تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 213
مشاہدے: 60127
ڈاؤنلوڈ: 3717


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 60127 / ڈاؤنلوڈ: 3717
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد 3

مؤلف:
اردو

پھر تم ہم سے ہميشہ كے لئے علحدہ ہو جاو گے اور ہم سے وفادارى اور مہر بانى كا كوئي اثر نہيں ديكھو گے اثنائے جنگ ميں ايك انصارى سپاہى نے ھندہ كو ديكھا كہ مشركوں كو جنگ پربھا رہى ہے تو وہ تلوار كھينچ كر ا س كى طرف لپكاليكن جب اسنے ديكھا كہ وہ جنگى سپاہى مرد نہيں ہے عورت ہے تو اسكے قتل سے باز آيا اور مردانہ انداز ميں واپس لوٹ گيا _

يہ جنگ، جيسا كہ بيان كيا گيا اسلام كے لئے بہت سخت اور سنگين ثابت ہوئي اس جنگ ميں مسلمانوں كے ستّر پاك نفس سپاہى قتل ہوئے ان شہيدوں ميں سب سے زيادہ مشہور حضرت حمزہ تھے جو پيغمبر(ص) اسلام كے چچا تھے ،اپ كا قتل ابو سفيان اور ھند ہ كى كوششوں سے ہو ا اپ كا قاتل جبير ابن مطعم كا غلام وحشى تھا _

كسى نہ كسى طرح جنگ ختم ہوئي ميدان ميں شھداء خاك و خون ميں ا غشتہ پڑے تھے ليكن مكہ والوں كى روح درندگى كو چين نہيں تھا ،معاويہ كى ماں ھندہ كى سر كردگى ميں عورتيں شہداء احد كے درميان ائيں ہر ايك نے اپنے ہاتھ ميں ہتھيار لے ركھا تھا انھوں نے شھداء اسلام كے كان ناك اور انكھ كاٹ ڈالے ،يہ كاٹے ہوئے اعضاء اتنے زيادہ تھے كہ ھندہ نے مجاہدوں كے كان اور ناك كا گلو بند اور دست بند بُن كر بنا ليا ،اس عورت نے وحشى كى اس خدمت كے صلے ميں اپنا دست بند اور اپنے سينہ كا زيور اسے بخش ديا_

پھر وہ حضرت حمزہ كى لاش پر ائي پھر اس نے رسول (ص) كے چچا شير خداكا پہلوچيرا اور اپ كاجگر نكال كر انتہائي سنگ دلى كے ساتھ اسے منھ ميں ركھ كر دانت سے كاٹاتاكہ نگل جائے ليكن وہ نگل نہ سكى مجبوراً اسنے منھ سے باہر نكالا اسى شرمناك حادثہ كى وجہ سے اسكالقب جگر خوار ہو گيا وہ اپنے اس كرتوت كے بعد ايك اونچى پہاڑى پر چڑھ گئي اور يہ اشعار پڑھنے لگي

ہم نے تم سے جنگ بدر كابدلہ لے ليا

جنگ كے بعد جنگ كى اگ بھڑكتى ہے

مجھے عتبہ كى موت پر ہر گز چين نہيں نااپنے بھائي نہ اپنے چچاشيبہ اور نہ اپنے فرزند حنظلہ كى موت پر اب ميرے دل كو شفاء حاصل ہوئي ہے

۲۱

ميں اپنى تمام عمر وحشى كى شكر گزارر ہونگي يہاں تك كہ ميرى ہڈياں قبر ميں گھل كر مٹى ہو جائيں

_اسكے جواب ميں بنى ہاشم كى ايك خاتون ھند بنت اثاثہ نے يہ اشعار كہے

تو جنگ بدر ميں بھي، اور اسكے بعد بھى ،ذلّت اور پستى ميں مبتلاہوئي

اے ذليل كفر كى بيٹي

اللہ تجھے روزى پہونچائے كہ تو بنى ہاشم كى اپى ہوئي تلواروں كا سامناكر سكے

حمزہ ہمارا بہادر شير تھا اور على بھى تيز چنگل والا

جس وقت تيرا باپ اور چچا،ہمارے قتل كى فكر ميں تھا تو ان لوگوں نے ان كے گلے كو خون ميں ا غشتہ كرديا

يہ تيرى منحوس نظر تھى _ ہائے كيسى منحوس نظر تھى

جنگ احدكے بعد ايك شخص حليس جو اپنے قبيلہ كا رئيس تھا يہ اپنے قبيلے كاسردار اور قريش كاحليف تھااس شخص نے ميدان جنگ ميں ابو سفيان كو ديكھا كہ حضرت حمزہ كى لاش پر كھڑا ہے اور اپنے نيزے سے انكى لاش كو جھجھوڑكر كہہ رہا ہے _

موت كى تلخى چكھ لو ،اے وہ كہ تم نے رشتہ دارى ختم كر دى تھى اسكا مطلب يہ تھاكہ تمھيں اس بات كى سزا ملى ہے كہ تم مسلمان ہو گئے ،قبيلہ قريش سے علحدہ ہو گئے اور تم نے قريش سے جنگ كى _

حليس(۱۷) نے يہ ذليل حركت ديكھى تو چلّانے لگا _ اے قبيلہ قريش كے لوگوں _ذرا ابو سفيان كى يہ كمينى حركت تو ديكھو يہ قريش كابزرگ كہاجاتا ہے ،ذراديكھو تو كہ اپنے چچاكے فرزند كى لاش كے ساتھ كيا برتاو كر رہا ہے ،جو خاك پر پڑى ہوئي ہے_(۱۸)

ابو سفيان نے اس سے كہا :

تجھ پر افسوس ہے _ اس وقت تونے جو ميرى حركت ديكھى اسے لوگوں سے بيان نہ كرنا ،يہ مجھ سے لغزش ہو گئي ،پھر ابو سفيان پہاڑ پر چڑھ كر چلّانے لگاھم نے كيا اچھا كام كيا ،ہميشہ جنگ كے دورخ ہوتے ہيں ،اج كا دن جنگ بدر كابدلہ ہے _

پھر اس نے آواز لگائي اعل ھبل يعنى ھبل كے جے ہو(۱۹)

____________________

۱۷_ حليس علقمہ ابن عمر و،ارقم كنانى كافرزند تھا انھوں نے قبيلہ ء بنى مصطلق اور بنى ہون سے معاھدہ كر ركھا تھااسى لئے اس پہاڑ كا نام كوہ احابيش مشہور ہو گيا

۱۸_ سيرت ابن ہشام ج ۳ص۶۰۹، طبرى ج۲ ص۵۲۷، ابن اثير ج۲ ص ۱۱۱

۱۹_ طبرى ج۳ ص ۵۲۶ ، انساب الاشراف ج۱ ص ۳۲۷

۲۲

رسول خدا (ص) نے حكم ديا كہ اس كے جواب ميں كہا جائے اللہ اعلى واجل _اللہ برتروبلند ہے

ابو سفيان نے مسلمانوں كے توحيد پرستانہ آواز كا جواب ديا ''الا لنا العزى ولاعزّى لكم'' اگاہ ہو جاو كہ ہمارے پاس تو عزى جيساخدا ہے اور تمھارے پاس عزى نہيں _

