ساتویں فصل
آستانہ مقدسہ کی معماری ،ہنری تبدیلیوں کا خاکہ
فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر فیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو و الاصال رجال تلھیھم تجارۃ و لا بیع عن ذکر اللہ ( سورہ نور/ ۳۶،۳۷)
خدا وند عالم کایہ روشن چراغ ایسے گھروں میں ہے کہ خدا وند عالم نے اذن دیا ہے کہ اس کی دیواروں کو بلند رکھے ( تاکہ شیاطین ہوا وہوس کے شکار افرادکی زد سے محفوظ رہ سکے)وہ گھر کہ جس میں خدا کا نام لیا جاتا ہے اور وہ لوگ صبح و شام اس میں تسبیح پڑھتے ہیں یہ وہ افراد ہیں جن کو خرید و فروخت اور تجارت یاد الٰہی سے غافل نہیں کرتی ہے ۔
بارگاہ حضرت معصومہ علیہا السلام دیگر مشاہد مشرفہ کی طرح اسلامی ارزشوں اور تشیع و فرہنگ قرآن کا پشتوانہ ہے ۔ ایران انہی روضوں کے تصدق زمانے کے حوادث سے محفوظ رہا ہے۔
ایران اور ایرانی ( بلکہ ہر شیعہ ) کی ہویت اور اس کا تشخص انہی معنویات کی روشنی میں ممکن ہے ۔ اسی کے صدقے میں ایران زمانے قدیم سے لے کر آج تک تاریخی حادثات میں محفوظ رہا ہے۔
یہ بقعہ اور دیگر بقعات اسلام کے آرمانوں کی جیتی جاگتی تصویر یں ہیںاور حضرت علی علیہ السلام کے شیعوں کے لئے محکم قلعہ ہیں نیز انسانی بلندی کا معیار ہیں ۔ کیونکہ انکے مشاہد مشرفہ فقط زیارتگاہ نہیں ہیں بلکہ ان کے کوچے کے دلباختہ زائروں اوعاشقوں کے لئے کسب معارف الٰہی کی عظیم درسگاہ بھی ہیں ۔ جو بھی زائر اس مرقد مطہر میں آرام فرما خاتون کی معرفت و شناخت اور ان کے اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئے زیارت کرے گا تو یقینا صاحب قبر سے الہامات حاصل کرے گا اور مذہب کے اصول و قوانین کی تعلیمات کو یاد رکھے گا اس کا ہر سلام انہی درس اور الہامات سے سر شار ہوگا اور کسی نہ کسی طرح خود کو مادی و معنوی کجی و کمی سے محفوظ رکھے گا اور ہر اس خصلت و اعمال سے دوری اختیار کریگا جو ائمہ معصومین علیھم السلام اور ان کی اولاد اطہار کو نا پسند ہیں ۔ اخلاقی بہبودی اور اپنی رفتار و ارتباط میں اس بات کوشاں رہے گا کہ اپنے اماموں اور ولیوں کے ساتھ ہمسو اور ان کے نقش قدم پر گامزن رہے ۔
ان دینی مراکز کے حیات بخش آثار اور معنوی وجود میں تھوڑی سی بھی تردید نہیں ہے لیکن معنویات سے صرف نظر کرتے ہوئے ان روضوں کو اسلامی ہنر کا عظیم ذخیرہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ اہل ذوق ہنر مندوں نے دینی برانگیختگی اور بزرگان دین کی تجلیل و تکریم کے پیش نظر شگفت انگیز ہنروں کو ایجاد کیا ہے جو ہر ہنرمند کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور اسے داد و تحسین پر مجبور کرتی ہے ۔ اسی سلسلے میں در حقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ بارگاہ فاطمہ معصومہ علیہا سلام دیگر متبرک اسلامی مقامات کی طرح اسلامی ہنر کی تجلی گاہ اور قوم ایران کے دینی جامعہ کے درخشان ماضی کی حکایت گر ہے ۔
