معيار اور پيمانے
ہويت تاريخ كے بارے ميں كسي مكتب كے نقطہ نگاہ كو جانچنے كے لئے كچھ معيار اور پيمانوں سے استفادہ كيا جا سكتا ہے اور ان پيمانوں كو سامنے ركھ كر اچھي طرح اس بات كا علم ہو سكتا ہے كہ وہ مكتب تاريخي انقلابات اور تاريخي واقعات كو كس نظر سے ديكھتا ہے۔ اس سلسلے ميں جو معيار اور جو پيمانے ہماري نظر تك پہنچے ہيں، انہيں ہم يہاں پيش كرنا چاہيں گے۔ البتہ ممكن ہے اس كے علاوہ اور پيمانے بھي ہوں، جو ہماري نظر سے پوشيدہ رہ گئے ہوں ۔
اس سے پہلے كہ ہم ان معياروں كو پيش كريں اور ان كے ذريعے اسلام كا نظريہ حاصل كرنا چاہيں، اس بات كا تذكرہ ضروري ہے كہ ہماري نظر ميں قرآن ميں بعض اصولوں كي نشاندہي ہوئي ہے جو واضح طور پر مادي بنياد پر معاشرے كي معنوي بنياد كي بالادستي كو ظاہر كرتے ہيں، قرآن واضح طور پر ايك قانون كي صورت ميں كہتا ہے:
(
ان الله لا يغير ما بقوم حتي يغيروا ما بانفسهم
)
. (سورہ رعد، آيت۱۱)
”خدا كسي قوم كي حالت اس وقت تك نہيں بدلتا، جب تك كہ وہ خود اپنے ارادے سے اس چيز كو نہ بدل دے، جس كا تعلق اس كي رفتار و كردار سے ہے ۔“
بعبارت ديگرلوگوں كي تقدير اس وقت تك نہيں بدلتى، جب تك كہ وہ خود اپني ان باتوں كو نہ بدل ديں، جو ان كے نفوس اور احساسات سے متعلق ہيں۔ يہ آيت تاريخ كے اقتصادي جبر كي صريحاً نفي كرتي ہے۔ بہرحال ہم نے جن پيمانوں كي تشخيص كي ہے، اسے پيش كر كے اسلام كو ان پيمانوں سے پركھنے كي كوشش كريں گے ۔
۱۔ دعوت سے متعلق حكمت عملى
ہر وہ مكتب جو معاشرے كے لئے كسي پيام كا حامل ہے اور لوگوں كو اس پيام كو قبول كرنے كي طرف بلاتا ہے، لازمي طور پر ايسي خاص روش اور ايسے طريقہ كار سے استفادہ كرتا ہے، جو ايك طرف تو اپنے اصلي اغراض و مقاصد سے متصل ہوتا ہے اور دوسري طرف اپنے اس نقطہ نظر سے متعلق ہوتا ہے، جو وہ تاريخ كے انقلابات اور تحريكوں كي ماہيت كے بارے ميں ركھتا ہے ۔
كسي مكتب كي دعوت كا مطلب لوگوں كو بيدار كرنا اور ان حساس مسائل كو اٹھانا ہے، جن سے لوگوں ميں حركت پيدا ہو مثلا ”اگسٹ كانٹ“ كا مكتب انسانيت جسے وہ ايك طرح كا سائنسي مذہب سمجھتا ہے اور انسان كے جوہر تكامل كو اس كي ذہنيت ميں ديو مالائي فلسفي صورتوں پر مبني دو مرحلوں ميں طے كرتا ہے اور كہتا ہے كہ انسان نے اپني ذہنيت ميں ديومالائي اور فلسفي صورتوں پر مبني دو مرحلوں كو طے كر كے سائنسي مرحلہ تك رسائي حاصل كر لي ہے۔ اب جو بيداري وہ لوگوں ميں پيدا كرنا چاہتا ہے، وہ گويا سائنسي بيداري ہے اور لوگوں كو حركت ميں لانے كے لئے جن حساس مسائل سے كام لينا چاہتا ہے، وہ بھي سائنسي مسائل ہي ہيں ۔
يا ماركسزم جو محنت كش طبقے كي انقلابي تھيوري ہے، جو بيداري ديتي ہے، وہ محنت كشوں كے شعور كو طبقاتى تضاد سے عبارت مسائل كو اٹھاتي ہے، ان كا تعلق رنجشوں، محروميوں اور حق تلفيوں سے ہوتا ہے۔ معاشرے اور تاريخ كے بارے ميں كسي مكتب كا كيا نظريہ ہے؟ اس سے ہٹ كر كہ مكاتب جو بيداري ديتے ہيں اور جن مسائل كو اٹھاتے ہيں، وہ مختلف ہوتے ہيں۔ تاريخ، تكامل تاريخ اور انسان كے بارے ميں جس مكتب فكر كا جو نظريہ ہوگا، اس كي دعوت بھي اسي انداز كي ہوگي اور دعوت كي تاثير، دباؤ اور دعوت كے درميان رابطے اور دباؤ كے اخلاقي يا غير اخلاقي ہونے كي نظريات ميں يہ مكاتب اس اعتبار سے مختلف ہوجاتے ہيں۔
بعض مكاتب جن ميں مسيحيت كا بطور مثال ذكر كرتے ہيں، انسانوں كے رابطے ميں جس چيز كو اخلاقي سمجھتے ہيں، وہ صرف دعوتوں كي پرامن نوعيت ہے، يہ لوگ زور اور دباؤ كو ہر صورت ميں، ہر حالت اور ہر شرط پر غير اخلاقي گردانتے ہيں، لہٰذا اس مذہب كا مقدس كلمہ يہ ہے كہ اگر كوئي تمہارے داہنے گال پر تھپڑ رسيد كرے، تو تم باياں گال بھي اس كے آگے كر دو اور اگر كوئي تمہارا جبہ تم سے چھين لے، تو تم اپني ٹوپي بھي اس كے حوالے كر دو۔ اس كے مقابلے پر ”نطشے“ كي طرح بعض مكاتب جس واحد چيز كو اخلاقي سمجھتے ہيں، وہ دباؤ اور طاقت ہے۔ اس لئے كہ انسان كا كمال اس كي طاقت ميں ہے۔ ايك طاقت ور شخص مقدر ترين شخص كے برابر ہے۔ ”نطشے“ كي نظر ميں عيسائيت كا اخلاق غلامى، ضعف اور ذلالت سے عبارت ہے، نيز انساني جمود كا بنيادي عامل ہے۔