رسول(ص) خدانے حكم ديا كہ جو اب ميں كہو ''اللہ مولانا ولا مولالكم ''اللہ ہمارا سرپرست ہے اور تمھاراكوئي سرپرست نہيں واپس جاتے ہوئے ابو سفيان نے آواز لگائي اگلے سال ہم بدر كے كنو وں پر انے كاوعدہ كرتے ہيں رسول اللہ (ص) نے اپنے ايك ساتھى كو حكم دياكہ تم آواز ديدو ہاں _ائندہ سال ہم بدر پر انے كاوعدہ كرتے ہيں ،ابو سفيان اپنے قريشى ساتھيوں كے ساتھ ميدان احد سے چلا گيا ليكن كچھ دن بعد ا س نے خيال كيا كہ مسلمان شكست اور كمزورى سے دچار ہيں ا س لئے دوبارہ مدينہ كى طرف پلٹا ،تاكہ مسلمانوں كاخاتمہ كر دے رسول(ص) اللہ كوجب يہ خبر ملى تو اپ نے جنگى مسلمانوں كے ساتھ، شہر سے باہر اكر جنگ كے لئے تيار ہو گئے ،يہ ديكھ كر ابو سفيان كے ساتھيوں پر خوف كابھوت سوار ہو گيا اور وہ مجبور ہو كر واپس چلے گئے_

ھندہ جنگ احد ميں

جنگ احد ميں ھندہ كاكردار شوہر سے زيادہ سنگين تھابنيادى طور سے ا س نے جنگ بھڑكانے اور تبليغ سے اس اگ كو پھيلانے ميں بہت زيادہ حصہ ليا تھا چنانچہ وہ اس جنگ ميں عورتوں كو بھى اپنے ساتھ لے ائي تھى تاكہ قريش كى حميت كو ابھارے ،جيسا كہ ہم نے ديكھا كہ جنگ كے بعد بھى ا س نے شير اسلام حضرت حمزہ كاجگر نكال كر چبانا چاہا ،اس نے اس جنگ ميں اشعار بھى گنگنائے جس سے اس كے شديد كينئہ ديرينہ كا پتہ چلتا ہے ،بعض اشعار كو ہم نے ابھى درج كيا ہے اب يہاں كچھ اور بھى اشعار نقل كئے جاتے ہيں _

جنگ احد ميں ميرے دل كو ٹھنڈك ملى اور حمزہ كے ساتھ جو كچھ كيا اس سے مجھے بڑى راحت ملى ،جب ہم

۲۳

نے انكاپيٹ چيرااور جگر باہر نكالا اس برتاو سے ميرے احساس كو چين ملا جو كچھ ہمارے سينے ميں اندوہ پل رہا تھا جو خود ميرے وجود كو جلا رہاتھا جنگ بھڑكتى رہى اور اپنى اگ كے ساتھ تم پر ٹوٹ پڑى اور ہم شيرنى كى طرح تم پر حملہ اور ہوئے جنگ كے بعد ايك مسلمان نے انصار كے بزرگ شاعر حسّان ابن ثابت سے كہا:

اے كاش اپ نے ھندہ كے وہ اشعار سنے ہوتے جو اس نے ايك اونچے پتھر پر چڑھ كر پڑھے تھے اور شھيد راہ خدا حضرت حمزہ پر ڈھائے گئے مظالم كا فخر سے تذكرہ كيا تھا _

حسّان نے كہا كہ تم اسكى باتوں كو مجھ سے بيان كرو ميں ا س كا جواب دونگا وہ انصارى ھندہ كے اشعار پڑھنے لگا حسّان نے اپنے بہترين شعروں ميں ھندہ كى شرمناك حركتوں كا ان اشعار ميں جواب ديا _

اس پست فطرت عورت نے كيا كيا بدمعاشياں كيں اسكى تو عادت ہى يہى ہے وہ ہميشہ كى پست فطرت ہے اسكى اس پستى كے ساتھ كفر بھى ہے _

مشہور سيرت نگار ابن ھشام نے اس كاصرف ايك ہى شعر لكھ كر باقى اشعار چھوڑ دئے ہيں ، انھوں نے لكھا ہے كہ ميں نے حسان كے تمام اشعارا س لئے نہيں لكھے كہ انھوں نے اپنے شعروں ميں ھندہ كو بہت برا بھلا كہا ہے _

ليكن طبرى نے ان متذكرہ اشعار كے علاوہ قافيہ راء ميں گيارہ شعراوربھى لكھے ہيں

خدا وندعالم ھندہ پر لعنت كرے اور اسكے شوہر كو بھى لعنت ميں گرفتار كرے

اے ھندہ تو مردوں كے درميان ناچتى ہوئي ميدان احد ميں ائي حالانكہ تو اونٹ پر ہو دج ميں سوار تھى وہ ايسا سخت اونٹ تھا كہ تازيانہ اور شور فرياد سے بھى اپنى جگہ سے نہيں ہلتا تھا _

اپنے باپ اور بيٹے كے انتقام ميں ،جو جنگ بدر ميں قتل كئے گئے، تو ميدان جنگ ميں چلى ائي ،اور اپنے چچا كے انتقام ميں جو اسى جنگ ميں برہنہ خاك خون ميں اغشتہ پڑا ہو ا تھا

۲۴

اور اسى طرح تو اپنے بھا ئي كے انتقام ميں ،جو ايك گڑھے ميں چند مقتولوں كے ساتھ پڑا ہوا تھا _

ہاں _اپنے ان كرتوتوں كو تونے فراموش كر ديا، جو تجھ سے سرزد ہوئے تجھ پر افسوس ہے يہ ايسى كمينى حركت تھى كہ زمانہ ہميشہ يا د ركھے گا _

اخر كار تو ذلّت كے ساتھ واپس ہوئي پھر تو اپنا انتقام بھى نہ لے سكى اور كاميابى بھى نہ پاسكي_

دائيوں نے كہا ہے كہ، ھند ہ نے زنا سے ايك معمولى بچہ پيدا كيا ہے حسّان كے دوسرے اشعار بھى قافيہ دال ميں ہيں ،جو ان كے ديوان ميں ديكھے جاسكتے ہيں _

يہ بچہ بطحا كى سر زمين كے ايك گوشے ميں پڑاہے

يہ كس كا بچہ ہے ؟

يہ بچہ جو زمين پر پڑا ہے جسے جھولا بھى ميسّر نہيں

اسكو ايك جوان اور خوبصور ت عورت نے جنم ديا ہے

وہ صبح سويرے روتى گاتى ہوئي اپنے عاشق صباح كے پا س گئي

ہاں _اے ھندہ تو كس قدر غصہ ميں بھر گئي ہے ،كو ئي محترم عورت جب بھى اپنے كو معطر كرنا چاہے تو ملك ھند كا بہترين عطر استعمال كرے _

يہ بچہ اپنى ماں ھندہ سے كتنى مشابہت ركھتا ہے

ليكن اپنے سياہ فام باپ صباح سے زيادہ مشابہ ہے

اس كمينى عورت كى ہميشہ سے سر كشى اور طغيان كى عادت تھي

وہ دانت سے ہڈّى چباتى رہتى تھى

اپنے ہجو اميز شعر ميں حسان نے اسطرح توصيف كى ہے ،

يہ بچہ جو صحرا ميں پڑا ہو ا ہے كس كا ہے ؟

يہ اجياد كے ريگزاروں ميں زمين پر ڈھير ہے

اسے درد زہ لاحق ہو ا پھر اس نے بچہ پيدا كر ديا

حالانكہ اسكى كو ئي قابلہ نہيں تھي

۲۵

صرف صحرا كے درندے تھے اور جنات

وہ بن باپ كے بچوں كے درميان بيابان ميں پڑے ہيں

انہيں ميں ايك بچہ ہے جو اپنى ماں سے زيادہ مشابہ ہے

وہ عورت ولادت كى تكليف سے كمزور آواز ميں كہہ رہى تھى

اے كاش _ميں اونٹ چراتى رہتى اور اج اس حالت سے دوچار نہ ہوتى ،اس بچے كو زمين پر ڈال كر يوں ہى چھوڑ ديا، حالانكہ اسكى قابلہ اور باپ دونوں قبيلہ كے سردار تھے _

