حضرت امام محمد مھدی علیہ السلام
امام زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سلسلہ عصمت محمدیہ کی چودھویں اورسلک امامت علویہ کی بارہویں کڑی ہیں آپ کے والد ماجد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب نرجس( ۱) خاتون تھیں ۔
آپ اپنے آباواجدادکی طرح امام منصوص ،معصوم ،اعلم زمانہ اورافضل کا ئنات ہیں ۔آپ بچپن ہی میں علم وحکمت سے بھرپور تھے۔ (صواعق محرقہ ۲۴۱# ) آپ کو پانچ سال کی عمرمیں ویسی ہی حکمت دے دی گئی تھی ،جیسی حضرت یحیی کو ملی تھی اورآپ بطن مادرمیں اسی طرح امام قراردئیے گئے تھے،جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام نبی قرارپائے تھے۔(کشف الغمہ ص ۱۳۰ ) آپ انبیاء سے بہترہیں ۔(اسعاف الراغبین ص ۱۲۸) آپ کے متعلق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے شمار پیشین گوئیاں فرمائی ہیں اوراس کی وضاحت کی ہے کہ آپ حضورکی عترت اورحضرت فاطمةالزہرا کی اولاد سے ہوں گے۔ ملاحظہ ہوجامع صغیرسیوطی ص ۱۶۰ طبع مصرومسند احمدبن حنبل جلد ۱ ص ۸۴ طبع مصروکنوزالحقائق ص ۱۲۲ ومستدرک جلد ۴ ص ۵۲۰ ومشکوة شریف ) آپ نے یہ بھی فرمایاہے کہ امام مہدی کا ظہورآخرزمانہ میں ہوگا ۔اورحضرت عیسی ان کے پےچھے نماز پڑھیں گے ۔ملاحظہ ہو صحیح بخاری پ ۱۴ ص ۳۹۹ وصحیح مسلم جلد ۲ ص ۹۵ صحیح ترمذی ص ۲۷۰ وصحیح ابوداؤد جلد ۲ ص ۲۱۰ وصحیح ابن ماجہ ص ۳۴ وص ۳۰۹ وجامع صغیرص ۱۳۴ وکنوزالحقائق ص ۹۰) آپ نے یہ بھی کہاہے کہ امام مہدی میرے خلیفہ کی حیثیت سے ظہورکریں گے اور یختم الدین بہ کما فتح بنا جس طرح میرے ذریعہ سے دین اسلام کا آغاز ہوا ۔ اسی طرح ان کے ذریعہ سے مہراختتام لگادی جائیگی ۔ ملاحظہ ہوکنوزالحقائق ص ۲۰۹ آپ نے اس کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ امام مہدی کا اصل نام میرے نام کی طرح محمد اورکنیت میری کنیت کی طرح ابوالقاسم ہوگی وہ جب ظہورکریں گے توساری دنیاکو عدل وانصاف سے اسی طرح پرکردیں گے جس طرح وہ اس وقت ظلم وجورسے بھری ہوگی ۔ ملاحظہ ہو جامع صغیرص ۱۰۴ ومستدرک امام حاکم ص ۴۲۲ و ۴۱۵ ظہورکے بعد ان کی فورابیعت کرنی چاہیے کیونکہ وہ خداکے خلیفہ ہوں گے ۔ (سنن ابن ماجہ اردوص ۲۶۱ طبع کراچی ۱۳۷۷ ہج) ۔
حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت
مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ہج یوم جمعہ بوقت طلوع فجرواقع ہوئی ہے جیسا کہ (وفیات الاعیان ،روضة الاحباب ،تاریخ ابن الوردی ،ینابع المودة،تاریخ کامل طبری ،کشف الغمہ ،جلاالعیون ،اصول کافی ، نور الا بصار ، ارشاد ، جامع عباسی ، اعلام الوری ، اور انوار الحسینہ وغیرہ میں موجود ہے (بعض علما کا کہنا ہے کہ ولادت کا سن ۲۵۶ ہج اور ما دہ تاریخ نور ہے )یعنی آپ شب برات کے اختتام پر بوقت صبح صادق عالم ظھور وشہود میں تشریف لائے ہیں ۔
۱# نرجس ایک یمنی بوٹی کو کہتے ہیں جس کے پھول کی شعرا آنکھوں سے تشبیہ دیتے ہیں (المنجد ص ۸۶۵ ) منتہی الادب جلد ۴ ص ۲۲۲۷ میں ہے کہ یہ جملہ دخیل اورمعرب یعنی کسی دوسری زبان سے لایاگیا ہے ۔ صراح ص ۴۲۵ اورالعماط صدیق حسن ص ۴۷ میں ہے کہ یہ لفظ نرجس ،نرگس سے معرب ہے جوکہ فارسی ہے ۔رسالہ آج کل لکھنؤ کے سالنامہ ۱۹۴۷ کے ص ۱۱۸ میں ہے کہ یہ لفظ یونانی نرکسوس سے معرب ہے ، جسے لاطینی میں نرکسس اورانگیریزی میں نرس سس کہتے ہیں ۔ ۱۲
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس گئتو آپ نے فرمایا کہ اے پھوپھی آپ آج ہمارے ہی گھر میں رہئے کیونکہ خداوندعالم مجھے آج ایک وارث عطافرماے گا ۔ میں نے کہاکہ یہ فرزند کس کے بطن سے ہوگا ۔آپ نے فرمایاکہ بطن نرجس سے متولد ہوگا ،جناب حکیمہ نے کہا :بیٹے!میں تونرجس میں کچھ بھی حمل کے آثارنہیں پاتی،امام نے فرمایاکہ اسے پھوپھی نرجس کی مثال مادرموسی جیسی ہے جس طرح حضرت موسی کاحمل ولادت کے وقت سے پہلے ظاہرنہیں ہوا ۔اسی طرح میرے فرزند کا حمل بھی بروقت ظاہرہوگا غرضکہ میں امام کے فرمانے سے اس شب وہیں رہی جب آدھی رات گذرگئی تومیں اٹھی اورنمازتہجدمیں مشغول ہوگئی اورنرجس بھی اٹھ کرنمازتہجدپڑھنے لگی ۔ اس کے بعدمیرے دل میں یہ خیال گذراکہ صبح قریب ہے اورامام حسن عسکری علیہ السلام نے جوکہاتھا وہ ابھی تک ظاہرنہیں ہوا ، اس خیال کے دل میں آتے ہی امام علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آوازدی :اے پھوپھی جلدی نہ کیجئے ،حجت خداکے ظہورکا وقت بالکل قریب ہے یہ سن کرمیں نرجس کے حجرہ کی طرف پلٹی ،نرجس مجھے راستے ہی میں ملیں ، مگران کی حالت اس وقت متغیرتھی ،وہ لرزہ براندام تھیں اوران کا ساراجسم کانپ رہاتھا ،میں نے یہ دیکھ کران کواپنے سینے سے لپٹالیا ،اورسورہ قل ہواللہ ،اناانزلنا وایة الکرسی پڑھ کران پردم کیا بطن مادرسے بچے کی آواز آنے لگی ،یعنی میں جوکچھ پڑھتی تھی ،وہ بچہ بھی بطن مادرمیں وہی کچھ پڑھتا تھا اس کے بعد میں نے دیکھا کہ تمام حجرہ روشن ومنورہوگیا ۔ اب جومیں دیکھتی ہوں تو ایک مولود مسعود زمین پرسجدہ میں پڑاہوا ہے میں نے بچہ کواٹھالیا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی اے پھوپھی ! میرے فرزند کو میرے پاس لائیے میں لے گئیی آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھالیا ،اورزبان دردھان دے کراوراپنی زبان بچے کے منہ میں دیدی اورکہا کہ اے فرزند !خدا کے حکم سے کچھ بات کرو ،بچے نے اس آیت :(
بسم الله الرحمن الرحيم ونريدان نمن علی اللذين استضعفوا فی الارض ونجعلهم الوارثین
)
کی تلاوت کی ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان لوگوں پرجوزمین پرکمزورکردئیے گئے ہیں اور ان کوامام بنائیں اورانھیں کوروئے زمین کاوارث قراردیں ۔
اس کے بعد کچھ سبزطائروں نے آکرہمیں گھیرلیا ،امام حسن عسکری نے ان میں سے ایک طائرکوبلایا اوربچے کودیتے ہوئے کہا کہ خدہ فاحفظہ الخ اس کولے جاکراس کی حفاظت کرویہاں تک کہ خدا اس کے بارے میں کوئی حکم دے کیونکہ خدا اپنے حکم کوپورا کرکے رہے گآ میں نے امام حسن عسکری سے پوچھا کہ یہ طائرکون تھا اوردوسرے طائر کون تھے ؟ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل تھے ،اوردوسرے فرشتگان رحمت تھے اس کے بعد فرمایاکہ اے پھوپھی اس فرزند کواس کی ماں کے پاس لے آوتاکہ اس کی آنکھیں خنک ہوں اورمحزون ومغوم نہ ہو اور یہ جان لے کہ خدا کاوعدہ حق ہے واکثرہم لایعلمون لیکن اکثرلوگ اسے نہیں جانتے ۔ اس کے بعد اس مولود مسعود کو اس کی ماں کے پاس پہنچادیاگیا (شواہدالنبوة ص ۲۱۲ طبع لکھنؤ ۱۹۰۵ ء علامہ حائری لکھتے ہیں کہ ولادت کے بعد آپ کو جبرئیل پرورش کے لئے اٹھاکرلے گئے (غایۃالمقصود جلد ۱ ص ۷۵) کتاب شواہدالنبوت اوروفیات الاعیان وروضةالاحباب میں ہے کہ جب آپ پیداہوے تومختون اورناف بریدہ تھے اورآپ کے داہنے بازوپریہ آیت منقوش تھی(
جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل کان زهوقا
)
یعنی حق آیا اورباطل مٹ گیا اورباطل مٹنے ہی کے قابل تھا ۔ یہ قدرتی طورپربحرمتقارب کے دومصرعے بن گئے ہیں حضرت نسیم امروہوی نے اس پرکیا خوب تضمین کی ہے وہ لکھتے ہیں #
ّ ٖ چشم وچراغ دیدہ نرجس
عین خداکی آنکھ کاتارا
بدرکمال نیمہ شعبان
چودھواں اختراوج بقاکا
حامی ملت ماحی بدعت
کفرمٹانے خلق میں آیا
وقت ولادت ماشاء اللہ
قرآن صورت دیکھ کے بولا
جاء الحق وزھق الباطل
ان الباطل کان زھوقا
محدث دہلوی شیخ عبدالحق اپنی کتاب مناقب ائمہ اطہارمیں لکھتے ہیں کہ حکیمہ خاتون جب نرجس کے پاس آئیں تودیکھا کہ ایک مولود پیداہوا ہے ،جومختون اورمفروغ منہ ہے یعنی جس کا ختنہ کیا ہوا ہے اورنہلانے دھلانے کے کاموں سے جومولود کے ساتھ ہوتے ہیں بالکل مستغنی ہے ۔ حکیمہ خاتون بچے کو امام حسن عسکری کے پاس لائیں ، امام نے بچے کولیا اوراس کی پشت اقدس اور چشم مبارک پرہاتھ پھیرا اپنی زبان مطہران کے منہ میں ڈالی اورداہنے کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہی یہی مضمون فصل الخطاب اوربحارالانوارمیں بھی ہے ، کتاب روضةالاحباب ینابع المودة میں ہے کہ آپ کی ولادت بمقام سرمن رائے سامرہ میں ہوئی ہے ۔
کتاب کشف الغمہ ص ۱۳۰ میں ہے کہ آپ کی ولادت چھپائی گئی اورپوری سعی کی گئی کہ آپ کی پیدائیش کسی کومعلوم نہ ہوسکے ، کتاب دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۹۴ میں ہے کہ آپ کی ولادت اس لئے چھپائی گئی کہ بادشاہ وقت پوری طاقت کے ساتھ آپ کی تلاش میں تھا اسی کتاب کے ص ۱۹۲ میں ہے کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ حضرت حجت کوقتل کرکے نسل رسالت کاخاتمہ کردے ۔ تاریخ ابوالفدا میں ہے کہ بادشاہ وقت معتزباللہ تھا ، تذکرہ خواص الامة میں ہے کہ اسی کے عہدمیں امام علی نقی کوزہردیاگیاتھا ۔ معتزکے بارے میں مورخین کی رائے کچھ اچھی نہیں ہے ۔ ترجمہ تاریخ الخلفا علامہ سیوطی کے ص ۳۶۳ میں ہے کہ اس نے اپنے عہد خلافت میں اپنے بھائی کوولی عہدی سے معزول کرنے کے بعد کوڑے لگوائے تھے اورتاحیات قید میں رکھاتھا ۔ ا کثرتواریخ میں ہے کہ بادشاہ وقت معتمد بن متوکل تھا جس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کوزہرسے شہید کیا ۔ تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۶۷ میں ہے کہ خلیفہ معتمد بن متوکل کمزورمتلون مزاج اورعیش پسند تھا ۔ یہ عیاشی اورشراب نوشی میں بسرکرتاتھا ، اسی کتاب کے صفحہ ۲۹ میں ہے کہ معتمد حضرت امام حسن عسکری کوزہرسے شہید کرنے کے بعدحضرت امام مہدی کوقتل کرنے کے درپے ہوگیاتھا ۔
آپ کا نسب نامہ
آپ کاپدری نسب نامہ یہ ہے محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی ابن جعفربن محمدبن علی بن حسین بن علی وفاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یعنی آپ فرزندرسول ،دلبند علی اورنورنظربتول علےھم السلام ہیں ۔ امام احمد بن حنبل کاکہناہے کہ اس سلسہ نسب کے اسماکو اگر کسی مجنون پردم کردیاجائے تواسے یقینا شفاحاصل ہوگی (مسندامام رضاص ۷) آپ سلسہ نسب ماں کی طرف سے حضرت شمعون بن حمون الصفاوصی حضرت عیسی تک پہنچتاہے ۔ علامہ مجلسی اورعلامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کی والدہ جناب نرجس خاتون تھیں ، جن کاایک نام ”ملیکہ“ بھی تھا ،نرجس خاتون یشوعا کی بیٹی تھیں ، جوروم کے بادشاہ” قیصر“ کے فرزند تھے جن کاسلسلہ نسب وصی حضرت عیسی جناب شمعون تک منتہی ہوتاہے ۔ ۱۳ سال کی عمرمیں قیصرروم نے چاہاتھا کہ نرجس کاعقد اپنے بھتیجے سے کردے لیکن بعض قدرتی حالات کی وجہ سے وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا، بالاخرایک ایسا وقت آگیا کہ عالم ارواح میں حضرت عیسی ، جناب شمعون حضرت محمد مصطفی ، جناب امیرالمومنین اورحضرت فاطمہ بمقام قصرقیصرجمع ہوئے ، جناب سیدہ نے نرجس خاتون کواسلام کی تلقین کی اورآنحضرت صلعم نے بتوسط حضرت عیسی جناب شمعون سے امام حسن عسکری کے لئے نرجس خاتون کی خواستگاری کی ،نسبت کی تکمیل کے بعد حضرت محمد مصطفی صلعم نے ایک نوری منبرپربیٹھ کرعقد پڑھا اورکمال مسرت کے ساتھ یہ محفل نشاط برخواست ہوگئی جس کی اطلاع جناب نرجس کوخواب کے طورپرہوئی ، بالاخروہ وقت آیا کہ جناب نرجس خاتون حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں آپہنچیں اورآپ کے بطن مبارک سے نورخدا کاظہور ہوا۔ (کتاب جلاالعیون ص ۲۹۸ وغایۃ المقصود ص ۱۷۵) ۔
آپ کا اسم گرامی :
آپ کانام نامی واسم گرامی ”محمد“ اورمشہورلقب ” مہدی “ ہے علما کاکہنا ہے کہ آپ کانام زبان پرجاری کرنے کی ممانعت ہے علامہ مجلسی اس کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”حکمت آن مخفی است “ اس کی وجہ پوشیدہ اورغیرمعلوم ہے ۔ (جلاالعیون ص ۲۹۸) علماء کابیان ہے کہ آپ کایہ نام خود حضرت محمدمصطفی نے رکھا تھا ۔ ملاحظہ ہو روضة الاحباب وینابع المودة ۔ مورخ اعظم ذاکرحسین تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۱ میں لکھتے ہیں کہ ”آنحضرت نے فرمایا کہ میرے بعد بارہ خلیفہ قریش سے ہوں گے آپ نے فرمایا کہ آخرزمانہ میں جب دنیا ظلم وجورسے بھرجائے گی ،تومیری اولاد میں سے مہدی کاظہورہوگا جوظلم وجورکودورکرکے دنیا کوعدل وانصاف سے بھردے گا ۔ شرک وکفرکودنیا سے نابود کردے گا ، نام ”محمد “ اورلقب ” مہدی “ ہوگا حضرت عیسی آسمان سے اترکر اس کی نصرت کریں گے اوراس کے پےچھے نماز پڑھیں گے ،اوردجال کوقتل کریں گے۔
آپ کی کنیت :
اس پرعلما فریقین کااتفاق ہے کہ آپ کی کنیت ” ابوالقاسم “ اورآپ ابوعبداللہ تھی اوراس پربھی علما متفق ہیں کہ ابوالقاسم کنیت خود سرورکائنات کی تجویزکردہ ہے ۔ ملاحظہ ہو جامع صغیرص ۱۰۴ تذکرہ خواص الامة ۲۰۴ روضة الشہدا ص ۴۳۹ صواعق محرقہ ص ۱۳۴ شواہدالنبوت ص ۳۱۲ ، کشف الغمہ ص ۱۳۰ جلاالعیون ص ۲۹۸ ۔
یہ مسلمات سے ہے کہ آنحضرت صلعم نے ارشادفرمایا ہے کہ مہدی کانام میرانام اوران کی کنیت میری کنیت ہوگی ۔ لیکن اس روآیت میں بض اہل اسلام نے یہ اضافہ کیاہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایاہے کہ مہدی کے باپ کانام میرے والد محترم کانام ہوگا مگر ہمارے راویوں نے اس کی روآیت نہیں کی اورخود ترمذی شریف میں بھی ” ا سم ابیہ اسم ابی “ نہیں ہے ،تاہم بقول صاحب المناقب علامہ کنجی شافعی یہ کہاجاسکتاہے کہ روآیت میں لفظ ”ابیہ“ سے مراد ابوعبداللہ الحسین ہیں ۔ یعنی اس سے اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ امام مہدی حضرت امام حسین کی اولادسے ہیں ۔
آپ کے القاب :
آپ کے القاب مہدی ، حجة اللہ ، خلف الصالح ، صاحب ا لعصر، صاحب الامر ، والزمان القائم ، الباقی اورالمنتظرہیں ۔ ملاحظہ ہو تذکرہ خواص الامة ۲۰۴ ، روضة الشہدا ص ۴۳۹ ، کشف الغمہ ۱۳۱ ، صواعق محرقہ ۱۲۴ ،مطالب السؤال ۲۹۴ ،اعلام الوری ۲۴ حضرت دانیال نبی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے ۱۴۲۰ سال پہلے آپ کالقب منتظرقراردیاہے ۔ ملاحظہ ہو کتاب دانیال باب ۱۲ آیت ۱۲ ۔ علامہ ابن حجرمکی ، المنتظرکی شرح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ انھیں منتظریعنی جس کاانتظارکیاجائے اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سرداب میں غائب ہوگئے ہیں اوریہ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے گيے (مطلب یہ ہے کہ لوگ ان کاانتظارکررہے ہیں ،شیخ العراقین علامہ شیخ عبدالرضا تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کومنتظراس لئے کہتے ہیں کہ آپ کی غیبت کی وجہ سے آپ کے مخلصین آپ کاانتظارکررہے ہیں ۔ ملاحظہ ہو۔ (انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۵۷ طبع بمبئی)۔
آپ کاحلیہ مبارک
کتاب اکمال الدین میں شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشادہے کہ امام مہدی ،شکل وشباہت خلق وخلق شمائل وخصایل ،اقوال وافعال میں میرے مشابہہ ہوں گے۔
