امام حسین
جس طرح حضرت امام حسن کی ولادت کے متعلق دو قول ہیں ۲ اور ۳ ھ اسی اعتبار سے امام حسین کی ولادت کے متعلق دو قول ہیں ۳ اور ۴ ھ اگر ان کی ولادت ۲ ھ میں ہوئی ہے تو ان کی ۳ میں ہے اور اگر ان کی ولادت ۳ میں ہے تو ان کی ۴ ھ میں ولادت ہوئی ہے۔ اس طرح وفات رسول کے وقت ان کو چھٹا یا ساتواں برس تھا۔
اس دور اور اس کے بعد جناب امیر کے دور میں جو کچھ حسن مجتبیٰ کے بارے میں کہا جا چکا وہ حسین کی سیرت کے ساتھ بالکل متحد ہے اس لئے کہ ایک سال کے فرق سے کوئی فرق احساسات، تاثرات اور ان کے مقتضیات میں نہیں ہوتا۔ جن واقعات سے جتنا وہ متاثر ہو سکتے تھے اتنا ہی یہ اثر لے سکتے تھے۔ وفات رسول کے بعد سے ۲۵ برس کا دور جو امیرالمومنین نے گوشہ نشینی میں گزارا وہ جس طرح ان کے لئے ایک دور ابتلاء تھا ان کے لئے بھی تھا۔ جو جو مناظر ان کے سامنے آ رہے تھے وہ ان کے سامنے بھی بلکہ امام حسن کو تو دنیا نے صرف بحیثیت صلح پسند اور حلیم کے پہچانا ہے۔ اس لئے وہ اس دور میں ان کے امتحان کی عظمت کو بآسانی شاید محسوس نہ کرے مگر حسین کو تو دنیا نے روز عاشور کی روشنی میں دیکھا ہے اور بڑا صاحب غیرت و حمیت، خوددار، گرم مزاج اور اقدام پسند محسوس کیا ہے۔ اس روشنی میں ۲۵ برس کے دور خاموشی پر نظر ڈالئے۔ ظاہر ہے کہ ان کے شباب کی منزلیں وہی تھیں جو حضرت امام حسین کی تھیں۔ ۲۵ سال کی مدت کے اختتام پر وہ ۳۳ برس کے تھے تو یہ بتیس برس کے گویا۔ عمر کے لحاظ سے حسین اس وقت عباس تھے کربلا میں جو ابوالفضل العباس کے شباب کی منزل تھی وہ ۲۵ سال کی گوشہ نشینی کے اختتام پر حسین کے شباب کی منزل تھی۔ اس عمر تک وہ تمام واقعات سامنے آتے ہیں جو اس دور میں پیش آتے رہے۔ اور امام حسین خاموش رہے۔ مصائب و حوادث کے وہ تمام جھونکے آئے اور ان کے سکوت کے سمندر میں تموج پیدا نہ کر سکے۔
ان کے ۲۵ برس حضرت علی کی خاموشی کے ہمدم، وہ حضرت رسول پر مظالم دیکھ رہے تھے جو ان کے مجازی حیثیت سے باپ کی حیثیت رکھتے تھے اور یہ حضرت علی پر مظالم دیکھ رہے تھے جو ان کے حقیقی حیثیت سے باپ تھے جس طرح وہاں کوئی تاریخ نہیں بتاتی کہ کسی ایک دفعہ بھی علی کو جوش آ گیا ہو اور رسول کو علی کے روکنے کی ضرورت پڑی ہو۔ اسی طرح کوئی روایت نہیں بتاتی کہ اس ۲۵ برس کی طویل مدت میں کبھی حسین کو جوش آ گیا ہو اور حضرت علی نے بیٹے کو روکنے کی ضرورت محسوس فرمائی ہو یا سمجھانے کی کہ یہ نہ کرو۔ اس سے ہمارے مقصد یا اصول کو نقصان پہنچے گا۔
اس کے بعد وہ وقت آیا کہ جب حضرت علی نے میدان جہاد میں قدم رکھا۔ تو اب جہاں حسن تھے وہیں حسین بھی تھے۔ وہ باپ کے داہنی طرف تو یہ بائیں طرف۔ ہر معرکہ میں عملی حیثیت سے شریک ہیں۔ اس کے بعد جب صلح نامہ لکھا گیا تو جہاں بڑے بھائی کے دستخط وہیں چھوٹے بھائی کے دستخط۔ جناب امیر کی شہادت کے بعد اسی طرح یہ حضرت امام حسن کے ساتھ ہیں جہاد میں بھی اور صلح میں بھی۔ ابو حنیفہ دنیوری نے الاخبار الطوال میں لکھا ہے کہ صلح کے بعد دو شخص امام حسن کے پاس آئے۔ یہ جذباتی قسم کے دوست تھے صحیح معرفت نہ رکھتے تھے انہوں نے سلام کیا:
اسلام علیک یامذلَ الموٴمنین
"اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے آپ کو سلام ہو۔"
یہ بخیالِ خود مومنین ہیں جن کا یہ اخلاق ہے اور یہ ان کا بلند اخلاق ہے کہ ایسے الفاظ کے ساتھ جو سلام ہو اس کا بھی جواب دینا لازم سمجھتے ہیں۔ اور ملائمت کے ساتھ فرماتے ہیں۔
لست مذلّھم بل معذّھم میں نے مومنین کو ذلیل نہیں کیا بلکہ ان کی عزت رکھلی، اس کے بعد مختصر طور پر انہیں صلح کے مصالح سمجھائے جس پر وہ خاموش سے ہو گئے اور اب وہ اٹھ کر امام حسین کے پاس آئے اور خود ہی یہ واقعہ پیش کیا کہ ہم سے امام حسن سے یہ گفتگو ہوئی ہے۔ آپ نے امام حسن کا جواب سننے کے بعد فرمایا: صدق ابو محمّد یعنی حضرت امام حسن نے بالکل سچ فرمایا۔ صورت حال یہی تھی اور اس کا تقاضا اسی طرح تھا۔
بعض سورما قسم کے آدمی آئے اور انہوں نے کہا: آپ حسن مجتبیٰ کو چھوڑیئے، وہ صلح کے اصول پر برقرار رہیں مگر آپ اٹھئے ہم آپ کے ساتھ ہیں اچانک حکومت شام پر ہلہ بول دیں۔ امام حسین نے فرمایا: غلط بالکل غلط۔ ہم نے ایک معاہدہ کر لیا ہے اور اب ہم پر اس کا احترام لازم ہے۔ ہاں اسی وقت حضرت نے یہ کہہ دیا کہ تم میں سے ہر ایک کو اس وقت تک بالکل چپ چاپ بیٹھا رہنا چاہئے جب تک یہ شخص یعنی معاویہ زندہ ہے۔ یہ آپ کا تدبر تھا۔ آپ جانتے تھے کہ معاویہ کی طرف سے آخر میں اور شرائط کے ساتھ اس شرط کی خلاف ورزی ہو گی کہ انہیں اپنے بعد کسی کو نامزد نہ کرنا چاہئے۔ اس وقت ہمیں اٹھنے کا موقع ہو گا۔
اب کون کہہ سکتا ہے کہ حسن کی صلح کے بعد حسین کی جنگ کسی پالیسی کی تبدیلی، ندامت و پشیمانی یا اختلاف رائے و مسلک کا نتیجہ تھی؟ ۲۰ سال پہلے کہا جا رہا ہے کہ ہمیں اس وقت تک خاموش رہنا چاہئے جب تک معاویہ زندہ ہے اس سے ظاہر ہے کہ ۲۰ برس کی طویل راہ کے تمام سنگ میل نظر کے سامنے ہیں اور پورا لائحہ عمل پہلے سے بنا ہوا ہے مرتب ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ طویل سکوت بھی اسی معاہدہ کے تحت ضروری ہے اور اس وقت کے اقدام کا بھی اسی معاہدہ کے ماتحت حق ہو گا۔ کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک ہے کہ حسن مجتبیٰ کی صلح حسین بن علی جنگ کی ایک تمہید ہی تھی۔ اور کچھ نہیں۔
۴۱ ھ میں یہ صلح ہوئی اور ۶۰ ھ میں معاویہ نے انتقال کیا اس بیس سال کی طولانی مدت میں کیا کیا ناسازگار حالات پیش آئے اور اعمال حکومت نے کیا کیا تکلیفیں پہنچائیں مگر ان تمام حالات کے باوجود جس طرح رسول کے ساتھ علی مکہ کی تیرہ برس کی زندگی میں جس طرح حضرت علی کے ساتھ حسن مجتبیٰ اور خود حسین ۲۵ برس کی گوشہ نشینی کے دور میں، اسی طرح حضرت امام حسن کے ساتھ امام حسین دس برس کے ان کے دور حیات میں جو صلح کے بعد تھا حالانکہ اس زمانہ کے حالات کو وہ کن عمیق قلبی تاثرات کے ساتھ دیکھتے تھے ان کا اندازہ خود ان کے اس فقرے سے ہوتا ہے جو انہوں نے حضرت امام حسن کے جنارے پر مردان سے کہا تھا۔ جب مردان نے وفات حسن پر اظہار افسوس کیا تو امام حسین نے فرمایا کہ اب رنج و افسوس کر رہے ہو اور زندگی میں ان کو غم و غصہ کے گھونٹ تم پلاتے تھے جو کہ یاد ہیں مردان نے جواب دیا بے شک! وہ ایسے کے ساتھ تھا جو اس پہاڑ سے زیادہ متحمل اور پرسکون تھا۔
یہ تعریف اس وقت مروان امام حسن کی کر رہا تھا جو دنیا سے اٹھ چکے تھے مگر کیا اس تعریف میں خود حسین بھی حصہ نہ رکھتے تھے؟ کیا اس طویل مدت میں انہوں نے کوئی جنبش کی جو حسن مجتبیٰ کے سکون کے مسلک کے خلاف ہوتی؟ پھر امام حسن کے جنازے کے ساتھ جو ناگوار صورت پیش آئی وہ روضہ رسول پر دفن سے روکا جانا۔ وہ تیروں کا برسایا جانا۔ یہاں تک کچھ تیروں کا جسدِ امام حسن تک پہنچنا۔ یہ صبرآزما حالات اور ان سب کو امام حسین کا برداشت کرنا۔
کوئی شاید کہے کہ حسین کیا کرتے؟ بے بس تھے مگر کیا کربلا میں حسین کو دیکھنے کے بعد وہ یہ کہنے کا حق رکھتا ہے؟ کربلا میں تو سامنے کم از کم ۳۰ ہزار تھے اور جنازہ حسن پر سدراہ ہونے والی جماعت زیادہ سے زیادہ کئی سو ہو گی۔ حسین کے ساتھ عباس بھی موجود ہیں جو اس وقت ۲۲ برس کے مکمل جوان تھے جناب محمد حنیفہ بھی موجود تھے جن کی شجاعت کا تجربہ دنیا کو حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھ جمل اور صفین میں ہو چکا تھا۔ مسلم بن عقیل بھی موجود تھے جنہیں بعد میں پورے کوفہ کے مقابلہ میں تن تنہا حسین نے بھیج دیا اور انہوں نے اکیلے وہ بے نظیر شجاعت دکھائی جو تاریخ میں یادگار ہے۔
علی اکبر بھی بنا برقول قوی اس وقت ۱۵ برس کے تھے جو کربلا کے قاسم سے زیادہ عمر رکھتے تھے اور تمام بنی ہاشم موجود تھے۔ پھر کچھ تو آلِ رسول کے وفادار غلام تھے اور دوسرے اعوان و انصار بھی موجود ہی تھے اس صورت حال میں حضرت امام حسین کے عمل کو بے بسی کا نتیجہ سمجھنا کہاں درست ہو سکتا ہے۔