مشہور سيرت نگارابن ھشام نے تيس۳۰ سے زيادہ قصيدے جنگ بدر كے بارے ميں لكھے ہيں ، اور انہيں تاريخوں ميں نقل كيا گيا ہے ،ان قصيدوں ميں ھندہ اور ابو سفيان كى ہجو كى گئي ہے_(۲۰)

جنگ خندق ميں ابو سفيان كى قيادت

چوتھى صدى ہجرى كے ماہ شعبان ميں رسول خدا(ص) نے اپنے ساتھيوں كے ساتھ سر زمين بدر پر كوچ كيا كيونكہ اپ نے مشركين سے قبل ازيں ايساہى عہد كيا تھا ادہر ابوسفےان بھى مكہ والوں كے ساتھ اپنے شہرسے باہر نكلا لےكن تھوڑا راستہ طے كر كے شرمندہ ہو كر واپس گيا ابو سفيان نے واپس ہوتے ہوئے قريش سے كہا :

اے گروہ قريش _يہ جنگ اسى سال تمہيں راس ائيگى جبكہ صحرا ميں شادابى رہے ،ليكن كياكياجائے كہ ہم لوگ اس سال خشك سالى ميں گرفتار ہيں ،ہم تو واپس جاتے ہيں تم بھى واپس جاو _

سبھى ا س كى پيروى كرتے ہوئے واپس ہو گئےيہ سوچ كر كہ دوسرى جنگ كيسے برپاكى جائے، كچھ زمانہ بيت گيا اور پانچويں صدى ہجرى اگئي ،اس سال قبيلہ قريش نے ابو سفيان كى قيا دت ميں بہت زيادہ جوش وخروش كامظاہرہ كيا بہت سے گروہ اس كے گرد جمع ہوگئے جو قريش كے حليف تھے يہودى اور قريش ابو سفيان كى رہبرى ميں تھے ا س طرح ايك بہت بڑا لشكر تيار ہو گيا اور ان سب نے عہد كيا تھا كہ اسلام كو جڑ سے اكھاڑ پھيكاجائے ،مسلمانوں نے باہم مشورہ كيااور سلمان فارسى كى رائے كے مطابق جو ايران كے داناتھے رسول(ص) اسلام نے حكم ديا كہ مدينہ كے گرد ايك خندق كھودى جائے بہت سے لوگ مدينہ ميں پہنچ گئے ،اور اس طرح دفاعى خندق كھودى گئي ساراشہر، دشمن كا سامنا كرنے كے لئے تيار تھا

____________________

۲۰_ سيرہ ابن ھشام ج۳ ص ۶۶۷

۲۶

ابوسفيان اور ا س كى فوج نے مدينہ كا ايك مہينہ تك محاصرہ كيا ليكن خندق كى وجہ سے ان كى عقل گنگ ہو گئيں اس درميان دو ايك جھڑ پيں ہوئي كبھى كبھى دشمنوں كا كوئي بہادر سپاہى خندق عبور كر جاتا تھا تاكہ مسلمانو ں كى صف كے قريب پہنچ جائے انھيں ميں سے ايك شخص عمرو ابن عبدود تھا جو عرب كامشہور جنگجو سمجھاجاتا تھااسنے خندق كے پاس اپنے گھوڑے كو ايڑ دى اور اسلامى فوج كے سامنے اكے جم گيا ، وہ رجز پڑھ كر مسلمانوں كو مقابلہ كى دعوت دے رہا تھا _

سبھى موت كے ڈرسے بولنے يااگے بڑھنے كى جرا ت نہيں كر رہے تھے اخر كار امير المومنين(ع) كے سواا س كاسامنا كرنے كى كسى كو جرا ت نہ ہوئي امام (ع) نے عمر و ابن عبدود كوايك ہى جھڑپ ميں اپنى خدائي طاقت سے اسے قتل كر ڈالا _

چونكہ عمر و قتل كر دياگيا تھا ،دوسرے يہ كہ محاصرہ كا كوئي نتيجہ نہيں نكل رہا تھاكيونكہ رسول(ص) اكرم نے اس سلسلے ميں خاص تدبير اپنائي تھى اس سبب سے يہوديوں نے جنگ سے علحدگى اختيار كرلى اس درميان بہت تيز ٹھنڈى ہو ا بھى چلنے لگى يہاں تك كہ قريش اور ان كے مددگار وں كے خيمے اكھڑ گئے اگ ٹھنڈى ہو گئي گھوڑے اور اونٹ صحراكى طرف بگٹٹ بھاگ گئے اب تو سارے لشكر كا تيا پانچہ ہو گيا _

ابوسفيان اس صور ت حال سے بہت زيادہ گھبرا گيا سرداران لشكر كو مشورے كے لئے بلا كر كہا كہ اے قريش تمہارے خدا كى قسم تم ايسى سر زمين پر ہو كہ زندگى محال ہے تمہارے گھوڑے اور اونٹ ختم ہو گئے بنى قريظہ كے حليف جو ہمارے حليف تھے انھوں نے بھى منھ موڑ ليااب تو ناگوارصورت حال پيش اگئي ہے ،تم بدلى ہوئي ٹھنڈى ہواديكھ ہى رہے ہو ہم سخت پريشانى ميں مبتلاہيں ہمارى اگ بھى ٹھنڈى ہو چكى ہے خيمے بھى اكھڑ چكے ہيں اس لئے ميں مصلحت اسى ميں ديكھ رہاہوں كہ ہم لوگ يہاں سے كوچ كر جائيں يہاں سے كوچ كرو ہم بھى چلنے پر امادہ ہيں اسى اندھيرى رات ميں قريش اور اس كے حليفوں كا لشكر مكہ كى راہ پر چل پڑا(۲۱) ،ابوسفيان گھبراہٹ ميں بھاگنے پر ا س قدر امادہ تھا كہ ا س نے اونٹ كے بند بھى نہيں كھولے وہ بھاگنے كى جلدى ميں تھا _

ا س طرح عظيم جنگ خندق ياجنگ احزاب ابو سفيان كى تمام كوششوں كے باوجود بے نتيجہ رہى اور مشركوں كا زبر دست لشكر اپنى عددى زيادتى كے باوجود دين خداكو كوئي نقصان نہ پہنچا سكا_

____________________

۲۱_ سيرہ ابن ھشام ج۳ ص ۷۱۵

۲۷

كمزورى كااحساس اور صلح كى پيش كش

اسلام مخالف گروہوں كى كمزورى اورا ن كى جميعت كاتتر بتر ہونا اسلام كى عزت وشوكت كے بڑھانے ميں معاون ہوا اور اب مسلمان جزيرة العرب ميں ايك جانى پہچانى طاقت سمجھے جانے لگے مسلمانوں كى تعداد اور ا ن كى اقتصادى اور حكومتى طاقت روز بروز بڑھتى گئي _