آپ کے حلیہ کے متعلق علما نے لکھا ہے کہ آپ کارنگ گندگون ، قدمیانہ ہے ۔ آپ کی پیشانی کھلی ہوئی ہے اورآپ کے ابرو گھنے اورباہم پیوستہ ہیں ۔ آپ کی ناک باریک اوربلند ہے آپ کی آنکھیں بڑی اورآپ کا چہر ہ نہآیت نورانی ہے ۔ آپ کے داہنے رخسارہ پرایک تل ہے ”کانہ کوکب دری “ جوستارہ کی مانند چمکتاہے ، آپ کے دانت چمکداراورکھلے ہوئے ہیں ۔ آپ کی زلفیں کندھوں پرپڑی رہتی ہیں ۔ آپ کاسینہ چوڑا اورآپ کے کندھے کھلے ہوئے ہیں آپ کی پشت پراسی طرح مہرامامت ثبت ہے جس طرح پشت رسالت مآب پرمہرنبوت ثبت تھی (اعلام الوری ص ۲۶۵ وغایۃ المقصود جلد ۱ ص ۶۴ ونورالابصارص ۱۵۲) ۔
تین سال کی عمرمیں حجت اللہ ہونے کادعوی :
کتب تورایخ وسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پرورش کاکام جناب جبرئیل علیہ ا لسلام کے سپرد تھا اوروہ ہی آپ کی پرورش وپرداخت کرتے تھے ظاہرہے کہ جوبچہ ولادت کے وقت کلام کرچکاہو اورجس کی پرورش جبرئیل جیسے مقرب فرشتہ کے سپرد ہووہ یقینا دنیا میں چنددن گزارنے کے بعد بہرصورت اس صلاحیت کامالک ہوسکتاہے کہ وہ اپنی زبان سے حجت اللہ ہونے کادعوی کرسکے ۔ علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ احمد ابن اسحاق اورسعدالاشقری ایک دن حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضرہوئے اورانھوں نے خیال کیا کہ آج امام علیہ السلام سے یہ دریافت کریں گے کہ آپ کے بعد حجت اللہ فی الارض کون ہوگا ، جب سامناہوا توامام حسن عسکری نے فرمایا کہ اے احمد !تم جودل میں لے کرآئے ہو میں اس کا جواب تمہیں دےئے دیتاہوں ،یہ فرماکرآپ اپنے مقام سے اٹھے اوراندجاکریوں واپس آئے کہ آپ کے کندھے پرایک نہآیت خوب صورت بچہ تھا ،جس کی عمرتین سال کی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ اے احمد !میرے بعد حجت خدایہ ہوگا اس کانام محمد اوراس کی کنیت ابوالقاسم ہے یہ خضرکی طرح زندہ رہے گا ۔ اورذوالقرنین کی طرح ساری دنیاپرحکومت کرے گا ۔احمدبن اسحاق نے کہا مولا! کوئی ایسی علامت بتادیجئے کہ جس سے دل کواطمینان کامل ہوجائے ۔ آپ نے امام مہدی کی طرف متوجہ ہوکرفرمایا ،بیٹا ! اس کوتم جواب دو ۔ ا مام مہدی علیہ السلام نے کمسنی کے باوجود بزبان فصیح فرمایا : ”اناحجة اللہ وانا بقےةاللہ “ ۔ میں ہی خدا کی حجت اورحکم خداسے باقی رہنے والاہوں ، ایک وہ دن آئے گاجس میں دشمن خداسے بدلہ لوں گا ، یہ سن کراحمدخوش ومسروراورمطمئن ہوگئے (کشف الغمہ ۱۳۸ )
پانچ سال کی عمرمیں خاص الخاص اصحاب سے آپ کی ملاقات
یعقوب بن منقوش ومحمد بن عثمان عمری وابی ہاشم جعفری اورموسی بن جعفربن وہب بغدادی کابیان ہے کہ ہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئے اورہم نے عرض کی مولا! آپ کے بعد امرامامت کس کے سپرد ہوگا اورکون حجت خداقرارپائے گا ۔ آپ نے فرمایا کہ میرا فرزند محمدمیرے بعد حجت اللہ فی الارض ہوگا ہم نے عرض کی مولا ہمیں ان کی زیارت کروادیجئے آپ نے فرمایا وہ پردہ جوسامنے آویختہ ہے اسے اٹھاؤ ۔ ہم نے پردہ اٹھا یا ، تواس سے ایک نہآیت خوب صورت بچہ جس کی عمرپانچ سال تھی برآمدہوا ،اور وہ آکر امام حسن عسکری کی آغوش میں بیٹھ گیا۔ ا مام نے فرمایاکہ یہی میرافرزند میرے بعد حجت اللہ ہوگا محمد بن عثمان کا کہناہے کہ ہم اس وقت چالیس افراد تھے اورہم سب نے ان کی زیارت کی ۔ امام حسن عسکری نے اپنے فرزند امام مہدی کوحکم دیا کہ وہ اندرواپس چلے جائیں اورہم سے فرمایا : ”شمااورا نخوا ہید دید غیرازامروز “ کہ اب تم آج کے بعد پھراسے نہ دیکھ سکوگے ۔ چنانچہ ایساہی ہوا ، پھرغیبت شروع ہوگئی (کشف الغمہ ص ۱۳۹ وشواہدالنبوت ص ۲۱۳) علامہ طبرسی اعلام الوری کے ص ۲۴۳ میں تحریرفرماتے ہیں کہ آئمہ کے نزدیک محمد اورعثمان عمری دونوں ثقہ ہیں ۔ پھراسی صفحہ میں فرماتے ہیں کہ ابوہارون کاکہنا ہے کہ میں نے بچپن میں صاحب الزمان کودیکھا ہے ” کانہ القمرلیلة البدر “ ان کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتاتھا ۔
امام مہدی نبوت کے آئینہ میں
علامہ طبرسی بحوالہ حضرات معصومین علیہم السلام تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ ا لسلام میں بہت سے انبیا کے حالات وکیفیات نظرآتے ہیں ۔ اورجن واقعات سے مختلف انبیا کودوچارہوناپڑا ۔ وہ تمام واقعات آپ کی ذات ستودہ صفات میں دکھا ئی دیتے ہیں مثال کے لئے حضرت نوح ،حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ،حضرت عیسی ، حضرت ایوب ،حضرت یونس ، حضرت محمدمصطفی صلعم کولے لیجئے اور ان کے حالات پرغورکیجئے ، آپ کوحضرت نوح کی طویل زندگی نصیب ہوئی حضرت ابراہیم کی طرح آپ کی ولادت چھپائی گئی ۔ اورلوگوں سے کنارہ کش ہوکر روپوش ہونا پڑا ۔ حضرت موسی کی طرح حجت کے زمین سے اٹھ جانے کا خوف لاحق ہوا ، اورانھیں کی ولادت کی طرح آپ کی ولادت بھی پوشیدہ رکھی گئی ، اورانھیں کے ماننے والوں کی طرح آپ کے ماننے والوں کو آپ کی غیبت کے بعد ستایا گیا ۔ حضرت عیسی کی طرح آپ کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا حضرت ایوب کی طرح تمام امتحانات کے بعد آپ کوفرج وکشائش نصیب ہوگی ۔حضرت یوسف کی طرح عوام اورخواص سے آپ کی غیبت ہوگئی حضرت یونس کی طرح غیبت کے بعد آپ کا ظہورہوگا یعنی جس طرح وہ اپنی قوم سے غائب ہوکربڑھاپے کے باوجود نوجوان تھے ۔ ا سی طرح آپ کا جب ظہورہوگا توآپ چالیس سالہ جوان ہوں گے اورحضرت محمد مصطفی کی طرح آپ صاحب السیف ہوں گے ۔ (اعلام الوری ص ۲۶۴ طبع بمبئی ۱۳۱۲ ہجری )
امام حسن عسکری کی شہادت :
امام مہدی علیہ السلام کی عمرابھی صرف پانچ سال کی ہوئی تھی کہ خلیفہ معتمد بن متوکل عباسی نے مدتوں قید رکھنے کے بعد امام حسن عسکری کوزہردیدیا ۔ جس کی وجہ سے آپ بتاریخ ۸ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری مطابق ۸۷۳ ء بعمر ۲۸ سال رحلت فرماگئے ”وخلف من الولد ابنہ محمد “ اورآپ نے اولاد میں صرف امام محمد مہدی کوچھوڑا ۔ (نورالابصارص ۱۵۲ دمعة الساکبة ص ۱۹۱ ) علامہ شلنجبی لکھتے ہیں کہ جب آپ کی شہادت کی خبرمشہورہوئی ، توسارے شہرسامرہ میں ہلچل مچ گئی ، فریاد وفغاں کی آوازیں بلند ہوگئیں ، سارس شہرمیں ہڑتال کردی گئی ۔ یعنی ساری دکانیں بند ہوگئیں ۔ لوگوں نے اپنے کاوربارچھوڑدئیے۔ تمام بنی ہاشم حکام دولت ، منشی ،قاضی ، ارکان عدالت اعیان حکومت اور عامہ خلائق حضرت کے جنازے کے لئے دوڑپڑے ،حالت یہ تھی کہ شہرسامرہ قیامت کامنظرپیش کررہاتھا ۔تجہیزاورنماز سے فراغت کے بعد آپ کواسی مکان میں دفن کردیاگیا جس میں حضرت امام علی نقی علیہ مدفون تھے ۔ نورالابصار ص ۱۵۲ وتاریخ کامل صواعق محرقہ وفصول مہمہ،جلاالعیون ص ۲۹۶) علامہ محمد باقرفرماتے ہیں کہ امام حسن عسکری کی وفات کے بعد نمازجنازہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے پڑھائی ،ملاحظہ ہو ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۹۲ وجلاالعیون ص ۲۹۷ ) علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ نمازکے بعد آپ کوبہت سے لوگوں نے دیکھا اور آپ کے ہاتھوں کا بوسہ دیا (اعلام الوری ص ۲۴۲ ) علامہ ابن طاؤس کابیان ہے کہ ۸ ربیع الاول کوامام حسن عسکری کی وفات واقع ہوئی اور ۹ ربیع الاول سے حضرت حجت کی امامت کا آغازہوا ہم ۹ ربیع الاول کوجوخوشی مناتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے (کتاب اقبال) علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ ۹ ربیع الاول کوعمربن سعد بدست مختارآل محمد قتل ہواہے ۔(زادالمعاد ص ۵۸۵) جوعبیداللہ بن زیاد کا سپہ سالارتھا جس کے قتل کے بعد آل محمد نے پورے طورپرخوشی منائی ۔ (بحارالانوارومختارآل محمد) کتاب دمعہ ساکبہ کے ص ۱۹۲ میں ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے ۲۵۹ ہجری میں اپنی والدہ کوحج کے لئے بھیج دیاتھا ،اورفرمادیاتھا کہ ۲۶۰ ہجری میں میری شہادت ہوجائے گی اسی سن میں آپ نے حضرت امام مہدی کوجملہ تبرکات دیدئیے تھے اوراسم اعظم وغیرہ تعلیم کردیاتھا (دمعہ ساکبہ وجلاالعیون ص ۲۹۸ ) انھیں تبرکات میں حضرت علی کا جمع کیاہوا وہ قرآن بھی تھا جوترتیب نزولی پرسرورکائنات کی زندگی میں مرتب کیاگیاتھا ۔ (تاریخ الخلفا واتقان) اورجسے حضرت علی نے اپنے عہد خلافت میں بھی اس لئے رائج نہ کیاتھا کہ اسلام میں دوقرآن رواج پاجائیں گے ۔ اوراسلام میں تفرقہ پڑجائے گا (ازالةالخلفا ۲۷۳) میرے نزدیک اسی سن میں حضرت نرجس خاتون کاانتقال بھی ہواہے اوراسی سن میں حضرت نے غیبت اختیارفرمائی ہے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اوراس کی ضرورت :
بادشاہ وقت خلیفہ معتمدبن متوکل عباسی جواپنے آباؤاجداد کی طرح ظلم وستم کاخوگراورآل محمد کاجانی دشمن تھا ۔ اس کے کانوں میں مہدی کی ولادت کی بھنک پڑچکی تھی ۔ اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد تکفین وتدفین سے پہلے بقول علامہ مجلسی حضرت کے گھرپرپولیس کاچھاپہ ڈلوایااورچاہاکہ امام مہدی علیہ السلام کو گرفتارکرالے لیکن چونکہ وہ بحکم خدا ۲۳ رمضان المبارک ۲۵۹ ہجری کوسرداب میں جاکرغائب ہوچکے تھے۔ جیسا کہ شواہدالنبوت ،نورالابصار،دمعة ساکبہ ،روضة الشہدا ،مناقب الا ئمہ ،انوارالحسینیہ وغیرہ سے مستفاد ومستنبط ہوتاہے ۔ اس لئے وہ اسے دستیاب نہ ہوسکے ۔اس نے اس کے رد عمل میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تمام بیبیوں کوگرفتارکرالیا اورحکم دیا کہ اس امرکی تحقیق کی جائے کہ آیاکوئی ان میں سے حاملہ تونہیں ہے اگرکوئی حاملہ ہو تواس کاحمل ضائع کردیاجائے ،کیونکہ وہ حضرت سرورکائنات صلعم کی پیشین گوئی سے خائف تھا کہ آخری زمانہ میں میرا ایک فرزند جس کانام مہدی ہوگا ۔ کائنات عالم کے انقلاب کا ضامن ہوگا ۔ اوراسے یہ معلوم تھا کہ وہ فرزند امام حسن عسکر ی علیہ السلام کی اولاد سے ہوگا لہذا اس نے آپ کی تلاش اورآپ کے قتل کی پوری کوشش کی ۔تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۱ میں ہے کہ ۲۶۰ میں امام حسن عسکری کی شہادت کے بعد جب معتمد خلیفہ عباسی نے آپ کے قتل کرنے کے لئے آدمی بھیجے توآپ سرداب ( ۱) ” سرمن رائے “میں غائب ہوگئے بعض اکابرعلما اہل سنت بھی اس امرمیں شیعوں کے ہم زبان ہیں ۔ چنانچہ ملاجامی نے شواہدالنبوت میں امام عبدالوہاب شعرانی نے لواقع الانواروالیواقیت والجواہرمیں اورشیخ احمدمحی الدین ابن عربی نے فتوحات مکہ میں اورخواجہ پارسانے فصل الخطاب میں اورعبدالحق محدث دہلوی نے رسالہ ا ئمہ طاہرین میں اورجمال الدین محدث نے روضةالاحباب میں ،اورابوعبداللہ شامی صاحب کفایة الطالب نے کتاب التبیان فی اخبارصاحب الزمان میں اورسبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں اورابن صباغ نورالدین علی مالکی نے فصول المہمہ میں اورکمال الدین ابن طلحہ شافعی نے مطالب السؤل میں اورشاہ ولی اللہ نے فضل المبین میں اورشیخ سلیمان حنفی نے ینابع المودة میں اوربعض دیگرعلما نے بھی ایساہی لکھا ہے اورجولوگ ان حضرت کے طول عمرمیں تعجب کرکب انکارکرتے ہیں ۔ ان کویہ جواب دیتے ہیں کہ خدا کی قدرت سے کچھ بعیدنہیں ہے جس نے آدم کوبغیرماں باپ کے اورعیسی کوبغیرباپ کے پیداکیا ،تمام اہل اسلام نے حضرت خضرکواب تک زندہ ماناہوا ہے ،ادریس بہشت میں اورحضرت عیسی آسمان پراب تک زندہ مانے جاتے ہیں اگرخدائے تعالی نے آل محمد میں سے ایک شخص کوعمرعنآیت کیاتوتعجب کیاہے ؟حالانکہ اہل اسلام کودجال کے موجود ہونے اورقریب قیامت ظہورکرنے سے بھی انکارنہیں ہے ۔
سامراکی آبادی بہت ہی قدیمی ہے اوردنیاکے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے ، اس سام بن نوح نے آبادکیاتھا (معجم البلدان) اس کی اصل سام راہ تھی بعدمیں سامراہوگیا ، آب وہواکی عمدگی کی وجہ سے خلیفہ معتصم نے فوجی کیمپ بناکرآبادکیاتھا اوراسی کو دارالسلطنت بھی بنادیاتھا ، اس کی آبادی ۸ فرسخ لمبی تھی ، اسے اس نے نہآیت خوبصورت شہربنادیاتھا ۔ ا سی لئے اس کانام سرمن رائے رکھ دیاتھا یعنی وہ شہرجسے جوبھی دیکھے خوش ہوجائے ،عسکری اسی کاایک محلہ ہے جس میں امام علی نقی علیہ السلام نظربندتھے بعد میں انھوں نے دلیل بن یعقوب نصرانی سے ایک مکان خریدلیاتھا جس میں اب بھی آپ کامزارمقدس واقع ہے ۔
سامرامیں ہمیشہ غیرشیعہ آبادی رہی ہے اس لئے اب تک وہاں شیعہ آباد نہیں ہیں وہاں کے جملہ خدام بھی غیرشیعہ ہیں ۔
حضرت حجت علیہ السلام کے غائب ہونے کاسرداب وہیں ایک مسجدکے کنارے واقع ہے جوکہ حضرت امام علی نقی اورحضرت امام حسن عسکری کے مزاراقدس کے قریب ہے ۱۲ منہ۔
کتاب شواہدالنبوت کے ص ۶۸ میں ہے کہ خاندان نبوت کے گیارہویں امام حسن عسکری ۲۶۰ میں زہرسے شہیدکردےئے گئے تھے ان کی وفات پران کے صاحبزادے محمد ملقب بہ مہدی شیعوں کے آخری امام ہوئے۔مولوی امیرعلی لکھتے ہیں کہ خاندان رسالت کے ان اماموں کے حالات نہآیت دردناک ہیں ۔ ظالم متوکل نے حضرت امام حسن عسکری کے والدماجد امام علی نقی کومدینہ سے سامرہ پکڑبلایاتھا ۔اوروہاں ان کی وفات تک ان کونظربندرکھا تھا ۔ (پھرزہرسے ہلاک کردیاتھا ) اسی طرح متوکل کے جانشینوں نے بدگمانی اورحسدکے مارے حضرت امام حسن عسکری کوقیدرکھاتھا ،ان کے کمسن صاحبزادے محمدالمہدی جن کی عمراپنے والدکی وفات کے وقت پانچ سال کی تھی ۔ خوف کے مارے اپنے گھرکے قریب ہی ایک غارمیں چھپ گئے اورغائے ہوگئے ۔الخ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ جس غارمیں امام مہدی کی غیبت بتائی جاتی ہے ۔ اسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔(نورالابصارجلد ۱ ص ۱۵۲) علامہ ابن حجرمکی کاارشادہے، کہ امام مہدی سرداب میں غائب ہوے ہیں ۔” فلم یعرف این ذھب “ پھرمعلوم نہیں کہاں تشریف لے گئے۔ (صواعق محرقہ ص ۱۲۴) ۔
غیبت امام مہدی پرعلمااہل سنت کااجماع :
جمہورعلما اسلام امام مہدی کے وجودکوتسلیم کرتے ہیں ، اس میں شیعہ اورسنی کاسوال نہیں ۔ ہرفرقہ کے علماء یہ مانتے ہیں کہ آپ پیدا ہوچکے ہیں اورموجودہیں ۔ہم علماء اہل سنت کے اسماء مع ان کی کتابوں اورمختصراقوال کے درج کرتے ہیں :
( ۱ ) ۔ علامہ محمدبن طلحہ شافعی کتاب مطالب السوال میں فرماتے ہیں کہ امام مہدی سامرہ میں پیداہوئے ہیں جوبغداد سے ۲۰ فرسخ کے فاصلہ پرہے۔
( ۲ ) ۔ علامہ علی بن محمدصباغ مالکی کی کتاب فصول المہمہ میں لکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری گیارہویں امام نے اپنے بیٹے امام مہدی کی ولادت بادشاہ وقت کے خوف سے پرشیدہ رکھی ۔
( ۳ ) ۔علامہ شیخ عبداللہ بن احمد خشاب کی کتاب تاریخ موالید میں ہے کہ امام مہدی کانام محمد اورکنیت ابوالقاسم ہے ۔آپ آخری زمانہ میں ظہوروخروج کریں گے ۔
( ۴ ) ۔ علامہ محی الدین ابن عربی حنبلی کی کتاب فتوحات مکہ میں ہے کہ جب دنیا ظلو وجورسے بھرجائے گی توامام مہدی ظہورکریں گے۔
