معاشرہ اور تاريخ

معاشرہ اور تاريخ0%

معاشرہ اور تاريخ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

معاشرہ اور تاريخ

مؤلف: آیۃ اللہ شهید مرتضيٰ مطہرى
زمرہ جات:

مشاہدے: 10096
ڈاؤنلوڈ: 3521

تبصرے:

معاشرہ اور تاريخ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10096 / ڈاؤنلوڈ: 3521
سائز سائز سائز
معاشرہ اور تاريخ

معاشرہ اور تاريخ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

معاشرہ اور تاريخ

مؤلف : مطہرى، مرتضيٰ (آیۃ اللہ شهید)

پيش لفظ

كوئي مكتب معاشرے اور تاريخ كے بارے ميں كيا نظريہ ركھتا ہے اور ان دونوں سے كيا اخذ كرتا ہے، يہ امر اس مكتب كے تصور كائنات ميں فيصلہ كن كردار ادا كرتا ہے ۔ لہٰذا ضروري ہے كہ اسلامي تصور كائنات كو پيش نظر ركھتے ہوئے يہ واضح ہو كہ معاشرے اور تاريخ كو اسلام كس انداز سے ديكھتا ہے ۔

يہ امر واضح ہے كہ اسلام عمرانيات ( Socialogy ) كا كوئي مكتب ( School Of Thought ) ہے، نہ فلسفہ تاريخ ہے ۔ اسلام كي آسماني كتاب ميں معاشرے يا تاريخ سے متعلق كوئي ايسي گفتگو نہيں جو عمرانيات اور فلسفہ تاريخ كي مروجہ زبان ميں ہو، يہ بالكل اسي طرح ہے جس طرح اس ميں اخلاقى، فقہى، فلسفي اور ديگر علوم سے متعلق مفاہيم رائج زبان اور ان كي اصطلاحات ميں بيان نہيں ہوئے جو ان علوم كا خاصہ ہيں ۔ تاہم ان علوم سے وابستہ بہت سے مسائل كامل طور پر اس سے اخذ كئے جا سكتے ہيں اور قابل استنباط ہيں ۔

معاشرہ تاريخ چونكہ باہم مربوط موضوع ہيں، علاوہ ازيں ہم ان كے بارے ميں اختصار سے گفتگو كرنا چاہتے ہيں، لہٰذا ہم نے انہيں ايك ہي فصل ميں قرار ديا ہے ۔ ان دونوں كے بارے ميں اسلامي نقطہ نظر خاص اہميت كا حامل ہے، جسے مطالعے اور تحقيق كا عنوان قرار ديا جانا چاہيے، البتہ ہم معاشرے اور تاريخ سے مربوط مسائل كو اسي قدر اٹھائيں گے جس قدر ہمارے خيال ميں مكتب اسلام كي شناخت كے لئے ضروري ہے ۔

پہلے ہم معاشرے پر گفتگو كريں گے اور پھر تاريخ كو موضوع بحث بنائيں گے ۔ معاشرے كے مسائل يہ ہيں ۔

۱۔ معاشرہ كيا ہے؟

۲۔ كيا انسان مدني الطبع ہے؟

۳۔ كيا فرد كو اصليت حاصل ہے اور معاشرے كي حيثيت انتزاعي اور ضمني ہے يا اس كے برعكس معاشرہ اصليت ركھتا ہے اور فرد كي حيثيت انتزاعي اور ضمني ہے يا پھر كوئي تيسري صورت ہے؟

۴۔ معاشرہ اور اس كے قوانين و آداب ۔

۵۔ كيا فرد معاشرے اور اجتماعي ماحول كے آگے بے بس ہے يا مختار؟

۶۔ اپني ابتدائي تقسيم كے اعتبار سے معاشرہ كن شعبوں، سمتوں اور كن گروہوں ميں تقسيم ہوتا ہے؟

۷۔ كيا انساني معاشرے ہميشہ ايك ہي ماہيت اور ايك ہي نوعيت كے ہوتے ہيں اور ان كے درميان اختلاف كي صورت ايسي ہے جيسي ايك ہي نوع (يہاں پر لفظ ”نوع“ علم منطق كے اصطلاحي مفہوم ميں آيا ہے ۔ ايك ہي نوع كے افراد ماہيت كے اعتبار سے بالكل ايك جيسے ہوتے ہيں ۔ مترجم) سے تعلق ركھنے والے افراد كے مابين ہوتي ہے يا پھر جغرافيہ اور زمان و مكان كے فرق كے اعتبار سے نيز ثقافت و تمدن ميں تغير كے لحاظ سے معاشرے مختلف النوع ہوتے ہيں، يوں ان كي عمرانيات بھي مختلف ہوجائے گي ۔ پھر ہر نوع كا اپنا خاص دوسروں سے مختلف مكتب بھي ہو سكتا ہے ۔ دوسرے لفظوں ميں كيا جس طرح تمام انسان علاقائى، نسلي اور تاريخي اختلافات كے باوجود جسم كے اعتبار سے واحد نوعيت كے حامل ہيں اور ان پر ايك ہي طرح كے فزيالوجيكل اور طبي قوانين حكم فرما ہيں، اجتماعي لحاظ سے بھي واحد نوعيت كے حامل ہيں اور ايك ہي اخلاقي و اجتماعي نظام ان پر لاگو كيا جا سكتا ہے اور بشريت پر ايك ہي مكتب حاكم ہو سكتا ہے يا ہر معاشرہ خاص جغرافيائى، ثقافتي اور تاريخي حالات كے تحت اپني خاص عمرانيات ركھتا ہے اور ايك خاص مكتب كا متقاضي ہے؟

۸۔ كيا انساني معاشرے ابتدائے تاريخ سے عصر حاضر تك پراگندہ صورت ميں اور ايك دوسرے سے جدا حيثيت كے ساتھ موجود رہے ہيں اور ان پر كثرت و اختلاف حكم فرما رہا ہے، (نوعي اختلاف نہ ہو تو كم از كم انفرادي اختلاف رہا ہے) اور وحدت و يكتائي كي طرف بڑھ رہے ہيں اور بشريت كا مستقبل واحد معاشرہ، ايك تمدن، ايك ثقافت اور آخر كار بشريت كے يك رنگ و يك شكل ہوجانے سے عبارت ہے اور تضاد و تراجم تو ايك طرف اصلاً دوئي ختم ہوجائے گي يا پھر بشريت مجبور ہے كہ اس كے متعدد رنگ رہيں، مختلف صورتيں رہيں، ثقافت و تمدن اور جن امور پر انسان كا وجود اجتماعي قائم ہے ان ميں اختلاف رہے؟

يہ وہ مسائل ہيں جن كے بارے ميں ہمارے نزديك اسلامي نقطہ نظر پيش كرنا انتہائي ضروري اور اہم ہے ۔ ذيل ميں ہم ترتيب كے ساتھ اختصار كو ملحوظ ركھتے ہوئے ان امور پر گفتگو كريں گے ۔