اسی وجہ سے ہم اس ۃ میں حضرت معصومہ علیہا سلام کے متبرک اماکن کے ہنری آثار اور ہنری و معماری تغیرات کا ایک خاکہ پیش کریں گے اور اسے اسلامی ہنر کے جلووں کو پسند کرنے والوں کی خدمت میں پیش کریں گے ۔ لیکن ” شنیدن کی بود مانند دیدن “ بہتر ہے ہنر شناس افراد قریب سے ان شگفت انگیز ہنروں کا نظارہ کریں تا کہ ان گرانقدر آثار میں چھپے لطائف و ظرائف کو کشف کر سکیں اور اس کے موجد کو داد و تحسین سے نوازیں ۔
بارگاہ فاطمی علیہا السلام کے متبرک مقامات کا خاکہ :
( ۱ ) حرم مطہر کا گنبد :
موسی بن الخزرج کے ایک حصیری سائبان بنانے کے بعد جو سب سے پہلا گنبد فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی تربت پاک پر برافراشتہ ہوا وہ برجی شکل کا ایک قبہ تھا کہ جو حضرت زینب بنت امام جواد علیہ السلام کے ہاتھوں اینٹ و پتھر اور چونے کے ذریعہ اواسط قرن سوم میں بنایا گیا ۔ زمانے کے گزر نے اور حضرت معصومہ علیہا سلام کے جوار میں کچھ علوی خواتین کے دفن ہونے کے بعد اس گنبد کے پاس دوسرے دو گنبد بنائے گئے ۔ جس میں تیسرا گنبد مدفن حضرت زینب بنت امام محمد تقی علیہ السلام قرار پایا ۔ یہ تین گنبد ۴۴۷ ھء تک باقی تھے ۔ اسی سال میر ابولفضل عراقی ( وزیر طغرل کبیر ) نے شیخ طوسی کے تشویق دلانے پر ان تین گنبدوں کے بجائے ایک بلند و بالا گنبد بنایا جس کا داخلی قطر تقریبا ” ۱۱“ اور اونچائی ” ۱۴ “ میٹر تھی ۔ اس گنبد کو نگین نقش و نگار اور کاشی کاری کرکے بنایا تھا جس میں ایوان اور حجرے نہ تھے یہ گنبد تمام سادات کے قبور پر محیط تھا ۔
۹۲۵ ھ میں شاہ بیگی بیگم دختر شاہ اسماعیل کی ہمتوں سے اسی گنبد کی تجدید بنا ہوئی جس میں معرق کاشی استعمال ہوا اس میں ایوان اور دو منارے نیز صحن ( عتیق ) بنایا گیا ۔ گنبد کی خارجی سطح معرق کاشی سے آراستہ ہوئی ۔
یہ گنبد ۱۲۱۸ ھ ء میں زر نگار اینٹوں سے مزین کیا گیا ۔ جس میں ۱۲ / ہزار سنہری اینٹیں استعمال کی گئیں ۔ اس گنبد کی بلندی سطح زمین سے ۳۲ اور چھت کی سطح سے ۱۶ میٹر تھی ۔ اس کا محیط باہر سے ۶ / ۳۵ ، اور اندر سے ۶۶ / ۲۸ ۔ اور اس کا قطر ۱۲ میٹر اور اس کی لمبائی ( لمبی گردن کی طرح ) ۶ میٹر تھی ۔
چھت کی سطح سے نچلا حصہ نوے ۹۰ سینٹی میٹر تک تراشے ہوئے اینٹوں سے اور اس کے اوپر ایک میٹر خشتی فیروزہ والی کاشی اس کے اوپر ( تمام دیوار ) سنہری اینٹوں سے مزین ہے گنبد کے نچلے حصے پر ایک کتبہ جو فتح علی خان صبا کے اشعار ہیں جو خط نستعلیق میں لکھے ہیں ۔
بارگاہ ملکوتی کریمہ اہل بیت علیہا سلام کے گنبد کا یہ ایک تاریخی خاکہ تھا جو شروع سے لے کر آج تک اسلامی ہنر اور معماری کا شاہکار ہے نیز عتبات عالیات کی عمارتوں میں کم نظیر ہے ۔
( ۲ ) حضرت کا مرقد :
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا مرقد ( بقعہ مبارکہ کے در میان ) بلندی کے اعتبار سے ۲۰ /۱ اور طول و عرض ۹۵ / ۲ در ۲۰ / ۱ میٹر ہے ۔ جو بہترین نفیس و خوبصورت زرفام ( آغاز قرن ہفتم ) کاشیوں سے مزین ہے ۔
مرقد منور کے ارد گرد دو میٹر دیوار اور طول و عرض تقریبا ۸۰ / ۴ در ۴۰ / ۴ میٹر ہے ۔ جو ۹۵۰ ھ میں بنایا گیا ہے اور یہ مرقد معرق کاشی سے آراستہ ہے ۔ اس وقت یہ دیوار ایسی ضریح ہے جس میں چاندی پوش چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں ہیں ۔