( ۵ ) ۔علامہ شیخ عبدالوہاب شعرانی کی کتاب الیواقیت والجواہرمیں ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ ہجری میں پیداہوئے اب اس وقت یعنی ۹۵۸ ہجری میں ان کی عمر ۷۰۶ سال کی ہے ،یہی مضمون علامہ بدخشانی کی کتاب مفتاح النجاة میں بھی ہے ۔
( ۶ ) ۔ علامہ عبدالرحمن جامی حنفی کی کتاب شواہدالنبوت میں ہے کہ امام مہدی سامرہ میں پیداہوئے ہیں اوران کی ولادت پوشیدہ رکھی گئی ہے وہ امام حسن عسکری کی موجودگی میں غائب ہوگئے تھے ۔اسی کتاب میں ولادت کاپوراواقعہ حکیمہ خاتون کی زبانی مندرج ہے ۔
( ۷ ) ۔ علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب مناقب الائمہ ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پیداہوئے ہیں امام حسن عسکری نے ان کے اذان واقامت کہی ہے اورتھوڑے عرصہ کے بعد آپ نے فرمایا کہ وہ اس مالک کے سپردہوگئے جن کے پاس حضرت موسی بچپنے میں تھے۔
( ۸ ) ۔ علامہ جمال الدین محدث کی کتاب روضةالاحباب میں ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پیداہوئے اورزمانہ معتمد عباسی میں بمقام ”سرمن رائے“ ازنظربرایاغائب شد لوگوں کی نظرسے سرداب میں غائب ہوگئے ۔
( ۹ ) ۔ علامہ عبدالرحمن صوفی کی کتاب مراةالاسرارمیں ہے کہ آپ بطن نرجس سے ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پیداہوئے ۔
( ۱۰ ) ۔ علامہ شہاب الدین دولت آبادی صاحب تفسیربحرمواج کی کتاب ہدایة السعداء میں ہے کہ خلافت رسول حضرت علی کے واسطہ سے امام مہدی تک پہونچی آپ ہی آخری امام ہیں ۔
( ۱۱ ) ۔ علامہ نصربن علی جھمنی کی کتاب موالیدالائمہ میں ہے کہ امام مہدی نرجس خاتون کے بطن سے پیداہوئے ۔
( ۱۲ ) ۔ علامہ ملا علی قاری کی کتاب مرقات شرح مشکوة میں ہے کہ امام مہدی باہویں امام ہیں شیعوں کایہ کہناغلط ہے کہ اہل سنب اہل بیت کے دشمن ہین۔
( ۱۳ ) ۔ علامہ جواد ساباطی کی کتاب براہین ساباطیہ میں ہے کہ امام مہدی اولادفاطمہ میں سے ہیں ، وہ بقولے ۲۵۵ میں متولد ہوکرایک عرصہ کے بعد غائب ہوگئے ہیں ۔
( ۱۴ ) ۔ علامہ شیخ حسن عراقی کی تعریف کتاب الواقع میں ہے کہ انھوں نے امام مہدی سے ملاقات کی ہے ۔
( ۱۵ ) ۔ علامہ علی خواص جن کے متعلق شعرانی نے الیواقیت میں لکھا ہے کہ انھوں نے امام مہدی سے ملاقات کی ہے ۔
( ۱۶ ) ۔ علامہ شیخ سعدالدین کاکہناہے کہ امام مہدی پیداہوکرغائب ہوگئے ہیں ”دورآخرزمانہ آشکارگردد“ اوروہ آخرزمانہ میں ظاہرہوں گے ۔جیساکہ کتاب مقصداقصی میں لکھا ہے ۔
( ۱۷ ) ۔ علامہ علی اکبرابن اسعداللہ کی کتاب مکاشفات میں ہے کہ آپ پیداہوکرقطب ہوگئے ہیں ۔
( ۱۸ ) ۔ علامہ احمدبلاذری ااحادیث لکھتے ہیں کہ آپ پیداہوکرمحجوب ہوگئے ہیں ۔
( ۱۹ ) ۔ علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے رسالہ نوارد میں ہے، محمد بن حسن( المہدی ) کے بارے میں شیعوں کاکہنا درست ہے ۔
( ۲۰ ) ۔ علامہ شمس الدین جزری نے بحوالہ مسلسلات بلاذری اعتراف کیاہے ۔
( ۲۱ ) ۔علامہ علاالدولہ احمدمنانی صاحب تاریخ خمیس دراحوالی النفس نفیس اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امام مہدی غیبت کے بعد ابدال پھرقطب ہوگئے۔
علامہ نوراللہ بحوالہ کتابیان الاحسان لکھتے ہیں کہ امام مہدی تکمیل صفات کے لئے غائب ہوئے ہیں
۲۴ علامہ ذہبی اپنی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ امام مہدی ۲۵۶ میں پیداہوکرمعدوم ہوگئے ہیں
۲۵ علامہ ابن حجرمکی کی کتاب صواعق محرقہ میں ہے کہ امام مہدی المنتظرپیداہوکرسرداب میں غائب ہوگئے ہیں ۔
۲۶ علامہ عصرکی کتاب وفیات الا عیان کی جلد ۲ ص ۴۵۱ میں ہے کہ امام مہدی کی عمرامام حسن عسکری کی وفات کے وقت ۵ سال تھی وہ سرداب میں غائب ہوکرپھرواپس نہیں ہوے ۔
۲۷ علامہ سبط ابن جوزی کی کتاب تذکرةالخواص الامہ کے ص ۲۰۴ میں ہے کہ آپ کالقب القائم ، المنتظر،الباقی ہے ۔
۲۸ علامہ عبیداللہ امرتسری کی کتاب ارجح المطالب کے ص ۳۷۷ میں بحوالہ کتاب البیان فی اخبارصاحب الزمان مرقوم ہے کہ آپ اسی طرح زندہ باقی ہیں جس طرح عیسی ، خضر، الیاس وغیرہ ہم زندہ اورباقی ہیں ۔
۲۹ علامہ شیخ سلیمان تمندوزی نے کتاب ینابع المودة ص ۳۹۳ میں
۳۰ علامہ ابن خشاب نے کتاب موالیداہل بیت میں
۳۱ علامہ شبلنجی نے نورالابصارکے ص ۱۵۲ طبع مصر ۱۲۲۲ میں بحوالہ کتاب البیان لکھا ہے کہ امام مہدی غائب ہونے کے بعد اب تک زندہ اورباقی ہیں اوران کے وجود کے باقی ،اورزندہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے وہ اسی طرح زندہ اورباقی ہیں جس طرح حضرت عیسی ،حضرت خضراورحضرت الیاس وغیرہم زندہ اورباقی ہیں ان اللہ والوں کے علاوہ دجال ،ابلیس بھی زندہ ہیں جیسا کہ قرآن مجید صحیح مسلم ،تاریخ طبری وغیرہ سے ثابت ہے لہذا ”لاامتناع فی بقائه
“ان کے باقی اورزندہ ہونے میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے علامہ چلپی کتاب کشف الظنون کے ص ۲۰۸ میں لکھتے ہیں کہ کتاب البیان فی اخبارصاحب الزمان ابوعبداللہ محمد بن یوسف کنجی شافعی کی تصنیف ہے ۔ (علامہ فاضل روزبہان کی ابطال الباطل میں ہے کہ امام مہدی قائم ومنتظرہیں وہ آفتاب کی مانند ظاہرہوکردنیاکی تاریکی ،کفرزائل کردے گے ۔
۳۱ علامہ علی متقی کی کتاب کنزالعمال کی جلد ۷ کے ص ۱۱۴ میں ہے کہ آپ غائب ہیں ظہورکرکے ۹ سال حکزمت کریں گے ۔
۳۲ علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب درمنشورجلد ۳ ص ۲۳ میں ہے کہ امام مہدی کے ظہورکے بعد عیسی نازل ہوں گے وغیرہ۔
امام مہدی کی غیبت اورآپ کاوجود وظہورقرآن مجیدکی روشنی میں :
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اورآپ کے موجودہونے اورآپ کے طول عمرنیزآپ کے ظہوروشہود اورظہورکے بعد سارے دین کوایک کردینے کے متعلق ۹۴ آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں سے اکثردونوں فریق نے تسلیم کیاہے ۔اسی طرح بے شمارخصوصی احادیث بھی ہیں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو غایۃ المقصود وغایۃالمرام علامہ ہاشم بحرانی اورینابع المودة ،میں اس مقام پرصرف دوتین آیتیں لکھتاہوں :
۱ ) آپ کی غیبت کے متعلق :(
آلم ذلک الکتاب لاریب فیه هدی للمتقین الذین یومنون بالغیب
)
ہے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان بالغیب سے امام مہدی کی غیبت مراد ہے ۔نیک بخت ہیں وہ لوگ جوان کی غیبت پرصبرکریں گے اورمبارک باد کے قابل ہیں ۔ وہ سمجھدار لوگ جوغیبت میں بھی ان کی محبت پرقائم رہیں گے ۔(ینابع المودة ص ۳۷۰ طبع بمےئی )
۲ ) آپ کے موجود اورباقی ہونے کے متعلق ”(
جعلها کلمةباقية فی عقبه
)
“ ہے ابراھیم کی نسل میں کلمہ باقیہ کوقراردیاہے جوباقی اورزندہ رہے گا اس کلمہ باقیہ سے امام مہدی کاباقی رہنا مراد ہے اوروہی آل محمد میں باقی ہیں ۔(تفسیرحسینی علامہ حسین واعظ کاشفی ص ۲۲۶) ۔
) آپ کے ظہوراورغلبہ کے متعلق ”(
يظهره علی الدين کله
)
“ جب امام مہدی بحکم خداظہورفرمائیں گے توتمام دینوں پرغلبہ حاصل کرلیں گے یعنی دنیا میں سوا ایک دین ا سلام کے کوئی اوردین نہ ہوگا ۔(نورالابصارص ۱۵۳ طبع مصر)۔
امام مہدی کاذکرکتب آسمانی میں :
حضرت داؤد کی زبورکی آیت ۴# مرموز ۹۷ میں ہے کہ آخری زمانہ میں جوانصاف کامجسمہ انسان آئے گا ، اس کے سر پرابرسایہ فگن ہوگا ۔ کتاب صفیائے پیغمبرکے فصل ۳ آیت ۹ میں ہے آخری زمانے میں تمام دنیا موحدہوجائے گی ۔کتاب زبورمرموز ۱۲۰ میں ہے جوآخرالزماں آئے گا، اس پرآفتاب اثراندازنہ ہوگا۔صحیفہ شعیاپیغمبرکے فصل ۱۱ میں ہے کہ جب نورخداظہورکرے گا توعدل وانصاف کا ڈنکا بجے گا ۔شیراوربکری ایک جگہ رہیں گے چیتااوربزغالہ ایک ساتھ چریں گے شیراورگوسالہ ایک ساتھ رہیں گے ،گوسالہ اورمرغ ایک ساتھ ہوں گے شیراورگائے میں دوستی ہوگی ۔ طفل شیرخوارسانپ کب بل میں ہاتھ ڈالے گااوروہ کاٹے گانہیں پھراسی صفحہ کے فصل ۲۷ میں ہے کہ یہ نورخدا جب ظاہرہوگا، توتلوارکے ذریعہ سے تمام دشمنوں سے بدلہ لے گا صحیفہ تنجاس حرف الف میں ہے کہ ظہورکے بعد ساری دنیا کے بت مٹادئیے جائیں گے ،ظالم اورمنافق ختم کردئیے جائیں گے یہ ظہورکرنے والاکنیزخدا (نرجس) کابیٹاہوگا ۔ توریت کے سفرانبیامیں ہے کہ مہدی ظہورکریں گے عیسی آسمان سے اتریں گے ،دجال کوقتل کریں گے انجیل میں ہے کہ مہدی اورعیسی دجال اورشیطان کوقتل کریں گے ۔ اسی طرح مکمل واقعہ جس میں شہادت امام حسین اورظہورمہدی علیہ السلام کااشارہ ہے ۔انجیل کتاب دانیال باب ۱۲ فصل ۹ آیت ۲۴ رویائے ۲# میں موجود ہے (کتاب الوسائل س ۱۲۹ طبع بمبئی ۱۳۳۹ ہجری )۔
امام مہدی کی غیبت کی وجہ :
مذکورہ بالاتحریروں سے علمااسلام کااعتراف ثابت ہوچکا یعنی واضح ہوگیا کہ امام مہدی کے متعلق جوعقائد اہل تشیع کے ہیں وہی منصف مزاج اورغیرمتعصب اہل تسنن کے علماء کے بھی ہیں اورمقصد اصل کی تائید قرآن کی آیتوں نے بھی کردی ،اب رہی غیبت امام مہدی کی ضرورت اس کے متعلق عرض ہے کہ :
۱ ) اخلاق عالم نے ہدآیت خلق کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبراورکثیرالتعداد ان کے اوصیا بھیجے ۔پیغمبروں میں سے ایک لاکھ تيس ہزار نوسو ننانویں انبیاء کے بعد چونکہ حضوررسول کریم تشریف لائے تھے ۔لہذا ان کے جملہ صفات وکمالات ومعجزات حضرت محمدمصطفی صلعم میں جمع کردئیے تھے اورآپ کوخدانے تمام انبیاء کے صفات کا جلوہ برواربنایا بلکہ خود اپنی ذات کامظہرقراردیا تھا اورچونکہ آپ کوبھی اس دنیائے فانی سے ظاہری طورپرجاناتھا اس لئے آپ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت علی کوہرقسم کے کمالات سے بھرپورکردیاتھا یعنی حضرت علی اپنے ذاتی کمالات کے علاوہ نبوی کمالات سے بھی ممتازہوگئے تھے ۔سرورکائنات کے بعد کائنات عالم صرف ایک علی کی ہستی تھی جوکمالات انبیاء کی حامل تھی آپ کے بعد سے یہ کمالات اوصیامیں منتقل ہوتے ہوئے امام مہدی تک پہونچے بادشاہ وقت امام مہدی کوقتل کرنا چاہتاتھا اگروہ قتل ہوجاتے تودنیاسے انبیاء واوصیاء کا نام ونشان مٹ جاتا اورسب کی یادگاربیک ضرب شمشیرختم ہوجاتی اورچونکہ انھیں انبیاء کے ذریعہ سے خداوند عالم متعارف ہواتھا لہذا اس کابھی ذکرختم ہوجاتا اس لئے ضرورت تھی کہ ایسی ہستی کومحفوظ رکھا جائے جوجملہ انبیاء اوراوصیاء کی یادگاراورتمام کے کمالات کی مظہرہو ۔
۲ ) خداوندے عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے ” وجعلھا کلمة باقےة فی عقبہ “ ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قراردیاہے نسل ابراہیم دوفرزندوں سے چلی ہے ایک اسحاق اوردوسرے اسماعیل ۔ اسحاق کی نسل سے خداوندعالم جناب عیسی کوزندہ وباقی قراردے کر آسمان پرمحفوظ کرچکاتھا ۔ اب بہ مقتضائے انصاف ضرورت تھی کہ نسل اسماعیل سے کسی ایک کوباقی رکھے اوروہ بھی زمین پرکیونکہ آسمان پرایک باقی موجودتھا ،لہذا امام مہدی کوجونسل اسماعیل سے ہیں زمین پرزندہ اورباقی رکھا اورانھیں بھی اسی طرح دشمنوں کے شرسے محفوظ کردیا جس طرح حضرت عیسی کومحفوظ کیاتھا ۔
۳ ) یہ مسلمات اسلامی سے ہے کہ زمین حجت خدا اورامام زمانہ سے خالی نہیں رہ سکتی (اصول کافی ۱۰۳ طبع نولکشور) چونکہ حجت خدا اس وقت امام مہدی کے سوا کوئی نہ تھا اورانھیں دشمن قتل کردینے پرتلے ہوئے تھے اس لئے انھیں محفوظ ومستورکردیاگیا ۔حدیث میں ہے کہ حجت خدا کی وجہ سے بارش ہوتی ہے اورانھیں کے ذریعہ سے روزی تقسیم کی جاتی ہے (بحار)۔
۴ ) یہ مسلم ہے کہ حضرت امام مہدی جملہ انبیاء کے مظہرتھے اس لئے ضرورت تھی کہ انھیں کی طرح ان کی غیبت بھی ہوتی یعنی جس طرح بادشاہ وقت کے مظالم کی وجہ سے حضرت نوح ،حضرت ابراہیم ،حضرت موسی ،حضرت عیسی اورحضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے عہدحیات میں مناسب مدت تک غائب رہ چکے تھے اسی طرح یہ بھی غائب رہتے ۔
۵ ) قیامت کاآنا مسلم ہے اورواقعہ قیامت میں امام مہدی کا ذکربتاتاہے کہ آپ کی غیبت مصلحت خداوندی کی بناء پرہوئی ہے ۔
۶ ) سور ہ اناانزلنا سے معلوم ہوتاہے کہ نزول ملائکہ شب قدرمیں ہوتا رہتاہے یہ ظاہرہے کہ نزول ملائکہ انبیاء واوصیاء ہی پرہواکرتاہے ۔امام مہدی کواس لئے موجود اورباقی رکھا گیاہے تاکہ نزول ملائکہ کی مرکزی غرض پوری ہوسکے ،اورشب قدرمیں انھیں پرنزول ملائکہ ہوسکے حدیث میں ہے کہ شب قدرمیں سال بھرکی روزی وغیرہ امام مہدی تک پہونچادی جاتی ہے اوروہی اس تقسیم کرتے رہتے ہیں ۔
۷ ) حکیم کافعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا یہ دوسری بات ہے کے عام لوگ اس حکمت ومصلحت سے واقف نہ ہوں غیبت امام مہدی اسی طرح مصلحت وحکمت خداوندی کی بناپرعمل میں آئی ہے جس طرح طواف کعبہ ،رمی جمرہ وغیرہ ہے جس کی اصل مصلحت خداوندعالم ہی کومعلوم ہے ۔
۸ ) امام جعفرصادق علیہ السلام کافرماناہے کہ امام مہدی کواس لئے غائب کیاجائے گا تاکہ خداوندعالم اپنی ساری مخلوق کا امتحان کرکے یہ جانچے کہ نیک بندے کون ہیں اورباطل پرست کون لوگ ہیں (اکمال الدین )۔
۹ ) چونکہ آپ کواپنی جان کاخوف تھا اوریہ طے شدہ ہے کہ ” من خاف علی نفسہ احتاج الی الاستتار“ کہ جسے اپنے نفس اوراپنی جان کاخوف ہو وہ پوشیدہ ہونے کولازمی جانتاہے (المرتضی )۔
) آپ کی غیبت اس لئے واقع ہوئی ہے کہ خداوندعالم ایک وقت معین میں آل محمد پرجومظالم کیے گئے ہیں ۔ ان کابدلہ امام مہدی کے ذریعہ سے لے گا یعنی آپ عہد اول سے لے کربنی امیہ اوربنی عباس کے ظالموں سے مکمل بدلہ لیں گے ۔ (اکمال الدین )۔
غیبت امام مہدی جفرجامعہ کی روشنی میں :
علامہ شیخ قندوزی بلخی حنفی رقمطرازہیں کے سدیرصیرفی کابیان ہے کہ ہم اورمفضل بن عمر،ابوبصیر،ابان بن تغلب ایک دن صادق آل محمد کی خدمت میں حاضرہوئے تودیکھا کہ آپ زمین پربیٹھے ہوئے رورہے ہیں ، اورکہتے ہیں کہ ” اے محمد!تمہاری غیبت کی خبرنے میرا دل بے چین کردیاہے “ میں نے عرض کی حضورخدا آپ کی آنکھوں کوبھی نہ رلائے بات کیا ہے کس لئے حضورگریہ کناں ہیں فرمایا ۔ ا ے سدیر!میں نے آج کتاب ”جعفرجامع“ میں بوقت صبح امام مہدی کی غیبت کا مطالعہ کیاہے ،اے سدیر!یہ وہ کتاب ہے جس میں ”علم ماکان ومایکون“ کااندراج ہے اورجوکچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب اس میں لکھا ہواہے اے سدیر! میں نے اس کتاب میں یہ دیکھا ہے کہ ہماری نسل سے امام مہدی ہوں گے ۔ پھروہ غائب ہوجائیں گے اور ان کی غیبت نیزعمر بہت طویل ہوگی ان کی غیبت کے زمانہ میں مومنین مصائب میں مبتلا ہوں گے اور ان کے امتحانات ہوتے رہیں گے اورغیبت میں تاخیرکی وجہ سے ان کے دلوں میں شکوک پیداہوتے ہوں گے پھرفرمایا : اے سدیرسنو! ان کی ولادت حضرت موسی کی طرح ہوگی اوران غیبت عیسی کی مانندہوگی اوران کے ظہورکا حال حضرت نوح کے مانند ہوگا اوران کی عمرحضرت خضرکی عمرجیسی ہوگی (ینابع المودة) اس حدیث کی مختصرشرح یہ ہے کہ :
