تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 213
مشاہدے: 60148
ڈاؤنلوڈ: 3717


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 60148 / ڈاؤنلوڈ: 3717
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد 3

مؤلف:
اردو

اتے تو ممكن تھا كہ معاويہ كا تمام نقشہ باور ہو جاتا _

ان مطالب پر غور كرنے كے بعد واضح ہو جاتا ہے كہ معاويہ نے پہلے چند سردار لشكر كو خريد ا جيسا كہ تير اندازى كے واقعہ ميں ديكھا گيا ، پھر امام حسن (ع) كو انكى سپاہ كے ذريعہ قيد كروا يا اسكے بعدبڑى منت و سماجت كے بعد ازاد كيا يہ رسوائي ائمہ اہلبيت اور رہبران معصوم (ع) كے دامن پر تا ابد رہے گى كہ جنھوں نے كفر و نفاق كے جانے پہچانے چہروں كو فتح مكہ كے موقع پر ازاد كيا تھا وہ اج اپنى جان كے لئے خاندان اموى كے مديون ہو گئے(۱۲)

۳_ جنگ صفين ميں حضرت امير المومنين كے ہمراہ ( جيسا كہ ائندہ بيان ہو گا ) اكثر اصحاب رسول (ص) تھے جن كى تعداد مورخين نے دو ہزار سے زيادہ بتائي ہے _

ستر بدر كے جنگجو تھے جو پيغمبر اسلام (ص) كے قديم صحابى تھے ، سات سو يا اٹھ سو وہ افراد تھے جنھوں نے بيعت رضوان ميں شركت كى تھى اور قران مجيد ميں خدا وند عالم نے ان لوگوں كى تعريف و تمجيد بھى كى ہے _

مہاجرين و انصار ميں سے چودہ سو افرادوہ تھے جنھوں نے جنگ صفين ميں شركت كى تھى(۱۳) يہ تمام لوگ رسول (ص) كے زمانے كو ديكھے بھى تھے اور نزول قران كے وقت موجود بھى تھے اور اسلام حقيقى كو خود پيغمبر سے ليا پھر برسوں امير المومين(ع) كى خدمت ميں رہے جو خود مجسمہ اسلام اور ہمدوش قران تھے _

____________________

۱۲_اخبار الطوّال ص ۲۲۱، بحار الانوار ج ۴۴ ص ۲۹

۱۳_ يعقوبى ج۲ ص ۱۶۴ ، ابن خياط كى تاريخ ج۱ ص ۱۸۰

۱۰۱

ليكن معاويہ كے ساتھ انصار و مہاجرين كے بد نام زمانہ دو ادمى كے سوا كوئي نہ تھا ، اس نے ان ضمير فروشوں كے ذريعہ اسلام كے خلاف اپنى خواہشات نفسانى كے مطابق يہ نقشہ تيار كيا كہ سادہ لوح افراد كے دلوں ميں اسلام كے خلاف بغض و كينہ كو بھر دے ، ہاں ، اس نے ابو ھريرہ ، انس بن مالك ، مغيرہ بن شعبہ ، عمرو بن عاص ، عبد اللہ بن عمر و اور خاص طور سے ام المومنين عائشه كى مددسے ايك جعلى حديث كا بڑا كار خانہ معرض وجود ميں لايا ، ان تمام ہوا پرستوں نے معاويہ كى حكومت كے زمانے ميں متعدد كو شش كيں كہ اسلام كے اصلى خد وخال كو داغدار كر ديں اور اكثر حديثيں ابو ہريرہ ، انس بن مالك اور عبد اللہ بن عمر نے مختلف ميدانوں ميں گڑھيں اگر اہلبيت (ع) كے فدا كاروں كى جد وجہد نہ ہوتى تو اسلام صفحہء ہستى سے مٹ گيا ہوتا اور كفر و جاہليت كى تمام نا پاك تمنائيں رائج ہو جاتيں _

امام حسن (ع) نے معاويہ سے جنگ كرنے كے بجائے جو صلح كر لى اسكى وجہ صرف يہ تھى كہ انحضرت (ص) نے اسكے ذريعہ سے اكثر اصحاب رسول (ص) و ياران امير المومنين (ع) كو موت كے منھ سے نكال ليا ، كيونكہ اگر امام حسن (ع) معاويہ سے جنگ كر ليتے تو اپ كے لشكر ميں وہ افراد تھے جو مومن حقيقى تھے اگر ميدان جنگ ميں چلے جاتے تو اس كا مطلب يہ تھا كہ سارے كے سارے مار ڈالے جاتے يا خاتمہ جنگ كے بعد معاويہ كے ہاتھوں اسير ہو كر خون عثمان كے جرم ميں تہ تيغ كر ديئےاتے ، اور معاويہ اطمينان كے ساتھ حقائق اسلام كو توڑ مڑوڑ كے پيش كرتا اور اسكو كوئي روك ٹوك كرنے والا بھى نہ ہوتا اس مقدمے كے بعد اتنا تو ضرور واضح ہو جاتا ہے كہ اسلام حقيقى كى صورت كو تحريف سے بچانے كے لئے صلح كے علاوہ كوئي چارہ نہ تھا _

يہى وہ راستہ تھا جو حضرت امام حسن (ع) نے اپنايا اور مرتے دم تك اس پر ثابت قدم رہے _

۱۰۲

فصل سوم

دشمنوں كے ساتھ نرمي

معاويہ كسى طرح حكومت پر بيٹھ گيا ، حضرت على (ع) كے شھيد ہو جانے اور امام حسن (ع) كے صلح كى وجہ سے اسكى راہ كى تمام اڑ چنيں ختم ہو گئيں ، ليكن معاويہ كو دوسرا مسئلہ جو كھائے جا رہا تھا اور ا س كا حل نكالنا بہت ضرورى تھا وہ يہ تھا كہ تمام سر زمين اسلامى ميں جو شام كے لٹيروں نے قتل و غارتگرى كا بازار اسكے حكم سے گرم كر ركھا تھا نيز اسكے بعد قصاص خون عثمان كے نام پر اكثر گھروں كو خاك و خون ميں غلطاں كر كے باپ بھائي بيٹے سبكو داغدار كر ديا تھا اور اسكى وجہ سے لوگوں كے دل بغض و كينہ سے بھر گئے تھے _

ايسے حالات ميں اس ( معاويہ ) نے ايك نئي سياست اپنائي اور وہ نيكى و برد بارى تھى خواہ سامنے دشمن ہى كيوں نہ ہو _

كيونكہ اسكو ہر لمحہ خطرہ تھا كہ عراق و حجاز ميں رہنے والے مسلمان كہيں شورش بر پا نہ كر ديں اور رات دن كى محنت سے حاصل ہوئي حكومت ہاتھ سے نكل نہ جائے _

يعقوبى لكھتے ہيں :

معاويہ ۴۱ ھ ميں شام واپس آيا تو اسى وقت برى خبر موصول ہوئي كہ روميوں كا ايك بڑا لشكر سر زمين اسلام كى طرف ارہا ہے ، اس خبر نے حكومت دمشق كى چوليں ہلا كر ركھ دى ، كيونكہ ايك طرف ان تمام مسلمانوں سے خطرہ تھا جو بلاد اسلامى ميں جى رہے تھے ، دوسرى طرف يہ برى خبر پہونچ گئي_ ان تمام خطروں نے معاويہ كے اعصاب كو جھنجوڑ كر ركھ ديا اب ايسى صورت ميں كيا كيا جائے ؟

معاويہ نے يہ كيا كہ اپنے ايك نمائندہ كو امپرا طور روم كے پاس بھيجا اور اسكو سرخ سونے كا ايك لاكھ درہم ديا تاكہ واپس چلا جائے اور ذلت و رسوائي سے چھٹكارا مل جائے(۱۴)

معاويہ نے اپنى حكومت كے زمانے ميں سياست داخلى كى بنياد خاطر و مدارات پر ركھى تھى تاكہ اسكے ذريعہ اپنى حكومت كى