حضرت کے مرقد پاک کا تاریخی خاکہ اس طرح ہے:
۶۰۵ ھ میں امیر مظفر احمد بن اسماعیل خاندان مظفر کے مورث اعلیٰ اس زمانے کے بزرگ ترین استاد کاشی نے محمد بن ابو طاہر کاشی قمی کو مرقد مطہر پر رنگا رنگ کاشیوں کے لگانے پر بر انگیختہ کیا ۔ وہ آٹھ سال تک اس کام میں مشغول رہے ۔ آخر کار ۶۱۳ ئھ میں کاشی آمادہ ہوگئی ۹۶۵ ئھ میں شاہ طہماسب صفوی نے سابق مرقد کے ارد گرد اینٹوں کی ایک ضریح بنوائی جو ہفت رنگ کاشیوں سے آراستہ تھی جس میں نقش و نگار کے ساتھ ساتھ معرق کتبے بھی تھے نیز اس کے اطراف میں دریچے بھی کھولے گئے تھے تا کہ مرقد کی زیارت بھی ہو سکے اور زائرین اپنی نذریں بھی مرقد کے اندر ڈال سکیں ۔ ۲ اس کے بعد مذکورہ شاہ کے حکم سے سفید و شفاف فولاد سے اسی اینٹوں والی ضریح کے آگے ایک ضریح بنائی گئی جس کی لمبائی ۱۰۵۳۲۵ اور چوڑائی ۷۳ /۴ ۔ اور بلندی ۱۰ /۲ تھی ۔ جس میں ۲۰ مضلع کھڑکیاں ۱۲۳۰ ہجری میں فتح علی شاہ نے اس ضریح کو نقرہ پوش کردیا تھا جو طول زمان سے فرسودہ ہوگئی تھیں۔ لہٰذا ۱۲۸۰ ہجری میں اس زمانے کے متولی کے حکم سے ضریح بدل دی گئی اور موجودہ ضریح کو ( مخصوص ہنری ظرائف و شاہکار کے ساتھ) اس کی جگہ پر نصب کیا گیا جو آج تک حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی نورانی تربت پر جلوہ فگن ہے ۔
( ۳) حرم مطہر کے ایوان
ایوان طلا
ایوان طلاء او اس کے بغل میں دو چھوٹے چھوٹے ایوان روضہ مقدسہ کے شمال میں واقع ہیں۔ جنھیں ۹۲۵ ہجری میں گنبد کی تجدید بنا، صحن عتیق اور گلدستوں کے بناتے وقت شاہ اسماعیل صفوی اور اس کی دختر کے زمانے میں بنایا گیا ۔یہ ایوان طول و عرض کے اعتبار سے ۷۰/۹۸ میٹر اور بلندی کے لحاظ سے چودہ میٹر ہے۔ دیوار کا نچلا حصہ (تین طرف سے ) ۸۰/۱ میٹر کی بلندی تک آٹھ گوشے فیروے والے کاشی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے آراستہ ہے ۔ اس کے در میان کھتی رنگ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں جو کاشی کے حاشئے کو لاجوردی نقش و نگار) چاروں طرف سے گھیرے ہیں ان کے اوپر ایک کتبہ ہے جس کا ایک سوم سفید لاجوردی زمین میں ایوان کے ارد گرد دکھائی دیتا ہے جس کا متن نورانی حدیث الا و من مات علی حب آل محمد مات شہیدا ۔ تا آخر حدیث ہے۔
اس کتبے کے بعد ایوان کا جسم دو میٹر کی بلندی تک معرق کاشیوں سے آراستہ ہے جو صفوی کے آغاز کا شاہکار ہے ۔ اس کے بعد ہر طرف کتبہ دکھائی دیتا ہے اور اس کے اوپر ایوان کی چھت زرفام اینٹوں سے مزین ہے ۔
دوسرے دو ایوان
ایوان طلا کے دونوں طرف ایوان ہیں جن کی بلندی دس اور چوڑائی دو اور دونوں طرف کا ۃہ پانچ میٹر ہے یہ صفوی دور کی عمارتیں ہیں اس کا سارا جسم ایوان طلا کی طرح معرق کاشیوں سے آراستہ ہے۔
ایوان آئینہ
رواق مطہر کے شرقی جانب بھی ایوان طلا کی طرح ایک بلند و بالا ایوان ہے جس کی لمبائی چوڑائی ۹ X ۸۷/۷ میٹر ہے آئینہ کاری کی وجہ سے ایوان آئینہ کے نام سے معروف ہے ۔ دیوار کے نیچے ایک میٹر کی بلندی تک سنگ مرمر ہے جس کا ہر حصہ پتھر کے ایک ٹکڑے سے آراستہ ہے او اس کے اوپر سارے حصے میں چھت تک آئینہ کاری ہے۔