بعض دوسرے انداز فكر كے لوگ بھي اخلاق كو دباؤ اور طاقت سے وابستہ جانتے ہيں، ليكن ہر دباؤ ان كي نظر ميں اخلاق نہيں ہوتا۔ ماركسزم كے نقطہ نظر سے وہ طاقت جو استحصال كرنے والا استحصال ہونے والے كے خلاف استعمال كرتا ہے، غير اخلاقي ہے، چونكہ اس كا عمل موجودہ حالات كو اپني جگہ برقرار ركھتا ہے اور عامل توقف ہے، ليكن وہ زور جسے استحصال ہونے والاكام ميں لاتا ہے، اخلاق ہے كيونكہ وہ اس كے ذريعے، معاشرے ميں تبديلي لا كر اسے اگلي منزل تك پہنچانا چاہتا ہے ۔
بعبارت ديگر معاشرے پر حكم فرما دائمي جنگ جس ميں دو گروہ ايك دوسرے سے نبرد آزما ہيں، ايك ”تھيسز“ كا كردار ادا كر رہا ہے اور دوسرا ”اينٹي تھيسز“ كا، وہ طاقت جو ”تھيسز“ كا كردار ادا كر رہي ہے كيونكہ رجعت پسندہے، لہٰذا غير اخلاقي ہے، جبكہ وہ طاقت جو ”اينٹي تھيسز“ كا كام كرتي ہے كيونكہ انقلابي اور ترقي دينے والي ہے، لہٰذا اخلاقي ہے، البتہ يہي طاقت جو ابھي اخلاقي ہے، بعد ميں جب دوسري طاقت سے جو اسے نابود كرنے والا كردار ادا كرے گى، نبرد آزما ہوگى، تو اس وقت اس كا كردار رجعت پسندانہ ہو جائے گا اور اس كے تازہ رقيب كا كردار اخلاقي ہو جائے گا، لہٰذا اخلاقي نسبي ہے، يعني جو ايك مرحلے ميں اخلاق ہے، اس سے كامل تر اور بلند تر مرحلے ميں خلاف اخلاق ہے۔
پس عيسائيت كے نقطہ نگاہ سے مخالف گروہ جو اس مكتب كي نظر ميں تكامل كي راہ ميں ركاوٹ ہے، سے مكتب كا تعلق صرف ايك رابطہ ہے، رابطہ بھي نرمي اور ملائمت كے ساتھ دعوت كا راستہ ہے اور رابطے كا يہي انداز اخلاقي ہے ۔
نطشے كے مطابق اخلاقي رابطہ صرف وہ رابطہ ہے، جو ايك طاقتور، ضعيف كے ساتھ ركھتا ہے اور طاقت سے زيادہ اخلاق كوئي چيز نہيں اور كمزور ہونا سب سے بڑا غير اخلاقي امر ہے، سب سے بڑا جرم اور سب سے بڑا گناہ كمزوري ہے، ماركسزم كي رو سے اقتصادي نقطہ نظر سے دو مخالف گروہوں كا ايك دوسرے سے رابطہ سوائے زور اور طاقت كے اور كچھ نہيں ہو سكتا۔ طاقت كے اس رابطہ سے استحصال كرنے والے طبقے كي طاقت تكاملي عمل ميں ركاوٹ بننے كي وجہ سے غير اخلاقي اور استحصال شدہ طبقے كي طاقت اخلاقي ہے۔ يہاں يہ بحث ہي نہيں كہ تازہ دم طاقت كا ”ويراني طاقت“ سے رابطہ ايك معركہ بھي ہے اور اخلاقي بھي ہے ۔
اسلام كے نقطہ نظر سے مذكورہ تمام نظريات مذموم ہيں، عيسائيت كے خيال كي طرح اخلاق كو صرف باہمي توافق، دعوت كي نرمى، صلح وصفا اور محبت ميں سميٹا نہيں جا سكتا، بعض اوقات زور اور طاقت بھي اخلاق بن جاتے ہيں، لہٰذا اسلام زور اور ظلم كے خلاف جنگ كو مقدس كام اور فريضہ قرار ديتا ہے اور اسلحے سے جہاد كو خاص حالات اور خاص موقع پر تجويز كرتا ہے ۔
صاف ظاہر ہے كہ نطشے كا نظريہ ايك مہمل، عبث، نغير انساني اور كمال دشمن نظريہ ہے ۔
ماركسزم كا نظريہ اسي ميكانزم پر مبني ہے، جس ميكانزم كو وہ تكامل تاريخ كے بارے ميں ضروري سمجھتا تھا۔ اسلام كي رو سے كمال دشمن گروہ سے طاقت كے ذريعے نمٹنا ماركسزم كے نظريے كے برخلاف پہلا نہيں دوسرا مرحلہ ہے، پہلا مرحلہ حكمت اور موعظہ حسنہ كا ہے۔
(
ادع الي سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنه
)
. (سورہ نحل، آيت۱۲۵)
كمال دشمن گروہ كے خلاف طاقت كے استعمال كا مرحلہ اس دم اخلاقي ہے، جب فكري اقناع (حكمت و برہان) اور روحي اقناع نصيحت اور موعظہ كے مرحلے طے ہوگئے ہوں اور كوئي نتيجہ برآمد نہ ہوا ہو۔
يہي وجہ ہے كہ جو انبياء عليھم السلام جنگوں سے گذرے ہيں، انہوں نے اپني دعوت كے پہلے مرحلے كو حكمت، موعظہ حسنہ اور كبھي كبھار كلامي مجادلہ سے گذارا ہے اور جب اس راہ سے كسي نتيجے پر نہيں پہنچے يا نتيجہ سامنے نہيں آيا، بلكہ ايك نسبي نتيجہ تك رسائي ہوگئى، تو پھر انہوں نے جنگ، جہاد اور طاقت كے استعمال كو اخلاقي جانا۔ بنيادي طور پر چونكہ اسلام مادي نہيں بلكہ معنوي بنيادوں پر سوچتا ہے، اس لئے وہ برہان، استدلال، موعظہ اور نصيحت كے لئے ايك عجيب طاقت كا قائل ہے ۔