۱ ) تاریخ میں ہے کہ جب فرعون کومعلوم ہوا کہ میری سلطنت کا زوال ایک مولود بنی اسرائیل کے ذریعہ ہوگا تواس نے حکم جاری کردیا کہ ملک میں کوئی عورت حاملہ نہ رہنے پائے اورکوئی بچہ باقی نہ رکھا جائے چنانچہ اسی سلسلہ میں ۴۰ ہزاربچے ضائع کئے گئے لیکن نے خدا حضرت موسی کوفرعون کی تمام ترکیبوں کے باوجود پیداکیا،باقی رکھا اورانھیں کے ہاتھوں سے اس کی سلطنت کاتختہ الٹوایا ۔ اسی طرح امام مہدی کے لئے ہوا کہ تمام بنی امیہ اوربنی عباسیہ کی سعی بلیغ کے باوجود آپ بطن نرجس خاتون سے پیداہوئے اورکوئی آپ کودیکھ تک نہ سکا۔
۲ ) حضرت عیسی کے بارے میں تمام یہودی اورنصرانی متفق ہیں کہ آپ کو سولی دید ی گئی اور آپ قتل کئے جاچکے ،لیکن خدا وندعالم نے اس کی ردفرمادی اورکہ دیا کہ وہ نہ قتل ہوئے ہیں اورنہ ان کوسولی دی گئی ہے یعنی خداوندعالم نے اپنے پاس بلالیاہے اوروہ آسمان پرامن وامان خدا میں ہیں ۔اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بھی لوگوں کایہ کہنا ہے کہ پیداہی نہیں ہوئے حالانکہ وہ پیداہوکر حضرت عیسی کی طرح غائب ہوچکے ہیں ۔
۳ حضرت نوح نے لوگوں کی نافرمانی سے عاجزآکرخداکے عذاب کے نزول کی درخواست کی خداوند عالم نے فرمایا کہ پہلے ایک درخت لگاؤوہ پھل لائے گاتب عذاب کروں گا اسی طرح نوح نے سات مرتبہ کیا بالاخراس تاخیرکی وجہ سے آپ کے تمام دوست وموالی اورایمان دار کافرہوگئے اورصرف سترمومن رہ گئے ۔ اسی طرح غیبت امام مہدی اورتاخیرظہورکی وجہ سے ہورہا ہے ۔ لوگ فرامین پیغمبراور آئمہ علیہم السلام کی تکذیب کررہے ہیں اورعوام مسلم بلاوجہ اعتراضات کرکے اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں اورشاید اسی وجہ سے مشہور ہے کہ جب دنیا میں چالیس مومن کامل رہ جائیں گے تب آپ کا ظہورہوگا ۔
) حضرت خضرجوزندہ اورباقی ہیں اورقیامت تک موجود رہیں گے اورجب کہ حضرت خضرکے زندہ اورباقی رہنے میں مسلمانوں کوکوئی اختلاف نہیں ہے حضرت امام مہدی کے زندہ اورباقی رہنے میں بھی کوئی اختلاف کی وجہ نہیں ہے ۔
غیبت صغری وکبری اورآپ کے سفرا
آپ کی غیبت کی دوحیثیت تھی ، ایک صغری اوردوسری کبری ، غیبت صغری کی مدت ۷۵ یا ۷۳ سال تھی ۔ اس کے بعد غیبت کبری شروع ہوگئی غیبت صغری کے زمانے میں آپ کاایک نائب خاص ہوتا تھا جس کے ذریعہ اہتمام ہرقسم کانظام چلتاتھا سوال وجواب، خمس وزکوة اوردیگرمراحل اسی کے واسطہ طے ہوتے تھے خصوصی مقامات محروسہ میں اسی کے ذریعہ اورسفارش سے سفرا مقررکئے جاتے تھے ۔
سب سے پہلے جنہیں نائب خاص ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ان کانام نامی واسم گرامی حضرت عثمان بن سعیدعمری تھا آپ حضرت امام علی نقی علیہ السلام اورامام حسن عسکری علیہ السلام کے معتمد خاص اوراصحاب خلص میں سے تھے آپ قبیلہ بنی اسد سے تھے آپ کی کنیت ابوعمرتھی ،آپ سامرہ کے قریہ عسکرکے رہنے والے تھے وفات کے بعد آپ بغداد میں دروازہ جبلہ کے قریب مسجد میں دفن کئے گئے آپ ک وفات کے بعد بحکم امام علیہ السلام آپ کے فرزند،حضرت محمد بن عثمان بن سعید اس عظیم منزلت پرفائزہوئے ، آپ کی کنیت ابوجعفرتھی آپ نے اپنی وفات سے ۲ ماہ قبل اپنی قبرکھدوادی تھی آپ کاکہناتھا کہ میں یہ اس لئے کررہاہوں کہ مجھے امام علیہ السلام نے بتادیاہے اورمیں اپنی تاریخ وفات سے واقف ہوں آپ کی وفات جمادی الاول ۳۰۵ ہجری میں واقع ہوئی ہے اورآپ ماں کے قریب بمقام دروازہ کوفہ سرراہ دفن ہوئے ۔ پھرآپ کی وفات کے بعد بواسطہ مرحوم حضرت امام علیہ السلام کے حکم سے حضرت حسین بن روح اس منصب عظیم پرفائزہوئے ۔جعفربن محمد بن عثمان سعیدکاکہناہے ،کہ میرے والد حضرت محمد بن عثمان نے میرے سامنے حضرت حسین بن روح کواپنے بعد اس منصب کی ذمہ داری کے متعلق امام علیہ السلام کا پیغام پہنچایا تھا ۔حضرت حسین بن روح کی کنیت ابوقاسم تھی آپ محلہ نوبخت کے رہنے والے تھے آپ خفیہ طورپرجملہ ممالک اسلامیہ کادورہ کیاکرتے تھے آپ دونوں فرقوں کے نزدیک معتمد ،ثقہ ،صالحاورامین قراردئے گئے ہیں آپ کی وفات شعبان ۳۲۶ میں ہوئی اورآپ محلہ نوبخت کوفہ میں مدفون ہوئے ہیں آپ کی وفات کے بعد بحکم امام علیہ السلام حضرت علی بن محمد السمری اس عہدہ جلیلہ پرفائزہوئے آپ کی کنیت ابوالحسن تھی ،آپ اپنے فرائض انجام دئے رہے تھے ،جب وقت قریب آیاتوآپ سے کہاگیا کہ آپ اپنے بعد کاکیاانتظام کریں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ اب آئندہ یہ سلسہ قائم نہ رہے گا ۔ (مجالس المومنین ص ۸۹ وجزیزہ خضرا ص ۶ وانوارالحسینیہ ص ۵۵) ۔ ملاجامی اپنی کتاب شواہدالنبوت کے ص ۲۱۴ میں لکھتے ہیں کہ محمد السمری کے انتقال سے ۶ یوم قبل امام علیہ السلام کا ایک فرمان ناحیہ مقدسہ سے برآمد ہوا ۔ جس میں ان کی وفات کا ذکراورسلسہ سفارت کے ختم ہونے کا تذکرہ تھا ۔ امام مہدی کے خط کے عیون الفاظ یہ ہیں
بسم الله الرحمن ا لرحیم
” یاعلی بن محمد عظم الله اجراخرانک فيک فانک ميت مابينک وبين ستة ایام فاجمع امرک ولاترض الی احد يقوم مقامک بعدوفاتک فقد وقعت الغيبة السامة فلاظهورالا بعداذن الله تعالی وذلک بعد طول الامد الخ“
ترجمہ : اے علی بن محمد ! خداوند عالم تمھارے بارے میں تمھارے بھائیوں اورتمھارے اوردوستوں کواجرجزیل عطاکرے ،تمہیں معلوم ہو کہ تم چھ یوم میں وفات پانے والے ہو،تم اپنے انتظامات کرلو۔ اورآئندہ کے لئے اپنا کوئی قائم مقام تجویز وتلاش نہ کرو۔ اس لئے کہ غیبت کبری واقع ہوگئی ہے اور اذن خدا کے بغیرظہورناممکن ہوگا ۔ یہ ظہوربہت طویل عرصہ کے بعد ہوگا ۔
غرضکہ چھ یوم گذرنے کے بعد حضرت ابوالحسن علی بن محمدالسمری بتاریخ ۱۵ شعبان ۳۲۹ انتقال فرماگئے ۔اورپھرکوئی خصوصی سفیرمقررنہیں ہوا اورغیبت کبری شروع ہوگئی ۔
سفرا عمومی کے اسماء
مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان سفرا کے اسماء بھی درج ذیل کردئے جائیں جوانھیں نواب خاص کے ذریعہ اورسفارش سے بحکم امام ممالک محروسہ مخصوصہ میں امام علیہ السلام کاکام کرتے تھے اورحضرت کی خدمت میں حاضرہوتے رہتے تھے ۔
) بغداد سے حاجز،بلالی ،عطار ۔ کوفہ سے عاصمی ۔ اہوازسے محمد بن ابراہیم بن مہریار ۔ ہمدان سے محمد بن صالح ۔ رے سے بسامی واسدی ۔ آذربائیجان سے قسم بن علا۔ نیشاپورسے محمد بن شاذان ۔ قسم سے احمد بن اسحاق۔ (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۲۰) ۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے بعد :
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت چونکہ خداوندعالم کی طرف سے بطورلطف خاص عمل میں آئی تھی ،اس لئے آپ خدائی خدمت میں ہمہ تن منہمک ہوگئے اورغائب ہونے کے بعد آپ نے دین اسلام کی خدمت شروع فرمادی ۔ مسلمانوں ، مومنوں کے خطوط کے جوابات دینے ، ا ن کی بوقت ضرورت رہبری کرنے اورانھیں راہ راست دکھانے کا فریضہ اداکرنا شروع کردیا ضروری خدمات آپ زمانہ غیبت صغری میں بواسطہ سفرا یابلاوسطہ اورزمانہ غیبت کبری میں بلاواسطہ انجام دیتے رہے اورقیامت تک انجام دیتے رہیں گے۔
۳۰۷ ہجری میں آپ کا حجراسود نصب کرنا :
علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ زمانہ نیابت میں بعہد حسین بن روح ،ابوالقاسم جعفربن محمد بن قولویہ بارادہ حج بغداد گئے اوروہ مکہ معظمہ پہنچ کرحج کرنے کافیصلہ کئے ہوئے تھے ۔ لیکن وہ بغداد پہنچ کرسخت علیل ہوگئے ۔ اسی دوران میں آپ نے سناکہ قرامطہ نے حجراسود کونکال لیاہے اوروہ اسے کچھ درست کرکے ایام حج میں پھرنصب کریں گے ۔ کتابوں میں چونکہ پڑھ چکے تھے کہ حجراسود صرف امام زمانہ ہی نصب کرسکتاہے جیساکہ پہلے آنحضرت صلعم نے نصب کیاتھا ،پھرزمانہ حجاج میں امام زین العابدین نے نصب کیاتھا ۔ اسی بناء پرانھوں نے اپنے ایک کرم فرما” ابن ہشام “ کے ذریعہ سے ایک خط ارسال کیا اوراسے کہ دیا کہ جوحجراسود نصب کرے اسے یہ خط دیدینا ۔ نصب حجرکی لوگ سعی کررہے تھے ۔لیکن وہ اپنی جگہ پرقرارنہیں لیتاتھا کہ اتنے میں ایک خوبصورت نوجوان ایک طرف سے سامنے آیا اور اس نے اسے نصب کردیا اوروہ اپنی جگہ پرمستقرہوگیا ۔جب وہ وہاں سے روانہ ہوا توابن ہشام ان کے پےچھے ہولئے ۔راستہ میں انھوں نے پلٹ کرکہا اے ابن ہشام ،توجعفربن محمد کاخط مجھے دیدے ۔دیکھ اس میں اس نے مجھ سے سوال کیاہے کہ وہ کب تک زندہ رہے گا ۔ ا س سے یہ کہدینا کہ وہ ابھی تیس سال اورزندہ رہے گا یہ کہہ کروہ ونظروں سے غائب ہوگئے ۔ ابن ہشام نے ساراواقعہ بغداد پہنچ کرجعفربن قولویہ سے بیان کردیا ۔ غرضکہ وہ تیس سال کے بعد وفات پاگئے ۔(کشف الغمہ ص ۱۳۳) اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورمیں موجودہیں ۔
علامہ عبدالرحمن ملاجامی رقمطرازہیں کہ ایک شخص اسماعیل بن حسن ہرقلی جونواحی حلہ میں مقیم تھا اس کی ران پرایک زخم نمودارہوگیاتھا جوہرزمانہ بحارمیں ابل آتاتھا جس کے علاج سے تمام دنیا کے اطبا عاجزاورقاصرہوگئے تھے وہ ایک دن اپنے بیٹے شمس الدین کوہمراہ لے کرسیدرضی الدین علی بن طاؤس کی خدمت میں گیا ۔انھوں نے پہلے توبڑی سعی کی ،لیکن کوئی چارہ کارنہ ہوا ہرطبیب یہ کہتاتھا کہ یہ پھوڑا ”رگ اکحل “ پرہے اگراسے نشتر دیاجائے توجان کاخطرہ ہے اس لئے اس کاعلاج ناممکن ہے ۔اسماعیل کابیان ہے کہ ”چون ازاطبامایوس شدم عزیمت مشہدشریف سرمن رائے کردم“ جب میں تمام اطباء سے مایوس ہوگیا توسامرہ کے سرداب کے قریب گیا،اوروہاں پرحضرت صاحب الامرکومتوجہ کیا ،ایک شب دریائے دجلہ سے غسل کرکے واپس آرہاتھا کہ چارسوارنظرآئے ،ان میں سے ایک نے میرے زخم کے قریب ہاتھ پھیرا اورمیں بالکل اچھا ہوگیا میں ابھی اپنی صحت پرتعجب ہی کررہاتھا کہ ان میں سے ایک سوارنے جوسفید ریش تھے کہا کہ تعجب کیا ہے تجھے شفادینے والے امام مہدی علیہ السلام ہیں یہ سن کرمیں نے ان کے قدموں کا بوسہ دیا اوروہ لوگ نظروں سے غائب ہوگئے ۔ (شواہدالنبوت ص ۲۱۴ وکشف الغمہ ص ۱۳۲) ۔
اسحاق بن یعقوب کے نام امام عصرکاخط :
علامہ طبرسی بحوالہ محمد بن یعقوب کلینی لکھتے ہیں کہ اسحق بن یعقوب نے بذریعہ محمد بن عثمان عمری حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خدمت ایک خط ارسال کیا جس میں کئی سوالات مندرج تھے ۔حضرت نے بخط خود جواب تحریرفرمایا اورتمام سوالات کے جوابات تحریرا عنآیت فرمائے جس کے اجزا یہ ہیں :
۱ ) جوہمارامنکرہے ،وہ ہم سے نہیں ۔
۲ ) میرے عزیزوں میں سے جومخالفت کرتے ہیں ،ان کی مثال ابن نوح اوربرادران یوسف کی ہے ۔
۳ ) فقاع یعنی جوکی شراب کاپینا حرام ہے ۔
۴ ) ہم تمہارے مال صرف اس لئے (بطورخمس قبول کرتے ہیں کہ تم پاک ہوجاؤ اورعذاب سے نجات حاصل کرسکو۔
۵ ) میرے ظہورکرنے اورنہ کرنے کا تعلق صرف خداسے ہے جولوگ وقت ظہورمقررکرتے ہیں وہ غلطی پرہیں جھوٹ بولتے ہیں ۔
۶ ) جولوگ یہ کہتے ہیں کہ امام حسین قتل نہیں ہوئے وہ کافرجھوٹے ا ورگمراہ ہیں ۔
۷ ) تمام واقع ہونے والے حوادث میں میرے سفراپراعتماد کرو ،وہ میری طرف سے تمھارے لئے حجت ہیں اورمیں حجت اللہ ہوں ۔
۸ ) ” محمد بن عثمان “ امین اورثقہ ہیں اوران کی تحریرمیری تحریرہے ۔
۹ ) محمد بن علی مہریاراہوازی کادل انشاء اللہ بہت صاف ہوجائے گا اورانھیں کوئی شک نہ رہے گا ۔
۱۰ ) گانے والی کی اجرت و قیمت حرام ہے ۔
۱۱ ) محمد بن شاذان بن نیعم ہمارے شیعوں میں سے ہے ۔
۱۲ ) ابوالخطاب محمدبن ابی زینب اجدع ملعون ہے اوران کے ماننے والے بھی ملعون ہیں ۔ میں اورمیرے باپ دادا اس سے اور اس کے باپ دادا سے ہمیشہ بے زاررہے ہیں ۔
۱۳ ) جوہمارا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھررہے ہیں ۔
۱۴ ) خمس ہمارے سادات شیعہ کے لئے حلال ہے ۔
۱۵ ) جولوگ دین خدامیں شک کرتے ہیں وہ اپنے خود ذمہ دارہیں ۔
۱۶ ) میری غیبت کیوں واقع ہوئی ہے ۔ یہ بات خداکی مصلحت سے متعلق ہے اس کے متعلق سوال بیکارہے۔ میرے آباؤاجداد دنیا والوں کے شکنجہ میں رہے ہیں لیکن خدانے مجھے اس شکنجہ سے بچالیاہے جب میں ظہورکروں گا بالکل آزاد ہوں گا ۔
) زمانہ غیبت میں مجھ سے فائدہ کیاہے ؟ اس کے متعلق یہ سمجھ لوکہ میری مثال غیبت میں ویسی ہے جیسے ابرمیں چھپے ہوئے آفتاب کی ۔ میں ستاروں کی مانند اہل ارض کے لئے امان ہوں تم لوگ غیبت اورظہورسے متعلق سوالات کا سلسلہ بندکرواورخداوندعالم کی بارگاہ میں دعاکرو کہ وہ جلد میرے ظہورکاحکم دے ،اے اسحاق ! تم پراوران لوگوں پرمیراسلام ہو جوہدآیت کی اتباع کرتے ہیں ۔ (اعلام الوری ص ۲۵۸ مجالس المومنین ص ۱۹۰ ، کشف الغمہ ص ۱۴۰) ۔
شیخ محمدبن محمد کے نام امام زمانہ کامکتوب گرامی
علما کابیان ہے کہ حضرت امام عصرعلیہ السلام نے جناب شیخ مفید ابوعبداللہ محمد بن محمد بن نعمان کے نام ایک مکتوب ارسال فرمایا ہے ۔ جس میں انھوں نے شیخ مفید کی مدح فرمائی ہے اوربہت سے واقعات سے موصوف کوآگاہ کیا ہے ان کے مکتوب گرامی کا ترجمہ یہ ہے :
میریے نیک برادراورلائق محب، تم پرمیراسلام ہو ۔ تمہیں دینی معاملہ میں خلوص حاصل ہے اورتم ہمارے بارے میں یقین کامل رکھتے ہو ۔ہم اس خداکی تعریف کرتے ہیں جس کے سواکوئی معبود نہیں ہے ۔ ہم درود بھیجتے ہیں حضرت محمد مصطفی اوران کی پاک آل پرہماری دعاء ہے کہ خداتمہاری توفیقات دینی ہمیشہ قائم رکھے اورتمہیں نصرت حق کی طرف ہمیشہ متوجہ رکھے ۔تم جوہمارے بارے میں صدق بیانی کرتے رہتے ہو ،خدا تم کواس کااجرعطافرمائے ۔تم نے جوہم سے خط وکتابت کاسلسہ جاری رکھا اوردوستوں کوفائدہ پہونچایا ، وہ قابل مدح وستائش ہے ۔ ہماری دعاہے کہ خداتم کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب رکھے ۔ اب ذرا ٹہرجاؤ ۔ اورجیساہم کہتے ہیں اس پرعمل کرو ۔ اگرچہ ہم ظالموں کے امکانات سے دورہیں لیکن ہمارے لئے خداکافی ہے جس نے ہم کوہمارے شیعہ مومنین کی بہتری کے لئے ذرائع دکھائے دئیے ہیں ۔ جب تک دولت دنیا فاسقوں کے ہاتھ میں رہے گی ۔ ہم کوتمہاری خبریں پہونچتی رہیں گی اورتمہارے معاملات کے متعلق کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہ رہے گی ۔ ہم ان لغزشوں کوجانتے ہیں جولوگوں سے اپنے نیک اسلاف کے خلاف ظاہرہورہی ہیں ۔ (شاید اس سے اپنے چچا جعفرکی طرف اشارہ فرمایاہے ) انھوں نے اپنے عہدوں کوپس پشت ڈال دیاہے ،گویاوہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔ تاہم ہم ان کی رعآیتوں کوچھوڑنے والے نہیں اورنہ ان کے ذکربھولنے والے ہیں اگرایساہوتا توان پرمصیبتیں نازل ہوجاتیں اوردشمنوں کوغلبہ حاصل ہوجاتا ،پس ان سے کہو کہ خداسے ڈرواورہمارے امرونہی کی حفاظت کرو اوراللہ اپنے نورکاکامل کرنے والاہے ،چاہے مشرک کیسے ہی کراہت کریں ۔ تقیہ کوپکڑے رہو ،میں اس کی نجات کاضامن ہوں جوخداکی مرضی کاراستہ چلے گا ۔ ا س سال جمادی الاول کامہینہ آئے گا تواس کے واقعات سے عبرت حاصل کرنا تمہارے لئے زمین وآسمان سے روشن آیتیں ظاہرہوں گی ۔مسلمانوں کے گروہ حزن وقلق میں بمقام عراق پھنس جائیں گے اور ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے رزق میں تنگی ہوجائے گی پھریہ ذلت ومصیبت شریروں کی ہلاکت کے بعد دورہوجائیگی ۔ ان کی ہلاکت سے نیک اورمتقی لوگ خوش ہوں گے لوگوں کوچاہیے کہ وہ ا یسے کام کریں جن سے ان میں ہماری محبت زیادہ ہو ۔یہ معلوم ہوناچاہیے کہ جب موت یکایک آجائے گی توباب توبہ بند ہوجائے گا اورخدائی قہرسے نجات نہ ملے گی خدا تم کونیکی پرقائم رکھے ،اورتم پررحمت نازل کرے ۔ “