ایوان کے بیچ میں ایک سنگ مرمر کا کتبہ ہے جس کی چوڑائی تقریبا ً ۳۰ سینٹی میٹر ہے جس پر آیہ شریفہ اللہ نور السماوات والارض تا آخر منقوش ہے ۔ شرقی رواق کے در میان ایک چھوٹا سا ایوان ہے جو اصلی ایوان کی طرح مزین ہے جس کے صدر دروازے پر حدیث شریف ” من زار قبر عمتی بقم فلہ الجنۃ“ کالے حروف سے خط نستعلیق میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ یہ شگفت انگیز ہنری مجموعہ قاجاری دور کے ارزشمند ہنر کا شاہکار ہے (جو استاد حسن معمار قمی کے ہاتھوں تشکیل پاےا تھا) جو صحن نو کے ساتھ میرزا علی اصغر خاں صدر اعظم کے دستور پر بنا تھا۔
( ۴) صحن عتیق کے منارے
صحن عتیق میں بر فراز ایوان طلا دو رفیع و بلند منارے ہیں جن کی بلندی ۴۰/۷۱ ( چھت کی سطح سے ) اور قطر ۵۰/۱ ہے۔ منارے کی کاشی پیچ و خم کے ساتھ مزین ہے جس کے در میان اسماء مبارک ”اللہ“ ”محمد“ ”علی“ بخوبی پڑھے جاسکتے ہیں منارے کے بالائی حصے کو تین ردیف میں رکھا گیا ہے جس کے نیچے بخط سفید کتبہ ہے جس پر آیہ شریفہ ” ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی (غربی منارے میں) یا ایھا الذین آمنو صلو اعلیہ وسلموا تسلیما (شرقی منارے میں) مرقوم ہے۔
یہ منارہ محمد حسین خان شاہسون شہاب ملک حاکم قم کے حکم سے ۱۲۸۵ ہجری میں بنایا گیا ہے جس کا قبہ ۱۳۰۱ ہجری میں طلاکاری کیا گیا ہے۔
( ۵) ایوان آئینہ کے منارے
بر فرازپایہ ایوان دو منارے ہیں جن میں سے ہر ایک چھت کی سطح سے ۲۸ ، میٹر اور گہرائی ۳۰/۳ میٹر ہے یہ آستانے کی بلندترین عمارت ہے ۔یہ منارہ سطح بام سے تین میٹر اور آٹھ متساوی الاضلاع پھر آدھا میٹر تزئین پھر ایک میٹر لمبا ہے اس کے بعد ۵/۲ میڑتک بارہ برجستہ گوشے ہیں اور تمام کے بعد (لکڑی کے منارے کے نیچے) ایک استوانہ ہے جس پر ایک کتبہ ہے اس کی چوڑائی تقریبا ایک میٹر ہے ان مناروں میں سے ایک کے کتبے کا متن ”لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم “ہے اور دوسری طرف ”سبحان اللہ والحمد للہ و لا الہ الا اللہ واللہ اکبر“ہے ۔ پھر ایک بلند عمارت ہے جس کی چوڑائی تقریبا ایک میٹر ہے اس کے اوپر ایک چوبی منارہ ہے جس کا قبہ موجود ہے دونوں منارے اوپر سے نیچے تک گرہی کاشی سے مزین ہیں جن کے در میان خداوند عالم کے نام دیکھے جاسکتے ہیں۔
( ۶ ) حرم مطہر کی مسجدیں
مسجد بالاسر
مسجد بالا سر حرم مطہر کے وسیعترین علاقوں میں شمار ہوتی ہے جہاں عمومی مجلسیں ، نماز جماعت برقرار ہوتی ہے صفوی دور میں یہ علاقہ چوڑائی میں ۶ ، اور لمبائی میں ۳۵ ، میٹر آستانہ کے مہمانسرا میں شمار ہوتاتھا قاجاری دور میں تقی خان حسام الملک فرزند فتح علی شاہ کی طرف سے اس عمارت کی نوسازی ہوئی اور بصورت مسجد اس میں دو گنبد بنائے گئے جس کا شمار آستانے کے بزرگترین علاقوں میں ہوا۔