ہجرت كے ساتويں سال رسول(ص) اكرم نے لگ بھگ ڈيڑھ ہزار اصحاب كے ساتھ زيارت خانہ كعبہ كے لئے مكہ كوچ فرمايا سر زمين مكہ پر مسلمانوں كاداخلہ قريش كے لئے سخت ناگوار تھا كيونكہ مسلمانوں كو مراسم حج ميں شامل كرنے كا مطلب يہ تھا كہ اسلام كى طاقت كو تسليم كر ليں ،ا س لئے انھوں نے مكہ ميں داخلے سے روكا ،رسول (ص) اكرم نے بھى بڑے ٹھنڈے دل كے ساتھ عدم تعرض كے ايك معاھدے پر امادگى ظاہر كى اور مسلمانوں كو واپس چلنے كا حكم ديا ،يہ معاھدہ اگر چہ بظاہر مكہ والوں كے حق ميں تھا اسى لئے بعض ظاہر پرستوں نے اعتراض بھى كيا ليكن ا س طرح مشركين نے نادانستہ طور پر يہ معاھدہ تسليم كركے اسلامى طاقت كو عربستان ميں قبول كر ليا اور يہ بات پورے طور سے اسلام كے حق ميں تھى ،اس معاھدے كى رو سے رسول(ص) اسلام اپنے دوسرے دشمنوں كا سر كچل سكتے تھے جيسا كہ جنگ خيبر اسى وجہ سے واقع ہوئي اور مسلمانوں كو يہ موقع مل سكاكہ وہ اپنے مخالفوں كو جڑ سے اكھاڑ پھيكيں اور يہوديوں كى ريشہ دوانيوں كا سدّ باب كر سكيں _

اس وقت صحرائے عرب ميں قريش كے علاوہ اسلام كا كوئي بڑادشمن نہيں تھا ،وہ بھى اس معاھدے كى وجہ سے اسلام كے خلاف كو ئي خطرناك اقدام نہيں كر سكتے تھے ا س طرح اسلام نے تيز رفتارى كے ساتھ سارے عرب كو اپنے قبضہ ميں كرليا _

صلح حديبيہ كے بعد ايك سال بھى نہ گزراتھاكہ صلح نامہ كى ايك شرط مشركين مكہ نے توڑ دى _

اب رسول(ص) اسلام نے مصمم ارادہ كر لياكہ اس جاہليت اور كفر كا اخرى قلعہ بھى ڈھا دياجائے فتح مكہ نزديك

۲۸

تھا ،ابو سفيان نے روزافزون ناقابل شكست اسلامى طاقت كو سمجھ ليا تھا اس لئے وہ تجديد پيمان كے لئے مدينہ آيا ليكن رسول خدا(ص) نے اس ديرينہ دشمن اسلام كو جو انتہائي خوفزدہ ہو نے كى وجہ سے خوش اخلاقى كا مظاہرہ كررہا تھا قبول نہيں فرمايا:

دوسرے دن ابو سفيان اميرالمومنين (ع) كى خدمت ميں حاضر ہو كر عرض كرنے لگا ،اے ابو الحسن، ميں سخت ذہنى كشائشے كا شكار ہوں ميرى نجات كى راہ بتايئے

امام (ع) نے فرمايا خدا كى قسم ميں تيرى نجات كا كوئي راستہ نہيں جانتا ،ليكن تو قريش كاچودھرى اور ان كا ہم پيمان ہے خودہى اٹھكر جا اور لوگوں سے معاھدے كر اور پھر اپنى سر زمين پر واپس جا _

ابو سفيان نے پوچھا، كيااپ كے خيال ميں اس سے مجھے كوئي فائدہ پہنچے گا _

امام (ع) نے فرمايا _نہيں _ليكن اس كے سوا دوسراكوئي راستہ بھى نہيں ابو سفيان وہاں سے اٹھكر مسجد ميں آيا اور پھر وہاں مسلمانوں كے درميان چلّايا _

اے لوگو _ميں تم لوگوں سے عدم تعرض و مسالمت كا معاھدہ كرتا ہوں پھر وہ وہاں سے باہر نكلا اور اپنى سوارى پر بيٹھكر مكہ كى طرف چلا گيا _(۲۲)

مكہ فتح ہو گيا

ابوسفيان اس زمانے ميں _يعنى جب جاہليت اخرى سانس لے رہى تھى يہ شخص مشركين كا ايك زبر دست فوجى افسر سمجھا جاتا تھا وہ صرف يہى نہيں كہ قريش كى قيادت كر رہاتھا بلكہ يہ كہا جاسكتا ہے كہ تمام قبائل بنى كنانہ قريش اور اس كے حليفوں نے ا س كے رياست و بزرگى كو مان ليا تھا وہ انھيں مسلمانوں كے خلاف جنگ پر ابھارتا تھا اور جنگى كاروائي كے نقشے بھى مرتّب كرتا تھا ياپسپائي كى صورت ميں پيچھے ہٹنے ياصلح كرنے كا بھى مجاز تھا_جنگ بدر ميں سرداران قريش كے قتل ہو جانے كے بعد تمام رياست و قيادت اسى كے ہاتھ ميں تھى _

يہ بزرگى ايسى مستقل تھى كہ جس وقت مجاہدين اسلام نے مكہ ميں قدم ركھا اور اس شہر كو قريش كے چنگل سے

____________________

۲۲_ سيرہ ابن ھشام ج۴ ص ۷۵۴

۲۹

ازاد كرايااسى دن سے ابو سفيان كى قيادت ہميشہ كے لئے ختم ہو گئي اور رسول(ص) اكرم كے اختيار ميں اگئي جس طرح كے عرب كے بے شمار بت رسو ل(ص) ا كرم كے حكم كے مطابق اميرالمومنين(ع) كے ہاتھ سے ٹوٹ پھوٹ كر ستياناس ہو گئے _

جس وقت پيغمبر(ص) اسلام دس ہزار مجاہدوں كے ساتھ پرچم توحيد كے سايہ ميں مكہ كے قريب پہنچے تو انحضرت(ص) كے چچا عباس اپنے مخصوص اونٹ پر سوار اگے تھے تاكہ كوئي مل جائے تو اسے پيغامبر كے عنوان سے مكہ والوں كے پاس بھيجا جائے انھيں خطرہ بھى تھا اس لئے وہ چاہ رہے تھے كہ كسى كو رسول(ص) اكرم كے پا س بھيج كر انحضرت(ص) سے امان كى درخواست كريں عباس نے راستہ ميں تين بزرگان قريش سے ملاقات كى ابو سفيان بھى انھيں ميں تھا يہ شہر سے نكل چكے تھے تا كہ حالات اور خطرات كو معلوم كركے ا س كا تدارك كر سكيں عباس نے ابو سفيان سے كہا خداكى قسم اگر مسلمان تجھے پا گئے تو يقينى طورپر قتل كر دينگے ،ا س كے بعد عباس نے اسے رسول(ص) اكرم كے اونٹ پر اپنے پيچھے بٹھا ليا اور سيدھے پيغمبر(ص) اسلام كى خدمت ميں آئے جيسے تيسے راستہ طے ہو گيا جس وقت ابو سفيان نے رسول(ص) اكرم كے خيمہ ميں پہونچ كرسلام كيا انحضرت(ص) نے فرمايا:

اے ابو سفيان تجھ پر افسوس ہے كيا ابھى وقت نہيں آيا ہے كہ تو سمجھ سكے اور مان لے كہ خدائے واحد كے سوا كوئي خدا نہيں _

ابو سفيان نے عرض كيا ،ميرے ماں باپ اپ پر قربان ،اپ كتنے حليم اور با عظمت ہيں ، كس قدر اپنے رشتہ داروں كے ساتھ صلہ ء رحمى كرنے والے ہيں ،خدا كى قسم ميں سوچتا ہوں كى اگر اللہ كے سواكوئي خدا ہوتا تو ضرور مجھے فائدہ پہنچاتا _

رسول(ص) خدا نے فرمايا:اے ابو سفيان تجھ پر افسوس ہے ،كيا وقت نہيں آيا ہے كہ سمجھ سكے ميں خدا كارسول ہوں _