____________________

۱۴_ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۲۱۷ ، دولة العربيہ ص ۸۶

۱۰۳

بنياد مستحكم و مضبوط بنا سكے(۱۵)

مگر مظلوميت عثمان كى داستان جو اسكى تمام ہنگامہ ارائيوں كے لئے بہانہ تھى حكومت كے ہاتھ اتے ہى ايسے بالائے طاق ركھ دى گئي جيسے ايسى كوئي بات ہوئي نہيں تھى ؟

ابن عبد ربہ اندلسى لكھتے ہيں

'' معاويہ حكومت پر قبضہ كرنے كے بعد مدينہ آيا تو عثمان كے گھر بھى گيا ، عائشه بنت عثمان نے جب معاويہ كو ديكھا تو باپ كى مصيبت كو ياد كر كے رونا شروع كر ديا ، وہ اسكے ذريعہ چاہتى تھى كہ اپنے باپ كے خون كا بدلہ لينے كے لئے معاويہ كو ياد دہانى كرائے ، مگر معاويہ پر اس چيخ و فرياد كا كوئي اثر نہيں پڑا اور بڑئے اطمينان سے كہا :

اے بھائي كى اولاد ، لوگوں نے زمام حكومت ہمارے ہاتھوں ميں دے دى ہے جس كى وجہ سے ہم نے بھى انكو امان ديديا ہے ، ہم نے اپنے غضب كو برد بارى كے لباس ميں چھپا ركھا ہے اور ان لوگوں نے اپنے بغض و كينہ كو ذلت كے سايہ ميں پنہاں كر ركھا ہے _

ہر ادمى اپنے ہمراہ تلوار بھى ركھتا ہے اور اپنے رفيق و دوست كو اچھى طرح سے پہچانتا بھى ہے اگر ہم لوگوں نے عہد شكنى كر كے اپنى رفتار كو بدل ڈالا تو ياد ركھو وہ لوگ بھى دوسرا بھيس بدل كر ہم سے مقابلہ كے لئے اجائينگے ، پس ايسى صورت ميں جبكہ نہ ہم اپنى قسمت سے اگاہ ہيں اور نہ ہى اس بات كا يقين ہے كہ ہنگامہ ارائي و سر كشى كا فائدہ ہمارے حق ميں ہو گا يا ان لوگوں كے حق ميں _

بہتر ہے كہ خاموش رہيں تا كہ اگر ہمارى حكومت قائم رہى تو تم دختر خليفہ كى حيثيت سے رہو گى اور اگر حكومت ہاتھوں سے نكل گئي تو تم ايك عام عورت كى حيثيت سے پہچانى جائو گى(۱۶)

_____________________

۱۵_ ابن كثير ج۷ ص ۱۳۱

۱۶_ عقد الفريد ج۳ ص ۱۲۶ چاپ مصر _ ۱۳۳۱ ، ابن كثير ج ۸ ص ۱۳۲ ، البيان التبين ج۲ ص ۱۸۲

۱۰۴

عرب كے مكار معاويہ كے جال ميں

معاويہ نے اپنى حكومت كو ٹھوس كرنے كے لئے جو دوسرا كھيل كھيلا وہ يہ تھا كہ مكار و حيلہ گر افراد كو شہر كے گوشہ و كنار سے بلواكر جاہ و جلال اور دولت و ثروت يا دوسرے راستے سے انكو خريد نا شروع كر ديا ، اور ان لوگوں كو اپنى حكومت كے مفاد ميں استعمال كيا ، معاويہ نے اپنى سياست كى بنياد اس پر ركھى كہ بيت المال كے خزانے كو بزرگان قريش اور رئيسان شہر كى جھولى ميں ڈالديا تاكہ اسكے ذريعے گذشتہ دنوں كے كينے ختم ہو جائيں اور ان لوگوں كا دل اس سے قريب ہو جائے ، وہ خوب جانتا تھا كہ لوگ بندہ زر ہيں اور قلب حطام دنيا كا خريدار ہے _

طبرى لكھتے ہيں :

'' كچھ سردار قبائل جن ميں حتات بن يزيد مجاشعى بھى تھا معاويہ كے پاس آئے ، معاويہ نے سبكو ايك ايك لاكھ دينار ديا مگر حتات بن يزيد كو صرف ستر ہزار دينار ديا _

جب يہ لوگ شام سے جانے لگے تو ہر ايك نے اپنى اپنى تھيلى كا جائزہ ليا اور ايك دوسرے كو اپنا اپنا مبلغ بتايا ، حتات جسكو معاويہ نے ان لوگوں سے كم رقم دى تھى وہ اس حركت سے اتنا ناراض ہوا كہ اسى مقام سے واپس آيا اور معاويہ كے پاس گيا اور اسكو دل كھول كر سنايا كہ تم نے كس بناء پر ان لوگوں سے كم رقم مجھے دى ہے _

معاويہ نے كہا ہاں ، ہم نے ان لوگوں سے انكے دين كو خريدا ہے اسى بناء پر انكو ايك جيسى رقم دى ہے ليكن تم كو اس لئے ان سے كم ديا كہ ميں جانتا ہوں كہ تم عثمان كے عقيدتمند وں ميں سے ہو ، حتات نے كہ ، اگر ايسى بات ہے تو پھر مجھ سے بھى ميرے دين كو خريد لو _

معاويہ نے حكم ديا كہ جو رقم كم دى گئي تھى اسكو پورا كر ديا جائے _

وہ لوگ جو معاويہ كے دام زريں ميں پھنس گئے اور نئي حكومت اموى كى بنياد كو مستحكم كرنے ميں جٹ گئے ان ميں مغيرہ بن شعبہ اور عمر و بن عاص بھى تھے_

معاويہ نے عرب كا مشھور و معروف مكار مغيرہ بن شعبہ كو حكومت كوفہ كے لئے منصوب كر ديا اور عمر و عاص كو مصر كى حكومت ديكر اپنے جال ميں پھنسا ليا ، اور عمر و عاص نے اس سلسلہ ميں شرط ركھى كہ جب تك زندہ رہوں گا اس شہر كى

۱۰۵

باگ ڈور ہمارے ہاتھوں ميں رہے گى ، مزيد اس جگہ كا ٹيكس بھى ہمارے پاس رہے گا _

ليكن ان كے درميان ايك زبر دست مكار تھا جو معاويہ كے چنگل ميں نہيں اپا رہا تھا ، جسكے وجود سے حكومت اموى كو بہت بڑا خطرہ لا حق تھا _

اسى لئے معاويہ نہيں چاہتا تھا كہ اسكى ذات سے بے بہرہ رہے اور تمامتر سعى و كوشش يہى تھى كہ كسى صورت سے اس شخص كو جس كا نام زيادہ تھا اپنے پرچم كے سايہ ميں لے آئے تاكہ اسكى مكارانہ چال سے اپنى حكومت كو مزيد ٹھوس كر سكے ، اور اسكى ذات سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھا سكے_

لہذا بجائے اسكے كہ دين و احكام اور فرمان الہى سے خوف كھائے ايك بہانہ ڈھونڈ نكالا ، در اصل معاويہ كى تمام زندگى ميں دنيا كى دھوكہ دھڑى اور زودھنگام لذتوں نے اس پر حكمرانى كى ہے كہ اس مقام پر بھى سوائے دنيا پرستى كے اسكو كچھ نظر نہيں آيا ہے _

زياد بن ابيہ ، ظاہرى اعتبار سے غلام عبيد كا بيٹا تھا جس نے مشھور بد كار عورت سميہ سے شادى كى تھى اور كچھ دنوں بعد اس سے زياد پيدا ہوا اس طرح زياد خاندان كے اعتبار سے عربى معاشرہ ميں كوئي خاص اہميت كا حامل نہيں تھا_

زياد كا باپ غلام تھا اور ايسا شخص پست شمار ہوتا تھا لہذا باپ كے غلام ہونے كى وجہ سے قبيلائي اعتبار سے عربى خون نہيں ركھتا تھا _