۱۳۳۸ ھ میں جو مسجد کے غربی حصے میں زمین تھی اس کو ملا نے سے اس کی مساحت ۱۴ ، در ۴۸ میٹر ہوگئی جو تین محکم اینٹوں کے ۳ در ۲ میٹر ستونوں پر استوار ہے ۔ یہ بنائے مقدس اپنی جگہ اسی طرح برقرار تھی لیکن جب مسجد اعظم ایک خاص وسعت و زیبائی کے ساتھ بنائی گئی تو چونکہ مسجد بالاسر کی قدیمی عمارت مسجد اعظم اور حرم کے مطہر کے در میان خوشنما نہیں تھی لہٰذا متولی وقت آقائے سید ابوالفضل تولیت نے اس کی نوسازی کا اقدام کیا۔قدیم عمارت کو زمین کی سطح سے ہٹادیا گیا اور اس کی جگہ پر ایک بلند و بالا عمارت ۲۴ ، در ۴۸ میٹر (بدون ستون) معماری کی بے شمار خصوصیات کے ساتھ بنائی گئی جو آج حرم مطہر کی خوبصورت و عمدہ عمارت میں شمار ہوتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسجد کے جنوبی حصے میں فقہا اور استوانہ علم و حکمت کی قبریں موجود ہیں ۔ مثلاً حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبد الکریم حائری اعلیٰ اللہ مقامہ موسس حوزہ علمیہ قم ،آیۃ اللہ سید محمد تقی خوانساری ۔آیۃ اللہ سید حسن صدر، آیۃ اللہ سید احمد خوانساری طاب ثراہم ۔ نیز زمانہ جدید کے علماء وفقہا ، مثلا علامہ طباطبائی ،آیۃ اللہ گلپائگانی ،آیۃ اللہ اراکی ، آیۃ اللہ بہاء الدینی ، آیۃ اللہ میرزا ہاشم آملی ، نیز انقلاب اسلامی کے شہدا مثلا استاد شہید مطہری شہید محراب آیۃ اللہ مدنی اس تربت پاک میں آرام فرمارہے ہیں اور ماہ منبر فاطمی کے کنارے فروزاں ستاروں کی طرح اس مکان مقدس کی ملکوتی فضا میں جھلملارہے ہیں۔
مسجد طباطبائی
مسجد طباطبائی کی گنبد پچاس ستونی ہے جو قدیم زنانے صحن کی جگہ روضہ مطہر کے جنوبی حصے میں بنائی گئی ہے یہ گنبد بیچ میں چوڑائی کے اعتبار سے ۷۱ ، اور بلندی کے لحاظ سے ۱۷ ، میٹر ہے۔ جس کی مساحت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے اس کے اطراف ۸۰/۲۴ در ۲۰/۲۴ میٹر ہے۔ اس مسجد میں بشکل مثلث رواق ہیں جس کے نچلے حصے ۱۵ میٹر ہیں ۔اس کے گنبد کو اینٹوں کی بنیاد پر ۲ X ۲ میٹر کے قطر ۳۰/۳ بلندی میں بنایا گیا ہے ۔پھر تمام بنیادوں کو نیچے سے تراشا گیا اور ستونوں کے چاروں گوشے سے ایک ستون (بہت اچھے مسالے کی مدد سے جس میں سیمنٹ ،چھڑ،لوہا و غیرہ مخلوط تھا) اوپر لایا گیا پھر اندر سے ان چاروں ستونوں کو یکجا کردیا گیا اور اس طرح یہ عظیم گنبد ۳۲ ، سے ۴۰ ، ستونوں پر برقرار ہوا ان ستونوں کے اوپر جن پر سیمنٹ تھی مشینوں سے تراشے ہوئے سنگ مرمرچوڑائی میں دس اور بلندی میں پچاس سینٹی میٹر تک مزین کئے گئے ۔اس طرح سب کے سب ستون سنگ مرمر کے لباس سے مزین ہوگئے اور اس گنبد کے ستونوں کے نیچے مدرّجی شکل میں برونز ایک فلز جو سونے کی طرح ہوتا ہے) سے صیقل کرکے اس کی زیبائی میں ایسا اضافہ کیا گیا کہ اس میں چار چاند لگ گئے ۔
اس بلند گنبد کے ستونوں کی تعداد رواق اور اطراف کے ستونوں کو ملاکر پچاس ستونوں تک پہنچتی ہے ۔ اس بلندو بالا اور با عظمت مسجد کے بانی حجۃا لاسلام جناب محمد طباطبائی فرزند آیۃ اللہ حسین قمی ہیں۔ اس عمارت میں تقریبا ۱۰ ، سال صرف ہوئے ( ۱۳۵۰ ہجری سے لے کر ۱۳۷۰ ہجری)
