تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد ۳

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ 0%

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 213

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

مؤلف: سيد مرتضى عسكرى
زمرہ جات:

صفحے: 213
مشاہدے: 60225
ڈاؤنلوڈ: 3723


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 213 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 60225 / ڈاؤنلوڈ: 3723
سائز سائز سائز
تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ

تاريخ اسلام ميں عايشه کاکردار-دوران معاويہ جلد 3

مؤلف:
اردو

ليكن معاويہ بن يزيد كے مرتے ہى اس نے عبد اللہ بن زبير كى بيعت كر لى ، مروان بن حكم كے خلاف ''مرج راہط'' كے مقام پر اس سے جنگ كى اسى مقام اور اسى جنگ ميں ماہ ذى الحجہ كے وسط ۶۴ھ ،ميں قتل ہوا(۳۹)

معاويہ نے ضحاك بن قيس كو تين ہزار لشكر كے ساتھ عراق كى طرف روانہ كيا اور اسے حكم ديا كہ واقصہ كے باديہ نشين عربوں كو جو على (ع) كى اطاعت قبول كر چكے ہوں انكو قتل كر دے اور ان كا مال و اسباب لوٹ لے _

ضحاك نے معاويہ كے حكم كو جان و دل سے قبو ل كيا اور سر زمين ثعلبيہ كى جانب چل ديا اور اس مقام كے قبائل كا مال و اسباب لوٹا ، اسكے بعد كوفہ كى تاخت و تاراجى كے لئے رخ كيا ، قطقطانہ كے نزديك عمر و بن قيس بن مسعود جو حج كے لئے جا رہے تھے ان پر حملہ كر كے سارا زاد راہ ان سے اور انكے قافلہ والوں سے چھين كے حج كرنے سے روك ديا(۴۰)

ثقفى كتاب غارات ميں داستان ضحاك كو اس طرح بيان كرتے ہيں :

ضحاك عراق كى جانب روانہ ہوا اور ہر جگہ اموال و اسباب كو لوٹا اور بہت سارے لوگوں كو موت كے گھاٹ اتارا ، جب سرزمين ثعلبيہ پر پہونچا تو اس مقام سے كچھ حاجيوں كا قافلہ حج كے لئے مكہ جا رہا تھا ان كے قافلہ پر حملہ كر كے ان كا پورا مال و اسباب چھين ليا ، پھر كچھ دور چلا اس مقام پر عمرو بن قيس جو مشھور صحابى رسول (ص) عبد اللہ بن مسعود كے بھتيجے تھے انكو اور ان كے ساتھيوں كو قتل كيا اسكے بعد ان لوگوں كے ساز و سامان كو لوٹ ليا _

____________________

۳۹_ اسد الغابہ ج۳ ص ۳۷ ، تہذيب ابن عساكر ج۷ ص ۹

۴۰_ طبرى ج۶ ص ۷۸ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۵۰

۸۱

۵- بسر بن ارطاة

بسر بن ارطاة قبيلہ قريش سے ايك انتہائي خونخوار و سفاك سردار تھا ، جس كو معاويہ نے عراق و حجاز كو تباہ و بر باد كرنے كے لئے بھيجا تھا ، معاويہ كے سر سخت ہوا خواہوں اور جنگ صفين ميں لشكر معاويہ كى سردارى كرتے ہوئے شريك ہوا _

جنگ كے دوران ايك روز معاويہ نے اس سے كہا كہ تم على (ع) سے تنھا مقابلہ كرنے جائو گے اور ہم نے سنا ہے كہ تمھيں اس سے مقابلہ كرنے كى بہت ارزو ہے لہذا اب جا كر طاقت ازما لو ، اگر خدا وند عالم نے تم كو اس پر فتح و پيروزى عطا كى تو تمھارى دنيا و اخرت سنور جائے گى ؟

معاويہ نے كہا البتہ ميں جانتا ہوں كہ على (ع) سے تنہا لڑنا گويابھيڑيئےے منھ ميں جانا ہے اور كوئي بہادر على (ع) سے ٹكرا كے اپنى جان كوسلامت نہيں بچا سكا ہے لہذا بسر تمام عربى تعصب و جاہلى جسارت سے اپنے قدم كو كھنچ لے اور اس كام كو انجام نہ دے_

ايك دن بسر نے جنگ كرتے ہوئے حضرت على (ع) كو اپنے سامنے ديكھا تو ان پر حملہ كر ديا ليكن قبل اسكے كہ امير المومنين (ع) پر اسكى ضرب كارى اثر انداز ہو امام (ع) نے ايسا حملہ بسر پر كيا كہ زين سے زمين پر اگيا جب اس نے اپنى جان كو شير كے پنجہ ميں احساس كيا تو فورا ذليل و شرم اور حركت انجام دى كہ اپنے لباس كو اتار ڈالا ، يہاں تك كہ اسكى شرمگاہ ظاہر ہو گئي _

امام على (ع) نے فوراً اپنى انكھ بند كر كے پھير ليا اور اسكو اپنى حالت پر چھوڑ ديا _

اپ ہم جانتے ہيں كہ اسى طرح كا دوسرا واقعہ اسى جنگ صفين ميں عمر و بن عاص كے ساتھ پيش آيا تھا ، امام (ع) نے اس دن بھى اپنا منھ گھما ليا تھا اور ميدان جنگ ميں اپنى جان بچانے كے لئے ايسى گھٹيا حركت كى تھى كہ اپ اسكو قتل كرنے سے باز آئے_

۸۲

ان دونوں حادثوں كا ادبيات عرب ميں بہت برا اثر پڑا اور بہت سارے شعراء نے اس سلسلہ ميں شعر بھى كہے جن ميں ايك حارث بن نضر سہمى ہے وہ كہتا ہے :

تم لوگ جنگ كے دنوں ميں ہر روز سوار ہو كر ميدان جنگ ميں جاتے ہو ، ميدان جنگ كے گرد و غبار كے درميان اپنى شرمگاہ كو ظاہر كرنے كے لئے ، يہى وہ وقت ہے جو حضرت على (ع) اپنے نيزے كو تم لوگوں پر نہيں مارتے ہيں اور معاويہ تنہائي ميں تم دونوں پرہنستا ہے گذشتہ دنوں عمرو كى شرمگاہ ظاہر ہو گى اسكى يہ ركيك حركت ہميشہ مثل دستار كے اسكے اوپر بندھى رہے گى اور اج كے دن بسر نے بھى عمرو بن عاص كى طرح اپنى شرمگاہ كو ظاہر كرديا _

عمر و اور بسر سے كوئي كہدے كہ اپنى راہ پر خوب غور و فكر كريں ، كہيں ايسا نہ ہو كہ پھر شير كے مقابلہ ميں چلے جائيں ، تم لوگوں پر لازم ہے كہ اپنى اپنى شرمگا ہوں كا شكريہ ادا كرو كيونكہ خدا كى قسم ، اگر تمھارى شرمگاہيں نہ ہوتيں تو كوئي تمہارى جان كو نجات نہيں دے سكتا تھا_