باپ كا غلام ہونا اور غير عرب ہونے كيوجہ سے زياد اپنے كو ذليل و حقير سمجھتا تھا، اس بات نے اسكو بہت اذيت پہونچائي تھى اور رفتہ رفتہ حقيقت سے اگاہ بھى ہو گيا تھا لہذا اس سے چھٹكارا پانے كے لئے اسكے دل ميں امنگيں كروٹيں لے رہى تھيں _

معاويہ ان تمام مسائل سے بخوبى اگاہ تھا لہذا اس نے اپنے نقشہ كے تحت زياد كى دكھتى رگ كو پكڑا اور اسكو پيشكش كى كہ وہ اپنا بھائي بتائے گا ، مگر ايك شرط پر كہ حكومت اموى كے زير اثر اجائے اور سر پيچى و نا فرمانى سے باز آئے _

زياد نے ايك طرف نسب پر نگاہ دوڑائي تو مشھور ترين عرب معاويہ كا بھائي ہوتا نظر ارہا تھا اور دوسرى طرف اسكا باپ عبيد غلام نہيں رہے گا بلكہ رئيس قريش ابو سفيان اس كا باپ كہلانے لگے گا وہ كل تك معمولى خاندان كى فرد تھا ليكن اج خليفہ كا بھائي بن جائے گا _

۱۰۶

مسعودى اور ابن اثير نيز ديگر مورخين نے خاندان اموى سے زياد كے ملنے كى داستان اس طرح نقل كيا ہے _

'' زياد كى ماں سميہ عرب كا مشہور طبيب حرث بن كلدہ ثقفى كى كنيز تھى بدكارى ميں مشہور زمانہ تھى شہر طائف ميں پيشہ ور عورتوں كے درميان ايك گھر ليا اسكى چھت پر سرخ رنگ كا جھنڈا لگايا جو طوائفوں كے اڈہ كى علامت تھا ، يہ جب حرث كى كنيز تھى تو رسم جاہليت كے مطابق اپنى امدنى سے اسكو كچھ رقم ديتا تھا كيونكہ وہ عبيد كى زوجيت سے نكال كر لے آيا تھا _

دور جاہليت ميں ابو سفيان كا طائف شہر سے جب گذر ہوا تو شراب فروش ابو مريم سلّولى كے يہاں آيا اور اس سے اپنى خواہشات جنسى كا اظہار كيا ، ابو مريم نے كہا ، آيا سميہ كو چاہتے ہو ؟

ابو سفيان نے كہا ،_ ارے اسى كو لے ائو تاكہ

ابو مريم نے سميہ كو ابو سفيان كے پاس پہونچا ديا اور خود كمرہ سے باہر چلا آيا ، سميہ اس سے حاملہ ہو گئي اور ۱ھ ميں زياد پيدا ہوا _

جب حضرت امير المومنين (ع) تخت خلافت پر آئے تو زياد كى تقرير و شجاعت اور ادارى امور ميں ماہر ہونے كى وجہ سے فارس كى وسيع و عريض سر زمين كا حاكم بنا ديا ، يہاں پر خوب اچھے طريقے سے حكومت كو چلا رہا تھا ، يہ بات معاويہ كے لئے كافى تكليف دہ ثابت ہو رہى تھى ، اس نے كافى خطوط زياد كو لكھے اور ان خطوں ميں اميد بخش اور تہديد اميز باتيں بھى تحرير كيں ، يہاں تك كہ ايك خط ميں ابو سفيان كا بيٹا بنانے كے لئے لكھا ، ليكن زياد نے حكومت علوي(ع) كے رہنے تك كوئي خاص توجہ نہيں دى ، اور اسكے دام فريب ميں نہيں آيا ، مگر جب حضرت امير المومنين (ع) شہيد كر ديئے گئے اور امام حسن (ع) نے جانگداز عوامل كى بناء پر صلح كر لى ، جسكے نتيجہ ميں اكثر مملكت اسلامى معاويہ كے ہاتھ ميں اگئي ; ايك فارس تھا جس پر زياد كى حكمرانى تھى اس پر كسى كا بس نہيں چل رہا تھا ، تو معاويہ نے مغيرہ بن شعبہ كو بلايا جو زياد كا قديم دوست تھا پھر اپنى رائے كو پيش كيا كہ زياد ايك طاقتور اور ہوشيار شخص ہے جو ابھى تك حكومت فارس پر برا جمان ہے ، اور اموال كثير سے اپنى جگہ كو مستحكم كئے ہوئے ہے جسكى بناء پر ہمارا بس نہيں چل پا رہا ہے _

ہميں ہر لمحہ خطرہ ہے كہ كہيں لوگ خاندان رسول (ص) كى كسى فرد كى بيعت كر كے بار ديگر ہم سے نبرد ازما نہ ہو جائيں _

چنانچہ يہ تمام باتيں كہہ كر مغيرہ بن شعبہ كو زياد كو اپنے چنگل ميں لينے كےلئے روانہ كيا _ مغيرہ معاويہ كى مكارانہ فكر كو ليكر اپنے دوست زياد كے پاس پہونچا ،ايك عرصے كے بعد جب دونوں گفتگو كے لئے بيٹھے تو مغيرہ نے زياد سے كہا كہ ، اسوقت

۱۰۷

جہان اسلام كے حالات دگر گوں اور گذشتہ كى نسبت كافى تبديل ہو گئے ہيں ، اور تنھا شخص جو خلافت كو حاصل كر سكتا تھا وہ حسن بن على (ع) ہيں ليكن انھوں نے معاويہ سے صلح كر لى ہے لہذا قبل اسكے كہ تم پر كوئي خطرہ لاحق ہو اپنے لئے پناہ گاہ ڈھونڈھ لو _

مغيرہ نے جواب ديا كہ ، ميرى نظر ميں بہتر يہى ہے كہ تم اپنے نسب كو خاندان اموى سے جو ڑ كر معاويہ كے رشتہ دار بن جائو _

زياد نے كہا ، گويا جڑ كو چھوڑ كر شاخ كو پكڑ لوں _

دونوں كے درميان اسى طرح كى گفتگو ہوتى رہى ، ليكن زياد كو قبيلائي اور خاندانى تعصب بہت ستا رہا تھا ان جرح و بحث نے زياد كے وجدان و ضمير كو كافى جھنجھوڑكر ركھ ديا ، خاص طور سے جب ذہن ميں حكومت كا ہاتھ سے نكل جانا اور جان كا خطرہ ميں پڑ جانے كا تصور كيا تو اس پر زياد مات كھا گيا اور مغيرہ كى پيشنھاد كو قبول كر كے اپنى حكومت كو خير اباد كر ديا اور دمشق كى طرف روانہ ہو گيا ، جب زياد نے اموى سلطنت ميں قدم ركھا تو معاويہ كے حكم پر اسكى بہن (جويريہ ) اس سے ملاقات كرنے گئي اور دوران ملاقات اپنے سر سے اوڑھنى ہٹا ديا اوركہا كہ ، تم ہمارے بھائي ہو لہذا مجھ پر تم سے پردہ واجب نہيں ہے ؟

ہم نے اس حقيقت كو ابو مريم سلّولى سے سنا ہے ، جو يريہ كى ملاقات نے زياد كے اوپر اچھے تاثرات چھوڑے اور اسكے پس منظر ميں معاويہ نے شہر دمشق كى جامع مسجد ميں ايك جلسئہ عام ركھااس ميں زياد كو دعوت دى گئي نيز شاہد ين كو بھى بلايا گيا جن ميں ايك ابو مريم سلّولى تھا _

معاويہ نے ابو مريم سے كہا كہ تم كيسے اور كس چيز كى گواہى دو گے

ابو مريم سلّولى كھڑا ہوا اور اس نے كہا كہ ، ميں گواہى ديتا ہوں كہ دور جاہليت ميں جب ميں شراب فروش تھا تو ايك روز ابو سفيان شہر طائف سے گذرا ، ميرے پاس اكر اس نے اپنى خواہشات جنسى كو مٹانے كے لئے كہا، پيشہ ور عورت كى فرمائشے كى ميں نے كہا ، اسوقت حرث كى كنيز سميہ كے علاوہ كوئي نہيں ہے ،