مگر حسین خاموش رہتے ہیں اور ان سب کو خاموشی پر مجبور رکھتے ہیں امام حسن کا جنازہ واپس لے جاتے ہیں جنة البقیع میں دفن کر دیتے ہیں اور اس کے بعد دس برس حسنی صلح کے مسلک پر خاموشی کے ساتھ گزار دیتے ہیں اور اس طرح یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ بڑے بھائی کا دباؤ یا مروت اور احترم کا تقاضا نہ تھا بلکہ مفاد اسلامی کا لحاظ تھا جس کے وہ بھی محافظ تھے اور اب یہ اس کے محافظ ہیں۔
اور ادھر حکومت شام کی طرف سے اس تمام مدت میں ہر ہر شرط کی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔ چن چن کے دوستانِ علی کو قتل کیا جا رہا تھا اور جلاوطن کیا جا رہا تھا۔ کیسے کیسے افراد؟ حجر بن عدی اور ان کے ۱۶ ساتھی۔ یہ دمشق کے باہر مرج عذراء میں سولی چڑھا دیئے جاتے ہیں۔
حافظ ابن حجر عقلانی لکھاتے ہیں کہ یہ حجر بن عدی فضلائے صحابہ میں سے تھے۔ مسائل فقہیہ میں ان کے فتاوےٰ جمع کئے جائیں تو ایک جزو کا رسالہ ہو جائے۔ مگر علی کے دوست تھے اس لئے ان کی صحابیت بھی کام نہ آ سکی۔ کوفہ سے قید کرکے دمشق بلوائے گئے۔ حاکم شام نے اپنے دربار میں بلا کر ان سے پوچھ گچھ یا صفائی پیش کرنے کا موقع بھی دینا پسند نہ کیا۔ حکم ہو گیا کہ بیرون شہر ہی روک دیئے جائیں اور وہیں سولی دے دی جائے۔ ان کی شہادت کی خبر اتنی دردناک تھی کہ عبداللہ بن عمر نے اس کا ذکر سنا تو چیخیں مار کر رونے لگے۔ ام المومنین عائشہ کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے کہا۔ آخر معاویہ خدا کو کیا جواب دے گا، کہ ایسے ایسے نیکوکار مسلمانوں کا خون کر رہا ہے۔
عمرو بن الحمق الخزاعی وہ بزرگوار تھے جنہیں پیغمبر خدا نے غائبانہ طور پر اپنے سلام سے سرفراز کیا تھا ان کا سر کاٹ کر نوک نیزہ پر بلند کیا گیا۔ یہ سب سے پہلا سر تھا جو اسلا م میں نیزہ پر بلند ہوا۔
ان حوادث سے عبداللہ بن عمر اور عائشہ بنت ابی بکر ایسے لوگ اس قدر متاثر تھے تو حسین بن علی جن کے والد بزرگوار کی محبت کی پاداش ہی میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا جتنا بھی متاثر ہوتے کم تھا۔
پھر حضرت امام حسن کے دس سال تک سکوت اور عدم تعرض کی جو قیمت ان کو ملی یعنی زہر قاتل اور کلیجے کے بہتر ٹکڑے اور پھر ان کی وفات پر دمشق کے قصر سے اظہار مسرت میں اللہ اکبر کی بلند آوازان سب باتوں کے بعد حضرت امام حسین کی خاموشی۔ کیا کسی میں ہمت ہے جو اس وقت کے حسین پر جنگجوئی کا الزام عائد کر سکے؟
اب اس کے بعد وہ ہنگام آیا جسے امام حسین کی آنکھیں بیس برس پہلے دیکھ رہی تھیں یعنی حاکم شام نے اپنے بیٹے یزید کی خلافت کی داغ بیل ڈال دی اور اس کے لئے عالم اسلام کا دورہ کیا۔
اب امام حسین کے لئے وہ شاہراہ سامنے آ گئی جو انکارِ بیعت سے شروع ہوئی اور آخر تک انکارِ بیعت ہی کی شکل میں قائم رہی۔
پھر اس انکارِ بیعت کو کیا کوئی وقتی، جذباتی فیصلہ یا ہنگامی جوش کا نتیجہ سمجھایا جا سکتا ہے؟
یاد رکھنا چاہئے کہ انکارِ بیعت تو ابھی تک کبھی قانونی جرم قرار بھی نہ پایا تھا۔ خلافت ثلٰثہ میں بہت سوں نے بیعت نہیں کی۔ حضرت علی کے دور میں عبداللہ بن عمر نے بیعت نہیں کی اسامہ بن زید نے بیعت نہیں کی سعد بن ابی وقاص نے بیعت نہیں کی۔ حسان بن ثابت نے بیعت نہیں کی۔ مگر ان بیعت نہ کرنے والوں کو واجب القتل نہیں سمجھا گیا۔
امام حسین نے بیعت نہ کرکے اپنے کو حمایتِ باطل سے الگ کیا بس۔ اس کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کیا۔ مگر معاویہ کے بعد جب یزید برسراقتدار آیا تو اس نے پہلا ہی حکم اپنے گورنر ولید کو یہ بھیجا کہ حسین سے بیعت لو اور بیعت نہ کریں تو ان کا سر قلم کرکے بھیج دو۔ یہ تشدد کا آغاز کدھر سے ہو رہا ہے؟ حاکم مدینہ کو اس حکم کی تعمیل کی ہمت نہ ہوئی تو اسے معزول کی اگیا۔ امام حسین کو اگر تشدد سے کام لینا ہوتا تو آپ ہلاکت معاویہ کی خبر ملتے ہی مدینہ کے تخت و تاج پر قبضہ کر لیتے جو اس وقت ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ اس کے بعد کم از کم عالم اسلام تقسیم تو ہو ہی جاتا مگر آپ ایسا نہیں کرتے بلکہ جا کر مکہ میں پناہ لینے کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں کسی کی جان لینا نہیں ہے اپنی جان بچانا منظور ہے۔ یہ "ہم وجودی" کا عملی پیغام ہے۔
بظاہر اسباب اگر یہاں قیام کا ارادہ مستقل نہ ہوتا تو احرام حج کیوں باندھتے؟ احرام باندھنا خود نیت حج کی دلیل ہے اور نیت کے بعد بلاوجہ حج توڑنا جائز نہیں۔ حضرت امام حسین سے بڑھ کر مسائل شریعت سے کون واقف ہو گا اور یہ ان کا مخالف بھی خیال نہیں کر سکتا کہ وہ جان بوجھ کر حکم شریعت کی معاذ اللہ مخالفت کریں گے اور وہ بھی کب؟ جب کہ حج کو صرف ایک دن باقی ہے۔
وہ جن کاذوق حج یہ تھا کہ مدینہ سے آ آ کر ۲۵ حج پا پیادہ کر چکے ہیں اب مکہ میں موجود ہوتے ہوئے حج کو عمرہ سے تبدیل فرما دیتے اور مکہ سے روانہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرز عمل سے خود ظاہر ہے کہ اس کا سبب غیرمعمولی اور ہنگامی ہے۔ چنانچہ ہر ایک پوچھ رہا تھا اور بڑی وحشت اور پریشانی کے ساتھ! آئیں! آپ اس وقت مکہ چھوڑ رہے ہیں؟"
یہ ہر سوال امام کے دل پر ایک نشتر تھا۔ ہر ایک سے کہاں تک بتلاتے۔ کسی کسی سے کہہ دیا کہ نہ نکلتا تو وہیں قتل کر دیا جاتا اور میری وجہ سے حرمت خانہ کعبہ ضائع ہو جاتی۔
مکہ میں آنا بھی خطرہ کو حتی الامکان ٹالنا تھا اور اب مکہ سے جانا بھی یہی ہے اب آپ کوفہ تشریف لئے جا رہے ہیں۔ جہاں کے لوگوں نے آپ کو اپنی ہدایت دینی اور اصلاحِ اخلاقی کے لئے دعوت دی ہے مگر بیچ میں فوج حر آ کر سد راہ ہوتی ہے اب آپ پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ اس پوری فوج کو جو پیاسی ہے سیراب کر دیتے ہیں۔ یہ فیاضی بھی جنگجویانہ انداز سے بالکل الگ ہے اس کے بعد وہ موقع آیا کہ نہر پر خیموں کے برپا کرنے کو روکا گیا اس وقت اصحاب کی تیوریوں پر بل تھے مگر امام نے فرمایا کہ مجھے جنگ میں ابتداء کرنا نہیں ہے۔ ریت ہی پر خیمے برپا کر دو۔ یہ نفس پر جبر اور حلم و تحمل وہ کر رہا ہے جسے بالآخر جان پر کھیل جانا اور اپنا پورا گھر قربان کر دینا ہے مگر وہ اس وقت ہو گا جب اس کا وقت آئے گا اور یہ اس وقت ہے جب اس کا وقت ہے۔
پھر عمر سعد کربلا میں پہنچتا ہے تو آپ خود اس کے پاس گفتگوئے صلح کے لئے ملاقات کا پیغام بھیجتے ہیں۔ ملاقات ہوتی ہے تو شرطیں ایسی پیش فرماتے ہیں کہ ابن سعد خود اپنے حاکم عبیداللہ بن زیاد کو لکھتا ہے کہ فتنہ و افتراق کی آگ فرو ہو گئی۔ اور امن و سکون میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ حسین ملک چھوڑنے تک کے لئے تیار ہیں اس کے بعد خونریزی کی کوئی وجہ نہیں۔
اب یہ تو فریق مخالف ک اعمل ہے کہ اس نے ایسے صلح پسندانہ رویہ کی قدر نہ کی اور صلح کے لئے بڑھے ہوئے ہاتھ کو جھٹک کر پیچھے ہٹا دیا لیکن اس شرط پر حکومت مخالف راضی ہو گئی ہوتی۔ پھر حضرت امام حسن اور امام حسین کی افتادِ طبع میں کسی اختلاف کا تصور کرنے والوں کے تصورات کی کیا بنیاد باقی رہ سکتی تھی اور صورت حال کے سمجھنے کے بعد اب بھی یہ تصورات تو غلط ثابت ہو ہی گئے مگر وہ ابن زیاد کی تنگ ظرفی فرعونیت اور یزید کے منشاء کی تکمیل تھی کہ اس نے حضرت امام حسین پر صلح و امن کے سب راستوں کو بند کر دیا۔
پھر بھی جب نویں تاریخ کی سہ پہر کو حملہ ہو گیا تو حضرت نے ایک رات کی مہلت لے لی۔ جسے جنگ کرنا ہی مطلوب تھا وہ التوائے جنگ کی درخواست کیوں کرتا، مگر اس ایک رات کی مہلت کو حاصل کرکے بھی آپ نے اپنی امن پسندی کا ثبوت دیا اور دکھلا دیا کہ جنگ تو مجھ پر خواہ مخواہ عائد کی جا رہی ہے۔ میں جنگ کا اپنی طرف سے شوق نہیں رکھتا ہوں۔
پھر صبح عاشور کوئی وقیقہ موعظہ و نصیحت اور اتمام حجت کا اٹھا نہیں رکھا۔ خطبہ جو پڑھا وہ اونٹ پر سوار ہو کر اس لئے کہ وہ ہنگام امن کی سواری ہے گھوڑے پر نہیں سوار ہوئے جو جنگ کے ہنگام کا مرکب ہوتا ہے۔