يقينا تم لوگوں كى شرمگاہيں تھيں كہ جس نے تمھارى جان بچائي ، اسى واقعہ نے تم لوگوں كو بار ديگر ميدان جنگ ميں جانے سے روك ديا ہے ،(۴۱)

جنگ صفين كے قہر مان مالك اشتر نے بھى اس سلسلے ميں شعر كہا ہے جس كاترجمہ يہ ہے كه :

جنگ كے دنوں ميں ايك روز تمھارے بزرگوں ميں سے كسى ايك كے ميدان جنگ سے قدم اكھڑ گئے تو جنگ كے گرد و غبار كے درميان شرمگاہ نظر ائي ، صاحب نيزہ كى ضربت شديد نے ان پر وہ ظلم و ستم كيا كہ خوف كے مارے اپنى شرمگاہ كو اشكار كر ديا ، كس كى شرمگاہ ؟ عمرا و ربسر كى جنكى كمر ہميشہ كے لئے ٹوٹ گئي(۴۲)

____________________

۴۱_ استيعاب ص ۶۷ ، صفين ص ۵۲۷

۴۲_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۲۰۱

۸۳

مورخين نے اس مسئلہ ميں اختلاف كيا ہے كہ ، آيا بسر صحابى رسول (ص) ميں تھايا نہيں ؟ اور رسول (ص) سے شرفياب ہونے كى صورت ميں كوئي حديث سنى يا نہيں ؟

ليكن مورخين كا بيان ہے كہ وفات رسول (ص) كے بعد اپنے دين سے منحرف اور مرتد ہو گيا تھا ، جب امام عليہ السلام كو اسكى عراق و حجاز ميں ظلم وسفا كى كى خبر معلوم ہو ئي كہ بسر نے بچوں تك كو قتل كيا ہے تو اسكے حق ميں بد دعا كرتے ہوئے فرمايا ، خدا يا اس سے دين و عقل كو چھين لے ، امام عليہ السلا م كى دعا مستجاب ہوئي، مرنے سے پہلے اپنى عقل كو كھو بيٹھا مگر اس بد حواسى كے عالم ميں بھى يہ كہتا كہ مجھے تلوار دو ، اخر لكڑى كى ايك تلوار اسے دى گئي اور مشك ميں ہوا بھر كر اسكے سامنے ركھ دى گئي وہ اس مشك پر تلوار چلاتا اور جذبہ خون اشامى كى تسكين كا سامان كرتا تھا ، اخر اسى ديوانگى كے عالم ميں معاويہ كے زمانے ميں مر كھپ گيا(۴۳)

طبرى لكھتا ہے :

معاويہ نے ۴۰ھ ميں بسر بن ارطاة كے سربراہى ميں ايك فوج امام كے علاقے ميں بھيجى اس نے اپنے لشكر كے ساتھ شام سے حركت كى ، جب مدنيہ پہونچا تو اس درندہ صفت انسان نے باقى انصار جو سالہا سال اسلام كى طرف سے جنگ كئے تھے اور اس راہ ميں كسى قسم كى كسر نہ اٹھا ركھى تھى ان پر حملہ كر كے ان لوگوں كو خوب ڈرا يا دھمكايا اس حملہ كے نتيجہ ميں شہر مدينہ كے اكثر گھر ويران ہو گئے اور نہ جانے كتنے لوگ بے گھر ہو گئے _

پھر مدينہ سے نكل كر يمن كى طرف چل ديا حاكم يمن عبيد اللہ بن عباس جو اپنے بچوں كو ايك شخص كے حوالہ كر گئے تھے

بسر كے لشكر نے اس شخص سے ان بچوں كو چھين ليا پھر اس خونخوار و سفاك انسان نے اپنے ہاتھ سے ان دونوں بچوں كوتہ تيغ كيا ، بسر نے اسى جنايت و غارتگرى پر اكتفا نہيں كيا تھا ، بلكہ اكثر شيعيان على (ع) كو موت كے گھاٹ اتار ا ان لوگوں كا گناہ صرف اتنا تھا كہ محب على (ع) تھے(۴۴)

____________________

۴۳_ اغانى ج ۱۵ ص ۴۵ ، تہذيب ابن عساكر ج۳ ص ۲۲۲

۴۴_ طبرى ج۶ ص ۷۸

۸۴

ابراہيم بن محمد ثقفى اپنى كتاب غارات ميں لكھتے ہيں

معاويہ نے بسر كو تين ہزار كى فوج كے ساتھ عراق كى طرف روانہ كيا اور اسے حكم ديا كہ جب مدينہ پہونچ جانا تو لوگوں كو پريشان كرنا اور جس سے ملاقات ہو اسكو خوب ڈرانا دھمكانا جو لوگ ثروتمند ہوں اور ہمارى اطاعت كو قبول نہ كرتے ہوں انكے اموال كو غارت كر دينا ، بسر نے معاويہ كے حكم كے مطابق ان امور كو انجام ديا چنانچہ بسر اور اسكے لشكر والے جہاں كہيں اونٹوں اور جانوروں كو ديكھتے تھے انكے مالكوں سے چھين كر ان پر سوار ہو جاتے تھے يا پھر اسكو ہنكا كر ساتھ لے جاتے تھے ، جب لوٹ گھسوٹ كرتے ہوئے مدينہ پہونچا تو اس نے اہل مدينہ كے درميان تقرير كى ، اور ان لوگوں كو خوب برا بھلا كہكر بہت ڈرايا دھمكايا(۴۵)

معاويہ نے بسر بن ارطاة كو ۴۰ھ كے اوائل ميں يمن و حجاز كے لئے بھيجا ، اور اس نے بسر سے كہا كہ ، جو بھى امام (ع) كى اطاعت ميں ہو اسكو قتل كر دينا ، اس خونخوار بھيڑيئے نے معاويہ كے حكم سے مكہ و مدينہ جو اسلام كى زادگاہ اور جہاں وحى نازل ہو ئي تھى ضد انسانيت اور عظيم جنايت كا ارتكاب كيا(۴۶)

ابن عساكر نقل كرتے ہيں

بسر نے قبيلوں كے لوگوں پر حملہ كيا اور جو بھى امام (ع) كى محبت كا دم بھرتا تھا اسكو قتل كر ديتا تھا جيسے قبيلہ بنى كعب كا جو مكہ و مدينہ كے ما بين ايك ابادى ميں زندگى گزار رہے تھے قتل عام كيا اور اخر ميں لاشوں كو كنويں ميں پھينك ديا(۴۷)

مسعودى اپنى كتاب مروج الذہب ميں اس سلسلے ميں رقطراز ہيں :

بسر نے مدينہ ميں اور مدينہ و مكہ كے درميان بہت سارے قبيلہ خزاعہ اور ان كے علاوہ افراد كو قتل كيا _

جب مقام جرف پر آيا تو يہاں بہت سے اعراب زندگى گذارتے تھے جو ابناء سے مشہور تھے ، ان كو قتل كيا اور اس نے جسكو بھى محب امام (ع) پايا زندہ نہيں چھوڑا(۴۸)