جس طرح (بہ تعبير ماركس) اسلحہ كے ذريعے تنقيد ايك طاقت ور چيز ہے، اسي طرح تنقيد كا اسلحہ بھي اپني جگہ ايك طاقت ہے اور اس سے استفادہ كيا جانا چاہيے۔ البتہ اسے واحد ايسي طاقت نہيں سمجھتا جو ہر جگہ استعمال كي جا سكتي ہو، يہ بات كہ اسلام رشد و تكامل سے دشمني كرنے والے گروہ كے ساتھ جنگ كو دوسرا مرحلہ سمجھتا ہے، پہلا نہيں اور برہان، موعظہ اور جدال حسن كو ايك طاقت گردانتا ہے۔ اسلام كي وہ خاص معنوي نگاہ ہے، جو وہ انسان اور اس كے تحت معاشرے اور تاريخ كے بارے ميں ركھتا ہے ۔
پس يہ بات معلوم ہوئي كہ كسي مكتب كا اپنے مخالف محاذ سے رابطہ محض دعوت كي بنياد پر ہو يا محض جنگ كي بنياد پر يا پہلے دعوت اور اس كے بعد جنگ و جدال كي بنياد پر ہو، منطقي اور بياني طاقت كي تاثير اور اس كي حدود كے بارے ميں اس مكتب كي سوچ كو ظاہر كرتا ہے اور اسي طرح تاريخي واقعات اور ان ميں جنگ كے كردار كے بارے ميں اس كے نظريات كو واضح كرتا ہے ۔
اب ہم بحث كے دوسرے حصے ميں آتے ہيں اور ديكھتے ہيں كہ اسلامي بيداري كي نوعيت كيا ہے اور وہ كون سے مسائل ہيں، جن پر زور دے كر اسلام اپني دعوت پيش كرتا ہے ۔
اسلامي بيداري پہلے درجہ ميں مبداء و معاد كے بارے ميں نصيحت كرنے جيسے امور ہيں اور وہ حكمت عملى، جس سے قرآن بھي كام ليتا ہے اور انبياء عليھم السلام ماسبق نے بھي كام ليا ہے۔ انبياء عليھم السلام اس امر ميں انسان كو متوجہ كرنا چاہتے تھے كہ وہ كہاں سے، كہاں پر اور كہاں كے لئے آيا ہے اور كہاں ہے اور كہاں جانے والا ہے؟ يہ دنيا كہاں سے نمودار ہوئي ہے اور كس مرحلے كو طے كر رہي ہے اور اسے كہاں جانا ہے؟ سب سے پہلے انبياء عليھم السلام نے جو ذمہ داري سامنے ركھى، وہ تمام مخلوقات اور كل ہستي كے بارے ميں ذمہ داري تھي اور معاشرتي ذمہ داري اسي كا ايك حصہ ہے۔ ہم پہلے اس بات كي طرف اشارہ كر چكے ہيں كہ ان تمام مكي سورتوں ميں جو جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي بعثت كے ابتدائي ۱۳ سالوں ميں نازل ہوئيں، كم ہي ايسي گفتگو ہوئي ہے، جو مبداء اور معاد كے تذكرہ سے خالي ہو۔
جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپني دعوت كا آغاز ”قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا“ يعني ايك اعتقادي انقلاب اور ايك فكري تطہير سے كہا، يہ ٹھيك ہے كہ توحيد وسيع پہلوؤں كي حامل ہے اور اگر تمام اسلامي تعليمات كا تجزيہ عمل ميں آئے، تو وہ توحيد كي طرف پلٹيں گي اور اگر توحيد كي تركيب كي جائے، تو اسلامي تعليمات پر منتہي ہوگى، (تفسير الميزان سورہ آل عمران كي آخري آيتوں كے ذيل ميں) ليكن ہمين معلوم ہے كہ آغاز كار ميں اس جملے ”قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا“ مقصود نہ فقط شرك آميز عبادات كو چھوڑ كر فكري اور عملي طور پر توحيد سے وابستہ ہونا تھا اور نہ بالفرض اتنا وسيع مقصد پيش نظر تھا كہ لوگوں كا دھيان اس طرف جاتا ۔
يہ مضبوط اور محكم آگاہي جس كي جڑيں انساني فطرت كي گہرائي ميں موجود ہيں، انسانوں ميں عقيدہ سے متعلق ايك طرح كي غيرت اور پختگي پيدا كرتي ہے اور اپنے عقيدے كو پھيلانے اور رواج دينے كا وہ جذبہ بيدار كرتي ہے كہ وہ اس راستے ميں جان و مال اور منصب و اولاد قربان كرنے سے بھي دريغ نہيں كرتا۔ انبياء عليھم السلام اس منزل سے اپنے كام كا آغاز كرتے تھے، جو ہمارے اس دور ميں عمارت كہلاتي ہے، اس ذريعے سے بنياد تك پہنچتے تھے۔ انبياء عليھم السلام كے مذاہب ميں انسان اپنے مفادات سے زيادہ اپنے عقيدے، مسلك اور ايمان سے وابستہ ہوتا ہے۔ در حقيقت اس مكتب ميں فكر اور عقيدہ بنياد اور كام يعني طبيعت اور مظاہر طبيعت يا معاشرے كے ساتھ رابطہ عمارت ہے۔ ہر ديني دعوت كو پيغمبرانہ ہونا چاہيے، يعني اسے دائمي طور پر مبداء اور معاد كے ساتھ ملاہونا چاہيے۔ انبياء عليھم السلام احساس كولوگوں ميں جگا كر ان كے شعور ميں باليدگي پيدا كر كے، ان كے وجدان سے غبار كو ہٹا كر ان ميں ايسي آگاہي پيدا كر كے رضائے حق، فرمان حق اور سزا و جزاء كے ذكر كے ساتھ معاشرے كو حركت ميں لاتے تھے۔ قرآن ميں ۱۳ مقامات پر اللہ كے ”رضوان“ كا ذكر آيا ہے، يعني انبياء عليھم السلام نے اس معنوي مسئلے پر ہاتھ ركھ كر اہل ايمان كو حركت دي۔ اس بيداري كو الٰہي يا عالمي بيداري بھي كہا جا سكتا ہے ۔