باوجودیکہ خطبہ کے جو جواب ملے وہ دل شکن تھے مگر اس کے بعد بھی آپ نے اس کا انتظار کیا کہ فوج دشمن کی طرف سے ابتداء ہو او جب پہلا تیر عمر سعد نے چلہ کمان میں جوڑ کر اپنی فوج سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ کہہ کے لگایا کہ "گواہ رہنا پہلا تیر فوج حسینی کی طرف میں رہا کر رہا ہوں۔" اور اس کے بعد چار ہزار تیر کمانوں سے روانہ ہو گئے اور جماعت حسینی کی طرف آ گئے۔ اس وقت مجبور ہو کر امام نے اذن جہاد دیا۔ اور اس کے بعد بھی خود اس وقت تک جہاد کے لئے تلوار نیام سے نہیں نکالی جب تک آپ کی ذات میں انحصار نہیں ہو گیا۔ جب تک ایک بھی باقی رہا آپ نے شمشیرزنی نہیں کی۔ اور اس طرح پیغمبر کے کردار کی تفسیر کر دی جب کوئی نہ رہا اس وقت تلوار کھینچی اور یہ ایسا وقت تھا جب کسی دوسرے میں دم نہ ہوتا کہ وہ جنبش بھی کر سکتا۔ تین دن کی بھوک پیاس اور اس پر صبح سے سہ پہر تک کی تمازتِ آفتاب میں شہداء کے لاشوں پر جانا اور پھر خیمہ گاہ تک پلٹنا اور پھر بہتر کے داغ عزیزوں کے صدمے اور ان کی لاشوں کا اٹھانا۔ جوان بیٹے کا بصارت لے جانا اور بھائی کا کمر توڑ جانا۔ اور اپنے ہاتھوں پر ایک بے شیر کو دم توڑتے میں سنبھالنا اور نوک شمشیر سے ابھی ابھی اس کی قبر بنا کر اٹھنااب اس عالم میں جذباتِ نفس کا تقاضا تو یہ ہے کہ آدمی خاموشی سے تلواروں کے سامنے اپنا سر بڑھا دے اور خنجر کے آگے گلا رکھ دے مگر حسین اسلامی تعلیم کے محافظ تھے ظلم کے سامنے سپردگی آئین شریعت کے خلاف ہے۔ حسین نے اب فریضہ دفاع کی انجام دہی اور دشمنانِ خدا کے مقابلہ کے لئے تلوار اٹھائی اور وہ جہاد کیا جس نے بھولی ہوئی دنیا کو حیدر صفدر کی شجاعت یاد دلا دی اور اس طرح دکھا دیا کہ ہمارے اعمال و افعال، جذبات نفس اور طبیعت کے تقاضوں کے ماتحت نہیں بلکہ فرائض و واجبات کی تکمیل اور احکام ربانی کی انجام دہی کے ماتحت ہوتے ہیں۔ چاہے طبعی تقاضے اس کے کتنے ہی خلاف ہوں۔
یہی انسانیت کی وہ معراج ہے جس کی نشاندہی حضرت امام حسین کے اسلاف کرتے رہے او روہی آج حسین کے کردار میں انتہائی تابانی کے ساتھ نمایاں ہیں۔
بقیہ معصُومین کی سِیرت
خمسہ نجباء یعنی پنجتن پاک کے کردار میں انسانی رفعت کا نمونہ سامنے آ چکا مگر اسلام صرف پچاس ساٹھ برس کے لئے نہ تھا وہ تو قیامت تک کے لئے تھا اور قیامت تک کتنے زندگی کے دوراہے آنے والے ہیں جن کے مثال اس مختصر مدت کے اندر درپیش نہیں ہوئے تھے۔ اس لئے چودہ معصومین کی ضرورت ہوئی اور انہیں اتنے عرصہ تک آنکھوں کے سامنے رکھا گیا جتنے عرصہ میں انقلابات کا وہ ایک پورا دور پورا ہو جائے جس کے بعد تاریخ پھر اپنے آ پ کو دہراتی ہے اور جس میں ہِر پھر کر وہی صورتیں پیدا ہوتی ہیں جو ذرا بدلی ہوئی شکل میں اصل حقیقت کے لحاظ سے پہلے کی قائم شدہ نظیروں میں سے کسی ایک کے مطابق ہیں اس طرح زندگی کے ہر دوراہے پر ان معصومین میں سے کسی نہ کسی ایک کی مثال رہنمائی کے لئے موجودگی اور یوں سمجھنا چاہئے کہ ان تمام معصومین کے کردار سے مل جل کر جس ایک مزاج کی تشکیل ہو گی وہ انسانی کردار کا ہمہ گیر مکمل دستور العمل ہو گا۔
سیرتِ ائمہ کے ہمہ گیر پہلو:
حضرت امام حسین کے بعد ۹ معصومین کی زندگی میں چند اقدار مشترک ہیں۔ ایک یہ کہ پھر اس دور میں کسی خونریز اقدام کی ضرورت محسوس نہ کی گئی اور امن و خاموشی کو ہر حال میں مقدم رکھا گیا اور اب ان اقدار کے تحفظ کے لئے جو واقعہ کربلا نے ذہن بشر کے لئے قائم کر دیئے تھے اس واقعہ کی یاد کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی تفصیل کے لئے ہمارا رسالہ "عزائے حسین پر تاریخی تبصرہ ۔" دیکھنے کے قابل ہے اور جس کا کامیاب نتیجہ عزاداری کے قیام و بقا کی شکل میں ہر شخص کے مشاہدہ میں ہے۔
دوسرے اپنی زندگی کی اس خاموش فضا کو انہوں نے معارف و تعلیماتِ اسلامی کی اشاعت کے لئے وقف رکھا اور تاریخ کے سردگرم حالات کے ساتھ اپنے امکانات کے مدارج کو فعلیت کی منزل میں لاتے رہے جس کا حیرت انگیز نمونہ یہ سامنے ہے کہ سلطنت و اقتدار کی بے پناہ پشت پناہی کے ساتھ اکثریت کے محدثین و فقہا کی مجموعی طاقت کا فراہم کردہ جتنا ذخیرہ احادیث صحاح ستہ کی شکل میں موجود ہے اس سے زیادہ جبر و قہر کے شکنجوں میں گھرے ہوئے ان ائمہ اہل بیت علیہم اسلام کی بدولت کتبِ اربعہ کی شکل میں ملتِ جعفریہ کے ہاتھوں میں موجود ہے جس کا موازنہ کرنے پر بالکل وہ نمونہ سامنے آتا ہے کہ جیسے قرآن مجید کے پہلے تعلیمات انبیاء کے جو مسخ شدہ مجموعے کتب سماوی کے نام سے موجود تھے ان کے ہوتے ہوئے قرآن نے آ کر یہ کام کیا کہ جو اصل حقائق ان کتب کے تھے ان کو خالص شکل میں محفوظ کر دیا اور جو مہملات و مزخرفات شان انبیاء کے خلاف ان میں حارج سے کر دیئے گئے تھے ان سب کو دور کرکے حقانیت انبیاء کی شان کو نکھار دیا۔ اسی طرح سوادِ اعظم کے متداول احادیث کے ذخیرہ میں جتنی اصلیتیں تھیں ان کو آلِ محمد علیہم اسلام نے اپنے صداقت ریز بیانات کے ساتھ محفوظ و مستحکم بنا دیا اور ان کے ساتھ سلطنتِ وقت کے کاسہ لیس اور یاوہ گو راویوں نے جو ہزاروں اس طرح کی باتیں شامل کر دی تھیں جن سے شان رسالت بلکہ شان الوہیت تک صدمہ پہنچتا تھا ان سب کا قلع قمع کرکے دامن اوہیت وسالت کو بے داغ ثابت کر دیا۔ اور خالص حقائق و تعلیمات اسلامیہ کو منضبط کر دیا۔ اس طرح جیسے کتب سماوی میں قرآن بحسب ارشاد ربانی مہیمن علی الکل ہے اسی طرح سلسلہ احادیث میں یہ ائمہ معصومین علیہم اسلام کے ذریعہ سے پہنچا ہوا ذخیرہ ہے جو حقائق اسلامیہ پر مہیمن کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کے اس کارنامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس لئے ان کو ثقلین کا جزو بنا کر قرآن کے ساتھ امت اسلامیہ کے اندر چھوڑا گیا اور ارشاد ہوا تھا کہ: ما ان تمسّکتم بھما لن تضّلو بعدی "جب تک ان دونوں سے تمسّک رکھو گے گمراہ نہ ہو گے۔"
فقہ میں یہ حقیقت ہے کہ سوادِ اعظم نے قیاس کے وسیع احاطہ میں قدم رکھنے کے باوجود جس معیار تک اس فن کو پہنچایا فقہائے اہل بیت نے تعلیمات ائمہ کی روشنی میں قیاس سے کنارہ کشی کرنے اور قرآن و حدیث سے استناباطات کے تنگنائے میں اپنے کو مقید رکھنے کے باوجود اس سے بدرجہ بالاتر نقطہ تک اس فن کو پہنچا دیا۔ جس پر انتصار نہایہ اور مبسوط اور پھر تذکرة الفقہاء اور مختلف الشیعہ سے لے کر حدائق اور جواہر اور فقہ آقا رضا ہمدانی تک ایسی بسیط کتابیں گواہ ہیں جن کا عشر عشیر بھی سوادِ اعظم کے پاس موجود نہیں ہے۔
تیسرے اس سو ڈیڑھ سو برس کی مدت میں امت اسلامیہ کے اندر کتنے انقلابات آئے حالات نے کتنی کروٹیں بدلیں۔ ہواؤں کی رفتار کتنی مختلف ہوئی مگر ان معصومین کے اخلاق و کردار میں جو تعلیمات و اخلاقِ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے ذرہ بھر تبدیلی نہیں ہوئی۔ نہ اپنے منہاج نظر کو بدلا اور نہ امن پسندی کے رویہ میں جسے اب مستقل طور پر سکوت و سکون کی شکل میں اختیار کر لیا تھا ذرہ بھر تبدیلی ہوئی۔ ان دونوں باتوں کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک ہستی کو ان کے دور کی حکومت نے اپنا حریف ہی سمجھا۔ اس لئے ان سے کسی حکومت نے بھی غیرمعترضانہ حیثیت اختیار نہیں کی۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ وہ دنیاوی حکومت کے مقابل اس محاذ کے جو حضرت علی بن ابی طالب، حضرت حسن مجتبیٰ اور حضرت امام حسین کی نگہبانی میں قائم رہا تھا، برابر محافظ رہے اور اسی لئے باطل حکومت انہیں اپنا حریف سمجھتی رہی۔ مگر کبھی حکومت کو ان کے خلاف کسی امن شکنی کے الزام کو ثابت کرنے کا موقع نہیں مل سکا اس لئے قید کیا گیا تو اندیشہ نقص امن کی بنا پر اور زندگی کا خاتمہ کیا گیا تو زہر سے جس کے ساتھ حکومت وقت کو اپنی صفائی پیش کرنے کا امکان باقی رہے۔
یہ تمام معصومین کی زندگی اور موت کی مشترک کیفیت بتلاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا طرزِ عمل ایک واحد نظام کا جز تھا جس کے قیام کے مجموعی حیثیت سے وہ سب ذمہ دار تھے۔
چوتھے اس وقت جب کہ علم، تقویٰ، عبادت وریاضت اور روحانیت ہر ایک کی ایک قیمت مقرر ہو چکی تھی اور ان سب جنسوں کا بازار سلطنت میں بیوپار ہو رہا تھا، یہ ہستیاں وہ تھیں جنہوں نے اپنے خداداد جوہروں کو دینوی قیمتوں سے بالاتر ثابت کیا۔ نہ اپنا کردار بدلا اور نہ اپنے کردار کو حکومت وقت کے غلط مقاصد کا آلہ کار بنایا۔ نہ حکومتوں کے خلاف کھڑی ہونے والی جماعتوں کے معاون بنے اور نہ حکومتوں کے ناجائز منصوبوں کے مددگار ہوئے۔ حالانکہ حکومتوں نے ان ہر داؤں کو آزمایا۔ مصیبتوں میں بھی مبتلا کیا اور اقتدارِ دنیا کی طمع کے ساتھ بھی آزمائش کی۔ مگر ان کا کردار ہمیشہ منفرد رہا۔ اور اموی و عباسی کسرویت و قیصریت کے زیرسایہ پروان چڑھی ہوئی دنیا کے ماحول کے اندر وہ علیحدہ صحیح اخلاق اسلامی کا نمونہ پیش کرتے رہے۔ یہ ان کا خاموش عمل ہی وہ مستقل جہاد حیات تھا جو وہ بتقاضائے خلافت الٰہیہ مستقل طو رپر انجام دیتے رہے۔