اس نے عرض كى ،ميرے ماں باپ قربان ،ا پ كتنے عظيم و حليم ہيں ،اور رشتہ داروں كے ساتھ مہر بانى كر نے والے ہيں مجھے اس مسئلہ ميں كچھ شك اور تردد ہے _

عباس نے خطرے كا احساس كر ليا تھا ،وہ دھاڑے _اے ابو سفيان تجھ پر افسوس ہے اسلام قبول كرلے اپنے كوموت كے چنگل ميں مت ڈال _

ابو سفيان نے اسى لمحہ خوف اور مجبورى كے عالم ميں كلمہ شہادتين زبا ن پر جارى كيا اور بظا ہر اسلام لے آيا _(۲۳)

____________________

۲۳_ اگے كے صفحات ميں ہم بيان كرينگے كہ ابو سفيان نے ظاہرى طور پر اسلام قبول كيا تھا اور اس كے دل ميں كفر چھپا ہوا تھا

۳۰

جيسے ہى ابو سفيان نے اسلام قبول كيا عباس نے انحضرت (ص) سے ابو سفيان كے بارے ميں امتيازى سلوك كى درخواست كى ،يعنى يہ اعلا ن كر ديا جائے كہ جو بھى ابو سفيان كے گھر ميں داخل ہو جائے اسكو امان ہے _

انھوں نے عرض كيا كہ اس كى وجہ يہ ہے كہ وہ افتخار و شہرت كو پسند كرتا ہے لہذا ا س كى دلجوئي كے لئے يہ اعلان ضرورى ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے اعلى ظرفى كا مظاہرہ فرماتے ہوئے اپنے سخت ترين دشمن ديرينہ كو جوبظا ہر اسلام لاچكا تھا امن كاگھر قرار ديتے ہوئے اعلان كيا ، ہاں _جو شخص بھى ابو سفيان كے گھر ميں پناہ لےلے وہ امن ميں ہے ،اور جوشخص اپنا گھر بند كر كے رہے وہ بھى امن ميں ہے ،جو شخص خانہ خدا ميں پہنچ جائے وہ امان ميں ہے ،اور جو شخص بھى ہتھيار ڈال دے وہ ہر قسم كے خطرہ سے محفوظ ہے_

اسلامى لشكر نے اپنے اطراف گاہ سے كوچ كيا تاكہ مكہ كااخرى فاصلہ طے كيا جاسكے ،اور شرك كے مركز كو توحيد پرستى ميں تبديل كيا جاسكے _

رسول(ص) اكرم كا حكم بجالايا گيا تمام مسلمانوں كے قبائل اور گروہ جنگى اسلحے سے اراستہ ہو كر عبو ر كر رہے تھے ،جب بھى كوئي قبيلہ گزرتا تھا ،تو ابو سفيان عباس سے پوچھتاتھا كہ يہ كون ساقبيلہ ہے _عباس نے مثلاً كہا كہ يہ قبيلہ بنى سليم ہے_

تو ابو سفيان انتہائي تھكے تھكے لہجے ميں كہتا تھا ،مجھے قبيلہ بنى سليم سے كيا سروكار ؟ يعنى بنى سليم كا قبيلہ مجھ سے جنگ كے لئے كيوں آيا ہے ،مجھے تو ان سے كوئي اختلاف نہيں تھا _

تمام قبائل اسى طرح گزرتے رہے يہاں تك كہ رسول خدا(ص) مہاجرين و انصار كے ساتھ يعنى اپنے خاص اصحاب كے ساتھ ا س كے سامنے سے گذرے ان مجاہدوں كے تمام بدن فولاد سے ڈھكے ہوئے تھے صرف انكھيں كھلى ہوئي تھيں _

ابوسفيان نے پوچھا _يہ كون لوگ ہيں ؟

عباس نے جواب ديا ،يہ خدا كے رسول(ص) ہيں مہاجرين و انصار كے درميان

ابو سفيان نے كہا _كہ كسى كو بھى اس لشكر سے جنگ كرنے كى طاقت نہيں ہے تمہارے بھتيجے نے تو بہت

۳۱

عظيم بادشاہى قائم كر لى ہے _

عباس نے كہا :اے ابو سفيان يہ خداكى جانب سے نبوت و رسالت ہے يہ بادشاہى نہيں ہے _

ابو سفيان نے كہا _ ہاں ايسا ہى ہے

اس وقت عباس نے ابو سفيان كو اس كے حال پر چھوڑ ديا اور خود لشكر ميں شامل ہو گئے _

ابو سفيان نے بھى ،جس قدر جلد ہو سكا اپنے كو مكہ ميں پہنچايا اور تيزى سے مسجد الحرام ميں پہنچ كر آواز دى _

اے قريش _ يہ محمد (ص) ہيں كہ جن كے اصحاب بے شمار ہيں يہ تمہارى طرف ارہے ہيں اگاہ ہو جاو كے جوبھى ابو سفيان كے گھر ميں داخل ہو جائے گااسے امن مل جائے گا _

اس وقت ابو سفيان كى زوجہ ھندہ اپنى جگہ سے اٹھى _ ا س نے اپنا ہاتھ اور چہرہ چھپا ركھا تھا زور سے چلّائي ،اس گوشت كے لوتھڑے كو قتل كر ڈالو ،ناس جائے تيرے جيسے خاندان كا _

ابو سفيان نے اپنى زوجہ كى بات پر توجہ نہيں دى ،دوبارہ كہا _يہ عورت تمہيں فريب نہيں دے انحضرت (ص) ايك لاتعدادفوج كے ساتھ تمہارى طرف ارہے ہيں ،جوبھى ابوسفيان كے گھر ميں داخل ہو جائيگااسے امن مل جائيگا ،لوگ چلاّنے لگے خداتجھے قتل كرے تيرے گھر ميں ہم سب كے سب كيسے سماسكتے ہيں ؟ ابو سفيان نے كہا كہ ،جو شخص بھى اپنا گھر بند كر لے وہ امان ميں ہے ، جو شخص مسجدالحرام ميں داخل ہو جائے وہ بھى امن پائيگا ،لوگ مسجدالحرام كى طرف جانے لگے ،ذرادير گزرى تھى كہ رسول اكرم(ص) (ان پر اور ان كے خاندان پر صلوات) اسلحوں سے ليس فوج كے ساتھ مكہ ميں داخل ہوئے اور تيزى سے خانہ كعبہ كے پاس پہنچ گئے ،اپ خانہ كعبہ كے دروازہ كے پاس كھڑ ے ہوئے اور ايك طويل تقرير كى ،اخر ميں اپ نے قريش كو مخاطب كركے فرمايا: تمہيں سوچو كہ ميں تمہارے بارے ميں كيا كروں گا _

سب نے كہا كہ ہميں اپ سے بھلائي ہى كى اميد ہے ،اپ عظيم بھائي اور عظيم بھائي كے بيٹے ہيں _

اپ نے فرمايا_''اذهبو فانتم الطلقاء '' جاو كہ تم سب ازاد ہو(۲۴) _

____________________

۲۴_ سيرہ ابن ھشام ج۴ ص ۸۷۰ ، طبرى ج۳ ص ۶۱

۳۲

وہ دن ايك روشن ودرخشاں اور عميق اعلى ظرفى كے دن كى طرح گذر گيا ،رسول اكرم (ص) نے اپنے اول درجہ كے دشمنوں كو جنھوں نے سالہاسال تك اپ اور اپ كے اصحاب كو برا بھلاكہا تھا شكنجہ وازار ديا تھا يہاں تك كہ انھيں قتل كيا تھا ،سالھاسال تك اپ سے ہر طرح جنگ كى تھى اپ نے ان سبكو بخش ديااور يہ بخشش بھر پور طاقت وقوت كے بعد تھى _