دوسرے مرحلے ميں اسلامي تعليمات ميں انسان كے بارے ميں آگاہي كو سامنے ركھا گيا ہے، يعني انسان كو اس كي كرامت ذات، اس كي شرافت ذات اور اس كي عزت و بزرگي ياد دلائي گئي ہے، مكتب اسلام ميں انسان ايك ايسا حيوان نہيں، جس كے وجود كي دليل يہ ہو كہ اس نے كروڑوں سال پہلے جب وہ دوسرے جانداروں كے ہمدوش اور ہمركاب تھا اور اس نے تنازع للبقاء كے دائرہ عمل ميں اس قدر خيانت كي كہ آج اس درجہ تك پہنچا بلكہ ايك ايسي ہستي ہے، جس ميں الٰہي جلوہ موجزن ہے۔ فرشتوں نے اس كے آگے سر جھكايا ہے، اس ہستي كے پيكر وجود ميں باوجود شہوت، شر اور فساد جيسے حيواني ميلانات كے، پاكيزگي كا جوہر موجود ہے، جو بدى، خونريزى، جھوٹ، فساد، پستى، حقارت اور ظلم كے ساتھ ساجھا نہيں كھاتا۔ وہ كبريائي عزت كا مظہر ہے ۔
(
ولله العزة و لرسوله و للمومنين
)
. (سورہ منافقون، آيت۸)
”عزت اللہ، اس كے رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور مومنين كے لئے ہي ہے ۔“
جناب رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا ارشاد ہے:
شرف المومن قيامه بالليل و عزة استغناؤه عن الناس
.
”مرد كي شرافت اس كي شب بيداري اور اس كي عزت لوگوں سے بے نيازي ميں ہے ۔“
حضرت علي عليہ السلام نے صفين ميں اپنے ساتھيوں سے ارشاد فرمايا:
الحيوة في موتكم قاهرين و الموت في حيوتكم مقهورين
”زندگي يہ ہے كہ مر جاؤ مگر كاميابي كے ساتھ اور موت يہ ہے كہ زندہ رہو، مگر ذات كے ساتھ ۔“
امام حسين عليہ السلام ابن علي نے فرمايا:
لا اري الموت الا سعادة والحيوة مع الظالمين الا برما
”ميرے نزديك موت بجز سعادت اور ظالموں كے ساتھ زندگي كو بجز رنج كچھ نہيں ۔“
اور پھر يہ ارشاد فرمايا:
هيات منا الذلة
.
”ذلت ہم سے بہت دور ہے ۔“
يہ سب عبارات انسان كي ذاتي شرافت اور حسن كرامت كو ظاہر كرتي ہيں اور يہ جو ہر فطرتاً ہر انسان ميں موجود ہے ۔
تيسرے مرحلے ميں حقوق اور معاشرتي ذمہ داريوں سے آگاہي ہے، قرآن ميں ايسے مقامات ہمارے سامنے آتے ہيں، جہاں دوسروں كے غصب شدہ حقوق يا پھر اپنے كھوئے ہوئے حقوق كے حصول كے لئے قرآن ہميں حركت ميں لانا چاہتا ہے۔
(
وما لكم لا تقاتلون في سبيل الله والمستضعفين من الرجال و النساء والولدان الذين يقولون ربنا اخرجنا من هذه القرية الظالم اهلها واجعل لنا من لدنك وليا واجعل لنا من لدنك نصيرا
)
. (سورہ نساء، آيت۷۵)
”تمہيں كيا ہوگيا ہے، آخر كيوں تم اللہ كي راہ ميں ان ستم رسيدہ مردوں، عورتوں اور بچوں كے لئے قتال نہيں كرتے، جو كہتے ہيں، اے ہمارے پالنے والے!تو ہميں ان ظالموں كے شر سے باہر اور اپنے لطف و كرم سے ہمارے لئے سرپرست اور ياور كا انتظام فرما دے ۔“
درج ذيل آيہ كريمہ ميں جہاد كي طرف رغبت كے لئے دو معنوي باتوں كا ذكر كيا گيا ہے۔ ايك يہ كہ يہ راستہ اللہ كا راستہ ہے اور دوسرے يہ كہ بے بس، بيچارے اور بے كس لوگ ظالموں كے چنگل ميںپھنس كر رہ گئے ہيں ۔
سورہ حج ميں ارشاد ہوتا ہے:
(
اذن للذين يقاتلون بانهم ظلموا وان الله علي نصرهم لقدير؛ الذين اخرجوا من ديارهم بغير حق الا ان يقولوا ربنا الله ولولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد يذكر فيها اسم الله كثيرا ولينصرن الله من ينصره ان الله لقوي عزيز؛ الذين ان مكناهم في الارض اقاموا الصلوة واتو الزكوة و امروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الامور.