پانچویں۔ اگرچہ ان بزرگواروں کی عمریں مختلف ہوئیں۔ ایک طرف حضرت امام جعفر صادق ہیں جو تقریباً ستر برس اس دارِ دنیا میں رہے دوسری طرف حضرت امام محمد تقی ہیں جو ۲۵ برس سے زیادہ اس دارِ فانی میں زندہ نہیں رہے۔ اور پھر برسراقتدار امامت آنے کے موقع پر عمروں کا اختلاف یعنی جب سابق امام کی وفات ہوئی اور بعد کے امام کی امامت تسلیم ہوئی اس وقت ایک طرف حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق ہیں جن کی عمر اپنے والد بزرگوار کی وفات کے وقت ۳۴ ۔ ۳۵ برس تھی اور دوسری طرف حضرت امام محمد تقی اور امام علی نقی ہیں جن کی عمریں زیادہ سے زیادہ آٹھ نو برس تھیں مگر عالم اسلامی کا بیان متفق ہے کہ ہر ایک بزرگ اپنے دور میں عبادت، زہد، ورع، تقویٰ، ریاضت نفس، فیض و کرم تمام اخلاق میں مثالی زندگی کے مالک رہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے افعال نفسانی جذبات اور طبیعت کے تقاضوں کی بنا پر نہیں ہیں جن میں عمر کا فرق اثر انداز ہوتا ہے بلکہ وہ سب اسی للہیت اور احساس فرائض کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جو انسانی کردار کی معراج ہے۔
اب فرداً فرداً ہر امام کے حالات میں ان کے زمانہ کی کیفیات کے انفرادی خصوصیات کے ساتھ ان مشترکہ اقدار کی نشاندہی کی جاتی ہے جن کا مجمل حیثیت سے ابھی تذکرہ کیا گیا ہے۔
حضرت امام زین العابدین
آپ کا دور کربلا کے تاریخی کارنامہ اور شہادت امام حسین کے بعد شروع ہوا ہے۔ یہ زمانہ وہ تھا جب مظالم کربلا کے ردعمل میں مسلمانوں کی آنکھیں کھل رہی تھیں۔ کچھ مخلص افراد سچے جذبہ عقیدت کے ساتھ بنی امیہ کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے۔ اور کچھ نے سیاسی طور پر اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے حصول اقتدار کا اسے ذریعہ بنایا تھا۔ اس وقت عام انسانی جذبات کے لحاظ سے اندازہ کیجئے کہ ایک وہ ہستی جس نے کربلا کے بہتر لاشے زمین پر گرم دیکھے ہوں اور یزید کے ہاتھوں خود وہ مظالم اٹھائے ہوں۔ جو کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کے پورے المیہ میں مضمر ہیں اسے ہر اس کوشش کے ساتھ جو سلطنت بنی امیہ کے خلاف ہو رہی ہو کتنی قلبی وابستگی ہونا چاہئے اور اس وابستگی کے ساتھ بڑی مشکل بات ہے کہ وہ عواقب پر نظر کر سکے۔ ایسے موقعوں پر عام جذبات کا تقاضا تو یہ ہے کہ چاہے حب علی کے جذبہ میں کچھ کوششیں نہ ہوں صرف بعض معاویہ میں ہوں مگر ایسی کوششوں کے ساتھ بھی آدمی منسلک ہو جاتا ہے۔ فقط اس لئے کہ ہمارے مشترک دشمن کے خلاف ہیں خصوصاً جب کہ اس میں کامیابی کے آثار بھی نظر آ رہے ہوں جیسے عبداللہ بن زہیر جنہوں نے حجاز میں اتنا مکمل تسلط حاصل کر لیا تھا کہ جمہوری نظریہ خلافت کے بہت سے علماء قہر و غلبہ کی بنا پر ان کی باضابطہ خلافت کے قائل ہیں۔ جس کی تصدیق حفاظ سیوطی کی تاریخ الخلفاء سے ہو سکتی ہے۔ یا اہل مدینہ کی منظم کوشش جس نے عمال یزید کو وقتی طور سے سہی نکل جانے پر مجبور کر دیا تھا مگر ایسی حالت میں جب کہ جناب محمد بن حنفیہ کی وابستگی ان تحریکوں سے کسی حد تک نمایاں ہو سکی، امام زین العابدین کا کردار ان تمام مواقع پر اس طرح علیحدگی کا رہا کہ آپ کو ان تحریکوں سے کبھی وابستہ نہیں کیا جا سکا۔
یہ علیحدگی ہی بڑے ضبطِ نفس کا کارنامہ ہے چہ جائیکہ آپ نے اس موقع پر مصیبت زدوں کے پناہ دینے کی خدمت اپنے ذمہ رکھی۔ چنانچہ مروان ایسے دشمن اہل بیت کو جب جان بچا کر بھاگنے کی ضرورت پیش ہوئی تو اپنے اہل و عیال اور سامان و اموال کی حفاظت کے لئے اگر کسی جائے پناہ پر اس کی نظر پڑی تو وہ صرف حضرت امام زین العابدین تھے۔ اس کردار کا یہ نتیجہ تھا کہ جب پھر فوج یزید نے یورش کی مدینہ میں قتل عام کیا جو واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے تو آپ کے لئے ممکن ہوا کہ آپ مظلومین مدینہ میں سے بھی چار سو بے بس خواتین کو اپنی پناہ میں لے سکیں اور محاصرہ کے زمانہ میں آپ ان کے کفیل رہیں۔
آپ کا مروان کو پناہ دینا بتا رہا تھا کہ آپ انہی علی بن ابی طالب کی روایات کے حامل ہیں جنہوں نے اپنے قاتل کو بھی جام شیر پلانے کی سفارش کی تھی اور حضرت امام حسین کے جنہوں نے دشمنوں کی فوج کو پانی پلوایا تھا۔ وہی کردارآج امام زین العابدین کے قالب میں نگاہوں کے سامنے ہے۔
اسی کی مثال پھر اس وقت سامنے آئی جب یزید کی موت کے بعد انقلاب کے خوف سے حصین بن نمیر جو مکہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھا۔ مضطربانہ اور سراسیمہ اپنے لشکر کو لے کر فرار پر مجبور ہوا اور مدینہ کی راہ سے شام کی طرف روانہ ہوا۔ بنی امیہ سے نفرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ کوئی نہ ان لوگوں کو کھانے کا سامان دیتا تھا نہ اونٹوں اور گھوڑوں کے لئے چارا مہیا ہو سکتا تھا۔ اتفاق سے امام زین العابدین اپنی زراعت سے غلہ اور چارا لے کر واپس جا رہے تھے۔ حصین نے بڑھ کر ملتجیانہ انداز میں کہا کہ یہ غلہ اور چارا میرے ہاتھ فروخت کر دیجئے۔ آپ نے فرمایا۔ ضرورت مند کی خاطر یہ بلاقیمت حاضر ہے۔ اس کرم کو دیکھ کر اس نے تعارف حاصل کیا کہ آپ ہیں کون؟ جب معلوم ہوا تو اس نے حیرت کے ساتھ کہا آپ نے پہچانا بھی ہے کہ میں کون ہوں؟ حضرت نے فرمایا: "میں خوب پہچانتا ہوں مگر بھوکوں اور پیاسوں کی مدد کرنا ہم اہل بیت کا شعار ہے۔" حصین اس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ گھوڑے سے نیچے اتر کر کہنے لگا کہ یزید تو ختم ہو چکا ہے آپ ہاتھ بڑھائیے میں اپنے پورے لشکر سمیت آپ کی بیعت کرتا ہوں اور آپ کی خلافت کو تسلیم کرانے میں کوئی وقیقہ اٹھا نہ رکھوں گا اس پر آپ باندازِ تحقیر تبسم فرمایا اور بغیر کچھ جواب دیئے آگے روانہ ہو گئے۔
اس دور انقلاب کے ہنگامی تقاضوں سے اس طرح دامن بچانے کے باوجود اس سرچشمہ انقلاب یعنی واقعہ کربلا کی یاد کو برابر آپ ن یتازہ رکھا۔ یہ زمانہ ایسا نہ تھا کہ عمومی مجالس کی بنا ہو سکتی اور عوام میں تقریروں کے ذریعہ سے اس کی اشاعت کی جاتی۔ اس لئے آپ نے اپنے شخصی تاثرات غم اور مسلسل اشکباری پر اکتفا کی، جو بالکل فطری حیثیت رکھتی تھی۔ یہ مقاومت مجہول سے زیادہ غیرمحسوس ذریعہ تھا ان انقلابی اقدار کے تحفظ کا جو واقعہ کربلا میں مضمر تھے مگر آئینی طور پر کسی حکومت کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ اس گریہ پر پابندی عائد کر سکتی۔ یوں مظالم کربلا کی رود میں کسی آنکھ سے نکلنے پر نوک نیزہ سے اذیت دی جاتی ہو تو وہ اور بات ہے مگر دور امن میں کسی انتہائی ظالم و جابر حکومت کے لئے بھی اس کا موقع نہ تھا کہ وہ ایک بیٹے کو جس کاباپ تین دن کا بھوکا پیاسا پس گردن سے ذبح کیا گیا ہو۔ اور جس کے گھر سے ایک دوپہر میں اٹھارہ جنازے نکل گئے ہوں اور جس کی ماں بہنیں اسیر بنا کر شہر بہ شہر اور دیار بہ دیار پھرائی گئی ہوں ان تاثرات کے اظہار سے روک سکے جو صرف رنج و ملال کی شکل میں آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے جاری ہوں۔ پھر بلاشبہ اس غیرمعمولی مسلسل گریہ میں جو پچیس برس تک جاری رہا وہ عظیم تاثیر تھی جسے چاہے تاریخ کی سطحی نگاہ اسباب انقلاب میں شمار نہ کرے مگر واقعیت کی دنیا میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اس مسلسل گریہ کے واقعات کو تاریخوں میں پڑھنے کے بعد طبیعت انسانی کے فطری تقاضوں کی بنا پر ہر شخص ایسا تصور کر سکتا ہے کہ غمزدہ اور ہمہ تن گریہ و آہ ہستی سے اس کے بعد یہ توقع کرنا غلط ہے کہ وہ علوم و معارف کی کوئی خدمت انجام دے سکے مگر نہیں "معراج انسانیت" تو اسی تضاد میں مضمر ہے کہ یہ غرق حسرت و اندوہ ذات بھی اپنے اس فریضہ سے جو بحیثیت نائب حق و رہنمائے خلق اس کے ذمہ ہے۔ غافل نہیں ہوتی۔ بے شک یہ دور ایسا پرآشوب تھا کہ آپ کے گردوپیش طالبان ہدایت کا مجمع نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ کسی مجمع کو مخاطب بنا کر کوئی تقریر نہیں فرما سکتے تھے۔ نہ اپنے قلم کے ذریعہ لوگوں سے سلسلہ مخابرت جاری فرما سکتے تھے اس لئے اس دور کے تقاضوں کے ماتحت آپ نے منفرد طریقہ "دعا و مناجات" کا اختیار فرمایا۔ یہ بھی مثل "گریہ" کے ایک لازم بظاہر غیرمتعدی عمل تھا۔ جو کسی قانون کی زد میں نہیں آ سکتا تھا مگر ان دعاؤں کو بھی جو "صحیفہ سجادیہ" کی شکل میں محفوظ ہیں جب ہم دیکھتے ہیں تو بلا کسی شائبہ مبالغہ و مجاز کے یہ حقیقت نمایاں نظر آتی ہے کہ وہی روح جو حضرت علی بن ابی طالب کے نہج البلاغ والے خطبوں میں متحرک ہے وہی صحیفہ کاملہ کی ان دعاؤں میں بھی موجود ہے۔ صرف یہ کہ وہاں جو حکیمانہ گہراؤاور خطیبانہ بہاؤ ہے اس کی قائم مقامی یہاں اس سوزوگداز نے کی ہے جس کا دعاؤ مناجات میں محل ہے اور اس طرح اس کے سننے والوں میں دماغ کے ساتھ ساتھ دل بھی شدت سے متاثر ہوتا ہے جو غالباً دوسروں کی اصلاح کے لئے کچھ کم اہمیت نہیں رکھتا اور اسی ذیل میں اخلاق و فرائضکے تعلیمات بھی مضمر ہیں۔ جو مدرسہ اہل بیت کے مقاصد خصوصی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس دور میں اس ذریعہ تبلیغ و تدریس کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ ممکن نہ تھا اورامام زین العابدین نے اس ذریعہ کو اختیار کرکے ثابت کر دیا کہ یہ حضرات کسی سخت ماحول میں بھی اپنے فرائض اور اہم مقاصد کو ہرگز نظرانداز نہیں کرتے۔
حضرت امام محمد باقر
آپ کا دور بھی مثل اپنے پدر بزرگوار کے وہی عبوری حیثیت رکھتا تھا جس میں شہادت حضرت امام حسین سے پیداشدہ اثرات کی بنا پر بنی امیہ کی سلطنت کو ہچکولے پہنچتے رہتے تھے مگر تقریباً ایک صدی کی سلطنت کا استحکام ان کو سنبھال لیتا تھا بلکہ فتوحات کے اعتبار سے سلطنت کے دائرہ کو عالم اسلام میں وسیع تر کرتا جاتا تھا۔
حضرت امام محمد باقر خود واقعہ کربلا میں موجود تھے اور گو طفولیت کا دور تھا یعنی تین چار برس کے درمیان عمر تھی مگر اس واقعہ کے اثرات اتنے شدید تھے کہ عام بشری حیثیت سے بھی کوئی بچہ ان تاثرات سے علیحدہ نہیں رہ سکتا تھا۔ چہ جائیکہ یہ نفوس جو مبداء فیض سے غیرمعمولی ادراک لے کر آئے تھے وہ اس کم عمری میں جناب سکینہ کے ساتھ ساتھ یقیناً قید وبند کی صعوبت میں بھی شریک تھے اس صورت میں انسانی و دینی جذبات کے ماتحت آپ کو بنی امیہ کے خلاف جتنی بھی برہمی ہوتی ظاہر ہے چنانچہ آپ کے بھائی زید بن علی بن الحسین نے ایک وقت ایسا آی اکہ بنی امیہ کے مقابلے میں تلوار اٹھائی اسی طرح سادات حسنی میں سے متعدد حضرات وقتاً فوقتاً بنی امیہ کے خلاف کھڑے ہوتے رہے حالانکہ واقعہ کربلا سے براہ راست جتنا تعلق حضرت امام محمد باقر کو رہا تھا۔ اتنا جناب زید کو بھی نہ تھا چہ جائیکہ حسنی سادات جو نسبتاً دوسری شاخ میں تھے۔ مگر یہ آپ کا وہی جذبات سے بلند ہونا تھا کہ آپ کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی کوشش نہیں ہوئی اور آپ کبھی کسی ایسی تحریک سے وابستہ نہیں ہوئے بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے دور کی حکومت کو مفادِ اسلامی کے تحفظ کے لئے اسی طرح مشورے دیئے جس طرح آپ کے جد امجد حضرت علی بن ابی طالب اپنے دور کی حکومتوں کو دیتے رہے تھے۔ چنانچہ رومی سکوں کے بجائے اسلامی سکہ آپ ہی کے مشورہ سے رائج ہوا جس کی وجہ سے مسلمان اپنے معاشیات میں دوسروں کے دست نگر نہیں رہے۔
باوجودیکہ زمانہ آپکو والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین کے زمانہ سے بہتر ملا۔ یعنی اس وقت مسلمانوں کا خوف و دہشت اہل بیت کے ساتھ وابستگی میں کچھ کم ہو گیا تھا اور ان میں علوم اہل بیت سے گرویدگی بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پیدا ہو گئی تھی کوئی دوسرا ہوتا تو اس علمی مرجعیت کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیتا مگر ایسا نہیں ہوا اور حضرت امام باقر مسلمانوں کے درمیان ایک طرح کی مرجعیت عام حاصل ہونے کے باوجود سیاست سے کنارہ کشی میں اپنے والد بزرگوار کے قدم بہ قدم ہی رہے۔
بے شک زمانہ کی سازگاری سے آپ نے واقعہ کربلا کے تذکروں کی اشاعت میں فائدہ اٹھایا۔ اب واقعہ کربلا پر اشعار نظام کئے جانے لگے اور پڑھے جانے لگے۔ امام زین العابدین کا گریہ آپ کی ذات تک محدود تھا اور اب دوسروں کو ترغیب و تحریص بھی کی جانے لگی۔ اس کے علاوہ نشر علوم آل محمد کے فریضہ کو کھل کر انجام دیا گیا۔ اور دنیا کے دل پر علمی جلالت کا سکہ بٹھا دیا گیا۔ یہاں تک کہ مخالفین بھی آپ کو "باقرالعلوم" ماننے پر مجبور ہوئے جس کا مفہوم ہی ہے "علوم کے اسرار و رموز کو ظاہرکرنے والے"۔ اس طرح ثابت کر دیا کہ آپ اپنے کردار میں انہی علی بن ابی طالب کے صحیح جانشین ہیں جنہوں نے پچیس برس تک سلطنت اسلامیہ کے بارے میں اپنے حق کے ہاتھ سے جانے پر صبر کرتے ہوئے صرف علوم و معارف اسلامیہ کے تحفظ کا کام انجام دیا۔ وہی ورثہ تھا جو سینہ بسینہ حضرت محمد باقرتک پہنچا تھا۔ نہ امتداد زمانہ ن یاس میں کہنگی پیدا کی تھی اور نہ اس رنگ کو مدھم بنایا تھا۔ نہ تسلسل مظالم کے اثر سے انتقامی جذبات کے غلبہ نے ان کو بنیادی مقاصد حیات سے غافل کیا۔
امام جعفر صادق
آپ کا دور انقلابی دور تھا۔ وہ بیج بنی امیہ سے نفرت کے جو حضرت امام حسین کی شہادت نے دل و دماغ کی زمین میں بو دیئے تھے اب پورے طور پر بارآور ہو رہے تھے۔ اموی تخت سلطنت کو زلزلہ تھا اور اموی طاقت روزبروز کمزور ہو رہی تھی اس دور میں بار بار ایسے مواقع آتے تھے جن میں کوئی جذبات آدمی ہوتا تو فوراً ہوا کے رخ پر چلا جاتا اور انقلاب کے وقتی فوائد سے متمتع ہونے کے لئے خود بھی انقلابی جماعت کے ساتھ منسلک ہو جاتا۔ پھر جبکہ اسی ذیل میں ایسے اسباب بھی وقتاً فوقتاً پیدا ہوتے تھے۔ جو بنی امیہ کے خلاف اس کے جذبات کو مشتعل کرنے والے ہوں۔
زید بن علی بن الحسین حضرت امام جعفر صادق کے چچا تھے خود بھی علم و ورع واتقاء میں ایک بلند شخصیت کے حامل تھے۔ یہ بنی امیہ کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور وہ بھی حضرت امام حسین کے خون کا بدلہ لینے کے اعلان کے ساتھ۔ یہ کیا ایسا موقع نہ تھا کہ حضرت امام جعفر صادق بھی چچا کے ساتھ اس مہم میں شریک ہو جائیں۔ پھر اس کے بعد زید کا شہید کیا جانااور ان پر وہ ظلم کہ دفن کے بعد لاش کو قبر سے نکالا گیا اور سر کو قلم کرنے کے بعد جسد بے سر کو ایک عرصہ تک سولی پر چڑھائے رکھا تھا پھر آگ میں جلا دیا گیا۔ اس کے اثرات عام انسانی طبیعت میں کیا ہیجان پیدا کر سکتے ہیں؟
اور پھر عباسیوں کے ہاتھ سے انقلاب کی کامیابی اور سلطنت بنی امیہ کی اینٹ سے اینٹ بج جانا۔
اس تمام دور انقلاب یں ہر دن نئے نئے محرکات اور گوناگوں نفسانی مہیجات ہیں جو ایک انسان کو متحرک بنانے کے لئے کافی ہیں خصوصاً اس لئے کہ بنی عباس کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والا ابو سلمہ خلال اولاد فاطمہ زہرا کی محبت کے ساتھ اتنا مشہور تھا کہ برسراقتدار آنے کے لئے امام جعفر صادق کے پاس تحریری عرضداشت بھیجی مگر آپ نے اس سے نہ صرف یہ کہ بے اعتنائی برتی بلکہ اس کاغذ کو اس شمع کی لو کے سپرد کر دیا جو اس وقت روشن تھی۔ اور قاصد سے فرمایا کہ اس تحریر کا بس یہی جواب ہے اور پھر اسے پورے طویل دور انقلاب میں ایک دن ایسا نہیں آتا جو حضرت امام جعفر صادق میں کوئی حرکت پیدا کر سکا ہو۔ سوا علوم اہل بیت کے تحفظ و اشاعت کی اس مہم کے جس کی کھل کر ابتداء آپ کے والد ماجد نے کر دی تھی اور اب اسی کو اپنی نسبتہً طویل عمر اور اس وقت کے انقلابی حالات کے وقفہ سے فائدہ اٹھا کر پورے طور سے فروغ دینے کا موقع حضرت امام جعفر صادق کو ملا۔ جس کے نتیجہ میں مذہب اہلِ بیت عوام میں "ملت جعفری" کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
یہ کیا تھا؟ یہ وہی جذبات سے بلند ہونے کا قطعی مشاہدہ ہے جسے "معراج انسانیت" کی حیثیت سے ہم ان کے تمام پیش روؤں میں دیکھتے رہے ہیں۔
