجھا نے ائے ہو اور ہميں اس فتنہ ميں شريك كر رہے ہو _

۷۸

طلحہ نے كہا كہ: اے عبداللہ ميں نے على كى بيعت اپنى مرضى اور خوشى سے نہيں كى تھى ، حضرت علىعليه‌السلام نے لوگوں كى بيعت قبول كرنے كے بعد مجھ كو بھى بيعت كى دعوت كى تو ميں نے بھى مجبور ہو كر ان كى دعوت قبول كر لى اور اپنى بيعت كا ہاتھ بڑھا ديا ، اگر ميں نے ان كى بات نہ مانى ہوتى تو جس طرح ميں خلافت سے محروم كر ديا گيا ( اپنى جان سے بھى ہاتھ دھو بيٹھتا كيونكہ لوگ ميرے اوپر ٹوٹ پڑتے اور ميرا كام تمام كر ديتے )_

ابو مخنف كا بيان ہے كہ: اس طرح پہلا دن بيت گيا ، اس كے دوسرے دن دونوں لشكر دوبارہ امنے سامنے ہوئے اور انھوں نے صف ارائي كى _

اس موقع پر عثمان ابن حنيف اپنے كچھ ساتھيوں كے ساتھ طلحہ وزبير كے پاس گئے اور انھيں نرم و ملائم انداز ميں نصيحت كى ، انھيں اختلاف و بيعت شكنى كے انجام سے ڈرايا _

ليكن طلحہ و زبير نے بجائے اس كے كہ ان كى نصيحت كو مانيں صاف صاف كہنے لگے كہ اے فرزند حنيف ہم يہاں خون عثمان كا انتقام لينے كيلئے ائے ہيں ہم اس سے كبھى دستبردار نہيں ہو نگے _

عثمان ابن حنيف نے كہا ، تمھيں خون عثمان سے كيا سروكار ؟ ان كے بيٹے اور چچيرے بھائي انتقام كيلئے تم پر مقدم اور قريب تر ہيں ، وہ لوگ كہا ں ہيں ؟ خدا كى قسم خون عثمان كا انتقام ايك بہانا ہے اور بس ، حقيقت يہ ہے كہ تم لوگ خلافت ہتھيانا چاہتے ہو اور اس سلسلے ميں تم نے حد سے زيادہ كو شش كى ليكن مسلمانوں نے تمھارى طرف كوئي توجہ نہيں كى ، وہ حضرت على كى جانب مائل ہوگئے ، يہى وجہ تھى كہ حضرت على كى عداوت تمھارے دل ميں پيدا ہوگئي اور حسد كى اگ بھڑكنے لگى ، اسى گرہاں اور انگاروں نے تمھيں بيعت توڑنے اور مخالفت كرنے پر امادہ كيا ، ان گرہاں اور انگاروں كو ڈھاكنے كيلئے تم نے خون عثمان كا بہانا بنايا ہے ورنہ تم وہى ہو كہ عثمان كے خلاف ہنگامہ برپا كرنے ميں سب سے اگے تھے ، تمھيں سب سے زيادہ ان پر تنقيد كرتے تھے _

ابن حنيف كى بات يہيں تك پہنچى تھى كہ طلحہ و زبير نے دشنام درازى شروع كر دى اور بہت گندى باتيں زبان سے نكالنے لگے يہاں تك كہ بہت شرمناك طريقے سے ان كى ماں كا نام بھى لے ليا _

عثمان نے ايك نگاہ زبير پر ڈالى اور كہا :

اے زبير ميں كيا كروں ؟ تمھارى ماں صفيہ رسول خدا كى رشتہ دار ہيں ، اسى وجہ سے رسول خدا كے احترام

۷۹

ميں تمھارى ماں كا نام لينے سے معذور ہوں _

اس كے بعد ايك نظر طلحہ پر ڈالى اور كہا :

اے طلحہ اے صعبہ كے فرزند ميرا اور تمھارا حساب كتاب اس سے بالا تر ہے جو باتوں سے ختم ہواس كا جواب صرف تلوار ہے ہمارے اور تمھارے درميان اسى كو فيصلہ كرنا ہے ، ميں واقعى ان گاليوں كا جواب تمھيں دوں گا _

عثمان نے ايك نظر اسمان پر ڈالى اور دعا كي خدايا تو گواہ رہنا كہ ميں نے ان لوگوں پر حجت تمام كر دى اور ان كيلئے عذر كى كوئي گنجائشے نہيں چھوڑى _

يہ كہناا اور عائشه كے لشكر پر ٹوٹ پڑے ، اور عملى طور سے اعلان جنگ كر ديا ، پھر دونوں لشكر كے درميان گھمسان كى لڑائي شروع ہو گئي ، جب جنگ نے بہت شدت اختيار كر لى تو يہ بات طئے پائي كہ دونوں كے درميان عہد نامہ صلح لكھا جائے تاكہ جنگ ختم ہو سكے _

صلح اور صلحنامہ

جيسا كہ گذشتہ فصل ميں بيان كيا گيا كہ لشكر عائشه اور لشكر بصرہ كے درميان گھمسان كى جنگ ہوئي اور بہت سے لوگ لقمہء اجل بن گئے اس طرح يہ لڑائي گورنر بصرہ اور ان كے سپاہيوں كى كاميابى پر ختم ہوئي _

ابو مخنف كا بيان ہے كہ جنگ و خونريزى كے بعد (جس كا نام ہم نے پہلى جنگ ركھا ہے )دونوں لشكر كے سردار اس بات پر متفق ہوئے كہ چند شرائط كے مطابق باہم صلح كر لى جائے اور عہد نامہ لكھ ليا جائے ، تاكہ جب تك حضرت على بصرے ميں تشريف نہيں لائيں جنگ ركى رہے ، يہى بات دونوں لشكر كے درميان صلحنامہ كى شكل ميں لكھى گئي اور اس پر سرداران لشكر كے دستخط ہوئے _

۸۰