)
(سورہ حج، آيات۳۹ تا ۴۱)
”مومنوں كو بموجب اس كے كہ وہ مظلوم گردانے گئے ہيں، يہ اجازت دي گئي ہے كہ اپنے جنگي دشمن سے برسر پيكار ہيں، خدا مومنوں كي نصرت پر قادر ہے اور يہ مظلوم لوگ وہي ہيں، جنہيں اپنے گھروں سے باہر نكال ديا گيا ہے، جبكہ ان كا كوئي جرم نہيں، سوائے اس كے كہ انہوں نے كہا، اللہ ہمارا رب ہے اور اگر يہ بات نہ ہوتي كہ خدا بعض لوگوں كے شركو بعض ديگر لوگوں كے ذريعے دفع كرتا ہے، تو يہ تمام صومعے، دير، كنشت اور مسجديں منہدم ہو جاتيں، جن ميں كثرت سے اللہ كا ذكر كيا جاتا ہے۔ خدا ان لوگوں كي مدد كرتا ہے، جو اسے ياد كرتے ہيں۔ بے شك خدا غالب توانا ہے اور يہ وہ لوگ ہيں كہ اگر ہم انہيں زمين ميں اقتدار عطا كريں تو يہ نماز كو قائم كريں گے، زكوٰۃ ديں گے، بھلائي كا حكم ديں گے، برائي سے باز رہيں گے اور تمام كاموں كو اختتام تك پہنچانا اللہ ہي كا كام ہے ۔“
اس آيت ميں ہم ديكھتے ہيں كہ قرآن مجاہدين كے غصب شدہ حقوق كي طرف اشارہ كركے جہاد اور دفاع كي اجازت ديتا ہے، ليكن اس كے ساتھ وہ دفاع كے اصلي فلسفے كو بعض افراد كے غصب شدہ حقوق سے برتر، بہتر اور اصولي تر قرار ديتا ہے اور وہ يہ كہ اگر دفاع اور جہاد كا عمل نہ ہو اور اگر اہل ايمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بيٹھے رہيں، تو معابد و مساجد جو معاشرے كي معنوي حيات كا دھڑكتا ہوا دل ہيں، كو نقصان پہنچے گا اور وہ ويران ہوجائيں گي۔ سورہ نساء ميں ارشاد ہوتا ہے:
(
لا يحب الله الجهر بالسوء من القول الامن ظلم
)
. (سورہ نساء، آيت۱۴۸)
”خداوند عالم بري بات كے اظہار كو پسند نہيں كرتا، مگر مظلوم سے ۔“
ظاہر ہے يہ مظلوم كے قيام كي ايك طرح سے تشويق، سورہ شعراء ميں شعراء اور ان كے تصوراتي احساسات كي مذمت كے بعد ارشاد ہوتا ہے:
(
الا الذين آمنوا و عملوا الصالحات و ذكروا الله كثيرا وانتصروا من بعد ما ظلموا.
)
(سورہ شعراء، آيت۲۲۷)
”مگر وہ لوگ جو ايمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال انجام ديئے اور اللہ كا ذكر كثرت سے كيا اور بعد اس كے كہ مظلوم واقع ہوئے، ظالم سے انتقام ليں ۔“
ليكن قرآن اور سنت رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں باوجود اس كے كہ ظالم كے بوجھ تلے دبنا بدترين گناہ اور احقاق حق ايك فريضہ ہے، پھر بھي انساني پہلو اور انساني قدروں كو اس سے الگ نہيں كيا گيا، قرآن كبھي كبھي نفسياتي قدروں، عداتوں اور نفساني خواہشوں كو وزن نہيں ديتا، مثلاً ہر گز يہ نہيں كہتا كہ فلاں گروہ نے اس طرح كھايا پيا ، بانٹ كر لے گئے، جي بھر كر عيش كيا، پھر تم كيوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بيٹھتے ہو ۔
اگر كسي كا سرمايہ اس سے زبردستي چھيننے كي كوشش كي جائے، تو اسلام اس كي اجازت نہيں ديتا كہ اس بہانے كي بنياد پر كہ ماديت كي كوئي اہميت نہيں، صاحب مال سكوت كر جائے، بالكل اسي طرح جس طرح اس بات كي اجازت نہيں كہ اگر كسي كي عزت پر حملہ ہو، تو متعلقہ شخص يہ كہہ كر خاموش ہوجائے يہ تو شہوت كي بات ہے، بلكہ اس امر ميں دفاع كو ضروري گردانتا ہے اور ”المقتول دون اھل و مالہ“ (يعني جو اپنے مال يا ناموس كي حفاظت كرتے ہوئے مارا جائے، اسے شہيد جانا ہے، ليكن اسلام نے جو اپنے مال كے بارے ميں دفاع سے متعلق امر كي حوصلہ افزائي كي ہے، اس ميں كسي حرص كو بنياد نہيں بنايا، بلكہ حق كے دفاع كي بات ہے، جو اپنے جگہ وزن ركھتي ہے، اسي طرح وہاں بھي جہاں اپني عزت و ناموس كا دفاع واجب گردانتا ہے، اس لئے نہيں كہ شہوت كو اہميت دي گئي ہے، بلكہ يہاں بھي معاشرے كي عظيم ترين آبرو يعني عفت كو پيش نظر ركھا گيا ہے اور مرد كو اس كا محافظ قرار ديا گيا ہے۔
۲۔ عنوان مكتب