بنی عباس کے تخت سلطنت پر بیٹھنے کے بعد کچھ دن تو اولاد رسول کو سکون رہا مگر منصور دوانقی کے تخت سلطنت پر بیٹھتے ہی پھر فضا مکدر ہو گئی اور چونکہ یقین تھا کہ بنی امیہ کو جو ہم نے شکست دی ہے وہ اولاد فاطمہ کے ساتھ ہمدردی ہی سے فائدہ اٹھا کر۔ اس لئے یہ اندیشہ تھاکہ نہ جانے کب عوام کی آنکھیں کھل جائیں۔ اور وہ اسی طرح جھک جائیں۔ خصوصاً اس لئے کہ بنی امیہ کے زوال کے آثار واضح ہونے کے بعد جب بنی ہاشم نے مدینہ میں جمع ہو کر ایک مجلس مشاورت منعقد کی کہ انقلاب کی تکمیل کے بعد تخت سلطنت کس کے سپرد کیا جائے تو سب نے حسن مثنی فرزند امام حسن کے پوتے محمد بن عبداللہ کو اس منصب کا اہل قرار دیا تھا اورسب نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اس جلسہ میں منصور بھی موجود تھا اور اس نے بھی محمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اس کے بعد سیاسی ترکیبوں سے اس کارروائی کو نسیاً منسیا کرکے بنی عباس تخت خلافت پر قابض ہو گئے اس لئے بہت بڑا کانٹا جو منصور کے دل اور آنکھ میں کھٹک رہا تھا وہ محمد بن عبداللہ کا وجود تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد خصوصت سے اولاد امام حسن کے خلاف ظلم و تشدد شروع کر دیا گیا۔
عبداللہ بن الحسن جو عبداللہ المحض کے نام سے مشہور تھے۔ امام زین العابدین کے بھانجے یعنی فاطمہ بن الحسین کے صاحبزادے تھے اور محمد ان کے بیٹے جو اپنے ورع و تقویٰ کی بنا پر نفس زکیہ کے نام سے مشہور تھے جناب فاطمہ بنت الحسین کے پوتے تھے۔
منصور نے تمام سادات حسنی کو قید کردیا اور خصوصیت سے عبداللہ المحض کو پیرانہ سالی کے عالم میں اتنے سخت شدائد و مظالم کے ساتھ قید تنہائی میں محبوس کیا کہ الحفیظ والامان۔
ظاہر ہے کہ حضرت امام جعفر صادق قلبی طور پر ان حضرات سے غیرمتعلق نہ تھے چنانچہ یہ واقع ہے کہ جس دن اولاد حسن کو زنجیروں سے باندھ کر گردن میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں پہنا کر بے کجا وہ اونٹوں پر سوار کرکے مدینہ سے نکالا گیا۔ اور یہ قافلہ اس حال میں مدینہ کی گلیوں سے گزرا تو امام جعفر صادق اس منظر کو دیکھ کر تاب ضبط نہ لا سکے اور چیخیں مار مار کر رونے لگے اور اس کے بعد ۲۰ دن تک شدت سے بیمار رہے۔ عبداللہ کے دونوں بیٹے محمد اور ابراہیم کچھ دن پہاڑوں کی گھاٹیوں میں چھپے رہے پھر "تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق ایک جماعت کو اپنے ہمراہ لے کر مقابلہ پر آماد ہوئے اس موقع پر یہ واقعہ یاد رکھنے کا ہے کہ رائے عامہ محمد کے ساتھ اس حد تک محسوس ہو رہی تھی کہ امام ابو حنیفہ اور مالک نے نفس زکیہ کی حمایت و نصرت کے لئے فتویٰ دیا۔ مگر حضرت امام جعفر صادق اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر باوجود تمام جذباتی تقاضوں کے اس مہم سے علیٰحدہ رہے۔ اور آپ نے اپنے دامن کو اس کشمکش سے بالکل ہی بچائے رکھا۔ آپ جانتے تھے کہ یہ مہم وقتی حالات کی بنا پر اضطراری فعل کے طور پر شروع کی گئی ہے جس کے پس پشت کوئی بلند مقصد نہیں ہے نہ اس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے لیکن میں نے اگر اس کا کسی طرح بھی ساتھ دیا تو اس تعمیری خدمت کا بھی جو میں معارف آل رسول کی اشاعت کے طور پر انجام دے رہا ہوں دروازہ مسدود ہو جائے گا۔
یہ بے پناہ ضبط و صبر وہی ہے جو ان کے آباؤ اجداد میں نظر آتا رہا تھا اور وہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
امام موسیٰ کاظم
آپ کے زمانہ میں سیاست کا شکنجہ پھر سخت ہو گیا۔ ا
ب نہ تعلیم و تدریس کی وہ آزادی رہی نہ تبلیغ و اشاعت کے مواقع باقی رہ گئے۔ حکومت وقت برابر آپ سے برسر پرخاش رہی یہاں تک کہ آخر عمر کے کئی سال تمام اوکمال قید خانہ میں گزر گئے مگر آپ کی بلند سیرت کی روشنی اتنی تیز تھی کہ قید خانہ کی اونچی اور سنگین دیواریں اس کے لئے ایک نازک و باریک پردہ سے زیادہ نہ تھیں جس کے اندر سے اس کی شعائیں چھن کر باہر نکلی رہیں۔ یہاں تک کہ چودہ صدیاں پار کرکے ہم تک بھی پہنچ سکی ہیں۔ چنانچہ اسی سیرت کی بلندی کا نتیجہ یہ تھا کہ حکومت وقت کے مقررکردہ قیدخانوں کے افسر آپ کی نیکوکاری کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے تھے اورآپ کے ساتھ سختی کرنے سے معذور رہتے تھے جس کے نتیجہ میں بار بار نگرانوں کے بدلنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ چنانچہ پہلے آپکو بصرہ میں عیسیٰ بن جعفر بن منصور کی نگرانی میں رکھا گیا۔ اس ہدایت کے ساتھ کہ ان کو قید تنہائی میں رکھو اور کچھ دن کے بعد حکم دیا کہ انہیں قتل کر دو۔ وہ خلیفہ وقت کا چچازاد بھائی تھا مگر اس کے دل پر امام موسیٰ کاظم کے حسن کردار کا اثر پڑ گیا تھا۔ اس نے لکھا کہ میں نے ان کے حالات کی خوب جانچ کی ہے وہ تو ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور شب و روز عبادت میں مصروف رہتے ہیں تنہائی کے عالم میں بھی ہم میں سے کسی کے لئے کبھی بددعا نہیں کرتے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ تونے مجھے اپنی عبادت کے لئے یہ تنہائی کی جگہ عطا فرمائی۔ ایسے خداترس اور عبادت گزار کی جان لینا میرے بس کی بات نہیں ہے۔
جب اس نے انکار کیا تو آپ کو بصرہ سے بلوا کر بغداد میں فضل بن ربیع کے سپرد کیا گیا۔ مگر فضل پر بھی آپ کے کردار کے مشاہدہ کا خاص اثر پڑا۔ آخر فضل بن ربیع کو بھی اس صورت سے برطرف کیا گیا۔ یحییٰ برمکی کو براہ راست نگران بنا دیا گیا اور اس سے بھی پھر غیرمطمئن ہو کر سندی بن شاہک کو مقرر کیا گیا۔ یہ ایسا قسی القلب اور سفاک تھا کہ اس نے زہر دغا دے کر امام کی زندگی کا خاتمہ کیا۔
زندگی میں قید خانہ میں محبوس رکھے گئے اور پھر قبر کے اندر مدفون ہو گئے مگر ان کے اوصاف و کمالات، زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت ہی نہیں بلکہ ان کے زبان و قلم سے نکلے ہوئے بہت سے ارشادات و تعلیمات اور شریعت نبوی ک یاحکام اب تک کتابوں کے صفحات پر موجود ہیں جو بتا رہے ہیں کہ وہ اسی سلسلہ کی ایک فرد تھے جس میں سے ہر ایک اپنے دور کے حالات کے مطابق کاروان بشر کو منزل کمال انسانیت تک پہنچانے کے لئے رہنمائی کا فرض انجام دیتا رہا۔ اور اپنے کردار کی رفعت سے "معراج انسانیت" کی نشان دہی کرتا رہا۔
امام رضا
آپ کو جس خاص صورت حال سے دوچار ہونا پڑا وہ آپ کے زمانہ کے عباسی خلیفہ مامون کا قبول ولی عہدی کے لئے آپ کو مجبور کرنا تھا بالکل اسی طرح جیسے آپ کے مورث اعلیٰ حضرت امیرالمومنین علی مرتضیٰ کے سامنے چوتھے نمبر پر حکومت پیش کی گئی ظاہر ہے کہ یہ وہ امامت نہ تھی جو منجانب اللہ آپ کو حاصل تھی اسے دنیا نے تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ وہی اپنے نقطہ نظر والی جمہوری خلافت تھی جس کی پیشکش آپ کے سامنے کی گئی تھی اور اسی لئے آپ نے اس سے شدید انکار فرمایا مگر جب لوگوں کا اصرار قیام حجت کے قریب پہنچ گیا تو چونکہ ایک داعی حق کو جس عنوان سے سہی ایک موقع اگر خلق خدا کی اصلاح کا مل جائے چاہے وہ کسی لباس میں ہو، اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ اب آپ نے ان کے اصرار کو قبول فرما لیا۔ اسی طرح اب امام رضا کے سامنے مامون اقتدار کی پیشکش کر رہا تھا۔ مورخین متفق ہیں کہ آپ نے انکار فرمایا۔ کثرت سے گفتگوئیں ہوئیں اور مامون نے بار بار اصرار کیا اور آپ ہر مرتبہ انکار فرماتے تھے۔ اور آپ کا ارشاد تھا کہ میں اللہ کی بندگی ہی کو بس اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہں اور اقتدار دنیا سے تو کنارہ کشی ہی کرکے بارگاہ الٰہی میں بلندی کی امید رکھتا ہوں اور جب وہ اصرار کرتا تھا تو آپ کہتے تھے:اَللّٰهُمَّ لَا عَهَدَ اِلَّا عَهْدِکَ وَ لا وِلأته اِِلَّا مِنْ قَبْلِکَ فَوَفْقنِیْ الِاقامَةِ دِیْنکَ واحیّآءِ سُنَّتِه نبِیّکَ نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَ نعْمَ النَّصِیْر
۔
"پروردگار! عہدہ تو وہی عہدہ جو تیری طرف سے ہے اور حکومت وہی حکومت ہے جو تیری جانب سے ہے ہاں مجھے توفیق عطا فرما کہ تیرے دین کے شعائر کو قائم کروں اور تیرے رسول کی سنت کو زندہ کروں۔ تو بہترین مالک اور بہترین مددگار ہے۔"