اس مکان مقدس کے شمال غربی علاقے میں بزرگ علماء و شہدا کی قبریں ہیں مثلا آیۃ اللہ ربانی شیرازی ،شہید ربانی املشی ، شہید محمد منتظری ، شہید آیۃ اللہ قدوسی، شہید محلاتی جس نے اس مکان مقدس کی معنویات میں اور اضافہ کردیا۔
مسجد اعظم
(
لمسجد اسس علی التقویٰ من اول یوم احق ان تقوم فیه
)
با عظمت دینی آثار میں سے ایک عظیم اثر مسجد اعظم ہے جو عالم تشیع کے علی الاطلاق مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی قدس سرہ کی بلند ہمتی کا ثمرہ ہے ۔یہ مسجد حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم کے نزدیک زائروں کی آسانی کے لئے بنائی گئی ہے۔ یہ بلند و بالا عمارت آستانہ رفیع فاطمی کے کنارے ایک فرد فرید مسجد ہے۔
انگیزہ تاسیس
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ کے لئے اس مسجد کی بناء کا اساسی ترین انگیزہ یہ تھا کہ وہ کریمہ اہل بیت کی بارگاہ میں ایک ایسی مناسب مسجد کی کمی محسوس کررہے تھے جس میں زائرین روحانی فیوض سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہوسکیں۔ لہٰذا اسی کمی کا احساس کرتے ہوئے انھوں نے اپنے احساسات کو عملی جامہ پہنادیا۔ چنانچہ بعض بزرگوں کے بیان کے مطابق آپ نے فرمایا : میرا ارادہ ہے کہ حرم مطہر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے جوار میں ایک ایسی مسجد کی بنیاد ڈالوں جو حضرت علی بن موسی الرضا علیہما السلام کے حرم کے کنارے مسجد گوہر شاد کی طرح با جلالت ہو۔ دوسری طرف آپ کا نظریہ تھا کہ حوزہ علمیہ قم ایک طویل مدت تک مختلف دروس خصوصاً درس خارج کے لئے ایک وسیع و عریض محیط کا نیاز مند ہے ،اس سے بہتر کیا ہوگا کہ یہ عظیم مرکز حرم مطہر کے جوار میں بنام مسجد ہو ۔آپ کی اس نیت میں کتنا خلوص تھا اس کی گواہی آج بھی قبر مطہر دے رہی ہے کہ جو مسجد کے کنارے (مسجد میں داخل ہونے والے دروازے کے پاس) واقع ہے۔
یقینا اس مسجد کو قرآن مجید کی اس آیت ”لمسجد اسس علی التقویٰ من اول یوم احق ان تقوم فیہ “ سورہ توبہ / ۱۰۸ ( وہ مسجد جس کی بنیاد روز اول سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ ضرور اس کی حقدار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو) کے مصادیق میں سے ایک روشن مصداق کہا جا سکتا ہے۔
تاریخ تاسیس
۱۱/ ذی القعدہ ۱۳۷۳ ہجری روز ولادت با سعادت حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیہما السلام کو ایک خاص جاہ و حشم کے ساتھ اس مسجدکی بنیاد رکھی گئی۔
مشکلات
اس مسجد کو بنانے میں ایک اہم مشکل اس کے مکان کی محدودیت اور زمین کی ناموزونیت تھی۔ جیسا کہ خود مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف سے آستانہ مقدسہ کی طرف تو دوسری جانب نہر کے ساحل کی طرف سے محدود ہے۔ نتیجتا مسجد کا جغرافیائی ڈھانچہ اایک ناموزون شکل میں مثلث ہے جس کا غربی حصہ تقریبا ۱۲۰ میٹراور بنیاد ۱۵ میٹر ہے۔