____________________

۴۵_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۱۴ ، يعقوبى ج۲ ص ۱۴۱

۴۶_ تہذيب التہذيب ج۱ ص ۴۳۶

۴۷_ ابن اثير ج۳ ص ۱۵۴، تہذيب ابن عساكر ج۳ ص ۲۲۵

۴۸_ جمھرة انساب العرب ص۲۳۱

۸۵

مشہور اديب و مورخ ابو الفرج اصفہانى كتاب اغانى ميں بيان كرتے ہيں :

معاويہ نے واقعہ تحكيم كے بعد ، بسر كو حكومت امير المومنين (ع) كى جانب بھيجا انحضرت (ص) ان دنوں با حيات تھے _

معاويہ نے بسر سے كہا كہ مختلف شہروں ميں گھومتے پھر تے رہنا اور جس مقام پر شيعيان و اصحاب امام (ع) كو پانا انكو قتل كر دينا نيز قتل عام كے بعد انكے اموال و اسباب كو لوٹ لينا ، حتى عورتوں و بچوں پر بھى رحم نہ كرنا ، بسر معاويہ كے حكم كے مطابق تاخت و تاراجى كے لئے روانہ ہوا _

جب مدينہ پہونچا تو اس مقام پر اصحاب امير المومنين (ع) كے ايك گروہ كو موت كے گھاٹ اتارا اور اكثر گھروں كو ويران كر ديا ، پھر مكہ كى جانب رخ كيا اس جگہ پر فرزندان ابو لہب كے كچھ افراد كو مارڈالا اخر ميں سراة كى طرف حركت كى اس مقام پر امام (ع) كے چاہنے والے رہتے تھے ان كو قتل كيا اسكے بعد نجران كى طرف روانہ ہوا اس جگہ پر عبد اللہ بن مدان حارثى اور انكے فرزند كو جو خاندان عباس كے رشتہ داروں ميں تھے ، قتل كيا ، پھر يمن آيا امام (ع) كى جانب سے اس سر زمين كے حاكم و والى عبيد اللہ بن عباس تھے ، جو اس ہنگام ارائي كے وقت موجود نہ تھے ، بعض مورخين كے بقول بسر كى امد كو سنكر فرار ہو گئے تھے(۴۹) جب بسر نے انكو نہيں پايا تو ان كے دو بچوں كو دستگير كيا اور ان دونوں كو اپنے ہاتھوں سے قتل كيا پھر لشكر كو ليكر شام واپس چلا آيا(۵۰) _

مورخين لكھتے ہيں :

ايك عورت نے بسر بن ارطاة سے كہا كہ اج تك مردوں كو تو قتل كيا جاتا رہا ہے مگر اسلام تو اسلام دور جاہليت ميں بھى بچوں كو قتل نہيں كيا گيا وہ حكومت كبھى قائم رہ سكتى جسكى بنياد ظلم و جور پر ہو اور جس ميں بچوں اور بو ڑھوں پر بھى ترس نہ كھايا جاتا ہو(۵۱) كہتے ہيں كہ : ان دو بچوں كى غمخوار ماں نے جب اپنے جگر پاروں كو خاك و خون ميں غلطاں ديكھا تو اپنے

____________________

۴۹_ اغانى ج ۱۵ ص ۴۵ ، اسد الغابہ ج۳ ص ۳۴۰

۵۰_ مروج الذھب ج۶ ص ۹۳ ، نہاية الادب ص ۳۳۰

۵۱_ ابن اثير ج۳ ص ۱۵۴، ابن عساكر كى تہذيب ج۳ ص ۲۲۵

۸۶

ہوش و حواس كھو بيٹھى اور والہانہ طور پر اس طرح گھومتى پھرتى تھى كہ گويا اپنے بچوں كو تلاش كر رہى ہو ،، وہ اپنے درد ناك اشعار سے لوگوں كے دل ہلا دے رہى تھى ان اشعار كا ترجمہ يہ ہے كہ:

ہاں كون ہے جو ہمارے دو فرزنددلبند كى داستان سے اگاہ نہيں ہے ؟ كہ جو دو قيمتى ہيرے تھے ، جو تازے صدف سے باہر آئے تھے ، يہ دونوں ہمارے قلب كى دھڑكن اور سننے كى طاقت تھے ، لہذا ان دونوں كے حالات سے كوئي با خبر ہے ، ارے يہ ميرے دونوں بچے ہمارى ہڈيوں كے گود ے كى طرح تھے اب تو گودے كو ہمارى ہڈيوں سے نكال ديا گيا ان كے چلے جانے سے ہم پريشان ہيں اور كف افسوس كے كوئي چارہ نہيں ہے يہ ہمارى پريشانى اس لئے ہے تاكہ لوگوں كو معلوم ہو جائے كہ ان دونوں بچوں كے دل پر كيا گذرى جو باپ كى عدم موجودگى ميں ذبح كر ڈالے گئے ، مجھ سے كہا گيا ليكن ان كے كہنے پر مجھے يقين نہيں آيا ، لوگوں نے ان مظالم كو بيان كيا جو ميرے اوپر پڑے تھے كہ بسر كى شمشير برّان نے ميرے دونوں بيٹوں كو تہ تيغ كر ديا ، اہ ، كيا اس طرح كى بيداد گرى ممكن ہے ؟(۵۲)

كتاب استيعاب و اسد الغابہ ميں مرقوم ہے كہ بسر بن ارطاة نے ايك و حشيانہ حملہ قبيلہ ہمدان پر كر كے ان كے مردوں كو قتل كر ڈالا ، پھر انكى عورتوں كو اسير بنا يا گيا اسلام ميں يہ پہلى عورتيں تھيں جو اسير بنائي گئيں ، اسكے بعد بيچنے كى خاطر ان عورتوں كو بازار ميں لے جايا گيا(۵۳) اور كتاب غارات ميں ہے كہ ، مارب سے چندلوگوں پر مشتمل ايك گروہ كا بسر اور اسكے لشكر سے راستہ ميں مڈ بھيڑ ہو گئي اس درندہ صفت انسان نے ان تمام لوگوں كو قتل كر ديا ، صرف ايك ادمى اسكے پنجہ خونين سے اپنى جا ن بچا كر اپنے قبيلے ميں پہونچا ، اس نے اس ظلم عظيم كو ايك جملہ ميں بيان كيا كہ ، ہم تمام پير و جوان كى خبر مرگ اور قتل عام كى تم لوگوں كے لئے سنانى ليكر آئے ہيں(۵۴) _

____________________

۵۲_ اغانى ج ۱۵ ص ۴۵

۵۳_ استيعاب ج۱ ص ۶۶ ، اسد الغابہ ج۱ ص ۱۸۰

۵۴_ شرح نہج البلاغہ ، تحقيق محمد ابو الفضل ج۲ ص ۱۵

۸۷

لشكر علوى (ع) كا ايك سپاہى جاريہ بن قدامہ

اب ہميں جاننا چاہيئے كہ لشكر معاويہ كے سربراہ بسر بن ارطاة كے حملات اور خونريزيوں كے مقابلے ميں امام عليہ السلام نے كيا اقدام كيا ؟

امير المومنين (ع) نے ہميشہ كى طرح ان لوگوں سے ظلم و بربريت كا اور ان عوامل كو نيست و نابود كرنے كے لئے كھڑے ہونے كو كہا :