البتہ يہ اعلى ظرفى سے بھر پور بخشش چند سال كے بعد اپنى شكل وصورت بدل چكى تھى طلقاء كالفظ قريش اور ان كے بچوں كے لئے شرمناك دھبہ بن گيا تھا ،يعنى يہ لوگ ازاد كئے گئے ہيں ،يہ لوگ فتح مكہ كے دن ازاد كئے گئے تھے پھر تو بعد ميں انھيں اسى لفظ طلقاء سے مذمت كى جانے لگى _

ابو سفيان اسلامى معاشرے ميں

رسول اسلام(ص) نے تقرير كرنے كے بعد خانہء كعبہ كاطواف كيا ،ابو سفيان وہيں ايك گوشہ ميں كھڑا طواف كعبہ كے منظر كو بغور ديكھ رہا تھا ،جب ا س نے مشاہدہ كيا كہ مسلمان كس قدرجوش و خروش كے ساتھ رسول خدا(ص) كے پيچھے خانہ خداكے گرد طواف اور گردش كر رہے ہيں تو تيزى سے اسكے دل ميں يہ خيال گزراكہ كيا اچھا ہو كہ ميں دوبارہ لوگوں كو محمد (ص) كے خلاف بھڑكا دوں _

رسول اكرم (ص) نے ا س كى طرف رخ كركے اسكے سينہ پر ہاتھ مار كر فرمايا كہ اس دن اللہ تجھے ذليل وخوار كرے گا _

ابو سفيان نے كہا _ميں خدا سے رجوع كرتا ہوں اور اسكى مغفرت كاطلبگار ہوں ،اور ميں نے تو صرف سوچا ہى تھا ؟

دوبارہ ا س نے دل ميں كہا كہ ميں نہيں جانتا محمد (ص) كس وجہ سے مجھ پرفتح پا گئے _

رسول (ص) اسلام نے اسكى پيٹھ پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمايا: خدا كى طاقت سے ميں تجھ پر فتحمند وكامران ہوا اس وقت ابو سفيان نے مجبور ہو كر كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ اپ خدا كے رسول ہيں(۲۵)

____________________

۲۵_ تہذيب ابن عساكر ج۶ ص ۴۰۴ ، اصابہ ج۲ ص ۱۷۲ ،مطبوعہ مصر ۱۳۵۸شمسى

۳۳

فتح مكہ كے بعد رسول(ص) اكرم حنين كى طرف روانہ ہوگئے ،تاكہ ہوازن سے جنگ كر سكيں اپكے ہمراہ كچھ قريش كے افراد بھى تھے _

مشہور مورخ مقريزى لكھتا ہے :

مكہ كہ وہ لوگ جو ظاہرى طور پر مسلمان ہوئے تھے انحضرت(ص) كے ساتھ حنين گئے وہ اس انتطار ميں تھے كہ دونوں گروہوں ميں سے كون كامياب ہوتا ہے تاكہ اسكے ساتھ مخالف گروہ كامال غنيم لوٹ سكيں ان ميں ايك ابو سفيان بن حرب تھاجو اپنے فرزند معاويہ كو بھى ساتھ لے گيا تھا يہ دونوں اپنے ہمراہ اپنے تركش ميں ازلام بھى لائے تھے_

ابوسفيان لشكر اسلام كے پيچھے پيچھے چل رہا تھا ،جوكچھ بھى لشكر والوں كاسامان زمين پر گرتا تھا_

جيسے ڈھال يانيزہ ياكوئي دوسرى چيز اسے زمين سے اٹھا ليتاتھا ،يہاں تك كہ اسكا اونٹ ناقابل برداشت بوجھ سے بھر گيا(۲۶)

واقدى كہتا ہے كہ حنين وہ جگہ ہے جو مكہ سے تين شبانہ روز كے فاصلہ پر واقع ہے(۲۷)

اس سر زمين پر اعراب عدنانى سے ايك طاقتور قبيلہ زندگى گزار رہاتھا جوبنام (ہوازن) مشہور تھے(۲۸)

لشكر اسلام اپنى تمام طاقتوں كے باوجود اغاز جنگ ميں ہوازن كے مد مقابل زيادہ كامياب نظر نہيں آيا _كيونكہ مسلمان تنگ راستوں سے اگے بڑہے تو ناگہانى حملہ كاشكار ہو گئے اور لشكر ميں بھگدڑ مچ گئي ،پيغمبر(ص) اسلام كے پاس معدودے چند مسلمانوں كے كوئي باقى نہ رہا جن ميں ايك اميرالمومنين (ع) اور دوسرے عباس بن عبد المطلب ثابت قدم رہے(۲۹)

____________________

۲۶_ متاع الاسماع ص ۴۰۵ مطبوعہ مصر

۲۷_ معجم البلدان ج۲ ص ۳۱۳ مطبوعہ بيروت

۲۸_ جمھرة انساب العرب ص ۲۵۴_ ۲۵۲ مطبوعہ مصر

۲۹_ المغازى ج۳ ص ۳۰۰ ، يعقوبى ج۲ ص ۴۷ ، انساب الاشراف ج۱ ص ۳۶۵

۳۴

اس ہنگامى حالات ميں چند بزرگان قريش جو تازہ مسلمان ہوئے تھے انھوں نے اپنى زبان پر ان كلمات كو جارى كيا كہ جسكو ابن ہشام نے اپنى تاريخ ميں يوں ذكر كياہے ،وہ لكھتا ہے جب مسلمانوں نے فرار اختيار كيا تو وہ لوگ جو مكہ سے انحضرت (ص) كے ساتھ ہوئے تھے جب انھوں نے اس منظر كو ديكھا تو اپنے كينہ ديرينہ كو اشكار كر ديا جيسے ابو سفيان نے كہاتھا''لاتنتهى هزيمتهم دون البحر'' ابھى كياہے يہ لوگ شكست كھاكر سمندر تك بھاگيں گے _

يہ اس وقت بھى جاہليت وكفر كى علامت ازلام كو ساتھ ميں ركھتا تھا ،ازلام لكڑى كاايك تير تھا جو كفار قريش خاص مو قعو ں پر فال نكالنے كے كام ميں لاتے تھے ،حالا نكہ يہ خود جاہليت عرب اور بت پرستى كى كھلى ہوئي نشانى ہے_

قران كريم نے اصنام جاہلى كے ساتھ ساتھ اسكى بھى بڑى مذمت كى ہے(۳۰)

ايك دوسرے سردار قريش نے كہا _ ہاں اب جادو اور سحر ٹوٹ گيا _

فرمان رسول (ص) اور فرياد عباس نے مسلمانوں كو جو دشمن كے ناگہانى حملہ سے بھاگ گئے تھے واپس بلا ليا ،اور دشمن پر حملہ اور ہوئے زيادہ دير نہ گزرى تھى كہ دشمن اسلام كو منھ كى كھانى پڑى اور اسلام كو شاندار فتح حاصل ہوئي _

اس جنگ ميں جو كچھ مال غنيمت حاصل ہو ا تھا ا س كا زيادہ تر حصہ ان تازہ مسلمانوں پر تقسيم كياگياكيونكہ قران كے مطابق يہ لوگ مولفتہ القلوبھم سمجھے جاتے تھے ،خداو رسول (ص) كانقطہ نظر يہ تھا كہ انھيں مادى فائدے