ابو سفيان نے كہا _ اسى كو لے ائو اگر چہ وہ ايك بد بودار و كثيف عورت ہے ، زياد غصے ميں اگيا اور كہنے لگا ، ابو مريم چپ ہو جائو تم گواہى دينے كے لئے آئے ہو نہ كہ برا بھلا كہنے كے لئے ؟

۱۰۸

ابو مريم سلّولى نے كہا ، ٹھيك ہے اگر تم كو برا لگ رہا ہے تو ہم اس داستان كو بيان نہيں كرينگے ليكن ميں نے جو كچھ ديكھا تھا اسكو بيان كيا ہے _

خدا كى قسم ، ابو سفيان نے سميہ كى استين پكڑى اور خالى كمرے ميں لے جا كر دروازہ كو بند كر ليا اور ميں اسى مقام پر بيٹھا رہا ، تھوڑى دير بعد ابو سفيان كمرے سے باہر آيا تو ميں نے كيا ديكھا كہ پسينہ ميں شرا بور تھا ، ميں نے كہا ، ابو سفيان يہ عورت كيسى تھى ؟

ابو سفيان نے جواب ديا _ ہم نے اس عورت كى طرح كسى كو نہيں ديكھا اگر چہ زياد كھڑا ہوا اور لوگوں كو مخاطب كرتے ہوئے كہا ، اے لوگو ، اس ميں كيا سچ ہے اور كيا جھوٹ ہے مجھے نہيں معلوم ليكن جو كچھ جانتا ہوں وہ يہ ہيكہ اگر ميرا باپ عبيد تھا تو ايك ايسا باپ تھا جونہايت شريف و نيك تھا اور اگر اسكو مربى مانا جائے تو وہ ميرا حقيقى باپ تو نہيں تھا البتہ ايك اچھا مربى ضرور تھا ، جس نے زحمتيں برداشت كر كے مجھ پر احسان كيا ، البتہ گواہ حضرات اپنى بات كى حقيقت سے زيادہ اگاہ ہيں _

يونس بن عبيد ثقفى جو سميہ كا بھائي تھا اپنى جگہ سے كھڑا ہو ا اور اس نے كہا ، معاويہ رسول(ص) اسلام كا ارشاد گرامى ہے كہ بچہ شوہر كا ہوگا اور زانى كے لئے سنگسارى ہے ،الولد للفراش و للزانى الحجر ليكن اس قانون كے ہوتے ہوئے تم نے ابو سفيان كے زنا كو ابو مريم كى گواہى پر حكم ديا ہے اور غير شرعى فرزند كو اس كے حد كے بدلے ميں بيٹا بنا رہا ہے جبكہ اس طرح كا قانون نہ كتاب خدا ميں ہے اور نہ ہى حديث پيغمبر (ص) ميں _

معاويہ نے جب ماحول كو خطر ناك ديكھا تو ڈرا دھمكا كر كہا ، اے يونس اپنا منھ بند كر لو ورنہ ٹكڑے ٹكڑے كر دوں گا _

يونس نے جواب ديا كہ ، آيا قتل كے علاوہ كچھ اور كر سكتے ہو_

۱۰۹

جب يونس نے معاويہ كى تہديد كو اٹل ديكھا تو خاموش ہو كر بيٹھ گيا اور كہنے لگا كہ ، ہم اپنے پروردگار سے طلب مغفرت كر لينگے اس واقعہ نے جہان اسلام ميں كافى ہنگامہ مچايا ، اور شعراء عرب نے مذمت اميز اشعار كہے ، جن ميں ايك عبد الرحمن بن حكم كا شعر ہے جس كا ترجمہ يہ ھيكہ :_ معاويہ بن حرب سے كہدو كہ ميں مرد يمانى ہوں ، آيا ناراض تو نہ ہو جائو گے ، اگر يہ كہيں كہ تمہارا باپ عفيف و پاك دامن ہے_ اور خوش ہو جائو گے اگر يہ كہا جائے كہ تيرے باپ نے ( زياد كى ماں سميہ سے ) زنا كيا تھا _

ميں گواہى ديتا ہوں كہ تمھارى رشتہ دارى زياد سے اسى طرح ہے جس طرح ہاتھى كى گدھے كے بچے سے(۱۷)

مشہور دانشور اور مورخ ابن اثير لكھتے ہيں :

زياد كو ابو سفيان كا بيٹا قرار دينا يہ پہلا حكم تھا جو علنى طور پر شريعت مقدس كے قوانين كے بر خلاف بيان كيا گيا ، جبكہ رسول اسلام (ص) كا ارشاد گرامى ہے كہ ، بچہ شوھر كا ہوگا اور زانى كے لئے سنگسارى ہے _ الولد للفراش وللعاھر الحجر(۱۸)

سنگين ٹيكس

جيسا كہ اپ نے پہلے ملاحظہ فرمايا كہ معاويہ نے اس وقت كے مكاروں كو مختلف ذريعوں سے اپنے قبضے ميں كر ليا تھا _

كسى كو عہدے ديكر كسى كو دولت و ثروت دے كر اور كسى سے رشتہ ناطہ جو ڑكر ان سبھوں كو كفر و جاہليت كى فوج بنا كر اموى پارٹى سے ملحق كر ديا تھا _

دوسرى طرف طاقتور قبيلوں كے سرداروں نيز دشمنوں سے چاپلوسى ، نرم دلى ، بخشش اموال اور برد بارى كا اظہار كر كے اس لئے ان لوگوں كو خاموش كر ديا تھا ، كہ يہ لوگ اسكى حكومت كے خلاف سازش نہ كر سكيں _

البتہ اس كى ضمير فروش حكومت كے اتے ہى شروع ہو گئي تھى ، ليكن جب ستون حكومت مضبوط ہو گيا اور ماحول سازگار ہو گيا تو اس وقت اپنے كينہ و عناد كو نكالنے كے لئے سارے حكمرانوں كو حكم ديا كہ تمام سر زمين اسلامى كے اموال جمع كر لئے جائيں تاكہ گذشتہ كى طرح روساء قوم كے پاس زر و جواہر نہ رہے(۱۹)

معاويہ كى طمع دن بدن بڑھتى جا رہى تھى ، چنانچہ مسلمانوں كے اموال كو ہڑپنے كے لئے ايك نيا حيلہ تلاش كر كے ايك دن حكم ديا كہ ساسانى بادشاہوں كى زمينوں پر جو كوفے كے اطراف ميں تھى اس پر كھيتى كى جائے اور اسكا خراج ہميں بھيج ديا

____________________

۱۷_ ابن عساكر ج۵ ص ۴۰۹ ، طبرى ج۴ ص ۲۵۹

۱۸_ مروج الذھب ، انساب الاشراف

۱۹_ تاريخ ابن اثير ج۳ ص ۲۰۲ ، سير اعلام النبلا ج۲ ص ۳۴۰

۱۱۰

جائے ، ان زمينوں كاسالانہ ٹيكس تقريبا پانچ لاكھ درہم ہوتا تھا _

دوسرى مرتبہ حكم ديا كہ بصرہ كے اطراف كى پيدا وار بصرہ سے متعلق ہے اور اسكا حاكم عبد الرحمن بن ابو بكر ہے _

تيسرى مرتبہ امير شام معاويہ نے يہ حكم ديا كہ _ آيا م نوروز ميں ايراني، گذشتہ باد شاہوں كو تحفہ و تحائف ديتے تھے اس سال ميرے پاس تحفے بھيجيں ، گويا وہ عصر جاہليت كا امپراطور بنا ہوا تھا ، اور اپنے باپ كى وصيت كہ'' خلافت كو بادشاہت ميں تبديل كر دينا'' كو عملى جامہ پہنا رہا تھا _

ايران و عراق كے غريبوں كو جو آيا م نو روز ميں تحفہ دينا ضرورى تھا تقريبا لاكھوں درہم تك پہونچتا تھا(۲۰)