میرے خیال میں یہ خط عہد غیبت کبری کاہے ،کیونکہ شیخ مفید کی ولادت ۱۱ ذیقعدہ ۳۳۶ ہجری ہے اوروفات ۳ رمضان ۴۱۳ میں ہوئی ہے اورغیبت صغری کااختتام ۱۵ شعبان ۳۲۹ میں ہواہے علامہ کبیرحضرت شہید ثالث علامہ نوراللہ شوشتری مجالس المومنین کے ص ۲۰۶ میں لکھتے ہیں کہ شیخ مفید کے مرنے کے بعد حضرت امام عصرنے تین شعر ارسال فرمائے تھے جومرحوم کی قبرپرکندہ ہیں ۔
ان حضرات کے نام جنھوں نے زمانہ غیبت صغری میں امام کودیکھا ہے
چاروکلائے خصوصی اورسات وکلائے عمومی کے علاوہ جن لوگوں نے حضرت امام عصرعلیہ السلام کودیکھا ہے ان کے اسماء میں سے بعض کے نام یہ ہیں :
بغداد کے رہنے والوں میں سے ( ۱) ابوالقاسم بن رئیس ( ۲) ابوعبداللہ ابن فروخ ( ۳) مسرورالطباخ( ۴ ۔ ۵) احمدومحمدپسران حسن ( ۶) اسحاق کاتب ازنوبخت ( ۷) صاحب الفرا ( ۸) صاحب الصرة المختومہ ( ۹) ابوالقاسم بن ابی جلیس ( ۱۰) ابوعبداللہ الکندی ( ۱۱) ابوعبداللہ الجنیدی ( ۱۲) ہارون الفراز ( ۱۳) النیلی (ہمدان کے باشندوں میں سے) ( ۱۴) محمد بن کشمر( ۱۵) و جعفربن ہمدان (دینورکے رہنے والوں میں سے ) ( ۱۶) حسن بن ہروان( ۱۷) احمدبن ہروان (ازاصفہان ) ( ۱۸) ابن بازشالہ (ازضیمر) ( ۱۹) زیدان (ازقم) ( ۲۰) حسن بن نصر ( ۲۱) محمدبن محمد ( ۲۲) علی بن محمد بن اسحاق ( ۲۳) محمدبن اسحاق ( ۲۴) حسن بن یعقوب (ازری ) ( ۲۵) قسم بن موسی ( ۲۶) فرزند قسم بن موسی ( ۹۲۷ ابن محمد بن ہارون ( ۲۸) صاحب الحصاقہ ( ۲۹) علی بن محمد ( ۳۰) محمد بن یعقوب کلینی ( ۳۱) ابوجعفرالرقا (ازقزوین) ( ۳۲) مرواس ( ۳۳) علی بن احمد (ازفارس ) ( ۳۴) المجروح (ازشہزور) ( ۳۵) ابن الجمال (ازقدس) ( ۳۶) مجروح (ازمرو) ( ۳۷) صاحب الالف دینار ( ۳۸) صاحب المال والرقة البیضا ( ۳۹) ابوثابت (ازنیشابور) ( ۴۰) محمدبن شعیب بن صالح (ازیمن) ( ۴۱) فضل بن برید ( ۴۲) حسن بن فضل ( ۴۳) جعفری ( ۴۴) ابن الاعجمی ( ۴۵) شمشاطی (ازمصر) ( ۴۶) صاحب المولودین ( ۴۷) صاحب ا لمال ( ۴۸) ابورحا (ازنصیبین) ( ۴۹) ابومحمدابن الوجنا(ازاہواز) ( ۵۰) الحصینی (عایة المقصود جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔
ِِزیارت ناحیہ اوراصول کافی :
کہتے ہیں کہ اسی زمانہ غیبت صغری میں ناحیہ مقدسہ سے ایک ایسی زیارت برآمد ہوئی ہے جس میں تمام شہدا کربلا کے نام اورانکے قاتلوں کے آسماہیں ۔ اس ”زیارت ناحیہ “ کے نام سے موسوم کیاجاتاہے ۔ اسی طرح یہ بھی کہاجاتاہے کہ اصول کافی جوکہ حضرت ثقة الاسلام علامہ کلینی المتوفی ۳۲۸ کی ۲۰ سالہ تصنیف ہے وہ جب ا مام عصرکی خدمت میں پیش ہوئی توآپ نے فرمایا : ” ہذا کاف لشیعتنا۔“ یہ ہمارے شیعوں کے لئے کافی ہے زیارت ناحیہ کی توثیق بہت سے علماء نے کی ہے جن میں علامہ طبرسی اورمجلسی بھی ہیں دعائے سباسب بھی آپ ہی سے مروی ہے ۔
غیبت کبری میں امام مہدی کامرکزی مقام :
امام مہدی علیہ السلام چونکہ اسی طرح زندہ اورباقی ہیں جس طرح حضرت عیسی ،حضرت ادریس ،حضرت خضر،حضرت الیاس ۔ نیز دجال بطال ، یاجوج ماجوج اورابلیس لعین زندہ اورباقی ہیں اوران سب کامرکزی مقام موجود ہے ۔ جہاں یہ رہتے ہیں مثلا حضرت عیسی چوتھے آسمان پر(قرآن مجید) حضرت ادریس جنت میں (قرآن مجید) حضرت خضراورالیاس ،مجمع البحرین یعنی دریائے فارس وروم کے درمیان پانی کے قصرمیں (عجائب القصص علامہ عبدالواحد ص ۱۷۶) اوردجال بطال طبرستان کے جزیرہ مغرب میں (کتاب غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۰۲) اوریاجوج ماجوج بحیرہ روم کے عقب میں دوپہاڑوں کے درمیان (کتاب غایۃ المقصود جلد ۲ ص ۴۷) اورابلیس لعین ،استعمارارضی کے وقت والے پایہ تخت ملتان میں (کتاب ارشادالطالبین علامہ اخوند درویزہ ص ۲۴۳) تو لامحالہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کابھی کوئی مرکزی مقام ہوناضروری ہے جہاں آپ تشریف فرماہوں اوروہاں سے ساری کائنات میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوں اسی لئے کہاجاتاہے کہ زمانہ غیبت میں حضرت امام مہدی علیہ السلام (جزیرہ خضرااوربحرابیض) میں اپنی اولاد اپنے اصحاب سمیت قیام فرماہیں اوروہیں سے باعجازتمام کام کیاکرتے اورہرجگہ پہنچاکرتے ہیں ،یہ جزیرہ خضرا سرزمین ولآیت بربرمیں درمیان دریائے اندلس واقع ہے یہ جزیرہ معموروآبادہے ، اس دریاکے ساحل میں ایک موضع بھی ہے جوبشکل جزیرہ ہے اسے اندلس والے (جزیرہ رفضہ ) کہتے ہیں ،کیونکہ اس میں ساری آبادی شیعوں کی ہے اس تمام آبادی کی خوراک وغیرہ جزیرہ خضراسے براہ بحرابیض سال میں دوبار ارسال کی جاتی ہے ۔ملاحظہ ہو(تاریخ جہاں آرا۔ ریاض العماء ،کفایة المہدی ،کشف القناع ، ریاض المومنین ،غایۃ المقصود ،رسالہ جزیرہ خضراء وبحرابیض اورمجالس المومنین علامہ نوراللہ شوشتری وبحارالانوار،علامہ مجلسی کتاب روضة الشہداء علامہ حسین واعظ کاشفی ص ۴۳۹ میں امام مہدی کے اقصائے بلاد مغرب میں ہونے اوران کے شہروں پرتصرف رکھنے اورصاحب اولادوغیرہ ہونے کاحوالہ ہے ۔ امام شبلنجی علامہ عبدالمومن نے بھی اپنی کتاب نورالابصارکے ص ۱۵۲ میں اس کی طرف بحوالہ کتاب جامع الفنون اشارہ کیاہے ، غیاث اللغاث کے ص ۷۲ میں ہے کہ یہ وہ دریاہے جس کے جانب مشرق چین ،جانب غربی یمن ، جانب شمالی ہند، جانب جنوبی دریائے محیط واقع ہے ۔ اس بحرابیض واخضرکاطول ۲ ہزارفرسخ اورعرض پانچ سوفرسخ ہے اس میں بہت سے جزیزے آباد ہیں جن میں ایک سراندیب بھی ہے اس کتاب کے ص ۲۹۵ میں ہے کہ ”صاحب الزمان“ حضرت امام مہدی علیہ السلام کالقب ہے علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ جس مکان میں رہتے ہیں اسے ”بیت الحمد“ کہتے ہیں ۔ (اعلام الوری ص ۲۶۳) ۔
جزیرہ خضرا میں امام علیہ السلام سے ملاقات
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیام گاہ جزیرہ خضرا میں جولوگ پہنچے ہیں ۔ ا ن میں سے شیخ صالح ،شیخ زین العابدین ملی بن فاضل مازندرانی کانام نمایاں طورپرنظرآتاہے ۔ آپ کی ملاقات کی تصدیق ، فضل بن یحیی بن علی طبیعی کوفی وشیخ عالم عامل شیخ شمس الدین نجح حلی وشیخ جلال الدین ، عبداللہ ابن عوام حلی نے فرمائی ہے ۔ علامہ مجلسی نے آپ کے سفرکی ساری وؤیداد ایک رسالہ کی صورت میں ضبط کیاہے ۔ جس کامفصل ذکربحارالانوار میں موجود ہے رسالہ جزیرہ خضراء کے ص ۱ میں ہے کہ شیخ اجل سعیدشہید بن محمد مکی اورمیرشمس الدین محمد اسداللہ شوشتری نے بھی تصدیق کی ہے۔
مؤلف کتاب ہذا کہتاہے کہ حضرت کی ولادت حضرت کی غیبت ،حضرت کاظہوروغیرہ جس طرح رمزخداوندی اوررازالہی ہے اسی طرح آپ کی جائے قیام بھی ایک رازہے جس کی اطلاع عام ضروری نہیں ہے ،واضح ہوکہ کولمبس کے ادراک سے قبل بھی امریکہ کاوجود تھا۔
امام غائب کاہرجگہ حاضرہونا
احادیث سے ثابت ہے کہ امام علیہ السلام جوکہ مظہرالعجائب حضرت علی کے پوتے ،ہرمقام پرپہونچتے اورہرجگہ اپنے ماننے والوں کے کام آتے ہیں ۔ علما نے لکھا ہے کہ آپ بوقت ضرورت مذہبی لوگوں سے ملتے ہیں لوگ انھیں دیکھتے ہیں یہ اوربات ہے کہ انھیں پہچان نہ سکیں ۔(غایۃ المقصود)۔
امام مہدی اورحج کعبہ
یہ مسلمات میں سے ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہرسال حج کعبہ کے لئے مکہ معظمہ اسی طرح تشریف لے جاتے ہیں جس طرح حضرت خضروالیاس جاتے ہیں (سراج القلوب ۷۷) علی احمد کوفی کابیان ہے کہ میں طواف کعبہ میں مصروف ومشغول تھا کہ میری نظرایک نہآیت خوبصورت نوجوان پرپڑی ،میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ اورکہاں سے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ”انا المھدی وانا القائم۔“ میں مہدی آخرالزماں اورقائم آل محمد ہوں ۔ غانم ہندی کابیان ہے کہ میں امام مہدی کی تلاش میں ایک مرتبہ بغداد گیا،ایک پل سے گزرتے ہوئے مجھے ایک صاحب ملے اور وہ مجھے ایک باغ میں لے گئے اورانھوں نے مجھ سے ہندی زبان میں کلام کیا اورفرمایاکہ تم امسال حج کے لئے نہ جاؤ،ورنہ نقصان پہونچے گا محمد بن شاذان کاکہنا ہے کہ میں ایک دفعہ مدینہ میں داخل ہوا توحضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ،انھوں نے میراپورانام لے کرمجھے پکارا ،چونکہ میرے پورے نام سے کوئی واقف نہ تھا اس لئے مجھے تعجب ہوا۔ میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟فرمایا میں امام زمانہ ہوں ۔ علامہ شیخ سلیمان قندوزی بلخی تحریرفرماتے ہیں کہ عبداللہ بن صالح نے کہا کہ میں نے غیبت کبری کے بعد امام مہدی علیہ السلام کوحجراسود کے نزدیک اس حال میں کھڑے ہوئے دیکھاکہ انھیں لوگ چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ۔ (ینابع المودة )۔
زمانہ غیبت کبری میں امام مہدی کی بیعت :
حضرت شیخ عبداللطیف حلبی حنفی کاکہناہے کہ میرے والد شیخ ابراہیم حسین کاشمارحلب کے مشائخ عظام میں تھا ۔وہ فرماتے ہیں کہ میرے مصری استاد نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضر ت امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھ پربیعت کی ہے۔ (ینابع المودةباب ۸۵ ص ۳۹۲ )
امام مہدی کی مومنین سے ملاقات :
رسالہ جزیرہ خضرا کے ص ۱۶ میں بحوالہ احادیث آل محمد مرقوم ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ہرمومن کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہ اوربات ہے کہ مومنین انھیں مصلحت خداوندی کی بناء پراس طرح نہ پہچان سکین جس طرح پہچاننا چاہیے مناسب معلوم ہوتاہے اس مقام پرمیں اپناایک خواب لکھ دوں ۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کل جبکہ میں امام زمانہ کے حالات لکھ رہاہوں حدیث مذکورہ پرنظرڈالنے کے بعد فورا ذہن میں یہ خیال پیداہواکہ مولا سب کودکھائی دیتے ہیں ،لیکن مجھے آج تک نظرنہیں آئے ،اس کے بعد میں استراحت پرگیا اورسونے کے ارادے سے لیٹاابھی نیند نہ آئی تھی اورقطعی طورپرنیم بیداری کی حالت میں تھا کہ ناگاہ میں نے دیکھا کہ میرے کان سے جانب مشرق تابحد نظرایک قوسی خط پڑاہواہے یعنی شمال کی جانب کاسارا حصہ عالم پہاڑہے اوراس پرامام مہدی علیہ السلام برہنہ تلوارلئے کھڑے ہیں اوریہ کہتے ہوئے کہ ”نصف دنیاآج ہی فتح کرلوں گا ۔“ شمال کی جانب ایک پاؤں بڑھارہے ہیں آپ کاقد عام انسانوں کے قد سے ڈیوڑھا اورجسم دوہراہے ،بڑی بڑی سرمگین آنکھیں اورچہرہ انتہائی روشن ہے آپ کے پٹے کٹے ہوئے ہیں اورسارا لباس سفید ہے اوروقت عصرکاہے۔
یہ واقعہ ۳۰ نومبر ۱۹۵۸ شب یکشنبہ بوقت ساڑھے چاربجے شب کاہے۔
ملامحمد باقرداماد کاامام عصرسے استفادہ کرنا :
ہمارے اکثرعلما علمی مسائل اورمذہبی ومعاشرتی مراحل حضرت امام مہدی ہی سے طے کرتے آئے ہیں ملامحمد باقرداماد جوہمارے عظیم القدرمجتہد تھے ان کے متعلق ہے کہ ایک شب آپ نے ضریح نجف اشرف میں ایک مسئلہ لکھ کرڈالا اس کے جواب میں ان سے تحریرا کہاگیاکہ تمھارا امام زمانہ اس وقت مسجدکوفہ میں نمازگذارہے تم وہاں جاؤ،وہ وہاں جاپہونچے ،خود بخود دروازہ مسجد کھل گیا ۔ اورآپ اندرداخل ہوگئے آپ نے مسئلہ کاجواب حاصل کیا اواآپ مطمئن ہوکر برآمد ہوئے۔
جناب بحرالعلوم کا امام زمانہ سے ملاقات کرنا :
کتاب قصص العلما مولفہ علامہ تنکابنی ص ۵۵ میں مجتہد اعظم کربلائے معلی جناب آقا محمدمہدی بحرالعلوم کے تذکرہ میں مرقوم ہے کہ ایک شب آپ نماز میں اندرون حرم مشغول تھے کہ اتنے میں امام عصراپنے اب وجدکی زیارت کے لئے تشریف لائے جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت ہوئی اوربدن میں ایک قسم کا رعشہ پیداہوگیا پھرجب وہ واپس تشریف لے گئے توان پرجوایک خاص قسم کی کیفیت طاری تھی وہ جاتی رہی ۔اس کے علاوہ آپ کے اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورہ میں مندرج ہیں ۔
امام مہدی علیہ السلام کاحمایت مذہب فرمانا واقعہ انار :
کتاب کشف الغمہ ۱۳۳ میں ہے کہ سید باقی بن عطوہ امامیہ مذہب کے تھے اوران کے والدزیدیہ خیال رکھتے تھے ایک دن ان کے والدعطوہ نے کہا کہ میں سخت علیل ہوگیاہوں اوراب بچنے کی کوئی امیدنہیں ۔ہرقسم کے اطبا کاعلاج کراچکاہوں ، اے نورنظر ! میں تم سے وعدہ کرتاہوں کہ اگرمجھے تمہارے امام نے شفادیدی ،تومیں مذہب امامیہ اختیارکرلوں گا یہ کہنے کے بعد جب یہ رات کوبسترپرگئے توامام زمانہ کاان پرظہورہوا،امام نے مقام مرض کواپناہاتھ سے مس کردیا اوروہ مرض جاتارہا عطوہ نے اسی وقت مذہب امامیہ اختیارکرلیا اور رات ہی میں جاکر اپنے فرزند باقی علوی کوخوشخبری دیدی ۔
اسی طرح کتاب جواہرالبیان میں ہے کہ بحرین کاوالی نصرانی اوراس کاوزیرخارجی تھا ،وزیرنے بادشاہ کے سامنے چند تازہ انار پیش کئے جن پرخلفا کے نام علی الترتیب کندہ تھے اوربادشاہ کویقین دلایاکہ ہمارامذہب حق ہے اورترتیب خلافت منشاقدرت کے مطابق درست ہے بادشاہ کے دل میں یہ بات کچھ اس طرح بیٹھ گئی کہ وہ یہ سمجھنے پرمجبور ہوگیا کہ وزیرکامذہب حق ہے اورامامیہ راہ باطل پرگامزن ہیں ،چنانچہ اس نے اپنے خیال کی تکمیل کے لئے جملہ علما امامیہ کو جواس کے عہد حکومت تھے بلابھیجا اورانھیں اناردکھاکر ان سے کہاکہ اس کی رد میں کوئی معقول دلیل لاؤ ورنہ ہم تمہیں قتل کرکے تمام مذہب کوبیخ وبن سے اکھاڑدیں گے ،اس واقعہ نے علماکرام میں ایک عجیب قسم کاہیجان پیداکردیا ، بالاخرسب علماء آپس میں مشورہ کے بعد ایسے دس علما پرمتفق ہوگئے جوان میں نسبتا مقدس تھے اورپروگرام یہ بنایا کہ جنگل میں ایک ایک عالم بوقت شب جاکرامام زمانہ سے استعانت کرے ،چونکہ ایک شب کی مہلت ومدت ملی تھی ،اس لئے پریشانی زیادہ تھی غرضکہ علماء نے جنگل میں جاکرامام زمانہ سے فریاد کاسلسلہ شروع کیا۔دوعالم اپنی اپنی مدت ،فریادوفغاں ختم ہونے پرجب واپس آئے اورتیسرے عالم حضرت محمدبن علی کی باری آئی توآپ نے بدستورصحرامیں جاکرمصلی بچھادیا ،اورنماز کے بعد امام زمانہ کواپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوکر واپس آتے ہوئے انھیں ایک شخص راستے میں ملا اس نے پوچھا ۔ کیابات ہے کیوں پریشان ہو،آپ نے عرض کی امام زمانہ کی تلاش ہے اوروہ تشریف لانہیں رہے ۔ اس شخص نے کہا :”اناصاحب العصرفاذکرحاجتک
“ میں ہی تمہارا امام زمانہ ہوں ،کہوکیاکہتے ہو محمدبن علی نے کہا کہ اگرآپ صاحب العصرہیں توآپ سے حاجت بیان کرنے کی ضرورت کیا،آپ کوخود ہی علم ہوگا ۔
اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ سنو ! وزیرکے فلاں کمرہ میں ایک لکڑی کا صندوق ہے اس مٹی کے چند سانچے رکھے ہوئے ہیں جب انارچھوٹاہوتاہے وزیراس پرسانچہ چڑھادیتاہے ۔ اورجب وہ بڑھتاہے تواس پروہ نام کندہ ہوجاتے ہیں جوسانچہ میں کندہ ہیں محمد بن علی ! تم بادشاہ کواپنے ہمراہ لے جاکروزیرکے دجل وفریب کوواضح کردو،وہ اپنے ارادہ سے بازآجائے گا اوروزیرکوسزا دے گا چنانچہ ایساہی کیاگیا اوروزیربرخواست کردیا گیا ۔ (کتاب بدایع الاخبارملا اسماعیل سبزواری ص ۱۵۰ وسفینة البحارجلد ۱ ص ۵۳۶ طبع نجف اشرف)۔
امام عصرکا واقعہ کربلابیان کرنا :
حضرت امام مہدی علیہ السلام سے پوچھاگیا کہ ” کھیعص “ کاکیامطلب ہے توفرمایا کہ اس میں (ک)سے کربلا (ہ) سے ہلاکت عترت (ی ) سے یزیدملعون (ع) سے عطش حسینی (ص ) سے صبرآل محمدمراد ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ آیت میں جناب زکریاکاذکر کیاگیا ہے ۔جب زکریاکوواقعہ کربلاکی اطلاع ہوئی تووہ تین روزتک مسلسل روتے رہے ۔(تفسیرصافی ص ۲۷۹) ۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے طول عمرکی بحث :
بعض مستشرقین وماہرین اعمارکاکہناہے کہ ”جن کے اعمال وکرداراچھے ہوتے ہیں اورجن کا صفائے باطن کامل ہوتاہے ان کی عمریں طویل ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ علما فقہاء اورصلحاکی عمریں اکثرطویل دیکھی گئی ہیں اورہوسکتاہے کہ طول عمرمہدی علیہ السلام کی یہ بھی ایک وجہ ہو ،ان سے قبل جوآئمہ علہیم السلام گزرے وہ شہیدکردئیے گئے ،اوران پردشمنوں کادسترس نہ ہوا ،تویہ زندہ رہ گئے اوراب تک باقی ہیں لیکن میرے نزدیک عمرکاتقرر وتعین دست ایزد میں ہے اسے اختیارہے کہ کسی کی عمرکم رکھے کسی کی زیادہ اس کی معین کردہ مدت عمر میں ایک پل کابھی تفرقہ نہیں ہوسکتا ۔
تواریخ واحادیث سے معلوم ہوتاہے کہ خداوندعالم نے بعض لوگوں کوکافی طویل عمریں عطاکی ہیں ۔ عمرکی طوالت مصلحت خداوندی پرمبنی ہے اس سے اس نے اپنے دوست اوردشمن دونوں کونوازاہے ۔دوستوں میں حضرت عیسی ،حضرت ادریس ،حضرت خضروحضرت الیاس ، اوردشمنوں میں سے ابلیس لعین ،دجال بطال ،یاجوج ماجوج وغیرہ ہیں اورہوسکتاہے کہ چونکہ قیامت اصول دین اسلام سے ہے اور اس کی آمد میں امام مہدی کاظہورخاص حیثیت رکھتاہے لہذا ان کازندہ وباقی رکھنامقصودہاہو ،اوران کے طول عمرکے اعتراض کورداوررفع ودفع کرنے کے لئے اس نے بہت سے افراد کی عمریں طویل کردی ہوں مذکورہ ا فراد کوجانے دیجئے ۔ عام انسانوں کی عمروں کودیکھئے بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جن کی عمریں کافی طویل رہی ہیں ،مثال کے لئے ملاحظہ ہو :
۱ ) ۔ لقمان کی عمر ۳۵۰۰ سال ۔( ۲) عوج بن عنق کی عمر ۳۳۰۰ سال اوربقولے ۳۶۰۰ سال ۔ ( ۳) ذوالقرنین کی عمر ۳۰۰۰ سال۔ ( ۴) حضرت نوح و( ۵) ضحاک و( ۶) طمہورث کی عمریں ۱۰۰۰ سال۔( ۷) قینان کی عمر ۹۰۰ سال ۔ ( ۸) مہلائیل کی عمر ۸۰۰ سال ( ۹) نفیل بن عبداللہ کی عمر ۷۰۰ سال۔ ( ۱۰) ربیعہ بن عمرعرف سطیع کاہن کی عمر ۶۰۰ سال ۔ ( ۱۱) حاکم عرب عامربن ضرب کی عمر ۵۰۰ سال ۔ ( ۱۲) سام بن نوح کی عمر ۵۰۰ سال۔ ( ۱۳) حرث بن مضاض جرہمی کی عمر ۴۰۰ سال ۔ ( ۱۴) ارفخشد کی عمر ۴۰۰ سال ۔ ( ۱۵) دریدبن زیدکی عمر ۴۵۶ سال۔ ( ۱۶) سلمان فارسی کی عمر ۴۰۰ سال۔ ( ۱۷) عمروبن روسی کی عمر ۴۰۰ سال۔ ( ۱۸) زہیربن جناب بن عبداللہ کی عمر ۴۳۰ سال۔ ( ۱۹) حرث بن ضیاص کی عمر ۴۰۰ سال۔ ( ۲۰) کعب بن جمجہ کی عمر ۳۹۰ سال ۔ ( ۲۱) نصربن دھمان بن سلیمان کی عمر ۳۹۰ سال۔ ( ۲۲) قیس بن ساعدہ کی عمر ۳۸۰ سال ۔ ( ۲۳) عمربن ربیعہ کی عمر ۳۳۳ سال۔ ( ۲۴) اکثم بن ضیفی کی عمر ۳۳۶ سال ۔ ( ۲۵) عمربن طفیل عدوانی کی عمر ۲۰۰ سال تھی (غایۃ المقصود ص ۱۰۳ اعلام الوری ص ۲۷۰ ) ان لوگوں کی طویل عمروں کودیکھنے کے بعدہرگزنہیں کہاجاسکتا کہ ”چونکہ اتنی عمرکاانسان نہیں ہوتا ،اس لئے امام مہدی کاوجود ہم تسلیم نہیں کرتے ۔ کیونکہ امام مہدی علیہ السلام کی عمراس وقت ۱۳۹۳ ہجری میں صرف گیارہ سواڑتالیس سال کی ہوتی ہے جومذکورہ عمروں میں سے لقمان حکیم اورذوالقرنین جیسے مقدس لوگوں کی عمروں سے بہت کم ہے ۔
الغرض قرآن مجید ،اقوال علمااسلام اوراحادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدی پیداہوکر غائب ہوگئے ہیں اورقیامت کے قریب ظہورکریں گے ،اورآپ اسی طرح زمانہ غیبت میں بھی حجت خداہیں جس طرح بعض انبیاء اپنے عہدنبوت میں غائب ہونے کے دوران میں بھی حجت تھے (عجائب القصص ص ۱۹۱ ) اورعقل بھی یہی کہتی ہے کہ آپ زندہ اورباقی موجودہیں کیونکہ جس کے پیداہونے پرعلماکااتفاق ہواوروفات کاکوئی ایک بھی غیرمتعصب عالم قائل نہ ہو اور
طویل العمرانسانوں کے ہونے کی مثالیں بھی موجود ہوں تولامحالہ اس کاموجود اورباقی ہونا ماننا پڑے گا ۔ دلیل منطقی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے لہذا امام مہدی زندہ اورباقی ہیں ۔
ان تماشواہد اوردلائل کی موجودگی میں جن کا ہم نے اس کتاب میں ذکرکیاہے ،مولوی محمد امین مصری کا رسالہ ”طلوع اسلام “ کراچی جلد ۱۴ ص ۵۴# و ۹۴# میں یہ کہناکہ :
” شیعوں کو ابتداء روی زمین پر کوئی ظاہری مملکت قائم کرنے میں کامیابی نہ ہوسکی ،ان کوتکلیفیں دی گئیں اورپراکندہ اورمنتشر کردیا گیا توانھوں نے ہمارے خیال کے مطابق امام منتظراورمہدی وغیرہ کے پرامیدعقائد ایجاد کرلئے تاکہ عوام کی ڈھارس بندھی رہے۔ “
اورملا اخوند درویزہ کاکتاب ارشادالطالبین ص ۳۹۶ میں یہ فرمانا کہ :
” ہندوستان میں ایک شخص عبداللہ نامی پیداہوگا جس کی بیوی کاایمنہ (آمنہ) ہوگی ، اس کے ایک لڑکاپیداہوگاجس کانان محمد ہوگاوہی کوفہ جاکرحکومت کرے گا
لوگوں کایہ کہنا درست نہیں کہ امام مہدی وہی ہیں جوامام حسن عسکری کے فرزندہیں ۔ ا لخ حددرجہ مضحکہ خیز،افسوس ناک اورحیرت انگیز ہے ،کیونکہ علما فریقین کااتفاق ہے کہ ”المهدی من ولدالامام الحسن العسکری
۔“ امام مہدی حضرت امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں اور ۱۵ شعبان ۲۵۵ کوپیداہوچکے ہیں ،ملاحظہ ہو ،اسعاف الراغبین ،وفیات الاعیان ،روضة الاحباب ،تاریخ ابن ا لوردی ،ینابع المودة ، تاریخ کامل ،تاریخ طبری ،نورالابصار،اصول کافی ،کشف الغمہ ،جلاالعیون ،ارشادمفید ،اعلام الوری ،جامع عباسی ،صواعق محرقہ ،مطالب السول ،شواہدالنبوت ،ارجح المطالب ،بحارالانوار ومناقب وغیرہ۔
حدیث نعثل اورامام عصر :
نعثل ایک یہودی تھا جس سے حضرت عائشہ ،حضرت عثمان کوتشبیہ دیاکرتی تھیں ،اوررسول اسلام علیہ السلام کب بعد فرمایا کرتی تھیں : اس نعثل اسلامی کو عثمان کوقتل کردو ۔ (ملاحظہ ہو،نہایة اللغة علامہ ابن اثیرجزری ص ۳۲۱) یہی نعثل ایک دن حضوررسول کریم کی خدمت میں حاضرہوکر عرض پردازہوا مجھے اپنے خدا ،اپنے دین ،اپنے خلفا کاتعارف کرائیے اگر میں آپ کے جواب سے مطمئن ہوگیا تومسلمان ہوجاؤں گا ۔ حضرت نے نہآیت بلیغ اوربہترین انداز میں خلاق عالم کاتعارف کرایا،اس کے بعد دین اسلام کی وضاحت کی ۔ ”قال صدقت ۔“ نعثل نے کہا آپ نے بالکل درست فرمایا پھراس نے عرض کی مجھے اپنے وصی سے آگاہ کیجئے اوربتائیے کہ وہ کون ہے یعنی جس طرح ہمارے نبی حضرت موسی کے وصی یوشع بن نون ہیں اس طرح آپ کے وصی کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا میرے وصی علی بن ابی طالب اور ان کے فرزند حسن وحسین پھرحسین کے صلب سے نوبیٹے قیامت تک ہوں گے ۔ اس نے کہا سب کے نام بتائیے آپ نے بارہ اماموں کے نام بتائے ناموں کوسننے کے بعد وہ مسلمان ہوگیا اورکہنے لگا کہ میں نے کتب آسمانی میں ان بارہ ناموں کو اسی زبان کے الفاظ میں دیکھا ہے ،پھراس نے ہروصی کے حالات بیان کئے ،کربلا کاہونے والا واقعہ بتایا ،امام مہدی کی غیبت کی خبردی اورکہا کہ ہمارے بارہ اسباط میں سے لادی بن برخیاغائب ہوگئے تھے پھرمدتوں کے بعد ظاہر ہوئے اورازسرنودین کی بنیادیں استوارکیں ۔حضرت نے فرمایا اسی طرح ہمارابارہواں جانشین امام مہدی محمدبن حسن طویل مدت تک غائب رہ کر ظہورکرے گا ۔ اوردنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا ۔ (غایۃ المقصود ص ۱۳۴ بحوالہ فرائدالسمطین حموینی )۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کاظہورموفورالسرور :
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہورسے پہلے حوعلامات ظاہرہوں گے ان کی تکمیل کے دوران ہی نصاری فتح ممالک عالم کا ارادہ کرکے اٹھ کھڑے ہوں گے اوربیشمار ممالک پرقابوحاصل کرنے کے بعد ان پرحکمرانی کریں گے اسی زمانہ میں ابوسفیان کی نسل سے ایک ظالم پیداہوگا جوعرب وشام پرحکمرانی کرے گا ۔اس کی دلی تمنا یہ ہوگی کہ سادات کے وجود سے ممالک محروسہ خالی کردئیے جائیں اور نسل محمدی کا ایک فرزند بھی باقی نہ رہے ۔چنانچہ وہ سادات کو نہآیت بے دردی سے قتل کرے گا ۔ پھراسی اثنا میں بادشاہ روم کو نصاری کے ایک فرقہ سے جنگ کرنا پڑے گی شاہ روم ایک فرقہ کوہمنوابناکر دوسرے فرقہ سے جنگ کرے گا اورشہر قسطنطنیہ پرقبضہ کرلے گا ۔ قسطنطنیہ کا بادشاہ وہاں سے بھاگ کر شام میں پناہ لے گا ،پھروہ نصاری کے دوسرے فرقہ کی معاونت سے فرقہ مخالف کے ساتھ نبرد آزماہوگا یہاں تک کہ اسلام کی زبردست فتح نصیب ہوگی فتح اسلام کے باوجود نصاری شہرت دیں گے کہ ”صلیب “ غالب آگئی ،اس پرنصاری اور مسلمانوں میں جنگ ہوگی اورنصاری غالب آجائیں گے ۔ بادشاہ اسلام قتل ہوجائے گا ۔ اورملک شام پربھی نصرانی جھنڈا لہرانے لگے گا اور مسلمانوں کاقتل عام ہوگا ۔ مسلمان اپنی جان بچاکر مدینہ کی طرف کوچ کریں گے اورنصرانی اپنی حکومت کو وسعت دیتے ہوئے خیبر تک پہونچ جائیں گے اسلامیان عالم کے لئے کوئی پناہ نہ ہوگی ۔مسلمان اپنی جان بچانے سے عاجزہوں گے اس وقت وہ گروہ درگروہ سارے عالم میں امام مہدی علیہ السلام کوتلاش کریں گے ،تاکہ اسلام محفوظ رہ سکے اوران کی جانیں بچ سکیں اورعوام ہی نہیں بلکہ قطب ،ابدال ،اور اولیا جستجومیں مشغول ومصروف ہوں گے کہ ناگاہ آپ مکہ معظمہ میں رکن ومقام کے درمیان سے برآمد ہوں گے ۔ (قیامت نامہ قدوة المحدثین شاہ رفیع الدین دہلوی ص ۳ طبع پشاور ۱۹۲۶) علما فریقین کاکہنا ہے کہ آپ قریہ ”کرعہ “ سے روانہ ہوکر مکہ معظمہ سے ظہورفرمائیں گے (غایۃ المقصود ص ۱۶۵ ،نورالابصار ۱۵۴) علامہ کنجی شافعی اورعلی بن محمد صاحب کفایة الاثر کابحوالہ ابوہریرہ بیان ہے کہ حضرت سرورکائنات نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام مہدی قریہ کرعہ جومدینہ سے بطرف مکہ تیس میل کے فاصلہ پرواقع ہے (مجمع البحرین ۴۳۵) نکل کر مکہ معظمہ سے ظہورکریں گے ،وہ میری ذرہ پہنے ہوں گے اورمیرا عمامہ باندھے ہوں گے ان کے سر پرابرکاسایہ ہوگا اور ملک آواز دیتاہوگا کہ یہی امام مہدی ہیں ان کی اتباع کرو ایک روآیت میں ہے کہ جبرئیل آوازدیں گے اور ”ہوا“ اس کو ساری کائنات میں پہنچا دے گی اورلوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے (غایۃ المقصود ۱۶۵) ۔
لغت سروری ۵۳۰ میں ہے کہ آپ قصبہ خیرواں سے ظہورفرمائیں گے ۔ معصوم کافرماناہے کہ امام مہدی کے ظہورکے متعلق کسی کاکوئی وقت معین کرنا فی الحقیقت اپنے آپ کوعلم غیب میں خداکاشریک قراردینا ہے ۔ وہ مکہ میں بے خبرظہورکریں گے ،ان کے سرپرزرد رنگ کاعمامہ ہوگا بدن پررسالت مآب صلعم کی چادر اورپاؤں میں انھیں کی نعلین مبارک ہوگی ۔ وہ اپنے سامنے چند بھےڑیں رکھیں گے ،کوئی انھیں پہچان نہ سکے گا ۔ اوراسی حالت میں یکہ وتنہا بغیرکسی رفیق کے کعبة اللہ میں آجائیں گے جس وقت عالم سیاہی شب کی چادر اوڑھ لے گا اورلوگ سوجائیں گے اس وقت ملائکہ صف بہ صف ان پراتریں گے اورحضرت جبرئیل ومیکائیل انھیں نویدالھی سنائیں گے کہ ان کا حکم تمام دنیاپرجاری وساری ہے ۔ یہ بشارت پاتے ہی امام علیہ السلام شکرخدابجالائیں گے اوررکن حجراسود اورمقام ا براہیم کے درمیان کھڑے ہوکر بآواز بلند ندادیں گے کہ اے وہ گروہ جومیرے مخصوصوں اوربزرگوں سے ہوا اوروہ لوگو! جن کی حق تعالی نے روئے زمین پرمیرے ظاہرہونے سے پہلے میری مدد کے لئے جمع کیاہے ۔”آجاؤ۔“ یہ ندا حضرت کے ان لوگوں تک خواہ وہ مشرق میں ہوں یامغرب میں پہنچ جائے گی اوروہ لوگ یہ آواز سن کر چشم زدن میں حضرت کے پاس جمع ہوجائیں گے یہ لوگ ۳۱۳ ہوں گے ،اورنقیب امام کہلائیں گے ۔اسی وقت ایک نورزمین سے آسمان تک بلند ہوگا جوصفحہ دنیامیں ہرمومن کے گھرمیں داخل ہوگا جس سے ان کی طبیعتیں مسرورہوجائیں گی مگرمومنین کومعلوم نہ ہوگا کہ امام علیہ السلام کا ظہور ہواہے صبح ا مام علیہ السلام مع ان ۳۱۳ ،اشخاص کے جورات کوان کے پاس جمع ہوگئے تھے کعبہ میں کھڑے ہوں گے اوردیوار سے تکیہ لگاکر اپنا ہاتھ کھولیں گے جوموسی کے یدبیضا کی مانند ہوگا اورکہیں گے کہ جوکوئی اس ہاتھ پربیعت کرے گا وہ ایساہے گویا اس نے ”یداللہ “ پربیعت کی ۔ سب سے پہلے جبرئیل شرف بیعت سے مشرف ہوں گے ۔ان کے بعد ملائکہ بیعت کریں گے ۔ پھرمقدم الذکرنقبا ( ۳۱۳) بیعت سے مشرف ہوں گے اس ہلچل اوراژدھام میں مکہ میں تہلکہ مچ جائے گا اورلوگ حیرت زدہ ہوکر ہرسمت سے استفسارکریں گے کہ یہ کون شخص ہے،یہ تمام واقعات طلوع آفتاب سے پہلے سرانجام ہوجائیں گے پھرجب سورج چڑھے گا توقرص آفتاب کے سامنے ایک منادی کرنے والا ظاہرہوگا اورباآوازبلند کہے گا جس کوتمام ساکنان زمین وآسمان سنیں گے کہ ”اے گروہ خلائق یہ مہدی آل محمد ہیں ،ان کی بیعت کرو ،پھرملائکہ اور( ۳۱۳) آدمی تصدیق کریں گے اوردنیا کے ہرگوشہ سے جوق درجوق آپ کی زیارت کے لئے لوگ روانہ ہوجائیں گے ،اورعالم پرحجت قائم ہوجائے گی ،اس کے بعد دس ہزار افراد بیعت کریں گے ۔اورکوئی یہودی اورنصرانی باقی نہ چھوڑاجائے گا ۔ صرف اللہ کانام ہوگا اورامام مہدی کاکام ہوگا جومخالفت کرے گا اس پرآسمان سے آگ برسے گی اوراسے جلاکر خاکستر کردے گی ۔“ (نورالابصارامام شبلنجی شافعی ۱۵۵ ،اعلام الوری ۲۶۴) ۔
علما نے لکھا ہے کہ ۲۷ مخلصین آپ کی خدمت میں کوفہ سے اس قسم کے پہونچ جائیں گے جوحاکم بنائیں جائیں گے جن کے اسما(کتاب منتخب بصائر) یہ ہیں : یوشع بن نون ،سلمان فارسی ، ابودجانہ انصاری ،مقداد بن اسود، مالک اشتر، اورقوم موسی کے ۱۵ افراد اورسات اصحاب کہف (اعلام الوری ۲۶۴ ، ارشاد مفید ۵۳۶) علامہ عبدالرحمن جامی کاکہنا ہے کہ قطب ،ابدال ،عرفا سب آپ کی بیعت کریں گے ، ﷼ آپ جانوروں کی زبان سے بھی واقف ہوں گے اور آپ انسانوں اورجنوں میں عدل وانصاف کریں گے ۔(شواہدالنبوت ۲۱۶) علامہ طبرسی کاکہنا ہے کہ آپ حضرت داؤد کے اصول پراحکام جاری کریں گے ،آپ کو گواہ کی ضرورت نہ ہوگی آپ ہرایک کے عمل سے بالہام خداوندی واقف ہوں گے ۔ (اعلام الوری ۲۶۴) امام شبلنجی شافعی کابیان ہے کہ جب امام مہدی کاظہورہوگا توتمام مسلمان خواص اورعوام خوش ومسرورہوجائیں گے ان کے کچھ وزرا ہوں گے جوآپ کے احکام پرلوگوں سے عمل کروائیں گے ۔ (نورالابصار ۱۵۳ بحوالہ فتوحات مکیہ ) علامہ حلبی کاکہنا ہے کہ اصحاب کہف آپ کے وزراہوں گے (سیرت حلبیہ) حموینی کابیان ہے کہ آپ کے جسم کاسایہ نہ ہوگا ۔(غایۃ المقصود جلد ۲ ص ۱۵۰) حضرت علی کافرمانا ہے کہ انصارواصحاب امام مہدی ،خالص اللہ والے ہوں گے (ارجح المطالب ۴۶۹ ا)ورآپ کے گرد لوگ اس طرح جمع ہوجائیں گے جس طرح شہد کی مکھی اپنے ”یعسوب “ بادشاہ کے گرد جمع ہوجاتی ہیں ۔ ارجح المطالب ۴۶۹ ا ایک روآیت میں ہے کہ ظہورکے بعد آپ سب سے پہلے کوفہ تشریف لے جائیں گے اوروہاں کے کثیرافراد قتل کریں گے ۔