كوفيوں نے گذشتہ كى طرح اس مرتبہ بھى حكم امام (ع) كى تعميل ميں دلچسپى كا اظہار نہيں كيا ،، سارے مجمع ميں سناٹا چھايا ہو ا تھا ، امير المومنين (ع) كى درد بھرى آواز كوفہ و مسجدكوفہ كے درو ديوار ميں گونج رہى تھى ليكن مردہ روح اور بے حس كوفيوں كو بيدار نہ كر سكى _

تھوڑى دير گذرى كہ ايك اسلام كا سپاہى جاريہ بن قدامہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو ئے اور امام (ع) كى آواز پر لبيك كہا :

يعقوبى كے بقول امام (ع) نے جاريہ كو بھيجتے وقت ان كو يوں حكم ديا

'' كبھى زخمى كو قتل نہ كرنا اگر مجبور ہو جائو تو خود بھى اور اپنے لشكر كو بھى راستہ پيدل طئے كرانا ہرگز لوگوں كے جانوروں كو زور زبر دستى سے نہ چھين لينا ، ابادى و بيابانى چشموں سے صاحبان اب سے پہلے استفادہ نہ كرنا ، اپنے لشكر كى خوشنودى كى خاطر ہرگز مسلمانوں پر سب و شتم نہ كرنا اگر ايسا كرو گے تب جا كر دوسرے لوگ تمھارا احترام و ادب كرينگے اور ياد ركھو ہر گز اہل كتاب جو مسلمانوں سے عہد و پيمان كئے ہوئے ہيں ان پر ظلم و ستم نہ كرنا _

دوسرے مقام پر اس فرمان كو يوں بيان كيا گيا ہے

سوائے ان مقامات كے جہاں پر حق تم كو حكم ديتا ہے كسى كے خون كو نہ بہانا ، اسى طرح تمہارى ذمہ دارى ہے كہ لوگوں كے خون كى خاطر حق كا خيال و محافظت كرو(۵۵)

كتاب غارات ميں جاريہ كى دفاعى جنگ كى داستان اس طرح نقل ہوئي ہے

____________________

۵۵_ يعقوبى ج۲ ص ۱۴۳

۸۸

جاريہ كوفہ سے نكلنے كے بعد سب سے پہلے بصرہ آئے يہاں سے كوچ كر كے حجاز گئے اور اس طرح بڑھتے ہوئے يمن پہونچ گئے ، اس موقع پر بسر بن ارطاة جاريہ كى امد سے مطلع ہو گيا ، لہذا اپنے راستہ كو پگڈنڈيوں سے طئے كرتا ہوا يمامہ پہونچا ، جاريہ بن قدامہ اپنى تيز رفتارى سے اگے بڑھتے چلے جا رہے تھے ، اور كسى شہر يا قلع ميں نہيں اترے تمام جگہوں پر بسر كو ڈھونڈ ھ رہے تھے اور بسر ادھر ادھر بھاگ رہا تھا تاكہ مملكت امام (ع) كى سر حدوں سے باہر ہو جائے _

جب لوگوں نے بسر ارطاة كو بھاگتا ہوا ديكھا تو چاروں طرف سے اس پر حملہ كر ديا كيونكہ لوگوں نے اسكى تباہكارى و ظلم و زيادتى كو بہت ديكھا تھا _

بسر كے وحشيانہ حملے ميں تقريبا تيس ہزار افراد قتل ہوئے اور نہ جانے كتنے قبيلوں كو اگ ميں جھونك ديا گيا _

ايك عرب شاعر بسر كى درندگى نيز اس حادثہ كے پس منظر ميں ايك بيت كہتا ہے جس كا ترجمہ قارئين كى خدمت ميں پيش كر رہے ہيں

جس جگہ بسر اپنے لشكر كو لے گيا جب تك قتل كى طاقت رہى قتل كرتارہا ورنہ اگ لگا دى(۵۶)

دو متضاد سياستيں

معاويہ نے اور دوسرے لٹيروں كو بھى امام (ع) كى حكومتى سرحدوں كو تاخت و تاراج كرنے كے لئے بھيجا تھا جس كو ہم نے اپ حضرات كے لئے بيان نہيں كيا _

اگر تفصيل سے ديكھنا چاہتے ہيں تو تاريخ كى كتابوں كو ملاحظہ فرمائيں :

معاويہ كى فوج نے ہميشہ امام (ع) كے سپاہيوں سے مقابلہ نہ كرنے كے لئے صرف ان مقامات پر حملہ كيا جو انكى دسترس سے دور تھايا انكے فوجى ٹھكانے اسلحوں يا سپاہيوں كے لحاظ سے بہت كمزور تھے جب بھى لشكر كوفہ نے ان لٹيروں كا پيچھا كيا تو ان كے خوف سے بھاگ كھڑے ہو ئے _

حقيقت ميں يہ لوگ تخريب كار اور پيشہ ور ڈاكو تھے ، منجملہ وہ لٹيرے شامى جنكى لشكر امام (ع) سے مڈ بھيڑ ہوئي معاويہ نے

____________________

۵۶_ اغانى ج ۱۷ ص ۷۲

۸۹

انكو بين النھرين بھيجا تھا، اس مقام پر امام(ع) كى طرف سے جو حاكم تھے انھوں نے كميل بن زياد سے جو شہر ہئيت كے والى تھے فوجى مدد مانگى ، كميل چھہ سو سواروں كا ايك دستہ ليكر انكى مدد كو چل ديئے ، دونوں لشكر كے درميان گھمسان كى جنگ ہوئي لشكر شام معمول كے مطابق اپنے كشتہ ہائے نجس كو وہيں چھوڑ كر فرار كر گئے_

كميل نے حكم ديا ، خبر دار بھاگنے والوں كا پيچھا نہ كيا جائے اور نہ ہى زخميوں كو جان سے مارا جائے اس جھڑپ ميں لشكر كميل سے صرف دو افراد شھيد ہوئے _

دوسرا واقعہ

امام (ع) كے ايك والى نے معاويہ كے لٹيرے دستہ كا پيچھا كيا ، تعاقب كرتے كرتے فرات سے اگے نكل گئے تو اپنے لشكر والوں كو شام كے مختلف علاقوں ميں لوٹنے كے لئے بھيج ديا يہاں تك كہ لوٹ مار كرتے ہوئے رقہ كے قريب پہونچ گئے جو عثمان كے ہوا خواہوں كا مركز تھا اس مقام پر بھى لوٹ گھسوٹ كى اور كافى مقدار ميں ہتھيار گھوڑے وغيرہ چھينے ، معاويہ نے ان لوگوں كا پيچھا كرنے كے لئے ايك چھوٹا دستہ روانہ كيا مگر يہ لوگ ان كے ہاتھ نہ آئے كيونكہ اپنے مركز نصيبين ميں صحيح سالم پلٹ آئے تھے ، اس سردار لشكر نے واپس انے كے بعد امام (ع) كو سارى روداد لكھكر بھيجى ، اس حاكم شہر كى گذارش سے نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ اس نے اپنے امور كو كسى صورت ميں غير شرعى نہيں جانا تھا _