معاويہ نے صرف كوفہ و بصرہ كى پيداوار كو غصب نہيں كيا بلكہ يمن ، شام ، اور بين النہرين پر بھى ہاتھ مار كر ان زمينوں كو جو حكومتى تھيں ہڑپ ليا ، اس طرح اكثر بلاد اسلامى كى دولت و ثروت خاندان اموى اور معاويہ كے رشتہ داروں ميں چلى گئي _

معاويہ كى ہٹ دھرمى اس قدر بڑھ گئي تھى كہ دو مقدس شہروں مكہ و مدينہ كو بھى نہيں چھوڑا اور ان دونوں شہروں سے اسكے پاس خرما اور گيہوں اتے تھے اسى ميں فدك بھى تھا جو معاويہ نے مروان بن حكم كو ديديا تھا(۲۱)

جب حكومت اموى مضبوط ہو گئي تو معاويہ كى سياست بھى بدل گئي ابھى تك دشمنوں سے اچھے روابط تھے ليكن جب انكو دولت و رياست كے ذريعہ رام كر ديا تو اپنے كينہ ديرينہ كو اشكار كيا ، لہذا جب مدينہ آيا اور بنى ہاشم اپنى مشكلات كو ليكر گئے تو انكو ديكھتے ہى كہنے لگا كہ _ كيا كام ہے آيا اس ميں راضى نہيں ہو كہ ہم تمھارے خون كو ( قتل عثمان كے باوجود ) محترم جانے ہوئے ہيں ؟

خدا كى قسم _ تم لوگوں كا خون بہانا جائز ہے ؟

معاويہ كا لب و لہجہ اتنا برا تھا كہ گويا اس نے كچھ كيا ہى نہيں ہے اور عثمان كى مدد ميں گويا اپنى كوتاہى بھول بيٹھا ہے ؟

بات اتنى بڑھ گئي كہ امير المومنين كے شاگرد ابن عباس ( حبر امة ) بول اٹھے

____________________

۲۰_ يعقوبى ج۲ ص ۲۱۸ چاپ بيروت

۲۱_ يعقوبى ج۲ ص ۲۳۴

۱۱۱

اے معاويہ _ جو كچھ تم نے ہمارى نسبت كہا ہے تيرى شرارت و خباثت باطنى كے علاوہ كچھ نہيں ہے _

خدا كى قسم ، پہلے تم اس سزا كے مستحق ہو كيونكہ تم نے خون عثمان كے نام پر لوگوں كو بھڑكايا اور اس كے خون كا بدلہ لينے كے لئے تم اٹھے _

ابن عباس نے اتنا سنايا كہ معاويہ كو پانى پانى كر ديا ، پھر انصار ملنے گئے تو معاويہ نے ان لوگوں سے سخت لہجہ ميں گفتگو كى اور انكو ذليل كرنے كے لئے ايك جملہ چست كيا كہ وہ تمہارے پانى ڈھونے والے اونٹ كيا ہوئے ؟

انصار نے غصہ ميں جواب ديا ، جس وقت جنگ بدر ميں باپ بھائي اور دادا كو مارا تھا اس وقت انكو ہاتھ سے كھو ديا _

پھر انصار نے كہا كہ _ ہم صرف خدا و رسول كے حكم كى بنا پر چھوڑ رہے ہيں _

معاويہ نے پوچھا _ يہ بتائو تم كو كيا وصيت كيا ہے ؟

ان لوگوں نے كہا صبر و نيكى كا حكم ديا ہے معاويہ نے كہا _ تو پھر صبر كرو

جس گھڑى مدينہ سے معاويہ شام واپس ہونے لگا تو ا س كى كوئي خواہش پورى نہيں ہوئي(۲۲) _

اسى سفر ميں معاويہ نے يہ حكم ديا كہ منبر و عصاء رسول (ص) كو شام لے چلو كيونكہ اہل مدينہ نے عثمان كو قتل كيا ہے لہذا ان چيزوں كا يہاں رہنا مناسب نہيں ہے مامورين ايك طرف عصاء رسول(ص) كو تلاش كر رہے تھے تو دوسرى طرف منبر كو اٹھا رہے تھے مورخين كہتے ہيں _

جيسے ہى مامورين نے منبر كو اٹھايا تو آواز انے لگى اور سورج كو گہن لگ گيا لہذا انھوں نے اسكو چھوڑ ديا(۲۳)

بعض كہتے ہيں كہ اصحاب پيامبر (ص) نے منع كيا اور اس طرح نقشہ معاويہ نقش بر اب ہو كر رہ گيا ، جس زمانے ميں معاويہ نے اپنى سياست بدل دى تھى ، اور اپنى پرانى عادت پر اگيا تھا ، تو اكثر شيعيان حيدر قيد و شكنجے ميں تھے ، كيونكہ معاويہ نے تمام حكمرانوں كو دستور دے ديا تھا كہ منبروں سے امام (ع) بزرگوار پر نفرين كى جائے ، لہذا امام (ع) كے چاہنے والوں كے لئے ان دو راستوں كے علاوہ كوئي چارہ نہيں تھا ، _۱_ يا جنگ كريں تو اس صورت ميں يا قتل كئے جاتے ہيں يا زندان كى زندگى گزارتے ہيں _ ۲_ يا چپ رہيں تو پھر دل دكھتا ہے _

جب مغيرہ بن شعبہ حاكم كو فہ بن كر جا رہا تھا تو معاويہ نے اس سے كہا كہ ، ہميں تم سے مختلف موضوعات پر گفتگو كرنى تھى

____________________

۲۲_ يعقوبى ج۲ ص ۲۲۳

۲۳_ ابن اثير ج۳ ص ۱۹۹ _ مروج الذھب ج۳ ص ۳۵ چاپ سعادت

۱۱۲

ليكن ان تمام باتوں كو چھوڑتا ہوں كيونكہ تم ايك فہيم و چالاك انسان ہو ، مگر ايك بات جو بہت ضرورى ہے وہ يہ ہے كہ على (ع) پر نفرين كرنا نہ بھولنا _اور عثمان كے حق ميں ضرور دعا كرنا اس كے بعد شيعيان على (ع) كے بارے ميں كہا كہ ان پر كڑى نظر ركھنا اور ان سے سختى سے پيش انا اور عثمان كے چاہنے والوں كے ساتھ اچھا سلوك كرنا اور انكو ہم مصاحب بنانا ؟

معاويہ كے اس بدترين دستور نے خون كا بازار گرم كر ديا تاريخ اسلام اسكى شاہد ہے جسكى تفصيل ائندہ بيان ہو گى _

شيعہ شكنجہ و ازار ميں

اس سے پہلے اجمالى طور پر بيان ہو ا كہ معاويہ نے اپنے تمام حكمرانوں كو حكم دے ديا تھا كہ مواليان امير المومنين (ع) كو ايذاء و اذيت دى جائے اور حضرت امير المومنين (ع) پر على الاعلان لعنت بھيجى جائے _ يہ حكم تمام بلاد اسلامى ميں نافذ ہو گيا تھا اور ان امور كى انجام دہى ميں خلافت كى بڑى مشيزياں ايڑى چوٹى كا زور لگانے لگى تھيں _

مغيرہ بن شعبہ جو كوفے پر حكومت كر رہا تھا اس نے كبھى اس كام سے پہلو تہى نہيں كى اور جب تك حاكم كوفہ رہا اس نے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا _ البتہ اس كى باتوں كا منھ توڑ جواب حجر بن عدى جيسے بہادر نے ہميشہ ديا _ مگر مغيرہ كے جہنم واصل ہونے كے بعد حكومت كوفہ پر زياد بن ابيہ حاكم منصوب ہوا _ اس نے بھى حسب دستور قديم وہى كيا جس كى بناء پر كوفہ ميں بار ديگر لعن طعن كا سلسلہ شروع ہو گيا ايك روز زياد نے كچھ كہا تو شير دل حجر بن عدى نے اس كا منھ توڑ جواب ديا _

مورخين لكھتے ہيں :