____________________

۳۰_ سورہ توبہ ، سورہ مائدہ آيت ۹۰

۳۵

پہنچاكر دين خداكى طرف سے انكا دل نرم كيا جائے ،اسى غرض سے ان سبھى تازہ مسلمانوں كو سو اونٹ بخشے گئے ،ابو سفيان و معاويہ نے بھى ۱۰۰ _ ۱۰۰ _ اونٹ لئے اور كچھ زيادہ مقدار ميں چاندى بھى لى ،ابو سفيان نے رسول(ص) اكرم كايہ سلوك ديكھ كر كہا ،خداكى قسم ميرے ماں باپ اپ پر فدا ہو جائيں اپ ايك عالى ظرف انسان ہيں جسوقت ميں نے اپ سے جنگ كى اپ بہترين جنگ جو تھے اور جب اپ سے صلح كى ہے تو اپ بہترين صلح كرنے والے ہيں قبيلہ انصار جن كو مال غنيمت كم ديا گياتھاانھوں نے اپنے دل ميں خيال كياكہ انحضرت (ص) نے اپنے قوم وقبيلہ والوں سے ترجيحى سلوك كيا ہے _

پيامبر(ص) اكرم نے انصار كو طلب كيااور اپنى تقرير ميں ارشاد فرماياكہ ہر گز ايسا نہيں ہے جس طر ح سے تم لوگ اس مسئلہ كو سوچ رہے ہو ،ميں نے ان لوگوں سے يہ برتاو محض اس لئے كياہے تا كہ وہ ثابت قدم رہيں اور بدد ل ہو كر اسلام سے برگشتہ نہ ہوجائيں ،ليكن تمہارے لئے(انصار) اسلام وايمان كو ساتھ قرار ديا ہے(۳۱)

فتح مكہ كے بعد ابو سفيان نے ظاہرى طور سے اسلام قبول كر لياتھاوہ مسلمانوں كے گروہ ميں بھى شامل ہو گيا تھا ،ليكن مسلمانوں نے اسكى گزشتہ كى زيادتيوں اور اسلام دشمنى كو كسى بھى لمحہ فراموش نہيں كيايہى وجہ تھى جو معاشرہ اسلامى نے اس پر لطف و مہر بانى كى نگاہ نہيں ڈالى(۳۲)

اہلسنت كے عظيم محدث مسلم بن حجاج اپنى كتاب صحيح مسلم ميں مسلمانوں كے سلوك كو ان الفاظ ميں بيان كرتے ہيں _

ايك دن ابو سفيان كچھ پاكباز مسلمانوں كے درميا ن سے گزرا جيسے سلمان ، بلال ، صھيب يہ حضرات اپس ميں باتيں كر رہے تھے جب ان لوگوں كى نظر ابو سفيان پر پڑى تو كہا

اس دشمن خداكو اللہ كى تلواروں نے ابھى تك كيفركردار تك نہيں پہو نچايا ،يہ بات جب ابو بكر نے ان لوگوں سے سنى تو خفا ہو كر كہا ،كياتم لوگ ايك بزرگ قريش كے بارے ميں ايسى بات كر ررہے ہو ،يہ بات كہہ كہ وہ اسلامى معاشرے كے نامناسب رد عمل كے خوف سے گھبر اتے اور دوڑ تے ہوئے رسول اكرم (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے

____________________

۳۱_ سيرت ابن ہشام ج۴ ص ۹۳۵ ، طبرى ج۳ ص ۹۴ المغازلى ج۳ ص ۹۵۶

۳۲_ صحيح مسلم ج۷ ص ۱۷۱ مطبوعہ مصر

۳۶

،اپ نے فرمايا :شايد تم نے ان لوگوں كو ناخوش كيا ہے اگر تم نے انہيں غضبناك كيا ہے تو ياد ركھو كہ تم نے اپنے پروردگار كو غضبناك كيا ہے ابو بكر نے جب رسول(ص) كى زبان سے ان كلمات كو سناتو تيزى سے مسلمان اور ان كے ساتھيوں كے پاس پلٹے اور معذرت كرتے ہوئے كہا :اے بھا ئيو_ميں نے تم لوگوں كو ناخوش اور غضبناك كياہے؟ سب نے كہا نہيں اللہ تمہيں بخشے اے بھائي(۳۳)

مسلمانوں كى يہ نفرت رسول (ص) اكرم ہى كے زمانہ ميں نہيں تھى بلكہ عام مسلمانوں كى ابو سفيان سے نفرت كايہى حال رہا قارئين ايندہ فصل ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

ابوسفيان شيخين كے زمانے ميں

عظيم مورخ ابن عساكر دمشقى لكھتا ہے :

ايك دن ابو بكر نے اپنى حكومت كے زمانے ميں ابو سفيان كو بہت كچھ كہہ ڈالا، ان كے باپ ابو قحافہ نے كہا كہ اے ابو بكر ابو سفيان سے تم اسطرح باتيں كرتے ہو ؟

ابوبكر نے جواب ديا ،بابا ہاں ،خداوند عالم نے اسلام كى خاطر بلند خاندانوں كو پست كر دياہے اور ہمارے خاندان ان ميں ہيں جو پست تھے اب اسلام كى وجہ سے بلندہو گئے ہيں

جس زمانے ميں عمر بن خطاب حج كے لئے مكہ آئے تو انھيں بتايا گياكہ ابو سفيان نے ايك گھر بناياہے اور اپنے گھر كے لئے ٹھيك راستے ميں ايسى تعمير كى ہے كہ پانى كابہاو شہر كولپيٹ ميں لے سكے عمر نے ان شكو ہ كرنے والوں كے ساتھ ابو سفيان كے گھر كارخ كيا ،پھر حكم ديا كہ ابو سفيان ان پتھروں كو اپنى پشت پر لاد كر راستے سے ہٹائے _

اسكے بعد اپنے ہاتھ اسمان كى طرف بلند كر كے كہا :خداوندا سارى تعريف تيرے لئے مخصوص ہے كہ ميں نے شہر مكہ ميں بزرگ قريش ابو سفيان كوحكم ديا اور اس نے ميرى بات مان لى ہے _

____________________

۳۳_ صحيح مسلم ص ۱۷۳ ، سير اعلام انہلاء ج۲ ص ۱۵

۳۷

دوسرے مورخين نے بھى لكھا ہے كہ ايك دن خليفہ دوم عمر مكہ كى گليوں سے گزر رہے تھے ، انھوں نے ديكھا كہ گليوں ميں گندگى ہے انھوں نے حكم ديا كہ جس شخص كے گھر كے سامنے گندگى ہے وہ خود صاف كرے ،كچھ دن بعد ديكھا كہ بعض جگہوں پر گندگى باقى ہے تو غصہ ميں ابو سفيان كے سر پر تازيانے لگانے لگے ،ابو سفيان كے تازيانہ كھانے كى خبر ھندہ كو ملى تو اپنے جاہلى وراثت كابھر پور مظاہرہ كرتے ہوئے بولى ،اوعمر خد اكى قسم اگر دور جا ہليت ميں تم نے انھيں تازيانہ مارا ہوتاتو مكہ كى زمين لرز جاتى تمھارے پيروں تلے زمين كھسك جاتى عمر نے جواب ديا تونے سچ كہا ليكن كياكيا جائے خداوندے عالم نے اسلام كى وجہ سے عزت دار گروہ كو ذليل كر دياہے اور ذليل گروہ كو باوقار بنا دياہے(۳۴)

جيساكہ اپ نے ملاحظہ فرمايا كہ اسلام نے ابو سفيان كو كسقدر ذليل ورسواكيا اور دوسروں كو نعمت و عزت بخشى اس وجہ سے وہ مجبوراً اپنے دل كى گہرائيوں ميں اسلام اور مسلمانوں كے خلاف كينہ وعناد بوتا رہا ،اسكايہ عناد مختلف اوقات ميں اسكى باتوں سے ظاہر ہوتا رہا _