كيونكہ معاويہ كے خونخوار بھڑيئےور لٹيرے لشكر كے مقابلہ ميں اس نے بہت چھوٹا انتقام ليا تھا شايد اس انتظار ميں تھا كہ حضرت امير المومنين (ع) ہميں انعام و اكرام سے نوازيں گے _

ليكن امام (ع) عليہ السلام نے نہ يہ كہ اسكى شاباشى نہ كى جواب ميں يہ لكھا كہ :

ائندہ ايسى حركت نہ كرنا دشمن كے اموال كو اس وقت لينے كا حق ركھتے ہو جب جنگ ہو اور دشمن ہاتھوں ميں تلوار ليكر سامنے اجائے اس وقت تمھيں حق ہے كہ دشمن كے اموال كو تصرف كرو _

جيسا كہ اج بھى ديكھنے ميں اتا ہے كہ جہان اسلام اسى دو متضاد سيا ستوں كى شكار ہے

۹۰

( ۱ )

سياست امير المومنين (ع)

صرف جنگجوئوں سے جنگ كرنا لوگوں كے جانوروں كو نہ چھيننا ، اگر مجبور ہو جائو تو راستہ كو پيدل طئے كرنا چشموں اور كنويں كے پانى كو نہ پى لينا ان لوگوں سے پہلے جو اس علاقہ كے افراد ہيں _

مسلمانوں كو برا بھلا نہ كہنا ، عہد و پيمان والوں كو مورد ستم قرار نہ دينا اگر چہ اہل كتاب يا غير مسلم ہى كيوں نہ ہوں ، صرف حق و قانون كے مطابق كسى كے خون كو بہا سكتے ہو ، دشمنوں كے مال و اسباب پر حق تصرف نہ جتانا سوائے ان چيزوں كے جو ميدان جنگ ميں گھوڑے و ہتھياروں كو اپنے ساتھ ليكر آئے ہوں(۱)

( ۲ )

سياست معاويہ

اگر كوئي شخص تمھارا ہم خيال وہم عقيدہ نہيں ہے تو اسكو مار ڈالنا تمام اباديوں كو خاك ميں ملا دينا اموال كو لوٹ لينا ، اگر كوئي شخص ہمارى اطاعت ميں نہيں ہے اور ثروتمند ہے تو زور زبردستى سے اسكے مال كو چھين لينا ، لوگوں كو بے جھجك اذيت و تكليف پہونچانا ، محبان على (ع) كو موت كے گھاٹ اتار دينا يہاں تك كہ انكے بچوں اور عورتوں پر بھى رحم نہ كرنا(۲)

* * *

تجزيہ و تحليل

ان دو سياستوں كے درميان ہونا تو يہ چاہئے تھا كہ جس نے لوگوں كے اموال كو محترم جانا تھا اس انسان كى سياست پر جس نے اسباب و اموال كو غارت كرنے كا حكم ديا تھا كامياب ہو _

ليكن ايسا نہيں ہوا بلكہ اور جو لوگ زندگى كو ازاد اور قانون و انسانيت سے كوسوں دور ركھنا چاہئے تھے ان افراد پر جو خود كو

____________________

۱_ يعقوبى ج۲ ص ۱۴۲

۲_ شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۱۴ ، يعقوبى ج۲ ص ۱۴۱

۹۱

پابند اسلام اور فضيلت و انسانيت كى معرفت ركھتے تھے كامياب ہوئے _

ليكن يہ كاميابى حقيقى معنوں ميں كاميابى نہيں ہے بلكہ چند روزہ كاميابى ہے ، اس لئے كہ پہلے گروہ كو اپنے افكار و نظريات كو كامياب بنانے كے لئے قاعدہ و قانون كى ضرورت نہيں ہے ، جبكہ دوسرا گروہ انسانيت كے قيد و بند ميں جكڑا ہوا ہے _

يہى وہ پابندياں تھيں جو لشكر علوى (ع) ميں پائي جا رہى تھى اہل عراق و لشكر امام (ع) نے اسلامى پابندى اور انسانى حقوق كى رعايت كى بناء پر بہت تساہلى كى اور امام (ع) كى آواز پر لبيك نہيں كہا ، كيونكہ ان لوگوں كے پيش نظر وہ جنگ تھى جس كا دنيا ميں سوائے موت كے كوئي دوسرا نتيجہ نہ تھا _

اگر كامياب ہوتے تو لشكر مغلوب كے اموال كو ہاتھ نہيں لگا سكتے تھے اور نہ كسى كو قتل كر سكتے تھے نيز عورتوں و بچوں كو اسير بھى نہيں بنا سكتے پھر ايسى صورت ميں كيوں جنگ كريں ؟

كيونكہ ان لوگوں كو اس راہ ميں كوئي مادى فائدہ نظر نہيں ارہا تھا اور مقابلہ ميں موت خطرے كى گھنٹى بجا رہى تھى ، پس اگر ايك جذبہء خدائي اور فضيلت انسانى كو پيش نظر نہ ركھا جائے تو ميدان جنگ ميں جانا بے فائدہ ہو جائے گا _

مگر معاويہ كى آواز پر اہل شام جلدى سے لبيك كہنے لگنے تھے ، كيونكہ ان كے سامنے وہ جنگ تھي_ جو تمام غرائز حيوانى كو پورا كر رہى تھى جسے چاہيں موت كے گھاٹ اتار ديں يا جسكو چاہيں اسير و غلام بنا ڈاليں ، انكى مالى درامد لوگوں كے لوٹے ہوئے اموال و اسباب ہيں پھر اس صورت ميں كيوں نہ معاويہ كے حكم پر شانہ بشانہ چليں اور معاويہ كى خواہشات كو كيوں نہ پورا كريں ؟ ايك خاص بات يہ ھيكہ اہل شام اخلاق اسلامى سے بالكل عارى تھے كيونكہ بادشاہ روم كے بعد اس شہر كا حاكم معاويہ بن گيا تھا _

البتہ اگر امام (ع) بر فرض محال حق كے راستے كو چھوڑ ديتے اور خدا و اسلام كو ( العياذ باللہ ) بھلا ڈالتے اور اپنے لشكر والوں كو معاويہ كى طرح ہر كام ميں ازاد چھوڑ ديتے تو معاويہ كى سارى كى سارى مكارانہ سياست نقش بر اب ہو كر رہ جاتيں ، ليكن امام (ع) اسكى طرح نہ تھے انھوں نے اہل كوفہ سے خطاب كيا كہ :

خدا كى قسم ، تم لوگوں كى اصلاح جس طرح ہم كر رہے ہيں اسكے بارے ميں خوب جانتے ہيں ليكن كيا كروں اس كام

۹۲

ميں اپنا اور اپنوں كى تباہى و بربادى ديكھ رہا ہوں(۳)

ہاں ، امام عليہ السلام چاہتے تو پيسے سے لوگوں كو خريد سكتے تھے اگر چاہتے تو چاپلوسى ، اور احكام خدا سے چشم پوشى كر كے قبيلوں كے بڑے اور قدرتمند افراد كو اپنى طرف كھينچ سكتے تھے ، ليكن ان تمام امور ميں اپنى اور اپنے دين و اخرت كى تباہى ديكھ رہے تھے ، انھوں نے كبھى برائي كو ہاتھ نہيں لگايا كيونكہ اپ پاكيزگى كى تمام چاشنى كو گہرائي سے چكھے ہوئے تھے ، كيا معاويہ نے خون عثمان كے انتقام كے لئے امام (ع) سے جنگ كى تھى ؟