امام مہدی کے ظہور کاسن :
خلاق عالم نے پانچ چیزوں کاعلم اپنے لئے مخصوص رکھا ہے جن میں ایک قیامت بھی ہے (قرآن مجید) ظہورامامہدی علیہ السلام چونکہ لازمہ قیامت سے ہے ،لہذا اس کاعلم بھی خداہی کوہے کہ آپ کب ظہورفرمائیں گے کونسی تاریخ ہوگی ۔ کونسا سن ہوگا ،تاہم احادیث معصومین جوالہام اورقرآن سے مستنبط ہوتی ہیں ان میں اشارے موجود ہیں ۔علامہ شیخ مفید ،علامہ سید علی ،علامہ طبرسی ،علامہ شبلنجی رقمطرازہیں کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ طاق سن میں ظہورفرمائیں گے جو ۱ ، ۳ ، ۵ ، ۷ ، ۹ سے مل کر بنے گا ۔ مثلا ۱۳ سو ، ۱۵ سو ، ۱۷ سو ، ۱۹ سو یا ایک ہزار ۳ ہزار ، ۵ ہزار ، ۷ ہزار ، ۹ ہزار ۔ ا سی کے ساتھ ہی ساتھ آپ نے فرمایاہے کہ آپ کے اسم گرامی کااعلان بذریعہ جناب جبرئیل ۲۳ تاریخ کوکردیاجائے گا اورظہوریوم عاشورہ کوہوگا جس دن امام حسین علیہ السلام بمقام کربلا شہید ہوئے ہیں (شرح ارشاد مفید ۵۳۲ ،غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۶۱ ،اعلام الوری ۲۶۲ ،نورالابصار ۱۵۵) میرے نزدیک ذی الحجہ کی ۲۳ تاریخ ہوگی کیونکہ نفس زکیہ کے قتل اورظہورمیں ۱۵ راتوں کافاصلہ ہونامسلم ہے امکان ہے کہ قتل نفس زکیہ کے بعد ہی نام کااعلان کردیا جائے ،پھراس کے بعد ظہورہو، ملاجواد ساباطی کاکہنا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام یوم جمعہ بوقت صبح بتاریخ ۱۰ محرم الحرام ۷۱۰۰ میں ظہو ر فرمائیں گے۔غایۃ المقصود ۱۶۱ بحوالہ برا ہین ساباطیہ ) امام جعفر صادق علیہ السلام کاارشاد ہے کہ امام مہدی کاظہوربوقت عصرہوگا اور وہی عصرایة ”والعصران الانسان لفی خسر “ سے مراد ہے شاہ نعمت اللہ ولی کاظمی المتوفی ۸۲۷ ( مجالس المومنین ۲۷۶) جوشاعرہونے کے علاوہ عالم اورمنجم بھی تھے آپ کوعلم جفرمیں بھی دخل تھا ۔ آپ نے اپنی مشہورپیشین گوئی میں ۱۳۸۰ ہجری کاحوالہ دیاہے جس کاغلط ہونا ثابت ہے کیونکہ ۱۳۹۳ ہے (قیامت نامہ قدوة المحدثین شاہ رفیع الدین ص ۳۸) ۔(والعلم عنداللہ )۔
ظہورکے وقت امام علیہ السلام کی عمر :
یوم ولادت سے تابظہورآپ کی کیاعمرہوگی ؟ اسے توخداہی جانے لیکن یہ مسلمات سے ہے کہ جس وقت آپ ظہورفرمائیں گے مثل حضرت عیسی آپ چالیس سالہ جوان کی حیثیت میں ہوں گے ،(اعلام الوری ۲۶۵ ،وغایۃ المقصود ص ۷۶،۱۱۹) ۔
آپ کاپرچم
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے جھنڈ ے پر ” البعےة اللہ “ لکھا ہوگا اورآپ اپنے ہاتھوں پرخداکے لئے بیعت لیں گے اورکائنات میں صرف دین اسلام کاپرچم لہرائے گا ۔ (ینابع المودة ۴۳۴) ۔
ظہورکے بعد :
ظہورکے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کعبہ کی دیوارسے ٹیک لگاکرکھڑے ہوں گے ۔ ابرکاسایہ آپ کے سرمبارک پرہوگا ، آسمان سے آوازآتی ہوگی کہ ”یہی امام مہدی ہیں “ اس کے بعدآپ ایک منبرپرجلوہ افروزہوں گے لوگوں کی خداکی طرف دعوت دیں گے اوردین حق کی طرف آنے کی سب کوہدآیت فرمائیں گے آپ کی تمام سیرت پیغمبراسلام کی سیرت ہوگی اورانھیں کے طریقہ پرعمل پیرا ہوں گے ابھی آپ کاخطبہ جاری ہوگا کہ آسمان سے جبرئیل ومکائیل آکربیعت کریں گے ،پھرملائکہ آسمانی کی عام بیعت ہوگی ہزاروں ملائکہ کی بیعت کے بعد وہ ۳۱۳ مومن بیعت کریں گے ۔ جوآپ کی خدمت میں حاضرہوچکے ہوں گے پھرعام بیعت کاسلسہ شروع ہوگا دس ہزار افراد کی بیعت کے بعد آپ سب سے پہلے کوفہ تشریف لے جائیں گے ،اوردشمنان آل محمد کاقلع قمع کریں گے آپ کے ہاتھ میں عصاموسی ہوگا جواژدھے کاکام کرے گا اورتلوارحمائل ہوگی ۔(عین الحیات مجلسی ۹۲) تواریخ میں ہے کہ جب آپ کوفہ پہونچیں گے توکئی ہزار کاایک گروہ آپ کی مخالفت کے لئے نکل پڑے گا ،اورکہے گا کہ ہمیں بنی فاطمہ کی ضرورت نہیں ،آپ واپس چلے جائیے یہ سن کر آپ تلوار سے ان سب کاقصہ پاک کردیں گے اورکسی کوبھی زندہ نہ چھوڑیں گے جب کوئی دشمن آل محمد اورمنافق وہاں باقی نہ رہے گا توآپ ایک منبرپرتشریف لے جائیں گے اورکئی گھنٹے تک رونے کاسلسہ جاری رہے گا پھرآپ حکم دیں گے کہ مشہد حسین تک نہرفرات کاٹ کرلائی جائے اورایک مسجد کی تعمیرکی جائے ۔ جس کے ایک ہزار درہوں ،چنانچہ ایساہی کیاجائے گا اس کے بعد آپ زیارت سرورکائنات کے لئے مدینہ منورہ تشریف لے جائیں گے ۔ (اعلام الوری ۲۶۳ ،ارشادمفید ۵۳۲ ،نورالابصار ۱۵۵) ۔
قدوة المحدثین شاہ رفیع الدین رقمطرازہیں کہ حضرت امام مہدی جوعلم لدنی سے بھرپورہوں گے تجب مکہ سے آپ کاظہورہوگا اور اس ظہورکی شہرت اطراف واکناف عالم میں پھیلے گی توافواج مدینہ ومکہ آپ کی خدمت میں حاضرہوں گی اورشام وعراق ویمن کے ابدال اوراولیا خدمت شریف میں حاضرہوں گے اورعرب کی فوجیں جمع ہوجائیں گی ،آپ ان تمام لوگو ں کو اس خزانہ سے مال دیں گے جوکعبہ سے برآمد ہوگا ۔ اورمقام خزانہ کو ” تاج الکعبہ“ کہتے ہوں گے ،اسی اثنا میں ایک شخص خراسانی عظیم فوج لے کر حضرت کی مدد کے لئے مکہ معظمہ کوروانہ ہوگا ،راستے اس لشکرخراسانی کے مقدمہ الجیش کے کمانڈر منصورسے نصرانی فوج کی ٹکرہوگی ،اورخراسانی لشکرنصرانی فوج کوپسپا کرکے حضرت کی خدمت میں پہنچ جائے گا اس کے بعد ایک شخص سفیانی جوبنی کلب سے ہوگا حضرت سے مقابلہ کے لئے لشکرعظیم ارسال کرے گا لیکن بحکم خدا جب وہ لشکر مکہ معظمہ اورکعبہ منورہ کے درمیان پہنچے گا اورپہاڑمیں قیام کرے گا توزمین میں وہیں دھنس جائے گاپھرسفیانی جودشمن آل محمد ہوگا نصاری سے سازبازکرکے امام مہدی سے مقابلہ کے لئے زبردست فوج فراہم کرے گا نصرانی اورسفیانی فوج کے اسی نشان ہوں گے اورہرنشان کے نےچے ۱۲ ہزار کی فوج ہوگی ۔ ان کا دارالخلافہ شام ہوگاحضرت امام مہدی علیہ السلام بھی مدینہ منورہ ہوتے ہوے جلد سے جلد شام پہنچیں گے جب آپ کاورود مسعود دمشق میں ہوگا ،تودشمن آل محمد سفیانی اوردشمن اسلام نصرانی آپ سے مقابلہ کے لئے صف آراہوں گے ،اس جنگ میں فریقین کے بے شمار افراد قتل ہوں گے بالاخر امام علیہ السلام کوفتح کامل ہوگی ،اورایک نصرانی بھی زمین شام پر باقی نہ رہے گا اس کے بعد امام علیہ السلام اپنے لشکریوں میں انعام کوتقسیم کریں گے اوران مسلمانوں کو مدینہ منورہ سے واپس بلالیں گے جونصرانی بادشاہ کے ظلم وجورسے عاجزآکر شام سے ہجرت کرگئے تھے ۔(قیامت نامہ ۴) اس کے بعد مکہ معظمہ واپس تشریف لے جائیں گے اورمسجد سہلہ میں قیام فرمائیں گے ے(ارشاد ۵۲۳) اس کے بعد مسجد الحرام کوازسرنوبنائیں گے اوردنیا کی تمام مساجد کو شرعی اصول پرکردیں گے ہر بدعت کوختم کریں گے اورہرسنت کوقائم کریں گے ،نظام عالم درست کریں گے اورشہروں میں فوجیں ارسال کریں گے ،انصرام وانتظام کے لئے وزراء روانہ ہوں گے ۔(اعلام الوری ۲۶۲،۲۶۴) ۔
اس کے بعد آپ مومنین ،کاملین اورکافرین کوزندہ کریں گے ،اوراس ز ندگی کامقصد یہ ہوگا کہ مومنین اسلامی عروج سے خوش ہوں اورکافرین سے بدلہ لیاجائے ۔ ان زندہ کئے جانے والوں میں قابیل سے لے کر امت محمدیہ کے فراعنہ تک زندہ کئے جائیں گے ،اوران کے کئے کاپورا پورا بدلہ انھیں دیاجائے گا جوجوظلم انھوں نے کئے ان کامزہ چکھیں گے غریبوں ،مظلوموں اوربیکسوں پرجوظلم ہواہے اس کی (ظالم کو) سزادی جائے گی ،سب سے پہلے جوواپس لایاجائے گا وہ یزیدبن معاویہ ملعون ہوگا اورامام حسین علیہ السلام تشریف لائیں گے ۔ (غایۃ المقصود)۔
دجال اوراس کا خروج :
دجال ،دجل سے مشتق ہے جس کے معنی فریب کے ہیں ،اس کا اصل نام صائف ،باپ کانام صائد ،ماں کانام ہستہ عرف قطامہ ہے ، یہ عہد رسالت مآب میں بمقام تیہ جومدینہ سے تین میل کے فاصلہ پرواقع ہے ، چہارشنبہ کے دن بوقت غروب آفتاب پیدا ہواہے ، پیدائش کے بعد آنافانا بڑھ رہاتھا ،اس کی داہنی آنکھ پھوٹی تھی اوربائیں آنکھ پیشانی پرچمک رہی تھی ،وہ چند دنوں میں کافی بڑھ کردعوی خدائی کرنے لگا ،سروکائنات جوحالات سے برابر مطلع ہورہے تھے ۔ انھوں نے سلمان فارسی اورچند اصحاب کولیا اوربمقام تہیہ جاکراس کوتبلیغ کرناچاہی ،اس نے بہت برا بھلاکہا اورچاہا کہ حضرت پرحملہ کردے ۔لیکن آپ کے اصحاب نے مدافعت کی ،آپ نے اس سے یہ فرمایاتھا کہ خدائی کا دعوی چھوڑ دئے اورمیری نبوت کومان لے علماء نے لکھا ہے کہ دجال کی پیشانی پر بخط یزدانی ”الکافرباللہ “ لکھاہوا تھا اورآنکھ کے ڈھیلے پربھی (ک،ف ،ر) مرقوم تھا غرضکہ آپ نے وہاں سے مدینہ منورہ واپس تشریف لانے کاارادہ کیا دجال نے ایک سنگ گراں جوپہاڑکی مانند تھا حضرت کی راہ میں رکھ دیا یہ دیکھ کرحضرت جبرئیل آسمان سے آئے اوراسے ہٹادیا ابھی آپ مدینہ پہونچے ہی تھے کہ دجال لشکرعظیم لے کرمدینہ کے قریب جاپہنچا حضرت نے بارگاہ احدیت میں عرض کی ،خدایا ! اسے اس وقت تک کے لئے محبوس کردے جب تک اسے زندہ رکھنا مقصود ہے ،اسی دوران میں حضرت جبرئیل آئے اورانھوں نے دجال کی گردن کو پشت کی طرف سے پکڑکر اٹھا لیا اوراسے لے جاکر جزیرہ طبرستان میں محبوس کردیاہے ۔لطیفہ یہ ہے کہ جبرئیل اسے لے کرجانے لگے تواس نے زمین پردونوں ہاتھ مارکرتحت الثری تک کی دومٹھی خاک لے لی ،اوراسے طبرستان میں ڈال دیا جبرئیل نے حضرت سرورکائنات کے سوال کے جواب میں کہاکہ آپ کی وفات سے ۹۷۰ سال بعد یہ خاک عالم میں پھیلے گی اوراسی وقت سے آثارقیامت شروع ہوجائیں گے ۔ (غایۃالمقصود ۶۴ ، ارشادالطالبین ۳۹۴ ) پیغمبراسلام کاارشاد ہے کہ دجال کومحبوس ہونے کے بعد تمیم دارمی نے جوپہلے نصرانی تھا ،جزیرہ طبرستان میں بچشم خود دیکھا ہے۔ اس کی ملاقات کی تفصیل کتاب صحاح المصابیح ،زہرة الریاض ،صحیح بخاری ،صحیح مسلم میں موجودہے ۔
غرضکہ اکثرروایات کے مطابق دجال حضرت امام مہدی کے ظہورفرمانے کے ۱۸ یوم بعد خروج کرے گا (مجمع البحرین ۵۶۰) وغایۃ المقصود جلد ۲ ص ۶۹) ظہور امام ا ورخروج دجال سے پہلے تین سال تک سخت قحط پڑے گا ۔ پہلے سال ۱ زراعت ختم ہوجائیگی دوسرے سال آسمان وزمین کی برکت ورحمت ختم ہوجائے گا تیسرے سال بالکل بارش نہ ہوگی ،اورساری دنیا والے موت کی آغوش میں پہنچنے کے قریب ہوجائیں گے دنیا ظلم وجو ر،اضطراب وپریشانی سے بالکل پرہوگی ۔ ا ما م مہدی کے ظہورکے بعد ۱۸ ہی دن میں کائنات نہآیت اچھی سطح پرپہنچی ہوگی کہ ناگاہ دجال ملعون کے خروج کاغلغلہ اٹھے گا وہ بروآیت اخوند درویزہ ہندوستان کے ایک پہاڑپر نمودارہوگا اوروہاں سے بآواز بلند کہے گا ۔” میں خدائے بزرگ ہوں ،میری اطاعت کرو۔“ یہ آوازمشرق ومغرب میں پہنچے گی ۔ اس کے بعد تین یوم یابروآیت ۴۰ یوم اسی مقیم رہ کر لشکرتیارکرے گا ۔پھرشام وعراق ہوتا ہوا اصفہان کے ایک قریہ ”یہودیہ “ سے خروج کرے گا ۔ اس کے ہمراہ بہت بڑا لشکرہوگا ،جس کی تعداد سترلاکھ مرقوم ہے جن ،دیو،پری ،شیطان ان کے علاوہ ہوں گے ۔ وہ ایک گدھے پرسوارہوگا ۔ جوابلق رنگ کا ہوگا اس کے جسم کا بالائی حصہ سرخ ،ہاتھ پاؤں تازانوسیاہ اس کے بعد سے سم تک سفید ہوگا ۔ اس کے دونوں کانوں کے درمیان ۴۰ میل کافاصلہ ہوگا ۔وہ ۲۱ میل اونچااور ۹۰ میل لمبا ہوگا اس کاہرقدم ایک میل کاہوگا اس کے دونوں کانوں میں خلق کثیربیٹھی ہوگی چلنے میں اس کے بالوں سے ہرقسم کے باجوں کی آوازآئے گی ،وہ اسی گدھے پرسوارہوگا ۔ سواری کے بعد جب وہ روانہ ہوگا تواس کے داہنے طرف ایک پہاڑہوگا جس میں ہرقسم کے سانپ بچھوہوں گے ،وہ لوگوں کو انھیں چیزوں کے ذریعہ سے بہکائے گا اورکہے گا کہ میں خداہوں جومیراحکم ماننے گا جنت میں رکھوں گا جونہ مانے گا اس جہنم میں ڈال دوں گا ۔ اسی طرح چالیس یوم میں ساری دنیا کا چکرلگاکراور سب کوبہکاکرامام مہدی علیہ السلام کی اسکیم کوناکامیاب بنانے کی سعی میں وہ خانہ کعبہ کوگرانا چاہے گا اورایک عظیم لشکربھیج کر کعبہ اورمدینہ کوتباہ کرنے پرمامورکرے گا اورخود باارادہ کوفہ روانہ ہوگا اس کامقصد یہ ہوگا کہ کوفہ جوامام مہدی کی آماجگاہ ہے اسے تباہ کردے ”چون آن لعین نزدیک کوفہ برسد امام مہدی باستیصال اوبرسد “لیکن خداکاکرنا دیکھئے کہ جب وہ کوفہ کے نزدیک پہنچے گا ،توحضرت امام مہدی علیہ السلام خود وہاں پہنچ جائیں گے ،اوراسے بحکم خدا بیخ وبن سے اکھاڑدیں گے غرضکہ گھمسان کی جنگ ہوگی اورشام تک پھیلے ہوئے لشکر پرامام مہدی علیہ السلام زبردست حملے کریں گے ،بالاخروہ ملعون آپ کی ضربوں کی تاب نہ لاکرشام کے مقام عقبہ رفیق یابمقام لد جمعہ کے دن تین گھڑی دن چڑھے ماراجائے گا اس کے مرنے کے بعد دس میل تک دجال اوراس کے گدھے اورلشکرکاخون زمین پرجاری رہے گا علماکاکہنا ہے کہ قتل دجال کے بعد امام علیہ السلام اس کے لشکریوں پرایک زبردست حملہ کریں گے اورسب کوقتل کرڈالیں گے ۔اس وقت جوکافر زمین کے کسی گوشہ میں چھپے گا ،وہ آوازدے گا کہ فلاں کافریہاں روپوش ہے ۔امام علیہ السلام اسے قتل کردیں گے آخرکارزمین پرکوئی دجال کاماننے والا نہ رہے گا ۔(ارشادالطالبین ۳۹۷ ،معارف الملة ۳۴۸ ،صحیح مسلم ،لمعات شرح مشکوةعبدالحق ،مرقات شرح مشکوة مجمع البحار) بعض روایات میں ہے کہ دجال کوحضرت عیسی بحکم حضرت مہدی علیہ السلام قتل کریں گے ۔
نزول حضرت عیسی علیہ السلام :
حضرت مہدی علیہ السلام سنت کے قائم کرنے اوربدعت کومٹانے نیزانصرام وانتظام عالم میں مشغول ومصروف ہوں گے کہ ایک دن نمازصبح کے وقت بروآیتے نمازعصرکے وقت حضرت عیسی علیہ السلام دوفرشتوں کے کندھوں پرہاتھ رکھے ہوئے دمشق کی جامع مسجد کیم منارہ شرقی پرنزول فرمائیں گے حضرت امام مہدی ان کااستقبال کریں گے اورفرمائیں گے کہ آپ نمازپڑھئے ،حضرت عیسی کہیں گے کہ یہ ناممکن ہے ،نمازآپ کوپڑھانی ہوگی ۔چنانچہ حضرت مہدی علیہ السلام امامت کریں گے اورحضرت عیسی علیہ السلام ان کے پےچھے نمازپڑھیں گے اوران کی تصدیق کریں گے ۔(نورالابصار ۱۵۴ ،غایۃالمقصود ۱۰۴ ۔ ۱۰۵ ،بحوالہ مسلم وابن ماجہ ،مشکوة ۴۵۸) اس وقت حضرت عیسی کی عمرچالیس سالہ جوان جیسی ہوگی ۔وہ اس دنیامیں شادی کریں گے ،اوران کے دولڑکے پیداہوں گے ایک کانام احمداوردوسرے کانام موسی ہوگا ۔(اسعاف الراغبین برحاشیہ نورالابصار ۱۳۵ ،قیامت نامہ ۹ بحوالہ کتاب الوفاابن جوزی ،مشکوة ۴۶۵ وسراج القلوب ۷۷) ۔
امام مہدی اورعیسی ابن مریم کادورہ :
اس کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام اورحضرت عیسی علیہ السلام بلاد ،ممالک کادورہ کرنے اورحالات کاجائزہ لینے کے لئے برآمد ہوں گے اوردجال ملعون کے پہنچائے ہوئے نقصانات اوراس کے پیدکئے ہوئے بدترین حالات کوبہترین سطح پرلائیں گے ،حضرت عیسی خنزیرکوقتل کرنے ،صلیبوں کوتوڑنے اورلوگوں کے اسلام قبول کرنے کاانصرام وبندوبست فرمائیں گے ۔ عدل مہدی سے بلاد عالم میں اسلام کاڈنکا بجے گا اورظلم وستم کاتختہ بتاہ ہوجائے گا ۔(قیامت نامہ قدوة المحدثین ۸ بحوالہ صحیح مسلم)۔