ايك روز زياد بن ابيہ نے خطبہ كو بہت طول ديديا حجر بن عدى ڈرے كہ كہيں نماز كا وقت نہ نكل جائے _ لہذا با واز بلند كہا نماز _ پھر بھى كان نہيں دہرا _ جب تيسرى مرتبہ بھى ايسا ہى ہوا تو حجر بن عدى نے ايك مٹھى خاك اٹھا كر زياد كے اوپر پھينك دى اور نماز كے لئے كھڑے ہو گئے ان كو ديكھ كر دوسرے لوگ بھى نماز پڑھنے لگے _ زياد نے مجبوراً اپنے خطبہ كو تمام كر كے ان لوگوں كے ساتھ نماز كے لئے كھڑا ہو گيا _

۱۱۳

جب نماز تمام ہو گئي تو زياد نے اپنے چوكيداروں سے كہا كہ حجر بن عدى كو گرفتار كر لو _

ليكن ان كے رشتہ داروں ( قبيلہ كندہ ) نے ان كو كہيں چھپا ديا _ لہذا حكومتى مامورين حجر بن عدى كو گرفتار نہ كر پائے _

زياد نے حجر بن عدى كو گرفتار كرنے كے لئے ايك حيلہ اختيار كيا كہ _ قبيلہ كندہ كے سرداروں كو بلا كر يہ كہا كہ ہم حجر بن عدى كو امان ديكر معاويہ كے پاس بھيجيں گے _ تاكہ وہ ان كے بارے ميں فيصلہ كرے _

ان لوگوں نے اس كى بات مان ليا _ زياد نے حجر اور ان كے گيارہ ساتھيوں كو ليكر قيد خانہ ميں ڈالديا پھر شہر كے مشہور ضمير فروشوں كى گواہى و دستخط لے كر حجر اور ان كے ساتھيوں پر الزام لگايا كہ ان لوگوں نے خليفہ وقت معاويہ كو برا بھلا كہا ہے اور لوگوں كو اپ كے خلاف جنگ اور حاكم كوفہ كے خلاف ورغلايا ہے _

ان دستخطوں ميں قاضى شہر شريح بن بانى كى بھى جعلى دستخط كر كے زياد نے معاويہ كے پاس ان لوگوں كے ساتھ خط بھى روانہ كيا ،_ جب شريح كو يہ بات معلوم ہوئي تو شہر سے نكلا اور ان لوگوں كا پيچھا كيا اور جب ملاقات ہو گئي تو ايك خط ان كے ہاتھ سے معاويہ كے پاس بھيجوايا جب زياد كے مامورين حجر اور انكے ساتھيوں كو ليكر معاويہ كے پاس پہونچے توان لوگوں نے زياد كا خط ديا اور ساتھ ہى ساتھ قاضى شريح كا بھى خط ديا _

جب امير شام معاويہ نے جھوٹى گواہى اور شريح كا خط پڑھا جس ميں يہ لكھا تھا كہ مجھے معلوم ہوا ہے كہ زياد نے ميرى طرف سے جھوٹى گواہى اپنے خط ميں لكھى ہے جبكہ ميرى گواہى يوں ہے حجر عابد ، شب زندہ دار ، زكات دينے والا اور ہر سال حج و عمرہ كو انجام ديتا ہے ، امر با لمعروف و نہى از منكر كرتا ہے ، يہ وہ شخص ہے جو دوسروں كے جان و مال پر تجاوز ، حرام جانتا ہے اب تمہيں اختيار ہے كہ چاہے قتل كرو يا اسكو چھوڑ دو _

معاويہ نے شريح كا خط پڑھنے كے بعد كہا كہ اس شخص نے اپنى شہادت كو ان لوگوں سے الگ كر ليا ہے معاويہ نے حكم ديا كہ ان لوگوں كو '' مرج غدرا ئ'' ميں جو دمشق كے نزديك تھا قيد كر دو _

مگر حجر كے ساتھى زيادہ دن قيد خانہ ميں نہيں رہے ، كيونكہ بعض لوگوں نے سفارش و پيروى كر دى تو معاويہ نے انكو ازاد كر ديا ، ليكن كچھ افراد كے لئے معاويہ نے دوسرا حربہ استعمال كيا كہ اپنے سپاہيوں كے ذريعہ سے ان لوگوں كو خوب ڈرايا دھمكايا تاكہ يہ لوگ حضرت على (ع) كو برا بھلا كہنے لگيں تب جا كر ازاد كرے گا_

اس مقام پر باقيماندہ افراد دو گروہ ميں بٹ گئے ، وہ افراد جو حقيقى معنوں ميں امام (ع) كے چاہنے والے تھے اور اسلام انكى نظروں ميں تھا ان لوگوں نے كہا نہيں

۱۱۴

چنانچہ معاويہ كے مامورين نے انكى انكھوں كے سامنے قبر كھودى كفن تيار كيا ليكن حجر اور ان كے بعض ساتھى ٹس سے مس نہ ہوئے بلكہ ، اپنى زندگى كى اخرى رات كو عبادت الہى ميں گزارى ، جى نہيں ، بلكہ جو مخلص و مومن ہوتے ہيں وہ صرف اخرى لمحات كو عبادت ميں نہيں گزارتے بلكہ انكى پورى زندگى ياد خدا ميں گذرتى ہے تاكہ جب اپنے محبوب سے ملاقات كريں تو سب سے با فضيلت شمار ہوں _

صبح سويرے ان لوگوں كو قتل كرنے كے لئے لايا گيا ، حجر نے سپاہيوں سے كہا كہ مجھے اتنى مہلت ديدو كہ وضو كر كے نماز پڑھ لوں ، اس لئے كہ جب بھى ہم نے وضو كيا ہے ضرور نماز ادا كى ہے سپاہيوں نے نماز كى اجازت دى اپ نے نماز زيادہ طولانى نہيں پڑھى اسكے بعد بارگاہ خدا وندى ميں دونوں ہاتھوں كو بلند كر كے كہا ، پروردگارا ، ہم مسلمانوں كى شكايت تيرى بارگاہ ميں كرتے ہيں ، اسكے بعد كہا ، خدا كى قسم ، اگر تم لوگوں نے مجھے اس سر زمين پر قتل كيا تو ياد ركھو ميں پہلا وہ شخص ہوں جس نے اس سر زمين پر تكبير بھى كہى اور اتے ہى مار ڈالا بھى گيا _

جب جلاد شمشير ليكر اگے بڑھا تو حجر بن عدى كا جسم تھوڑا سا كاپنے لگا ، ان لوگوں نے كہا كہ تم تو كہتے تھے كہ ہم موت سے نہيں ڈرتے ہيں اب بھى موقع غنيمت ہے اپنے اقا مولى سے بيزارى اختيار كر لو تاكہ جان بچ جائے_

حجر بن عدى نے كہا ، اخر ہم كيوں نہ خوف كھائيں قبر كھودى ہوئي ہے كفن امادہ اور اپنے سامنے تلوار كونپى ہوئي ديكھ رہا ہوں ، پھر بھى موت سے نہيں ڈر رہا ہوں بلكہ زبان سے وہ بات نكل نہ جائے جس سے خدا غضبناك ہو جائے _

حجر اور ان كے ساتھى شھيد كر ديئےئے

ليكن حجر كے دو ساتھيوں نے سپاہيوں سے كہا كہ ہم لوگوں كو معاويہ كے پاس لے چلو ہم لوگ امير المومنين (ع) سے بيزارى كرتے ہيں _

يہ دونوں معاويہ كے يہاں لائے گئے تو معاويہ نے ايك سے مخاطب ہو كر كہا ، آيا على كے دين سے تم بيزار ہو ؟

اس نے سكوت اختيار كر ليا تو اسكے رشتہ دار نے معاويہ سے سفارش كر كے اسكو چھوڑ اليا اور حكم ديا كہ انكو شہر موصل جلا وطن كر ديا جائے _

معاويہ دوسرے شخص سے مخاطب ہوا اور اس سے كہا ، اے برادر ربيعى تم على كے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟

اس نے جواب ديا كہ مجھے چھوڑ دو اور اس سوال سے در گزر كرو كيونكہ تيرے حق ميں بہتر ہے، معاويہ نے كہا ، خدا كى قسم