كيا تمام مسلمانوں كى بستياں جيسے سرزمين عراق ، حجاز ، حتى يمن قتل عثمان ميں شريك تھيں ؟ آيا ہزاروں شامى لٹيروں نے خون عثمان كے انتقام ميں جو ايك شخص سے زيادہ نہ تھا قتل كيا ؟ كيا عثمان كے خون كے گناہ ميں اسير كى گئي مسلمانوں كى عورتوں اور قتل كئے گئے چھوٹے بچے كے كاندھوں پر تھا ؟

ہر گز نہيں

ليكن معاويہ باپ كى وصيت كے مطابق اپنى جاہ طلبى و حكومت كى تلاش ميں تھا اسكى ارزو اسلام كى وسيع و عريض سر زمين پر حاكم بننے كى تھى _

معاويہ نے اس ہدف تك پہونچنے كے لئے ہر وسيلہ كو استعمال كرنا ،روا جانا اور ہر برائي كو بے دريغ انجام ديا _

حقيقت ميں قصاص خون عثمان كا مدعى اپنے مقصد كو بروئے كار لانے كے لئے بہانہ تھا كہ جس سے اس نے فائدہ بھى اٹھايا ، يہ تمام چيزيں امام على (ع) كے زمانے ميں معاويہ كے ايك بڑے نقشے كى چھوٹى سى جھلكى تھى جسكو ہم نے اپكى خدمت ميں پيش كيا ہے _

____________________

۳_ يعقوبى ج۲ ص ۱۴۲

۹۳

معاويہ امام حسن (ع) كے زمانے ميں

جب امير المومنين(ع) ابن ملجم كى تلوار سے شہيد ہو گئے اور مسلمانوں نے اپنى تاريخ ميں دوسرى مرتبہ ايك ازاد بيعت كر كے امام حسن (ع) كو اپنا خليفہ بنا ليا تو اپ نے ايك خط معاويہ كو تحرير كيا اور اس سے اطاعت و بيعت كا مطالبہ كيا ، كيونكہ ايك طرف امام بر حق تھے دوسرى طرف لوگوں نے اپكى بيعت كر لى تھى ، ليكن جيسا كہ اپ حضرات جانتے ہيں كہ _

معاويہ نے جس طرح سے اپنى تمام عمر ميں حق كى پيروى نہيں كى اسى طرح نہيں چاہتا تھا كہ حق كے سايہ ميں جائے _ يہى وجہ تھى جو اس نے امام حسن (ع) كى بيعت نہيں كى _ اور اپ سے جنگ كرنے كے لئے ايك لشكر عظيم كے ساتھ عراق كى طرف روانہ ہو گيا _ امام مجتبى (ع) بھى سر براہ كفر و جاہليت كامقابلہ كرنے كے لئے اپنى فوج كے ساتھ كوفہ سے نكل پڑے_

مقدمةالجيش كے عنوان سے اپنے چچا زاد بھائي عبيد اللہ بن عباس كو عراق و كوفہ كے بہترين بارہ ہزار سپاہيوں كے ساتھ روانہ كيا _ اور انكے ساتھ فدا كار و مومن شجاع قيس بن سعد كو بھيجا _

امام عليہ السلام نے عبيد اللہ بن عباس سے كہا كہ ہرگز قيس سعد بن كى رائے كو رد نہ كرنا اور تمام امور ميں انكى نظر كو مقدم ركھنا _

چند دنوں بعد لشكر نے امنے سامنے پڑائو ڈالا نيز چھوٹى موٹى جھڑپيں بھى ہوتى رہى _ ليكن معاويہ بجائے جنگ كے چاہتا تھا كہ چالاكى و دھوكہ دھڑى سے كام لے _ اسى لئے ايك ايسا پروپيگنڈہ كيا كہ لشكر امام (ع) كى بنياد متزلزل ہو گئي _

شب كے سناٹے ميں عبيد اللہ بن عباس كے پاس معاويہ كا ايك ايلچى آيا _ اس نے معاويہ كا پيغام ديا كہ حسن (ع) نے ايك خط صلح كرنے كے لئے ہمارے پاس بھيجا ہے اگر تم اس وقت ہمارى اطاعت كو قبول كر لو گے تو ہم تم كو والى و حاكم بنا دينگے اگر اس پيشنہاد كو ٹھكرائو گے اور مسئلہ صلح اشكار ہو جانے كے بعد ہمارے پاس ائو گے تو دوسروں كى طرح تمھيں بھى مقام و رياست نہيں ديں گے اور سوائے كف افسوس كے كوئي چارہ نہيں رہے گا ، اگر اس وقت ہمارے ہمنوا بن جائو گے تو دس لاكھ درہم تمھيں دينگے جو كہ پہلى تھيلى پانچ لاكھ درہم كى ابھى تمہارے ہاتھوں ميں پہونچ جائے گى اور باقى جب ہمارى فوج كوفہ ميں پہونچ جائے گى تو تمھيں ديديگى _

۹۴

عبيد اللہ شب كے سناٹے ميں معاويہ كے دام فريب ميں اگئے جو ہوا پرستوں كو ڈانوا ڈول كرنے كے لئے كافى تھا _

عبيد اللہ سوچنے لگے كہ _ معاويہ كى باتيں صحيح و درست ہيں _ جب امام (ع) صلح پر امادہ ہو ہى گئے ہيں تو ہمارے لئے سوائے دو راہوں كے كچھ نہيں ہے _

اگر معاويہ كى طرف جاتے ہيں تو احترام و اكرام اور دولت و ثروت ہے _ اگر اپنى جگہ پر قائم رہتے ہيں تو جان كا خطرہ اور جنگ كى زحمت ہے _ پھر ہم كيوں قتل ہوں اور زحمت جنگ كو برداشت كريں _ يہى شيطانى اور تاجرانہ فكر تھى جو عبيد اللہ كو لے ڈوبى _

چنانچہ رات كى تاريكى ميں ايك دستہ كے ساتھ لشكر اموى سے جا ملے اور لشكر بغير سردار كے ہو گيا(۴)