حضرت امام مہدی کاقسطنطنیہ کوفتح کرنا :
روآیت میں ہے کہ امام مہدی علیہ السلام قسطنطنیہ ،چین اورجبل ویلم کوفتح کریں گے ،یہ وہی قسطنطنیہ ہے جسے استنبول کہتے ہیں اورجس پراس زمانہ میں نصاری کاقبضہ ہوگا ۔ اوران کاقبضہ بھی مسلمان بادشاہ کوقتل کرنے کے بعد ہواہوگا ۔چین اورجبل دیلم پربھی نصاری کا قبضہ ہوگااوروہ حضرت امام مہدی سے مقابلہ کاپوراانتظام کریں گے ،چین جس کوعربی میں ”صین“ کہتے ہیں اس کے بارے میں روآیت کے حوالہ سے علامہ طریحی نے مجمع البحرین کے ۶۱۵ میں لکھا ہے کہ: ( ۱) صین ایک پہاڑی ہے( ۲) مشرق میں ایک مملکت ہے ( ۳) کوفہ میں ایک موضع ہے ۔پتہ یہ چلتاہے کہ ساری چیزیں فتح کی جائیں گی ،ان کے علاوہ سندھ اورہندکے مکانات کی طرف بھی اشارہ ہے ، بہرحال امام مہدی علیہ السلام شہرقسطنطنیہ کوفتح کرنے کے لئے روانہ ہوں گے اوران کے ہمرا ہجوسترہزاربنواسحاق کے نوجوان ہوں گے انھیں دریائے روم کے کنارے شہرمیں جاکراسے فتح کرنے کاحکم ہوگا ،جب وہاں پہنچ کرفصیل کے کنارے نعرہ تکبیرلگائیں گے توخود بخود راستہ پیداہوجائے گا اوریہ داخل ہوکر اسے فتح کرلیں گے ،کفارقتل ہوں گے اوراس پرپوراپورا قبضہ ہوجائے گا ۔(نورالابصار ۱۵۵ بحوالہ طبرانی ،غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۵۲ وبحوالہ ابونعیم ،اعلام الوری بحوالہ امام جعفرصادق ۲۶۴ ،قیامت نامہ ،بحوالہ صحیح مسلم )۔
یاجوج ماجوج اوران کاخروج :
قیامت صغری یعنی ظہورآل محمداورقیامت کبری کے درمیان دجال کے بعد یاجوج اورماجوج کاخروج ہوگا ۔یہ سد سکندری سے نکل کرسارے عالم میں پھیل جائیں گے اوردنیاکے امن وامان کوتباہ وبربادکردینے میں پوری سعی کریں گے ۔
یاجوج ماجوج حضرت نوح کے بیٹے یافث کی اولاد سے ہیں ،یہ دونوں چارسوقبیلہ اورامتوں کے سرداراورسربرآورہ ہیں ،ان کی کثرت کاکئی اندازہ نہیں لگایاجاسکتا ۔مخلوقات میں ملائکہ کے بعد انھیں کثرت دی گئی ہے ،ان میں کوئی ایسانہیں جس کے ایک ایک ہزار اولاد نہ ہو ۔یعنی یہ اس وقت تک مرتے نہیں جب تک ایک ایک ہزاربہادرپیدانہ کردیں ۔یہ تین قسم کے لوگ ہیں ،ایک وہ جوتاڑسے زیادہ لمبے ہیں ،دوسرے وہ جولمبے اورچوڑے برابرہیں جن کی مثال بہت بڑے ہاتھی سے دی جاسکتی ہے ،تیسرے وہ جواپناایک کان بچھاتے اوردوسرا اوڑھتے ہیں ان کے سامنے لوہا ،پتھر،پہاڑتووہ کوئی چیزنہیں ہے ۔یہ حضرت نوح کے زمانہ میں دنیاکے اخیرمیں ا س جگہ پیداہوئے ، جہاں سے پہلے سورج نے طلوع کیاتھا زمانہ فطرت سے پہلے یہ لوگ اپنی جگہ سے نکل پڑے تھے اوراپنے قریب کی ساری دنیا کوکھا پی جاتے تھے یعنی ہاتھی ،گھوڑا ،اونٹ،انسان ،جانور،کھیتی باڑی غرضکہ جوکچھ سامنے آتاتھا سب کوہضم کرجاتے تھے ۔ وہاں کے لوگ ان سے سخت تنگ اورعاجزتھے ۔یہاں تک زمانہ فطرت میں حضرت عیسی کے بعد بروائتی جب ذوالقرنین اس منزل تک پہنچے توانھیں وہاں کاسارا واقعہ معلوم ہوا اوروہاں کی مخلوق نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں اس بلائے بے درمان یاجوج ماجوج سے بچائے ۔چنانچہ انھوں نے دوپہاڑوں کے اس درمیانی راستے کوجس سے وہ آیاکرتے تھے بحکم خدالوہے کی دیوارسے جودوسوگزاونچی اورپچاس یاساٹھ گزچوڑی تھی بند کردیا ۔اسی دیوارکوسد سکندری کہتے ہیں ۔کیونکہ ذوالقرنین کااصل نام سکندراعظم تھا ،سدسکندری کے لگ جانے کے بعد ان کی خوراک سانپ قراردی گئی ،جوآسمان سے برستے ہیں یہ تابظہورامام مہدی علیہ السلام اسی میں محصوررہیں گے ان کااصول اورطریقہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی زبان سے سد سکندری کو رات چاٹ کرکاٹتے ہیں ،جب صبح ہوتی ہے اوردھوپ لگتی ہے توہٹ جاتے ہیں ،پھردوسری رات کٹی ہوئی دیواربھی پرہوجاتی ہے اوروہ پھراسے کاٹنے میں لگ جاتے ہیں ۔
بحکم خداسے یہ لوگ امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں خروج کریں گے دیوارکٹ جائے گی اوریہ نکل پڑیں گے ۔اس وقت کاعالم یہ ہوگا کہ یہ لوگ اپنی ساری تعداد سمیت ساری دنیامیں پھیل کر نظام عالم کودرہم برہم کرنا شروع کردیں گے،لاکھوں جانیں ضائع ہوں گی اوردنیاکی کوئی چیزایسی باقی نہ رہے گی جوکھائی اورپی جاسکے ،اوریہ اس پرتصرف نہ کریں ۔ یہ بلاکے جنگجولوگ ہوں گے دنیاکومارکر کھاجائیں گے اوراپنے تیرآسمان کی طرف پھینک کرآسمانی مخلوق کومارنے کاحوصلہ کریں گے اورجب ادھرسے بحکم خدا تیرخون آلود آئے گا تویہ بہت خوش ہوں گے اورآپس میں کہیں گے کہ اب ہمارااقتدارزمین سے بلند ہوکر آسمان پرپہنچ گیاہے ۔اسی دوران میں امام مہدی علیہ السلام کی برکت اورحضرت عیسی کی دعا کی وجہ سے خداوندعالم ایک بیماری بھیج دے گا جس کوعربی میں ”نغف “ کہتے ہیں یہ بیماری ناک سے شروع ہوکر طاعون کیطرح ایک ہی شب میں ان سب کاکام تمام کردے گی پھران کے مردارکوکھانے کے لئے ”عنقا “ نامی پرندہ پیداہوگا ،جوزمین کوان کی گندگی سے صاف کرے گا ۔اورانسان ان کے تیروکمان اورقابل سوختنی آلات حرب کو سات سال تک جلائیں گے (تفسیرصافی ۲۷۸ ،مشکوة ۳۶۶ ،صحیح مسلم ،ترمذی ،ارشادالطالبین ۳۹۸ ،غایۃ المقصودجلد ۲ ص ۷۶ ،مجمع البحرین ۴۶۶ ،قیامت نامہ ۸) ۔
امام مہدی علیہ السلام کی مدت حکومت اورخاتمہ دنیا :
حضرت امام مہدی علیہ السلام کاپایہ تخت شہرکوفہ ہوگا مکہ میں آپ کے نائب کاتقررہوگا ۔آپ کادیوان خانہ اورآپ کے اجرا حکم کی جگہ مسجد کوفہ ہوگی۔بیت المال ،مسجد سہلہ قراردی جائیگی اورخلوت کدہ نجف اشرف ہوگا ۔(حق الیقین ۱۴۵) آپکے عہد حکومت میں مکمل امن وسکون ہوگا ۔بکری اوربھےڑ،گائے اورشیر،انسان اورسانپ ،زنبیل اورچوہے سب ایک دوسرے سے بے خوف ہوں گے (درمنثورسیوطی جلد ۳ ص ۲۳) ۔معاصی کاارتکاب بالکل بندہوجائے گااورتمام لوگ پاک بازہوجائیں گے ۔ جہل ،جبن ،بخل کافورہو جائیں گے ۔عاجزوں ،ضعیفوں کی دادرسی ہوگی ۔ظلم دنیا سے مٹ جائے گا اسلام کے قالب بے جان میں روح تازہ پیدہوگی دنیاکے تمام مذاہب ختم ہوجائیں گے ۔نہ عیسائی ہوں گے نہ یہودی ،نہ کوئی اورمسلک ہوگا ۔صرف اسلام ہوگا ۔اوراسی کاڈنکابجتاہوگا آپ دعوت بالسیف دیں گے جوآپ کے درپئے نزاع ہوگا قتل کردیاجائے گا ۔جزیہ موقوف ہوگا خداکی جانب سے شہر عکاکے ہرے بھرے میدان میں مہمانی ہوگی ،ساری کائنات مسرتوں سے مملوہوگی ۔غرضکہ عدل وانصاف سے دنیا بھرجائے گی ،(الیواقت الجواہرجلد ۲ ص ۱۲۷) ۔
دنیاکے تمام مظلوم بلائیں جائیں گے اوران پرظلم کرنے والے حاضرکئے جائیں گے ،حتی کہ آل محمد تشریف لائیں گے اوران پرظلم کے پہاڑتوڑنے والے بلائے جائیں گے حضرت امام علیہ السلام مظلوم کی فریادرسی فرمائیں گے اورظالم کوکیفروکردارتک پہنچائیں گے ۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان تمام امورمیں نگرانی کافریضہ اداکرنے کے لئے جلوہ افروزہوں گے اسی دوران میں حضرت عیسی علیہ السلام اپنی سابقہ ارضی ۲۳ سالہ زندگی میں ۷ سالہ موجودہ ارضی زندگی کااضافہ کرکے چالیس سال کی عمرمیں انتقال کرجائیں گے اور آپ کوروضہ حضرت محمد مصطفی صلعم میں دفن کردیاجائے گا ۔(حاشیہ مشکوة ۴۶۳) ،سراج القلزب ۷۷ ،عجائب القصص ۲۳) اس کے بعدحضرت امام مہدی علیہ السلاکی حکومت کاخاتمہ ہوجائے گا اورحضرت امیرالمومنین نظام کائنات پرحکمرانی کریں گے جس کی طرف قرآن مجید میں ”دابة الارض “ سے اشارہ کیاگیاہے اب رہ گیا یہ کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مدت حکومت کیاہوگی ؟اس کے متعلق سخت اختلاف ہے ارشاد مفید کے ۵۳۳ میں سات سال اور ۵۳۷ میں انیس سال اوراعلام الوری کے ۳۶۵ میں ۱۹ سال ،مشکوة کے ۴۶۲ میں ۷ ، ۸ ، ۹ سال ،نورالابصارکے ۱۵۴ میں ۷ ، ۸ ، ۹ ، ۱۰ سال ۔ غایۃ المقصود جلد ۲ ص ۱۶۲ میں بحوالہ حلےةالاولیا ۷ ، ۸ ، ۹ سال اورینابع المودة شیخ سلیمان قندوزی بلخی کے ۴۳۳ میں بیس سال مرقوم ہے میں نے حالات احادیث ،اقوال علما سے استنباط کرکے بیس سال کوترجیح دی ہے ہوسکتاہے کہ ایک سال دس سال کے برابرہوں (ارشادمفید ۵۳۳ ،نورالابصار ۱۵۵) غرضکہ آپ کی وفات کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کوغسل وکفن دیں گے اورنمازپڑھاکر دفن فرمائیں گے ،جیساکہ علامہ سیدعلی بن عبدالحمیدنے کتاب انوارالمضئیہ میں تحریرفرمایا ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عہدظہورمیں قیامت سے پہلے زندہ ہونے کورجعت کہتے ہیں ۔یہ رجعت ضروریات مذھب امامیہ سے ہے (مجمع البحرین ۴۲۲) اس کامطلب یہ ہے کہ ظہورکے بعد بحکم خداشدیدترین کافراورمنافق اورکامل ترین مومنین حضرت رسول کریم اورآئمہ طاہرین ،بعض انبیا سلف برائے اظہاردولت حق محمدی دنیامیں پلٹ کرآئیں گے۔(تکلیف المکلفین فی اصول الدین ۲۵) اس میں ظالموں کاظلم کابدلہ اورمظلوموں کوانتقام کاموقع دیاجائے گا اوراسلام کواتنافروغ دے دیاجائے گا کہ ”لیظہرہ علی الدین کلہ “ دنیا میں صرف ایک اسلام رہ جائیگا (معارف الملة الناجیہ والناریہ ۳۸۰) امام حسین علیہ السلام کا مکمل بدلہ لیاجائے گا (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۸۴ بحوالہ تفسیرعیاشی ) اوردشمنان آل محمد کوقیامت میں عذاب اکبرسے پہلے رجعت میں عذاب ادنی کامزہ چکھایاجائے گا (حق الیقین ۱۴۷ بحوالہ قرآن مجید) ۔شیطان سرورکائنات کے ہاتھوں سے نہرفرات پرایک عظیم جنگ کے بعد قتل ہوگا ۔آئمہ طاہرین کے ہرعہدحکومت میں اچھے برے زندہ کئے جائیں گے اورحضرت امام مہدی علیہ السلام کے عہدمیں جولوگ زندہ ہوں گے ان کی تعداد چارہزارہوگی (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۷۸) شہداء کوبھی رجعت میں ظاہری زندگی دی جائے گی تاکہ اس کے بعد جوموت آئے اس سے آیت کے حکم ”(
کل نفس ذائقة الموت
)
“ کی تکمیل ہوسکے اورانھیں موت کامزہ نصیب ہوجائے (غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۷۳) اسی رجعت میں بوعدہ قرآنی آل محمد کوحکومت عامہ عالم دی جائے گی ،اورزمین کاکوئی گوشہ ایسانہ ہوگا جس پرآل محمد کی حکومت نہ ہو ،اس کے متعلق قرآن مجید میں : ”(
ان الارض يرثها عبادی الصالحون
)
“ و ”(
نريدان نمن علی الذين استضعفوا فی الارض ونجعلهم الوارثین
)
۔“ موجود ہے (حق الیقین ۱۴۶) ۔
اب رہ گیاکہ یہ کائنات کی ظاہی حکومت ووراثت آل محمد کے پاس کب تک رہے گی ،اس کے متعلق ایک روآیت آٹھ ہزارسال کاحوالہ دے رہی ہے اورپتہ یہ چلتاہے کہ امیرالمومنین ،حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیرنگرانی حکومت کریں گے اوردیگرآئمہ طاہرین ان کے وزرا اورسفرا کی حیثیت سے ممالک عالم میں انتظام وانصرام فرمائیں گے اورایک روآیت میں یہ بھی ہے کہ ہرامام علی الترتیب حکومت کریں گے حق الیقین وغایۃ المقصود ۔حضرت علی کے ظہوراورنظام عالم پرحکمرانی کے متعلق قرآن مجید میں بصراحت موجود ہے ۔ارشادہوتاہے :
”(
اخرجنالهم دابة من الارض
)
۔“(پارہ ۲۰ رکوع ۱ )
علماء فریقین یعنی شیعہ وسنی کااتفاق ہے کہ اس آیت سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔ملاحظہ ہو۔میزان الاعتدال علامہ ذہبی ومعالم التنزیل علامہ بغوی وحق الیقین علامہ مجلسی وتفسیرصافی علامہ محسن فیض کاشانی اس کی طرف توریت میں بھی اشارہ موجودہے ۔(تذکرة المعصومین ۲۴۶) آپ کاکام یہ ہوگا کہ آپ ایسے لوگوں کی تصدیق نہ کریں گے جوخداکے مخالف اوراس کی آیتوں پریقین نہ رکھنے والے ہوں گے وہ صفااورمروہ کے درمیان سے برآمد ہوں گے ،ان کے ہاتھ میں حضرت سلیمان کی انگوٹھی اورحضرت موسی کاعصا ہوگا جب قیامت قریب ہوگی توآپ عصا اورانگشتری سے ہرمومن وکافرکی پیشانی پرنشان لگائیں گے ۔مومن کی پیشانی پر ”هذا مومن حقا
“ اور کافرکی پیشانی پر” ہذا کافرحقا“ تحریرہوجائے گا ۔ملاحظہ ہو(کتاب ارشادالطالبین اخوند درویزہ ۴۰۰ وقیامت نامہ قدوةالمحدثین علامہ رفیع الدین ص ۱۰) علامہ لغوی کتاب مشکوة المصابیح کے ص ۴۶۴ میں تحریرفرماتے ہیں کہ دابة الارض دوپہرکے وقت نکلے گا ،اورجب اس دابة الارض کا عمل درآمد شروع ہوجائے گا توباب توبہ بند ہوجائے گا اوراس وقت کسی کاایمان لانا کارگرنہ ہوگا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی مسجد میں سورہے تھے ،اتنے میں حضرت رسول کریم تشریف لائے ،اورآپ نے فرمایا ”قم یادابة اللہ ۔“ اس کے بعد ایک دن فرمایا : ”یاعلی اذا کان اخرجک الله الخ
۔“ اے علی ! جب دنیاکاآخری زمانہ آئے گا توخداوند عالم تمہیں برآمد کریگا اس وقت تم اپنے دشمنوں کی پیشانیوں پرنشان لگاؤگے ۔ (مجمع البحرین ۱۲۷) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ”علی دابة ا لجنة
“ ہیں لغت میں ہے کہ دابہ کے معنی پیروں سے چلنے پھرنے والے کے ہیں ۔(مجمع البحرین ۱۲۷) ۔
کثیرروایات سے معلوم ہوتاہے کہ آل کی حکمرانی جسے صاحب ارجح المطالب نے بادشاہی لکھاہے اس وقت تک قائم رہے گی جب تک دنیا کے ختم ہونے میں چالیس یوم باقی رہیں گے ۔( ارشادمفید ۱۳۷ ،واعلام الوری ۲۶۵) اس کامطلب یہ ہے کہ وہ چالیس دن کی مدت قبروں سے مردوں کے نکلنے اورقیامت کبری کے لئے ہوگی ۔حشرونشر،حساب وکتاب ،صورپھونکنا اوردیگرلوازمات کبری اسی میں اداہوں گے ۔(اعلام الوری ۲۶۵) اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام لوگوں کوجنت کاپروانہ دیں گے ۔لوگ اس لے کرپل صراط پرسے گزریں گے ۔(صواعق محرقہ علامہ ابن حجرمکی ۷۵) واسعاف الراغبین ۷۵ برحاشیہ نورالابصار) پھرآپ جوض کوثرکی نگرانی کریں گے جو دشمن آل محمدحوض کوثرپرہوگا ،اسے آپ اٹھادیں گے ۔(ارجح ا لمطالب ۷۶۷) پھرآپ لواء الحمد یعنی محمدی جھنڈا لے کرجنت کی طرف چلیں گے ،پیغمبراسلام آگے آگے ہوں گے انبیاء اورشہداء وصالحین اوردیگرآل محمدکے ماننے والے پےچھے ہوں گے ۔(مناقب اخطب خوارزمی قلمی وارجح المطالب ۷۷۴) پھرآپ جنت کے دروازہ پرجائیں گے اوراپنے دوستوں کوبغیرحساب داخل جنت کریں گے اوردشمنوں کوجہنم میں جھونک دیں گے (کتاب شفاقاضی عیاض وصواعق محرقہ) اسی لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر،حضرت عمر حضرت عثمان اوربہت سے اصحاب کوجمع کرکے فرمادیاتھاکہ علی زمین اورآسمان دونوں میں میرے وزیرہیں اگرتم لوگ خداکوراضی کرنا چاہتے ہو توعلی کوراضی کرو،اس لئے کہ علی کی رضا خداکی رضا اورعلی کاغضب خداکا غضب ہے ۔(مودة القربی ص ۵۵ ۔ ۶۲) علی کی محبت کے بارے میں تم سب کوخداکے سامنے جواب دیناپڑے گااورتم علی کی مرضی کے بغیرجنت میں نہ جاسکوگے اورعلی سے کہ دیا کہ تم اورتمہارے شیعہ ”خیرالبریہ “ یعنی خداکی نظرمیں اچھے لوگ ہیں ۔یہ قیامت میں خوش ہوں گے اورتمہارے دشمن ناشاد ونامراد ہوں گے ،ملاحظہ ہو (کنزالعمال جلد ۶ ص ۲۱۸ وتحفہ اثناعشریہ ۶۰۴ تفسیرفتح البیان جلد ۱ ص ۳۲۳) ۔