۱۱۵

ہم تم كو كسى صورت ميں نہيں چھوڑيں گے اس مرد كوفى نے للكارتے ہوئے كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ على (ع) وہ تھے جو عبادت گذار اور انھوں نے حق كى تلقين كى عدالت كو قائم كيا اور لوگوں كى خطائوں كو معاف كيا _

امير شام معاويہ نے پوچھا ، عثمان كے بارے ميں تمھارا كيا خيال ہے _

مرد كوفى نے كہا ، عثمان پہلا شخص تھا جس نے ظلم و ستم كے دريچے كو باز كيا اور راہ حق كو مسدود كيا ،معاويہ نے كہا ، تم نے خود كو موت كے منھ ميں ڈالا ہے _

كوفى شير نے كہا ، جى نہيں ، ہم نے تم كو مار ڈالا ہے

پھر عرض كيا اس مقام پر قبيلہ ربيعہ كا كوئي فرد نہيں ہے جو ہمارى مدد كرے ، اس وقت معاويہ نے كہا كہ زياد بن ربيعہ كے يہاں بھيجدو اور معاويہ نے زياد كو خط لكھا كہ اس شخص كو اذيت و تكليف كے بعد قتل كرنا، زياد پليد نے معاويہ كے دستور كو انكھوں پر لگايا اور اس مرد كوفى كو امير المومنين كى محبت كے جرم ميں زندہ در گور كر ديا گيا(۲۴)

ابن عبد البر اپنى مشھور كتاب استيعاب ميں لكھتے ہيں :

جس وقت حجر بن عدى قتل كئے جا رہے تھے تو انكے خاندان كے افراد وہاں موجود تھے انھوں نے وصيت كى كہ جب ہم قتل كر ديئے جائيں تو ميرى ہتھكڑيوں كو ہاتھ سے نہ اتارنا اور نہ ہى غسل دينا تاكہ اسى حالت ميں معاويہ سے پل صراط پر ملاقات كريں اور اسكى محشر ميں اسى عالم ميں شكايت كريں(۲۵)

معاويہ نے جس طرح حجر اور انكے ساتھيوں كو قتل كيا اسى طرح اكثر شيعيان على (ع) كو خاك و خون ميں غلطاں كيا ، كيونكہ ايك طرف ان لوگوں سے اپنے كينہ ديرينہ كو نكالا تو دوسرى طرف اپنى حكومت كے ستون كو مضبوط كيا اس لئے كہ ہر گھڑى ممكن تھا كہ جاہليت كے لئے دوسرا وبال جان كھڑا نہ ہو جائے ، اور شورش و فتنہ كى اگ بھڑك نہ اٹھے ورنہ حكومت كے لئے خطرہ كى گھنٹى بجنے لگے گى ، ہاں _ امير شام معاويہ نے اپنى حكومت كو ٹھوس كرنے كے سلسلے ميں كسى منكرات سے رو گردانى نہيں كى ، معاويہ نے دور جاہليت كا طور طريقہ اپنا ركھا تھا جب جہالت حكومت كرے اور كوئي

___________________

۲۴_ طبرى ج۶ ص ۱۵۵

۲۵_ استيعاب اسد الغابہ ج۱ ص ۳۸۶

۱۱۶

قانون نہ رہے تو با عظمت انسانوں كى كوئي قدر و قيمت نہيں رہتى ہے ، اس نے اپنے ابتدائي بيس سالہ خلافت كو حكومت ميں تبديل كيا اور جب حكومت مستحكم ہو گئي تو اسكو موروثى بنا كر اپنے بيٹوں ميں سونپنا چاہا جسكى تفصيل ائندہ آئے گي

حكومت خاندانى ہوتى ہے

جب معاويہ كى حكومت قائم ہو گئي اور اسكے ستون استوار ہو گئے اور اسكو كسى چيز كا خطرہ نہيں رہا تو ايك فكر نے جنم ليا ، اور شايد كہا جا سكتا ہے يہ كوئي نئي بات نہيں تھي، بلكہ اسكے باپ ابو سفيان كى وصيتوں ميں سے ايك تھى جس كو اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ وہ حكومت اموى كو خاندانى بنانے كى فكر تھى _ اس ہدف تك پہونچنے كے لئے معاويہ نے بہت ايڑى چوٹى كا زور لگايا اور مقصد كے حصول كى خاطر حيلہ و مكارى اور جنايت كا سہارا ليا _

مشہور دانشور ابن عبد ربہ اندلسى لكھتے ہيں :

معاويہ نے مسلسل سات سال تك مكار سيا ستمداروں كو بڑھايا اور دولت و ثروت كے ذريعہ لوگوں كو قريب كيا پھر مكاران وقت پر لطف و مہربانى كر كے انكو اپنے ہاتھوں ميں ليا ، تب جا كر اس بات كى كوشش كى كہ لوگوں كو بيعت يزيد پر امادہ كرے _

امير شام معاويہ نے جس طرح اپنى حكومت كو مستحكم كرنے ميں تمام فريبانہ الات سے كام ليا تھا اسى طرح يزيد كى بيعت كے سلسلے ميں ہو بہو انھيں وسائل كو بروئے كار لايا ، يہ وہ وسائل تھے جو معاويہ كى راہ ميں كام ارہے تھے ، اور اگر اسكى مكارى و دھوكہ دھڑى مات كھا جاتى تھى تو فورا حربہ كو استعمال كر ليتا تھا حتى مسالمت اميز دشمن كو بھى قتل كرنے سے خوف نہيں كھاتا تھا_

بعض مورخين نے حكومت كو مورثى بنانے كى يوں منظر كشى كى ہے

ابن اثير لكھتے ہيں كہ :يزيد كى بيعت كے سلسلے ميں جس شخص نے سب سے پہلے پيشنہا د كى وہ مغيرہ بن شعبہ ہے جب معاويہ نے مصمم ارادہ كر ليا كہ اسكو حكومت كوفہ سے بر خاست كر كے اسكى جگہ سعيد بن عاص كو جس كا شمار امويوں ميں ہوتا تھا اس شہر كا حاكم منصوب كر دے ، اور اسكى خبر مكار مغيرہ كو ہو گئي تو يہ چند ،ساتھيوں كے ساتھ شام آيا ، جب شہر دمشق

۱۱۷

ميں داخل ہوا تو اپنے ساتھيوں سے كہا ، اگر ہم لوگ اس ملاقات ميں اپنى حكومت كو نہ بچا سكے تو ياد ركھو كہ ہميشہ كے لئے سنہرا موقع ہاتھ سے كھو دينگے _

پہلے يزيد كے پاس آيا اور اس سے يوں گفتگو كى كہ ، اصحاب رسول (ص) و بزرگ سردار قريش سب كے سب دنيا سے رخت سفر باندھ چكے ہيں اب صرف ان كى اولاديں رہ گئي ہيں ، ان ميں سب سے بہتر تم ہو اور سنت رسول اكرم (ص) سے واقفيت بھى ركھتے ہو نيز حكومت چلانے كى صلاحيت بھى تم ميں پائي جاتى ہے ؟

مگر مجھے نہيں معلوم كہ امير المومنين ( معاويہ ) كو كن مشكلات كا سامنا ہے جو لوگوں سے تمہارى بيعت نہيں لے رہے ہيں ؟

يزيد نے كہا ، اگر اس كام كو انجام ديا جائے تو بہتر ہوگا ؟

مغيرہ نے كہا ، جى كيوں نہيں ، ملاقات تمام ہو گئي ، ان تمام باتوں كو يزيد نے معاويہ سے بيان كيا ، معاويہ نے مغيرہ بن شعبہ كو بلايا اور اس سے حالات معلوم كئے مكار مغيرہ نے كہا، كہ تم تو خود حالات كو جانتے بھى ہو اور اس كا مشاہدہ بھى كئے ہوئے ہو كہ عثمان كے بعد ان تمام خونريزيوں و جنگوں كے ذريعہ تخت حكومت پر آئے اور يزيد تيرى جانشينى كا حقدار بھى ہے ، لہذا اس ميں ديرنہ كرو اور اسكے لئے لوگوں سے بيعت لو ، اگر كوئي مہم در پيش ہوئي تو لوگوں كى پشت پنا ہى سے تمہارا جانشين بن جائے گا اور ايك قطرہ بھى خون كا زمين پر نہيں گرے گا _