ہر مكتب اپنے پيروكاروں كو ايك خاص عنوان ديتا ہے، وہ نظريہ جو مثلاً ايك نسلي نظريہ ہے ، اپنے پيروكاروں كو ايك نام ديتا ہے، جس كے اعتبار سے وہ ايك خاص”ہم“بن جاتے ہيں۔ بطور مثال گورے ہيں، اس وقت جب اس مكتب كے پيروكار لفظ ”ہم“ استعمال كرتے ہيں، تو مراد گوروں كا گروہ ہوتا ہے يا مثلاً ماركسي نظريہ جو مزدوروں سے متعلق ہے، اپنے پيروكاروں كو ”مزدور“ كا عنوان ديتا ہے۔ ان كي ہويت اور ان كو مشخص كرنے والي چيز ”مزدوري“ ہے، ان كا ”ہم“ مزدور كا ”ہم“ ہے۔ محنت كشوں اور مزدوروں كا ہم، عيسائي مذہب اپنے پيروكاروں كي ہويت كو ايك فرد كي پيروي ميں مشخص كرتا ہے۔ گويا پيروكاروں كا مقصد يا راستے سے كوئي سروكار نہيں، ان كي اجتماعي ہويت يہ ہے كہ جہاں عيسي عليہ السلام ہيں وہاں وہ ہيں۔ اسلام كي ايك خصوصيت ہے كہ اس نے نسلى، طبقاتى، مشاغلاتى، مقامى، علاقائي اور شخصي عناوين ميں سے كسي كو اپنے مكتب اور اس كے پيروكاروں كي شناخت كے لئے قبول نہيں كيا۔ اس مكتب كے پيروكار، اعراب، سامى، فقراء، اغنياء، مستضعف، گورے، كالے، ايشيائى، مشرقى، مغربى، محمدى، قرآن اور اہل قبلہ جيسے عناوين سے نہيں پہچانے جاتے۔ ان عناوين ميں كوئي بھي ”ہم“ اور وحدت كا معيار نہيں بنتا۔ يہ سب چيزيں اس مكتب كے پيروكار كي حقيقي ہويت ميں شمار نہيں ہوتيں۔ جب اس مكتب كي ہويت كي بات آتي ہے، تو پھر يہ تمام عناوين محو ہوجاتے ہيں۔ بس ايك چيز باقي رہ جاتي ہے، بھلا وہ كيا ہے؟ صرف ايك ”رابطہ“ خدا اور انسان كے درميان رابطہ، يعني اسلام جو منزل تسليم ہے۔ مسلمان قوم كون سي قوم ہے؟ وہ قوم ہے، جو خدا كے آگے تسليم ہے، حقيقت كے سامنے تسليم ہے، وحي و الہام كے سامنے تسليم ہے، وہ وحي جو افق حقيقت سے انسان كي رہنمائي كے لئے لائق ترين افراد كے قلب سے طلوع ہوئي ہے، تو پھر مسلمانوں كا ”ہم“ اور ان كي حقيقي ہويت كيا ہے؟ يہ دين ان كو كس قسم كي وحدت دينا چاہتا ہے۔ ان پر كون سي مہر لگانا چاہتا ہے اور كس پرچم تلے اكٹھا كرنا چاہتا ہے؟ اس كا جواب يہ مختصر سا جملہ ہے:اسلام، يعني حقيقت كے حضور سر تسليم خم كرنا ۔
ہر مكتب اپنے پيروكاروں كے لئے وحدت كے جس معيار كو پيش كرتا ہے، بس وہي اس مكتب كے اہداف اور انسان، معاشرے اور تاريخ كے بارے ميں اس كے نكتہ نظر كو سمجھنے كا بہترين ذريعہ ہے۔
۳۔ شرائط و موانع قبوليت
ہم پہلے عرض كر چكے ہيں كہ حركت تاريخ كا ميكانزم مختلف مكاتب كي نظر ميں مختلف رہا ہے۔ كوئي حركت كے طبيعي ميكانزم كو ايك طبقہ كے دوسرے طبقہ پر دباؤ، ايك طبقہ كے بالذات رجعت پسندہونے اور دوسرے طبقے كے بالذات انقلابي ہونے كو سمجھتا ہے، كوئي اصلي ميكانزم كو ايك انسان كي ترقي خواہانہ اور كمال جو يا نہ پاكيزہ فطرت ميں ديكھتا ہے اور اسي طرح كوئي كچھ اور كوئي كچھ اور۔ظاہر ہے كہ حركت سے متعلق ميكانزم جو مكتب جس انداز كا ميكانزم سمجھتا ہے، اسي انداز سے وہ ان شرائط، موجبات يا موانع اور ركاوٹوں كي وضاحت كرتا ہے، جو اس كي تعليمات ميں موجود ہوتي ہيں۔ وہ مكتب جس كے نزديك حركت سے متعلق ميكانزم ايك طبقہ كا دوسرے طبقہ پر دباؤ ہے، معاشرے كو حركت ميں لانے اور اس كے جمود كو توڑنے كے لئے اگر دباؤ ميں كمي محسوس كرتا ہے، تو اسے بڑھانے كي كوشش كرتا ہے۔ ماركس نے اپني بعض كتب ميں اس امر كي طرف توجہ دلائي ہے كہ”آزادي سے ہمكنار طبقہ كے لئے غلام طبقہ كا وجود ضروري ہے“۔ اس جائزے كے اختتام پر وہ لكھتا ہے:
”پس جرمن قوم كي آزادي كا امكان كہاں؟ “ جواب ميں ہم عرض كريں گے كہ ايك ايسے طبقے كي تشكيل كي جائے، جو مكمل طور پر زنجيروں ميں جكڑا ہوا ہو۔ اس انداز فكر كا حامل مكتب ”اصلاحات“ كو مانع قرار ديتا ہے، چونكہ اصلاحات دباؤ ميں كمي پيدا كرتي ہيں اور دباؤ ميں كمي انقلاب كو روكتي ہے يا كم سے كم اس ميں تاخير پيدا كرتي ہے۔ اس مكتب كے برخلاف جو معاشرے كي ذاتي اور فطري حركت كا قائل ہے، يہ مكتب ہرگز كسي طبقہ كے لئے بيڑياں بنوانے كا فتويٰ صادر نہيں كرتا۔ اس لئے كہ وہ دباؤ كو رشد و تكامل كي لازم شرائط نہيں سمجھتا۔ اسي طرح تدريجي اصلاحات اس كي نظر ميں پيش رفت كي مانع نہيں، اسلام ميں شرائط اور موانع بيشتر يا پھر ہميشہ فطرت كے گرد چكر لگاتے ہيں۔ قرآن كبھي اصلي اور قديمي پاكيزگي پر باقي رہنے كو بعنوان شرط پيش كرتا ہے: ”(
هدي للمتقين
)
“ (سورہ بقرہ، آيت۲) اور كبھي نظام ہستي كے مقابل ذمہ داري اور مسئوليت كے تصور سے پيدا ہونے والے خوف اور دغدغہ كو ”يخشون ربھم بالغيب“ يا ”من خشي الرحمن بالغيب“ كہہ كر عنوان شرط بناتا ہے (سورہ طہٰ، آيت۳) اور كبھي فطرت كے زندہ ہونے اور زندہ رہنے كو بعنوان شرط گنواتا ہے: ”لتنذر من كان حيا
“
اسلام دعوت كي قبوليت كي شرط كو پاكيزگي خلقت سے متعلق احساس ذمہ داري اور فطري حيات كے ساتھ جينے كو قرار ديتا ہے۔ اس كے مقابلے پر موانع ميں وہ اخلاقي اور نفسياتي برائيوں، اثم قلب،
چشم بصيرت كے نابينا ہوجانے
، بڑے لوگوں كي پيروي
كتاب نفس ميں تحريف ہونے
باپ دادا كي عادتوں كي پيروي
بڑے لوگوں كي پيروي
ظن كي پيروي
اور ان جيسے امور كا نام ليتا ہے۔ اسراف اور حرص و آذر كو بھي اس اعتبار سے مانع جانتا ہے كہ يہ چيزيں حيواني صفات كو انسان ميں تقويت دے كر اسے وحشي اور درندہ بنا ديتي ہيں۔ يہ تمام امور قرآن كي نظر ميں خير و صلاح اور تكامل كے لئے معاشرے و انقلاب كي راہ ميں ركاوٹ ڈالتے ہيں ۔
اسلامي تعليمات كي رو سے نوجوان، بوڑھوں سے اور فقراء، امراء كي نسبت تسليم كے حوالے سے زيادہ آمادگي ركھتے ہيں۔ اس كي وجہ پہلے گروہ ميں عمر كي كمي ہے، جس كے سبب ان كي فطرت نفساني آلودگيوں سے ابھي دور ہوتي ہے اور دوسرے گروہ ميں مال اور آسائشوں كا فقدان ہوتا ہے ۔
اس طرح كي شرائط اور اس انداز كے موانع اس بات كي تائيد كرتے ہيں كہ قرآن معاشرتي اور تاريخي انقلابات كے ميكانزم كو مادي اور معاشي ہونے سے زيادہ باطني اور روحاني سمجھتا ہے ۔
۴۔ معاشروں كا عروج اور انحطاط
ہر اجتماعي مكتب علي القاعدہ معاشروں كي ترقي اور بلندي نيز ان كے انحطاط و تنزل كے بارے ميں اپنا ايك نظريہ ركھتا ہے۔ رہي يہ بات كہ وہ كن چيزوں كو اس سلسلے ميں ترقي يا پھر انحطاط كا اصلي اور بنيادي عامل سمجھتا ہے، تو اس كا تعلق اس رخ سے ہے كہ جس رخ سے وہ معاشرے، تاريخ، تكاملي تحريكات اور انحطاطي خطوط كو ديكھتا ہے ۔
قرآن ميں بطور خاص قصص و حكايات بيان كرتے ہوئے، اس موضوع پر توجہ دي گئي ہے، اب ہم ديكھتے ہيں كہ قرآن آج كي اصطلاح ميں بنياد كے حق ميں نظريہ پيش كرتا ہے يا عمارت كے حق ميں؟ زيادہ صحيح اور زيادہ بہتر تعبير ميں يوں كہہ ليجئے كہ قرآن كن كن چيزوں كو اساس اور كن كن چيزوں كو اس پر قائم عمارت جانتا ہے؟ وہ اقتصادي اور مادہ مسائل كو بنيادي عامل گردانتا ہے يا اعتقادي اور اخلاقي مسائل كو؟ يا پھر كسي كو افضليت نہيں ديتا اور دونوں اس كي نظر ميں برابر ہيں؟
الف) انصاف اور بے انصافى
قرآن نے بہت سے آيتوں ميں اس كا تذكرہ كيا ہے، ان ميں سورہ قصص كي وہ چوتھي آيت بھي ہے، جس كا پہلے ہم ”استضعاف كي آيت“ ميں ذكر كر چكے ہيں:
(
ان فرعون علافي الارض وجعل اهلها شيعاً يستضعف طائفة منهم يذبح ابنائهم ويستحيي نسائهم انه كان من المفسدين
)
اس آيہ كريمہ ميں فرعون كي اس برتري كے گھمنڈ كا تذكرہ كرنے كے بعد جس ميں وہ ربوبيت اعليٰ كا دعويدار تھا اور دوسروں كو اپنا زر خريد غلام سمجھتا تھا، ذكر ہوتا ہے كہ وہ مختلف حيلوں بہانوں سے لوگوں ميں تفرقہ ڈال كر ان كے درميان بے جا امتيازات پيدا كر ديتا تھا، اس طرح انہيں ايك دوسرے كے مقابل لا كھڑا كرتا تھا، اپنے ملك كے باشندوں كے ايك خاص گروہ كو ذليل كرنے ميں كوئي كسر اٹھا نہيں ركھتا تھا۔ ان كے لڑكوں كو قتل كروا ديتا تھا اور ان كي لڑكيوں كو اپني اور اپنے حاميوں كي خدمت كے لئے چھوڑ ديا كرتا تھا۔ قرآن اسے ايك مفسد اور تباہ گر كے عنوان سے ياد كرتا ہے۔ صاف ظاہر ہے كہ ”(