انھيں آيا م ميں معاويہ نے جو دوسرى چال چلى وہ يہ تھى كہ _ مخفيانہ طور سے ايك سفير كو عمر و بن حريث، اشعث بن قيس _ حجار بن ابجر اورشبث بن ربعى كے پاس بھيجا _ يہ تمام لوگ قبائل كو فہ كے سردار اور لوگوں ميں اچھا رسوخ تھا _ مگر اہلبيت (ع) سے دشمنى ركھنے كى وجہ سے كوئي خاص اہميت كے حامل نہ تھے ، معاويہ كے جا سوس نے ہر ايك كو اس طرح پيغام ديا كہ اگر تم لوگوں نے حسن (ع) بن على (ع) كو قتل كر ديا تو ابھى ايك لاكھ درہم نيز لشكر شام كى سردارى اور حاكم شہر نيز اپنى بيٹيوں كو اس كام كے عوض ميں دينگے _ اسكى خبر امام حسن (ع) كو معلوم ہوئي تو اپ اپنے لباس كے اندر زرہ پہننے لگے تاكہ ناگہانى حملے سے بچ سكيں حتى امام (ع) اسى حالت ميں نماز بھى پڑھتے تھے اور زرہ كو ايك لمحہ كے لئے بھى جسم سے جدا نہيں كرتے تھے _ امام (ع) كا يہ احتياط بجا تھا كيونكہ انہيں ميں سے ايك ضمير فروش نے انحضرت (ع) پر حالت نماز ميں تير سے نشانہ بنايا تھا ليكن چونكہ امام حسن (ع) كے جسم پر زرہ تھى لہذا تير نے اپنا كام نہيں كيا اور امام عليہ السلام بچ گئے(۵)

____________________

۴_ مقاتل الطالبين ص ۶۵

۵_ بحار الانوار ج ۱۰ ص ۱۰۷

۹۵

يعقوبى لكھتے ہيں :

معاويہ نے جاسوسوں كا ايك گروہ لشكر امام (ع) ميں چھوڑا تاكہ انحضرت(ص) كے لشكر ميں يہ پروپيگنڈہ كريں كہ قيس بن سعد جنھوں نے عبيد اللہ بن عباس كے لشكر كى سردارى كا عہدہ سنبھال ليا تھا معاويہ سے صلح كر لى ہے _

دوسرى طرف ايك جاسوسى دستہ كو قيس كے لشكر ميں چھوڑا تاكہ اس بات كا پروپيگنڈہ كريں كہ امام (ع) معاويہ سے صلح كرنے پر تيار ہو گئے ہيں _

معاويہ نے اس حربہ سے كوشش يہ كى كہ دونوں لشكروں كے نظم و نسق اور اتحاد كا شيرازہ بكھير ديں اور ان كے لشكر كے مختلف دستوں كو فكر و عمل ميں الجھا كر ركھ ديں _

معاويہ نے دوسرى چالاكى يہ كى كہ _ ايك حكومتى وفد كو امام (ع) كے پاس روانہ كيا جو ان لوگوں پر مشتمل تھا ، مغيرہ بن شعبہ ، عبد اللہ بن عامر ، عبد الرحمن بن حكم ، يہ تمام حضرات شہر مدائن ميں جو امام (ع) كے فوجى افسروں كا اڈہ تھا امام حسن (ع) سے ملاقات كى اور گھنٹوں بات كرنے كے بعد يہ لوگ ہنستے ہوئے نكلے ، اور ايك دوسرے سے بلند آواز ميں گفتگو كر رہے تھے تاكہ سبھى لوگ باتوں كو سن ليں ان لوگوں نے كہا ، خدا وند كريم نے پسر رسول (ص) كے ہاتھوں لوگوں كے خون كو بہنے سے بچا ديا ، اور فتنہ و فساد كى اگ كو خاموش كر كے صلح و اشتى كو قائم كر ديا _

جب ان باتوں كو لشكر امام (ع) نے سنا تو بہت حيرت ميں پڑ گيا ، خاص طور سے وہ لشكر جس كو خود امام (ع) نے تيار كيا تھا ، كيونكہ جن لوگوں نے صرف جنگ كرنے كو سوچا تھا اور امام (ع) كے ساتھ اسى لئے ہوئے تھے كہ معاويہ سے جنگ كرنے كے لئے جائينگے وہ امام (ع) كى قدر و منزلت اور انكى رہبريت كو مان كے تھوڑے ساتھ ہوئے تھے _ ورنہ معاويہ جيسے ظالم و جابر كا نمائندہ مغيرہ بن شعبہ جو سياست كار اور بد كار تھا اسكى باتوں ميں اجاتے ؟

يہى وجہ تھى كہ وہ لوگ انكى باتوں كو سنتے ہى اس طرح اگ بگولا ہوئے كہ چاروں طرف سے سردار لشكر كے خيمہ پر حملہ كر ديا اور سارا مال و اسباب لوٹ ليا _

امام عليہ السلام ان لوگوں سے بچنے كے لئے گھو ڑے پر سوار ہوئے اور حاكم مدائن كے گھر كى طرف چل ديئے

۹۶

شہر مدائن كے نزديك خوارج كا ايك شخص بنام جراح بن سنان اسد ى اندھيرى گلى ميں چھپا ہوا تھا تاكہ امام (ع) پر حملہ كر كے انكو قتل كر دے لہذا جس وقت امام حسن (ع) كا كوچہ سے گذر ہوا تو اس نے خنجر سے ايسا حملہ كيا كہ اپكى ران پر زخم لگا اور اپ برى طرح زخمى ہو گئے _

امام (ع) كے وفادار ساتھيوں نے اسكو وہيں پكڑ ليا اور اسى مقام پر قتل كر ڈالا _

امام عليہ السلام كو مدائن كے دار الامارہ ليجايا گيا تاكہ اپ كے زخم كا مداوا ہو سكے _اپ كے جسم سے اس قدر خون بہہ گيا

تھا كہ اپ كافى كمزور ہو گئے ، اسى وجہ سے صحتياب ہونے ميں كافى وقت لگا _

لشكر بھى بغير سردار كے ہو گيا تھا بلكہ ان لوگوں نے صحيح معنوں ميں حقيقى ہدف كو نہيں پہنچانا تھا اور نہ ہى حوادث زمانہ ميں ثابت قدم رہے تھے ورنہ تتر بتر نہ ہوتے(۶)

طبرى اس واقعہ كو يوں بيان كرتے ہيں

جب لوگوں نے امام (ع) كى بيعت كر لى تو اپ ان لوگوں كو ليكر معاويہ سے جنگ كرنے كے لئے كوفہ سے نكلے اور مدائن كى طرف حركت كى ، مدائن پہونچنے كے بعد لشكر كى جمع اورى كرنے ميں مشغول ہو گئے اچانك ايك آواز بلند ہوئي كہ اگاہ ہو جائو كہ قيس بن سعد مار ڈالے گئے اس آواز كا بلند ہونا تھا كہ فوج ميں بھگڈر مچ گئي ، فتنہ پروروں نے موقع غنيمت جانا اور امام (ع) كے خيمہ پر چڑھائي كر دى يہاں تك كہ انحضرت (ص) كے پيركے نيچے سے چٹائي كو چھين كر بھاگ كھڑے ہوئے(۷)

ايك روايت كے مطابق انحضرت(ص) كى كنيزوں كے پا زيب اتار كر لے گئے(۸)

____________________

۶_ يعقوبى ج۲ ص ۱۵۶

۷_ طبرى ج۶ ص ۶۹

۸_ بحار الانوار ج ۱۰ ص ۱۱۶ بہ نقل ابن ابى الحديد

۹۷

طبرى مزيد لكھتا ہے :

امام (ع) كى بيعت كو زيادہ دن نہيں گذرے تھے كہ اپ پر حملہ ہوا جس كى وجہ سے اپ برى طرح زخمى ہو گئے _

مشہور اديب و مورخ ابو الفرج اصفہانى لكھتے ہيں :