اس میں ایک طرف صحیح اسلامی نظریہ حکومت کی تبلیغ ہو رہی تھی جس سے آپ کے انکار کا پس منظر واضح طور پر نمایاں ہو رہا تھا اور دوسری طرف اقامت دین اور احیائے سنت کے لئے اپنے جذبہ بے قرار کا مظاہرہ تھا جو بعد از اصرار بسیار ولی عہدی کے قبول کرنے کے پس منظر کی ترجمانی کر رہا ہے۔
پھر آپ نے جب ولی عہدی قبول کی تو یہ شرط کر لی کہ میں حکام کے غرل و نصب کا ذمہ دار نہ ہوں گا نہ امور سلطنت میں کوئی دخل دوں گا۔ ہاں جس معاملہ میں مشورہ لیا جائے گا کتاب خدا و سنت رسول کے مطابق مشورہ دے دیا کروں گا یہ وہ کام تھا جو آپ کے جد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب خلفائے ثلٰثہ کے دور میں بغیر کسی عہدہ و منصب کے انجام دیتے تھے اب وہی حضرت امام علی بن موسی الرضا ولی عہدی کے نام کے بعد انجام دیں گے۔
معلوم ہوتا ہے کہ شخصیت ایک ہی ہے صرف زمانہ کا فرق ہے اور سامنے کی حکومت کے رویہ کا فرق ہے کہ پہلے دور والوں نے کسی عہدہ کی پیشکش جناب امیر کے لئے اپنے سیاسی مفاد کے خلاف سمجھی اور اب عہدہ کی پیشکش اپنے سیاسی مصالح کے لئے مناسب سمجھی جا رہی ہے معلوم ہوتا ہے کہ جو اختلاف ہے وہ سلطنت وقت کے رویہ میں ہے مگر رہنمائے دین کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے اقبال کے لفظوں میں کہ لیجئے کہ:
حقیقتِ ابدی ہے مقام شبیری،
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
پھر ولی عہدی کے بعد آپ نے اپنی سیرت بھی وہی رکھی جو شہنشاہ اسلام ما نے جانے کے بعد حضرت علی بن ابی طالب کی سیرت رہی۔ آپ نے اپنے دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نہیں کئے۔ بلکہ جاڑے میں بالوں کا مکمل اور گرمی میں چٹائی کا فرش ہوا کرتا تھا کھانا سامنے لایا جاتا تھا تو دربان، سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے۔
پھر اسی عباسی سلطنت کے ماحول کو پیش نظر رکھ کر جہاں صرف قرابت رسول کی بنا پر اپنے کو خلق خدا پر حکمرانی کا حقدار بنایا جاتا تھا اور کبھی اپنے اعمال و افعال پر نظر نہ کی جاتی تھی آپ اپنے اوپر رکھ کر برابر اس کا اعلان فرماتے تھے کہ قرابت رسول کوئی چیز نہیں ہے جب تک کردار انسان کا ویسا نہ ہو جو خدا کے نزدیک معیار بزرگی ہے چنانچہ جب ایک شخص نے حضرت سے کہا کہ: خدا کی قسم آباؤاجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نہیں۔ حضرت نے فرمایا: "میرے آباؤاجداد کو جو شرف حاصل ہوا وہ بھی صرف تقویٰ اور اطاعت خدا سے۔" ایک دوسرے موقع پر ایک شخص نے کہا کہ "واللہ آپ بہترین خلق ہیں۔" حضرت نے فرمایا۔ "اے شخص بے سمجھے قسم نہ کھا جس کا تقویٰ مجھ سے زیادہ ہو وہ مجھ سے افضل ہے۔"
ابراہیم بن عباس کا بیان ہے کہ حضرت فرماتے ہیں: میرے تمام لونڈی غلام آزاد ہو جائیں اگر اس کے سوا کچھ اور ہو کہ میں اپنے کو محض رسول اللہ سے قرابت کی وجہ سے اس سیاہ رنگ غلام سے بھی افضل نہیں جانتا (اشارہ فرمایا اپنے ایک غلام کی جانب) ہاں جب عمل خیر بجا لاؤں تو اللہ کے نزدیک اس سے افضل ہوں گا۔
یہ حقیقت میں تقریباً ایک صدی کی پیدا کی ہوئی عباسی سلطنت کی ذہنت کے خلاف اسلامی نظریہ کا اعلان تھا اور وہ اب اس حیثیت سے بڑا اہم ہو گیا تھا کہ وہ اب اسی سلطنت کے ایک رکن کی طرف سے ہو رہا تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ ہیں جن پر ماحول کا اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ ہر ماحول میں کسی نہ کسی طرح اپنے فرض کو انجام دیتے رہتے ہیں جو انسانیت کی عملی معراج ہے۔
امام محمد تقی
آپ پانچویں برس میں تھے جب آپ کے والد بزرگوار امام رضا سلطنت عباسیہ کے ولی عہد ہو گئے اس کے معنی یہ ہیں کہ سن تمیز پر پہنچنے کے بعد ہی آپ نے آنکھ کھول کر وہ ماحول دیکھا جس میں اگر چاہا جاتا تو عیش و آرام میں کوئی کمی نہ رہتی مال و دولت قدموں سے لگا ہوا تھا اور تزک و احتشام آنکھوں کے سامنے تھا پھر باپ سے جدائی بھی تھی کیونکہ امام رضا خراسان میں تھے اور متعلقین تمام مدینہ منورہ میں تھے۔ اور پھر آپ کو آٹھواں ہی برس تھا کہ امام رضا نے دنیا ہی سے مفارقت فرمائی۔
یہ وہ منزل ہے کہ جہاں ہمارے تاریخی کارخانہ تحلیل و توجیہہ کی تمام دوربینیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ کسی دینوی مکتب اور درسگاہ میں تو نہ ان کے آباؤاجداد کبھی گئے نہ یہ جاتے نظر آتے ہیں۔ ہاں ایک معصوم کے لئے معصوم بزرگوں کی تعلیم و تربیت ناقابل انکار ہے مگر یہاں معصوم باپ سے چار پانچ برس کی عمر میں جدائی ہو گئی۔ ایک توارثِ صفات رہ جاتا ہے مگر ہر ایک جانتا ہے کہ اس سے صلاحیت کا حصول ہوتا ہے۔ فعلیت کے لئے پھر اسباب ظاہری کی ضرورت ہے۔ مگر یہ تاریخی واقعہ ہے کہ امام محمد تقی نے بچپن کی جتنی منزلیں اس کے بعد طے کیں وہ ابھی شباب کی سرحد تک بھی نہ تھیں کہ آپ کی سیرت بلند کی مثالیں اور علمی کمال کی تجلیاں دنیا کی آنکھوں کے سامنے آگئیں۔ یہاں تک کہ امام رضا کی وفات کے بعد ہی شاہی دربار میں اکابر علمائے وقت سے مباحثہ ہوا تو سب کو آپ کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
اب یہ واقعہ کوئی صرف اعتقادی چیز بھی نہیں ہے بلکہ مسلم الثبوت طور پر تاریخ کا ایک جز ہے یہاں تک کہ اس مناظرہ کے بعد اسی محفل میں مامون نے اپنی لڑکی ام الفضل کو آپ کے حبالہ عقد میں دیا۔
یہ سیاست مملکت کا ایک نئی قسم کا سنہرا جال تھا جس میں امام محمد تقی کی کمسنی کو دیکھتے ہوئے خلیفہ وقت کو کامیابی کی پوری توقع ہو سکتی تھی۔
جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ "نویں امام" (شائع کردہ امامیہ مشن) میں لکھا ہے۔
"بنی امیہ کے بادشاہوں کو آلِ رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا جتنا ان کے صفات سے۔ وہ ہمیشہ اس کے درپے رہتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ہے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلہ میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ہوا ہے یہ کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لئے وہ گھبرا گھبرا کر مختلف تدبیریں کرتے تھے۔ امام حسین سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اور پھر امام رضا کو ولی عہد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ۔
فقط ظاہری شکل میں ایک کا انداز معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادت مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں باتوں کی ایک تھی۔ جس طرح امام حسین نے بعیت نہ کی تو وہ شہید کر ڈالے گئے اسی طرح امام رضا ولی عہد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ نہ چل سکے تو آپ کی شمع حیات کو زہر کے ذریعہ سے ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا۔
اب مامون کے نقطہ نظر سے یہ موقع انتہائی قیمتی تھا کہ امام رضا کا جانشین آٹھ نو برس کا ایک بچہ ہے جو تین چاربرس پہلے ہی باپ سے چھڑا لیا جا چکا تھا۔ حکومت وقت کی سیاسی سوجھ بوجھ کہہ رہی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقہ پر لانا نہایت آسان ہے اور اس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اور خاموش مگر انتہائی خطرناک، قائم ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔
مامون امام رضا کی ولی عہدی کی مہم میں اپنی ناکامی کومایوسی کا سبب تصور نہیں کرتا تھا اس لئے کہ امام رضا کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی اس میں تبدیلی نہیں ہوئی تو یہ ضروری نہیں کہ امام محمد تقی آٹھ برس کے سن میں خاندان شہنشاہی کا جز بنا لئے جائیں تو وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر برقرار رہیں۔