انه كان من المفسدين
)
“ كا جملہ اس بات كي طرف اشارہ ہے كہ اس طرح كے اجتماعي مظالم معاشرے كو اُلٹ پلٹ كر ركھ ديتے ہيں ۔
ب) اتحاد اور تفرقہ
سورہ آل عمران كي آيت۱۰۳ ميں بڑي وضاحت سے يہ حكم موجود ہے كہ سب اہل ايمان، ايمان كي بنياد پر اللہ كي رسي كو متحد اور متفق ہو كر تھاميں اور تفرقہ پيدا نہ كريں۔ پھر ايك آيت چھوڑ كر ارشاد ہوتا ہے:
”اپنے پچھلوں كي طرح نہ ہوجانا، جنہوں نے اختلاف اور تفرقہ ميں زندگي بسر كي ۔“
سورہ انعام كي آيت۱۵۳ بھي اسي سے ملتي جلتي ہے ۔
سورہ انعام آيت ۴۵ميں ارشاد ہوتا ہے:
(
قل هو القادر علي ان يبعث عليكم عذاباً من فوقكم او من تحت ارجلكم او يلبسكم شيعاً و يذيق بعضكم باس بعض)
.
”كہہ دو (اے رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) ! خدا اس بات پر قادر ہے كہ وہ تمہارے اوپر يا پيروں تلے سے عذاب جاري كر دے يا تمہيں تفريق و افتراق كا جامہ پہنائے اور بعض لوگوں كي بد رفتاري كا مزہ بعض دوسرے لوگوں كو چكھائے ۔“
سورہ انفال كي۴۶ ويں آيت ميں ارشاد ہوتا ہے:
(
ولا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ريحكم.
)
”ايك دوسرے كے ساتھ نہ جھگڑو كہ آپس كے اندروني جھگڑے كمزوري پيدا كرتے ہيں اور يہ كمزوري تمہيں برباد كر دے گي ۔“
ج) امر بالمعروف اور نہي عن المنكر كا اجراء ياانصراف
قرآن نے امر بالمعروف اور نہي عن المنكر كي ضرورت كے بارے ميں جو كچھ كہا ہے، اس ميں سے ايك آيت سے صريحاً يہ استنباط ہوتا ہے كہ اس عظيم فريضہ سے انصراف قوموں كو ہلاكت اور ان كے انہدام ميں موثر ثابت ہوتا ہے، يہ سورہ مائدہ كي
ويں آيت ہے، جس ميں وہ بني اسرائيل كے كافروں كي رحمت خدا سے دوري كا ايك سبب يہ بھي ذكر كرتا ہے كہ انہوں نے ايك دوسرے كو منكرات سے نہيں روكا يعني نہي عن المنكر سے بے توجہي برتى:
(
كانوا لا يتناهون عن منكر فعلوه لبئس ما كانو يفعلون
)
”يہ لوگ ايك دوسرے كو منكرات كے ارتكاب سے نہيں روكتے تھے اور يہ كتنا غلط كام تھا، جو وہ كرتے تھے ۔“
معتبر اسلامي روايات ميں امر بالمعروف اور نہي عن المنكر كے مثبت اور منفي كردار كے بارے ميں بہت كچھ كہا گيا ہے، ان سب كو يہاں نقل كرنا ہمارے بس كي بات نہيں ۔
د) فسق وفجور اور اخلاقي برائياں
اس سلسلے ميں بھي بہت سي آيات ہيں۔ كچھ آيتيں تو وہي ہيں، جو ”ترف“ اور ”مترف“ ہونے كو ہلاكت كا سبب گردانتي ہيں
اور بہت سي آيات ہيں جن ميں لفظ ”ظلم“ استعمال ہوا ہے۔ قرآن كي اصطلاح ميں ظلم صرف كسي فرد يا گروہ كا دوسرے فرد يا گروہ كے كسي حق پر جارحيت كا نام نہيں ہے بلكہ كوئي شخص خود اپنے اوپر بھي ظلم كر سكتا ہے، كوئي قوم خود اپنے نفس پر ظالم ہو سكتي ہے، ہر فسق و فجور اور ہر بے راہ روي ظلم ہے۔ قرآن ميں ظلم كا تذكرہ عام مفہوم ميں ہے، جس ميں دوسروں پر ظلم كي بات بھي آجاتي ہے اور فسق و فجور اور غير اخلاقي امور بھي آتے ہيں۔ تاہم زيادہ تر اس كا استعمال دوسرے مفہوم ميں ہوا ہے۔ وہ آيتيں جن ميں ظلم اپنے عام مفہوم ميں قوموں كي ہلاكت كا باعث قرار ديا گيا ہے، بہت زيادہ ہيں اور ہماري مختصر كتاب ان كے بيان سے قاصر ہے ۔
ان تمام معياروں كو سامنے ركھ كر معاشرے اور تاريخ كي بنيادوں كے بارے ميں قرآن كے نقطہ نظر كو سمجھا جاسكتا ہے۔ قرآن بہت سے امور كے بارے ميں جنہيں آج كي اصطلاح ميں عمارت كہا جاتا ہے، كے حتمى، قطعي اور تقدير ساز كردار كا قائل ہے ۔
____________________