ایک دوسری مشکل وہ گھر تھے جو مسجد کے اطراف میں واقع تھے جن کا خرید نا ایک خطیر رقم کا طلبگار تھا۔ لیکن آیۃ اللہ بروجردی کے حکم پر ان تمام مکانوں کو بہت ساری مشکلیں برداشت کرکے خرید لیا گیا اور ان کے مالکوں سے رضایت بھی لے لی گئی۔ اسی طرح مسجد بالاسر کی جانب سے ۳۰۰۰ میٹر سے زیادہ آستانہ مقدسہ کی عمارتوں اور متعلقات میں شمار ہورہی تھی جو آپ کی خاص درایت سے مسجد میں داخل ہوگئیں ۔ آخر کار مذکورہ مشکلوں کو دور کرکے باعنایات الٰہی مشہور معروف انجینیروں اور معماروں کے زیر نظر (مثلاً لرزادہ صاحب مرحوم ) وقت نظر کے ساتھ جامع طور پر مسجد کا نقشہ بنایا گیا۔اور اسی نقشے کی بنیاد پر مسجد بننے لگی چھ سال کی جاں توڑ محنت کے بعد مسجد کا اچھا خاصہ بن کر تیار ہوگیا اور ۱۳۳۹ شمسی سال کے چھٹے مہینے آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی قدس سرہ کی نماز جماعت کے ذریعہ اس مسجد کا افتتاح ہوگیا۔ اس کے بعد تمام افراد مسجد سے بہرہ مند ہونے لگے۔
مسجد کا معماری خاکہ
مسجد کی مجموعی مساحت تقریبا ۱۲۰۰ مربع میٹر ہے ۔پوری عمارت محکم مسالوں (جس میں سیمنٹ چھوٹے چھوٹے پتھر ،لوہے کے چھڑ و غیرہ استعمال کئے گئے ہیں) سے بنائی گئی لہٰذا یہ مسجد از نظر استحکام اسلامی عمارتوں میں کم نظیر شمار ہوتی ہے ۔ مسجد میں چار شبستان (ہال) ہیں جس میں گنبد کے نیچے والے شبستان کی مساحت ۴۰ مربع میٹر اور اس کے دونوں طرف ہر شبستان کی مساحت ۹۰ مربع میٹر ہے ۔نیز مسجد کے شمالی حصے میں گھڑی کے نیچے ایک شبستان ہے جس کی مساحت ۳۰۰ مربع میٹر ہے ۔ تمام شبستانوں کی چھتوں کی بلندی اس کی سطح سے تقریبا ۱۰ میٹر ہے ، مسجد کے غربی حصے میں بیت الخلا اور مسجد کا وضو خانہ ہے نیز خادموں کے لئے ایک ہال بنام ”آسائشگاہ“ ہے ۔اسی طرح مسجد کے غربی حصے میں ایک لائبریری بنائی گئی ہے ۔ جس میں دو ہال ہیں ۔ ایک مطالعہ کے لئے اور دوسرا ہال کتابوں کا مخزن ہے ۔لائبریری میں داخل ہونے کا راستہ مسجد اعظم میں داخل ہونے والے راہرو سے ہے۔
اس مسجد میں ایک بڑا سا گنبد ہے جس کا قطر ۳۰ مربع میٹر اور بلندی سطح بام سے ۱۵ مربع میٹر ہے اور شبستان سے اس کی بلندی ۳۵ مربع میٹر ہے ۔ اس کے بلند وبالا گلدستے سطح بام سے ۲۵ مربع میٹر اور سطح زمین سے ۴۵ مربع میٹر ہیں۔
اسی طرح گھنٹی بجنے والی خوبصورت گھڑی پر ایک چھوٹا سا گنبد ہے جو چار وں طرف سے دکھائی دیتا ہے ۔ یہ مسجد تزئین اور کاشیکاری کے اعتبار سے آخری صدی میں اسلامی ہنر کا نمونہ شمار ہوتی ہے۔
بہترین مصرف
انقلاب کی کامیابی کے بعد حرم مطہر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے زائرین کے استقبال کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس مسجد کی عبادی و معنوی فضا کو جوار بارگاہ معصومہ سلام اللہ علیہامیں شدید ضرورت محسوس کرتے ہوئے نیز مسجد اعظم کا بطور کامل استفادہ نہ ہونے کی وجہ سے کہ جو اس کے بانی کا اصل ہدف تھا ماہ مبارک رمضان کے آخری دہہ میں ۱۳۷۱ شمسی میں موازین شرعی اور قانون کی رعایت کرتے ہوئے مسجد اعظم اور بالائے سر کے ۃے کو ختم کردیا گیا ۔ اس کے بعد مسجد کے اداری و خدماتی امور کو آستانے کے سپرد کردیا گیا۔