معاويہ نے اپنے ادمى كو امام حسن كے پاس صلح كرنے كے لئے بھيجا اپ نے اس سلسلے ميں چند شرطيں ركھيں جن ميں كچھ يہ ہيں

۱_ پہلے كى طرح كسى كو اذيت نہ ديا جائے

۲_ شيعيان امير المومنين (ع) كو ازاد چھوڑا جائے

۳_ حضرت على (ع) پر سب و شتم نہ كيا جائے

امام حسن (ع) نے صلح اس لئے كر لى كہ ايك طرف معاويہ كى مكارانہ چال تھى تو دوسرى طرف اہل كوفہ كى سستى لہذا جب معاويہ نے صلح كرنے كے بعد علوى مركز خلافت كوفہ پر قدرتمندانہ انداز ميں قدم ركھا تو جلسہ عام كو ان الفاظ ميں خطاب كيا _ خدا كى قسم ، ہم نے تم لوگوں سے نماز روزہ و حج و زكاة كى خاطر جنگ نہيں كى تھى ، تم لوگ تو خود اس كام كو انجام ديتے ہو ، بلكہ ميں نے جنگ اس لئے كى تھى كہ تمھارے اوپر حكومت كروں خداوند عالم نے ميرى دلى تمنا پورى كر دى درانحاليكہ تم لوگ اس پر راضى نہيں ہو(۹) پھر بے جھجك كہا كہ ، اگاہ ہو جائو جو كچھ ہم نے حسن (ع) سے عہد و پيمان كيا تھا اب يہ دونوں ميرے قدم تلے جاتے ہيں(۱۰) _

____________________

۹_ مقاتل الطالبين ص ۷۰ ، تاريخ ابن كثير ج۸ ص ۱۳۱ ، شرح ابن ابى الحديد ج۴ ص ۱۶

۱۰_ مقاتل الطالبين ص ۶۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج۴ ص ۱۶

۹۸

صلح كے اسباب و علل

جس طرح قيام امام حسين (ع) دين كى بقاء اور اسلام كى حقيقى تصوير كو باقى ركھنے ميں موثر ثابت ہوا ہے اسى طرح صلح امام حسن (ع) دين كى بقاء نيز اسلام حقيقى كو زندہ ركھنے ميں كافى موثر ثابت ہوئي ہے _

ہم نے اس كتاب كى تمام بحثوں ميں حتى الامكان اختصار سے كام ليا ہے لہذا صرف وجوہات كو اپ حضرات كى خدمت ميں پيش كر رہا ہوں جو مختلف جہات سے ضرورى و لازم ہيں ، البتہ ان علتوں كى تفصيل كے لئے خود ايك مستقل كتاب كى ضرورت ہے ، جسكو چند سطروں كے اندر بيان كرنا بہت مشكل ہے _

۱_ اپ نے پہلے ملاحظہ فرمايا كہ ، معاويہ نے عثمان كے خون الود كرتہ سے كس طرح ماہرانہ انداز ميں فضا كو مكدر كيا اور كوشش كى كہ امام (ع) كے پاك و مقدس دامن كو قتل عثمان سے متھم كر كے داغدار كر دے ، وہ اہل شام كى اچھى خاصى جمعيت، خليفہ مظلوم كے خون كا بدلہ لينے كے لئے اكٹھا كر كے انحضرت(ص) اور ان كے ساتھيوں كوجنگ كرنے كے لئے ميدان صفين ميں لے آيا ، اس نے اپنے امور كى اساس جھوٹ ، فريب اور چالاكى پر ركھى تھى ، اسكے ذريعہ چاہتا تھا كہ تمام سر زمين اسلامى كے سادہ لوح افراد كو كم و بيش دھوكہ ديدے يا كم از كم شك و ترديد ميں ڈال دے حتى عمار ياسر جيسے

۹۹

انسان كا وجود جو اس زمانے ميں لشكر علو ى (ع) كى حقانيت كى دليل تھے اور جو بھى ان سے ٹكر اتا ، حديث رسول (ص) كے لحاظ سے گمراہ و باغى ہوتا اس نے بھى سادہ لوح افراد اور معاويہ كى نيرنگى و مكارى كے مقابلہ ميں سو فيصد فائدہ نہيں پہونچايا تھا ، لہذا ضرورى تھا كہ ايك ايسا كام كيا جائے تاكہ معاويہ اپنى مكارانہ چال سے باہر آئے اور اسكى سياہكارى و بد كارى ظاہر ہو جائے_

صلح امام حسن (ع) نے اساسى و بنيادى كام يہى كيا جسكو اوپر بيان كيا جا چكا ، جو معاويہ كى پہلى بد كردارى و سياہ انديشى كى نشاندہى كرتى ہے _

يہ تمام خون كا دريا اور غارتگرى كا بازار جو قصاص خون عثمان كے نام پر زمين پر بہايا اور انجام ديا گيا حقيقت ميں معاويہ كى جاہ طلبى اور اسكى رياست خواہى تھى _

معاويہ كى تمام كوششيں سو فيصد جوش و جذبہ مادى اور رياست و حكومت كى خاطر تھى اور بس، انتقام خون عثمان كى داستان جھوٹى نمائشے اور چالاكى كے علاوہ كچھ نہ تھى ، يہ مسئلہ جب يہاں تك پہونچ گيا اوررفتہ رفتہ لوگوں كو احساس ہونے لگا تو زيادہ دن نہيں گذرا تھا كہ لوگ عدل و مساوات اور حكومت علوى كى طرف بھاگنے لگے ، يہاں تك كہ جو شام ميں پناہ گزين تھے اور معاويہ كے عقيدتمندوں ميں تھے ہر روز گوشہ و كنار سے خاندان على (ع) كى فرد كى رہبرى ميں امويوں كے خلاف ہنگامہ كھڑا كرنے لگے(۱۱)

حقيقت ميں حكومت معاويہ كے زمانے ميں اور اسكے بعد والے سربراہان مملكت نے اتنى تباہى و بربادى اور جنايت عظيم كا بازار گرم كيا كہ مخالفين نے بھى احساس كيا كہ حكومت علوى (ع) تمام عدالت و مساوات كے لحاظ سے تنھا حكومت تھى اگر چاہتى تو ہم لوگوں كو سعادت حقيقى تك پہونچا ديتى _

۲_ دوسرا مسئلہ جو بڑا عامل صلح كے لئے بناوہ سپاہ كوفہ كى تساہلى اور فكر و عمل ميں نا ہما ھنگى تھى ، اپ نے اس سے پہلے ملاحظہ فرمايا كہ يہى لشكر اتنا قوى تھا كہ اس نے معمولى سى بات پر ہزاروں ادميوں پر مشتمل فوج كو درہم و برہم كر كے انكے نظم و اتحاد كو بكھير ديا تھا اور سبط رسول (ص) كے قتل كى سازش كو ايك معمولى حادثہ سمجھا تھا كہ اگر اس راہ ميں موانع پيش نہ

____________________

۱۱_ مقاتل الطالبين ص ۱۱۷، ۵۱ ، مقالات اسلاميين ج۲ ص ۱۶۶

۱۰۰