معاويہ نے كہا، اسكى ذمہ دارى كو ن قبول كرے گا _

مغيرہ نے جواب ديا ،كوفہ كى ذمہ داريوں كو ميں سنبھالتا ہوں اور زياد كو بصرہ كى ذمہ دارى سونپ دى جائے ، پھر ان دونوں شہروں كے بعد كسى ميں ہمت و جرائت نہيں ہے كہ تمھارى مخالفت كرے _

معاويہ نے كہا ، تم كوفہ چلے جائو اور اس سلسلہ ميں اپنے دوستوں سے صلاح و مشورہ كرو ، پھر ديكھا جائے گا كہ حالات كس كروٹ ليتے ہيں _

مغيرہ بن شعبہ اپنے ساتھيوں كے ساتھ واپس چلا آيا اور عرض كيا ہم نے معاويہ كو اس سر كش مركب پر سوار كر ديا ہے جسكى منزل بہت دور ہے اور امت محمد (ص) كے امور كو اس طرح پارہ پارہ كر ديا ہے كہ ہرگز جڑ نہيں سكتا _

مغيرہ بن شعبہ نے كوفہ پہونچتے ہى كچھ دوستداران بنى اميہ كو اپنے فرزند موسى كے ہمراہ شام بھيجا ، اور ان لوگوں ميں تين لاكھ درھم تقسيم كئے تاكہ معاويہ كے پاس جا كر يزيد كى بيعت كے لئے پيشكش كريں _

۱۱۸

جب معاويہ سے ملاقات كرنے گئے اور اس بات كو اسكے سامنے ركھا تو اس نے جواب ديا كہ ابھى اس كام ميں جلدى نہ كرو البتہ ايسا نہ ہو كہ تم لوگ اپنى رائے كو بھول بيٹھو پھر فرزند مغيرہ كو چپكے سے بلايا اور اس سے كہا ،كہ تمہارے باپ نے ان لوگوں كے دين كو كتنے ميں خريدا ہے ، موسى نے كہا ، تين لاكھ درہم ميں _

معاويہ نے كہا _ ان لوگوں نے بہت سستے ميں اپنا دين بيچ ڈالا ہے(۲۶)

يزيد كى بيعت بصرہ ميں

جس زمانے ميں مغيرہ بن شعبہ اہل كوفہ كو بيعت يزيد پر ابھار رہا تھا تو اس وقت معاويہ نے حاكم بصرہ زياد بن ربيعہ كو يوں خط لكھا :

مغيرہ اہل كوفہ سے يزيد كى بيعت لے رہا ہے جبكہ تم مغيرہ سے ان امور ميں زيادہ حقدار ہو كيونكہ يزيد تمہارے بھائي كا بيٹا ہے ، لہذا جيسے ہى ميرا خط ملے فورا بصرہ والوں سے يزيد كى خلافت و وليعہدى كے سلسلے ميں بيعت لو _

جب معاويہ كا خط زياد كو ملا تو اس نے اسكو پڑھنے كے بعداپنے جگرى دوست كو بلايا اور اس سے كہا كہ ہم تمہارے اوپر بھروسہ كرتے ہوئے ايك پيغام تمہارے حوالے كرنا چاہتے ہيں اور اس پيغام كے پہونچانے كا حق تمہيں كو ہے _

معاويہ كے يہاں جا كر كہنا كہ تمہارا خط ملا اور اس ميں جس چيز كے سلسلہ ميں لكھا ہے اگر اسكى طرف لوگوں كو دعوت دوں تو اہل بصرہ كيا كہيں گے جبكہ يزيد كتا اور بندر سے كھيلتا ہے _ اور ہر روز رنگ برنگ كا فاخرہ لباس زيب تن كرتا ہے اور ہميشہ شراب ميں مست رہتا ہے ، نيز گانے بجانے سے بھى پرہيز نہيں كرتا در انحاليكہ اسكے مقابلے ميں حسيں بن على (ع) ، عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن زبير ، اور عبد اللہ بن عمر ، جيسے افراد موجود ہيں ، لہذا ايك صورت باقى رہ جاتى ہے كہ تم اس سے كہو كہ ايك دو سال اپنے رقيبوں كى طرح اخلاق سے اراستہ و مزين ہو اس صورت ميں جا كر شايد، ہم لوگوں كو فريب دينے كى كوشش كريں زياد كے فرستادہ نے ان باتوں كو معاويہ سے بيان كيا _

معاويہ نے كہا _، وائے ہو فرزند عبيد پر خدا كى قسم ميں نے سنا ہے كہ گانے والى عورتوں نے اسكے بارے ميں كہا كہ

____________________

۲۶_ ابن اثير ج۳ ص ۱۵ ، طبرى ج ۶ ص ۱۷۰

۱۱۹

ميرے بعد امير زياد ہوگا _

خدا كى قسم _ اسكے نسب كو اسكى ماں سميہ اور غلام عبيد سے بار ديگر جوڑ دونگا(۲۷)

طبرى و ابن اثير نے تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ اس داستان كى تفصيل كو يوں بيان كيا ہے_ زياد كے دوست نے كہا :

تم معاويہ كے حكم كو نظر انداز نہ كرو اور يزيد كو اس طرح برا بھلا نہ لكھو ، ہم يزيد كے پاس جاتے ہيں اور اس سے كہتے ہيں كہ خليفہ ( معاويہ ) نے تمہارى بيعت كے سلسلہ ميں زياد سے صلاح و مشورہ ليا ہے ، ليكن زياد لوگوں كى مخالفت سے ہر اساں ہے كيونكہ تمہارے اعمال نا شائستہ كو لوگ ديكھ رہے ہيں لہذا زياد كى رائے يہ ھيكہ تم ان افعال سے دستبردار ہو جائو تاكہ امكان بيعت اور تمہارى خلافت كى راہ ہموار ہو جائے زياد نے اپنے جگرى دوست كى رائے كو پسند كيا اور اسكو شام بھيجا ، اس نے يزيد سے ملاقات كى اور زياد كى رائے كو بيان كيا ، يزيد نے بھى زياد كے مشورے كو سراہا پھر وقتى طور پر منكرات سے دستبردار ہو گيا _

جب فرستادہ زياد نے معاويہ كو خط ديا تو اس ميں زياد نے لكھا تھا كہ ابھى اس كام ميں جلدى نہ كرو اس نے بھى زياد كى رائے كو پسند كيا ليكن جب زياد اس دنيا سے چلا گيا ، تو معاويہ نے بيعت يزيد كے لئے اپنى كمر كس لى اور سب سے پہلے اس كام كے لئے عبد اللہ بن عمر كے پاس ايك لاكھ درھم بھيجوايا ، جب عمر كے سپوت نے اس بھارى رقم كو قبول كر ليا تو فرستادہ معاويہ نے يزيد كى بيعت كرنے كے لئے كہا : عبد اللہ بن عمر نے كہا ، اچھا معاويہ كى يہ خواہش تھى اگر ہم اس قليل رقم ميں يزيد كى بيعت كر ليں تو گويا اپنے دين كو بہت سستے ميں فروخت كر ديا ہے(۲۸)

شام ميں يزيد كى بيعت

مشہور عالم ابن اثير لكھتے ہيں :

'' جس گھڑى معاويہ نے خلافت يزيد كا مصمم ارادہ كر ليا تو اہل شام كے درميان يوں خطبہ ديا _ اے لوگو_ ميں بوڑھا ہو چكا ہوں اور موت تعاقب كر رہى ہے لہذا ميں چاہتا ہوں كہ ايك شخص كى تم لوگوں سے بيعت لے لوں ، مگر شرط يہ ہے

___________________

۲۷_ استيعاب ابن كثير

۲۸_ مسند احمد ج۴ ص ۹۲

۱۲۰