آستانہ مقدس کے متولی محترم کو حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای دام ظلہ العالی کی طرف سے دستور ملنے کے بعد اس امور سے مربوط مسئولین موظف ہوگئے کہ مسجد کے موقوفات میں مداخلت کئے بغیر مسجد کی نگہداری ، اس کی حفاظت اور اس کے متعلقات کی پاسبانی نیز اس میں کام کرنے والوں کی تنخواہ کی ذمہ داری سنبھالیں۔
اب یہ مکان مقدس محققین کی تحصیل کے لئے ایک مناسبترین مکان ہوگیاہے کیونکہ ایام تحصیلی میں اکثر و بیشتر مراجع تقلید اسی مکان میں درس دیتے ہیں اور طلاب و فضلاء کی کثیر تعداد ان کے علمی فیوض سے بہرہ مند ہوتی ہے ۔اسی طرح مختلف مذہبی پروگرام جو مسجد کی شان ہے بڑی شان و شوکت کے ساتھ برپاہوتے ہیں۔
( ۷) حرم مطہر کے صحن نو (اتابکی)
صحن نو ایک وسیع و خوش منظر و قابل دیدبناہے جس نے اپنی خاص معنویت کے ذریعہ بارگاہ فاطمی کی جلالت و عظمت میں اضافہ کردیا ہے یہ خوبصورت صحن چار ایوانوں ،شمالی ،جنوبی،شرقی اور غربی پر مشتمل ہے۔ اس کا شمالی ایوان میدان آستانے کی طرف سے وارد ہونے کا راستہ ہے اور جنوبی ایوان خیابان موزہ (میوزیم روڈ) سے وارد ہونے کا راستہ ہے اور شرقی ایوان خیابان ارم (ارم روڈ) سے وارد ہونے کا راستہ ہے۔ ان تمام ایوانوں میں ہنری و معماری کے ظریف آثار ہر فن کار ، ہنر شناس کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔
غربی ایوان وہی ایوان طلا ہے جو صحن نو سے روضہ مقدسہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے۔ان با جلالت ایوانوں(خصوصا ایوان آئینہ) کے وجود اور صحن مطہر کے وسط میں بیضوی شکل کے حوض (جس کی اپنی خاص خصوصیت ہے) نے اس مکان مقدس کی زیبائی میں چار چاند لگادیا ہے۔
یہ صحن مرزا علی اصغر خان صدر اعظم کے آثار میں سے ہے ۔ جس کے بننے میں ۸ سال کی مدت صرف ہوئی ہے ۔( ۱۲۹۵ ھ سے ۱۳۰۳ ھ ) اس صحن میں بہت سارے علماء کی قبریں ہیں ، مثلا مشروطیت کے زمانے میں شہید ہونے والے بزرگوار آیۃ اللہ شیخ فضل اللہ نوری ، شہید آیۃ اللہ مفتح،بزرگ عالم شیعہ قطب الدین راوندی ۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے زائروں کے لئے سزاوار ہے کہ ان راہ امامت و ولایت کے فدا کاروں کی زیارت سے مشرف ہوں اور اس سے کبھی غافل نہ ہوں۔
صحن عتیق ( صحن قدیم)
صحن عتیق جو روضہ مبارکہ کے شمال میں واقع ہے وہ ایک سب سے پہلی عمارت ہے جو قبہ مبارکہ پر بنائی گئی ہے۔
اس صحن کو تین خوبصورت ایوان جو جنوب میں واقع ہے جو وہی ایوان طلا ہے جو روضہ مطہر سے صحن میں وارد ہونے کا راستہ ہے ۔ مشرقی دالان صحن عتیق سے صحن نو میں وارد ہونے کاراستہ ہے ، یہ صحن چھوٹا ہونے کے با وجود با جلالت ایوانوں اور متعدد حجروں کی وجہ سے ایک خاص خوبصورتی کا حامل ہے۔
اس صحن اور اس کے اطراف کے ایوانوں کو شاہ بیگی بیگم دختر شاہ اسماعیل صفوی نے ۹۲۵ ہجری میں بنوایا تھا۔
یہ آستانہ مقدسہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے ہنری و معماری آثار کا ایک مختصر خاکہ تھا ۔ اسلامی ہنرمندوں کے لئے مناسب ہے کہ اس بلند و بالا عمارت کو جس میں ہنر کے خزانے پوشیدہ ہیں نزدیک سے دیکھیں اور اس کے موجد کو دادوتحسین سے نوازیں۔
____________________