عبداللہ بن زبيركابيان ہے كہ ميں اپنے باپ كے ہمراہ جنگ يرموك ميں شريك تھا ليكن اتناكمسن تھاكہ جنگ نہيں كر سكتا تھا ،اثناء جنگ ميں نے ديكھا كچھ لوگوں كو ايك پہاڑ كى چوٹى پر،جواس جنگ سے علحدہ تھے _

ميں ا ن كے پاس گياتو وہاں ابو سفيان تھا جو چند سرداران قريش كے ساتھ بيٹھاہو ا تھا ،يہ سب لوگ وہ تھے جو فتح مكہ كے بعد اسلام لائے تھے ،ميں انكے درميان بيٹھ گياانھوں نے مجھے بچہ خيال كيا اس لئے سمجھ رہے تھے كہ ميں انكى باتوں كو نہيں سمجھ سكوں گا ،وہ ازادانہ اپنى باتيں جارى ركھے ہوئے تھے ،كوئي بات چھپانہيں رہے تھے و ہ لو گ جب مسلمانوں كو پيچھے ہٹتا ہو ا ديكھتے تھے اور روميوں كو اگے بڑھتا ہو اتو چلّاتے تھے _ہاں _ زندہ باد روميوں

ليكن جب روميوں كو پيچھے ہٹتاہو ا ديكھتے تھے اور اسلام كاغلبہ ديكھتے تھے تو افسوس كے ساتھ آواز ديتے تھے ہائے روميوں تم پر افسوس ہے _

اخر خدا وند عالم نے روميوں كو شكست دى اور وہ بھاگ گئے تو ميں نے سارا واقعہ اپنے باپ زبيرسے

____________________

۳۴_ تہذيب ابن عساكر ج۶ ص ۴۰۷

۳۸

بيان كيا ،انھوں نے ہنستے ہوئے كہا :خدا انھيں نيست نابود كرے يہ كبھى اپناكينہ وعناد ختم نہيں كريں گے كياہم روميوں سے بہتر نھيں ہيں ؟(۳۵)

ايك دوسرى روايت ميں يوں منقول ہے كہ جب رومى ،مسلمانوں كو پيچھے ہٹنے پر مجبور كرتے تھے تو ابو سفيان كہتا تھا شاباش روميوں ،ليكن جب مسلمان غالب اتے تھے توابوسفيان كہتا تھا ،ہائے بلند مرتبہ رومى ،اب بادشاہوں كاذكر بھى باقى نہيں رہے گا _

جس وقت اسلامى مجاہدوں كو مكمل فتح حاصل ہو گئي تو ميں نے اس داستان كو اپنے باپ سے بيان كيا ،انھوں نے ميرا ہاتھ پكڑ كر مسلمانوں كے مختلف گروہ كے درميان پھرايا _ہر گروہ كے سامنے پہنچ كر كہتے تھے كہ اے بيٹے _سارى بات ان لوگوں سے بيان كرو_ميں نے جو كچھ سناتھا ان سے بيان كر ديتا تھا _وہ سب لوگ ابوسفيان اور سرداران قريش كے نفاق اور دورنگى چال كو سنكر سخت تعجب كرتے تھے(۳۶)

ابوسفيان عثمان كے زمانے مي

ايك زمانہ گذر گيا _ عمر قتل كئے گئے اور عثمان خليفہ ہو گئے ،ابو سفيان كو خليفہ سے رشتہ دارى كى بنا پر تازہ احترام حاصل ہو گيا ،اب گزشتہ تحقير كى حالت بدل گئي تھى ،اسى زمانہ ميں ايك دن ابو سفيان عثمان كى مجلس ميں وارد ہوا اور كہنے لگا _

اے فرزندان اميہ اب خلافت قبيلہء بنى عدى و تيم سے نكل كر تمھارے چنگل ميں اگئي ہے جس طرح بچّے گيند سے كھيلتے ہيں اسى طرح ا س كو اپنے درميان گھماتے رہو، خداكى قسم نہ بہشت ہے نہ دوزخ(۳۷)

____________________

۳۵_ طبرى ج۴ ص ۱۳۷ ، ابن اثير ج۲ ص ۲۸۲ ، اصابہ ج۲ ص ۱۷۲ ، تہذيب ابن عساكر ج۵ ص ۳۵۶

۳۶_ اغانى ج ۶ ص ۳۵۶ ، استيعاب ص ۶۸۹ ، اسد الغابہ ج۵ ص ۲۱۶

۳۷_ اغانى ج ۶ ص ۳۵۶، استيعاب ص ۶۹۰

۳۹

ايك دوسرى روايت ميں ہے كہ ابوسفيان نے كہا :اے بنى اميہ خلافت كو گيند كى طرح كھيلو اسكى قسم جسكى ابو سفيان كھاتا ہے ہميں عرصے سے يہ ارزو تھى كہ خلافت تمہارے قبضہ ميں اجائے اب اسے وراثت كے طور پر اپنے فرزندوں كو سونپے جانا، عثمان نے يہ بات سن كر ناپسنديدگى كا مظاہرہ كيا(۳۸)

ايك دوسرى روايت ميں ہے كہ جب ابو سفيان بوڑھاہو گيا اورانكھ بھى كھو بيٹھا تھا توايك دن عثمان كے پاس آيا اور بيٹھتے ہى كہنے لگا ،يہاں كوئي غير شخص تو نہيں ہے جو ميرى بات دوسروں تك پہنچا دے عثمان نے كہانہيں ،ابوسفيان نے كہا ،يہ خلافت كامعاملہ دنياوى معاملہ ہے اور يہ حكومت جاہلى عہدكى حكومت كى طرح ہے اس لئے تم ا س كے تمام عہدوں كو بنى اميہ كے حوالے كرو(۳۹)

انھيں آيا م ميں وہ ايك دن شہيداسلام حضرت حمزہ كى قبر پر پہنچااور اس عظيم شہيد كى قبر پر ٹھوكر مار كر بولا، اے ابو عمارہ جس معاملہ ميں كل ہم سے اور تم سے تلوار چلى تھى ، وہ اج ہمارے بچّوں كے ہاتھ ميں ہے وہ اسے گيند كى طرح كھيل رہے ہيں(۴۰)

ا س سے معلوم ہوتا ہے كہ عثمان كے خليفہ ہو جانے سے ابوسفيان كى ناپاك تمنّائيں پورى ہو گئيں جس ارزو كے لئے بڑے بڑے سرداران قريش قتل كئے گئے تھے ليكن مسلمانوں كى استقامت سے وہ ارزوپورى نہيں ہوئي تھى ا ب خلا فت عثمان ميں وہ تمام ارزوئيں پورى كر ديں ابو سفيان خلافت عثمان كے زمانہ ميں ۳۱ھ يا۳۲ھ يا۳۴ھ ميں مرگياليكن اسكى زوجہ (ھند) خلافت عمر ہى كے زمانہ ميں مر چكى تھى(۴۱)

____________________

۳۸_ مروج الذھب ج ۵ ص ۱۶۶

۳۹_ اغانى ج ۶ ص ۳۵۵ اگر خلافت عثمان كا گہرائي سے مطالعہ كيا جائے تو معلوم ہو سكتا ہے كہ ابو سفيان كا منحوس مشورہ سر بسر بنى اميہ كے ہاتھوں پورا ہوا معاويہ كے ہاتھ ميں يہ موروثى حكومت ائي اور عثمان كے دور ميں سارى سلطنت اسلامى پر امويوں كى حكمرانى تھي_

۴۰_شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۱۰۲

۴۱_ اسد الغابہ ص ۵۶۳

۴۰