سوا ان لوگوں کے جو ان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے اس وقت کا ہر شخص یقیناً مامون کا ہم خیال ہو گا۔ مگر حضرت امام محمد تقی نے اپے کردار سے ثابت کر دیا کہ جو ہستیاں عا م جذبات کی سطح سے بالاتر ہیں اور یہ بھی اسی قدرتی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جن کے افراد ہمیشہ معراج انسانیت کی نشاندہی کرتے آئے ہیں آپ نے شادی کے بعد محل شاہی میں قیام سے انکار فرمایا اور بغداد میں جب تک قیام رہا آپ ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام پذیر ہوئے او رپھر ایک سال کے بعد ہی مامون سے حجاز واپس لے جانے کی اجازت لے لی۔ اور مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے اور اس کے بعد حضرت کا کاشانہ گھرکی ملکہ کے دینوی شاہزادی ہونے کے باوجود بیت الشرف امامت ہی رہا۔ قصر دنیا نہ بن سکا۔ ڈیوڑھی کا وہی انداز رہا جو اس کے پہلے تھا۔ نہ پہرے دار اورنہ کوئی خاص روک ٹوک۔ نہ تزک نہ احتشام۔ نہ اوقات ملاقات کی حدبندی۔ نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤ میں کوئی فرق۔ زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رہتی تھی جہاں مسلمان حضرت کے وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ راویان حدیث احادیت دریافت کرتے تھے۔ طلاب علم مسائل پوچھتے تھے اور علمی مشکلات کو حل کرتے تھے۔ چنانچہ شاہی سیاست کی شکست کا نتیجہ یہ تھا کہ آخر آپ کا بھی زہر سے اسی طرح خاتمہ کیا گیا جس طرح آپ کے بزرگوں کا اس سے پہلے کیا جاتا رہا تھا۔
امام علی نقی
آپ کی زندگی میں بھی وہی خصوصیتیں موجود ہیں جو آپ کے آباؤ اجداد میں تھیں۔
آپ کو متوکل نے مدینہ سے بلوا کر سامرے میں نظربند کیا اور متعدد اشخاص کی نگرانی آپ پر قائم کی۔ مگر آپ کے اخلاق حمیدہ نے ہر ایک کو متاثر کیا۔ آپ کی خاموش زندگی صحیح اسلامی سیرت کی عملی مثال تھی اور ہمیشہ اس مشن کی جو تبلیغ دین و شریعت کا تھا حفاظت کرتے رہے۔ ایسے موقعوں پر جب جذباتی انسان یا تو مرعوب ہو کر دوسرے کا ہم رنگ ہو جائے یا مشتعل ہو کر مرنے مارنے پر تیار ہو جائے یہ ضبط نفس معراج انسانیت کا نمونہ تھا کہ نہ اپنے جاوہ عمل کو چھوڑا جاتا تھا اور نہ تصادم کی صورت پیدا کی جاتی تھی۔
متوکل کا دربار جہاں شراب کا دور چل رہا تھا۔ اس میں امام کی طلبی اور جام شراب کا پیش کیاجانا اور آپ کے انکار پر یہ فرمائش کہ کچھ اشعار ہی سنائیے اور آپ کا اس موقع سے وعظ کے لئے گنجائش نکالنا اور بے اعتباری دنیا اور محاسبہ نفس کی دعوت پر مشتمل وہ اشعار پڑھنا جنہوں نے اس محفل عیش کو مجلس وعظ میں تبدیل کرکے وہ اثر پیدا کیا کہ حاضرین زاروقطار رونے لگے اور بادشاہ بھی چیخیں مار مار کر گریہ کرنے لگا۔ یہ انہی حضرت زین العابدین کے وارث کا کام ہو سکتا تھا جنہوں نے دربار ابن زیاد و یزید میں اظہار حقائق کے کسی موقع کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔
قید کے زمانہ میں آپ جہاں بھی رہے آپ کے مصلے کے سامنے ایک قبر کھدی ہوئی تیار رہتی تھی۔ یہ ظالم طاقت کو اس کے باطل مطالبہ اطاعت کا ایک خاموش اور عملی جواب تھا یعنی زیادہ سے زیادہ تمہارے ہاتھ میں جو ہے وہ جان کا لے لینا مگر جو موت کے لئے اتنا تیار ہو وہ ظالم حکومت سے ڈر کر باطل کے سامنے سر کیوں خم کرنے لگا۔
پھر بھی مثل اپنے بزرگوں کے حکومت کے خلاف کسی سازش وغیرہ سے آپ کا دامن ایسا بری رہا کہ باوجود دارالسلطنت کے اندر مستقل قیام اور حکومت کے سخت ترین جاسوسی نظام کے آپ کے خلاف کوئی الزام کبھی عائد نہیں کیا جا سکا۔ حالانکہ عباسی سلطنت اب کمزور ہو چکی تھی اور وہ دم توڑنے کے قریب تھی مگر آل محمد نے ان حکومتوں کو ہمیشہ اپنی موت مرنے کے لئے چھوڑا۔ ان کے خلاف کبھی کسی اقدام کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔
امام حسن عسکری
آپ کے دور حیات کا اکثر حصہ عباسی دارالسلطنت سامرا میں نظربندی یا قید کی حالت میں گزرا مگر اس حالت میں آپ کی بلندکرداری اور سیرت بلند کے مظاہرات سے جو اثر پڑا اس کا تجزیہ مولانا سید ابن حسن صاحب جارچوی نے بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے۔
ہزاروں رومی اور ترکی غلام جو آہستہ آہستہ دربار خلافت میں رسوخ پا رہے تھے اور اپنی ان رشتہ دار عورتوں کی مدد سے جو بادشاہ کے حرم میں دخیل تھیں اعلیٰ عہدوں اور منصوبوں پر فائز ہوتے جا رہے تھے۔ خلیفہ کی اخلاقی کمزوریوں کو دیکھ کر بالکل اسلام سے بیگانہ اور دین سے متنفر ہو جاتے مگر ان ائمہ دین نے جو خلیفہ کی بدکرداریوں کے مقابلہ میں ایک اعلیٰ درجہ کی سیرت پیش کرتے تھے اسلام کا بھرم رکھ لیا۔ اور مسلم معاشرے کو بالکل برباد ہونے سے بچا لیا۔ جب عامة الناس آل رسول کے ان بہترین عمائد کو دیکھتے اور سیرت و کردار کے ان اعلیٰ نمونوں پر نگاہو ڈالتے تو ان کو یقین آ جاتا کہ دین اسلام کچھ اور چیز ہے اور اس کا نام لے کر ملکوں پر حکمرانی کرنا کچھ اور شے ہےدارالحکومت اور شاہی دربار کے قرب میں ائمہ دین کی موجودگی نے اسلام کو ایک بڑے انقلاب سے بچا لیا۔ بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آ کر لوگوں نے اقربائے نبی کے دامن میں پناہ لی تھی اور سمجھتے تھے کہ اب ہم اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں گے جب عباسیوں کی آمد بھی دینی اور معاشرتی گتھیوں کو نہ سلجھا سکی تو فطری طور پر لوگوں کو یہ احساس پیدا ہو چلا کہ اسلام ہی امن پذیر معاشرہ پیدا کرنے سے قاصر ہے مگر ائمہ اہل بیت کے وجود نے مسلمانوں کو مطمئن کر دیا کہ اسلام کے صحیح مبلغ ابھی تک برسراقتدار نہیں آئے اور ان کو اصلاح امت، تشکیل سیرت و تعمیر اخلاق کا موقع نہیں ملا۔ اس لئے ملک کی بدحالی اور تباہی کا ذمہ دار اسلام نہیں ہے بلکہ وہ قابویافتہ جماعت ہے جو اسلام کا نام لے کر دنیا کے سر پر سوار ہو گئی ہے۔ (تذکرہ محمد و آل محمد جلد ۳) ۔
باوجود یہ کہ اپنے دور امامت میں آپ کی تقریباً پوری زندگی قید و بند میں رہی پھر بھی اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین اور دیگر اسلاف کی سیرت کے مطابق جب اسلام کو آپکی مدد کی ضرورت پڑی تو ظالم حکومت کے بڑھائے ہوئے فریاد کے ہاتھ کو کبھی ناکام واپس جانے نہ دیا۔ چنانچہ جب قحط کے موقع پر ایک عیسائی راہب نے بارش کراکے اپنی روحانیت کے مظاہرہ سے دارالسلطنت عباسیہ کے بہت سے مسلمانوں کے ارتداد کے آثار پیدا کر دیئے تو اس وقت امام حسن عسکری تھے جنہوں نے اس کے طلسم کو شکستہ کرکے مسلمانوں کی استقامت کا سامان بہم پہنچایا۔
اس کے علاوہ آپ نے سچے پرستارانِ دین کی دینی تعلیم و تربیت کے فریضہ کو نظرانداز نہیں کیا۔ اس کے لئے اپنی طرف سے سفراء مقرر کئے جو اپنی بصیرت علمی کی حد بھر خود مسائل شرعیہ کا جواب دیتے تھے اور جن مسائل میں امام سے دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی تھی ان کا خود مناسب موقع پر امام سے جواب حاصل کرکے سائل کی تشفی کر دیتے تھے۔ انہی کے ذریعہ سے اموالِ خمس کی جمع آوری ہوتی تھی اور وہ تنظیم سادات اور دیگر دینی مہمات پر صرف ہوتا تھا۔ اس طرح سلطنت دینوی کے متوازی حکومت دینی کا پورا ادارہ کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا۔
پھر آپ نے قید و بند کے اسی شکنجہ میں جو وقتاً فوقتاً رہا کیا معارف اسلامی کی خدمت بھی جاری رکھی۔ چنانچہ بعض آپ کے احادیث شیعہ جوامع حدیث میں درج ہیں اور بعض کتب اہل سنت میں بھی درج ہیں۔ تفصیل کے لئے ہمارا رسالہ "حسن عسکری" دیکھئے جو امامیہ مشن سے شائع ہوا ہے۔ اسی طرح آپ کے تلامذہ نے بھی آپ کے افاداتِ علمی مرتب کئے ہیں ان کا تذکرہ بھی مذکورہ رسالہ میں ملاحظہ ہو۔
امام منتظر عجّل اللہ فرجہ
یہ سلسلہ آل محمد کی آخری کڑی خود مادی نگاہوں سے اوجھل ہے پھر اس کی سیرت زندگی کا اس زمانہ کی مادی ذہنیت والے کو اندازہ ہی کیونکر ہو سکتا ہے؟
بے شک ہم قطعی دلائل کی بنا پر چونکہ آپ کے وجود اور غیبت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں اور آپ کو انہی مقاصد کا محافظ جانتے ہیں جن کے آپ کے اسلاف کرام ہمیشہ محافظ رہے اس لئے ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ پردہ غیب میں بھی ان فرائض کو انجام دے رہے ہیں جو بحیثیت منصب آپ کے ذمہ ہیں۔
اس سلسلہ میں آپ کے عمل کو اپنے آبائے طاہرین علیہم اسلام کی زندگی کے ساتھ جو مماثلت ہے اس پر ہم نے اپنے رسالہ "وجود حجت" (شائع کردہ امامیہ مشن لکھنو) میں کافی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے جس کا ہر شخص مطالعہ کر سکتا ہے۔
والّسلام!
علی نقی النقوی